Blog

  • میں نے تحریک انصاف کی سپورٹ کیوں چھوڑی؟ ارمغان احمد

    میں نے تحریک انصاف کی سپورٹ کیوں چھوڑی؟ ارمغان احمد

    میں قریب قریب سولہ سال سے عمران خان کو سپورٹ کر رہا تھا. الیکشن سے پہلے اور بعد میں بھی تحریک انصاف کے حق میں تھا- کافی دوستوں سے بحث مباحثہ بھی رہتا تھا کہ کون بہتر ہے؟ نون لیگ یا تحریک انصاف؟ آج میں نے تحریک انصاف کو چھوڑ کر نون لیگ کو سپورٹ کرنا شروع کر دیا – میرے سب دوست کافی حیران اور پریشان ہیں میرے اس فیصلے پر. اس لیے سوچا کہ دوستوں کے ساتھ ساتھ ساری دنیا کو بھی بتائیں تحریک انصاف چھوڑنے کی وجہ. Imran-khan4
    سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ تحریک انصاف سے ہمدردی رکھنے والے بیوقوف سمجھے جاتے ہیں اور مجھے شوق ہوا عقلمند بننے کا – دوسری وجہ یہ تھی کہ آج کل کسی بھی اینکر یا کالم نگار کے لیے مشہور ہونے کا سب سے اچھا شارٹ کٹ ہے کہ عمران خان پر تنقید کر دی جاۓ، عمران خان کے سپورٹر خود ہی آپ کو مشہور کر دیں گے – عمران خان پر تنقید کی وجہ سے آپ کو ذہنی بلوغت اور پختگی کا سرٹیفکیٹ تو خود بخود مل جاتا ہے، چاہے آپ کے گھر میں بھی کوئی آپ کی نہ سنتا ہو ، آپ بیٹھے بٹھائے فلاسفر بن جاتے ہیں، ہر پروگرام میں آپ کی شرکت لازمی ہو جاتی ہے. ہر انسان کی طرح میں بھی توجہ کا بھوکا ہوں اور مجھے تو آج تک زندگی میں توجہ نہیں ملی، اس لیے اب کم از کم مجھے توجہ تو ملے گی نا؟
    پھر کچھ ایسا تھا کہ میرے جاننے والے لوگوں میں پڑھے لکھے اور پاکستان سے باہر رہنے والے لوگوں میں اکثریت تحریک انصاف کو سپورٹ کرتی ہے اور ان لوگوں کو دیکھ کر مجھے ہمیشہ احساس کمتری محسوس ہوتا تھا. بڑا مزہ آتا ہے جب میں ان کو جلاتا ہوں اور پوچھتا ہوں ، کدھر گئی سونامی؟ کہاں ہے کے پی کے میں تبدیلی؟وہ پاگل صفائیاں دینا شروع کر دیتے ہیں اور میں منہ چھپا کر ہنستا ہوں اب. بڑی خوشی محسوس ہوتی ہے ان لوگوں کو پاگل بنا کر. ملک کے لیے ان لوگوں کے خلوص کا مذاق اڑا کر ایک عجیب کمینی سی روحانی تسکین حاصل ہوتی ہے. آپ کو یقین نہیں آ رہا کیا؟ کر کے دیکھیں، آ جاۓ گا یقین.
    زندگی میں بھی سکون میں آ گیا ہے اب. کوئی دوست اب عرفان صدیقی صاحب، عطا الحق قاسمی صاحب ، ابصار عالم صاحب، جاوید چوہدری صاحب یا طلعت حسین صاحب کے کسی کالم یا ویڈیو کے لنک میں نہ تو ٹیگ کرتا ہے نہ کوئی سوال پوچھتا ہے. جب میں نعرہ لگاتا ہوں دیکھو دیکھو کون آیا ، شیر آیا ، شیر آیا تو یقین کریں مجھے خود یہ یقین آ جاتا ہے کہ میں ایک شیر ہوں. اس کے بعد پٹرول کی قیمت دل میں جو بھی آگ لگائے، بجلی جتنے مرضی جھٹکے مارے ، میں کہتا ہوں، اک واری فیر ، شیر شیر اور راوی چین ہی چین لکھنے لگ جاتا ہے.
    اور کوئی بھی وجہ نہ ہوتی تو پھر بھی ایک وجہ کافی تھی نون لیگ کو سپورٹ کرنے کی، وہ یہ کہ میرے جتنے بھی شیر دوست تھے سب پر سکتہ سا طاری ہو گیا تھا، بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں تازہ اضافے کے ساتھ اور وہ بہت اکیلا اکیلا سا محسوس کر رہے تھے. آخر وہ بھی ہمارے پاکستانی بھائی ہیں، میں نہیں چاہتا تھا کہ وہ خود کو تنہا محسوس کریں، اس لیے ان کو کمپنی دینے کے لیے میرے ضمیر نے آواز دی کیونکہ مصیبت میں کبھی بھی کسی کو اکیلا نہیں چھوڑنا چاہیے. آخر میں ایک انگریزی فقرہ لکھوں گا ، امید ہے سمجھنے والے سمجھ جائیں گے
    If you can’t convince them, confuse them.

  • مہذب سیکولر ملکوں کی بربریت. جمیل اصغرجامی

    مہذب سیکولر ملکوں کی بربریت. جمیل اصغرجامی

    12923288_10206370299922790_7302688591427071872_n دو ’’مہذب‘‘ اور سیکولر ملکوں کی بربریت کو آشکار کرتی ایک انکوائری رپورٹ۔
    ::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
    متحرم دوستو! ایک ’’بیانیہ‘‘ یہ بھی ہے۔
    :::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
    عراق کی جنگ کے متعلق سرکاری انکوائری کے چیئرمین سر جان چلکوٹ نے سات سال کے طویل عرصے میں مرتب کی گئی رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ عراق کو وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے پاک کرنے کے لیے حملے سے قبل پرامن طریقے اختیار نہیں کیے گئے۔ اس رپورٹ کے مزید اہم نکات کچھ یوں ہیں: chilcotinquiryreport
    ۱۔ اس وقت عراق پر فوج کشی کرنا آخری راستہ نہیں تھا۔ نہ ہی یہ جنگ ناگزیر تھی۔
    ۲۔ وسیع پیمانے پر تباھی پھیلانے والے ہتھیاروں کے خطرے کو بلاوجہ یقینی بنا کر پیش کیا گیا۔ ایسے ہتھیار عراق میں بالکل بھی نہیں تھے۔
    ۳۔ صدام کے بعد عراق کی صورتحال سےنمٹنے کے لیے منصوبہ بندی ناکافی تھی۔
    جنگ کے قانونی جواز پر بحث نہیں کی گئی۔
    ۴۔ برطانیہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اختیارات کی اہمیت کو کم کیا۔
    ۵۔ ناقص خفیہ اطلاعات پر پالیسی مرتب کی گئی۔
    ۵۔ ٹونی بیلئر نے صدر بش کو لکھا کہ: ’جو کچھ بھی ہو میں آپ کے ساتھ ہیں۔‘
    ۶۔ جنگ نے ایک خوفناک انسانی المیے کو جنم دیا جس کی ذمہ داری امریکہ اور برطانیہ پر عائد ہوتی ہے۔
    پس نوشت: عنوان میں ’’سیکولر‘‘ کا لفظ پڑھ، سیکولرازم کے حامی دانشور شدید احتجاج کریں گے اور کہیں گے: ’’بھیا عراق میں جو کچھ ہوا وہ ظلم تھا اس کا سیکولرازم سے کیا تعلق؟‘‘ تو جواباً عرض ہے کہ یہی اُصول اور اس وقت بھی مدنظر رکھا کریں جب آپ تحریک طالبان جیسے جنونی گروہوں اور داعش جیسے پیشہ ور قاتلوں کے کرتوتوں کو لیکر اسلام پر بحثیت مذہب صبح شام چڑھائی کرتے ہیں۔

  • شدت پسندی اور نیو اسلامی سیکولرز

    شدت پسندی اور نیو اسلامی سیکولرز

    دنیا میں شدت پسندی کی لہر کو کوئی سید مودودی ؒ کی فکر سے جوڑتا ہے، کوئی سید قطب کا نام لیتا ہے، کوئی دیوبند مکتب فکر کو منقار زیر پر رکھتا ہے، کوئی سلفی سوچ کو وجہ قرار دیتا ہے اور کوئی ابن تیمیہؒ سے اس کے ڈانڈے ملا دیتا ہے۔ اہل مغرب تو یہ کرتے ہی ہیں مگر ہمارے ہاں کے نئے اور پرانے سیکولرز اور ‘ نیو اسلامی سیکولرز’ بھی دیکھا دیکھی یا سنی سنائی میں یہ راگ الاپ دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں کوئی بیانیہ ہوتا ہے جس سے تشدد پسند فکر غذا حاصل کرتی ہے برادر مکرم عمار خان ناصر نے اس جانب توجہ دلائی ہے کہ ایسا کرنا ٹھیک نہیں ہے، اور ان کا کہنا درست ہے۔ ISIS-Trucks-998x599
    ایک بنیادی بات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اور وہ ہے عمل، جو کسی فکر سے زیادہ ردعمل کا موجب بنتا ہے۔ دونوں لمحہ موجود میں جنم لیتے ہیں، تجزیہ کرتے ہوئے وقت موجود کے عمل اور معروضی حالات کا جائزہ لیا جائے گا اور اس سے نتائج اخذ کیے جائیں گے تو درست نتیجہ پر پہنچا جا سکے گا۔ جدت پسندی کے شوق میں مبتلا حضرات ایک طرف تو یہ کہتے ہیں کہ صدیوں پرانی روایت کو چھوڑ دو اور جدت کے ساتھ قدم سے قدم ملائو مگر ضرورت پڑے تو خود گزری صدیوں سے تانے بانے ملانے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کرتے، اور اپنے ہی اس بیانیے سے متعلق خیال نہیں رہتا کہ دنیا اب بدل گئی ہے اور بدلے ہوئے بھی صدیاں ہونے کو ہیں۔ اگر اہل مغرب کی گزشتہ صدی کی استعماریت کو ماضی سمجھ کر نظرانداز کر دیا جائے، امریکہ نے گزشتہ صدی میں دنیا بھر میں جو جنگیں مسلط کیں، اسے بھی ایک طرف رکھ دیا جائے، سوویت یونین نے کیا گل کھلائے اور اسرائیل اور بھارت کے جاری مظالم سے بھی نظریں ہٹا لی جائیں تو بھی اس وقت دنیا میں موجود انتہا پسندی کے پیچھے گزشتہ دہائی کی امریکہ و مغرب کی ریاستی دہشت گردی اور تشدد کی پالیسی ہے۔ اکثر و بیشتر مسلم ریاستوں نے بھی اس کا ساتھ دیا ہے۔ اس ایک دہائی سے پہلے اور مابعد کے ماحول کو دیکھ لیں تو اندازہ ہو جائے گا کہ دنیا میں اس وقت جو تشدد نظر آتا ہے، اس کا تعلق کسی مکتب فکر سے نہیں بلکہ امریکہ و مغرب کے مسلم علاقوں پر حملوں اور حکومتوں کے خاتمے سے ہے۔ en-destruction-in-iraq2
    افغانستان پر حملہ کرکے اس حکومت کا خاتمہ کر دیا گیا جس نے ایک طویل عرصے کے بعد وہاں امن قائم کر دیا تھا۔ اس کے بعد سے افغانستان اور پاکستان جس صورتحال کا شکار ہیں وہ ہمارے سامنے ہے۔ صدام حسین کو بھی جھوٹ کی بنیاد پر ہٹایا گیا۔ خود برطانوی انکوائری کمیشن نے اس کا بھانڈہ پھوڑ دیا ہے۔ پورے ملک کو تباہ کر دیا گیا، لاکھوں لوگ قتل اور شہر کے شہر برباد ہوئے، اور ملک کے ملک کھنڈرات کا منظر پیش کرنے لگے ہیں۔ بربادی کے اس ملبے سے دولت اسلامیہ و دیگر تنظیموں نے جنم لیا، پورا عرب خطہ اور یورپ اب جن کے نشانے پر ہے۔damaged-buildings-syrian-civil-war دولت اسلامیہ میں سابق عراقی فوجی شامل ہیں، وسعت اللہ خان نے بی بی سی پر اپنے حالیہ تجزیے میں آنکھوں دیکھا احوال بیان کرکے اس کی طرف اشارہ کیا ہے اور اسے پال بریمر کے ایک حکم کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ صدام حسین کی حکومت کا خاتمہ نہ کیا جاتا یا کر دیا تھا تو اس کی ریاستی مشینری کو برقرار دہنے دیا جاتا تو اس انتہا پسندی سے بچا جا سکتا ہے، دنیا کو اس وقت جس کا سامنا ہے، اور جو عراق پر اس بلاجواز جنگ کے مسلط کرنے سے آئی ہے، جس کا ازالہ مغربی دنیا صرف ‘ سوری’ کہہ کر کرنا چاہتی ہے۔ یہی عمل لیبیا میں دہرایا گیا، اور وہاں کی صورتحال بھی سب کے سامنے ہے۔
    مغرب کے خوشہ چیں سیکولرز کا پروپیگنڈہ تو سمجھ میں آتا ہے مگر اس باب میں بھی ‘ نیو اسلامی سیکولرز’ کا پلڑا انھی کی جانب جھکا ہوا ہے، ایک لمحے کو اسے بدنیتی پر محمول نہ کیا جائے تو بھی انسان حیران ہوتا ہے کہ ان کا پلڑا ہمیشہ دوسری جانب کیوں جھکا رہتا ہے، دین اور اسلام کا نام لیتے ہیں تو کچھ تو مسلمانوں کے حق میں بھی آنا چاہیے۔ نئے بیانیے کی ترتیب میں کیا ضروری ہے کہ سیکولرزم کا حلیف بنا جائے، امریکہ و مغرب کو چھوٹ کیا، ایک لحاظ سے ان کا دفاع کیا جائے اور اپنا وزن ان کے بیانیے میں ڈال دیا جائے۔ کیا اس طرح سے کوئی نیا بیانیہ تشکیل پا سکتا ہے؟ اسرائیل اور بھارت میں تو آپ مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں کہ ان کا طرزعمل درست نہیں، کوئی جواز اس کے بارے میں گھڑا جا سکتا ہے، مگر عراق، لیبیا اور شام وغیرہ کو کیسے کسی بیانیے کے ساتھ جوڑا جا سکتا ہے۔ وہ تو وہاں کے معروضی حالات کا نتیجہ ہے۔ سبب اور خالق اس کے مغربی ممالک ہیں اور وہی اس کو بڑھاوا دے رہے ہیں اور اسے بعض ممالک نے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کےلیے پراکسی جنگ کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ کیا اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا درست نہیں ہوگا کہ نئے بیانیے کی ترتیب آپ کی نہیں، ایک ظالم اور جارح کی ضرورت ہے اور اس کے ظلم اور عمل سے پردہ پوشی کر کے اس کے نتائج پر ذمہ داری ڈالی جا رہی ہے، اور اس کے لیے دور سے کوڑیاں لائی اور ملائی جا رہی ہیں۔ مسلم معاشرے میں اس طرز کے بیانیے کا مقدر حسب سابق ناکامی ہی ہے

  • قوم پرستی، سیکولرزم خلیج بنگال میں ڈوب رہا ہے. فیض اللہ خان

    قوم پرستی، سیکولرزم خلیج بنگال میں ڈوب رہا ہے. فیض اللہ خان

    10525943_1543930889188656_8708287563584166301_nبنگال کی موجوں میں پیدا ہونے والے اضطراب سے یونہی سرسری سا نہیں گزرا جا سکتا ۔
    نماز عید کی سیکیورٹی پر تعینات اہلکاروں پہ حملہ ہو، سیکیولرز و ملحد بلاگرز کے قتل کی وارداتیں ہوں یا پھر ڈھاکہ کے انتہائی پوش علاقے میں قائم ریستوران میں کی گئی خوفناک کارروائی، جس میں غیر ملکی مغویوں کو نشانہ بنایا گیا، ان سب کے تانے بانے ایک ہی جگہ جاکر ملتے رہے ہیں، اب تک کیے گئے ان تمام حملوں کی ذمہ واری دولت اسلامیہ یا القاعدہ قبول کرتی آئی ہے۔
    چلیں جی یہ تو ایسے معاملات کا صرف ایک پہلو ہے، اگر دوسرا رخ سامنے رکھیں گے تو کئی بھیانک انکشافات سرmain_0507_3a_waiyee_1 اٹھائے کھڑے ہیں جس میں سب سے بڑا تو یہی ہے کہ ڈھاکہ حملے میں ملوث نوجوان نہ صرف بنگال کے اعلی طبقے کے چشم و چراغ تھے بلکہ ایک نوجوان کا باپ حسینہ واجد کے انتہائی قریبی احباب میں سے ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ تمام نوجوان اعلی تعلیم یافتہ مغربی طرز زندگی کو پسند کرنے والے اور سوشل میڈیا پہ عام طلبہ کی طرح مستعد تھے، لیکن یہ تمام کب کیسے کہاں تبدیل ہوئے؟ اس بارے میں ٹھوس معلومات کا فقدان ہے۔
    بنگلہ دیش پر ہندی اثر و رسوخ ڈھکا چھپا نہیں، قیام پاکستان کے پہلے سے ہی ہندو اساتذہ، شعراء اور دانشور وہاں جڑیں پکڑ چکے تھے۔ ان کے زیر سایہ ایسے لاتعداد شاگرد نکلے جنھوں نے سیکیولرازم، الحاد، قوم پرستی اور پاکستان دشمنی کی فصل کو پروان چڑھانے میں اپنا مکروہ کردار ادا کیا۔ اس کا یہ مطلب بالکل بھی نہیں کہ ہم مشرقی پاکستان کی علیحدگی کو صرف بنگالی قوم پرستوں اور ہندی چالوں کو قرار دے کر بری الذمہ ہو جائیں مقصد صرف اس پہلو کی جانب اشارہ ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ مغربی پاکستان کی سول و ملٹری اشرافیہ اور اقتدار میں موجود سیاست دانوں کو صاف چٹ دی جائے کہ وہ معصوم تھے، بلاشبہ ان کے حقارت و نفرت آمیز غیر انسانی رویوں کی وجہ سے بنگالی مزید مشتعل ہوئے اور ملک دولخت ہوا۔
    پاکستان سے بنگالیوں کی جدائی کے بعد قوم پرستی کا زہر عوام کے اذہان میں مزید انڈیلا گیا لیکن یہ طرفہ تماشا اور بڑا ہی ستم ظریفی پر مبنی سنگین لطیفہ ہے کہ قوم پرستی کے جوھڑ سے مذہبی انتہا پسندی برآمد ہوئی جس نے بنگال کے سماج کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ جو کچھ گزشتہ عرصے میں وہاں ہوا، اس کا تو بنگالی دانشوروں نے سوچا بھی نا تھا۔ معاملے کا مزید بھیانک پہلو یہ ہے کہ انتہا پسندی کا علم اٹھانے والے حکمران طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جو مذہب بیزار بھی ہیں۔
    یہاں یہ امر دلچسپ ہوگا کہ گزشتہ دنوں ایک ملحد بلاگر کے قتل میں ملوث جس نوجوان کو گرفتار کیا گیا تھا، اس کا تنظیمی تعلق تو القاعدہ سے تھا ہی مگر وہ ایک وفاقی وزیر کا سگا بھتیجا بھی نکلا۔ اس 6da60_You-will-be-shocked-to-know-about-Terrorists-of-Dhaka-Attack1حملے کے حوالے سے دعوی کیا گیا تھا کہ حملہ آور جماعت اسلامی کے طلبہ بازو سے وابستہ ہیں لیکن جب حقائق سامنے آئے تو سرکار کو چپ لگ گئی۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی میڈیا کی شرانگیزی کے باوجود بنگلہ دیشی حکومت نے پاکستان کے ملوث ہونے کی تردید کی ورنہ حسینہ واجد کی متعصب حکومت ان سارے معاملات کو پاکستان سے جوڑ سکتی تھی۔ مگر کیا کیجیے کہ اس بار شواہد اتنے ہولناک ہیں کہ خود حسینہ واجد بھی پریشان ہے۔ یہ پہلو بھی مدنظر رکھنا ہوگا کہ بنگال کا سرکاری بیانیہ کبھی جہادی نہیں رہا، حکومت نے ہمیشہ قوم پرستی و سیکیولرازم کی ترویج و اشاعت کی لیکن اس کے باوجود یہ سب کچھ ہونا خطرے کی علامت ہے
    مصر تا بنگال یکساں معاملہ یہ ہے کہ جہاں جہاں جمہوری اسلامی قوتوں کو ظلم کا نشانہ بنایا گیا وہاں یقینی طور پہ کچھ ایسے گروہ پیدا ہوئے جنھوں نے اپنی اپنی جماعتوں کے جمہوری طرز فکر کو خیر باد کہا اور جہادی گروپوں میں شمولیت اختیار کی۔ اس کے بعد جو کارروائیاں کی گئیں، اس سے سب ہی کو بلا تخصیص نقصان پہنچا اور یہ سلسلہ دراز ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ کرنے کا کام تو یہ تھا کہ حسینہ واجد کی سرکار اسلام پسندوں سے مفاہمت کی راہ اختیار کرتیں لیکن ان کے سینے میں دبی انتقام کی آگ سرد ہوکے ہی نہیں دے رہی، اور سلسلہ یونہی رہا تو اس کے شعلے ہند کو بھی لپیٹ میں لے سکتے ہیں جس کی طویل سرحد بنگال سے متصل اور بالکل پورس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بنگال کا اضطراب پڑوسی ہندوستان میں محسوس ہو رہا ہے اور ہندی ریاست کے بڑے اس نئے خطرے کے تدارک کے لیے سر جوڑے بیٹھے ہیں کیونکہ وہاں سے بھی متعدد مسلمان نوجوانوں کی دولت اسلامیہ میں شمولیت کے آثار ملے ہیں یہاں تک کے القاعدہ کے برصغیر چیپٹر کے سربراہ عاصم عمر کا تعلق بھی ہندی گجرات سے ہے اور وہ بھارتی شہری ہیں۔ گزشتہ دنوں ممبئی کے حوالے سے خبریں آئی تھیں کہ وہاں کے نوجوان ایک بغدادی لاحقے والے صحافی کو ابوبکر البغدادی سمجھ کر پیغام بھیجتے اور داعش میں شمولیت کا طریقہ پوچھتے رہے۔urn-publicid-ap.org-08765b8d75984f79bc58303d72e5dbbc
    یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ بنگال میں حملہ کرنے والے القاعدہ و دولت اسلامیہ نے اپنی کارروائیوں کو کبھی بھی جماعت اسلامی کی قیادت کو ملنے والی پھانسیوں سے نہیں جوڑا اور نہ ہی ان اقدامات کا انتقام قرار دیا ہے بلکہ ان کا اپنا ہی منہج و ایجنڈا ہے جو کہ جمہوری اسلامی جماعتوں کے اجتہاد سے ٹکراتا ہے۔
    پاکستان کے لیے اطمینان بخش صورتحال یہ ہے کہ ہندی و بنگالی ان کارروائیوں کے لیے اس پر الزامات نہیں لگا سکتے۔ ایک آدھ ہندی اخبار اور چینل نے دھول اڑانے کی کوشش کی لیکن اس کا جواب سرکاری سطح پہ بنگلا دیش نے ہی دے دیا۔
    بنگال میں جدید رجحانات رکھنے والے نوجوانوں کی دولت اسلامیہ میں شمولیت نے کئی سوالیہ نشان کھڑے کر دیے ہیں۔ بنگلادیش کی سول و ملٹری اشرافیہ اس نئی تبدیلی پہ بہت زیادہ خوفزدہ ہے کیونکہ شدت پسندی کی لہر باہر سے نہیں ، اندر سے پھوٹی ہے اور اس میں عوامی لیگ جیسی قوم پرست و سیکیولر جماعت کے اعلی عہدیداروں کے گھروں کے بچے شامل ہیں۔ اس صورتحال سے فی الحال نمٹنے کے لیے مار دھاڑ کے سوا ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں اور یہ تو سامنے کی بات ہے کہ تشدد سے محض تشدد ہی جنم لیتا ہے۔ باقی رہا قوم پرستی کا سرکاری بیانیہ تو فی الحال اسے خلیج بنگال میں غرقاب ہوتے ملاحظہ کیجیے۔ ابھی کا منظر تو یہی ہے جو دیکھنے لائق بھی ہے اور اپنے اندر عبرت بھی رکھتا ہے

  • تدبیر اولیٰ – ابو محمد مصعب

    تدبیر اولیٰ – ابو محمد مصعب

    12003294_10204732813258553_3770925726005018371_nمیرا ایک افغانی دوست ہے۔ عیال دار ہے۔ محنت مزدوری کرکے کنبہ پروری کرتا ہے۔ دبئی سے کوئی ستر کلومیٹر دور ایک چھوٹے سے قصبہ میں رہائش رکھی ہوئی ہے۔ عربی اچھی بول لیتا ہے اس لیے یہاں کی لوکل آبادی کے ساتھ بھی گہرے مراسم ہیں۔ ان کے مزاج اور کلچر کو سمجھتا ہے۔ میں نے سوچا کہ اس بار کیوں نہ عید اس کے ساتھ منائی جائے۔ یہ سوچ کر عید کی رات رخت سفر باندھ لیا اور جا پنہچا اس کے آستانے پہ۔
    رات کو دیر تک گپ شپ ہوتی رہی اور نماز فجر سے کوئی ایک گھنٹہ قبل میں نے کمر سیدھی کرنے کی اجازت چاہی۔ آذان فجر ہوئی تو اس نے مجھے آواز دے کر اٹھایا، میں نہایا دھویا اور گھر کے قریب ہی مسجد میں نماز فجر پڑھی۔ یہاں چوں کہ سورج نکلتے ہی عید کی نماز ادا کرلی جاتی ہے، لہٰذا تھوڑی دیر کے لیے گھر واپس آئے، پھر واپس مسجد گئے اور نماز عید ادا کی۔ نماز کے بعد اس نے مجھے دن کے شیڈول سے مطلع کیا۔ پھر ہم دونوں اس کی گاڑی میں سوار ہو کر پانچ منٹ کی ڈرائیو پر اس کے ایک ہم وطن دوست کے گھر پنہچ گئے۔ جہاں ہم سے پہلے ہی کچھ لوگ، افغان روایت کے مطابق فرشی نشست پر تشریف رکھتے تھے۔ ایک وسیع دسترخوان تھا جس کے چاروں کناروں پر پھلوں کے بڑے بڑے طشت، انواع اقسام کے میووں سے بھرے رکھے تھے۔ چائے کے تھرماس اور کپ، ایک ترتیب کے ساتھ دھرے تھے۔ بڑی بڑی گول رکابیوں میں لبنانی بیکری کے بسکٹ بھی وہیں جڑے تھے۔ پشتو کی تو ہمیں سدھ بدھ نہیں اس لیے گفتگو میں کم ہی حصہ لیا، البتہ کھانے کی چیزوں کے ساتھ ہم نے خوب انصاف کیا۔ کوئی ایک گھنٹہ وہاں رہنے کے بعد ہمارے دوست نے اجازت چاہی اور پھر قریب ہی ایک دوسرے افغان دوست کے گھر میں جا گھسے۔ وہاں بھی وہی ماحول تھا۔ فرشی نشست۔ گاؤ تکیے۔ انواع اقسام کی پر تکلف ماکولات۔ ایک گھنٹہ وہاں گزارنے کے بعد گھر کی طرف چل پڑے۔ تھوڑی دیر کے لیے آرام کیا۔ اتنے میں ظہر کی نماز کا وقت بھی ہوا چاہتا تھا۔ نماز کے بعد دوست نے گاڑی اسٹارٹ کی اور کہنے لگا کہ چلو!۔ میں نے پوچھا، کہاں؟ کہنے لگا اسی گھر میں کھانے کے لیے۔ میں نے حیران ہوکر کہا: کھانا؟ تو پھر یہ کیا تھا جو ہم نے ابھی دو تین گھنٹے قبل کھایا تھا؟ کہنے لگا، او بھائی یہ بھی کوئی کھانا تھا، یہ تو بس ایسے ہی مہمان نوازی تھی۔ کھانا اب ہے۔ کوئی خاص طلب تو نہیں تھی مگر جانا پڑا۔ کہ ہمارے افغان بھائی مہمانوں کو گن پوائنٹ پر چلاتے ہیں۔ تھوڑی ہی دیر میں ہم کھانے والی جگہ پر پنہچ گئے۔ دس بارہ افراد پہلے ہی سے موجود تھے۔
    افغان کلچر کے مطابق جب بھی کوئی فرد مجلس میں داخل ہوتا تو باآوازِبلند سلام کرتا اور تمام اہل مجلس اپنی اپنی جگہوں سے اٹھ کر کھڑے ہوتے۔ اس کے بعد ایک ایک فرد سے ملتا۔ بیٹھنے کے بعد، نیا آنے والا فرد ایک فرد کی طرف متوجہ ہو کر کچھ الفاظ کہتا جو مجھے تو کچھ اس طرح لگے:
    حاجی صیب، جوڑ اے، تکڑا اے، راضی اے وغیرہ۔ یہ عمل وہ باری باری سب کے ساتھ کرتا۔ اگر مجلس میں دس افراد پہلے سے موجود ہوں اور پانچ نئے افراد آ جائیں تو یہی کچھ کرتے ہیں۔ ہر فرد دوسرے کی طرف دیکھ کر اسی طرح حال احوال پوچھ رہا ہوتا ہے اور ایک ہی وقت میں جب پانچ افراد دس افراد کو مخاطب کرکے یہ مشق کر رہے ہوں تو یہ منظر بڑا دلچسپ ہوتا ہے جس کو صرف محسوس کیا جاسکتا ہے، الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ ایسا لگتا ہے کہ چاروں طرف سے ایک دوسرے کے اوپر فرینڈلی کراس فائر ہو رہے ہیں۔
    کھانے میں صرف ایک سالن کی ڈش باقی افغانی پلاؤ جس پر کشمش کے دانے چمک رہے ہوتے ہیں۔ بغیر مسالے کے بھنا ہوا گوشت جو اتنا لذیذ کہ آدمی انگلیاں چاٹتا رہ جائے۔ چاہے جتنا کھالے نہ چبانے میں مشکل نہ معدے پہ بھاری۔ الگ پلیٹ میں کھانے کے بجائے، دو دو افراد مل کر ایک رکابی میں کھاتے ہیں اور آپس میں گپ شپ بھی کرتے جاتے ہیں۔ سچ پوچھیں تو مشرقی کلچر کے ان پرخلوص مناظر نے روح کو وہ سرور بخش دیا ہے کہ وجدان اب تک اس کی سرشاری کی لذت میں جھوم رہا ہے۔
    میرا یہ افغانی دوست بھی عجیب شے ہے۔ محفل کی رونق اور زندہ دل انسان۔ روزگار کا کوئی خاص ذریعہ نہ ہونے کے باوجود ہمیشہ خوش و خرم اور مطمئن رہتا ہے۔ میں نے توکل کا سبق اسی سے سیکھا ہے۔ اس کے بروقت اور چست جملے بڑے زبردست ہوا کرتے ہیں اسی لیے یہ اپنے ہم وطن لوگوں میں بہت جلد مقبول ہوگیا ہے۔ مگر اس کی ایک علت ہے جو کہ تقریباََ ہر پشتون کے اندر پائی جاتی ہے وہ ہے نسوار کی عادت۔ محفل میں بیٹھتے ہی سب سے پہلا کام یہی کرتا ہے کہ چٹکی لے کر ہونٹ کے نیچے دبا لیتا ہے۔ پھر وہیں پڑے اگدان میں اگلتا رہتا ہے۔ گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے بھی باز نہیں آتا۔ ابھی بتا رہا تھا کہ میرے ساتھ ایک بہٹ بڑا حادثہ ہوگیا۔ میں ڈر گیا اور پوچھا، کیا ہوا۔ کہنے لگا، رمضان میں میری نسوار ختم ہوگئی پھر بڑی مشکل سے ایک دوست سے لے کر آیا۔ آج ہی جب نماز ظہر کے لیے آذان ہوچکی اور میں وضو کے لیے اٹھا تو اس نے نسوار لے کر منہ میں ڈال لی۔ میں نے کہا: بندہء خدا!، ادھر تکبیر اولیٰ ہونے والی ہے اور تم نے نسوار منہ میں رکھ لی ہے؟ کہنے لگا کہ تکبیر اولیٰ سے قبل یہ ’’تبدبیراولیٰ‘‘ کرنی پڑتی ہے۔ اور میں مسکرا کر رہ گیا۔
    باتوں باتوں میں یہاں کے عربوں کی اچھائیاں گنوانے لگا۔ کہنے لگا آپ کو اندازہ ہی نہیں ہے کہ ان میں کتنے خداترس اور اچھے لوگ موجود ہیں جو راہ خدا میں اس خاموشی سے مال خرچ کرتے ہیں کہ ایک ہاتھ کی خبر دوسرے کو نہیں ہوتی۔ بتا رہا تھا کہ میرے ساتھ اکثر یہ ہوتا ہے کہ جب میں بجلی کا بل ادا کرنے کے لیے گیا تو میرے حساب سے تین چار ماہ کا بل میرے ذمہ تھا۔ لیکن مجھے بتایا گیا کہ تمہارا بل کسی شخص نے ادا کردیا ہے۔ اس کے بعد ایک بار پھر یہی ہوا۔ کسی اللہ کے بندے نے میرا بل ادا کردیا اور میں اب تک سوچتا رہتا ہوں کہ کون فرشتہ صفت ہے جو مجھ پر اتنا مہربان ہے۔
    کہنے لگا کہ یہاں ایسے ایسے لوگ بھی ہیں جو اسکولوں میں جاتے ہیں اور اپنا تعارف کروائے بغیر انتظامیہ سے ان بچوں کے ناموں کی فہرست طلب کرتے ہیں جن کے ذمہ اسکول کی فیس ہو۔ پھر اپنی طرف سے ان کی فیس ادا کرکے رسید لے کر چلے جاتے ہیں۔ نہ اپنا نام بتاتے ہیں اور نہ ہی بچے کو یا اس کے والدین کو معلوم پڑتا ہے کہ کس نے ان کے واجبات ادا کیے۔
    اسی طرح کریانہ کی دوکانوں اور گروسریوں پہ چلے جاتے ہیں۔ دوکاندار سے مقروضوں کی لسٹ لیتے ہیں۔ کئی نام ہوتے ہیں جن کے آگے معمولی معمولی رقوم لکھی ہوتی ہیں۔ یہ لوگ وہیں کھڑے کھڑے ان غریب لوگوں کے بقایہ جات ادا کر دیتے ہیں۔ ان کے بقول یہ ہیں وہ اصل مستحق افراد جو بھکاری نہیں، لوگوں کے پیچھے پڑ کر پیسے نہیں مانگتے مگر اتنی آمدن بھی نہیں رکھتے کہ سو پچاس کی رقم ادا کرسکیں، لہٰذا ایسے افراد کی مدد کرنا ہمارا فرض ہے۔
    سچ ہے کہ یہ دنیا یوں ہی نہیں چل رہی، اللہ کے ہزاروں نیک بندے ایسے ہیں جو محتاجوں اور مسکینوں کی مدد اس طرح کر رہے ہوتے ہیں کہ ان کی عزت نفس مجروح ہونا تو درکنار ان کو خبر تک نہیں ہوتی کہ کون فرشتہ ان کی دستگیری کر گیا۔

  • مولانا حسین احمد مدنی، علامہ اقبال اور مسئلہ قومیت

    مولانا حسین احمد مدنی، علامہ اقبال اور مسئلہ قومیت

    12998662_495083187342582_6939051583715569058_nمولانا حسین احمد مدنی عظیم عالم دین اور تحریک آزادی ہند کے نامور لیڈروں میں سے تھے، انھوں نے ساری زندگی اتحاد کی دعوت دینے اور انگریز کے خلاف لڑائی لڑتے گزاری. چار سال مالٹا میں قید رہے، کراچی میں ان پر مقدمہ چلا، کئی مرتبہ جیل ہوئی. مولانا ہندو مسلم اتحاد کے بڑے داعی تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ ہندوستان سے انگریز کی بے دخلی
    تبھی ممکن ہوگی جب ہندو اور مسلمان متحد ہوں گے. انھوں نے خود ہندو اور مسلمانوں کو متحد کر کے انگریز کے خلاف تحریک چلائی. وہ کسی بھی ایسی سرگرمی کو سخت ناپسند کرتے تھے جس سے ہندو مسلم اتحاد کو نقصان پہنچے.
    مولاناحسین احمد مدنی کے ساتھ ظلم یہ ہوا کہ لوگوں نے اتحاد کی ان کوششوں کا یہ مطلب نکالا کہ مولانا ایک قوم پرست لیڈر ہیں اور وہ جدید قومی ریاستوں کو درست سمجھتے ہیں حالانکہ انھوں نے کبھی بھی رائج الوقت قومیت کی دعوت نہیں دی. یہ ضرور تھا کہ وہ انگریز کے مقابلے کے لیے ہندو مسلم اتحاد کو ضروری سمجھتے تھے. 20150727125235 یہ ایک خالص مقامی اور داخلی ضرورت تھی جس کے پیش نظر انھوں نے بعض اوقات قومیت کی بات کی لیکن اس قومیت کا جدید قومی ریاستوں سے کوئی تعلق نہیں تھا. بعض قوم پرستوں نے اپنے نظریات کو مسلم معاشرے میں معتبر بنانے کے لیے مولانا مدنی کو بھی ایک قوم پرست لیڈر قرار دیا حالانکہ وہ کبھی بھی قومیت کے داعی نہیں رہے. وقت کی ضرورت سمجھتے ہوئے ہندو مسلم اتحاد کے قائل صرف مولانا مدنی ہی نہیں تھے بلکہ ابتداء میں قائداعظم بھی اس خیال کے حامل تھے، حضرات علمائے کرام میں سے مولانا ابوالحسن علی ندوی، شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا اور مجلس احرار کے علماء بھی یہی سمجھتے تھے. مگر ہندو مسلم اتحاد کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ جو اتحاد کی بات کرے گا وہ معروف معنوں میں قوم پرست بھی ہوگا.
    بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ علامہ اقبال نے مولانا مدنی کے خلاف جو اشعار کہے تھے وہ ان کے قوم پرستانہ افکار کی وجہ سے کہے تھے. ہمارے دوستوں کو اشعار یاد رہے لیکن مولانا مدنی اور علامہ اقبال کی وہ خط و کتابت یاد نہ رہی جس میں مولانا مدنی نے قوم پرستی سے برأت کا اعلان کیا تھا. مولانا مدنی نے ایک جگہ تقریر کرتے ہوئے جب یہ کہا کہ ” آج کل قومیں وطن کی بنیاد پر بنتی ہیں ” تو علامہ اقبال نے خفا ہو کر یہ تین شعر موزوں کر دیے تھے Allama-Iqbal
    عجم ہنوز نہ داند رموز دیں ورنہ
    ز دیوبند حسین احمد این چہ بوالعجبی ست
    سرود برسر منبر کہ ملت از وطن ست
    چہ بے خبر ز مقام محمد عربی ست
    بمصطفی پرساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
    اگر بہ اونر سیدی تمام بولہبی ست
    علامہ اقبال کے ان اشعار کے بعد مولانا مدنی اور ان کے درمیان مولانا طالوت کے واسطے سے مراسلت ہوئی . علامہ اقبال نے کہا کہ ” اگر مولانا نے مسلمانان ہند کو یہ مشورہ دیا ہے کہ وہ جدید نظریہ وطنیت کا اختیار کریں تو دینی پہلو سے اس پر مجھ کو اعتراض ہے.” اس پر مولانا مدنی نے لکھا کہ ” میں یہ عرض کر رہا تھا کہ موجودہ زمانے میں قومیں اوطان سے بنتی ہیں . یہ اس زمانے کی جاری ہونے والی نظریت اور ذہنیت کی خبر ہے . میں نے یہ نہیں کہا کہ ہم کو بھی ایسا کرنا چاہیے. ایک امر واقعہ کی خبر دی گئی ہے نہ کہ اس
    کا حکم ہے. پھر اس کو مشورہ قرار دینا کس قدر غلطی ہے” مولانا مدنی کی اس وضاحت کے بعد علامہ اقبال نے لکھا کہ ” خط کے مندرجہ بالا اقتباس سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ مولانا اس بات کا صاف انکار کرتے ہیں کہ انھوں نے مسلمانان ہند کو جدید نظریہ قومیت اختیار کرنے کا مشورہ دیا. لہذا میں اس بات کا اعلان ضروری سمجھتا ہوں کہ مولانا کے اس اعتراف کے بعد مجھے ان پر کسی قسم کے اعتراض کا کوئی حق نہیں رہتا “….
    یہ تھی اس اختلاف کی حقیقت جسے لے کر مولانا مدنی کو وقتا فوقتا ایک قوم پرست لیڈر ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے. حقیقت یہ ہے کہ مولانا جدید قومی ریاستوں کو
    مسلمانوں کے لیے درست نہیں سمجھتے تھے. انھوں نے جہاں کہیں بھی قومیت کی بات کی اس سے مراد انگریز سے آزادی کےلیے ہندو مسلم اتحاد تھا اور بس.

  • مذہبی طبقے کا اخلاقی بحران – مجاہد حسین

    مذہبی طبقے کا اخلاقی بحران – مجاہد حسین

    482921_4302145965119_2052185217_n مذہبی طبقہ جس قسم کے اخلاقی بحران کا شکار ہے، اس کے نمونے پورے سوشل میڈیا پرجا بجا بکھرے ہوئے ہیں۔ ان سب کو دیکھ دیکھ کردل بہت کڑھتا تھا۔ تاہم آج اسلامسٹس کی ایک نئی ویب سائٹ (دلیل) پر ایسا مضمون نظر سے گزرا جس نے ضبط کے سارے بندھن توڑ دیے۔ میں سمجھتا ہوں اب کھل کر اس رویے پرتنقید ہونی چاہے تاکہ اصلاح کی کوئی صورت پیدا ہو۔
    سب سے پہلے میں ایک لبرل لکھاری کے مضمون میں سے چن چن کرقابل اعتراض الفاظ اور فقرے آپ کے سامنے رکھتا ہوں، اس کا جواب اسلامی طبقے کے ایک نمائندہ مصنف نے لکھا۔ اس میں سے بھی قابل اعتراض لفظ اور فقرے آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں. آخر میں ایک نئےلکھاری کے مضمون کی چند جھلکیاں پیش کروں گا. اوریا مقبول جان کے جواب میں فرنود عالم نے ایک مضمون لکھا جس کا عنوان تھا “حیا نہیں ہے ’فلانے‘ کی آنکھ میں باقی”۔ اس کے چند سب سے قابل اعتراض الفاظ اورفقرے ملاحظہ کیجیے۔

    ۔۔۔جو پاکیزہ نگاہیں بالنگ کراتی لڑکی کی آر پار نکل گئیں1913661_578720588948497_3649350239332541835_n
    ۔۔۔جن کا ایمان انوشکا شرما کی رعنائیوں سے نہیں ڈگمگایا
    ۔۔۔سات پردوں میں بیٹھی کسی حسینہ کا ایکسرے لے لینا بھی کوئی مشکل نہیں
    ۔۔۔ ان حلقوں میں ابھی وہ وقت آنا باقی ہے جب انہیں یقین ہوگا کہ عورت کی ٹانگیں اور بھی بہت کچھ کرنے کے کام آتی ہیں، مثلا دوڑلگانا
    ۔۔۔ آپ کی نگاہ اگر ناف کے گرد ونواح میں اٹک کر رہ گئی ہے تو اس میں قصور یقینا آپ کے زاویہ نگاہ کا ہے۔

    اب چند فقرے ان صاحب کے جنہوں نے اس مضمون کا اپنی وال پرجواب دیا ہے اوران کی پوسٹ کے نیچے ان کے مداحین نے تعریفوں کے پل باندھے ہوئے ہیں۔

    10941902_1385251575116695_6636132306759483348_n۔۔۔ یا تو جھنڈے لگا کر شرمگاہ کے پجاری شہوت کے ریسا مردوں کے سامنے ٹانگیں اٹھا کر رکھیں انگ انگ کھول کھول کر دکھائیں یا پھر زندہ درگور ہوجائیں
    ۔۔۔ جینز یا ٹراوزر میں پی کیپ پہنی عورت نما جانور
    ۔۔۔ بلکہ اوپر پنڈلی سے لپٹا پاجامہ اور پھر ران کی موٹائی اور کمر کی نازکی اور پھر چھاتیوں کی اٹھان اور گریبان کی گہرائی میں جھانکنا شروع کر دیتی۔۔
    ۔۔۔ جی ان باحیاؤں کے ہاں بچی میٹرک میں ہی ماں بن جاتی ہے اور ایک ڈاکیا تیرہ سو لبرلز کا ابا نکلتا ہے جی
    ۔۔۔۔ ارے آپ کا ایمان سارہ کی بالنگ کے دوران غباروں کی سٹ سٹینڈ یا منگل بدھ پر اتھل پتھل نہیں ہوتا تو۔۔۔
    یہ صرف چند نمونے ہیں جناب نوفل ربانی کی تحریرسے۔ خود فیصلہ کیجئے کہ کیا کوئی ذہن جس میں اسلام بسا ہو، اسقدرکراہت سے بھرپورجملے لکھ سکتا ہے؟
    ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
    اب آئیے نئی ویب سائٹ (دلیل) پر شائع ہونے والے مضمون کی طرف۔ پڑھیے اور سر دھنیے۔
    مضمون نگار رضوان رضی لبرلز کے بارے میں فرماتے ہیں۔۔11987158_1015569631828227_2469661962038679454_n
    ۔۔۔ جی ہاں یہ خاندانی ایجنٹ ہوتے ہیں ۔اور ہر دور میں ہوتے ہیں۔ کوئی بھی ہو۔ کبھی یہ کمیونزم اور سوشلزم کبھی کیپٹل ازم، اور کبھی اسلام ، انہیں اس سے غرض نہیں کہ آقا کون ہے۔ یہ تو بس خاندانی اور پیشہ ورانہ ایجنٹ ہوتے ہیں۔
    ۔۔۔۔ ان کی جائز و ناجائز اولادیں آج بھی انہی اعتراضات کی جگالی کرکے لوگوں کو گمراہ کرنے میں مصروف ہیں
    ۔۔۔ اب ان کی دم پر پاؤں آ گیا ہے اور انہوں نے سوشل اور مین سٹریم میڈیا پر اوریا صاحب کے خلاف ایک یلغار کردی ہے۔
    ۔۔۔۔۔ جواب اس قدر بھرپور اور جامع تھا چاوں چاوں کی آوازیں چاردانگِ عالم میں برآمد ہو رہی ہیں۔

    بخدا آپ اس قسم کی تحریریں جی بھرکے لکھیے لیکن پھراسلامسٹ کے کیمپ سے باہر نکل جائیے ۔ یقین کریں کسی لبرل کی مجال نہیں کہ وہ اس کیمپ کو اتنا نقصان پہنچائے جتنا آپ کا یہ لب ولہجہ پہنچا رہا ہے۔

  • استاد ہارون الرشید – عامر خاکوانی

    استاد ہارون الرشید – عامر خاکوانی

    11866265_1085617161465765_1795389247132538024_n ممتاز مفتی نے ایک بار لکھا تھا، انسان کی ذات کے اندر شالامار باغ ہوتا ہے ، کہیں بارہ دری اور سبزہ زار تو کہیں پر اندھیری کوٹھڑی اور جھاڑ جھنکار‘‘ منفرد کالم نگار ہارون الرشید کی شخصیت البتہ اس اعتبار سے منفرد ہے کہ انھوں نے اپنے اندر کے جھاڑجھنکار بڑی حد تک صاف کر لیے ۔ان کے شالامار میں کہیں صوفیوں کی خانقاہ تو کہیں داستان گوئی کی محفلیں، کسی کونے میں بے جگر سورما شمشیر زنی میں مصروف توکہیں شاعروں کے نغمے گونج رہے ہیں۔ یہ مختلف پہلو اور پرتیں ان کی گفتگو اور تحریر میں جھلکتے رہتے ہیں۔ ہارون الرشید قدیم عرب میں پیدا ہوتے تو ان کا شمار بڑے کلاسیکی عرب شعرا میں ہوتا، ایکلیز کے زمانے میں ہوتے تو وہ ٹرائے کے لازوال معرکے میں حصہ لیتے اور ان کی لکھی رزمیہ داستانیں اوڈیسس اور کے ساتھی گاتے پھرتے ، رومیوں میں ہوتے تو قرطاجنی سپہ سالار ہینی بال کے حملوں کی روداد رقم کرتے۔ داغستان میں ہوتے تو امام شامل کے ساتھیوں میں ہوتے۔ نقشبندیہ سلسلے کے عالی قدر صوفی اور سالار امام شامل جن کے شاگرد حاجی مراد کا قصہ تاریخ انسانی کے سب سے بڑے فکشن رائٹر ٹالسٹائی نے رقم کیا۔ ہر عہد میں ہارون الرشید کا تعلق جنگجوئوں اور صوفیوں سے لازمی ہوتا کہ یہ ان کے خمیر کا حصہ ہے۔ ان کے ممدوح ہمیشہ وہ سالار رہے جن کے آہنی بدن میں شاعر کی رومانویت اور صوفی کا گداز رچے بسے ہوں۔ سوال تو یہ ہے کہ وہ کسی اور عہد میں پیدا کیوں ہوتے ؟… تقدیر نے انھیں برصغیر کے اس حرماں نصیب خطے میں ایک خاص تناظر کے ساتھ پیدا کیا اور قلم ہاتھ میں تھمایا۔حوصلوں کی گرتی فصیلوں کو استوار کرنا اور شکستہ دلوں میں نئی روح پھونکنا ان کا مقسوم ٹھہرا … اور وہ یہ کام بڑی ہنرمندی سے کر رہے ہیں۔ان کی زندگی کے چار عشرے صحافت کی وادی خارزار میں گزرے ۔ رپورٹنگ سے ابتدا کی، پھر نیوزروم، میگزین اور ایڈیٹوریل سب شعبوں میں کام کیا اور اپنی انفرادیت برقرار رکھی۔ ان کا شمار اردو کے منفرد کالم نگاروں میں ہوتا ہے، ایسا سٹائلسٹ کالم نگار جس کی نقل کرنا تقریباً ناممکن ہے۔
    11953270_881729905240801_1186134301142248371_n کلاسیکی عربی لٹریچر اور تاریخ کی سبق آموز داستانوں سے مرصع نثر لکھنے والے ہارون الرشید کی زندگی میں کئی نشیب و فراز آئے ۔ وہ خود کہتے ہیں،’’ اخبارنویس برادری نے تین بار مجھے مار کر میری قبر بنادی تھی۔یہ مطمئن تھے کہ اب تو ہارون الرشید کی قبر پر گھاس بھی اگ آئی ہے، صرف میں جانتا تھا کہ میں ابھی زندہ ہوں اور ایک دن مجھے لوٹنا ہے ۔‘‘ اسی کی دہائی کے اواخر میں پہلی بار وہ منظر عام سے غائب ہوئے ، مگر پھر فاتح جیسی بیسٹ سیلر اور دھماکہ خیز کتاب کے ساتھ واپس آئے۔ پھر نوے کی دہائی میں ایسا ہوا۔ وہ اپنے آبائی شہر واپس چلے گئے اور وہاں کاروبار شروع کر دیا۔کچھ عرصے کے بعد ہفتہ میں ایک کالم لکھنا شروع کیا۔ اس سے انہیں بریک تھرو مل گیا۔ ان کا تیسرا فیز کچھ سال پہلے شروع ہوا جب انہوں نے خاصی طویل خاموشی کے بعد پہلے نوائے وقت میں کالم لکھنا شروع کیا، پھر ایکسپریس، جنگ اور آج کل دنیا میں کالم نگاری کر رہے ہیں۔11899759_882328558514269_1168362891835752148_n
    تاریخ پیدائش‘ گیارہ دسمبر 1952ء‘ لوئر مڈل کلاس خاندان سے تعلق‘ آبائی علاقہ کپورتھلہ‘ جالندھر۔ 47ء میں والد ہجرت کر کے پاکستان آئے۔ چک 42 جنوبی سرگودھا میں چند ایکڑ زمین الاٹ ہوئی۔ والد عبدالعزیز صاحب پہلی جنگ عظیم کے فوجی رہے‘ وہ ایک ڈسپلنڈ شخص تھے۔ اہلحدیث مسلک سے تعلق کے باوجود وہ مولانا احمد علی لاہوری سے بیعت تھے۔ انھیں کسی واقعہ کی جزئیات پوری صحت اور تفصیل کے ساتھ بیان کرنے میں ملکہ حاصل تھا۔ ہارون الرشید کے بقول مجھے کہانی میں دلچسپی اور جزئیات نگاری والد سے ورثے میں ملی۔ ماسٹر رمضان کی توجہ سے ابتدائی تعلیم اچھی ہوئی۔ تیسری جماعت میں ہر کتاب پڑھ لیتے۔ بتاتے ہیں کہ کزنز وغیرہ ایف اے کی کتاب پڑھنے کو کہتے تو میں فر فر سنا دیتا۔ گائوں کے پہلے لڑکے تھے جنھیں پانچویں میں وظیفہ ملا۔ 1963ء میں تعلیم کی غرض سے ہارون الرشید کو ان کے ماموں ڈاکٹر نذیر مسلم کے پاس رحیم یار خان بھیج دیا گیا۔ ڈاکٹر نذیر شہر کی ایک قدآور شخصیت تھے۔ وہ جماعت اسلامی میں رہے تھے۔ مولانا مودودی اور امین احسن اصلاحی سے دوستی تھی مگر بعد میں انھوں نے جماعت چھوڑ دی۔ ہارون الرشید نے تعمیر ملت ہائی سکول سے میٹرک اور گورنمنٹ کالج ( اب خواجہ فرید کالج) سے انٹر کیا۔ کہتے ہیں کہ تعمیرملت سکول کے اساتذہ اعلیٰ معیار کے تھے۔ انیس احمد اعظمی سے انھوں نے اردو پڑھی جو ایک لیجنڈری استاد تھے۔کالج میں اندازہ ہوا کہ اساتذہ سکول کے معیار کے نہیں تو کلاس میں جانا چھوڑ دیا۔ پرائیویٹ ایف اے کا امتحان دیا۔ بڑے بھائی ناراض ہوئے تو نوجوان ہارون الرشید نے کہا کہ میں صحافی بننا چاہتا ہوں۔ اس پر وہ خفا ہو کر بولے ’’ تو پھر لاہور چلے جائو‘‘ یہ ان سے پچاس روپے لے کر لاہور چل پڑے۔ آدھے پیسے ریل کے کرائے میں لگ گئے۔ اسٹیشن سے سیدھے روزنامہ وفاق پہنچے جس کے مدیر جمیل اطہر تھے۔ انھوں نے کچھ خبروں کا ترجمہ کرایا اور اطمینان ہو جانے پر ڈیڑھ سو روپے ماہوار کی ملازمت دے دی۔ یوں ان کا صحافتی کیرئر شروع ہوگیا۔ ملازمت نہ ملتی تو واپسی کا کرایہ بھی نہیں تھا۔

    (ہارون الرشید صاحب کو ہم اپنے استادوں میں مانتے ہیں، ان سے بہت کچھ سیکھا، ان کی شفقت، رہنمائی اور دعائیں ہمارے ساتھ رہی ہیں۔ ہارون صاحب کا ایک تفصیلی انٹرویو میں نے کیا تھا، وقت کے پلٹتے اوراق بھی جس کو دھندلا نہیں سکے۔ قارئین دلیل کے لیے اس انٹرویو کو تین چار اقساط میں شیئر کر رہا ہوں۔ اس پہلی قسط میں میرے تاثرات اور ان کا پروفائل ہے۔ اگلی اقساط میں ان کی پروفیسر احمد رفیق اختر، عمران خان، ان کی مشہور اور کسی حد تک متنازع کتاب فاتح، فکری شخصیات جنھوں نے انھیں متاثر کیا اور انقلاب و انقلابیوں کے حوالے سے ہارون صاحب کی آرا پیش کی جائیں گی۔ اپنے مخصوص بے لاگ انداز میں انہوں نے گفتگو کی اور فکر وسوچ کے نئے در وا کیے۔)

  • زمانہ دلیل کا ہے. فیض اللہ خان

    زمانہ دلیل کا ہے. فیض اللہ خان

    10525943_1543930889188656_8708287563584166301_nمحترم عامر ہاشم خاکوانی اور ان کی ٹیم نے اپنے دلائل کو دلیل کی شکل دے دی ہے. حالیہ عرصے میں سوشل میڈیا کی قوت مین سٹریم میڈیا نے نہ صرف تسلیم کی ہے بلکہ کئی موضوعات یہیں سے مستعار لیے گیے ہیں۔
    ماضی میں جو دانشور اسے سنجیدہ نہیں لیتے تھے سوشل میڈیا اب ان کی بھی ترجیح بن چکا ہے، چند سال پہلے تک سوشل میڈیا منچلوں تک محدود تھا لیکن اب صورتحال خاصی بدل چکی ہے۔۔۔
    گلی محلے اور چوپالوں میں ہونے والے گفتگو اب یہاں ہوتی ہے اور مختلف موضوعات کا احاطہ کیا جاتا ہے
    یہیں ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے مختلف ویب سائٹس بھی تیزی سے اپنی جگہ بناتی جارہی ہیں جن میں جناب وجاہت مسعود کی ہم سب برادران جمال عبد اللہ و سبوخ سید کی اردو ٹرائب اور آئی بی سی اردو زیادہ نمایاں ہیں ۔
    ہم سب ایک واضح ایجنڈے کے ساتھ میدان میں اتری ، گو کہ وجاہت مسعود صاحب مختلف نظریات سے وابستہ لکھاریوں کو اپنی ویب گاہ پہ خوش آمدید کہتے ہیں لیکن بہرحال ان کی ویب سائٹ سیکولر نظریات کی ترویج و اشاعت میں اہم کردار ادا کر رہی ہے اور یہ ان کا حق بھی ہے کہ وہ اپنے خیالات کو قارئین تک پہنچائیں. آئی بی سی اردو و اردو ٹرائب خالصتا پیشہ وارانہ ویب گاہیں ہیں جن کا مقصد خبروں بلاگرز و کالمز کے ذریعے لوگوں تک پہنچنا ہے۔
    دلیل ، سے متعلق جتنی معلومات میسر ہیں، اس کے مطابق وہ کسی رقابت کے جذبے سے سامنے نہیں آئی بلکہ مقصود مکالمہ ہی ہے. اچھی بات یہ ہے کہ دلیل کو عامر ہاشم خاکوانی صاحب جیسے معتدل، سنجیدہ مزاج اور باقاعدہ صحافی کا ساتھ میسر ہے جس کی وجہ سے ویب کی ساکھ اور معیار پہ گہرا اثر مرتب ہوگا۔
    دلیل ۔۔۔ بنیادی طور پہ دائیں بازو کے لکھاریوں کے لیے عمدہ پلیٹ فارم ہے جہاں وہ اپنے کی بورڈ کی روانی دکھاسکتے ہیں دلیل کے ساتھ. ساتھ ہی بائیں اور درمیانی بازو والے احباب بھی یہاں کھل کر اپنے نظریات پیش کرسکتے ہیں مگر وہ بھی دلیل کے ساتھ .
    اور یہ دلیل و مکالمہ ہی تو ہے جو صحت مند معاشرے کو تشکیل دیتا ہے، بات سننے کا حوصلہ بخشتا ہے. دلیل کا پرانا سفر اب نئے انداز سے شروع ہوا ہے، اڑان بھری جاچکی ، اب دلیل کو مکالمے کے وسیع و عریض آسمان میں اپنی پرواز کے جوہر دکھانے ہیں. یاد رہے کہ زمانہ دلیل کا ہے، کامرانی اس کے لیے ہے جو دلیل کی بنیاد پہ بات کرے گا ، ناشائستہ اور انتہا پسندی پہ مبنی رویے سراسر نقصان پہنچاتے ہیں، سو احباب کی بورڈ سنبھالیں اور اپنی دلائل سے پر تحاریر دلیل کے لیے روانہ کر دیں .
    کیونکہ افق سے آفتاب ابھر چکا ہے ، صبح روشن کی دلیل اسے خوش آمدید کہتی ہے

  • دلیل حیات دلیل – غلام اصغرساجد

    دلیل حیات دلیل – غلام اصغرساجد

    1939656_1647114415508774_2201907491607776658_o“دلیل” کے نقارے کئی دنوں سے سن رہے تھے، سو اب دو دنوں سے سرِ دیوار “دلیل” کی آمد آمد ہے، زیادہ تحاریر نہیں پڑھ سکا. پہلی تحریر عامر ہاشم خاکوانی صاحب کی پڑھی جو “دلیل” کے مقاصد کا تعین کر رہی تھی، مقصد کے بغیر دلیل، دماغی ورزش سے زیادہ کوئی بڑی خدمت نہیں کر سکتی. “دلیل” کی سچائی یہی ہے کہ وہ ایک پُرمقصد سچائی پر قائم ہوئی ہے. خوشی کی بات یہ ہے کہ “دلیل” سماجی انتشار اور تخریبی خیالات کے بجائے پُرامن اور تعمیری سوچوں کے ذریعے اٹھانے کی بات کرتی ہے، ٹکراؤ سے گریز ہی دلیل ِحیاتِ “دلیل” ہے .
    یہ معاشرہ اور وطن ہمارا ہے، اس کے خیر خواہ ہم ہی ہو سکتے ہیں اور بارہا ہم نے عملی میدانوں میں ثابت بھی کیا ہے. امرتسر سے لٹے پٹے قافلے قدم قدم پر گواہی دے رہے تھے، کل بھی ڈھاکہ کی دیواروں نے شہادت دی تھی اور آج بھی پھانسی کے پھندے سر ہلا رہے ہیں اس لیے کہ پاکستان سے محبت ہمارا جزو ایمان تھا اور ہے- یہ قوم ہم سے ہی ہے، یہ خوش ہو تو ہمیں خوشی ہوتی ہے اور یہ تکلیف میں ہو تو ہم ان کی مدد اور نصرت کرتے ہیں، زلزلہ ہو یا سیلاب، مقصدِ زندگی رکھنے والے ہی مرہم کرتے دکھائی دیتے ہیں- اس لیے ہم اس قوم اور وطن میں انتشار کو پسند نہیں کرتے، ہاں کچھ شر پسندوں کا مقصد انارکی ضرور ہو سکتا ہے، شاید وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہو رہے ہیں کہ اس تخریب اور انتشار کے بعد ان کی شرائط پر کسی معاشرے کی تشکیل ہو گی.
    حال ہی میں سوشل میڈیا پر چھڑے والے شر پسنددانہ خیالات نے خطرناک انداز میں معاشرے کو تیلی دکھانے کی کوشش کی، جسے دیکھ کر سنجیدہ حلقے پریشان ہو گئے. درحقیقت ہمارا ملک اور معاشرہ مزید کوثروں اور قادریوں کا متحمل نہیں ہو سکتا. یہ ملک اب بنگلہ دیش یا شام تو بن سکتا ہے لیکن یہاں کوئی درآمد شدہ نظریہ غالب نہیں آ سکتا. جدید تاریخ میں ایسی کوئی مثال موجود نہیں ہے، اب دنیا بدل چکی ہے. افغانستان اور عراق جنگ کے بعد امریکہ نے سبق سیکھا ہے کہ یہ گھاٹے کا سودا ہے. دونوں مقامات پر تخریبی کارروائیوں کے بعد وہ اپنا مطلوب معاشرہ اور ریاست ترتیب نہیں دے پایا لہذا ہمیں بھی اس شر کو جو ابھی بہت چھوٹا ہے، دلیل سے دفن کر کے اپنے معاشرے کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے، اور صرف تحفظ ہی نہیں بلکہ اس کی موجود بنیادوں پر از سر نو تعمیر بھی کرنا ہے-
    “دلیل” کی دوسری طاقت اس کا فرقوں سے بالاتر ہونا ہے، جو نہ صرف “دلیل” کو روشن کرے گا بلکہ اس کے اثرات فیس بک پر موجود مختلف فقہی اور فروعی آراء رکھنے والے احباب پر بھی نظر آئیں گے- سو “دلیل” سامنے ہے دلیل والوں کے لیے، میں اپنی دوستوں، لکھاریوں اور قارئین سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ “دلیل” کی طرف ضرور آئیں. یہ بہت سوں کو قوت بخش کر استقامت کی دولت سے مالا مال کرنے کا باعث بنے گی-