Blog

  • خوشگوارزندگی سےخوفناک علیحدگی تک – جمال عبداللہ عثمان

    خوشگوارزندگی سےخوفناک علیحدگی تک – جمال عبداللہ عثمان

    جمال عبداللہ عثمان ’’ک ک‘‘ کی شادی اپنے تایا زاد سے ہوئی۔ جس وقت ’’ک ک‘‘ کی شادی ہو رہی تھی، وہ پانچ جماعتیں پڑھی تھیں۔ شادی کے بعد شوہر نے انہیں گھر پر بارھویں جماعت تک پڑھایا۔ اللہ نے تین بچوں کی نعمت سے بھی نوازا، لیکن ان کی زندگی میں تلاطم آگیا۔ شوہر کا رویہ یکدم بدلنے لگا۔ ہر وقت مارنے پیٹنے لگا۔ ایک دن ’’ک ک‘‘ نے تنگ آ کر ان سے طلاق مانگی۔ شوہر نے غصے میں آ کر تین بار ’’طلاق‘‘ کہہ ڈالی۔ ’’ک ک‘‘ کا کہنا ہے کہ ہمارے درمیان فساد کھڑا کرنے والا ہمارا قریبی رشتہ دار تھا۔ اس نے عملیات کے ذریعے ہمارے درمیان تفریق کر ڈالی، جبکہ اس کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ شاید شوہر کو اپنی بیوی سے متعلق کچھ شبہات پیدا ہوگئے تھے۔ اس نے اس سلسلے میں اپنی بیوی سے بات کرنا مناسب نہ سمجھی اور دل ہی دل میں کڑھتا رہا اور یہی کڑھن طلاق کا سبب بنی۔ خوشگوار زندگی سے خوفناک علیحدگی تک کی دردناک تفصیل ملاحظہ کیجیے۔
    ٭
    ’’آپ اپنا نام اور ابتدائی زندگی کے بارے میں کچھ بتائیں گی؟‘‘
    ’’میرا نام ’’ک ک‘‘ ہے۔ تاریخ پیدائش 1975ء ہے۔ میرے والد اپنا چھوٹا موٹا کاروبار کرتے تھے۔ دو بھائی اور تین بہنیں ہیں۔ دونوں بھائیوں کی شادیاں ہوچکی ہیں، جبکہ بہنیں بھی اپنے گھروں میں خوشحال زندگی گزار رہی ہیں۔ میں نے پانچویں جماعت تک پڑھا تھا۔ پھر میرے والد کا انتقال ہوگیا۔ ہم لوگ اپنے تایا کے گھر میں رہے۔ مجھے پڑھنے کا زیادہ شوق بھی نہیں تھا اور والدہ نے کبھی توجہ نہیں دی، اس لیے اس وقت پانچ جماعتوں سے زیادہ نہیں پڑھ سکی۔ بارھویں جماعت تک شادی کے بعد پڑھا۔ وہ بھی میرے سابق شوہر کی کوششوں سے ممکن ہوسکا۔‘‘

    ’’آپ کی شادی کہاں اور کن کے ساتھ ہوئی؟‘‘
    ’’جیسا کہ میں نے بتایا جس وقت میں پانچویں جماعت میں پڑھ رہی تھی، میرے والد کا انتقال ہوگیا۔ میرے تایا کا ایک ہی بیٹا تھا۔ تائی کا انتقال پہلے ہی ہوگیا تھا۔ اس لیے تایا کو سہارے کی ضرورت تھی، لہٰذا وہ ہمیں اپنے گھر لے آئے۔ اللہ انہیں خوش رکھے، انہوں نے اپنے بچوں کی طرح ہمیں رکھا۔ اس وقت میرے بڑے بھائی کی عمر تقریباً 20 سال تھی۔ میرے تایا نے دو سال بعد ان کے لیے باہر کا انتظام کیا۔ جب ہمارے بھائی باہر گئے، حالات کافی بہتر ہوگئے۔
    میرے تایا نے اس وقت کہا تھا کہ میں اپنے بیٹے کی شادی اس کے ساتھ کراؤں گا۔ جن کے ساتھ میری نسبت ہوئی، وہ بہت ذہین تھے۔ جب انہوں نے ماسٹر مکمل کیا، میرے چچا نے اس کی شادی سے متعلق میری امی کو یاد دہانی کرائی۔ امی نے انہیں کہا: ’’آپ کے ہمارے اوپر بےپناہ احسانات ہیں۔ میں بیٹی کے رشتے کا انکار نہیں کرسکتی، لیکن بات یہ ہے کہ لڑکا پڑھا لکھا ہے اور میری بیٹی صرف پانچ جماعتیں پڑھی ہیں۔ کل کو ایسا نہ ہو، ان دونوں کا گزارا نہ ہوسکے۔‘‘ میرے تایا نے اپنے بیٹے سے مشورہ کیا۔ اس نے رشتے پر رضامندی کا اظہار کیا۔ اس طرح میری شادی ان کے ساتھ ہوگئی۔‘‘

    ’’آپ کی عمر اس وقت کتنی تھی؟‘‘
    ’’میں اس وقت تقریباً 19 سال کی تھی، جبکہ تایا کا لڑکا مجھ سے چار سال بڑا تھا۔‘‘

    ’’آپ کے ہاں پہلا تنازع کب شروع ہوا؟‘‘
    ’’ہماری شادی تقریباً 11 سال تک چلی۔ اس دوران مجھے یاد نہیں پڑتا کہ ہمارے درمیان کبھی ایسی تلخ کلامی ہوئی ہو جسے یاد رکھا جاسکے۔ مجھے زندگی کی تمام سہولیات میسر تھیں، بلکہ میں اپنی زندگی پر رشک کرتی تھی۔ میری سہیلیاں بھی آتیں تو وہ بھی میری خوش قسمتی پر حیران ہوجاتیں۔ میرے شوہر نے مجھے دنیا کی ہر نعمت دی۔ یہاں تک کہ جب میری شادی ہوئی، میرے شوہر نے مجھے کہا کہ تمہیں مزید پڑھنا چاہیے۔ میں نے انکار کیا کہ میرے لیے اب پڑھنا ممکن نہیں، مگر وہ میرے لیے گھر پر کتابیں لائے اور خود پڑھانا شروع کر دیا۔ وہ کئی کئی گھنٹے مجھے پڑھاتے اور چند مہینوں میں ایک اسکول سے آٹھویں کا امتحان بھی پاس کرا لیا۔ مجھے مزید پڑھنے کا شوق ہوا تو اس وقت ان کی مصروفیات زیادہ ہوگئی تھیں۔ میں نے محلے میں ایک خاتون سے بات کی، وہ میرے پاس آنے لگیں اور اس طرح میں نے چند سالوں میں 12 جماعتیں پرائیویٹ پاس کرلیں۔ اس عرصے میں اللہ نے مجھے دو بیٹوں اور ایک بیٹی سے بھی نوازا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ میری زندگی ہر لحاظ سے قابل رشک تھی۔‘‘

    ’’پھر کیا ایسی بات ہوئی جس کی وجہ سے آپ کے درمیان علیحدگی ہوئی؟‘‘
    ’’دراصل انہی دنوں ہمارا ایک رشتہ دار ملازمت کے لیے کراچی آ گیا۔ وہ پہلے سے شادی شدہ تھا۔ اس کے دوبچے بھی تھے۔ وہ مالی طور پر کافی کمزور تھا۔ میرے شوہر نے اس کے ساتھ احسان کا معاملہ کیا۔ ہمارے گھر میں تین کمرے تھے۔ اسے کہا کہ کرائے پر کوارٹر لینے کی ضرورت نہیں، ایک کمرہ آپ استعمال کریں۔ میرے شوہر نے رشتہ دار کو جو کمرہ دیا، وہ بطورِ بیٹھک استعمال ہوتا تھا۔ اس کا دروازہ بھی باہر گلی کی طرف تھا، مگر ایک دروازہ گھر کی طرف بھی کھلتا تھا۔ وہ ہمارا رشتہ دار تھا۔ گاؤں میں بھی ہمارے گھر آنا جانا ہوتا تھا۔ یہاں بھی ایسے ہی آزادانہ آتا جاتا۔ جب کھانے کا وقت ہوتا، کھانے کے لیے آجاتا۔ وہ بظاہر اچھا تھا۔ میرا بہت احترام کرتا۔ میرے شوہر نے بھی مجھے کہہ رکھا تھا کہ انہیں کسی قسم کی تکلیف نہیں ہونی چاہیے۔ یہ ہمارے مہمان ہیں، لیکن ہمیں کیا معلوم تھا کہ یہ ہمارے لیے تباہی کا پیغام لے کر آ رہا ہے۔‘‘

    آپ ذرا وضاحت کریں گی کس طرح؟‘‘
    ’’دراصل اس کے آنے کے بعد میرے شوہر کے رویے میں تبدیلی آنا شروع ہوئی اور کچھ عرصے بعد وہ ایسا بدلے جس کا تصور میرے لیے مشکل تھا۔ ان کے ساتھ میرے تقریباً 10 سال گزر چکے تھے۔ کبھی انہوں نے تیز آواز میں میرے ساتھ بات نہیں کی تھی، لیکن اب وہ ایسے بدلے کہ ڈانٹ ڈپٹ ان کی عادت بن گئی۔ صبح دفتر جاتے، تب بھی کوئی نہ کوئی بہانہ ڈھونڈتے۔ شام کو آفس سے آتے تب بھی کوئی بہانہ تیار ہوتا۔‘‘

    ’’انہیں آپ کے حوالے سے کوئی غلط فہمی تو نہیں ہوگئی تھی؟‘‘
    ’’مجھے خود سمجھ نہیں آرہی تھی کہ انہیں کیا ہوگیا ہے؟ اس رویے کے نتیجے میں میرا بھی دل اُچاٹ ہوگیا تھا، مگر میں ان کے احسانات یاد کرتی تو میرا دل ان کے لیے نرم پڑجاتا۔ ایک دن جب میں بہت پریشان ہوئی، میں نے اپنی پڑوس کی ایک خاتون سے ان کے رویے کا تذکرہ کیا۔ میری پڑوسن نے بتایا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ کے شوہر پر کسی نے ”کچھ“ کر لیا ہو۔ میں ان چیزوں پر زیادہ یقین نہیں رکھتی تھی، لیکن جب انسان پریشان ہوتا ہے، وہ ایسی ہر بات پر یقین کرلیتا ہے۔ ایک دن صبح سویرے میرے شوہر نے ڈانٹ ڈپٹ کے بعد مجھے مارا پیٹا۔ میں بہت روئی۔ میرا برا حال ہونے لگا۔ دوپہر کے وقت ہمارا رشتہ دار آیا۔ اس نے میری سرخ آنکھیں دیکھیں تو وجہ پوچھنے لگا۔ میں پریشان تھی۔ میں اپنے دل کا حال کسی کو بتانا چاہتی تھی۔ لہٰذا اس کے سامنے اپنے دُکھ رکھ دیے۔ پھر میں نے اسے پڑوسی خاتون کی بات بتائی۔ ہمارے رشتہ دار نے کہا آپ پریشان نہ ہوں، میرا ایک عامل دوست ہے، میں اس سے آپ کے لیے ایسا تعویذ لاکر دوں گا کہ آپ کے شوہر کا رویہ پہلے جیسا ہوجائے گا، بلکہ اس سے بھی زیادہ بہتر ہوجائے گا۔‘‘

    ’’کبھی آپ نے شوہر کے بدلتے رویے پر ان کے ساتھ کوئی بات کی؟‘‘
    ’’میں نے ایک دو بار بات کرنے کی کوشش کی، مگر مجھے خود سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ انہیں کیا ہوگیا ہے؟ میں نے ان سے کئی بار کہا کہ آپ مجھے میرا قصور بتادیں۔ اگر مجھ میں کوئی کمی ہے، میں اسے دور کرنے کی کوشش کروں گی۔ وہ ہر بار یہی کہتے کہ تم اپنا کردار ٹھیک کرو۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ وہ کیا چاہتے تھے اور اگر کچھ چاہتے تھے تو اس کا کھل کر اظہار کیوں نہیں کیا؟ جب بہت سوچا، پھر ذہن میں آیا کہ شاید میرے شوہر کو کچھ غلط فہمی ہوگئی ہے۔ اس لیے ہمارے گھر میں جو رشتہ دار رہتا تھا، میں نے ایک دن اس سے درخواست کی کہ وہ یہاں سے کہیں اور چلا جائے۔ جب اس سے بات کی، وہ خاصا پریشان ہوا، مگر بالآخر بوریا بستر اُٹھا کر قریب میں کہیں اور کوارٹر کرائے پر لے لیا۔ میں نے شکر ادا کیا کہ شاید اب میرے شوہر کا رویہ کچھ بہتر ہوجائے، لیکن تب بھی کوئی فرق نہیں پڑا۔‘‘

    ’’آپ کے رشتے دار تب بھی آپ کے گھر آتے جاتے رہے یا بالکل ہی رشتہ ناتا توڑ دیا؟‘‘
    ’’جی! وہ آتا تھا، خصوصاً جب میرے شوہر گھر پر نہیں ہوتے تھے۔ اگرچہ مجھے اس کا آنا اچھا نہیں لگتا تھا، مگر میں کیا کرتی۔ یہاں اور کوئی میرا نہیں تھا۔ جب وہ آتا، میں اس کے سامنے اپنا دُکھ بیان کرتی۔ اس طرح میں سمجھتی تھی کوئی تو ہے جو میرا دکھ درد سن رہا ہے۔ ایک دن وہ آیا تو بڑا خوش تھا۔ کہنے لگا کہ تمہارے لیے ایسے تعویذ لے کر آ رہا ہوں کہ تمہارا شوہر تمہارا غلام بن جائے۔ میں بھی بڑی خوش ہوئی اور اس سے تعویذ لے کر اس کی ہدایات کے مطابق رکھ لیے۔‘‘

    ’’تعویذ کے بعد ان کا رویہ ٹھیک ہوگیا؟‘‘
    ’’اس دن جب وہ شام کو آ رہے تھے، میں بڑی خوش تھی۔ میرے ذہن میں تھا کہ تعویذ نے اپنا اثر دکھایا ہوگا، لیکن اس دن وہ پہلے سے بھی زیادہ بھڑکے ہوئے تھے۔ مجھے مزید حیرت اس وقت ہوئی جب چند دن بعد وہ ایسے ہوگئے جیسے میں نے کوئی بہت بڑا جرم کیا ہو۔ وہ میری شکل دیکھتے ہی آگ بگولا ہوجاتے۔ گالیاں دیتے، اگر میں کوئی بات کرتی، مجھ پر تشدد کرنے لگ جاتے۔ میں اتنی پریشان ہوئی جس کی انتہا نہیں۔ ایک دن میں بہت اُداس تھی۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ہمارا وہ رشتہ دار آگیا۔ میں نے اسے تازہ حالات بتائے۔ کہنے لگا: ’’تم کیوں اپنی زندگی برباد کر رہی ہو؟ اس سے سیدھی سیدھی بات کرو۔ اسے بولو کہ تم نے مجھے خریدا نہیں ہے۔ اگر نہیں رکھ سکتے تو طلاق دے دو۔ آپ دیکھیں گی وہ یقیناً بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہوگا۔“
    میں بے وقوف تھی، اس کی باتوں میں آگئی۔ شام کو میرے شوہر گھر آئے۔ حسبِ معمول غصے سے بپھرے ہوئے تھے۔ میں کھانا رکھ رہی تھی۔ انہوں نے گالیاں دینا شروع کردیں۔ میں خاموش رہی۔ ان کا پارہ مزید چڑھنے لگا۔ جب میں تنگ ہوگئی، میں نے انہیں کہا: ’’اگر آپ مجھ سے تنگ ہوگئے ہیں تو مجھے طلاق کیوں نہیں دیتے؟‘‘ وہ غصے میں تھے، مگر میرے منہ سے یہ الفاظ سن کر میرا منہ دیکھنے لگے۔‘‘

    ’’کیا آپ کو یقین تھا کہ آپ کے شوہر اس پر عملدرآمد نہیں کریں گے؟‘‘
    ’’جی! میں یہی سمجھ رہی تھی کہ یہ محض انہیں چپ کرانے کا ایک ہتھیار ہے جس میں مجھے کامیابی ملی۔ اب انہوں نے جب بھی مجھے گالیاں دیں، میں نے انہیں یہی کہا ’’اگر نہیں رکھ سکتے تو طلاق دے دو۔‘‘ اور وہ خاموش ہوجاتے، میرا منہ تکنے لگ جاتے۔ ایک دن اسی طرح وہ آفس سے آئے۔ میں کھانا لگارہی تھی، انہوں نے حسبِ عادت گالیوں کی بوچھاڑ کردی۔ جب وہ آخری حد تک چلے گئے اور میری پٹائی شروع کردی، میں نے ایک بار پھر وہی بات دُہرائی، لیکن اب شاید وہ ذہنی طورپر اس کے لیے تیار ہوچکے تھے۔ میں نے انہیں کہا: ’’اگر آپ مجھے نہیں رکھ سکتے، مجھے طلاق کیوں نہیں دیتے؟‘‘ انہوں نے کہا: ’’طلاق دے دوں؟‘‘ میں نے کہا: ’’ہاں طلاق دے دو۔‘‘ انہوں نے پھر پوچھا، میں نے پھر اپنی بات دُہرائی۔ میں نے تیسری بار وہی بات کہی۔ انہوں نے تین بار وہ لفظ دُہرایا جس سے میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھاگیا۔ شاید انہیں بھی اندازہ ہوگیا تھا، اس لیے وہ گھر سے نکل گئے۔ میں اپنا سر پیٹ رہی ہوں اور بچے مجھ دیکھ کر رو رہے ہیں۔ میں ساری رات روتی رہی، وہ نہیں آئے۔ اگلی صبح ہوئی، تب بھی نہیں آئے۔ دوپہر کے وقت ہمارا وہ رشتہ دار آیا۔ اس نے مجھے تسلی دی اور ایک ایسی بات کہہ دی جس نے میرے تن بدن میں آگ لگادی۔ اس نے کہا تم پریشان نہ ہونا، میں تمہارے ساتھ شادی کرنے کو تیار ہوں۔ اس وقت میرا غم کی شدت سے سینہ پھٹ رہا تھا۔ میں نے اسے گالیاں دے کر گھر سے نکالا۔‘‘

    ’’مختصراً بتادیں کہ وہ رشتہ دار کہاں گیا اور آپ کے سابق شوہر کا کیا بنا؟‘‘
    ’’میں نے گاؤں میں اپنے بھائیوں کو فون کیا، انہیں مختصر طور پر یہ خوفناک داستان سنائی۔ ایک بھائی فوری کراچی آئے۔ میں نے شروع سے آخر تک ساری صورتِ حال ان کے سامنے رکھی۔ میں نے انہیں رشتہ دار کا بھی بتایا۔ تعویذ کا بھی ذکر کیا۔ میرے بھائیوں نے مجھ سے وہ تعویذ منگوائے اور کسی عامل کے پاس لے گئے۔ جب ان تعویذوں کی جانچ پڑتال ہوئی، پتا چلا سارا فساد اسی شخص نے کھڑا کیا ہے۔ اسی نے ہمارے درمیان تفریق پیدا کی ہے۔ میرا بھائی اس کی تلاش میں نکلا۔ انہوں نے قسم کھائی تھی، میں اسے زندہ نہیں چھوڑوں گا۔ اس رشتے دار کو جب معلوم ہوا، وہ فرار ہوگیا۔ آج کئی سال ہوچکے ہیں، اس کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ وہ کہاں ہے؟ میرے سابق شوہر نے بعد میں مکان میرے نام کرایا۔ وہ گاؤں چلے گئے۔ ذہنی اذیتوں سے گزرتے رہے اور اب سنا ہے کہ ذہنی مریض بن گئے ہیں۔ بہکی بہکی باتیں کرنے لگے ہیں۔ آج مجھے کسی چیز کی کمی نہیں۔ بھائیوں کی طرف سے مکمل سپورٹ ہے۔ اپنا مکان کرائے پر دے رکھا ہے، لیکن جب اپنا وہ وقت یاد کرتی ہوں، دل بہت اُداس ہوجاتا ہے۔ سوچتی ہوں کاش! میں ایسا نہ کرتی۔ اب اس اُمید پر جی رہی ہوں کہ بچوں کا اچھا مستقبل دیکھ سکوں۔‘‘

  • خدا، ملٹی ورس، سائنس اور الحاد – ارمغان احمد

    خدا، ملٹی ورس، سائنس اور الحاد – ارمغان احمد

    میری زندگی کی اہم ترین تحاریر میں سے ایک تحریر اور شاید آپ کی زندگی میں بھی ہو۔ اس تحریر کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ نے کم از کم میٹرک تک سائنس پڑھی ہو ورنہ شاید یہ مضمون آپ سمجھ نہ پائیں۔ دوسری عرض یہ ہے کہ اس تحریر میں کچھ بھی نیا نہیں ہے، یہ سب چیزیں دنیا میں ڈسکس ہو رہی ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ زیادہ تر انگریزی میں ڈسکس ہو رہی ہیں۔
    اور آخری عرض شو آف کی غرض سے نہیں کی جا رہی بلکہ ماڈرن شکوک سے بھرپور ذہن کی تسلی کے لیے کی جا رہی ہے کہ میں ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوا، مسلمان بھی ہوں مگر آپ ہی جیسا عام سا اور گناہگار سا مسلمان، جو بہت سی کوتاہیاں کرتا ہے، نماز میں بھی سستی کرتا ہے، موقع ملے تو جمعہ پڑھ لیتا ہے۔ زندگی میں کبھی کسی مدرسے میں گیا نہ کسی مذہبی جماعت سے وابستہ رہا، نہ کبھی کسی سلسلے میں بیعت ہوا، ایک زمانے میں خدا کے حوالے سے شکوک کا بھی شکار رہا لیکن کبھی ملحد یا اگناسٹک ہونے کا دعوی نہیں کیا۔ پاکستان کی ایک ایسی یونیورسٹی سے انجینئرنگ کی جو کیو ایس رینکنگ کے مطابق پاکستان کی ٹاپ یونیورسٹی ہے، اس وقت یورپ کی ایک ٹاپ یونیورسٹی میں انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی کر رہا ہوں، گوروں کے ہی سکالرشپ پر۔ پورے ایک ماہ بعد میرا فائنل ڈیفنس ہے، داڑھی بھی نہیں رکھی زندگی میں کبھی، زیادہ تر اپنے کیمپس میں شارٹ اور ٹی شرٹ میں دیکھا جا سکتا ہوں۔ کسی بھی قسم کی انتہا پسند، متشدد یا دہشتگرد تنظیم سے کبھی تعلق رہا ہے نہ ہمدردی بلکہ بساط بھر ہمیشہ ان کی مذمت اور انکار ہی کیا ہے۔ فرقہ واریت سے بھی کوسوں دور ہوں۔ غرض یہ کہ سو فیصد مادی قسم کا عام سا مسلمان ہوں۔

    معذرت اس طولانی تمہید کے لیے مگر یہ ضروری تھی تاکہ میرا قاری آگاہ ہو سکے کہ یہ بات کرنے والا شخص کون ہے۔ اب آ جائیں بات پر۔ آپ نے سنا ہوگا ایٹم کے بارے میں؟ اس میں الیکٹران ہوتے ہیں، پروٹان ہوتے ہیں۔ الیکٹران کا ایک خاص میس (کمیت) ہوتی ہے، اس پر ایک خاص چارج ہوتا ہے، دنیا کا ہر میٹر (مادہ) انہی الیکٹرانز اور پروٹانز سے مل کے بنا ہے۔ اسی طرح کائنات میں گریویٹیشنل کانسٹنٹ ہوتا ہے جسے کیپیٹل جی سے فزکس کی ایکویشنز میں ظاہر کیا جاتا ہے، ایک اور پلانک کا کانسٹنٹ ہوتا ہے۔ بہت سے سائنسدانوں کی ذہن میں یہ سوال آیا کہ ٹھیک ہے الیکٹران پر اتنا چارج ہوتا لیکن اتنا ہی کیوں ہوتا ہے؟ اس کا میس اتنا ہی کیوں ہوتا ہے؟ اور اگر یہ چارج کچھ اور ہوتا تو کیا ہوتا؟ ٹھیک ہے روشنی کی رفتار اتنی ہوتی ہے خلا میں مگر اتنی ہی کیوں ہوتی ہے؟ کچھ اور ہوتی تو کیا ہوتا؟

    اس بارے میں تھوڑی تحقیق ہوئی تو پتا چلا کہ کائنات کی تخلیق یعنی بگ بینگ کے وقت کچھ ایسا ہوا کہ ان تمام کانسٹنٹس کی ویلیوز کا فیصلہ ہوگیا۔ اگر ان میں سے کسی کی بھی ویلیو (قدر) میں معمولی سی بھی تبدیلی کی جائے تو یہ کائنات اس شکل میں موجود نہ ہوتی، زمین ہوتی نہ ستارے، اور نہ ہم ہوتے۔ شاید زندگی موجود ہوتی مگر کسی اور شکل میں، شاید ہم سمجھ ہی نہ پاتے کہ وہ زندگی بھی ہے کہ نہیں۔ شاید ایک ایک ستارے کے بجائے دو دو ستاروں کے جوڑے بن جاتے، غرض یہ کہ چونکہ ان کانسٹنٹس کی بےشمار ویلیوز ممکن ہیں، اس لیے بےشمار شکلیں ہماری کائنات ہماری یونیورس کی بھی ممکن ہوتیں۔ قصہ مختصر یہ کہ ان کانسٹینٹس کی ویلیوز بہت ہی فائن ٹیونڈ اور احتیاط سے چنی گئی ہیں۔

    اب کائنات کو کچھ دیر کے لیے ادھر ہی چھوڑ دیں۔ سائنس کے مطابق بگ بینگ کے بعد جو کچھ بھی ہوا، وہ ایک اتفاقیہ امر تھا، اتفاقاً زمین بن گئی، اتفاقاً اس میں زندگی کے لیے سازگار ماحول بن گیا، اتفاقاً ہی زندگی پیدا ہوئی، اتفاقاً ہی ارتقاء کا عمل شروع ہوا، پھر اتفاقاً انسان بن گئے، غرض یہ کہ پوری دنیا اور ہماری پیدائش تک سب کچھ ایک اتفاق کا نتیجہ ہے۔

    اب بہت دلچسپ صورتحال سامنے آتی ہے۔ سائنس ایک طرف کہتی ہے کہ بگ بینگ کے بعد جو کچھ بھی ہوا محض ایک اتفاق تھا اور دوسری طرف یہ کہتی ہے کہ بگ بینگ کے شروع کے سیکنڈ کے لاکھویں حصے میں کچھ ایسا ہوا کہ ہر کانسٹنٹ کی ایک خاص ویلیو بن گئی، اور وہ اتنی ہی تھی جو اس کائنات کی تشکیل اور زندگی کے آغاز کے لیے ضروری تھی۔ کیا آپ تضاد تک پہنچ رہے ہیں؟ کوئی بات نہیں، اگر نہیں بھی پہنچ رہے۔ میں اسے لکھنے لگا ہوں
    ”تمام اتفاقات کی ماں یعنی بگ بینگ خود ایک اتفاقی امر نہیں تھا.“
    کیسا رہا؟
    اس کا دوسرا مطلب یہ بنتا ہے کہ کائنات کی تشکیل کے وقت کوئی ذہانت بھرا ذہن حرکت میں آیا، جس نے کچھ ایسا کیا کہ ہر کانسٹنٹ کی ویلیو فائن ٹیون ہو گئی، ورنہ کوئی چیز اگر محض ایک بار ہو اور پہلی بار میں ہی آئیڈیل ویلیو پر ”اتفاقاً“ پہنچ جائے، یہ سائنسی طور پر ناممکن ہے۔ لیکن اس کو تسلیم کرنے کا مطلب یہ بنتا ہے کہ خدا کے وجود کو تسلیم کر لیا جائے یا ایک خالق کو مان لیا جائے۔ یہ چیز روایتی طور پر سائنسدانوں کے لیے تسلیم کرنا نہایت مشکل رہا ہے۔

    اس لیے خدا کے وجود کا انکار کرنے کے لیے ایک نئی تھیوری پیش کی جاتی ہے، اسے کہتے ہیں، ”تھیوری آف ملٹی ورس“۔ ایک سے زیادہ کائناتوں کا نظریہ۔ اس نظریے کے مطابق صرف ایک کائنات نہیں ہے بلکہ اربوں کائنات ہیں، اور ہر وقت بن رہی ہیں۔ ہر وقت بگ بینگ ہو رہے ہیں اور ان کے نتیجے میں نئے نئے جہان وجود میں آ رہے ہیں، ہر جہاں میں ان کانسٹنٹس کی اپنی ویلیوز ہیں، اس لیے ہر یونیورس مختلف ہے اور اتفاقاً وجود میں آ رہا ہے۔ یوں سائنسدان یہ کہنے کے قابل ہو جاتے ہیں کہ ہماری کائنات بھی حادثاتی طور پر اتفاقاً وجود میں آ گئی۔

    اب اس تھیوری کے مسائل کیا ہیں؟
    1۔ یہ ایک تھیوری ہے محض۔
    2۔ ہم اپنی کائنات کے آخری سرے پر ہی نہیں جا سکتے تو کسی اور میں کیسے جائیں گے؟
    3۔ جو سائنسی آلات ہماری کائنات میں چلتے اور درست ریڈنگ دیتے ہیں، اگر ہم کسی اور کائنات میں چلے بھی جائیں تو وہاں کے اپنے کانسٹنٹ ہوں گے، یہ وہاں نہیں چلیں گے بلکہ عین ممکن ہے کہ ہماری دنیا کے مادے کا وہاں محض داخل ہونا ہی اس دنیا کی تباہی کا سبب بن جائے۔
    4۔ اس تھیوری کو درست یا غلط ثابت کرنا کم از کم اب تک سائنسی طور پر ناممکن ہے۔
    5۔ اس تھیوری کو بھی مذہب کی طرح ایک ”یقین“، ایک بیلیف کا نام تو ضرور دیا جا سکتا ہے مگر ایک سائنسی حقیقت نہیں کہا جا سکتا“

    سائنس کی ہی زبان میں، سائنسی طریق کار کے ہی مطابق، ان کانسٹنٹس کی اوریجن کے بارے میں معلومات کے مطابق اس وقت سائنسی صورتحال یہ ہے کہ یہ کائنات کسی ہستی کی تخلیق ہے، جس نے ان کانسٹنٹس کی وہ ویلیو رکھی جو زندگی کے لیے ضروری تھی، اور یہ صورتحال تب تک جوں کی توں رہے گی جب تک کہ تھیوری آف ملٹی ورس سائنسی طور پر درست ثابت نہیں ہو جاتی۔

    اب مضمون کے آخر میں مذہبی معلومات کا سہارا لیتے ہوئے ایک ازمپشن میں بھی پیش کرنے لگا ہوں۔ میرا خیال یہ ہے کہ تھیوری آف ملٹی ورس درست بھی ثابت ہوگئی تو اس سے مذہب یا خدا کا انکار ممکن نہیں ہو پائے گا؟
    کیوں؟
    ویسے تو ہر مذہب میں ہی اس طرف اشارے موجود ہیں مگر قرآن میں نہایت واضح الفاظ میں کہا گیا ہے کہ
    [pullquote]وما أرسلناك إلا رحمۃ للعالمين[/pullquote]

    اور (اے محمدﷺ) ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا۔
    [pullquote]الحمدللہ رب العالمین[/pullquote]

    تعریف اس اللہ کے لیے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔
    یاد رہے دو یا تین جہانوں کی بات نہیں ہو رہی بلکہ ”تمام جہانوں“ کی بات ہو رہی ہے۔ نجانے کتنے ہیں؟

    اس تمام گفتگو اور علم کے بعد کم از کم میں اس رائے کا حامل ہو چکا ہوں کہ سائنسی طور پر بھی کہ خدا ہے تو سہی۔ اس کا انکار کرنا اس وقت تک سائنسی طور پر ممکن نہیں۔ باقی کس مذہب کی خدا کی تشریح سچی ہے، اس پر پھر بحث و مکالمہ ہو سکتا ہوگا مگر سائنسی طور پر اس وقت خدا کا انکار نہیں کیا جا سکتا کم از کم۔ لیکن سائنس تو نہیں البتہ خدا کا انکار کرنے والے بہت دلچسپ مخمصے میں پھنس چکے ہیں۔
    1۔ اگر تھیوری آف ملٹی ورس کو درست تسلیم نہیں کرتے تو منطقی طور پر خدا کو تسلیم کرنا پڑے گا۔
    2۔ اگر تھیوری آف ملٹی ورس کو درست مانتے ہیں یا ثابت بھی کر دیتے ہیں تو اس کا ذکر تو پہلے ہی تمام الہامی کتابوں میں موجود ہے۔

    اور آخرکار مضمون کا اختتام ان الفاظ پر کرتے ہیں،
    اگر خدا نہیں ہے تو اسے ماننے یا نہ ماننے والے، دونوں کو مرنے کے بعد کوئی فرق نہیں پڑے گا، اور اگر ہے تو ”نہ ماننے والیاں دے نال ہونی بڑی پیڑی اے اگلے جہان وچ“۔ شکریہ

    نوٹ: اگر کسی دوست نے اعتراض یا کوئی سوال کرنا ہو تو پہلے یو ٹیوب پر ”Theory of multiverse and God“ سرچ کر لیں۔ کسی جرنل یا پیپر کا لنک اس لیے نہیں دے رہا کیونکہ اس سے سمجھنا عام لوگوں کے لیے خاصا مشکل ہوگا۔

  • لبرل فکر کےشارحین کی غلطی – مجاہد حسین خٹک

    لبرل فکر کےشارحین کی غلطی – مجاہد حسین خٹک

    مجاہد حسین خٹک ایک دور تھا جب سوشلسٹ اور کمیونسٹ طبقہ ہر اس تہذیبی قدر کا مذاق اڑاتا تھا جو عوام کو عزیز تھی۔ یہ بہت بری حکمت عملی تھی کیونکہ اس کا ردعمل پیدا ہوا اور عوام نے اس فکر کے مثبت پہلوؤں کو بھی یکسر رد کر دیا۔ آج بہت سے سلجھے ہوئے کمیونسٹ دانشور اس غلطی کو تسلیم کرتے ہیں۔

    اس احمقانہ طریق کار کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ فرسودہ سوچ کو اپنا بیانیہ معاشرے پرمسلط کرنے کے لیے زیادہ محنت نہیں کرنا پڑی۔ انہیں فکری میدان بالکل خالی مل گیا جس پر انہوں نے آسانی سے قبضہ جما لیا۔ ان کا یہ غلبہ آج تک قائم ہے۔

    آج کمیونسٹ بیانیے کی جگہ لبرل فکر نے لے لی ہے اور اس کے شارحین ایک بار پھر وہی پرانی غلطی دہرا رہے ہیں۔ ان کے ہاں ہر اس تہذیبی قدر کا مذاق اڑایا جاتا ہے جو عوام کو محبوب ہے۔ اس رویے کی وجہ سے معاشرے میں پھیلی فرسودہ سوچ کا غلبہ آج بھی قائم و دائم ہے۔

    پاکستان میں ایک ایسے ترقی پسند بیانیے کی گنجائش ہمیشہ موجود رہی ہے جو ہماری تہذیبی اقدار کا احترام کرتے ہوئے معاشرے کو دور جدید سے ہم آہنگ کر سکے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ اس فکری خلا کو اس گروہ نے پر کرنے کی کوشش کی جو یا تو ردعمل کی بیمار نفسیات کے تحت تلخی، فرسٹریشن اور غصے کا شکار رہا ہے یا جسے اپنے محدود حلقے میں واہ واہ کی طلب ہے۔ کیونکہ اسی واہ واہ کے جادوئی اثر سے ایک عام دانشور کے لیے بھی وہ بند دروازے کھل جاتے ہیں جن کے پیچھے شہرت اور دولت کی دیوی گھونگٹ اوڑھے منتظر بیٹھی ہوتی ہے۔

    علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے معاملے پر جس طرح دھڑا دھڑ مضامین آ رہے ہیں اور ہماری روایات کا جس مضحکہ خیز انداز میں مذاق اڑایا جا رہا ہے، اسے دیکھ کر افسوس ہوتا ہے۔ یہی تو مواقع ہوتے ہیں جب عوام کا دل جیتا جا سکتا ہے۔ جب امتحان کے پرچے میں اپنی بہن کی جسمانی ساخت بیان کرنے کا سوال آ جائے تو اس پر لبرل ازم کے پیروکاروں کو بھی احتجاج میں شریک ہو جانا چاہیے تاکہ عوام کے دل تک انہیں رسوخ حاصل ہو سکے۔ وہ رسوخ جسے حاصل کرنے کے بعد منزل کا حصول بہت آسان ہو جاتا ہے۔

    یہ وقت تھا جب وجاہت مسعود صاحب جیسے حقیقی دانشور اپنے طبقے کی رہنمائی کے لیے سامنے آتے۔ وہ سماج کی پیچیدہ ساخت کے تمام پہلوؤں سے بخوبی آگاہ ہیں۔ مجھے حیرت ہے کہ ان جیسے سلیم الفطرت لوگ اس معاملے پر خاموش کیوں ہیں؟ اور ان کے زیراثر لوگ اس پر خامہ فرسائی کیوں کر رہے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ بھی اپنے طبقے کے انتہا پسندوں کے ہاتھوں یرغمال بن چکے ہیں؟ یا یہ سب ان کی رضامندی سے ہو رہا ہے؟

  • خودغرضی کی بھوک اور پاپی پیٹ – نورین تبسم

    خودغرضی کی بھوک اور پاپی پیٹ – نورین تبسم

    اللہ تو لوگوں پر کچھ ظلم نہیں کرتا لیکن لوگ ہی اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔ (سورہ یونس، 44)

    خودغرضی اللہ کی بہترین نعمتوں میں سے ایک ہے۔ ایسی نعمت جس کی پہچان بہت کم کسی کے قلب و ذہن پر اُترتی ہے اور جو اِس کی اصل روح کو پا لے وہ ولی اللہ کے درجے کو چھو جاتا ہے۔ عام طور پر کسی کو خود غرض کہا جائے تو نہ صرف کہنے والا بلکہ سُننے والا اَسے طعنے یا گالی کے طور پر محسوس کرتا ہے۔ درحقیقت دونوں اِس کے اصل مفہوم سے ناآشنا ہیں۔

    خودغرض یا خودغرضی کا عام مطلب ہے اپنے آپ سے غرض رکھنا۔ صرف اپنا بھلا چاہنا اور دوسروں کی قطعی پروا نہ کرنا۔ اِن معنوں اور اس مفہوم میں کوئی کجی نہیں اور یہی اصل مطلب بھی ہے۔ بات پلٹ کر وہیں آ جاتی ہے کہ ہم ہر چیز, ہر لفظ اور ہر احساس کو سرسری نگاہ سے دیکھ کر حرفِ آخر کا فیصلہ صادر کر دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنے دل و دماغ کی کھڑکیاں ہٹ دھرمی کی میخوں سے بند کر کے اُسی بات پر اڑے رہتے ہیں۔

    خود غرضی کیا ہے؟ اپنی طلب سے غرض رکھنا, اپنا بھلا چاہنا۔ تو کیا کسی نے سوچا کہ اُس کی بھلائی کس میں ہے؟ اُس کی طلب کی نوعیت کیا ہے؟ اس کی بھوک اور پیاس کی حدیں کہاں تک پھیلی ہیں؟ اور سب سے اہم بات یہ کہ اس کی ”غرض“ اُس کے لیے کتنے وقت تک اور کتنا ساتھ دے سکے گی؟

    سب سے پہلے بھوک کی بات کہ یہی وہ غرض ہے جوانسان کو اپنے پرائے رشتوں ناطوں حتیٰ کہ اپنے اہل و عیال سے بھی بیگانہ کر دیتی ہے۔ بھوک ایسا طاقتور اور بےرحم جذبہ ہے جس کے آگے اِبن ِآدم کی ساری تمیز اور تہذیب دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔ اگرچہ بھوک ایک آدم خور درخت ہے جس کی شاخیں انسان کے اندر ہر جگہ پھیلی ہیں جیسے ناشُکرا پن اور ہوس بھی بھوک کے کرشمے ہیں لیکن پیٹ کی آگ اور جنس کی طلب انسانی اخلاقیات کے لیے زہرِقاتل کا درجہ رکھتی ہیں۔ بھوک کوئی بھی ہو وہ کبھی اپنے اندر سے پوری نہیں پڑتی ۔اُس کے لیے اپنی ذات سے باہرآ کر ڈھونڈنا پڑتا ہے۔۔۔ خاموشی سے۔۔۔ چُپ چاپ دبے پاؤں۔

    پیٹ کی آگ اورجنس کی بھوک بہت شور مچاتی ہے، اسے سنبھالنا بہت مشکل ہے جو اکثر اوقات ناممکن بن جاتا ہے۔ اس کو قابو کرنے کا فن زندگی کی ریاضت چاہتا ہے۔ ساری زندگی کی کمائی دینے کے بعد کب ملے، یہ کوئی نہیں جانتا اور اس جن کو بوتل میں بند کرنے کے بعد بھی آزمائش ختم نہیں ہوتی۔ جو اس پر قابو پا گیا، وہ ولی اللہ کے رُتبے کو پا گیا۔ جیسے جیسے اس بھوک کو سمجھتے جائیں، اس سے پنجہ آزمائی کرتے رہیں، اس کے گلے میں بانہیں ڈال کر اس سے باتیں کرتے رہیں، یہ سر پر سوار نہیں ہوتی۔

    پیٹ کی آگ جسمِ انسانی کا وہ بھڑکتا الاؤ ہے جس میں انسان کی ساری اخلاقیات سوکھی لکڑیوں کی طرح لمحوں میں جل کر خاکستر ہو جاتی ہے۔ پیٹ کی ہوس وہ ضرورت ہے جس پر انسان ذرا سا بھی شرمندہ نہیں ہوتا اور نہ ہی اُسے اس طور اتنا بُرا محسوس کرتا ہے۔ انسان وقتی لذت کے چسکے اور اُس ذائقے کے لیے جو زبان پر چند لمحوں اور پیٹ میں چند گھنٹوں سے زیادہ نہیں ٹھہرتا، اپنے فہم اور شعور کو بہت کم قیمت پر فروخت کر دیتا ہے۔۔ جس طرح کہا جاتا ہے کہ نیند سولی پر بھی آ جاتی ہے اسی طرح پیٹ گھڑی بھی وقت بے وقت سے بے پروا اپنے وقت پر الارم بجانے لگتی ہے۔ عام زندگی میں ایسے مظاہرے کئی بار دیکھنے کو ملتے ہیں، خاص طور پر جب ہمیں مالِ مفت کے مصداق کھانے کو مل جائے تو ہم اس الارم کی ضرورت اور ہوس میں فرق بھول جاتے ہیں۔ خوشی کی تقریبات میں ”کھانا کھلنے“ کا اعلان ہو یا کسی کا جنازہ اٹھنے کے بعد کھانے کا منظر جسے پہلے زمانوں میں ”کڑوی روٹی“ کہا جاتا تھا، کھانے والوں کے انداز اور اطوار میں صرف کچھ ہی فرق ہوتا ہے لیکن نظروں میں رتی برابر فرق دیکھنے کو نہیں ملتا۔ خوشی کے موقع پر تو بہت کچھ خوشی خوشی نظرانداز کیا جا سکتا ہے اور کیا بھی جاتا ہے لیکن مرنے والے کے گھر میں چاولوں میں ”بوٹی“ اور سالن میں ”تری“ پر نظر رکھی جاتی ہے۔ اپنے گھروں میں روز ہی پیٹ بھر کر مرغِ مسلم کھانے والے ایسی بدنیتی کا مظاہرہ کریں تو اس بےحسی سے زیادہ اُن کی اپنی غرض کی ناسمجھی پر شدید تاسف ہوتا ہے۔

    مال اور اولاد کو دُنیا کی زندگی میں سب سے بڑی آزمائش کہا گیا ہے۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں، گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو اس آزمائش کا سرا ”پیٹ“ سے جا ملتا ہے۔ انسان کی بھوک اس کے ہر احساس پر غالب آ جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ محبت سے پیٹ نہیں بھر سکتا لیکن یہ بھی سچ ہے کہ پیٹ بھر جائے تو پھردوسری ہر محبت کی طلب بیدار ہوجاتی ہے۔

    پیٹ کی بھوک کی طرح جنس کی بھوک کی بدنمائی بھی انسان کاانسان پر سے اعتبار ختم کر دیتی ہے۔وہ ایسی ہوس ہے جو انسان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دوسروں کی نظر سےگرا دیتی ہے۔ جسم کی طلب کو اگر چھوٹے بچے کی ضدوں کی طرح سمجھا جائے تو اسے منانے میں آسانی ہو جاتی ہے۔ یہ فرمائشوں کو پورا کرنے کےعارضی وعدوں اورمحبت کے دو بول سے بہل جاتی ہے اور اپنی پوری معصومیت سے انتظار کرنے لگتی ہے اچھے وقت کا، خوبصورت موسم کا۔ اور اگر اسے سخت گیر اُستاد کے حُکم کی طرح سُن لیا اور اس سے سہم گئے تو یہ کبھی پیچھا نہیں چھوڑتی، نہ خوابوں میں اور نہ حقیقت میں۔ اپنی پوری کمینگی اور سفاکیت کے ساتھ یوں حملہ آور ہوتی ہے کہ اس کے نوکیلے پنجے روح میں شگاف ڈال دیتے ہیں اور جسم ہر طرف سے کیکر بن جاتا ہے جو قریب آنے والوں کو زخمی کر دیتا ہے۔

    حرفِ آخر
    بھوک وہ سانپ ہے جو ہر بار نئے رنگ سے نئے ڈھنگ سے بہروپ بدل بدل کر ڈستا ہے- زیادہ طلب بڑھے تو بھوک مرتی نہیں راستہ بدل لیتی ہے۔۔ لبادہ اُوڑھ لیتی ہے، کبھی صبر کا، کبھی قناعت کا، کبھی بہادری کا تو کبھی مذہب کا- بھوک فطرت ہے کہ جھولی خالی ہو تو خیرات ملتی ہے۔ طلب ہو تو بھوک ہوتی ہے پھر خواہش ضرورت بنتی ہے۔ بھرے پیٹ کی خواہش تو ہوس ہوتی ہے، بدنظری ہوتی ہے، خودغرضی ہوتی ہے، لُوٹ کھسوٹ ہوتی ہے، اجتماعی زیادتی ہوتی ہے۔گھاٹے کے سوداگر ایک لمحے کی خوشی، ایک پل کے عارضی سکون کی خاطر ہمیشہ کی آسودگی قربان کر دیتے ہیں۔ دنیا کی باتیں دُنیا میں سمجھ آ جائیں تو آگہی کی جنت دور نہیں۔ ہم اس حال کی فانی دنیا کو اپنی محدود عقل کے دائرے میں جاننے کی کوشش کیے بغیر نہ صرف اپنے لیے بلکہ دوسروں کے لیے بھی دوزخ بھڑکاتے ہیں۔ آگے کی اللہ جانے کہ وہ ایمان والوں کے ایمان کا معاملہ ہے۔ اللہ کی نعمت اور رحمت کا دائرہ کس قدر وسیع اور لامحدود ہے اور وہ کتنا بےنیاز ہے، ہم کبھی نہیں جان سکتے۔ لیکن اتنا ضرور محسوس کیا جا سکتا ہے کہ وہ خلوصِ نیت سے پلٹنے والوں، سوچنے والوں اور اس کے مطابق عمل کرنے والوں کو اس دنیا میں ہی جنت عطا کر دیتا ہے۔

  • دانشوری کے دھندے کی مجبوری – محمد نعمان بخاری

    دانشوری کے دھندے کی مجبوری – محمد نعمان بخاری

    نعمان بخاری ہم ایک کنفیوژڈ، فکری یتیم اور عمل سے عاری قوم بنتے جا رہے ہیں، یا پھر باقاعدہ بنائے جا رہے ہیں.. جس نتھو خیرے کو دیکھو سوال کی حرمت کے نام پہ فضول ترین سوالوں کی پوٹلیاں اٹھا کر گھومے اور گھمائے چلا جا رہا ہے .. اگر بندے کے پاس کرنے کو کچھ مفید کام نہ ہو تو نصیب میں ٹائم پاسنگ سوال ہی بچتے ہیں .. سوال بھی ایسے کہ جن کے اگر جواب مل جائیں تو اُن جوابوں میں مزید اوٹ پٹانگ سوالات کی گھمرگھیریاں شروع ہو جاتی ہیں اور بےعملی کا یہ لاحاصل سلسلہ اچھے بھلے مطمئن انسان کو صاحبِ تشویش بنا دیتا ہے .. یہودیانہ کلچر کا دور دورہ ہو اور بنی اسرائیل والی خصلتیں پیدا نہ ہوں،، یہ کیسے ممکن ہے صاب.. بیکار سوچنے اور سوال برائے سوال کریدنے سے بےیقینی اور بےاطمینانی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا .. کام کرنے والے آگے نکل جاتے ہیں اور جواب کے سوالی مقامِ یاسیت پہ کھڑے آنکھوں میں سوال لیے گزرنے والے قافلوں کو تکتے رہتے ہیں.. ان کی گاڑی سوالیہ اسٹیشن سے آگے بڑھنے پائے بھی تو سامنے ایک نیا سوال راستہ روکنے کو تیار کھڑا ہوتا ہے..!

    ہمیں سوچنے سے مسئلہ نہیں ہے میری جان! البتہ ”صرف سوچنے“ کے ہم قائل نہیں ہیں .. ہم اُس تدبر و تفکر کے داعی ہیں جس کی منزل الجھن سے شروع ہو کر سلجھن تک پہنچتی ہے .. سوال وہ ہوتا ہے جو بےساختہ ہمارے ذہن میں پیدا ہو یا واقعی جاننے کی طلب میں نکلے،، ورنہ وہ مرض ہوتا ہے اور سوالی مریض.. ہر سوال کا یہ حق نہیں کہ وہ لازماً جواب پائے.. کچھ سوال محض اعتراض پہ مبنی ہوتے ہیں اور کچھ استہزاء یا دل لگی کو کیے جاتے ہیں .. ان کا جواب دینا غیرضروری ہوتا ہے .. ایسے سوال جو کسی خاص ایجنڈے کی تکمیل کے لیے سوچے بلکہ گھڑے جاتے ہیں، وہ عوامی اذہان کو خلفشاری میں مبتلا کرتے ہیں .. اسی طرح کے سوالات کی ہمارا مخصوص دانشور طبقہ بڑے زور شور سے ترویج کرتا ہے .. بلاناغہ اٹھائے جانے والے ان انتشاری سوالوں کو اگر ہم دانشوروں کے دھندے کی مجبوری کہہ بیٹھیں تو جواب آتا ہے کہ نیت پہ سوال اٹھانا سخت منع ہے.. سوال کرنا بُرا نہیں ہے،، ہمیشہ بس سوال ہی کرتے چلے جانا اور کبھی تسلی نہ ہو پانا بُرا ہے .. سوالات کے ان جامد مقلدین کو جواب کی نہیں علاج کی ضرورت ہوتی ہے.. ”ذرا سوچیے“..!!

  • وزیراعلی پنجاب میاں شہبازشریف کے نام قوم کی بیٹی کا خط

    وزیراعلی پنجاب میاں شہبازشریف کے نام قوم کی بیٹی کا خط

    محترم جناب میاں محمد شہباز شریف صاحب
    (وزیراعلی پنجاب)

    السلام علیکم ورحمۃ اللہ

    میرا آج کا خط لاہور اور گرد و نواح پہ چھائی سموگ کی وجوہات، اس سے پیدا ہونے والی بیماریوں اور مستقبل میں پیش آ سکنے والے خطرات سے آگاہ کرنے اور ان کے سدباب سے متعلق ہے. میرا سیاست سے کچھ واسطہ نہیں. میرے اس خط کو محض آنے والی نسل کی حفاظت کے لیے بلند کی جانے والی پکار ، ایک مےڈے کال سمجھا جائے.

    محترم خادم اعلی صاحب! تصور کیجیے ایک ایسا شہر جو خوبصورت اور حسین ترین ہائی رائز بلڈنگز اور عظیم الشان فلائی اوورز سے مزین ہو. چمکتی دمکتی گاڑیاں اور دن رات چمنیوں سے دھواں اگلتی فیکٹریاں ملک کی بےمثال ترقی کا نقشہ پیش کرتی ہوں. کسی سائنس فکشن اینیمیشن کی طرح اس تصویر میں ایک غیرفطری فیکٹر نوٹ کیجیے کہ درخت کہیں نہ ہوں. چمکتی گاڑیوں کے ایگزاسٹ پائپس سے نکلتا دیدہ یا نادیدہ دھواں آب و ہوا کو مسموم کرتا ہو. شہری علاقوں میں قدرتی حسن کو نگلتے کنکریٹ اسٹرکچرز اور فیکٹریز کی چمنیاں شہر کو زہریلی ہواؤں کا تحفہ دیتے ہوں. کتنا غیر فطری تصور ہے نا.. یہ کیسی تعمیر ہے جس کی کوکھ سے تخریب کا جنم ہو رہا ہے..

    درخت قدرت کا انمول عطیہ جو ہمارے لیے قدرت کے پھیپھڑوں کا کردار ادا کرتے ہیں. ہمارے پھیپھڑے خون میں سے فاسد ضرر رساں گیسز مثلا کاربن ڈائی آکسائیڈ نکال کر سانس کے ذریعے جسم سے خارج، جبکہ ہوا میں سے حیات بخش آکسیجن حاصل کر کے اسے خون میں شامل کر دیتے ہیں، اس طرح جسم میں اچھی اور بری گیسز کا تناسب درست مقدار میں برقرار رہتا ہے اور انسانی جسم اپنے افعال بخیر و خوبی سرانجام دیتا ہے.. قدرت کے پھیپھڑے درخت ہیں. درختوں کے سرسبز پتوں میں موجود کلوروفل (سبز رنگ کا نامیاتی مادہ) دھوپ کی موجودگی میں کاربن ڈائی آکسائیڈ سے آکسیجن تیار کرتا ہے اور فضا میں بکھیر دیتا ہے. جبکہ آکسیجن کے بدلے یہ فضا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ اور کاربن مونو آکسائیڈ جیسی زہریلی گیسز چوس لیتا ہے، جسے یہ اپنی سانس اور خوراک کے لیے استعمال کرتا ہے. اس طرح قدرت کے یہ پھیپھڑے کھلی فضا میں گیسز کے تناسب کو حیات انسانی کے لیے مفید تناسب میں برقرار رکھتے ہیں.. اسی طرح درخت ہوا میں نمی کا تناسب بڑھا کر درجہ حرارت کم کرتے ہیں اور بارش کے برسنے کا سبب بنتے ہیں جس سے فضا دھل کر صاف شفاف ہو جاتی ہے. جیسے سگریٹ پینے سے یا دھویں سے بھری زہریلی فضا میں ہمارے پھیپھڑے کم کام کرنے لگتے ہیں، اسی طرح اگر ماحول میں گاڑیوں اور فیکٹریوں کے مقابلے میں درختوں کا تناسب کم ہوتا چلا جائے تو فضا میں گیسز کا تناسب بگڑ جائے گا..

    اب ہو کیا رہا ہے.. پچھلے کچھ سالوں میں لاہور کی ترقی و تعمیر کے نام پر ان گنت درخت کاٹ دیے گئے ہیں. ان درختوں کی ہریالی اور تازگی کو اسٹیل اور کنکریٹ کے جناتی سائز کے اسٹرکچرز سے ری پلیس کر دیا گیا ہے. شہری تازہ ہوا اور دھوپ دونوں سے نہ صرف محروم ہوگئے ہیں بلکہ فضا کو صاف کرنے والے درختوں کی عدم موجودگی میں زہریلی گیسز کا تناسب بڑھ گیا ہے، اور آکسیجن کم ہوگئی ہے. زہریلی گیسز، گرد اور دھویں نے مل کر زہریلی دھند کی چادر لاہور اور گرد و نواح پر تان دی ہے، جسے سموگ (سموک +فوگ) کا نام دیا گیا ہے.

    باغات اور زندہ دلان کا شہر کہلانے والا لاہور اب اوور ہیڈ فلائی اوورز کے سائے میں گم پژمردہ بیماروں کا شہر بن چکا ہے. یہ سموگ پہلی چیز ہے.. میٹرو کے بننے کے بعد کا ڈیٹا جمع کرنا شروع کیجیے، آپ کو دھوپ کی محرومی سے وٹامن ڈی کی کمی کے نتیجے میں رکٹس rickets میں مبتلا بچے اور جوڑوں،گردوں، سانس، جلدی بیماریوں اور کینسر کے مریض پچھلے سالوں سے زیادہ ملیں گے.
    http://medicalopedia.org/2387/vitamin-d-deficiency-in-pakistan-a-consequence-of-undervaluing-natures-endowment/

    وٹامن ڈی کی کمی اور فضائی آلودگی نمونیا، تپ دق اور دمہ کے مریضوں میں بھی اضافہ کرے گی اور اس کے ساتھ ساتھ آرتھرائٹس اور بانجھ پن میں بھی اضافہ دیکھنے میں آئے گا.. دھوپ کی کمی مختلف جلدی بیماریوں مثلا خارش اور سورائسس (scabies and psoriasis) میں اضافے کا باعث بھی ہوگی. .

    بعض لوگ کہیں گے کہ یہ فلائی اوورز پہلے سے موجود سڑکوں کے اوپر بنائے گئے ہیں، آبادی کے اوپر نہیں.. درست فرمایا. لیکن ہمارے ملک میں جہاں دن کے زیادہ اوقات میں تیز دھوپ رہتی ہے، جس کی وجہ سے زیادہ تر لوگ گھروں یا سایہ دار جگہوں تک محدود رہتے ہیں. خواتین گھرداری اور پردے کی وی سےگھروں میں محدود ہیں.. ان کا دھوپ سے سامنا عموما دوران سفر ہی ہوتا ہے. سکول، کالج، آفس، دکان یا بازار آتے جاتے عوام اپنے حصے کی دھوپ اور نتیجتا سن شائن ہارمون یعنی وٹامن ڈی کا اپنا حصہ پاتے ہیں..

    Head outside for at least 20 minutes each day and expose a minimum of 40 percent of body to the sun for maximum D3 synthesis. During cold months, pill or liquid supplements may be necessary for many adults. Because of the preoccupation with the harmful effects of too much sun, most people do not get enough of it. Increased pigmentation due to which more prolonged exposure to sun is required, use of sun block, purdah observation and possibly the reason that women in general do not go outside the home may be responsible for Vitamin D Deficiency …
    (http://medicalopedia.org/2387/vitamin-d-deficiency-in-pakistan-a-consequence-of-undervaluing-natures-endowment)

    اب سڑکوں پر پائی جانے والی دھوپ فلائی اوورز کے سائے نے روک لی. یا تو فلائی اوورز نہ ہوتے یا اتنے اونچے ہوتے کہ دھوپ نہ رکتی. تیسرا طریقہ سوراخ دار فلائی اوورز بنانے کا بھی ہو سکتا تھا، جس کے روزن سے دھوپ چھن کر نیچے چلتے پھرتے عوام تک پہنچتی رہتی.

    درختوں کی کمی، اسٹیل، کنکریٹ اور شیشے سے بنے اسٹرکچرز میں اضافہ، گرمی میں اضافے کا باعث بنیں گے. گلوبل وارمنگ کا یہ ایک بہت بڑا فیکٹر ہے. خصوصا درختوں کی کمی..
    https://en.m.wikipedia.org/wiki/Environmental_impact_of_concrete

    ماحولیاتی گرمی بڑھنے کے منطقی نتیجہ کے طور پر گاڑیوں اور گھروں میں اے سی کا استعمال بڑھے گا جو کاربن مونو آکسائیڈ کے فضا میں مزید اضافے کا باعث ہوگا.. جس سے اوزون لئیر کو نقصان پہنچے گا، نتیجتا انسانی صحت کے لیے مضر اثرات کی حامل شعائیں بلا روک ٹوک زمین تک پہنچنے لگیں گی. یعنی بظاہر ترقی نظر آتے عوامل قدرتی ماحول کی تنزلی’ (deterioration) کا باعث ہیں.

    اس سب کا حل ہنگامی بنیادوں پر شجرکاری میں اضافہ اور میٹرو / اورنج فلائی اوورز کا روٹ میپ سرکلر یا رنگ روڈ کی طرز پر شہری آبادی سے باہر شفٹ کیے جانے میں ہے. جو آبادیاں ان فلائی اوورز کے سائے میں آ کر اپنے حصے کی دھوپ سے محروم ہو چکی ہیں، انہیں ترجیحی بنیادوں پر حکومتی سرپرستی میں کھلی فضا والے بہترین پلاننگ والے علاقوں میں بسایا جائے. یہ ہماری آنے والی نسلوں کی صحت اور بقا کا معاملہ ہے.

    ایک ڈچ آرٹسٹ نے فضائی آلودگی دور کرنے والے مصنوعی درخت تیار کیے ہیں جو ہوا میں سے زہریلی گیسز اور کاربن کو اپنے اندر جذب کر لیتے ہیں جبکہ اس جذب شدہ کاربن کو ہیروں میں بھی تبدیل کیا جا رہا ہے. ان ہیروں کو جیولری میں جڑ کر بیچا جاتا ہے اور اس سے حاصل شدہ آمدنی سے مزید مصنوعی درخت لگائے جاتے ہیں.. یہ بھی ایک حل ہو سکتا ہے لیکن اس میں وہ مولوی مدن کی سی بات کہاں..

    https://www.facebook.com/worldeconomicforum/videos/10153611715491479/

    آپ ترقی اور انفرادی سٹرکچر، ڈویلپمنٹ کو لازم و ملزوم سمجھتے ہیں لیکن مغربی ممالک کے تجربے سے یہ معلوم ہوا کہ ماحول کے تحفظ کے اقدامات بھی ساتھ ہی لیے جانے اہم ہیں ورنہ صحت کی مد میں بڑھتے مسائل اور اخراجات ملکی وسائل پر ایک غیر متوقع بوجھ بھی ڈالتے ہیں اور رائے عامہ کو بھی حکومت بیزاری کی طرف دھکیل سکتے ہیں.

    خیر اندیش
    قوم کی بیٹی
    ڈاکٹر رابعہ خرم درانی

  • چکرا دینے والا قانون، مرفی لا – محمد فیصل شہزاد

    چکرا دینے والا قانون، مرفی لا – محمد فیصل شہزاد

    یہ سائنسدان بھی لگتا ہے، سب سے زیادہ ویلے ہیں.. اور کوئی کام ہوتا نہیں تو قوانین (لا) بناتے رہتے ہیں.. حرکیات کا قانون، نیوٹن کے ثقل کا قانون، فلاں قانون ، ڈھماکا قانون!… یہ سنکی سائنسدان شاید نہیں جانتے تھے کہ یہ قوانین پیش کر کے انہوں نے ان کروڑوں لڑکوں کے دل توڑے ہیں جو ہر سال امتحان میں ایگزامنر کی آنکھ بچا کر ان ”قوانین“ کو شلوار کے پائنچوں میں چھپا کر لاتے ہیں، اورنقل نہ کرنے کا قانون توڑ کر بھی ان ”قوانین“ کی ٹانگیں بڑی بےدردی سے توڑتے ہیں اور نتیجتاً فیل ہو جاتے ہیں!

    چلیں چھوڑیں، آج ہم بات کریں گے ایک عجیب قانون کی … جو اہل علم میں ”مرفی لا“ (murphy’s law) کے نام سے مشہور ہے!
    یہ مرفی بدبخت کوئی بڑا ہی سڑیل انجینئر تھا۔ ایک دن کسی پروجیکٹ پہ کام کر رہا تھا۔ اس کے ساتھ کچھ اور لوگ بھی کام کر رہے تھے۔ جب ہر چیز بظاہر اس حالت میں آگئی کہ اس کی آزمائش کی جائے تو وہ ناکام ہو گئے… پتہ چلا کہ کسی معمولی سی غلطی کی بنا پر وہ اپنے ہدف تک نہ پہنچ سکے … مرفی نے روایتی باس ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے اس کا ذمہ دار اپنے اسسٹنٹ کو ٹھہرایا اور کہا: یہ شخص جہاں بھی غلطی کرنے کا موقع ہو…ضرور کرے گا… پھر یہ بھی کہا کہ اگر کسی چیز کے کرنے کے دو طریقے ہوں گے تو جو سب سے بدترین ہو گا، یہ وہی کرے گا۔ بس جی آس پاس سننے والے اس بات پر سر دھننے لگے… (مرفی کا نہیں بھئی، اپنا!) وہ اس کی بات سے ایسے متاثر ہوئے کہ انھوں نے کھوج کھوج کر اس کے پیش کردہ خیال کے حق میں باتیں سوچ لیں، جس سے اس متنازعہ قانون کی حیثیت مسلمہ ہو گئی۔

    تو دوستو! سب سے پہلے اس قانون کے چیدہ چیدہ نکات ذہن نشین کر لیں جو حسب ذیل ہیں:
    ٭ اگر ایک صورت حال مختلف طریقے سے نمٹ سکتی ہے تو پورا امکان ہے کہ سب سے بد ترین صورتحال سامنے آئے۔
    ٭ اگر کوئی چیز بظاہر کسی بھی طریقے سے غلط سمت میں نہیں جا سکتی تو وہ کسی نہ کسی طریقے سے جائے گی ضرور۔
    ٭ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ کسی بھی چیز کے غلط سمت میں جانے کے چار طریقے ہو سکتے ہیں تو کوئی پانچواں طریقہ کہیں نہ کہیں سے جنم لے لےگا۔
    ٭ اگر حالات کو اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے تو وہ کم برے سے زیادہ برے حالت کی طرف جاتے ہیں۔
    ٭ قدرت ہمیشہ اس خفیہ غلطی کے ساتھ ہوتی ہے جس کا حل آپ نے سوچا ہی نہیں ہوتا۔ جس کا آپ نے تصور بھی نہیں کیا ہوتا۔

    (اب آئیے اس قانون کی وکی پیڈیا سے چند مثالیں مگر اس کے ساتھ اپنے اردگرد سے بھی چند مثالیں:)

    ٭ میری ڈیڑھ سالہ بیٹی خنساء کبھی غلطی سے بھی چپل سیدھی نہیں پہنے گی … ہمیشہ پیر غلط طرف کی چپل میں ڈالے گی!
    ٭ آپ نے آدھا گھنٹہ لگا کر ایک فائل اٹیچ کی، مگر ای میل کرنے سے پہلے اچانک ای میل اکاؤنٹ کریش ہو جائےگا، یا بجلی چلی جائے گی!
    ٭ اسی طرح آپ نے بڑا سنوار نکھار کر کسی کی پوسٹ پر ایک کمنٹ لکھا، مگر سینڈ کرنے سے پہلے ہی نیٹ دھوکا دے جاتا ہے!
    ٭ جب آپ اپنی دانست میں یہ سمجھ رہے ہوں گےکہ آپ بڑے تیس مار خان ہوگئے ہیں تو عین انھی دنوں فیس بک انتظامیہ آپ کا اکاؤنٹ بند کر دے گی اور آپ اچانک اپنی ساری پوسٹس اور دوستوں سےمحروم ہو جائیں گے!
    ٭ اماں یا بیگم کو آپ جتنا مہنگا تحفہ لے کر دیں گے… امکان غالب ہے کہ اتنا ہی کم وہ استعمال ہوگا یا دوسروں کو دے دیا جائے گا!
    ٭ بیوی کا وہ مشورہ جسے آپ بیکار سمجھ کر نظرانداز کر دیتے ہیں ، وہی سب سے صحیح اور سارے مشوروں میں سب سے بہتر نکل آتا ہے! … اور پھر اس کی طنزیہ نگاہیں اور باتیں برسوں آپ کو برداشت کرنی پڑیں گی!
    ٭ آپ ڈیپارٹمنٹل اسٹور گئے، سامان کی ٹرالی لیے بل بنانے کے لیے لمبی قطار میں کھڑے ہیں، آپ دیکھتے ہیں کہ برابر والی قطار چھوٹی ہے، اب آپ اپنی دانست میں بڑی ہوشیاری سے اپنی لین سے دوسری طرف جائیں گے، تو عین اسی وقت وہ قطار پہلے والی سے بھی لمبی ہو جائے گی!… اب نہ آپ ادھر کے رہیں گے نہ اُدھر کے!
    ٭ جس دن آپ کی جیب میں پانچ کا سکہ بھی نہ ہو … اسی دن آپ کے بےتکلف اور وہ بھی ”کمینے“ دوست ملنے آ جائیں گے! … پھر وہ خوب خوب ذلیل کریں گے۔
    ٭ ناشتہ کرتے ہوئے آپ کے منہ کی طرف جاتا ہوا ڈبل روٹی کا سلائس آپ کے ہاتھ سے گرے گا تو ہمیشہ اس کا مکھن لگا ہوا حصہ قالین سے ٹکرائے گا … اس کے اس حصے سے گرنے کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہوتے ہیں جتنا قیمتی قالین ہوتا ہے!
    ٭ آپ کے چھوٹے بچوں کی شرارتوں اور بدتمیزی کا انحصار اردگرد موجود لوگوں کی تعداد پر ہوتا ہے … جتنے زیادہ لوگ اتنا زیادہ ہنگامہ!
    ٭ آپ کسی مشین کو درست کر رہے ہوں تو اس کا باریک سا اسکرو جو کہ بہت اہم ہوتا ہے … آپ کے ہاتھ سے چھوٹ کر کمرے کے بھاری ترین فرنیچر کے سب سے کونے والے حصے میں پہنچ جائے گا!
    ٭ غسل خانے میں نہاتے وقت صابن جب بھی پھسلے گا تو یہ گویا لازم ہے کہ سیدھا ڈبیلو سی کے اندر ہی جا کر گرے!
    ٭ خواتین جب خوب تیار شیار ہو کر کسی دعوت میں جانے کو تیار ہوں تو اسی وقت ان کے بچے کو سو سو ضرور آئے گا!
    ٭ اسی طرح جس دن ابا جی سفید کاٹن کا کلف لگا کڑکڑاتا سوٹ پہن کر اپنی جوانی کو آواز دینے کا پروگرام بنائے بیٹھے ہوں گے … اسی دن بچے نے گود میں سو سو کرنا ہے یا کم ازکم اپنے کیچ اپ لگے ہاتھ آپ کے کپڑوں سے ضرور ملنے ہیں!
    ٭ اگر آپ کبھی غلطی سے بھی کوئی رانگ نمبر ڈائل کر بیٹھیں تو مجال ہے کہ وہ مصروف ملے، کوئی نہ کوئی اٹھائےگا ضرور!
    ٭ جس دن آپ اسٹیشن جانے یا دفتر جانے کے لیے لیٹ ہو جائیں، اسی دن کم بخت ٹریفک ضرور جام ہو گا. اور اسی دن باس آپ سے پہلے دفتر پہنچ کر آپ کو ضرور یاد کرے گا!
    ٭ آپ کسی شخص سے کہیں کہ نواز شریف کی پلاننگ سے صرف دو سال میں ملک میں معاشی انقلاب آ جائے گا، تو وہ اس پر تو جھٹ یقین کرلے گا، لیکن اگر یہ کہیں کہ سیڑھی پر کیا ہوا پینٹ ابھی گیلا ہے، اسے چھونا نہیں ہے تو وہ اسے چھو کرضرور دیکھے گا!
    ٭ خارش عام طور پر وہیں ہوگی، جہاں آسانی سے ہاتھ نہ پہنچ سکے!
    ٭ امتحانات میں 80 فیصد وہی سوالات آتے ہیں، جنہیں تیاری کے دوران آپ غیر اہم سمجھ کر چھوڑ دیں!
    ٭ آپ کسی کے خاموش عشق میں مبتلا ہوئے نہیں، اور برسوں سے گھر بیٹھی اس خاتون کی کسی باسٹرڈ سے شادی ہوئی نہیں … پھر کچھ ہی برسوں میں اس کے بچے آپ کو ماموں ماموں پکاریں گے اور آپ انہیں گود میں اٹھائے چیز دلانے جائیں گے!
    ٭ جس دن آپ خوب دل لگا کر محنت سے تیار ہو کر جائیں … اسی دن کوئی آپ سے کہہ دے گا، کیا آج آپ نے منہ نہیں دھویا تھا؟
    ٭ آپ کوئی مشین ٹھیک کر رہے ہیں اور آپ کے ہاتھ گریس سے بھرے ہوئے ہیں یا کوئی خاتون آٹا گوندھ رہی ہیں تو ایسا ممکن ہی نہیں کہ اسی وقت آپ کی ناک پر کھجلی نہ ہو!
    ٭ جو میری لمبی لمبی پوسٹس پوری نہیں پڑھتا، اس کا نقصان ہونا لازم ہے! 😛

    یہ سب تو اس کم بخت مرفی کے قانون کو بتانے کے لیے از راہِ مزاح پیش کیا ہے، جس کے بارے میں تفصیل بہرحال آپ نیچے دیے گئے وکی پیڈیا کے لنک پر دیکھ سکتے ہیں۔ یہ سب ہمارے مشاہدے میں بھی ہوتا ہے مگر ہم مسلمانوں کے پاس اس کے اثرات زائل کرنے کے لیے ایک بہترین قانون ہے … وہ ہے یہ سوچ کہ جو ہوا، اچھا ہوا، اور جو ہو رہا ہے، اچھے کے لیے ہو رہا ہے اور جو ہوگا اچھا ہی ہوگا! 😛

    لیکن چلیں اب ازراہ مذاق ہی سہی، جلدی جلدی اپنی ذاتی مثالیں پیش کرکے مرفی کا قانون ثابت کریں ۔۔۔ شاباش!)

    وکی پیڈیا لنک

  • قیدی اور پنجرہ – اسری غوری

    قیدی اور پنجرہ – اسری غوری

    اسری غوری اسے پنجروں میں قید پرندے دیکھ کر ہمیشہ ہی دکھ ہوتا تھا..
    وہ اکثر ایسے پنجرے کھول دیا کرتی تھی..
    اور جب کسی بھی پنجرے سے پرندہ پھر سے اڑ کر آزاد فضا میں سانس لیتا اور فضا کی بلندیوں تک جاتے جاتے بھی وہ مڑ مڑ کر اسے دیکھتا تو…
    وہ اڑتے پرندوں کی محبت اور تشکر بھری نگاہوں کو پہچان لیا کرتی تھی…
    اس لمحہ اس پر اک عجیب سی سرشاری کی سی کیفیت طاری رہتی…
    پھر یوں ہوا..
    وقت نے ایسا پلٹا کھایا..
    وہ اب اپنے پنجرے کی جالیوں سے باہر دیکھا کرتی ہے..
    اور
    اس کا پنجرہ کھولنے والا کوئی نہیں..

  • قوم بنانے کا بندوبست ہے؟ کیا ہم تیار ہیں؟ ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

    قوم بنانے کا بندوبست ہے؟ کیا ہم تیار ہیں؟ ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

    ڈاکٹر عاصم اللہ بخش انگریزی زبان میں ایک ضرب المثل ہے Murphy’s Law، اس کا آسان سا مطلب یہ ہے کہ جو خرابی ممکن ہے، وہ واقع ہو کر رہے گی.
    یعنی کسی کام کی پلاننگ، تخمینہ، اس کے اجراء اور اس کی راہ میں حائل دشواریوں کا اندازہ قائم کرتے وقت یہ اصول پیش نظر رہے کہ غلطی کی گنجائش صفر ہے. کسی بھی صورت خود کو تساہل کا موقع نہ دیں اور ہمہ وقت چوکنا اور تیار رہیں. نیز، زیر نظر معاملہ کے ضمن کسی بھی طرح چُوک جانے کے بعد خوش قسمتی یا بچت کے ہرگز کوئی امید نہ رکھیں.
    ہوشیار، مستعد اور خبردار رہنے کے لیے مرفیز لا سے بہتر کوئی فارمولا نہیں.

    پاکستان اس وقت جس علاقائی جنگ میں گھرا ہوا ہے وہ اسی مرفیز لا کے کلیہ پر پاکستان پر تھوپی گئی ہے. جہاں جہاں، جیسے جیسے اور جتنا جتنا نقصان پاکستان کو پہنچایا جا سکتا ہے، اسے میں کچھ کمی نہ رہنے پائے. دہشت گردی، بدامنی، افواہ سازی، بد دلی، بین الاقوامی پریس میں معاندانہ کوریج، سفارتی کشمکش یا پھر سرحدی جھڑپیں (جیسا کہ ان دنوں لائن آف کنٹرول پر جاری ہیں) …. سب ایک ہی زنجیر کی کڑیاں ہیں، جس سے پاکستان کی مشکیں کسنے کا عمل جاری ہے.

    دشمن کا حقیقی مقصد نہ کسی شیعہ کو مارنا ہے، نہ سنی کو…. اصل ہدف ہے فرقہ وارانہ منافرت و فسادات. اس کے لیے اِس کو بھی مارا جائے گا اور اُس کو بھی. دیوبندی / بریلوی خلیج نظر آئے گی تو اسے بھی یوں ہی نہیں جانے دیا جائے گا اور اپنے اہداف کے حصول کے لیے وہاں بھی خونریزی کی جائے گی. اسی طرح دہشت گردی کے واقعات میں زیادہ سے زیادہ جانی نقصان والے ٹارگٹ چنے جائیں گے تاکہ حکومت اور عوام، یا پھر سیکورٹی اداروں اور عوام کے مابین عدم اعتماد کو ایک مستقل عامل بنا کر رکھا جائے. نہ پنجابی سے غرض ہے نہ بلوچ و سندھی سے. نہ خیبر پختونخوا سے لگاؤ ہے نہ کراچی والوں سے. ہر وہ واردات یا طریقہ واردات روا ہوگا جس کی بدولت علاقائی عصبیت کو ہوا دی جا سکے.
    ان تمام باتوں کی تہہ میں ”ام المقاصد“ یہ ہے کہ قوم کو اس قدر وساوس میں مبتلا کر دیا جائے کہ وہ بحیثیت ایک قوم کے عمل اور ردعمل کی صلاحیت کھو بیٹھے.

    ہمارے ہاں 14 سال کی مسلسل کوشش سے اب وہ اس قابل تو ہو چلے ہیں کہ کسی بات کو بھی عوامی پذیرائی کا مرکز بنا دیں. اب تو عمران خان صاحب کوئی دھرنا نہیں دے رہے تھے، پھر شاہ نورانی دھماکے سے نواز شریف صاحب کو کیا فائدہ پہنچانے کی کوشش ہوئی؟ یا ان دنوں تو نواز شریف صاحب کو فوج سے کوئی خطرہ نہیں تو پھر کنٹرول لائن پر لاشوں کے مسلسل تحفے کس کے بچاؤ کے لیے ہیں؟ یہ ضرور ہے کہ سی پیک کا افتتاح ضرور تھا، اگلی صبح جب بلوچستان میں واقع درگاہ کو نشانہ بنایا گیا. اصولاً یہ بات ہمارے لیے زیادہ اہم اور ناقابل فراموش ہونا چاہیے، بجائے اس کے کہ ہم اندرونی سیاست سے ان واقعات کی توجیہ تلاش کرنے لگیں.

    اگر مرفی لا پر جنگ مسلط کی جا سکتی ہے تو اس کا دفاع بھی صرف اسی کلیہ سے ممکن ہے. ہر وہ طریقہ جس سے دفاع ممکن بنایا جا سکتا ہے، اسے بروئے کار لایا جائے.
    سیکورٹی ایجنسیز ہوں یا حکومت …. ان کا فوکس جہد مسلسل کے بجائے دعوے کرنے اور داد و تحسین سمیٹنے پر زیادہ محسوس ہوتا ہے. ہمیں یہ بات سمجھ نہیں آ رہی کہ ابھی تو ہم القاعدہ کی باقیات سے ہی نمٹ رہے ہیں جو ایک سیاسی ایجنڈے کو لے کر چل رہی تھی جبکہ ہمارے سامنے ایک نیا غنیم داعش کی صورت لا اتارا جا رہا ہے. یعنی جنگ کا ابھی تو محض ایک محاذ کچھ قابو آیا ہے جبکہ یہ تو چومکھی لڑائی ہے. داعش نہ صرف سیاسی عزائم رکھتی ہے بلکہ اس نے اس مقصد کے لیے معاشی اہداف کو ٹارگٹ کرنے کا طریقہ اپنایا ہے. تیل کا مرکز موصل ہو یا پھر شام کا جنوبی علاقہ، اور اب افغانستان اور بلوچستان سب نقشہ ہمارے سامنے ہے.

    یہ سب سنگین ترین چیلنجز ہیں تاہم ان کا مقصد اس کے سوا اور کچھ بھی نہیں کہ پاکستان ان سے نبرد آزما ہو کر ایک مضبوط علاقائی طاقت اور خود اعتماد قوم بن کر ابھرے. تاہم اس سب کے لیے ہمیں کچھ محنت کرنا ہوگی، چند اور تیروں کا اپنے ترکش میں اضافہ کرنا ہوگا.

    حکومت کا کام ہے کہ وہ ہر صورت گورننس کو بہتر بنائے تاکہ عوام میں مایوسی اور بددلی کا خاتمہ ہو سکے. امن و امان کی صورتحال کو سول سٹرکچر کے ماتحت بہتر بنایا جائے اور بلوچستان میں بھی سب معاملات پولیس کے سپرد ہوں. لیویز کا نظام ختم کر کے سب کو اے ایریا بنایا جائے. نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر پر جنرل جنجوعہ کے بجائے ذوالفقار چیمہ صاحب یا مسعود شریف خٹک صاحب کو لگایا جائے. ہمیں اجیت دوول کی طرح وہ بندہ چاہیے جو مجرم کے دماغ سے بھی سوچنے کی صلاحیت رکھتا ہو. پولیس کی بیک گراؤنڈ والے افسران اس صلاحیت سے مالامال ہوتے ہیں کیونکہ پورے کیریئر میں انہیں جرائم کو قریب سے دیکھنے اور پھر مجرموں کو پکڑنے کے حوالہ سے براہ راست تجربہ ہوتا ہے.

    سیکیورٹی ادارے اور انٹیلی جنس ایجنسیاں ابھی تک صرف یہاں تک پہنچ پائے ہیں کہ ساٹھ سے ستر فیصد حملوں کو پہلے سے روک پاتے ہیں، بقایا حملے ہو تو جاتے ہیں لیکن بعد میں ٹریس ہو جاتے ہیں. یہ کافی نہیں. ہمیں کم از کم 90 فیصد حملے وقت سے پہلے روکنا ہوں گے. نقصان کا احتمال اتنا بڑھانا ہو گا کہ دشمن حملہ کرنے سے پہلے دس بار سوچے.
    یہ جنگ پاکستان کی حدود کے اندر جاری ہے. اسے دھکیل کر سرحد پار واپس کرنا ہوگا. بھارت کوئی بڑا فوجی حملہ نہیں کرے گا. کنٹرول لائن پر فائرنگ جاری رہے گی. مقصد پاکستان کو زچ کیے رکھنا ہے لیکن اس احتیاط کے ساتھ کہ پاکستان کے پاس ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کا کوئی جواز نہ بن پائے. یہ ایک مسلسل دباؤ ہے جس کا سامنا صرف جوابی فائر سے ممکن نہیں. کیا ہم بھارت کو کہیں اور مصروف کر سکتے ہیں؟ یہ اس وقت کا اہم ترین اسٹریٹیجک سوال ہے.

    اس جنگ کو لڑنے اور پھر جیتنے کی دو بنیادی شرائط ہیں ……. گورننس اور منکر نکیر کے درجہ کی انٹیلی جنس. یہ سب ہمیں ایک بڑی اور مضبوط قوم بنانے کا بندوبست ہے ….. کیا ہم تیار ہیں ؟؟؟

  • گدھا گاڑی والا، پچاس لفظی کہانی – صداقت حسین ساجد

    گدھا گاڑی والا، پچاس لفظی کہانی – صداقت حسین ساجد

    میو ہسپتال میں وہ موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا تھی.
    زندگی نے وفا نہ کی.
    وقت پورا ہو چکا تھا.
    گھر جانے کے لیے ورثا کے پاس بندوبست نہیں تھا .
    وہ پریشان تھے .
    ایمبولینس دستیاب نہ ہو سکی.
    ارباب اختیار موج مستیوں میں گم تھے.
    وہ بے پروا تھے.
    گدھا گاڑی والا درد دل رکھنے میں بازی لے گیا..