Blog

  • علماء کی نگرانی میں ٹی وی چینل کا قیام ضروری – صائمہ سلیم

    علماء کی نگرانی میں ٹی وی چینل کا قیام ضروری – صائمہ سلیم

    حق و باطل کی موجودہ کشمکش میں اہل حق کے دفاع کےلیے مستند علمائے کرام کی نگرانی میں ٹی وی چینل کا قیام ناگزیر ہوگیا ہے، اس کے جواز یا عدم جواز کے بارے میں علمی بحث کرنا علماء و فقہاء کا کا م ہے، ہم تو بس اپنی ناقص رائے کا اظہار کرسکتے ہیں۔

    ایک زمانہ تھا جب لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کے بارے میں بھی علمائے کرام تذبذب کا شکار تھے، بعض کے نزدیک اس کا استعمال ناجائز تھا مگر رفتہ رفتہ اسے ابلاغ کا جدید ذریعہ اور سہولت کے طور پر قبول کرلیا گیا، ایسی ہی بحث ٹی وی چینل کے حوالے سے جاری ہے۔
    میرے ناقص علم کے مطابق تصویر کی حرمت کے پیچھے جو حکمت کارفرما ہے، وہ یہ کہ تصویر کےذریعے بت پرستی کی ابتداء ہوئی اور یہ کہ غیر مہذب اور ناشائستہ تصویر سازی کے ذریعے فحاشی پھیلائی جاتی ہے، تو عرض یہ ہے کہ یہ دونوں مقاصد تو ہر طرح کی تصاویر و ویڈیو سے حاصل کیے جا سکتے ہیں، چاہے وہ عکس کی صورت ہو یا حقیقی تصویر، سو عکس اورحقیقی تصویر کی بحث سے قطع نظر یہ بات دل کو لگتی ہے کہ جو کام حقیقی زندگی میں ناجائز و حرام سمجھتے ہیں وہ تصویر یا ویڈیو میں بھی حرام ہی سمجھی جائے گی مثلاً ایک خاتون حقیقی زندگی میں پردہ کرتی ہیں اور غیر محارم کے سامنے بے حجاب نہیں آتی، بلکہ باپردہ ہوکر سامنا کرتی ہے تو تصاویر یا ویڈیو میں بھی عورت کو اپنے پردے کا اسی طرح خیال رکھنا چاہیے، ایسا نہ ہو کہ علماء نے عکسی تصویر کی اجازت دی ہے، جیسےمرضی کسی بھی حلیے میں تصویر بناتی رہے کہ بعد میں ڈیلیٹ کردیں گے۔ یہ مناسب طرزعمل نہیں۔ بالکل اسی طرح اگر ٹی وی چینل کا قیام عمل میں آیا تو اسی اصول کو نافذ کرنا ہوگا کہ جن مناظر کا اظہار ہم حقیقی زندگی میں جائزنہیں سمجھتے، وہ چینل میں بھی نہ دکھائے جائیں‌. مختصر یہ کہ قرآن وحدیث کی روشنی میں اصول و ضوابط طے کر کے ہم اپنا ہدف باآسانی حاصل کرسکتے ہیں۔

    آج کے حالات اہل فکر و دانش کی نظر سے پوشیدہ نہیں، اپنی نسلوں کو بے راہروی و بے دینی سے بچانے کےلیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ تحقیق سے یہ بات ثابت ہے کہ انسانی دماغ صرف آڈیو کے مقابلے میں آڈیو ویڈیو کا اثر زیادہ لیتا ہے اور حافظے میں بات تادیرمحفوظ رہتی ہے۔ عوام الناس تک رسائی کا یہی سب سے مؤثر ذریعہ ہے کیونکہ ہم بخوبی واقف ہیں کہ کل آبادی میں سے بہت معمولی تعداد میں لوگ اہل اللہ کی بات پڑھتے یا سنتے ہیں جبکہ ٹی وی تقریباً ہر گھر میں موجود ہے، لوگ اس قدر عادی ہوچکے ہیں کہ ٹی وی چھوڑنا ان کے لیےمحال ہوگیا ہےاور لوگوں نے اپنا دل و دماغ اس کے حوالے کردیا ہے، اسی کے تابع ہو زندگی گزارتے ہیں۔ کسی بات کا ٹی وی سے نشر ہوجانا ہی ان کے نزدیک اس کے مستند ہونے کے لیے کافی ہے تو اس طبقے تک رسائی حاصل کرنے کے لیے ٹی وی چینل کا قیام ناگزیر ہے ورنہ اس بے حیائی، فحاشی اور بے دینی کے سیلاب میں ایک بڑی تعداد بہہ جائے گی۔ کون ہوگا اس کا ذمہ دار …..؟
    طلب والوں تک دین پہنچانا تو بہت آسان ہے، اصل گھاٹی تو بےطلبوں تک پہنچانا، سوئے ہووں کو جگانا ہے۔ تو پھر کون ہے اس گھاٹی کو عبور کرنے والا ….؟
    کم از کم پہنچا دینا تو اہل علم کی ذمہ داری ہے، عمل میں کھڑا کرنا رب العالمین کا کام ہے.
    ہم سب واقف ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کی دعوت و تبلیغ اور نشر و اشاعت کے لیے اس زمانہ میں موجود تمام وسائل کا استعمال کیا مثلاً بادشاہوں کو خطوط لکھ کر دعوت پہنچائی تو صحابہ کرام ؓ کو حکم دیا کہ وہ عبرانی زبان سیکھیں تاکہ دیگر اقوام تک اللہ کا پیغام پہنچایا جا سکے.
    چند سال قبل مولانا اسلم شیخوپوری شہید رحمہ اللہ نے اس مؤقف کی تائید کی تھی مگر تا حال عملی طور پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی وجہ یقیناً یہی ہے کہ اس حوالے سے تمام علمائے کرام ایک موقف پر نہیں ہے، اللہ کرے جلد از جلد اس معاملے کا کوئی بہترین حل برآمد ہوجائے ۔۔

  • سڑکوں کو سپریم کورٹ بنا دیں-جاوید چوہدری

    سڑکوں کو سپریم کورٹ بنا دیں-جاوید چوہدری

    566527-JavedChaudhryNew-1469464911-239-640x480

    آپ پرسوں کی مثال لے لیجیے‘ پولیس نے کراچی میں دو لوگ گرفتار کر لیے‘ ایک پر اختلافی تقاریر کا الزام تھا اور دوسرے پر فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ کا‘ گرفتاری سے اگلے دن پچاس ساٹھ لوگ ملیر میں اکٹھے ہوئے اور نیشنل ہائی وے بند کر دی‘ آدھ گھنٹے میں ہزاروں گاڑیاں کھڑی ہو گئیں‘ ریلوے کی مین لائین بھی قریب تھی‘ پاکستان ایکسپریس گزری‘ ہجوم نے ٹرین پر پتھراؤ شروع کر دیا‘ انجن کے شیشے ٹوٹ گئے‘ ٹرینوں کی آمدورفت بھی رک گئی‘ ہجوم کی وجہ سے دکانیں‘ پٹرول پمپس اور گھروں کی کھڑکیاں دروازے بھی بند ہو گئے۔

    پولیس نے مظاہرین سے مذاکرات کیے لیکن وہ ملزمان کی باعزت رہائی کے بغیر سڑک کھولنے کے لیے تیار نہیں تھے‘ عوام اس دوران دفتروں اور گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے‘ نیشنل ہائی وے پر سو کلو میٹر تک ٹریفک بلاک تھی‘ اسکول وینیں بھی پھنس گئیں اور ایمبولینسز بھی سٹک ہو کر رہ گئیں‘ مسافروں کی فلائیٹس بھی مس ہو گئیں اور نوکری کے لیے انٹرویو دینے والے انٹرویو بھی نہ دے سکے‘ ڈیلیوری ٹرک بھی پھنس گئے اور ٹرالر اور کنٹینر بھی الجھ گئے‘ ہزاروں گاڑیوں نے لاکھوں ٹن دھواں پیدا کیا اور یہ مہلک دھواں بھی آبادیوں کے پھیپھڑوں میں جذب ہو گیا‘ میڈیا پہنچا اور اس نے عوام کو لائیو تھیٹر دکھانا شروع کر دیا۔

    یہ سلسلہ ساڑھے آٹھ گھنٹے چلتا رہا‘ پولیس نے اس دوران تین بار مذاکرات کیے لیکن یہ تینوں مذاکرات کامیاب نہ ہو سکے‘ پولیس نے 13 گرفتار مظاہرین بھی سڑک کی ایک لین کھولنے کی شرط پر رہا کر دیے مگر احتجاجیوں نے رہائیوں کے باوجود سڑک نہ کھولی یہاں تک کہ ساڑھے آٹھ گھنٹے بعد پولیس مظاہرین پر آنسو گیس اور لاٹھی چارج پر مجبور ہو گئی‘ شیلنگ کی دیر تھی‘ مظاہرین بھاگ کر گلیوں میں غائب ہو گئے‘ پولیس نے پیچھا کیا‘ چند نوجوانوں نے اہلکاروں پر پتھراؤ کیا مگر یہ سلسلہ بھی ایک آدھ گھنٹے میں ختم ہو گیا‘ تاہم پولیس کو ٹریفک بحال کرنے میں چار گھنٹے لگ گئے‘ ساڑھے آٹھ گھنٹے کی تاخیر کے بعد ٹرینیں بھی بحال ہو گئیں لیکن اس دوران لوگوں کو جو کوفت‘ پریشانی اور تکلیف ہوئی‘ آپ اس کا اندازہ نہیں کر سکتے۔

    یہ کیا ہے؟ یہ اس ملک کے ایک شہر کا ایک دن کا ایک واقعہ ہے‘ آپ اگر تفصیل میں جائیں تو آپ کو معلوم ہو گا ملک کی تمام بڑی سڑکیں چیف جسٹس‘ آئی جی‘ وزیراعلیٰ‘ وزیراعظم اور پارلیمنٹ بن چکی ہیں‘ ملک میں جب بھی جس کا بھی دل چاہتا ہے یہ سڑک پر لاش رکھ کر ٹریفک بلاک کر دیتا ہے‘ یہ دو ٹائر لاتا ہے‘ سڑک کے درمیان رکھتا ہے‘ آگ لگاتا ہے اور نامنظور‘ نامنظور‘ گو‘ گو کے نعرے لگانے لگتا ہے اور یوں چند سیکنڈ میں بیچارے شہری اپنے تمام حقوق سے محروم ہو جاتے ہیں‘ مریض ایمبولینس میں مر جاتے ہیں‘ مسافر فلائیٹس سے رہ جاتے ہیں‘ بچے اسکولوں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں نہیں پہنچ پاتے‘ دفتر جانے والے دفتر‘ گھر جانے والے گھر اور مارکیٹ جانے والے مارکیٹ نہیں پہنچتے اور لوگ نوکریوں‘ امتحانوں اور ڈاکٹروں سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔

    آپ کسی دن شہر کی کسی مرکزی سڑک پر نکل جائیں آپ کو وہاں کوئی نہ کوئی تماشا ضرور ملے گا‘ لوگوں کو پولیس تنگ کرتی ہے تویہ مرکزی سڑک پر سینہ کوبی شروع کر دیتے ہیں‘ لوگ جج تک اپنی فریاد پہنچانا چاہتے ہیں تویہ سڑک پر لیٹ جاتے ہیں اور یہ تنخواہوں میں اضافہ چاہتے ہیں‘ یہ اپنی کچی نوکری کو پکا کرنا چاہتے ہیں‘ یہ اپنے پے اسکیل کو وسیع کرنا چاہتے ہیں اور یہ اگر اپنے مریض کا بروقت آپریشن کرانا چاہتے ہیں تو یہ شہر کی مرکزی شاہراہ پر دھرنا دے کر بیٹھ جائیں گے‘ میڈیا آئے گا‘ کیمرے اور مائیک لگیں گے اور ان کا کام ہو جائے گا لیکن ان کے کام کی وجہ سے جن ہزاروں لوگوں کو تکلیف پہنچی وہ کہاں جائیں‘ وہ کہاں فریاد کریں‘ یہ شاید ان لوگوں کا مسئلہ نہیں‘ عام لوگ خواہ جہنم میں چلے جائیں ان لوگوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔

    آپ لاہور کی مال روڈ کو دیکھ لیجیے‘ یہ روڈ دس برسوں سے احتجاج کا شکار ہے‘ یہ ڈاکٹروں‘ نرسوں اور اساتذہ کی احتجاج گاہ بن چکی ہے‘ راولپنڈی میں مری روڈ‘ فیض آباد‘ ایکسپریس وے اور فیصل ایونیو بھی اکثر کسی نہ کسی دھرنے کا ہدف رہتی ہے‘ کراچی کی نیشنل ہائی وے اور شاہراہ فیصل پر بھی ٹائر جلتے بجھتے رہتے ہیں‘ کوئٹہ میں لاشیں سڑکوں پر رکھنے کا رواج عام ہے اور آپ اگر ذرا سی ریسرچ کریں گے تو آپ کو پشاور کی سڑکیں بھی احتجاج کا شکار نظر آئیں گی‘ آپ کسی دن جی ٹی روڈ کا جائزہ بھی لے لیں آپ کو یہ بھی جگہ جگہ سے بند ملے گی‘ آپ کو اس کے کسی نہ کسی پورشن پر کوئی نہ کوئی دھڑا قابض نظر آئے گا‘ یہ کیا ہے‘ یہ کیوں ہے اور اس کا ذمے دار کون ہے؟ میں ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کو اس صورتحال کا ذمے دار سمجھتا ہوں‘ کیسے؟

    کیا یہ سچ نہیں ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر آصف علی زرداری تک پاکستان پیپلزپارٹی نے تمام بڑی سیاسی کامیابیاں سڑکوں پر حاصل کیں‘ بھٹو کا سیاسی کیریئر ٹرین سے شروع ہوا تھا‘ یہ ایوب خان کی کابینہ سے نکلنے کے بعد ٹرین میں سوار ہوئے‘ ہر ریلوے اسٹیشن پر تقریر کی اور لاہور پہنچتے پہنچتے لیڈر بن گئے‘ اس دن ریلوے کا سارا شیڈول خراب ہو گیا تھا‘ ٹرینیں پانچ پانچ گھنٹے لیٹ تھیں‘ ایوب خان کے خلاف پوری تحریک سڑکوں پر پروان چڑھی‘ مشرقی پاکستان بھی سڑکوں پر بنگلہ دیش بنا‘ بھٹو کے خلاف تحریک نے بھی سڑکوں پر جنم لیا۔

    جنرل ضیاء الحق کو بھی سڑکوں نے الیکشن کرانے پر مجبور کیا‘ میاں نواز شریف کو بھی سڑکوں نے صنعت کار سے سیاستدان بنایا‘ بے نظیر بھٹو بھی سڑکوں کے ذریعے مشرق کی بیٹی بنی‘ عدلیہ بحالی کی تحریک بھی سڑکوں پر پروان چڑھی‘ جنرل مشرف کا یونیفارم بھی سڑکوں نے اتارا‘ آصف علی زرداری بھی سڑکوں کے ذریعے دبئی منتقل ہوئے‘ عمران خان کو بھی سڑکوں نے قائد تبدیلی بنایا اور میاں نوازشریف بھی اب سڑکوں کی وجہ سے پانامہ کے شکنجے میں آئے ہیں لہٰذا عوام جب یہ دیکھتے ہیں ہمارے سیاستدان سڑکیں‘ ریلوے ٹریک اور شہر بند کر کے عظیم قائدین بن جاتے ہیں۔

    یہ سڑک سے وزیراعظم ہاؤس اور ایوان صدر پہنچ جاتے ہیں تویہ بھی سڑکوں کو امرت دھارا مان لیتے ہیں‘ یہ بھی فیل ہونے کے بعد سڑک بلاک کرتے ہیں اور پورا امتحانی نظام تبدیل کرا دیتے ہیں‘ یہ سڑک بلاک کر کے کچی نوکریوں کو پکا کرا لیتے ہیں‘ یہ اپنی تنخواہیں بڑھا لیتے ہیں‘ یہ اپنی معطلی ری ورس کرا لیتے ہیں‘ یہ ایس ایچ او‘ ڈی ایس پی اور ایس پی کو فارغ کرا دیتے ہیں‘ یہ قاتل کو گرفتار کرا دیتے ہیں اور یہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کو سوموٹو نوٹس پر مجبور کر دیتے ہیں‘ عوام سمجھتے ہیں سڑکیں ہماری عدالت‘ پولیس اسٹیشن‘ وزیراعلیٰ‘ وزیراعظم‘ صدر اور پارلیمنٹ ہیں‘ عوام کے یہ خیالات غلط بھی نہیں ہیں۔

    ملک میں جب آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا فیصلہ سڑکیں کریں گی اور جب الیکشن میں دھاندلی کے خلاف جوڈیشل کمیشن اور پانامہ لیکس پر لارجر بینچ سڑکیں بنوائیںگی تو پھر عوام انصاف کے لیے لاشیں سڑکوں پر کیوں نہیں رکھیں گے‘ یہ تنخواہوں میں اضافے کے لیے سڑکیں بلاک کیوں نہیں کریں گے اور یہ پے اسکیل‘ نوکری کی بحالی اور مستقل ملازمت کے لیے سڑکوں پر پٹیشن دائر کیوں نہیں کریں گے ‘یہ ہو رہا ہے اور یہ اس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک ہم اپنی سوچ نہیں بدلتے۔

    ہمارے پاس اب دو آپشن بچتے ہیں‘ ہم سڑکوں کو اپنا آئین‘ قانون‘ ضابطہ‘ عدالت‘ سسٹم اور اقتدار اعلیٰ ڈکلیئر کر دیں‘ لوگ آئیں‘ یہ جتنی دیر سڑک بلاک رکھ سکیں ‘ یہ جتنے لوگوں کو بنیادی حقوق‘ سکون اور آرام سے محروم کر سکیں ان کے اتنے مطالبات مان لیے جائیں‘ انھیں اتنا انصاف دے دیا جائے یا پھر ہم یہ سلسلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیں۔

    سپریم کورٹ حکم جاری کرے ملک کا جو بھی شہری‘ لیڈر یا ادارہ کوئی مرکزی شاہراہ بند کرے گا ریاست اسے مجرم سمجھے گی‘ یہ اس کے خلاف پوری فورس استعمال کرے گی‘ یہ اس سے املاک اور شہریوں کی تکلیف کا ہرجانہ بھی وصول کر ے گی اور جو شخص ہجوم کو لیڈ کرے گا وہ سرکاری عہدے کے لیے ’’ڈس کوالی فائی‘‘ ہو جائے گا‘ سپریم کورٹ حکم جاری کرے حکومت ملک میں درجن بھر تحریر اور تقسیم اسکوائر بنا دے‘ عوام نے جتنا احتجاج کرنا ہے یہ وہاں جا کر کریں لیکن انھیں سڑک بلاک کرنے کا کوئی حق نہیں ہو گا‘ یہ راستہ نہیں روک سکیں گے۔

    چیف جسٹس آف پاکستان یہ کام بہت آسانی سے کر سکتے ہیں‘ یہ ایک حکم جاری کریں گے اور عوام کو سکھ کا سانس مل جائے گا اور اگر چیف جسٹس کے پاس وقت نہیں ہے تو پھر یہ مہربانی فرما کر سڑکوں کو سپریم کورٹ کا درجہ دے دیں‘ یہ شاہراہوں کو فل بینچ ڈکلیئر کر دیں‘ لوگ سڑکوں پر آئیں اور اپنے فیصلے کرا لیں‘ نہ وکیل کا خرچہ اور نہ تاریخ پر تاریخ‘ بس دو ٹائر جلیں‘ دس گھنٹے ٹریفک بلاک ہو اورلوگوں کے مطالبات منظور ہو جائیں‘ بات ختم‘ انصاف ہو گیا۔

  • اوریا مقبول جان نےجمہوریت اور جمہوری نظام کا پردہ چاک کردیا

    اوریا مقبول جان نےجمہوریت اور جمہوری نظام کا پردہ چاک کردیا

    اوریا مقبول جان جمہوریت کا ضمیر ہی تعصب سے اٹھتا ہے۔ الیکشن ہوں یا پارٹی سیاست، معاشرے میں موجود تضادات، تعصبات،گروہی اختلافات حتیٰ کہ ذاتی اور خاندانی دشمنیوں سے بھرپور فائدہ اٹھانے کا نام جمہوریت ہے۔ جب تک کسی بھی معاشرے کو دو یا دو سے زیادہ انتہاؤں میں تقسیم نہ کر دیا جائے جمہوری نظام کا پودا ثمر آور نہیں ہو سکتا۔ جیسا معاشرہ ہوگا ویسے ہی تعصبات جمہوری طرز سیاست میں کھل کر سامنے آتے جائیں گے۔ اگر معاشرے میں نظریاتی اور اعلیٰ انسانی مقاصد کے حصول کی سوچ میں اختلاف رکھنے والے اکثریت میں ہوں گے تو انتخابات اور پارٹی سیاست میں بھی ویسی ہی سوچ غالب رہے گی۔

    ایک گروہ اخلاقی اقدار، معاشرتی اصلاح اور قدیم خاندانی طرز زندگی کے احیاء کی بات کرے گا تو دوسرا معاشی ترقی، انسانی حقوق اور جدید بےلگام بدلتی اقدار کی حمایت میں آواز بلند کرے گا۔ نظریات کی یہ لڑائی جمہوری سیاست میں دونوں گروہوں کو اس قدر سخت مؤقف اپنانے پر مجبور کر دیتی ہے کہ کوئی اپنی بات سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ لیکن جہاں معاشرہ نظریاتی سیاست کے بجائے روایتی گروہی سیاست کا امین ہو اور دنیا کے اکثر معاشرے اسی طرح تقسیم ہوئے ہیں، وہاں جمہوری سیاست تعصبات، نفرت، غصہ، انتقام اور تصادم کے عروج پر ہوتی ہے۔

    گزشتہ تین سو سال کی جمہوری تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ اس نظام نے انسانی حقوق، عدل و مساوات، عوام کی بالادستی اور آمریت سے نجات کے جو کھوکھلے نعرے بلند کیے تھے، وہ سب کے سب وقت گزرنے اور اس نظام کے بالغ ہونے کے ساتھ ہی تعصبات اور نفرتوں کے سیلاب میں بہہ گئے۔ ہر ملک کے جمہوری سیاسی نظام نے لوگوں کو ایک سبق سکھایا کہ یہ الیکشن سسٹم اور پارٹی سیاست تمام عوام کے لیے پیدا نہیں ہوئی بلکہ یہ اکثریت کی بدترین آمریت کے لیے تخلیق کی گئی ہے۔ یعنی ایک گروہ جس کی اکثریت ہے اگر وہ کسی دوسرے کمزور اور چھوٹے گروہ کے خلاف متحد ہو جائے تو پھر وہ اسے جمہوری طور پر شکست دے کر اس کا جینا دوبھر کر سکتا ہے۔

    امریکی معاشرے کی دو سو تیس (230) سالہ جمہوری تاریخ کا نچوڑ آخر کار یہ نکلا کہ وہ تمام تر تعصبات اور نفرتیں جو دلوں میں موجود تھیں، انھوں نے جمہوری منافقت کا لبادہ تار تار کر دیا اور سفید فام اکثریت نے متحد ہو کر یہ ثابت کر دیا کہ وہ سیاہ فام امریکیوں، مسلمانوں اور تارکین وطن کی اقلیت کو کیسے شکست دیتے ہیں اور پورے امریکی معاشرے پر کیسے اپنے تعصب کا راج نافذ کرتے ہیں۔

    دنیا کا ہر جمہوری ملک اب اسی راستے پر گامزن ہے اور اس کا آغاز دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت سے ہوا تھا۔ وہ ملک جس کی سیاست کی بنیاد اس منافقت پر مبنی تھی کہ وہ سیکولر ہیں، تمام مذاہب کا احترام کرتے ہیں۔ انسانوں کو رنگ، نسل اور مذہب سے بالاتر ہوکر برابر سمجھتے ہیں۔ لیکن بھلا ہو اس جمہوری سیاست اور جمہوری نظام کا کہ اس نے بار بار کے انتخابات سے بھارت میں موجود ہندو اکثریت کو یہ یقین دلا دیا کہ اگر تم ہندو مذہب کے نام پر اکٹھا ہو جاؤ تو پھر تمہیں کوئی الیکشن میں شکست نہیں دے سکے گا۔ کوئی تمہیں اقتدار میں آنے سے نہیں روک سکے گا۔ پھر وہی ہوا، جمہوری بھارت کی تخلیق کے ٹھیک انچاس (49) سال بعد 19 مارچ 1998ء میں متعصب ترین ہندو تنظیموں کی آشیرباد اور ہندو اکثریت ووٹ کی بدولت اٹل بہاری واجپائی ایک ہندو ’’مُلا‘‘ کی نفسیات لے کر حکمران بنا۔ لیکن ابھی جمہوری نظام کی منافقت جاری تھی۔ ابھی سیکولرازم، برابری اور انسانی حقوق کے نعروں کے بغیر پارٹی چلانا اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ ابھی شاید ہندو اکثریت کے دماغ میں اپنی اکثریت کی آمریت کے نفاذ کا سودا نہیں سمایا تھا، لیکن جمہوری انتخابات نے اس تعصب کو اور نکھار دیا، اور سنوار دیا۔ گجرات کی ریاست میں اسی بدترین ہندو اکثریت کی جمہوری آمریت نریندر مودی کی وزارت اعلیٰ کی صورت موجود تھی۔ اس نے جس طرح مسلمان اقلیت کے خون سے ہولی کھیلی، اس جمہوری تجربے نے پورے بھارت کے ہندو ووٹر کو یقین دلا دیا کہ اگر تم اکٹھے ہو جاؤ تو پھر ان مسلمان، عیسائی، سکھ اور دیگر اقلیتوں کو کیسے غلام بنا سکتے ہو، کیسے ان کا قتل عام کرنے کے باوجود بھی ڈکٹیٹر نہیں، جائز جمہوری حکمران کہلا سکتے ہو۔ پھر وہی ہوا، گجرات کی جمہوری اکثریت کی آمریت پورے بھارت پر نریندر مودی کی صورت میں نافذ کر دی گئی۔

    بھارت کا جمہوری معاشرہ اپنے تعصبات کو نکھارنے اور سنوارنے اور منافقت کا لبادہ اتارنے میں صرف پچاس سال میں کامیاب ہو گیا جبکہ امریکی معاشرے کو سفید فام اکثریت کے تعصبات کو نکھارنے، سنوارنے اور منافقت کا لبادہ اتارنے میں دو سو تیس (230) سال لگ گئے اور بالآخر ڈونلڈ ٹرمپ اور سوئے ہوئے امریکی سفید فام کے اندر چھپے ہوئے رنگ کے تعصب اور اس سوئے ہوئے امریکی عیسائی کے اندر سے مذہبی تعصب کو جگانے میں کامیاب ہو گیا اور آج جمہوریت کی معراج یعنی اکثریت کی آمریت امریکا میں نافذ ہو گئی۔

    امریکی معاشرے کے تعصب کے بارے میں ایک ایسی خاتون مصنفہ کا تبصرہ ان دنوں انتہائی مقبول ہے جس نے امریکی معاشرے کے تعصبات کو انتہائی نچلی سطح پر  پرکھا، دیکھا اور برتا ہے۔ بیتھنی سینٹ جیمز (Bethany St. James)۔ بیس سال تک Escort Service یعنی قانونی طوائف کی زندگی گزارنے والی یہ خاتون جسے امریکی معاشرے میں آج بھی ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے، اس نے اپنا یہ پیشہ ترک کیا۔ ایک چرچ میں جاکر مذہبی تعلیم حاصل کی اور پھر امریکی معاشرے کی غلاظتوں پر مضامین لکھنے شروع کیے۔ اس نے اپنے تمام مضامین میں امریکی معاشرے کے اندر چھپے ہوئے تعصبات کو سامنے لانے کی کوشش کی۔ وہ اپنی اس کوشش کو ”Existance of Endurance” ’’یعنی برداشت کا وجود‘‘ قرار دیتی ہے۔

    اس نے امریکی معاشرے کی تصویر اپنے ایک مضمون Stereotyping and Prejudice in Beleive and Well in American Socity (امریکی معاشرے میں تعصبات اور لکیر کی فقیر زندگی بہت اہم ہیں)۔ اس مضمون میں وہ امریکی عوام کے تعصبات کو ان الفاظ میں بیان کرتی ہے۔ ’’تمام اعلیٰ مقام اور پیشہ ور خواتین کنواری اور تنہا ہوتی ہیں۔ تمام لاطینی امریکی غیر قانونی تارکین وطن ہیں۔ تمام سفید فام اپنے آپ کو برتر سمجھتے ہیں۔ تمام ہم جنس پرست مرد بزدل اور نسوانی ہوتے ہیں۔ تمام عیسائی بائبل کا پرچار کرتے ہیں اور ہم جنس پرستوں سے نفرت کرتے ہیں۔ تمام سیاہ فام افریقی امریکی خیرات پر پلتے ہیں۔ تمام نیویارک کے رہنے والے اکھڑ اور بدتمیز ہیں اور تمام سیاستدان چالباز اور فراڈ ہیں۔‘‘ وہ کہتی ہے کہ ان فقروں کے پڑھنے کے بعد آپ کے جسم میں ایک سنسنی ضرور دوڑی ہوگی۔ لیکن یہ امریکی معاشرے کی ایک بدترین حقیقت ہے اور یہ میں نے اپنی زندگی کے ان تجربات سے نچوڑی ہے جو مجھے ہر طرح کے امریکی کے ساتھ انتہائی قربت کے لمحات میں حاصل ہوئے۔ اس نے اپنا شہرہ آفاق مضمون Steady Decline of Affection in America ’’امریکا میں جذبہ ترحم کا خاتمہ‘‘ لکھا تو ٹیلی ویژن پر اسے بلا کر رگیدنا  شروع کیا گیا۔ اس نے کہا کہ میرے لیے کوئی حیرت کی بات نہ تھی کہ جب امریکیوں کی اکثریت یہ ماننے سے کو تیار نہ تھی کہ ایک طوائف بھی پڑھی لکھی ہو سکتی ہے۔

    ڈونلڈ ٹرمپ نے کچھ نہیں کیا۔ اس نے امریکی معاشرے میں تعصبات کا گہرائی سے مطالعہ کیا۔ اس کو معلوم ہوگیا کہ امریکا کا انسانی حقوق، برابری و مساوات اور جذبہ خیر خواہی کا لبادہ ایک منافقت ہے۔ امریکی سفید فام متعصب ہے، امریکی عیسائی مذہبی منافرت پر یقین رکھتا ہے اور امریکی عوام ایک اہم عہدے اور پیسے کے اعتبار سے کامیاب خاتون کو تنہا اور خاندانی طور پر ناکام تصور کرتے ہیں۔ اسے یقین تھا کہ اگر اس نے ان تعصبات کو نعرہ بنا لیا تو پھر جمہوریت اور جمہوری نظام کا تو خمیر ہی تعصب سے اٹھتا ہے۔ وہاں فتح اسی تعصب کی ہوتی ہے جس کی اکثریت ہو۔ اکثریت کا تعصب، اکثریت کی جمہوری آمریت قائم کرتا ہے اور بالآخر منافقت کا خاتمہ کرتا ہے۔ یہ صرف ابھی دو جمہوریتوں بھارت اور امریکا میں ہوا ہے۔ باقیوں کا انتظار کرو۔

  • خیبرپختونخوا، نصاب تعلیم سے اسلامیات کا خاتمہ – میر محسن الدین

    خیبرپختونخوا، نصاب تعلیم سے اسلامیات کا خاتمہ – میر محسن الدین

    fgfgghgfgfgf کسی قوم کو کھوکھلا کرنا مقصود ہو تو اس کی نئی نسل کے ذہنوں میں اس کی نظریاتی بنیادوں کے بارے میں شکوک و شبہات ڈالو۔ جن نظریات اور اقدار و روایات پر قوم کا ڈھانچہ کھڑا ہو انہی کو ان کے ذہنوں میں فرسودہ ٹھہراؤ، اپنے کلچر اور نظریات و عقائد کے لیے ان کے ہاں غیر محسوس انداز میں گوشہ بناؤ اور اس قوم کے محافظوں اور قومی ہیرو سے نئی نسل کو بدظن و بدگمان کردو۔ یہ فورتھ جنریشن وار کا ایک مہلک داؤ ہے جو دشمن کی طرف سے آزمایا جاتا ہے۔

    غیر ملکی اور ان کی پروردہ ملکی این جی اوز بظاہر اصلاحات کا ڈھنڈورا پیٹ کر اور تعمیر کے نام پر تخریب کر کے یہ داؤ کھیلنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ یہ این جی اوز دوسرے ذرائع استعمال کرنے کے ساتھ نصاب تعلیم جو کہ ذہن سازی میں بڑا کردار ادا کرتا ہے، پر اثرانداز ہو کر اپنے ٹارگٹ کردہ ملک کے باشندوں خاص طور پر نئی نسل سے ان کی تاریخ، نظریات، شناخت، اقدار و روایات نکالنے اور ملک کی حفاظت کا فریضہ سر انجام دینے والوں سے ان کو بد ظن کرنے کی کوششوں میں مصروف رہتی ہیں جبکہ بڑے لیول پر اپنے ہم خیال اور خریدے گئے لوگوں کے ذریعے مختلف سیمینارز اور ورکشاپس وغیرہ کے ذریعے ماحول بنانے اور یہ مقاصد حاصل کرنے کے لیے دوڑ دھوپ کی جاتی ہے۔ یہ تو تھا فورتھ جنریشن وار کے ایک داؤ کا مختصر قصہ۔

    اب خیبر پختونخوا کے سکول کے بچوں کے لیے سرکاری نصاب تعلیم میں ہونے والی تبدیلیوں میں سے کچھ کا ذکر کروں گا جو سمجھی یا ’ناسمجھی‘ میں کی گئی ہیں۔ خیبر پختونخوا کے نصاب سے پہلے تو اسلامیات کا مضمون نکالا گیا اور پھر جنرل نالج مضامین میں اسلامیات کو ضم کرنے کے نام پر ایسے اسباق شامل کیے گئے کہ بندہ سر پکڑ کر بیٹھ جائے۔ مثال کے طور پر گریڈ ون اور ٹو کے کتابوں میں ’پریئرز‘ ’ریلیجیس فیسٹیولز‘ اور ’ریسپکٹ آدرز‘ کے اسباق ہیں۔

    ’پریئرز‘ کے سبق میں مسجد کی تصویر ہے اور پھر لکھا ہے ’’مسجد سے آذان سنی گئی، مسلمان دن میں پانچ بار نماز ادا کرتے ہیں‘‘۔
    پھر اسی سبق میں ساتھ نیچے مندر کی تصویر دی گئی ہے اور لکھا ہے ’’پریم ایک ہندو ہے اور وہ اپنی نماز ادا کرنے مندر جاتا ہے‘‘۔
    پھر گوردوارہ کی تصویر ہے اور لکھا ہے ’’کھڑک سنگھ ایک سکھ ہے، وہ اپنی نماز ادا کرنے گوردوارہ جاتا ہے‘‘۔
    چرچ کی تصویر کے ساتھ لکھا ہے کہ ’’جوزف ایک عیسائی ہے اور وہ اپنی نماز کے لیے چرچ جاتا ہے‘‘۔
    نیچے ان جگہوں کی تکریم کی بات ہے، بندہ پہلے فرصت میں سمجھ جاتا ہے کہ ایسا ایک ’کور‘ دینے کے لیے کیا گیا ہے۔

    اسی طرح ریلیجیس فیسٹیولز کے سبق میں جشن میلاد کو مسلمانوں کے مذہبی تہواروں میں ڈالا گیا ہے اور اس سے اگلے سبق میں کرسمس، ہولی، دیوالی اور بیساکھی کا اچھا خاصا بیان بھی ہے۔ ریسپیکٹ آدرز والے سبق میں مختلف لوگوں کے الگ الگ مذاہب ماننے والی بات ہے، لائن میں چرچ، مندر اور مسجد کی تصاویر ہیں۔ پاس ایک لڑکے کی تصویر دی گئی ہے اور ساتھ لکھا ہے’’جانی چرچ جاتا ہے‘‘۔

    ایک عام آدمی کے ذہن میں یہ سوال آتا ہے کہ بچوں کو یہ کون سی پٹی پڑھائی جا رہی ہے؟ یہ اسلامیات کا کیسا متبادل ہے اور کس چیز سے بچوں کو آشنا کیا جا رہا ہے؟ یاد رہے کہ اس سے پہلے نصاب تعلیم میں نظریہ پاکستان، اسلامی تاریخ، معتبر اسلامی ہستیوں، داستان شجاعت رقم کرنے والے پاک فوج کے شہیدوں اور قومی ہیروز کے اسباق کے ساتھ بھی چھیڑ خانی ہوتی رہی ہے۔ اب سننے میں آیا ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت نے نصاب سے یہ تبدیلیاں ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے۔ صوبائی حکومت اگر یہ اقدام کرتی ہے اور نصاب میں اسلامیات، نظریہ پاکستان، اسلامی اقدار و روایات اور قومی مفاد سے ہم آہنگ اسباق دوبارہ شامل کرتی ہے تو اس پر خیبر پختونخوا کی حکومت خراج تحسین کی مستحق ہے۔خاص طور پر جماعت اسلامی کا اس حوالے سے کردار زیادہ قابل ستائش ہوگا جو کہ نصاب سے یہ تبدیلیاں نہ نکلنے کی صورت میں صوبائی حکومت سے بھی الگ ہونے کا فیصلہ کر چکی تھی۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ وہ قومیں زندہ نہیں رہتیں جو اپنی نظریاتی بنیادیں کھودنے والوں کے ہاتھ نہیں روکتیں۔

  • کیا انسانی حقوق کو تعلیمی نصاب کا حصہ ہونا چاہیے؟ عثمان عابد

    کیا انسانی حقوق کو تعلیمی نصاب کا حصہ ہونا چاہیے؟ عثمان عابد

    ڈاکٹر عثمان عابد ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ جہاں انسان بستے ہیں وہاں ان کے حقوق بھی ہوتے ہیں۔ حقوق انسانی بنیادی طور پر معاشرے میں موجود ہر شخص کے حقوق کی بات کرتا ہے۔ یہ انسانوں کو اپنے حقوق سمجھنے اور اس کی تگ و دود کے لیے بنیادی اصولوں سے آگاہ کرتا ہے ۔ سماج میں مستحکم معاشرہ قائم کر نے میں انسانی حقوق کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ آپ توقع رکھتے ہیں کہ اس معاشرے میں اصولوں کے تحت زندہ رہا جائے۔ چاہے بچہ ہو، بڑا ہو، کھیتوں میں کام کرنے والا ہو یا کوڑا اٹھانے والا ہو، بلا تفریق مذہب و ملت ان حقوق کے لیے اپنی آواز بلند کرتا ہے ۔ مذہب اسلام معاشرے میں ان حقوق اور مساوات کا درس دیتا ہے ۔ دوسرے الفاظ میں یہ دنیا، یہ کائنات ایک سچائی ہے اور اس سچائی میں ہم اپنے حقوق کی بات کرتے ہیں۔

    لیکن یہاں اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ انسانی معاشرے میں جو تہذیبی ، تمدنی اور علمی اعتبار سے انتہائی ترقی یافتہ کہلاتا ہے میں انسانوں کو وہ حقوق حاصل ہیں؟ کیا سیمیناروں ، واکس اور موم بتیاں روشن کر کے ہم انسانی حقوق کے تقاضے پورے کر لیں گے ؟ نہیں۔ بالکل نہیں!

    یہ بات پوری دنیا جانتی ہے کہ سماجی تعلقات اور مساوات کے لیے (چاہے وہ انفرادی سطح پر ہوں یا اجتماعی سطح پر )تعلیم کا حصول ایک بہترین ذریعہ ہے ۔ تعلیم حاصل کرنا ہر انسان کا بنیادی حق ہے اور ارشاد ِ نبوی ﷺ بھی ہے کہ محد سے لے کر لحد تک تعلیم حاصل کرو ۔ سکول و کالج کی تعلیم پورے ملک میں مفت ہونی چاہیے ۔ بد قسمتی سے پاکستان میں الٹی گنگا بہ رہی ہے ۔ امیر ، امیر تر ہو رہا ہے جبکہ غریب غربت کے اندھیرے کنوئیں میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے ۔ امیر کے بچے کی رسائی اعلیٰ تعلیمی اداروں تک جب کہ غریب کا بچہ آج بھی ٹاٹ پر یا درخت کے سائے تلے بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہے ۔ ان بیچاروں کو اپنے حقوق کے بارے میں سرِے سے علم ہی نہیں ہے ۔
    انسانی حقوق کو تعلیمی نصاب میں شامل کرنے سے انسانی حقوق بارے عوامی آگاہی خود بخود بڑھ جائے گی اور عام آدمی اپنے بنیادی حقوق جاننے کے قابل ہو جائے گا۔
    حکومت کا فرض ہے کہ وہ ناصر ف بنیادی تعلیم مفت مہیا کرے بلکہ یہ بھی اس کے بنیادی فرائض میں شامل ہے کہ وہ ایسا ماحول بھی مہیا کریں کے بچہ اس قابل ہو کہ وہ اپنے خیالات کا بھرپور طریقے سے اظہار کر سکے ۔ لیکن یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہو ہے ۔ نہ اساتذہ کو اپنے بنیادی حقوق معلوم ہیں اور نہ ہی طالب علم اپنے بنیادی حقوق جانتا ہے ۔ اگر بچہ کبھی بھولے سے بھی کوئی سوال پوچھ لے تو اس کے ساتھ ایسا سلوک کیا جاتا ہے کہ بیچارہ زندگی بھر کسی سے سوال پوچھنے کی ہمت نہیں کرتا ۔ ایسی ذہنیت اسی وقت تبدیل ہو گی جب انسانی حقوق کو نصاب کا حصہ بنایا جائے گا۔

    پاکستان کے آئین کے مطابق چودہ سال سے کم عمر بچہ کسی فیکٹری یا کسی بھی جگہ مزدوری یا نوکری نہیں کر سکتا ۔ کیا ہمارے نصاب میں یہ پڑھایا جاتا ہے؟ کیا ہم روزانہ سڑکوں پر آئینِ پاکستان کی دھجیاں اڑتے نہیں دیکھتے کہ جہاں تین، چار سال کے بچوں کی ہڈیا ں توڑ کر ان سے زبردستی بھیک منگوائی جاتی ہے ۔ اسی طرح کسی واقعے یا جرم کے وقوع پذیر ہونے پر ملزم کو موقع پر ہی سزا نہیں دی جا سکتی بلکہ اس کا فیصلہ عدالت میں کیا جاتاہے ۔ کیا آپ کو سیالکوٹ کے وہ دو کم سن نوجوان یاد نہیں جنھیں مجمعے نے سر بازار زندہ جلا دیا تھا؟ یہ بنیادی انسانی حقوق سے لاعلمی ہی تو ہے کہ آج مرنے والا بھی نعرہ تکبیر بلند کر رہا ہے اور مارنے والا بھی ۔ میں پوچھتا ہوں ایسا کیوں؟

    پاکستان کے کروڑوں لوگ دور دراز علاقوں میں ہی نہیں بلکہ کراچی ، لاہور اور دیگر بڑے شہروں میں غیر انسانی ماحول میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ لیکن شومئی قسمت کہ ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ انہیں نہ تعلیم کی سہولت میسر ہے نہ صاف پانی کی ۔۔۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کو کہ جنھیں تعلیمی درسگاہوں میں ہونا چاہیے تھا وہ چائے خانوں ، موٹر مکینک کی دکانوں اور گھریلو ملازمین کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ یہ سب ایک ایسے ملک میں ہو رہا ہے جن کے انداز حکمرانی کا گمشدہ ورثہ تھا کہ اگر دریائے نیل کے کنارے کتا بھی مر گیا تو قیامت کے دن اس کا ذمہ دار اس وقت کا حکمران ہوگا۔ اسی طرح جب مصر کے گورنر نے رعایا پر معمولی سی پابندیاں لگائیں تو حضرت عمرؓ نے مصر کے گورنر کو لکھا تھا کہ : ان کی مائوں نے انہیں آزاد جنا تھا تم نے انھیں کب سے غلام بنا لیا ؟

    میری حکومتِ وقت سے اپیل ہے کہ وہ انسانی حقوق کو فی الفور تعلیمی نصاب کا حصہ بنائے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ چند صوبوں میں اس پر عمل درآمد بھی شروع ہو چکا ہے ۔ اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو دوسروں کی زندگی میں آسانیاں تقسیم کرنے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین

  • گورنر عشرت العباد کی سبکدوشی – سیّد محمّد اشتیاق

    گورنر عشرت العباد کی سبکدوشی – سیّد محمّد اشتیاق

    سیدمحمد اشتیاق بھلا ہو نئے محب وطن اور متحدہ سے منحرف شدہ پاک سر زمین پارٹی کے بانی رہنما مصطفی کمال کا کہ انہوں نے 14سال بعد، معصوم و فرشتہ صفت پاکستانی حکمرانوں اور مقتدر اداروں کو، بذریعہ پریس کانفرنس اور انٹرویو لفظی طور پر آگاہ اور قائل کیا کہ 14 سال سندھ کا گورنر رہنے والا شخص دراصل رشوت العباد ہے اور قومی مجرم ہے۔ مصطفی کمال کے ا نکشافات کے بعد، مقتدر حلقوں کی طرف سے گورنر سندھ کے لیے بے اعتنائی کا اظہار تو محسوس کیا جا رہا تھا جو بالآخر گورنر سندھ کی تبدیلی پر منتج ہوا۔

    سبکدوشی کے بعد سابق گورنر کے احتساب کی خبریں بھی گردش کر رہی ہیں، امید کی جاسکتی ہے کہ سیاستدانوں کی وہ کھیپ جو سیاسی منحرف ہونے کا وسیع تجربہ اور ذوق و شوق رکھتی ہے، مصطفی کمال کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ، معصوم و فرشتہ صفت حکمرانوں، قانون ، احتساب اور عدل و انصاف فراہم کرنے والے اداروں کو ، اپنی سابقہ جماعت کے رہنماؤں کی بدعنوانیوں سے وقتا فوقتا آگاہ کرتے رہیں گے تاکہ حکمرانوں اور عوام کی جان بدعنوان عناصر سے چھوٹے اور حکمران اپنی وفادار، تجربہ کار عمر رسیدہ شخصیات کے تجربے سے مزید فائدہ اٹھائیں اور مقتدر سیاسی جماعت کے نوجوان و جوان سیاستدانوں کو بھی پتا چلے کہ وفاداری اور قربانی دینے کا صلہ بالآخر مل ہی جاتا ہے، بس ذرا اپنی صحت کا خیال رکھیں کیونکہ اس طرح کے مواقع عموما اور فی زمانہ طویل العمری میں ہی میسر آ رہے ہیں۔

    سبکدو ش کیے جانے والے گورنر سندھ کا مستقبل جیل کی سلاخیں ہیں یا کسی اور جماعت میں شامل ہوں گے، یہ تو سب سے بہتر ملک کی وہ طاقتور شخصیات ہی بتا سکتی ہیں جو سیاستدان بنانے کا وسیع تجربہ رکھتی ہیں۔ فی الوقت تو سندھ کے عوام کو اپنی توجہ نئے گورنر (جو جلد ہی حلف اٹھانے والے ہیں) کی طرف مرکوز کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کے وسیع تجربے سے، صحت کے رہنما اصول کے ساتھ، وفاداری اور قربانی دینے کے اصول بھی خصوصی طور سے سیکھے جائیں لیکن ان اصولوں کو استعمال صرف اس وقت کیا جائے، جب وطن عزیز کو اس کی ضرورت ہو، ویسے بھی عوام کو ادھر ادھر قربانی دے کر کون ساگورنر یا کرکٹ بورڈ کا چیئرمین لگ جانا ہے۔

  • حکومت نے منی لانڈرنگ روکنے کی سفارشات کیوں نامنظور کیں؟ فہداسمعیل

    حکومت نے منی لانڈرنگ روکنے کی سفارشات کیوں نامنظور کیں؟ فہداسمعیل

    انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کی شق 111(4) کے مطابق تمام ہوم ریمٹنسز یعنی وہ پیسہ جو بیرون ملک سے پاکستان بھیجا جائے، پر ٹیکس اور ذرائع آمدن ظاہر کرنے سے استثنی دیا گیا ہے۔ جہاں اس شق کا بیرون ملک محنت مزدوری کرنے والے پاکستانیوں کو فائدہ حاصل ہے وہیں دوسری جانب کرپشن مافیا اس شق کو منی لانڈرنگیعنی کالے دھن کو سفید بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔

    پاکستان سے کرپشن اور کک بیکس کا پیسہ غیر قانونی طریقے (ہنڈی وغیرہ) کے ذریعے بیرون ملک بھیجا جاتا ہے، جہاں سے پراپر بینکنگ سسٹم کے ذریعے پیسہ ہوم ریمٹنس کے عنوان کے تحت واپس پاکستان آ جاتا ہے۔ اس سے دو فائدے ہوتے ہیں۔ ایک تو انکم ٹیکس سے بچا جاتا ہے، دوسرا انکم ٹیکس آرڈیننس کے تحت ذرائع آمدن ظاہر کرنے سے بھی استثنی مل جاتا ہے۔ یعنی اس آرڈیننس کے تحت ریاست کو اس بات کا کوئی حق حاصل نہیں کہ وہ اپنے کسی شہری سے ذرائع آمدن دریافت کر سکے یا منی ٹریل ٹریک کر سکے۔ اس کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ یہ پیسہ ہوم ریمٹنس کے تحت بیرون ملک سے آیا ہے۔

    مئی 2015ء میں سینٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے فنانس میں ایف بی آر نے اس شق میں ترمیم کی سفارش کرتے ہوئے ہوم ریمٹنسز (جو سالانہ 50000$ سے زیادہ ہوں) پر ایک فیصد ٹیکس نافذ کرنے کی سفارش پیش کی۔ ایف بی آر کی سفارشات کے مطابق اس ٹیکس کا مقصد ریونیو جنریشن نہیں ہے (ظاہر ہے اس خطیر رقم پر 1% ٹیکس سے کیا ریونیو جنریٹ ہونا ہے) بلکہ منی لانڈرنگ کا راستہ روکنا، اور ایف بی آر کو اس بات کا اختیار دینا ہے کہ وہ ہوم ریمٹنسز کے ذرائع آمدن اور منی ٹریل کو ٹریک کر سکے۔ سادہ الفاظ میں اگر کہا جائے تو ان سفارشات کا مقصد بیرون ملک پاکستانیوں کے ذرائع آمدن کو خفیہ رکھنے کا حق ختم کرنا اور ریاست کو یہ حق دینا تھا کہ وہ ذرائع آمدن بارے تحقیقات کر سکے اور منی لانڈرنگ کی روک تھام کر سکے۔

    ان سفارشات کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ منی لانڈرنگ کو روکنے میں سنگ میل ثابت ہوسکتی ہیں، میرے جیسے محنت مزدوری کرنے والوں کے لیے اس میں عمل میں کوئی دشواری اور پریشانی بھی نہیں ہوگی۔ مگر آپ جانتے ہیں کہ ان سفارشات کا کیا ہوا؟ جی بالکل! حکومت نے نہ صرف انھیں رد کر دیا بلکہ اس کے خلاف سوشل میڈیا پر باقاعدہ تحریک چلائی گئی۔ حکومت نے اسے بیرون ملک پاکستانیوں کے لیے رعایت اور ان کے حق میں اپنا عظیم کارنامہ قرار دیا، حالانکہ ایف بی آر کی سفارشات میں حلال پیسہ کمانے والوں کے لیے کوئی پریشانی نہیں تھی۔ یاد رہے کہ پاکستان میں انکم ٹیکس کی کم ترین شرح 2% ہے، جو سالانہ 4 لاکھ سے زیادہ آمدن پر لاگو ہوتی ہے، جس کے مقابلے میں 50000 ڈالر پر 1% انکم ٹیکس کچھ بھی نہیں۔

    ان سفارشات کو رد کیوں کیا گیا؟ منی لانڈرنگ روکنے کی کوشش کو کیوں ناکام بنایا گیا؟ قارئین خود ہی نتیجہ نکال سکتے ہیں۔

  • میاں نوازشریف کا خوابِ پریشاں – ابو الحسن

    میاں نوازشریف کا خوابِ پریشاں – ابو الحسن

    ابو الحسن وسیع و عریض عالیشان کمرے کی چھت سے لٹکتا فانوس چاروں طرف روشنیاں بکھیر رہا ہے۔ ٹھنڈک اور خوشبو کے امتزاج نے آرام دہ کمرے کے ماحول کو مزید دلکش بنا رکھا ہے۔ قیمتی نرم صوفے پر براجمان وزیراعظم کے ماتھے پر مگر پسینے کی نمی نظر آتی ہے اور چہرے پر تفکر کی لکیریں گہری ہو رہی ہیں۔ اچانک دروازہ کھلتا ہے اور حضرت مولانا فضل الرحمٰن چہرے پر مخصوص مسکراہٹ سجائے اندر داخل ہوتے ہیں۔ انہیں دیکھتے ہی وزیر اعظم جیسے کھل اٹھتے ہیں۔ نہایت گرمجوشی کے ساتھ مصافحہ ہوتا ہے، پھر معانقے کی ناکام کوشش کے بعد دونوں حضرات ایک دوسرے کے قریب ہی صوفے پر بیٹھ جاتے ہیں۔ بیٹھتے ہی مولانا کے چہرے پر کھنچاؤ کے آثار پیدا ہوتے ہیں اور بیٹھے ہی بیٹھے ان کا دایاں پہلو صوفے سے تھوڑا سا اوپر کی جانب اٹھ جاتا ہے۔ مولانا اپنا ہاتھ جائے نشست تک لے جا کر واپس لاتے ہیں، جس میں ایک چھوٹا سا دھاتی شیر نظر آ رہا ہے۔ شاید عابد شیر علی کھیلتے کھیلتے اسے یہیں صوفے پر چھوڑ گیا ہے۔ میاں صاحب کھسیانے ہو جاتے ہیں مگر مولانا ہنس کر ٹال گئے ہیں۔

    حوصلہ پا کر میاں صاحب اپنا منہ مولانا کے کان کے قریب لے جاتے ہیں اور سرگوشیانہ انداز میں گفتگو کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جس میں حکومت، فوج، سازش، مارشل لا جیسے الفاظ کی بھرمار ہے۔ مولانا کی آنکھوں میں سرخ ڈورے دوڑنے لگتے ہیں، سانس دھونکنی کی طرح چلنے لگتی ہے۔ اس سے قبل کہ جواب میں کچھ کہیں، ایک دھماکے سے دروازہ کھلتا ہے اور اس مرتبہ فوجی وردی میں ملبوس جنرل راحیل شریف اندر داخل ہوتے ہیں۔ دائیں ہاتھ میں پکڑی چھڑی کو بائیں پر ہلکے ہلکے مارتے ہوئے باوقار انداز میں قدم اٹھاتے وہ انھی دونوں کی جانب بڑھے چلے آ رہے ہیں۔ میاں صاحب کی تو جیسے جان نکل جاتی ہے، مگر مولانا دونوں مٹھیاں بھینچتے ہوئے ایک دم سے تن کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ سر پر لپٹا زرد رومال کھینچ کر اتارتے ہیں اور جھٹکے سے پرے پھینک دیتے ہیں اور دونوں آستینیں چڑھا لیتے ہیں۔ یہ دیکھ کر میاں صاحب کی جان میں کچھ جان آتی ہے۔ مگر یہ کیا؟؟ مولانا اچانک منہ کے بل زمین پر لیٹ جاتے ہیں اور ”پُش اَپس“ لگانا شروع کر دیتے ہیں۔ میاں صاحب اس خوفناک منظر کی تاب نہیں لا پاتے اور ایک زوردار چیخ ان کے حلق سے برآمد ہوتی ہے۔ اور اسی چیخ کی آواز سے ان کی آنکھ کھل جاتی ہے۔

  • ایک نوجوان ہم جنس پرستی سے کیسے بچا؟ آر ایم اقبال

    ایک نوجوان ہم جنس پرستی سے کیسے بچا؟ آر ایم اقبال

    آر ایم اقبال بہتر ذریعہ معاش کی فکر میں ہر انسان بہتر سے بہتر پڑھائی اور کامیابی کی کوشش کرتا ہے، مگر بہت سے لوگ اچھا پڑھ لکھنے کے باوجود بھی اچھی تربیت سے محروم رہ جاتے ہیں اور بعض اوقات کم پڑھے لکھے یا ان پڑھ بھی ادب و آداب کی اونچائیوں کو چھونے لگتے ہیں، یہی وہ ظرف ہے جو اللہ پاک کی طرف سے نعمت کے طور پر کچھ لوگوں کو عطا کر دیا گیا ہے، ادب سے لگاؤ اور محبت ہی اعلی ظرفی کا سبب ہوتی ہے اور اگر ادب انسان کے اندر رچ بس جائے تو زندگی کے ہر موڑ کو وہ ایک الگ نظریہ سے سوچتا، سمجھتا اور بیان کرتا ہے۔

    مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے جب میں سعودی عرب آیا اور نوکری کےلیے بہت سی جگہ انٹرویو اٹینڈ کیے۔ فیلڈ میں فریش ہونے کے باعث کافی خجالت اٹھانا پڑی اور کافی تگ و دو کے بعد ایک کمپنی میں کم پیسوں پر کافی عرصہ تجربہ حاصل کرنے کی غرض سے نوکری کرنا پڑی۔ اس میں کچھ نیا نہیں تھا کہ تعلیم سے فراغت کے بعد طلبہ و طالبات کو تجربہ حاصل کرنے کے لیے ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اچھی نوکری کی تلاش میں ایک نئے دوست کسی کے توسط سے رابطہ میں آ گئے، عمر اور تجربہ کے لحاظ سے کافی سینئیر تھے، سلام دعا کے بعد علاقائی تعارف ہوا تو ڈاکخانہ بھی مل گیا۔ ایک اچھی نوکری کی تلاش میں پہلے سے ہی تھا اور پھر ان کا تعاون ملا تو مزید آسانی ہوگئی۔ کچھ عرصہ بعد حالات کی مناسبت سے جب انہوں نے اپنی کمپنی میں میرے لیے کوشش کی تو مجھے بہت خوشی ہوئی اور میں انٹرویوکی غرض سے الخبر دمام سے ریاض پہنچ گیا، پہلے پہل تو میں ان کی کمپنی میں انٹرویو دینے پہنچا اور جیسا انہوں سے سمجھایا تھا تو وہاں کا ماحول سمجھنے میں بھی پریشانی نہ ہوئی اور انٹرویو بہت اچھا رہا۔ فیلڈ کی مناسبت سے بہت سے سوالات کیے گئے جن کے بہت اچھے طریقے سے جوابات دینے پر مجھے منتخب کر لیا گیا۔ بعد ازاں انھی کے ایک دوست کے ساتھ ریاض شہر سے تقریبا دو سو پچاس کلومیٹر کی مزید مسافت طے کر کے سائٹ پر جا پہنچا جہاں باقی کا دن سائٹ آفس میں کچھ ڈرائنگز دیکھتے اور پھر سائٹ وزٹ پر گزرا، دارصل یہ پراجیکٹ اس ریلوے ٹریک کا تھا جو ریاض سے مدینہ منورہ تک کے لیے بچھایا جا رہا تھا، سو رہائشی ایریا تک پہنچنے کے لیے مزید دو سو کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا پڑا، رات گئے ہائی وے سے اتر کر جنگل و بیابان سے گزرتے ہوئے ایک ویرانے میں پہنچے جو نئے بچھائے جانے والے ریلوے ٹریک کے ساتھ عارضی رہائش کےلیے منتخب کیا گیا تھا۔ رات کے پُرتکلف طعام بعد نئے ملنے والے سب احباب نے اپنی اپنی خواب گاہوں کا رخ کیا۔

    سونے کی تیاری کے دوران ہم آپس میں بھی کافی گپ شپ کرتے رہے لیکن تعجب تب ہوا جب ان کے منفی تاثرات مجھ پر عیاں ہونے شروع ہوئے۔ بہت سی ذو معنی باتیں اور کبھی اٹھ کر کمرے میں ائیر فریشنر کا چھڑکاؤ، ایسی ادائیں اور نرالے ناز و انداز دیکھ کر مجھے بہت حیرت ہوئی، اس سے پہلے میرے ساتھ اس قسم کا کوئی واقعہ پیش نہ آیا تھا سو بوکھلاہٹ چہرے پر عیاں تھی، ہچکچاہٹ کی وجہ سے الفاظ لبوں پر نہیں آ رہے تھے اور ماتھے پر نمودار ہوتی بوندیں میرے چہرے پر پریشانی کو مزید عیاں کر رہی تھیں۔
    ان کے حساب سے ڈیل کرنا تو مجھے کہاں معلوم تھا مگر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ چند کہے گئے الفاظ اُن پر اس قدر گراں گزرے کہ میری باقی رات سکون سے بسر ہوگئی اور میں برائی سے بال بال بچ گیا۔ اس میں میری ہوشیاری اور چالاکی بالکل نہ تھی بلکہ زبان سے خود بخود یہ الفاظ نکل گئے کہ،
    جنابِ محترم! اگر میرے سامنے کوئی حسین و جمیل لڑکی بھی اس طرح کی ادائیں دکھا کر لُبھانا اور مجھے برائی کی طرف مائل کرنا چاہے تو میں اسے بھی رد کرنے میں ایک پل نہ لگاؤں گا کہ مجھے میرے رب نے حق اور ناحق، اچھائی اور برائی اور حلال و حرام کے علم سے نوازا ہے۔
    یہ چند الفاظ سننے کے بعد انہوں نے وہاں سے جانے میں عافیت جانی۔

    صبح نہا دھو کر پھر سائٹ پر جانے کے لیے دو گھنٹے کی مسافت پر نکل کھڑے ہوئے، اس دوران خاموشی تب ٹوٹی جب وہ کہنے لگے کہ میری زندگی میں پہلے ایسا کوئی واقعہ پیش نہ آیا، جو میں بھی سمجھنے سے قاصر تھا کہ میں آپ کے پاس ہم جنس پرستی کی اس خواہش میں کیا بن کر آیا تھا، آیا کہ آپ نوجوان ہو کر بھی اپنے نفس پر قابو پا کر مجھے ٹھکرا رہے تھے یا میں اپنے نفس کی پیروی کرتا آپ کے حسن سے متاثر ہو کر کچھ ناجائز طلب کا خواہاں تھا۔ تحمل سے ان کی بات سنی اور علامہ اقبال کا ایک شعر میرے ذہن میں آیا جو میں نے انہیں سنانا چاہا کہ
    ہوئی نہ زاغ میں پیدا بلند پروازی
    خراب کرگئی شاہیں بچے کو صحبت زاغ
    انہوں نے واہ واہ کرتے میری بات کاٹی اور اپنی صفائی میں مزید بیس منٹ کا لیکچر سنا ڈالا، مجھے اگلا شعر تو سنانا تھا مگر انہیں اطمینان بھی دلانا پڑا کہ آپ ایک پڑھے لکھے اچھے انسان ہیں، معاشرے میں اچھا نام رکھتے ہیں، اور ایک اچھی فیملی سے بھی تعلق رکھتے ہیں، لیکن آپ مجھے علامہ محمد اقبال کا شعر تو مکمل سنا لینے دیجیے کہ میں اپنے احساسات و خیالات اور جذبات کی ترجمانی کر سکوں۔ کہنے لگے کہ آپ کے ساتھ یہ تھوڑا سا ٹائم گزار کر مجھے ایک الگ ہی احساس پیدا ہوا جسے شاید آج سے پہلے میں نے محسوس کرنے کی کوشش ہی نہ کی تھی، معذرت خواہ ہوں آپ شعر مکمل کیجیے۔
    تو سر علامہ اقبال اس کے بعد اپنی قوم کے جوانوں سے کچھ یوں مخاطب ہوتے ہیں کہ،
    حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی
    خدا کرے کہ جوانی تری رہے بےداغ

    سر! میں حیران ہوں کہ آج کل نئی نسل کس راستہ پر چل پڑی ہے، ہمارے بڑوں کو ہمیں اقبال کا شاہین بنانے میں کردار ادا کرنا چاہیے تھا مگر وہ کیا کر رہے ہیں؟ کیا یہ لمحہ فکریہ نہیں کہ ہم انتہا کی بےراہ روی کا شکار ہو چکے ہیں۔ ہم جنس پرستی کے حامی اور اسے فروغ دینے والے سات سمندر پار بیٹھ کر ہمیں اس گھناؤنی دلدل میں دھنسائے جا رہے ہیں اور اپنے چند ایجنٹس کے ہاتھوں ہماری نسل کو تباہ و برباد کرنے پر تلے ہیں۔ مجھے انتہائی افسوس ہے کہ ہم اپنے مقصد زندگی کو بھول رہے ہیں، یہ روش برقرار رہی تو نہیں معلوم انجام کیا ہو، بڑوں کو تو فکرمند ہونا چاہیے کہ وہ اپنی آنے والی نسل کو کیا دے کر جا رہے ہیں۔ جس قدر تیزی کے ساتھ ہم جنس پرستی فروغ پا رہی ہے، مستقبل قریب میں اس بیماری سے چھٹکارا پانا بہت مشکل ہو جائے گا۔ کم عمری میں بری صحبتوں کا شکار ہونے والے اس قبیح حرکت کو اپنا لیتے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ پختہ ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس قبیح حرکت کا آغاز کرنے والی قومِ لوط اس کی وجہ سے عذابِ الہی کا شکار ہوئی تھی۔ کبھی اتفاق ہو تو بحیرہ مردار کے جنوبی حصے اور موجودہ اردن سدوم اور عمورہ کے علاقے کو وزٹ کیجیے کہ جہاں مٹی کے اوپر ایک الگ تہہ ہے، کٹے پھٹے عجیب و غریب، دہشت زدہ وہ پہاڑ ہیں جو ان دہکتے پتھروں اور مٹی کے ہیں جو اس قوم کی برائی پر اصرار اور سرکشی کے باعث برسائے گئے تھے۔

    دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں راہِ راست پر صبر و استقامت عطا فرمائے، ہمارے لیے آسانیاں پیدا فرمائے اور مسلمانیت و انسانیت کے درد سے ہمارے سینے منور فرمائے کہ ہم اپنی عارضی و ابدی زندگی میں کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہو سکیں۔

    اقبال کا یہ شاہین آج بھی میرا بہت اچھا دوست ہے، جو ریاض کا اپنا پہلا سفر سنا رہا تھا اور میں بڑے تعجب اور حیرانی کے ساتھ سن رہا تھا۔

  • جمعیت علمائے اسلام کی ہر حکومت میں شمولیت، کتنی حقیقت کتنا افسانہ – عادل لطیف

    جمعیت علمائے اسلام کی ہر حکومت میں شمولیت، کتنی حقیقت کتنا افسانہ – عادل لطیف

    عادل لطیف مغربی تہذیب اپنی پوری چمک دمک، آب و تاب کے ساتھ، اسلامی تمدن، اسلامی روایات، اسلامی اخلاق و اقدار پر حملہ آور ہے، اسلامی تہذیب کے نشیمن کے ایک ایک تنکے پر بجلیاں گرائی جا رہی ہیں، یہ تہذیب عالم اسلام کے ایک بڑے طبقے پر فتح حاصل کر چکی ہے، اس کی تابانیوں کے سامنے، اس کی آنکھیں خیرہ، اس کا دل گردیدہ، اس کا دماغ مسحور اور اس کا شعور مفلوج اور مکمل مفلوج ہو چکا ہے. تہذیبوں کے اس تصادم میں ایک جماعت ہے جو ایک ایسے اسلامی معاشرے کی تشکیل کے لیے کوشاں ہے جس میں صنعتی، سائنسی، ٹیکنالوجی اور مادی ترقی پورے عروج پر ہو اور اس کے ساتھ ساتھ اسلامی تہذیب وتمدن، اسلامی اخلاق و ثقافت کسی تحریف و تاویل کے بغیر رائج ہو، ایک ایسا اسلامی معاشرہ جس میں مغرب کے بظاہر خوشنما لیکن درحقیقت جذام زدہ نظام اخلاق و تہذیب سے مرعوبیت کا ذرہ بھر شائبہ نہ ہو، مادی وسائل سے لیس ہونے کے ساتھ اس میں اسلام کی ایک ایک تعلیم اور سرور دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ایک سنت کو زندگی کے ہر ہر شعبے میں پورے فخر مکمل یقین اور بھرپور اعتماد کے ساتھ اختیار کیا ہو، اس بارے میں کسی قسم کی مداہنت، مصلحت، معذرت اور رواداری کی گنجائش کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا ہو. ایک ایسا مسلمان معاشرہ جو دوسری قوموں کی تہذیب کو پورے احساس برتری کے ساتھ یہ کہہ کر رد کر دیتا ہو کہ کیا ہم اپنے نبی سروردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو ان احمق قوموں کی تہذیب کی خاطر ترک کر دیں.

    اسلام کے اسی بلند اخلاق و کردار کے حاملین کی جماعت کا نام جمعیت علمائے اسلام ہے. اس روح و بدن کی کشمکش میں مغرب نے پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کے کیل کانٹوں سے لیس ہو کر جمعیت علماء اسلام کے خلاف بےبنیاد پروپیگنڈہ شروع کر رکھا ہے. یار لوگوں کو جمعیت علمائے اسلام کے خلاف کوئی اور ثبوت نہیں ملتا تو بڑے طمطراق سے یہ راگ الاپنا شروع کر دیتے ہیں کہ جمعیت تو اقتدار کی غلام گردش، وزارت کا نشہ، پروٹوکول کی مستی اور دولت کی ہوس کی خوگر ہے، تبھی تو یہ ہر حکومت کی اتحادی ہوتی ہے. یہ بات تو آئندہ سطور میں واضح ہو جائے گی کہ جمعیت نے کتنا وقت حکومت کے ساتھ گذارا ہے اور کتنا اپوزیشن میں، لیکن اس سے پہلے میں وقت کے ان بقراطوں سے یہ سوال پوچھنے کی جسارت کروں گا کہ کیا کوئی جمہوری پارٹی الیکشن میں حصہ اس لیے لیتی ہے کہ وہ اپوزیشن کی کرسیوں پر بیٹھے یا استعفی دے کر اسمبلیوں سے باہر چلی جائے. ظاہر بات ہے کہ اس کا جواب نفی میں ہوگا، ہر پارٹی الیکشن لڑتی ہی اس لیے ہے کہ وہ ایوان کا حصہ بنے اور حکومت بنائے، جب ہر پارٹی ہی اقتدار چاہتی ہے تو جمعیت ہی مورد الزام کیوں؟ اب ہم اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ مفکر اسلام مفتی محمود رحمۃ اللۃ علیہ کی وفات کے بعد سے اور قائد جمعیت کی امارت کے شروع سے لے کر اب تک جمعیت کتنی مرتبہ حکومت کا حصہ رہی اور کتنی مرتبہ مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کیا.

    maulanafazlurrehman قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن کی قیادت میں جمعیت نے پہلا انتخابی معرکہ 1988ء میں لڑا۔ بہت سارے لوگوں کا خیال تھا کہ جمعیت مفتی محمود کے ساتھ ہی دفن ہوگئی ہے مگر الیکشن 1988ء کے نتائج نے بتادیا کہ جمعیت ابھی زندہ ہے۔ 360526 ووٹ لے کر جمعیت قومی اسمبلی کی 7 سیٹوں پر منتخب ہوئی اور مخالف قوتوں کو تاریخ ساز جواب دیا۔ 1988ء سے لے کر 1990ء تک اس اسمبلی میں جمعیت نے بھرپور انداز میں اپوزیشن کا کردار ادا کیا.
    1990 کے الیکشن میں جمعیت علمائے اسلام نے مجموعی طور پر 622214 ووٹ حاصل کرکے 6 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔ 1990ء سے 1993ء کی اس اسمبلی میں بھی جمعیت علمائے اسلام اپوزیشن میں رہی۔
    1993ء کے الیکشن میں جمعیت نے 2 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی، 1993ء سے 1997ء تک کا یہ عرصہ بھی جمعیت اپوزیشن میں رہی۔
    1997ء کے الیکشن میں جمعیت علمائے اسلام نے 324910 ووٹ کے ساتھ 2 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔ 1997ء سے 2002ء تک جمعیت نے یہ عرصہ بھی کامیابی کے ساتھ اپوزیشن میں گزارا۔
    2002ء کے الیکشن میں جمعیت نے متحدہ مجلس عمل کے محاذ سے انتخاب لڑتے ہوئے مجموعی طور پر 63 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔ 2002ء سے 2008ء تک کا یہ وہ وقت تھا جس میں ایم ایم اے کی قیادت میں جمعیت نے خیبرپختونخوا میں حکومت بنائی مگر مرکز میں حقیقی اپوزیشن کو فروغ دیا اور آج کی یہ اپوزیشن اسی رویہ کا تسلسل ہے جو ایم ایم اے نے متعارف کروایا تھا۔
    2008ء کے الیکشن میں جمعیت علمائے اسلام نے 766260 ووٹوں کے ساتھ 8 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔ اور آصف زرداری کی دعوت پر حکومت میں شریک ہوئی.
    2013ء کے الیکشن میں جمعیت نے 1461371 ووٹ کے ساتھ مجموعی طور پر 15 سیٹیں حاصل کیں، اور نوازشریف کی دعوت پر وفاقی حکومت میں شامل ہوئی۔

    اب اگر حقیقت پسندانہ نگاہ سے دیکھا جائے تو جمعیت علمائے اسلام نے قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں 1988ء سے لے کر 2013ء تک تقریبا 20 سال اپوزیشن میں، جبکہ صرف چھ سال کے لگ بھگ کسی حکومت سے اتحاد میں گزارے. اس جائزہ سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ جمعیت کے مخالف پروپیگنڈے کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ پروپیگنڈہ محض افسانہ ہے. جمعیت مخالفین کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ جمعیت کوئی پانی کا بلبلہ نہیں ہے جو اٹھتا ہے، کچھ چلتا ہے، فنا ہو جاتا ہے، جمعیت کوئی ٹمٹماتا چراغ نہیں ہے جو چند بھڑکیں مار کر تاریکی کا حصہ بن جاتا ہے، جمعیت بہتی ندی کے کنارے ابھرنے والی جھاگ نہیں ہے جو خشکی تک پہنچنے سے پہلے ختم ہو جاتی ہے. جمعیت ایک حقیقت ہے جس نے ملکی سیاست میں اپنے وجود کو تسلیم کروایا ہے، اس کا مقابلہ کرنا ہے تو سیاست میں کیجیے، دروغ گوئی سے کام مت لیجیے، آخر جھوٹ کی کوئی حد ہوتی ہے.