Blog

  • ہارون الرشید  –  ایک محبّ وطن صحافی، ایک مینارہِ نور   –  ہمایوں مجاہد تارڑ

    ہارون الرشید – ایک محبّ وطن صحافی، ایک مینارہِ نور – ہمایوں مجاہد تارڑ

    humayoon
    ہارون الرشید صاحب کے تفصیلی انٹرویو کا ”دلیل” ویب سائٹ پرجلوہ گر ہونا باعثِ صد انبساط ہے۔ یہ گویا عامرہاشم خاکوانی صاحب کااپنے سینیئرز کے حق میں ایک طرح کا خراج تحسین ٹھہرا جو پیشہ ورانہ دیانت کا مظہر ہے۔ ہارون الرشید صاحب اپنی علمیّت، تجربہ و مشاہدہ اور زبان و بیان پر غیر معمولی قدرت کی بنا پر صحافتی برادری کے سرخیل اور بلاشبہ دنیائے صحافت کی شان ہیں۔ آپ کا شعری ذوق بھی نہایت اعلیٰ ہے اور شعر فہمی درجہ کمال کو پہنچی ہوئی۔ سحر آگیں نثر کو بہ تسلسل نبھائے چلے جانے والے صاحب اسلوب قلم کار ہیں، جنہیں اللہ نے بے پناہ ریڈرشپ عطا کررکھی ہے۔ آپ کی تحاریر کا نمایاں ترین پہلو اُن میں حبّ اقبالؒ، حبّ اسلام، حبِّ جناح اور حبّ وطن کا چھلک چھلک پڑنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی دوستی اور دشمنی با لکل واضح ہوتی ہے۔
    کسی نے کہا: ”ہارون صاحب ہر دورمیں ایک ممدوح بھی ساتھ رکھتے ہیں۔ جیسےکبھی اختر عبدالرحمن، کبھی حمیدگل اور کبھی جنرل کیانی۔ فوجی جرنیلوں کی نسبت عمران خان سےوابستہ توقعات شاید پوری نہیں ہوپائیں -کہ حضرت پی ٹی آئی کے کنگ میکر بننا چاہتے تھے۔“

    میری رائے میں یہ انداز نظر کی بات ہے۔ زندگی یوں بھی انداز نظر ہی تو ہے۔ شاید اس نگری میں کچھ بھی ‘قطعاً غلط یا ”قطعاً“ صحیح نہیں پایا جاتا۔ نیّات اور مقدارِ خلوص ہی پیمانہ ہے جس کا حتمی علم صرف خالقِ حیات کے پاس محفوظ ہے جسے یوم الجزا کے موقع پر ہی ایکسپوژ کیا جائے گا۔ آپ فقط اسی نظر سے دیکھنے پر مصر نہ ہوں تو ایک اانداز نظر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہارون صاحب کی اصل نسبت یا نسبتیں چونکہ اسلام، پاکستان، جناح ؒاور اقبالؒ ہیں، اب انہیں ان کے اپنے فہم کے مطابق ان نسبتوں کی خوشبو جہاں میسّر آئے گی، ان کے تحفظ کا زیادہ تر احساس جس ہستی میں دِکھے گا، اس کی پیروی، اس کی ہم نشینی ان کا واحد اطمینان بن جائے گا۔ یہی ہوتا رہا۔

    آپ کو تسلیم کرنا ہو گا کہ مجھ سمیت اس دھرتی پر بے شمار لوگ ہیں جوروس افغان جنگ میں جنرل ضیاء اور جنرل اختر عبد الرحمن کے کردار و خلوص والے بیانیے پر کامل اعتماد رکھتے ہیں (جنرل ضیاء مرحوم کے دور میں در آنے والی بعض خرابیوں اور ان کے بیشتر دیگر فیصلوں سے قطعِ نظر جن کے ہم بھی اتنے ہی بڑے نقاد ہیں)۔ یہ ہمارا اندازِ نظر ہے۔ امریکی ڈالرز سمیٹنے والا بیانیہ کسی کی نظر میں وقیع ہے تو ہو۔ تو بات انداز نظر یا زاویہِ نگاہ کی ہے۔ جیسے بھٹّو مرحوم بعضوں کی نظر میں فخر ایشیا ہیں توبعض دوسروں کی نظر میں دو چار بڑے کارناموں سے ہٹ کر جنرل ضیاء سے بھی بڑے ڈکٹیٹر، خود پسند، اور لا ابالی انسان وغیرہ (راقم الحروف کی نظر میں بھٹو مرحوم اس اعتبار سے لائقِ احترام ہیں کہ انہوں نے ہمیں تہتّر کا آئین دیا۔ ایٹمی ری ایکٹر کی بنیاد رکھی۔ عوام الناس میں سیاسی شعور پھونکا۔ ہزاروں پاکستانیوں کے لیے بیرون ملک روزگار کمانے کی سبیل کی جس سے بے شمار گھرانوں کی معاشی حالت میں انقلابی تبدیلی رونما ہوئی۔ اور یہ حقیقت بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ بھٹّو مرحوم سے کچھ فاش غلطیاں بھی سرزد ہوئیں، شاید جن کی پاداش میں انہیں خدا کی طرف سے گرفت نے آن لیا۔)

    موضوع کی طرف پلٹتے ہیں۔بات چلی تھی زاویہ نگاہ سے۔ تو یہ سب اندازِ نظر کی بات ہے۔ اگر آپ کسی کے خلوص کے قائل نہیں تو سب سیاہ دِکھے گا۔ قائل ہیں تو بادی النظر میں کچھ برا نظر آنے والا بھی اصلاً سفید اور اجلا ہی دکھائی دے گا۔ یوں نا چیز کی رائے میں عمران خان کے حوالے سے ہارون صاحب کے رومانس کا سرچشمہ بھی اصل میں پاکستان سے بے پناہ محبت ہی تھا- پاکستان جہاں وہ تبدیلیِ حالات کے دیرینہ خواب کی تعبیراپنی آنکھوں واقع ہوتا دیکھنا چاہتے تھے اور چاہتے ہیں، اور جہاں پے در پے ناکردہ کار حکمرانوں اور سیاستدانوں کو دیکھ دیکھ وہ بری طرح اکتا چکے تھے۔ ان میں خلوص و وفا کی کوئی چنگاری نہ پاکر وہ تحریکِ انصاف کی صورت عمران خان ایسے سٹار کو اس میدان میں لے کر اترے، اور ان کے بقول پھر اس تحریک کی اپنے بچوں کی طرح پرورش کی۔ اسے ملک گیر شہرت دلانے، اور خان پر ان کے بطورِ سیاستدان اہالیانِ وطن کے اعتماد کو قائم کرنے میں دامے، درمے، سخنے بے پناہ معاونت مہیّا کی۔ ایک زمین استوار کی۔ تحریر و تقریر سے اس تحریک کے دفاع میں سینہ سپر رہے۔

    ہارون صاحب چاہتے تو عرفان صدیقی و دیگران کی مانند ہدیہ و مراعات کے عوض کسی بھی ”بڑے“ سے وابستہ رہ کر چین کی بنسری بجاتے۔ آخر تکلیف کیا تھی؟ کتنا آسان آپشن تھا! لیکن وہی سر پھرا پن۔ خواب دیکھنے اور مثالیے پالنے کی ”خوئے بد“۔ وہی دیوانگی و وارفتگی جو اللہ کی طرف سے تفویض کی جاتی ہے— محض چند افراد کو تاکہ جناحؒ ایسے خلوص و وفا کے نمایندگان ہر مرحلہِ تاریخ میں خاک نشینوں کے بیچ بسیرا کیے رہیں، اور انہیں ان کی اصل سے جوڑے رکھیں۔ خان صاحب سے وابستگی بھرے اس تمام عرصہ و مدّت میں وہ خان کو تبدیلی کا استعارہ بنائے رہے۔ یہ رومانس آگے چل کر ٹوٹ گیا۔ یہ رومانس اگر ٹوٹا بھی تو اصولی بنیاد پر کہ عمران خان بہرحال 30 اکتوبر کے جلسہ کے بعد- کہ جب حسبِ تمنّا ایک سیلابی قسم کا پبلک رسپانس آگیا تھا- خاصے بدل گئے۔ پلٹ کر دیکھنا بھول گئے کہ وہ خواب و خیال جنہیں ابتداً لیکر چلے تھے، کیا ہوئے؟

    خان بعض ایسے مشیروں میں گھر گئے کہ جن کے زیر سایہ تحریک انصاف کا قافلہ ِ عظیم مزید منظم ہو نے کی بجائے انتشار کا شکار رہ کر اپنی طاقت کھو بیٹھا، یا اس سے مطلوبہ نتائج اخذ کرنے کی امید موہوم ہوتی چلی گئی۔ یہی وہ منظر تھا جو مستقلاً تحریک انصاف کے آسمان پر چھا گیا، اور جسے دیکھ دیکھ ہارون صاحب بالآخر عمران خان اور پی ٹی آئی دونوں سے بیزار ہوگئے۔تنقید کرتے ہیں، لیکن اب بھی گاہے اسی کے حق میں بولتے ہیں۔ یوٹوپیا اور رومانس کا طلسم جب ٹوٹتا ہے تو زخم تو لگتا ہے۔ذرا ساعت بھر کے لیے تصوّر کریں کیا کرتے آپ اگر ان کی جگہ ہوتے؟

    بوجوہ راقم الحروف یہ کہنا چاہے گا کہ یہ بھی تو ہارون صاحب کا ایک انداز نظر ہی ہے، جو غلط بھی ہوسکتا ہے۔ ممکن ہے ہارون الرشید صاحب سے قدرت نے خان اور تحریک کے حق میں جتنا کام لینا تھا، سو لے لیا۔ اب اگلی منزلوں کی مسافتیں طے کرانے کو آسمانوں میں یہی مقسوم ٹھہرا ہو (بشرطیکہ خان صاحب اور ان کے رفقائے کار آسمان والے سے باطنی طور پر جڑے ہوئے ہیں)۔ دعا ہے کہ خان صاحب اپنے حسن نیت کو انہی رفیقان کار کی ہمراہی میں نبھا جائیں اور اہلِ وطن کے حق میں تبدیلی کے خواب کی تعبیر کومجسّم کر دکھائیں۔

  • بات ساری ذوق کی ہے  –  عامر ہزاروی

    بات ساری ذوق کی ہے – عامر ہزاروی

    aamir hazarwi
    دنیا میں اللہ تعالیٰ نے دو طرح کے لوگ پیدا کیے؛ ایک وہ جو باذوق ہیں، دوسرے وہ جو بدذوق ہیں…
    باذوق لوگ ہمیشہ خوبصورت اور اچھی چیز سے محبت کریں گے۔ ان کی خواہش ہوگی خوبصورت چیزوں کو دیکھنے کی…

    دنیا میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں، جنہوں نے پہاڑوں سے شہروں کا رخ کیا۔ کوٹھڑیاں چهوڑ کےکوٹهیاں بنائیں.. اور ان میں رہائش اختیار کی… ایسا نہیں کہ بندہ جهونپڑی میں نہیں رہ سکتا… رہ سکتا ہے، لیکن حضرت انسان نے خوبصورتی کو ترجیح دی…

    انسان پیدل بهی چل سکتا ہے یا گدها گاڑی پہ بهی سواری کرسکتا ہے لیکن اس کا ذوق اس کو اعلیٰ چیز کی طرف ابهارتا ہے۔ یہ خوبصورت سے خوبصورت گاڑی لیتا ہے…

    یہ خوشبو پہ ہی گزارہ کرسکتا ہے لیکن یہ چمن کی طرف جاتا ہے اور اعلیٰ سے اعلیٰ پهول کی خوشبو سونگهتا ہے…

    انسان اور عمارتیں بهی دیکهتا ہے لیکن تاج محل دیکھ کے کہتا ہے دنیا میں دو طرح کے انسان پائے جاتے ہیں؛ ایک وہ جنہوں نے تاج محل دیکها، دوسرے وہ جنہوں نے نہیں دیکهتا ..یہ جملہ انسانی ذوق کا اعلیٰ معیار ہے…

    انسان پنکهے کی ہوا پہ بهی گزارہ کرسکتا ہے لیکن یہ صبح سویرے اور شام ڈهلتے ٹہلتے ہوئے قدرت کی ہوا کا لطف لیتا ہے…

    یہ معمولی کپڑا بهی پہن سکتا ہے لیکن یہ اعلیٰ کپڑے کو ترجیح دیتا ہے۔ یہ فوارے کے نیچے بهی نہا سکتا ہے لیکن یہ بہتی ندیوں، جهیلوں اور آبشاروں کی طرف جاتا ہے۔ یہ شادی کسی بدصورت عورت سے بهی کرسکتا ہے لیکن اس کی ترجیح خوبصورتی ہوتی ہے ..

    یہ ایسا صرف اسی لیے کرتا ہے کہ یہ باذوق ہے…

    اور باذوق لوگ اچهی چیزیں پسند کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی مثال شہد کی مکهی جیسی ہے جو پهولوں پہ بیٹهتی ہے …

    ایک دوسرے بهی ہیں جو پیسہ ہونے کے باوجود بدذوق ہیں…

    یہ جہاں ہیں وہیں رہیں گے۔ یہ گندے کپڑے بهی پہنیں گے۔ یہ پهول سونگهیں گے تو انہیں زکام لگ جائے گا۔ انہیں شہر لے چلو ان کا دم گهٹ جائے گا۔ ان کو ہوائی جہاز کا سفر کرواؤ ان کا کلیجہ منہ کو آنے لگے گا۔ انہیں باد نسیم کے جهونکے… پهولوں کی خوشبو کائنات کی رنگینیاں قدرت کے شہکار نظارے اچهے نہیں لگیں گے… یہ ساری وجہ ان کے ذوق کی ہے….

    اسی ذوق کو بدذوقی کو سامنے رکهتے ہوئے آئیے تحریروں کی طرف کچھ لوگ اچهی تحریریں پسند کرتے ہیں۔ وہ مخالف کے جملوں اور قلم کی کاٹ کو داد دیے بغیر نہ رہ سکیں گے۔ یہ سب اس لیے ہے کہ ان کے اندر کا ذوق انہیں اس بات پہ مجبور کرتا ہے …

    اور کچھ لوگ بدذوق ہوتے ہیں، وہ گندی جگہ پہ خوش ہوتے ہیں۔ وہ گالم گلوچ پہ خوش ہوتے ہیں۔ وہ کسی کی دستار کے اترنے پہ تالیاں بجائیں گے۔ ایسے لوگوں سے گلہ فضول ہے۔ یہ گند پہ بیٹهنے والی مکهیاں ہیں۔ اب قدرت نے انہیں بدذوق رکها ہے تو گلہ کیسا۔۔۔

  • دلیل صبح روشن  –  محمد حسان

    دلیل صبح روشن – محمد حسان

    hassan

    سوشل میڈیا کے آسمان پر ظلمت کے سائے منڈلا رہے تھے۔۔۔ الحاد، لادینیت، دین بیزاری کی لہریں تھیں۔ سطحیت، طعن و تشنیع، دشنام طرازی، بہتان، جھوٹ، مکر، فریب، دجل عام تھا۔ ایسے میں دور کہیں کوئی متانت، سنجیدگی اور شائستگی کا ستارہ نمودار ہوتا تو تھوڑا ٹمٹماتا اور پھر کسی زور آور لہر کی نذر ہوجاتا۔۔۔ فیس بکی دانشور دور دور سے ایسی کوڑیاں لاتے، زمین آسمان کے قلابے ملاتے، جنوں کو خرد اور خرد کو جنوں پکارتے کہ سچائی کہیں گم ہوجاتی، ایک دوسرے پر فتوں کی بارش ایسی ہوتی کہ حق گمنام ہوجاتا، الزمات ایسے لگتے کہ تہذیب منہ چھپا لیتی ۔۔۔

    ایسے میں سوشل میڈیا کے افق پر ”دلیل“” نمودار ہوئی۔۔۔ سورج، چاند، ستارہ بن کر۔۔۔ جس کی کرنیں پڑھنے والوں کو تہذیب، امن اور شائستگی کا خوگر بنا نے لگیں۔۔۔ جس کی شعاعیں لبرل ازم اور سیکولر ازم کے فلسفے کو مسخر کرنے لگیں۔۔۔ اس لیے کہ اس نے خاک مدینہ ونجف کا سرمہ لگایا اور اسے دانش فرنگ کا جلوہ خیرہ نہ کرسکا۔ یہ مغربی مرعوبیت سے آزاد اور اسلامی نظام کو جدید دنیا میں نافذ العمل بنانے کی دلیل ہے۔

    اس کی فکری آبیاری ابن تیمیہ، شاہ ولی اللہ، اقبال، سید مودودی اور سید قطب نے کی ہے۔ اس کے دامن میں عامر خاکوانی کی خود سپردگی، ڈاکٹر عاصم اللہ بخش کی بصیرت اور کئی گمنام مجاہدوں کی محنت شاقہ سموئی ہے۔ جناب رعایت فاروقی کے ”نظریاتی سفر“ نے جس کو اساس فراہم کی۔۔۔ زبیر منصوری، فیض اللہ خان، رضوان رضی جہاں چاندنی بکھیرتے ہوں، کاشف نصیر، مجذوب مسافر، غلام اصغر ساجد، یوسف سراج اور ان جیسے ان گنت ستاروں کی کہکشاں ہے جن کی تنک تابی ایک نیا جہاں آباد کیے ہوئے ہیں۔۔۔ علم، حلم اور معرفت کا جہان۔۔۔ امید، عزم اور تشکر کے جذبات جہاں نمو پاتے ہیں۔ اقبال پکار اٹھتے ہیں ؎

    دلیل صبح روشن ہے ستاروں کی تنک تابی
    افق سے آفتا ب ابھرا، گیا دورِ گراں خوابی

  • مولانا مودودی کی دینی فکر اور شدت پسندی کا بیانیہ  –  مولانا عمار خان ناصر

    مولانا مودودی کی دینی فکر اور شدت پسندی کا بیانیہ – مولانا عمار خان ناصر

    ammar khan nasir مولانا عمار خان ناصر ایک بڑے دینی علمی خانوادے سے تعلق رکھتےہیں، ان کے محترم دادا مولانا سرفراز خان صفدر(مرحوم) دینی حلقوں، خاص کر دیوبندی علمی روایت میں بہت احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں، ان کے والد محترم مولانا زاہد الراشدی دینی،علمی اور سیاسی حلقوں میں محترم ہیں۔ ان کے اعتدال، حلم اور توازن کے ان کے مخالف حلقےبھی معترف ہیں۔ عمار خان ناصر نے اپنےاجداد کی شاندار روایات کو آگےبڑھایا ہے۔ ان میں اپنے نامور دادا کا تحقیقی ذوق اور اپنے والد کا توازن، برداشت اور اعتدال جھلکتا ہے۔ جناب جاوید احمد غامدی کےسکول آف تھاٹ سےبھی ان کی نسبت ہے اور عمار ناصر کی فکر پر غامدی صاحب کےگہرے اثرات محسوس کئے جاسکتے ہیں۔ مولانا عمار ناصر نے اپنے اس مضمون میں بڑے اہم موضوع کو چھیڑاہے۔ اسلامی دنیا کے ساتھ ساتھ پاکستان کے دینی حلقوں میں کئی اہم مباحث جاری ہیں۔ شدت پسند تنظیموں کے ماسٹر برین اپنے نقطہ نظر کو سپورٹ کرنے والے لائحہ عمل کی وکالت کرتے اور نوجوان ذہنوں کو اپنی طرف راغب کرنے میں لگے ہیں۔ عمار ناصر نے اس تناظر میں برصغیر کے بہت اہم دینی سکالر اورجماعت اسلامی کے بانی سید مودودی کے تجویز کردہ لائحہ عمل وفکر کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔ دو حوالوں سے یہ اہم ہے، ایک تو دینی حلقوں میں جاری بحث میں سید مودودی کا استدلال نہایت طاقتور انداز میں شامل ہوا ہے، مولانا نےبڑے مدلل انداز میں نفاذ اسلام کی جدوجہد کی مختلف صورتوں کو زیربحث لاکر ثابت کیا کہ پر امن آئینی جدوجہد ہی سب سے بہتر اور درست راستہ ہے۔ اس مضمون کی دوسری افادیت یہ ہےکہ پچھلے کچھ عرصے سےہمارےہاں بعض حلقوں کی جانب سے سید مودودی کے بیانیےپر تنقید کا سلسلہ جاری تھا اور ہمارے لبرل عناصر یہ تاثر دے رہے تھے کہ مودودی بیانیہ شدت پسندی کو پروموٹ کررہا ہے۔ ایسی رائے رکھنےوالوں کو ہم دعوت دیں گے کہ وہ کسی حتمی رائے پر پہنچنے سےپہلے عمار ناصر کا مضمون ضرور پڑھیں۔ یہ مضمون اس قابل ہے کہ اس پر سنجیدہ بحث ہو اور مختلف فورمز میں اس پر بات کی جائے۔ (ادارہ دلیل)
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    مولانا مودودی کے دینی فکر میں اسلامی ریاست کا قیام، جس کووہ اپنی مخصوص اصطلاح میں ”حکومت الٰہیہ“ کا عنوان دیتے ہیں، بے حد اساسی اہمیت کا حامل ہے اور وہ اسے مسلمانوں کے ایک اجتماعی فریضے کا درجہ دیتے ہیں۔ اسلام چونکہ محض پوجا اور پرستش کا مذہب نہیں، بلکہ انسانی زندگی میں مخصوص اعتقادی واخلاقی اقدار اور متعین احکام وقوانین کی عمل داری کو بھی اپنا مقصد قرار دیتا ہے، اس لیے بیسویں صدی میں مسلم قومی ریاستوں کے ظہور نے حیات اجتماعی کے دائرے میں مسلمان معاشروں کی تشکیل نو اور بالخصوص مذہب کے کردار کو اہل دانش کے ہاں غور وفکر اور بحث ومباحثہ کا ایک زندہ موضوع بنا دیا۔ مذہب کے اجتماعی کردار کا سوال اپنے متنوع پہلووں کے ساتھ ان مفکرین کے غور وفکر اور مطالعہ وتحقیق کا موضوع بنا جو جدید تہذیبی رجحانات کے علی الرغم ریاست اور مذہب کے باہمی تعلق کو نہ صرف مضبوط دیکھنا چاہتے تھے، بلکہ ریاست کو خالص مذہبی ونظریاتی اساسات پر استوار کرنا چاہتے تھے۔ مولانا مودودی کا شمار اس طرز فکر کے حامل قائدین کی صف اول میں ہوتا ہے۔ چنانچہ تقسیم ہند سے قبل مولانا نے ”موجودہ سیاسی کشمکش“ کے زیر عنوان ماہنامہ ”ترجمان القرآن“ میں کئی قسطوں پر مشتمل ایک مفصل تجزیاتی تحریر لکھی جس میں معروضی صورت حال میں مسلم لیگ اور جمعیة علمائے ہند وغیرہ کی طرف سے مسلمانان ہند کے لیے تجویز کیے جانے والے لائحہ ہائے عمل پر زودار تنقید کی اور متحدہ قومیت اور لبرل جمہوری ریاست کے تصورات کے بالمقابل حکومت الٰہیہ یعنی اسلامی ریاست کے قیام کو مسلمانوں کے لیے واحد شرعی لائحہ عمل قرار دیا۔

    قیام پاکستان کے فوراً بعد نظری سطح پر اس حوالے سے زوردار بحث شروع ہو گئی تھی کہ نئی ریاست کو ایک سیکولر جمہوری ریاست ہونا چاہیے یا ایک اسلامی ریاست۔ اس بحث میں مولانا مودودی نے بھرپور حصہ لیا اور آخر کار عوامی سطح پر جماعت اسلامی کی محنت اور دستور ساز اسمبلی میں مولانا شبیر احمد عثمانی اور ان کے رفقا کی جدوجہد کے نتیجے میں ۱۹۵۶ءکے دستور میں قرآن وسنت کی بالادستی کی دفعات شامل کر لی گئیں۔ اس تناظر میں ڈاکٹر احمد حسین کمال اور مولانا مودودی کے مابین اس نکتے کے حوالے سے تفصیلی مراسلت ہوئی کہ کیا اس دستور کو ایک اسلامی دستور قرار دیا جا سکتا ہے، جبکہ اس کی رو سے شریعت کے قوانین کا نفاذ مجلس قانون ساز اور صدر مملکت کی منظوری کا محتاج ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اسمبلی میں مسلم وغیر مسلم اراکین دونوں کو یکساں حق رائے دہی حاصل ہے۔

    ڈاکٹر احمد حسین کمال کے اٹھائے ہوئے ان سوالات کے جواب میں مولانا نے دو تفصیلی مکتوب تحریر کیے جن میں انھوں نے نفاذ شریعت کے حوالے سے اپنی حکمت عملی کو واضح کیا۔ یہ مکاتیب ترجمان القرآن کے دسمبر ۱۹۵۶ءکے شمارے میں شائع ہوئے۔ مولانا لکھتے ہیں:

    ”آپ نے جن مسائل کی طرف توجہ دلائی ہے، ان کے متعلق ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ ہم اپنی تحریک خلا میں نہیں چلا رہے ہیں، بلکہ واقعات کی دنیا میں چلا رہے ہیں۔ …. دستور اسلامی کے بارے میں جو باتیں آپ نے لکھی ہیں، ان میں سے کوئی بھی ہم سے پوشیدہ نہیں ہے، نہ کبھی پوشیدہ تھی، لیکن یہاں ایک کھلی کھلی لادینی ریاست کا قائم ہو جانا ہمارے مقصد کے لیے اس سے بہت زیادہ نقصان دہ ہوتا جتنا اب اس نیم دینی نظام کا نقصان آپ کو نظر آ رہا ہے۔“ (۱)

    ”ہم جس ملک اور جس آبادی میں بھی ایک قائم شدہ نظام کو تبدیل کر کے دوسرا نظام قائم کرنے کی کوشش کریں گے، وہاں ایسا خلا ہم کو کبھی نہ ملے گا کہ ہم بس اطمینان سے ”براہ راست“ اپنے مقصود کی طرف بڑھتے چلے جائیں۔ لامحالہ اس ملک کی کوئی تاریخ ہوگی، اس آبادی کی مجموعی طور پر اور اس کے مختلف عناصر کی انفرادی طور پر کچھ روایات ہوں گی۔ کوئی ذہنی اور اخلاقی اور نفسیاتی فضا بھی وہاں موجود ہوگی۔ ہماری طرح کچھ دوسرے دماغ اور دست وپا بھی وہاں پائے جاتے ہوں گے جو کسی او رطرح سوچنے والے اور کسی اور راستے کی طرف اس ملک اور اس آبادی کو لے چلنے کی سعی کرنے والے ہوں گے۔ …. ان حالات میں نہ تو اس امر کا کوئی امکان ہے کہ ہم کہیں اور سے پوری تیاری کر کے آئیں اور یکایک اس نظام کو بدل ڈالیں جو ملک کے ماضی اور حال میں اپنی گہری جڑیں رکھتا ہے، نہ یہ ممکن ہے کہ اسی ماحول میں رہ کر کشمکش کیے بغیر کہیں الگ بیٹھے ہوئے اتنی تیاری کر لیں کہ میدان مقابلہ میں اترتے ہی سیدھے منزل مقصود پر پہنچ جائیں اور نہ اس بات ہی کا تصور کیا جا سکتا ہے کہ ہم اس کشمکش میں سے گزرتے ہوئے کسی طرح ”براہ راست“ اپنے مقصود تک جا پہنچیں۔ ہمیں لامحالہ واقعات کی اس دنیا میں موافق عوامل سے مدد لیتے ہوئے اور مزاحم طاقتوں سے کشمکش کرتے ہوئے بتدریج اور بروقت اٹھا دینا ہوگا۔“ (۲)

    ”واقعات کی دنیا میں ہم جس صورت حال سے دوچار ہیں، وہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں مجالس قانون ساز کے قیام کی ابتداءانگریزوں کے دور حکومت میں ہوئی۔ اس نظام کو انھوں نے اپنے نظریات کے مطابق قومی، جمہوری، لادینی ریاست کے اصولوں پر قائم کیا۔ انھی اصولوں پر سالہا سال تک اس کا مسلسل ارتقا ہوتا رہا اور انھی اصولوں پر نہ صرف پوری ریاست کا نظام تعمیر ہوا، بلکہ نظام تعلیم نے ان کو پوری طرح اپنا لیا اور بحیثیت مجموعی سارے معاشرے نے ان کے ساتھ مطابقت پیدا کر لی۔ ان واقعات کی موجودگی میں جتنے کچھ ذرائع ہمارے (یعنی دینی نظام کے حامیوں کے) پاس تھے، ان کو دیکھتے ہوئے یہ بھی کوئی آسان کام نہ تھا کہ کم از کم آئینی حیثیت سے اس عمارت کی اصل کافرانہ بنیاد (لادینیت) کو بدلوا کر اس کی جگہ وہ بنیاد رکھ دی گئی جس کی بنا پر آپ موجودہ دستور کو نیم دینی تسلیم کر رہے ہیں۔“ (۳)

    غلبہ دین کی جدوجہد میں تدریج کی حکمت عملی کی اہمیت اور اس کے بنیادی اصولوں کو واضح کرتے ہوئے مولانا لکھتے ہیں:

    ”اسلامی نظام زندگی جن لوگوں کو قائم کرنا اور چلانا ہو، انھیں آنکھیں بند کر کے حالات کا لحاظ کیے بغیر پورا کا پورا نسخہ اسلام یک بارگی استعمال نہ کر ڈالنا چاہیے، بلکہ عقل اور بینائی سے کام لے کر زمان ومکان کے حالات کو ایک مومن کی فراست اور فقیہ کی بصیرت وتدبر کے ساتھ ٹھیک ٹھیک جانچنا چاہیے۔ جن احکام اور اصولوں کے نفاذ کے لیے حالات سازگار ہوں، انھیں نافذ کرنا چاہیے اور جن کے لیے حالات سازگار نہ ہوں، ان کو موخر رکھ کر پہلے وہ تدابیر اختیار کرنی چاہییں جن سے ان کے نفاذ کے لیے فضا موافق ہو سکے۔ اسی چیز کا نام حکمت یا حکمت عملی ہے جس کی ایک نہیں، بیسیوں مثالیں شارع کے اقوال اور طرز عمل میں ملتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اقامت دین بدھووں کے کرنے کا کام نہیں ہے۔

    ثانیاً، اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ جب زمان ومکان کے حالات کی وجہ سے اسلام کے دو احکام یا اصولوں یا مقاصد کے درمیان عملاً تضاد واقع ہو جائے، یعنی دونوں پر بیک وقت عمل کرنا ممکن نہ رہے تو دیکھنا چاہیے کہ شریعت کی نگاہ میں اہم تر چیز کون سی ہے اور پھر جو اہم تر ہو اس کی خاطر شرعی نقطہ نظر سے کم تر اہمیت رکھنے والی چیز کو اس وقت تک ترک کر دینا چاہیے جب تک دونوں پر ایک ساتھ عمل کرنا ممکن نہ ہو جائے۔ ….

    ثالثاً، اس سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ جہاں قبائلیت اور برادریوں کے تعصبات یا دوسری گروہی عصبیتیں زندہ ومتحرک ہوں، وہاں ان سے براہ راست تصادم کرنا مناسب نہیں ہے بلکہ جہاں جس قبیلے یا برادری یا گروہ کا زور ہو، وہاں اسی کے نیک لوگوں کو آگے لانا چاہیے تاکہ زور آور گروہ کی طاقت اسلامی نظام کے نفاذ کی مزاحم بننے کے بجائے اس مددگار بنائی جا سکے اور بالآخر نیک لوگوں کی کارفرمائی سے وہ حالات پیدا ہو سکیں جن میں ہر مسلمان مجرد اپنی دینی واخلاقی اور ذہنی صلاحیت کی بنا پر بلا لحاظ نسل ونسب ووطن سربراہی کے مقام پر آ سکے۔ ….

    رہا اس پر کسی کا یہ اعتراض کہ اس نوع کے تصرفات کرنے کا حق صرف شارع کو پہنچتا تھا، دوسرا کوئی اس کا مجاز نہیں ہو سکتا تو میں صاف عرض کروں گا کہ یہ بات اگر مان لی جائے تو فقہ اسلامی کی جڑ ہی کٹ جاتی ہے کیونکہ اس کا تو سارا نشو وارتقاءہی اس بنیاد پر ہوا ہے کہ شارع کے زمانے میں جو حوادث اور معاملات پیش آئے تھے، ان میں شارع کے احکام اور تصرفات اور طرز عمل کا گہرا مطالعہ کر کے وہ اصول اخذ کیے جائیں جو شارع کے بعد پیش آنے والے حوادث ومعاملات پر منطبق ہو سکتے ہوں۔ اس کا دروازہ بند ہو جائے تو پھر فقہ اسلامی صرف انھی حوادث ومعاملات کے لیے رہ جائے گی جو شارع کے زمانے میں پیش آئے تھے۔ بعد کے نئے حالات میں ہم بالکل بے بس ہوں گے۔“ (۴)

    اسی ضمن میں مولانا مودودی نے اپنی تحریروں او ربیانات میں یہ نکتہ بھی غیر مبہم انداز میں واضح کیا ہے کہ جدید جمہوری ریاستوں میں نفاذ شریعت کی جدوجہد کا صرف وہی راستہ جائز ہے جو آئین وقانون کی حدود کے اندر ہو، جبکہ غیر آئینی طریقوں سے انقلاب برپا کرنے کی کوشش نہ شرعاً درست ہوگی اور نہ حکمت عملی کی رو سے۔ اس حوالے سے مولانا کی بعض تصریحات کو یہاں نقل کرنا مناسب ہوگا۔

    مولانا سے سوال کیا گیا کہ ”کیا موجودہ صورت حال میں آئینی ذرائع سے انقلاب لانا مشکل نہیں ہو گیا؟“ اس کے جواب میں فرمایا:

    ”فرض کیجیے کہ بہت سے لوگ مل کر آپ کی صحت بگاڑنے میں لگ جائیں تو کیا آپ ان کی دیکھا دیکھی خود بھی اپنی صحت بگاڑنے کی کوشش میں لگ جائیں گے؟ بہت برا کیا گیا کہ غیر آئینی طریقوں سے کام لیا گیا ہے اور بہت برا کریں گے اگر ہم بھی ایسا ہی کریں گے۔ غیر آئینی طریقوں کو اختیار کرنے کی دو صورتیں ہوتی ہیں۔ ایک علانیہ اور دوسری خفیہ۔ آپ دیکھیں کہ دونوں صورتوں میں کیا نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔

    علانیہ طور پر غیر آئینی طریقوں سے جو تغیر پیدا ہوگا، وہ زیادہ برا ہوگا۔ اس طرح کی کوششوں سے پوری قوم کو قانون شکنی کی تربیت ملتی ہے اور پھر سو سال تک آپ اسے قانون کی اطاعت پر مجبور نہیں کر سکتے۔ ہندوستان میں تحریک آزادی کے دوران قانون شکنی کو ایک حربے کی حیثیت سے جو استعمال کیا گیا تھا، اس کے اثرات آپ دیکھ رہے ہیں۔ آج پچیس سال بعد بھی لوگوں کو قانون کا پابند نہیں بنایا جا سکا۔

    اگر خفیہ طریقے سے غیر آئینی ذرائع کو اختیار کیا جائے تو نتائج اس سے بھی زیادہ خطرناک ہوں گے۔ خفیہ تنظیموں میں چند افراد مختار کل بن جاتے ہیں اور پھر ساری تنظیم یا تحریک ان ہی کی مرضی پر چلتی ہے۔ ان سے اختلاف رکھنے والوں کو فوراً ختم کر دیا جاتا ہے۔ ان کی پالیسی سے اظہار بے اطمینانی سخت ناگوار اور ناپسندیدہ قرار دی جاتی ہے۔ اب آپ خود سوچیں کہ یہی چند افراد جب برسر اقتدار آئیں گے تو کس قدر بدترین ڈکٹیٹر ثابت ہوں گے۔ اگر آپ ایک ڈکٹیٹر کو ہٹا کر دوسرے ڈکٹیٹر کو لے آئیں تو خلق خدا کے لیے اس میں خیر کا پہلو کون سا ہے؟

    میرا مشورہ ہمیشہ یہی رہا ہے کہ خواہ آپ کو بھوکا رہنا پڑے، گولیاں کھانی پڑیں، مگر صبر کے ساتھ، تحمل کے ساتھ، کھلم کھلا علانیہ طور پر اپنی اصلاحی تحریک کو قانون، ضابطے اور اخلاقی حدود کے اندر چلاتے رہیے۔ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق کار بھی علانیہ اور کھلم کھلا تبلیغ کا طریقہ تھا۔ …. آپ سے میری درخواست ہے کہ آپ اپنی اخلاقی ساکھ کو کبھی نقصان نہ پہنچنے دیں اور غیر آئینی طریقوں کے بارے میں سوچنے والوں کی قطعاً حوصلہ افزائی نہ کریں۔ حالات جیسے کچھ بھی ہیں، ہمیں ان حالات کو درست کرنا ہے۔ غلط طریقوں سے حالات درست نہیں ہوتے بلکہ اور بگڑ جاتے ہیں۔“ (۵)

    مزید فرماتے ہیں:

    ”بکثرت لوگ اس الجھن میں پڑ گئے ہیں کہ آیا جمہوری طریقوں سے یہاں کوئی تبدیلی لائی جا سکتی ہے یا نہیں اور ایک اچھی خاصی تعداد یہ سمجھنے لگی ہے کہ ایسے حالات میں غیر جمہوری طریقے اختیار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ یہ بجائے خود ہمار ے حکمرانوں کی بہت بڑی نادانی ہے کہ انھوں نے لوگوں کو اس طرح سوچنے پر مجبور کر دیا ہے، لیکن ہم اس پوری صورت حال کو دیکھتے ہوئے اور اس کی پیدا کردہ تمام صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے بھی اپنی اس رائے پر قائم ہیں کہ اسلامی نظام جسے برپا کرنے کے لیے ہم اٹھے ہیں، جمہوری طریقوں کے سوا کسی دوسری صورت سے برپا نہیں ہو سکتا اور اگر کسی دوسرے طریقے سے برپا کیا بھی جا سکے تو وہ دیرپا نہیں ہو سکتا۔

    اس معاملے کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے آپ جمہوری طریقوں کا مطلب واضح طور پر جان لیں۔ غیر جمہوری طریقوں کے مقابلے میں جب جمہوری طریقوں کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ نظام زندگی میں جو تبدیلی بھی لانا اور ایک نظام کی جگہ جو نظام بھی قائم کرنا مطلوب ہو، اسے زور زبردستی سے لوگوں پر مسلط نہ کیا جائے، بلکہ عامة الناس کو سمجھا کر اور اچھی طرح مطمئن کر کے انھیں ہم خیال بنایا جائے اور ان کی تائید سے اپنا مطلوبہ نظام قائم کیا جائے۔ …..

    کوئی دوسرا نظام مثلاً کمیونزم لوگوں پر زبردستی ٹھونسا جا سکتا ہے بلکہ اس کے قیام کا ذریعہ ہی جبر اور جباریت ہے اور خود اس کے ائمہ علانیہ یہ کہتے ہیں کہ انقلاب بندوق کی گولی ہی سے آتا ہے۔ استعماری نظام اور سرمایہ داری نظام اور فسطائی نظام بھی رائے عام کی تائید کے محتاج نہیں ہیں، بلکہ رائے عام کو طاقت سے کچل دینا اور اس کا گلا گھونٹ دینا ہی ان کے قیام کا ذریعہ ہے، لیکن اسلام اس قسم کا نظام نہیں ہے۔ وہ پہلے لوگوں کے دلوں میں ایمان پیدا کرنا ضروری سمجھتا ہے، کیونکہ ایمان کے بغیر لوگ خلوص کے ساتھ اس کے بتائے ہوئے راستوں پر نہیں چل سکتے۔ پھر وہ اپنے اصولوں کا فہم اور ان کے برحق ہونے پر اطمینان بھی عوام کے اندر ضروری حد تک اور خواص (خصوصاً کار فرماوں) میں کافی حد تک پیدا کرنا لازم سمجھتا ہے، کیونکہ اس کے بغیر اس کے اصول واحکام کی صحیح تنفیذ ممکن نہیں ہے۔ اس کے ساتھ وہ عوام وخواص کی ذہنیت، انداز فکر اور سیرت وکردار میں بھی اپنے مزاج کے مطابق تبدیلی لانے کا تقاضا کرتا ہے، کیونکہ یہ نہ ہو تو اس کے پاکیزہ اور بلند پایہ اصول واحکام اپنی صحیح روح کے ساتھ نافذ نہیں ہو سکتے۔ یہ جتنی چیزیں میں نے بیان کی ہیں، اسلامی نظام کو برپا کرنے کے لیے سب کی سب ضروری ہیں اور ان میں سے کوئی چیز بھی جبراً لوگوں کے دل ودماغ میں نہیں ٹھونسی جا سکتی، بلکہ ان میں سے ہر ایک کے لیے ناگزیر ہے کہ تبلیغ، تلقین اور تفہیم کے ذرائع اختیار کر کے لوگوں کے عقائد وافکار بدلے جائیں، ان کے سوچنے کے انداز بدلے جائیں، ان کی اقدار (Values) بدلی جائیں، ان کے اخلاق بدلے جائیں اور ان کو اس حد تک ابھار دیا جائے کہ وہ اپنے اوپر جاہلیت کے کسی نظام کا تسلط برداشت کرنے کے لیے تیار نہ ہوں۔ یہی وہ چیز ہے جس کے متعلق ہم کہتے ہیں کہ جمہوری طریقوں کے سوا اس کے حصول کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے اور آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ اسلامی نظام کو عملاً برپا کر دینے کے لیے کوئی اقدام اس وقت تک نہیں کیا جا سکتا جب تک اس مقصد کے لیے کام کرنے والوں کو اس نوعیت کی عوامی تائید حاصل نہ ہو جائے۔“ (۶)

    مولانا سے سوال ہوا کہ اسلامی انقلاب فوری طور پر کیسے آئے گا؟ جواب میں فرمایا:

    ”یہ آپ سے کس نے کہہ دیا کہ اسلامی انقلاب بہت جلد آ رہا ہے؟ آپ اس قسم کی غلط توقعات قائم نہ کریں۔ بے جا توقعات سے مایوسی ہوتی ہے۔ پاکستان کی تشکیل سے پہلے بھی اخلاقی حالت بگڑی ہوئی تھی۔ پاکستان کے بعد اس بگاڑ میں اور اضافہ ہوا۔ اس ساری مدت میں اصلاح کی طرف کماحقہ توجہ نہ ہوئی۔ ہمارے بس میں جو کچھ ہے، وہ ہم کر رہے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ نوجوان نسل سے جو افراد دین کی حقیقت سے واقف ہو چکے ہیں، وہ سرگرمی کے ساتھ اصلاح کے کام کا بیڑا اٹھائیں۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ اس تمام تر مساعی کے نتیجے میں حالت کب بدلے گی۔ ایک طرف شیطان اپنا کام کر رہا ہے، دوسری طرف ہم اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں، لیکن ہمیں توقع ہے کہ اللہ کا دین غالب ہو کر رہے گا۔ ہمارے کرنے کی جو چیز ہے، وہ یہ ہے کہ ہم اپنی کوشش میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں۔ باقی معاملات اللہ کے اختیار میں ہیں۔“ (۷)

    ”میں اصولاً قانون شکنی اور غیر آئینی طریق کار اور زیر زمین کام کا سخت مخالف ہوں۔ میری یہ رائے کسی سے خوف یا کسی وقتی مصلحت کی بنا پر نہیں ہے، بلکہ میں سالہا سال کے مطالعے سے اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ قانون کا احترام مہذب معاشرے کے وجود کے لیے ناگزیر ہے اور کوئی تحریک اگر اس احترام کو ایک دفعہ ضائع کر دے تو پھر خود اس کے لیے بھی لوگوں کو قانون کا پابند بنانا سخت دشوار بلکہ محال ہو جاتا ہے۔ اسی طرح زیر زمین کام اپنے اندر وہ قباحتیں رکھتا ہے جن کی وجہ سے اس طریقے پر کام کرنے والے آخر کار خود ان لوگوں سے بھی بڑھ کر معاشرے کے لیے مصیبت بن جاتے ہیں جن کو ہٹانے کے لیے وہ یہ طریقے اختیار کرتے ہیں۔ انھی وجوہ سے میرا عقیدہ یہ ہے کہ قانون شکنی اور خفیہ کام قطعی غلط ہے۔ میں نے ہمیشہ جو کچھ کیا ہے، علانیہ کیا ہے اور آئین وقانون کے حدود کے اندر رہ کر کیا ہے، حتیٰ کہ جن قوانین کا میں شدید مخالف ہوں، ان کو بھی میں نے آئینی وجمہوری طریقوں سے بدلوانے کی کوشش کی ہے مگر کبھی ان کی خلاف ورزی نہیں کی ہے۔ …. یہی عقیدہ جماعت اسلامی کا بھی ہے۔ اس کے دستور کی دفعہ ۵ میں اس امر کی صراحت موجود ہے کہ ہم ایسے ذرائع اور طریقے کبھی استعمال نہیں کریں گے جو صداقت ودیانت کے خلاف ہوں یا جن سے فساد فی الارض رونما ہو۔ ہم جو کچھ کریں گے، جمہوری اور آئینی طریقوں سے کریں گے اور خفیہ طریقوں سے نہیں بلکہ کھلم کھلا اور علانیہ کریں گے۔“ (۸)

    مولانا نے یہ بات بھی واشگاف الفاظ میں واضح کی کہ اگر خدا نخواستہ پاکستان کو ایک غیر اسلامی ریاست بنانے کے خواہش مند عناصر اپنے عزائم میں کامیاب ہو جائیں تو بھی جدوجہد کا راستہ ایک تحریک اصلاح برپا کرنا ہی ہوگا نہ کہ مسلح انقلاب برپا کرنے کی کوئی کوشش۔ لکھتے ہیں:

    ”واضح طور پر سمجھ لیجیے کہ یہاں اسلامی نظام کا قیام صرف دو طریقوں سے ممکن ہے:

    ایک یہ کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں اس وقت زمام کار ہے، وہ اسلام کے معاملے میں اتنے مخلص اور اپنے ان وعدوں کے بارے میں جو انھوں نے اپنی قوم سے کیے تھے، اتنے صادق ہوں کہ اسلامی حکومت قائم کرنے کی جو اہلیت ان کے اندر مفقود ہے، اسے خود محسوس کر لیں اور ایمان داری کے ساتھ یہ مان لیں کہ پاکستان حاصل کرنے کے بعد ان کا کام ختم ہو گیا ہے اور یہ کہ اب یہاں اسلامی نظام تعمیر کرنا ان لوگوں کا کام ہے جو اس کے اہل ہوں۔ ….

    دوسرا طریقہ یہ ہے کہ معاشرے کو جڑ سے ٹھیک کرنے کی کوشش کی جائے اور ایک عمومی تحریک اصلاح کے ذریعے سے اس میں خالص اسلامی شعور وارادے کو بتدریج اس حد تک نشو ونما دیا جائے کہ جب وہ اپنی پختگی کو پہنچے تو خود بخود اس سے ایک مکمل اسلامی نظام وجود میں آ جائے۔

    ہم اس وقت پہلے طریقے کو آزما رہے ہیں۔ اگر اس میں ہم کامیاب ہو گئے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ پاکستان کے قیام کے لیے ہماری قوم نے جو جدوجہد کی تھی، وہ لاحاصل نہ تھی بلکہ اس کی بدولت اسلامی نظام کے نصب العین تک پہنچنے کے لیے ایک سہل ترین اور قریب ترین راستہ ہمارے ہاتھ آ گیا، لیکن اگر خدا نخواستہ ہمیں اس میں ناکامی ہوئی اور اس ملک میں ایک غیر اسلامی ریاست قائم کر دی گئی تو یہ مسلمانوں کی ان تمام محنتوں اور قربانیوں کا صریح ضیاع ہوگا جو قیام پاکستان کی راہ میں انھوں نے کیں اور اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ہم پاکستان بننے کے بعد بھی اسلامی نقطہ نظر سے اسی مقام پر ہیں جہاں پہلے تھے۔ اس صورت میں ہم پھر دوسرے طریقے پر کام شروع کر دیں گے جس طرح پاکستان بننے سے پہلے کر رہے تھے۔“ (۹)

    یہ بات اس تناظر میں خاص اہمیت کی حامل ہے کہ اسلامی ریاست کے قیام کی اہمیت وضرورت کو اجاگر کرنے اور اس کے لیے عملی جدوجہد کو منظم کرنے کے حوالے سے مولانا مودودی کا شمار دور حاضر کے ممتاز ترین مسلم مفکرین اور قائدین میں ہوتا ہے، تاہم مولانا کے زاویہ نظر میں نظری اور فلسفیانہ بحث ومباحثہ اور عملی اجتہادی ضروریات اور تقاضوں کے مابین فرق کا بھرپور ادراک دکھائی دیتا ہے، جبکہ معاصر جہادی تحریکوں کے ہاں اصولی اور نظری بحث اور عملی ومعروضی حالات کے تقاضوں کے مابین حکیمانہ امتیاز کا شدید فقدان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اصولی اور نظریاتی اشتراک کے باوجود جہادی عناصر نے بحیثیت مجموعی تشدد اور تصادم کی راہ اختیار کر لی ہے جبکہ مولانا مودودی نے عدم تشدد اور جمہوری اصولوں کی پاس داری کو اپنی تحریک کا بنیادی پتھر قرار دیا۔ اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مولانا کی پیش کردہ تعبیرات اور افکار کے مختلف پہلووں سے اختلاف کے تمام تر امکانات کے باوجود دور جدید میں دینی جدوجہد کے لیے ایک متوازن حکمت عملی کے اصول اور خط وخال واضح کرنے کے حوالے سے مولانا کی یہ خدمت بے حد غیر معمولی ہے اور درحقیقت اسی میں ان کی فکری عظمت کا راز پوشیدہ ہے۔

    حوالہ جات
    (۱) ”مولانا ابو الاعلیٰ مودودی اور ان کا طریق فکر“، مرتب: محمد ریاض درانی، جمعیة پبلی کیشنز، لاہور، ۱۱۰۲ئ، ص ۸۰۱، ۹۰۱۔
    (۲) ایضاً، ص ۶۱۱، ۷۱۱۔
    (۳) ایضاً، ص ۱۲۱، ۲۲۱۔
    (۴) ”تفہیم الاحادیث“، مرتب: وکیل احمد علوی، ادارئہ معارف اسلامی، لاہور، ۶۴۵۴، ۵۵۴۔
    (۵) ”تصریحات“، مرتب: سلیم منصور خالد، البدر پبلی کیشنز لاہور، ص ۷۵۲، ۸۵۲۔
    (۶) ایضاً، ص ۰۲۳-۲۲۳۔
    (۷) ایضاً، ص ۰۴۳۔
    (۸) ایضاً، ص ۲۹۔
    (۹) ابو الاعلیٰ مودودی: ”اسلامی ریاست- فلسفہ، نظام کار اور اصول حکمرانی“، مرتب: خورشید احمد، اسلامک پبلی کیشنز لمیٹڈ، لاہور، اکتوبر ۰۱۰۲ئ، ص ۶۳۶، ۷۳۶۔

  • رائٹ اور لیفٹ کا اخلاقی بحران – ہمایوں ایم تارڑ

    رائٹ اور لیفٹ کا اخلاقی بحران – ہمایوں ایم تارڑ

    12510238_992882284129170_8202808987580135765_n” مذہبی طبقے کا اخلاقی بحران” ہی کیوں؟ شدت پسند دونوں طرف ایک جیسے ہیں، کہ اس طرح کی lower strata of جَنتا دونوں طرف برابر پائی جاتی ہے اور اخلاقی ذمہ داری بھی دونوں پر یکساں عائد ہوتی ہے کہ لبرلز یا سیکولر حضرات و خواتین بھی انسان ہیں اور تہذیب و اخلاق ایسی انسانی قدروں کا اطلاق ان پر بھی اتنا ہی ہو گا۔ وہ بھلے کسی خدا کے ہاں جوابدہ نہیں، مگر انسانی ضمیر، معاشرتی قدروں اور ضابطوں کے تو ہیں ہی۔ یوں، یہ ٹائٹل ناانصافی پر مبنی ہے۔ اگرچہ درونِ تحریر دونوں کا اخلاقی بحران غیر جانبداری سے ڈسکس ہوتا نظر آیا، تاہم تحریر کو یہ ٹائٹل عطا کرنا غماز ہے کہ مصنف مذہبی طبقے کو زیادہ تر قصور وار سمجھتا ہے۔

    میری رائے میں ‘ رائٹ اور لیفٹ کا اخلاقی بحران’ زیادہ مناسب عنوان بنتا۔ راقم الحروف نے یہ اعتراض کیا تو مجاہد حسین بھائی کا جواب تھا: “لبرلز اسلام کا نام استعمال نہیں کرتے اس لیے ان پر تنقید نہیں کی۔ جو لوگ اسلام کا نام استعمال کریں، ان پر زیادہ سے زیادہ تنقید ہونی چاہیے تاکہ وہ آئندہ کے لیے محتاط رہیں۔”
    خاکسار کو اس سے اتفاق نہیں۔ تہذیب و اخلاق برتنے کی ذمہ داری دونوں طرف برابر عائد ہوتی ہے، اگر دونوں جانب انسان ہی پائے جاتے ہیں۔ اب ان انسانوں میں تہذیبی اور دانشورانہ غربت کا شکار جنَتا برابر ملے گی جسے برداشت کرنا اور سمجھانا ہوگا۔ اور یہ کہ اس کا الزام کسی اسلام یا لبرل ازم پر عائد نہیں ہو گا۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ اسلام و دیگر مذاہب بدتہذیبی و فحش کلامی کی اجازت نہیں دیتے، اسی طرح کوئی لبرل ازم، سیکولرازم، کمیونزم، کیپیٹل ازم وغیرہ بھی بدتہذیبی ، بداخلاقی اورگالی کی اجازت نہیں دیتے کہ یہ مشترک انسانی اقدار ہیں جن کے برتنے پر اتفاق ہے، جبکہ خلاف ورزی پر سخت اکراہ ۔
    اوریا مقبول صاحب کی تحریر و تقریر پرابتداً جو طوفان برپا کیا گیا وہ لیفٹ ونگ کی طرف سے تھا، اور یہ بات بھی اظہر من الشمس ہو چکی کہ الہامی تہذیب کے بیانیے کے دفاع میں لکھی اس تحریر کے رد عمل میں سیکولر حضرات و خواتین کی جانب سے کیسی معیار سے گری ہوئی تحاریر سامنے آئیں۔ اس پہ بس نہیں ہوا۔ تمسخر کا ہرانداز اپنایا گیا۔ کیا سے کیا مواد دیکھنے کو نہیں ملا: چٹکلے، تصویریں، کارٹون وغیرہ، حتیٰ کہ سپیشل ٹاک شوز تک کا اہتمام ہوا جن میں اوریا مقبول صاحب کی ذات کو نشانہ تضحیک بنایا گیا۔۔ کچھ اس حد تک کہ خورشید ندیم صاحب ایسے main stream media کے صحافی جنھیں اوریا مقبول جان صاحب کے بیشتر دیگر خیالات سے سخت اختلاف بھی ہے، کو ایک بھاری بھرکم کالم کی تلوار سونت کر میدان میں اترنا پڑا جس میں اوریا صاحب کے بیانیے کا بھرپور دفاع کیا گیا، نیز انھوں نے اس طوفان بد تمیزی کی حوصلہ شکنی بھی کی۔
    کہنا یہ ہے کہ یوں، غیر مذہبی طبقے کے اخلاقی بحران کے نمونے بھی “جا بجا بکھرے پڑے ہیں”۔
    ادھر مذہبی طبقے (رائٹ ونگ) کی اخلاقی قامت کے نمونوں کی بھی کوئی کمی نہیں۔ جس کی چند ایک مثالیں خود خورشید ندیم، اشفاق احمد مرحوم، واصف علی واصف مرحوم، عامرہاشم خاکوانی، ہارون الرشید، ارشاد احمد عارف، خود آپ، سہیل ثاقب، طفیل ہاشمی، عرفان شہزاد و دیگران۔۔۔۔ نیزجاوید احمد غامدی، مولانا مودودی مرحوم، پروفیسراحمد رفیق صاحب، طاہر القادری صاحبان اور ان کے لاکھوں پڑھے لکھےفالوورز ۔۔۔۔ الحمدللہ، معتدل سوچ کے حامل لوگوں کی بھی کوئی کمی نہیں۔ یوں، مذہبی ”طبقے کا اخلاقی بحران” والا ٹائٹل ہمیں تو ہضم نہیں ہو رہا۔
    ڈاکٹر عرفان شہزاد بھائی نے مجاہد حسین بھائی کے گویا دفاع میں ایک اور سوال اُٹھایا ہے کہ:
    ”سارے اسلامسٹ بداخلاق نہیں ہوتے، یہ درست ہے، لیکن یہ سارے بااخلاق اسلامسٹس، بداخلاق، بدگو، فحش نگار اسلامسٹس کو مقبول کیوں بنائے ہوئے ہیں؟ ان کی مذمت کیوں نہیں فرماتے؟ ان سے اعلان برات کیوں نہیں کرتے؟ ان کو اپنی صفوں میں عزت کیوں دیتے ہیں؟ یہاں اب کوئی یہ نہ کہہ دے کہ لبرلز اور ملحدین بھی تو ایسا ہی کرتے ہیں۔ بحیثیت قوم ہم سب ہی بداخلاق ہیں، لیکن مقابلہ اگر بداخلاقی بمقابلہ بداخلاقی کا ہے، کہ دیکھیں کون بداخلاقی میں زیادہ طاق ہے۔ کس کی صورت الحمیر زیادہ بلند آہنگ ہے، کس کی گالی زیادہ موثر ہے، پھر تو ٹھیک ہے، سب لگے رہیں۔ لیکن مقابلہ اگر اسلام بمقابلہ لبرلزم اور الحاد کا ہے تو کیا بداخلاقی کا جواب زیادہ بداخلاقی سے دینے سے آپ اسلام کا مقدمہ جیت سکتے ہیں؟”
    بداخلاقوں کو اپنی صفوں سے “نکال باہر کرنا” ایک غیر فطری بات ہے، نا ممکن ہے۔ اس نوع کی جنتا، سطحی ذہنیت کے حامل نادان لوگ ہر مذہب اور کمیونٹی میں، ہر خطہِ زمین پر اور تاریخ کے ہر دور میں پائے گئے۔ ہمیشہ رہے، اب بھی ہیں اور سدا رہیں گے۔ جی ہاں ہم بارِ دگر ان کے ایسے لکھے اور کہے سے اعلانِ برات کرتے ہیں، مذمّت کرتے ہیں، کرتے رہیں گے۔ مثلاً، آپ، میں اور ہم سب طالبان والے اسلا م اور شدت پسندی کی مذمت کرتے ہیں۔ اور تو اور، اپنے کسی پسندیدہ اسلامسٹ کی زبان اور قلم سے سرزد ہوئے کسی واحد ناشائستہ لفظ سے بھی برات کا اعلان کرتے ہیں، ہمیشہ کریں گے۔ رہی بات ایسے uncultured افراد کے موجود ہونے اور رہنے کی تو عرض گزاروں کہ یہ phenomenon تو خود رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بھی جاری رہا۔ ایسے کمزور ممبران ِ مسلم کمیونٹی گردوپیش میں موجود رہے۔ عبداللہ بن ابی ایسوں کو بھی نہیں چھیڑا گیا سرکارؐ نےجس کی نماز جنازہ تک پڑھا ڈالی۔ بس سمجھایا ہی جا سکتا، تربیت کی اپنے تئیں کوشش کی جا سکتی ہے۔ نہ لبرل حضرات ایسوں کو ‘نکال باہر’ کریں گے۔ مثلاً وجاہت مسعود صاحب خود decent لفظوں میں بات کرنے والے نفیس آدمی ہیں، تو دوسرے (فرنود عالم سمیت) اخلاق و تمیز کی حدوں کو بڑی بے دردی سے پھلانگ جانے والے بھی وہیں موجود ہیں جن کی تحاریر کو خود مجاہد بھائی نے اپنے ایک کومنٹ میں cheap sarcasm کا نام دیا۔ میں پہلے عرض کر چکا کہ lower strata of جَنتا دونوں طرف برابر پائی جاتی ہے۔ کوئی محض اسلام پسند ہے، تو اس سے وہ ولی کے درجے پر فائز نہیں ہو جاتا۔ بس انسان ہی رہتا ہے جس کے ہاں grooming یا تہذیب کی اتنی ہی قلت پائی جا سکتی ہےجتنی کسی بھی لبرل کے ہاں۔ فرق صرف کلمے کا رہ جاتا ہے اور اس بات کا کہ اس نے خدا، رسول، قرآن وغیرہ ایسی نسبتوں پر اٹھے اعتراض یا بدتمیزی کا دفاع بے صبری میں اسی نوع کے uncultured انداز میں کر ڈالا۔ خیر، بحث برائے بحث کی جائے تو اس کا کوئی سرا، کنارا نہیں۔

  • اصطلاحات اور بیانیے چھوڑیے صاحب!

    اصطلاحات اور بیانیے چھوڑیے صاحب!

    1463576_258002777680784_890062117_nافکار و نظریات کی تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی کسی معاشرے کے فکری زاویوں کو تبدیل کرنے کا آغاز ہوا، ذہنوں میں موجود صدیوں کے افکار کو تبدیل کرنے کی مہم شروع ہوئی، عقیدت کے مراکز سے تعلق ختم کرنے کی جدوجہد کی ابتداء ہوئی، مانے ہوئے عقائد میں دراڑیں ڈالنے کا عمل شروع ہوا تو اس مہم، جدوجہد اور کوشش کی ابتداء خوش کن نعروں اور دلکش اصطلاحات سے ہوئی. مارٹن لوتھر نے ٹریڈیشنل عیسائیت پر کاری وار کا آغاز “اصلاح ” اور “پاپائیت سے نجات” کے خوشنما نعروں سے کیا. ماڈرن ازم کے علمبرداروں نے انسان کو جملہ مراکز عقیدت سے دور کرنے کی مہم “آزادی” کے مقدس نام سے شروع کی. مارکس نے اشتراکیت کا آمرانہ دیو مسلط کرنے کے پلان کا آغاز “آمدنی میں مساوات ” اور “سرمایہ داروں سے نجات” کے دل موہ لینے والی آوازوں سے کیا. الغرض خوشنما نعرے، دلکش آوازیں، دل آویز نغمے، دل میں اترنے والی صدائیں اور ابہام کے دبیز پردوں میں لپٹی اصطلاحات ہمیشہ “اصلی مقاصد” کو پس پردہ رکھنے کے لیے کارگر ثابت ہوتی ہیں۔

    وطن عزیز میں جاری سیکولرزم کی خوشنما آوازوں اور دلکش نعروں کے پیچھے بھی ایک پورا فلسفہ، مکمل پلان، متعین اہداف اور سوچا سمجھا منصوبہ چھپا ہے. ان حضرات کا مسئلہ یہ ہے کہ مذہب سے آزادی کے ماڈرن دور میں کیسے ایک پوری مملکت ” ایک مذہب یعنی abstract-word-cloud-for-secularism-with-related-tags-and-terms1اسلام” کے نام پر وجود میں آئی ؟ ایک خطہ زمین میں دین کو روبہ عمل لانے کے لیے کس طرح ایک پوری نسل نے اپنی جانیں پیش کیں؟ ایک “مذہبی نعرے” کے لیے کس طرح ایک نسل اپنے آبائو اجداد کی سر زمین چھوڑنے پر آمادہ ہوئی؟ پھر جب یہ مملکت وجود میں آئی تو کس طرح اس کے ماتھے کا جھومر “لا الہ الا اللہ” کی صدا ٹھہری؟ کس طرح اس کے آئین نے “اللہ کی حاکمیت” کو اپنا ماٹو قرار دیا حالانکہ انسان کی حاکمیت کا دور دورہ ہے. کس طرح یہاں مذہب بیزاروں کا ناطقہ آئینی و قانونی طور پر بند کیا گیا؟ پون صدی گزرنے کے باوجود کیسے یہ ملک جیسے تیسے اپنی اصل،بنیاد، اساس اور بانیان پاکستان کے نعروں سے جڑا ہے؟ یہ منفرد اعزاز اور مملکت خداداد کی یہ شناخت گوارا نہیں؟

    ماڈرن ازم کے اس دور میں جب ہر مذہب اور دھرم اپنی عبادت گاہوں تک محدود ہوگیا، صرف اسلام نے کیسے اجتماعی زندگی میں انسانیت کی رہنمائی کی ذمہ داری کا بار اپنے سر پہ اٹھا رکھا ہے؟ آزادی، مساوات اور ترقی کے مسلمہ عقائد کے اس دور میں کیسے اسلام بندگی، رسالت اور خدائے واحد کے عقائد کی تعلیم دیتا ہے؟5298c1c60 عورت کو صرف اور صرف تجارتی مال اور مرد کی جنسی تسکین کا ذریعہ سمجھنے کے اس دور میں کیسے اسلام عورت کو ماں، بہن، بیٹی اور بیوی میں تقسیم کر کے اس کو ایک باوقار معاشرتی مقام دیتا ہے؟ سرمایہ دارانہ عفریت کے اس دور میں کیسے اسلام ہر امیر کو ہر غریب کا رکھوالا قرار دیتا ہے؟ جنسی ہیجان کے اس دور میں کیسے اسلام حیا، شرم اور عورت کی تکریم کا سبق دیتا ہے؟ رشتوں کی پامالی کے اس دور میں کس طرح اسلام رشتہ داری کو جوڑنے کی پرزور تعلیم دیتا ہے؟ اسلامی طرز زندگی کے یہ سب اعزازات، خصوصیات اور امتیازات گوارا نہیں ؟ انسان کی “خدائی ” کے اس دور میں انسان کی “بندگی “برداشت نہیں ؟

    انھی خوبیوں کو پہلے ریاست، پھر معاشرے اور آخر میں فرد کی زندگی سے نکالنے کے لیے سیکولرزم اور لبرل ازم کے خوشنما نعرے ایجاد کیے گئے، انھی نعروں کے ذریعے پہلے مغرب کو مذہب سے آزاد کیا گیا، اب مشرق پر چھرا پھیرنے کی باری ہے. اس ہدف اور مشن کو حقوق نسواں، حکمرانی جمہور، مذہبی منافرت سے آزادی، مذہب کی بنیاد پر انسانیت کی تقسیم، انسان پرستی، آزادی، ترقی، مساوات، وسعت ظرفی اور کشادہ دلی کے خوشنما نعروں سے سجایا گیا، جبکہ اسلام کے ابدی امتیازات و خصوصیات کو سیاسی اسلام، شدت پسندی، تھیوکریسی، مذہبی پاپایئیت، ملائیت، عورت دشمنی، مذہبی بنیاد پر تقسیم، ریاست کی غیر جانبداری اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا رنگ دیا گیا ہے۔

    صاحب ! دو ٹوک بات کہو کہ اسلام انفرادی زندگی کی طرح معاشرتی اور ریاستی سطح پر رہنمائی کرتا ہے یا نہیں؟اسلام نے جس طرح فرد کی نجی زندگی کو ایک ضابطے، اصول، قانون اور اخلاقیات کا پابند بنایا ہے، وہ اس کی معاشرتی زندگی کو بھی کسی اصول کا پابند کرتا ہے؟ اس کی حکمرانی کو بھی کسی قانون کا سایہ فراہم کرتا ہے؟اس کی اجمتاعی زندگی کو بھی خدائی اصولوں میں پروتا ہے؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو یہی اسلامسٹ اور مذہبی آدمی کا مدعا ہے. اور اگر جواب نفی میں ہے کہ اسلام نے فرد کو چند عبادات کا پابند بنا کر اجمتاعی زندگی میں اسے جانوروں کی طرح کھلا چھوڑ دیا ہے کہ وہ اپنی اجتماعی زندگی کو خدائی تعلیمات کے بجائے خود ساختہ فلسفوں کے مطابق گزاریں، اپنی معاشرتی زندگی میں خدائی قانون کا ہار پہننے کے بجائے انسانی فلسفوں کا طوق پہنیں، ریاست کو خدائے وحدہ لا شریک کے قانون کے بجائے ہیومن ازم کے قانون کا پابند کریں، تو یہ سیکولرزم ہے، یہی سیکولر آدمی کا مدعا ہے، یہ اس کا دعوی اور یہ اس کا “عقیدہ”ہے۔ آپ سیکولر ہیں یا اسلامسٹ؟ نعرے، اصطلاحات اور بیانیوں کی بحث چھوڑ یں، بس اپنا مدعا واضح کریں کہ آپ کا مدعا کیا ہے؟

  • ہارون الرشید کی کہانی ، ان کی اپنی زبانی – عامر خاکوانی

    ہارون الرشید کی کہانی ، ان کی اپنی زبانی – عامر خاکوانی

    معروف کالم نویس ہارون الرشید کے تعارف پر مشتمل پہلا حصہ آپ ملاحظہ کر چکے ہیں. انٹرویو کا دوسرا حصہ پیش خدمت ہے11866265_1085617161465765_1795389247132538024_n
    انقلابی
    مشرق و مغرب کے اکثر انقلابی اول درجے کے تھے۔ انقلاب فصل کی طرح ہے۔ بیج بو دیا‘ بارش ہو گئی‘ کھاد دے ڈلی‘ فصل پکی تو کاٹ لی۔ اس کے برعکس انقلابی وہ احمق ہے جو ہیٹر سے گندم کی فصل فروری میں پکانے کی کوشش کرتا ہے۔ میرے خیال میں انقلاب سے لغو کوئی لفظ نہیں۔ تعلیم‘ تربیت اور ارتقا سے ایک جمہوری معاشرہ تشکیل پاتا ہے‘ جہاں فرد کی بہترین صلاحیتیں کام کر سکیں۔ ابراہام لنکن اور قائداعظم حقیقی لیڈر تھے۔ مارکس اور مائو جیسے انقلابی ان سے کمتر تھے۔ انہوں نے جو کاتا‘ خود ادھیڑ دیا یا ان کے جانشینوں نے ادھیڑ دیا۔
    انقلابی زندگی کو ڈسپلنڈ بنانا چاہتے ہیں۔ خدا نے انسان کو آزاد بنایا۔ جو معاشرہ خدا کو تسلیم نہیں کرتا‘ اس کے اخلاقی اقدار کااحترام نہیں کرتا‘ وہ کبھی آسودہ نہیں ہو سکتا۔ تمام انقلابی طاقت کے نشے کے اسیر رہے۔ ان کی قوت محرکہ مقبول پذیرائی اور طاقت تھی۔ یہ کوئی خوبی نہیں۔ اصل خوبی اخلاص ہے۔ مخلص آدمی ایتار بھی کرے گا اور سچا بھی ہوگا۔ انقلابی لچک سے عاری ہوتا ہے۔ مائوزے تنگ نے نہیں‘ ڈینگ ژائوینگ نے چین کو ترقی دی۔ چین جب جمہوری ملک بنے گا تو وہ آج سے بھی بہتر ہو گا۔ تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ انسان کی آزادی بہتر ہے۔

    پہلا نقطہ
    فروغ علم کا پہلا نقطہ خدا کی تلاش ہے۔ جب خدا کو مان لیا تو اس کا ڈیٹا بھی قرآن کی شکل میں موجود ہے۔ اس لیے رہنمائی قرآن ہی کی ہوگی۔ یہ ا لبتہ سمجھنا چاہیے کہ ہم آج کسی قبائلی معاشرے میں نہیں رہ رہے۔ ہم کرتا اور تہمد نہیں پہن سکتے۔ تعبیر و تشریح تاریخ کے حساب سے ہوگی۔ مغالطہ مذہبی طبقے سے پیدا ہوتا ہے۔ مذہبی لوگ اکثر مذہب فروش ہوتے ہیں۔ ا یک حقیقی مذہبی معاشرے میں کوئی مذہبی طبقہ نہیں۔ اسلام میں تو کوئی اقتدار کا طالب ہو ہی نہیں سکتا۔ ہمارا مولوی تو چندہ اور اقتدار دونوں مانگتا ہے۔ سیکولروں نے مغرب اور مولویوں نے اساتذہ کے پاس اپنی عقل گروی رکھ دی

    جس نے میری زندگی بدل دی
    xrafiqueakhtarsepia.jpg.pagespeed.ic.bbR1MtFz6Rمیں اعتراف کرتا ہوں کہ پروفیسر احمد رفیق اختر سے ملاقات کے بعد میری زندگی کا رخ ہی بدل گیا۔ 96ء سے پہلے میں روایتی دائیں بازو کا ایک اخبار نویس تھا۔ پروفیسر صاحب نے مجھے سوچنا سکھایا اور تناظر وسیع کر دیا۔ ان کی عنایت ہے کہ مجھے دوست کہتے ہیں، حالانکہ ان کا ایک عام شاگرد ہوں۔ وہ واحد شخص ہیں ،جن سے تیرہ برسوں میں میرا دل نہیں بھر سکا۔ ان کا علم ایک سمندر کی مانند لگتا ہے۔ پروفیسر آدمی کو خدا کی طرف بلاتے اور تناظر وسیع کرتے ہیں۔ ان کا قول ہے کہ عقیدت اور جہالت دو سگی بہنیں ہیں۔ اسی لیے وہ عقیدت مند نہیں بڑھانا چاہتے۔ پروفیسر اپنے دوستوں اور شاگردوں سے محبت کرتے ہیں۔ آپ ڈٹ کر اختلاف کریں مگر ان کے ماتھے پر شکن نہیں آتی۔ کبھی دل میلا نہیں کرتے۔ میں نے ہزاروں کتابیں تو پڑھی ہی ہوں گی مگر وہ سب ایک طرف اور پروفیسر سے سیکھا ہوا ایک طرف۔ وہ خالص علمی انداز میں مباحثہ کرتے ہیں۔ پروفیسر صاحب کی فکر کا نچوڑ چند فقروں میں یوں ہے، ’’اصل چیز مذہب نہیں اللہ ہے ۔جب اللہ کی شناخت کر لیں تو ہم پر لازم ہے کہ اس نے جو طریق کار وضع کیا ہے اس پر بھی عمل کریں۔ قرآن پر غور کرنا چاہیے۔ مسلمان میں بتدریج دوسرے انسانوں کی خیرخواہی بڑھنی جبکہ عناد، بغض اور حسد کم ہونا چاہیے۔ اسی طرح ہیجان سے پاک ہونا، ایثار بڑھنا اور خوف و پریشانی ختم ہونی چاہیے۔ اللہ کے راستے پر چلنے والا شخص آہستہ آہستہ غم و حزن سے نجات پا لے گا۔ اللہ کو ہمیشہ یاد کرو، محبت کے ساتھ، اللہ کو اس کے ناموں سے پکارو۔ بڑے سے بڑے سکالر کی رائے پر بھی غور کرو۔ قرآن کی مختلف تفسیروں پر غور کر کے اپنی رائے قائم کرو، خواہ وہ تمھارے استاد سے مختلف کیوں نہ ہو۔ بحث کے درمیان تلخی اور طنز نہیں آنا چاہیے‘‘۔
    میں نے اپنی زندگی میں پروفیسر رفیق وہ واحد شخص دیکھے ہیں جنھیں کسی حادثے پر صدمہ ہوتا ہے نہ وہ غم کا شکار ہوتے ہیں۔ ان کی لاتعداد پیش گوئیاں درست ہوئیں مگر وہ کبھی نہیں جتاتے۔ وہ اسے کشف بھی نہیں کہتے۔ دراصل ان کی غیرمعمولی بصیرت اور مئومنانہ فراست سے ان کے ننانوے فیصد اندازے درست ثابت ہوتے ہیں۔ ان میں وہ وصف ہے جو اولیاء اللہ میں ہوتا ہے۔ وہ گناہگاروں کو سینے سے لگاتے اور محبت کا برتاؤ کرتے ہیں۔ ہر آدمی ان کے ساتھ چائے پی اور ان پر تنقید کر سکتا ہے۔ باقی رائے ضروری نہیں کہ ان کی ہر مانی جائے۔ تصورات میں ان سے میرے کئی اختلافات ہیں جن کا وہ کبھی برا نہیں مانتے۔

    عمران خان
    مجھ پر اکثر یہ الزام لگتا ہے کہ میں اپنے کالموں میں عمران کی مدح لکھتا ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ میں عمران کا مداح ہوں۔ وہ بہت سادہ آدمی ہے۔ اس کے مالی معاملات نہایت شفاف ہیں۔ عمران imran-khanبالکل سچا آدمی ہے۔ وہ آدھی سے زیادہ آمدنی غریبوں پر خرچ کرتا ہے۔ کینسر ہسپتال‘ نمل یونیورسٹی اور غریبوں کی مدد کے لیے وہ سال میں کم ازکم پون کروڑ کے عطیات دیتا ہے۔ میں نے ایسا بہادر آدمی کم ہی دیکھا۔ اس میں اعتدال اور سیکھنے کی خواہش ہے۔ اس نے اپنے غصے پر قابو پایا ہے۔ اب اس پر ناروا تنقید بھی کی جائے تو وہ برداشت کرتا ہے۔ عمران خان ملک کی تقدیر سنوارنے کے لیے سیاست کر رہا ہے۔ ایشیا کا سب سے بڑا مسلمان لیڈر مہاتیر محمد عمران کا اتنا ہی مداح ہے جتنا کہ میں۔ وہ ایک گلیمرس کھلاڑی تھا۔ پھر اس نے توبہ کی اور اس کی زندگی بدل گئی۔ اس میں ایک خوبی یہ ہے کہ وہ خود کو پارسا نہیں سمجھتا۔ عمران کی شخصیت کو ایک فقرے میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ وہ ناقابل علاج امید پرست ہے۔ میں اکثر حوصلہ لینے کی خاطر اس سے ملنے جاتا ہوں۔ عمران محبت تو کرتا ہے مگر اظہار پر قادر نہیں۔ میں نے اس کی عائلی زندگی بڑے قریب سے دیکھی۔ وہ نہایت اچھا شوہر اور باپ تھا۔ عمران اور جمائما کی طلاق کے موقع پر اس کے وکیل نے کہا کہ اگر وہ طلاق دینے سے انکار کر دے تو جمائما کی جائیداد میں سے تین بلین ڈالر کے قریب اسے مل جائیں گے۔ عمران نے دو سو ارب روپے کی اس بات کو سنی ان سنی کر دیا اور صرف یہ کہا کہ طلاق دونوں کی رضامندی سے ہو رہی ہے۔ وہ اپنی زندگی پر اسی قدر کم رقم خرچ کرتا ہے جس کا کوئی تصور نہیں کر سکتا۔ اس کے کپڑے میرے ڈرائیور سے بھی معمولی ہوتے ہیں۔ عمران میں سیاسی بصیرت کا فقدان ہے کہ اس نے بیالس سال کی عمر میں پہلی بار عام آدمی سے ملنا جلنا شروع کیا۔ اگر کبھی وہ وزیر اعظم بنا (جس کے امکانات کچھ زیادہ نہیں) تو اس ملک کی تقدیر بدل کے رکھ دے گا۔ اس کی ترجیحات واضح ہیں۔ صاف پانی‘ تعلیم‘ روزگار‘ خارجہ پالیسی‘ فوج اور پولیس کی ری کنسٹرکشن سب بالکل واضح ہیں۔ عمران حکمران بنا تو ملک میں سسٹم بنا کر دے جائے گا۔ اس کے بعد میں آنے والوں کے لیے بیشتر کانٹے صاف ہو جائیں گے۔
    (یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ پرانا انٹرویو ہے، عمران خان کے بارے میں ہارون صاحب کی رائے اب پہلے جیسی نہیں رہی، اس کا وہ اپنےکالموں میں اظہار کرتے رہتے ہیں)

    کالم نگاری
    میں نے پہلا کالم 1970ء میں لکھا۔ ان دنوں وفاق میں رپورٹر تھا۔ بسنت کے موقع پر چھ بچے چھتوں سے گر کر زخمی ہوئے۔ میں انہیں دیکھنے گیا۔ واپس آ کر خبر لکھنی شروع کی تو کچھ دیر بعدHaroon-ur-rashed احساس ہوا کہ یہ تو کالم لکھ دیا ہے۔ وہ کالم جمیل اطہر صاحب نے چھاپ دیا۔ مولانا مودودی جماعت کی امارت سے سبکدوش ہوئے تو میں نے دوسراکالم لکھا۔ ان دنوں چھ ،آٹھ مہینے کے بعد ایسے کسی انسپائرنگ واقعہ پر میں کالم لکھ دیتا۔ مدتوں سمجھتا رہا کہ میں فطری رائٹر نہیں ہوں۔ کسی واقع سے انسپائریشن کے بغیر میرے لیے لکھنا مشکل ہو جاتا تھا۔ 2001ء کے بعد آہستہ آہستہ اور پھر 2006ء میں یقین ہو گیا کہ اچھے برے سے قطع نظر، میں لکھ بہرحال سکتا ہوں۔ میں نے طویل عرصے تک بڑے بڑے کرب میں لکھا۔ مجھ میں شدت احساس بہت ہے۔ کئی بار لکھتے ہوئے میرے اوپر رقت طاری ہو جاتی۔ کالم کے فارمیٹ اور الفاظ کے مناسب ہونے کی بھی بڑی فکر رہتی ہے۔ میرے خیال میں کالم کا فارمیٹ پرفیکٹ ہونا چاہیے. کسی اچھے سلے سوٹ کی طرح۔ میں مدتوں منو بھائی سے متاثر رہا کہ وہ فارمیٹ سے انحراف نہیں کرتے۔ پہلے میں بڑے ہیجان اور دباؤ میں لکھا کرتا تھا۔ پروفیسر احمد رفیق سے ملنے کے بعد انکشاف ہوا کہ ہیجان اچھی چیز نہیں، بندے کونارمل لکھنا چاہیے۔ پروفیسر سے ملنے کے بعد احساس کی شدت تو باقی ہے مگر اس کی اذیت کم ہو گئی ۔آج کل تو بعض اوقات چالیس منٹ میں کالم لکھنا پڑ جاتا ہے۔ مشتاق یوسفی صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ کتنی دیر میں کالم لکھ لیتے ہو۔ میں نے جواب دیا تو وہ بڑے حیران ہوئے۔ میں نے کہا کہ ڈیڈلائن کا دباؤ آپ پر ہو تو آپ بھی اتنی دیر میں لکھ لیں گے۔ عالی رضوی میرے استادوں میں سے ہیں۔ ان سے سیکھا کہ کبھی ادنیٰ لفظ نہیں لکھنا چاہیے، اسی طرح بازار کی زبان اور بول چال کی زبان میں کیا فرق ہے؟ میں نے ہمیشہ کالم لکھتے وقت یہ سوچا کہ میری ماں اسے پڑھ سکے۔ ایک آدھ بار ہی ایسا ہوگا کہ اپنا لکھا پڑھ کر شرمندگی ہوئی۔ مختلف اخبارات میں کالم لکھے۔ ایک اخبار میں مہینوں میرے کالم نہیں چھپے مگر تنخواہ ملتی رہی۔
    (جاری ہے)

  • زندگی ہو کہ موت، اب بس دلیل کے ساتھ – حافظ یوسف سراج

    زندگی ہو کہ موت، اب بس دلیل کے ساتھ – حافظ یوسف سراج

    13006698_1120626147982743_4328716347595490718_nتعمیری سوچ کی پرورش و پرداخت کے لیے ’دلیل ‘ کے نام سے ویب سائٹ کا اجرا کر دیا گیا ہے ۔ کیا سعادت ہے کہ انسانیت کی آخری گائیڈ بک قرآن اور پھر اسلامیان ِ عالم کی دھڑکنوں میں سمائے پاکستان ہی کو نہیں، مقاصدِ قرآن و پاکستان کی ’د لیل‘ کے نزول کو بھی شبِ قدر ہی کی برکت و رحمت سے پُرآغوش میسر آئی ہے. یہ بجائے خود بڑی نیک فال ہے. دراصل شبِ قدر ہی وہ رات ہے کہ جس میں مدبر ِ کائنات فرشتوں کو مخلوق کی آئندہ سال بھر کی تقدیر کا شیڈول فراہم فرماتا ہے۔ صدی بھر (83سال سے بہترین کو صدی ہی کہیے) کی مسلسل بندگی سے بہتر ی کی حامل یہ شب، غروبِ آفتاب سے طلوع فجر تک سراسر سلامتی والی اور امن بھری ہوتی ہے۔ پھر یہ کہ روح الامین جبریل علیہ السلام اس رات زمیں پر اتنے نورانی فرشتوں کی معیت میں نزول کرتے ہیں کہ جتنے زمیں پر کنکر یا ریت کے ذرات ہو سکتے ہیں، توبہرحال ثابت یہ ہوتا ہے کہ عین اسی مبارک اور سلامتی والی رات آسمانوں پر یہ فیصلہ ہو چکا تھا کہ اب کے ٹھیک ستائیسویں شب اہلِ زمیں کو’ دلیل‘ فراہم کر دی جائے گی اور کر دی گئی. وللہ الحمد.
    سوائے نہ جاننے والوں کے اس سے بھلا کون انکار کرسکتاہے کہ کام چھوٹا ہو یا بڑا، بغیر اذنِ خداو ندی کے کبھی نہیں ہو سکتا. سو اس تناظر میں معلوم یہ ہوتا ہے کہ ستائیسویں شب کو دلیل کے نزول کا خیال دے کر اسے پورا کر دینے کی توفیق بھی دے دینا، یہ میرے مولا کی منشا بھی تھی اور اس کارِ خوش ادا میں مصروف خوش بختوں کے لیے سراسر نیک فال بھی. یہاں یہ بھی ملحوظ رہے کہ جس طرح فال ِبد کا کسی سلیم الفطرت انسان کو کبھی اقرار نہیں ہو سکتا، اسی طرح خوش فال لینے سے بھی کسی مسلمان کو انکار نہیں ہونا چاہیے.
    ظاہر ہے ’دلیل ‘پر دلیل دیے بغیر تو چارہ ہی نہیں ، ورنہ تو ا س کی وجہِ پیدائش ہی نذرِ تمسخر ہو جائے گی. انسانی دانش نے اب تک امن و محبت اور برداشت کی جو واحد راہ تلاشی اور تراشی ہے وہ دلیل ہی ہے ۔یہ عین انسانی تجربے اور مشاہدے کی بات ہے کہ جب دلیل نہ ہو تو پھر ’سب‘ کا بے دلیل کہا اور کیا ہی رائج اور روا ٹھہرنے لگتا ہے. سو سب کی روش ِغلط سے سچائی کو ممتاز کرنے کے لیے ہی دلیل میدان میں اتاری جاتی ہے. ا س کا احساس اور پیروی ہم سب پر لازم ہونی چاہیے ۔ فالِ نیک سے خوش گماں ہونے کی دلیل ہمیں اس مرجع دلائل ذاتِ اقدس سے ملتی ہے کہ خالقِ کون و مکان نے جس کے حرمت ِحرف کو تحفظ و احترام عطا فرمایاہے. یہ صلح حدیبیہ کا قصہ ہے، مدینہ سے اہل دلیل رسولِ جہاں پناہ کی پناہ میں بےتاب دل لیے عمرے کے لیے کھنچے چلے آئے تھے، اور اہل ِ زور کے جبر نے انھیں جہاں تہاں روک لیا تھا. دلیل و جبر کی اس کشمکش اور کھینچا تانی میں، حدیبیہ کے اس مقام پر مذاکرات اور مکالمے کے کئی دور چلے. قریش کے کئی نامی سفارتکار آئے اور گئے. عروہ ثقفی بھی آئے کہ جنھوں نے بعد میں اسلام بھی قبول کر لیاتھا اور واپسی پر اپنے ہی قبیلے کواپنی چشم دید دلیل کی بنا پر ان کے آئندہ عہد کے تمام ہونے کی وارننگ بھی سنا ڈالی تھی. خیر یہ الگ معاملہ ہے. بہرحال انھی آنے والوں میں سے ایک کانام ’سہیل بن عمرو‘ تھا ، نام سنتے ہی رسولِ رحمت نے مسرت بھری نیک فال لی اور فرمایا، اگر سہیل نام کا سفیرآیا ہے تواللہ معاملہ بھی سہل اور آسان ہی فرما دے گا. منجملہ اور کے ،یہ بھی خوش فالی کی ایک دلیل ہے اور اسی سنت کی اتباع میں ہم ’دلیل ‘کے لیے اچھی فال لیتے ہیں اور بجا طور پراس کی تعمیر و ترقی کے لیے خوش گمانی محسوس کرتے ہیں
    اب آتے ہیں، اس تحریر کے عنوان کی طرف. یعنی اب کوئی بھی جیے یا مرے مگر دلیل کے ساتھ. تو دراصل سورۂ انفال کی آیت نمبر 42 میں مذکور قرآن کے اس فیصلے کا اعلان دراصل بدر میں کیا گیا، جو کچھ یوں تھا :
    ’’(یاد کیجیے کہ معرکۂ بدر بپا ہونے سے اک ذرا پہلے ) تم (اہل دلیل) وادی مدینہ کے قریب تھے تو تمھارے مخالفین وادی کے دور کنارے مقیم تھے، جبکہ ابوسفیان کا تجارتی قافلہ دور پرے کہیں نیچے سے گزرتا تھا. اب اگر تم وعدے وعید کی تیاریوں میں پڑ جاتے تو تم باہم ٹکرا ملنے کا وقتِ مقرر ہی کھو دیتے، اللہ مگر یہ معرکہ بپا کرنے کی ٹھان چکا تھا، اور ظاہر ہے ، اللہ کا چاہا ہو کر رہتا ہے. القصہ اس معرکہ ٔ دلیل و شر بپا کرنے سے اللہ کا مقصد محض ایک حتمی د لیل اور حجت قائم کردینا تھا کہ اب جو جیے وہ بھی واضح دلیل ِحق کے ساتھ جیے اور جو اپنے تکبر میں تمام ہو رہے وہ ساتھ ہی ساتھ پس ماندگان اور لواحقین پر دلیل کی برتری کی مجسم اور پُر عبرت دلیل بھی ہو رہے۔‘‘
    تو گویاہم صرف دو چیزیں عرض کرنا چاہتے ہیں.
    1۔اپنے نام میں’ دلیل‘ اپنے اندر ایک خو ش فال رکھتی ہے. سو اسے اک مقدس شبِ قیام میں اپنا نام اور اپنے مفہوم معانی کا قیام مبارک ہو
    2۔ پھر دلیل ہی بدر کے اعلان کے بعد (اگرچہ پہلے بھی مگر اب بصورتِ آیت قرآنی ) قول فیصل، حکم الامر اور قوتِ قاہرہ ہوا کرتی ہے
    سو اب ہمیں جاننا ہی نہیں ماننا بھی چاہیے کہ دلیل کا اقرار زندگی ہے اور دلیل سے فرار موت۔ د لیل دراصل انسانی دانش و فائدے کی ضامن ہے اور دلیل ہی انسانوں، فرزانوں بلکہ حیوانوں تک کی زندگی کی بنیاد بھی ہے. دلیل امن کی علامت ہے جبکہ دھونس فساد کی جڑ. اللہ اپنے وجود کو دلیل سے ثابت کرتا ہے اور قرآن دلیل کے مقابل بار بار مخالفین کا عجز عیاں فرماتاہے، یہ کہہ کر کہ بھئی جلتے بھنتے کیوں ہو ؟ تم بھی لے آؤ ، اگر کوئی دلیل رکھتے ہو تو؟ یعنی یہ طے ہو چکا کہ کائنات ہو یا اہل کائنات، ان سب کی زندگی و موت کا فیصلہ دلیل ہی کرتی ہے۔ دیکھیے اسے بھی قرآن نے سورۃالرعد:آیت17میں دلیل سے پیش کیا ہے:
    ’’بارش برستی ہے تو پھر اس کی اٹھائی بے فائدہ جھاگ آنکھ جھپکتے میں ہی بھاگ اٹھتی ہے اور عامۃ الناس کے لیے مفید و معتبر زندگی کا ضامن پانی زمیں پر دائم باقی رہتاہے۔‘‘
    سو یہ اب اس کائنات کی کائناتی سچائی (Universal Truth) ہی سمجھیے کہ زندگی نہ زہریلے طعن سے اور نہ بھونڈے تمسخر سے گزر سکے گی. زندگی تو بس اب دلیل ہی سے بسر ہو سکے گی ۔ سو ’دلیل ‘کا قیام، اتنا ساپیغام ہے کہ آئیے دلیل کی طرف ، آئیے پرامن اور شائستہ مکالمے کی طرف. آئیے توازن اور اعتدال کی طرف. پاکستان کے زمینی حقائق کے اقرار اور سچائیوں کے اعتراف کی طرف. آئیے قوت ، ہجوم اور شور و غل کے بجائے دلیل کو جیت کا معیار بنائیں۔آئیے دلیل کے ہاتھ سے ہاتھ ملائیں اور اس دنیا کو جنت بنائیں۔
    پسِ تحریر:
    1۔دلیل کی پذیرائی اللہ کا انعام اور اس سے جڑے لوگوں کے اخلاص نیت کی دلیل سہی، اس کے مقابل اٹھنے والا شورِ قیامت بھی مگر بتاتا ہے کہ دلیل کاری اور اہل ِدھونس پہ یہ ضرب بھاری ہے۔ لیجیے کام کرنے والوں کی کلفت کام آئی ۔
    2۔ ’’دلیل کسی کے مقابل نہیں‘‘ کا اظہار اور تکرار مکرم عامر ہاشم خاکوانی صاحب کے خلوص نیت اور توازنِ شخصیت کا اظہار ضرور ہے. کائناتی تناظر اور قرآنی الفاظ میں (سورہ حج : آیت 40) دلیل بہرحال کسی نہ کسی کے مقابل ہی ہونی چاہیے :
    ’’اگر اللہ تمھارے باہمی تصادم سے ایک کو دوسرے کے ذریعے سے پیچھے ہٹاتا نہ رہتا تو عبادت گاہیں، کلیسا، مساجد، یہودیوں کے معبد اور نام خدا کے لیے قائم سب مساجد گرا ہی دی جاتیں۔جو اللہ کے لیے اٹھے گا ، اللہ بالضرور اس کی مدد فرمائے گا۔ ‘‘
    لبرل دوست اس پر غور کر سکتے ہیں کہ قرآن نے یہاں معبدوں کو ’کسی ‘سے خطرہ قرار دیا ہے ، ’کسی ‘ کو معبدوں سے خطرہ قرارنہیں دیا ہے۔ یعنی الفاظِ قرآن میں جارحیت غیرمذہبی لوگ کریں گے اور اہل معبد دفاع میں اٹھیں گے۔ ویسے دفاع کے حق پر اتنا سیخ پا ہونا بھی کوئی معقولیت تو نہیں. یعنی جو چاہو سو آپ کرو ہو. واللہ اعلم باالصواب

  • امام ابن تیمیہ پر الزامات کی حقیقت؟ کاشف نصیر

    امام ابن تیمیہ پر الزامات کی حقیقت؟ کاشف نصیر

    564549_3009762303274_1489617525_n مجھے امام ابن تیمیہ( رح) سے متعلق قاری حنیف ڈار کی تازہ تحریر میں سطحیت، لعن طعن اور فرقہ ورانہ عناد کے سوا کوئی دوسری شے نظر نہیں آئی۔ دولت اسلامیہ کی فکر کو امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی فکر قرار دینا، دراصل دونوں ہی معروف افکار سے لاعلمی کا بین ثبوت ہے۔ ابن تیمیہ نے ہرگز ایسی زبردستی کی خلافت، خارجی طرز تکفیر اور شدت پسندی پیش نہیں کی، جیسی داعش نے فی زمانہ اختیار کر رکھی ہے۔ ابن تیمیہ کی چھ سو سال قدیم فکر سے صرف روایتی حنبلی، وہابی اور سلفی علماء ہی نہیں ابوالکلام آزاد، سید مودودی اور سید قطب ایسے جدید ذہن رکھنے والے علماء نے بھی استفادہ کیا ہے۔ ہمارے یہاں کے روایتی دیوبندی اور بریلوی علماء بھی اپنے حنفی اور صوفی پس منظر کے باوجود ابن تیمیہ کا ذکر عزت اور احترام سے ہی کرتے ہیں۔ خود قاری صاحب کے موجودہ مربی جاوید احمد غامدی صاحب تصوف کے باب میں فکر تیمیہ سے ہی متاثر ہیں۔اصطلاحات اور بیانیے چھوڑیں صاحب!اپنا مدعا واضح کریں

    اگر دہشت گرد گروہوں کا مسلک، مشرب اور مذہب دیکھ کر ہی لعن طعن کرنا درست ہے تو صرف ابن تیمیہ ہی کیوں؟ پھر دیوبند مسلک اور اس کے اکابرین قاسم نانوتوی (رح)، محمودالحسن( رح) اور اشرف علی تهانوی (رح ) تحریک طالبان پاکستان، لشکر جھنگوی، جنداللہ اور جماعت الاحرار کی کارروائیوں کے ذمہ دار ٹھہریں گے۔ پھر حزب اللہ، مہدی ملیشیا، سپاہ محمد اور حوثی باغیوں کی حرکتوں کو آئمہ اہل بیت اور خمینی سے جوڑا جائے گا۔ پھر القاعدہ کے حملوں کو اخوان المسلمون، سید قطب اور سید مودودی سے منسلک کیا جائے گا۔ لیکن فرقہ ورانہ عینک سے فکری بنیادوں کا تعین کرنا، سوائے تنگ نظری کے اور کچھ نہیں ہے۔ یہی وہ سوچ ہے جو آگے چل کر قرآن کریم کو دہشت گردی کا” پرائم سورس” قرار دیتی ہے۔

    سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی حکومت پر چڑھائی ہو یا سیدنا علی رضی اللہ سے بغاوت، بنو امیہ کا غصب اقتدار ہو یا بنو عباس کی سفاکیاں، آئمہ اہل بیت کا خروج ہو یا زید بن علی (رح) کے لیے امام ابوحنیفہ( رح )کی حمایت، ابن تیمیہ سے پہلے بھی خروج فی سبیل اللہ اور اصلاحِ مذہب کے نام پر ویسے ہی شمشیریں بے نیام ہوتی اور گردنیں کٹتی رہی ہیں جیسا کہ قاری صاحب کے بقول ُان کے بعد ُان کی فکر سے ہوئیں۔ پھر تکفیری رویے کو صرف ابن تیمیہ سے مخصوص کر دینا کہاں کی علمی دیانت ہے؟ پچھلے دنوں جامعہ اظہر کا ایک تحقیقی مقالہ نظر سے گزرا جس کے مطابق عالم اسلام میں سب سے زیادہ تکفیری رجحان برصغیر پاک و ہند میں پایا جاتا ہے، حالانکہ یہاں کے اکثریتی دیوبندی اور بریلوی مسالک تصوف کے علمبردار ہیں۔ صوفیان ِکرام کے اسی ہندوستان میں ایسی سیکڑوں مساجد ہیں، جہاں امن و محبت کے داعی صوفی حضرات دوسرے مکاتب فکر کے مسلمانوں کو داخل ہونے سے روکتے ہیں۔ یاد رہے نہ تکفیری فتووں پر مبنی کتاب حسام الحرمین مرتب کرنے والے اعلی حضرت رضا احمد خان (رح ) ابن تیمیہ سے متاثر تھے اور نہ گورنر سلمان تاثیر کو ناحق قتل کرنے والا ممتاز قادری۔

    تاریخ کے باب میں بهی موصوف کی سطحیت نے نہایت حیران کیا۔ موصوف نے ترکوں کے ساتھ شریف مکہ کی بے وفائی کو بھی آل سعود اور آل سعود کے واسطے براہ راست ابن تیمیہ کے کھاتے میں ڈال دیا۔ حالانکہ آل سعود کا واسطہ شیخ عبدالوہاب نجدی (رح ) کی دعوت سے تها نہ کہ براہ راست ابن تیمیہ سے۔ مزارات کے حوالے سے آل سعود اور داعش کے طرز عمل میں خوامخوا کی مماثلت پیدا کرکے ابن تیمیہ کو کٹہرے میں کھڑا کرنا بهی سمجھ سے بالاتر ہے۔ آل سعود نے مزارات کے انہدام اور شرک و بدعات کی روک تھام کے عنوان سے جو سلسلہ شروع کیا تھا، وہ اقتدار پر کامل قبضے کے بعد کا ہے۔ ہم اس پالیسی سے اختلاف کرسکتے ہیں لیکن انہیں ہرگز ان خودکش حملوں اور بم دھماکوں کے مساوی تسلیم نہیں کرسکتے جو پاکستان سے لے کر شام تک داعش سمیت مختلف گروہوں کا خاصہ ہیں۔

    جب صفین کے میدان میں کچھ شدت پسند سیدنا علی رضی اللہ کو چھوڑ کر جدا ہوگئے تو ان کے کسی بھی فعل کے ذمہ دار سیدنا علی (رض) نہ رہے۔ سلف صالحین نے انہیں خوارج قرار دیا اور آج تک انہیں اسی نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ہم موجودہ دور میں بھی عالمی منظرنامے پر شرق سے غرب تک جہادی قوتوں، اسلامی تحریکوں اور مذہبی جماعتوں کے باطن سے شدت پسند گروہوں کو جدا ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ ان گروہوں کی بنیاد ان کے سخت گیر مزاج، کج فہمی، مخصوص زمینی حالات اور بعض عالمی معروضات سے منسلک ہیں۔ انہیں اپنی سابقہ تحریک یا کسی مسلک، مکتب فکر اور صدیوں پرانی علمی شخصیات کی دعوت سے نتھی کرنا ہرگز مناسب نہیں ہے۔خاص طور پر یہ طرزعمل کسی ایسے شخص کو زیب نہیں دیتا جو تحقیق اور اعتدال کا دعوی رکھے اور روایتی مولویوں پر تنگ نظری کا الزام عائد کرے۔

  • ترقی پسند تحریک کی لٹیا – مشفق خواجہ کے قلم سے

    ترقی پسند تحریک کی لٹیا – مشفق خواجہ کے قلم سے

    duniya-e-adab-300x336اگر کوئی شخص ہر وقت یہی کہتا رہے کہ میں عاقل وبالغ ہوں تو اس کا عاقل وبالغ ہونا مشکوک ہوجائے گا۔یہی حال پاکستانی ترقی پسندوں کا ہے جن کی ترقی پسندی کی عمارت زبانی دعوئوں پر قائم ہے۔ ہم نے آج تک کوئی رجعت پسند یا زوال پسند ایسا نہیں دیکھا جو اپنی زبان سے اپنی رجعت پسندی یا زوال پسندی کا ڈھنڈورا پیٹے۔ڈاکٹر گوپی چند نارنگ ہوں یا انتظار حسین،لکھنے پڑھنے کے کاموں میں مصروف رہتے ہیں،رجعت پسندی یا زوال پسندی کے فوائد پر گفتگو کرکے اپنا وقت ضائع کرتے ہیں نہ دوسروں کا۔
    زبانی جمع خرچ سے ترقی پسندوں کی کچھ ایسی دلچسپی ہے کہ ایک عرصے سے انھوں نے لکھنے لکھانے کا کام شروع کرنے سے پہلے ہی چھوڑ رکھا ہے۔ ’’گفتگو‘‘ تحریر کا نعم البدل بن چکی ہے۔حد تو یہ ہے کہ ’’گفتگو‘‘کے نام سے کتاب بھی چھپ گئی ہے۔اس کتاب کے سرورق پر جلی حروف میں یہ عبارت درج ہے۔’’ترقی پسند تحریک کے نظری مسائل،اثرات اور مخالفین کے اعتراضات پر مشاہرین ادب سے بات چیت‘‘۔
    لفظ ’’مشاہرین‘‘کا استعمال قابل غور ہے۔ہم سے یہ معمہ حل نہ ہوا تو استاد لاغر مراد آبادی کو زحمت فکر دی گئی۔انھوں نے فرمایا: ’’مشاہرین سے مراد وہ لوگ ہیں جو مشاہرہ لے کر۔۔۔۔۔۔‘‘۔ ہم نے استاد کو مزید کچھ کہنے سے روک دیا کہ ’’مشاہرین‘‘ کا ’’مشاہرے‘‘ سے رشتہ جوڑنا دور کی کوڑی لانے کے مترادف ہے۔ ہم نے عرض کیا: ’’اس میں کچھ کتابت کی غلطی معلوم ہوتی ہے‘‘۔استاد نے فرمایا: ’’ہاں اس کا بھی امکان ہے۔آخر خود ترقی پسند تحریک بھی تو ہماری تاریخ َادب میں کتابت کی ایک غلطی ہی تو ہے‘‘۔
    کتابت کی غلطیوں کی بات چل نکلی ہے تو یہ عرض کردینا مناسب ہوگا کہ زیرنظر کتاب’’گفتگو‘‘ کا شاید ہی کوئی صفحہ ایسا ہو جس پر کتابت کی دس بارہ غلطیاں نہ ہوں۔خصوصا شعروں پر تو وہ ظلم ٖڈھائے گئے ہیں کہ اچھے خاصے شعر بھی کیفی اعظمیٰ کے شعر بن کر رہ گئے ہیں۔ کتابت کی ان غلطیوں کی بنا پر یہ خیال ہوتا ہے کہ یہ کتاب’’مشاہرین ادب‘‘کی نہیں ’’مشاہرین کتابت‘‘ کی بات چیت کا مجموعہ ہے۔
    aac-1992-1کتاب کا پہلا باب علی سردار جعفری کی بات چیت پر مشتمل ہے۔ جعفری صاحب احتجاجی شاعری پر گفتگو کرتے ہوئے احتجاجی لہجے میں فرماتے ہیں:’’تو جناب ہم نے احتجاجی شاعری ضرور کی ہے لیکن بے ایمانی کی بات یہ ہوئی کہ ہم نے ساتھ ہی دائمی شاعربھی کی،جسے آپ اچھی شاعری کہتے ہیں۔اب آپ کرتے یہ ہیں کہ ہماری اچھی شاعری کو تو نظرانداز کردیتے ہیں اور پکڑ لیتے ہیں اس شاعری کو جو ہم نے ہنگامی ضرورتوں کے تحت کی تھی۔لیکن یہ تو کوئی ادبی دیانت نہیں ہوئی۔خیراس کو چھوڑیے میں تو یہ بھی کہتا ہوں کہ جناب ہماری وہ ہنگامی نوعیت کی شاعری آپ کی اس مہمل شاعری سے بدرجہا بہتر تھی جس کا کوئی مقصد،کوئی رخ اور کوئی مافی الضمیر نہیں ہوتا‘‘۔
    قطع نظر اس سے کہ جعفری صاحب کے مخاطب کون ہیں اور مہمل شاعری کا طعنہ کسے دیا جارہا ہے‘سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہنگامی ضرورتوں کے تحت شاعری کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔کیا اس سے بہتر کوئی کام نہیں کیا جاسکتا۔ہنگامی ضرورتوں کے تحت یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ مہمل شاعری کا مطالعہ ہی کرلیا جائے‘شاید اس بہانے کوئی کام کی بات معلوم ہوجائے۔مہمل شاعری میں کم از کم یہ توقع تو رہتی ہے کہ جو کچھ لکھا گیا ہے اس کا کبھی نہ کبھی کوئی مفہوم ضرور برآمد ہوگا۔ہنگامی ضرورتوں والی شاعری سے تو یہ توقع بھی نہیں رکھی جاسکتی۔
    سردار جعفری صاحب نے یہ بھی فرمایا ہے:’’آزاد شاعری کا جو نمونہ راشد اور میرا جی نے قائم کیا تھا ‘وہ آگے چلا نہیں۔فیض نے، میں نے یا دوسرے ترقی پسند شعراء نے آزاد شاعری میں جو آہنگ اختیار کیا ہے ‘وہ جدید لکھنے والوں کے ہاں تک پہنچتا ہے لیکن راشد اور میراجی کی شاعری اپنی شناخت کھو چکی ہے‘‘۔
    ممکن ہے بعض لوگ یہ کہیں کہ اگر راشد اور میرا جی کی شاعری اپنی شناخت کھو چکی ہے تو پھر ترقی پسند شاعری تو اپنا سب کچھ کھو چکی ہے۔لیکن ہمیں اس قسم کی انتہا پسندانہ رائے سے اتفاق نہیں ہے۔راشد اور میراجی کی شاعری کی اپنی شناخت تھی تو اس نے کھوئی ‘ ترقی پسندشاعری کے پاس ہے کیا جو وہ کھوئے گی۔سردار جعفری نے دوران گفتگو کہا:’’برنارڈ شا نے ایک مرتبہ بڑی دلچسپ بات کہی تھی کہ میرا درزی ہر سال آکے میرا ناپ لے جاتا ہے۔تو یہ بات حالات اور ہمارے باہمی رشتے پر بھی منطبق ہوتی ہے۔حالات جو ہیں وہ برنارڈ شا ہیں اور ہم درزی ہیں‘‘۔
    ممکن ہے بعض رجعت پسند یہ کہیں کہ آپ درزی ہیں تو پھر آپ نے مصنفوں کی انجمن کیوں بنا رکھی ہے؟ان جملے باز رجعت پسندوں کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ درزیوں کی انجمن بنانے کے لیے ضروری ہے کہ درزی کا کام آتا ہو جبکہ مصنفین کی انجمن بنانے کے لیے اس قسم کے کسی تکلف کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔
    کتاب کا دوسرا باب سید سبط حسن کی گفتگو پر مشتمل ہے۔اس میں انھوں نے علامہ اقبال ؒسے اپنی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ انھوں نے اقبال سے پوچھا:’’اچھا صاحب ہمارے ہندوستان کے جو fl08_sibte_hasan_j_2666777gمسائل ہیں ان کا کیا حل ہے‘‘؟اقبال نے جواب دیا:’’سوشلزم‘کوئی نہ کوئی شکل سوشلزم کی اپنانی ہی پڑے گی‘‘۔قطع نظر اس سے کہ سید سبط حسن سے علامہ اقبالؒ کی ملاقات ان کی زندگی میں ہوئی تھی یا بعد میں‘ یہ واقعہ سید صاحب کو اس وقت کیوں یاد نہ آیا جب انھوں نے اپنا مشہور مضمون ’’فلسفہ شاہین ‘‘تحریر کیا تھا جس میں انھوں نے اس قسم کی باتیں لکھی ہیں:’’اقبال اقتدار پرست ہے اور دیوانگی کی حد تک اقتدار پرست۔وہ ہر قوت کا استقبال کرتا ہے۔ہر صاحب اختیار سے متاثر ہوتا ہے۔قوت واقتدار کی مدح سرائی اس کی شاعری کا اضطراری پہلو ہے اور اس دھن میں وہ تحقیق وجستجو اور عقل وتمیز کو بھی خیرباد کہہ دیتا ہے‘‘۔
    اس مضمون کا زمانہ تحریر سید صاحب کی نوجوانی بلکہ لڑکپن کا زمانہ تھا۔(پہلے یہ مضمون ’’پیام‘‘ حیدرآباد دکن میں اور پھر ’’نیا ادب‘‘ لکھنو میں شائع ہوا تھا) اب پہلے جیسا جوش وخروش باقی نہیں رہا ‘اس لیے اقبال کے بارے میں سید صاحب کی رائے میں خاصی تبدیلی آگئی ہے۔زیر نظر کتاب میں وہ فرماتے ہیں:’’Progress…..کا تصور مغرب میں اٹھارویں صدی کے بعد تیزی سے مقبول ہونا شروع ہوگیا تھا لیکن اقبال سے پہلے ہمارے ہاں اس کا کوئی وجود نہ تھا۔ اقبال نے ان تمام جدید تصورات سے ہمارے فکروادب کو متعارف کرایا اور کس کمال خوبی‘ہنر مندی اور فن کاری سے انھیں شعری قالب میں ڈھالا ہے، وہ بجائے خود بے مثال ہے۔بلکہ مجھے معاف رکھیں، میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ ترقی پسندشاعری اپنی تمام تر توانائی‘دل کشی‘نمو پذیری اور حقیقت آفرینی کے باوجود ملوکیت‘سرمایہ داری‘سامراج پر جو کچھ اقبال نے لکھ دیا ہے‘اس کے پاسنگ برابر ایک نظم بھی اپنے ہاں سے پیش نہیں کرسکتی ‘‘۔
    لیجیے سید صاحب نے تو ترقی پسند شاعروں کی لٹیا ہی ڈبو دی۔بےچارے نصف صدی سے شاعری کررہے ہیں اور شاعری کا ایک بھی ایسا نمونہ پیش نہ کرسکے جو اقبال کی کسی نظم کے پاسنگ ہوتا۔ سید صاحب کو اتنی بے مروتی سے کام نہیں لینا چاہیے تھا۔ حوصلہ افزائی کے خیال سے کم از کم یہی کہہ دینا چاہیے تھا کہ اگلی نصف صدی میں اس کا امکان کم ہے کہ ترقی پسند ایک آدھ ایسی نظم ضرور لکھ دیں گے جسے کلام اقبال کے ’’پاسنگ برابر‘‘قرار دیا جاسکے۔
    سید صاحب کے پاس ترقی پسند تحریک سے متعلق کچھ اہم کاغذات تھے۔یہ کاغذات چوری ہوگئے۔اس پر سید صاحب نے دلی صدمے کا اظہارکرتے ہوئے یہ تفصیلات بتائی ہیں:’’جب فیض صاحب ملک سے باہرجارہے تھے تو انھوں نے یہ چند کاغذات مجھے بھجوا دیے تھے۔حفاظت کے خیال سے اور میں نے انھیں اپنے ایک بیگ میں دوسرے اہم کاغذات کے ساتھ رکھ دیا تھا۔ایک روز کوئی چور صاحب دن دہاڑے گھر میں گھس آئے۔وہ سمجھے کہ بیگ میں کچھ رقم ہوگی‘اور اٹھا کر لے گئے اور نہ جانے کہاں پھینک دیا۔مجھے ان کاغذات کے گم ہوجانے کا انتہائی ملال ہے‘‘۔
    سید صاحب کا ملال برحق ہے‘لیکن ہم تو عوامی آدمی ہیں‘اس لیے ہمیں اس شخص کی محنت کے ضائع جانے کا ملال ہے جس نے سید صاحب کا بیگ اڑایا ‘اس توقع پر کہ اس میں رقم ہوگی ‘لیکن ایسے کاغذات نکلے جو اس کے نزدیک دو کوڑی کے بھی نہیں تھے۔سید صاحب سے گزارش ہے‘ کہ کاغذات کی گم شدگی کا غم چھوڑیے‘انجمن ترقی پسند مصنفین کی فکر کیجیے۔اسے اپنے بیگ میں نہ رکھیے۔کسی بنک کے لاکر میں رکھوا دیجیے۔
    ترقی پسندوں کی سیاست کا یہ پہلو بہت دل چسپ ہے کہ وہ اردو ہی کے ذریعے شہرت حاصل کرتے ہیں اور اردو ہی کو استعمار کی علامت قرار دیتے ہیں۔مقصد یہ ہوتا ہے کہ علاقائی زبانیں بولنے والوں کو یہ غلط احساس دلایا جائے کہ اردو کو زبردستی ان پر مسلط کیا جارہا ہے‘ اور ان کی زبانوں کے حقوق غصب کیے جارہے ہیں۔اس طریق کار کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ملک میں انتشار کی فضا پیدا ہوتی ہے۔سید صاحب نے بھی ترقی پسندوں کے اس معروف طریقہ واردات کو اپنایا ہے۔ فرماتے ہیں:’’اشتعال کی حد یہ ہے کہ اسے (اردو کو) مقتدرہ زبان‘یعنی صاحب اقتدار زبان کہا جارہا ہے‘‘۔ہمیں سید صاحب جیسے دانشور سے اس غلط بیانی کی توقع نہیں تھی۔کیا سید صاحب کسی بھی ایسے شخص کی نشان دہی کرسکتے ہیں جس نے اردو کو ’’مقتدرہ زبان‘‘کہا ہو۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سید صاحب مرکزی حکومت کے ایک ادارے’’مقتدرہ قومی زبان‘‘کے نام سے دھوکہ کھا گئے۔یہ ’’نیشنل لینگویج اتھارٹی‘‘ کا ترجمہ ہے جیسے کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا ترجمہ ’’مقتدرہ ترقیات کراچی‘‘ ہوگا۔کیا اس سے بھی سید صاحب یہی مطلب نکالیں گے کہ کراچی صاحبان اقتدار کا شہر ہے۔حالانکہ اس شہر میں 70 لاکھ محکوم ومظلوم آباد ہیں۔
    ’’گفتگو‘‘میں اور بھی کئی ’’مشاہرین‘‘ کی دل چسپ گفتگو سے صفحوں کے صفحے سیاہ کیے گئے ہیں۔مگر ہم میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ اس سیاہی یا سیاہ کاری سے اپنے کالم یعنی نامہ اعمال کو مزید سیاہ کریں۔
    (خامہ بگوش کے قلم سے، مرتب کردہ مظفر علی سید)