Blog

  • سعودی عرب میں دہشت گردی، کیا ہوا ، کیا ہو سکتا ہے؟ ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

    سعودی عرب میں دہشت گردی، کیا ہوا ، کیا ہو سکتا ہے؟ ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

    1096_96255163اسٹریٹیجک نوعیت کی کوئی بھی کارروائی کرتے ہوئے تین باتین بہت اہم رہتی ہیں :
    1. ہدف کا انتخاب،
    2. اس ہدف پر حملہ کے مطلوب نتائج
    اور
    3۔ اس کارروائی سے فریق مخالف کو کس قدر اور کس طرح نقصان پہنچایا؟ اس نقصان پہنچانے میں کہاں تک کامیابی ہوئی؟

    سعودی عرب میں 4 جولائی کو ہوئے 4 بم دھماکوں میں یہ تینوں باتیں نمایاں طور سے نظر آئیں۔

    ان دھماکوں کے متعلق بطور ایک فرد یا مسلمان ہماری جو بھی رائے ہو مگر یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ اس کے پیچھے نہایت کہنہ مشق دماغ کام کر رہا/ رہے ہیں۔ گو دانش کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم بطور مسلمان بھی اس بات پر ضرور توجہ دیں تاکہ ممکنہ عواقب کا درست طور اندازہ لگا سکیں۔

    اس منظم و مربوط کارروائی سے سعودی عرب کو بیک وقت تین اطراف سے ضرب لگائی گئی ہے۔
    1۔ مملکت کے مشرق میں واقع شیعہ علاقوں اور شیعہ شہریوں کی حفاظت اور وہاں کے حالات پر سوالات اٹھیں گے، بالخصوص ایران اور اس کے حمایتی حلقوں کی جانب سے۔
    2۔ امریکی قونصل خانے کے قرب میں حملہ سے مغربی ممالک میں تشویش کی لہر اٹھے گی اور وہ سعودی عرب پر بہتر سیکورٹی کے لیے دباؤ ڈالیں گے۔
    3۔ سب سے بڑی کارروائی (اپنے اثرات کے حوالہ سے) مدینہ منورہ میں ہوئی جہاں عین مسجد نبوی ﷺ کے عقب میں ایک دھماکہ ہوا جہاں مبینہ حملہ آور کے علاوہ چار سیکورٹی اہلکار جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔maxresdefault (1)
    اس حملہ سے پوری مسلم دنیا میں تشویش اور سراسیمگی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ گو حملہ آور مسجد نبوی ﷺ میں داخل نہ ہوا لیکن بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس کا ہدف بھی نہیں تھا۔ جہاں اس نے پہنچنا تھا، وہ پہنچا اور اس نے اپنا کام کر دیا۔ اس کی اصل اہمیت ایک طرح کا اعلان ہے کہ ہم یہاں تک پہنچ چکے۔

    مدینہ منورہ ہی نہیں باقی دو دھماکوں میں بھی جانی نقصان کچھ خاص نہیں ہوا لیکن اس کی علامتی حیثیت بہت بڑی ہے۔
    1۔ “ہم” موجود ہیں۔
    2۔ کہاں کہاں موجود ہیں
    3۔ کیا کچھ کر سکتے ہیں
    اور ۔۔۔۔
    4۔ کتنے اطمینان سے مختلف جگہ پر بیک وقت کاروائی کر سکتے ہیں۔ سعودی سیکورٹی نظام اس وقت نہایت خفت اور شدید ترین پریشانی کے عالم میں ہوگا۔ سفارتی سطح پر شرمندگی کے علاوہ مقامات مقدسہ اور زائرین کے تحفظ کا سوال کھڑا ہو سکتا ہے یا کیا جا سکتا ہے۔

    علامتوں کی بات چل رہی ہے تو ایک اور علامت جسے نظر میں رہنا چاہیے. جدہ دھماکہ کے حملہ آور کا مبینہ طور پاکستانی ہونا ہے۔ سعودی عرب اس سب کا ردعمل کس طرح دیتا ہے، یہ آنے والے دنوں میں سب سے اہم سوال ہوگا۔ کیا وہ ایک مکمل سیکورٹی سٹیٹ میں ڈھل جائے گا؟ تارکین وطن کے حوالے سے اس کی پالیسیاں کیا رہیں گی؟ ایران کے ساتھ تعلقات کا یہ بگاڑ جاری رہے گا؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ حج اور عمرہ کے انتظامات کے لیے کیا نئے اقدامات اٹھائے جائیں گے؟

    یہ بھی اہم ہوگا کہ دہشت گردی کے خلاف جس 34 ملکی اتحاد کی بات ہم نے سنی، اس کی عملی صورت اب کیا ہوگی؟ وہ کیسے اور کس سطح پر فعال ہو سکے گا؟ یہاں پاکستان کے رول کے متعلق بھی بات اب زیادہ دیر مبہم نہیں رہ پائے گی کیونکہ جس سرخ نشان سے پاکستان نے اپنی شمولیت مشروط کر رکھی تھی اس تک تو بات پہنچ گئی. مقامات مقدسہ تک بھی اپنی رسائی ظاہر کر دی دہشت کے سرخیلوں نے۔ چنانچہ سعودی فیصلہ ساز اب پاکستان سے کچھ بڑھ کر کرنے کی توقع کر رہے ہوں گے۔ دوسری جانب پاکستان کسی ایسے قضیہ میں نہیں الجھنا چاہے گا جہاں دہشت گردی کے خلاف جاری اس کی اپنی جدوجہد متاثر ہو یا پھر اس کی معاشی بحالی کی کوششیں متاثر ہوں جو وہ کر رہا ہے بالخصوص چین کے ساتھ مل کر۔ یہ عین متوقع ہو گا کہ پاکستان کی کھلم کھلا شمولیت پاکستان کے اندر بھی کارروائیوں کا سبب بن جائے ۔raheel-sharif-nawaz-sharif

    بہرحال، پاکستان کو ہر قسم کی صورتحال کے لیے خود کو تیار کرنا ہوگا ، اور اس کے لیے دستیاب وقت شاید بہت زیادہ نہ ہو۔ پاکستان کو فی الفور اپنے ایسے تمام اندرونی تنازعات کو سمیٹنا ہوگا جو کسی بھی موقع پر اس کے لیے کمزوری کا باعث ہو سکیں۔ اس میں جاری سیاسی کشمکش اور سول ملٹری تعلقات کی موجودہ صورتحال سر فہرست ہے۔ ادھر سعودی عرب کو بھی سفارتی میدان میں چند بڑے فیصلے کرنا ہوں گے خواہ وہ مغرب کے ساتھ تعلقات ہوں، پڑوسی ممالک کے ساتھ یا پھر ایران کے ساتھ۔

    دہشت گردوں، یا سعودی عرب کے بدخواہوں کی جانب سے ارادہ سامنے آگیا ہے۔ سعودی عرب میں کتنا سفارتی، سیاسی اور انتظامی دم خم ہے ، اور پاکستان کی حکمت عملی کیا رہے گی؟ یہ آئندہ چند ہفتوں میں واضح ہو جائے گا۔

  • مسجد نبوی ﷺ پر پہلے تین حملے. کس نے اور کب کیے؟ عمران زاہد

    مسجد نبوی ﷺ پر پہلے تین حملے. کس نے اور کب کیے؟ عمران زاہد

    13240137_10154942007179478_5318697126467014080_n ہمارے نبی کریم ﷺ کے شہر میں دھماکوں سے روح تک زخمی ہو گئی ہے۔ لیکن یہ کوئی پہلا حملہ تو نہیں ہے ۔۔۔۔۔ اس سے پہلے بھی حملے ہو چکے ہیں۔ نبی کریم ﷺ کے نام پہ پہلے بھی لوگ اپنی جانیں فدا کرتے آئے ہیں اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔ لیکن اس شہر کی رونقوں کو کبھی ماند نہیں پڑنے دیں گے۔
    :
    آج کے حملے نے مدینہ پرہونے والے پہلے ہونے والے حملوں کی بھی یاد تازہ کر دی۔ آئیے ان حملوں کو بھی تاریخ کے جھروکوں میں سے جھانک کے دیکھتے ہیں۔ (آج کے حملہ آور کہیں انہی کی نسل میں سے نہ نکل آئیں)
    :
    ۳ – تیسرا حملہ:
    تیسرا حملہ 63 ہجری میں ہوا تھا۔ مدینہ پہ شامی افواج نے چڑھائی کی تھی۔ اس حملے میں انصار ومہاجرین کے گھرانوں کے سینکڑوں افراد شہید ہوئے (تاریخ کی بعض روایات میں دس ہزار سے زائد افراد کی شہادت کی خبر ملتی ہے)۔ خواتین کی بے حرمتی ہوئی اور تین دن تک مسجد نبوی میں نماز نہ ہو سکی۔ تاریخ کی کتابوں میں اس افسوسناک واقعہ کو واقعہ حرۃ کہتے ہیں۔
    :
    مسلمانوں کی خلافت قیصر و کسریٰ کی ملوکیت میں تبدیل ہو چکی تھی۔ یہ یزید بن معاویہ کا دورِ حکومت تھا اور چند سال پہلے کربلا میں نواسہ رسول حضرت امام حسین رض کی شہادت کا المناک واقعہ پیش آ چکا تھا۔ حضرت حسین رض نے کربلا میں اپنی جان دے کر یہ ثابت کر دیا تھا کہ مسلم شعور جبر اور رشوت کی جعلی خلافت (ملوکیت) کو کبھی قبول نہیں کر سکتا۔ ایسی حکومت اسلامی نظام حکومت کی جڑ کاٹنے کے مترادف ہے۔ ایسی حکومت کو قبول کرنے کی نسبت اس کی مخالفت میں جان دینا افضل ہے۔ حضرت امام حسین کی قربانی کا اعجاز تھا کہ اس واقعے کے بعد پورے حجاز میں یزید کے خلاف غم و غصہ اور نفرت اپنے عروج پر پہنچ گیا تھا اور وہاں سے ایک انقلاب اٹھ رہا تھا۔ ظالمانہ حکومت سے بغاوت کے بادل ہر جگہ چھا رہے تھے۔
    :
    اہل مکہ نے یزید کو رد کر کے عبد اللہ بن زبیر کے ہاتھ پر بیعت کر لی تھی اور اہل مدینہ بھی یزید کے خلاف ہو چکے تھے۔ اس صورتحال میں یزید سلطنت اسلامیہ میں مزید کشت و خون نہیں چاہتا تھا۔ اس مقصد کے لئے اس نے اہل مدینہ کو سمجھانے کے لیے ان کا ایک وفد دارالحکومت دمشق بلوایا۔ امیر مدینہ عثمان بن محمد نے یہ وفد عبد اللہ بن حنظلہ کے ہمراہ دارالحکومت دمشق روانہ کیا۔ یزید کے وفد سے نرم سلوک اور انعام و اکرام سے نوازنے کے باوجود سانحۂ کربلا کے نتیجے میں پیدا ہونے والا غم و غصہ برقرار رہا اور اہل مدینہ امویوں کے کھلم کھلا مخالف بن گئے۔ اس مخالفت کے نتیجے میں اموی خاندان کے افراد کو مدینہ سے نکال دیا گیا۔
    :
    ان واقعات کا علم جب یزید کو ہوا تو اس نے مسلم بن عقبہ کو مدینہ پر فوج کشی کا حکم دیا۔ مسلم بن عقبہ یزید کے حکم پر بارہ ہزار آدمیوں کا لشکر لے کر مدینہ کی جانب روانہ ہوا۔ لشکر کی روانگی کے وقت یزید نے بذات خود چند احکامات کی پابندی کا حکم دیا۔ وہ احکامات یہ تھے:
    :
    ۱۔ اہل مدینہ کو تین دن کی مہلت دینا تاکہ وہ اس عرصے میں کوئی فیصلہ کر لیں
    ۲۔ تین دن کے بعد اگر وہ اطاعت قبول نہ کریں تو جنگ کرنا
    ۳۔ جنگ میں کامیابی کی صورت میں تین روز تک قتل عام جاری رکھنا اور مال و اسباب لوٹنا
    ۴۔ علی بن حسین کو کوئی نقصان نہ پہنچانا۔
    :
    ان احکامات پر عمل کرنے کا وعدہ کر کے مسلم بن عقبہ اپنے لشکر کے ہمراہ مدینہ کی جانب روانہ ہوا۔ مدینہ کے قریب پہنچ کر مسلم نے اہل مدینہ کو مصالحت کی دعوت دی اور ساتھ ہی تین دن کی میعاد مقرر کی۔ لیکن اس عرصے میں اہل مدینہ خاموش رہے۔ تین دن کے بعد مسلم بن عقبہ نے اہل مدینہ کو جنگ یا صلح میں سے ایک راستہ اختیار کرنے کی دعوت دی۔ اہل مدینہ یزید کی اطاعت قبول کرنے پر تیار نہ تھے، انہوں نے جنگ کو ترجیح دی۔
    :
    جنگ میں مدنی لشکر کی قیادت عبد اللہ بن حنظلہ نے کی لیکن اہل مدینہ کو شکست ہوئی اور ان کے کئی اکابرین شہید ہوئے۔ مسلم نے فتح حاصل کرنے کے بعد یزید کے حکم کے مطابق قتل و غارت گری کی اور یہ سلسلہ تین دن تک جاری رہا۔ اس واقعے میں سینکڑوں شرفائے قریش و انصار اور دیگر قبائل کے آدمی کام آئے۔ تین دن کےبعد باقی ماندہ لوگوں سے بیعت کرنے پر اصرار کیا گیا۔ ان سے جبراً تلوار کی نوک پر بیعت لی گئی۔ بیعت سے انکار کرنے والے کا سر قلم کر دیا جاتا۔ امام زین العابدین بھی پیش ہوئے لیکن یزید کی ہدایت کے مطابق ان سے کوئی سختی نہ کی گئی۔
    :
    یزید کا دورِ حکومت مسلم تاریخ کا سیاہ ترین باب قرار پایا۔ جسے چھپائے نہیں چھپایا جا سکتا۔۔۔۔۔ آج کے حملے میں حملہ آور کا نام چاہے جو بھی ہو لیکن وہ یزید کی روحانی اولاد ہے۔
    :
    ۲- دوسرا حملہ:
    دوسرا حملہ 35 ہجری میں تب ہوا جب حضرت عثمان غنی رض کی خلافت میں بغاوتوں نے سر اٹھایا۔ پورے عرب سے باغی مدینہ میں جمع ہو گئے اور گلیوں میں دندناتے پھرتے تھے۔ انہوں نے خلیفہ سوم کی رہایشگاہ کا سخت محاصرہ کر لیا تھا جو کہ کئی روایات کے مطابق چالیس دنوں تک طول پکڑ گیا۔ انکا پینے کا پانی تک بند کردیا گیا۔ مدینہ میں موجود صحابہ اور دوسرے اصحاب حضرت عثمان سے اجازت طلب کرتے رہے کہ انہیں باغیوں سے لڑنے کی اجازت دی جائے، لیکن حضرت عثمان اپنے لئے مسلمانوں کا خون بہانا مناسب نہیں سمجھتے تھے۔
    بالاخر 18 ذی الحجہ 35 ھ کو نبی اکرمﷺ کے اس محبوب خلیفہ اور آپ کی اہلیہ کو اس مظلومانہ انداز میں قتل کر دیا گیا کہ آپ قرآن کی تلاوت کر رہے تھے ، کئی دن کے روزے سے تھے ،اور اپنے گھر میں محصور تھے۔
    :
    ۱ – پہلا حملہ :
    حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد مدینۃ الرسول پر پہلا حملہ حضرت عمر فاروق رض پر ہوا تھا۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ رض کا ایک مجوسی غلام ابولولو حضرت عمر فاروق کے پاس اپنے مالک کی شکایت لے کر آیا کہ اس کا مالک اس سے روزانہ چار درہم وصول کرتے ہیں آپ اس میں کمی کرا دیجئے۔ امیر المؤمنین نے فرمایا تم بہت ہنرمند ہو، چار درہم روز کے تمہارے لئے زیادہ نہیں ہیں۔ یہ جواب سن کر وہ غصّے میں آگ بگولہ ہو گیا اور آپ کو قتل کرنے کا ارادہ کر لیا اور اپنے پاس ایک زہر آلود خنجر رکھ لیا۔ 26 ذی الحجہ 23ھ بروز بدھ آپ نماز فجر کی ادائیگی کے لئے مسجد نبوی میں تشریف لائے۔ جب آپ نماز پڑھانے کے لئے کھڑے ہوئے تو ابولولو آپ پر حملہ آور ہو گیا اور اتنا سخت وار کیا کہ آپ بُری طرح زخمی ہو گئے اور تین دن کے بعد تریسٹھ برس کی عًُمر میں جامِ شہادت نوش فرمایا۔
    اللہ ان تمام سازشوں، مخالفتوں اور بغاوتوں کے باوجود نبی کے شہر کو ہنستا بستا رکھے کہ یہ وہ شہر ہے جو تمام مسلمانوں کے دل کا چین اور سکون ہے۔ ہمارے ایمان کا مرکز و محور ہے۔
    (واقعات کی تفصیلات وکی پیڈیا اردو سے لی گئیں)

  • مدینہ منورہ میں دہشت گردی، فیض اللہ خان کا تجزیہ

    مدینہ منورہ میں دہشت گردی، فیض اللہ خان کا تجزیہ

    10525943_1543930889188656_8708287563584166301_nبہت سے احباب مدینہ میں کی گئی دہشت گردی کی بھیانک واردات کو حرم مدنی پہ براہ راست حملہ قرار دے رہے ہیں ، میرا خیال ہے کہ اس سے گریز بہتر ہے کیونکہ ایک تو اس سے عام مسلمانوں کو بہت غلط پیغام جا رہا ہے اور دوسرا یہ کہ حملہ مسجد کے قریب تعینات سیکیورٹی فورسز پہ ہوا ہے یعنی کہ ہدف طے شدہ تھا، حملہ آور کے لیے مسجد جانا قطعی مسئلہ نہیں تھا
    ابھی تک واضح نہیں کہ ان حملوں کے پیچھے کون ہے ؟ لیکن اس وقت سعودی حکام حوثی قبائل اور دولت اسلامیہ سے حالت جنگ میں ہیں اور ان سے کچھ بعید نہیں ہے۔ سعودی حکام، ان کی پولیس و فوج کی بابت دولت اسلامیہ کے کھلے عام مرتد ہونے کے فتاوی موجود ہیں ، دولت اسلامیہ کو اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ عام مسلمان ان کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟ علماء کیا رائے رکھتے ہیں؟ اور ان کے عمل اسلام اور مسلمانوں کو کیا اور کتنا نقصان پہنچے گا؟ ان کی اپنی ہی فکر ہے جس پہ پوری قوت سے جمے ہوئے ہیں۔ ان کے رویے اس قدر انتہا پسندانہ رہے کہ ڈاکٹر ایمن الظواہری کی القاعدہ تک کو ان سے فاصلے اختیار کرنے پڑے
    سعودی حکام کی پالیسیوں کے خلاف پہلی بڑی بغاوت اسامہ بن لادن نے کی تھی۔ یہاں تک کے ان دنوں ریاض و خبر میں امریکی فوجیوں پہ ہونے والے حملوں کو انھوں نے خوب سراہا، خود القاعدہ کے سعودی جنگجو عبدالعزیز عیسی المقرن نے سعودی سیکورٹی اہلکاروں اور غیر ملکیوں پہ دو ہزار تین ، چار میں متعدد حملے کیے۔ بعد ازاں المقرن ایک پولیس مقابلے کی نذر ہوا
    القاعدہ نے وزیر داخلہ محمد بن نائف (جو اب ولی عہد ہیں) پر ایک خود کش حملہ بھی کرایا جو کہ ناکام رہا ، لیکن اس سب کے باوجود القاعدہ نے حرم مکی و مدنی میں حملوں سے ہمیشہ گریز کیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ مسلم رائے عامہ اس حوالے سے کتنی حساس ہے
    دوسری طرف دولت اسلامیہ ہے جسے اپنی کسی بھی کارروائی کے لیے رائے عامہ کی پروا نہیں ہوتی ، اس کے سفاک عسکریت پسند وہی کرتے ہیں جسے درست سمجھتے ہیں۔
    یہ امر حیران کن ہے کہ اتنی شدت رکھنے کے باوجود اسے نیا خون مسلسل مل رہا ہے۔
    اس عہد کا چیلنج دولت اسلامیہ بن چکی لیکن افسوس کہ اس سے نمٹنے کے لیے روایتی طریقے اختیار کیے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے وہ ابھی بھی مئوثر انداز میں اپنی دہشت گرد کارروائیاں بیک وقت کئی ممالک میں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
    گزشتہ دس دنوں کے دوران دولت اسلامیہ استنبول، ڈھاکہ و بغداد کو خون میں نہلا چکی۔
    ایسے میں یہ ہلاکت خیز حملے بتا رہے ہیں کہ ابھی کشت و خون کا سیلاب مزید بہے گا اور مستقبل کئی خدشات لیے ہمارے آگے کھڑا ہے
    نجانے اس کا انجام کیا ہوگا ؟

  • قومی مذہبی رجحانات اور ترقی میں تعلق – ارمغان احمد

    قومی مذہبی رجحانات اور ترقی میں تعلق – ارمغان احمد

    گزشتہ کچھ عرصے سے پاکستان میں ایک خاص معزز گروہ کی طرف سے بار بار یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ پاکستان کے مسائل کی وجوہات مذہبی ہیں- – زیادہ مخصوص ہو کر بات کی جائے توان کے انتہائی لمبے مکالمے اور کہانی کا نچوڑ ان باتوں کو الزام دینے پر ختم ہوتا ہے-
    1- قادیانوں کو غیر مسلم قرار دینے والی آئینی ترمیم
    2 – قرارداد مقاصد
    3 – اسلامی جمہوریہ پاکستان کا “اسلامی”
    4 – اسلامی نظریاتی کونسل

    ان محترم دوستوں کے قیمتی خیال میں اگر پاکستان میں “سیکولرازم” نافذ ہو جائے تو پاکستان کے زیادہ تر مسائل حل ہو جائیں گے، اور ان کے خیال میں پاکستان کے جو مسائل ہیں وہ پہلے ہی اوپر بتائے جا چکے- راقم کو رائے سازی کے سلسلے میں تجربات کا کافی شوق ہے- ایک بار ہمیں ایک بہت ہی پرجوش سیکولر سے گفتگو کا اعزاز حاصل ہوا- ان کی خدمت میں کچھ مثالیں پیش کیں، جو یوں ہیں-
    1 – مغرب کے کچھ ممالک (جو سیکولر ہیں) میں چرچ دن میں چوبیس بار گھنٹے بجا سکتے ہیں مگر اتنی ہی آواز سے مسلمان دن میں پانچ باراذان نہیں دے سکتے
    2 – مغرب کے کچھ سیکولر ممالک میں چرچ اپنی خاص طرز تعمیر کے تحت تعمیر ہو سکتے ہیں مگر مساجد کے میناروں کی اجازت نہیں
    3 – اسی مغرب کے کچھ سیکولر ممالک میں آپ کتنا لباس اتارنا چاہتے ہیں یہ تو آپ کی ذاتی آزادی ہے مگر کتنا پہننا چاہتے ہیں، اس میں ریاست دخل اندازی کا حق رکھتی ہے- مثلا نقاب کو تو چھوڑیں سکارف تک لینے پر پابندی اور جرمانہ عائد کیا جاتا ہے
    4 – اسی مغرب کے کچھ سیکولر ممالک جو آزادی اظہار رائے کے سب سے بڑے چیمپئن بھی واقع ہوئے ہیں، وہاں آئینی طور پر “ہولو کاسٹ” پر شک کا اظہار کرنا، اس کا انکار کرنا، اس پر تحقیق کرنا اس نیت کے ساتھ کہ اصل قتل ہونے والی تعداد معلوم کی جائے، ایک ایسے جرم کی حیثیت رکھتا ہے، جس پر آپ کو جیل تک ہو سکتی ہے
    5 – چلیں اب مغرب کو چھوڑ دیں، اپنے ہمسائے میں چلیں- بھارت آئینی طور پر ایک سیکولر ملک ہے اور وہاں مذہبی وجوہات کی بنا پر بہت سی ریاستوں میں گائے کے ذبیحہ پر پابندی ہے

    یہ تمام مثالیں ان کی خدمت میں پیش کر کے عرض کیا کہ چلیں ہم بھی مکالمے کی غرض سے فرض کر لیتے ہیں جیسے اوپر بیان کیے گئے “سیکولر” ممالک میں ان کے خصوصی زمینی حقائق کے تحت آئین کی کچھ شقیں ایسی ہیں جو “غیر سیکولر” ہیں، بالکل اسی طرح پاکستان بھی “سیکولر” ہو گیا مگر قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی شق ایسے ہی رہے گی- تو کیا آپ مطمئن ہو جائیں گے؟ اس پر میرے محترم دوست کچھ یوں تڑپے جیسے ان کو آگ میں دھکیل دیا گیا ہو، فورا بولے: “یہ کیسا سیکولرازم ہوا جی؟ یہ تو کوئی سیکولر ازم” نا ہوا- مزید مزے کی بات یہ کہ پھر میں نے ان کی خدمت میں اگلی صورتحال پیش کی- “فرض کر لیجیے کہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے والی شق ختم ہو جاتی ہے مگر باقی سب کچھ ویسے کا ویسا ہی رہتا ہے”- اس پر ان کے الفاظ جیسے تھے ویسے ہی نقل کر رہا ہوں: “ہاں اس پر سوچا جا سکتا ہے- دیکھیں اسلامی نظریاتی کونسل کا کردار محض ایڈوائزری ہے، اسی طرح قرارداد مقصد محض آئین کا دیباچہ ہے اور خیر ہے پاکستان کے نام میں اسلامی بھی ٹھیک ہی ہے”- اب اس مکالمے کا منطقی نتیجہ کیا نکلتا ہے، وہ فیصلہ اپنے قارئین پر چھوڑ دیا-

    اس کے بعد ہماری گفتگو کا رخ سیکولرازم کے نتائج و عواقب اور فوائد کی طرف پھر گیا- انتہائی پرجوش انداز میں وہ گویا ہوئے کہ جن ممالک میں بھی مذہب کو اہمیت دی جاتی ہے، وہ پسماندہ رہ گئے جبکہ جن ممالک میں بھی مذہب کو پس پشت ڈال دیا گیا وہ ترقی کر گئے- اس سلسلے میں انہوں نے ایک ڈیٹا پیش فرمایا- اس ڈیٹا کی تصویر نیچے دی جا رہی ہے- اس ڈیٹا کو پیش کر کے انھوں نے فرمایا کہ اس سے ان کا دعوی درست ثابت ہوتا ہے-
    chartoftheday_4189_which_nationalities_consider_religion_most_important_n
    خیر فدوی نے اس ڈیٹا پر غور کرنے کی جسارت کی تو مندرجہ ذیل حقائق سامنے آئے۔
    1 – مسلمان ممالک جیسے کہ انڈونیشیا اور ملائشیا مذھب کو کافی اہم سمجھتے ہیں مگرپھر بھی ان کی ترقی کی رفتار تسلی بخش ہے
    2 – ترکی جو ایک مسلمان ملک ہے اور امریکا جو ایک غیر مسلم ملک ہے دونوں میں نصف سے زیادہ آبادی مذہب کو اپنی زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت دیتی ہے اور ترکی اسلامی ممالک میں شاید ترقی یافتہ ترین اور امریکا تو خیر پوری دنیا کی سپر پاور ہے
    3 – بھارت، پاکستان اور چین ایشیا میں ہی واقع ہیں مگر ان ممالک میں مذہب کو اہم ترین معاملہ سمجھنے والوں کے سلسلے میں متضاد قسم کے رجحانات ہیں- مثلا بھارت میں 80 فیصد لوگ مذہب کو زندگی کا اہم ترین معاملہ سمجھتے ہیں، پاکستان میں 92 فیصد جب کہ چین میں محض 3 فیصد- چین ترقی یافتہ ترین ہے، بھارت بھی ایک بہت اہم علاقائی طاقت ہے اور پاکستان کے حالت نسبتا برے ہیں مگر اتنے بھی نہیں جتنے وینزویلا کے تیل کے بےتحاشا ذخائر اور مذہب میں محض 42 فیصد دلچسپی رکھنے والی آبادی کے باوجود ہیں
    4 – ویتنام کا مذہبی رجحان ترکی، انڈونیشیا، ملائشیا اور پاکستان چاروں سے کم ہے مگر اس کے حالات بھی کوئی اتنے قابل رشک نہیں ہیں

    شماریات کے تمام اصولوں کے مطابق اس ڈیٹا سے ہرگز ہرگز یہ ثابت نہیں ہوتا کہ جتنی کوئی قوم غیرمذہبی ہو گی، اتنی ہی وہ ترقی یافتہ ہوگی- خیر تھوڑی مزید ریسرچ کی تو معلوم ہوا کہ وہ تمام ممالک جو ترقی یافتہ ہیں یا ترقی کر رہے ہیں ان میں مشترکہ خصوصیت مذہب بیزاری نہیں بلکہ کچھ اور ہے- اب وہ مشترکہ خصوصیت کیا ہے؟ وہ ہے جناب: “غیر سیاسی پولیس، طاقتور بلدیاتی نظام، تعلیم، صحت اور بہترین نظام عدل”

    یہ تمام معلومات جان کر مجھے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ایک قول بری طرح یاد آیا:
    “کفر کی بنیاد پر کوئی معاشرہ قائم رہ سکتا ہے مگر ظلم کی بنیاد پر نہیں”

    اس تمام مضمون کا حاصل کلام یہ ہے کہ پاکستان کا مسئلہ اس وقت یہ نہیں ہے کہ اس کو مزید اسلامی کیا جائے یا سیکولر کیا جائے بلکہ یہ ہے کہ یہاں ایماندار غیر سیاسی پولیس ہو، یہاں بہترین نظام عدل ہو، یہاں طاقتور بلدیاتی نظام ہو، یہاں تعلیم اور صحت کی سہولیات ہوں- جب عوام کے پیٹ میں روٹی اور ذہن میں شعور جائے گا تو باقی کے فیصلے وہ خود کر لیں گے کہ ان کو کون سا نظام چاہیے- اس سے پہلے یہ مذہبی اور سیکولر مباحث قوم کی توجہ بنیادی مسائل سے ہٹا دیتے ہیں- بے وقت کی راگنی ہیں اور یہ ایسے ایشوز ہیں جن پر نہ تو مذہبی رجحانات رکھنے والے دوستوں کو کوئی اختلاف ہے نا سیکولر رجحان رکھنے والوں کو- تو ہم اختلافات میں جانے کے بجائے اور قوم کو غیر مثبت، غیر تعمیری ذہنی لڑائی میں الجھانے کے بجائے ان بنیادی معاملات پر یکسو کیوں نہیں ہوتے؟ ان معاملات میں متحد کیوں نہیں ہوتے؟ ہم ڈیولز ایڈووکیٹ کا کردار ادا کرنے پر مصر کیوں رہتے ہیں؟ ان سوالوں کا جواب بھی ہم اپنے قارئین پر چھوڑتے ہیں-

  • تجھ سے ہے میری تمناؤں کی دنیا پُرنور – ہمایوں مجاہد تارڑ

    تجھ سے ہے میری تمناؤں کی دنیا پُرنور – ہمایوں مجاہد تارڑ

    12510238_992882284129170_8202808987580135765_nجس طرح خونی رشتوں کی محبت ایک فطری امر ہے، اسی طرح وطن سے محبت بھی بلاتکلّف ہوا کرتی ہے۔ کہتے ہیں جسے وطن سے محبّت نہ ہو، وہ دنیا کی کسی شے سے محبّت نہیں کر سکتا۔ نیز یہ کہ وطن کی محبّت اپنے گھر کی محبّت سے بھی سوا، اس پر حاوی ہوا کرتی ہے۔ کیوں نہ ہو، کہ آپ فکری اور ثقافتی اعتبار سے اس خطہِ زمیں سے جڑے ہوتے ہیں جہاں آپ پیدا ہوئے۔ جس مٹّی کے سینے پر اٹھتے بیٹھتے، مسائل سے نمٹتےآپ کے شب و روز گزرے ہوں، جس دھرتی کی گود میں پروان چڑھتے آپ نے زندگی کی بیسیوں بہاریں دیکھی ہوں، اور جس کی خزاں رُت کی اداسیوں سے ہم رابطہ رہے ہوں، اس کی چاہ، اس کی لگن کا رگوں میں لہو بن کر سدا رواں رہنا، گاہے ابل ابل پڑنا ایک طبعی امر ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔ یوں، وطن سے محبت میں جذبات کا چھلک چھلک سا جانا، اس خاطر مضطرب ہونا اور دگرگوں حالات میں جان تک نثار کرڈالنا فطری باتیں متصوّر ہوتی ہیں۔
    حب الوطنی ایک فطری جذبہ ہے جس کا اظہار ہر خطّے کے باسی اپنے اپنے انداز میں کرتے، اور اس میں آئے دن رنگ بھرتے رہتے ہیں۔ امریکی صدر جان ایف کینیڈی کا مشہور جملہ ہے: “ہم وطنو، یہ مت کہو کہ آپ کا ملک آپ کو کیا کچھ دے سکتا ہے،، بلکہ یہ کہو کہ آپ اپنے ملک کوکیا کچھ دے سکتے ہو۔”
    ذرا یہ لائنیں ملاحظہ ہوں:
    تجھ سے ہے میری تمناؤں کی دنیا پرنور
    عزم میرا ہےقوی، میرے ارادے غیّور
    میری ہستی میں انا ہے، میری مستی میں شعور
    جاں فزا میرا تخیل ہے تو شیریں ہے سخن
    اے مرے پیارے وطن!
    میرا دل تیری محبت کا ہے جاں بخش دیار
    میرا سینا تیری حرمت کا ہے سنگین حصار
    میرے محبوب وطن تجھ پہ اگر جاں ہو نثار
    میں یہ سمجھوں گا ٹھکانے لگا سرمایہ تن
    اے میرے پیارے وطن!
    رگ و پے میں برق سی دوڑ جاتی ہے۔ ہے نا؟ جیسے آسمانی بجلی اچانک ہمارے آنگن میں گر پڑے۔
    حبّ وطن کے تقاضے پورا کرنے کو اگر ایک صنعت کار اچھی صنعت کے ذریعے خدمت بجا لاتا ہے، ایک معلّم بذریعہ عمدہ تدریس، اور ایک فوجی سرحد کی حفاظت میں فرض شناسی کی صورت تو ایک شاعر اپنے اور اپنے ہم وطنوں کے جذبات کی عکاسی کرتے ہوئے کھرے اورلطیف جذبات کا نذرانہ پیش کرتا ہے، کہ حرف و خیال کو سلیقے سے برتنے کا ہنر ہی وہ سوغات ہے جسے وہ ماں دھرتی کے حضور پیش کر سکتا ہے۔ خلوص کی حدّت لیے ایسا کلام اپنے وطن کے حضور پیش کرنا ہی اس کا ‘عمل’ کہلائے گا، کہ یہی اس کا کل اثاثہ ہے۔ بلا شبہ ایسا کلام ہزارہا دلوں کا ترجمان ہوتا ہے جو سب لوگوں کا خون برابرگرما دیتا، ان کی کیفیات بدل دیتا ہے۔
    کون بھول سکتا ہے سن 65 کی جنگ ستمبر کو۔ اُن ہوش ربا ، روح فرسا ساعتوں میں قوم کا، اور بالخصوص فوجی بھائیوں کا مورال بلند رکھنے میں حمایت علی شاعر کی شاعری اور خلیل احمد کی موسیقی سے سجے’’ساتھیو! مجاہدو! جاگ اٹھا ہے سارا وطن‘‘ ایسے ملّی نغموں نے پاکستانی قوم میں گویا ایک نئی روح پھونک دی تھی جس کی بنا پر یہ دشمن کے روبرو ایک فولادی قوت بن کر کھڑی ہو گئی۔ یوں، ہمیں ناقابلِ تسخیر بنا ڈالنے میں اس شاعرانہ کلام نے بھی خوب حصّہ ڈالا۔۔ وہ کلام، وہ نغمے آج بھی سامعین اور فوجی بھائیوں کے جذبات کو گرما دیتے ہیں۔
    سرفروشی ہے ایماں تمھارا
    جراتوں کے پرستار ہو تم
    جو حفاظت کریں سرحدوں کی
    وہ فلک بوس دیوار ہو تم
    چاند تاروں کے اے راز دانو
    میرے نغمے تمہارے لیے ہیں
    الحمد للہ، اردو زبان اپنے ہاں حبّ الوطنی پر مبنی شاعری کا قابلِ قدر خزینہ رکھتی ہے۔ہمارے قابلِ صد افتخارشعرا، خواہ وہ بائیں بازو سے ہوں یا دائیں بازو سے، سب اس عظیم دھرتی سے اپنی والہانہ محبتوں کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ ہم ایسی تمام ادبی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے اور انھیں اس دھرتی کا بیش قیمت سرمایہ خیال کرتے ہیں۔ آخر میں ذوقِ طبع کے لیے پیشِ خدمت ہیں پروین شاکر مرحومہ کے خوبصورت اشعار۔دُعا ہے کہ اللہ کریم انہیں اور ہمارے دیگر شعرا و ادبا کو بھی ایسے شہپارے تخلیق کرنے کے عوض آسانیاں عطافرمائے، اور غریقِ رحمت کرے۔
    بخت سے کوئی شکایت ہے نہ افلاک سے ہے
    یہی کیا کم ہے کہ نسبت مجھے اس خاک سے ہے
    خواب میں بھی تجھے بھولوں تو روا رکھ مجھ سے
    وہ رویّہ جو ہوا کا خس و خاشاک سے ہے
    یہ شعر دیکھیں:
    بزمِ انجم میں قبا خاک کی پہنی میں نے
    اور مری ساری فضیلت اِسی پوشاک سے ہے

    یعنی (میرے ناقص فہم کے مطابق) بلندیوں کے سفر میں، تحسین و ستائش سے معمور برکھا رُت میں نہال، چاہے جانے کی کیف آگیں ساعتوں میں بھی کہ جب خود کو کچھ خاص سمجھ بیٹھنے، خود فراموش رہ کر عرصہِ حیات کی شیرینی سے گھونٹ گھونٹ حظ اٹھائے چلے جانے کا آپشن موجود تھا، میں down to earth رہا۔ میں نے یہ جانا اور مانا کہ یہ مشتِ خاک تو بس خاک کا پیوند ہونے، مٹی میں مل کر مٹی ہو جانے تک کی ہے۔ رہ جانے والی بات، سدا مہکنے والا پھول تو یہ احساس ہے کہ اپنی ماں دھرتی پر بسنے والی کم نصیب جنتا کا خیال کیا جائے، ان سے قریب رہا جائے، اور حسبِ مقدوراُن کی دلجوئی کی جائے ۔
    پروین شاکر کا ہی ایک اور شعر ہے:
    اتنی روشن ہے تری صبح کہ دل کہتا ہے
    یہ اُجالا تو کسی دیدہِ نمناک سے ہے
    آخر میں دعا گو ہوں کہ عامر خاکوانی صاحب کا ‘دلیل’ کے آغاز کا فیصلہ بارآوار ہو اور یہ اقدام پوری طرح ثمر بار ثابت ہو۔ اس کی فیض رسانی تبھی یقینی اور مستحکم ہوگی جب نئے لکھنے والے ایک ایک شعبہ سنبھال کر تلاش وتحقیق کے حوالے سے محنت کا حق ادا کریں گے اور اپنی تحاریر کو زبان و بیان کی خوبیوں سے آراستہ کرنے کی خاطر سینیئر اور کہنہ مشق لکھاریوں کے چشمہِ خضر سے سیراب ہونے کو انھیں زیادہ تر انہماک سے مطالعہ کرنے کی عادت اپنائیں گے کہ:
    جگر خوں ہو تو چشمِ دل میں ہوتی ہے نظر پیدا
    سمجھا جائے تو یہ ایک اہم قومی ذمّہ داری ہے۔

  • رائٹ ونگ کے نوجوان لکھاریوں کو 11 مشورے. محمد عامرہاشم خاکوانی

    رائٹ ونگ کے نوجوان لکھاریوں کو 11 مشورے. محمد عامرہاشم خاکوانی

    11866265_1085617161465765_1795389247132538024_nپچھلے چند ہفتوں کے دوران سوشل میڈیا پر رائیٹ ونگ سے تعلق رکھنے والے کئی نوجوان لکھنے کے حوالے سے متحرک ہوئے ہیں۔ اگلے روز ایک دوست نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ چلو اج کل دے منڈے فیس بک پر ایک دوسرے کے خلاف الزامات کی بوچھاڑ کرنے کے بجائے کسی مثبت ، تعمیری کام سے لگ گئے ہیں۔ مجھے زیادہ خوشی اس کی ہے کہ نوجوان کتابیں پڑھنے، سوچنے اور دلیل کے ساتھ بات کرنے کی طرف مائل ہوئے ہیں، جو ہمارے سماج کے لئے بڑی خوش آئند بات ہے۔ اس سب کے پیچھے محرک قوت تو محترم وجاہت مسعود اور ان کی ہم خیال دوستوں کی جانب سے شروع کردہ مکالمہ نما یدھ یا یدھ نما مکالمہ ہے ۔ اس نے وہی کام کیا جو ساٹھ کے عشرے کے اواخر اور خاص کر ستر کے عشرے کے اوائل میں ترقی پسندوں کی جانب سے آنے والی یلغار سے ہوا تھا۔ اس نے دائیں بازو کے مذہبی سوچ رکھنے والے نوجوان میں ایک نئی روح پھونک دی تھی۔ انہیں اپنی نظریاتی شناخت خطرے میں نظر آئی تو وہ کھڑے ہوئےا ور اپنی پوری صلاحیتیں اور قوت نظریاتی ، فکری دفاع میں کھپا دیں۔ اس بارقدرت نے یہ نیک کام جناب وجاہت مسعود اور ان کے فکری ہم سفروں سے لیا۔ میرے دل میں ان کا احترام اس لئے زیادہ ہے کہ ایک نالائق یا اوسط درجے کے فکری حامی سے میرے نزدیک ذہین ، سوچنے سمجھنے پر مجبور کر دینے والا نظریاتی مخالف اہم ہے ۔ سماج میں جمود سے نظریاتی ہلچل پیدا کرنا زیادہ ضروری ہے۔ فکری مکالمہ جاری رہنا چاہیے ۔ کنزیومر ازم کے اس بے رحم، سفاک دور میں بے غرض قلمی جدوجہد کرنے والے مبارک اور تحسین کے مستحق ہیں۔ دلچسپی سے ان نوجوانوں کی تحریریں پڑھ رہا ہوں ، داد دینے میں کبھی بخل سے کام نہیں لیا، بعض پوسٹیں تو اپنی وال پر بھی شئیر کیں۔ یہ سب سوال جواب بلکہ جواب الجواب پڑھتے ہوئے مجھے یہ محسوس ہوا ہے کہ پرجوش نوجوانوں کو چند ایک مفت کے مشورے دے دینے میں کوئی حرج نہیں۔ ویسے تو ان سے کوئی بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے، مگر میں نے اپنے رائیٹ ونگ کے نوجوانوں کو ذہن میں رکھ کر یہ تحریر لکھی ہے تو ممکن ہے دوسروں کے لئے بعض باتیں سودمند نہ ہوں۔ (یاد رہے کہ ان تمام مشوروں کو نظرانداز کرنے کی آپشن بدستور موجود ہے، کسی پر پابندی نہیں، ہر ایک اپنے انداز میں سوچ اور اس کا اظہار کر سکتا ہے ۔ )

    نمبر ایک : اسلامسٹ بمقابلہ سیکولرازم کا معرکہ ٹی ٹوئنٹی میچ ہرگز نہیں، اسے ون ڈے بھی نہیں سمجھنا چاہیے ۔ یہ کرکٹ کی اصطلاح میں ٹیسٹ میچ ہے۔ طویل دورانئیے کا کھیل ۔ جس میں دو تین باتیں اہم ہیں۔

    اے: اس میچ نے جلدی ختم نہیں ہوجانا۔ لمبا معرکہ ہوگا۔ یہ قسطوں میں لڑی جانے والی جنگ ہے، باربار غنیم کے لشکر امنڈ امنڈ کر آئیں گے۔ ہر بار تلوار سونت کر لڑنا پڑے گا۔ انداز بدلتے رہیں گے ، سپاہیوں کے چہرے تبدیل ہوں گے گے،مگر اہداف وہی ہیں ۔ جان پہچانے، دیکھے بھالے۔ اس محاذ کا رخ کرنے والے سوچ سمجھ کر میدان میں اتریں۔ نظریاتی جدوجہد بعض اوقات مختلف فیز میں لڑی جاتی ہے۔ ہم سے پہلوں نے اپنے انداز میں یہ معرکہ لڑا۔ اب ہمارے زمانے میں اور ہم سے بعد میں یہی مسائل، مکالمے اور مجادلے چلتے رہیں گے۔

    بی : ٹیسٹ میچ میں جلدبازی اور عجلت کے بجائے کھلاڑی کی محنت، تکنیک اور مہارت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ فکری مکالمے میں بھی یہ چیزیں اتنی ہی اہم ہیں۔ اچھی طرح تیاری کر کے ، سوچ سمجھ کر قدم بڑھانا چاہیے۔

    سی : بہتر ہو گا کہ لکھنے والے اپنے اپنے کام کا تعین کر لیں۔ جیسے کرکٹ ٹیم میں کسی کا کام بائولنگ، کوئی بلے باز اور ایک وکٹ کیپر ہوتا ہے ۔ ہر ایک کی سپیشلیٹی ہوتی ہے۔ بیانیہ کی جنگ میں مل جل کر بھی کام ہوسکتا ہے ۔ جسے تحقیق میں دلچسپی ہے، وہ حوالہ جات پر محنت کرے اور اس اعتبار سے مواد سامنے لے آئے ، کسی کو سوالات اٹھانے میں مہارت ہے، وہ اس طرف کا رخ کرے، کسی کا ہنر مرصع نثرلکھنا ہے تو وہ اس پر ہی فوکس کرے، مغربی لٹریچر سے رسائی رکھنے والوں کو اس اینگل کو کور کرنا چاہیے ۔

    نمبر دو : مکالمہ ہر حال میں نہایت شائستگی سے کرنا چاہیے۔ انکسار، استدلال اور علمی شائستگی تحریر کے بنیادی جوہر ہونے چاہئیں۔ طنز، تضحیک، دشنام اور اختلاف رائے کرنے والے پر لیبل چسپاں کرنے سے ہر صورت گریز کرنا ہوگا۔ رائیٹسٹوں کو یہ سوچ کر لکھنا چاہیے کہ وہ اسلامی مائنڈ سیٹ کے علمبردار ہیں اور ان کے تحریر ہی سے مذہبی سوچ رکھنے والوں کے کردار کو جانچا جائے گا۔ اس لئے اخلاق ، شائستگی اور متانت کا دامن قطعی نہ چھوڑا جائے ۔

    ہر تحریر یہ سوچ کر لکھی جائے کہ ہمارے سرکار، آقا اور محسن عظیم حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اگر اسے پڑھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ردعمل کیا ہوسکتا ہے۔ کوئی ایسا جملہ یا لفظ نہ ہو، جس سے سرکار مدینہ کی منور پیشانی پر کوئی شکن نمودار ہو اور انہیں لگے کہ ان کے امتی، ان کے نام لیوا دین اسلام کی بے توقیری کا باعث بنے۔ کوئی بھی سچا، کھرا رائیٹسٹ صرف اس لئے اس میدان میں اترتا اور اپنے دین، اپنی اخلاقی اقدار اور تصور دین کا دفاع کرتا ہے کہ روز آخرت اس کی یہ کاوش قبول ہو اور بخشش کا باعث بنے۔ اس لئے تحریر کا معیار بھی ویسا ہی کڑا اور سخت ہونا چاہیے ۔ بد تمیزوں، بد اخلاق، عامیانہ گفتگو کرنے والوں، پست الفاظ استعمال کرنے کے عادی لوگوں کی یہاں کوئی جگہ نہیں۔ رائٹسٹوں، اسلامسٹوں کو ایسے تمام لوگوں سے خود کو دور کرلینا چاہیے ، ان سے اعلان لاتعلقی کر لینا ہی زیادہ بہتر اور مناسب ہے۔ گھیٹا دفاع سے دفاع نہ کرنا افضل ہے۔

    نمبر تین : یہ بات ذہن میں رکھنا چاہیے کہ مایوس ہونے یا ہمت ہار دینے کی کوئی وجہ نہیں۔ اسلامسٹوں کی جدوجہد اور نوعیت کی ہے۔ پاکستان میں اللہ کے فضل سے اسلامسٹوں نے بہت اہم آئینی جنگیں جیتی ہوئی ہیں۔ دستور پاکستان سے قرار داد مقاصد یا ملک سے اسلامی لفظ ہٹانا، یا پھر توہین رسالت قانون میں ترمیم وغیرہ ، یہ سب سیکولرسٹوں کا ایجنڈا ہے، مایوسی اور فرسٹریشن ہر بار انہی کے حصے میں آتی ہے۔ ریاست کو سیکولر بنانے کا خواب وہی دیکھ رہے ہیں،اس کی فکر بھی انہیں ہی ہونی چاہیے۔ رائیٹ ونگ نے تو جو کچھ حاصل کرنا تھا بڑی حد تک کر لیا، اب فوکس آئین پر عملدرآمد کرنے اور اسلامی معاشرے کے قیام پر کرنا چاہیے ۔ دعوت، تعلیم ، تربیت کا جوکام انفرادی، گروہی یا جماعتوں کی حد تک ہوسکتا ہے، وہ کیا جائے، حکومت میں آ کر ریاستی وسائل کی مدد سے کچھ کرنے کے مواقع جب ملیں تو ایسا کیا جائے ، نہ مل سکیں تو کم از کم پریشر گروپس کا کردار ادا کرتے رہنا ہوگا۔

    نمبر چار : ممکن ہے پوائنٹ نمبر تین پڑھ کر کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ ایسی صورت میں پھر اتنی محنت کی ضرورت کیا ہے؟ سادہ جواب یہ ہے کہ اسلامسٹوں کو اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کے لئے جوابی بیانیہ تشکیل دینا پڑتا ہے اور رہے گا۔ سیکولروں کے سوالات کے جواب دینا اس لئے ضروری ہے کہ اسلامی طرز فکرکو دلوں میں بسانے، دماغ میں اتارنے کے لئے استدلال ہی واحد ذریعہ ہے۔ نئی نسل تک اپنی بات دلیل کے ساتھ پہنچانی ہے۔ ان کے ذہنوں میں موجود الجھنیں کھولنی، سلجھانی اور مذہب کے خلاف پروپیگنڈے کا توڑ کرنا ضروری ہے۔ بہت سے مذہبی گھرانوں کے بچے ردعمل میں دوسری طرف اس لئے چلے جاتے ہیں کہ ان کے والدین نے نئی نسل کے سوالات کے جواب دینے کی زحمت ہی نہیں فرمائی، وہ سمجھتے تھے کہ شاہد ان کی فکر اولاد کے ذہنوں میں خود بخود منتقل ہوجائے گی ۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا۔

    نمبر پانچ: ایک بات اور ذہن میں رکھیں کہ سیکولرفکر کے بیشتر علمبرداروں کو آپ دلیل سے قائل نہیں کر سکتے۔ یاد رہے کہ قائل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اگلا قائل ہونے پر آمادہ ہو۔ جس نے طے کر رکھا ہو کہ مابعدالطبعیات کچھ نہیں اور صرف مادہ ہی سب کچھ ہے، اسے آپ مذہب کی اہمیت پر کیسے قائل کر سکتے ہیں؟ جو روز آخرت پر ہی یقین نہ رکھتا ہو، سرے سے خدا یا اس کے پیغمبر کے وجود ہی پر اسے شک ہو، اسے کس طرح الہامی دانش کا پیروکار بنایا جا سکتا ہے؟ میرا یہ مقصد نہیں کہ سیکولر سوچ رکھنے والے تمام ایسے ہوتے ہیں۔ ہرگز نہیں۔ بہت سے لوگوں کا یہ ایشو نہیں۔ وہ کسی بھی دوسرے مذہبی شخص کی طرح کی سوچ رکھتے ہیں، ان میں سے بعض ردعمل میں سیکولر ہوئے، کچھ کو مذہبی جماعتوں یا بعض تنگ نظر مولوی صاحبان کی شدت اور بے تدبیری اس جانب لے آئی، ایسے بھی بہت ہیں جو داعش، القاعدہ اور ٹی ٹی پی جیسی تنظیموں کی متشددانہ پالیسیوں، لوگوں کو زبح کرنے اور سروں سے فٹ بال کھیلنے جیسی ویڈیوز دیکھ کر مذہب کا نام لینے والے ہر ایک گروہ سے متنفر ہوگئے۔ سیکولر سوچ رکھنے والوں میں یہ تمام شیڈز موجود ہیں، مگر سیکولرازم کی خالص علمی بنیادیں الحاد اور مذہب بیزاری پر استوار ہیں، اس لئے ان سے زیادہ دیر بچا نہیں جا سکتا۔

    سیکولروں کی ہارڈ کور کو متاثر یا قائل نہ کرسکنے کے امکان کے باوجود یہ مکالمہ جاری رکھنا ہوگا، اسلامی بیانیہ پوری صراحت اور گہرائی کے ساتھ تشکیل دینا ہوگا۔ ہدف وہ لوگ ہیں جو ابھی درمیاں میں ہیں، سوئنگ ووٹرکی طرح سوئنگ پیروکار بھی ہوتے ہیں۔ جو لوگ ابھی کسی جانب نہیں گئے، وہ لوگ جوکسی وجہ سے سیکولر ہوگئے ، مگر وہ مذہب کی حقانیت کو تسلیم کرتے ہیں، انہیں چند کامن پوائنٹس پر قریب کیا جا سکتا ہے ۔ وہ لوگ بھی جو مذہبی گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں، رائٹسٹ ہیں، مگرانہیں دوسروں سے بات کرنے کے لئے دلائل کی ضرورت ہے۔ ان کی یہ کمی، ضرورت رائٹسٹ لکھاریوں کو پوری کرنا ہے۔

    نمبر چھ : سیکولرسٹوں سے بحث کرتے ہوئے ان کی کج بحثی اور مذہب پر حملوں کے لئے ذہنی طور پر تیار رہنا ہوگا۔ ہم لوگ بعض چیزوں کو پہلے سے طے شدہ لے کر چلتے ہیں، سوچتے ہیں کہ بعض سیاسی سوال اور بحثیں ہوں گی، خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر تو کوئی بات نہیں کرے گا۔ اسی طرح پاکستان کے حوالے سے ہم میں سے بہت سوں کو اس وقت شاک لگتا ہے،جب نظریہ پاکستان، قائداعظم، اقبال، لیاقت علی خان ، علامہ شبیر احمد عثمانی وغیرہ پر کوئی حملہ آور ہو۔ ہم اس سے یہ حملہ توقع نہیں کر رہے ہوتے، اسے ناف کے نیچے وار سمجھتے ہیں۔ اس سب کے لئے مگر پہلے سے تیار ہونا چاہیے ۔

    نمبر سات: یہ بات بھی اب اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ پاکستان میں اسلامی نظام، اسلامی معاشرے کا قیام نظریہ پاکستان ، تحریک پاکستان اور قرارداد مقاصد سے جڑا ہوا ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ آپ تقسیم کے مخالف ہوں، قائداعظم یا نظریہ پاکستان سے وابستگی نہ رکھتے ہوں یا اس درجہ حساسیت کے حامل نہ ہوں اور اپنے مذہبی میلان کی وجہ سے پاکستان میں نفاذ اسلام کی بات کریں، تحریک چلائیں۔ ایسی کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اس پر یکسوئی حاصل کر لیں۔ اگر نظریہ پاکستان سے دستبردار ہوگئے، اسلامی مملکت کے دعوے، خواب سے ہاتھ کھینچ لیا تو پھرملک میں اسلامی قوانین، اسلامی معاشرے کا خواب بھی بھول جائیں۔ پاکستان تب لفظی طور پر نہ سہی، عملی طور پر سیکولر ریاست بن جائے گی۔

    نمبر آٹھ : (پوائنٹ نمبر سات کی یہ ایکسٹینشن ہی ہے، مگر اہمیت واضح کرنے کے لئے اسے الگ پوائنٹ بنایا ہے۔) یاد رکھیں ،تحریک پاکستان، نظریہ پاکستان، قائداعظم اور مسلم لیگ کے دوران تحریک کئے گئے وعدے ہی وہ بنیاد فراہم کرتے ہیں، جس پر پوری اسلامی تحریک استوار ہوتی ہے، قرارداد مقاصد اس کے بغیر پاس ہونا ممکن نہں تھی۔ سیکولر حلقہ اس بات کو اچھی طرح جانتا ہے، اس لئے وہ بار بار قراردار مقاصد پر حملہ آور ہوتا ہے، نظریہ پاکستان کا تمسخر اڑاتا ، اسے بے حقیقت ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیاقت علی خان کے قد کاٹھ کو چھوٹا ثابت کرنا، علامہ شیبر احمد عثمانی پر حملے محض اس لئے کئے جاتے ہیں کہ قرارداد مقاصد کے موید یہی لوگ تھے۔ جب ان پر سے تقدس کا لبادہ نوچ کر الگ کر لیا جائے تو پھر اس قرارداد کی حیثیت کسی بھی اسمبلی میں پیش ہونے والی قرارداد کی سی رہ جاتی ہے۔

    نمبر نو : یاد رکھیں کہ قائداعظم رحمتہ اللہ کی شخصیت بھی پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے، یہاں اسلامی نظام قائم کرنے اور رول ماڈل اسلامی معاشرے کی تشکیل کے سپنے کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ یہ سب باتیں قائداعظم کہتے رہے تھے، ان کے بے شمار جملے، فقرے ، بیانات اور انٹرویوز اس حوالے سے ہیں۔ چونکہ قائداعظم کی ذات پاکستان اور پاکستانی عوام سے منسلک ہے،اس لئے سیکولر حلقہ قائد کی گیارہ اگست والی تقریر کے حوالے دینے پر مجبور ہے، سمجھدار سیکولر جانتے ہیں کہ قائداعظم کی الفاظ کی تعبیر وتشریح کر کے ایک قومی بیانیہ تشکیل دینا آسان ہے،اسی لئے بار بار اسی ایک تقریر کے حوالے دئیے جاتے رہیں گے۔ شدید بوریت کے باوجود ہمیں یہ سب سہنا پڑے گا، جواباً بار بار قائد کی دوسری تقاریر کے حوالے دینے پڑیں گے۔بار بار ایسا کرنا پڑے گا۔ یہ عمل دونوں طرف سے جاری رہے گا، شائد آنے والے برسوں، عشروں تک۔ یہ بھی یاد رکھئے کہ بیشر سیکولر قائداعظم کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔ ان میں سے اکثر اپنی تحریروں میں التزام کے ساتھ انہیں جناح صاحب لکھیں گے۔ یہ دراصل لٹمس ٹیسٹ ہے، جدید دور کا کوئی بھی لکھاری جو اپنی کسی تحریر میں قائداعظم کے بجائے جناح صاحب لکھے، سمجھ لیجئے کہ اس کے اندر کا تعصب اور قائداعظم کے لئے نفرت اور بیزاری ابل ابل کر باہر آ رہی ہے۔ جناح صاحب لکھنے کی آزادی صرف ان کے ہم عصروں کو دی جا سکتی تھی، باچا خان یا جی ایم سید ایسے آخری لوگ تھے۔ ان کے بعد کی نسلوں کو یہ حق نہیں ۔ ہمارے قائد محمد علی جناح کو قائداعظم کہنا پاکستانی روایت کا حصہ بن چکا ہے۔ اس روایت کو تسلیم بھی عرصہ پہلے کیا جا چکا ہے ۔ اس سے انحراف وہی کرے گاجو قائد کی دشمنی اور مخالفت میں اعتدال کی حدعبور کر چکا ہو، ورنہ کوئی بھی سمجھدار سیکولر ایسی غلطی کر کے خود کو بے نقاب نہیں کرتا۔ اسی طرح یہ اکثر دیکھا جائے گا کہ مولانا آزاد کو اکثر سیکولر لکھاری بہت اہمیت دیں گے، مولانا کے علمی قد کاٹھ سے زیادہ بغض قائداعظم اس کا باعث ہوگا۔

    علما کے حلقے میں سے ایک گروپ جو زہنی طور پر جمعیت علما ہند کے قائدین سے زیادہ قریب ہے، ان کے لئے بھی قائداعظم کی شخصیت کو تسلیم اور قبول کرنا آسان نہیں، مگر پاکستان مین اسلامی جدوجہد کے لئے قائداعظم کی شخصیت کو ساتھ لے کر ہی چلا جا سکتا ہے۔ اس کے بغیر ممکن نہیں۔ اس لئے یہ لوگ اپنے تصور کا دوبارہ سے جائزہ لیں اور تحریک پاکستان کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اسی طرح علامہ اقبال اور حضرت مدنی والے مناقشہ کے بعد کچھ لوگ اقبال کے لئے بھی ناپسندیدگی کی ایک زیریں لہر رکھتے ہیں، انہیں بھی اقبال کی عظمت کو ازسرنو سمجھنا ہوگا۔ اقبال کا ورلڈ ویو حیران کن ہے۔ اسلامی معاشرے یا اسلامی ریاست کے لئے اقبال کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔

    نمبر دس: یہ بات شروع میں آنی چاہیے تھی، مگر اس پر اختتام کرنا بھی کم اہم نہیں۔ یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ اسلام اور سیکولرازم کا امتزاج کسی طور ممکن نہیں۔ کسی بھی ملک میں یا تو اسلامی ریاست ہو گی یا سیکولرریاست ، اسلامی معاشرہ تشکیل پائے گا یا پھر سیکولر معاشرہ۔ ان کو ملانے کی بچکانہ کوشش کبھی کامیاب ہوئی نہ ہوگی۔ یہ کہنا کہ کسی قسم کا دیسی مسلم سیکولرازم ممکن تھا، ایک بڑا فکری مغالطہ ہے۔ دیسی مسلم سیکولرازم نام کی کسی اصطلاح کا کوئی وجود نہیں، یہ بن بھی نہیں سکتی۔ بات سادہ سی ہے کہ آپ نے یہ طے کرنا ہے کہ اللہ کی بنائی ہوئی ریاست میں رہنا ہے یا پھر بندوں کی بنائی ہوئی ریاست میں، اللہ کے بتائے ہوئے قوانین، وضوابط پر عمل کرنا ہے یا پھر انسانی عقل سے آخذ کئے ہوئے قوانین کو چلانے کی کوشش کرنا ہے۔ ان دونوں تصورات کو کیسے جوڑا جا سکتا ہے؟

    یہ نقطہ بھی واضح ہوجائے کہ پاکستانی تناظر میں علامہ شبیر احمد عثمانی کا ماڈل ہی قابل قبول ہوگا۔ حضرت علامہ حسین احمد مدنی کے تمام تر احترام کے باوجود ان کا ماڈل بھارتی ماڈل ہے، ایک ایسے معاشرے کا جہاں کثیر المذاہب لوگ رہتے ہوں، جہاں مسلمان اکثریت میں نہ ہوں۔ سیکولرازم کا مطالبہ وہیں ہوسکتا ہے۔ ظاہر ہے کوئی کہے کہ بھارت میں اسلام نافذ کیا جائے تو اس کی عقل پر شک کیا جائے گا، پاکستان میں البتہ یہ مطالبہ ہوگا اور قابل فہم بھی سمجھا جائے گا۔ دیوبند مکتب فکر کے لوگوں کو یہ مان لینا چاہیے کہ جمعیت علما ہند بھارت کے لئے ہے اور جمعیت علما اسلام پاکستان کے لئے۔ اس بیریر سے گزرنے کے بعد یہ لوگ یکسوئی کے ساتھ اسلامی معاشرے کے قیام کی جدوجہد میں شامل ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح مولانا آزاد کے علمی ، ادبی سحر میں کون گرفتار نہیں، مگر پاکستانی بیانیہ میں قائداعظم پہلے آتے ہیں، مولانا آزاد اس فریم ورک میں فٹ نہیں ہوتے۔ نہایت احترام کے ساتھ انہیں بھارتی سیکولرسٹوں کے لئے چھوڑ دیجئے ۔ مولانا آزاد کی پیش گوئیاں بھی ہمارے ہاں سب سے زیادہ ذوق شوق سے تقسیم ہند کے مخالف اور سیکولر حلقے ہی استعمال کرتے ہیں۔ یہ ان کے بیانیہ میں فٹ ہوتی ہے۔ بڑے پیار اور احترام کے ساتھ مولانا آزاد سے اختلاف کیجئے۔ ہو سکے تو منیر احمد منیر کی کتاب مولانا آزاد کی پیش گوئیاں پڑھ لیجئے،دوسرارخ سامنے آ جائے گا۔

    اسی طرح جاوید غٓامدی صاحب کا یہ تصور کہ ریاست سیکولر ہو، حکومت البتہ مسلمان ہوگی، یہ بھی آخری تجزیے میں سیکولرسٹوں کو سپورٹ کرتا ہے۔ جناب غامدی اور ان کے ذہین تلامذہ کی فکر ایک خاص سٹیج پر جا کر سیکولر فکر کے ساتھ ہی جا کر کھڑی ہوتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ غامدی صاحب کے بیانیہ پر کبھی سیکولر تنقید نہیں کریں گے، انہیں سوٹ جو کرتا ہے ۔ غامدی صاحب پر ہمیشہ اسلامسٹوں کی طرف سے تنقید،اور جواب بیانیہ دیا جاتا ہے۔

    نمبر گیارہ : اب تک ان بحثوں کو پڑھنے والوں کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ سیکولر دوست کس طرح بات کو ایک جگہ سے کھینچ کر دوسری جگہ لے جاتے ہیں، ایک ساتھ کتنے مفروضے ، مغالطے بھر دیتے ہیں تاکہ یکسوئی کے ساتھ جواب نہ دیا جا سکے۔ دانستہ طور پر رائیٹسٹوں کو تقسیم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ انہیں معلوم ہے کہ جماعت اسلامی اور جے یوآئی کے مابین ماضی میں مسائل رہے ، تو ان نکات کو بار بار اٹھایا جائے گا۔ جماعت اسلامی والوں کو الجھانے کے لئے تقسیم کے وقت مولانا مودودی کی آرا کا مسئلہ چھیڑا جائے گا، کبھی جماعت کی مسلم لیگی مخالفت پر سوال ہوگا، کبھی کسی اورایشو کو چھیڑ دیا جائے گا۔ اس کا صاف جواب دینا چاہیے کہ یہ سب ماضی کے ایشوز ہیں۔ بنیادی نقطہ یہی ہے کہ کیا پاکستان اسلامی ریاست ہو یا سیکولر؟ اسلامی نظام آنا چاہیے یا سیکولر نظام؟ ہماری اخلاقی نظام کی بنیاد مذہب پر ہونی چاہیے یا پھر اس اخلاقیات کی تشکیل ہر ایک خود کرتا پھرے۔ ان بنیادی سوالات پر بحث مرکوز رکھنی چاہیے، نان ایشوز میں الجھنے کا کوئی فائدہ نہیں، اپنی توانائیاں ادھر صرف نہ کی جائیں۔ ہر حلقہ فکر کی طرح رائیٹ ونگ میں فالٹ لائنز موجود ہیں، انہیں ایکسپوز کرنے سے گریز کریں۔ آپس میں لڑنے کے بجائے اصل مدعے کی طرف توجہ رکھیں۔ اس کی زیادہ اہمیت ہے۔ اجر بھی اسی کا ملنا ہے۔ یہ اپنی مسلکی، جماعتی شناخت سے اٹھ کر دین اسلام کے لئے فکری جدوجہد کرنے کا وقت ہے۔ اللہ سے مدد مانگئیے ، وہی توفیق دے گا، تحریر اور خیالات میں برکت اور وہی قبول بھی فرمائے گا۔

    اسلامسٹ بیانیہ کے لئے معروف مذہبی کتب کا سب کو علم ہی ہے، میں دو تین کتابوں کی طرف نشاندہی کرنا چاہوں گا۔ ان میں سے ایک ڈاکٹر طارق جان کی سیکولرازم، مغالطے ، مباحثے ہے۔ اسے منشورات لاہور نے شائع کیا ہے ، اس کی ای بک بھی دستیاب ہے۔ ڈاکٹر طارق صاحب نے بڑی عمدگی سے کئی ایشوز پر قلم اٹھایا ہے۔ اس پڑھنا فائدہ مند ہوگا۔ قائداعظم کے اسلامی تصور کے حوالے سے بہت سی کتب شائع ہوچکی ہیں، کسی سے حوالہ جات کے لئے رجوع کیا جا سکتا ہے۔ علامہ اسد کا کام بھی ان مباحث میں بہت کارآمد ہے۔ ان کی کتاب یورپین بدو کمال کی ہے۔ علامہ اسد نے اس پر بھرپور بحث کی ہے کہ پاکستان میں اسلامی دستور کیوں بنایا جائے؟ پروفیسر احمد رفیق اختر نے بھی سیکولرازم کے خلاف بھرپور طریقے سے لکھا ہے۔ پروفیسر صاحب کی سیکولرازم کی علمی بنیاد جو الحاد پر مشتمل ہے، اس پر کڑی تنقید ہے۔ اسے پڑھنے سے نئے دلائل ملیں گے۔

  • ہجرت نبویﷺ اسٹریٹجک پلاننگ کا شاہکار – زبیر منصوری

    ہجرت نبویﷺ اسٹریٹجک پلاننگ کا شاہکار – زبیر منصوری

    11709589_10206800857727845_937974684333049234_nمیرے پیارے نبیﷺ پوری جرات، حوصلے اور بہادری کے ساتھ دعوت کے میدان، مکہ میں موجود ہیں۔ ظلم ہے، جذباتی، نفسیاتی و جسمانی ایذا رسانی ہے، مالی و معاشرتی نقصانات ہیں، روز ابو جہل کا سامنا ہے، روز ابو لہب اور ابو سفیان سے مکہ کی گلیوں میں، خانہ خدا کے صحن میں، بازار اور راستوں میں مڈ بھیڑ ہوتی ہے، مگر آپ ؐ کوہ استقامت بنے کھڑے رہتے ہیں۔ اللہ کی زمین پر، اللہ کے بندوں پر، اللہ کی مرضی چلانے کا مشن پہلے دن کی طرح زندگی کا پہلا اور آخری مشن ہے اور اس کی انجام دہی، تن دہی کے ساتھ جاری و ساری ہے جب تک دعوت کا اتمام حجت نہ ہوجائے، جب تک اللہ اپنا فیصلہ جاری نہ کردے۔ میرے پیارے نبی ﷺ کیسے اپنے فرض سے ایک انچ بھی ادھر یا ادھر ہوسکتے تھے؟
    ایسے میں ایک دن اللہ کی مشیت کے مطابق وہ ٹھیک وقت آن پہنچتا ہے جب آپ ﷺ کو اذن ہجرت ملتا ہے۔ یہ میرے نبیﷺ کی زندگی کے اہم ترین مرحلوں میں سے ایک ہے۔ ایک طرف اپنے آبائو اجداد کا شہر ہے جو اب ان کے دشمنوں سے بھر چکا ہے او دوسری طرف مدینہ میں اسلامی ریاست کا آغاز کرنے کے لیے وہاں ہجرت کر جانے کا مرحلہ ہے۔ مسلمان وہاں موجود ہیں مگر ان کا سربرا ہﷺ ابھی مکہ میں ہے، خطہ ارض پر ایک ایسا زمین کا ٹکڑا فراہم ہو چکا ہے جس پر اقامت دین کا کام ہونا ہے۔ ایسے میں میرے نبی ﷺ اپنے محبت و حفاظت کرنے والے رب کی رہنمائی میں سفر ہجرت کا ایک مکمل اور غلطی سے پاک اور کامیاب اسٹریٹجک پلان بناتے ہیں اور امت کے لیے یہ رہنمائی چھوڑ جاتے ہیں کہ حالات جتنے خطرناک، نازک اور حساس ہوں پلان اتنا ہی خوب سوچا سمجھا Senario Analysis کر کے تیار کیا اور یقینی کامیابی کو سامنے رکھ کر ترتیب دیا گیا ہو کیونکہ جو لوگ پلاننگ میں ناکام رہتے ہیں وہ دراصل ناکامی کی پلاننگ کر رہے ہوتے ہیں۔
    آئیے میرے نبی محترم ﷺ کی ہجرت اسٹریٹجک پلان کے چند نکات سے اپنے آج کے حالات کے لیے کچھ سیکھتے ہیں۔
    ٭لیڈر آخری وقت تک میدان عمل میں رہتا ہے۔ امید کی آخری کرن تک کو ضائع نہیں ہونے دیتا۔ کہیں جلد بازی، خوف یا کم ہمتی کا مظاہرہ نہیں کرتا (مکہ میں ظلم انتہا پر، ساتھی ہجرت کر چکے، مگر لیڈرﷺ میدان میں موجود)
    ٭جب فیصلہ کر لیتا ہے تو پھر اپنے اعتماد کے اور قریب ترین ساتھیوں سے مشورہ کرتا اور ان کے ساتھ مل کر منصوبہ ترتیب دیتا ہے (حکم ہجرت کے بعد حضرت ابو بکر ؓ کے ساتھ مل کر پلاننگ )
    ٭ پلان پر عملدرآمد کے لیے درست ترین وقت کا انتخاب کرتا ہے (رات کے وقت گھر سے روانگی کا فیصلہ )
    ٭دشمن کو آخری وقت تک مکمل غلط فہمی میں مبتلا رکھنے کی بہترین منصوبہ بندی (حضرت علی ؓ کو اپنی جگہ پر اس طرح سلانا کہ دشمن نے رات میں اندر جھانکا تو بھی اسے پتہ نہیں لگا حتی کہ آپ ﷺ محفوظ مقام تک پہنچ گئے)
    ٭مکمل کیمو فلاج، اور منصوبے کی جزئیات تک پر غور، میرے نبی محترم ﷺ نے کمال الہامی ذہانت سے حضرت علی ؓ کو اپنی حضرمی چادر اوڑھاکر سونے کا حکم دیا تاکہ دشمن کو رتی برابر بھی شک نہ ہو۔ فرض کریں اگر حضرت علی ؓ اپنی چادر اوڑھ کر سوتے تو دشمن نے جس وقت گھرمیں جھانکا تھا اسے اسی وقت پتہ چل جاتا (اکثر ہماری پلاننگ کسی بڑی خامی سے نہیں، کہیں چھوٹی سی بات کو نظر انداز کردینے کے نتیجے میں ناکام ہوجاتی ہے، کہتے ہیں کہ بڑے بڑے جہاز چھوٹے چھوٹے سوراخوں سے ڈوب جاتے ہیں)
    ٭پلاننگ دشمن کی سوچ کو سامنے رکھ کر اس کے موجودہ اور آئندہ اقدامات کے پیش نظررکھ کر فرمائی۔
    ٭رات کے وقت گھر سے نکلنے کے بعد میرے نبی محترم ﷺ ان کافروں کے سروں میں خاک ڈالتے ہوئے روانہ ہوئے اور حضرت ابوبکرصدیقؓ کو ساتھ لیتے ہوئے مدینہ کی سمت (شمال) کے بجائے بالکل الٹ یمن (جنوب ) کی طرف روانہ ہوئے تاکہ دشمن کا ذہن ممکنہ طور پر جس سمت تلاش کے لیے جائے وہاں وہ آپ ؐ کی گرد تک بھی نہ پا سکے، اور وقت ضائع کر دے۔ کمال الہامی ذہانت و فراست دیکھیے کہ پیشگی سوچ لیا کہ دشمن ہرگز پیچھا نہیں چھوڑے گا، تلاش کے لیے نکلے گا۔ آپ نے اس کا ذہن پہلے سے پڑھ لیا اور اس کا خوب صورت آسان اور قابل عمل حل تلاش کرتے ہوئے سمت ہی بدل لی۔
    ٭پہلی محفوظ جگہ (غارثور) اتنی قریب (صرف 5میل دور) تلاش کی گئی کہ جہاں تک آسانی سے تیزی کے ساتھ پہنچ کر خود کو چھپا لیا جائے تاکہ اگر اتفاقاََ دشمن اس جانب آ ہی جائے تو اسے راستہ خالی ملے اور وہ ناکام لوٹ جائے۔
    ٭ غار ثور مشکل چڑھائی پر پتھریلے اور سخت پہاڑ پر واقع ہے، یقینا اس کا انتخاب بھی پہلے کر لیا گیا ہوگا تاکہ کوئی مسئلہ نہ ہو اور یہ ایسی خطرناک چڑھائی اور دشوار راستہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے جب دیکھا کہ اوپر چڑھتے ہوئے پتھروں سے میرے آقا کے پائوں زخمی ہوگئے ہیں تو انھوں نے خود انھیں کندھے پر اٹھالیا۔ یہی نہیں پھر خود جا کر پہلے جائزہ لیا کیونکہ قائد اور پھر وہ بھی میرے نبی ﷺ جیسے قائد کی زندگی، صحت اور عافیت کہیں زیادہ اہم اور قیمتی تھی۔ گویا قیادت ہمیشہ بہت قیمتی ہوتی ہے۔
    ٭پانچ میل کے فاصلے پر تین دن قیام کی حکمت بظاہر جو سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن ابوبکر صدیق ؓ جو ابھی کمسن مگر بہت سمجھدار تھے وہ دن بھر قریش مکہ کی محفلوں میں بیٹھ کر ان کی منصوبہ بندیوں کی سن گن لیتے اور رات کے وقت خاموشی اور احتیاط سے قریب ہی واقع غارثور پہنچ کر اپنے آقاﷺ اور اپنے ابا ؓ کو یہ خبریں پہنچاتے۔ گویا دشمن کے منصوبوں سے باخبر رہنے کا مکمل اور فول پروف انتظام آپ ؐ نے روانہ ہونے سے پہلے ڈیزائن کر لیا تھا۔
    ٭ یہی نہیں بلکہ حضرت ابوبکر ؓ کے قابل اعتماد نومسلم نوجوان غلام عامر بن فہیرہؓ اب بکریاں چرانے کے لیے کہیں دوسری سمت جانے کے بجائے اسی راستے پر آنے لگے۔ وہ احتیاط سے بکریاں لے کر ادھر آتے اور اپنے دونوں آقائوں کو دودھ اور غذا سے سیراب کرتے اور پھر شام کے وقت کمال ہوشیاری سے بکریوں کو حضرت عبداللہؓ کے پیروں کے نشانات پر چلاتے ہوئے مکہ لے جاتے تاکہ ریت پر ان کے قدموں کے نشانات مٹ جائیں اور کوئی کھوجی انھیں دیکھ کر اس طرف نہ آجائے۔ کیا کمال کا پلان بی ہے کہ ایک حکمت عملی اور اس کے کسی ممکنہ منفی اثر تک کو پیش نظر رکھ کر دوسری حکمت عملی تاکہ کسی خدشے کا شائبہ تک باقی نہ رہے۔
    ٌ٭اب سب کچھ کے بعد ان دونوں کا کہ جن کا تیسرا خود اللہ تھا، یہ کمال کا ایمان دیکھیے کہ جب کچھ کھوجی اس راستے پر آ بھٹکتے ہیں اور پھر تلاش کرتے عین پہاڑ کی اونچائی پر واقع غار کے دہانے پر آن کھڑے ہوتے ہیں اور اب بظاہر پلاننگ، احتیاط، تدبر کے باوجود ایک نازک مرحلہ آن پہنچتا ہے ۔
    میرے نبی ﷺاپنے عزیز دوست سے فرماتے ہیں کہ پریشان نہ ہونا، یہاں ہم دو کے ساتھ تیسرا اللہ ہے۔ اس مرحلے پر تو پتہ چلتا ہے کہ بندہ مئومن پلاننگ تو پوری کرتا ہے، جزئیات اور تفصیلات تک سوچ ڈالتا ہے اور عملدرآمد کا بہترین پلان ( Executiional Plan) بنا لیتا ہے مگر اس کا اصل بھروسہ، اصل اطمینان ،اصل توکل، اسے اپنے محبت کرنے والے رب پر ہی ہوتا ہے۔ وہ سمجھتا صرف یہی ہے کہ کامیابی،عافیت اور بچائو کی پہلی آخری اور سب سے مئوثر صورت بس اللہ رب العالمین کی عطاکردہ عافیت ہی سے وابستہ ہے اور خود تمام تر پلاننگ بھی دراصل صرف اسی لیے ہے کہ اللہ نے ہی اس کا حکم دیا ہے۔ اللہ ہی چاہتا ہے کہ ہم پہلے اونٹ کا گھٹنا باندھیں اور اس عمل میں کوئی کوتاہی نہ برتیں، اس کو نتیجہ خیز اور یقینی بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑیں اور جب ہر ہر پہلو سے سوچ کر ایسا کرلیں تو پھر اللہ پر توکل کریں اور نتیجے کو اس پر چھوڑدیں کیونکہ امت مسلمہ نتیجہ کی نہ سہی نتیجہ خیز منصوبہ بندی کی ذمہ دار ضرور ہے۔
    ٭میرے نبی ؐ نے اس خطرناک مرحلے پر جس طرح اپنے پریشان ساتھی کو حوصلہ دیا، امید دلائی اور اللہ پر ایمان کی عملی تربیت کا ایک قیمتی موقع ضائع نہ ہونے دیا۔ اس سے امت کو یہ رہنمائی ملتی ہے کہ اخلاقی و ایمانی تربیت کا بہترین طریقہ عمل کا میدان ہے۔ وہاں سیکھی باتیں عمل کا حصہ بن جاتی ہیں۔ خود سوچیے کہ جو ایمان حضرت ابو بکر ؓ نے اس جملے سے حاصل کیا ہوگا، وہ بھلا کہیں اور کیسے مل سکتا ہے؟
    ٭قابل اعتماد پروفیشنل ماہرین سے مناسب معاوضہ ادا کرکے مدد لینا بھی عین سنت رسول ﷺ ہے (دین کا کام کرنے والے ڈرائیور، باورچی اور مالی کو تو پیسے دے دیتے ہیں مگر پلاننگ اور پرسیپشن مینجمنٹ کے ماہرین سے معاوضہ دے کر کام کروانے کے بجائے یہ کام خود سے آدھا پونا کرنے کی کوشش کرتے ہیں گویا اہم ترین کام ان لوگوں سے جو اس کام کی الف بے سے بھی ناواقف ہیں)۔ آپؐ نے ہجرت کے اس سفر میں راستہ بتانے کے لیے صحرائی، ویران منفرد راستوں کے ماہر عبداللہ بن اریقط لیثی سے معاملات طے کرلیے تھے کیونکہ اس خطرناک سفر میں وقت ضائع ہونا یا راستہ گم کردینا نہایت خطرناک ہوسکتا تھا۔ مکہ کے اطراف پر راستہ خطرناک اور ہر قبیلہ دشمن تھا، ایسے میں بھروسے کا بہترین اور بھرپور انتظام نہایت ضروری تھا اور آپ نے اس کا بہترین بندوبست کر رکھا تھا۔
    ٭عبداللہ بن اریقط حضرت ابو بکر ؓ کی پہلے سے دی ہوئی دو صحت مند اونٹنیاں لے کر پہلے سے طے شدہ وقت پر غار تک آن پہنچے تو ابوبکر ؓ نے بہترین اونٹنی آپ ﷺ کو ہدیتاََ پیش کرنے کی کوشش کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ’’ قیمت ادا کروں گا‘‘ سبحان اللہ! حالات کیسے کڑے ہیں، ایک ایک لمحہ نازک ہے مگر میرا نبیﷺ معاملات کا ایسا کھرا ہے کہ اصول یہاں بھی نہیں توڑا اور ادائیگی کی بات کی ۔
    ٭ سفر ہجرت کا راستہ سیرت کی کتابوں میں بیان ہوتا ہے تو نبوی فراست ﷺ پر بے پناہ پیار آتا ہے۔ عبدللہ بن اریقط نے بھی سفر کا آغاز یمن کے رخ پر (مدینہ کے الٹی سمت) بڑھنے سے کیا، کافی دورجا کر مغرب کی طرف رخ کیا اور ایک غیر معروف ویران صحرائی راستے سے شمال (مدینہ) کی طرف مڑ گیا۔ عفان، امج، قدید، ثنیہ المرہ، لقف، مجاح، ذوالغفوین، ذی کشر، وادی ذو سلم، ثنیہ العائر، وادی رئم سے گزرتا ایک راستے سے دوسرا راستہ کاٹتا ہوا قبا پہنچ گیا (ابن اسحاق) گویا منزل تک پہنچنے کے لیے راستہ کا درست اور یقینی ہونا ضروری ہے چاہے وہ سیدھا اور مختصر نہ ہو، ہاں اگر راستہ درست، یقینی، سیدھا اور مختصر مل جائے تو کیا کہنے ہیں ورنہ اصل چیز تو منزل ہے، باقی سب ثانوی چیزیں ہیں۔
    ٭ سفر کے دوران ابوبکرؓ نے آقا ﷺ کو اونٹ پر آگے بٹھایا ہوا تھا۔ اب اگر کوئی کہیں پوچھتا کہ یہ کون صاحب ہیں تو فرماتے کہ ’’یہ مجھے راستہ بتاتا ہے‘‘ گویا پلان کے مطابق جواب بھی خود دینا ہے، اپنی بزرگی کا فائدہ اٹھانا ہے تاکہ سوال بھی ترجیحاََ ان ہی سے ہو، پیچھے بیٹھ کر پشت کو محفوظ بھی کرنا ہے اور آگے دور تک نظر بھی رکھنی ہے اور آقا ﷺ کو پیچھے بٹھا کر ان کی طرف پشت کرنے کی گستاخی بھی نہیں کرنی۔ سبحان اللہ
    ٭ حالات خواہ کیسے ہی خطرناک کیوں نہ ہوں دعوت اور دین کو فروغ دینے کا کام جاری رہنا چاہیے۔ مقصد (Objective) ہمیشہ سامنے، ٹارگٹ کبھی اوجھل نہیں۔ راستے میں بریدہ اسلمی ؓ بھی 100اونٹوں کے لالچ میں تلاش کرتے آن پہنچتے ہیں مگر آپ ﷺ کے پرنور چہرے کو دیکھ کر، آپ ﷺ سے بات کر کے، آپ ﷺ کی دعوت سے متاثر ہو کر اپنے 70 ساتھیوں کے ساتھ مسلمان ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح سراقہ کے ساتھ بھی نرمی و خیر خواہی اور بشارت کا معاملہ کیا، اور اس کو ایسے انعام کی خوشخبری دی جو تاریخ میں امر ہو گئی۔
    ٭ حالات خواہ کیسے ہی ہوں اپنے ساتھیوں کے ٹاسک اور ان کے اہداف کو کم سے کم ڈسٹرب کیا جانا چاہیے۔ معمولات کو متاثر کیے بغیر آگے بڑھنا چاہیے۔ اسی سفر کے دوران آپ ﷺ کو اپنے قریبی ساتھی حضرت زبیر بن العوام اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کا ایک گروپ اپنے بزنس ٹرپ سے واپس لوٹتا ہوا راستے میں مل جاتا ہے۔ وہ آپ ﷺ کو قیمتی پارچہ جات پیش کرتے ہیں، آپ ﷺ قبول کر لیتے ہیں مگر ان کو ان کے کام سے ہٹا کر اپنی حفاظت پر مامور کرنے یا مدینہ تک ساتھ چلنے کا کہہ کر ان کو مشکل میں ڈالنے کے بجائے آپ ﷺ ان کو ان کے معمول کے مطابق سفر کی اجازت دے دیتے ہیں۔ قیادت کبھی اپنی ذات کے لیے اپنے لوگوں کا وقت، صلاحیت اور ان کے مفادات کو ضائع نہیں کرتی بلکہ ان کی ذاتی، انفرادی اور نجی خیر خواہی سوچتی اور ان کا بھلا چاہتی ہے۔
    آج میرے نبی ﷺ کی امت جن حالات سے گزر رہی ہے، وہ بہت نازک اور تکلیف دہ ہیں۔ امت کو اپنے نبیﷺ کی ان سنتوں کو زندہ کرنے کی جتنی ضرورت آج ہے، شاید پہلے کبھی نہیں تھی، بد قسمتی سے آج ایک بزرگ کی وہ بات صادق آ رہی ہے کہ جب تم کفار کو کامیاب ہوتا دیکھو تو سمجھ لینا کہ انھوں نے تمھاری چیزوں کو اختیار کر لیا ہے اور اگر خود کو ناکام ہوتا ہوا پائو تو سمجھ لینا کہ تم نے ان کی چیزیں اپنا لی ہیں۔ اس صورتحال سے نجات کا واحد راستہ اپنی چیزوں کو پھر سے اپنانے ہی میں مضمر ہے۔

  • اسلامی نظریاتی کونسل، اُمّید کی آخری کرن – ادریس آزاد

    اسلامی نظریاتی کونسل، اُمّید کی آخری کرن – ادریس آزاد

    12983425_10206383337009150_3234894972904837408_oمیں آج بھی’’ اسلامی نظریاتی کونسل ‘‘ کو مسلم نشاۃِ ثانیہ کے لیے اُمّید کی کرن تصور کرتاہوں۔کیونکہ پوری دنیا کے اسلامی ممالک میں یہ واحد ایسا ادارہ ہے جو فقط اپنی آئینی ساخت کی وجہ سے آج بھی فی الواقعہ اجتہاد کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتاہے۔ایران میں اگرچہ روحانی پیشوأ موجود ہیں جو ظاہر ہے اپنی کسی خاص مجلسِ شوریٰ سے رائے بھی لیتے ہونگے اور حکومت کو سفارشات بھی بھیجتے ہونگے لیکن ایران کی رُوحانی پیشوائیت میں ، جو کہ فقط فقہ جعفریہ کو منبعِ شریعت سمجھتی ہے، پوری مسلم اُمہ کو اجتہاد کے ذریعے ظلمت کی گہرائیوں سے نکالنے کی صلاحیت ہرگزنظر نہیں آتی۔لیکن پاکستان کی اسلامی نظریاتی کونسل سے یہ کام بآسانی لیا جاسکتاہےکیونکہ آئین کے مطابق یہ کونسل تمام مسالک کی یکساں نمائندہ ہے۔
    جب 73 کا آئین منظور ہوا تو اس میں ایک شق( نمبر 227) تھی کہ، ’’پاکستان میں کوئی قانون، قران وسنت کے مخالف نہیں بنایا جائےگا‘‘ تب یہ سوال پیدا ہوا کہ اس بات کی گارنٹی کون دے گا کہ آیا کوئی قانون قران و سنت کے خلاف ہے یا نہیں۔اس سوال کا جواب ماسوائے اس کے اور کچھ نہ تھا کہ ایک کونسل بنائی جائے جو ’’اسلامی نظریات وافکار‘‘ پر نظر رکھے۔چنانچہ اسلامی نظریاتی کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا۔پھر 73 کے آئین کی شق نمبر 228, 229, 230 بنائی گئیں جن کے مطابق نظریاتی کونسل ملک کے ’’بیس‘‘ بڑے علمائے کرام پر مشتمل ہوگی۔ یہ بیس لوگ نہایت احتیاط سے منتخب کیے جائینگے۔ شق نمبر 228 میں بتایا گیا کہ کونسل کے ممبران کے چناؤ کے وقت تمام مسالک کو مساوی نمائندگی دی جائے گی۔یہ بھی طے ہوا کہ ان بیس علمأ میں کم ازکم چار علمأ ایسے ہونگے جنہوں نے اسلامی شریعت کی تحقیق و تعلیم میں کم سے کم پندرہ سال صرف کیے ہوں اور انہیں جمہورِ پاکستان کا اعتماد حاصل ہو‘‘۔ جب سے پاکستان بنا تھا یہ پہلا ادارہ تھا جو اُن مقاصد کو مدنظر رکھنے کا اہل تھا جو تقسیم کے وقت پاکستان کے حامی مسلمانوں کے پیش ِ نظر تھے اور جن کا علامہ اقبال نے باقاعدہ خطبہ الہ آباد میں تفصیل کے ساتھ ذکر کیا تھا۔پاکستان وجود میں آیا تو بعض لوگوں کو محسوس ہوا کہ ایک خالصتاً جمہوری ملک چند ہی سالوں میں خودبخود سیکولزم کے راستے پر چل پڑے گا جوکہ کسی بھی جمہوریت کا بنیادی تقاضا ہے، چنانچہ ان لوگوں نے کراچی میں ایک جگہ جمع ہوکر’’قرارِ مقاصد‘‘ کے نام سے ایک دستاویز تیار کی اور چونکہ وہ سب تحریک پاکستان کے بااعتماد لوگ تھے اس لیے قراردادِ مقاصد کو دستور کا حصہ بنادیاگیا۔قراردادِ مقاصد پر ہمیشہ یہی اعتراض سب سے پہلے کیا جاتاہے کہ یہ دستاویز بنیادی طور پر غیر جمہوری طریقے سے تیار کی گئی تھی اور اس نے ہی ملک میں اصل جمہوریت کو پنپنے سے روکے رکھا ہے۔یوں گویا اسلامی نظریاتی کونسل کا کام، کونسل کے قیام سے پہلے قراردادِ مقاصد سے پورا کیا جاتارہا۔ لیکن جب اسلامی نظریاتی کونسل وجود میں آگئی تو گویا ایک ایسا مستقل ادارہ وجود میں آگیا جو قانون ساز اداروں کو قران و سنت کے خلاف قانون سازی سے باز رکھ سکتا تھا اور اس وجہ سے قراردادِ مقاصد کی معنوی اور عملی طور پر ضرورت نہ رہ گئی تھی۔لیکن افسوس کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے روزِ اوّل سے ہی اپنا کام ٹھیک سے انجام نہ دیا اور وقت کے ساتھ ساتھ ایک بدنام ادارہ بنتی چلی گئی۔
    اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کا واحد ادارہ ہے جس کا مقصد اسلام کے فقہی مسائل پرغوروفکرکرنااور ریاست و حکومت کو وقتاً فوقتاً تجاویز و سفارشات سے نوازتےرہناہے۔اسلامی نظریاتی کونسل کے قیام کا بنیادی مقصد ہی یہی تھا کہ کونسل کی مشاورت سے، مُلک کا دستورقران و سنت کے زیادہ سے زیادہ قریب رہے اور کوئی بھی حکومت ، عین اسلامی قوانین کی روشنی میں کسی بھی قسم کی رہنمائی، کسی بھی وقت حاصل کرسکے۔ اگر دیکھا جائے تو اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان جیسے ملک میں اہم ترین ادارہ ہے۔پاکستان ایسے لوگوں کا مُلک ہے جو روزِ اوّل سے نسبتاً زیادہ مذہبی طبیعت کے مالک ہیں۔ایسے مُلک میں ’’اسلامی نظریاتی کونسل‘‘ کا وجود کسی نعمت سے کم نہیں ۔یہ واحد ادارہ ہے جو فی الحقیقت حکومتی سطح پر شرعی فتوے کی سب سے بڑی اتھارٹی ہے۔اگر کونسل فقط مسلسل کام ہی کرتی رہتی تو کوئی وجہ نہ تھی کہ اب تک عام مولوی کی جانب سے جاری ہونے والے فتویٰ کی حیثیت خود بخود ختم ہوچکی ہوتی۔اگر کونسل تمام فرقوں کا اعتماد حاصل کرکے ’’مشترکہ فتوے‘‘ جاری کرتی رہتی تو ہرڈیڑھ اینٹ کی مسجد سے کبھی’’کافرکافر‘‘ کے نعرے کامیابی کے ساتھ بلند نہ ہوپاتے۔
    دراصل اسلامی نظریاتی کونسل کو کبھی بھی غیرجانبداری کے ساتھ کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ نہ ہی کبھی تمام فرقوں کی مساوی نمائندگی ممکن ہوسکی۔گزشتہ دنوں جاوید احمد غامدی صاحب نے ایک انٹرویو میں اسلامی نظریاتی کونسل کے کردار پر بات کرتے ہوئے کہاکہ،
    ’’ اب سوال یہ ہے کہ کیا ’’اسلامی نظریاتی کونسل ‘‘اُن ضرورتوں کو پورا کرنے کی اہلیت رکھتی ہے تو میرے نزدیک اس کا جواب نفی میں ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا نظام تعلیم ایسے جید علما تیار کرنے سے قاصر ہے جو دور جدید کی اس ضرورت کو پورا کرنے کے اہل ہوں۔ یہ نظام تعلیم تقلیدِ جامدکے اصول پر قائم ہے۔ اس کا اصرار ہے کہ دین کی تعبیر و تشریح کے حوالے سے قدیم علما کا کام ہر لحاظ سے مکمل ہے۔ ان کے کام کی تفہیم اورشرح و وضاحت تو ہو سکتی ہے، مگر اس پر نظر ثانی کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ دور اول کے فقہا نے جو اصول و قوانین مرتب کیے ہیں، وہ تغیرات زمانہ کے باوجود قابل عمل ہیں۔ اس ضمن میں تحقیق و اجتہاد کی نہ ضرورت ہے اور نہ اس بات کا اب کوئی امکان کہ کوئی شخص مجتہد کے منصب پر فائز ہو سکے۔ ہمارے علما اسی نظام تعلیم کی پیداوار ہیں۔ چنانچہ وہ اپنی انفرادی حیثیت میں ہوں یا کسی ادارے کی صورت میں مجتمع ہو کر اپنے فرائض انجام دے رہے ہوں، وہ اس کی اہلیت ہی سے محروم ہیں کہ اسلامی شریعت کی شرح ووضاحت کر سکیں یا جن معاملات میں شریعت خاموش ہے، ان کے بارے میں اپنی آرا پیش کر سکیں۔ یہی علما ’’اسلامی نظریاتی کونسل‘‘ کا حصہ ہیں، لہٰذا اس ادارے یا ایسے کسی دوسرے ادارے سے اس طرح کی توقع رکھنا عبث ہے کہ وہ اسلامی شریعت کے بارے میں ان سوالات کا جواب دے سکے جو مسلمانوں کے ذہین عناصر کی جانب سے اٹھائے جارہے ہیں اور ان شکوک وشبہات کو رفع کر سکے جن کا اسلام کو عالمی سطح پر سامنا ہے‘‘۔
    غامدی صاحب کا سارا زور اس بات پر رہا کہ ہمارے پاس دراصل ایسے علمائے دین ہی موجود نہیں ہیں جن کے سپرد’’اسلامی نظریاتی کونسل‘‘ جیسا ادارہ کیا جاسکے۔ اُن کے بقول ہمارے علمأ چونکہ اجتہاد کو عملاً تسلیم نہیں کرتے، اس لیے اسلامی نظریاتی کونسل ہمیشہ ایک ناکام ادارہ رہے گی۔ میرا خیال ہے غامدی صاحب علمأ سے چونکہ بہت زیادہ نالاں ہیں اس لیے انہوں نے ایسا بیان جاری کیا۔ غامدی صاحب نے اس حقیقت کو نظرانداز کردیا کہ جب ۱۹۷۳ میں یہ کونسل بنائی گئی تو اس وقت بھی علمأ یہی تھے یعنی اجتہاد کے بارے میں ایسے ہی خیالات کے مالک تھے جن کا ذکر غامدی صاحب نے فرمایا۔لیکن پھر بھی کونسل وجود میں آگئی۔ گویا اُس وقت کےعلمأ کونسل کے وجود پر متفق ہوگئے۔ اگر ہم ذرا ذہن پر زور دیں تو ۷۳ کے آئین کو ملک بھر کے طبقۂ علمأ سے جو تائید حاصل تھی، وہ دراصل پہلا اجتہاد تھا۔ ۷۳ کے آئین میں اسلامی نظریاتی کونسل کا وجود میں آنا میری نظر میں اتنا بڑا اقدام ہے کہ بذاتِ خود ۷۳ کا آئین اتنا بڑا اقدام نہیں ہے۔یہی موقع تھا جب سب سے پہلے قراردادِ مقاصد پر نظرثانی کی جاتی اور قراردادِ مقاصد کے ماتھے سے ’’غیر جمہوری‘‘ ہونے کا داغ ہمیشہ کے لیے مٹایا جاتا۔ اس میں کچھ شبہ نہیں کہ قراردادِ مقاصد کی بیشتر اصطلاحات قطعی طور پر مبہم ہیں ۔ اسلامی نظریاتی کونسل اس ابہام کو ختم کرسکتی تھی۔ یہ کونسل اپنی نیچر میں ہی ایسا ادارہ تھی کہ اگر مسلسل کام کرتی رہتی تو ایک وقت آتا کہ ملک کے ہرشہری کو پتہ چل جاتا کہ انہوں نے دراصل کس کی بات کا یقین کرناہے۔ انہوں نے مسجد کے سپیکروں سے بلند ہونے والے فتووں پر کان دھرنے ہیں یا کونسل کی طرف اُمید کی نظروں سے دیکھنا ہے۔ بس شرط یہی تھی کہ کونسل مسلسل اور متواتر کام کرتی۔
    ایک نہایت قابلِ توجہ امر یہ ہے کہ پاکستان مذہب کے نام پر حاصل کیا گیا جبکہ پاکستان کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبران ہمیشہ ’’وطنی قومیت‘‘ کے طریقے پر حاصل کیے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ملک کبھی ٹھیک سے نہ جمہوری بن پایا اور نہ اسلامی۔ جب ملک بن رہا تھا تو کہاگیا کہ کوئی بنگالی، سندھی، بلوچی، پٹھان، پنجابی نہیں ، سب مسلمان ہیں لیکن اسمبلی میں نمائندگی کے وقت سندھی، بنگالی، پٹھان ، پنجابی اور بلوچ کی بنیاد پر کال دی گئی۔ایک عجیب سی بات کرتاہوں جو فی الاصل میرا مقصود نہیں، صرف کونسل سے متعلق اپنی رائے سمجھانے کے لیے عرض کررہاہوں کہ اگر ملک کو مذہب کی بنیاد پر بنایا گیا تھا تو نمائندگی بھی مسالک کی بنا پر دی جاتی۔یعنی سندھ، پنجاب، پختونخوا اور بلوچستان سے نمائندے لینے کی بجائے، شیعہ، سنی، دیوبندی، اہلحدیث کی بنیاد پر الیکشنز کروائے جاتے تو ایسی صورت میں اسمبلی اُن اہداف کو ضرور حاصل کرپاتی جو اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کا خواب دیکھتے ہوئے اقبال کے پیش نظر تھے۔ لیکن چونکہ یہ ایک احمقانہ فعل ہوتا اور پوری دنیا اس بنیاد پر قائم شدہ جمہوریت کو کبھی تسلیم نہ کرتی، اس لیے ایسا نہ ہونا تھا اور نہ ہوا۔
    فرض کریں اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبران کا انتخاب جمہوری طریقے سے کیا جاتا تو منظر نامہ کیا ہوتا؟ سب سے پہلے ہرمسلک کی جماعت یہ کوشش کرتی کہ وہ کونسل میں آنے کے لیے اپنے علمأ کو اس قابل بنائے کہ وہ آئینی شقوں پر پورا اُترسکیں۔ پھر ہر مسلک کے علمأ اپنے اپنے معتقدین کو اپنے اپنے منشور سے آگاہ کرتے کہ وہ کونسل میں پہنچ کر کون کون سے اہم مسائل کو اُٹھائینگے۔ بالکل ویسے جیسے ایک جمہوری ادارے میں، سیاسی پارٹیاں کرتی ہیں اور اپنا منشور عوام کے سامنے رکھتی ہیں۔ یوں مختلف مسالک کے علمأ کی طرف سے عوام کو ’’پیکج‘‘ ملتا۔ عوام اپنے مذہبی مسائل اپنے علمأ کے سامنے رکھتی اور علمأ ان کو انفرادی طور پر حل کرنے کی بجائے، اپنے پیکج کا حصہ مان کر اُن پر غوروفکر اور تدبر کرتے اور کونسل میں پہنچنے سے پہلے ہی بیشتر مسائل پر علمأ کے درمیان لازمی طور پر اتفاق پیدا ہوجاتا۔یوں چھوٹی چھوٹی لیکن بہت سی نظریاتی کونسلز خود بخود وجود میں آجاتیں۔ جلدی ہی چھوٹے چھوٹے مسالک ، بڑے مسالک میں مدغم ہونا شروع ہوجاتے۔ مثلاً اگر بریلویوں کے کئی گروہ ہیں یا دیوبندیوں کے کئی گروہ ہیں تو وہ کونسل میں پہنچنے کی غرض سے آپس میں ایکا کرلیتے اور یوں چھوٹے چھوٹے اختلافات خود بخود ختم ہونا شروع ہوجاتے۔اور سیاستدانوں کی طرح علمأ کا بنیادی مقصد بھی لوگوں کو ریلیف دینا ہوتا جوکہ ویسے بھی شریعتِ اسلامی کا بنیادی مقصد ہے۔
    مسلسل غور و فکر اور شریعت کی مسلسل تدوین کے عمل سے یہ کونسل اپنی عزت اور وقار خود بناسکتی تھی۔ اجتہاد، جسے ہمیشہ اجنبی نظروں سے دیکھا گیاہے، بہت جلد ٹھیک طریقے سے ممکن ہوجاتا۔ اقبالؒ کی تشکیل ِ جدید سے کتنے ہی مسائل میں اجتہاد کرتے وقت مدد لی جاتی۔ کتنے ہی مسائل کے لیے کونسل دوسرے اسلامی ممالک کے علمأ سے مشاورت کرتی تاکہ کوئی بھی شرعی مسئلہ باریک بینی سے رہ نہ جائے۔پاکستان کی اسلامی نظریاتی کونسل کے فتووں کو نہ صرف پاکستان میں اہمیت حاصل ہوتی بلکہ پوری دنیا کے اسلامی ممالک یہاں سے رہنمائی لیتے۔
    آج بھی اگر اسلامی نظریاتی کونسل کو تھوڑے سے اجتہا د کے ساتھ ازسرنَو کام کا موقع دیاجائے تو مذکورہ بالا اہداف حاصل کرنا چنداں مشکل نہیں۔تھوڑے سے اجتہاد سے میری مراد ہے کہ،
    ۱۔ کونسل میں اراکین کی تعداد بڑھادی جائے۔
    ۲۔ کونسل کا عرصہ مختصر کردیا جائے۔
    ۳۔ کونسل کے اراکین کو جمہوری طریقے سے منتخب کیا جائے۔
    ۴۔ انتخاب میں نمائندگی متناسب ہو۔
    اس طرح کسی کی اجارہ داری قائم نہ رہ سکے گی۔ اور بہت ممکن ہے کہ وہ اُمیدیں جو اس کونسل سے وابستہ تھیں کسی حد پوری ہونا شروع ہوجائیں۔ ایک بار قوم کے علمأ اجتہاد کے راستے پر چل پڑے تو اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کا اقبالی خواب بہت جلد پورا ہوسکتاہے۔یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ جس قوم میں اجتہاد کا عمل رُک جائے، وہاں ’’افترأ‘‘ کا عمل کئی گنا تیزی کے ساتھ شروع ہوجاتاہے کیونکہ تبدیلی کو روکنا ممکن ہی نہیں ۔ سو جب علمأ کی کونسل مل کر اجتہاد نہیں کرتی تو عوام خود افترأ پردازی سے کام لیتے ہیں اور نت نئے مسائل پر عجیب و غریب قسم کی جاہلانہ رسموں کا اجرأ ہوجاتاہے اور مسلسل ہوتا رہتاہے ۔ یہاں تک مذہب اپنے ہی لوگوں میں اپنی اہمیت کھودیتا اور عملاً فنا ہوجاتاہے۔

  • دہشت گردی کی اصل وجہ اور علاج –  ارمغان احمد

    دہشت گردی کی اصل وجہ اور علاج – ارمغان احمد

    ایک سردار ایک ہوٹل میں گیا اور چائے کا آرڈر دیا- بیرا چائے لے آیا تو سردار جی نے چمچ اٹھائی اور پیالی میں ہلانا شروع کر دی- دس منٹ چمچ ہلا کر اس نے چائے چکھی تو پھیکی تھی- اس نے پھر چمچ ہلانا شروع کر دی اور بیس منٹ بعد دوبارہ چکھی تو پھر بھی پھیکی تھی- اس کے بعد سردار جی اپنی کرسی پر کھڑے ہوئے اور اونچی آواز میں سب کو اپنی طرف متوجہ کر کے یہ بولے، “لو جی سجنو تے مترو! اج اک گل ثابت ہو گئی جے، اگر چاہ اچ چینی نہ ہووے تے جنی دیر مرضی چمچ ہلا لو، مٹھی نہیں ہوندی”- اردو میں، “دوستو آج ایک بات ثابت ہو گئی ہے کہ اگر چائے میں چینی نہ ہو تو جتنی دیر مرضی چمچ ہلا لیں میٹھی نہیں ہوتی”-

    ہمارے ملک میں ایک سے بڑھ کر ایک فلسفی پڑا ہے، حیرت ہے وہ اتنی سامنے کی بات کیسے نظر انداز کر سکتے ہیں؟ ہمارے ملک کی چائے میں معاشی اور معاشرتی انصاف کی چینی نہیں ہے- اب ہلا لیں چمچ جتنی دیر مرضی، نہیں ہونی یہ چائے میٹھی- ایک فلسفی اٹھتا ہے تو اسلام کو الزام دیتا ہے، دوسرا اٹھتا ہے تو دو قومی نظریے کے پیچھے پڑ جاتا ہے، تیسرا فوج اور ایجنسیوں کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے، چوتھا بھارت اور اسرائیل کو-

    جس ملک میں ایک سچی یا جھوٹی خبرآئے کہ پولیس نے باپ اور بیٹے کے رشتے کا تقدس پامال کر دیا اور لوگ یہ سمجھیں کہ ہاں ہماری پولیس سے کچھ بعید نہیں تو اس ملک کے لوگوں کو تھوڑی دیر کے لئے رک کر سوچنا نہیں چاہئے کہ ہم کہاں جا رہے ہیں؟ کیا پولیس کی یہ شناخت ہونی چاہئے؟ کیا ایک غریب کے بچے کو تعلیم کے اتنے ہی مواقع مل رہے ہیں جتنے امیروں کے بچوں کو؟ کیا سب نوکریاں صرف اور صرف انکی قابلیت کی بنیاد پر مل رہی ہیں؟ کیا ہماری عدالتوں نے سستے اور فوری انصاف کی فراہمی کو ممکن بنا دیا ہے؟ اگر ان سوالوں میں سے کسی کا جواب بھی ہاں میں نہیں ہے تو ہم سب وہ سردار ہیں جو چاہے میں چینی ڈالے بغیر چمچ ہلائے جا رہے ہیں- ہلاتے رہیں، چکھتے رہیں، شائد کوئی معجزہ ہو جائے اور چائے میٹھی ہو جائے-

    ان حالات میں آپ کوئی بھی مذہب، کوئی سیکولر ازم، کوئی کمیونزم، کوئی سوشلزم غرضیکہ کوئی بھی ازم چن لیں، امن نہیں ہو گا، چین نہیں ملے گا- معاشرے کی بنیادوں میں آگ لگی ہو تو عمارت تک دھواں ضرور پہنچے گا- فرض کریں آپ کو مشرق میں ایک ہزار میل دور جانا ہے، آپ کے پاس ایک بندہ آ کر کہتا ہے میں آپ کو وہاں لے کر جاؤں گا لیکن اسکا رخ مغرب کی طرف ہے کیا وہ کبھی منزل پر پہنچ پائے گا؟ دوسری طرف ایک اور بندہ آ کر یہی بات کہتا ہے اور اسکا کم سے کم رخ ٹھیک ہے، اس کے پاس تجربہ ہو یا نہیں کیا وہ کبھی نہ کبھی منزل پر پہنچ نہیں جائے گا؟ میں نے پچھلی دو سطروں میں جو کچھ کہا ہے اسے سمجھنے کی کوشش کیجئے گا-

    اسی طرح کسی دوست کا ایک سوال پڑھا فیس بک پر- سوال کچھ یوں تھا، “ڈرون اور دہشت گردی میں کیا تعلق ہے کچھ سمجھ نہیں آتی”- یہ لیں حضور آپ کو سمجهانے کی کوشش کرتے ہیں- فرض کریں آپ ایک شوہر ہیں، گھر سے باہر ہر کسی سے مار کھاتے ہوں، بے عزتی کرواتے ہوں اور آپ کے بیوی بچے یہ سب دیکھتے ہوں لیکن گھر پہنچ کر آپ اپنی بیوی پر رعب جمانے کی کوشش کریں اور عزت کروانے کی کوشش کریں تو آپ کا کیا خیال ہے، وہ آپ کی عزت کرے گی؟ اسی طرح آپ نے طالبان سے مذاکرات کرنے ہیں یا جنگ، پہلے صرف گھر کے اندر شیر بننا چھوڑیں- طالبان ہماری ریاست کی رٹ کو چیلنج کرتے ہیں نا؟ تو کیا ڈرون ہماری حاکمیت اعلیٰ کو سلامی پیش کرنے آتے ہیں؟ یاد رکھئے یہ جنگ جیتنی ہے تو اپنی دو عملی سے چھٹکارہ پانا لازمی ہے- قوم کو اعتماد میں لیں، مخمصے کی کیفیت سے نکالیں، اپنی پالیسی لوگوں کو بتائیں اور سمجھائیں، پھر دیکھیں یہ غیرتمند قوم کیسے ہر گمراہ طبقے سے شیروں کی طرح لڑتی ہے-

    میری آپ سب سے گزارش ہے کہ اپنی توجہ کو بنیادی وجہ پر مرکوز رکھیں- جن لوگوں کو جینا ایک سزا لگے، مرنا ایک دوا لگے، ان کے لئے جینے میں کوئی کشش پیدا کیجئے، انصاف کیجئے، غیر سیاسی پولیس یقینی بنائیں، آزاد بلدیاتی ادارے قائم کریں، ایک جیسے مواقع فراہم کریں، جس غریب کے بچے کو مدرسہ جانا پڑتا ہے اس کے لئے وہی تعلیم فراہم کریں جو امیروں کے بچوں کو ملتی ہے- تمام مساجد میں تمام امام اور مولوی حضرات صرف حکومت وقت کو رکھنے چاہیئں- یہ نمونہ ایران، سعودی عرب، ترکی اور بہت سے ممالک میں کامیابی سے چل رہا ہے اس لئے یہ کوئی ایسی نئی اختراع نہیں ہے- ان تمام امام حضرات کو مقابلے کے امتحان کی طرز پر نفسیاتی اور شخصی امتحانات سے گزارنے کے بعد بہت اچھی سہولیات اور تنخواہ دینی چاہیئے- صرف وہ لوگ جو سرکاری طور پر منظور شدہ اداروں سے فارغ التحصیل ہوں انھیں امامت سونپی جائے- حکومت انھیں ہدایات جاری کرے کہ اختلافی امور کی بجایے متفقہ امور پر بات کریں اور ان کی تعلیمات کو مانیٹر کیا جائے-

    ہمارا المیہ یہ ہے کہ آرمی آفیسر، پولیس آفیسر، کمشنر، جج وغیرہ بننے کے لئے تو بہت امتحانات ہیں مگر ایک امام یا پرائمری اسکول ٹیچر بننے کے لئے نہیں- وہ لوگ جنہوں نے اس قوم کے روحانی، دینی اور دنیاوی مستقبل کی نگہداشت اور نگرانی کرنی ہے ہمیں ان کی کوئی فکر ہی نہیں کہ کیا وہ اس قابل ہیں بھی کہ نہیں؟ کریں یہ سب، پھر ہم دیکھتے ہیں کیسے ہوتی ہے دہشتگردی!!

  • چھوٹی ، بڑی باتیں – محمد عامر ہاشم خاکوانی

    چھوٹی ، بڑی باتیں – محمد عامر ہاشم خاکوانی

    11866265_1085617161465765_1795389247132538024_n دانشور اور سکالر احمد جاوید نے ایک بار کہا تھا: ”خیر کا کام کرنے کرنے کے لئے ضروری نہیں ہے کہ کوئی لمبا چوڑا اہتمام کیا جائے، چھوٹے چھوٹے کاموں سے نیکی اور خیر آگے منتقل ہوسکتی ہے۔ آدمی سیکھنا چاہے تو اپنے آس پاس سے اس طرح کی بہت سی چیزیں سیکھ سکتا ہے ۔ ہم نے خیر کی کئی باتیں اپنے ساتھ سفر کرنے والے مسافروں سے سیکھیں “۔
    بات خوبصورت ہے، واقعی ہمیں کئی بار ایسے تجربات اور مشاہدات سے گزرنا پڑتا ہے کہ اگر ان پر غور کیا جائے، پلے باندھ لیے جائیں تو زندگی بھرکام دیتے ہیں۔ چھوٹی نظر آنے والی بات بھی ایسے میںآگے جا کر بڑی بن جاتی ہے۔ مواعظ حضرت اشرف علی تھانوی میں یا کہیں اور پڑھا تھا کہ لکھنو میں ایک حجام کو ہر ایک کی نماز جنازہ میں شریک ہونے کی عادت تھی۔ وہ اپنا اوزاروں والا بکسہ اٹھائے شہر بھر گھومتا رہتا۔ کسی نے بالوں کی کٹنگ کرائی، کسی نے ڈاڑھی کا خط بنوایا، جہاں کہیں حجام کو معلوم ہوتا کہ کسی کا نماز جنازہ ہونے والا ہے، وہ اپنا بکسہ کسی دکان پر رکھواتا اور اس کے جنازے میں شرکت کے لئے پہنچ جاتا۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ اسے کئی میل پیدل چل کر شہر کے کسی کونے میں نماز جنازہ پڑھنے جانا پڑتا۔ اس نے کبھی اسے زحمت نہیں سمجھا اور پورے خلوص دل کے ساتھ شریک ہوتا۔ کہتے ہیں کسی دکاندار نے اس سے پوچھا کہ تم مرحوم کو جانتے تک نہیں، اس قدر ذوق و شوق سے جنازہ پڑھنے کیوں جا رہے ہو، یہ فرض کفایہ ہے، ہر ایک کے لئے لازمی نہیں کہ جنازہ پڑھے۔ حجام کا جواب تھا، میں اس لئے بھی شریک ہوتا ہوں کہ کیا خبر رب تعالیٰ میرے جنازہ میں بھی برکت عطا کریں اور ایسے لوگ شریک ہوجائیں جن کی دعاﺅں سے میری مغفرت ہو جائے۔
    کچھ عرصے بعد لکھنو کے سب سے ممتاز اور قابل احترام عالم دین (مولانا فرنگی محلی) انتقال کر گئے۔ ان کے جنازے میں بہت بڑی تعداد میں لوگ شریک ہوئے۔ شہر کا سب سے بڑا جنازہ تھا۔ مولانا کا جنازہ پڑھایا گیا تو اس کے فوراً بعد اعلان ہوا، حضرات جائیے نہیں، ایک اور جنازہ آ گیا ہے، اس کی نماز ہونے لگی ہے۔ نماز جنازہ پڑھائی گئی۔ مولانا فرنگی محلی کے جناز ے کے لوگ مسلسل آ رہے تھے، کچھ ان کے جناز ے میں شامل نہیں ہوسکے تھے، بھاگم بھاگ وہ اس دوسری نمازجنازہ میں شریک ہوگئے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ اسی حجام کی نماز جنازہ تھی۔ اللہ نے اس کے ایک عمل کو قبول کیا اور اس کی خواہش کا مان رکھا کہ اس کا جنازہ مولانا فرنگی محلی سے بھی بڑا ہوگیا۔
    چند دن پہلے فیس بک ان باکس میں ایک دوست نے دلچسپ چیز شیئر کی۔ کہا: ”میں یکم جنوری یا یکم محرم کو نئے سال کا عہد نہیں کرتا، اس حوالے سے رمضان کو منتخب کر رکھا ہے۔ نیو ایئر ریزولوشن اسی میں طے کرتا ہوں، میرے حساب سے سال رمضان سے شروع ہوتا اور شعبان کے آخری دن ختم ہوتا ہے۔ رمضان میں عہد کرنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس پر عمل درآمد بھی فوری شروع کر دیتا ہوں۔ تیس دن عمل کرنے سے عادت سی ہوجاتی ہے، جسے بعد میں مستقل چلانا آسان ہوجاتا ہے۔ ہر سال اپنے اندر ایک مثبت عادت ڈالنے کا عہد کرتا ہوں اور ایک منفی عادت ختم کرنے کی کمٹمنٹ کرتا ہوں۔ رمضان کی برکت سے میر ے عہد آسانی سے ٹوٹتے نہیں“۔ یہ بات پہلی بار سنی تھی، اچھی لگی۔ واقعی رمضان کو ایک پیمانہ بنا لیا جائے تو ایک طرح سے یہ نئے سال کا آغاز ہی ہوتا ہے۔ ہم لوگ عام طور پر یکم جنوری کو نیو ایئر ریزولوشن بناتے ہیں۔ ایسی منفی عادات جن کو چھوڑنا چاہ رہے ہیں، ایسی صحت مند باتیں جو زندگی کا حصہ ہونی چاہئیں، نماز کی پابندی، مطالعے کی عادت، سگریٹ نوشی سے جان چھڑانا، وغیرہ وغیرہ…. ان کی کمٹمنٹ کی جاتی ہے۔ نیو ایئر پر ایک دوسرے کو مبارک باد بھی دی جاتی ہے، بعض دوست اصرار کرتے ہیں کہ یکم محرم کو نیا سال تصور کیا جائے، مگر محرم میں ایک خاص انداز کے حزن کی کیفیت طاری ہوتی ہے۔ رمضان کی مبارک باد مگر ایک دوسرے کو دینا اچھا لگتا ہے ۔خیر یہ نیو ایئر کی بحث میں پڑے بغیر اہم بات یہ ہے کہ اگر کوئی رمضان کی روحانی قوت کو استعمال کرتے ہوئے اپنے اندر مثبت چیزیں پیدا اور منفی سے جان چھڑا سکتا ہے تو اس سے بہتر کیا ہوسکتا ہے! اسے شیئر اس لئے کر رہا ہوں کہ ممکن ہے کوئی اور بھی اس سے تحریک لینا چاہے۔
    کئی سال پہلے ہوسٹل میں ایک دوست کے عزیز نے گپ شپ میں ایسی بات بتائی کہ وہاں بیٹھے سب لوگ سحر زدہ ہو گئے ۔ ہاسٹلز میں عام رواج ہے کہ کسی ایک لڑکے کے کمرے میں دو چار دوست اکٹھے ہوگئے اور گھنٹوں گپ شپ چلتی رہی۔ وہیں ایک صاحب نے جو کسی لڑکے کے مہمان تھے، بتایا کہ میں ہرسال رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوتے ہی اپنی عیدیاں بانٹ دیتا ہوں۔ محفل میں حیرت کے آثار دیکھ کر آرام سے بولے: ”دیکھیں عیدی دینے کا اصل فائدہ یہ ہے کہ وہ کسی کے کام آ سکے۔ اپنی ماہانہ آمدنی سے ایک خاص تناسب سے رقم الگ کرلیتا ہوں، عید سے آٹھ دس دن پہلے اپنی بہنوں، بھانجیوں، بھتیجیوں کے گھر جا کر ہر ایک کو عیدی کا لفافہ دے دیتا ہوں۔ اپنے ان قریبی رشتے داروں میں جو نسبتاً کم وسیلہ ہیں، ان کا حصہ زیادہ رکھ لیا جاتا ہے۔اسی طرح بچوں کے لئے الگ لفافے بنا رکھے ہیں، خاندان میں بعض گھر ایسے ہیں جنہیں اس کی ضرورت ہے، ان کا مسئلہ حل ہو جاتا ہے ۔دو تین ہزار بھی ان کے کسی نہ کسی کام تو آ جاتے ہوں گے ۔ اس رمضانی عیدی کا فائدہ یہ ہے کہ کوئی انکار نہیں کرتا، ورنہ ویسے عید کے لئے مدد کرنا چاہوں توکئی عزیز لینے سے انکار کر دیتے ہیں، عیدی سے کون منع کر سکتا ہے؟ عید والے دن عیدی کے بجائے پھل، کیک وغیرہ لے جاتا ہوں“۔
    یہ بات سن کر ہم سب حیران رہ گئے۔ ایک دوست نے پوچھا کہ طریقہ تو آپ کا بہت ہی خوب ہے، مگر یہ کہاں سے سیکھا؟ یہ سن کر مسکرائے اور بولے کہ ایک دوست سے، جس نے مجھے شادی پر بر وقت سلامی دے کر یہ نکتہ سکھایا۔ پھر بولے کہ میری شادی ہونے والی تھی، اخراجات توقع سے کچھ زیادہ ہو رہے تھے، وسائل کم تھے، سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیاکریں۔ دفتر سے چھٹیاں لے چکا تھا۔ ایک روز میرے دفتر کے ایک کولیگ اور محترم دوست گھر آئے۔ انہوں نے کئی سال باہر گزارے تھے اور ایک خاص قسم کا قرینہ ان کی زندگی میں تھا۔ مجھے گھر سے باہر بلایا اور ایک موٹا سا لفافہ کوٹ کی اندر والی جیب سے نکالا اور مجھے پکڑا دیا، کہنے لگے کہ یہ آپ کی شادی کی سلامی ہے۔ حیرت سے میں نے انہیں کہا، مرزا صاحب شادی تو ایک ہفتے بعد ہے، نکاح والے دن آپ سلامی بھی دے دیجئے گا۔ انہوں نے خاموشی سے وہ لفافہ میرے ہاتھ میں تھمایا اور بولے، بھائی میں سلامی شادی سے پہلے دینے کا قائل ہوں۔ اس کی افادیت بھی پہلے ہی ہے، بعد کا تو تکلف ہی ہے۔ یہ کہہ کر وہ چلتے بنے، گھر جا کر میں نے لفافہ کھولا تو اس کے اندر معقول رقم موجود تھی، اتنی معقول کہ مجھے کسی اور سے قرض مانگنے کی ضرورت پیش نہیں آئی، مشکل رفع ہوگئی “۔ وہ صاحب کہنے لگے، ”شادی کی سلامی والی بات سمجھ بھی آ گئی اور اس کا قائل بھی ہو گیا۔ بعد میں ایک دن خیال آیا کہ عید کے اصل اخراجات تو عید سے پہلے ہونے ہیں۔ عید والے دن اگرکسی کو ٹھیک ٹھاک عید بھی مل جائے ، تب بھی وہ کچھ نہیں کر سکتا۔ یہ بات سمجھ آگئی تو پھرجسے عیدی دینی ہو، اسے عید سے پانچ سا ت روز پہلے دے دیتا ہوں، تاخیر ہوجائے تو چاند رات سے ایک دو دن پہلے لازمی دے آتا ہوں کہ ممکن ہے کسی کی عید تیاری میں کوئی کسر باقی ہو،نیا جوتا نہ لے سکا ہو، کچھ اور چیزیں ناکافی ہوں تو ممکن ہے میری عیدی وہ مسئلہ حل کر دے “۔ بات خوبصورت تھی، روح تک سرشار ہوگئی، اس وقت عہد کیا کہ قدرت نے مہلت دی تو ہم بھی ایسا ہی کریں گے۔ بعد میں پھر چیزیں بھول بھال جاتی ہیں، ایک دوسر ے کو مگر یاد دلاتے رہنا چاہیے ، کیا خبر کوئی چھوٹی سی بات ، کس کے حق میں بڑی بات ثابت ہو۔