Tag: یونس خان

  • دورحاضر کا سب سے بہترین بیٹسمین – شاہد اقبال خان

    دورحاضر کا سب سے بہترین بیٹسمین – شاہد اقبال خان

    ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں سر ڈان بریڈمین، سر گیری سوبرز، سر ویون رچرڑز، سنیل گواسکر، ظہیر عباس، جاید میانداد، انضمام الحق، رکی پونٹنگ، جیک کیلس، برائن لارا، سچن ٹنڈولکر، راہول ڈریوڈ جیسے عظیم کھلاڑی پیدا ہوے۔ سر بریڈمین بلاشبہ ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کے کامیاب ترین بیٹسمین ہیں مگر ان کے بعد تجزیہ نگار دوسرے کامیاب ترین بیٹسمین پر کبھی متفق نہیں ہوئے۔ اس کی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ مختلف زمانے کے کھلاڈیوں کا آپس میں موازنہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ہر زمانے میں کنڈیشن مختلف ہوتی ہے مگر ایک ہی زمانے کے کھلاڑیوں کا آپس میں موازنہ کیا جا سکتا ہے۔

    دور حاضر میں بھی بہت شاندار بیٹسمین ٹیسٹ کرکٹ کھیل رہے ہیں۔ اس تحریر میں دور حاضر کے ان بیٹسمینوں کا موازنہ کیا گیا ہے جو کم از کم 40 ٹیسٹ میچ کھیل چکے ہیں اور ان کی اوسط 50 سے زیادہ ہے۔
    کسی بھی بیٹسمین کی کارکردگی کو جانچنے کے لیے اس کی ایوریج کافی نہیں ہوتی۔ اس سلسلے میں بہت سے طریقے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ اس موازنے میں ہر بیٹسمین کو پانچ طریقوں سے جانچا جائے گا اور اس کو اس کے مطابق پوائنٹ دیے جائیں گے۔اس کی تفصیل نیچے دی گئی ہے۔
    1۔ بیٹسمین کی ایوریج۔ 55 کی اوسط پر 20 پوائنٹ اور اس سے زیادہ ہر زنز پر ایک اضافی پوائنٹ ملے گا۔ 55 سے کم ہر رنز پر ایک پوائنٹ کاٹ لیا جائے گا.
    2۔ مختلف ملکوں میں کارکردگی۔ بیٹسمین کی ہر ملک میں کارکردگی دیکھی جائے گی اور اوپر دیے گئے معیار کے مطابق ہر ملک میں پوائنٹ جمع کر کے ان کی ایوریج لی جائے گی۔
    3۔ مختلف ملکوں کے خلاف کارکردگی۔ بیٹسمین کی ہر ملک کے خلاف کار کردگی دیکھی جائے گی اور اوپر دیے گئے معیار کے مطابق پوائنٹ جمع کر کے ان کی ایوریج لی جائے گی۔
    4۔ لمبی اننگز کھیلنے کی صلاحیت۔ ہر سنچری کے 40، ہر 150 پلس سکور کے 60، 200 پلس سکور کے 80، 250 سکور کے 100 اور 300 پلس سکور کے 120 پوائنٹ ملیں گے۔ ان تمام پوائنٹس کو جمع کر کے میچز کے تعداد پر تقسیم کر کے اس کی اوسط لی جائے گی۔
    5۔ پریشر میں کھیلنے کی صلاحیت۔ اس کے لیے کسی بیٹسمین کی بطور کپتان کارکردگی، بڑی اور اہم سیریز میں کارکردگی اور میچ کی تیسری اور چوتھی اننگز میں اوسط دیکھی جائے گی. اس کے علاوہ فتوحات میں کردار بھی دیکھا جائے گا۔
    دنیا میں اس وقت 6 ایسے بیٹسمین ہیں جن کی اوسط 50 سے زیادہ اور میچز 40 سے زیادہ ہیں۔ ان سب کا تفصیلی موازنہ نیچے دیا گیا ہے۔

    اے بی ڈویلیر
    abdevilliars-getty-1411-750 سپرمین یعنی اے بی ڈویلیر کے بارے میں یہ عام خیال ہے کہ وہ ون ڈے اور ٹیسٹ کرکٹ کا شاندار کھلاڑی ہے کیونکہ وہ بہت مختصر وقت میں ہی مخالف ٹیم کے پرخچے اڑا کے رکھ دیتا ہے۔ مگر اے بی کی 50 کی ٹیسٹ اوسط یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ اے بی ایک بہترین ٹیسٹ بیٹسمین بھی ہے۔ اوسط میں اسے 15 پوائنٹس ملتے ہیں۔ اس کے لیے کوئی وکٹ مشکل نہیں، کوئی باؤنڈری بڑی نہیں، کوئی باؤلر تیز نہیں، کوئی گگلی یا دوسرا گیند کو باؤنڈری سے باہر جانے سے نہیں روک سکتے۔ بنگلہ دیش میں ایک بیڈ فیز کی وجہ سے وہ زیادہ سکور نہ کر سکا۔ اس کے علاوہ تمام ممالک میں اور تمام ممالک کے خلاف اس کی اوسط 45 سے زیادہ رہی۔ مختلف ممالک میں اور مختلف ممالک کے خلاف کارکردگی پر اسے بالترتیب 15،16 پوائنٹس ملتے ہیں۔ اس نے 106 میچز میں 21 سنچریاں، 7 بار 150 پلس،اور 2 بار 200 پلس سکور کیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اے بی لمبی اننگز کھیلنے میں بہت زیادہ کامیاب نہیں ہو سکا۔ اسے اس کیٹیگری میں 15 پوائنٹس ملتے ہیں۔ اے بی ایک خوف کا نام ہے۔ جب تک وہ وکٹ پر موجود ہو مخالف ٹیم جیت کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ اس کی بطور وکٹ کیپر اوسط 57 کی ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ وہ مشکل اور زیادہ ذمہ داری کے وقت پہلے سے بھی بہتر پرفارم کرتا ہے۔ اس کی میچ کی تیسری اور چوتھی اننگز میں اوسط بھی 45 سے زیادہ ہے۔ اس لیے پریشر کی کیٹیگری میں اسے 23 پوائنٹس ملتے ہیں۔ اس کے مجموعی پوائنٹس کی تعداد 84 بنتی ہے۔

    ہاشم آملہ
    ہاشم-آملہ.jpg ایک بار شعیب اختر نے یہ کہا تھا کہ آملہ کو آؤٹ کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ اس سے ہی پوچھ لیا جائے کی بھئی تمہیں کہاں پر گیند کرائیں. آملہ ساؤتھ افریقہ کی رنز مشین ہے۔ اس کی ٹیسٹ اوسط 51 کی ہے۔ اوسط میں اسے 16 پوائنٹس ملتے ہیں۔ وہ ہر ٹیم کے خلاف بےرحمی سے پیش آیا مگر اسے پاکستان، ویسٹ انڈیز اور بنگلہ دیش کی سلو وکٹوں نے بہت تنگ کیا۔ وہ ان ملکوں میں 30 کی اوسط سے بھی نہیں کھیل سکا۔ اسے مختلف ممالک میں اور مختلف ممالک کے خلاف کارکردگی میں بالترتیب 12 اور 18 پوائنٹس ملتے ہیں۔ آملہ لمبی دوڑ کا کھلاڑی ہے۔ اگر وہ سیٹ ہو جائے تو پھر مخالف ٹیم اننگز ڈیکلیئر ہونے کا ہی انتظار کرتی ہے۔ اس نے 96 میچز میں 25 سنچریاں، 3 بار 150 پلس، 2 بار 200 پلس اور ایک ٹرپل سنچری بھی سکور کی۔ اسے ا س کیٹیگری میں 18 پوائنٹس ملتے ہیں۔ اس کی بطور کپتان بیٹنگ اوسط میں تھوڑی سی کمی ہوئی ہے۔ میچ کی تیسری اننگز میں اس کی اوسط نہایت شاندار 65 کی ہے مگر چوتھی اننگز میں اوسط کافی کم 35 کی ہے. انڈر پریشر کھیلنے میں آملہ کا ریکارڈ زیادہ امپریسو نہیں۔ اسے اس کیٹیگری میں 10 پوائنٹس ملتے ہیں۔ اس کے مجموعی پوائنٹس کی تعداد 74 بنتی ہے۔

    سٹیو سمتھ
    SteveSmith اسمتھ آسٹریلیا کا کپتان ہے اور بہت نوجوانی میں ہی اسے یہ ذمہ داری سونپ دی گئی تھی۔ اس کی اوسط 58 کی ہے جو موجودہ دور کے کھلاڑیوں میں سب سے زیادہ ہے۔ اوسط میں اسے 23 پوانٹ ملتے ہیں۔ سمتھ کی یہ خوبی بھی اسے دوسرے تمام نان ایشین کھلاڑیوں سے ممتاز کرتی ہے کہ وہ ہر طرح کی پچ پر کھیل سکتا ہے۔ اس کی تمام آٹھ ممالک میں 40 پلس کی اوسط ہے۔ ایشیا میں بھی اوسط 41 رہی۔ اس لیے مختلف ممالک میں کھیلنے کی کیٹیگری میں اسے 17 پوائنٹس ملتے ہیں۔ کوئی بھی ٹیم سمتھ کے بلے کے سامنے بند باندھنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ اس نے تمام ٹیموں کے خلاف 40 سے زیادہ کی اوسط سے بیٹنگ کی سوائے پاکستان کے۔ اس لیے اسے اس کیٹیگری میں 16 پوائنٹس ملتے ہیں۔ سمتھ نے 44 میچز میں 15 سنچریاں، 3 بار 150 پلس اور 1 بار 200 پلس رنز کیے۔اس لحاظ سے اسے 20 پوائنٹس ملتے ہیں۔ سمتھ کا انڈر پریشر پرفارم کرنے کا ریکارڈ بہت ہی شاندار ہے۔ اس نے بطور کپتان 47 کی اوسط سے بیٹنگ کی۔ ایشیز سیریز میں کئی انڈر پریشر اننگز کھیلیں۔ جیتنے والے میچز میں اس کی اوسط 81 کی رہی جو ناقابل یقین ہے مگر میچ کی تیسری اور چوتھی اننگز میں اس کی اوسط 40 سے کم رہی جو سمتھ کے ریکارڈ کا واحد منفی پوائنٹ ہے۔ اس لحاظ سے اسے15 پوائنٹس ملتے ہیں۔ کل پوائنٹ 96 بنتے ہیں۔

    جو روٹ
    joe-root جو روٹ انگلینڈ کی بیٹنگ لائن اپ کی ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے۔ وہ بلاشبہ پچھلے 20 سال میں انگلینڈ کا بہترین ٹیسٹ بیٹسمین ہے۔ پاکستان کے خلاف حالیہ سیریز میں الیسٹر کک اور جو روٹ کے آؤٹ ہونے کے ساتھ ہی پاکستانی قوم یہ سمجھنے لگ جاتی تھی کہ انگلینڈ آل آؤٹ ہو گئی ہے، وہ الگ بات ہے کہ ہر دفعہ ہی بیرسٹو اور معین علی ہمیں جھٹکا لگا دیتے تھے۔ جو روٹ کی ٹیسٹ اوسط 55 کی ہے جو کہ نہایت شاندار ہے۔ اوسط میں اسے 20 پوائنٹس ملتے ہیں۔ روٹ سیم بال کو اچھا کھیلتا ہے۔ اس کی انگلینڈ اور جنوبی افریقہ مین اوسط 55 کی ہے۔ وہ اسپین باؤلرز کو کھیلنے والا انگلینڈ کا بہترین کھلاڑی ہے۔ اس کی ایشیا اور ویسٹ انڈیز میں بھی اوسط 55 سے زائد ہے مگر روٹ کے لیے باؤنسی وکٹ پر کھیلنا محال ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں اوسط 20 کے قریب ہے۔ اسے مختلف ممالک میں کھیلنے کی کیٹیگری میں 17 پوائنٹس ملتے ہیں۔ روٹ نے تمام ممالک کے خلاف اچھی کارکردگی دکھائی ہے۔ اس کی سب سے کم اوسط نیوزی لینڈ کے خلاف 40 کی ہے۔ اس شاندار کارکردگی پر روٹ کو مختلف ممالک کے خلاف کارکردگی میں 22 پوائنٹس ملتے ہیں۔ روٹ نے 46 میچز میں 10 سنچریاں سکور کی ہیں جو اس کے معیار سے کافی کم ہیں۔ اس نے 3 بار 150 پلس، ایک بار 200 پلس اور 1 بار 250 پلس سکور کیا۔ اس لحاظ سے اسے لمبی اننگز کھیلنے کی صلاحیت میں 16 پوائنٹس ملتے ہیں۔ روٹ نے یواے ای میں پاکستان، ایشیز میں آسٹریلیا اور دورہ بھارت میں کئی انڈر پریشر اننگز کھیلیں۔ اس کی میچ کی تیسری اور چوتھی اننگز میں بھی اوسط 40 سے زیادہ ہے، جیتنے والے میچز میں اس کی اوسط ناقابل یقین یعنی 82 کی ہے۔اس لیے اسے پریشر میں کھیلنے کی کیٹیگری میں19 پوائنٹس ملتے ہیں۔ روٹ کے کل پوائنٹ94 بنتے ہیں۔

    کین ولیمسن
    kane_williamson ولیمسن صرف 25 سال کی عمر میں بطور بیٹسمین وہ کچھ حاصل کر چکا ہے جو کوئی اور نیوزی لینڈ کا بیٹسمین حاصل نہیں کر سکا۔ وہ پہلا نیوزی لینڈ ہے جس کی ٹیسٹ اوسط 50 کی ہے۔ اس لے اسے اوسط میں 15 پوائنٹس ملتے ہیں۔ کین ولیمسن کی کارکردگی میں ایک قابل تنقید بات اس کی بھارت، جنوبی افریقہ اور انگلینڈ میں 35 سے بھی کم کی اوسط ہے۔ اس وجہ سے اس کی ان ممالک کے خلاف مجموعی اوسط بھی 35 سے کم ہے، البتہ کین ولیمسن ہر ٹیم کے خلاف سنچری اسکور کر چکا ہے۔ اس لیے اسے مختلف ممالک میں اور مختلف ممالک کے خلاف کارکردگی میں بالترتیب 13، 15 پوائنٹس ملتے ہیں۔ اس نے 54 میچز میں 14 سنچریاں سکور کیں، 3 بار 150 پلس اور صرف 1 بار ڈبل سنچری اسکور کی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس نے اپنے کیرئیر میں کوئی زیادہ لمبی اننگز نہیں کھیلیں۔ اس کیٹیگری میں اسے 10 پوائنٹس ملتے ہیں۔ کین ولیمسن اننگز کو سنبھال کر چلنے والا کھلاڑی ہے۔ اس کی بھی دوسرے تمام عظیم کھلاڑیوں کی طرح پریشر میں کھیلنے کی صلاحیت شاندار ہے۔ اس نے بطور کپتان 61 کی اچھی اوسط سے بیٹنگ کی۔ میچ کی تیسری اور چوتھی اننگز میں اس کی اوسط 50 کے قریب ہے۔ فتوحات میں کین کی اوسط 82 کی ہے۔ ہر لحاظ سے کین ایک میچ ونر اور انڈر پریشر پرفار کرنے والا کھلاڑی ہے۔ اسے اس کیٹیگری میں 20 پوائنٹس ملتے ہیں۔ کین کے مجموعی پوائنٹس کی تعداد 73 بنتی ہے۔

    یونس خان
    یونس-خان.jpgیونس خان اعداد و شمار کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے کامیاب ٹیسٹ بیٹسمین ہیں، اسی وجہ سے آئی سی سی نے اسے کنگ خان کا خطاب بھی دیا، البتہ بہت سے تجزیہ نگار اور سابق کرکٹرز اب بھی اسے جاوید میانداد، ظہیر عباس اور انضمام الحق سے کمتر کھلاڑی سمجھتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے اس کی وجہ شاید وہ بھی نہیں جانتے۔ یونس کی پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ یعنی 53 کی ٹیسٹ اوسط ہے۔ اوسط میں اسے 18 پوائنٹس ملتے ہیں۔ وہ تمام ممالک میں سنچری اسکور کر چکا ہے سوائے آسٹریلیا کے۔ اس کی ویسٹ انڈیز کے علاوہ تمام ممالک میں اوسط 40 سے زیادہ ہے۔ وہ تمام ممالک کے خلاف سنچری سکور کرنے والا واحد پاکستانی کھلاڑی ہے۔ اس کی کسی ٹیم کے خلاف اوسط 40 سے کم نہیں۔ اس لحاظ سے اسے مختلف ممالک میں اور مختلف ممالک کے خلاف کارکردگی پر بالترتیب 18 اور 22 پوائنٹس ملتے ہیں۔ وہ لمبی اننگز کھیلنے کا ماہر ہے۔ آپ ٹیسٹ میچ کے دوران جب بھی ٹی وی آن کریں گے آپ کو یونس کھیلتا ہوا نظر آئے گا۔ اس نے 108 میچز میں 30 سنچریاں، 6 بار 150 پلس، 4 بار 200 پلس، 1 بار 250 پلس اور ایک بار ٹرپل سنچری بھی اسکور کر چکا ہے۔ اس لیے لمبی اننگز کھیلنے میں اسے 20 پوائنٹس ملتے ہیں۔ اس کی ٹیسٹ کی چوتھی اننگز میں سب سے زیادہ اوسط، سب سے زیادہ سنچریاں ہیں، اس کی بطور کپتان اوسط 55 کی رہی جو کہ اچھی اوسط ہے۔ جن میچز میں پاکستان فتح یاب ہوا ان میں بھی اس کی اوسط 76 کی ہے۔ اس لحاظ سے یونس ٹیسٹ میچز میں پریشر کی صورتحال میں کھیلنے کا ماہر ہے۔ اس لیے اسے اس کیٹیگری میں 20 پوائنٹس ملتے ہیں۔ یونس کے کل پوائنٹس کی تعداد 99 بنتی ہے۔
    %d8%a8%db%8c%d9%b9%d8%b3%d9%85%db%8c%d9%86

  • ایجبسٹن ٹیسٹ جیت سکتے ہیں، اگر؟ محسن حدید

    ایجبسٹن ٹیسٹ جیت سکتے ہیں، اگر؟ محسن حدید

    تیسرا ٹیسٹ آن پہنچا. پاکستان کی ٹیم نے پہلے ٹیسٹ کے بعد جتنا بھی اعتماد حاصل کیا تھا وہ اولڈ ٹریفورڈ میں کھو چکی، اب انگلینڈ پورے رعب سے میدان میں اترے گی. یاد رہے کہ یہ وہی گراونڈ ہے جہاں گزشتہ دورہ انگلینڈ میں پاکستان کی ٹیم صرف 72 رنز بنا کر آئوٹ ہو گئی تھی. اس گراونڈ پر پاکستان کبھی بھی ٹیسٹ میچ جیت نہیں سکا. یہاں ٹوٹل 7 میچز کھیلے ہیں جن میں سے 4 میں شکست ہوئی اور 3 ڈرا ہوئے. مشہور زمانہ وکٹ کیپر ذوالقرنین حیدر کا ڈیبیو (واحد ٹیسٹ بھی) یہیں ہوا تھا، جس میں انھوں نے ایک انوکھا ریکارڈ بنایا تھا (پہلی اننگز میں صفر اور دوسری اننگز میں ٹیم کا ٹاپ سکور88).

    England v Pakistan کیا پاکستان کے پاس کچھ بھی پازیٹو نہیں ہے تو اس کا جواب ہے کہ پاکستان کے پاس بھی چند مثبت چیزیں ہیں جن پر بات کی جاسکتی ہے مثلا گزشتہ ٹیسٹ میں انگلش ٹیم کی اچھی کارکردگی کا زیادہ حصہ روٹ اور کک کے کھیل پر مشتمل تھا، ہیلز ابھی تک ٹیسٹ معیار کے بلے باز ثابت نہیں ہو سکے جبکہ گیری بیلنس ایک سال کے بعد آئے ہیں اور ٹیم میں اپنی جگہ پکی کرنے کے چکر میں ہیں، جیمز ونس بھی کیرئیر کی شروعات میں ہیں اور ابھی تک کچھ خاص نہیں کرپائے. (انگلینڈ کا سسٹم اچھا ہے جو کسی نئے لڑکے کو مسلسل موقع دیتا ہے ورنہ کسی اور ملک میں ہوتے تو ونس اب تک ٹیم سے نکالے جا چکے ہوتے) پاکستان کے کوچ نے بھی انگلش ٹیم کے ٹاپ آرڈر کی انھی کمزوریوں پر بات کی ہے. سب سے بڑی بات کہ انگلینڈ کے اہم کھلاڑی بین سٹوکس انجری کی وجہ سے ٹیم سے باہر ہوچکے ہیں. پچھلے کئی دن سے بات چل رہی تھی کہ انگلینڈ ان کی جگہ ٹیم میں عادل رشید، جیک بال یا سٹیون فن میں سے کسی کو شامل کرے گا. زیادہ تر چانس یہی تھا کہ انگلینڈ اپنی سٹرینتھ پر کھیلےگا اور ایک سیمنگ پچ بنائے گا جس کی وجہ سے سٹیون فن کے ٹیم میں شمولیت کا چانس بن جائے گا. وہی ہوا اور انگلینڈ نے فن کو عادل رشید پر ترجیح دی. کرس ووکس اب تک انگلینڈ کے سب سے کامیاب بائولر ہیں اور یہ ان کا ہوم گرائونڈ بھی ہے، یہاں وہ اپنا پہلا ٹیسٹ کھیلنے جارہے ہیں.

    یاسرشاہ ایجبسٹن کی پچ عام طور پر خشک ہوتی ہے جو وقت کے ساتھ سپنر کے لیے سازگار ہو جاتی ہے، اس لیے سیمنگ پچ کے باوجود بھی یاسرشاہ اس میں اپنے لیے کچھ مدد کے منتظر ضرور ہوں گے. یاسر شاہ کا اپنی سپیڈ اور لائن لینگتھ میں تبدیلی کرنا بہت ضروری ہے ورنہ یہ ٹیسٹ بھی ان کے لیے امتحان سے کم نہں ہوگا کیونکہ انگلینڈ اس میچ میں بھی شاید سپورٹنگ پچ بنائے اور ایسی پچ پر ٹاس بہت اہم ہوجاتا ہے. یاسرشاہ کو وکٹ ٹیکنگ آپشن کے طور پر دیکھا جاتا ہے مگر اس چکر میں انھیں جلد بازی بالکل نہیں کرنی چاہیے اور سمجھنا چاہیے کہ پچ کا مزاج کیا ہے. ایک اور بات کہ یاسر کے بارے میں کبھی شک گزرتا ہے کہ وہ بہت سکرپٹڈ بائولر ہیں اور میچ کی صورتحال کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالتے نہیں. یہ خیال بھی انہیں غلط ثابت کرنا ہوگا.

    محمد عامر کو اب کچھ کر دکھانا ہوگا، دو میچز ہوگئے، اب یقینی طور پر مشکل وقت گزر چکا، ہوٹنگ اور نعروں کا پریشر بھی وہ جھیل چکے. اب انہیں ثابت کرنا ہوگا کہ وہ ٹیسٹ کے بہترین بائولر ہیں اور ان کا جو انتظار شائقین نے 6 سال کیا، وہ واقعی اسی لیول پر ہیں. Pakistan v England وہاب ریاض کو کاش کوئی بتا دے کہ اگر قسمت کی دیوی ان پر مہربان ہو ہی گئی ہے تو وہ کچھ محنت ہی کرلیں، سپیڈ سے کیا ہوتا ہے، گرائونڈ میں کوئی تیز ترین گیند پھینکنے کا مقابلہ نہیں چل رہا ہوتا بلکہ بات تو وکٹ لینے پر ختم ہوتی ہے جس میں وہ بری طرح ناکام ہو رہے ہیں. اور یہ کوئی زمبابوے یا بنگلہ دیش کے سب سٹینڈرڈ بلے باز نہیں جو آپ کی طوفانی بائولنگ سے ڈر کر بیک فٹ پر چلے جائیں گے اور آپ کو وکٹ دے دیں گے. یہ آپ کی 150 کی رفتار سے آنے والی گیند کو 350 کی رفتار سے باہر پھینکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں. بظاہر تو وہاب کے کھیلنے کی کوئی وجہ نہیں بلکہ ان کی جگہ عمران خان کو کھلانا چاہیے، ایک تو ٹیم کو رائٹ ہینڈ فاسٹ بولنگ آپشن ملے گا اور فاسٹ بائولنگ میں کچھ ورائٹی آجائے گی، دوسرا یاسر شاہ کو رف پیچز مل جائیں گے جس سے وہ بائیں بازو کے انگلش بلے بازوں کے لیے مصیبت کھڑی کرسکتے ہیں. اس کے علاوہ اگر پچ سپورٹنگ بھی ہوئی تو ٹاس ہارنے کی صورت میں شروع کے دو گھنٹے ملنے والی سوئنگ سے عمران اچھا فائدہ اٹھا سکتے ہیں. راحت ٹھیک ہیں مگر انھیں خراب گیندوں کا تناسب بہت کم کرنا ہوگا اس کی وجہ سے وہ بیٹسمین کا سارا پریشر ختم کر دیتے ہیں اور بہترین سوئنگ کے باوجود بھی وکٹ نہیں لے سکتے.

    محمد حفیظ سے صرف اتنا کہنا ہے کہ جناب آپ سپیشلسٹ اوپنر بیٹسمین ہیں، یہ نائٹ واچ مین والی باریاں نہ کھیلیں اور ذمہ داری لیں، آپ پر ایک بڑی اننگز ادھار ہے، اگر وہ اس میچ میں کھیل دیں تو کمال ہوجائے گا. بہت زیادہ چانس ہے کہ سمیع اسلم کھیلیں گے تو سمیع اسلم کے لیے دعا ہے کہ اپنا بہترین کھیل پیش کردے تاکہ ایک مدت سے جو اوپنر کا قحط ہے ختم ہوسکے، ان کے ٹیلنٹ میں کوئی شک نہیں بس پریشر کا ڈر ہے کہ جھیل پائیں گے یا نہیں. ( پریکٹس میچ میں شان مسعود کی اچھی اننگز کہیں کپتان اور کوچ کا ذہن خراب نا کردے). یونس خان آپ بہت بڑے پلئیر ہیں، اپنی پرانی تکنیک سے ہی کھیلیں، اتنے ہزار رنز اسی سے بنائے ہیں، مزید بھی بنیں گے. 575429160اظہر علی بھول جائیں کہ ون ڈے اور ٹی 20 میں آپ کی کیا پوزیشن ہے، آپ مستقبل کے ٹیسٹ کپتان ہیں، اس لیے اپنی ذمہ داری پوری کریں. ٹاپ آرڈر کی بہتری آپ کی اچھی کارکردگی سے مشروط ہے اور اگر سٹرائیک روٹیشن بہتر ہوجائے تو پریشر خودبخود ختم ہوجائےگا. سرفراز اور اسد شفیق پلیز اپنی وکٹ کی قدر جانیں 30-40 یا 60-70 کی اننگز سے آگے کا سوچیں اور خراب شاٹ کھیلنے کی عادت سے جان چھڑائیں. ٹیسٹ کرکٹ میں سیٹ ہو کر آووٹ ہوجانا بہت بڑا جرم ہے. مصباح جی آپ کمال ہیں، بس تھوڑی سی ایگریشن اور ہلہ بول کرکٹ دکھائیں، اب آپ کے پاس مکمل اختیار ہے، ان کھلاڑیوں کی بھی کھنچائی کریں. آپ نے پاکستان کرکٹ کا مثبت امیج بحال کیا بلکہ اس میں مزید شاندار روایات شامل کیں مگر اب اپنے آخری سال میں بطورکپتان جارحانہ کھیل دکھائیں تاکہ یہ کمی بھی پوری ہوجائے. دوسرا جب آپ بیٹنگ کررہے ہوں تو نان سٹرائیکر اینڈ پر کھڑے ہوکر صرف دیکھا نہ کریں بلکہ غلط شاٹ کھیلنے پر اسی وقت دوسرے بلے باز کو ٹوکا بھی کریں. بدقسمتی سے اولڈ ٹریفورڈ کی پہلی اننگز میں اسد شفیق اور سرفراز کو آپ نے نہیں سمجھایا جبکہ وہ مسلسل غلط شاٹس کھیل رہے تھے. فیلڈنگ میں بھی چیزوں کے وقوع پذیر ہونے کا انتظار نہ کیا کریں بلکہ ٹرائی کیا کریں اور فیلڈ سیٹنگ یا بائولنگ چینجز سے صورت حال بدلنے کی کوشش کیا کریں. ہم ایجبسٹن میں پہلی دفعہ جیت سکتے ہیں، بس توجہ اور جارحانہ کھیل کی ضرورت ہے صورت حال کچھ بھی ہو ہمیں مثبت کھیلنا ہوگا ورنہ غیرضروری پریشر لینے کی عادت ہمیں ہزیمت سے دوچار کردے گی.