بھارتی جرنیل نے ثابت کر دیا کہ سردار جی پھر سردار جی ہی ہوتے ہیں چاہے وہ امرتسر میں ٹاٹا ٹرک چلا رہے ہوں یا پھر ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشن بن کر کالے کیمروں کے سامنے سفید جھوٹ بول رہے ہوں، لیفٹننٹ جنرل رنبیر سنگھ کی اس نیوز کانفرنس کو اعلان کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے جس میں سردار جی نے کسی کو سوال کی اجازت دینے سے پہلے ہی یہ کہہ کر کرسی خالی کر دی کہ ہم نے پاکستان پر سرجیکل اسٹرائیک کیا ہے اور گھس بیٹھ کرنے والوں کا لانچنگ پیڈ تباہ کر دیا ہے۔
’’آپ کیا کہتے ہیں پاکستان نے بھارت کی سرجیکل اسٹرائیک کو ایک دم ڈرامہ قرار دے کر ماننے سے انکار کر دیا ہے، ویسے اسے ماننا بھی نہیں چاہیے، مان لیتا تو اپنی جنتا کو کیسے سنبھالے گا جو پیٹ کاٹ کاٹ کر پھوج کا کھرچہ اٹھا رہی ہے؟‘‘
’’بالکل ٹھیک کہا، میں آپ کی بات سے پورا پورا سہمت ہوں، پاکستان نے دو فوجیوں کی ہلاکت بھی مان لی ہے تو بڑی بات ہے سمجھیے کہ تعداد کہیں زیادہ ہے۔‘‘
اسی طرح کے مناظر دیگر نیوز چینلز کی اسکرینوں کے بھی تھے لیکن آہستہ آہستہ گرد بیٹھنا شروع ہوئی، سیاہ چہروں کے گلال اترنے لگے، منہ میں ٹھسے لڈو اگلی صبح ریل کی پٹڑیوں پر بدبوکی صورت پڑے دکھائی دیے، سرکتے ہوئے جوش کی جگہ ہوش نے لی تو سوال اٹھنے لگے
’’بھیا! کوئی سرجیکل اسٹرائیک ہوا تھا تو کسی مسلے فوجی کا سر ہی کاٹ لائے ہوتے۔‘‘
’’اور کچھ نہیں تو سالے پاکستانی پھوجی کی وردی سے اس کے نام کا بیج نوچ لایا ہوتا۔‘‘
’’پردھان منتری جی !سرجیکل اسٹرائیک کیا ہے تو کوئی ثبوت تو ہوگا، آجکل گوگل کا دور ہے، اوپر سیٹلائٹ کھڑے ہیں، کوئی فوٹو شوٹو ہی دکھاؤ، ہم بھی دیکھیں ہمارے فوجی کیسے مار کرتے ہیں؟‘‘
ادھر پاکستان لائن آف کنٹرول پر عالمی میڈیا کو جمع کرکے لے جاتا ہے کہ یہ وہ جگہیں ہیں جہاں بھارت نے گھسنے کا دعویٰ کیا ہے، دفاعی معاملات اور میدان جنگ کی رپورٹنگ کرنے والے پیشہ ور صحافی ہر ہر زاویے سے بھارتی فوجیوں کے ’’کھرے‘‘ تلاش کرکے کے تھک گئے لیکن کچھ ہوتا تو ملتا۔
اس کلپ کے بعد اب اسکرین پر کانگریس لیڈرسنجے نیروم پام دکھائی دیتے ہیں اور کہتے ہیں،
’’جو بھی سرجیکل اسٹرائیک کا دعویٰ سرکار کر رہی ہے وہ صحیح ہے یا غلط، مجھے نہیں لگتا کہ میرے حساب سے تو جعلی لگ رہا ہے اور وہ تب تک جعلی لگے گا جب تک بھارتی سرکار اپنی طرف سے ثبوت نہیں دے دیتی‘‘۔
اب اسی پروگرام میں تیسرا کلپ دکھائی دیتا ہے اور یہ بھارت کے یونین منسٹر روی شنکر پرساد ہیں، وہ سوال اٹھاتے ہیں’’بھارت کو اس سرجیکل اسٹرائیک کا ثبوت دینا چاہیے، کئی ودیشی اخبار اور پاکستان اس پر سوال اٹھا رہا ہے‘‘۔
’’سرجیکل اسٹرائیک پر ثبوت مانگنے والوں کو آج رکھشا منتری نے کرارا جواب دیا ہے‘‘ بھارتی میڈیا کی خرمستیاں دیکھتے ہوئے یہ سن کر تو لمحہ بھر کے لیے سیلانی بھی چونک گیا کہ آخر یہ کرارا جواب کیا ہے اور پھر جب وہ کرارا جواب سامنے آیا توسیلانی کے منہ سے بےاختیار نکلا دھت تیرے کی۔
نیوز کاسٹر کے مطابق منوہر پاریکر کا کرارا جواب یہ تھا کہ بھارتی سینا نے سو فیصد سرجیکل اسٹرائیک کیا ہے، لیکن ہمیں کسی کو ثبوت دینے کی ضرورت نہیں ہے اور پھر ٹیلی ویژن کی اسکرین پر منوہر پاریکر سامنے آگئے، وہ کسی تقریب، کسی جلسے میں تھے، اسٹیج پر اپنے چاہنے والوں کے درمیان کھڑے تھے، سر پر پہنا ہوا تاج بتا رہا تھا کہ ان کی ابھی ابھی تاج پوشی ہوئی ہے، ہاتھ میں لمبی سے تلوار بھی دکھائی دی رہی تھی، سرجیکل اسٹرائیک کرنے کی خوشی میں انہیں کسی تقریب میں بلا کر تاج پوشی کی گئی اور انہیں ماہر شمشیر زن مانتے ہوئے تلوار بھی پیش کر دی گئی، یہ تحائف قبول کرنے کے بعد منوہر جی کے حوالے ڈائس اور مائک کر دیا گیا تاکہ وہ کرارا جواب دے سکیں اور وہ کہنے لگے
’’ابھی تک بھارتی سینا کے شورئت میں اوپر کسی نے شنکاوے اکت نہیں کی تھی، کولے بار دیکھ رہا تھا کہ تھوڑے لوگ ڈرتے ڈرتے شنکا وے اکت کر رہے تھے۔ بھارت سرکار کو وڈیو جاری کرنے کا، پروف دینے کا کچھ معنے بچا ہی نہیں‘‘۔ نیوز کاسٹر کے مطابق منوہر پاریکر کا کہنا تھا کہ سرجیکل اسٹرائیک والی رات وہ سو نہیں سکے اور رات بھرجاگتے رہے تھے۔
اب ایک اور منظر دیکھیں، یہ دہلی کے وزیر اعلی ہیں، سفید بےداغ لباس میں ملبوس کسی تقریب میں پہنچے ہیں ارے ارے ، ان پر تو کسی نے سیاہی الٹ دی، ان کا منہ کالا کرنے کی کوشش کی ہے، بھارتیہ جنتا پارٹی کے خلاف بیان دینے اور سرجیکل اسٹرائیک کے ثبوت مانگنے پر ان کا منہ کالا کرنے کی کوشش تو مکمل طور پر کامیاب نہ ہو سکی، البتہ ان کے چہرے پر سیاہی کے چھینٹیں سوال پوچھنے کا نشان ضرور چھوڑ گئیں۔
اب کچھ منظر اور دیکھ لیں، یہ سرسبز گھنا جنگل ہے، دوربین کی آنکھ دور سے کچھ ہیولے حرکت کرتی دکھا رہی ہے، یہ لباس سے فوجی لگتے ہیں، ان کے ہاتھوں میں پکڑی رائفلیں اور لباس بتا رہا ہے کہ یہ فوجی ہی ہیں، یہ قطار بنا کر کہیں گشت کر رہے ہیں اور اسی گشت کے دوران دھائیں سے ایک گولی چلتی ہے اور آگے چلنے والا اچھل کر اوندھے منہ گرتا ہے۔ اسے کہتے ہیں تاک کے مارنا۔
ملزم: میں نے قتل کیا ہے۔
جج: لاش کہاں ہے؟
ملزم: وہ میں نے جلا دی۔
جج: وہ جگہ دکھاؤ جہاں لاش جلائی ہے؟
ملزم: وہ ساری زمین تو میں نے کھود دی۔
جج: کھودی ہوئی مٹی کہاں ہے؟
ملزم:اس کی میں نے اینٹیں بنا لی تھیں۔
جج:اینٹیں کہاں ہیں؟
ملزم:اس نے تو مکان بنا لیا تھا۔
جج: مکان کہاں ہے؟
ملزم: زلزلے میں گر گیا۔
جج: ملبہ تو ہوگا ناں؟
ملزم: وہ میں نے بیچ دیا۔
جج: کس کو بیچا؟
ملزم: پڑوسی کو۔
جج: اچھا اسے بلاؤ۔
ملزم: وہ مارا گیا۔
جج: کس نے مارا؟
ملزم: میں نے ہی تو مارا ہے۔
جج: پھر لاش کہاں ہے؟
ملزم: وہ میں نے جلادی۔
جج: ابے الو کے پٹھے تو نے قتل کیا ہے یا سرجیکل اسٹرائیک، قتل بھی قبول کر رہا ہے اور ثبوت بھی نہیں دے رہا۔‘‘
بس مان لیجیے ثبوت نہ مانگیے - احسان کوہاٹی

تبصرہ لکھیے