ہوم << بس مان لیجیے ثبوت نہ مانگیے - احسان کوہاٹی

بس مان لیجیے ثبوت نہ مانگیے - احسان کوہاٹی

بھارتی جرنیل نے ثابت کر دیا کہ سردار جی پھر سردار جی ہی ہوتے ہیں چاہے وہ امرتسر میں ٹاٹا ٹرک چلا رہے ہوں یا پھر ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشن بن کر کالے کیمروں کے سامنے سفید جھوٹ بول رہے ہوں، لیفٹننٹ جنرل رنبیر سنگھ کی اس نیوز کانفرنس کو اعلان کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے جس میں سردار جی نے کسی کو سوال کی اجازت دینے سے پہلے ہی یہ کہہ کر کرسی خالی کر دی کہ ہم نے پاکستان پر سرجیکل اسٹرائیک کیا ہے اور گھس بیٹھ کرنے والوں کا لانچنگ پیڈ تباہ کر دیا ہے۔
ranbir-singh-pti-l رنبیر سنگھ کے اس اعلان پر بھارتیوں نے مندروں کی گھنٹیاں بجا دیں، شدت پسند بھارتی چہرے پر گلال مل کر ترنگا ہاتھ میں لیے فاتحانہ نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں پر آگئے، ممبئی سے لے کر احمد آباد، راجھستان سے لے کر ہریانہ تک بھارتیوں کے پژمردہ چہرے کھل اٹھے، یہ منظر سیلانی نے بھی دیکھے اور شاید آپ نے بھی سوشل میڈیا پر دیکھے ہوں جب انتہا پسند بھارتی چہروں پر رنگ ملتے ہوئے ایک دوسرے کے منہ میں لڈو ٹھونس رہے تھے، سڑکوں پر ناچ رہے تھے کہ پاکستان کو سبق سکھا دیا، بھارتی میڈیا کے کلیجے میں بھی ٹھنڈ سی پڑ گئی، گلے کی رگیں پھاڑ پھاڑ کر چلانے والے نیوز چینلز کے اینکرز کی خوشی بھی دیدنی تھی کہ ان کی محنت رنگ لے آئی، بھارت کے ہر نیوز چینل کی ایک ہی ہیڈ لائن تھی، ہر اخبار کی ایک ہی شہ سرخی تھی اور ایسا بھارتی ایٹمی دھماکوں کے بعد پہلی بار دیکھنے میں آیا تھا۔ سیلانی کی یاداشت میں وہ منظر اب بھی محفوظ ہے جب بھارت نے ایٹمی دھماکوں کا اعلان کرکے اپنے مسلز دکھائے تھے، تب بھی بھارت میں ایسی ہی شادی مرگ کی کیفیت تھی، ترشول بردار دیوانہ وار سڑکوں پر نکل کر ناچے تھے، حلوائیوں کی دکانوں پر مٹھائیاں ختم ہو گئی تھیں، اس روز بھی ایسی ہی دیوانگی تھی جسے چاغی کے رنگ بدلتے پہاڑ نے کافور کر دیا، بھارت کی جانب سے مسلز دکھائے جانے کے بعد پاکستان نے بھی آستینیں چڑھا کر اپنے مسلز دکھا دیے تھے، پاکستان کے جوابی ایٹمی دھماکوں نے بھارتیوں کی خوشی سے نقطے چھین لیے تھے۔ ویسا ہی منظر سیلانی کا لیپ ٹاپ آج پھر بھارت میں دکھا رہا تھا، پہلے تو بھارتی خوشی سے ناچ ناچ کر نہ تھکے کہ ان کے لیے اس سے بڑی خبر کیا ہو سکتی تھی کہ ان کی فوجی پاکستان میں جا گھسیں اور صحیح سلامت واپس آجائیں، اس کرشمے پر انہیں اچھلناہی چاہیے تھا، مندر میں ناریل پھوڑنے چاہیے تھے، ٹن ٹن ٹنا ٹن گھنٹے بھی بجانے چاہیے تھے اور وہ ایسا ہی کر رہے تھے، یہ پہلا منظر ہے جو سیلانی نے آپ تک پہنچایا ہے۔
default اب یہ دوسرا منظر دیکھیے، پاکستان نے بھارت کی اس ’’شرارت‘‘ کو بالکل جھوٹ قرار دے ڈالا البتہ تسلیم کیا کہ بھارتی فوجوں نے کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر اندھا دھند فائرنگ کرکے دو جوان شہید اور متعدد کو زخمی کر دیا ہے، بھارت نے پاکستان کے اس اعتراف کو بڑی کامیابی قرار دیا، ڈھول تاشوں کے ساتھ خوب بارات گھمائی، سیلانی بس ایک نیوزچینل’’آج تک نیوز‘‘ کی اسکرین کا منظر آپ کے سامنے لا رہا ہے، یہ کوئی پرائم ٹائم پروگرام تھا جس میں ایک جانب ایک دیش بھگت بھارتی ریٹائرڈ بریگیڈئیر تھے تو دوسری جانب ایک نیتا جی بیچ میں باچھیں پھیلائے میزبان اپنی خوشی پرقابو پاتے ہوئے کہہ رہے تھے۔
’’آپ کیا کہتے ہیں پاکستان نے بھارت کی سرجیکل اسٹرائیک کو ایک دم ڈرامہ قرار دے کر ماننے سے انکار کر دیا ہے، ویسے اسے ماننا بھی نہیں چاہیے، مان لیتا تو اپنی جنتا کو کیسے سنبھالے گا جو پیٹ کاٹ کاٹ کر پھوج کا کھرچہ اٹھا رہی ہے؟‘‘
’’بالکل ٹھیک کہا، میں آپ کی بات سے پورا پورا سہمت ہوں، پاکستان نے دو فوجیوں کی ہلاکت بھی مان لی ہے تو بڑی بات ہے سمجھیے کہ تعداد کہیں زیادہ ہے۔‘‘
اسی طرح کے مناظر دیگر نیوز چینلز کی اسکرینوں کے بھی تھے لیکن آہستہ آہستہ گرد بیٹھنا شروع ہوئی، سیاہ چہروں کے گلال اترنے لگے، منہ میں ٹھسے لڈو اگلی صبح ریل کی پٹڑیوں پر بدبوکی صورت پڑے دکھائی دیے، سرکتے ہوئے جوش کی جگہ ہوش نے لی تو سوال اٹھنے لگے
’’بھیا! کوئی سرجیکل اسٹرائیک ہوا تھا تو کسی مسلے فوجی کا سر ہی کاٹ لائے ہوتے۔‘‘
’’اور کچھ نہیں تو سالے پاکستانی پھوجی کی وردی سے اس کے نام کا بیج نوچ لایا ہوتا۔‘‘
’’پردھان منتری جی !سرجیکل اسٹرائیک کیا ہے تو کوئی ثبوت تو ہوگا، آجکل گوگل کا دور ہے، اوپر سیٹلائٹ کھڑے ہیں، کوئی فوٹو شوٹو ہی دکھاؤ، ہم بھی دیکھیں ہمارے فوجی کیسے مار کرتے ہیں؟‘‘
ادھر پاکستان لائن آف کنٹرول پر عالمی میڈیا کو جمع کرکے لے جاتا ہے کہ یہ وہ جگہیں ہیں جہاں بھارت نے گھسنے کا دعویٰ کیا ہے، دفاعی معاملات اور میدان جنگ کی رپورٹنگ کرنے والے پیشہ ور صحافی ہر ہر زاویے سے بھارتی فوجیوں کے ’’کھرے‘‘ تلاش کرکے کے تھک گئے لیکن کچھ ہوتا تو ملتا۔
delhi-cm-aap-arvind-kejriwal اب آپ کو سیلانی پھر واہگہ پار لیے چلتا ہے، یہاں اب خوشی کی جگہ بے چینی نے لے لی ہے، جنتا کہہ رہی ہے کہ وہ بیٹا تو ہماری گود میں ڈالو جس کی مٹھائی کھائی اور کھلائی ہے۔ یہ دیکھیے یہ منظر بھارت کے مشہور انگلش نیوز چینل انڈیا ٹوڈے کے پرائم ٹائم پروگرام کا ہے، اس میں عام آدمی پارٹی کے نیتا جی اور دہلی کے وزیر اعلی ارویند کجریوال کہتے ہیں’’پچھلے دو تین دن سے دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان انتراشتپ پترکاروں کو لے لے کر بارڈر پر جا رہے ہیں اور یہ دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ دیکھو سرجیکل اسٹرایک تو ہو ہی نہیں رہے، دو دن پہلے یونائیٹڈ نیشنز نے بیان دیا ہے کہ اس طرح کی بارڈر پر کوئی حرکت نہیں دیکھی گئی‘‘۔
اس کلپ کے بعد اب اسکرین پر کانگریس لیڈرسنجے نیروم پام دکھائی دیتے ہیں اور کہتے ہیں،
’’جو بھی سرجیکل اسٹرائیک کا دعویٰ سرکار کر رہی ہے وہ صحیح ہے یا غلط، مجھے نہیں لگتا کہ میرے حساب سے تو جعلی لگ رہا ہے اور وہ تب تک جعلی لگے گا جب تک بھارتی سرکار اپنی طرف سے ثبوت نہیں دے دیتی‘‘۔
اب اسی پروگرام میں تیسرا کلپ دکھائی دیتا ہے اور یہ بھارت کے یونین منسٹر روی شنکر پرساد ہیں، وہ سوال اٹھاتے ہیں’’بھارت کو اس سرجیکل اسٹرائیک کا ثبوت دینا چاہیے، کئی ودیشی اخبار اور پاکستان اس پر سوال اٹھا رہا ہے‘‘۔
hqdefault ان سوالوں کے جواب میں بھارت کے رکھشا منتری (وزیر دفاع) نے کیا جواب دیا جسے زی ٹی وی کے چرب زبان نیوز کاسٹر نے کرارا جواب دے کر چائے کی پیالی میں طوفان اٹھا دیا، موصو ف کہہ رہے تھے،
’’سرجیکل اسٹرائیک پر ثبوت مانگنے والوں کو آج رکھشا منتری نے کرارا جواب دیا ہے‘‘ بھارتی میڈیا کی خرمستیاں دیکھتے ہوئے یہ سن کر تو لمحہ بھر کے لیے سیلانی بھی چونک گیا کہ آخر یہ کرارا جواب کیا ہے اور پھر جب وہ کرارا جواب سامنے آیا توسیلانی کے منہ سے بےاختیار نکلا دھت تیرے کی۔
نیوز کاسٹر کے مطابق منوہر پاریکر کا کرارا جواب یہ تھا کہ بھارتی سینا نے سو فیصد سرجیکل اسٹرائیک کیا ہے، لیکن ہمیں کسی کو ثبوت دینے کی ضرورت نہیں ہے اور پھر ٹیلی ویژن کی اسکرین پر منوہر پاریکر سامنے آگئے، وہ کسی تقریب، کسی جلسے میں تھے، اسٹیج پر اپنے چاہنے والوں کے درمیان کھڑے تھے، سر پر پہنا ہوا تاج بتا رہا تھا کہ ان کی ابھی ابھی تاج پوشی ہوئی ہے، ہاتھ میں لمبی سے تلوار بھی دکھائی دی رہی تھی، سرجیکل اسٹرائیک کرنے کی خوشی میں انہیں کسی تقریب میں بلا کر تاج پوشی کی گئی اور انہیں ماہر شمشیر زن مانتے ہوئے تلوار بھی پیش کر دی گئی، یہ تحائف قبول کرنے کے بعد منوہر جی کے حوالے ڈائس اور مائک کر دیا گیا تاکہ وہ کرارا جواب دے سکیں اور وہ کہنے لگے
’’ابھی تک بھارتی سینا کے شورئت میں اوپر کسی نے شنکاوے اکت نہیں کی تھی، کولے بار دیکھ رہا تھا کہ تھوڑے لوگ ڈرتے ڈرتے شنکا وے اکت کر رہے تھے۔ بھارت سرکار کو وڈیو جاری کرنے کا، پروف دینے کا کچھ معنے بچا ہی نہیں‘‘۔ نیوز کاسٹر کے مطابق منوہر پاریکر کا کہنا تھا کہ سرجیکل اسٹرائیک والی رات وہ سو نہیں سکے اور رات بھرجاگتے رہے تھے۔
اب ایک اور منظر دیکھیں، یہ دہلی کے وزیر اعلی ہیں، سفید بےداغ لباس میں ملبوس کسی تقریب میں پہنچے ہیں ارے ارے ، ان پر تو کسی نے سیاہی الٹ دی، ان کا منہ کالا کرنے کی کوشش کی ہے، بھارتیہ جنتا پارٹی کے خلاف بیان دینے اور سرجیکل اسٹرائیک کے ثبوت مانگنے پر ان کا منہ کالا کرنے کی کوشش تو مکمل طور پر کامیاب نہ ہو سکی، البتہ ان کے چہرے پر سیاہی کے چھینٹیں سوال پوچھنے کا نشان ضرور چھوڑ گئیں۔
اب کچھ منظر اور دیکھ لیں، یہ سرسبز گھنا جنگل ہے، دوربین کی آنکھ دور سے کچھ ہیولے حرکت کرتی دکھا رہی ہے، یہ لباس سے فوجی لگتے ہیں، ان کے ہاتھوں میں پکڑی رائفلیں اور لباس بتا رہا ہے کہ یہ فوجی ہی ہیں، یہ قطار بنا کر کہیں گشت کر رہے ہیں اور اسی گشت کے دوران دھائیں سے ایک گولی چلتی ہے اور آگے چلنے والا اچھل کر اوندھے منہ گرتا ہے۔ اسے کہتے ہیں تاک کے مارنا۔
surgical-strike-l یہ دوسرا منظر دیکھیں، یہ ایک مضبوط بنکر ہے، پہاڑی پتھروں کا بنا ہوا مضبوط بنکر جس میں لائن آف کنٹرول پر خوف و دہشت کی علامت بنے بھارتی فوجی موجود ہیں، صبح صبح کا وقت ہے، ایک فوجی بنکر سے باہر نکلتا ہے، دھائیں گولی چلتی ہے اور وہ کٹے شہتیر کی طرح نیچے آگرتا ہے۔ اس طرح کے درجن بھر ثبوت سوشل میڈیا پر بھی موجود ہیں اور پاکستان کے نیوز چینلز بھی دکھا چکے ہیں اور بتا چکے ہیں کہ پاکستان کے نشانے باز دنیا کے بہترین نشانے بازوں میں سے ہیں، اور سرحد پار سے اچانک اندھا دھند فائرنگ کرکے دو فوجیوں کو شہید کرکے پچاس کا دعویٰ کرنے والو، ثبوت ایسے ہوتے ہیں۔ اچھا اب ایک لطیفہ سنتے جائیے،
news-1460896743-4423_large جج: قتل کس نے کیا؟
ملزم: میں نے قتل کیا ہے۔
جج: لاش کہاں ہے؟
ملزم: وہ میں نے جلا دی۔
جج: وہ جگہ دکھاؤ جہاں لاش جلائی ہے؟
ملزم: وہ ساری زمین تو میں نے کھود دی۔
جج: کھودی ہوئی مٹی کہاں ہے؟
ملزم:اس کی میں نے اینٹیں بنا لی تھیں۔
جج:اینٹیں کہاں ہیں؟
ملزم:اس نے تو مکان بنا لیا تھا۔
جج: مکان کہاں ہے؟
ملزم: زلزلے میں گر گیا۔
جج: ملبہ تو ہوگا ناں؟
ملزم: وہ میں نے بیچ دیا۔
جج: کس کو بیچا؟
ملزم: پڑوسی کو۔
جج: اچھا اسے بلاؤ۔
ملزم: وہ مارا گیا۔
جج: کس نے مارا؟
ملزم: میں نے ہی تو مارا ہے۔
جج: پھر لاش کہاں ہے؟
ملزم: وہ میں نے جلادی۔
جج: ابے الو کے پٹھے تو نے قتل کیا ہے یا سرجیکل اسٹرائیک، قتل بھی قبول کر رہا ہے اور ثبوت بھی نہیں دے رہا۔‘‘
800x480_image54031803 لیکن امت اخبار کے سینئر ساتھی ندیم محمود کو مقبوضہ کشمیر کے رکن پارلیمنٹ انجینئر عبدالرشید نے بتایا ہے کہ بھارت اب لیپا سیکٹر میں سرجیکل اسٹرائیک کی فلمبندی کر رہا ہے، علاقے میں کرفیو لگا دیا گیا ہے، ہیلی کاپٹر بھی پرواز کر رہے ہیں اور انہیں ان کے ذرائع بتا رہے ہیں کہ اب ایک شارٹ اسٹوری آنے والی ہے۔ ایسا ہوا بھی تو بھارت اس سوال کا جواب کیا دے گا کہ اتنا واضح اور اہم ثبوت رنبیر سنگھ نے اپنی نیوز کانفرنس میں سامنے رکھ کر پاکستان کا منہ بند اور بھارتی جنتا کا خوشی سے کیوں نہیں کھولا کہ لڈو بھی آرام سے ٹھونسے جا تے۔ کسی نے سچ کہا ہے جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے، بھارت جھوٹ اور مکر و فریب کے ہیلی کاپٹر اڑا کر اور خواہشوں کے توپیں دم کرنے کے بجائے سچائی تسلیم کر لے کہ کشمیر ی اس کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے، نو برس کے بچے سے لے کر نوے برس کے بزرگ تک اس سے نفرت کرتے ہیں، بھارت کشمیر کو قبرستان بنا سکتا ہے لیکن کشمیریوں کے دلوں میں ہندوستان آباد نہیں کر سکتا۔ یہ سچ کڑوا ہے مگر ہے سچ، روز طلوع ہونے والے سورج کی طرح۔ سیلانی یہ سوچتے ہوئے ہنسی ضبط کر کے سرجیکل اسٹرائیک کے ثبوت مانگنے پر رات بھر جگ رتا کاٹنے کی کہانی سنانے والے بھارتی وزیردفاع منوہر پاریکر کو تلوار ہاتھ میں پکڑے دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔

Comments

Click here to post a comment