ہوم << پیپلزپارٹی کی نئی مشکل - عبید اللہ عابد

پیپلزپارٹی کی نئی مشکل - عبید اللہ عابد

عبید اللہ عابد پاکستان میں سیکولرز اور لبرلز کی سب سے بڑی جماعت”پیپلزپارٹی“ ان دنوں ایک نئی مشکل میں گرفتار ہے، اس کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کرپشن نہ کرے تو جی نہیں سکتی، کم ازکم آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور کی حرکتیں اسی تاثر کو پختہ کرتی ہیں، جب سے پیپلزپارٹی کی زندگی میں زرداری خاندان داخل ہوا ہے، کرپشن کا دوسرا نام پیپلزپارٹی یا پیپلزپارٹی کا پہلا نام کرپشن بن چکا ہے۔
گزشتہ دنوں ایک شخص درخواست لے کر سندھ کی عدالت عالیہ میں پہنچا، چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس سجاد علی شاہ سے عرض کرنے لگاکہ
”سن 2008ء سے اب تک لاڑکانہ کے ترقیاتی کاموں کے لیے 90 ارب روپے کے فنڈز مختص کیے گئے ہیں لیکن فریال تالپور اور ایازسومرو کی ملی بھگت سے رقم کا بڑا حصہ کرپشن کی نذر ہوگیا ہے جبکہ شہر کھنڈرات کا منظر پیش کررہاہے“
اس پر چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نے پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت سے کہا کہ حساب دیاجائے، یہ 90 ارب روپے کہاں خرچ ہوئے ہیں؟
بار بار یہ سوال پوچھے جانے کے باوجود حکومت کے وکیل (ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل) اس سوال کا جواب دینے کو تیار نہ ہوئے۔ ظاہر ہے کہ یہ رقم لاڑکانہ کی فلاح و بہبود پر خرچ ہوتی تو اس سوال کا جواب دینا مشکل نہ ہوتا۔
اس پر چیف جسٹس کا کہناتھا کہ
”سات گھر تو ڈائن بھی چھوڑ دیتی ہے، پیپلزپارٹی نے اپنے گھر لاڑکانہ کو بھی نہیں چھوڑا، 8 سال کے دوران پورے سندھ میں 90 ارب روپے نہیں لگے، لاڑکانہ میں اتنی رقم کیسے خرچ ہوگئی.“
جب ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سے زور دے کر کہاگیا کہ وہ بتائیں، یہ 90ارب روپے لاڑکانہ میں کہاں خرچ ہوئے ہیں، ذرا حساب تو دیں؟
توایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کا کہناتھا:
”درخواست گزار حکومت کو بدنام کرنے کے لیے جھوٹے الزامات عائد کررہاہے.“
اس پر چیف جسٹس نے کہا:
”حکومت کو حساب تو دینا ہی پڑے گا“
پیپلزپارٹی کی یہ نئی مشکل چند برس پرانی مشکل جیسی ہی ہے، جب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری نے اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے کہا کہ وہ سوئٹزرلینڈ والوں کو خط لکھ کر پتہ کریں کہ سوئس اکائونٹس میں پڑی ہوئی رقم کس کی ہے؟ گیلانی صاحب نے اپنی وزارت عظمیٰ قربان کردی لیکن وہ خط نہ لکھا۔
ارے بھائی! اگر سوئس اکائونٹس میں پڑی ہوئی رقم آصف زرداری اور بے نظیر بھٹو کی نہیں تھی ( جیسا کہ پیپلزپارٹی والوں کا دعویٰ تھا) تو خط لکھنے میں‌کیا مضائقہ تھا؟
آج بھی سوئس اکائونٹس میں پڑی ہوئی رقم کی بابت سوال کیا جائے تو پیپلزپارٹی والے منہ چھپانے لگ جاتے ہیں، ہاں! یہ کہنا نہیں بھولتے کہ وہ رقم آصف زرداری اور بے نظیر بھٹو کی نہیں ہے۔ بھائی! یہی بتادو کہ وہ رقم ہے کس کی؟ آخر اس سوال کا جواب دینے میں مشکل کیا ہے؟
اب بھی ایسا ہی لگ رہاہے کہ سندھ کے وزیراعلیٰ‌سے پوچھا جائے گا کہ
بھائی! بتادو
”90 ارب روپے لاڑکانہ میں کہاں خرچ ہوئے ہیں، ذرا حساب تو دیں؟“
وہ شاید اپنی وزارت علیا کی قربانی دے دیں گے لیکن اس سوال کا جواب دینے کو تیار نہیں ہوں گے۔

Comments

Click here to post a comment