Blog

  • امریکی الیکشن، پاکستانی عوام اور میڈیا – ثقلین مشتاق

    امریکی الیکشن، پاکستانی عوام اور میڈیا – ثقلین مشتاق

    ثقلین مشتاق ابتدئے کائنات سے ہی طاقتور کمزور کو زیرکرنے کیلئے جائز اور ناجائز حربہ استعمال کرتا آیا ہے ۔وہ کمزور کے نظریات ، افکار اور خیالات کو اپنے نظریات ، افکار اور خیالات کے تابع کرنا چاہتا ہے ۔ زندہ قومیں کتنی ہی کمزور کیوں نہ ہوں وہ اپنے سے کئی گناہ طاقتورحریف کے تابع اپنے نظریات کرنا تو دور کی بات وہ اپنے ملک پر اُن کا سایہ پڑنے پر بھی اپنے تن من دھن کی بازی لگا دیتی ہیں ۔ جب 1954 میں ویت نام پر اقتدار کی ہوس میں امریکہ جیسی عالمی طاقت نے حملہ کیا تو اس چھوٹا سے ملک نے امریکا کا جو حال کیا اس کو دنیا نے دیکھا ۔ اس کے بعد جب 2001 میں نیٹو اتحادیوں نے امن کی آڑ میں افغانستان پر حملہ کیا تو غیور افغانیوں نے 34 ممالک کی فوج کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے اور آج تک اپنی آزادی کیلئے لڑرہے ہیں ۔
    لیکن اس قرہ ارض پر ہم پاکستانی عوام وہ واحد قوم ہیں جو بظاہر آزاد ہونے کے باوجود بھی غلامی کے پیچھے بھاگ رہے ہیں ۔ شاید ہم کو آزادی کی بجائے غلامی کی زندگی نعمت لگتی ہے ، اور ہم اپنے نظریات ،افکار اور خیالات کو کسی دنیاوْی آقا کے تابع کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں ۔
    حال ہی میں امریکا میں صدارتی انتخابات ہوئے ۔ انتخابات سے دو ماہ قبل ہی ہمارے ملک کے تمام نے ملکی مسائل کو ایک طرف رکھا کر نیوز چینلز پر امریکن الیکشن کے حوالے بھرپور اشتہارات کی تشہیر کرکے نفسیاتی غلامی کا بھرپور ثابت دیا ۔ یوں یوں الیکشن کے دن قریب آتے گئے ایک اشتہار ہرپاکستانی نیوز چینل کی جانب سے ٹی وی سکرین کی زینت بنا کہ
    1- رپورٹرز کی سب سے بڑی ٹیم کے ساتھ امریکن الیکشن کی کوریج اس نیوز نیٹ ورک پر ۔
    2 – سب سے ماہر تجزیہ نگاروں کے تجزیہ کے ساتھ امریکن الیکشن کی کوریج اس نیوز نیٹ ورک پر ۔
    3- سب سے پہلے ہر خبر ، سب سے پہلے الیکشن رزلٹ دیکھنے کیلئے دیکھتے رہے یہ نیوز نیٹ ورک ۔
    افسوس کی بات تو یہ کہ حکمرانوں کو کبھی بھکاری ، کبھی غدار اور کبھی ظالم کا طعنہ دینے والے ان صحافی بھائیوں نے تو امریکن الیکشن کے دنوں میں ایل او سی پر فائرنگ ، پانامہ لیکس ، سیکورٹی لیکس اور ملک میں ہونے والے سینکڑوں واقعات پر بات کرنا بھی گوار نہیں کیا ۔ سب ان پر امریکا کے الیکشن کا بھوت سوار تھا ۔
    کیا خود کو وطن پرست ، غریب کے ہمدرد ، مظلوم کا ساتھی کہنے والے صحافی حضرات کی یہ بےحسی نہیں تھی؟
    اور نیوز چینل پر براجمان تجزیہ نگار ، اینکر اور خارجی امور پر عبور رکھنے والے صاحبان کی گفتگو سے ایسا لگا رہا تھا کہ ہیلری کلنٹن ایک نیک سیرت ، باپردہ ، مسلمانوں کی مسیحا اور رحم دل خاتون ہے جس کے قدموں کو فتح اس معرکہ میں ضرور چومے گئی اور مسڑ دونلڈ ٹرمپ ایک ظالم اور بے حیا انسان ہے ۔ امریکا کی عوام کی بہتری کیلئے ہیلری کا کامیاب ہونا ضروری ہے ۔
    پاکستانی عوام اور صحافی یہ تاثر د ےرہے تھےکہ اگر ٹرمپ کامیاب ہوگا تو
    1- مسلمانوں کا امریکا میں زندگی گزارنا ناممکن ہوجائیگا ۔
    2- دنیا کی جمہوریت کو خطرہ ہے کیونکہ ٹرمپ جمہوریت میں ملبوس ڈکیٹٹر ہے ۔
    3- امریکا سمیت دنیا میں نسل پرستی اور صوبائیت کو ہوا ملے گئی ۔
    4- فلسطین اور کشمیر کی آزادی ناممکن ہے ۔
    5- ٹرمپ بھارت کا اتحادی ہوگا اور اس کی مداخلت سے خطے کا امن تباہ ہوجائیگا اور سی پیک کو بھی خدشہ ہے ۔
    پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر پاکستانی عوام اپنے ملکی حکمران کے چناوْ اس قدر سنجیدہ ہوتی اور ان کو اپنے اور اپنی آنے والی نسلوں کے مستقبل کیلئے اس قدر فکر مند ہوتی جتنی ہزاروں میل دور ترقی یافتہ امریکی قوم کے بارے میں ہے تو آجپاکستان کے حالات کچھ اور ہوتے ۔ پاکستانی عوام غربت کی چکی میں پس نہ رہی ہوتی ۔ خود تو الیکشن کے دنوں میں کبھی نعروں سے متاثر ہوکر حکمران کا انتخاب کیا اور کبھی سیاستدانوں کے وقتی وعدوں کے جھانسے میں آگئے ، اس لیے کبھی وہ حکمران چنے جنہوں ملک کو دو لخت کیا کبھی وہ جنہوں عوام کو لوٹ کر سوئس بینکوں میں اکاوئٹ کھول لیے اور آف شور کمپنیاں بنالیں اور ہم کو امریکا کے الیکشن پر بحث کرنے کیلئے چھوڑ دیا ہے ۔
    اور ٹرمپ کو ظالم حکمران کہنے والوں نے ٹرمپ کی کامیابی کے بعد اپنا موقف تبدیل کرلیا اوراب اس عدل اور رحم دل کے خطاب نوازا ۔ اس کی وجہ ہونے سے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ اب ٹرمپ نے آئی لو یو پاکستان بولا اور اپنی ویب سائٹ سے مسلمانوں کے خلاف مواد بھی ہٹ دیا ۔ لیکن اصل وجہ یہ تھی آقا کا انتخاب ہوگا ہے اور ہم اُس کی ناراضگی مول نہیں لے سکتے ہیں ۔
    اور دوسری بات یہ کہ ہیلری نے بھی اُسی گندے کنویں کا پانی پیا ہے جس کا ٹرمپ نے پیا ہے ۔ دونوں میں فرق صرف اتنا ہے کہ ایک کہتا ہے تمھارا منہ پر طمانچہ رسید کروں گا اور دوسری بولتی تیرا منہ لال کردوں گی ۔
    دونوں میں کوئی بھی مسلمانوں کا حامی نہیں ہوسکتا ۔ اور رہی کشمیر اور فلسطین کی آزادی کی بات تو تب تک ان ریاست میں رہنے والے ہمارے مسلمان بھائی بربریت کا نشان بنتے رہیں گے جب تک ہم خود ان کیلئے اُٹھ کھڑے نہیں ہوتے ۔ امریکا کبھی نہیں چاہے گا کہ کشمیر اور فلسطین آزاد ہوں ۔ ہم کو اب اپنے دنیاوی آقا کو خیرباد کہنا ہوگا اور مسلمانوں اور وطن پاکستان کی بہتری کیلئے امریکا سے امیدیں وابستہ کیے بغیر اپنے حق کیلئے لڑانا ہوگا ورنہ عنقریب ہمارا نام ونشان بھی نہیں ہوگا دنیا کی قوموں میں ۔

  • نرینہ اولاد کی خواہش اور مظلوم عورت – بشارت حمید

    نرینہ اولاد کی خواہش اور مظلوم عورت – بشارت حمید

    بشارت حمید اس کرہ ارضی پر نسل انسانی کی ابتدا سے لے کر آج تک ارب ہا ارب انسان گزر چکے ہیں اور تاقیامت یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ کوئی اللہ تعالٰی کے وجود کو ماننے والا ہو یا اس کا انکار کرنے والا، آخرت کی جواب دہی اور مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھنے کو مانے یا نہ مانے لیکن اس بات کو ضرور مانتا ہے کہ ہماری یہ زندگی ہمیشہ کے لیے نہیں ہے اور ایک دن یہ دنیا چھوڑ جانی پڑے گی۔

    جب ہر انسان اس بات کو جانتا اور مانتا ہے کہ وہ یہاں ہمیشہ کے لیے نہیں ہے تو اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ میرے بعد میری ہستی کا تسلسل جاری رہے۔ اللہ تعالٰی نے ہر جاندار جسم کے اندر ری پروڈکشن کا پورا پراسیس ابتداء ہی سے رکھ دیا ہے جس کے ذریعے وہ اپنی نسل کو آگے بڑھانے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ اس ری پروڈکشن کے عمل سے ہر نوع میں نر اور مادہ کی پیدائش ہوتی ہے۔ لیکن نر یا مادہ کا انتخاب کسی بھی نوع کے اختیار میں نہیں ہے۔

    بیٹے کے حصول کی خواہش ہر انسان کے دل میں ہے لیکن انسان بائی چوائس بیٹا حاصل نہیں کر سکتا۔ یہ اس روئے زمین پر اللہ تعالٰی کا نظام ہے کہ مرد اور عورت کی تعداد کے لحاظ سے ایک تناسب قائم رہے۔ کسی کو صرف بیٹے ہی دیتا ہے تو کسی کو صرف بیٹیاں۔ اور کسی کو دونوں نعمتوں سے نوازتا ہے اور کسی کو کچھ بھی نہیں دیتا۔

    زمانہ جاہلیت میں لوگ بیٹا پیدا ہونے پر خوشیاں مناتے اور بیٹی کی پیدائش پر سوگ۔ کئی تو ایسے بدبخت تھے کہ گڑھا کھود کر اس میں بیٹی کو دبا کر اوپر سے مٹی ڈال کر زندہ ہی دفن کر دیتے تھے کہ گھر میں بیٹی پیدا ہونا انکے نزدیک بے عزتی اور بے غیرتی کا مقام تھا۔

    سرزمین حجاز میں حضور اکرم صل اللہ علیہ و سلم کی بعثت کے بعد قرآن مجید کا نزول شروع ہوا اور اسلام نے اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائی اور اسلام قبول کرنے والوں پر یہ واضح کیا گیا کہ اولاد اللہ تعالٰی کی عنایت ہے، وہ جسے چاہے اور جو چاہے عطا کر دے۔ بیٹیوں کو زندہ دفن کرنے والوں پر اللہ کا غصہ اتنا شدید ہے کہ قرآن مجید میں ارشاد فرمایا: قیامت کے دن اس قتل ہونے والی بچی سے پوچھا جائے گا کہ تم بتاؤ تمہارا کیا جرم تھا جس کی پاداش میں تمہیں جان سے مار دیا گیا؟ یعنی اللہ تعالٰی فرمائے گا کہ تمہاری پیدائش تو میرے حکم سے ہوئی پھر کس نے تمہیں قصور وار ٹھہرایا؟

    موجودہ سو کالڈ مہذب دور میں بھی انسانی رویے دور جاہلیت سے زیادہ مختلف نظر نہیں آتے۔ ہمارے برصغیر پاک و ہند میں ہندوانہ پس منظر کے حامل مسلمان اب بھی بیٹی کی پیدائش کو عورت کا جرم عظیم سمجھتے ہیں اور طلاق تک نوبت پہنچ جاتی ہے حالانکہ میڈیکل سائنس بھی اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ بیٹے یا بیٹی کے چوائس میں عورت کا سرے سے کوئی کردار ہے ہی نہیں ہے۔ کئی بدبخت تو بیچاری عورت کو جان سے مارنے کا اقدام بھی کر گزرتے ہیں کہ اس کے ہاں بیٹی کیوں پیدا ہوئی۔

    بیٹی کی پیدائش پر طعنے دینے والی بھی اکثر ساس یا نند کے روپ میں عورت ہی ہوتی ہے جو اتنا نہیں سوچتی کہ وہ خود بھی تو اپنے والدین کی ایک بیٹی ہی ہے۔ یہ سب کچھ دین سے دوری اور اسلامی تعلیمات سے ناواقفیت رکھنے کا نتیجہ ہے کہ ہم نام کے مسلمان تو ہیں مگر اعمال اور عقائد ہندوؤں والے ہی ہیں۔

    قرآن مجید زندگی کے ہر شعبے میں ہماری راہنمائی کرتا ہے۔ سورہ الشوریٰ میں ارشاد فرمایا گیا
    ”زمین و آسمان کی بادشاہی اللہ ہی کے لئے ہے وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ جسے چاہتا ہے بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے۔ یا ان کو بیٹے اور بیٹیاں دونوں عنایت فرماتا ہے اور جسے چاہتا ہے بے اولاد رکھتا ہے۔ بے شک وہ جاننے والا اور قدرت رکھنے والا ہے“
    یعنی اولاد دینا یا نہ دینا اللہ تعالٰی کی عنایت سے ہے۔ اور اس کی عطا سراسر حکمت پر مبنی ہوتی ہے۔ وہ خوب اچھی طرح جانتا ہے کہ کس کو کیا دینا ہے اور کیا نہیں۔

    ہم اپنی روزمرہ زندگی میں دیکھتے ہیں کہ بعض لوگوں کو اللہ تعالٰی بیٹا عطا کرتا ہے لیکن وہی بیٹا جس کی پیدائش پر والدین نے خوشیاں منائیں اور بچپن میں لاڈ اٹھائے، بڑا ہو کر اپنے والدین کے لئے سوہان روح بن گیا یہاں تک کہ بڑھاپے میں والدین کو گھر سے نکال باہر کیا یا زیادہ رحم دلی دکھائی تو اولڈ ہاؤس چھوڑ آیا اور پھر ہم کئی والدین کو یہ کہتے ہوئے بھی سنتے ہیں کہ اس سے بہتر تھا کہ ہمارے ہاں اولاد پیدا ہی نہ ہوتی۔ اور اسی طرح یہ بھی مشاہدے میں آتا ہے کہ جس بیٹی کی پیدائش پر والدین مغموم ہوئے اسی نے انکی خدمت کا حق ادا کر دیا اور بڑھاپے کا سہارا بنی۔

    اسی طرح سورہ کہف میں حضرت موسٰی اور خضر علیہما السلام کے واقعے میں اللہ تعالٰی کے تکوینی امور کو ہماری راہنمائی کے لئے بیان کیا گیا ہے۔ اس میں ذکر ہے کہ جب دونوں سفر پر چلے تو راستے میں ایک جگہ ایک لڑکا ملا۔ حضرت خضر نے اسے قتل کر دیا تو حضرت موسٰی نے حضرت خضر سے کہا کہ یہ آپ نے کیا حرکت کر دی، ایک جان کو ناحق قتل کر دیا۔ حضرت خضر نے جواب دیا کہ اس لڑکے کے والدین بہت نیک ہیں اور یہ لڑکا بڑا ہو کر ان کے ساتھ بغاوت اور سرکشی کا ارتکاب کرنے والا تھا اس لیے آپ کے رب نے چاہا کہ اس کے بدلے ان کو نیک اور صالح اولاد عطا فرمائے اور مستقبل میں پیش آنے والی پریشانی سے بچائے لہذا اس لڑکے کو اللہ کی مشیت کے تحت والدین سے چھین لیا گیا۔
    اب بظاہر تو والدین کے لیے بچے کی جدائی ایک بہت بڑا صدمہ ہے لیکن اس میں بھی ان کے لیے خیر ہی تھی جس کو ہم انسان نہیں سمجھ سکتے مگر اللہ کے علم میں ہوتا ہے کہ ہمارے لئے کیا بہتر ہے اور کیا نہیں۔ اللہ تعالٰی کے ہر کام میں حکمت ہے وہ جو بھی کرتا ہے بہتر ہی کرتا ہے۔ اگر کسی کو بیٹا یا بیٹی عطا کرتا ہے تو اس میں بھی اس کی حکمت کارفرما ہے اگر کسی کو بے اولاد رکھتا ہے تو یہ بھی حکمت سے خالی نہیں ہے۔ ہمیں اللہ کی ذات پر یقین رکھتے ہوئے اس کی عطا پر راضی رہنا چاہیے اور یہ دعا کرتے رہنا چاہیے کہ وہ ہمیں جو کچھ بھی دے اس میں ہمارے لیے دنیا اور آخرت کی بھلائی ہی ہو نہ کہ ہمارے لیے وبال جان بن جائے۔

  • شادی اور رشتوں کے جھنجھٹ، نجات کا راستہ کیا ہے؟ ماجدعارفی

    شادی اور رشتوں کے جھنجھٹ، نجات کا راستہ کیا ہے؟ ماجدعارفی

    ’’ایمل‘‘ اماں کی آواز پر چونکی، جب اس نے ایمل کو تیار ہونے کا کہا۔ اس بار بھی ایمل نے بددلی سے جواب دیا۔ اب کی بار کون سا اس کی قسمت کے تارے جگمگانے والے تھے، ہونا تو وہی تھا جو دو سال سے ہوتا آرہا ہے۔ ’’بیٹا تیار ہو جاؤ، دیکھو کتنی دیر ہوچکی ہے۔‘‘ پانچ منٹ میں اماں کی یہ تیسری آواز تھی۔ ’’ان لوگوں نے کون سا مجھے پہلی نظر میں ہی پسند کر لینا ہے، اوروں کی طرح یہ بھی ٹھاٹ باٹ سے آئیں گے اور تواضع مدارات کروا کے آخر میں کوئی خامی نکال کے اپنی راہ لیں گے۔‘‘ تلخ تجربات کا سامنا کرتی ایمل کے دل میں پھر طرح طرح کے وساوس اور خدشات سر ابھارنے لگے تھے۔

    یہ صرف ایک ایمل نہیں، پاکستان میں ہزاروں ایسی ایمل ہیں جو اپنے رشتے کے انتظار میں بیٹھی اِن کٹھن ترین حالات کا مقابلہ کررہی ہیں اور نہ نجانے ہر بار انہیں کتنے ہی تیز و تند اور تلخ سوالات کے نشتر سہنے پڑتے ہیں۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ پاکستان کی اپر کلاس تو کیا، مڈل کلاس میں بھی یہ رجحان ختم ہونے کے بجائے اور جڑیں مضبوط کرتا جا رہا ہے۔ رشتے کی تلاش میں نکلنے والے لڑ کی سے ایسے سوالات کرتے ہیں جیسے اسے فوج میں بھرتی کرنا ہو۔ کم ظرفی اور بے حسی دیکھیے کہ لڑکے کے رشتہ دار اور والدین اپنی بیٹی کو بھول جاتے ہیں کہ وہ بھی ایک دن ایسے مراحل سے گزرنے والی ہے۔ کتنی عمر، کتنا قد، کتنی تعلیم اور کیا نوکری جیسے سوالات کا تانتا لگا ہوتاہے، جیسے لڑکی نہیں، کسی پلاٹ یا گاڑی کا سودا کرنے آئے بیٹھے ہوں۔

    لڑکا کتنا ہی نکما، اَن پڑھ اور بدشکل کیوں نہ ہو، اسے ہمیشہ کسی ’’تعلیم یافتہ حور‘‘ کی تلاش ہوتی ہے۔ اس کے گھر والے اس وقت یہ بات بھول چکے ہوتے ہیں کہ ان کا لڑکا ’’کوہ قاف‘‘ سے آیا شہزادہ نہیں جو آن کی آن ہر جگہ پسند کر لیا جائے۔ معاشرے کی قدامت پسندی کا یہ حال ہے کہ لڑکی کا رشتہ دیکھنے والی خاتون اپنے اُس ماضی کو بھلا دیتی ہے جس سے وہ خود نمٹ کر آئی ہوتی ہے اور ایک بار پھر اسی روایت کو دوہراتے ہوئے وہی معیار اور وہی مطالبہ ہوتاہے کہ لڑکی خوبصورت ، تعلیم یافتہ اور کم عمر ہو۔ لڑکے والوں کی انہی نخرے بازیوں سے نہ جانے کتنی ہی لڑکیوں کے سروں میں چاندی اتر آتی ہے۔ جس کے سبب بےبس اور مجبور والدین بیٹی کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ کر اس کے ہاتھ پیلے کرنے کی دلی خواہش کو پاؤں تلے روند ڈالتے ہیں۔

    یہ تو لڑکے والوں کا لڑکی والوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا ظلم اور سکّے کا ایک رخ تھا۔ لیکن سکے کا دوسرا رخ اس سے بھی زیادہ بھیانک ہے۔ کچھ خاندان بیٹیوں کو زیادہ پڑھا لکھا کر بیٹھ جاتے ہیں اور اسی لیول کے رشتے کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔ نتیجتاً اسٹیٹس کے چکر میں وہ بہت سے عمدہ رشتوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور بیٹی کی شادی کی اصل عمر گزرجاتی ہے یا پھر خود کے طے کردہ پیمانے اور شرائط سے سمجھوتا کرکے اسے اپنے سے کم اسٹیٹس والے لڑکے سے بیاہنا پڑتاہے۔

    پھر اس سے اگلے مرحلے کے توکیا ہی کہنے! کڑی شرائط کے باوجود اگر رشتہ طے ہو جائے تو اب فرسودہ معاشرے کی ایک روایت سر اٹھاتی ہے۔ لڑکے والوں کی طرف سے انتظامات کی لمبی فہرست تھمادی جاتی ہے، جسے پورا کرنا لڑکی کے والدین کے بس سے باہر ہوتاہے۔ اس کے لیے انہیں چارو ناچار قرض کی کڑوی گولی نگلنا پڑتی ہے۔ یہ سوچ معاشرے کو ترقی کے بجائے تنزلی کی طرف لے جارہی ہے ۔ یہ باتیں یقینا ایک صحت مند معاشرے کی عکاسی نہیں کرتیں۔

    اگرمعاشرے کی ان غلیظ اور فرسودہ روایات اور اقدامات کو روکنا ہے تو اس کی ابتدا خود سے کرنا ہوگی۔ لڑکی والوں کو چاہیے کہ وہ لڑکی کو ’’شوپیس‘‘ نہ بنائیں۔ لڑکی والوں کے اس طرز عمل سے لڑکے والوں کو شہ مل جاتی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ شاید یہ لڑکی والوں کی مجبوری ہے۔ اسی سے وہ جائز ناجائز مطالبات منوانے کی پوزیشن میں آتے ہیں۔ بیٹی اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے، اسے بوجھ سمجھ کر جلد گھرسے نکالنے کی کوشش نہیں کرنا چاہیے،جب شادی کا وقت آئے گا تو اللہ تعالیٰ کی مدد سے بخوبی یہ معاملہ حل ہوجائے گا۔
    لڑکے والوں کو سوچنا چاہیے کہ’’حور‘‘ تو صرف جنت میں ہی ملے گی، یہاں دنیا میں اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسی لڑکی پیدا ہی نہیں کی جس میں خوبیوں کے ساتھ خامیاں نہ ہوں۔ اس لیے یہ بات ذہن میں رہے کہ خوبیوں کے ساتھ خامیوں کو برداشت کرنا ہوگا۔ لہذا لڑکی کے منفی پہلوؤں سے پہلو تہی کرتے ہوئے اس کی مثبت اور تعمیری خوبیوںپر توجہ مرکوز رکھیں۔ تبھی جاکر گھرانے خوش گوار زندگی بسر کرنے کے قابل ہو پائیں گے اور آئندہ نسلیں اعلیٰ روایات کی امین ہوں گی۔

    یہ بات تو رشتہ طے کرتے وقت پائے جانے والی خرابیوں سے متعلق تھی، لیکن شادیوں کا حال بھی کچھ مختلف نہیں۔ پاکستانی معاشرے نے شادی کو شادی نہیں، عذاب بنا رکھاہے۔ یہ سوچ ذہن کے نہاں خانوں میں جاگزیں ہوچکی کہ جب تک لاکھوں روپے پاس نہ ہوں گے، شادی کا تصور بھی گناہ ہے۔ کیونکہ نکاح سے پہلے تقریبات کی بھرمار ہے ، ان تقریبات میں سرخ رو ہونے کے لیے پیسہ تو لازمی درکار ہوگا۔ چنانچہ پہلے منگنی کی رسم ہوگی، اس پر پانی کی طرح پیسہ بہایا جائے گا۔ اس سے فراغت ہوئی تو مہندی کی رسم سر پر منڈلانے لگے گی۔ اس پر ہزاروں پیسے جلائے جائیں گے۔ اس سے سانس لینے کی مہلت ملی تو بارات کے پٹاخوں اور باجوں کی باری آئے گی۔ پھر دلہے کی سجاوٹ و بناوٹ کی خرچے اٹھائے جائیں گے۔ دلہن کو زیورات سے لادا جائے گا۔ یہ سب گل چھرے اڑانے کے لیے پیسہ ہونا تو لازمی ہے، پھر اسی پر بس نہیں، دنیا جہاں میں بسنے والے تمام دوستوں اور رشتہ داروں کو ان کی نجی مجبوریوں اور پریشانیوں کا لحاظ کیے بغیر شرکت کی پرزور دعوت دی جاتی ہے۔ نہ آنے پر رشتہ ناتا توڑنے کی سنگین دھمکیاں دی جاتی ہیں۔

    یہ معاشرے کے بھیانک پن کی نہایت ہی مختصر تصویر کشی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے مال ودولت کی نعمت سے نوازا ہے، وہ لازمی خرچ کرے، لیکن فضول رسموں پہ خرچ کرنے سے اس کا تو صرف پیسہ ضایع ہوتاہے جبکہ غریب کی زندگی تباہ ہوجاتی ہے۔یہ شاہ خرچیاں جب دوسرے لوگ دیکھتے ہیں تو اسے معاشرے کی روایت سمجھ کر ہر غریب و لاچار پر نافذ کردیتے ہیں۔ ہمارے دین میں ایسی کوئی پابندی نہیں جس کی وجہ سے شادی کو عذاب بنا لیا جائے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوفt مسجد نبوی میں نماز کے لیے تشریف لائے، آپe نے ان کے کپڑوں پر زرد رنگ کی خوشبو لگی دیکھی تو پوچھا تمہارے کپڑے پر زرد رنگ کیسا؟ انہوں نے عرض کیا، یارسول اللہe میں نے ایک خاتون سے نکاح کیا ہے، اس نکاح کے وقت یہ خوشبو لگائی تھی۔

    ذرا سوچیے! بہت ہی لاڈلے صحابی جو عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، انہوں نے نکاح کر لیا اور بلانا تو کیا، اطلاع تک نہیں کی۔ لیکن حضورe نے کوئی شکایت نہیں کی کہ بھائی تم نے ہمیں کیوں نہیں بلایا؟ یہ ساری سردردیاں ہم نے خود ہی پالی ہیں۔ یہ ہماری ذ ہنی اختراع ہے کہ جب تک فضول اور گھٹیا رسومات سے نہ گزرا جائے، شادی کا تصور بھی مشکل ہے۔

    اسلام کے بتائے طریقوں پر ہم چلیں اور ہر قسم کے معاملات میںدین اسلام کو سامنے رکھیں تو نہ رشتوں کے ڈھونڈنے میں پریشانی ہوگی اور نہ ہی شادی بیاہ کی سنت پوری کرنے میں۔

  • ٹرمپ کی جیت اور مشرق وسطی پر اثرات؟ غلام نبی مدنی

    ٹرمپ کی جیت اور مشرق وسطی پر اثرات؟ غلام نبی مدنی

    غلام نبی مدنی ڈونلد ٹرمپ کی غیر متوقع جیت پر دنیا بھر میں کہیں بہت زیادہ تشویش پائی جارہی ہے اور کہیں خوشی کی شادیانے بجائے جارہے ہیں۔امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف اب تک تاریخ کے بدترین مظاہرات ہورہے۔دوسری طرف امریکہ ،اسرائیل سمیت بہت سی جگہوں پر ٹرمپ کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیاجارہاہے۔جب کہ کئی ممالک نے نہ چاہتے ہوئے بھی ٹرمپ کو مبارکباد دی اور مستقبل میں باہم مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا۔امریکہ کے بعد مشرق وسطی ٰمیں ٹرمپ کی جیت غیرمعمولی اثرات مرتب کرنے والی ہے۔امریکی تجزیہ نگاروں کے مطابق ٹرمپ فارن پالیسی سے بالکل ناواقف ہیں،جب کہ ٹرمپ کی ریپبلکن پارٹی کےکئی سابق اور سنئیر افسران نے بھی ٹرمپ کے ساتھ کام کرنے سے انکار کردیا ہے۔ نیویارک ٹائمز نےمارچ2016میں سابق ریپبلکن صدور بش سینئراور بش جونئیر کی انتظامیہ کے ساتھ کام کرنے والےایسے کئی افسران کی رائے شائع کی ہے۔ان میں ورلڈ بنک کے سابق صدر سے لے امریکی دفاعی اور خفیہ ایجنسیوں کے اعلی اہلکاراور بیوروکریٹ بھی شامل ہیں۔ٹرمپ کی انتخابی مہم سے بھی اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ ٹرمپ جذباتی اور متنازع بیانات کے علاوہ کوئی سنجیدہ اور مستحکم پالیسی نہیں رکھتے۔لیکن بہرحال وہ امریکہ کے صدر ہیں،جس کی پشت پر امریکی اور ریپبلکن پارٹی کی مضبوط پالیسیاں ہیں اور دنیا انہیں پالیسیوں پر اعتماد اور یقین کرتی ہے۔

    ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت پر ترکی سمیت مشرق وسطیٰ کے دیگر اہم ممالک بالخصوص سعودی عرب ناخوش نظر آتے ہیں۔جب کہ ٹرمپ کی جیت پر اسرائیل بھر میں انتہائی جوش وخروش پایا جارہاہے۔اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے ٹرمپ کی جیت پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ” ٹرمپ ان کا جگری دوست ہے،وہ امید کرتے ہیں کہ ٹرمپ ان کے لیے کام کرے گا”۔یروشلم پوسٹ کے مطابق اسرائیلی وزیرانصاف نے ٹرمپ کی جیت پر اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ” ٹرمپ اسرائیل کے ساتھ کیے گئے وعدے پورے کرے گااور القدس کو اسرائیل کا دارلخلافہ تسلیم کرکے اپنا سفارتخانہ تل ابیب سے القدس منتقل کرے گا”۔1897ء سے نیویارک سے شائع ہونے والی یہودی اخبار(The Forward) نے ٹرمپ کے اسرائیل کے ساتھ قریبی تعلقات پر ایک رپورٹ شائع کی ہے ۔اس رپورٹ میں ٹرمپ کا بیان ذکرگیا ہے کہ”مجھے اس پر خوشی ہے کہ میری بیٹی اور پوتے یہودی ہیں،ہم اسرائیل سے محبت کرتے ہیں،ہم ہمیشہ اسرائیل کے لیے سوفیصد نہیں بلکہ ہزار فیصد لڑیں گے”۔ٹرمپ کی اسی یہودی بیٹی نےچھ ماہ قبل یہودیوں کے ایک اجلاس میں یقین دلایا تھا کہ وہ اپنے والد کے جیتنے کے بعد انہیں اسرائیل کے لیے کام کرنے پر ضرور مجبور کریں گی۔دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ ٹرمپ بہت بڑے بزنس مین ہیں،مشرق وسطی سمیت دنیابھر میں ان کے کاروبار کا جال بچھا ہوا ہے۔ٹرمپ کے داماد اس کے بزنس پاٹنر یہودی کے بیٹے ہیں۔ٹرمپ کی سب سے بڑی آرگنائزیشن کے چیف ایگزیٹو بھی ایک یہودی ہیں۔نیتن یاہو کی انتخابی مہم کے لیے ٹرمپ نے ایک ویڈیو پیغام میں اسرائیلی عوام کو نیتن یاہو کے لیے ووٹ کاسٹ کرنے کا کہاتھا۔اس کے علاوہ تل ابیب میں ٹرمپ ٹاور کے نام سے اسرائیل کی سب سے لمبی عمارت بنانے کے لیے زمین خریدی جو بعدازاں بیچ دی گئی۔ ٹرمپ امریکہ میں یہودیوں کے بہت قریب سمجھے جاتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ امریکہ میں انتخابی مہم کے دوران سارے یہودیوں نے ٹرمپ کی حمایت میں ووٹ ڈالا۔یہودیوں کے ساتھ اس قدر گہرے روابط عیسائیت اور تاریخ کے ایک امریکی پروفیسر نے ٹرمپ کے مذہب پر نیویارک کے اخبار میں ایک رپورٹ لکھی،جس میں اس کا کہنا تھا کہ” اگرچہ ٹرمپ خود کو عیسائی کہتا ہے،لیکن اس نے عیسائیت کی عبادات اور اخلاقیات کو چھوڑ دیا،اس کے غیر عورتوں کے ساتھ جنسی اسکینڈل اور اپنی بیٹی کے ایک یہودی شخص سے شادی کرنے اور پھر بیٹی اور پوتوں کے یہودی بننے پر خوش ہونے سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ ٹرمپ کا عیسائیت سے برائے نام تعلق ہے”۔مشہور امریکی عیسائی مذہبی تنظیم کے چئیرمین نے ٹرمپ کی جیت کے بعد ٹرمپ کے چرچ آکر خدا کا شکر ادا نہ کرنے پربرہمی کا اظہارکرتے ہوئے کہاکہ وہ چرچ کے ساتھ کیے گئے وعدوں کو پورا کرے ۔چرچ ہی نے ٹرمپ کو ووٹ دینے کے لیے لوگوں کو قائل کیا تھا”۔

    ان شواہد کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ “پرواسرائیلی”امریکی صدر ہیں۔سابق امریکی صدور کی بہ نسبت اسرائیل کے معاملے میں یہ زیادہ متشدد ہیں۔جس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ2013ء میں ٹرمپ اوبامہ کو اسرائیل کے ساتھ بھرپور تعاون نہ کرنے پر برابھلا کہہ چکے ہیں۔ ٹرمپ کے اسرئیل کے ساتھ اس قدر گہرے تعلقات کا مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر بہت گہرا اثر پڑے گا۔یہی وجہ ہے تل ابیب یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے یروشلم پوسٹ کو بیان دیتے ہوئے کہا کہ “ٹرمپ کو اسرائیل کی حمایت میں کام کرنا ہوگا تاکہ خطے میں اسرائیل کی بالادستی قائم رہے اور روس اور ترکی مشرق وسطیٰ میں مضبوط نہ ہونے پائیں”۔دوسری طرف شام کے معاملے میں ٹرمپ کاجیت کے بعد پالیسی بیان سامنے آیا ہے کہ وہ پہلے سے زیادہ داعش کے خلاف شام میں لڑیں گے،جب کہ ہیلری کلنٹن انتخابی مہم کے دوران اس بات کا اظہار کرتی رہیں کہ شام میں داعش کے نام پر عام لوگوں کو مارنے سے احتراز کیا جائے گا،جب کہ ٹرمپ کے حالیہ بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ اصل مقصود داعش کو مارنا ہے،کوئی اور مرے یا جیے اس سے ہمیں کوئی غرض نہیں۔شام میں بشارالاسد کے حامی ایران اور روس کے بارے بھی ٹرمپ کی الگ الگ پالیسی سامنے آئی ہے۔درحقیقت ٹرمپ اور ریپبلکن پارٹی ایران کے ساتھ پچھلے سال کیے گئے نیوکلئیر معاہدے کےخلاف ہے،یہی وجہ ہے کہ ایرانی صدر حسن روحانی نے ٹرمپ کو سابقہ معاہدوں پرقائم رہنے کا پیغام دیا ہے۔جب کہ روسی صدر نے ٹرمپ کی جیت پر نیک خواہشات کا اظہار کیا اورمل کر کام کرنے کا عزم کیا،ٹرمپ کا بھی روس کی طرف مثبت جھکاؤ ہے،جس کی وجہ سے کئی امریکی اعلی و دفاعی عہدیدار اور بیور کریٹ ٹرمپ کے ساتھ مل کر کام کرنے سے انکار کرچکے ہیں۔دوسری طرف سعودی عرب کے ساتھ امریکہ کے تعلقات ان دنوں کافی ناخوشگوارہیں،اس کی وجہ حال ہی میں سعودی عرب کے خلاف امریکی کانگریس کا پاس کیا گیا”جاسٹا نامی قانون “اور ایران کے ساتھ امریکہ کی نیوکلئیر ڈیل ہے۔یہی وجہ ہے سعودی عرب ترکی کے ساتھ مل کر روس کے ساتھ تعلقات بہتر کررہاہے۔لیکن ٹرمپ کی جیت پر شاہ سلمان اور دونوں ولی عہد الگ الگ پیغامات میں ٹرمپ کو مبارکباد دے چکے ہیں اور مل کر کام کرنے کے عزم کا اظہار کرچکے ہیں۔

    سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی روسی اور ایرانی اجارہ داری روک پائے گا؟کیا سعودی عرب ٹرمپ کے ساتھ ٹوٹے ہوئے تعلقات بحال کرپائے گا؟بظاہر ان دونوں سوالوں کا جواب نفی میں ہے۔کیوں کہ مشرق وسطیٰ میں روس کی بڑھتی ہوئی بالادستی اور دیگر ملکوں کے ساتھ روسی اتحاد پر امریکی دفاعی وخارجہ بیوروکریسی میں کافی تشویش پائی جاتی ہے،جب کہ ٹرمپ نیٹو اور روس کے ساتھ اتحاد کا قائل ہے۔دوسری طرف سعودی عرب امریکہ کے دوہرے رویے کے خلاف نئے اتحادی تلاش کرنے کی جستجو میں لگا ہے۔اس کے علاوہ ٹرمپ کی اسرائیل نوازی بھی خطے میں امن قائم کرنے کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے ۔نتیجتا مشرق وسطیٰ میں چاروں طرف لگی آگ بجھنے کی بجائے مزید بڑھکنے کا خدشہ ہے جس سے بڑی خانہ جنگی کے امکانات کو رد نہیں کیا جاسکتا۔

  • نشئی شوہر اور ممتا – طلحہ خان

    نشئی شوہر اور ممتا – طلحہ خان

    روز کی طرح آج بھی اس کے نشئی شوہر نے اسے پیٹا، ننگی گالیاں دیں اور گھر سے نکال دیا.
    میرا خیال تھا کہ اب کی بار وہ واپس نہیں آئے گی لیکن سہ پہر کو وہ پھر گھر میں موجود تھی.
    صحن میں جھاڑو دیتے ہوئے جب سستانے کی غرض سے میرے سائے میں چند لمحوں کے لیے بیٹھی تو میں نے پوچھ ہی ڈالا.
    ”وہ روز تمھیں مارتا ہے،گندی گالیاں دیتا ہے. تم چھوڑ کر چلی کیوں نہیں جاتی آخر اس نشئی کو؟“
    اس نے نمناک نظروں سے اوپر میری طرف دیکھا اور آہ بھر کر بولی:
    ”میں چلی گئی تو میرے بچے تو پیچھے رل ہی جائیں گے.“
    ….

  • ناقدین اقبال ؒ اور میں – مراد علوی

    ناقدین اقبال ؒ اور میں – مراد علوی

    مراد علوی حضرت اقبال ؒ سےمیں پہلی دفعہ بیگانگی اس وقت پیدا ہوگئی تھی، جب ان کے سب سے بڑے ناقد علی عباس جلال پوری کی کتاب ”اقبال کا علم کلام“ نظر سےگذری، اقبال کو بحیثیت ”فلسفی“ قبول نہ کرنا جس کا بنیادی مقدمہ ہے۔ اس ایک عدد کتاب پڑھنے سے میں ہر جگہ پورے جزم کے ساتھ اقبال پر تیر برساتا تھا (جس طرح ”مجھ جیسے“ سے بہت سارے لوگ اب بھی اس کام میں مصروف ہیں)۔ چند دنوں کے بعد بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں ”یوم اقبال“ پر ایک پروگرام کا انعقاد کیا گیا، جس میں جناب ادریس آزاد جیسے سخن داں بھی مدعو تھے۔ اللہ کا کرنا تھا کہ اقبال پر اپنے نرالے انداز میں گفتگو کے ساتھ ساتھ جلال پوری صاحب کا مقدمہ بھی پیوند خاک کر دیا۔ اس سے میری کافی تشفی ہوگئی۔

    دوسرے مرحلے میں اسلام آباد سے کسی ڈاکٹر صلاح الدین درویش صاحب کی کتاب ”فکر اقبال کا المیہ“ اس غرض سے پڑھنا شروع کیا کہ شاید مصنف نے ”فکر اقبال کے تنازعہ“ کو ختم کرنے کی کوشش کی ہوگی، اس کتاب پر اسلامی یونیورسٹی کے نامور ادیب ڈاکٹر روش ندیم صاحب کا لکھا ہوا مقدمہ بھی یہی تھا کہ اقبال کو مسجد کے خطیب سے لے کر سوشلسٹ سب اپنا مفکر مانتے ہیں۔ میں نے بھی اس الجھن کو دور کرنے کی خاطر کتاب اٹھائی۔ لیکن اس کے علی الرغم موصوف نے اقبال پر حد درجہ کی ہرزہ سرائی کی تھی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ان صاحب کا تعلق بھی جلال پوری صاحب کے ”سیاسی حلقے“ سے ہیں۔

    اس خاک بسر فکر کے اور صاحب فیس بک کے نامور دانشور ہیں۔ اقبال کا مذاق اڑانا ان کا پسندیدہ موضوع ہے۔ گئے دنوں ایک حیران کن دعوی بھی کیا تھا کہ اقبال ؒ نے پی ایچ ڈی نہیں کی تھی، کانٹ کے بارے میں اپنے خطبات میں غلط بیانی بھی کی ہے۔ اسی قبیل کے اور بھی بہت ساری ”تحقیقات“ تھیں۔
    پھچلے دنوں ان دانشور صاحب نے احمد جاوید صاحب پر بھی حملہ کیا تھا کہ ہم تو اقبال کو فلسفی نہیں مانتے تو اقبالیات کے ماہر کو کیا حثیت دیں گے۔
    میں چونکہ فلسفے کے ”الف“ اور ”ب“ کو بھی نہیں جانتا اس لیے تحریر کو فلسفیانہ جکڑ بندیوں میں الجھا سکتا ہوں اور نہ ایسی بذلہ سنجی کو علمی کام سمجھتا ہوں بلکہ اس کو ادنی سی وقعت بھی نہیں دیتا۔
    آمدم بر سر مطلب!
    اقبال اب بھی ہمارے ماتھے کا جومر ہیں اور تا قیامت رہے گا۔ جس کے قد میں یہ بزعم خود دانشور اور فلسفی رتی برابر کمی نہیں لاسکتے۔ ہماری سب سے بڑی کامیابی یہی ہوگی، اگر اسلاف کے بارے میں کوئی بدگمانی پیدا ہوجائے تو اس کو دور کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔

  • بھوکے گدھ – رضوان اللہ خان

    بھوکے گدھ – رضوان اللہ خان

    رضوان اللہ خان یہ غالباََ 2012ء کا وسط تھا، میں گلبرگ میں واقع جس آفس میں بیٹھا تھا، وہ ایک نجی چینل سے منسلک ایک صاحب (میں انہیں شاہ جی کہا کرتا تھا، اوریجنل نام مخفی) کا تھا۔ شاہ جی مجھے چھوٹا بھائی کہا کرتے تھے اور ان دِنوں وہ بے تاب تھے کہ میرا پورٹ فولیو جلد تیار ہوجائے۔ لیکن اس سب میں ایک رکاوٹ تھی اور وہ یہ کہ میرے گھر والوں کو معلوم نہ تھا کہ میں یونیورسٹی کے بعد کبھی کبھی دوستوں کے پاس جاتا ہوں یا اپنے کیرئیر کا کوئی خواب لیے شاہ جی کے آفس۔
    ویٹنگ روم میں ہمیشہ کی طرح جینز، ٹی شرٹ میں ملبوس لڑکیاں بیٹھی ہوئی تھیں۔ میں شاہ جی کے آفس کے اندر چلا گیا، شاہ جی نے دیکھتے ساتھ کہا،
    ”بیٹا جی شوٹنگ روم میں پہنچو جلدی“،
    پوچھا ”شاہ جی خیر ہے؟“۔
    جواب ملا ”کبھی تو سوال چھوڑ بھی دیا کر“۔
    میں مسکراتا ہوا شوٹنگ روم کی جانب بڑھ گیا، دروازہ کھول کر ابھی قدم رکھا ہی تھا کہ دو تین لڑکیاں دیکھ کر واپس نکل آیا. فوری اندر سے کیمرہ مین سلیمان نکلا اور مجھے لے کر اندر چلا گیا۔ میں سامنے پڑے زرد رنگ کے خوبصورت صوفے پر جا بیٹھا، سلیمان پاس آیا، میرے بال ٹھیک کرنے لگا، میں نے حیرت سے پوچھا
    ”کیا ہوا؟ خیر ہے نا؟“۔
    جواب ملا ”یہ نورین ہے شاہ جی نے کہا ہے کہ اس کے ساتھ تمہارا کپل شوٹ ہوگا“۔ میں پریشانی سے اچانک کھڑا ہوا اور کہا میں شاہ جی سے بات کرتا ہوں، میں کسی لڑکی ساتھ شوٹ نہیں کروا سکتا۔ یہ کہہ کر میں شاہ جی کے پاس پہنچا۔
    شاہ جی دیکھتے ہی مسکرانے لگے اور طنزا کہا،
    ”پھر وہی نخرے ہوں گے کہ میں لڑکیوں کے ساتھ شوٹ نہیں دوں گاَ؟“
    میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
    شاہ جی کہنے لگے،
    ”یار پورٹ فولیو مکمل کرنے کے لیے آخری 5 تصاویر کی ضرورت ہے، لوگ 50 50 ہزار میں پورٹ فولیو بنواتے ہیں، میں اپنے چھوٹے بھائی کا مفت میں بنا رہا تاکہ یہ جو تین چار پروڈیوسرز اپنے من پسند لڑکے لے آئے ہیں، انہیں بھی کچھ پتہ لگے، تم نے صرف اس لڑکی کو ایک ہزار دینا ہے، ان 5 تصاویر کا“۔
    میں حیرت سے ان کا منہ تکنے لگا اور صاف جواب دیا، ”شاہ جی! مجھے تو ویسے بھی گھر سے اجازت بھی پتہ نہیں ملے یا نہیں لیکن میں لڑکی کے ساتھ شوٹ نہیں دے سکتا، برا نہ مانیے گا۔“
    اب شاہ جی نے انتہائی غصے سے دیکھا اور جلد ہی اپنے تاثرات بدل لیے اور بولے،
    ”یہ حرام— کو بھی ماڈلنگ کا شوق ہے لیکن ہاتھ لگاؤ تو چیختی ہے، اسی لیے اس کو بھی بس لٹکانا ہے، 1000 میں ایک شوٹ دے اور چلتی بنے، یہاں ایسی لڑکیوں کی کوئی جگہ نہیں۔“
    میں جیسا بھی تھا لیکن اس بات پر شدید غصہ آیا لیکن خاموش رہا۔ لیکن جوں ہی مجھے موقع ملا اس لڑکی کے پاس گیا اور پوچھا،
    ”تمھیں ماڈل کیوں بننا ہے؟“
    کہنے لگی، ”میں بھی کسی سے کم نہیں، لیکن ہاں بس ان لوگوں کی طرح ہمارے پاس گاڑیاں نہیں ہیں، ٹی وی پر دیکھ دیکھ کر شوق چڑھا اور آگئی“۔
    پوچھا، ”کیا تمہارے ماں باپ کو علم ہے؟“
    ہنس کر کہنے لگی ”مرنا ہے کیا میں نے؟“۔
    مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اسے کیا کہوں کہ اچانک میں نے سیدھی طرح بات کی اور کہنا شروع ہوا،
    ”یہ تمہاری عزت کے بھوکے ہیں، شاہ جی اندر تمہیں گالیاں دے رہے تھے، اگر تم ان کے ساتھ وہ سب نہیں کرلو گی جو وہ چاہتے ہیں تب تک تم ماڈل نہیں بن سکتی، کیا تمہارے ماں باپ نے اس لیے بڑا کیا کہ اس گند میں آجاؤ؟ دیکھو میں بھی کوئی اچھا انسان نہیں ہوں لیکن مجھ سے یہ سب نہیں دیکھا جاتا، کیا تمہاری بیٹی یہ سب کرے تو برداشت کرو گی؟“
    وہ کچھ دیر خاموش رہی اور پھر بنا کچھ کہے آفس سے چلی گئی۔ وہ لڑکی جس کا حلیہ دیکھ کر میں اسے ایک گھٹیا اور فحش لڑکی سمجھ رہا تھا، وہ صرف دیکھا دیکھی اس لباس میں بے لباس ہونے آئی تھی، حالانکہ وہ تو خود کو چھونے بھی نہ دیتی تھی، جو کہ شاہ جی کی باتوں سے واضح تھا۔ کچھ دیر بعد سلیمان نے شاہ جی کو بتایا کہ وہ نورین تو جا چکی تو آج پھر سے شاہ جی کے وہ الفاط کانوں میں گونج رہے ہیں،
    ”کرنی ماڈلنگ ہے اور شریف زادی بھی رہنا ہے، دماغ خراب اس کا۔“
    شاہ جی کی عادت تھی وہ ہر لڑکی کو گالی دیا کرتے تھے، کتنی ہی ایسی لڑکیاں شاہ جی، سلیمان اور ان کے دوستوں کی ہوس کا نشانہ بن چکی تھیں لیکن بس وہی 1000 کا شوٹ اور گھر۔
    تقریباََ 6 ماہ بعد ہی رب نے ہدایت عطا فرمائی، میں نے خوشی خوشی اس گندے شوق کو ترک کیا اور چہرے پر ڈاڑھی سجا لی۔ ڈاڑھی رکھنے کے 3 ماہ بعد شاہ جی سے ملاقات ہوئی، شاہ جی مجھے دیکھ کر حیران تھے، پچھلے 4 ماہ میں ہمارا کوئی رابطہ نہ ہوا تھا، اب جب ہوا تو اس حالت میں۔ شاہ جی نے آفس اندر آنے کی دعوت بھی نہ دی اور بس اتنا کہا،
    ”طالبان صاحب کہاں غائب رہے ہو؟ اچھا تم جس کام سے آئے ہو، وہ کر لو اور کسی دن چکر لگانا، میں بھی آج بہت مصروف ہوں۔“
    میں بات مذاق میں اڑا کر گھر چلا گیا، تین دن بعد شاہ جی کا فون آیا اور اسی پرانے انداز میں بات کرتے ہوئے اچانک کہا،
    ”کل رات ڈیفنس میں ڈانس پارٹی ہے، تمہارا پاس میں خرید چکا ہوں، ضرور آنا.“
    میں نے حیرت سے جواب دیا ”شاہ جی میں کبھی پہلے نہیں گیا تو اب کیسے جا سکتا ہوں۔“
    شاہ جی نے ہنستے ہوئے کہا کہ ”او کُج وی نئی ہوندا، سب چلتا ہے، لڑکی تجھے وہیں مل جائے گی.“
    میرا وجود اس وقت نہ جانے کیوں کانپ رہا تھا، بس یہ کہہ پایا، ”شاہ جی! آپ بھی یہ کام چھوڑ دیں.“ اور فون بند کر دیا۔
    شاہ جی ہفتے دو ہفتے بعد ایسی ہی دعوتیں دیتے رہے اور میں ”آپ بھی چھوڑ دیں ایسے کام“ کہہ کر فون بند کر دیا کرتا۔ میں جانتا تھا کہ یہ کیا شیطانی چکر ہے، بس رب نے بچائے رکھا۔
    آج ان واقعات کو گزرے کم و بیش 3 سال ہوچکے۔ یہ وہ راز کی باتیں تھیں جو میرے دوستوں میں بھی چند کے علاوہ کوئی نہ جانتا تھا۔ نورین کو کبھی ٹی وی پر نہیں دیکھا اور اللہ کرے وہ اس دلدل سے بچ گئی ہو، شاہ جی کا اتنے عرصے سے کوئی اتہ پتہ نہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ بھی اس کام سے ہاتھ کھینچ چکے ہو۔
    عرض یہ ہے کہ جن ذہنوں میں ننگا پن اس قدر رچ بس گیا ہے کہ انہیں اس کے خلاف بات کرنے والے زہر لگتے ہیں، وہ اپنی بیٹیوں کے متعلق صرف اتنا بتا دیں کہ کیا وہ اپنی بیٹی بہن کےلیے بھی یہ سب پسند کر سکتے ہیں؟ وہ اپنی بیٹی کی عزت ایسے اچھلتی دیکھ سکتے ہیں؟ وہ اپنی بیٹی کو گالیاں پڑتی سن سکتے ہیں؟
    مہربانی فرمائیں اور کیرئیر اور دوسروں کے بستروں کی زینت بننے میں فرق ضرور ذہن میں رکھیں۔

  • سیٹھ کی بیٹی اور ڈرائیور کی محبت (3) – ریحان اصغر سید

    سیٹھ کی بیٹی اور ڈرائیور کی محبت (3) – ریحان اصغر سید

    میں کچھ دیر حیرت کی شدت سے کچھ بول ہی نہیں پایا اور سکتے کی کیفیت میں چھوٹی بیگم صاحبہ کو تکتا رہا۔ جو اب اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو گھٹنے پر پھنسائے کھڑکی کے شیشے سے باہر دیکھ رہی تھیں۔ ان کی بڑی بڑی آنکھوں میں نمی چمک رہی تھی۔ مجھے بےاختیار ان پر بہت ترس آیا۔ میں اپنے بارے میں قطعاً کسی غلط فہمی کا شکار نہیں تھا، ایک معمولی پس منظر کا معمولی جاہل انسان۔ جس کے پاس تعلیم، خاندان، شکل و صورت کچھ بھی نہیں تھا۔ میرے مقابلے میں بیگم صاحبہ کے پاس سب کچھ تھا۔ میں انھیں کسی بھی لحاظ سے ڈیزرو نہیں کرتا تھا۔ ان کے لائق تو کوئی ان جیسا خاندانی، اعلی تعلیم یافتہ اور خوبصورت انسان ہونا چاہیے۔ کوئی آرمی کا کرنل، پائلٹ، ڈاکٹر یا پھر کوئی اعلی سرکاری افسر۔ وہ اتنی اچھی تھیں کہ ان کے عشق میں کوئی بھی مرد گرفتار ہو سکتا تھا۔ میرے دل میں موجود ان کے لیے محبت اور عقیدت کا تقاضا تھا کہ میں فورا انکار کر دوں اور کہوں کہ میری جان بچانے کی یہ قیمت بہت بڑی ہے اور آپ میری جان بچانے کے چکر میں اپنی جان بھی خطرے میں ڈال رہی ہیں۔ میں آپ کی زندگی کو اپنے ہاتھوں برباد نہیں کر سکتا۔ آپ نے میرے لیے جو کچھ کیا وہ بہت غیر معمولی ہے لیکن اب میں آپ کو مزید مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتا۔ میں یہیں سے پنجاب لوٹ جاتا ہوں، کبھی نہ واپس آنے کے لیے۔ آپ بھی اس قصے کو یہیں ختم کر دیجیے۔ حارث نے میرے ساتھ جو کچھ کیا، میں آپ کے صدقے اسے معاف کرتا ہوں۔ آپ بھی اسے معاف کر دیں۔

    میں انھیں بتانا چاہتا تھا کہ میرا نکاح میری خالہ زاد کے ساتھ لڑکپن میں ہی کر دیا گیا تھا اور وہ گھر بیٹھے میری راہ تک رہی ہے۔ اگلے سال مارچ اپریل تک ہماری شادی ہے لیکن میں ان باتوں میں سے انھیں کچھ بھی نہیں بتا پایا۔ ایک عجیب سے کمینگی اور خودغرضی نے مجھے اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ شاید میری رگوں میں دوڑتا معمولی خون اپنا اثر دکھا رہا تھا۔ میری عقل مجھے سمھا رہی تھی کہ بے وقوف، جس کے تو دن رات سپنے دیکھتا رہا ہے، وہ تجھے مل رہی ہے، تجھے اور کیا چاہیے؟ زندگی میں ایسے مواقع روز روز اور ہر کسی کو نہیں ملتے۔ ایک معمولی نوجوان سے ایک امیر کبیر پری کی شادی، ایسا تو صرف فلموں میں ہوتا ہے یا پھر رومانی رسالوں میں، اور تیری منکوحہ شمسہ کا کیا ہے، نہ شکل و صورت اور نہ رنگ روپ۔ تین مرلے کے کچے مکان اور بھینسوں کے ساتھ زندگی گزارنے والی ایک معمولی لڑکی جس کے جسم سے ہر وقت ایک ناگوار سی بُو اٹھتی ہے۔ یہاں سے لوٹو گے تو ساری عمر غربت کی چکی میں پستے ہوئے گزارنی پڑے گی۔
    چلیں؟
    بیگم صاحبہ نے شاید میری خاموشی سے تنگ آ کر کار کی چابی اٹھاتے ہوئے کہا۔
    کار میں بیٹھ کر میں نے بیگم صاحبہ کی طرف دیکھے بنا کہا،
    میں تیرے سنگ کیسے چلوں سجنا
    تو ساحل میں سمندروں کی ہوا
    چھوٹی بیگم صاحبہ بےاختیار کھلکھلا کر ہنس پڑیں۔
    ہمیں تو آج پتہ چلا ہے کہ آپ شاعری سے بھی شغف رکھتے ہیں۔

    میں نے بہت محتاط لفظوں میں اپنی گفتگو کا آغاز کیا۔ میں نے چھوٹی بیگم صاحبہ کو اپنے بچپن اور ماضی کے بارے میں تفصیلاً بتایا لیکن اپنے نکاح کی بات گول کر گیا۔ ہمت کر کے میں نے انھیں یہ بھی بتا دیا کہ میں چپکے چپکے ان پر کتنا مرتا رہا ہوں اور دن رات ان کے سپنے دیکھتا رہا ہوں۔ اس کے بعد میں نے انھیں اپنے اور ان کے متوقع نکاح کے بعد پیدا ہونے والے خطرات سے آگاہ کرنے کی نیم دلانہ سی کوشش کی۔ میں انھیں ان کے فیصلے سے باز رکھنے کے لیے دلائل تو دے رہا تھا لیکن دل میں ڈر بھی رہا تھا کہ کہیں وہ قائل ہی نہ ہو جائیں اور نہ ہی میں انھیں کوئی ایسی دلیل دینا چاہتا تھا کہ جس سے وہ قائل ہو کر پیچھے ہٹ جائیں۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ نے میری ساری باتیں بہت غور و تحمل سے سنیں۔
    اوکے ! لیٹس میک اِٹ سِمپل۔
    ہم نے آپ کی ساری گفتگو سے جو اندازہ لگایا ہے، وہ یہ کہ آپ ہمیں بہت پسند کرتے ہیں اور ہم سے شادی بھی کرنا چاہتے ہیں، لیکن آپ کو صرف دو باتوں پر اعتراض ہے۔ ایک تو آپ سمجھتے ہیں کہ آپ ہمارے قابل نہیں ہیں۔ دوسرا آپ ڈر رہے ہیں کہ ہماری شادی کے بعد ہمیں خاندان و سماج کی بہت ساری مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایم آئی رائٹ؟؟
    جی بیگم صاحبہ ! میں نے تائید کی۔
    آئی جسٹ ڈونٹ کیئر! اگر آپ ہمارے ساتھ ہیں تو ہمیں دنیا میں کسی کی بھی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ ہم سب سنبھال لیں گے۔ آپ ہمارے ساتھ ہیں نا الیاس؟
    کار رک چکی تھی۔ چھوٹی بیگم صاحبہ دل و جان سے میری طرف متوجہ تھیں۔ میں سرشاری کی سی کیفیت میں سر اثبات میں ہلانے کے علاوہ اور کچھ نہیں کہہ پا رہا تھا۔
    الیاس ہم آپ پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم سے اقرار کرنے کے بعد آپ کے لیے واپسی کے سارے رستے بند ہو جائیں گے۔ آپ پر ہماری فیملی، اور ہو سکتا ہے کہ آپ کی فیملی کا بھی شدید دباؤ آئے۔ ہو سکتا ہے آپ کو ڈرایا جائے یا لالچ کے جال میں پھنسانے کی کوشش کی جائے۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ ہم دونوں قتل کر دیے جائیں۔ آپ نے جو کچھ سوچنا ہے، ابھی سوچ لیجیے. بعد میں پچھتانے یا پیچھے ہٹنے کا کوئی آپشن نہیں بچے گا۔
    بیگم صاحبہ کے چہرے پر بے پناہ سختی اور ان کی روایتی بے نیازی نمودار ہو چکی تھی۔
    میں مر جاؤں گا لیکن اب پیچھے نہیں ہٹوں گا۔ میرے ہاتھ تو کاٹے جا سکتے مگر آپ کے ہاتھ سے چھڑوائے نہیں جا سکتے۔ میں نے بے اختیار چھوٹی بیگم صاحبہ کا ہاتھ تھام لیا۔

    ولی خان نے گھر جا کر سیٹھ صاحب کو ساری صورتحال سے آگاہ کر دیا تھا۔ سیٹھ صاحب کی چھوٹی بیگم صاحبہ کو دو دفعہ کال آ چکی تھی لیکن چھوٹی بیگم صاحبہ نے انھیں مطمئن کر دیا تھا۔ کراچی پہنچ کر ہم سیدھے کورٹ چلے گئے۔ جہاں ایک وکیل نے پارکنگ میں ہمارا استقبال کیا۔ میرا دل خوشی سے بلیوں اچھل رہا تھا لیکن مستقبل کے خدشات بھی ڈرا رہے تھے۔ چھوٹی بیگم صاحبہ حسب معمول پرسکون و پراعتماد تھیں۔ دوپہر تک ہم ساری کاغذی کاروائی مکمل کر کے باقاعدہ ایک دوسرے کے میاں بیوی بن چکے تھے۔ چھوٹی بیگم صاحبہ کو گھر جلدی جانا تھا اور میں چاہ رہا تھا کہ وقتی طور پر اپنے کزن کے گھر چلا جاؤں لیکن چھوٹی بیگم صاحبہ نہیں مانیں۔ انھوں نے مجھے تسلی دی کہ ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔ وہ مجھے اپنے ساتھ لے کر اپنے بنگلے پہنچیں۔ میں اپنے کواٹر میں چلا گیا اور چھوٹی بیگم صاحبہ سیٹھ صاحب کے پاس چلی گئیں جو ان کے انتظار میں آج آفس نہیں گئے تھے۔ بیگم صاحبہ نے میری مرہم پٹی حیدرآباد سے ہی کروا دی تھی۔ میں درد کش گولیاں کھا کر لیٹ گیا۔

    ساری رات کی ہلچل اور رت جگے کے بعد میرا خیال تھا کہ میں لیٹتے ہی سو جاؤں گا لیکن میری توجہ دروازے پر ہی مرکوز رہی۔ کبھی لگتا کہ ابھی دھماکے سے دروازہ کھلے گا اور سیٹھ صاحب یا ولی خان مجھے گولیوں سے سے بھون دیں گے۔ پھر سیٹھ صاحب کی بردباری اور بیگم صاحبہ کے لیے ان کی محبت دیکھ کر دل کو تھوڑی ڈھارس بندھتی۔ تقریباً آدھے گھنٹے بعد میرے کوارٹر کے دروازے پر ایک نفیس سے دستک ہوئی۔
    میرا دل بے اختیار پکار اٹھا کہ یہ چھوٹی بیگم صاحبہ ہیں۔ میں نے لپک کر دروازہ کھولا اور چھوٹی بیگم صاحبہ میرے کمرے میں تشریف لے آئیں۔ وہ پہلی دفعہ میرے کمرے میں آئی تھیں، اس لیے کافی دلچسپی سے اردگرد کا معائنہ کر رہی تھیں۔ میں نے ان کے چہرے کے تاثرات تاڑنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔
    آپ کی بڑے صاحب سے ملاقات ہوئی ہے؟؟ آپ نے ہماری شادی کے بارے میں کیا بتایا ہے؟؟
    میں نے بے چینی سے پوچھا۔
    ہاں ! ہم ان کے پاس ہی بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم نے انھیں سب کچھ بتا دیا ہے۔ پہلے تو وہ بہت سٹپٹائے اور ہم پر بہت غصہ بھی ہوئے، مگر ہم بھی ہم ہیں، جب ہم بھی غصے میں آ گئے تو انھیں نارمل ہونا پڑا۔ کیا کریں بے چارے، وہ ہم سے محبت جو اتنی کرتے ہیں۔ ان کی جان ہمارے اندر ہے، ہمیں پتہ تھا کہ وہ مان جائیں گے۔ ابھی وہ آپ کو بلا رہے ہیں، اس لیے ہم آپ کو لینے آئے ہیں۔ چھوٹی بیگم صاحبہ نے بڑے شوخ و چنچل انداز میں تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا۔ وہ ابھی تک رات والے ڈریس میں ہی ملبوس تھیں مگر پھر بھی فریش اور کھلی کھلی لگ رہیں تھیں۔

    میں ان کی راہنمائی میں چلتا ہوا بنگلے کے اندرونی حصے کی جانب بڑھا۔ اس سے بیشتر میں اس حصے میں کبھی نہیں آیا تھا۔ بنگلے کی شان و شوکت مجھے مرعوب کر رہی تھی۔ ایک شاندار کمرے میں سیٹھ صاحب ٹہل رہے تھے۔ سفید ریشم کی شلوار قمیض میں ان کی شخصیت مجھے ہمیشہ سے زیادہ بارعب و پرقار لگی۔ انھوں نے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور چھوٹی بیگم صاحب کو تشریف لے جانے کا کہا۔
    ہم تو کہیں نہیں جا رہے، یہیں بیٹھے ہیں۔ آپ کو جو بات کرنی ہے ہمارے سامنے ہی کیجیے۔ چھوٹی بیگم صاحبہ نے میرے قریب ہی ایک صوفے پر آلتی پالتی مارتے ہوئے کہا۔
    سیٹھ صاحب کے چہرے پر برہمی کے تاثرات ابھرے۔
    بےبی، سٹاپ اِٹ ! اتنی بڑی حماقت کے بعد تمہاری یہ بچگانہ حرکتیں اور شوخی زہر لگ رہی ہیں مجھے، جاؤ یہاں سے۔ جب میں نے ایک دفعہ تم سے وعدہ کر لیا ہے کہ تمہارے فیصلے کا احترام کیا جائے گا اور الیاس کی زندگی محفوظ رہے گی تو پھر تمہیں کوئی ڈاؤٹ نہیں ہونا چاہیے۔ یہ تمہارے بابا کی زبان ہے۔
    بےبی عرف چھوٹی بیگم صاحبہ پر اس تقریر کا کوئی خاص اثر نہیں ہوا۔ انھوں نے گھٹنوں پر کہنیاں رکھ کر اپنے چہرے کو ہاتھوں پر ٹکا رکھا تھا۔ سیٹھ ٓصاحب کی بات ختم ہوتے ہی وہ ٹھنک کر بولیں،
    تو بابا ہم نے کب کہا ہے کہ ہمیں آپ کی بات یا زبان پر ڈاؤٹ ہے۔ ہم تو بس الیاس کی مورل سپورٹ کے لیے یہاں بیٹھے ہیں، دیکھیں نا کتنے گھبرائے ہوئے ہیں بیچارے۔ ہم بھی اٹھ کر چلے گئے تو خاک بات کر پائیں گے آپ سے۔ بابا ہم پرامس کرتے ہیں کہ آپ دونوں کی کنورسیشن میں بالکل نہیں بولیں گے۔
    سیٹھ صاحب بے بسی سے ہونٹ کاٹ کر رہ گئے۔ انھوں نے صوفے پر بیٹھ کر سگار سلگایا اور ایک طویل کش لے کر صوفے کی پشت سے ٹیک لگا کر پرسوچ نظروں سے مجھے دیکھنے لگے۔

    الیاس ! ہمیں بہت افسوس ہے تم پر۔ ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ تم ہمارے ساتھ ایسا کرو گے۔ ہم نے ہمیشہ تمھیں اپنے گھر کا فرد سمجھا۔ تمہاری ہر ضرورت پوری کی۔ اپنی سب سے قیمتی چیز ہماری بیٹی کے لیے تم پر اعتماد کیا، میرے احسانات کا یہ صلہ دیا ہے تم نے؟
    چلو بےبی تو بچی ہے مگر تم تو میچور مرد ہو۔ بجائے اسے سمجھانے کے تم بھی اس کے ساتھ شامل ہو گئے۔ شادی کو گڈے گڈی کا کھیل سمجھ رکھا ہے تم دونوں نے؟؟
    بابا ۔۔۔۔! چھوٹی بیگم صاحبہ نے کچھ بولنے کی کوشش کی۔
    شٹ اپ ، آئی سے جسٹ شٹ اپ ! سیٹھ صاحب بھڑک اٹھے۔
    کم از کم اپنے الفاظ اور اپنی زبان کا پاس کرنا سیکھ لو کہ تم پر کوئی اندھا اعتماد کرے تو اس کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچاتے۔ سیٹھ صاحب کے لہجے میں بلا کی تلخی اور کاٹ تھی۔ چھوٹی بیگم صاحبہ نے گھبرا کے اپنے منہ کے سامنے کشن رکھ لیا۔
    سیٹھ صاحب انھیں کچھ دیر گھورتے رہے۔۔ اگر یہاں بیٹھنا ہے تو اب دوبارہ تمہاری آواز نہ آئے۔۔
    تھوڑا سا پانی پینے اور سگار کے ایک دو کش لینے کے بعد وہ پھر میری طرف متوجہ ہوئے۔
    دیکھو الیاس ! تم نے ہمارا رہن سہن اور ہماری کلاس دیکھ رکھی ہے۔ بےبی کا بچپن برطانیہ میں گزرا ہے۔ میں نے ساری زندگی اس کی ہر خواہش پوری کی ہے۔ اس نے شہزادیوں کی طرح زندگی گزاری ہے۔ تم نے نکاح نامے پر دستخط کرنے سے پہلے سوچا تھا کہ تم اسے کہاں رکھو گے؟ اور اس کی شاہانہ ضروریات کیسے پوری کرو گے؟ میں تمہاری انسلٹ نہیں کر رہا لیکن تم خود غیر جانبداری سے مجھے جواب دو کہ کیا تم اور بےبی کسی بھی طور پر میاں بیوی لگتے ہو؟ اپنی تعلیم، شکل و صورت اور سٹیٹس دیکھ کر کیا تمھیں نہیں لگتا کہ تم نے بہت زیادتی کر دی ہے ہمارے ساتھ۔
    سیٹھ صاحب کے لہجے میں تلخی بڑھتی چلی جا رہی تھی اور میں شرم سے زمین میں گڑ رہا تھا۔
    الیاس ! بےبی بہت رحمدل اور حساس بچی ہے۔ میں مانتا ہوں کہ تمہارے ساتھ میرے بھتیجے نے بہت زیادتی کی ہے اور اِس پاگل نے اپنے کزن کے ظلم کی تلافی کے لیے خود کو تمھارے نکاح میں دے دیا ہے۔ اور تم نے بھی خوب بدلہ لیا ہے ہم سے۔۔۔ ٹھنڈے دل سے سوچو الیاس۔۔۔! جس طرح بےبی نے آدھی رات کو جا کر تمھیں ریسکیو کیا اور تمہاری مرہم پٹی کروائی، کون کرتا ہے اپنے ملازموں کے لیے اتنا؟ اور اس کے بعد تم لوگوں نے کورٹ میں جا کر نکاح والا تماشا کیا ہے۔ کوئی بھی دوسرا صاحب حیثیت گھر ہوتا تو تمہاری لاش اس وقت کچرے پر پڑی ہوتی۔۔!
    بڑے صاحب، میں۔۔۔۔۔!
    میری بات ابھی ختم نہیں ہوئی۔ سیٹھ صاحب نے ہاتھ اٹھا کر مجھے بولنے سے روک دیا۔ سگار کا کش لگا کر انھوں نے گھڑی پر وقت دیکھا ۔
    اب میں کس منہ سے حارث کی سرزنش کروں۔ تم لوگوں نے تو اس کی بات کو سچ ثابت کر دیا ہے۔ اگر حارث کو پتہ چلا کہ تم نے بےبی سے نکاح کر لیا ہے تو وہ زندہ چھوڑے گا تمھیں؟
    جواب دو!
    سیٹھ صاحب نہایت غضب ناک ہو چکے تھے۔ میں چپ چاپ سر جھکائے پیر کے ناخن سے قالین کھرچتا رہا۔
    میں نے بےبی سے وعدہ کیا ہے کہ تمہارا نکاح برقرار رکھا جائے گا لیکن اس کے لیے میری کچھ شرائط ہیں۔
    میں نے سر اٹھا کر سیٹھ صاحب کے چہرے کی جانب دیکھا جہاں قیامت کی سنجیدگی اور سختی تھی۔
    کمرے میں کچھ دیر خاموشی کا راج رہا۔

    کیسی شرائط بابا؟ چھوٹی بیگم صاحبہ کے لہجے میں کچھ پریشانی جھلک رہی تھی۔
    بے فکر رہو بیٹا! میری شرائط کچھ ایسی ناجائز نہیں ہیں۔ بس یوں سمجھ لو کہ میرے کچھ تحفظات ہیں۔ انھیں دور کیے بنا میں تمہیں الیاس سے نہیں بیاہ سکتا۔ بطور باپ یہ میرا فرض بھی ہے اور حق بھی کہ میں آپ کے فیوچر کو سیکیور و پرعزت بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کروں۔ سیٹھ صاحب نے نرمی سے جواب دیا۔
    بڑے صاحب! چھوٹی بیگم صاحبہ سے خلع کی شرائط کے علاوہ مجھے آپ کی تمام شرائط منظور ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ ہمارے ساتھ زیادتی نہیں کریں گے۔
    مجھے تم سے ایسی ہی تابعداری کی امید تھی۔ میری پہلی شرط یہ ہے کہ مناسب وقت آنے تک تم دونوں اس نکاح کا ذکر کسی سے بھی نہیں کرو گے۔ کسی سے بھی نہیں۔ اگر تم لوگوں نے میری نصیحت پر عمل نہ کیا تو میں الیاس کی زندگی کی ضمانت نہیں دے سکتا۔
    میں پوچھنا چاہتا تھا کہ وہ مناسب وقت کب آئے گا لیکن بڑے صاحب کا موڈ دیکھ کر محض صرف اثبات میں سر ہلا کر رہ گیا۔
    میری دوسری شرط یہ ہے کہ جب تک تم دونوں کی باقاعدہ شادی نہیں ہو جاتی، تم دونوں علیحدگی میں نہیں ملو گے۔ نو باڈی ریلیشن شپ، ناٹ ایٹ آل ! اگر ایسا کچھ ہوا تو الیاس میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں تمہیں عبرت کا نشان بنا دوں گا۔ بےشک قانونی طور پر تم لوگ میاں بیوی بن چکے ہو لیکن شرعا والی ایسا نکاح منسوخ کرنے کا اختیار رکھتا ہے، جو بالکل بےجوڑ اور ہتک آمیز ہو، میں صحیح غلط کی بحث میں نہیں جانا چاہتا۔ بس تم میری اس بات کو اپنے پلے سے باندھ لو کہ جب تک تم لوگوں کی باقاعدہ شادی نہیں ہو جاتی، تم میری بیٹی سے دور رہو گے۔
    بڑے صاحب کے لہجے میں کوئی ایسی بات تھی کہ مجھے بے اختیار جھرجھری آ گئی۔ میں نے چھوٹی بیگم صاحبہ کی طرف دیکھا جو صوفے پر ٹانگیں فولڈ کیے گود میں پڑے کشن کے ریشمی غلاف کے دھاگے کھینچ رہی تھیں۔
    مجھے منظور ہے۔۔ میں آپ کو شکایت کا موقع نہیں دوں گا ۔۔ میں نے نظریں جھکا کر کہا۔
    میری تیسری شرط یہ ہے الیاس کہ تمھیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہوگا۔ اپنے آپ کو ہمارے سوسائٹی کے قابل بناؤ، ہمارا انداز و اطور اور رہن سہن اپناؤ۔! تم جو بھی بزنس کرنا چاہتے ہو کرو، تمھیں سرمایہ میں فراہم کروں گا۔ میں تمہیں ایک کامیاب بزنس مین دیکھنا چاہتا ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ تم اپنی تعلیم مکمل کرو، تب تک بےبی کی ڈگری بھی مکمل ہو جائے گی، تو پھر میں تم دونوں کی شادی دھوم دھام سے کر دوں گا لیکن اس سے پہلے تمہیں خود کو بےبی کا اہل ثابت کرنا ہے۔
    جی! بڑے صاحب میں پوری کوشش کروں گا۔ میں نے ایک بار پھر جواب دینے سے پہلے چھوٹی بیگم صاحبہ کو دیکھا، حسب سابق اسی شغل میں مشغول تھیں۔
    صرف کوشش نہیں کرنی۔۔! تمیں کامیاب ہونا ہے۔۔! یہ کوئی آسان کام نہیں ہے لیکن اگر تم واقعی بےبی سے محبت کرتے ہو تو یہ کوئی اتنا مشکل بھی نہیں ہے۔ کسی بزنس کا تجربہ ہے تمہیں؟؟ کیا کرنا چاہتے ہو؟
    یہ سوال میرے لیے کافی غیر متوقع تھا ۔
    میں نے اس بارے میں کچھ سوچا نہیں بڑے صاحب۔۔! مجھے کسی قسم کے بزنس کا تجربہ نہیں ہے۔
    ھووووں۔۔! سیٹھ صاحب نے ایک ہنکارا بھر کر سگار کر کش لیا۔
    ہماری ایک کنسٹرکشن کمپنی ابوظہبی میں بھی ہے۔ کیوں نہ تمہیں وہاں بھیج دیا جائے؟ یوں تم حارث کی نظروں سے بھی دور رہو گے اور کام بھی سیکھ جاؤ گے۔ اگر تم نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا تو کچھ عجب نہیں کہ میں وہ کمپنی تمہیں شادی کے تحفے میں دے دوں۔
    میں نے چونک کر بڑے صاحب کی طرف دیکھا جو پہلے ہی مجھے بڑی گہری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ میں نے کنفیوژ ہو کر چھوٹی بیگم صاحبہ کی طرف دیکھا تو انھوں نے مسکرا کر کندھے اچکائے۔
    ٹھیک ہے بڑے صاحب ! جو آپ مناسب سمجھیں۔ میں تو آپ کے حکم کا غلام ہوں۔ میں نے کوشش کی کہ میری اندرونی خوشی کے تاثرات میرے چہرے پر نہ آئیں۔
    اور میری ایک آخری شرط بھی ہے جسے تم میری درخواست بھی سمجھ سکتے ہو۔
    حارث کو معاف کر دو۔۔! حارث ایک جذباتی ٹین ایج بچہ ہے۔ وہ میرا بھتیجا ہے اور مجھے بہت عزیز ہے۔ کبھی اس سے بدلہ لینے کا خیال دل میں مت لان ا۔۔ اسی میں تمہاری اور سب کی بہتری ہے۔
    بڑے صاحب! آپ مجھے شرمندہ کر رہے ہیں۔ میں حارث صاحب کو پہلے ہی معاف کر چکا ہوں۔
    چلو ٹھیک ہے۔ بےبی آج رات ہی لندن اپنی نانی اور ماموں کے گھر دو تین ہفتے کے لیے جا رہی ہے۔ اس کا پروگرام تو کچھ دن بعد کا تھا لیکن میں نے اس کی آج رات کی ہی ٹکٹ کروا دی ہے۔ تم بھی اپنا سامان پیک کر کے میرے کلفٹن والے فلیٹ میں چلے جاؤ۔ اب تمہارا یہاں رہنا مناسب نہیں۔ کل تمہارے پاس میرا ایک شخص آئے گا جو تمہارا ارجنٹ پاسپورٹ بنوا دے گا۔ تم اگلے دس دن میں ان شاءاللہ ابوظہبی میں ہوگے۔ بڑے صاحب نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔
    بےبی تمہیں میرے کسی فیصلے پر کوئی اعتراض تو نہیں ہے؟
    بابا! ہم پہلے ہی آپ سے بہت شرمندہ ہیں اور گلٹی فیل کر رہے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ہم نے آپ کو بہت دکھ پہنچایا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ آپ جو کچھ کر رہے ہیں، وہ ہماری اور الیاس کی بہتری کے لیے ہی کر رہے ہیں۔
    اپنے کوارٹر میں آ کر میں نے اپنا سامان پیک کیا مگر روانہ نہیں ہوا۔ چھوٹی بیگم صاحبہ نے رات دس بجے ائیرپورٹ کے لیے نکلنا تھا۔ میں انھیں آخری بار دیکھنا چاہتا تھا کہ نہ جانے اب کب ملاقات ہو۔

    دس بجے بنگلے کے پورچ میں سیٹھ صاحب کی مرسیڈیز آ کر رکی۔ کالی شلوار قمیض کے نیچے جوگرز پہنے اور اپنی رائفل گلے میں لٹکائے ولی خان بھی آس پاس ہی گھوم رہا تھا۔ کچھ دیر بعد چھوٹی بیگم صاحبہ اور بڑے صاحب بنگلے کے اندرونی حصے سے باہر آئے۔ چھوٹی بیگم صاحبہ نے گھٹنوں تک سفید رنگ کی بڑی خوبصورت فراک پہن رکھی تھی جبکہ دونوں بازو چوڑیوں سے بھرے ہوئے تھے۔ میں نے اس سے پہلے کبھی انھیں اتنے اہتمام سے میک اپ کیے اور تیار ہوئے نہیں دیکھا تھا۔
    شاید یہ تیاری میرے لیے تھی۔ میرا دل بے اختیار زور سے دھڑکا۔ میں اندھیرے میں کوارٹر کے دروازے کے پیچھے کھڑا تھا۔ انھوں نے کار میں بیٹھنے سے پہلے میرے کوارٹر کی طرف دیکھ کر شرما کر ہاتھ ہلایا۔ جانے انھیں کیسے معلوم پڑ گیا کہ میں دروازے کے پیچھے کھڑا ہوں۔۔
    ولی خان ڈرائیور کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گیا۔ بڑے صاحب اور چھوٹی بیگم صاحبہ کے بیٹھتے ہی کار روانہ ہو گئی۔
    اس کے چند منٹ بعد ہی میں بھی اپنا بیگ کندھے سے لٹکائے، گیٹ پر کھڑے گارڈز سے سلام دعا کرتے ہوئے بنگلے سے نکل آیا۔ رکشہ لینے کے لیے مجھے کچھ دور تک پیدل چلنا پڑا۔ سیٹھ صاحب نے پچاس ہزار سے بھی زائد رقم میری جیب میں ڈال دی تھی۔ میں رکشہ میں بیٹھا سیٹھ صاحب کی باتوں پر غور کرتا رہا۔ سیٹھ صاحب نے بظاہر بڑی ہوشیاری سے مجھے چھوٹی بیگم صاحبہ سے دور ہٹا دیا تھا۔ انھیں یقیناً مجھ پر ذرا سا بھی اعتبار و اعتماد نہیں رہا تھا۔ اس لیے نہ صرف انھوں نے چھوٹی بیگم صاحبہ کو لندن بھیج دیا تھا بلکہ ان کی واپسی سے پہلے مجھے ابوظبہی روانہ کرنے کے انتظامات بھی کر دیے تھے۔ انھوں نے یہ سب انتہائی غیر محسوس انداز میں کیا تھا۔ میں جتنا بڑے صاحب کی معاملہ فہمی اور فراست کا قائل ہوتا جا رہا تھا، اتنا ہی ان سے مزید خوفزدہ اور مرعوب ہوتا جا رہا تھا۔

    کلفٹن کا فلیٹ بہت شاندار تھا۔ اگلے کچھ دن میں میرا پاسپورٹ اور ابوظہبی کا ویزہ بھی آ گیا تھا۔ چھوٹی بیگم صاحبہ سے فون پر دو تین بار چند منٹ کے لیے بات ہوئی مگر میں ان کو اپنے خدشات سے آگاہ نہ کر پایا۔ وہ اپنے بابا سے کافی خوش تھیں اور ہم دونوں کے مستقبل کے لیے کافی پرجوش بھی۔
    ابوظہبی کے لیے میری فلیٹ رات دو بجے کی تھی۔ میں رات دس بجے کے قریب تیاری مکمل کر کے فلیٹ سے نکلنے ہی والا تھا کہ فلیٹ کی کھڑکی سے ولی خان کو دیکھا۔ یہ فلیٹ چوتھی منزل پر تھا۔ اس کی چند کھڑکیاں سڑک والی سائیڈ پر بھی کھلتی تھیں۔ ولی خان لیدر کی جیکٹ اور جینز میں ملبوس ایک سپورٹس بائیک پر سوار تھا جو بڑے صاحب نے اسے لے کر دی تھی۔ بڑے صاحب واقعی اپنی ملازموں کی ضروریات کا خیال رکھتے تھے۔
    میں نے کمرے کی لائٹ کو بند کیا اور پردے کے پیچھے سے ولی خان کو دیکھنے لگا۔ آج خلاف معمول اس کے گلے میں رائفل نہیں جھول رہی تھی مگر قابل تشویش بات یہی تھی کہ وہ میرے فلیٹ کی طرف ہی متوجہ تھا۔ پھر وہ اپنی مخصوص چال چلتا بلڈنگ کے گیٹ کی طرف آیا۔
    کچھ دیر بعد وہ میرے سامنے بیٹھا تھا۔ ولی خان کی آنکھوں کا رنگ گہرا سبز تھا اور اس کا چہرہ ہر وقت بخار سے تپا ہوا سا محسوس ہوتا تھا۔ اس کی ٹھوڑی اور گالوں پر داڑھی
    کے چند لمبے بال تھے۔
    ام چھوٹا سا تھا جب امارا والد صاب، بڑے صاب پر قربان ہو گیا۔ ماں تو پہلے ہی گزر گیا تھا۔ امارے والد کی لاش خون میں لت پت بنگلے کے صحن میں چارپائی پر پڑا تھا۔ جب بڑے صاب نے امارے سر پر ہاتھ رکھ کر بولاولی فکر نہ کرنا۔ اب ام تمہارا باپ ہے۔ پھر بڑے صاب نے امارا باپ ای نہیں ، ماں بن کر بھی پالا۔ ہمیں اچھے سکول پڑھایا۔ تمہیں اماری شکل دیکھ کر یقین نہیں آئے گا مگر ام کراچی کے سب سے مہنگے کالج کا گریجویٹ ہے۔ دنیا کے چھ زبانیں پَھر پَھر بولتا اے۔ بڑے صاب نے امارا ہر خواہش کا احترام کیا اور اسے پورا کیا۔ تم مانو گے نہیں کہ اس وقت امارے اکاوئنٹ میں جتنا پیسہ ہے، اور شہر میں ہمارے نام پر جتنی جائیدار ہے وہ چھوٹے صاحبوں کے نام پر بھی نہیں ہے۔ بڑا صاب امارا صرف مالک ہی نہیں بلکہ باپ بھی ہے اور اس وقت امارا باپ تم جیسی گندی نسل کی وجہ سے سخت ٹینشن میں ہے۔ بڑے صاب کا ٹینشن ام نہیں دیکھ سکتا۔ خدایا پاک کی قسم ! امارا بس چلے تو تمیں قتل کر کے تمہارے ٹکڑے کر دے۔ حیدر آباد کا ایس ایچ اور سچا تھا۔ تم واقعی نمک حرام ہو۔ جس ٹہنی کا پھل کھاتا ہے اسی کی جڑیں کاٹتا ہے۔
    ولی خان غصے سے کھول رہا تھا اس کی آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے۔ مجھے شدید خطرے کا احساس ہوا۔
    بڑا صاب اپنے سگے بیٹوں سے پرشانی چھپا لیتا ہے مگر اپنا دل امارے سامنے کھول دیتا ہے۔ امارا بس نہیں چلتا کہ اس کی پرشانی کیسے دور کرے۔ ام نے خود پر بہت جبر کیا مگر آج خود کو روک نہیں پایا۔ یہ گن دیکھ رہے ہو؟ اب یہ تومارے اور امارے درمیان پھسلہ کرے گا۔ ام دونوں میں سے یہاں سے ایک ہی زندہ واپس جائے گا۔ ولی خان نے جیکٹ کے نیچے سے ماوزر نکال کر میز کے اوپر رکھ دیا۔
    الیاس خان ! تمہارے پاس دو آپشن ہیں۔
    نمبر ایک، اپنی قیمت بول۔ کیا چاہیے تمیں ایک کروڑ، دو کروڑ، دس کروڑ ؟؟ پچاس کروڑ تو ام اپنے پلے سے دے سکتا ہے۔ اپنی قیمت لے۔ اس طلاق نامے پر سائن کر اور دفعہ ہو جا۔ دوبارہ کبھی امارے سامنے مت آنا ورنہ تمہیں زندہ نہیں چھوڑے گا۔
    دوسرا آپشن یہ ہے کہ اگر مرد کا بچہ ہے اور حلال اولاد ہے تو یہ ماؤزر تمہارے سامنے پڑا ہے اور اس کے میگزین میں گیارہ گولیاں ہیں۔ ساری کی ساری امارے سینے میں اتار دے۔ تیسرا کوئی آپشن نہیں ہے تمہارے پاس۔
    پتہ نہیں زندگی میرے ساتھ کیا چوہے بلی کا کھیل کھیل رہی تھی۔ جب کبھی میں منزل پر پہنچنے لگتا تو ایک ڈیڈ اینڈ سامنے آ جاتا اور لگتا کہ اب میں بچ نہیں پاؤں گا۔ پھر مقدر یاوری کرتا اور میں عروج کی طرف سفر کرنے ہی لگتا تھا کہ دوبارہ بگولے میرے پاؤں پکڑ لیتے۔
    اگر میں کہوں کہ مجھے تمہارے دونوں آپشن قبول نہیں ہیں، تو؟؟ میں نے صوفے کی ٹیک سے پشت لگا کر عزم سے کہا۔ میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ مرنا ہی ہے تو عزت سے مروں گا، کسی کی دھمکی دھونس میں نہیں آؤں گا۔
    پھر امارے پاس بھی دو ہی آپشن ہے۔ پہلا تجھے قتل کر کے چلا جائے۔ دوسرا حارث صاب کو فون کر کے تمہارے نکاح اور لوکیشن کے بارے میں بتا دے۔ باقی حارث صاب جانے اور تم جانے۔! ولی خان نے بھی صوفے کی پشت سے ٹیک لگا کر پھیل کر بیٹھتے ہوئے کہا۔
    ولی خان تم سے جو ہوتا ہے کرلو۔۔۔!! میں لائبہ بی بی کو طلاق نہیں دوں گا۔
    میرے لہجے کی دلیری اور عزم نے ولی خان کو چونکا دیا۔ وہ بے اختیار مسکرایا۔ اس نے ماؤزر اٹھا کر بیلٹ کے نیچے اڑسا۔ طلاق کے کاغذات رول کر کے جیکٹ کی جیب میں ڈالے اور کھڑا ہو گیا۔
    مرد کا بچہ اے توم بھی۔۔۔ ام یہی دیکھنا چاہتا تھا کہ تم زندگی کے کسی موڑ پر ڈر کر چھوٹی بیگم صاحبہ کو چھوڑ تو نہیں دے گا۔ یہ کہہ کر ولی خان تیز تیز قدموں سے چلتا ہوا فلیٹ سے نکل گیا۔

    کچھ دیر بعد میں ٹیکسی میں ائیرپورٹ کی طرف جا رہا تھا۔ مجھے یہ تو اندازہ تھا کہ ولی خان تیز آدمی ہے مگر وہ اتنا عیار اور اتنا بڑا اداکار بھی ہے، اس کا اندازہ نہیں تھا۔ میں یہ اندازہ لگانے میں ناکام رہا کہ یہ سٹنٹ ولی خان نے اپنے طور پر کھیلا ہے یا اس کے پیچھے سیٹھ صاحب ہیں۔ یہ سخت نفسیاتی قسم کا بھرپور وار تھا جس سے میں بمشکل بچا تھا۔ میرے خدشات و تفکرات میں اضافہ ہو چکا تھا۔ ابوظہبی پہنچ کر میں مکمل طور پر بڑے صاحب کے رحم و کرم پر ہوتا۔ اگر وہ چاہتے تو میں بآسانی کسی حادثے یا مشکل میں گرفتار ہو سکتا تھا۔
    ابوظبہی ائیر پورٹ پر مجھے بڑے صاحب کی کنسٹرکشن کمپنی کے مینیجر نے ریسیو کیا۔ اس کا نام زکریا تھا۔ زکریا بہت کھلا ڈھلا اور خوش باش بندہ تھا۔ اس نے میرے ساتھ بہت تعاون کیا اور ہر جگہ میری راہنمائی کی۔ اگلے دن اس نے مجھے کمپنی کے ہیڈ آفس اور آس پاس چلنے والے پروجیکٹس کی سائٹس کا معائنہ کروایا۔ میری رہائش کا بندوبست ایک معقول فلیٹ میں کیا گیا تھا۔ ڈرائیونگ لائسنس بن جانے کے بعد مجھے ایک ٹیوٹا لیکسس کار بھی عنایت کر دی گئی۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا تھا ویسے ویسے میرے خدشات دھلتے جا رہے تھے۔ بڑے صاحب نے مجھے آفس کے بجائے ایک بڑی سائٹ کے پروجیکٹ مینیجر کے ساتھ منسلک کر دیا تھا۔ پروجیکٹ مینیجر پاکستان میں سیالکوٹ کا رہائشی تھا اور اس کا نام سہیل علی تھا۔ ایک ہی علاقے کے ہونے اور ڈیوٹی ایک ساتھ ہونے کی وجہ سے ہم جلد ہی ایک دوسرے کے گہرے دوست بن گئے۔
    مجھے یہاں آئے تین ماہ ہو چکے تھے۔ چھوٹی بیگم صاحبہ سے فون پر دوسرے تیسرے دن چند منٹ بات ہو جاتی تھی۔ ایک تو وہ فطرتاً ہی کم گو تھیں۔ دوسرا انھوں نے مجھ سے بے تکلف ہونے کی کوئی کوشش بھی نہ کی اور نہ ہی میں کوئی ایسی جرات کر پایا تھا حتی کہ میں انھیں چھوٹی بیگم صاحبہ کے نام سے ہی بلاتا تھا مگر انھوں نے مجھے کبھی منع نہیں تھا کیا اور نہ ہی خود کو کبھی اصل نام سے بلوانے کی فرامائش کی۔ سہیل کے تعاون کی وجہ سے میں کام کو بڑی تیزی سے سمجھ رہا تھا۔ جلد ہی مجھے ایک نئے کام کا پروجیکٹ مینجر بنا دیا گیا۔

    ایک ویک اینڈ پر میں اور سہیل کار پر یہاں وہاں گھوم رہے تھے۔ سہیل کار ڈرائیو کرتے ہوئے مجھے لے کر ایک شیشہ کلب جا پہنچا۔ ایسی جگہیں میرے لیے نئی نہیں رہی تھیِں۔ ہم اکثر ایسے کلبوں میں آتے جاتے تھے لیکن اس کلب کا ماحول کچھ زیادہ ہی کھلا تھا۔ سٹیج پر نیم برہنہ پاکستانی اور انڈین لڑکیاں ڈانس کر رہی تھیں۔ سہیل نے وہاں سے اپنے ساتھ دو پاکستانی لڑکیوں کو لیا اور میرے ساتھ کار میں ہمارے فلیٹ والی بلڈنگ کی طرف بڑھا۔ میرا اور سہیل کا فلیٹ ساتھ ساتھ ہی تھا۔ وہ پہلے بھی یہ کاروائیاں کرتا رہا تھا مگر آج اس نے مجھے بھی نیم رضا مند کر لیا تھا۔
    اس کے بعد میرا حوصلہ بڑھتا چلا گیا۔ اب یہ ہمارا ہر ویک اینڈ کا معمول بن چکا تھا۔ میں خود کئی ایسی جگہوں سے واقف ہو چکا تھا۔ میں بہت خوش تھا۔ سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا تھا کہ اچانک میری نگرانی میں بننے والی کثیرالمنزلہ عمارت کی ایک چھت گرگئی جس کے نیچے دب کر دو تین مزدور جاں بحق ہو گئے۔ میں اتفاقاً اس دن دبئی گیا ہوا تھا۔ اطلاع ملتے ہی میں فورا واپس پہنچا۔ پولیس موقع پر پہنچ چکی تھی اور اس نے باقاعدہ اپنی تفتیش کا آغاز کر دیا تھا۔ میرا بھی تفصیلی انٹرویو لیا گیا جس کے بعد مجھے شہر نہ چھوڑنے کی ہدایت کی گئی۔ فلیٹ واپس جاتے ہوئے میری چھوٹی بیگم صاحبہ سے فون پر بات ہوئی۔ وہ سخت پریشان تھیں۔ انھیں خدشہ تھا کہ مجھے گرفتار نہ کر لیا جائے۔ انھوں نے مجھے فورا ابوظہبی چھوڑنے کی ہدایت کی۔
    لیکن بیگم صاحبہ ! جب میرا کوئی قصور ہی نہیں ہے تو میں کیوں بھاگوں اور کیا سیٹھ صاحب اس کی اجازت دیں گے ؟
    سیٹھ صاحب سے میری پہلے ہی فون پر بات ہو چکی تھی۔ وہ سخت برہم تھے۔ انھوں نے مجھے سخت سست سنایا اور آگاہ کیا کہ کمپنی پر بھاری جرمانہ ہونے کا قوی خدشہ ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کمپنی کا لائسنس ہی معطل کر دیا جائے۔ وہ اس سب کا ذمہ دار مجھے قرار دے رہے تھے۔
    مجھے خطرے کا احساس ہو رہا تھا۔ میں نے فورا ٹکٹ کروائی اور اپنے سامان کی پیکنگ میں مصروف ہوگیا۔ ابھی میں پیکنگ کر ہی رہا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے ڈور آئی سے دیکھا تو بےاختیار چونک پڑا۔
    باہر بڑے صاحب کا رائٹ ہینڈ اور ذاتی محافظ ولی خان کھڑا تھا۔ میں نے دروازہ کھولا۔
    ولی خان کے چہرے پر ایک پراسرار مسکراہٹ تھی۔ وہ بہت شاندار اور قیمتی سوٹ میں ملبوس تھا۔ میرے پاس سے گزر کر اس نے کوٹ اتار کر صوفے پر پھینکا اور ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کرتا ہوا فریج کی طرف بڑھا۔ سافٹ ڈرنک کا ٹن پیک نکال کر اس نے بیڈ پر پڑے میرے بیگ کی طرف دیکھا،
    بھاگنے کی تیاری مکمل ہے۔۔۔؟
    ولی خان کو میں نے پہلے بھی دو تین دفعہ اپنی کمپنی کے آفس یا پروجیکٹ سائٹس کے آس پاس دیکھا تھا۔ وہ انگلش و عربی فر فر بولتا تھا۔ وہ اردو بھی بڑے اچھے تلفظ میں بول سکتا تھا مگر جب اسے اپنے آپ کو کہیں ان پڑھ اور جاہل ظاہر کروانا ہوتا تھا، تو وہ پشتو کے لہجے میں توڑ پھوڑ کر اردو بولنے لگتا تھا۔ ابوظبہی میں ہمارا جب بھی ایک دوسرے سے آمنا سامنا ہوا تو نہ ہی میں نے اسے مخاطب کرنے کی زحمت کی اور نہ ہی اس نے مجھے بلایا۔
    آج اس کا یوں فلیٹ پر آنا کسی خطرے کی نشاندہی کر رہا تھا۔ میں نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا اور پیکنگ میں مصروف رہا۔
    تم کہیں بھی بھاگ جاؤ۔ اگر یہ چاہیں تو تمہیں پکڑ کر واپس لے آئیں گے اور کڑی سزا دیں گے۔ ولی خان نے صوفے پر ڈھیر ہوتے ہوئے دوبارہ اشتعال دلایا۔
    یہ میرا مسئلہ ہے۔ تم اپنے کام سے کام رکھو۔! میں نے بیگ کی زپ بند کرتے ہوئے کہا۔
    تم کسی کام سے آئے ہو؟
    ہاں ! کسی کام سے آیا ہوں۔ کچھ تصویریں ہیں میرے پاس، جو تمہیں دکھانا ضروری تھیں۔ اس نے کوٹ اٹھا کر اس کی اندرونی جیب سے ایک لفافہ نکال کر مجھے تھمایا۔
    میں کچھ دیر اس کے بڑھے ہوئے ہاتھ اور اس کی آنکھوں میں دیکھتا رہا۔
    پکڑ لو، فکر مت کرو اس میں بم نہیں ہے۔ وہ بے اختیار ہنسا۔
    میں نے اسے زندگی میں پہلی دفعہ ہنستے ہوئے دیکھا تھا۔ میں نے لفافہ تھام کر اس میں موجود تصویریں باہر نکال کر دیکھیں.
    پہلی تصویر دیکھتے ہی میں اس طرح اچھلا جیسے بچھو نے کاٹ لیا ہو۔ تصویریں میرے ہاتھ سے پھسل کر بیڈ پر پھیل گئیں جنہیں میں پھٹی پھٹی
    نظروں سے دیکھ رہا تھا
    (جاری ہے)

    کہانی کی پہلی قسط یہاں ملاحظہ کریں

    کہانی کی دوسری قسط یہاں ملاحظہ کریں

    کہانی کی چوتھی اور آخری قسط یہاں ملاحظہ کریں

  • گلابی داغ – احسان کوہاٹی

    گلابی داغ – احسان کوہاٹی

    ’’یار یہ کم بخت شرٹ کہاں چلی گئی۔ کہا بھی تھا کہ پریس کر کے رکھ دینا، پریس نہ کرتیں، کم از کم نکال کر تو رکھ دیتیں۔‘‘ سیلانی الماری میں رکھے کپڑوں کو ادھر ادھر کرتے ہوئے بڑبڑائے جا رہا تھا، کپڑوں سے بھری الماری میں کوئی چیز تلاش کرنا گویا بھوسے کے ڈھیر میں سوئی تلاش کرنا تھی، اسے وہ شرٹ نہ ملنی تھی نہ ملی لیکن اس بہانے اسے اور بہت سے کپڑے مل گئے، جو اک عرصہ سے نظر التفات کے منتظرتھے، ان ہی میں کاٹن کا ایک سفید جوڑا بھی دکھائی دے گیال۔ سیلانی بڑبڑانے لگا بول بول کے ہونٹ لٹک گئے کہ جمعے کے روز سفید قمیض شلوار پریس کر دیا کریں، لیکن کم بخت جینز شرٹ سے جان ہی نہیں چھوٹتی، یہ سامنے سفید سوٹ پڑا ہوا ہے۔ سیلانی نے منہ بناتے ہوئے کپڑے استری کرنے کے لیے نکالے کہ اس پر پانی چھڑک کر پریس کرنا شروع کرے لیکن اس کی نوبت ہی نہیں آئی، سفید قمیض پر بڑے بڑے گلابی داغ کہہ رہے تھے کہ اسے اسی طرح تہہ کرکے سلیقے سے الماری میں رکھ دیا جائے۔

    سیلانی نے مسہری پر پڑی قمیض اٹھائی اور ان داغوں کا بغور جائزہ لینے لگا، یہ داغ جانے والے نہ تھے، پکے رنگ کے پکے داغ تھے لیکن یہ لگے کب؟ سیلانی ماتھے پر بل ڈالے سوچ میں پڑ گیا لیکن کچھ یاد ہی نہیں آرہا تھا، پھر دفعتا اسے یاد آگیا کہ یہ داغ اسے سات برس پیچھے کراچی کے پوش کلفٹن میں خوشبوؤں اور رنگوں سے سجی ایک تقریب میں لے گئے، اقلیتی برادری کی اس تقریب میں وہ اس وقت ’’اقلیت‘‘ میں تھا، یہ ہندو برادری کی ہولی کی تقریب تھی۔ ظاہر ہے کہ اس تقریب میں اسے اقلیت ہی میں ہونا تھا بلکہ وہ ہی نہیں وہاں موجود اس کے دیگر صحافی دوست بھی اس وقت اقلیت میں تھے، وہ یہاں ہولی کی تقریب کی کوریج کے لیے مدعو تھے۔

    رنگوں بھری مہکتی یاد کیا آئی، اس کے لبوں پر بےساختہ مسکان آگئی اور وہ مسکراتے ہوئے یادوں کی اسکرین پر کراچی کے متمول علاقے کلفٹن کے ایک لان میں ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کے تمتماتے ہوئے چہرے دیکھنے لگا، شرارتی بچے لان میں دوڑتے بھاگتے پھر رہے تھے، ٹین ایجر، منچلے، خوب سج سنور کر فلمی ہیرو بنے دکھائی دے رہے تھے، خواتین مہنگی ساڑھیوں اور بیش قیمت لباس پہنے ایک دوسرے سے سبقت لیے جا رہی تھیں، زلفیں کھولے لڑکیاں بالیاں بھی محفل کی رونق اور منچلوں کے دلوں کی دھڑکن بڑھا رہی تھیں، یہ رنگوں امنگوں اور خوشیوں کی تقریب تھی اور پھر شریک بھی شہر کے متمول لوگ تھے، رنگ تو جمنا ہی تھا اور رنگ ہی جم رہا تھا، اسٹیج پر سے رسمی تقاریر ہو رہی تھیں، جن پر کم ہی لوگ کان دھر رہے تھے، زیادہ تر لوگ اسٹیج کے نیچے لان میں ایک دوسرے سے گلے مل مل کر ہولی کی مبارک بادیں دے رہے تھے۔

    سیلانی کے لیے یہ کسی بھی ہولی کی تقریب میں شرکت کا پہلا موقع تھا۔ وہ بچے کی طرح دلچسپی سے یہ سب دیکھ رہا تھا اور اس وقت کا منتظر تھا جب تقریب میں رنگ اڑائے جانے تھے۔ سیلانی گلابی داغوں والی قمیض ہاتھ میں لیے پرانی یادوں سے محظوظ ہو رہا تھا، اسے یاد آیا کہ تقاریر کے طویل سلسلے کے بعد جب مہمانوں کو کھانا کھانے کی دعوت دی گئی تو وہ چمچ اٹھائے بریانی میں گوشت ڈھونڈتا ہی رہ گیا، وہاں میز پر سبزیاں دال بھاجی، کچوریاں اور طرح طرح کے اچار چٹنیاں تو تھیں، مگر گوشت نام کی کوئی چیز دکھائی نہ پڑ رہی تھی کہ ہندو گوشت سے دور ہی رہتے ہیں اور سیلانی کو سبزیاں دالیں ہمیشہ اتنی مرغوب رہی ہیں جتنی کہ رہنی چاہییں۔ مجبوری میں وہ جتنا کھا سکتا تھا، اس نے کھایا البتہ میٹھا خوب تھا، کھانا کھایا ہی جا رہا تھا کہ فضا میں رنگ بکھرنے لگے، نوجوان لڑکے لڑکیاں ہولی ہے کہہ کہہ کر بلاتفریق سب کو رنگوں میں رنگ رہے تھے، سیلانی نے نیا جوڑا پہناہوا تھا اور پہلی بار پہنا تھا، وہ ابھی اس ہولی سے بچنے کی تدبیر کر رہا تھا کہ پیچھے سے دو ہاتھ آئے اور اس کا چہرہ رنگ گئے، سیلانی نے پلٹ کر دیکھا تو ہندو نوجوانوں کی ایک ٹولی صحافیوں کو رنگنے میں مصروف دکھائی دی، سیلانی کی ان سے نظریں ملیں تو زوردار نعرہ لگا ہولی ہے اور سیلانی کندھے اچکا کر رہ گیا۔

    سیلانی کو آج بھی اچھی طرح یاد ہے کہ نجانے وہ کس نسل کا رنگ تھا، دفتر کیا گھر پہنچ کر بھی وہ صابن رگڑ رگڑ کر جلد کے مسام بھر بیٹھا لیکن رنگ نے اترنے کا نام ہی نہیں لیا، کپڑوں کا تو پوچھیے ہی مت، ہولی کی رنگ بھری یادیں اس کے ساتھ زیادہ دیر چھپن چھپائی نہیں کھیل سکیں، سیل فون کی گھنٹی کسی پیغام کی آمد کی اطلاع دینے لگی، سیلانی نے ہاتھ بڑھا کر سیل فون قریب کیا، ایک دوست نے ’’واٹس اپ‘‘ پر دو وڈیو کلپ ارسال کیے تھے، سیلانی نے ڈاؤن لوڈ کیے اور پھر ہولی کے رنگوں کی جگہ خون کے رنگ نے لے لی۔یہ دو بھارتی مسلمان بہنوں کے پیغام تھے، واٹس اپ پر سلیقے سے دوپٹہ اوڑھے ہوئے پہلی بہن بڑھی جذباتی انداز میں کہہ رہی تھی
    ’’بی جی پی والو تم سے اچھی تو کانگریس تھی، کم سے کم ہمیں اس طرح انکاؤنٹر کر کر کے مارتی تو نہ تھی۔۔ مسلمانوں سب ایک ہوجاؤ اور دکھاؤ کہ پچیس کروڑ ہو۔۔ مسلمانو! نکلو، سڑکوں پر اپنے حق کے لیے ایک ہو جاؤ۔ کہتے ہو کہ مڈبھیڑ ہوگئی مڈبھیڑ ہوگئی، کیسے ہوئی یہ مڈبھیڑ کہ پولیس کو ایک کھرونچ تک نہیں آئی۔‘‘
    دوسرا پیغام کار ڈرائیو کرتی ہوئی کسی بہن کا تھا، وہ کسی کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھنے والی معلوم ہوتی تھیں، وہ بہن کہنے لگی، کل کچھ نیوز دیکھے میں نے، دو تین سے نیوز دیکھ رہی ہوں میں، شریعت کے نام پر بہت سی بہنیں باہر نکلیں، مسلمان بہنیں جنہیں میں سلیوٹ کرتی ہوں، اور دلت پنجابی سکھ عیسائی بہنوں سے درخواست کروں گی کہ وہ اپنی حفاظت کے لیے باہر آئیں، اپنے اپنے گھروں سے نکلیں، ہمیں اپنی موجودگی کااحساس دلانا ہوگا، بتانا ہوگا کہ ہم جانور اور چینوٹیاں نہیں ہیں، انسان ہیں۔ دوسری بات میں پرائم منسٹر جی ذرا کان کھول کر سن لیجیے کہ اس بھارت کو آپ کی نہیں آپ کو بھارت والوں کی ضرورت ہے۔۔ بھارت کے پردھان منتری بننے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ صرف ہندو قوم کے پردھان منتری ہیں‘‘۔

    یہ واٹس اپ پیغامات مہاراشٹر میں جیل سے نکال کر جعلی مقابلوں میں مارے جانے والے مسلمان نوجوانوں کے واقعے کے بعد کے تھے جس نے بھارت میں مسلمانوں اور اقلیتوں میں خوف سراسیمگی پھیلا دی ہے، سیلانی سوچنے لگا کہ ایک پاکستان ہے، دہشت گردی کا بالواسطہ اور بلاواسطہ شکار ملک، جس میں ہندو شہریوں کی تعداد بمشکل دو یا ڈھائی فیصد ہے اور یہ شہری اس مذہب سے تعلق رکھتے ہیں جن کے بھائی بندوں نے بھارت میں مسلمانوں کا جینا دوبھر کر رکھا ہے، جہاں مسلمان گھر کی چہار دیوار ی میں نہیں خوف کے حصار میں جی رہے ہیں کہ جانے کب کون سی ریاست ’’مودی کی گجرات‘‘ بن جائے جانے، کب کون سا شہر احمد آباد بن جائے اور انہیں گھروں کے دروازے بند کر کے عورتوں بچوں سمیت زندہ جلا دیا جائے۔۔ لیکن اس سب کے باوجود ’’انتہا پسند پاکستان‘‘ میں آج تک کبھی کوئی مندر نہیں جلا، آج تک کسی مندر میں بم دھماکہ نہیں ہوا، آج تک کسی ہندو قیدی کو جیل سے نکال کر گولیاں نہیں ماری گئیں، کسی مندر میں گائے کا سرکاٹ کر نہیں پھینکا گیا۔

    یہاں ہندو برادری کم تعداد میں اقلیت میں ہونے کے باوجود اپنی زندگی اپنی مرضی سے جی رہی ہے، سندھ میں تو ہندو رہنما حکومت میں شامل ہیں، ان کے پاس وزارتیں ہیں، وہ جھنڈے والی گاڑیوں میں پولیس اسکواڈ کے ساتھ گھومتے پھرتے ہیں، وہ یہاں جائیدادیں زمینیں رکھتے ہیں، یہاں ان کے ہزار ہزار برس پرانے مندر ہیں، تھرپارکر، اسلام کوٹ، مٹھی میں ہندو برادری کی اکثریت ہے، یہاں السلام علیکم کہنے والے کم اور ہاتھ جوڑ کر پرنام کرنے والے زیادہ ملیں گے، اسلام کوٹ میں مساجد سے زیادہ مندر ہیں لیکن آج تک کبھی کسی مندر کے ساتھ بابری مسجد والا سلوک نہیں کیا گیا، اقلیتوں کی دلجوئی میں تو ہمارے لیڈر ان کے مندر میں جا کر پوجا پاٹ تک کر آتے ہیں، اور دوسری طرف بھارت ہے جو اپنے ملک کی سب سے بڑی ااقلیت کے لیے بھیانک خواب بن چکا ہے، اب تو مسلمان نوجوانوں کو جیلوں سے نکال کر مار دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ پولیس مقابلے میں مارے گئے ۔۔ بھارتیوں کو سب سے زیادہ ڈراؤنے خواب جماعۃ الدعوۃ کے حافظ محمد سعید کے آتے ہیں، بھارتی میڈیا انہیں ہندوؤں کا خونی دشمن بنا کر پیش کرتا ہے لیکن اسی حافظ محمد سعید کی فلاح انسانیت فاؤنڈیشن تھرپارکر کے ہندؤں کے لئے پانی کے کنویں کھدوا رہی ہے ،اسپتال بنوا رہی ہے ،قحط میں راشن دے رہی ہے ۔

    پاکستان میں عیسائی برادری ہندؤں سے زیادہ بڑی ہے، ان کے گرجا گھر بھی زیادہ ہیں، چند ایک واقعات کو چھوڑ کر عیسائیوں کے خلاف کبھی کوئی واقعہ نہیں ہوا، یہ ہمارے معاشرے میں ہمارے ساتھ گھل مل کر رہتے ہیں، کھاتے پیتے ہیں اٹھتے بیٹھتے ہیں، دکھ سکھ میں شریک ہوتے ہیں، سیلانی کو اپنے ہم جماعت کامران ڈیوڈ، مصدق طاہر چوہدری ابھی تک یاد ہیں،گھنی مونچھوں والا مصدق طاہر آج کراچی کے ایک ہوٹل میں منیجر ہے، اور اس سے آج بھی رابطہ اور ویسا ہی تعلق ہے جیسا برسوں پہلے زمانہ طالب علمی میں تھا،وہ کراٹے کے شوقین ندیم گل کو نہیں بھول سکتاجس کے ساتھ صبح سویرے جاگنگ کرتا تھاگندمی رنگ والا ندیم ایک فوجی کا بیٹا اور عیسائی خاندان سے ہی تعلق رکھنے والا نوجوان تھا۔

    بات کڑوی لیکن سچی ہے کہ پاکستان میں اقلیتیں اکثریت سے زیادہ محفوظ ہیں، ہمارے اقلیتی ساتھی اکثر اقلیت ہونے کا ٹھیک ٹھاک فائدہ بھی اٹھا لیتے ہیں، کیا کوئی یقین کرے گا، اگر سیلانی یہ کہے کہ تھرپاکر میں جماعۃ الدعوہ کے اسپتال کے لیے خریدی گئی زمین کے ایک حصے پر با اثر ہندو سیاسی رہنما قبضہ کر چکا ہے، اس قطعہ اراضی کے سامنے ہی اس کی شراب کی فیکٹری ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ یہاں ایک مذہبی مسلمان تنظیم اسپتال بنائے اور جماعۃ الدعوۃ اس لیے خاموش ہے کہ اس سے بھائی چارے کی فضا خراب نہ ہو۔۔ماری پور کراچی میں ایک اقلیت کے کچھ دوست سرکاری اسکول پر قبضہ کرکے دو منزلہ نجی اسکول بنا بیٹھے ہیں اور اکثریت پریشان ہے کہ ہم کس سے بات کریں ۔۔ جتنی آزادی پاکستان میں اقلیتوں کو ہے، اس سے نصف بھی بھارتی مسلمانوں کو مل جائے تو وہ بھارت کے لیے بی جی پی سے آگے کھڑے ہوں لیکن ایسا ہو نہیں سکتا، بی جی پی تنگ نظر انتہا پسندوں کی وہ جماعت ہے جو بھارت میں صرف مندروں کی گھنٹیاں بجتے سننا چاہتی ہے، اسے گرجوں کے گھنٹوں کی آوازیں چبھتی ہیں، مسجدوں سے اذانوں کی آوازیں بےچین کرتی ہیں، سکھوں کے گوردوارے بےسکون کرتے ہیں اور دلت زہر لگتے ہیں ۔۔ یہی زہر بھارتی سرکار کی زبان سے بھی ٹپک رہا ہے اور یہی زہر کشمیریوں کا مستقبل ڈس رہا ہے، برصغیر کے امن میں سرایت کر رہا ہے، پاکستان کی اقلیتوں کو حقیقت میں پاکستان کا شکرگزار ہونا چاہیے۔ سیلانی نے یہ سوچتے ہوئے گلابی رنگ سے داغدار قمیض اٹھائی اور اسے ایک طرف اچھال کر پرسوچ نظروں سے دیکھتا رہا دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔

  • اقبال کا مرد مؤمن – حیا حریم

    اقبال کا مرد مؤمن – حیا حریم

    ابتدائی تعلیمی درس گاہ ہوتی یا کسی محفل کی اختتامیہ تقریب ۔۔ وہ اسکول کا اسمبلی ہال ہوتا یا ۔۔۔ یا کھیل کا گراؤنڈ ۔۔۔ ہر جگہ سماعتوں سے اقبال کے مصرعے ٹکرایا کرتے تھے۔
    اسکول میں استاد کہا کرتے تھے کہ تم اقبال کے نوجوان ہو ۔۔ تمہاری منزل آسمانوں میں ہے۔
    کبھی ہیڈ ماسٹر صاحب اسکول کے استاد کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا کرتے تھے کہ آپ تو مرد مؤمن ہیں۔
    گھر سے مکتب بھیجتے ہوئے ابا کہا کرتے تھے کہ تم شاہین ہو بیٹا!
    لاشعوری سے شعور تک اقبال کے تصور کے مطابق جب بھی سوچا ۔۔ جب بھی دیکھا حوصلہ ملتا گیا ۔۔ اقبال نے کہا تھا کہ یہ ستاروں پر کمندیں ڈالنے والے ہیں ۔۔ انہیں شمشیر کی بھی ضرورت نہیں ۔۔ ان کی تو خودی صورت فولاد ہے ۔۔
    اقبال کی نظر نے انہیں قبیلے کی آنکھوں کا تارا بھی کہا اور ان کے شباب کو بے داغ بھی کہا ۔۔
    اقبال کے تصور نے ہمیں ان کی ہزار کوتاہیوں کے بعد بھی یہ کہہ کر حوصلہ دیے رکھا کہ
    ’’نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویران سے۔‘‘
    لیکن کچھ دن قبل اقبال کے نام پر قائم کردہ معروف مکتب میں اس کے شاہینوں نے امتحانی پرچے میں بے باکی سے شرم کو بالائے طاق رکھ کر سوال کرکے یہ ثابت کردیا کہ اقبال کی ان سے وابستہ امیدیں خیال خام ہیں کہ
    وہ شاہیں نہیں ۔۔۔ کسے مجرے کے کبوتر ہیں۔
    ان کا ذوق کتابیں نہیں جنس مخالف ہے۔
    یہ ستاروں پر کمندیں ڈالنے کے بجائے صنف نازک کی چادریں کھینچنے والے ہیں۔
    اقبال نے کہا تھا ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے۔
    لیکن نہیں۔ یہ مٹی زرخیز نھیں کیچڑ بن چکی ہے۔
    یہ شاہیں بھی مرچکا اور قبیلے کی آنکھوں کے تاروں نے قوم کا سر جھکا دیا۔
    خبردار! اب جو کسی نے انہیں اقبال کا مرد مؤمن کہا۔