Blog

  • کے الیکٹرک کی نجکاری کے بعد واضح‌ تبدیلیاں

    کے الیکٹرک کی نجکاری کے بعد واضح‌ تبدیلیاں

    564549_3009762303274_1489617525_nکے الیکڑک کی نجکاری کے بعد اگر کہیں کوئی واضع تبدیلی دیکھنی ہو تو ایک اس کے اعلی افسران کا روز بروز بڑھتا ہوا شاہانہ انداز ہے اور دوسرا نام کی تبدیلی. دوسری طرف پچھلے ماہ رمضان میں شدید گرمی ہو یا رواں ماہ مبارک 33 ملی لیٹر بارش، کے الیکڑک عام صارفین کے لیے بدستور اسی طرح درد سر ہے جیسے دس سال قبل بطور سرکاری ادارہ تھی. آج بارش کو اب پانچواں دن ہے لیکن کئی علاقے بدستور متاثر ہیں، کہیں بجلی غائب ہے تو کہیں والٹیج 180 پر دھرا ہے اور کہیں سڑک کے بیچ و بیچ ننگے تار اہلیان کراچی کی بے بسی کا مذاق اڑارہے ہیں. فیڈر ٹرپ ہونے کا معاملہ بھی کم باعث تشویش نہیں ہے، سال میں کئی بار پورا پورا شہر ان نازک اندام فیڈرز کی بدولت اندھیرے میں ڈوب جاتا ہے.

    ٹی وی اور اخبارات کے اشتہارات سے لیکر مختلف سیمینارز تک، ایک طرف تو کنڈا سسٹم کے خلاف باتیں کی جارہی ہیں تو دوسری طرف ہیلپ لائنز پر لاتعداد شکایتوں کے باوجود عملے کی ملی بھگت سے بجلی چوری کا کاروبار جاری و ساری ہے. یعنی ایماندار صارفین تو زیادہ بل کے خوف سے اپنے اضافی پنکھے بھی نہ کھولیں اور چور مزے سے ائیر کنڈیشن کی ٹھنڈی ہوائوں میں خواب خرگوش کے مزے لیں. اس سے بھی بڑھ کر کے الیکٹرک خود چائنہ کٹنگ، کچی آبادیوں، تجاوزات اور بغیر لیز کے مکانات کو “کنڈا کنیکشن” فراہم کررہی ہے. اس طرح یہ صارف ایک مقرر رقم ادا کرکے جتنی مرضی چاہیں بجلی استعمال کرسکتے ہیں.

    ایک دوسری ناانصافی لوڈ شیڈنگ کے غیرمساویانہ اوقات کار ہیں. ادارہ کہتا ہے کہ جس علاقے میں انکی وصولی زیادہ ہے وہاں لوڈشیڈن کم ہوگی، جہاں وصولی کم ہے وہاں لوڈ شیڈنگ زیادہ ہوگی اور جہاں وصولی برابر ہے اس علاقے کو لوڈ شیڈنگ سے استشناء حاصل ہوگا. اس طرح آپ ان صارفین کو خوامخوا نشانہ بنارہے جو خود تو ایمانداری سے بجلی استعمال کررہے ہیں لیکن انکے محلے یا علاقے کے کچھ لوگ چوری میں ملوث ہیں. اگر کسی علاقے میں بجلی چوری ہورہی ہے یا وصولی کم ہے تو اسکے ذمہ دار اس علاقے کے تمام صارف کیسے ہوگئے؟ ذمہ داری تو بہرحال کے الیکڑیک پر بحثیت ادارہ، اس کے ناہل اور بدعنوان عملے پر بحثیت معاون اور ملوث صارفین پر بحثیت چور عائد ہوتی ہے. اسی طرح ایک ایماندار صارف کا کیا قصور ہے کہ اس کے علاقے یا محلے کے ساتھ کچھ چائنہ کٹنگ اور کچی آبادیاں ملحق ہیں، جنھیں خود کے الیکڑک نے کنڈا کنیکشن فراہم کر رکھا ہے یا یہ کہ اس کے علاقے میں کچھ میٹر خراب اور پرانے ہیں.

    لوڈ شیڈنگ کے معاملے میں پیپلزپارٹی دور یوں کسی حد تک بہتر تھا کہ حکومت نے اتوار اور چھٹی کے دن کو لوڈ شیڈنگ سے مبرا قرار دے رکھا تھا لیکن اب لوڈ شیڈنگ کے اس نئے ڈھنگ کے بعد چھٹی کے دن بھی عام دنوں کی طرح ہی بجلی بند کی جاتی ہے. اس سے بھی بڑھ کر پچھلے چند ماہ سے رات بارہ بجے کے بعد بھی لوڈ شیڈنگ شروع ہوگئی حالانکہ چند سال قبل گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کے حکم پر رات بارہ بجے سے صبح آٹھ بجے تک لوڈ شیڈنگ پر مکمل پابندی تھی.

    کے الیکڑک کا اہم مسئلہ اس کے میٹرز بھی ہیں. ہونا تو یہ چاہیے کہ جس طرح تمام شہر میں بجلی کے نرخ یکساں ہیں اسی طرح میٹرز بھی یکساں ہوں. لیکن آپ کو جابجا مختلف قسم کے میٹرز نظر آئیں گے. کہیں چالیس سال پرانے میٹر ہیں تو کہیں انالوگ، کہیں جدید ڈیجیٹل میٹر ہیں تو کہیں دوسرے. یہ مختلف قسم کے میٹرز ایک ہی قسم کی ریڈنگ نہیں دیتے بلکہ بعض اوقات کو ایک ہی قسم کے میٹر بھی مختلف ریڈنگ دیتے نظر آتے ہیں. سونے پر سہاگہ کے الیکڑک کا انتظامی طریقہ کار ہے. ہر زون کے ایم دیز کو زیادہ سے زیادہ وصولی پر اضافی بونس اور مراعات دی جارہی ہی، جن کے حصول کے لیے یہ ایم ڈیز انسان سے درندے بن چکے ہیں. جو صارف ان کے ہاتھ چڑھتا ہے، یہ اس کو بلی کا بکرا بنا کر پورے محلے کی چوری اس کے خاطے میں ڈال دیتے ہیں. مثال کے طور پر کسی صارف کے یہاں پرانا میٹر لگا ہوا ہے یا اس کا میٹر خراب ہوجاتا ہے، اب کے الیکڑک اس صارف کو ہر دوسرے تیسرے مہینے “اے ایس ایس ڈی” کے عنوان سے من مانا بل جاری کردیتا ہے. بے چارہ صارف جب شکایت لے کر پہنچتا ہے تو اسے اضافی بل کی تفصیل اور بریک اپ دینے کے بجائے، قسطیں تھما دی جاتی ہیں.

    کے الیکڑک میں بدعنوانی بھی اپنے جوبن پر ہے، بااثر افراد کو رشوت دیکر یا سفارش حاصل کرکے تو آپ بل کم کرواسکتے ہیں لیکن فیکٹ اینڈ فیگرز کی بنیاد پر ادارے کو چیلنج کرکے اضافی بل سے خلاصی حاصل نہیں کرسکتے. لائن مین سے لیکر میٹر ٹیکنیشن اور ایم ڈی ذون سے لیکر سینٹر بلنگ آفس تک، ہر جگہ نوٹ اور سفارش عام ہے. دوسری طرف نہ حکومت نے کوئی ایسا سہل نظام ترتیب دیا ہے جہاں صارفین کے الیکڑک کے خلاف ناجائز بلنگ کے کیسز لے جاسکیں اور نہ کے الیکڑک ایسے کسی مسئلے پر خود کو جوابدہ سمجھتی ہے. خاص طور پر “اے ایس ایس ڈی” بلز کے معاملے میں آپ ان سے سوال و جواب نہیں کرسکتے. جو بل بن گیا، خاموشی سے ادا کریں. چند سال قبل جب میں خود زائد بلنگ کا شکار ہوا تو کے الیکڑک کے رویے سے تنگ اکر میں نے قانونی کاروائی کی کوشس کی. صوبائی اور وفاقی محتسب نے یہ کہ کر واپس بھیج دیا کہ وہ کسی نجی ادارے کی شکایت نہیں سن سکتے، پھر کئی روز سندھ سیکیٹریٹ کا چکر لگانے کے بعد کا کہا گیا کہ وفاقی ادارے کی شکایت کے لئے پاکستان سیکیڑیٹ کا رخ کریں. بڑی مشکل سے پاکستان سیکڑیٹ تلاش کرکے انسپیکٹر جنرل الیکٹرک کے دفتر پہنچا تو انہوں نے جس قدر طویل اور مشکل راستہ تجویز کیا، اسکا خلاصہ یہ ہے کہ صاحب متاثرہ صارف نوکری چھوڑ کر اسی کام پر لگ جائے.

    معمول کی شکایتوں کے نظام کا بھی حال یہ ہے کہ کہنے کو تو جناب کال سینٹر اور سوشل میڈیا پر بڑے نرم گفتار پروفیشنل نوجوان بٹھائے ہوئے ہیں لیکن برسرزمین کوئی والی وارث نظر نہیں آتا. اگر کسی صارف کا مین لائن سے جمپر ڈھیلا ہے، والٹیج کا مسئلہ ہے، غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ ہے یا کہیں کوئی تار توٹ گیا ہے، تو وہ کمپلین لائنز پر شکایتیں کرتا رہ جائے گا لیکن مسئلہ حل نہیں ہوگا. یہاں تک وہ کسی نجی الیکٹریشن سے پیسے دے کر اپنا مسئلہ حل کروائے. جس طرح ہم پی ٹی سی ایل میں کمپلین لائنز کی خود کار فالونگ کا نظام دیکھتے ہیں، کے الیکٹریک اس سے کوسوں دور ہے.

    کے الیکڑک کا مسئلہ اس کا سرکاری یا نجی شعبے مین ہونا نہیں ہے، بلکہ اس کا اصل مسئلہ اس کے اعلی افسران اور دیگر عملے کی نااہلی اور بددیانتی کا ہے. صوبائی اور وفاقی حکومت کی یہ زمہ داری ہے کہ وہ نجکاری کے معاہدے کی روح کے عین مطابق، ادارے کے معاملات پر نظر رکھیں اور ملازمین کے حقوق کے ساتھ کچھ توجہ صارفین کے حقوق پر بھی دیں. ادارے کے خلاف کم از کم اپنے نظام کو اپڈیٹ نہ کرنے، صارفین کے درمیان عدم مساوات، ناجائز بلنگ اور ظالمان لوڈشیڈنگ کے باب میں کوئی کاروائی عمل میں لائی جائے. اس کے علاوہ زندگی کی بنیادی ضرورتیں فراہم کرنے والے اداروں کے خلاف عوامی شکایت کے ازالے کے لیے ایک موثر، آسان اور متحرک ادارے کا قیام بھی وقت کی اشد ضرورت ہے.

  • سینسر – ابو محمد مصعب

    سینسر – ابو محمد مصعب

    12003294_10204732813258553_3770925726005018371_nگاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے ڈرائیور گاہے بہ گاہے ٹیمپریچر میٹر کی سوئی پر نظر ڈالتا رہتا ہے اور جب دیکھتا ہے کہ کانٹا خطرناک حد تک انجن گرم ہونے کی خبر دے رہا ہے تو فوراََ گاڑی روک کر ریڈی ایٹر کا پانی وغیرہ چیک کرتا ہے۔

    فرض کریں کہ کوئی شخص گاڑی چلا رہا ہے، جب جب وہ ٹیمپریچر کے کانٹے پر نظر ڈالتا ہے، میٹر اسے بتاتا ہے کہ انجن نارمل حالت میں کام کر رہا ہے، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہو، کچھ ہی دیر بعد گاڑی کے بانٹ سے دھوئیں نکلنا شروع ہوجائیں اور انجن بند ہوجائے تو ڈرائیور دوبارہ ٹیمپریچر کی سوئی کو آکر دیکھے جو اب تک نارمل حرارت دکھا رہی ہو تو ڈرائیور کسی مکینک کو بلاتا ہے جو گاڑی چیک کرنے کے بعد بتاتا ہے کہ جناب، گاڑی کا ٹیمپریچر دکھانے والا میٹر خراب ہوگیا ہے جو کہ انجن کی گرمی کو صحیح رپورٹ نہیں کر رہا تھا، مگر اب کیا فائدہ جب انجن انتہائی گرم ہوکر بند ہوچکا اور شاید سیز تک ہوگیا ہو۔

    اسی سے ملتا جلتا ایک واقعہ بھی ذہن میں آیا۔ ہمارے ایک عزیز کو ہارٹ پرابلم ہوا، انہیں فوراََ دل کے اسپتال لے جایا گیا جہاں ڈاکٹرز نے انہیں فوراََ ایمرجنسی وارڈ میں داخل کردیا۔ مریض کی حالت بہتر نہیں ہو رہی تھی اس لیے ڈاکٹرز نے انہیں انتہائی نگہداشت میں رکھا ہوا تھا اور بار بار آکر دل کی دھڑکن چیک کر رہے تھے۔ رات کو دیر سے مریض کی حالت بگڑنے لگی، میں دوڑٓ کر ڈاکٹر کو لے آیا، اس نے آکر ای سی جی مانیٹر پر دل کی دھڑکن دیکھی اور مجھے مطمئن کردیا کہ دل کی دھڑکن بلکل نارمل ہے، پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ تھوڑی ہی دیر میں مریض کا انتقال ہوگیا۔ جب ڈاکٹرز آئے اور موت کی تصدیق ہوجانے کے بعد انہوں نے ای سی جی مانیٹر کے کنیکشن مریض کے جسم سے الگ کیے تب بھی میں نے دیکھا کہ وہ ہارٹ بیٹ نارمل دکھا رہا تھا۔

    یہ سب دیکھ کر ڈاکٹر نے سرد آہ بھری اور کہا کہ ای سی جی مانیٹر کی اسکرین درست رپورٹ نہیں کر رہی تھی اور لگتا ہے کہ مشین کافی دیر پہلے سے خراب ہوچکی تھی۔

    خٰیر، ان دو مثالوں کو سامنے رکھتے ہوئے اگر دیکھیں تو اللہ پاک نے انسان کے اندر ایک سینسر رکھا ہوا ہے جو ہر وقت ایکٹو رہتا ہے اور گناہ (خطرے) کا علم ہوتے ہی انسان کی طرف ایک میسج فلوٹ کردیتا ہے۔ وہ انسان کہ جو گناہ کے دلدل میں اتر چکا ہوتا ہے اس کے پورے وجود میں فائر الارم کی طرح گھنٹیاں بجنی شروع ہوجاتی ہیں جو اسے فوری خطری سے آگاہی دے رہی ہوتی ہیں۔ تاکہ اگر انسان کے وجود میں ایمان کی ذرا بھی رمق موجود ہے تو وہ خطرے کی جگہ سے فوری طور پر بھاک کر اپنا ایمان بچا لے۔

    مگر یہ بھی ہمارا مشاہدہ ہے کہ مسلسل گناہ کرتے کرتے، انسان کے اندر کا یہ الارم سسٹم خراب ہوجاتا ہے اور اسے نہیں معلوم پڑتا کہ وہ خطرے کی زد میں ہے یا اپنا ایمان کھو سکتا ہے۔ اس کے ایمان کا انجن حدت کے انتہائی گرم زون میں داخل ہوچکا ہوتا ہے مگر چوں کہ اس کو رپورٹ کرنے والا سینسر خراب ہوچکا ہوتا ہے لہٰذا اسے معلوم ہی نہیں پڑتا کہ وہ کتنی خطرناک حالت سے دوچار ہونے والا ہے۔

    دوستو! خطرے کا یہ سینسر انسان کا ضمیر ہے، اور اگر ضمیر بھی مر جائے تو پھر انسان کا وجود اس طرح سن ہوجاتا ہے جیسے کسی مریض کے جسم کے کسی حصہ کو انجیکشن لگا کر سن کردیا جائے، پھر چاہے جسم کا وہ حصہ کاٹ ہی ڈالا جائے مگر اسے احساس تک نہیں ہوتا۔

    ہم میں سے بہت سے لوگ، اسی کیفیت سے دوچار ہیں۔ غلط راستوں پر چل کر بھی نہیں جانتے کہ ہم غلط جا رہے ہیں۔ اچھائی دیکھ کر کوئی خوشی نہیں ہوتی، برائی دیکھ کر کوئی رنج نہیں ہوتا بلکہ زندگی کے جس راستہ پر ہم دوڑے چلے جا رہے ہیں، سمجھتے ہیں کہ ہم جیسا ہدایت یافتہ تو شاید ہی کوئی ہو۔

    حضورﷺ کے ایک فرمان کا مفہوم ہے:
    جب نیکی کرکے تمہیں خوشی ہو اور گناہ کرکے غم ہو، تو تم مؤمن ہو۔ (یہ ہے ایمان کا کم سے کم درجہ)۔

    اس کیفیت کو قرآن نے بڑے خوبصورت انداز میں بیان فرمایا ہے، کہ:

    اے محمدؐ(ﷺ)، ان سے کہو، کیا ہم تمہیں بتائیں کہ اپنے اعمال میں سب سے زیادہ ناکام و نامراد لوگ کون ہیں؟ وہ کہ دنیا کہ زندگی میں جن کی ساری سعی و جہد راہِ راست سے بھٹکی رہی اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ سب کچھ ٹھیک کر رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے ربّ کی آیات کو ماننے سے انکار کیا اور اس کے حضور پیشی کا یقین نہ کیا۔ اس لیے اُن کے سارے اعمال ضائع ہو گئے، قیامت کے روز ہم انہیں کوئی وزن نہ دیں گے۔ (الکھف: ۱۰۳تا ۱۰۵)

  • ’’دلیل ڈاٹ پی کے‘‘ کیوں قائم کی گئی ؟ محمد عامر ہاشم خاکوانی

    ’’دلیل ڈاٹ پی کے‘‘ کیوں قائم کی گئی ؟ محمد عامر ہاشم خاکوانی

    محمد عامر ہاشم خاکوانی
    11019467_1022673787760103_3386052191318066626_n دلیل ڈاٹ پی کے آپ کے سامنے ہے۔ اپنی اپنی مصروفیت اور پھر رمضان کی وجہ سے بے ترتیب شیڈول کی وجہ سے اس ٹاسک کو مکمل کرنا آسان نہیں‌تھا۔ اللہ پاک نے مدد کی اور یہ پہلا مرحلہ طے ہوا۔ ’’دلیل‘‘آپ کے سامنے ہے، اس میں بہت سی خامیاں ہوں گی، ہیں، آہستہ آہستہ ان شا اللہ انہیں دور کرنے کی کوشش کریں‌گے۔ آپ لوگ نشاندہی کریں، رہنمائی کریں، ہم ہر قسم کی تنقید، تجویز، مشورے کے لئے اوپن ہیں، رہیں‌گے۔ اصل اہمیت کام کی ہے، قدم اٹھانے، آگے بڑھنے کی ہے، ہماری توجہ اس پر ہے۔ رب تعالیٰ سے پوری امید ہے کہ دوست ساتھ ملتے جائیں گے، قافلہ بنتا جائے گا، مشکلیں‌آساں‌ہوتی رہیں گے ۔
    دلیل ڈاٹ پی کے کے افتتاح کے لئے ہم نے ستائیس رمضان کے دن کا سوچا تھا ۔ ستائیس رمضان کو افتتاح کرنے کی جو معنویت ہے، اس کا اپ سب کو اندازہ ہوگیا ہوگا۔تکنیکی وجوہات اور شائد ان سے زیادہ ہماری اپنی مس ہینڈلنگ کے باعث ایسا نہ ہوسکا،سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا تھا، میں‌نے اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے رب کو پہچانا۔ ہم اپنے رب کی مرضی کے آگے سر تسلیم خم کرتے ہیں، مقام شکر مگر یہ ہے کہ رمضان کے مبارک مہینے ہی میں یہ لانچ ہوگئی۔اللہ اس میں‌برکت عطا فرمائے، آمین۔
    انشااللہ اسلام، نظریہ پاکستان، قائدین پاکستان کے حوالے سے حقیقی تصویر پیش کرنے اور زندگی وسماج کے مختلف پہلوئوں پر شائستگی، توازن اور اعتدال کے ساتھ مثبت، تعمیری انداز میں نقطہ نظر پیش کرنا ہمارا مقصد ہے۔ دوستوں سے اپیل ہے کہ ہمارا ساتھ دیں، قلمی تعاون کریں، اس کی تشہیر کریں، جو تحریریں اچھی لگیں، انہیں سراہنے کے ساتھ شیئر بھی کریں، خامیوں کی نشاندہی کریں،تجاویز دیں، اصلاح احوال کے مشورے دیں، ہم ہر مثبت تعمیری تجویز کے لئے حاضر ہیں۔ اپنی خامیوں پر مسلسل کام کرتے رہنے اور چیزوں کو بہتر کرنے کے حامی ہیں۔
    چند وضاحتیں اس حوالے سے کرنا ضروری ہیں
    یہ ویب سائیٹ کسی کے مقابلے کے لئے نہیں بنائی جا رہی ،اس کا کوئی ہدف ہے نہ ہی کسی شخصیت یا ویب سائیٹ کے ابطال کے لئے اس کی تشکیل ہو رہی ہے۔
    ہمارا مقصد اپنے نقطہ نظر کو پیش کرنا، مکالمے کو دلیل اور شائستگی سے آگے بڑھانا اور نوجوان لکھنے والوں کے لئے پلیٹ فارم مہیا کرنا، ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو سامنے لانے میں ان کی معاونت کرنا ہے۔
    ویب سائٹ ’’دلیل ‘‘کے نگران یا منتظمین کی کوئی خاص سیاسی، فکری، مذہبی وابستگی ہوسکتی ہے، مگر ہم اس ویب سائیٹ کوکسی خاص جماعت، شخصیت کا مقلد ہرگز نہیں بنانا چاہتے۔ مکالمے کے ہم حامی ہیں، ہماری رائے سے مختلف نقطہ نظر کے لئے مگر یہ اوپن ہے اور رہے گی، ہم اپنے نقطہ نظر کو ان شا اللہ پورے اعتماد سے پیش کریں گے، مگر مخالف نقطہ نظر کو شائع کرنے سے ہرگز نہیں ہچکچائیں گے ۔
    یہ ویب سائیٹ میری ذاتی سائیٹ نہیں اور نہ ہی میرا نام بطور ایڈیٹر اس کے اوپر آئے گا۔ میری حیثیت زیادہ سے زیادہ اس کے نگران کی سی ہے ۔ یہ چند دوستوں کا جوائنٹ وینچر ہے، مختلف شہروں میں رہنے والے دوست، ایک دو عزیزاس کی تکنیکی معاونت میں شامل ہیں، کام میں بھی وہ ہاتھ بٹائیں گے۔ بنیادی طور پران سب میں ایک ہی قدر مشترک ہے، یہ سب عام پاکستانی مسلمان ہیں، اسلامی نظام اور اسلامی معاشرہ کے وجود کا خواب ان کی آنکھوں میں بسا ہے، سماج میں شدت پسندی کو کم کرنا، اسلام کے اعلیٰ اخلاقی اصولوں کو پھیلانا، اسوہ رسول صل اللہ علیہ وسلم کو اپنی آنکھوں کا سرمہ اور قطب نما سمجھنا اور شائستگی کے ساتھ مکالمہ کرنے کے اسلوب کی تذکیر ہی مقصد ہے ۔ یہ بھی خیال دامن گیر ہے کہ چہار اطراف سے الحاد، مذہب بیزاری اور تشکیک کی جو یلغار ہے ، اس سے نئی نسل کو محفوظ رکھا جائے ، ان میں مطالعہ کا شوق پیدا کیا جائے ، چیزوں کو بڑے اور وسیع تناظر میں دیکھنے کی صلاحیت پیدا کی جائےاور مورل فیبرک کو زیادہ بہتر اور مضبوط بنایا جائے ۔
    ایک صحافی کے طور پر میری مصروفیات بہت زیادہ ہیں۔ میرے لئے زیادہ وقت نکالنا ممکن نہیں۔ جس قدر وقت ہوسکا ، میں نکالوں گا، لمبے چوڑے وعدے میں نہیں کر رہا۔ مجھے اچھی طرح اندازہ ہے کہ یہ بہت بڑا چیلنج ہے ، اس وقت میرے حالات ایسے نہیں کہ اسے قبول کیا جائے، صرف اس لئے ہمت کی ہے کہ ملکی وقومی حالات اس قدر گمبھیر ہوچکے ہیں کہ خاموش تماشائی بنے بیٹھے رہنا ممکن نہیں۔ انگریزی محاورے کے مطابق کچھ نہ کرنے سے کچھ کرنا بہتر ہے۔
    یہ ویب سائیٹ ہر اس شخص کی ہے، جسے اوپر بیان کئے گئے مقاصد سے اتفاق ہو۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہم خیال لوگوں، ساتھیوں اور دوستوں کو ہمارا ہاتھ بٹانا، اسے کامیاب بنانا چاہیے۔ یہ میرا یا کسی اور کا ذاتی کام نہیں۔ جو نیک نیتی کے ساتھ مدد کرے گا، ان شا اللہ تعالیٰ اسے اس کا اجر ملے گا۔
    مجھے بہت سے دوستوں نے اس طرف توجہ دلائی اور بعض نے تو صاف الفاظ میں کہا کہ آپ اسے چلا نہیں سکیں گے، تواتر اور تسلسل سب سے اہم ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ زندگی میں ناکامی کے ڈر سے تجربات کرنے سے رک نہیں جانا چاہیے۔ ہر تجربے کی اپنی اہمیت ہوتی ہے، ناکامی بھی بہت کچھ سکھاتی ہے۔ ممکن ہے کہ ہم اسے نہ چلا پائیں، ممکن ہے کہ میں اپنی مصروفیات کی وجہ سے اسے جاری نہ رکھ سکوں، ممکن ہے کہ ہم کل کو اسے کسی زیادہ بہتر اور مضبوط ہاتھ میں سونپ دیں۔
    اصل بات یہ ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ کل کو جب رب تعالیٰ سوال پوچھیں کہ تمہارے سامنے یہ الحاد، تشکیک، لادینیت کی آندھیاں چل رہی تھیں، تم لوگ چپ چاپ سائے میں بیٹھے تماشا کیوں دیکھتے رہے؟فیس بک کی فکری عیاشی میں کیوں جتے رہے ؟
    ایسے میں ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے پاس یہ جواب تو ہو، کہ اے ہمارے رب ، ہم نے اپنی دانست میں جس قدر ہو سکتا تھا، جو ہماری ہمت تھی، جو تو نے ہمیں صلاحیت بخشی، اس کو بروئے کار لاتے ہوئے ہم نے ایک چراغ جلانے کی سعی تو کی، ہم نے یہ خواہش کی اور اس پر عمل بھی کیا کہ تیرے حبیب اور ہمارے آقا سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ کے مختلف پہلوئوں کو نمایاں کیا جائے، اپنے ساتھیوں کو اس پر عمل کرنے کی تلقین ملے، تیری مقدس کتاب کے فہم کو پھیلانے کی کوشش کی جائے ۔ جس قدر ہم سے ہوسکا ، ہم نے کیا، اس کوشش کو قبول فرما۔ تیری مغفرت درکار ہے اے ہمارے رب، بے شک ہم نے تیری طرف ہی پلٹ کر جانا ہے ۔
    یہ یقین ہمارے دلوں میں موجود ہے کہ ان شا اللہ ہمیں کامیابی ملے گی، رب تعالیٰ ہماری نصرت کریں گے۔ اسی رب ذوالجلال کے آسرے پر ہم نے یہ تجربہ کیا ہے، اسی سے امید ہے ، وہی مدد کرے گا۔ ۔
    ’’اے ہمارے رب ہم سے مواخذہ نہ فرما، اگر ہم بھول جائیں یا ہم غلطی کر جائیں۔ اے ہمارے رب ہم پر بوجھ نہ ڈال، جیسا بوجھ تو نے ڈالا تھا ہم سے اگلوں پر۔ اے ہمارے رب ہم سے وہ نہ اٹھوا جس کی طاقت ہم کو نہیں۔ اور درگزر کر ہم سے ، اور بخش دے ہم کو اور ہم پر رحم کر۔ توہمارا کارساز ہے ، پس انکارکرنے والوں کے مقابل میں ہماری مدد کر۔ ‘‘

  • نظریاتی سفر – رعایت اللہ فاروقی

    نظریاتی سفر – رعایت اللہ فاروقی

    نظریے کا13502014_1194080927282567_3019287501692146358_n سفر کتاب سے شرع نہیں ہوتا۔ کتاب اس کا دوسرا پڑاؤ ہے۔ اس سفر کا آغاز آپ کی ذات سے ہوتا ہے۔ وہ ذات جو سرشت اور فطرت سے مزین ہوتی ہے مگر ساتھ ہی نفس اور اور شیطان سرشت اور فطرت کو غلط راہ پر ڈالنے یعنی آپ کی ذات تباہ کرنے کے لئے مقابل کے طور پر بھی موجود ہوتے ہیں۔ انسانی زندگی میں یہ مقابلہ ہوکر رہتا ہے اور اس کا آغاز عین بچپن میں ہوجاتا ہے۔ اس بے آواز مگر گھمسان کی جنگ میں آپ کو ایک شاندار رفیق کی ہمراہی بھی میسر ہوتی ہے۔ ایک ایسا رفیق جو نظر نہیں آتا مگر یہ قدم قدم پر آپ کو درست کی طرف متوجہ کرنے اور غلط پر متنبہ کرنے کا کام دن رات سر انجام دیتا ہے۔ آپ تھک جاتے ہیں مگر یہ نہیں تھکتا، آپ نا امید ہوجاتے ہیں مگر وہ نہیں ہوتا اور آپ شائد ہتھیار ڈالدیں مگر وہ نہیں ڈالتا۔ یہ آپ کے لاشعور سے ہی رشتہ نہیں رکھتا بلکہ آپ کے شعور سے بھی مستقل مخاطب رہتا ہے۔ یہ بے آواز بولتا ہے مگر پھر بھی اس کی گونج آپ کی پوری ذات میں پھیلتی اور سنائی دیتی ہے۔ اپنے اس اعلیٰ رفیق کو آپ “ضمیر” کے نام سے جانتے ہیں۔ اس کی سب سے شاندار خوبی یہ ہے کہ یہ صرف صرف درست اور سچ بولتا ہے۔ اگر اوائل عمری میں ہی آپ اس کی جانب مکمل طور پر متوجہ ہوجائیں تو یہ قوت پکڑتا جاتا ہے اور پھر وہ دن آپ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ جب بھی آپ ڈگمگانے لگتے ہیں کوئی آپ کا بازو پکڑنے کو موجود ہوتا ہے۔ ان واقعات کی کثرت آپ کا عقیدہ بنادیتی ہے کہ آپ کو تائید غیبی یا نصرت غیبی میسر ہے۔ تائید غیبی یا نصرتِ غیبی سچوں کو میسر آتی ہے اور سب سے بڑا سچا وہ ہے جو اپنی ذات کے اندر بیٹھے اس سچے کو اہمیت دے اور اس کی رہنمائی کو مقدم جانے۔ اگر اپنی ذات میں گونجتی اس سچائی کو آپ مسلسل نظر انداز کریں تو مت بھولیں کہ سرشت اور فطرت کے ہوتے نفس اور شیطان سے ہارنے والے ہر دور میں اکثریت میں دیکھے گئے ہیں۔

    اگر کتاب سے قبل اپنی ذات کے اس مرحلے میں ضمیر کی مشاورت پر قدم اٹھانے شروع کردیئے جائیں تو رفتہ رفتہ وہ شخصیت تعمیر ہونا شروع ہوجاتی ہے جسے کتاب والے مرحلے کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ تب کتابی سفر کے دوران بلند قامت و عجیب الخیال لوگ آپ کو حیران نہیں کر پاتے۔ نظریاتی سفر میں کتابی مرحلے میں “حیرت” ہی سب سے خطرناک چیز ہے۔ یہ حیرت ہی ہوتی ہے جو کسی بھی عجیب فکری تصور کے ساتھ آپ کو باندھ دیتی ہے اور آپ اس کے درست یا غلط کا تجزیہ کئے بغیر ہی اس کے اسیر ہوجاتے ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ حیرت کے یہ مقام نوجوانی میں آتے ہیں مگر بری بات یہ ہے کہ جب آپ ان تحیرات کو بطور نظریہ پیش کرنا شروع کردیتے ہیں تو جلد وہ دن آ کر رہتا ہے جب آپ پر انکشاف ہوتا ہے کہ محض نوعمری کے سبب آپ ایک غلط تصور سے متاثر ہو گئے تھے اور اس حد تک ہوگئے تھے کہ خود کو ایک نظریاتی شخص سمجھ کر اس لغو تصور کو بطور نظریہ پیش بھی کرنے لگے تھے۔ یہاں خطرناک بات یہ ہوجاتی ہے کہ آپ کو ضمیر کی آواز پر کان دھرنے کی عادت نہیں سو نفس اور شیطان آپ کے لئے غلطی کا اعتراف مشکل بنا دیتا ہے۔ اس کے برخلاف وہ لوگ جو اوائلِ عمری سے ہی ضمیر کی سنتے آتے ہیں وہ اول تو کسی کتابی خیال سے حیران نہیں ہوتے، وہ ان تصورات سے کچھ لمحوں کا سرور ضرور حاصل کرتے ہیں لیکن انہیں اس وقت تک اختیار نہیں کرتے جب تک اس کا خوب خوب تجزیہ نہ کر لیں اور اس تجزیئے میں بسا اوقات عمر عزیز ہی تمام کر دیتے ہیں۔ اگر بالفرض وہ حیران ہو بھی جائیں اور وہی حرکت کر ڈالیں جو آپ نے کی تو زندگی کے جس موڑ پر بھی انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوجائے وہ اسی لمحے “رجوع” کر لیتے ہیں اور ایسا بہت ہی آسانی سے وہ اس لئے کر پاتے ہیں کہ انہیں بچپن سے ہی سچ کی اطاعت کی عادت ہوتی ہے۔ انہوں نے باہر کے سچ سے بھی قبل اپنے اندر کی سچائیوں کو قبول کرنے کی جو عادت ڈالی تھی وہ اب نہ صرف کتابی مرحلے میں بھی انہیں دوسروں سے ممتاز کرتی ہے بلکہ جب نظریاتی زندگی کا وہ تیسرا اور فیصلہ کن مرحلہ آتا ہے جسے ہم عملی زندگی کے نام سے جانتے ہیں تو ایسے لوگ سچائی کے لئے اپنا تن، من، دھن قربان کر دیتے ہیں۔ دنیا کو حیرت ہوتی ہے کہ اس انسان نے ایسی لازوال قربانیاں کتنی مشکل سے دی ہونگی اور ان مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے وہ کیسے کیسے کرب سے گزرا ہوگا مگر دنیا جانتی ہی نہیں یہ قربانیاں اس نے اسی بے تکلفی اور آسانی سے دی ہوتی ہیں جس بے تکلفی و آسانی سے پانی کا جام پیا جاتا ہے۔ ایک خالص نظریاتی شخص کے لئے یہ قربانیاں نہایت ہی سہل ہوتی ہیں ورنہ وہ بھی جانتا ہے کہ اذیت سے بچنا ایک ایسا آپشن ہے جو ہفتے کے سات دن اور دن کے چوبیس گھنٹے میسر رہتا ہے۔ جسے سچائی کا نشہ لگ جائے وہ فنا اور بقاء سے بے نیاز ہوجاتا ہے۔ جیل، کوڑا اور تلوار اس کے لئے کھلونوں سے زیادہ کچھ نہیں ہوتے۔ کسی نظریاتی شخص کی سب سے بڑی پہچان ہی یہ ہے کہ وہ بے خوف ہوتا ہے۔ اگر بے خوف نہیں تو سقراط ہی کیوں نہ ہو وہ نظریاتی شخص نہیں ہو سکتا۔

    پاکستان میں نظریہ اور نظریاتی سفر دم توڑ چکا۔ گلوبلائزیشن کے نتیجے میں اب سوچنا، پڑھنا اور کرنا سب کمرشل ہو چکا۔ زیادہ دن نہیں ہوئے کہ ہمارے ملک میں ہم تنظیمیں، لٹریچر اور دانشوروں کی ایک فوج دیکھا کرتے جو کمیونزم کا پرچار کیا کرتے تھے، وہ لوگ ہمیں بتایا کرتے تھے کہ وطن عزیز میں اگر کوئی “نظریاتی” ہے تو بس وہی ہیں لیکن جوں ہی سوویت یونین ٹوٹا کمیونزم بھی ساتھ ہی یتیم ہوگیا، اس کی دعوت دینے والے کسی اور منڈی کے ہوگئے۔ وہ نظریاتی کمیونسٹ ہوتے تو ایسا نہ ہوتا بلکہ وہ کہتے کہ کمیونزم بطور نظریہ اب بھی موجود ہے اور ہم اس کے لئے لڑنے مرنے کو اب بھی تیار ہیں۔ مگر ایسا نہ ہوا کیونکہ وہ نظریاتی نہیں بلکہ تجارتی جنگ لڑ رہے تھے۔ آج کی تاریخ میں دانشوروں کی وہی قسم “لبرل ازم” کی تجارت کر رہی ہے اور انہیں اصرار ہے کہ بریڈ اینڈ بٹر کی اس جد و جہد کو نظریئے کی خدمت کی نظر سے دیکھا جائے۔ اس مکمل کمرشل صورتحال میں یہ طے سمجھئے کہ جس پتلی گلی سے کمیونزم کی تجارت کرنے والے عنقا ہوئے تھے وہی پتلی گلی لبرل ازم کی تجارت کرنے والوں کے بھی کام آئے گی۔ برادرِ مکرم عامر خاکوانی صاحب نے اچھا کیا کہ رائٹ ونگ کے نوجوانوں میں نظریاتی شعور اجاگر کرنے کی غرض سے غیر تجارتی “دلیل” کا آغاز کیا۔ شائد ایک دن وہ بہت ہی اطمینان سے کہیں۔

    دلیل اس کے دریچے کی پیش کی میں نے
    کسی کو پتلی گلی سے نہیں نکلنے دیا

  • دینی مدارس، مدرسین کی معاشی حالت زار، ممکنہ حل

    دینی مدارس، مدرسین کی معاشی حالت زار، ممکنہ حل

    چلیں پہلے آنکھوں 1463576_258002777680784_890062117_nسے دیکھے اور کانوں سے سنے دو واقعات سے ابتداء کرتے ہیں ، لاہور کے ایک بڑے صاحب تصنیف بزرگ، جو لاہور کے سب سے بڑے ادارے میں اعلی درجہ کے مدرس تھے، ان کے بڑے بیٹے سے ملاقات ہوئی، والد صاحب کے احوال بتاتے ہوئے کہنے لگے کہ جب والد صاحب کا انتقال ہوا تو اہل مدرسہ نے دو ماہ کا الٹی میٹم دیا کہ مکان خالی کر دیں، اس وقت جو بیتی ہم پر، وہ بیتی ۔ ایک معمر عالم دین کو ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ انہوں نے ایک مدرسہ میں 25 سال کے قریب تدریس کی ، دوران تدریس امامت کی نہ کوئی اور مصروفیت، اب جب بدن ساتھ چھوڑنے لگا، تو اہل مدرسہ نے کہا کہ مکان خالی کر دیں، اور گھر کو روانہ ہو، معمر عالم دین نجی مجالس میں روتے ہوئے شکوہ کناں رہتے ہیں کہ میں نے جوانی مدرسہ کے لیے وقف کر دی، اب بڑھاپے میں میرا اتنا حق نہیں بنتا کہ مجھے سر چھپانے کے لیے مدرسہ ایک مکان ہی دے ۔۔۔۔۔۔۔ان واقعات میں قصور اہل مدرسہ کا بھی نہیں کہ جب خالی سیٹ پر متبادل مدرس آئے گا تو لا محالہ پچھلے مدرس کی سہولیات اسے متنقل ہوں گی۔ مدرسین دوران تدریس جس طرح کسمپرسی کی زندگی گزارتے ہیں، وہ تو سب پر عیاں، اس کے علاہ اچانک موت کی صورت میں اہل و عیال یا ناگہانی بیماری کی صورت میں ان پر جو بیتتی ہے ،وہ قیامت سے کم نہیں ،اس حوالے سے “رب مبلغ اوعی من سامع” کو دیکھتے ہوئے چند ممکنہ حل دوستوں کی خدمت میں پیش کروں گا، احباب کی نظر میں جو ممکن ہے وہ بھی شیئر کریں ،شاید اتر جائے “بڑوں “کے دل میں “ہماری ” بات :
    حل نمبر ۱:
    اس کا سب سے بہترین حل یہ ہے کہ وفاق ایک “چیرٹی فنڈ برائے مدرسین” قائم کریں ،جس کا مقصد صرف اور صرف مدرسین کی کفالت و تعاون ہو ،اور وہ مدرسین کے لیے درجہ ذیل امور سر انجام دیں :
    ۱۔مخصوص سروس اور عمر والے مدرسین کو آسان شرائط پر کاروبار کے لیے قرضہ دینا
    ۲۔بڑی بیماری کی صورت میں مدرس اور اس کے اہل خآنہ کا علاج و معالجہ
    ۳۔ناگہانی موت یامدرس ناکارہ ہونے کی صورت میں مدرس اور اہل خانہ کے لیے مکان و کفالت کا بندوبست کرنا
    اب سوال یہ ہے کہ چیرٹی فنڈ میں پیسے کہاں سے آئیں گے ،تو متعدد راستے ہیں ،قائد وفاق ہر سال وفاق کے قائد کی حیثیت سے مختلف ملکوں کے دورے پر رہتے ہیں ،کبھی ترکی ،قطر تو کبھی سعودی عرب ،وہاں سے ایوارڈ لیتے ہیں ،اگر ان ملکوں کی حکومتوں اور شیوخ کے سامنے اس چیرٹی فنڈ کا قضیہ رکھیں ،تو ایک سال میں کروڑوں جمع ہوسکتے ہیں ،دوسری صورت یہ کہ بیرون ملک مخیر حضرات سے ایک تحریک کے ذریعے اس فنڈ کے لیے پیسے جمع کئے جاسکتے ہین ، ،یقین کریں یورپ و امریکہ میں اب بھی ایسے دیندار اور مالدار مسلمان بستے ہیں ،جو یہ اس فنڈ میں لاکھؤں ڈالر بخوشی دینے کو تیار ہونگے ،تیسری صورت حکومت پاکستان سے اس کے لیے مختص رقم کی درخؤاست کی جاسکتی ہے ،ہمارے حکومتی ارکان اتنے گئے گزرے نہیں ،کہ اس حوالے سے کوئی تعاون نہ کریں ۔یہ نہ ہو تو یہ صورت تو موجود ہے کہ وفاق میں رجسٹرڈ مدارس سے ماہانہ یا سالانہ کی بنیاد پر مدارس کے کوائف اور مدرسین کی تعداد کے اعتبار سے پیسے جمع کیا کریں، صرف کراچی کے بڑے مدارس ماہانہ لاکھوں روپے دے سکتے ہیں ،جس مدرسہ میں طلباء کا وظیفہ ہزاروں میں ہو ،جہاں کروڑوں کی عمارات مہینوں میں تعمیر ہو ،ان کے لیے چند لاکھ کوئی مسئلہ نہیں ،بس مسئلہ یہ ہے کہ اس طرف خاطر خواہ توجہ نہیں کی گئی ہے
    جب تک اجتماعی فنڈنگ کا معاملہ شروع نہیں ہوتا ،تو مدارس انفرادی طور پر بھی بہت کچھ کر سکتے ہیں ،مدارس اپبے قواعد و ضوابط میں تبدیلی لاتے ہوئے ایک خاص معیار اور مدت سروس مقرر کریں ،اس معیار پر پہنچنے کے بعد مدرس کے لیے مکان کا بندوبست مدرسہ کرے ،جو ان کی ملکیت میں ان کی خدمات کے اعزاز میں دی جائے ۔پوری زندگی ایک مدرسہ میں وقف کرنے کے بعد ایک مدرس کا کم از کم یہ حق تو بنتا ہے کہ اسے سر چھپانے کی جگہ مدرسہ فراہم کرے ۔مدارس کا ماہانہ خرچہ لاکھوں میں ہے ،دس بارہ یا پندرہ سال کے بعد ایک مدرس کے لیے مکان کا بندوبست کرنا مدرسہ کے لیے کوئی چنداں مشکل نہیں ، مدارس خود اپنے چندے میں سے ہر ماہ بنام مدرسین کچھ فنڈ متخص کیا کریں ،تو ایک مدت کے بعد اس میں اچھی خاصی رقم جمع ہوسکتی ہے ۔
    حل نمبر۳
    مدارس ذاتی طور پر رفاہی اداروں اور فلاحی ٹرسٹس کے سامنے مدرسین کا یہ مسئلہ رکھ سکتے ہیں ،بلکہ اب تو خود دینی طبقے کے کافی سارے فلاحی ادارے کام کر رہے ہیں ،انہیں اس طرح متوجہ کیا جاسکتا ہے ۔اس کے علاوہ عالمی سطح ہر مسلمانوں کے بہت سارے فلاحی ادارے کام کر ہے ہیں ،ان کی خدمات بھی لی جاسکتی ہیں ۔اس سے سب کا نہیں ،پر کافی سارے مدارس کے مدرسین کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے ۔اور ان کی کفالت کا اچھابندوبست ہوسکتا ہے ۔ ۔
    حل نمبر۴۔
    مدارس دوران تدریس ایک خاص معیار مقرر کر کے مدرسین کو آسان شرائط پر قرضہ بھی فراہم کر سکتے ہیں ،جس سے مدرس ایک کاروبار شروع کرے ۔کم از کم اس سے یہ تو ہوگا کہ مدرس کی ذاتی آمدنی کا کوئی ذریعہ ہوگا ۔مدرس کے بیمار ہونے کی صورت میں مزید تدریس جاری نہ رکھنے یا فوتگی کی صورت میں اس کے اہل خانہ کا اس آمدنی سے گزر بسر رہے گا ۔اور دوسروں کے دست نگر نہیں ہوںگے ۔اگر ہر مدرسہ دو سالوں بعد اپنے ایک مدرس کو آمدنی کے حوالے سے خود کفیل کرے ،تو اسے جہاں مدرسین کا مدرسہ کے ساتھ تعلق میں بے پناہ مضبوطی آئے گی ،وہاں مدرسہ کو بھی کافی سہولت مل سکتی ہے کہ تنخواہیں لیٹ ہونے کی صورت میں مدرسین کے حوالے سے کسی قسم کی بڑی پریشانی کا سامنا نہیں ہوگا ۔
    حل نمبر ۵
    ہر مدرسہ اپنے معاونین کی مدد سے ایک فنڈ تشکیل دے سکتا ہے ،جو مدرسین کی کفالت و تعاون کے لیے مختص ہو ۔اسی فنڈ سے مدرسین کے لیے مکان کا بندوبست اور فوتگی یا بیماری کی صورت میں مدرسین اور ان کے اہل خانہ کی کفالت کا معتد بہ بندوبست ہو سکتا ہے ۔
    حل نمبر۶
    مدارس میں مدرسین کی درجہ بندی کا رواج بالکل نہیں ہے ،مدرسین کی ترقی اور اس کی تنخواہ میں اضافہ مکمل طور پر مہتمم کی صوابدید پر ہوتا ہے ۔اس کے لیے وفاق ضابطہ بندی کر سکتا ہے ۔ قابلیت ،ڈگریوں ،تجربہ اور دیگر مہارتوں کے اعتبار سے مدرسین کی درجہ بندی ہونی چاہیے ،اور ہر سکیل کی تنخواہ کا ایک معیار ہونا چاہیے ۔کم از کم تنخواہ سے لیکر زیادہ سے زیادہ تنخواہ تک نظام ہونا چاہیے ۔درجہ بندی نہ ہونے کا نتیجہ ہے مدارس کے مدرسین کی تنخواہوں میں بہت بڑا فرق ہے ،آج بھی بلوچستان و خیر پختونخواہ میں ایک اعلی درجہ کے مدرس کی جو تنخواہ ہے وہ کراچی میں ایک ادنی درجے کے قاری صاحب کی تنخواہ ہوتی ہے ۔وفاق کو اس حوالے سے قدم اٹھانا چاہیے اور سرکاری ٹیچرز کے طرز پر ایک نظام ترتیب دینا چاہیے ۔اگر ایک مدرسہ افورڈ نہیں کر سکتا تو وہ تعداد میں کمی کرے ۔بھیڑ اکٹھی کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟اللہ نے ہر شخص کو اس کی وسعت کے بقدر دین کی خدمت کا مکلف بنایا ہے ۔پر افسوس ،یہاں کیف کی بجائے تعداد اور کثرت کو ہی ترقی ،قبولیت کا معیار سمجھا جاتا ہے ،سمجھ نہیں آتا ،دینی طبقے جمہوریت کی بھر پور مخالفت کے باوجود کیسے اپنے کو جانچنے کے لیے جمہوریت کو معیار بنا لیتے ہیں ؟اور محض طلباء و اساتذہ کی کثرت کو ہی سب کچھ سمجھا جاتا ہے ،چاہے نتائج نہ ہونے کے برابر ہی کیوں نہ ہو ۔اگر آج بھی مدرسین کو درجہ بندی کے اعتبار سے تنخواہیں ملیں ،تو ان کی کافی ساری مشکلات حل ہوسکتی ہیں؟
    حل نمبر۷
    ہر مدرس کو اس حوالے سے ذاتی طور پر بھی سوچنے اور ایک طویل منصوبہ بندی کرنی چاہیے ۔حدیث کے مطابق اپنے ورثاء کو فقیر اور دوسروں کا دست نگر چھوڑنے سے انہیں مالی حوالے سے خود کفیل کر کے چھوڑنا کئی گنا افضل اور اللہ کی خوشنودی کا سبب ہے ۔عمومی طور پر ہمارے دینی حلقوں میں مدرسین کے حوالے سے ایک سوچ یہ پھیلائی جاتی ہے کہ اپنی ذاتی آمدنی کے لیے کوشش کرنا “توکل ” کے خلاف ہے اور اسے “خدمت دین “میں رکاوٹ باور کرایا جاتا ہے ،حالانکہ دینی و شرعی حوالے سے یہ فکر و سوچ غلطی پر مبنی ہے ۔ہر آدمی پر اللہ نے اس کے اہل و عیال کا نفقہ واجب کیا ہے ،تو واجب کی ادائیگی کے لیے کوشش کسی بھی حوالے سے “مروجہ خدمت دین “سے کم نہیں ،خصوصا جبکہ مدرس کی نیت ہی اس کوشش سے کار تدریس میں مزید اطمینان ہو ۔مدرس ہر ماہ کی تنخواہ سے کچھ رقم رکھ کر ذاتی فنڈ تخلیق کر سکتا ہے ،کسی واقف سے قرض لیکر کاروبار کھڑا کر سکتا ہے ،پارٹ ٹائم کوئی اور جاب کر کے اپنی آمدنی میں اضافہ کر سکتا ہے ۔اہل مدارس کو چاہیے کہ اس حوالے سے مدرسین کو سپورٹ کرے اور ان کی اس کوشش میں روڑے نہ اٹکائے ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ مہتممین حضرات اس حوالے سے مدرسین کا تعاون تو کجا،مزید مشکلات کھڑی کرتے ہیں ،آج بھی ہمارے مدارس میں اعلی درجے کے مدرس کی تنخؤاہ ایک “چپڑاسی”کے برابر ہوتی ہے ،لیکن اس پر خآرجی مصروفیات کے حوالے سے اتنی پابندیاں ہوتی ہیں ،کہ وہ مزید کسی کام کا نہیں رہتا ۔کم از کم اس حوالے سے اکابرین دیوبند کا یہ رویہ نہیں تھا ،خصوصا حضرت تھانوی رحمہ اللہ کے ملفوظات میں اس چیز کی بکثرت مثالیں ملتی ہیں ،نیز ہمارے ہاں تنخواہ بڑھانے کے لیے درخؤاست دینا یا اس کا مطالبہ کرنا بہت معیوب سمجھا جاتا ہے ،حالانکہ حضرت مدنی رحمہ اللہ نے دار العلوم دیوبند میں صدر مدرس لگتے وقت نہایت اعلی تنخؤاہ کا مطالبہ سامنے رکھا تھا ،جسے اہل مدرسہ نے منظور کیا تھا ۔حضرت مدنی کا تنخؤاہ کی زیادتی کا مطالبہ توکل اور بزرگی کے خلاف نہیں ،تو آج کے کسی مدرس کا یہ عمل کیونکر توکل کے خلاف ہوگیا؟؟

  • مذھب اور خدا – قاری محمد حنیف ڈار

    مذھب اور خدا – قاری محمد حنیف ڈار

    ہر مذھب میں خدا ، جنت ، 12994457_10154146932201155_6332870160742657972_nجہنم اور شیطان کے بارے میں تصور موجود ھے ،الفاظ کے اشتراک سے یہ لازم نہیں کہ جو اسلام کا خدا ” اللہ ” ھے وھی اور ویسا ھی خدا ھر مذھب کا ھے اور جیسی جنت ، جہنم اسلام بیان کرتا ھے ویسی ھی جنت جہنم کا ذکر دوسرا مذھب بھی کر رھا ھے ، قرآن کے شیطان اور دیگر مذاھب کے شیطان میں بھی زمین آسمان کا فرق ھے ،، لفظوں یا ناموں کا اشتراک صحرائے گوبی سے بھی بڑا سراب ھے ،، اسی لئے ایمان کی صفت مفصل میں تفصیل سے اسلامی خدا کو دوسرے مذھب کے تصورِ خدا سے جدا کیا گیا ھے ، آمنت باللہ کما ھو بأسمائہ و صفاتہ ،، ھم اللہ کو اس کی کنہہ سے نہیں بلکہ اسماء اور صفات سے جانتے اور مانتے ھیں ،، ھم اسے الحی یعنی زندہ مانتے ھیں یہ اس کا صفاتی نام ھے ،مگر زندہ کیسے ھے ، اس کی حقیقت سے ھم آگاہ نہیں ھیں ،، وہ موجود ھے مگر بغیر موجود کے کیسے موجود ھے اس کی تفصیل نہیں جانتے ،،
    جنت کو ھندو سورگ کے نام سے جانتے ھیں مگر ھندو ازم کا “سورگئے ” یعنی جنت باشی پھر جنم لے سکتا ھے ،، وھاں سے نکالا جا سکتا ھے جبکہ اسلام کا جنتی وھاں دائمی رھے گا اور یہی اصل اور حقیقی زندگی ھے ،جس کے لئے یہ فانی زندگی ایک Sample کے طور پر مفت فراھم کی گئ ھے ، کہ اس سے وہ آخرت والی دائمی زندگی کماؤ، زندگی کا یہ دنیاوی فیز ٹرائلز کا مرحلہ ھے جس میں اس حقیقی زندگی کے حقداروں کا تعین کیا جا رھا ھے جو لوگ یہ چند روزہ زندگی امن و سکون اور پیار محبت سے نہیں گزار سکتے وہ بھلا کہاں اس قابل ھیں کہ انہیں ھمیشہ کے لئے ایک دوسرے کے برابر میں بسا دیا جائے اور پھر جنگوں کا نہ ختم ھونے والا سلسلہ وھاں بھی شروع ھو جائے !
    قرآن حکیم میں بڑی صراحت و وضاحت کے ساتھ ھندو ازم کے تصورِ جنت کی نفی کی گئ ھے ، ” لا یمسھم فیھا نصب وما ھم منھا بمخرجین ،، نہ وہ وھاں بور ھونگے اور نہ ھی انہیں وھاں سے نکالا جائے گا ،، اسی طرح فرمایا گیا کہ ” یقیناً جو لوگ ایمان لائے اور اعمال صالح کیئے ان کا ٹھکانہ جنت الفردوس ھے وہ اس میں ھمیشہ رھیں گے ،وہ وھاں سے شفٹ ھونا پسند نہیں کریں گے ”
    قرآن کی جنت اور جھنم کے بارے میں ھر آیت کسی نہ کسی دوسرے مذھب کے تصور کا بغیر ذکر کئے جواب ھے ،جو لوگ تقابلِ ادیان کے طالب علم ھیں وہ جب قرآن پڑھتے ھیں تو جو مزہ انہیں آتا ھے وہ کسی دوسرے کو آ بھی نہیں سکتا کیونکہ وہ فوراً سمجھ جاتے ھیں کہ یہ کس مذھب کے کس عقیدے کی تردید کی جا رھی ھے ، چاھے وہ آیت اللہ کی صفت بیان کر رھی ھو یا جنت ،جھنم یا شیطان کا تذکرہ ھو رھا ھو ،، ان کے قرآن کو سمجھنے اور عام انسان کے قرآن پڑھنے میں زمین آسمان کا فرق ھے ،،ھندو مذھب جنت سے بھی خوفزدہ ھے کیونکہ ان کے نزدیک ان کے دیوتا 19 ، 19 بار بھی جنت میں جا کر نکال باھر کئے گئے ھیں اور کسی نہ کسی نئے امتحان سے دوچار کیئے گئے ھیں لہذا ھندو مذھب جنت کا متلاشی نہیں بلکہ نروان کا متلاشی ھے ، ایسا خواب جو کہ دائمی ھو، ،، قرآنِ حکیم ایک ھی آیت میں عیسائیت کے تصورِ جنت کی نفی کرتا ھے تو ساتھ ھندو ازم کا قصہ بھی چکا دیتا ھے !

    عیسائیوں میں جنت یا Paradise کا تصور موجود ھے مگر انتہائ ناقص تصور ھے ، عیسائیت کی جنت ایک حسین اور مسلسل خواب ھے ،جس میں وہ سب عیش ھو گا جو اس دنیا میں پایا جاتا ھے یا جس کی تمنا انسان کر سکتا ھے ،مگر وہ سوائے خواب کے کچھ بھی نہیں ھو گا، قرآنِ حکیم سب سے زیادہ اس تصور کی نفی کرتا ھے ، قرآن جب یہ بیان کرتا ھے کہ ” وہ تخت پر گھاؤ تکیئے لگائے بیٹھے ھونگے ” تو وہ یہ دلیل دے رھا ھوتا ھے کہ روح نہ تو ٹیک لگا سکتی ھے ، نہ فروٹ وغیرہ کھا سکتی ھے ،، یہ جسمانی جنت ھو گی جو بدن کے ساتھ ھو گی جو ٹیک لگائے بیٹھا ھو گا ، اسی طور جب جب جس جس نعمت کا ذکر کیا گیا ھے ، اس میں انسان کے بدن کو شامل کر کے دلیل کے طور پہ ذکر کیا گیا ھے نہ کہ لالچ کے طور پر ، قرآن جنت کی زندگی کو خواب نہیں بلکہ سب سے بڑی حقیقت اور حقیقی زندگی قرار دیتا ھے ” وَإِنَّ الدَّارَ الآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ ” آخرت کے گھر کا جینا ھی آخری جینا ھے ( نہ کوئی کوئی خواب ھے ،کیونکہ خواب کی زندگی چاھے وہ کتنا خوشگوار خواب ھی کیوں نہ ھو ، اسے زندگی کوئی نہیں کہتا ،،خواب ھی کہتا ھے !

    جو لوگ ان آیات کو کہ جن میں جنت کی نعمتوں کا ذکر ھے اعتراض کے طور پہ پیش کرتے ھیں وہ اس حقیقت سے بے خبر ھیں کہ یہ ساری نعمتیں جسمانی وجود کے ساتھ ھی استعمال کی جا سکتی ھیں ،، اور ان آیات کو انسانی جسم کے ساتھ آخرت کی زندگی کی دلیل کے طور پہ ذکر کیا گیا ھے نہ کہ لالچ کے طور پہ ،، اخرت میں ھر وہ ضرورت موجود ھو گی جس کا تقاضہ یہ انسانی بدن اس دنیا میں کرتا ھے ،، سوائے اولاد کے جو اسے چھوٹے بچوں کی صورت میں فراھم کر دی جائے گی اور ان میں اولاد کی سی محبت ڈال دی جائے گی ،یہ کفار کے بچے ھونگے جو بچپن میں مر گئے ھونگے اور جن کے والدین خلود فی النار کے مستحق ھونگے ،،،

    شیطان سے متعلق بھی سب سے کلیئر کٹ اور واضح موقف اسلام کا ھے اور قرآن نے اس واقعے کو بار بار مختلف انداز میں بیان فرمایا ھے اور ھر جگہ اس کے نئے زاویئے کو استدلال کے لئے استعمال فرمایا ھے ، ھندو عیسائی اور یہود میں بعض لوگوں نے شیطان کو خدا کے مقابلے کی دوسری طاقت کا درجہ دیا ھے ،جس کی باقاعدہ پوجا بھی کی جاتی ھے ، ان کے نزدیک جھنم شیطان کی عملداری کا علاقہ ھے جہاں اس کی اطاعت کرنے والے رکھے جائیں گے جبکہ جنت اللہ کی عملداری کا علاقہ ھے جہاں اس کی اطاعت کرنے والے اکاموڈیٹ کیئے جائیں گے ، اس کی وضاحت انگریزی کی ضرب المثل سے بیان کی جاتی ھے ” Better to reign in Hell, than serve in Heaven. جسے ھم جھنم کا داروغہ مالک کہتے ھیں ،وہ وھاں شیطان کو بٹھاتے ھیں ،،

    اللہ کا کرم ھے اور قرآن میں شیطان کے واضح اسٹیٹس کے تعین کا نتیجہ ھے کہ مسلمانوں کے گمراہ ترین فرقوں میں بھی شیطان کے بارے میں کبھی کو ابہام پیدا نہیں ھوا اور اسے اللہ کا مجرم اور باغی ھی سمجھا گیا نہ کہ خدا کے برابر درجے کا کوئی شریک ،کہ شر پر جس کی حکمرانی ھو ،، قرآن کے مطابق شیطان اللہ کا باغی ھے نہ کہ اللہ کے مساوی کوئی قوت ،، شیطان سے پوچھ پوچھ کر حقیقت کو واضح کیا گیا کہ اس نے کن وجوھات کی بنا پر بغاوت کی روش کو ترجیح دی ، اس کی ایک قسم اللہ پاک نے کوٹ کی ھے ،، قال فبعزتک لأُغوینۜھم اجمعین ،، تیری بے نیازی کی قسم میں ان سب کو اغوا کرونگا ،، گویا وہ یہ بات جانتا ھے کہ اللہ پاک اپنی مخلوق سے بےنیاز ھے ، نہ ان کی عبادت اس کا نفع کرتی ھے اور نہ معصیت اس کا نقصان ، سارے جنت چلے جائیں تو بھی اس کا کوئی نفع نہیں اور جھنم چلے جائیں تو اس کا کوئی نقصان نہیں ،، عبادت و طاعت کا نفع اور معصیت و بغاوت کا خسران خود انسان کی ذات سے جڑا ھوا ھے ،، ومن تزکی فانما یتزکی لنفسہ ،،جو پرھیزگاری کی روش اختیار کرے گا اپنی ذات کے لئے کرے گا ،،

    اسی طرح فرمایا و من جاھد فانما یجاھد لنفسہ ،، جو جہاد یا جدجہد کرے گا اپنی ذات کے لئے کرے گا ،، شیطان کی حماقت ھے کہ اس نے اپنا ایجنڈا اے بی سی کی طرح کھول کر بیان کر دیا کہ ” کیا کرے گا اور کیسے کرے گا ” اللہ نے حدیں قائم کر دی ھیں جو ان حدوں کے اندر رھے گا شیطان اسے اغوا نہیں کر سکے گا ، جو ان سے نکلے گا شیطان ان کے لئے گھات لگا کر بیٹھا ھے ،، ان حدوں سے نکالنے کے لئے شیطان نے بتایا کہ ” ولاُمنینھم ولأمرنھم ،، میں ان میں تمنائیں پیدا کروں گا ،،تمنائیں وسائل سے بڑھ جائیں گی تو پھر انہیں حکم دونگا یا مشورہ دونگا یا دعوت دونگا کہ ایکسٹرا وسائل کیسے مہیا کرنے ھیں یوں تمناؤں کے باؤلے لوگ میرے پیچھے لگ جائیں گے ،، طاقت نہ شیطان کے پاس ھے کہ کسی کو جھنم لے جائے یا مار کر ٹیکسی میں ڈالے اور شراب خانے لے جائے ،، وہ تو بس خیال ڈالتا ھے کہ ، آج موسم بڑا گلابی ھے ، آج پینے میں کیا خرابی ھے ؟

    اسی طرح پیغمبر بھی زبردستی جنت میں لے جانے کا مجاز نہیں ھے ، وہ بھی دعوت دیتا ھے ،، شیطان حشر کے دن فیصلے ھو جانے کے بعد اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کا مدلل جواب دینے کی اجازت مانگے گا ،بجائے ایک ایک فرد کے الزام کا جواب دینے اور اپنی صفائی پیش کرنے کے ،،وہ ایک ھی بار ساری انسانیت کو مخاطب کر کے جواب دے گا ،،
    وَقَالَ الشَّيْطَانُ لَمَّا قُضِيَ الْأَمْرُ إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدتُّكُمْ فَأَخْلَفْتُكُمْ ۖ وَمَا كَانَ لِيَ عَلَيْكُم مِّن سُلْطَانٍ إِلَّا أَن دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِي ۖ فَلَا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنفُسَكُم ۖ
    اور شیطان کہے گا جب فیصلے ھو جائیں گے کہ اللہ نے تم سے جتنے وعدے کیئے تھے بےشک وہ سارے سچے تھے اور میں نے جتنے وعدے کیئے تھے ان کو کو پورا نہ کیا ،، میرے پاس نہ دلیل کی طاقت تھی اور نہ جسمانی طور پر مجھے تم پر جبر کی اجازت تھی ،سوائے اس کے کہ میں نے تمہیں دعوت دی جو تم نے قبول کر لی سو مجھے ملامت مت کرو ملامت اپنے آپ کو کرو ( کیونکہ اختیار تمہارے پاس تھا میرے پاس نہیں تھا )

  • نیکی کی مارکیٹنگ – حافظ محمد زبیر

    نیکی کی مارکیٹنگ – حافظ محمد زبیر

    13131697_1313335138696248_7054411978620117483_oمشاہدے میں آیا ہےکہ خوش الحان واعظین کی ایک ایسی جماعت وجود میں آ چکی ہے کہ جو نعت خواں حضرات کی طرح مسجد انتظامیہ سے ایڈوانس رقم طے کرتی ہے اور رقم کم ہونے کی صورت میں وقت دینے پر آمادہ نہیں ہوتی۔ یہ واعظین رمضان کی ایک رات میں کئی کئی مساجد بھگتاتے ہیں۔ وعظ کے دوران بار بار گھڑی کو دیکھتے ہیں اور جیسے ہی گھنٹہ پورا ہوا تو وعظ ختم کیونکہ مسجد والوں نے واعظ صاحب کو صرف ایک گھنٹے کا کرایہ دیا تھا۔ مزید گھنٹوں کے لیے نئے معاہدے کی ضرورت پڑتی ہے۔

    ایسے واعظین عموماً مدرسے سے چوتھی یا پانچویں کلاس کے بھگوڑے ہوتے ہیں یا مدرسہ کی تاریخ میں ان کا علمی ریکارڈ کوئی قابل ذکر چیز نہیں ہوتا لیکن آواز میں ترنم یا اسٹائل ہوتا ہے کہ جس کی وجہ سے لوگ انہیں پسند کرتے ہیں۔ رٹے رٹائے قصے کہانیاں سناتے ہیں، ہیکیں لگاتے ہیں، لطائف اور چٹکلے چھوڑتے ہیں اور شعر و شاعری میں وقت پاس کرتے ہیں۔ اپنی چاپلوسی کو پسند کرتے ہیں اور دو چار طالب علم ان کے آگے پیچھے ہوتے ہیں۔ کوئی ان کی جوتیاں سیدھا کرے تو عجیب خوشی محسوس کرتے ہیں۔ وعظ کے لیے آتے اور جاتے وقت مسجد کے حجرہ میں ان کی خوب خاطر مدارت ہوتی ہے۔ بعض کا تو کھا کھا کر پیٹ اس قدر باہر آیا ہوتا ہے کہ کرتہ پھٹنے کو آئے۔

    یہ واعظین رمضان کی طاق راتوں میں ٹائم پاس کرنے یا تفریح کا ایک بہترین ذریعہ بن چکے ہیں ۔ ان کے وعظ میں اصلاح اور تربیت نام کی چیز نہیں ہوتی۔ ان کا بیان کیا ہوتا ہے بس قصے کہانیوں، شعر و شاعری، ہیکوں، مخالف مکتبہ فکر پر پھبتیاں کسنے کا معجون مرکب ہوتا ہے۔

    یہی حال رمضان المبارک میں قراء کا بھی بن چکا ہے۔ دو چار طالب علموں کے جلو میں تشریف لاتے ہیں۔ ان کی آدھی نماز سر پر رکھے سعودی رومال کو سنبھالنے میں ہی گزر جاتی ہے۔ بعضے تو خوب گلا پھاڑتے ہیں اور بعض بتکلف رونے کی کوشش کرتے ہیں۔ خود بھی خوب خشوع وخضوع سے روتے ہیں اور لوگوں کو بھی رلانے میں پورا زور لگاتے ہیں۔ پورا سال خلوت میں جنہیں اپنے رب کے سامنے دو آنسو بہانے کی توفیق نصیب نہیں ہوتی وہ رمضان کی طاق راتوں میں ہزاروں کےمجمعے کو رلاتے ہیں۔ تنہائی میں اگر رونے میں تکلف کرے تو ایسا تکلف جائز ہے لیکن مجمعے میں تکلف سے رو کر دکھلاوہ کرنا کون سی نیکی ہے؟

    اور نعت خواں تو ان کےتو کیاکہنے! رمضان ہو یا غیر رمضان، ان کی حرکتیں برابر رہتی ہیں۔ کرائے کے اعتبار سے ان میں کئی درجے ہیں۔ نعت پڑھنے کے معقول معاوضہ کے علاوہ ایئر ٹکٹ، فائیو اسٹار ہوٹل میں قیام اور سامعین کی طرف سے پھینکی جانے والی ویلوں کا بھی تقاضا کرتے ہیں۔ اور ان کی نعت کیا ہے؟ دو چیزوں کا مرکب ہے، اپنے عاشق رسول ہونے کے دعوے اور دوسرے مسلک کے گستاخ رسول ہونے کے الزامات کا مجموعہ ہے۔ نعت کو مسلکی عصبیت اور مذہبی منافرت بھڑکانے کے لیے خوب استعمال کرتے ہیں اور نعت میں اللہ کے رسول کا ذکر کم ہی کرتے ہیں۔

    نعت میں خوب راگ الاپتے ہیں اور گانوں کی دھن پر نعت کہتے ہیں۔بعض تو میوزک کا بھی خوب استعمال کرتے ہیں۔ بعض سٹیج پر تشریف لانے سے قبل گلہ صاف کرنے کے لیے سگریٹ نوشی اور تمباکو پان کھانے کا بھی اہتمام فرماتے ہیں ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو خوب بیچ رہے ہیں اور آپ کا نام بیچ کر خوب دنیا بنا رہے ہیں۔ ساری رات نعت پڑھیں کریں گے اور صبح کی نماز قضا کر دیں گے اور اپنی نعت میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر میں اتنا مبالغہ کریں گے کہ نعت کو شرک تک پہنچا دیں گے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ آپ نے صحابہ کرام سے فرمایا: ”میری تعریف میں ایسامبالغہ نہ کرنا جیسا کہ عیسائیوں نے حضرت عیسی کی تعریف میں کیا ہے۔ میں تو صرف اللہ کی بندہ ہوں اور مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہی کہو۔“

    لیکن آپ کی اس ہدایت کو پس پشت ڈالتے ہوئے بعض شعراء نے آپ کی تعریف میں اتنا مبالغہ کیا ہے کہ جتنا عیسائیوں نے حضرت عیسی کی تعریف میں نہیں کیا۔ اُنہوں نے تو حضرت عیسی کو اللہ کا بیٹا قرار دیا تھا لیکن اِنہوں نے تو براہ راست ہی اللہ قرار دے دیا۔ اگر آپ کو نعت سننے کا شوق ہے تو اپنے گھر کے کسی بچے کو کوئی اچھی سی لکھی ہوئی نعت دیں اور اکیلے میں اس سے سن لیں۔ اس طرح نعت سننے سے آپ کی ذات سے جو تعلق پیدا ہو گا، وہ کرائے کے نعت خوانوں کے گلا پھاڑ کر چیخنے چلانے اور گانوں کے راگ اور سُر لگانے سے کبھی پیدا نہ ہو گا۔

    ہمیں اپنی طاق راتوں کو طویل قیام، لمبے رکوع و سجود، ذکر و اذکار، تلاوت قرآن، ترجمہ و تفسیر قرآن کے مطالعہ، محاسبہ نفس اور کائنات میں غور و فکر کے ساتھ مزین کرنا چاہیے اور دین کے نام پر تماشہ کرنے والوں سے حتی الامکان دور رہنا چاہیے۔ یہ واضح رہے کہ ہماری اس تحریر کا مقصد طاق راتوں میں کسی وعظ و بیان، نعت ونظم یا قیام اللیل کی نفی نہیں ہے بلکہ انفرادی عبادت کی ترغیب وتشویق دلانا ہے اور اجتماعی عبادت کے حوالے سے جو کوتاہیاں پیدا ہو رہی ہیں ان کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں: ”اس امت میں سے جس نے آخرت کا عمل دنیا کے لیے کیا تو اس کو آخرت میں کچھ حصہ نہ ملے گا۔“

  • حیرت انگیز بریکنگ نیوز – عظیم الرحمن عثمانی

    حیرت انگیز بریکنگ نیوز – عظیم الرحمن عثمانی

    12308397_10154427202361632_3715715698179473642_n کچھ سالوں قبل ایک قریبی دوست نے مجھے دعوت پر مدعو کیا. گھر میں داخل ہوا تو دیکھا کہ مہمان و میزبان سب ایک کمپیوٹر سکرین کے گرد جمع ہیں اور سبحان اللہ ، اللہ اکبر کے نعروں کا غلغلہ ہے. میں بھی جذبہ ایمانی سے سرشار آگے بڑھا کہ جان سکوں ماجرہ کیا ہے؟ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ سرزمین عرب پر کوئی ایسا درخت دریافت ہوگیا ہے جو با آواز بلند .. جی ہاں بآواز بلند الله سبحان تعالیٰ کی حمد بیان کر رہا ہے. زمین کا مالک اس درخت کو کٹوا کر وہاں ایک عمارت تعمیر کرنے کا متمنی ہے مگر اس نے جدید و قدیم سب نسخے آزما لئے لیکن درخت نہ اب کٹتا ہے نہ تب. بلآخر اس نے یہ اعلان کردیا ہے کہ جو اس درخت کو کاٹ دے گا میں اسے ملین ڈالر کا انعام دوں گا اور یہ بھی کہ اب تک ہر کوشش ناکام رہی ہے. یہی وہ حیرت انگیز بریکنگ نیوز تھی جسے کسی ویب سائٹ سے پڑھ کر احباب سبحان اللہ اور اللہ اکبر کی صدائیں بلند کر کے جھوم رہے تھے. میں نے بھی کہا سبحان اللہ ! دوستو، رفیقو یہ تو کمال ہوگیا ! مجھے تو یہ حضرت موسیٰ ع کی لاٹھی سے بھی بڑا معجزہ معلوم ہوتا ہے. ہمیں چاہیئے کہ ہم اسی وقت گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کو فون کریں اور دنیا کو بتادیں کہ دیکھ لو اسلام ہی واحد سچا دین ہے. ہمارے پاس اب واضح ثبوت اور اللہ کا معجزہ موجود ہے. ہمیں چاہیئے کہ ہم غیرملکی مبصرین کو مدعو کریں یا کم ازکم قومی ٹی وی چینل یا خبر رساں اداروں کو ہی اس پر ایک دستاویزی فلم بنانے پر مجبور کریں.
    .
    میری اس تجویز کو سن کر تمام احباب خاموش، جواب ندارد. کوئی کھسیانی ہنسی ہنسا تو کوئی نظریں چرانے لگا. کیوں؟ اسلئے کہ دل میں یہ سب جانتے تھے کہ اس قسم کے قصے کہانیاں من گھڑت ہوا کرتے ہیں جن کا دین سے تعلق تو دور کی بات اس کا کوئی ناطہ عقل و فہم سے بھی نہیں جوڑا جاسکتا. مگر چونکہ جھوٹ بولنے والے نے یہ جھوٹ اسلام کا نام لے کر بولا ہے اور اسے تقدس کی پوشاک پہنا کر لکھا ہے اسلئے کسی میں ہمت نہیں کہ جھوٹے کا گریبان پکڑسکے. حالانکہ اگر جھوٹ بولنا گناہ ہے تو اسلام کا نام لے کر جھوٹ بولنا گناہ کبیر ہے. آج ہم میں سے بہت سے افراد ایسے موبائل یا سوشل میڈیا پیغامات بھیجتے نظر آتے ہیں جن میں دعویٰ کیا گیا ہوتا ہے کہ فلاں صاحب کو ایک خواب آیا جس میں اس نے فلاں مقدس شخصیت جیسے بی بی زینب رض کو دیکھا جو کہہ رہی ہیں کہ فلاں عمل اتنی بار لازمی کرو. ساتھ ہی لکھا ہوتا ہے کہ فلاں نے عمل کیا تو اسے مالی فائدہ پہنچا اور فلاں نے عمل نہ کیا تو اسے نقصان ہوگیا یا وہ کسی حادثے سے دوچار ہوگیا (استغفراللہ). کیا اس طرح کی خرافات چاہے وہ بظاہر کتنی ہی مقدس کیوں نہ نظر آئیں، لوگوں میں پھیلا کر آپ کون سے دین کی خدمت کررہے ہیں؟ کیا اسلام کا پیغام معاذ اللہ اتنا اپاہج ہے کہ اسے پہنچانے کیلئے ان کہانیوں کا سہارا لینا پڑے؟ صحیح مسلم میں میرے نبی ص نے کی ایک حدیث کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ ” کسی کے جھوٹا ہونے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ کوئی بات سُنے اور بغیر تصدیق کے آگے بیان کر دے“۔ خدارا ایسے پیغامات سے بلیک میل ہو کر انہیں بناء تصدیق نہ پھیلائیں. جان لیں کہ ایسا کرنا ثواب نہیں قبیح گناہ ہے. جس کتاب میں تخلیق کائنات پر تدبر کرنے اور مظاہر فطرت میں تفکر کرنے کی ترغیب دی گئی ہے ، آج اسی کتاب کے حامل حقیقی تحقیق کی بجائے صرف آلو یا بادلوں پر اللہ کا نام کھوج رہے ہیں. عزیزان من، اللہ رب العزت کی حقیقی حمد صرف حلق سے “ح” نکال کر سبحان اللہ کہنا نہیں ہے بلکہ اس کی تخلیق پر تحقیق کرکے قوانین کی دریافت و ایجادات کرنا ہے. پھر سبحان اللہ کہنا محض ایک کلمہ نہیں رہے گا بلکہ زبان حال بن جائے گا
    .

  • دلیل ، خوش آمدید – ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

    دلیل ، خوش آمدید – ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

    1096_96255163 دلیل کا آغاز ہو رہا ہے۔ ہمارے معاشرے کے لیے سب سے زیادہ اہم اور غالباً اسی قدر کمیاب شے ہے یہ دلیل۔ دعا ہے کہ اس کے منصہ شہود پر آنے سے “تھا جس کا انتظار وہ شاہکار آگیا” کے مصداق پاکستانی قوم کے لیے ایک مشعل راہ کا سامان ہو جائے۔

    بامقصد صحافت یا صحافت برائے بہتری کے لیے جتنی اہمیت ٹھوس حقائق کی ہے اس سے انکار ممکن نہیں۔ تاہم اس کے ساتھ اس بات کا اہتمام بھی لازم ہے کہ ان حقائق کا ابلاغ ایسے پیرائیہ میں ہو کہ عوام تک بات ممکنہ حد تک اپنی اصل حالت میں پہنچے اور اس کے بعد اگر کوئی بحث چلتی ہے تو وہ جذباتیت اور پھوہڑپن سے پاک ہو۔

    یہ بہت اہم ذمہ داری ہے ۔ “دلیل” سوشل میڈیا و آن لائن کے حوالہ سے بامقصد اور بامعنی صحافت کا علمبردار ہے اور اس کے ذمہ یہ کام بھی ٹھہرتا ہے کہ وہ بات کرنے کو “آسان” بنائے۔

    ہمارے سماج کو اس وقت تین بڑے چیلنجز کا سامنا ہے ۔

    اول یہ کہ ہم گفتگو کو ایک طے شدہ پوزیشن لے کر آغاز کر تے ہیں اور خیالات میں تبدیلی کا جس قدر بھی امکان رہتا وہ صرف دوسرے کی طرف ہوتا ہے کہ اسے ہمارے مطابق تبدیل ہونا چاہیے۔ شومئی قسمت، دوسری جانب سے بھی اسی رویہ کا مظاہرہ دیکھنے میں آتا ہے اور نتیجتاً کسی بھی ایسی “گفتگو” کے بعد ہر دو اطراف اور بھی زیادہ مضبوطی سے اپنے مؤقف پر جم جاتے ہیں نیز اب اس میں ایک دوسرے کے حوالہ سے غصہ اور تعصب میں کئی درجہ بڑھوتری بھی ہو چکی ہوتی ہے۔ یعنی، کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے۔ مکالمہ ، مناظرہ کی نظر ہؤا اور مناظرہ ، مناقشہ کی۔

    دوسرا اہم مسئلہ (جو میری رائے میں ایک نہایت خطرناک صورتحال کی عکاسی کرتا ہے) یہ ہے کہ غیر محسوس انداز سے ہم مذہبی اور علاقائی بنیادوں پر ایک دوسرے سے کٹتے چلے جارہے ہیں۔ اب اس میں سیاسی (اور سیاسی بمقابلہ فوج) تفریق کو بھی کسی حد تک شامل کیا جا سکتا ہے۔ بظاہر سب تھیک لگتا ہے لیکن جب بھی آپ سوشل میڈیا پر کسی ایسے گروپ میں جا نکلتے ہیں جو کسی ایک فکر کا ترجمان ہو تو وہاں پر جو خیالات ملتے ہیں انہیں محض اختلاف قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ ان کی تپش ، لہجہ اور مندرجات ایک پریشر کوکر کا پتہ دیتے ہیں جو پھٹ پڑنے کے قریب ہو۔ اس کا ہدف بالعموم وہ معاملات رہتے ہیں جنہیں ہم قومی اتفاق رائے کا مظہر قرار دیتےہیں۔ وہ سی پیک ہو ، ضرب عزب ہو یا پھر کراچی آپریشن۔ بے چینی کی ایک زیر زمین لہر آپ کو ہر جگہ دکھائی دے گی۔ اس کا سدباب ضروری ہے۔ جو باتیں مکمل اتفاق کا نتیجہ بھی ہوں ان کے بارے متعلقین اور متاثترین کے آراء پر وقتاً فوقتاً غور کرنا انتہائی اہم ہے۔ اسی طرح جمع فرسٹریشن کا خاتمہ بھی ہو سکے گا اور ایک متفقہ منصوبہ کو اس کے منطقی انجام تک “متفقہ” رکھا بھی جا سکے گا۔ وگرنہ ۔۔۔ یہ خدشہ اپنی جگہ موجود ہے کہ کوئی بدخواہ کسی وقت بھی سلگتے جزبات کو جوالہ نہ بنا دے۔ سوشل میڈیا پر یہ سب کرنا بہت آسان ہے۔ اس حوالہ سے ایک بھرپور اور مستقل حساسیت کا فروغ نہایت اہم ہے۔

    تیسرا بڑا چیلنج جو ہمیں درپیش ہے ۔۔۔۔ وہ دگرگوں عالمی حالات ہیں۔ بالخصو، ہمارے اڑوس پڑوس میں۔ یہ خطہ عالمی طاقتوں کی باہمی سر پھٹول سے شدید عدم استحکام کا شکار ہے ۔ تاہم یہ تاثر نمایاں ہے کہ یا تو ہماری قوم کو اس عفریت کے اصل حجم کا اندازہ نہیں ہے یا وہ اس سے بالکل لا تعلق ہوئے بیٹھے ہیں۔ حکومت کا بیانیہ اس ضمن میں بے اثر سا لگتا ہے اور رہی سہی کسر ہر بات پر “کانسپریسی تھیوری” کا نعرہ لگانے والوں نے پوری کر دی ہے۔ قوم کو اس جاری کشمکش کے عواقب اور اس کے ہنگام اپنی ممکنہ حکمت عملی سے متعلق آگاہ کرنا بھی ضروری ہے تاکہ بےخبری میں عمل اور جدوجہد کی راہ کھوٹی نہ ہو جائے ۔

    “دلیل” کا ان چیلنجز سے نمٹنے میں ایک اہم رول ہو گا۔ اس کا پلیٹ فارم اور اس کے قاری اس سلسہ کی اہم ترین کڑی ہیں۔ غصہ ، ری ایکشن، تخریب، طنز، تضحیک وغیرہ سے دانستہ اعراض کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہے کیونکہ اس دنیا میں تہذیب سے بڑھ کر کوئی دلیل نہیں۔

    اللہ تعالی آپ کا حامی و ناصر ہو۔ آمین

  • کیا ہم دلیل پر زندگی بسر کر سکتے ہیں؟ مجاہد حسین

    کیا ہم دلیل پر زندگی بسر کر سکتے ہیں؟ مجاہد حسین

    482921_4302145965119_2052185217_n کیا ہم دلیل پر اپنی زندگی بسر کرسکتے ہیں؟ ہر ذی شعور آدمی تسلیم کرے گا کہ یہ ممکن نہیں کیونکہ دلیل اس انسانی عقل کی ضمنی پیداوار ہے جس نے پچھلے چند ہزار سالوں میں تہذیبی ارتقا میں اپنا حصہ ڈالنا شروع کیا ہے۔ اس کے برعکس آج بھی ہمارے وجود کا بیشتر حصہ ان جبلتوں کے زیر اثر رہتا ہے جن کی تشکیل میں لاکھوں سال لگے ہیں۔ عقل کا مقصد وجود تو یہ ہے کہ ان جبلتوں کو اپنے قابو میں رکھے لیکن حقیقی دنیا میں یہ سرکش قوتیں الٹا عقل کو ہی اپنی تسکین کا ذریعہ بنا لیتی ہیں۔ یہ ایک اہم پہلو ہے جسےذہن میں رکھنا اشد ضروری ہے۔ ہر لکھاری کو ہمہ وقت یہ تجزیہ کرتے رہنا چاہیے کہ وہ دلیل کا استعمال واقعی کسی بڑے مقصد کے لیے کر رہا ہے یا پھر اسے اپنی کسی ایک اچھی دلیل کے اجزا کیا ہوتے ہیں؟ اس اہم سوال کے تکنیکی پہلو تو منطق کے دلدادہ اصحاب بتا سکتے ہیں۔ میں تو بس اتنا جانتا ہوں کہ دلیل مکالمے کا ایک حصہ ہے جبکہ مکالمہ کسی بڑے آدرش کا ایک اہم جزو۔ جب کوئی بڑا مقصد سامنے ہو تو بعض اوقات ایسے مواقع بھی آ جاتے ہیں کہ اپنی بہترین دلیل کو قربا ن کرنا پڑ جاتا ہے۔ جو لوگ دلیل کو تلوار کی طرح چلاتے ہیں وہ آخرکار نامراد ہی ٹھہرتے ہیں کیونکہ مباحثہ جیتنا کبھی بھی مقصود نہیں ہوتا بلکہ انسانوں کو جیتنا ہی حقیقی مطمح نظر ہونا چا ہیے۔
    مکالمے اور دلیل کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ ان کا مقصد لوگوں کو اپنے نکتہ نظر کا قائل کرنا ہے۔ تاہم ایک اس سے بھی برتر نظریہ موجود ہے اور وہ یہ کہ مکالمہ مل جل کر کسی نتیجے پر پہنچنے کا نام ہے ۔ دونوں طرف کے دلائل باہوں میں باہیں ڈال کر فکر کی ناہموار پگڈنڈیوں پر ایک دوسرے کو سہارا دیتے ایک ایسی منزل کی تلاش کرتے ہیں جو نظروں سے اوجھل ہے۔ تاہم اکثر یوں ہوتا ہے کہ ہم نظریات کو اپنی انا کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں اور نتیجتاً اس برترمقصد کو بھلا دیتے ہیں۔ یہیں سے دلیل کی تذلیل کا رستہ کھلتا ہے اور انسان کے عقلی وجود پر اس کا جذباتی وجود غالب آ جاتا ہے ۔ اسی کمزوری کے باعث ہمارے مباحث عموماً تلخی میں ختم ہوتے ہیں۔ ذہنی ارتقا کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی رائے میں غلطی کے امکان کو ہمیشہ یاد رکھیں اور اگر کسی وقت دلیل کی کمزوری واضح ہوجائے تو اسے تسلیم کرنے میں پس و پیش سے کام نہ لیں۔
    دلیل کا ایک تو مواد ہوتا ہے اور دوسرا اسلوب۔ بہترین مواد پر مشتمل اور منطق کے زیور سے آراستہ دلیل بھی ناکام ہو جاتی ہے اگر اسے منزل کی جانب روانہ کرنے سے پہلےعجز کا لباس نہ پہنایا جائے۔ تحریر و تقریر میں تکبر مکالمے کی روح کو کچل ڈالتا ہے۔ بات میں غیر معمولی تیقن جس سے دھمکی کی بو آنے لگے، اسی تکبر کا شاخسانہ ہے۔ مواد کو ہمیشہ خوبصورت لفظوں کی پیکنگ میں لپیٹنا لازم ہے۔ اور اس پیکنگ سے اخلاص کی خوشبو کا پھوٹنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ دلیل کا مضبوط ہونا.
    ہر دلیل جب آپ کے ذہن میں اپنے تشکیلی مراحل سے گزر رہی ہوتی ہے تو اس کا ایک بنیادی محرک وہ فرد ہوتا ہے جو اس دلیل کا مخاطب ہے۔ بہت سی تحریروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ جب دلائل کی پوری نگری ذہن میں آباد ہو رہی تھی تو بظاہر مخاطب وہ لوگ تھے جو آپکے نکتہ نظر سے اختلاف رکھتے تھے مگر اندر ہی اندر واہ واہ کی تمنا نے اس کا رخ ان لوگوں کی جانب موڑ دیا جو پہلے ہی آپ کے ہمنوا تھے۔ جب اپنا ہی قبیلہ دلیل کے حسن و قبح کا فیصل بن جائے تو پھر لہجے میں تلخی در آتی ہے، لفظ تمسخر اڑانا شروع کر دیتے ہیں اور تحریر رجزیہ خطاب کا رنگ اختیار کر لیتی ہے۔ یہ صورتحال خود فریبی کا کمال نمونہ ہے۔ یہ ایک ایسا پھندہ ہے جس میں بڑے بڑے مصنفین کو گرفتار ہوتے دیکھا ہے۔ جن قلوب کو آپ پہلے ہی مسخر کر چکے ہیں، ان پر دلیل جیسی قیمتی متاع لٹانا حکمت کے خلاف ہے۔ آپ کا مخاطب وہ طبقہ ہونا چاہئے جو آپ کی رائے سے اختلاف کرتا ہے۔ چونکہ اپنے مخالف کا دل جیتنا ایک مشکل کام ہے اس لئے ہماری سہل پسند طبیعتیں دل توڑنے کے آسان کام میں مگن ہو جاتی ہیں اور تحریر کا حقیقی مقصود راستہ بھٹک کر کہیں دور نفرتوں کے صحرا میں گم ہو جاتا ہے۔
    دلیل کا دوسرا محرک وہ مقصد ہے جو مصنف یا مقرر کے ذہن میں موجود ہوتا ہے۔ یاد رکھئے کہ دلیل جس وقت آپ کے قلم کی قید سے آزاد ہو کر باہر نکلتی ہے تو وہ آپ کے دائرہ اثر سے نکل جاتی ہے۔ اس نے اب دوسروں کے دل و دماغ تک رسائی کی راہیں خود تلاش کرنی ہیں۔ اس لئے اسے میدان میں اتارنے سے پہلے ٹھونک بجا کر اس بات کو یقینی بنا لیجئے کہ وہ اپنی منزل پر پہنچ کر ہی دم لے۔ اگرمنزل فریق مخالف کا دل ہے تو دلیل کو اس وقت تک روکے رکھئے جب تک اس بات کا تیقن نصیب نہ ہو جائے۔ بصورت دگر ذہن کی کمان سے دلیل کا تیر فصاحت کے زہر میں بجھ کر نکلے گا اور جہاں سے بھی گزرے گا، قلوب کو چیرتا جائے گا۔ دلیل کی اس سے بڑی ناقدری اور کیا ہو سکتی ہے کہ اسے دل فتح کرنے کی بجائے انہیں چھلنی کرنے کے لئے استعمال کیا جائے.
    کوئی بھی تحریر لکھتے وقت اور کسی قسم کا مکالمہ کرتے ہوئے اگر ان معروضات کا لحاظ کر لیا جائے تو ایک ایسی فضا پیدا ہو سکتی ہے جس میں بلا خوف و خطر ہر کوئی اپنا نکتہ نظر شائستگی سے بیان کر سکے گا ۔ اسی طریقے سے ہی سوچ کی راہوں میں بکھرے کانٹے چننا آسان ہو جائےگا۔