Tag: یورپ

  • اسلام امریکا کا تیسرا بڑا مذہب کیوں اور کیسے بنا؟ عابد محمود عزام

    اسلام امریکا کا تیسرا بڑا مذہب کیوں اور کیسے بنا؟ عابد محمود عزام

    عابد محمود عزام کچھ دیر پہلے ایک تازہ خبر پڑھ کر خوشی ہوئی کہ اسلام، لاکھوں مسلمانوں کے قاتل ملک اور عیسائیت کے گڑھ امریکا میں تیسرا بڑا مذہب بن چکا ہے اور آبادی کے لحاظ سے مسلمان چوتھے نمبر پر آگئے ہیں۔ سنسس بیورو کے اعداد و شمار کے مطابق کل امریکی آبادی کا ایک فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہے، جو لگ بھگ 33 لاکھ بنتے ہیں، تاہم مسلمان تنظیموں کے مطابق اصل تعداد 70 لاکھ سے بھی زاید ہیں تو صرف نیویارک سٹی میں ہی 8 سے 10 لاکھ مسلمان آباد ہیں۔ یہ خبر پڑھنے کے بعد مجھے ایک بار پھر اس آفاقی سچائی پر یقین آگیا کہ حق ہمیشہ غالب آ کر رہتا ہے اور باطل مٹ جاتا ہے، کیونکہ حق آیا ہی غالب ہونے کے لیے ہے۔ اسلام کی پراثر تعلیمات کی وجہ سے مسلمانوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی تعداد کے خوف سے اہل مغرب یکجا ہوکر ایک عرصے سے اسلام کے خلاف محاذ سنبھالے بیٹھے ہیں، لیکن ان کو ہمیشہ منہ کی کھانی پڑی ہے،کبھی کامیابی حاصل نہیں ہوئی، بلکہ ہر بار اسلام کے خلاف ان کے پروپیگنڈے کا فائدہ مسلمانوں کو ہی ہوتا ہے، کیونکہ اہل مغرب اسلام کے خلاف جتنا پروپیگنڈا کرتے ہیں، اتنا ہی زیادہ اسلام موضوع بحث بنتا ہے۔ لوگ اسلام کی جانب متوجہ ہوکر اس کا مطالعہ کرتے ہیں اور اسلام سے متاثر ہوکر اسلام قبول کر لیتے ہیں۔

    نائن الیون کے بعد ایسا ہی ہوا۔نائن الیون کے بعد امریکا نے تین درجن ممالک کے ساتھ ملک کر اسلام کو مٹانے کے لیے اسلامی دنیا پر دھاوا بول دیا اور بیشتر مسلم ممالک کی اینٹ سے اینٹ بجا کر رکھ دی۔لاکھوں مسلمانوں کو قتل کیا۔ ان کا سکون چھین لیا۔دنیا بھر میں مسلمانوں کو بزور طاقت دبانے کی ہر عسکری کارروائی کو حق بجانب قرار دیا گیا، لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ اسلام دشمنوں کا خیال تھا کہ ”غلبہ اسلام“ کی مالا جپنے والوں کا مکمل خاتمہ کر کے ”نیو ورلڈ آرڈر“ نافذ کر دیا جائے گا۔ اہل مغرب نے پوری قوت سے مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا شروع کردیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمان ساری دنیا میں موضوع بحث بن گئے۔ اسلام امریکا و یورپ کے عوام کی توجہ و دل چسپی کا محور بن گیا۔ تاریخ میں پہلی باربھاری تعداد میں قرآن کریم کے نسخے اور اسلامی کتب امریکی و یورپی مارکیٹوں میں کثرت سے فروخت ہوئیں۔ یونیورسٹیوں میں اسلام اور مسلمانوں کے متعلق پی ایچ ڈی کرنیوالوں کا تانتا بندھ گیا۔ یورپ وامریکا کے سیکڑوں اداروں نے اسلامک اسٹڈیزکے شعبے قائم کیے، اسی مطالعہ وتحقیق کی بدولت اسلام سے متاثر ہوکر مغرب کے ذہین اور اعلیٰ دماغ اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی یورپ کی بڑی بڑی شخصیات نے اسلام کے دامن عافیت میں پناہ لے لی۔

    اسلام کے خلاف یورپ کے پروپیگنڈے کا ہی نتیجہ ہے کہ وہاں سب سے زیادہ لفظ ”محمد“ اور ”اسلام“ کو سرچ کیا جاتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق عالمی شہرت یافتہ بلاگ پیپل کین چینج دی ورلڈ نے انکشاف کیا ہے کہ رمضان المبارک میں دنیا بھر میں استعمال ہونیوالے سرچ انجن گوگل پر صارفین کی طرف سے سرچ کیے جانے والے الفاظ میں لفظ ”محمد“ کوسب سے زیادہ سرچ کیا گیا، جب کہ عالمی شہرت یافتہ سوشل میڈیا ایجنسی میڈیا ڈورکی ایک تحقیقاتی رپورٹ کیمطابق عالمی مذاہب میں لفظ ”اسلام“ انٹرنیٹ پر سب سے زیادہ سرچ کیا گیا۔ پوری دنیا میں اسلام، قرآن مجید اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں تحقیق و مطالعے کا شوق عام ہوا اور غیر مسلموں میں اسلام کو جاننے کی لگن پیدا ہوئی۔ امریکا، برطانیہ، فرانس، اسپین، جرمنی، ہالینڈ اور دیگر ممالک کے ہزاروں فلم اسٹار، سائنس دان، کھلاڑی، ڈاکٹر، انجینئر اور سیاستدانوں نے دائرہ اسلام میں داخل ہو کر دنیا کو یہ پیغام دیا کہ ترقی یافتہ تہذیب و تمدن، خیرہ کن سائنسی و سماجی ترقی اور عہد حاضر کی قیادت کے علمبردار امریکا و یورپ کا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا مذہبی تعصب، نسلی امتیاز اور اقتصادی و معاشی مفادات کا آئینہ دار ہے اور تمام تر مفادات سے بالاتر اور تمام خوبیوں کا مجموعہ صرف اور صرف اسلام ہی ہے۔ سلام کے خلاف تمام کوششوں کے باوجود آج اسلام مغرب میں سب سے زیادہ مقبول اور تیزی سے پھیلنے والا مذہب بن گیا ہے۔

    اسلام سے خوفزدہ امریکا اور اہم مغرب نے اپنے ممالک میں بھی مسلمانوں کی زندگی اجیرن کردی، لیکن یہ بھی اسلام کی قبولیت میں کمی کا باعث بہ بن سکا۔محمد علی کلے ایک امریکی باکسر تھے، وہ امریکی ریاست کنیکٹی کٹ کے شہر لوئسویل میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے تین مرتبہ باکسنگ کی دنیا کا سب سے بڑا اعزاز”ورلڈ ہیوی ویٹ باکسنگ چیمپیئن شپ“جیتا اوراولمپک میں سونے کے تمغے کے علاوہ شمالی امریکی باکسنگ فیڈریشن کی چیمپیئن بھی جیتی۔ وہ تین مرتبہ ورلڈ ہیوی ویٹ باکسنگ چیمپیئن شپ جیتنے والے پہلے باکسر تھے۔ محمد علی کلے نے باکسنگ میں اس وقت کے عالمی چیمپیئن سونی لسٹن کو شکست دی۔ اس کے بعد مسلسل سات مقابلوں میں اس وقت کے مایہ ناز باکسروں کو زیر کیا۔ باکسنگ میں محمد علی کی زندگی 20 سال رہی جس کے دوران انھوں نے 56 مقابلے جیتے اور 37 ناک آو¿ٹ اسکور کیا۔ اس طرح وہ 20 ویں صدی کے عظیم ترین کھلاڑی قرار پائے۔ محمد علی کلے اپنے کیریئر کے آغاز میں عیسائی تھے، نام تھا کیسیس کلے۔ عیسائیت چھوڑ کر اسلام قبول کیا اور ان کا نام محمد علی رکھا گیا۔ جب محمد علی نے اسلام قبول کیا تو یورپی معاشرے نے اس عظیم ترین قابل قدرکھلاڑی کو اسلام لانے کی پاداش میں طرح طرح سے زچ کرنا شروع کردیا۔ جس دن انھوں نے پریس کانفرنس کے سامنے مسلمان ہونے کا اعلان کیا تو ایک امریکی صحافی نے پوچھا کہ کیا تم واقعی مسلمان ہوگئے ہو؟ انھوں نے کہا ”ہاں“ تو صحافی نے طنزاً کہا:
    ”A BLACK MUSLIM ایک کالا مسلمان“
    محمد علی کلے نے فوراً کہا کہ تم لوگوں نے کبھی کسی کو کالا عیسائی یا کالا یہودی کیوں نہیں کہا؟صرف مسلمان کو ہی کہتے ہو۔

    انھی دنوں امریکا ویت نام میں قتل عام کررہا تھا، امریکا میں ہر صحت مند نوجوان پر فوج میں بھرتی ہوکر ویت نام جانا ضروری تھا۔چرچ کے پادری اس سے مستثنیٰ تھے۔محمد علی اس وقت اپنے محلے کی مسجد میں امامت کرتے تھے۔ ایک دن اس عالمی چیمپیئن کو کہا گیا کہ تمہیں آرمی میں جانا ہوگا، انھوں نے جواب دیا کہ میں امریکا کے قانون کے مطابق فوج سے مستثنیٰ ہوں، کیونکہ میری حیثیت بھی مذہب اسلام میں ایک پادری کی طرح ہے۔ لیکن امریکا کا تعصب اور مسلمانوں سے نفرت ان کے پیچھے پڑگئی۔محمد علی کلے کو فوج میں جانے سے انکار کرنے پر پانچ سال قید اور دس ہزار ڈالر جرمانے کی سزا سنائی گئی۔ محمد علی سے باکسنگ کا اعزاز بھی واپس لے لیا۔ 11ستمبر کے بعد ایک دن محمد علی نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹرمیں مرنے والوں سے یکجہتی کرنے کے لیے آئے تو ایک صحافی نے ان سے پوچھا ”تم کیسا محسوس کرتے ہو کہ تمہارا اور دہشت گردوں کا مذہب ایک ہے؟“ انھوں نے جواب دیا ”تم کیسا محسوس کرتے ہو کہ تمہارا اور ہٹلر کا مذہب ایک ہے؟“ محمد علی کو ایک عظیم کھلاڑی ہونے کے باوجود صرف اسلام قبول کرنے کے جرم میں مختلف طریقوں سے پریشان کیا جاتا تھا۔

    امریکا و یورپ میں اسلام کی بڑھتی ہوئی طاقت سے اہل مغرب انتہائی خوفزدہ ہیں۔ یورپ کے لوگ اسلام کو انتہائی طاقتور، دل کش اور اثرانگیز محسوس کرتے ہیں، اسی لیے اسلام کے پھیلاوکے خوف میں مبتلا رہتے ہیں اورآئے روز مختلف طریقوں سے اپنے اسی خوف اور ڈرکا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ یورپ میں اسلام فوبیا کی وجہ یہ ہے کہ یورپی ملکوں میں نو مسلموں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور اسلام کو خطے کا سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا مذہب قرار دیا جارہا ہے۔ محمد حسن عسکری لکھتے ہیں”یورپ میں جو مسلمان ہیں، وہ عموماً اپنے اسلامی نام نہیں لکھتے اور نہ اپنے اسلام کا عام طور پر اعلان کرتے ہیں۔ جیسے ہی یورپ کے لوگوں کو پتہ چلتا ہے کہ فلاں شخص مسلمان ہوگیا ہے، فوراً اس کی مخالفت شروع ہوجاتی ہے۔“

    اس وقت دنیا کی آبادی 7 ارب کے قریب پہنچ چکی ہے جس میں سے ایک ارب 60 کروڑ سے زائد آبادی مسلمانوں کی ہے، عالمی سطح پر اسلام دنیا کا دوسرا بڑا مذہب جب کہ دنیا کا ہر چوتھا فرد مسلمان ہے ، دنیا کی آبادی کا25 فیصدحصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے جس میں آیندہ 20 برس میں 35 فیصد اضافہ ہو جائے گا۔ مختلف عالمی اداروں کی رپورٹس کے مطابق دنیا بھر میں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہور ہا ہے۔ اس وقت کینیڈا میں 9 لاکھ 40 ہزار مسلمان آباد ہیں جو 2030ء تک 20 لاکھ 70 ہزار تک پہنچ جائیں گے۔ امریکا میں اس وقت مسلمانوں کی آبادی 30 لاکھ کے قریب ہے جو 2030ء تک بڑھ کر 60 لاکھ 20 ہزار تک پہنچ جائیں‌گے۔ شمالی امریکا میں 1990ء سے 2010ء تک مسلمانوں کی آبادی میں 91 فیصد کی رفتار سے اضافہ ہوا اور مسلم افراد کی تعداد 10 لاکھ 80 ہزار سے بڑھ کر 30 لاکھ 50 ہزار تک پہنچ گئی جبکہ آنے والے 20 سالوں میں شمالی امریکا میں مسلم افراد کی تعداد 80 لاکھ 90 ہزار ہونے کا امکان ہے۔ برطانیہ میں مسلمانوں کی آبادی 20 لاکھ 30 ہزار سے بڑھ کر 50 لاکھ 60 ہزار اور فرانس میں 40 لاکھ 70 ہزار سے بڑھ کر 60 لاکھ 90 ہزار کے قریب پہنچ جائے گی جبکہ فرانس میں اس وقت بھی مساجد کی تعداد کیتھولک چرچ سے زائد ہے۔ 2010 تک یورپ میں مسلمانوں کی آبادی 5 کروڑ کے قریب تھی جو 2030 تک بڑھ کر 6 کروڑ کے قریب پہنچ جائے گی۔

    فورم آن ریلیجن اینڈ پبلک لائف نامی ایک امریکی ادارے نے عالمی سطح پر بین المذاہب شرح آبادی کاایک سروے کیا ہے ،جس کے مطابق 2030ء میں جب دنیا کی آبادی تقریباً 8ارب 3کروڑ سے تجاوز کرجائے گی اس وقت دنیا میںمسلمانوں کی آبادی 2ارب20کروڑ ہوگی۔ اسلام کے پھیلتے دائرہ کی وسعت کا یہ عالم ہے کہ مغربی خاتون صحافی اوریانہ فلاسی کہتی ہیں کہ آنے والے بیس سال میں پورے یورپ کے کم از کم چھ بڑے شہر اسلام کی کالونی بن جائیں گے ،کیونکہ ان شہروں میں مسلمان کل آبادی کا تیس سے چالیس فیصد تک ہو جائیں گے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اسلام قبول کرنے والوںمیں بڑی تعداد عورتوں کی ہے، یورپ میں اگر چار افراداسلام قبول کرتے ہیںتو ان میں تین خواتین ہوتی ہیں۔ یورپ میں مسلمانوں کی اسی بڑھتی ہوئی تعداد سے پورا یورپ خوفزدہ ہے اور مسلمانوں کو مختلف طریقوں سے تنگ کررہا ہے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ اسلام دشمن قوتیں اسلام کو دبانے کی جتنی بھی کوشش کرلیں لیکن اسلام اسی طرح بڑھتا جائے گا جس طرح امریکا میں بڑھ رہا ہے۔

  • غیر قانونی تارکینِ وطن، مشکلات و مسائل – ناصر محمود

    غیر قانونی تارکینِ وطن، مشکلات و مسائل – ناصر محمود

    ناصر محمودآج کل ہمارے خطے کے زیادہ تر نوجوان یورپ کے خواب آنکھوں میں سجائے عمرِ رفتہ کی منازل طے کرتے ہیں۔ کسی کو اپنی ساری پریشانیوں کا حل یورپ میں نظر آتا ہے تو کوئی یہاں کی چکا چوند سے مرعوب ہے۔ کسی کو پیسے کی ضرب تقسیم چین نہیں لینے دیتی تو کوئی آزاد طرزِ زندگی کا دلدادہ ہے۔ اب چونکہ یورپ کا کوئی بھی ملک، عربوں کی طرح، اپنا ویزا نہیں بیچتا تو خواہش مند افراد یقینی طور پر غیرقانونی راستوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ جن میں ڈنکی (پیدل اور کشتیوں پر سرحدیں عبور کرنے والوں کے لیئے استعمال ہونے والی عمومی اصطلاح) سب زیادہ معروف اور سستا طریقہ ہے۔ کچھ سیاحتی ویزے پر واپس ناں جانے کی نیت سے سفر کرتے ہیں تو کچھ اور تعلیمی ویزا حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جبکہ ان کا تعلیم حاصل کرنے یا جاری رکھنے کا کوئی ارادہ نہیں ہوتا۔ عام طور پر اس طرح کے سپنے بننے والوں کا مطمع نظر یورپ کی روشنیاں، رنگینیاں اور دولت کی ریل پیل ہوتی ہے اور کسی موڑ پر بھی یہاں کی تکالیف اور مسائل کے بارے میں ناں تو سوچا جاتا ہے اور ناں ہی کسی سے رہنمائی لی جاتی ہے۔ اور نتیجے میں عمومی طور پر، جانے انجانے میں، دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی اذیت کا سامان کر لیا جاتا ہے۔

    ڈنکی لگانے والے بلوچستان سے ایران میں داخل ہوتے ہیں اور ایران سے ہوتے ہوئے ترکی پہنچ جاتے ہیں۔ کچھ ترکی کو ہی منزل بنا کر کام میں جت جاتے ہیں تو باقی سمندر کے راستے یونان کا رخ کرتے ہیں اور وہاں سے اپنے حالات اور رجحان کے مطابق دوسرے ملکوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ یہ سارا سفر بنا کسی بھی طرح کی دستاویزات کے کیا جاتا ہے اور نہایت ہی دردناک اور دل دہلا دینے والا ہوتا ہے۔ چونکہ غیر قانونی طور پر سرحدیں عبور کی جاتی ہیں تو لازمی طور پر جنگلوں اور ویرانوں کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے جس میں تمام لوگ ایجنٹ کے رحم و کرم پرہوتے ہیں۔ کبھی ایک گھونٹ پانی کی قیمت ہزاروں میں طلب کی جاتی ہے تو کبھی پیچھے رہ جانے پر ڈنڈوں سے عزت افزائی ہوتی ہے۔ کہیں گاڑی میں گندم کی بوریوں کی طرح اوپر نیچے لٹایا جاتا ہے تو کبھی سنگلاخ پہاڑوں اور کانٹوں بھری زمین پر بنا آواز کیئے دوڑنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ اور اس دوران اگر کوئی بدقسمت کسی ناگہانی آفت کا شکار بن جائے تو لاش کھلے آسمان تلے جنگلی جانوروں کی لیئے چھوڑ دی جاتی ہے۔ ایجنٹ کے لیئے یہ لوگ صرف ایک “پارسل” کی حیثیت رکھتے ہیں جس کے ناں تو جذبات ہوتے ہیں اور ناں ہی احساسات۔ جہاں کہیں ایجنٹ کو خطرہ محسوس ہو وہ پارسل کو چارہ بنا کر خود نکل جاتا ہے پھر چاہے پارسل آدم خور گدھوں کے ہتھے ہی کیوں ناں چڑھ جائے۔ یہ ساری مشقتیں یہ سوچ کر برداشت کر لی جاتی ہیں کہ یورپ پہنچتے ہی ساری تکلیفوں کا ازالہ ہو جائے گا لیکن جب خواب ٹوٹتا ہے تو اس وقت تک کشتیاں جل چکی ہوتی ہیں۔ جب یہ لوگ تصویر کا دوسرا رخ دیکھتے ہیں تو کفِ افسوس ملتے ہیں اور اپنے ملک کی جو زندگی بے کار نظر آتی تھی وہی شاہانہ روپ اختیار کر لیتی ہے۔ جن گلیوں سے گذرنا توہین خیال کیا جاتا تھا وہی نیندیں اڑا دیتی ہیں۔ جن رشتوں کو درخوئے اعتنا نہیں سمھجا جاتا تھا انہیں کی یاد دل میں کسک بن کر چبھتی ہے اور اوپر سے یورپ میں پہلے سے بسے اپنوں کی سرد مہری، بے اعتنائی اور مطلب پرستانہ مزاج مل کر انسان کو بہت تھوڑے عرصے میں جذبات اور احساسات سے عاری کر کے ایک مشین کا روپ دے دیتا ہے جس کا انتہائی مقصد پیسہ ہوتا ہے پھر چاہے وہ کسی بھی طریقے سے آئے۔

    مختلف یورپی ممالک تارکینِ وطن کے ساتھ مختلف رویہ اختیار کرتے ہیں۔ کچھ اپنے ملک میں رہنے کا عارضی اجازت نامہ دے کر کماؤ اور کھاؤ کی بنیاد پر چلتا کر دیتے ہیں تو کچھ رہائش کا انتظام بھی کر دیتے ہیں۔ اور کچھ ایسے بھی ہیں جو رہائش، کھانا اور دوا کے ساتھ ساتھ ماہانہ بنیادوں پر اچھا خاصا جیب بھی دیتے ہیں۔ جرمنی بھی انہیں چند ملکوں میں سے ہے جو اپنے ملک میں داخل ہونے والے تارکینِ وطن کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے ان کی مکمل کفالت کرتا ہے اور دوسری سہولیات کے ساتھ ساتھ ماہانہ جیب خرچ بھی دیتا ہے۔ یہاں پر تارکینِ وطن کو بنیادی طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ایک وہ جن کی جان کو یقینی طور پر خطرہ ہوتا ہے جیسے کہ جنگ میں مبتلا ملکوں کے باشندے اور دوسرے وہ جو ایسے ملکوں سے آتے ہیں جہاں جنگ وغیرہ کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا جیسے کہ پاکستان، بھارت اور بنگلادیش وغیرہ۔ پہلی قسم کے لوگوں کو چونکہ آنے کی دعوت دی جاتی ہے اور ان کے لیئے باقاعدہ طور پر سرحدیں کھولی جاتی ہیں تو ان کو حکومت ہمیشہ سر آنکھوں پر بٹھاتی ہے اور ابتدائی چند ماہ کے بعد ان کو باقاعدہ طور اس شرط کے ساتھ ویزا جاری کر دیا جاتا ہے کہ جب ان کے ملکی حالات درست ہو جائیں گے تو یہ لوگ واپس چلے جائیں گے۔ اس دوران ان کی مکمل کفالت کا انتظام کیا جاتا ہے، خاندان کے افراد کے حساب سے گھر دیئے جاتے ہیں، ہر فرد کا ماہانہ خرچ دیا جاتا ہے اور زبان سیکھا کر قابلیت کے اعتبار سے ملازمت کا انتظام کیا جاتا ہے۔ چند سال بعد قابل لوگ چونکہ معاشرے کا کارآمد حصہ بن جاتے ہیں تو چند نہایت معمولی شرائط کی بنیاد پر ان کو شہریت لینے کی اجازت بھی دے دی جاتی ہے۔

    اور دوسری قسم کے افراد چونکہ ذاتی وجوہات کی بنا ہر ملک چھوڑتے ہیں تو ان کی پناہ کی درخواست پر غور و فکر کرنے لے لیئے ان کو مختصر مختصر وقفوں کے اجازت نامے جاری کیئے جاتے ہیں اور اس دوران ان کی کفالت بھی حکومت ہی کرتی ہے۔ ابتدائی چھ ماہ ان کو پناہ گزینوں کے کیمپوں میں رکھا جاتا ہے اور پھر کسی مستقل رہائش گاہ میں منتقل کر دیا جاتا ہے جس کے اخراجات حکومت ادا کرتی ہے۔ عدالت میں ان سے آنے کی وجہ پوچھی جاتی ہے جس کے جواب میں ننانوے فیصد جھوٹ بولا جاتا ہے جس میں عموما اپنے ملک اور مذہب کا چہرہ مسخ کر کے دیکھایا جاتا ہے اور پھر اس کی بنیاد پر ویزا کے لیئے اپیل کی جاتی ہے۔ اس دوران چونکہ کفالت کی مکمل ذمہ داری حکومت پر ہوتی ہے تو ان کو قانونی طور پر کسی بھی طرح کا کام کرنے کی اجازت نہیں ہوتی اور پھر یہاں سے ظلم، بربریت اور ذلت کا ایسا دور شروع ہوتا ہے کہ الامان والحفیظ۔
    غیر قانونی تارکینِ وطن (حصہ دوم)

    جو افراد ذاتی وجوہات کی بنا پر ان ملکوں سے آتے ہیں جہاں عمومی طور پر جمہوریت اور امن ہوتا ہے۔ ان کے لیئے پناہ کا طریقہ کار کچھ مختلف ہوتا ہے۔ یورپی اتحاد میں پناہ کی درخواست کا ٖفیصلہ جس قانون کے تحت کیا جاتا ہے وہ “ڈبلن ریگولیشن” کے نام سے جانا جاتا ہے جس کی بنیاد تو جون ۱۹۹۰ میں رکھی گئی لیکن باقاعدہ عمل سیتمبر ۱۹۹۷ سے شروع ہوا۔ اس قانون کے تحت دنیا کے ہر انسان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جان کا خطرہ ہونے کی صورت میں یورپی اتحاد کے کسی بھی ملک میں پناہ کی درخواست دائر سکتا ہے۔ اور بیان کی گئی وجوہات کی تصدیق ہونے پر نہ صرف یہ کہ باعزت طریقے سے سکونت کی اجازت دے دی جاتی ہے بلکہ صلاحیت، قابلیت اور دلچسپی کی بنیاد پر مناسب روزگار کا انتظام بھی کیا جاتا ہے۔ پناہ کی درخواست کا طریقہ کار انتہائی سادہ اور آسان ہےجس کے مطابق پناہ کے متلاشی کو ملک میں داخل ہونے کے فوری بعد حکومتی نمائندوں جیسے پولیس وغیرہ کے پاس جانا ہوتا ہے اور متعلقہ اشخاص چند بنیادی سوالات اور اندراج کے بعد اس شخص کو قریب ترین واقع پناہ گزینوں کے کیمپ میں بھیج دیتے ہیں جہاں اس کو نہ صرف یہ کہ رہائش دی جاتی ہے بلکہ کھانے پینے کے ساتھ صحت کا بھی مکمل خیال رکھا جاتا ہے۔ چند دنوں میں طبی معائنے کے بعد ان کو مرکزی کیمپ میں منتقل کر دیا جاتا ہے اور وہاں ان سے باقاعدہ طور پناہ کی درخواست دلوائی جاتی ہے جس کی مکمل رہنمائی حکومتی نمائندے کرتے ہیں اور بوقتِ ضرورت ترجمان کا انتظام بھی کیا جاتا ہے۔ عموما ابتدائی تین سے چھ ماہ مختلف کیمپوں میں رکھا جاتا ہے (آجکل چونکہ پناہ گزینوں کی بہت بڑی تعداد جرمنی آرہی ہے تو اکثر لوگوں کو اس سے زیادہ وقت بھی گزارنا پڑ جاتا ہے) اور پھر کسی مستقل رہائش گاہ میں منتقل کر دیا جاتا ہے جہاں نہ صرف یہ کہ کھانا پکانے کی سہولت موجود ہوتی ہے بلکہ پرائویسی کا بھی خیال رکھا جاتا ہے۔ کیمپوں کے اندر بنیادی مسئلہ کھانے کا ہوتا ہے کہ وہاں حلال کھانے کی سہولت میسر نہیں ہوتی۔ ہر کیمپ میں باقاعدہ طور پر رہائشیوں کو بتایا جاتا ہے کہ گوشت حلال نہیں ہے لیکن افسوس کہ اس کے باوجود اکثریت اس کو بڑی رغبت سے کھاتی ہے۔ چونکہ درخواست کی سماعت کی باری عموما کئی سالوں میں آتی ہے تو اس دوران حکومت رہائش اور کھانے پینے کے علاوہ دیگر ضروریات کے لیے ہر ماہ نقد رقم بھی ادا کرتی ہے۔

    سماعت کی باری آنے پر متعلقہ شخص کو عدالت میں طلب کیا جاتا جہاں ترجمان کے ذریعے اس سے بیالیس سوال کیئے جاتے ہیں جن کا لبِ لباب ذاتی شناخت اور پناہ کی درخواست کی وجہ جاننا ہوتا ہے۔ چونکہ پناہ کی درخواست صرف اسی صورت میں قبول کی جاتی ہے جب جان کو خطرہ ہو تو اس مقام پر عموما جھوٹی کہانیاں سنائی جاتیں ہیں جن کی بنیاد زیادہ تر مذہب اور ریاست کو بنایا جاتا ہے۔ کثرت کے ساتھ جو چند وجوہات بتائی جاتی ہیں ان میں طالبان کی طرف سے دہشت گرد بننے پر اصرار، حکومتی خفیہ اداروں کی طرف سے خود کش بمبار بننے پر مجبور کیا جانا، اور علماء کی طرف سے جہاد پر جانے کے لیئے مجبور کرنا شامل ہیں۔ بہت سارے لوگ مذہبی تنظیموں جیسے کہ جماعۃ الدعوہ وغیرہ کی طرف سے شدت پسندی پر مجبور کیئے جانے کو بنیاد بناتے ہیں تو بہت سے ایسے بھی ہیں جنہوں نے لال مسجد کو کیش کروانے کی کوشش بھی کی ہے۔ خاص طور پر وہ لوگ جن کا کبھی پولیس یا فوج سے تعلق رہا ہو تو وہ عموما یہ بیان دیتے ہیں کہ چونکہ لال مسجد کے واقعہ میں ہم حکومت کے حمایتی تھے تو اب “مولوی” ہمارے دشمن بن چکے ہیں اور سزا کے طور پر ہمیں زندگی سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔ اس طرح کے بیان دیتے ہوئے کبھی یہ سوچنے کی زحمت نہیں کی جاتی ہے کہ ان کا ملکی کردار پر کیا اثر پڑے گا اور اس کے نتائج کیا نکلیں گے۔ اگر سوچا جاتا ہے تو صرف یہ کہ وہ کونسا ایسا بیان ہے جو ان کے حق میں بہتر ہو گا پھر چاہے وطن کی عزت کی دھجیاں ہی کیوں نہ اڑانی پڑیں۔

    چونکہ زیادہ تر بیانات جھوٹ پر مبنی ہوتے ہیں اور ٹھوس ثبوت نہ ہونے کی بنیاد پر درخواست رد کیئے جانے کے واضح امکانات ہوتے ہیں تو ہر کوئی چور راستوں کی تلاش میں رہتا ہے جن میں سب سے مختصر جرمن بچے کا باپ بننا ہوتا ہے۔ جرمنی چونکہ بچے کی پیدائش پر ویزا جاری کرتا ہے تو حتی المقدور ہر کوئی اسی کوشش میں لگا رہتا ہے اور عموما پہلا بچہ بنا شادی یا نکاح کے پیدا کیا جاتا ہے کہ یورپی لڑکیاں شادی کے لیئے بہت “بعد” میں تیار ہوتی ہیں۔ یہاں ایسے لوگوں کی بھی کافی تعداد پائی جاتی ہے جو اسی طرح کا بچہ پیدا کر کے ویزا لینے میں تو کامیاب ہو گئے لیکن اب یہ نہیں جانتے کہ وہ بچہ کہاں ہے۔ کیوں کہ جرمن خواتین صرف ان لوگوں کے ساتھ ٹکتی ہیں جو کچھ کما رہا ہو نہ کہ وہ جو خود بھی انہیں کے سہارے بیٹھا ہو۔

    اس دوران ان لوگوں کو چونکہ پیسہ بھی کمانا ہوتا ہے تو یہ کام کی تلاش میں نکلتے ہیں۔ جرمن ادارے قانونی کاروائی پوری کیئے بنا کسی کو بھی کام پر نہیں رکھتے اور ان لوگوں کو عموما کام کی اجازت نہیں ہوتی بلکہ لینی پڑتی ہے اور اجازت ملنے کے بعد جب کام مل جائے تو حکومتی امداد بند کر دی جاتی ہے کہ اب خود کمانے کے قابل ہو چکے ہیں۔ جو اگرچہ مستقبل میں قانونی اعتبار سے کافی مددگار ثابت ہوتی ہے لیکن چونکہ فی الفور حکومتی امداد سے ہاتھ دھونے کا خوف ہوتا ہے تو چوری چھپے کام کرنے کو ترجیح دی جاتی ہے جو زیادہ تر پیزا اور برگر وغیرہ کی پاکستانی، ترکش اور انڈین دکانوں میں ملتا ہے۔ جرمن قانون کے مطابق قانونی طور پر کام کی صورت میں ایک گھنٹے کی کم از کم اجرت آٹھ یورو اور پچاس سنیٹ دینا ضروری ہے جو پاکستانی تقریبا ۹۹۰ روپے بنتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ کام دینے والے کو ملازم کا ٹیکس اور ہیلتھ انشورنس کا کچھ حصہ بھی ادا کرنا ہوتا ہے جو کہ ہمارے لوگوں پر کارِ گراں گزرتا ہے تو وہ ہمیشہ ایسے ہی لوگوں کی تلاش میں رہتے ہیں جو قانونی طور پر کام نہ کرنا چاہتے ہوں۔ اور جن سے کام تو دوگنا لے سکیں لیکن اجرت ناں ہونے کے برابر دینی پڑے۔ نئے آنے والوں کو مختلف طریقوں سے یہ جتلا دیا جاتا ہے کہ ویزا لینے کے لیئے بچہ ضروری ہے اور عقل مندی چوری چھپے کام کرنے میں ہے اور پھر ان لوگوں کو کام پر رکھ کر گدھوں کی طرح ہانکا جاتا ہے اور مزدوری کے نام پر چند ٹکے ہاتھ پر رکھ دیئے جاتے ہیں اور یہ مزدور چونکہ حکومت کے زیرِ کفالت ہوتے ہیں اور دوسری سہولیات کے ساتھ ساتھ حکومت سے ماہانہ اچھی خاصی نقد رقم بھی وصول کر رہے ہوتے ہیں تو جمع تفریق کر کے اپنوں کے ظلم پر راضی ہو جاتے ہیں۔ اور پھر دوسرے مقصد کے طور پر ہر گذرنے والی لڑکی کو چلتے پھرتے ویزے کی شکل میں دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ مہینے کے آخر میں جب پیسے گھر بھیجنے کی باری آتی ہے تو قانون کی ںظروں سے بچنے کے لیئے ھنڈی اور حوالے کا سہارا لیا جاتا ہے جو بذاتِ خود انتہائی قبیح اور ممنوع عمل ہے اور کسی بھی ملک کی بنیادیں ہلانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ گویا اپنے ملک سے نکل کر یورپ آنے اور کام کرنے سے گھر پیسے بھیجنے تک ہر قدم پر قانون اور ملکی وقار کو جوتے کی نوک پر رکھا جاتا ہے اور اپنے عہد کو پورا کرو کہ بیشک عہد کے بارے میں (قیامت کے روز) پوچھا جائے گا، کے تحت اللہ کے قوانین کو بھی بے دردی سے روندا جاتا ہے۔

    بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں اس پہلو پر نہ تو کسی بھی سطح پر شعور اجاگر کیا جاتا ہے اور نہ ہی اس کی شرعی حیثیت واضح کی جاتی ہے۔ جانے انجانے میں نہ تو مذہبی رہنما اس کو اپنا موضوع بناتے ہیں اور نہ ہی سرکاری سطح پر کوئی شعوری مہم چلائی جاتی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ غیر قانونی طریقوں سے سرحدیں عبور کرنا، جھوٹ کی بنیاد پر دوسرے ملکوں میں سکونت اختیار کرنا اور ھنڈی کے ذریعے رقوم کی منتقلی کو نہ تو برا سمھجا جاتا ہے اور نہ ہی کسی بھی درجے میں گناہ تصور کیا جاتا ہے۔ بلکہ طرفہ تماشا تو یہ ہے اس کام کے لیئے باقاعدہ طور پر دعا کی جاتی ہے، کامیابی کے لیئے قرآن خوانی کروائی جاتی ہے، صدقہ اور خیرات کا اہتمام کیا جاتا ہے اور منتیں مانی جاتی ہیں۔ گویا اللہ کی مخالفت پر اللہ ہی سے مدد مانگی جاتی ہے اور جس چیز سے قرآن منع کرتا ہے اس کی کامیابی کے لیئے اسی قرآن کی آیات پڑھی اور پڑھائی جاتیں ہیں۔ جبکہ مذہب کا سیدھا سا اصول ہے کہ ہر وہ دنیاوی قانون اور معاھدہ جو ہمارے ایمان اور ایمانی تقاضوں سے نہ ٹکراتا ہو اس کی پاسداری اور پابندی ہم پر اسی طرح لازم ہے جس طرح دوسرے احکام کی۔ بنا ویزوں کے سرحدیں عبور کرنا جس طرح دنیاوی قانون میں جرم ہے بلکل اسی طرح اللہ کے ہاں بھی گناہ اور جرم ہے۔ اب گناہ تو اللہ کریم توبہ اور استغفار کے تنیجے میں معاف فرما دیتے ہیں لیکن جرم کا تعلق چونکہ انسانوں سے ہوتا ہے تو جب تک متعلقہ افراد سے معاملہ ختم نہ کیا جائے اس وقت تک اللہ کریم بھی اس میں دخل اندازی نہیں کرتے کہ یہی عدل کا تقاضا بھی ہے۔ اور غیر قانونی طور پر سرحدیں عبور کر کے، غیر قانونی طریقوں سے کام کر کے، اور کام ہونے کے باوجود حکومتی امداد وصول کر کے، جو عوام کے ٹیکسوں سے ادا کی جاتی ہے، ہم کتنے ہی لوگوں کا حق مارتے ہیں اور اگر ان کو لوٹانا پڑ گیا، جو کہ یقینا لوٹانا پڑے گا، تو سوچیں ہمارا کیا بنے گا؟ کیا ہمارے پاس انتی نیکیاں ہوں گی کہ سب کا حق ادا کرنے کے لیئے کافی ہوں؟ اور یہ حقوق یقینا ادا کرنا پڑیں گے کہ اللہ کا قانون یہی ہے۔ جو خدا جانورں تک کے آپسی جھگڑوں کا ٖفیصلہ عدل کی بنیاد ہر کرے گا وہ انسانوں کے ساتھ کی گئی زیادتی سے کس طرح صرفِ نظر کر سکتا ہے۔

  • امت مسلمہ اور دوسری امتیں، تاریخ، واقعات اور مستقبل – سرورالدین

    امت مسلمہ اور دوسری امتیں، تاریخ، واقعات اور مستقبل – سرورالدین

    امت مسلمہ کا وجود انسانی وجود کے تسلسل میں ایک فیصلہ کن موڑ ہے کیونکہ اس امت کا پیغام انسانیت کے لیے آخری پیغام ہے اور یہ امت اللہ رب العالمین کی طرف سے انسانیت کو یہ پیغام پہنچانے کی مکلف ہے، جیسا کہ قرآن کہتا ہے کہ: [pullquote]کنتم خیر امۃ اخرجت للنّاس[/pullquote]

    تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے پیدا کیے گئے ہو

    یورپ والوں نے انسانی تاریخ کو اپنے نقطہ نظر کے مطابق ان حالات اور واقعات کو مد نظر رکھ کر مختلف اقسام میں تقسیم کیا ہے، چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ انسانی تاریخ کے چار ادوار ہیں:
    1۔ تاریخ سے قبل: جب انسان پسماندہ تھا اور ستر چھپانے سے بھی واقف نہیں تھا، یہ ان کے لبرل نظریے کے مطابق ہے کیونکہ وہ انبیاء کواہمیت نہیں دیتے۔

    2۔ زمانہ قدیم: ان کے نزدیک یہ انسان کی طرف سے لکھنے سے واقفیت کے سال جو( 3200 ق۔م) سے (476 م) میں روما کے سقوط تک ہے، اس دوران بڑی بڑی سلطنتیں قائم ہوئیں۔
    3۔ قرون وسطی: (476 م) میں روما کے سقوط سے (857ء) میں قسطنطینیہ کی سلطان محمد فاتح کے ہاتھوں فتح تک۔ اس کو کلیسا اور جاگیرداروں کے غلبے کا دور کہا جاتا ہے۔
    4۔جدید دور: قسطنطینیہ کی فتح کے بعد سے موجودہ دور تک۔ اس کو صنعتی انقلاب اور سائنسی دور کہتے ہیں۔ یہ دور پھر دو حصوں میں تقسیم ہو جاتا ہے
    ا۔ جدید تاریخ: 1779ء میں فرانس کے انقلاب پر ختم ہو تی ہے۔
    ب۔ معاصر تاریخ: فرانس کے انقلاب سے شروع ہو کر موجودہ دور تک۔

    یورپ کی جانب سے تاریخ کی اس تقسیم میں یہ ملاحظہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ یورپ میں رونما ہونے والے واقعات پر مبنی ہے، اس لیے یورپ کے مرتب کردہ تاریخ کو انسانی تاریخ کہنا انسانیت کے ساتھ بڑا ظلم ہے۔ خودیورپ کے کئی نامور مؤرخین اور سیاست دانوں نے تاریخ کی اس تقسیم کے غلط ہونے اور انسانی زندگی میں اسلام کے فیصلہ کن موڑ ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ بڑا قانون دان اور نصرانی ”فارس خوری“ کہتا ہے کہ: ”یورپ کے مورخین اور علماء نے انسانی تاریخ مرتب کرتے ہوئے انسانی تاریخ کے سب سے بڑے واقعے یعنی اسلام کے ظہور کو نظر انداز کیا ہے“۔

    اسلام کے ظہور سے قبل کی انسانی تاریخ پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے سے ہی انسانیت کو اسلام کی ضرورت اور انسانیت کے حوالے سے امت کی ذمہ داری کا اندازہ ہوتا ہے۔

    عیسائیت مکمل طور پر بت پرستی بن چکی تھی، شہنشاہ ہرقل 610 سے 641 نے فارس پر غلبے کے بعد ریاست میں موجود تمام مذاہب کو عیسی علیہ السلام کی ذات کے حوالے سے بحث سے منع کیا اور ایک این آر او جاری کیا مگر یہ کامیاب نہ ہو سکا، مصر کے عیسائیوں نے یہ قبول نہیں کیا تو ان کو پکڑ پکڑ کر سمندر میں پھینک دیا گیا یا جلادیا گیا۔ کلیسا نے دین کے نام پر مکمل کنٹرول قائم کیا حتی کہ گناہوں کو معاف کرنے کی باقاعدہ رسید کا اجرا کیا گیا، انحطاط اس درجے تک پہنچا کہ لوگ شادی پر اکیلے رہنے کو ترجیح دیتے تھے، انصاف بکتا تھا، رشوت خیانت کا بازار گرم تھا، گبن کہتا ہے کہ چھٹی صدی عیسیوی کے اواخر میں ریاست ذلت کی تمام لکیریں عبور کر چکی تھی۔

    مصر جیسی وسائل سے بھرپور سرزمین میں لوگ عیسائیت اور رومی ریاست کے ہاتھوں زندگی سے تنگ آئے ہوئے تھے،گوسٹاف لوبون اپنی کتاب ”عرب تہذیب“ میں کہتا ہے ”مصر کو زبردستی عیسائی بنا یا گیا مگر اس سے وہ انحطاط کی وادیوں میں گر گئے جس سے وہ اسلامی فتوحات کے ذریعے ہی نکلے“۔
    مصر ہی رومی سلطنت کی محصولات کا بڑا ذریعہ تھا جبکہ فارس نے روم کے ساتھ دنیا کی حکمرانی کو تقسیم کر رکھا تھا اور اخلاقی تباہی کی پستیوں کی ہر لکیر عبور کر چکا تھا، حتی کہ یزد جرد دوم جو پانچویں صدی کا حکمران تھا، نے اپنی ہی بیٹی سے شادی کی، پھر اس کو قتل کیا، اور ”بہرام جو“ نے اپنی بہن سے شادی کر رکھی تھی۔

    مانی نے تیسری صدی عیسوی میں نکاح کو حرام قرار دیا کیونکہ وہ نسل انسانی کو ختم کرنا چاہتا تھا جس کو 276 میں بہرام نے قتل کیا، پھر پانچویں صدی میں ”مزدک“ آیا جس نے سارے انسانوں کو ایک اور عورت کو پانی، چراگاہ اور آگ کی طرح مشترکہ چیز (عوامی ملکیت) قرار دیا جس کا ذکر شہرستانی نے”الملل والنحل“ میں بھی کیا ہے۔

    اس کی دعوت نے ایران کے نوجوانوں، مالداروں اور بااثر لوگوں میں بہت مقبولیت حاصل کر لی جس کی وجہ سے اخلاقی تباہی اور شہوت رانی کی انتہا ہوگئی، امام الطبری کہتے ہیں کہ: ”کمینے لوگوں نے اس موقع کو غنیمت سمجھا اور مزدک کے مددگار بن گئے، اس وقت لوگ کسی بھی شخص کے گھر جا کر گھر کے مرد کو قابو کر کے عورتوں کے مالک بن جاتے تھے اور اس کو مال غنیمت سمجھتے تھے، حالت یہ ہوگئی تھی کہ کسی شخص کو معلوم نہیں ہوتا تھا کہ کون اس کا بچہ ہے اور وہ کس کا باپ ہے“۔

    کسری کہتے تھے کہ ان کی رگوں میں اللہ کا خون دوڑ تا ہے (نعوذ باللہ)، اس لیے قوم اپنے حکمرانوں کو معبود کی طرح پوجتی تھی، وہ مقدس سمجھے جاتے تھے، کوئی شخص ان کا نام لے کر ان کا ذکر نہیں کر سکتا تھا اور ان کی مجلس میں نہیں بیٹھ سکتا تھا، یہ سمجھا جاتا تھا کہ ان کا ہر انسان پر حق ہے اور کسی انسان کا ان پر کوئی حق نہیں، حکمرانی کو تو صرف انہی کا حق سمجھا جاتا تھا، اگر کوئی مرد نہ ہو تو بچے کو بادشاہ بناتے تھے جیسا کہ ”ازد شیر“ کو بنایا، اگر بچہ بھی نہ ہوتا تو بیٹی کو ملکہ بنایا جاتا جیسا کہ ”بوران“ کو ملکہ بنایا پھر کسری کی دوسری ”ازرمی دخت“ کو ملکہ بنایا مگر انہوں نے رستم جیسے سپہ سالار یا جابان کو اپنا حکمران بنانے کا سوچا بھی نہیں کیونکہ وہ شاہی خاندان سے نہیں تھے۔
    طبقاتی فرق اس قدر بڑھ گیا تھا کہ پروفیسر ارتھرسین اپنی کتاب ”ساسانیوں کے عہد میں ایران کی تاریخ“ میں لکھتا ہے کہ ”فاصلے ناقابل یقین حد تک بڑھ گئے تھے، حکمران نے اعلان کر رکھا تھا کہ کوئی عام شخص سے کوئی پلاٹ بھی نہیں خرید سکتا“۔

    ایرانی حکمران مال کو صرف اپنے لیےجمع کرتے رہتے تھے جب 607 م میں خسرو دوم نے اپنے اموال کو نئی عمارت میں منتقل کیا، اس کی قیمت 468 ملین دینار تھی، حکمران بننے کے تیرھویں سال ان کا مال 800 ملین دینار تھا جو سینکڑوں نہیں ہزاروں ارب ڈالرز کے برابر ہے۔

    زمانہ قدیم میں ایرانی اللہ کی عبادت کرتے تھے، پھر سورج اور ستاروں کی عبادت شروع کی، زرتشت مجوسی تھا، اس نے معبودوں کو یکجا کیا اور ہر چمک دار چیز کو معبود قرار دیا جیسے سورج آگ۔

    چین کی جہاں تک بات ہے وہاں تین مذاہب تھے: لاوتسو، کنفوشیوس اور بدھ مت، لاوتسو بت پر ستی کے ساتھ عملی کاموں کے بجائے تصوراتی باتوں پر یقین رکھتے تھے اور شادی نہیں کرتے تھے اور عورت کی طرف دیکھتے بھی نہیں تھے۔ کنفوشیوس پتھروں اور درختوں کی عبادت کرتے تھے جبکہ بدھ مت والے اپنے پاس بت رکھتے تھے، یہ لوگ انتہائی منفی سوچ رکھتے تھے، جادو اور مال جمع کرنے پر توجہ ہوتی تھی۔

    ہندوستان کی صورت حال تو ناقابل بیان تھی، چھٹی صدی عیسوی میں معبودوں کی تعداد 330 ملین تک پہنچ چکی تھی، ہر دلکش یا ضروری چیز کو معبود سمجھتے تھے، پہاڑ ، سونا، چاندی، جنگی آلات، آلہ تناسل، حیونات جیسے گائے، ہاتھی اور چوہا وغیرہ سب معبود تھے۔

    ہندوستان کے تمام مذاہب پر جنس (سیکس) کا اس قدر غلبہ تھا کہ وہ اپنے معبود کے درمیان جنسی تعلقات کے قائل تھے اور بڑے معبود ”مہادیو“ کے آلہ تناسل کی عبادت کرتے تھے، کچھ لوگ برہنہ عورتوں کی عبادت کرتے تھے اور عورتیں برہنہ مردوں کی عبادت کرتے تھے، مذہبی پیشوا سب سے بڑے فاسق ہوا کرتے تھے، مذہب کے نام پر زنا عام تھا، زیادہ تر لوگ مندر جنسی خواہش پوری کرنے کے لیے جاتے تھے۔

    ان حالات میں اسلام کا ظہور حقیقی معنوں میں انسانی تاریخ میں ایک فیصلہ کن موڑ ہے جس کو نظرانداز کر کے تاریخ مرتب ہو ہی نہیں سکتی۔ صرف یورپ میں رونما ہونے والے بعض واقعات کو تاریخ کے مختلف ادوار سے تعبیر کرنا تاریخ اور انسانیت کے ساتھ ظلم ہے۔ تاریخ انسانی کو جن حقیقی ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے وہ یہ ہو سکتے ہیں، اسلام کے ظہور اور اسلامی ریاست کے قیام سے پہلے کا دور (جاہلیت اولی کا دور)، اسلامی ریاست اور دنیا میں اسلام کی قیادت کا دور، 1924ء میں اسلامی ریاست کے انہدام کے بعد کا دور (دوسری جاہلیت کا دور)، اللہ کے اذن سے سے عنقریب قائم ہونے والی خلافت راشدہ کا دور جس کی انسانیت کو سخت ضرورت ہے۔

  • سونے کے پہاڑ پر جنگ-اوریا مقبول جان

    سونے کے پہاڑ پر جنگ-اوریا مقبول جان

    orya

    جنگ عظیم دوئم کے بعد مغرب میں جس معاشرے نے جنم لیا، جس سیاسی اور اقتصادی نظام نے جڑیں پکڑیں اس نے اپنے لیے ایک بنیادی کلیہ طے کر لیا کہ اب ہم آپس میں نہیں لڑیں گے۔ سوال یہ پیدا ہوا کہ گزشتہ دو سو سال سے جو آپ نے اسلحے کے کارخانے لگائے ہیں۔ جنگ و جدل کی ٹیکنالوجی کو وسعت دی ہے۔

    انسانوں کو دنیا سے ملیامیٹ کرنے کے لیے ہتھیار بنائے ہیں، ان سب کا کیا ہو گا۔ عالمی بینکار وںنے تو یورپ کو تباہ کرنے کے بعد انھیں مقروض کر کے اپنی تجوریاں بھرنے کا مستقل بندوبست کر لیا تھا‘ لیکن اسلحے کی صنعت بھی تو انھی کے دیے ہوئے سرمائے سے چلتی تھی۔ اگر اس کی کھپت کم ہوگئی تو یہ ان عالمی سودی بینکاروں کے لیے موت تھی۔ اسی لیے جنگ عظیم دوم کے بعد یہ فیصلہ کر لیا گیا کہ جنگ تو ہو گی، لوگ تو مارے جائیں گے، گولیاں چلیں گی، بم برسیں گے لیکن اب یہ تماشہ کسی اور علاقے میں ہو گا۔

    یورپ میں امن قائم رکھا جائے گا۔ بتایا جائے گا کہ لوگ کیسے سکون سے رہتے ہیں۔ جنگ عظیم دوم کے بعد ان سود خور بینکاروں کے سرمائے سے قائم کارپوریٹ سسٹم اور اس میں موجود اسلحے کے کارخانے ایک نئے میدان جنگ کی تلاش میں تھے جس کی وسعت عالمی سطح کی ہو۔ لیکن یہ میدان جنگ بہت پہلے سے تیار کر لیا گیا تھا۔ کمیونزم کے خلاف جنگ، یہ جنگ سوویت یونین اور اس کے زیر اثر یورپی ممالک کے ساتھ تھی۔

    پوری دنیا کا میڈیا کمیونزم کو ایک خوفناک خواب بنا  کر پیش کر رہا تھا۔ ایسا خوفناک جس میں جائیدادیں، کاروبار سب چھین لیا جائے گا۔ آدمی ڈبل روٹی اور انڈوں کے لیے ریاست کا محتاج ہو گا۔ سب کچھ اجتماعی ہو جائے گا، یہاں تک کہ بیویاں بھی اجتماعی ہوں گی۔ ہالی ووڈ نے جیمز بانڈ کی فلموں کی ایک سیریز کا آغاز کیا جو آئن فلیمنگ کے پراپیگنڈہ پر مبنی تیرہ ناولوں پر بنائی گئیں۔

    یہ سب فلمیں سوویت یونین اور اس کے کمیونزم کے خلاف سود خور جمہوری نظام کی جنگ پر مبنی تھیں۔ لیکن کمال ہوشیاری سے ان فلموں میں بھی اور حقیقی طور پر بھی جنگ کو یورپ سے دور رکھا گیا۔ جنگ کے میدان ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکا بنا دیے گئے۔ ویت نام، انگولا، چلی، برازیل، لاؤس، کمبوڈیا وغیرہ۔ کمیونزم کی جڑ تو سوویت روس تھا۔ ان تمام ممالک کو اسلحہ بیچتا تھا۔

    انھیں فنی امداد دینا تھا، لیکن کسی نے سوویت یونین یعنی لڑائی کی جڑ کوختم کرنے کے لیے جنگ نہ کی ‘اس لیے وہ یورپ کا حصہ تھابلکہ پوری دنیا میں محاذ کھول دیے گئے اور وہاں پر اسلحہ بیچ کر جو سرمایہ حاصل ہوا اس سے یورپ کے بازار رنگین ہونے لگے۔ امریکا کی معاشی خوشحالی کا باب تحریر ہونے لگا۔ جس سوویت یونین کے خلاف ان سود خور جمہوری معاشی نظام کے علمبرداروں نے پوری دنیا میں انسانوں کی لاشیں گرائی تھیں، کروڑوں لوگ جنگ کا ایندھن بنے تھے۔

    اس سوویت یونین نے آدھے جرمنی پر دوسری جنگ عظیم کے بعد معاہدے کے تحت قبضہ کر رکھا تھا۔ برلن شہر آدھا آدھا تقسیم کر دیا گیا اور بیچ میں ایک دیوار برلن بنا دی گئی۔ اس پچاس سالہ جنگ جسے سرد جنگ کہتے ہیں‘ اس کے دوران کسی ایک یورپی ملک یا امریکا نے مشرقی جرمنی کو آزاد کروانے یا برلن کی دیوار گرانے کے لیے ایک فائر تک نہ کیا۔ اس لیے کہ یہ ’’مقدس‘‘ یورپ تھا اور یہاں اب انسان کا خون بہانا سوویت کمیونسٹوں اور سودی خور جمہوری معاشی نظام کے علمبرداروں کے نزدیک حرام تھا۔

    میدان جنگ کیوبا ہو سکتا ہے لیکن امریکا نہیں۔ میدان جنگ افغانستان ہو سکتا ہے لیکن روس نہیں، یورپ میں جو چہل پہل، خوشیاں، رنگارنگی اور خوبصورت زندگی نظر آتی ہے، وہ اصل میں اس لیے نہیں کہ یورپ کے لوگ جنگ نہیں کرنا چاہتے اور انھوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ اب ان بکھیڑوں سے دور رہیں گے۔ ان عوام کی کیا مجال اور کیا حیثیت۔ آج تک جنگ کے فیصلے کبھی عوام نے کیے ہیں۔

    یہ فیصلے تو جمہوری طور پر منتخب حکمران بھی نہیں کرتے۔ اس لیے نہیں کرتے کہ ان کی جمہوری جدوجہد پر اربوں ڈالر، پاؤنڈ اور یورو کی صورت سرمایہ جن سود خور بینکاروں اور کارپوریٹ سرمایہ داروں نے لگایا ہے وہ کان سے پکڑ کر جنگ کا فیصلہ کروا لیتے ہیں۔ پورا یورپ عراق کے خلاف جنگ کو رکوانے کے لیے سڑکوں پر نکل آیا تھا۔ کیا عراق جنگ رک گئی۔ ہرگز نہیں۔ ٹونی بلیئر معافی مانگے یا یہ کہتا پھرے کہ خفیہ رپورٹیں غلط تھیں لیکن لاکھوں انسان موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔

    یورپ کو اب سکون اور اطمینان ایک حکمت عملی کے تحت بخشا گیا ہے۔ اسی طرح چین اور بھارت کی معیشت کو زبردست معاشی ترقی کے لیے تاکہ وہ جنگ کے میدانوں سے نفرت کرے۔کھلا میدان دیا گیا۔ روس کو سود خور جمہوری معاشی نظام میں واپس لانے کے بعد اس کی بدحال معیشت کو اس حد تک سنبھلنے دیا گیا کہ وہ دوبارہ ایک عالمی طاقت بننے کے خواب دیکھنے لگے۔

    یہ سب کے سب اب معاشی طور پر مضبوط ہیں۔ جس سرمایہ دار کے پاس پیسہ ہوگا اگر اس کی کسی کے ساتھ دشمنی ہو جائے تو وہی گارڈ رکھ سکتا ہے، بندوقیں خرید سکتا ہے، گھر اور فیکٹری کے باہر سیکیورٹی سسٹم لگا سکتا ہے۔ کسی بھی بڑی جنگ سے پہلے خوف بیچا جاتا ہے۔ ہر اس ملک کو خوفزدہ کیا جاتا ہے، ہر اس معاشرے کو ڈرایا جاتا ہے جس کے پاس جنگ کا خرچہ اٹھانے کی طاقت ہو۔

    گزشتہ بیس سال سے پوری دنیا میں خوف بیچا جا رہا ہے۔ یہ خوف سب سے زیادہ مغرب میں بیچا جا رہا ہے اور اس کا آغاز 9/11  کے بعد ہوا۔ وہ لوگ جو مغرب کی رنگارنگی میں اس قدر خوش و خرم تھے کہ انھوں نے اپنے اردگرد ایک پٹاخے کی آواز بھی نہیں سنی تھی اب چیخیں مارتے ہوئے گلیوں میں بھاگ رہے تھے۔ پوری دنیا عمارت سے چھلانگ لگاتے، ملبے میں دفن ہوتے اور آگ کے شعلوں میں جلتے انسانوں کو ٹیلی ویژن اسکرینوں پر دیکھ رہی تھی۔ خوف کا ردعمل خوفناک تھا۔

    افغانستان، عراق اور اب شام۔ گزشتہ پندرہ سالوں میں جہاں یورپ اور امریکا کے عوام کو خوفزدہ رکھا گیا وہاں اس قدر طویل جنگ نے ان تینوں ملکوں کے لوگوں کو جنگ کے خوف سے آزاد کر دیا گیا۔ ان کے نزدیک اب موت کی کوئی اہمیت نہیں رہ گئی، بے گھر ہونا کوئی نیا تجربہ نہیں، خون سے اب انھیں وحشت نہیں ہوتی۔ اب ان کا ہدف بدل چکا ہے، ان کا ہدف مغرب ہے اور مغرب خوفزدہ ہے۔ اس قدر خوفزدہ کہ پیرس شہر میں فوج کا گشت دیکھ کر لوگ گھروں میں گھس جاتے ہیں۔

    یورپ کو اس طرح خوف میں مبتلا کرنے کا مقصد کیا ہے۔ وہی مقصد جو بلی کو خوفزدہ کر کے لیا جاتا ہے۔ جنگ میں جھونکنا۔ گزشتہ پندرہ سالوں سے آہستہ آہستہ خوف کے انجکشن لگائے گئے اور اب مغرب بالکل تیار ہے۔ اسے اپنی ٹیکنالوجی پر بھروسہ ہے۔ اسے اس بات کا یقین دلا دیا گیا ہے کہ اب وہ خود جنگ میں نہ کودا تو اس کے ہنستے بستے شہر دہشتگردوں کے ہاتھوں یرغمال ہو جائیں گے۔

    لیکن اس دفعہ جنگ فیصلہ کن ہونے والی ہے۔ گزشتہ ستر سال سے یہودی اپنے عالیشان گھر اور بڑے بڑے کاروبار چھوڑ کر اسرائیل کے بے آب و گیاہ علاقے میں آباد ہو رہے ہیں۔ یہ خود اس سودخور بینکاری معاشی نظام کے مالک ہیں۔ یہ اسرائیل امن کے لیے نہیں بلکہ جنگ کے لیے آئے ہیں۔ کوئی بلاوجہ یورپ اور امریکا کی پرسکون زندگی نہیں چھوڑتا۔ اس وقت جب جنگ عظیم دوم کے بعد یہودی ہی غالب آ چکے ہوں۔

    یہ جوق در جوق ارض مقدس میں جاکر آبادہوتے رہے۔ انھوں نے وہاں کوئی صنعتی مرکز نہیں بنانا، صرف جنگ کرنا ہے جس کے بعد ان کے نزدیک ان کا مسیحا آ کر عالمی حکومت قائم کرے گا۔ لیکن اس جنگ کا ایندھن یورپ بھی ہوگا اور مشرق وسطیٰ ہی نہیں بلکہ تمام مسلمان امت۔ اس کا آغاز سید الانبیاء کی اس حدیث سے ظاہر ہوتا ہے۔ آپؐ نے فرمایا ’’عنقریب دریائے فرات سے سونے کا ایک پہاڑ برآمد ہو گا، پھر وہ اس پر قتال کریں گے، بس سو میں ننانوے آدمی قتل کر دیے جائیں گے(مسلم)۔‘‘

    یہ سونے کا پہاڑ کیا ہے۔ جنگ عظیم دوم کے بعد جب برٹن ووڈ معاہدہ ہوا تو دنیا نے کاغذ کے نوٹ جاری کرنے پر اتفاق کیا۔ لیکن کہا کہ اس کے بدلے میں سونا حکومت کے پاس موجود ہونا چاہیے۔ 1971ء میں فرانس نے امریکا کے صدر نکسن سے اپنا سونا طلب کیا تو اس نے کہا کہ یہ وعدہ پورا کرنے کے لیے نہیں کیا گیا۔ اس کے بعد سونا نہیں بلکہ ملک کی حیثیت Good Will کو معیار بنایا گیا۔ اور اس وقت دنیا میں یہ Good Will یعنی ڈالر کی قیمت کا اتار چڑھاؤ تیل سے وابستہ ہے اور کون نہیں جانتا کہ یہ تیل فرات کے آس پاس کس کس کو خون میں نہلا رہا ہے۔

    عراقی حکومت، داعش، ایرانی ملیشیا، القاعدہ،امریکا اور یورپ ہر کوئی اس سونے کے پہاڑ پر ٹوٹ پڑا ہے اور فائدہ بھی اٹھا رہا ہے۔ لیکن سید الانبیاء نے فرمایا ’’پس جو اس وقت موجود ہو وہ اس سونے کے پہاڑ میں سے کچھ بھی نہ لے (متفق علیہ) جو اس سونے کے پہاڑ میں حصہ بٹا رہے ہیں ان کے لیے ہلاکت ہے اور جو اللہ کے بھروسے پر جنگ لڑتے ہیں ان کی فتح و نصرت کی بشارت۔

  • لبرلزم کیا ہے؟ ریاض علی خٹک

    لبرلزم کیا ہے؟ ریاض علی خٹک

    ریاض خٹک یہ سوال جتنا آسان ہے، اس کا جواب اتنا ہی مشکل کر دیا گیا ہے جیسے چار اندھے ہاتھی کو اپنے احساسات سے بیان کر رہے ہوں. کسی کے لیے یہ مینار ہے تو کوئی اسے دیوار باور کراتا ہے. لبرلزم کے ہاتھی پر بھی احساسات و خواہشات کی زبان عام ہے.

    میرے لیے لبرلزم کی چنداں اہمیت نہ ہوگی، جب تک مجھے کوئی لبرل ہونے کا نہ کہے گا. لیکن جب لبرلزم کو آج کا مروج نظام باور کرایا جائے گا، یہ احساس دلایا جائےگا کہ لبرل ہی سکہ رائج الوقت ہے، یہی کامیابی کی کنجی ہے. تو میں دلیل کا طالب بنوں گا. یہ دلیل کسی کی ذاتی سوچ، پسند نہ پسند پر نہیں. حقائق پر مبنی ہو. حقائق تاریخ کے تواتر میں ملتے ہیں. میں اسلام کو چودہ سو سال قبل کے نزول پر قبول کرتا ہوں. آج اس کی تفسیر ممکن ہے. پر یہ تفسیر جہاں بھی اسلام کی روح سے متصادم ہوگی، میں اسے نزول کی کسوٹی پر پرکھوں گا.

    لبرلزم کو آج بیان کیسے کیا جاتا ہے؟ اس کی تفسیر کیا بیان کی جاتی ہے، اس کی کسوٹی کیا ہے؟ کیا یہ وہی ہے جو اس نظریہ کو بنانے والوں نے مقرر کی، یا میرے آج کے دوست اس میں سے کچھ لو کچھ چھوڑ دو کی خواہش پر جیسے پیش کرتے ہیں؟

    لبرلزم لاطینی لفظ لیبر سے نکلا ہے جس کا مطلب آزاد خیالی ہے. یہ مکمل اہل مغرب کا فلسفہ ہے، جو وہاں سترھویں (17) صدی میں منظر عام پر آیا، اور اہل مغرب کے سیاسی پس منظر میں یہ ایک بہت پرکشش نعرہ تھا. میں جان لاک سے لے کر جان اسٹورٹ مل تک پھیلے لبرلزم کے دانشوروں کا ذکر نہیں کرنا چاہتا کہ یہ بے وجہ کی طوالت ہے. ہاں میں اس تاریخ سے یہ اخذ ضرور کرنا چاہوں گا کہ آج کے اس لبرلزم کے آنے کا پس منظر کیا تھا.

    لبرلزم جس یورپ میں آیا کہ وہ متضاد کیفیات کا حامل ایک معاشرہ تھا، ایک طویل خانہ جنگیوں کا شکار، مذہب نے چرچ کی صورت بالادستی بنائی ہوئی تھی، حکومت کا ایک ستون بن چکا تھا، اور علم کے آگے دیوار بنا ہوا تھا، عام آدمی بادشاہت، جاگیردار، حکومتی اہلکاروں، چرچ کے نظام سب کی بیک وقت غلامی کر رہا تھا، اور مکتی صرف موت ہوتی تھی. دوسری طرف یہی یورپ سائنس میں ترقی کی راہ پر تھا، نئے علوم کے کھوج کا سفر بھی تھا اور اس کی جستجو کی خواہش بھی، اس پس منظر میں آزادی خیالی یا شخصی آزادی کا نعرہ وہاں بہت پرکشش تھا.

    سپین کی تاریخ ہو کہ سلطنت برطانیہ کی فرانس کی ہو کہ سنٹرل یورپ کی، اس لبرلزم کو ان کے پس منظر میں دیکھیں تو سمجھ آتی ہے. پر اس لبرلزم نے انیسویں صدی کے اوائل تک لبرلزم سے سیکولرزم کا جو سفر کیا سوالات یہاں اٹھنے شروع ہوئے.

    پہلا سوال جو بطور ایک مسلمان ہم سب سے اہم سمجھتے ہیں کہ آیا لبرلزم نے عام آدمی کو چرچ کے شکنجے سے آزاد کیا یا کہ مذہب کے شکنجے سے؟ ہزار سالہ یورپ کی تاریخ میں وہ چرچ اور فرد کی کشمکش تھی. لبرلزم نے عیسائی دنیا کو یہ سوچ باور کرائی کہ فرد مذہبی سوچ پر کامل آزاد ہے، جس طرح چاہے اس پر عمل کرے. لیکن درحقیقت لبرلزم مذہب مخالف ہے کیونکہ مذہب اپنی فطرت میں انسان کو اپنے سامنے جھکنے کا حکم دیتا ہے، کوئی بھی مذہب انسان کو مقتدر قرار نہیں دیتا، مذہب ایک محصوص نظم و ضبط پر زندگی گزارنے کا نام ہے.

    یہی وجہ ہے کہ آج کے یورپ میں اسلام انھی اپنی اقدار سے متصادم لگتا ہے. ایک حجاب برداشت نہیں ہوتا، ورنہ یہ فرد کی آزادی پر لیا جاسکتا ہے. ہم جنس پرستی سے لے کر نیچرلسٹ سوچ و اقدار جو مذہب محالف ہیں، ان کی آبیاری وہاں ممکن ہے. پر مذہب پر فرد اگر حجاب کرلے تو یہ لبرلزم میں قابل قبول نہیں.

    اس سوچ پر اسلامی معاشرے کے مکمل نظام کو جب ہم دیکھتے ہیں تو وہ اپنی روح پر لبرلزم سے مکمل متصادم ہیں. تاریخ میں لبرلزم نظریہ سے زیادہ بطور ہتھیار استعمال ہوا، ابتدا میں برطانوی سرمایہ دار نے اسے برطانوی جاگیردار کے خلاف استعمال کیا، آگے جاکر فرانسیسی انقلاب میں، یورپ میں اور بھی بہت مثالیں ہیں. عثمانی خلافت کے خلاف اس کا استعمال تو قریب کی معلوم تاریخ ہے. اس کے علاوہ فاشزم و کمیونزم کے خلاف کامیاب استعمال ہوا.

    تو ہم یہ کیوں نہ سمجھیں کہ آج یہ اسلامی آئیڈیالوجی کے خلاف بطور ہتھیار استعمال ہورہا ہے؟ مجھے کیا اسلام کافی نہیں؟ مجھے کیا مسلمان ہونا کافی نہیں؟ جو میں مغرب سے لبرل و سیکولر کا خطاب لوں؟

  • وہ قوم کہ فیضان سماوی سے ہو محروم-اوریا مقبول جان

    وہ قوم کہ فیضان سماوی سے ہو محروم-اوریا مقبول جان

    orya

    اقبال کے بارے میں ہمیشہ یہ میرا یقین اور ایمان رہا ہے کہ یہ دنیا کا واحد شاعر اور فلسفی ہے جو انسان کی زندگی کے ہر مرحلے میں رہنمائی کرتا ہے۔ بچپن میں ہوش سنبھالتے ہی آپ کی انگلی تھام لیتا ہے اور ایک ایسی دعا آپ کو سکھاتا ہے جو آیندہ آنے والی زندگی کے لیے رہنما اور ہادی ثابت ہو۔

    لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
    زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری

    زندگی کے ہر مرحلے، معاشرت و سیاست کے ہر موضوع اور فلسفہ و اقتصاد کے ہر نکتے پر آپ کو اقبال کے افکار سے رہنمائی ضرور ملے گی۔ یہ ہنر اور یہ عظمت دنیا میں کسی شاعر کو نصیب نہیں۔ ہر کوئی اپنے محدود موضوعات اور مخصوص تصورات پر مبنی شاعری کرتا رہا ہے۔ کسی کو محبوبہ کے لب و رخسار اور زلف گرہ گیر سے باہر نکلنے کی فرصت نہیں ملی تو کوئی انقلاب کے گیت گانے یا سرمایہ و محنت کے ترانے لکھتے دنیا سے چلا گیا۔ شیکسپئر جسے دنیا بھر میں سب سے زیادہ متنوع اور وسیع الخیال شخص سمجھا جاتا ہے۔

    اس کے ہاں بھی روم و یونان کی عظمت رفتہ میں چمکتے کرداروں کے سوا کچھ اور نظرنہیں آتا۔ پورا مشرق جو اس دور میں اس کرۂ ارضی پر جگمگا رہا تھا، شیکسپئر کی آنکھوں سے اوجھل رہا۔ یہی کیفیت ان تمام شاعروں اور مفکروں کی ہے جنھیں آج دنیا جدید تہذیب کے درخشندہ ستارے سمجھتے ہوئے علم کے ماخذ اور منبع گردانتی ہے۔ کسی کے ہاں مشرق ہے تو مغرب نہیں تو کوئی سائنسی اخلاقیات کا قائل ہے اور آسمانی ہدایات سے بے بہرہ۔ کوئی صرف فلسفے کی گتھیاں سلجھاتا ہے اور زندگی کی تلخ حقیقتوں سے ناآشنا ہے۔ یہ صرف اقبال ہے جو بندۂ مزدور کے تلخ ایام کی داستان بھی بیان کرتا ہے اور معراج انسانی کے عظیم واقعے سے درس بھی سکھاتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ صرف اور صرف ایک ہے کہ اقبال کا سارا کا سارا علم قرآن پاک سے مستعار ہے۔ اللہ کا نور ہدایت ہے۔ اس لیے کہ اقبال نے خود یہ دعویٰ کیا ہے۔

    گردلم آئینۂ بے جوہر است
    گر بجز فم غیر قراں مضمراست
    پردۂ ناموسِ فکرم چاک کن
    ایں خیاباں زار خارم پاک کن

    (اگر میرے دل کے آئینے میں کوئی خوبی نہیں ہے۔ اگر اس دل میں قرآن کے علاوہ کوئی ایک لفظ بھی موجود ہے تو اے اللہ میری عزت کا جو پردہ بنا ہے اسے چاک کردے، ان پھولوں جیسی دنیا سے مجھ جیسے کانٹے کو نکال دے)۔ اس لیے کہ خود قرآن پاک کا یہ دعویٰ کہ ’’اور ہم نے تم پر ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے‘‘ (النحل 89)۔ قرآن کے اس علم نے اقبال کو رہنمائی عطا فرمائی اور اس نے تہذیب مغرب اور فرنگی مدنیت کا جس طرح پردہ چاک کیا ہے آدمی کو حیرت میں ڈال دیتا ہے۔

    میرے جیسا شخص جسے یورپ میں صرف چند دن میسر آئے ہیں یقینا اس کی آنکھیں اپنے اردگرد کے ماحول کی رنگینیوں اور عیش و آرام کو دیکھ کر خیرہ ہوجاتی ہیں اور آدمی یورپ کی زندگی کو انسانی تہذیب کی معراج سمجھ لیتا ہے۔ لیکن اقبال تو برسوں یہاں رہے اور پھر اس کے سب سے بڑے ناقد بنے۔ سچ بات یہ ہے کہ مغرب کے اس تفصیلی سفر میں اگر اقبال کا کلام میرا ہمسفر اور ہمراہ نہ ہوتا تو میں اس رنگینی کے پیچھے چھپی ہوئی تاریکی بلکہ اتھاہ تاریکی کو نہ سمجھ پاتا۔

    یورپ میں بہت روشنیٔ علم و ہنر ہے
    حق یہ ہے کہ بے چشمۂ حیواں ہے یہ ظلمات

    مادہ پرستی پر استوار اس تہذیب میں علم و ہنر کی روشنی تو نظر آتی ہے لیکن انسانی اخلاقیات اور اجتماعی محبتوں کے اصول سے عاری ہے۔ اس وقت یورپ میں سب سے زیادہ تعداد بوڑھے لوگوں کی ہوتی جا رہی ہے۔ آپ ان بوڑھوں کو عالم تنہائی میں موت کی جانب جاتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ کسی موت کی خبر اس کا پڑوسی میونسپل سروس والوں کو دیتا ہے اور کوئی اولڈ ایج ہوم میں چند نرسوں کے ہاتھوں ریاست کے زیر انتظام جنازے کی رسوم کے بعد قبر میں اتر جاتا ہے۔

    شام ڈھلے شراب خانوں پر افسردہ و پژمردہ نوجوانوں کا ہجوم ہوتا ہے جو اس غم کے بوجھ تلے دبے جا رہے ہوتے ہیں کہ کسی کو اس کا بوائے فرینڈ چھوڑ گیا تو کسی کو اس کی گرل فرینڈ۔ انھی میزوں پر نئے ساتھی کی تلاش ہوتی ہے جسے ہو سکتا ہے اگلے چند ماہ ہی ساتھ چلنا ہو۔ آیندہ آنے والی نسلوں سے یہ لوگ اس قدر مایوس ہیں کہ کوئی بچے پیدا کرنا نہیں چاہتا کہ اگر زندگی کے آخری ایام اکیلے یا اولڈ ایج ہوم میں گزارنا ہے تو پھر اولاد کا کیا فائدہ۔ لیکن میرے جیسے سیاح ان کے سرخ و سفید تمتماتے چہروں کو دیکھ کر سمجھتے ہیں کہ یہ کس قدر مطمئن لوگ ہیں۔ اقبال نے کہا تھا

    چہروں پہ جو سرخی نظر آتی ہے سر شام
    یہ غازہ ہے یا ساغر و مینا کی کرامات

    جس طرز معاشرت میں آج یورپ زندہ ہے اسے اقبال نے جس طرح بیان کیا ہے، وہ کمال ہے۔

    بے کاری و عریانی و مے خواری و افلاس
    کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کی فتوحات

    عریانی و مے خواری تو سب کو نظر آتی ہے لیکن بے کاری و افلاس کے بارے میں لوگ کہیں گے کہ وہ کیسے۔ یورپ میں ایک ایسے سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد رکھی ہے جس میں دولت کی بنیاد پر استحصال کیا جائے۔ تمام بڑی بڑی فیکٹریاں چین، مشرق بعید، لاطینی امریکا اور افریقہ منتقل کر دی گئیں ہیں۔ وہ قومیں اپنا خون پسینہ ایک کر کے بہت ہی کم اجرت پر کام کرتی ہیں اور یورپ کا سرمایہ دار مال دار ہوتا چلا جاتا ہے۔

    اس سے وہ جو ٹیکس دیتا ہے وہ سب سے پہلے شہری سہولیات پر خرچ ہوتا ہے اور پھر ان افلاس زدہ لوگوں پر جو اس معاشرے میں سوشل سیکیورٹی کے نام پر وظیفہ کھاتے ہیں۔ دنیا کے سب سے زیادہ منشیات کے عادی انھی معاشروں میں ہیں۔ جو کبھی وظیفے پر جیتے ہیں اور کبھی علاج کے نام پر آبادکاری مراکز میں۔ تیس فیصد کے قریب بوڑھے یا پنشن لیتے ہیں اور اکیلے رہتے ہیں یا پھر اولڈ ایج ہوم میں۔ اسپین سے اٹلی، فرانس سے بلجیئم اور ناروے سے جرمنی تک کے اس سفر میں اقبال بہت یاد آ رہے ہیں۔ پورے کا پورا معاشرہ مادیت کے شکنجے میں جکڑا ہوا اور جس کی بنیاد ایک خون چوسنے والے سودی نظام پر رکھی گئی ہے۔

    رعنائی تعمیر میں رونق میں صنعا میں
    گرجوں سے کہیں بڑھ کے ہیں بینکوں کی عمارات
    ظاہر میں تجارت ہے حقیقت میں جواء ہے
    سود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگ مفاجات

    اس پورے یورپ کا سب سے امیر شہر جنیوا ہے جو دنیا بھر کے چور اور بددیانت حکمرانوں کے پیسوں کو بینک میں رکھ کر سود سے اپنی فی کس آمدنی بڑھاتا ہے۔ یورپ خود کو اس صدی میں ایک مضطرب یورپ کہتا ہے۔ اس کے مفکرین کہتے ہیں یہ ہماری اضطراب ”Anxiety” کی صدی ہے۔ اقبال نے ایک سو سال پہلے کہا تھا ان کے ہاں ترقی کی معراج انسان نہیں سائنسی ایجادات ہیں اور ایجادات جسمانی سکون دیتی ہیں ذہنی اطمینان نہیں۔

    وہ قوم کہ فیضان سماوی سے ہو محروم
    حد اس کے کمالات کی ہے برق و بخارات

  • یورپ میں آباد پاکستانیوں کی خواہش-اوریا مقبول جان

    یورپ میں آباد پاکستانیوں کی خواہش-اوریا مقبول جان

    orya

    یورپ کی گلیوں میں گھومتے ہوئے آج پانچواں دن ہے۔ انقلاب فرانس کے مرکز پیرس میں اترا تو ٹھیک پانچ سال بعد یہاں آنے کے بعد ایک احساس ایک دم دل و نگاہ سے چھوگیا۔ سب کچھ وہی ہے، ایفل ٹاور، شانزے لیزے، گمنام سپاہی کی  قبر والا وہ دروازہ جو کئی سڑکوں کے بیچوں بیچ ہے، پہاڑی پر قدیم گرجا بھی ویسا ہی ہے اور نوٹرے ڈیم کے چرچ کے مجسمے بھی ویسے ہی قائم ہیں لیکن جو پیرس پانچ سال پہلے نظر آتا تھا اب وہ کہیں کھوگیا ہے۔ خود پیرس کے لوگ حیرت میں گم ہیں۔ جنگ عظیم دوم کی تباہ کاریوں سے جب یورپ نکلا تو یوں لگتا تھا کہ ساری کی ساری آبادی ایک کھنڈر پر کھڑی ہے۔

    لوگوں نے مل کر اس اجڑے گھر کو تعمیر کیا۔ ہر ملک برباد تھا اور ہر شہر ویران، یوں تو امریکی اسے اپنا احسان عظیم کہتے ہیں کہ انھوں نے یورپ کی تعمیر نو کے لیے سرمایہ فراہم کیا لیکن اصل بات یہ ہے کہ یہاں کے رہنے والوں نے اسے خود تعمیر کیا۔ اس تعمیر نو میں عمارات تو کھنڈر سے بدل کر اصلی مقام پر آگئیں لیکن سرمائے کی دوڑ نے معاشرے کو ایک دوسرے کھنڈر میں بدل دیا۔ وہ کھنڈر جس میں اقدار، اخلاق، روایات، مذہب اور سب سے بڑھ کر خاندان کی اینٹیں گری پڑی ہیں اور کوئی ان اینٹوں کو اکٹھا کرکے دوبارہ تعمیر میں مصروف نہیں ہے بلکہ صرف اور صرف ماتم کرتا چلا جارہا ہے۔ گزشتہ سو سال سے صرف ایک ہی ماتم ہے، ہمارا خاندان کہاں چلاگیا۔

    یہ سب تو پیرس شہر میں گزشتہ سو سال سے چلا آرہا ہے، تو پھر وہ کونسا پیرس ہے جو پانچ سال پہلے تھا اور آج نہیں ہے۔ پانچ سال پہلے کا پیرس نسبتاً مرنجا مرنج یعنی ”Cave Free” پیرس تھا اور آج کا پیرس خوفزدہ ہے، ڈرا ہوا۔ اس شہر کی گلیوں میں جنگ عظیم دوم کے بعد پہلی دفعہ فوج کے دستے گشت کرتے ہوئے نظر آئے۔ شروع شروع میں جب کارٹون بنانے والے اخبار چارلی ہبیڈو پر حملہ ہوا، لوگ مارے گئے تو پیرس میں غم و غصہ تھا۔ پوری قوم یک جہتی کے اظہار کے لیے سڑکوں پر نکل آئی۔ ایسے میں کسی نے اس غصے میں دبی ہوئی حملہ آور کی آواز کو یاد تک نہ کیا کہ ’’میں الجزائر سے ہوں اور یہ میرا بدلہ ہے‘‘ اسلام اور مسلمان دونوں ہدف تھے۔ میڈیا نے اس یک جہتی کو کھول کھول کر بیان کیا اور بار بار دکھایا۔

    لوگ چین کی نیند سوگئے۔ لیکن اس کے بعد انھیں پھر کسی زور دار دھماکے میں مرنے والوں کی چیخوں نے جگایا تو کہیں ٹرک ڈرائیور کے انسانوں کے خوفناک طریقے سے کچلنے نے بیدار کیا۔ لیکن اب یہ جاگنا یک جہتی کا جاگنا نہیں ہے۔ یہ ایسے ہے جیسے خوف میں نیند اڑجاتی ہے۔ ٹیلی ویژن پروگراموں میں صرف ایک بحث ہے کہ ایسا ہمارے ساتھ کیوں ہورہا ہے۔ ہم تو پر امن تھے، اپنی دھن میں مگن تھے۔ ہمارے بازاروں میں رونق تھی، لاکھوں سیاح روز ہمارے شہروں کو آباد کرتے تھے۔ دونوں طرف بولنے والے موجود ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو اسلام، القاعدہ، داعش اور دہشت گردی کی رٹ لگاتے ہیں۔ لیکن دوسرے وہ ہیں جو اس خطرے سے پورے مغرب کو ڈرا رہے ہیں۔

    وہ کہتے ہیں تم نے اسلحہ بیچنے کی ہوس میں جتنے لاکھ لوگوں کو مسلم دنیا میں قتل کیا ہے۔ اگر ان کے دس فیصد لوگوں کی اولادیں اپنا بدلہ لینے تمہاری سمت چل پڑیں تو تم کئی صدیاں امن کوترس جاؤ گے۔ فرانس کا ’’مشعل اکشود‘‘ نامی مصنف جو ٹیلی ویژن چینلوں پر مقبول ہورہا ہے۔ وہ یہی کہتا ہے، تم نے الجزائر میں ایک اسلامی حکومت کے قیام کو روکنے کے لیے لاکھوں انسانوں کا خون بہایا، اب یہ خون تمہارے گھروں میں انتقام کے پتھر لے کر آگیا ہے۔ حیرت میں گم پیرس کے سامنے ایک اور سوال ہے۔ ہم تو سیکولرازم اور لبرل ازم کے بانی تھے۔ ہماری نسلوں نے انقلاب فرانس کے بعد مذہب کو اجتماعی زندگی سے نکال دیا تھا۔ لیکن یہ کیا ہوگیا۔ شام میں جاکر لڑنے والوں میں سب سے زیادہ لوگ فرانس سے جارہے ہیں اور وہاں لڑائی میں مرنے والوں میں دس ایسے فرانسیسی ہیں جو نسل در نسل فرانسیسی ہیں۔ جن کی رگوں میں صدیوں سے فرانسیسی خون دوڑ رہا ہے۔

    خوف اور تذبذب کی یہی فضا اگلے دن مجھے برسلز میں نظر آئی۔ جمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے ایک مسجد کی تلاش مجھے مولن بیک ”MOLEN BEEK” کے علاقے میں لے آئی۔ یہ بیلجیئم کی اس آبادی کا مرکز ہے جو نسلی طور پر مراکش سے تعلق رکھتی ہے۔ چاروں جانب حجاب اور عبایا میں ملبوس خواتین مسجدوں کی طرف جارہی تھیں اور مرد عربی لباس پہنے نظر آرہے تھے۔ ایک اور حیرت، وہاں آکر آپ کو بیلجیئم میں بولی جانے والی فرانسیسی زبان نہیں آتی تو انگریزی نہیں چلے گی۔ البتہ آپ عربی میں ٹوٹی پھوٹی بات چیت بھی کریں تو آپ کو خوش آمدید کہا جائے گا۔ دونوں ملک اپنے ٹیلی ویژن چینلوں پر ایک دفعہ پھر سے اس سین کو دہرا رہے ہیں کہ 1905ء میں جو سیکولرازم اور لبرل ازم کا دور شروع ہوا تھا، اس میں زوال آگیا ہے۔ ہمیں اپنی اس روح کو اپنے آپ جدا نہیں کرنا۔

    اگلے تین دن اٹلی کے شہر میلان اور اسپین کے شہر بارسلونا میں گزرے، ان چاروں شہروں، پیرس، برسلز، میلان اور بار سلونا میں پاکستانی آبادی سے ملاقات اس لیے ہوئی کہ تقریبات میں جمع تھے۔ لیکن ان کا خوف دہرا ہے۔ ان کا المیہ اور دکھ بھی دہرا ہے۔ جس وطن کو چھوڑ کر وہ یہاں آئے ہیں انھیں وہاں تبدیلی کی کوئی امید نظر انھیں آتی۔ میں گزشتہ پندرہ سال سے مسلسل مغرب میں آباد پاکستانیوں سے مل رہا ہوں لیکن یہ پہلی دفعہ ہے کہ ان میں اپنے وطن واپس لوٹنے اور اسے دوبارہ تعمیر کرنے کی خواہش شدید ہے۔

    ان کا المیہ دہرا ہے جس یورپ کو وہ خون پسینہ دے کر تعمیر کرہے ہیں وہ ان کو شک کی نظر سے دیکھتا ہے اور جس پاکستان میں وہ خون پسینے کی کمائی بھیجتے ہیں وہاں ان کی کمائی سے عیاشیاں کی جاتی ہیں۔ وہ پاکستان میں ایسا سب کچھ دیکھنا چاہتے ہیں جو انھیں یورپ میں نظر آتا ہے لیکن ایسا خواب وہ یہیں بیٹھ کر دیکھتے ہیں۔ جنگ عظیم دوم کے بعد جس طرح یورپ تباہ ہوا اور یورپ والوں نے اسے تعمیر کیا۔ یہاں کے پاکستانی ویسا کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔ البتہ انتظار کرتے ہیں، دعا کرتے ہیں، خواہش کرتے ہیں کہ پاکستان بدل جائے اور وہ واپس اپنے جہلم، گجرات، مردان وغیرہ چلے جائیں۔

    جہاں وہ معاشی طور پر مطمئن بھی ہوں اور کوئی انھیں بار بار گفتگو میں اللہ کا لفظ استعمال کرتے سنے اور پیرس میں پولیس کو رپورٹ کرنے کی طرح گرفتار نہ کرادے۔ اسپین کے ساحلوں پر حجاب والی خاتون کے گرد جیسے پولیس والے جمع ہوگئے اور کہا یا تو سوئمنگ سوٹ پہنو یا یہاں سے بھاگو۔ ایسا کچھ اس نئے پاکستان میں نہ ہو۔ ایسا پاکستان ان کی کمائی سے نہیں صرف اور صرف ان کے خون پسینے سے بن سکتا ہے۔ لبنان میں چالیس لاکھ لوگ آباد ہیں جب کہ ایک کروڑ بیس لاکھ لبنانی ملک سے باہر ہیں۔ کما کر ہر سال بیس ارب ڈالر بھیجتے ہیں لیکن لبنان کی حالت نہیں بدلتی۔ قومیں سرمائے سے نہیں انسانوں سے بدلتی ہیں۔

  • مغرب میں عورتوں کی حالت زار – کامران امین

    مغرب میں عورتوں کی حالت زار – کامران امین

    پاکستان میں جب بھی عورت پر ظلم ہوتا ہے تو جرم کو ایک مجرم کی نفسیات سے دیکھنے کے بجائے ایک مخصوص طبقہ اسلام پر چڑھ دوڑتا ہے. انہیں تو جیسے بہانہ چاہیے ہوتا ہے اسلام کے خلاف اپنی بھڑاس نکالنے کا. یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ عورت پر ہونے والا ظلم دراصل اسلام کی تعلیمات کا نتیجہ ہے۔ حالانکہ یہ دراصل اسلام کی تعلیمات سے عدم واقفیت، جہالت اور فضول رسوم و رواج سے چمٹے رہنے کا نتیجہ ہوتا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ عورت کے خلاف جرائم کسی رنگ، نسل معاشرے یا نظریے تک محدود نہیں ہیں بلکہ ترقی یافتہ اور تہذیب یافتہ ممالک جو ساری دنیا کو انسانیت، تہذیب برابری کا درس دیتے ہیں، اور حقوق نسواں کے حوالے سے ہر دن ان کا ہاضمہ خراب ہوتا ہے، ان کے ہاں یہ شرح باقی دنیا کے مقابلے میں خوفناک حد تک زیادہ ہے۔

    صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے آئیے تہذیب یافتہ ممالک کے سرخیل امریکہ میں عورتوں کی حالت زار پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
    نیویارک ٹائمز کی (1) رپورٹ کے مطابق ہر پانچ میں سے ایک امریکی لڑکی جنسی زیادتی کا شکار ہوتی ہے۔ ان میں سے بھی ایک تہائی خواتین کو زیادتی کے دوران تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ہر سال 13 لاکھ امریکی خواتین جنسی زیادتی کا شکار ہوتی ہیں۔ ان میں سے 12 فی صد لڑکیوں کو اس وقت زیادتی کا نشانہ بنایا گیا جب ان کی عمر 10 سال یا اس سے کم تھی۔ ایک دوسری رپورٹ (2) کے مطابق صرف 2006ء میں 3 لاکھ کالج جانے والی لڑکیوں کو زنا کا نشانہ بنایا گیا۔ مجموعی طور پر 22 لاکھ (3) خواتین کو ان کی زندگی کے دوران زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور ہر 16 میں سے 15 زیادتی کرنے والے مجرم آزادانہ گھوم رہے ہیں، انہیں کوئی سزا نہیں دی گئی۔

    2001ء سے 2012ء تک افغانستان میں طالبان کے ہاتھوں مجموعی طور پر 6488 امریکی فوجی مارے گئے جبکہ اسی عرصے کے دوران 11766 امریکی خواتین کو ان کے موجودہ یاسابقہ پارٹنرز کے ہاتھوں قتل ہونا پڑا۔ تقریباً 5 کروڑ خواتین ہر سال اپنے شریک حیات کی جانب سے تشدد کا نشانہ بنائی جاتی ہیں (4)۔ ہر نو سیکنڈز بعد امریکہ میں عورت کو یا تو قتل کر دیا جاتا ہے یا اسے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ہر 3 میں سے ایک امریکی عورت کو اس کا شریک حیات تشدد کا نشانہ بناتا ہے۔ مغرب میں آج بھی کام کرنے والی خواتین کا معاوضہ مردوں سے کم ہے اور تو اور سب سے روشن خیال ادارے ہالی وڈ میں کام کرنے والی اداکارائوں کو اداکاروں کے مقابلے میں کم معاوضہ دیا جاتا ہے۔ 2013ء میں امریکی کانگریس میں خواتین کی نمائندگی محض تین اعشاریہ اٹھارہ فی صد تھی۔

    اس تحریر کا مقصد ہرگز پاکستان میں ہونے والے جرائم اور مظالم کا دفاع نہیں ہے۔ بس یہ باور کروانا ہے کہ جرم کو کسی بھی نظریے سے الگ کر کے مجرم کی نفسیات سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مجرم چاہے ملحد ہو یا عیسائی یا مسلمان اس کی صرف ایک جبلت ہوتی ہے جرم کرنا۔ مشرق میں پھر بھی عورت کو سماجی تحفظ حاصل ہے لیکن مغرب تو عورت کے ساتھ قصائی اور گائے والا سلوک کرتا ہے۔ جب تک گائے دوودھ دیتی ہے اسے چارہ کھلاتا ہے اور جس دن وہ دودھ دینا بند کردیتی ہے، اس کے گلے پر چھری پھیر کر اس کا گوشت بیچ کھاتا ہے۔ مغربی عورت کے جسم میں جب تک کشش ہوتی ہے وہ منڈیوں کی زینت بنتی ہے اور جب یہ کشش ختم ہوتی ہے، وہ کسی اولڈ ہائوس میں یا کسی ہسپتال میں ایڑیاں رگڑ رگر کر مر جاتی ہے۔

    حوالہ جات

    1. http://www.nytimes.com/2011/12/15/health/nearly-1-in-5-women-in-us-survey-report-sexual-assault.html?_r=0
    2.https://www.nsopw.gov/en/Education/FactsStatistics?AspxAutoDetectCookieSupport=1
    3. http://www.feminist.com/antiviolence/facts.html
    4. http://www.huffingtonpost.com/2014/10/23/domestic-violence-statistics_n_5959776.html
    5. http://www.ncadv.org/learn/statistics

  • یورپ دہشت کے سائے میں، کب تک؟ اعجاز اعوان

    یورپ دہشت کے سائے میں، کب تک؟ اعجاز اعوان

    اعجاز اعوان یورپ نے بےگھر در بدر ٹھوکریں کھاتے مسلمان پناہ گزینیوں کو اس وقت پناہ دی جب ان پر اپنے ہی ملکوں کی سرزمین تنگ ہو چکی تھی. برادر اسلامی ممالک ترکی اور سعودی عرب وغیرہ نے ان کے لیے اپنی سرحدیں بند کر دی تھیں، تو یہ یورپی تھے جنہوں نے بلا تفریق مذہب محض انسانیت کی بنیاد پر ان مسلمان مہاجرین کے لیے اپنے دروازے کھولے، ان کو ہر ممکن سہولیات مہیا کیں. سول سوسائٹی کے بعض لوگوں کا کہنا تھا کہ یہ لاکھوں مہاجرین یورپی معاشرے میں ایک تباہ کن تبدیلی لائیں گے جو معاشرے کو ہلا کر رکھ دے گی، لیکن پھر بھی یورپ کے حکمرانوں نے مسلمان مہاجرین کو پناہ دی، جس کا صلہ اب یورپ کو دیا جا رہا ہے. کبھی کبھی ہونے والے بم دھماکے اب روز کا معمول بنتے جا رہے ہیں. ہر دھماکہ کئی قیمتی جانیں لے جاتا ہے. یورپ بھی اسی خوف اور دہشت کا شکار ہو رہا ہے جس میں مسلمان ممالک کئی عشروں سے مبتلا ہیں.

    اسلامی ممالک میں ان دھماکوں کا رد عمل بہت عجیب مل رہا ہے کوئی اس کو مکافات عمل کہہ رہا ہے تو کسی کے خیال میں یورپی ممالک کو مسلمانوں کے ساتھ روا رکھی گئی زیادتیوں کا بدلہ دیا جا رہا ہےحالانکہ یہ مسلمان حکمرانوں کی پالیسیاں ہیں جن کی وجہ سے یہ مسلمان گھر سے بےگھر ہوئے. بشار الاسد یا داعش عیسائی یا یہودی نہیں لیکن انھی کی کارروائیوں نے لاکھوں مسلمانوں کو بےگھر کر دیا. اس کے باوجود کوئی ایک مسلمان بھی اہل یورپ کے اس سلوک کو اہمیت دینے کو تیار نہیں جس میں انہوں نے لاکھوں بے خانماں مسلمانوں کو پناہ دی. ان کو رہائش کی سہولیات دیں ، ان کے لیے خوراک اور بہترین طبی سہولیات فراہم کیں. لیکن اس احسان کے بدلے میں مسلمانوں نے انہیں کیا دیا؟ یہی جرمنی تھا جہاں نئے سال کی آمد کے جشن پر مسلمان نوجوانوں کی ٹولیوں کی ٹولیوں نے جرمن خواتین کے ساتھ انتہائی بہیمانہ سلوک کیا. یہ ایک نہیں ایسے بے شمار واقعات ہوئے جن میں پناہ گزین نوجوانوں نے یورپ کے شہریوں سے نفرت آمیز سلوک کیا. ہونا تو اس کے برعکس چاہیے تھا لیکن یورپی حکومتوں نے پھر بھی پناہ گزینوں سے کافی نرمی کا سلوک کیا.

    1492ء میں سپین کی آخری مسلمان ریاست غرناطہ پر عیسائیوں کا قبضہ ہوا اور سپین پر مسلمانوں کے 800 سالہ عظیم الشان دور حکومت کا خاتمہ ہوگیا. اس کے ساتھ ہی سپین سے مسلمانوں کو نکالنے کا عمل شروع ہوا. چند ہی سالوں میں لاکھوں مسلمان یا تو قتل کر دیے گئے، یا پھر ان کو افریقہ اور دیگر مسلمان ممالک میں پناہ لینا پڑی. کیا آج یورپ میں رہنے والے مسلمان ایک بار پھر سے یہی چاہتے ہیں کہ یورپی یونین مسلمانوں کے بارے میں ویسا فیصلہ کرے کہ ان پناہ گزینوں کو یورپی ممالک سے نکال باہر کیا جائے. پناہ گزینوں کے بعد اگلی باری یورپ میں رہنے والے مسلمانوں کی بھی آ سکتی ہے.

    بہتر تو یہ ہوتا کہ یورپ میں رہنے والے مسلمان اپنی صفوں میں موجود دہشت گردوں کی نشاندہی کرتے اور انھیں پولیس کے حوالے کر کے یہ ثابت کرتے کہ عام مسلمان کا دہشت گردی سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ہے لیکن ایسا نہیں ہو پایا. اب یورپ یہ سمجھنے میں آزاد ہے کہ وہ تمام مسلمانوں کو دہشت گرد سمجھے. اس صورت حال کو یورپی حکومتوں اور یورپی شہریوں کی نظر سے دیکھنے کی کوشش کیجیے. وہ یہ کیوں چاہیں گے کہ مسلمان پناہ گزین ان کے معاشرے کا امن تباہ کرتے رہیں. وہ کیوں ان کو اپنے ملک میں برداشت کریں گے اگر وہاں روزانہ کی بنیاد پر دہشت گردانہ کارروائیاں ہونے لگیں؟ یہ درست ہے کہ مسلمان بھی اس وقت ایسی ہی دہشت گردی کا شکار ہیں لیکن اس میں حکومتوں کے ملوث ہونے سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن عوام کو جوابی دہشت گردی کا نشانہ بنانا بجائے خود ایک دہشت گردی ہے، جس کا نقصان بہرحال مسلمانوں کو ہوگا. یورپی عوام میں مسلمانوں کے بارے میں جو چند ایک مثبت رائے رہ گئی ہے اب وہ بھی نہیں رہے گی.

    اس معاملے میں اسلامی ممالک میں موجود مذہبی جماعتوں نے کسی قسم کا کوئی رد عمل دینے سے گریز کیا ہے. ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دہشت گردی کے ایسے ہر واقعے کی مذمت کی جاتی اور ان دہشت گردوں سے اظہار لاتعلقی کیا جاتا، چاہے ایسا واقعہ یورپ میں ہو ، مشرق وسطیٰ میں ہو یا پاکستان یا کسی بھی دیگر ملک میں، لیکن افسوس کہ جن اسلامی جماعتوں کے ذمے ایک صحیح اسلامی معاشرے کے اصول طے کرنا تھے، وہ بھی تفرقہ بازی کے زیر اثر کسی نہ کسی سطح پر دہشت گردی کی حمایت کرتی دکھائی دیتی ہیں. یہ دین اسلام کا پیغام ہرگز نہیں. دہشت گرد آج جو کچھ بو رہے کل اس کی فصل ہر مسلمان کو کاٹنا پڑے گی.

    (نوٹ: صاحب مضمون کو ترکی کے حوالے سے سہو ہوا ہے. ترکی کی سرحدیں شروع دن سے پناہ گزینوں کےلیے کھلی ہیں اور اس وقت صرف ترکی میں چار ملین شامی پناہ گزین آباد ہیں اور طیب اردگان نے انھیں شہریت دینے کے منصوبے کا اعلان کیا ہے.)

  • ترکی میں بغاوت اور مسلم معاشرے – محمد دین جوہر

    ترکی میں بغاوت اور مسلم معاشرے – محمد دین جوہر

    15/ جولائی کو ترکی میں جو افسوسناک بغاوت ہوئی، ہمارے ہاں بھی اس پر گفتگو جاری ہے۔ اسے عام طور پر ترکی کے اندر سول ملٹری کشمکش کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے، جس کے پس پردہ سیکولرزم اور اسلام کی کشمکش کارفرما دکھائی جا رہی ہے۔ گزارش ہے کہ اس اہم اور دور رس اثرات کے حامل واقعے کو ایک فکری تناظر فراہم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ موجودہ عالمی صورت حال کی درست تفہیم بھی ممکن ہو سکے۔ اس میں اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا یہ محض ایک ناکام فوجی بغاوت تھی یا regime change کی ناکام کوشش تھی؟
    آج کل regime change کی اصطلاح صحافت، سفارتکاری اور سیاسی علوم میں عام ہے۔ اس سے مراد تیسری یا مسلم دنیا میں کسی ملک کے حکمران یا حکومت وغیرہ کی جبری اور استعماری ترجیحات پر تبدیلی نہیں ہے۔ اس سے مراد اس ملک کے حکمران، سیاسی حکومت، سیاسی تنظیم اور پورے ریاستی ڈھانچے کو مکمل طور پر تباہ کر کے معاشرے کو بھی جڑ سے اکھاڑنا ہے تاکہ وہاں معمول کی انسانی زندگی کا کوئی تصور ہی باقی نہ رہے۔ بیسویں صدی کے آخر تک امریکی اور مغربی استعماری قوتیں کمزور ملکوں میں حکمران تبدیل کرنے میں دلچسپی رکھتی تھیں۔ اکیسویں صدی کے آغاز سے استعمار کی عالمی پالیسی میں بہت بنیادی تبدیلی آئی ہے۔ اب ان کا مقصد صرف ناپسندیدہ حکمران کی تبدیلی تک محدود نہیں ہے، بلکہ ملک، ریاست اور معاشرے کو ادھیڑنے اور جڑوں سے اکھاڑنے تک پھیل گیا ہے۔ اس کا پہلا کامیاب تجربہ افغانستان میں کیا گیا اور جو اب تک کئی مسلمان ملکوں میں کامیابی سے دہرایا جا چکا ہے۔ ناپسندیدہ حکمران کی تبدیلی اس وقت عمل میں لائی جاتی ہے جب وہ کمزور ہو یا عالمی مفادات میں غیر اہم ہو گیا ہو۔ regime change اس وقت عمل میں لائی جاتی ہے جب استعمار کو یقین ہو کہ وہ ملک اور معاشرے کو جڑ تک اکھاڑ سکے گا۔ ترکی کے موجودہ حالات میں بغاوت کا مقصد عراق اور شام کی طرح ترک ریاست اور معاشرے کو ملبے کا ڈھیر بنانے کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا، تاکہ علاقے میں امریکی اور یورپی ایجنڈے میں رکاوٹوں کو دور کیا جا سکے جن میں سب سے بڑی اردگان کی آزاد خارجہ پالیسی اور ترکی کی معاشی ترقی تھی۔
    گزشتہ پندرہ سال میں امریکہ نے افغانستان، عراق، لیبیا، یمن، لبنان، شام اور صومالیہ وغیرہ کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا ہے اور ان ”ملکوں“ میں معمول کی انسانی زندگی کا کوئی تصور بھی باقی نہیں رہا۔ regime change کا مطلب ہے کسی ملک کو stone age میں پہنچانا۔ 2001ء میں پاکستان کو بھی یہی دھمکی دی گئی تھی اور بعد میں زیردست یہی ایجنڈا آگے بڑھایا گیا۔ اگر ملک، ریاست اور معاشرہ ہی کھدیڑ دیا جائے اور وہاں معمول کی زندگی کا تصور بھی باقی نہ رہے تو بڑے سے بڑا سیاسی لیڈر بھی وہاں کچھ نہیں کر سکتا۔ اس طرح استعماری مخالفت کا قصہ ہی پاک ہو جاتا ہے اور وسائل کی لوٹ مار وسیع پیمانے پر ممکن ہو جاتی ہے۔ افسوس کہ ہماری شراٹے دار، دخانی اور متعفن صحافت اور علوم میں نہ کچھ سنائی دیتا ہے، نہ کچھ دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی کچھ سجھائی دیتا ہے۔ امریکہ اور یورپ ترکی میں اردگان کی حکومت سے سخت ناخوش اور نالاں تھے۔ ترک فوجی بغاوت کو بھی اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔
    دراصل regime change اکیسویں صدی میں بھرپور طریقے سے سامنے آنے والی استعمار کی نئی اور جدید جنگی حکمت عملی کا اظہار بھی ہے۔ پرانی جنگی حکمت عملی total war کے تصور پر مبنی یا اس سے ماخوذ رہی ہے۔ اب جنگی حکمت عملی کی بنیاد Hybrid War Doctrine پر ہے اور regime change اس کا براہ راست مظہر ہے۔ اس حکمت عملی کا مقصد صرف فوج کو شکست دینا نہیں ہے، بلکہ ایک معاشرہ اور ملک جن وسائل کو بروئے کار لا کر اپنی فوج اور ریاست تشکیل دیتا ہے، ان معاشی، انتظامی اور انسانی وسائل کا مکمل خاتمہ ہے۔ فوجی گاڑی کے ٹائر میں ہوا بھرنے کے لیے بھی تھوڑی بہت ہنرمندی چاہیے ہوتی ہے اور اس نئی جنگی حکمت عملی کا مطلب یہ ہے کہ معاشرے کو اس طرح کا بنا دیا جائے کہ وہاں یہ ہنر رکھنے والا بھی باقی نہ رہے۔ اگر میونسپلٹی چلانے کے انتظامی صلاحیت کی ضرورت ہے تو معاشرے کی حالت ایسی کر دی جائے کہ ایسا آدمی بھی ناپید ہو جائے۔ اس لیے اس جنگی حکمت عملی میں تعلیمی اداروں سے لے کر ریاست اور فوج کے تمام اداروں کی مکمل تباہی شامل ہے۔ یہ انسانی معاشروں کو ایک ریوڑ میں تبدیل کر دینے کی حکمت عملی ہے اور معاشرے اور ریاست کا ہر فعال حصہ اس جنگ کا لازمی ہدف ہے۔
    یہ بات اب ہر کسی کے علم میں ہے کہ امریکی استعمار عالمی سطح پر ایک ایک فرد اور چھوٹی سے چھوٹی تنظیم پر نظر رکھنے کی صلاحیت پیدا کر چکا ہے۔ پھر اس صلاحیت کو عملی جامہ پہنانے کی فوجی قوت اور پہنچ بھی بلا روک ٹوک رکھتا ہے۔ ایسی صورت حال میں قومی اور علاقائی واقعات کو صرف داخلی سول ملٹری تناظر میں دیکھنا نہ صرف درست نہیں بلکہ شدید بددیانتی ہے۔ اب یہ اس سے بہت آگے کی چیز ہے۔ ترکی کے داخلی حالات میں مسائل تو یقیناً تھے، اور وہ کس ملک اور معاشرے میں نہیں ہوتے۔ لیکن فوجی بغاوت کے اسباب موجود نہیں تھے۔ اس کے اسباب سو فیصد خارجی تھے۔ پورے یورپ میں اردگان کے خلاف تضحیک اور استہزا کی مہم مستقل طور پر چلتی رہتی ہے۔ پناہ گزینوں کے مسئلے پر پورا یورپ ترکی کے خلاف ہم آواز تھا اور اس پر جو معاہدہ ہوا اس پر بھی ان کو بڑی تکلیف ہے کیونکہ یہ مفت میں نہیں ہوا۔ ابھی حال ہی میں ترکی کے خلاف ارمنی نسل کشی کی جرمن قرارداد منظور ہوئی۔ کردوں اور شام کی خانہ جنگی کے حوالے سے ترک امریکی سخت اختلافات بھی معلوم ہیں۔ نام نہاد سیکولرسٹوں اور امریکہ نواز ترک اسلام پسندوں کی عین جمہوری شرائط پر اردوگان کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست بھی امریکہ کو منظور نہیں تھی۔ اگرچہ ترکی سیاسی اور معاشی طور پر مغربی سیکولر اقدار پر کاربند ہے، لیکن وہاں عمومی مسلم معاشرے کی سماجی اور مذہبی اقدار کی واپسی کا آغاز ہو چکا تھا، اور یہ بات امریکہ اور یورپ کے لیے سخت ناگوار تھی۔ صاف نظر آ رہا تھا کہ ترکی کو شام بنانے میں امریکی اور یورپی دلچسپی اب جنون میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے اور یہ بغاوت اسی کا اظہار ہے۔
    اگر سیاسی طاقت اور مہا سرمائے میں قومی مقاصد کی ہم آہنگی نہ پائی جائے تو ملک بہت جلد بحران کا شکار ہو جاتا ہے۔ ترکی میں میڈیا کا بڑا حصہ بدترین غدار گلین کے حواریوں کے پاس تھا۔ بدترین غدار گلین کے امریکہ میں ترک چارٹر اسکولوں میں گزشتہ کئی دہائیوں میں اسلام کے جھانسے میں تیار ہونے والی ایک پوری کی پوری نسل پولیس، عدلیہ اور بیوروکریسی پر قابض تھی اور فوج میں بھی ان کی خاطر خواہ موجودگی تھی۔ بدترین غدار گلین سعید نورسیؒ کی صوفی تحریک کا پیروکار تھا اور اپنے مرشد کی رسوائی کا بھی باعث بنا۔ بعد ازاں، اس نے سیکولرزم اور صوفی اسلام کا ایک ملغوبہ تیار کر لیا تھا، جو جدیدیت پسند، اور شدت کے ساتھ اسرائیل اور امریکہ نواز تھا۔ بدترین غدار گلین کا اسلامی پیکج جدید تعلیم یافتہ متوسط اور خوشحال طبقے میں بہت مقبول تھا، لیکن عوام میں اس کی کوئی پذیرائی نہ تھی، جبکہ اردوگان کی پارٹی عوام میں جڑیں رکھتی تھی۔ بدترین غدار گلین کے پیروکار اسلام اور امریکہ سے یکساں ہمدردی رکھتے تھے، اور ترکی سے زیادہ اس کے تابع فرمان تھے۔ سب سے اہم بات یہ کہ ترکی میں مہا سرمائے کے بڑے مالکان بدترین غدار گلین کے ہمنوا تھے اور اس کے اشارے پر اور امریکی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے اپنے وسائل اردوگان کے خلاف استعمال کرتے تھے۔ جب 2013ء میں اردوگان اور بدترین غدار گلین میں اختلاف ہوا تو اردوگان نے پس پردہ اس کے حل کی ہر ممکن کوشش کی اور کہا کہ اس اختلاف کو پبلک میں نہ لایا جائے، لیکن اسے ناکامی ہوئی۔ اس کے بعد بدترین غدار گلین کی حزمت تحریک نے سیکولر طبقے اور علویوں کے ساتھ مل کر اردوگان کے خلاف کام شروع کیا۔ اب تک اردوگان پولیس، میڈیا اور کسی حد تک عدلیہ میں ان کی تطہیر کر چکا تھا۔ خوش قسمتی سے بدترین غدار گلین کے مہا سرمائے کو بھی اردوگان بے اثر کرنے میں کامیاب ہو چکا تھا، اور اگلا مرحلہ فوج کی تطہیر تھی جو چند ہفتوں میں شروع ہونے والی تھی کہ یہ بغاوت پھوٹ پڑی۔
    اگر اس موقع پر الطاف حسین کے برطانیہ میں قیام اور بدترین غدار گلین کی امریکہ میں موجودگی کو پیش نظر رکھا جائے تو منظرنامہ اور واضح ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی سیاسی یا مذہبی لیڈر عوام میں جڑیں رکھتا ہو، ان پر اثرانداز ہو سکتا ہو، اور قومی طاقت کے نظام کے حدود و قیود سے باہر ہو، تو اس سے یہ ہرگز مراد نہیں ہوتا کہ وہ طاقت کے کسی نظام کا حصہ نہیں ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے۔ ایسا لیڈر لازمی طور پر طاقت کے ایسے نظام کا حصہ ہوتا ہے جو قوم و ملک سے باہر قائم ہوتا ہے۔ بڑی سماجی اور سیاسی حیثیت کو طاقت کے نظام سے لاتعلقی میں برقرار رکھنا ممکن ہی نہیں ہوتا۔ الطاف حسین اور بدترین غدار گلین طاقت کے ایسے نظام کا حصہ ہیں جس کی ترجیحات اور مقاصد ان کے اپنے ملکوں سے قطعی مختلف اور متضاد ہیں۔ یہ کوئی نظری بات نہیں، واقعات میں ظاہر ہے۔
    ترکی میں ہونے واقعات کا منبع صرف داخلی صورت حال میں تلاش کرنا نہایت نادانی اور بےخبری کی بات ہے۔ امریکہ اور یورپ ایسی جمہوریت کو قبول کرنے کے لیے تو بدل و جان تیار رہتے ہے جس کے سیاسی اور ثقافتی مظاہر مسلم معاشرے کی عین ضد ہوں، اور جس سے عوام کے معاشی استحصال اور سیکولرائزیشن کا عمل آگے بڑھ سکے۔ لیکن ایسی جمہوریت جس سے مسلم معاشرے میں معاشی ترقی، سیاسی استحکام اور عسکری قوت پیدا ہو، وہ ان کے لیے تشنج کے دورے کا باعث ہو جاتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس کی مثال کی بھی ضرورت نہیں۔ ترکی کی اس بغاوت کے تقریباً سارے اسباب عالمی طاقت کے نظام میں دیکھے جا سکتے ہیں، جس میں بدترین غدار گلین اور اس کی حزمت تحریک صرف ایک مہرے کا کام کر رہی تھی۔
    ترک بغاوت کی منصوبہ بندی سے صاف اندازہ ہو جاتا ہے کہ باغی 1973ء میں چلی کے خونیں فوجی انقلاب کو ماڈل کے طور پر استعمال کر رہے تھے، اور اس دفعہ ان کے عزائم بہت زیادہ خطرناک تھے۔ ان کی جنگی کاروائیوں اور خونریزی سے صاف اندازہ ہو رہا تھا کہ یہ لوگ پورے ملک اور معاشرے کا ملبہ بنانے کی تیاری کر کے آئے تھے۔ جب ایک بار باغی ملک کا ملبہ بنا لیتے ہیں تو ملبہ سازی کا دوسرا مرحلہ استعماری طاقیتں خود شروع کرتی ہیں، جیسا کہ لیبیا میں ہوا۔ اس بغاوت کا مقصد واضح طور پر ترکی کو شام اور عراق کی حالت تک پہنچانا تھا۔ یہ بغاوت محض پہلا رؤانڈ تھا، اصل کہانی اس کے بعد شروع ہونے والی تھی۔ ان مقاصد کا اندازہ ان تجزیوں کے مطالعے سے بخوبی ہو جاتا ہے جو ناکام بغاوت کے بعد مغربی میڈیا میں شائع ہوئے۔ باغیوں کا مقصد صرف اردگان کو ہٹانا نہیں تھا۔ یہ باقاعدہ regime change کا منصوبہ تھا، جو ناکام ہو گیا۔ ایسا منصوبہ پینسلوانیہ کی رینچ میں بیٹھ کر تیار نہیں ہوا کرتا۔ اس کے لیے کسی بڑے ”دست شفقت“ کی ضرورت ہوتی ہے جس سے لاطینی امریکہ، افریقہ اور مسلم دنیا کی مقہور عوام بہت خوب واقف ہیں۔
    میری ناچیز رائے میں بغاوت کی ناکامی کے باوجود کئی استعماری مقاصد تو فوری طور پر حاصل ہو گئے ہیں۔ یہ بات تو درست ہے کہ اردگان کی سیاسی حیثیت مضبوط ہو گئی ہے، لیکن ترکی کمزور ہو گیا ہے۔ بغاوت نے ترک فوج کی ساکھ کو بہت گہرے طور پر متاثر کیا ہے اور تطہیر کی وجہ سے فوج کے مزید کمزور ہونے کا اندیشہ ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب کردوں کے خلاف فوجی آپریشن ہو رہا ہے، اور ترکی کی سرحدوں پر جنگ جاری ہے، ترک فوج کی کمزوری ترکی کے لیے خوش آئند نہیں۔ پھر یہ فرض کر لینا بھی سادہ لوحی ہے کہ استعماری قوتیں باز آ جائیں گی۔ امریکی اور یورپی مفادات میں ترکی ازحد اہمیت کا حامل ہے۔ اگر ترکی اور نیٹو کے تعلقات خراب ہوتے ہیں تو پورے علاقے میں امریکی ایجنڈے کو سخت دھچکا لگنے کا امکان ہے۔ یہ امر امریکی اور یورپی ماہرین کے روہانسے تجزیوں سے صاف نظر آ رہا ہے۔ (جاری ہے)