دس لاکھ کا مجمع اکٹھا کرنے کا دعویٰ کرنے والے عمران خان اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں کہ انھیں سپریم کورٹ نے ایک راستہ دے دیا ورنہ وہ بڑی مشکل میں پھنس گئے تھے۔ دس لاکھ افراد تو بہت بڑی بات ہے، بمشکل دس ہزار افراد بھی ان کی مدد کو نہ پہنچ سکتے۔ ہو سکتا ہے کئی روز سے بنی گالہ میں بیٹھے ہوئے شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین، علیم خان وغیرھم اپنے چئیرمین سے کہہ رہے ہوں کہ ان کے”لاکھوں“ ساتھیوں کو حکومت پنجاب نے اسلام آباد آنے نہیں دیا۔ تاہم یہ حقیقت نہیں ہے۔ گزشتہ دھرنے میں بھی مذکورہ بالا رہنماؤں سمیت پارٹی کے ایم این ایز اور ایم پی ایز دیے گئے اہداف کے مطابق لوگوں کو اکٹھا کرنے میں ناکام رہے، اس بار بھی ایسا ہی ہوا۔ اگر یہ کہہ دیا جائے کہ انھوں نے لوگ اکٹھے کرنے کی کوشش ہی نہیں کی تو غلط نہ ہوگا۔ عمران خان کو ناکامیوں سے دوچار کرنے والے یہی لوگ ہیں۔ عمران خان کو ان کھوٹے سکوں کی پہچان نہیں ہورہی ہے۔ پتہ نہیں انھوں نے کیا سوچ کے انھیں اپنی جیب میں رکھا ہوا ہے۔ یہ بازار میں چلنے والے نہیں ہیں۔ کیا یہ سوال اہم نہیں ہے کہ شاہ محمود قریشی کے لاکھوں حامیوں نے باہر نکلنے کے لیے کوشش کیوں نہ کی؟ جہانگیر ترین کے لاکھوں حامی کدھر رہے؟ علیم خان کے لاکھوں حامی کیا ہوئے؟ ارے بھائی! جب ایم این ایز اور ایم پی ایز ہی اہداف حاصل کرنے کی کوشش نہیں کریں گے تو عمران خان کیا کریں گے بے چارے؟
عمران خان بذات خود اپنی ناکامیوںکی ایک وجہ ہیں۔ مصیبت یہ بھی ہے کہ عمران خان اپنی غلطیوں کی نشاندہی کو بھی قبول نہیں کرتے اور اپنے دوستوں کو بھی قابل احتساب نہیں سمجھتے۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ عمران خان میڈیا لور ہیں۔ اس قدر تیزی سے بولتے ہیںکہ سوچ ہی نہیں پاتے کہ وہ کیا بول رہے ہیں۔ تحریک انصاف میں پارٹی سٹرکچر نہیں ہے اگرچہ عمران دنیا کو باور کراتے ہیں کہ ان کی پارٹی جدید اور غیر روایتی ہے۔
دیگر اسباب میں سے ایک مسئلہ جہانگیر ترین ہیں جنھیں سیاست کی کچھ سوجھ بوجھ نہیں ہے لیکن عمران خان ان کے قابو میں ہیں۔ دوسرا مسئلہ علیم خان جنھیں سیاست کی الف ب نہیں معلوم لیکن عمران خان ان کے بھی قابو میں ہیں۔ پرویزخٹک جیسا بوڑھا شخص بھی عمران خان کی ناکامیوںکا ذمہ دار ہے جو جہانگیر ترین کے قبضے میں ہے۔ اقربا پروری بھی تحریک انصاف کا بڑا مسئلہ ہے، کراچی سے خیبر تک ہر جگہ اقربا پروری موجزن ہے۔ عمران کی ناکامیوں کا ایک سبب ریٹائرڈ جرنیل ہیں جو اپنے احمقانہ خواب عمران کو بیچ دیتے ہیں۔
اب بھلا کوئی یہ بتا دے کہ ان اسباب کی دلدل سے عمران خان کا نکلنا ممکن ہے، جب وہ خود ہی نہ نکلنا چاہیں۔
Author: عبیداللہ عابد
-

عمران خان، اپنی ناکامی کی وجہ خود ہیں – عبید اللہ عابد
-

کیا پاکستان عالمی تنہائی کا شکار ہوگیا؟ عبید اللہ عابد
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اعلان کیا کہ وہ پاکستان کو دنیا میں تنہا کردیں گے، پھر چند روز بعد پاکستان میں سیکولر اور لبرل طبقے نے دعویٰ کردیا کہ پاکستان دنیا میں تنہا ہوگیا۔ گزشتہ چند ہفتوںکے دوران شائع ہونے والی چند خبروں کا مطالعہ کرلیں، پھر فیصلہ کرلیں کہ سیکولرطبقہ کا دعویٰ درست ہے یا غلط۔
یہ کیسی تنہائی ہے کہ
افغانستان پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کا حصہ بننا چاہتا ہے۔
یہ کیسی تنہائی ہے کہ
ایران بھی پاک چائنا راہداری کا حصہ بننا چاہتا ہے۔
یہ کیسی تنہائی ہے کہ
سعودی عرب بھی اپنے آپ کو سی پیک کے ساتھ جوڑنا چاہتا ہے، پاکستان، چین اور سعودی عرب کے درمیان معاملات طے پا چکے ہیں۔
یہ کیسی تنہائی ہے کہ
ترکی بھی سی پیک کے ساتھ اپنے آپ کو متعلق کرنے لگا ہے، اس منصوبے پر کام شروع ہو چکا ہے۔
یہ کیسی تنہائی ہے کہ
دیگر خلیجی ریاستیں بھی اپنے آپ کو سی پیک کے ساتھ جوڑ رہی ہیں۔ اور وسط ایشیائی ریاستوں بھی سی پیک سے فائدہ اٹھانے کے لیے بے چین ہیں۔
یہ کیسی عالمی تنہائی ہے کہ
روس پاکستان کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے کے راستے پر گامزن ہے۔ بھارت کے اعتراضات کے باوجود روس نے پاکستان کے ساتھ فوجی مشقیں کیں۔
اسلامی کانفرنس تنظیم (او آئی سی) کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ ہمیشہ لفظوں کی حد تک کشمیر کے معاملے پر پاکستان کا ساتھ دیتی تھی، اس سے زیادہ کچھ نہیں کرتی تھی لیکن کیا کوئی دیکھ سکتا ہے کہ ترکی نے مقبوضہ کشمیر میں فیکٹ فائنڈنگ کمیشن بھیجنے کا اعلان کر دیا ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ ترکی جو کہتا ہے، اس پر عمل بھی کرتا ہے۔ کیا اس قدر بڑی پیش رفت اس سے پہلے کبھی دیکھنے کو ملی؟ جب فیکٹ فائنڈنگ کمیشن مقبوضہ کشمیر کی طرف عازم سفر ہوگا تو دنیا بھارت کی تنہائی دیکھے گی۔ بہت جلد یہ دن بھی آنے والا ہے۔
پاکستان کا سیکولر طبقہ بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیا ہی پڑھ لے جو لکھتا ہے کہ بھارت ہی میں ہونے والے برکس اجلاس میں روس نے پاکستان کے خلاف بھارتی مؤقف مسترد کر دیا جس پر مودی سرکار کافی پریشان ہے۔ اخبار کے مطابق چین کے بجائے روس نے بھارت کو سب سے زیادہ مایوس کیا ہے۔ یاد رہے کہ برکس اجلاس میں بھارت روس سے پاکستان کے خلاف بیان بازی کرانا چاہتا تھا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان کو سفارتی سطح پر تنہا کرنے کے دعوے کرنے والا بھارت خود عالمی تنہائی کا شکار ہو رہا ہے جبکہ پاکستان کا سیکولر طبقہ قوم کو یہ کہہ کر مایوس کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ پاکستان عالمی تنہائی کا شکار ہو چکا ہے۔
اس سے پہلے چین نے بھی پاکستان کے خلاف بھارتی کوششوں کو یہ کہہ کر ناکامی سے دوچار کردیا کہ وہ دہشت گردی کو کسی مخصوص ملک یا مذہب سے جوڑنے کے سخت خلاف ہے۔ چین نے اعلان کیا کہ وہ ہرحال میں پاکستان کے ساتھ ہے اور دنیا دہشت گردی کے خلاف پاکستانی قربانیاں تسلیم کرے۔ چین نے برکس اعلامیہ سے جیش محمد اور لشکرطیبہ کا ذکر بھی نکلوا دیا، یہاں تک کہ بھارت اوڑی حملہ کو بھی اعلامیہ میں شامل نہ کروا سکا۔ عالمی تنہائی کا شکار بھارت ہو رہا ہے، جبکہ سیکولرز پاکستانی قوم کو مایوس کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
آذربائیجان کے صدر الہام علیوف نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کی مذمت کی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ اس مسئلہ کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جائے۔ کیا اس سے قبل دنیا میں پاکستان کو اس قدرحمایت حاصل تھی؟ یقینا نہیں، مسئلہ کشمیر سے متعلق پاکستانی مؤقف کی دنیا میں پذیرائی بڑھ رہی ہے۔ اس کے باوجود سیکولر طبقہ کہتا ہے کہ پاکستان عالمی تنہائی کا شکار ہے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ اوڑی حملہ پر بھارت نے پاکستان کے خلاف امریکہ کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا، امریکہ نے نہ صرف پاکستان کے خلاف بھارتی مقدمہ کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا بلکہ اسے پاکستان کے خلاف جنگی عزائم سے باز رہنے کو کہا۔۔اس کے باوجود سیکولرز کہتے ہیں کہ پاکستان عالمی تنہائی کا شکار ہوچکا ہے۔
پاکستان اور چین ایشیائی ممالک کے اقتصادی بلاک پر کام کر رہے ہیں، چین پاکستان کے ذریعے ترکی اور یورپی ممالک تک پہچنے کےلیے ”فاسٹ ایشیا ٹرین“ چلانے کے منصوبے پر کام کر رہا ہے۔ اس کے باوجود سیکولرز کہتے ہیں کہ پاکستان عالمی تنہائی کا شکار ہو رہا ہے۔
سیکولر لابی کو سوچنا چاہیے کہ کیا نریندرمودی کے کہنے سے پاکستان عالمی تنہائی کا شکار ہوگیا؟ -
سیرل المیڈا اور ڈان، اصل مسئلہ کیا ہے؟ عبیداللہ عابد
انگریزی اخبار کے صحافی کا قصہ ختم ہونے میں نہیں آرہا حالانکہ مسئلہ یہ صحافی نہیں ہے، کوئی اور ہے۔ ہوا یوں کہ ن لیگ کے رکن قومی اسمبلی نے اخبار نویس کو بتایا کہ سول ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے اجلاس میں یوں اور یوں کہاگیا۔ اس اخبار نویس کا تعلق اس طبقہ سے ہے جو دو قومی نظریہ کا بدترین مخالف ہے، جو پاکستان اور بھارت کو دوبارہ ایک دیکھنا چاہتا ہے، جو بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی شخصیت اور خیالات کے بجائے گاندھی کی شخصیت اور خیالات پر سر دھنتا ہے۔ رکن اسمبلی نے جو بتایا، اس پر ایسے اخبار نویس کا مارے خوشی اور جوش کے اچھلنا بنتا تھا کیونکہ اس کے بیانیہ اور بھارت کے بیانیہ میں کوئی رتی برابر فرق نہیں۔
اخبار کی اس بات کو تسلیم کیاجاناچاہیے کہ اس نے خبر کو کئی چھلنیوں سے گزارنے کے بعد شائع کیا، تاہم اخبار نویس کا خبر میں کہنا ہے کہ حکومتی ذمہ داران سے اس خبر کی تصدیق کا پوچھا گیا تو اس کی تردید کی گئی۔ ضابطہ یہ ہے کہ اگر ایک بات ہوئی ہو لیکن حکومت اس کی تردید کر دے تب وہ بات خبر نہیں بن سکتی، شائع نہیں ہوسکتی۔ اخبارنویس مارے خوشی اور فرط جذبات کے یہ ضابطہ یاد رکھ نہ سکا یا پھر خاطر میں نہیں لایا۔ وہ یہ بھی ادراک نہ کرسکا کہ وہ کسی کے ہاتھوںاستعمال ہو رہا ہے۔ اسے اندازہ ہونا چاہیے تھا کہ بعض لوگ کسی کو استعمال کرتے ہیں اور پھر اس کی آڑ میں چھپ جاتے ہیں۔ ممکن ہے کہ اخبارنویس سزا پائے، ممکن ہے کہ معاملہ تنبیہ پر ہی ختم ہوجائے۔
ایک بار پھر عرض ہے کہ مسئلہ انگریزی اخبار یا اس کا صحافی نہیں، مسئلہ وہ لوگ ہیں جو آج بھی اور اس صورتحال میں بھی بھارت کی مانتے ہیں، بھارت کہتا ہے کہ حافظ سعید دہشت گرد ہے لیکن پاکستانی عدلیہ کہتی ہے کہ وہ دہشت گرد نہیں ہے۔ یہ بھارت نوازی کا جذبہ اتنا غالب ہے کہ بھارتی حکمرانوں کی ہر بات مانی جاتی ہے چاہے وہ نریندر مودی جیسا مسلمان اور پاکستان دشمن ہی کیوں نہ ہو۔ انھی میں سے ایک نے یہ خبر (جھوٹی ہے یا سچی) اخبار نویس کو دی، ہو سکتا ہے کہ اس سے پہلے نئی دہلی تک بھی پہنچا دی ہو۔ نہ جانے مزید کیا کیا خبریں وہاں نہ پہنچاتے ہوں گے۔ اصل مسئلہ یہ لوگ ہیں، ان کے ہوتے ہوئے قومی سلامتی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
حسن ظن سے کام لیا جائے تو وزیراعظم نوازشریف کو قومی سلامتی اسی طرح عزیز ہے جس طرح کسی دوسرے اور تیسرے محب وطن پاکستانی کو۔ حسن ظن یہ ہے کہ انھیں پاکستانی مفادات عزیز ہیں، بھارت کے نہیں۔ حب الوطنی کا تقاضا یہ ہے کہ وہ پاکستان میں ہر شعبہ زندگی سے بھارت نوازوں کو نکالنے کا کام شروع کریں اور پھر اسے پوری ذمہ داری سے منطقی انجام تک پہچائیں۔ میری خواہش ہے کہ یہ کارنامہ میاں نوازشریف ہی سرانجام دیں۔ بصورت دیگر پاکستانی قوم کو قومی سلامتی سے زیادہ کچھ بھی عزیز نہیں، میاں نوازشریف، عمران خان اور آصف زرداری، کوئی بھی نہیں۔
(عبیداللہ عابد سینئر صحافی اور روزنامہ ایکسپریس سے وابستہ ہیں) -

بھارت نے آزادکشمیر میں سرجیکل سٹرائیک کیسے کی؟ عبید اللہ عابد
ہمارے یہاں ننھی منی بچیاں ”گُڈے“ اور ”گُڈی“ کا کھیل کھیلتی ہیں، ایک کا ”گُڈا“ ہوتا ہے اور دوسری کی ”گُڈی“ ( گڑیا)، دونوں بچیاں گُڈے اور گُڈی کی شادی کرتے ہیں۔ شادی سے پہلے شادی کے لیے خوب تیاری کرتی ہیں اور پھر بیاہ ہو جاتا ہے۔
ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں حکمران، میڈیا اور جرنیل اسی طرح کھلونے بنا کر ”جنگ ، جنگ“ کھیلتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ مودی، میڈیا پرسنز اور جرنیلوں کے سروں میں سفیدی آگئی ہے لیکن وہ اب بھی بچے کے بچے ہی ہیں۔ ان کی سوچ اور ان کی حرکتیں ننھے منے بچوں جیسی ہی ہیں۔ کیسے بھلا؟ اس کی ایک مثال بھارتی حکومت و فوج کا آزادکشمیر میں سرجیکل سٹرائیک کا دعویٰ ہے، جس کے مطابق بھارتی فوج آزاد کشمیر میں دو کلومیٹر اندر تک گھس آئی، اس نے مجاہدین کے تربیتی کیمپ تباہ کیے اور پھر واپس چلی گئی۔ میں نے آج کے بھارتی اخبارات دیکھے تو ہر جگہ واہ واہ ہو رہی ہے، مودی حکومت کی بھی اور بھارتی فوج کی بھی۔
دراصل بھارتی جرنیلوں نے اپنے ہیڈکوارٹر میں ایک بڑی میز پر میدان جنگ ترتیب دیا، اس میں ایک طرف مقبوضہ کشمیر بنایا اور دوسری طرف آزاد کشمیر۔ پھر ایک جرنیل مقبوضہ کشمیر سے ہیلی کاپٹر اڑا کے آزادکشمیر لایا، ”ٹھاہ، ٹھاہ“ کیا اور پھر اپنا ہیلی کاپٹر واپس لے گیا، اسے مقبوضہ کشمیر میں رکھ کر پھر کچھ فوجیوں کو چلا کر آزادکشمیر تک لایا اور وہاں کچھ تربیتی کیمپوں پر ٹانگیں چلائیں، انھیں تباہ کیا اور پھر اس جرنیل نے وہ فوجی واپس مقبوضہ کشمیر میں رکھ دیے۔ یہ تھی ان کی ”سرجیکل سٹرائیک“۔
میں یہ بات ایک ٹیبل سٹوری کے طور پر نہیں کررہا ہوں۔ میںنے مقبوضہ کشیمر اور آزادکشمیر کی درمیانی لکیر (لائن آف کنٹرول) کے بالکل قریب رہنے والوں سے معلومات حاصل کیں، بالخصوص معروف عرب ٹی وی چینل ”العربیہ“ سے وابستہ صحافی عبدالقیوم فہیمد سے اس بنیادی سوال کا جواب لینے کی کوشش کی کہ آیا سرجیکل سٹرائیک ہوئی ہے یا نہیں؟ نوجوان صحافی نے میرا سوال سنتے ہی فی الجملہ بھارتی دعوے کو مسترد کردیا، کہا کہ لائن آف کنٹرول سے اِدھرپہاڑی علاقے اس نوع کے ہیں کہ بھارتی فوج کا اس پار آنا ممکن ہی نہیں ہے، اگر وہ گھستی ہیں تو ان کا آگے بڑھنا ہی ممکن نہیں ہے، اگر وہ آگے بڑھتی ہیں تو ان کا واپس جانا ممکن نہیں ہے۔ انھوں نے بتایا کہ کچھ سیکٹرز پر بھارتیوں نے کراس بارڈر گولہ باری کی، نتیجے میں دو فوجی شہید اور کچھ لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ پاکستان نے جوابی گولہ باری کی، بھارتی فوجیوں کو ہلاک ہوتے دکھایا گیا ہے۔ بعض اطلاعات کے مطابق 14 بھارتی فوجی ہلاک ہوچکے ہیں، 8 کی لاشیں سامنے نظر آ رہی ہیں لیکن بھارتی فوج انھیںاٹھانے کی ہمت نہیں کر رہی ہے۔
گزشتہ روز بھارتی وزیراعظم مودی نے کل جماعتی کانفرنس بلائی تھی، اس میں عسکری قیادت بھی موجود تھی۔ کانفرنس کے اختتام پر حکمرانی پارٹی نے دعویٰ کیا کہ عسکری قیادت نے ”سرجیکل سٹرائیک“ کے ثبوت دکھائے تاہم کانفرنس میں شریک کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے رہنما سیتا رام یچوری نے کہا کہ بالکل نہیں، کوئی ثبوت نہیں دکھائے گئے۔ ”انڈین ایکسپریس“ کے مطابق سیتاررام یچوری نے کہا: ”ہم نے اپنے ڈی جی ایم او کو بریفنگ دیتے ہوئے دیکھا، ہم نے پاکستان کا ردعمل دیکھا لیکن اس کے علاوہ کچھ نہیں معلوم نہیں“۔ کانفرنس میں شریک ایک بزرگ بھارتی سیاست دان کی اس بات کے بعد مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔
سوال یہ ہے کہ بچوں جیسی حرکتیں کرنے والے مودی، میڈیا پرسنز اور جرنیلوں نے یہ کھیل کیوںکھیلا؟
مودی نے پاکستان کے خلاف جنگ کے نعرے لگا کر بھارتی انتہاپسند طبقے کا ووٹ لیا، انھیں حکومت بنائے دو برس بیت چکے ہیں، انتہاپسند طبقے کی طرف سے ان پر دباؤ تھا کہ پاکستان کے خلاف جنگ کرو۔ شیوسینا تو کھل کر انھیں مطعون کر رہی تھی، ان پر دبائو بڑھا رہی تھی کہ پاکستان کی ایسی تیسی پھیر دو۔ اب مودی صاحب اپنے وعدوں کے چنگل میں پھنس گئے۔ ایسے میں انھوں نے بھارتی میڈیا کے کچھ ذرائع، جرنیلوں کو ساتھ ملایا اور سرجیکل سٹرائیکس جیسے ڈرامے کرنے کا منصوبہ بنایا۔
میں باقاعدگی سے بھارتی اخبارات کا مطالعہ کرتاہوں۔ پی ٹی آئی ( پریس ٹرسٹ آف انڈیا) اور یو این آئی ( یونین نیوزآف انڈیا)، ان دو بڑی بھارتی نیوز ایجنسیوں کی بھیجی ہوئی خبروں سے بھارتی اخبارات بھرے ہوتے ہیں۔ میں آپ کو صرف ایک ہفتہ تک بھارتی اخبارات پڑھنے کا مشورہ دیتاہوں، آپ بخوبی جان لیں گے کہ یہ خبریں کس طرح تیار ہوتی ہیں۔ میں بطور صحافی سو فیصد یقین سے کہتاہوں کہ ان خبر رساں ایجنسیوں کے صحافی ٹیبل سٹوریزگھڑتے ہیں۔ میں روزانہ دیکھتا ہوںکہ ان کی خبروں کے درمیان کھلا تضاد موجود ہوتا ہے۔ مثلا گزشتہ ہفتے کے دوران ایک خبرآئی کہ چین نے مسئلہ کشمیر کے ضمن میں پاکستان کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ دونوں ملک چین کے دوست ہیں۔ جس اخبار میں یہ خبر شائع ہوئی، اسی اخبارمیں شائع ہونے والی ایک دوسری خبر میں بتایاگیا کہ چین کا کشمیر کے مسئلے پر پاکستانی موقف کی طرف جھکائو، تاہم یہ کہا ہے کہ دونوںملکوں کو یہ تاریخی مسئلہ بات چیت کے ذریعے حل کرناچاہیے۔
ایسی بےشمار واضح طورپر متضاد خبریں بھارتی اخبارات میں موجود ہوتی ہیں، میں آپ کو محض ایک ہفتہ بھارتی اخبارات پڑھنے کا مشورہ دیتا ہوں۔ آپ خود اس سوال کا جواب حاصل کرلیں گے کہ بچوں جیسی حرکتیں کرنے والے مودی، میڈیا پرسنز اور جرنیل یہ کھیل کیوںکھیل رہے ہیں؟ مودی کو اپنی کم ہوتی ہوئی مقبولیت پر قابو پانا ہے کیونکہ تین برس بعد عام انتخابات ہوں گے جبکہ بھارتی فوج کو اپنی کمزور عسکری صلاحیت، پرانے اسلحہ اور پرانے جہازوں پر پردہ ڈالنا ہے۔
ہوسکتاہے کہ بھارتی عوام کی بڑی تعداد اپنے ہی سیاست دان سیتا رام یچوری کے بیان پر یقین نہ کرے کہ بھارتی فوج نے کل جماعتی کانفرنس میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیے۔ تاہم بھارتی قوم اس وقت رونا شروع کرے گی جب بھارتی فوجیوں کی لاشیں واپس بھارت میں جائیں گی، جب انھیں پتہ چلے گا کہ انھیں پاکستان کے خلاف سرجیکل سٹرائیکس کے نام پر دھوکہ دیاگیا ہے۔
میں نے مودی کے وزیراعظم بننے کے فورآ بعد ”ایکسپریس سنڈے میگزین“ میں شائع شدہ اپنی رپورٹس میں لکھا تھا کہ پاکستان کے خلاف جنگ کے نعرے لگا کر برسراقتدار آنے والے مودی کے لیے پاکستان سے کھلی جنگ لڑنا ممکن نہ ہوگا کیونکہ بھارت دنیا کی چوتھی بڑی معاشی طاقت ہے، ہندو بنیا کھلڑی اتروا لیتا ہے لیکن دُمڑی نہیں دیتا، ایسے میں بھارت اپنی معاشی طاقت سے کیسے محروم ہونا چاہے گا بھلا!!
مودی نے انتہاپسندوں کو مطمئن کرنے کے لیے پاکستان کے اندر پہلے تخریب کاری کی راہ اختیار کی،اب سرجیکل سٹرائیک کا ڈرامہ کردیا، مودی سرکار آنے والے دنوں میں یہ دونوں کام مزید کرے گی، امید ہے کہ پاکستان میں تخریب کاری کو پاکستانی سیکورٹی فورسز روک لیں گی تاہم ”بھارتی جرنیل بچوں“ کو ”جنگ، جنگ“ کا کھیل کھیلنے سے نہیں روک سکیں گی۔ -

نوازشریف کو کون ہٹائے گا؟ عبید اللہ عابد
اگر کسی کے ہاں اولاد پیدا نہ ہو رہی ہو اور خرابی بھی اُس مرد میں ہو تو کیا وہ اولاد پیدا کرنے کے لیے کسی دوسرے مرد کی خدمات مستعار لے گا؟ نہیں ناں! تو پھر یہ کیسے جائز ہوگیا کہ سیاست دان حکمران وقت سے نجات حاصل کرنے میں ناکام ہوجائیں تو وہ فوج سے کہیں کہ ہٹائو اسے!
پاکستان میں ایک مخصوص طبقہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کو مشورے دیتا رہا کہ وہ ریٹائر نہ ہوں۔ جب انھوں نے اس طرز کے مشوروں پر توجہ نہ دی تو آرمی کے باقی جرنیلوں کو ”سمجھانے“ کی کوشش کی گئی کہ جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ غلط ہوگی، انھیں توسیع ملنی چاہیے۔ اب قریبآ سپہ سالار کی ریٹائرمنٹ میں ایک ماہ باقی رہ گیا ہے اور یہ مخصوص طبقہ جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کو تقدیر کا لکھا سمجھ کر، تھک ہار کے بیٹھ گیا ہے۔
ہم اس طبقہ کو سمجھاتے تھے کہ بھائی ! پاکستانی فوج کے پاس جنرل راحیل ایسے جرنیلوںکی کمی نہیں۔ یہ مخصوص طبقہ یوں ظاہر کر رہا تھا جیسے پاکستانی فوج کے پاس ایک ہی جنرل راحیل تھا۔ اس طرح کے مطالبے اور مہمات دراصل فوج کی ساکھ خراب کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔
دوسری بات، پانی بہتا رہے تو پانی صاف رہتاہے ورنہ گندا جوہڑ بن جاتاہے۔ آرمی سمیت ہر ادارے میں لوگوں کو اپنی مدت کے خاتمے پر چلے جاناچاہیے، نئے لوگوں کو موقع
ملناچاہیے، اس سے اداروں کی کارکردگی بہتر ہوتی ہے۔
رہی بات نوازشریف کی،
نوازشریف معمولی صلاحیت کے حامل سیاست دان ہیں، ان کی کارکردگی سے ہم مطمئن نہیں ہیں لیکن انھیں ہٹانے کا کام فوج کا نہیں، عوام کا ہے۔ اگرکوئی سیاست دان سمجھتا ہے کہ نوازشریف کو مزید برسراقتدار نہیں رہناچاہیے تو وہ عوام کو تیار کرے۔ اگر وہ عوام کو تیار نہیں کرسکتا تو یہ اس سیاست دان کی سیاست پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے! بھائی! اپنے اندر صلاحیت پیدا کرو، یقین ہے کہ آپ اپنے مقاصد میںکامیاب ہوجائو گے۔ -

عمران خان کی بنیادی غلطی – عبید اللہ عابد
کہانی یہ ہے کہ سن 2008 میں پیپلزپارٹی کے امیدوار چودھری ظفراقبال نے چیچہ وطنی کی نشست 162 سے 70 ہزار ووٹ حاصل کرکے کامیابی حاصل کی تھی. رائے فیملی کے رائے عزیزاللہ نے آزادامیدوار کی حیثیت سے 65 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کیے۔
سن 2013 کے انتخابات میں تحریک انصاف کے امیدوار رائے حسن نواز نے 88 ہزار ووٹ حاصل کرکے کامیابی حاصل کی۔ آزاد امیدوار حاجی ایوب جسے نوازلیگ کی حمایت حاصل تھی، نے 75 ہزار ووٹ حاصل کیا۔ پیپلزپارٹی کے امیدوار کو محض ساڑھے 9 ہزار ووٹ ملے۔
گزشتہ روز کے ضمنی انتخاب میں ن لیگ کے طفیل جٹ 74 ہزار281 ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے جبکہ رائے مرتضیٰ اقبال 61 ہزار 836 ووٹ لے سکے۔ پیپلز پارٹی کے چودھری شہزاد چیمہ پندرہ ہزار873 ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر رہے۔
اس ساری کہانی کا اہم ترین پہلو یہ ہے کہ تحریک انصاف کی سیٹ مسلم لیگ ن لے اڑی۔ پنجاب سے اس کی قومی اسمبلی کی ایک سیٹ کم ہوگئی ہے۔ میںنے سوشل میڈیا بالخصوص ٹوئٹر پر پی ٹی آئی کے نوجوانوں کا ”دھاندلی ٹرینڈ“ تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن نہ ملا، آج کے اخبارات چھان مارے، تحریک انصاف کے کسی رہنما کی طرف سے دھاندلی کا الزام بھی نظر نہیں آیا۔ پی ٹی آئی کے رہنما چودھری سرور کا بیان پڑھا کہ نتائج تسلیم کرتے ہیں کیونکہ یہ الیکشن فوج کی نگرانی میں ہوئے ہیں۔
ہمارے دفتر میں ایک دوست صبح سے حساب کتاب کر رہے ہیں کہ پنجاب میں پی ٹی آئی کی کتنی سیٹیں باقی رہ گئی ہیں۔ عمران خان دو برس بعد ہونے والے انتخابات میں نوازلیگ کو شکست دینے کے دعوے کر رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کل تحریک انصاف اپنی ہی سیٹ کیوں ہارگئی؟ پی ٹی آئی سے ہمدردی رکھنے والے دوست بڑے پرامید تھے کہ وہ صوبہ خیبر میں اس قدر ”شاندار“ کارکردگی دکھا رہے ہیں کہ اگلے انتخابات میں نوازلیگ کو ایوان اقتدار سے آئوٹ کردیں گے لیکن میںان سے اختلاف کرتا تھا۔ مجھے خدشہ ہے کہ اگلے انتخابات میں صوبہ خیبر سے بھی پی ٹی آئی کو مئی 2013ء جتنی سیٹیں نہیں ملیں گی۔ پی ٹی آئی کے دوست میرے خدشے کو مسترد کرتے تھے۔ کل کے ضمنی انتخاب نے بتادیا ہے کہ میرا خدشہ درست ہے۔ مجھے یہ بھی یقین ہے کہ پی ٹی آئی والے مختلف توجیہات پیش کرکے میرے اس خدشے سے اتفاق نہیں کریں گے، وہ ”سب اچھا“ کے اسیر ہیں۔ تحریک انصاف کے کارکنان کا کیا ذکر، ان کے چیئرمین عمران خان بھی اسی مخصوص ذہنیت کے حامل ہیں اور کبھی اپنی غلطی کا حساب کتاب نہیں کرتے۔ وہ پاکستانی قوم کو بھی ”کرکٹ ٹیم“ ہی سمجھتے ہیں، وہ پاکستان کو بھی ”شوکت خانم“ یا ”نمل یونیورسٹی“ ہی خیال کرتے ہیں۔ یہی وہ بنیادی غلطی ہے جو انھیں نقصان سے دوچار کر رہی ہے۔ -

کیا عام پاکستانیوں کی مائوں کو ہارٹ اٹیک نہیں ہوتے؟ عبید اللہ عابد
اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم سے پہلے کی قومیں اسی لیے ہلاک ہوگئیں کہ جب اُن میں کوئی شریف آدمی چوری کرتا تھا تو اسے چھوڑدیتے تھے، اور جب کوئی کمزور آدمی چوری کرتاتھا تو اس پر حد نافذ کرتے تھے۔
ایم کیو ایم کے رہنما خواجہ اظہارالحسن کی گرفتاری پر جس طرح وزیراعظم نوازشریف سے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ حرکت میں آئے، انھوں نے جس طرح فون کھڑکائے۔ اس پر ایک سوال بنتاہے ان سے،
کیا کبھی کسی عام پاکستانی کی غیرقانونی گرفتاری پر بھی وہ اسی طرح حرکت میں آئے؟
ایک عام پاکستانی کو کس اندازمیں گرفتار کیا جاتا ہے، کس طرح اس کی گرفتاری کےلیے اس کے گھر کی چادر اور چاردیواری کو پامال کیا جاتاہے، ’’ملزم‘‘ گرفتار نہ ہوسکے تو کس طرحاس کی جوان بہنوں کو مہینوں تک تھانوں اور انویسٹی گیشن سنٹرز میں رکھا جاتاہے، اس کے بزرگ والدین کے ساتھ کس طرح انتہائی بہیمانہ سلوک کیا جاتاہے، ملزم اور اس کے رشتہ داروں کےساتھ کس طرح کا سلوک کیاجاتاہے، اس کا حکمرانوں کو بخوبی اندازہ تو ہے لیکن وہ ایک ایسے حکمران کلب (ایک مافیا) کا حصہ ہیں جس کے ارکان کے دلوںمیں موجود سفاکی درد کی لہر پیدا نہیں ہونے دیتی
وزیراعظم نوازشریف، وزیراعلیٰ مراد علی شاہ اور خواجہ اظہارالحسن سب اسی خاص کلب کے لوگ ہیں۔ اس کلب کے ارکان صرف سویلین ہی نہیں بلکہ عسکری بھی ہیں۔ اس ’’خاص کلب‘‘ کے ہر رکن کے دلوںمیں خون نہیں سفاکی دوڑتی ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ خواجہ اظہار کی ’’غیرقانونی‘‘ پر درد زہ میں مبتلا ہوئے لیکن ایک عام پاکستانی کے ساتھ کس طرح سلوک ہوتا ہے، اس کی انھیں پرواہ نہیں۔ پولیس اور دیگر سکیورٹی ادارے ان کے ساتھ جو اور جیسا مرضی سلوک کریں، انھیں کھلی چھوٹ ہے۔ بس فکر اس بات کی ہے کہ کوئی اس مخصوص کلب کے ارکان کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھے، کیا عام پاکستانیوں کے ساتھ برا سلوک ہو تو ان کی مائوںکو ہارٹ اٹیک نہیں ہوتے؟ ان کی بیویوں کی حرمت نہیںہوتی؟ ان کی بہنوں اور بیٹیوں کا تقدس نہیں ہوتا؟ -

مارک ٹونر کا لہجہ اور سیکولر حکمران – عیبد اللہ عابد
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان مارک ٹونرکا لہجہ ملاحظہ کیجیے، وہ کیا کہہ رہاہے، اس پر غور بعد میں کیجیے گا۔ اس نے کہا ہے:
”پاکستان پر واضح کر دیا، وہ انتخاب نہ کرے کہ کس گروہ کے خلاف کارروائی کرنی ہے، پاکستان کو ہمسایہ ممالک کے لیے خطرہ بننے والےگروپوں کے خلاف بھی کارروائی کرنی ہے، پاکستان پر واضح کر دیا، وہ دہشت گرد گروپوں کے خلاف بلاتفریق کارروائی کرے.“
سفید چمڑی والا گھامڑ گورا اب بھارت کی غلامی پر پاکستان کو مجبور کررہاہے۔ یہ ہے وہ مقام جہاں اس وقت پاکستان کھڑا ہے۔
پاکستان کو اس مقام پر کس نے پہنچایا ہے، کسی سے مخفی نہیں ہے۔ جی ہاں! پاکستان کے سیکولراور لبرل حکمرانوں نے، چاہے وہ جنرل مشرف ہو یا زرداری ہو یا پھر میاں نوازشریف۔ جنرل مشرف سے پہلے کی بات کریں تو بےنظیر بھٹو کانام بھی شامل کرنا پڑے گا کہ موصوفہ بھی سیکولر تھیں۔ ان سب ناپختہ ذہن کے حاملین نے ملک و قوم کا ستیاناس کر دیا، یہ سب کے سب دور حاضر کے میرصادق اور میر جعفر تھے۔ پرانے میرصادق اور میرجعفر کے پاس بھی انگریزوں کی وفاداری کے کچھ جواز تھے، ان کے پاس بھی ہیں کہ ہم معاشی طورپر طاقتور نہیں ہیں، اس لیے مجبور ہیں امریکہ کی ماننے پر۔ ارے ! کوئی ان سے پوچھے کہ پاکستان کو کمزور کس نے کیا؟ آپ ہی لوگوںنے کیا ہے نا!
ان کا طریقہ واردات دیکھیے کہ یہ سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں، یہ سب امریکہ کے وفادار ہیں لیکن قوم کو بے وقوف بنانے کے لیے کیسے ڈرامہ بازی کرتے ہیں!! مشرف کہتاہے کہ میرے دور میں قوم کو جوتے (ڈرون حملے) کم پڑے ہیں، موجودہ حکمران کہتے ہیں کہ ہماری کوششوں سے جوتے برسنا بند ہوگئے ہیں، یہ قوم کو اس مرحلہ فکر کی طرف آنے نہیں دے رہے کہ کن لوگوںکی وجہ سے اس قوم پر جوتے برسے!
پاکستان کا الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا انھی سیکولرز اور لبرلز کی چاکری کرتاہے۔ اس لیے اس سے کسی خیر کی توقع مت رکھیے، اور خود کچھ کیجیے، اس قوم کو اس طبقہ کے طریقہ واردات سے آگاہ کیجیے تاکہ یہ قوم سفید چمڑی والے گھامڑ گوروں کی غلامی سے نجات حاصل کرے۔ اس کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کیجیے، لیکن صرف سوشل میڈیا نہیں بلکہ آپ جہاںب ھی ہوں، خود ہی سوال چھیڑیے اور پھر خوب ٹھوک بجا کر جواب دیجیے۔ -

پیپلزپارٹی کی نئی مشکل – عبید اللہ عابد
پاکستان میں سیکولرز اور لبرلز کی سب سے بڑی جماعت”پیپلزپارٹی“ ان دنوں ایک نئی مشکل میں گرفتار ہے، اس کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کرپشن نہ کرے تو جی نہیں سکتی، کم ازکم آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور کی حرکتیں اسی تاثر کو پختہ کرتی ہیں، جب سے پیپلزپارٹی کی زندگی میں زرداری خاندان داخل ہوا ہے، کرپشن کا دوسرا نام پیپلزپارٹی یا پیپلزپارٹی کا پہلا نام کرپشن بن چکا ہے۔
گزشتہ دنوں ایک شخص درخواست لے کر سندھ کی عدالت عالیہ میں پہنچا، چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس سجاد علی شاہ سے عرض کرنے لگاکہ
”سن 2008ء سے اب تک لاڑکانہ کے ترقیاتی کاموں کے لیے 90 ارب روپے کے فنڈز مختص کیے گئے ہیں لیکن فریال تالپور اور ایازسومرو کی ملی بھگت سے رقم کا بڑا حصہ کرپشن کی نذر ہوگیا ہے جبکہ شہر کھنڈرات کا منظر پیش کررہاہے“
اس پر چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نے پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت سے کہا کہ حساب دیاجائے، یہ 90 ارب روپے کہاں خرچ ہوئے ہیں؟
بار بار یہ سوال پوچھے جانے کے باوجود حکومت کے وکیل (ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل) اس سوال کا جواب دینے کو تیار نہ ہوئے۔ ظاہر ہے کہ یہ رقم لاڑکانہ کی فلاح و بہبود پر خرچ ہوتی تو اس سوال کا جواب دینا مشکل نہ ہوتا۔
اس پر چیف جسٹس کا کہناتھا کہ
”سات گھر تو ڈائن بھی چھوڑ دیتی ہے، پیپلزپارٹی نے اپنے گھر لاڑکانہ کو بھی نہیں چھوڑا، 8 سال کے دوران پورے سندھ میں 90 ارب روپے نہیں لگے، لاڑکانہ میں اتنی رقم کیسے خرچ ہوگئی.“
جب ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سے زور دے کر کہاگیا کہ وہ بتائیں، یہ 90ارب روپے لاڑکانہ میں کہاں خرچ ہوئے ہیں، ذرا حساب تو دیں؟
توایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کا کہناتھا:
”درخواست گزار حکومت کو بدنام کرنے کے لیے جھوٹے الزامات عائد کررہاہے.“
اس پر چیف جسٹس نے کہا:
”حکومت کو حساب تو دینا ہی پڑے گا“
پیپلزپارٹی کی یہ نئی مشکل چند برس پرانی مشکل جیسی ہی ہے، جب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری نے اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے کہا کہ وہ سوئٹزرلینڈ والوں کو خط لکھ کر پتہ کریں کہ سوئس اکائونٹس میں پڑی ہوئی رقم کس کی ہے؟ گیلانی صاحب نے اپنی وزارت عظمیٰ قربان کردی لیکن وہ خط نہ لکھا۔
ارے بھائی! اگر سوئس اکائونٹس میں پڑی ہوئی رقم آصف زرداری اور بے نظیر بھٹو کی نہیں تھی ( جیسا کہ پیپلزپارٹی والوں کا دعویٰ تھا) تو خط لکھنے میںکیا مضائقہ تھا؟
آج بھی سوئس اکائونٹس میں پڑی ہوئی رقم کی بابت سوال کیا جائے تو پیپلزپارٹی والے منہ چھپانے لگ جاتے ہیں، ہاں! یہ کہنا نہیں بھولتے کہ وہ رقم آصف زرداری اور بے نظیر بھٹو کی نہیں ہے۔ بھائی! یہی بتادو کہ وہ رقم ہے کس کی؟ آخر اس سوال کا جواب دینے میں مشکل کیا ہے؟
اب بھی ایسا ہی لگ رہاہے کہ سندھ کے وزیراعلیٰسے پوچھا جائے گا کہ
بھائی! بتادو
”90 ارب روپے لاڑکانہ میں کہاں خرچ ہوئے ہیں، ذرا حساب تو دیں؟“
وہ شاید اپنی وزارت علیا کی قربانی دے دیں گے لیکن اس سوال کا جواب دینے کو تیار نہیں ہوں گے۔ -

ترکی میں بغاوت؛ ذرا سوچیے – عبید اللہ عابد
میرا ایک سوال ہے
ترکی میں ناکام ہونے والی فوجی بغاوت اگر ایران میں ہوتی تو باغیوں اور ان کے سہولت کاروں کے ساتھ کیا سلوک ہوتا؟ کیا انھیں معاف کر دیا جاتا؟ کیا انھیں ان کے عہدوں پر برقرار رکھا جاتا؟ کیا انھیں پھانسیوں پر نہ لٹکایا جاتا؟
میرا سوال یہ ہے کہ اگر یہی بغاوت امریکہ میں ہوتی تو کیا ہوتا؟ سوچیے ذرا
اگر سعودی عرب میں ہوتی تو کیا ہوتا؟ سوچیے ذرا
اگر یہی بغاوت طالبان کے افغانستان میں ہوتی تو کیا ہوتا، سوچیے ذرا
اگر دنیا کے کسی بھی پانچویں، چھٹے یا ساتویں ملک میں ہوتی تو کیا ہوتا؟ کچھ تو سوچیے ذرا۔
قریبا اسی قسم کے سوالات ترک قیادت نے امریکیوں کے سامنے رکھے تو وہ اب باغیوں کے حقوق کی باتیں چھوڑ کر فتح اللہ گولن کے بارے میں تحقیقات میں مدد دینے پر آمادہ ہوچکے ہیں۔ امریکی صدر باراک اوباما اور امریکی نائب صدر جوبائیڈن کے بیانات سامنے آچکے ہیں۔ آج کل امریکی در پر سجدہ ریز سیکولرز، لبرلز اور ملحدین یہ بیانات نوٹ فرمالیں۔
سوال یہ بھی ہے کہ کیا ضروری ہے کہ مغربی ذرائع ابلاغ کی ہر خبر پر یقین کر لیا جائے؟ بالخصوص ایک اخبار نویس اور ایک دانشور کو ہر خبر کی صحت کی ازخود تحقیق نہیں کرنی چاہیے. لیکن حیرت ہے کہ ترکی میں بغاوت کے معاملے میں یہ اخبارنویس، تجزیہ نگار اور دانشور بھی ایک جاہل قاری ثابت ہوئے ہیں۔ (اگرجاہل کا لفظ سخت محسوس ہو تو معذرت خواہ ہوں)۔ جب تک آپ دوسرے فریق کا موقف جان نہیں لیتے، تب تک آپ خبر شائع کرسکتے ہیں نہ تجزیہ کرسکتے ہیں، لیکن افسوس ہمارے ہاں بعض تجزیہ کار مسلسل بول اور لکھ رہے ہیں۔
اس باغیانہ کوشش میں 246 افراد شہید ہوئے جن میں 179 سویلین، 62 پولیس آفیسر اور 5 فوجی شامل تھے۔ 24 باغی فوجی بھی مارے گئے جبکہ 49 کو زخمی حالت میں گرفتار کیاگیا۔
بغاوت کے بعد پہلے مرحلے میں 4060 افراد کو حراست میں لیاگیا جن میں سے 2430 فوجی، 151 پولیس افسر، 1386 ججز اور 93 سویلین تھے۔ دوسرے مرحلے میں5581 افراد کو گرفتار کیاگیا۔ تفتیش کے بعد اب تک 549 افراد کو رہا کر دیا گیا ہے لیکن انھیں ضرورت کے مطابق بلایا جا سکتا ہے جبکہ 220 افراد کو باعزت بری کر دیاگیاہے۔ تفتیش کا سلسلہ جاری ہے، بےگناہ افراد رہا ہوتے چلے جائیں گے۔
یوں اب مجموعی طور پر 10410 زیرحراست ہیں، جن میں 7423 فوجی، 287 پولیس افسران، 2014 ججز اور686 سویلینز ہیں۔ یاد رہے کہ مغربی ذرائع ابلاغ اپنے پروپیگنڈے میں 50 ہزار کے قریب گرفتاریاں ظاہر کر رہے ہیں۔
آپ ترکی میں بغاوتوں کی تاریخ کا جائزہ لیں، فوجی اور ججز مل کر حکومت کا تختہ الٹتے تھے، اس بار بھی بڑے پیمانے پر بغاوت کی تیاری کی گئی تھی، اس میں زندگی کے مختلف شعبوں کے افراد کو بھی شامل کیا گیا تھا تاکہ بغاوت کے خلاف کوئی شعبہ مزاحم نہ ہو۔ تاہم ایک تدبیر انسان کرتا ہے اور ایک تدبیر اللہ تعالیٰ کرتا ہے، اللہ تعالیٰ ہی کی تدبیر غالب آتی ہے.
آپ غیرجانبداری اور دیانت داری کے ساتھ مغربی میڈیا کے کردار کا جائزہ لیں، آپ کو صاف نظر آئے گا کہ وہ بغاوت کے حق میں تھا اور اب باغیوں کو بچانے کے لیے پروپیگنڈا کر رہاہے۔ کون بھول سکتاہے کہ امریکی ٹی وی چینل کے سٹریٹیجک تجزیہ نگار کرنل رالف پیٹرز کی بات کو، انھوں نے بغاوت کے اگلے روز کہا تھا: ’’اگر بغاوت کامیاب ہوجاتی تو اسلام پسند ہار جاتے اور ہم جیت جاتے‘‘ انھوں نے ہی کہا تھا:’’ خدا کی رحمت ہو ان لوگوں پر جو ترکی میں بغاوت کر رہے ہیں، وہی خدا کے بندے ہیں‘‘۔ ایک امریکی چینل نے بغاوت ناکام ہونے پر کہاتھا:’’ ترکی میں امید کی آخری کرن بھی ڈوب گئی۔‘‘
اس کے باوجود مسلمان معاشروں کا کوئی دانشور طیب اردگان کے خلاف کھڑا ہے، تو اسے سوچ لیناچاہیے کہ وہ کہاںکھڑا ہے؟ اور کس صف میں کھڑا ہے؟