Tag: ہندوستان

  • ہندوستان کے عجائبات اور 17 سوال – ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی

    ہندوستان کے عجائبات اور 17 سوال – ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی

    رضی الاسلام ندوی آج کل بھوپال کی سینٹرل جیل (جسے انتہائی سخت سیکورٹی والی جیل سمجھا جاتا ہے اور اس معاملے میں اسے ISO کی سند حاصل ہے) سے فرار ہونے والے ملزمان کے انکاؤنٹر کا معاملہ میڈیا میں گرم ہے اور طرح طرح کی حیرت انگیز معلومات سامنے آرہی ہیں، مثلاً:
    1. وہاں کے بھاری بھرکم اور مضبوط ترین تالے لکڑی اور چمچوں سے بنی ہوئی چابیوں سے کھل گئے_
    2. اسٹیل کی پلیٹ کی دھار سے ایک جاں باز پولیس افسر کا بہیمانہ قتل کردیا گیا_
    3. ملزموں نے جیل کی چادروں اور کمبلوں میں لکڑی کے ٹکڑے فٹ کرکے لمبی سیڑھی بنائی، جس کی مدد سے 30 فٹ اونچی دیوار کود گئے _
    ہندوستانی حکم رانوں کو ان چیزوں کو اکیسویں صدی کے عجائبات میں شامل کرکے انھیں کسی میوزیم میں محفوظ کردینا چاہیے اور اس پر بھاری ٹکٹ لگا دینا چاہیےدنیا بھر کے سیاح انھیں دیکھنے آئیں گے تو ملک کو خطیر زرمبادلہ حاصل ہوگا.
    مذکورہ بالا بیانات سے کچھ اور گتھیاں ہیں، جو سلجھنے کے بجائے مزید الجھ رہی ہیں :
    4. تین الگ الگ بیرکوں سے 8 ملزم اکٹھا ہوئے اور جیل انتظامیہ کو کیسے خبر نہیں ہوپایی؟
    5. قیدی خالی ہاتھ ہوتے ہیں، پھر ملزموں نے لکڑی اور چمچوں کی چابیاں کیسے تیار کرلیں؟
    6. انھیں اتنی چادریں اور کمبل کہاں سے مل گئے؟ ظاہر ہے کہ 8 چادروں اور کمبلوں سے اتنی لمبی سیڑھی نہیں بنائی جا سکتی ہے

    7. کیا کپڑوں کی سیڑھی جیل کی بیرونی بلند دیوار پر اٹکائی جا سکتی ہے ؟
    8. ملزموں کے جمع ہونے، چادروں کو اکٹھا کرنے اور سیڑھی تیار کرنے میں کچھ نہ کچھ وقت لگا ہوگا_اس عرصے میں جیل کی انتظامیہ غافل کیسے رہی؟
    9. کیا انتہائی سیکورٹی والی جیل کی چوکیداری صرف ایک پولیس افسر کر رہا تھا؟
    10. پولیس افسر کا گلا ریت کر اسے قتل کردیا گیا، لیکن وہ نہ چیخا نہ چلّایا، جس سے دوسرے پولیس والوں کو خبر ہوجاتی؟
    11. ملزموں نے جیل کی بیرونی دیوار پر سیڑھی فٹ کی، ایک ایک کرکے دیوار پر چڑھے، پھر ایک ایک کرکے باہر اترے، لیکن ٹاور کے چوکیداروں کو ان کی بھنک نہ لگ سکی؟
    12. جیل انتظامیہ کو کب اور کیسے ملزموں کے فرار ہونے کی اطلاع ملی؟
    13. ملزموں کو جیل سے باہر آتے ہی عمدہ لباس، امپورٹڈ جینس شرٹ اور گھڑیاں وغیرہ کہاں سے مل گئیں؟
    14. انھیں اسلحہ، پستول، گڈاسا وغیرہ کس نے فراہم کیا؟
    15. ملزم جیل سے نکنے کے 8 گھنٹے بعد بھی زیادہ دور کیوں نہیں جا سکے؟ تھوڑے فاصلے ہی پر رہے؟
    16. اتنے عرصے تک سب ایک ساتھ کیوں رہے؟ وہ الگ الگ کیوں نہیں فرار ہویے؟
    17. ماہر، تربیت یافتہ اور اسلحہ سے لیس پولیس نے کیوں انھیں زندہ پکڑنے میں دل چسپی نہیں دکھائی؟

    یہ اہم سوالات ہیں، جو جواب چاہتے ہیں، اس لیے کہ ان سے ہمارے ملک کی سیکورٹی وابستہ ہے، اور سب سے بڑا سوال تو یہ ہے کہ ملزموں کے SIMI کا ممبر ہونے کا جو دعوی کیا جا رہا ہے، اس کا ثبوت کیا ہے؟ جس طرح ملک کا ہر ہندو RSS کا ممبر نہیں ہے، اسی طرح ملک کے ہر مسلمان کو SIMI کا ممبر نہیں قرار دیا جا سکتا، جب تک کہ اس کا ثبوت نہ پیش کیا جائے.

  • ہندوستانی اداکار پاکستان سےکتنی نفرت کرتے ہیں؟ روبینہ فیصل

    ہندوستانی اداکار پاکستان سےکتنی نفرت کرتے ہیں؟ روبینہ فیصل

    ایک پاکستانی کو وطن سے محبت ایک ہندوستانی سے سیکھنی چاہیے۔
    پاکستان کی سیاسی اشرفیہ، بیوروکریسی، سفیر، دانشور، میڈیا اور ادیب، کوئی بھی پاکستانیوں کو پاکستانیت نہیں سکھا سکا۔ کیوں؟
    کیوں کہ پاکستان کی بد قسمتی ہے کہ اس کا نمک کھانے والے سب کے سب نمک حرام ہیں۔ جس کو پاکستان نے جتنا نوازا، اس نے اتنی ہی احسان فراموشی کی۔ اعلی تنخواہیں اور مراعات لینے والے، دوسرے کی بے ایمانیوں پر لیکچر دیتے اورخود پارسا بن کر کہتے ہیں:
    ”اوہ! پاکستان ہے ہی بڑا گندا ملک۔“
    اگر اتنا ہی گندا ہے تو اس کے بدن سے تعلیم، عہدے، نام اور تنخواہیں کیوں نوچتے رہے؟

    جےگرے وال (کینیڈا میں بسنے والا ایک نوجوان سکھ لڑکا جو آزاد خالصتان کا خواب دیکھتا ہے) بڑی حیرت اور حسرت سے کہتا ہے:
    ”مجھے آپ کے پاکستانیوں پر حیرت ہوتی ہے کہ وہ اپنے گھر کی قدر نہیں کرتے اور اسے گالیاں دیتے ہیں۔ ہم سے پوچھیں کہ پوری دنیا میں اپنا گھر نہ ہونے کا کیا مطلب ہے؟ اپنا گھر مٹی کا بھی ہو تو اپنا ہی ہوتا ہے۔ ہمیں جناح نے ٹھیک کہا تھا کہ یہ ہندو تمھیں اپنا غلام بنا لےگا، وہی ہوا ۔آج وہ کہتے ہیں سکھ ازم بھی ہندوازم ہی ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ نہیں ہے مگر ہماری آواز کوئی نہیں سنتا، آپ اپنے جعلی دانشوروں سے کیوں نہیں کہتیں کہ یہاں بیٹھ کر انڈیا کی تعریفیں کرنے کے بجائے، جا کر بھارت میں رہ کر تو دیکھیں۔“

    جے کو کیا پتہ دنیا داری کے حساب سے پاکستان سے محبت سراسر گھاٹے کا سودا ہے، جو مجھ جیسے چند سر پھرے، کسی معاوضے یاذاتی نمائش کی لالچ کے بغیر کیے جا رہے ہیں کیونکہ یہ محبت میری ہے، کسی پر احسان نہیں۔
    کم ظرف عاشق محبوبہ سے پوچھتا ہے کہ میرے لیے کیا کیا، اعلی ظرف عاشق محبوبہ سے پوچھتا رہتا ہے بتاؤ تمھارے لیے کیا کروں؟
    ہمارے کم ظرف لوگ پاکستان سے سوال پوچھتے ہیں ہمارے لیے کیا کیا؟ کھبی اپنے آپ سے یہ سوال نہیں پوچھتے کہ انہوں نے پاکستان کے لیے کیا کیا؟

    ہمارے سیاسی، سرکاری، ادبی لیڈر اپنی نااہلی، احساس ِکمتری اور بدنیتی کی وجہ سے، پاکستان کی جو محبت لوگوں کے دلوں میں نہیں ڈال سکے، وہ شاید جے گرے وال کی حسرت سے یا بھارتی صحافیوں، دانشوروں، حکمرانوں، اور اداکاروں کی اپنے وطن سے محبت دیکھ کر ان کے دلوں میں بھی اتر آئے۔ آئیے دیکھیے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں:

    راجیش اوم پرکاش: ”پاکستان گھس گھس کر حرکتیں کرتا ہے، دیش کو غصہ تو آئےگا، جب اُڑی کیمپ میں ہمارے لوگ جل بھن جائیں گے۔ امن کی بات خواب ہے۔ جب ملک حالت ِجنگ میں ہوتے ہیں تو فنکار علیحدہ نہیں رہ سکتے۔“
    وارن دھوان: ”ہم اپنی حکومت کے ساتھ ہیں۔ وہ جو بھی کر یں ہم ساتھ ہیں۔“
    سیف علی خان: ”ہم فنکار ہیں، ہمیں محبت کی بات کر نی چاہیے مگر حکومت فیصلہ کر ے گی۔“
    اعجاز خان: ”پاکستان سے کوئی چیز نہیں لینی چاہیے، کیوں لینی چاہیے؟ کرن جوہر پاکستان سے لے آتا ہے، شاہ رخ خان سے یہی کہوں گا یہاں لڑکیاں مر گئی ہیں کیا جو پاکستان سے لے آتے ہو؟ ابھی جو فلمیں بنا گئے ہیں چلنے دو، ورنہ ہندوستان کا نقصان ہوگا۔“
    جان ابراہام: ”ہم اپنے ملک، اپنے سپاہیوں، اپنے لوگوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہمیں انڈین آرمی پر فخر ہے۔“
    سناکشی: ”ہم اپنے ملک سے پیار کرتے ہیں اور فوج کے شکر گذار ہیں کہ انہوں نے سرجیکل اٹیک کیے ۔“
    اکشے کمار: ”میں فنکار کی حیثیت سے نہیں، فوجی آفیسر کے بیٹے کی حیثیت سے بات کر رہا ہوں ۔ آپ لوگوں کو پاکستانی فنکاروں کے بین ہو نے پر سوال کی پڑی ہے، وہاں کسی جوان نے سرحد پر اپنی جان دے دی ہے۔ ہمارے ہزاروں فوجیوں کو ہمارے مستقبل کی چنتا ( پریشانی ) ہے۔ فوج نہیں تو ہم نہیں۔“
    نانا پاٹیکر: ”ہمارے فوجی جوان سب کچھ ہیں۔ ہم نقلی لوگ ہیں۔ جو پٹر پٹر کرتے ہماری کوئی اوقات نہیں۔ پاکستانی آرٹسٹوں کو، سلمان خان نے کہا، حکومت نے ویزہ دیا، وہ دہشت گرد نہیں، ٹھیک ہے دیا مگر اب جب جنگ ہے تو ہمیں الگ ہو نا چاہیے، پہلے دیش پھر ہم، دیش کے سامنے ہم کھٹمل ہیں۔“
    انوملک: ”میں ہندوستان کی مٹی سے بنا ہوں۔ ہندوستان ہے، تو انو ملک ہے۔ ہم وہی کر یں گے جو حکومت کہے گی۔“
    نوازالدین: ”دیش سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔ اُڑی حملے کے بعد ان پاکستانی فنکاروں کو ملک سے باہر نکل جا نا چاہیے۔“
    اجے دیوگن: ”پاکستانی آتے ہیں، ہمیں مار جاتے ہیں، ہمیں تھپڑ مارتے ہیں، ہمیں پھر بھی مذاکرات کر نے چاہیں؟“
    جیتندر: ”جو بھی دیش کے لیے فیصلے کر رہے ہیں ہم ان کے ساتھ ہیں۔“
    سونالی باندرے : ”پاکستانی ہمارے دوست نہیں ہیں۔ ہمیں ان کے ساتھ کوئی بزنس نہیں کر نا چاہیے۔ ہم اپنی حکومت کے ساتھ ہیں۔“
    شیو سینا: ”سلمان خان کو سبق سکھائے جانے کی ضرروت ہے، وہ پاکستان چلے جائیں۔“
    سنیل سیٹھی: ”حکومت صحیح فیصلہ کر تی ہے۔ جب تک حالات ٹھیک نہ ہوں، پاکستانی فنکاروں کو دور رہنا چاہیے۔“
    راجو سری واستو:”لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔ اوم پوری کے بیان کی وجہ سے ہم سب فنکاروں کا سر شرم سے جھک گیا۔ ان کی بجلی بھی کاٹ دینی چاہیے اور ان کا حقہ پانی بند کر دینا چاہیے، پٹرول، ڈیزل بند کر دینا چاہیے، کھاتے ہندوستان کا اور گاتے پاکستان کا، کوئی لوگ کہتے ہیں کہ اگر پاکستان نہ ہو تا تو ہم دیش بھگت (محب ِوطن) نہ ہوتے، ارے! اگر ہم دیش بھگت ہوتے تو یہ پاکستان ہی نہ ہوتا۔ انڈین آرمی سے کہتا ہوں کہ سرجیکل سٹرائیک کریں۔ اور ہمیں بھارتی سینا (فوج) پر اعتبار کر نا چاہیے اور جو لوگ ان پر اعتبار نہیں کر تے، وہ غدار ہیں۔“

    اوم پوری کا قصور بھی دیکھ لیتے ہیں..
    ایک انتہائی شدت پسند میزبان، جو انہیں سلمان خان کے اس بیان جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ”پاکستانی فنکاروں کو حکومت کی اجازت سے بلایا جاتا ہے اور فنکار دہشت گرد نہیں ہو تے۔“ کی حمایت کرنے پر انتہائی بدتمیزی سے پوچھ رہا تھا کہ ایسا کیوں کیا؟
    اوم پوری نے جواب دیا:
    ”کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم اسرائیل اور فلسطین بن جائیں، تو اپنی سرکار سے کہیں ان کا ویزہ کینسل کریں۔ کیوں پاکستانی کلاکاروں کو ویزہ دیتے ہیں؟ انڈیا میں بائیس کروڑ مسلمان بھائی رہتے ہیں، کیوں ان کو بھڑکا رہے ہو؟ انڈیا جھوٹی فلمیں بنا کے پاکستان پر تھوپتا رہا ہے.“
    اس پروگرام میں میزبان سمیت جتنے لوگ تھے، اوم پوری پر پِل پڑے، کہا گیا کہ آپ ایک گندے آدمی ہیں، آپ نے ہمارے دیش کی گردن جھکا دی، ہم آپ کو سنجیدہ سمجھتے تھے، آپ کو دیش کو سمجھنے کی ضرورت ہے، اتنا ہنگامہ شروع ہوگیا کہ اوم پوری کی آواز دب گئی، انہوں نے کہا کہ نوجوان نہ جائیں پھر فوج میں۔ کہنے کا مقصد تھا کہ فوج میں ہیں، لڑائی ہوگی تو شہید ہوں گے، مگر اس بات کو دیکھتے ہی دیکھتے اتنا غلط رنگ دے دیا گیا کہ اگلے ہی دن اوم پوری نے آن ائیر آکرفوج، ہلاک ہونے والے فوجی کے گھر والوں سے، پوری قوم سے کہا:
    ”میں اس جرم کی معافی نہیں مانگ رہا بلکہ اپنے آپ کو مجرم قرار دے کر سزا مانگ رہا ہوں، میرا کورٹ مارشل ہونا چاہیے۔ آرمی مجھ سے جوتے پالش کر وائے، کھانا لگوائے۔“

    دوسری طرف عاطف اسلم سے ایک ہندوستانی رپوٹر پوچھتا ہے: ”ہم اپنی فلموں میں پاکستان کو گالیاں دیتے ہیں۔ آپ لوگ انھی فلموں میں کام کر کے پیسے لیتے ہو، کیسا لگتا ہے اپنے دشمن دیش کے ساتھ بیٹھ کے اپنے دیش کو گالی کھاتے دیکھنا؟“
    عاطف: فنکار کی کوئی سیما نہیں ہوتی، کوئی مذہب نہیں ہوتا، کوئی زبان نہیں ہوتی۔“
    فواد خان کاایک ڈرامے کا ڈائلاگ ہے: ”وہ لاکھ دفعہ ناراض ہوتی، میں لاکھ دفعہ مناتا رہتا، مگر یہ جو اس نے اپنی دولت سے میری عزتِ نفس کا سودا کرنے کی کوشش کی ہے، اسے معاف نہیں کر سکتا.“
    کاش فواد خان اور دوسرے پاکستانی اداکاروں کی یہ عزت ِنفس حقیقی زندگی میں بھی زندہ ہوتی، جو انڈیا کی محبت میں دفنا دی گئی ہے۔

  • غزوہ سِندھ و ہِند، نبوی پیشین گوئیوں کی روشنی میں – ڈاکٹر عصمت اللہ

    غزوہ سِندھ و ہِند، نبوی پیشین گوئیوں کی روشنی میں – ڈاکٹر عصمت اللہ

    غزوہ ہند و سندھ اسلامی تاریخ کا ایک درخشاں باب ہے، اس کا آغاز خلفائے راشدین کے عہد سے ہوا جو مختلف مراحل سےگذرتا ہوا آج 2016ء میں بھی جاری ہے اور مستقبل میں اللہ بہتر جانتا ہے کہ کب تک جاری رہےگا۔ اس کی دینی بنیادوں پر غور کریں تو حقیقت یہ ہے کہ ایک لحاظ سے غزوہ ہند، نبوی غزوات و سرایا میں شامل ہے، ہماری نظر میں نبوی غزوات کی بلحاظِ زمانہ وقوع دو بڑی قسمیں ہیں:
    ۱) غزواتِ ثابتہ یا واقعہ: یعنی وہ جنگیں جو رسول اکرم ﷺ کی زندگی میں، وقوع پذیر ہو چکیں، سیرت نگاروں اور محدثین کی اصطلاح میں ان غزوات کی دو قسمیں ہیں:
    غزوہ: وہ معرکہ جس میں آپ ﷺ نے بذاتِ خود شرکت فرمائی اور جنگ میں صحابہ کی کمان اور قیادت کی۔ تعداد کے اعتبار سے تقریبا 27 ایسی جنگیں ہیں جن میں نبیﷺ نے بذاتِ خود شرکت فرمائی۔ (۱)
    سریہ: محدثین اور سیرت نگاروں کی اصطلاح میں وہ جہادی مہمات جن میں آپ نے بذاتِ خود شرکت نہیں فرمائی بلکہ کسی صحابی کو قیادت کے لیے متعین فرمایا، سریہ کہلاتی ہیں، اور کتبِ حدیث و سیرت میں تفصیلی تذکرہ موجود ہے.
    زمانی تقسیم کے لحاظ سے یہ دونوں قسمیں غزواتِ واقعہ کے ذیل میں آتی ہیں۔

    ۲) غزواتِ موعودہ: اس قسم میں وہ سب جنگیں اور غزوات شامل ہیں جو نبی اکرم ﷺ کی وفات کے بعد آپ کی بشارت اور پیشین گوئی کے نتیجہ میں وقوع پذیر ہوئیں، یا مستقبل میں کسی وقت وقوع پذیر ہوں‌گی۔
    غزواتِ موعودہ کی مثال نبی اکرم ﷺ کی وہ پیشین گوئی ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے، فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: قیامت سے قبل تم چھوٹی آنکھوں، سرخ چہروں، اور چپٹی ناک والے ترکوں سے جنگ کروگے‘ ان کے چہرے گویا تیر زدہ ڈھالیں ہیں (۲)
    غزواتِ موعودہ کی ایک اور مثال فتحِ قسطنطینیہ کی نبوی پیشن گوئی ہے، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: قیامت سے قبل یہ واقعہ ضرور پیش آئے گا کہ اہلِ روم اعماق یا دابق (۳) کے قریب اتریں گے تو ان سے جہاد کے لیے روئے زمین پر اُس وقت کے بہترین لوگوں پر مشتمل ایک لشکر مدینہ منورہ سے نکلے گا، جنگ کےلیے صف بندی کے بعد رومی کہیں گے: ہمارے مقابلہ کے لیے ان لوگوں کو ذرا آگے آنے دیجیے جو ہماری صفوں سے آپ کے ہاتھوں قیدی بنے، اب وہ آپ کی جانب سے ہمیں قید کرنے کی نیت سے آگئے ہیں، ہم ان سے خوب نمٹ لیں گے، مسلمان جواباً ان سے کہیں گے: بخدا ہم اپنے بھائیوں کو تمھارے ساتھ اس لڑائی میں اکیلا نہیں چھوڑ سکتے، اس کے بعد جنگ ہوگی جس میں ایک تہائی مسلمان شکست خوردہ ہو کر پیچھے ہٹ جائیں گے، اللہ تعالی ایسے لوگوں کی توبہ ہرگز قبول نہیں فرمائےگا۔ ایک تہائی لڑ کر شہادت کا درجہ حاصل کریں گے، یہ لوگ اللہ تعالی کے ہاں افضل ترین شہداء کا مقام پائیں گے۔ باقی ایک تہائی مسلمانوں کو اللہ تعالی فتح سے ہمکنار فرمائیں گے، ان کو آئندہ کسی آزمائش سے دوچار نہیں کیا جائے گا، یہی لوگ قسطنطینیہ کو آخری مرتبہ فتح کریں گے۔ (۴)

    نبوی غزوات میں سرکارِ دو عالم کی قیادت میں کفار کے خلاف جہاد میں شرکت کے لیے صحابہ کرام بے پناہ شوق اور جذبہ رکھتے تھے، ایسا شوق، سچے ایمان کا تقاضا اور حقیقی حب رسول ﷺ کی علامت تھی۔ لیکن نبی اکرم ﷺ کے مبارک عہد کے بعد جب آپ کی قیادت میں جہاد کی سعادت حاصل کرنے کا موقع باقی نہ رہا تو سلفِ صالحین ایسے مواقع کی تلاش میں رہتے تھے کہ کم از کم آپ کی پیشین گوئی والے معرکہ میں شرکت کی سعادت ضرور حاصل کرسکیں۔ اس ضمن میں ایک دلچسپ واقعہ حضرت عمر بن عبد العزیز ؒ کے عم زاد اور سالے، مشہور تابعی کمانڈر حضرت مسلمۃ بن عبد الملک بن مروان کے بارے میں کتبِ حدیث و تاریخ میں نقل ہوا ہے۔ اس کی تفصیل یوں ہے کہ حضرت عبداللہ بن بِشر بن سحیم الخثعمی، الغنوی رضی اللہ عنہ اپنے والد حضرت بِشر ؓ سے ایک حدیث بیان کرتے تھے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو ارشاد فرماتے سنا کہ: قسطنطینیہ کا شہر ضرور فتح ہوگا‘ اس فاتحانہ مہم کا امیرِ لشکر بہترین امیر اور لشکرِ مجاہدین بہترین لشکر ہوگا‘‘۔ (ملاحظہ ہو: مسند احمد ۴/۲۳۵ مسند بِشر بن سحیم الخثعمی:۱۸۱۸۹‘ المستدرک علي الصحیحین للحاکم۴/۴۶۸ ‘ حدیث:۸۳۰۰‘ الاِصابۃ ۱/۳۰۸‘ ترجمہ نمبر:۶۵۸) یہ حدیث حضرت مسلمۃ بن عبدالملک کے علم میں آئی تو انہوں نے اس کے راوی حضرت عبد اللہ بن بِشر کو بلوا بھیجا، حضرت عبد اللہ فرماتے ہیں کہ جب میں ان سے ملا تو انہوں نے مجھ سے اس حدیث کے متعلق پوچھا تو میں نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے ان کو یہ حدیث سنائی، چنانچہ انہوں نے مجھ سے یہ حدیث سننے کے بعد قسطنطینیہ پر چڑھائی کا فیصلہ کیا۔

    احادیثِ غزوہ ہند میں امام بیہقی نے حضرت ابو ہریرہ ؓ کی جو روایت نقل کی ہے، اس میں حضرت اِمام ابواِسحاق فزاری کا قول نقل کیا ہے کہ جب انہوں نے یہ حدیث سنی تو ابنِ داؤد سے اپنی اس خواہِش کا اظہار کیا: کاش کہ مجھے رومیوں کے ساتھ جنگ و جہاد میں گذری ساری عمر کے بدلے میں ہندوستان کے خلاف نبوی پیشین گوئی کے مطابق کسی ایک جِہادی مہم میں حصہ لینے کا موقع مل جاتا‘‘۔ اِمام ابواِسحاق فزاری رحمہ اللہ کی اس تمنا کی عظمت کا اندازہ ان کے مناقب کے ضمن میں، حضرت فضیل بن عیاض رحمہ اللہ تعالی کے اس خواب سے لگایا جا سکتا ہے جو امام ذہبی نے سیر أعلام النبلاء میں نقل کیا ہے۔ انہوں نے خواب میں دیکھا کہ نبیﷺ کی مجلس لگی ہوئی ہے، اور آپ کے پہلو میں ایک نشست خالی ہے تو میں نے ایسے موقع کو نادر اور غنیمت سجھتے ہوئے اس پر بیٹھنے کی کو شش کی تو نبیﷺ نے یہ کہتے ہوئے منع فرما دیا کہ یہ نشست خالی نہیں بلکہ ابواِسحاق فزاری کے لیے مخصوص ہے. (۵)

    غزوہ سندھ و ہِند کے متعلق نبوی پیشین گوئی
    غزوہ ہند و سندھ بھی نبیﷺ کے غزواتِ موعودہ کی ذیل میں آتا ہے اور اس کی بشارت، پیشین گوئی اور فضیلت کے متعلق نبی کریم ﷺ سے متعدد احادیث مروی ہیں۔ اہلِ علم و فضل ان احادیث کا تذکرہ اپنی تقریروں اور تحریروں میں ضرور کرتے رہتے ہیں لیکن عام طور پر کسی حوالہ کے بغیر، ہم نے مقدور بھر محنت کرکے بےشمار کتب و مصادرِ حدیث کو کھنگالا، ان احادیث کو تلاش کیا، ترتیب دے کر ان کا درجہ بلِحاظ صحت و ضعف معلوم کیا، ان ارشاداتِ نبویہ کے معانی و مفاہیم پر غور و فکر کیا اور ان سے ملنے والے اشارات و حقائق اور پیشین گوئیوں کو قرطاس پر منتقل کیا، اب ہم اپنی اس محنت کے نتائج سب مسلمان بھائیوں کی خدمت میں بالعموم اور برصغیر نیز کشمیر کے مسلمانوں کی خدمت میں بالخصوص پیش کرتے ہوئے یک گونہ خوشی اور مسرت محسوس کرتے ہیں۔

    ہماری معلومات کے مطابق ایسی احادیث نبویہ کی تعداد پانچ ہے جن کے راوی تین جلیل القدر صحابہ کرام حضرت ابو ہریرہ، جن سے دو حدیثیں مروی ہیں، حضرت ثوبان اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہم اجمعین اور تبع تابعین میں سے حضرت صفوان بن عمرو رحمہ اللہ تعالی ہیں۔
    ذیل میں ہم ان شاء اللہ تعالیٰ ان سب احایث کو ذکر کریں گے، پھر ان کی علمی تخریج (ان کتبِ حدیث اور محدثین کا حوالہ جنہوں نے ان کا تذکرہ کیا ہے) کے بعد ان سے استنباط شدہ شرعی احکام اور فوائداور دروس کو بیان کریںگے۔

    (ا) حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ
    سب سے پہلی حدیث حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:
    [pullquote] حدثنی خلیلی الصادق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أنہ قال: یکون فی ھذہ الأمۃ بعث إلی السند والہند فان انا اادرکتہ فاستشھدت فذلک وان انا رجعت وانا ابوھریرۃ المحرر قد أعتقنی من النار[/pullquote]

    ان الفاظ کے ساتھ اس حدیث کو صرف امام احمد بن حنبل نے مسند میں روایت کیا ہے اور ابن کثیر نے انھی کے حوالے سے البدایۃ و النہایۃ میں نقل کی ہے۔ (۶) قاضی احمد شاکر نے مسند احمد کی شرح و تحقیق میں اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے۔ (۷)
    (ترجمہ) میرے جگری دوست رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے بیان کیا اور فرمایا: اس امت میں سِندھ و ہند کی طرف (لشکروں کی) روانگی ہوگی، اگر مجھے ایسی کسی مہم میں شرکت کا موقع ملا اور میں (اس میں شریک ہو کر) شہید ہو گیا تو ٹھیک، اگر (غازی بن کر) واپس لوٹ آیا تو میں ایک آزاد ابوہریرہ ہوں گا جسے اللہ تعالیٰ نے جہنم کی آگ سے آزاد کر دیا ہوگا۔
    امام نسائی رحمہ اللہ نے اسی حدیث کو اپنی کتاب السنن المجتبی اور السنن الکبری دونوں میں مندرجہ ذیل الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔
    [pullquote]وعدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۃ الھند فان ادرکتھا انفق فیھا نفسی و مالی فان اقتل کنت من اافضل الشھداء وان ارجع فانا ابوہریرۃ المحرر (۸)[/pullquote]

    (ترجمہ) نبی کریم ﷺ نے ہم سے غزوہ ہند کا وعدہ فرمایا۔ اگر مجھے اس میں شرکت کا موقع مل گیا تو میں اپنی جان و مال خرچ کر دوں گا، اگر قتل ہوگیا تو میں افضل ترین شہداء میں شمار ہوں گا، اور اگر واپس لوٹ آیا تو ایک آزاد ابو ہریرہ ہوں گا۔
    امام بیہقی رحمہ اللہ نے بھی السنن الکبری میں یہی الفاظ نقل کیے ہیں۔ انہی کی ایک دوسری روایت میں یہ اضافہ بھی ہے۔ مسدد نے ابن دائود کے حوالہ سے ابواسحاق االفزاری (ابراھیم بن محمد، محدثِ شام اور مجاہد عالم، وفات ۱۸۶ہجری) کے متعلق بتایا کہ وہ کہا کرتے تھے: [pullquote]وددت أنی شھدت ماربد بکل غزوہ غزوتھا فی بلاد الروم[/pullquote]

    (میری خواہش ہے کہ کاش ہر اس غزوہ کے بدلے میں، جو میں نے بلا دروم میں کیا ہے، ماربد(عرب سے ہندوستان کی سمت مشرق میں کوئی علاقہ) میں ہونے والے غزوات میں شریک ہوتا۔ (۹) امام بیہقی نے یہی روایت دلائل النبوۃ میں بھی ذکر کی ہے۔ (۱۰) اور انہیں کے حوالہ سے اس روایت کو امام سیوطی نے الخصائص الکبری میں نقل کیا ہے۔ (۱۱)

    مزید برآں اس حدیث کو مندرجہ ذیل محدثین نے تھوڑے سے لفظی فرق کے ساتھ روایت کیا ہے۔ امام احمد نے، مسند میں بایں الفاظ [pullquote](فان استشھد ت کنت من خیر الشھداء)[/pullquote]

    شیخ احمد شاکر نے اس حدیث کی سند کو صحیح قرار دیا ہے (۱۲) امام احمد کی سند سے ابن کثیر نے اسے البدایۃ والنہایۃ میں نقل کیا ہے۔ (۱۳)
    ابونعیم اصفھانی نے حلیۃ الأولیاء میں (۱۴)، امام حاکم نے المستدرک علی الصحیحین میں روایت کرکے درجہ حدیث کے متعلق سکوت اختیار کیا اور امام ذھبی نے اس کو اپنی تلخیصِ مستدرک سے حذف کردیا۔ (۱۵)

    سعید بن منصور نے اپنی کتاب السنن میں، (۱۶) خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد میں، (۱۷) امام بخاری کے استاذ نعیم بن حماد نے الفتن میں، (۱۸) ابن ابی عاصم نے اپنی کتاب الجہاد میں، اور اس کی سند حسن ہے(۱۹)، ابن ابی حاتم نے اپنی کتاب العلل میں (۲۰)، ان کے علاوہ آئمہ جرح و تعدیل میں سے امام بخاری نے التاریخ الکبیر(۲۱) میں، امام مزی نے تہذیب الکمال میں(۲۲) اور ابن حجر عسقلانی نے تہذیب التہذیب میں اس حدیث کو روایت کیا ہے (۲۳)، درجہ کے لحاظ سے یہ حدیث مقبول، یعنی صحیح یا حسن ہے جیسا کہ ہم ذکر کرچکے ہیں۔

    ۲۔ حضور ﷺ کے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کی حدیث
    حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
    میری امت میں دو گروہ ایسے ہوں گے جنھیں اللہ تعالی نے آگ سے محفوظ کردیا ہے، ایک گروہ ہندوستان پر چڑھائی کرے گا، اور دوسرا گروہ جو عیسی ابن مریم کے ساتھ ہوگا۔
    انہی الفاظ پر اتفاق کے ساتھ یہ حدیث درج ذیل محدثین نے روایت کی ہے:
    امام احمد نے مسند میں، (۲۴) امام نسائی نے السنن المجتبی میں، شیخ ناصر الدین البانی نے اس حدیث کو صحیح قراردیا ہے(۲۵) اسی طرح السنن الکبری میں بھی (۲۶) ابن ابی عاصم نے کتاب الجہاد میں سندِ حسن کے ساتھ (۲۷)، ابن عدی نے الکامل فی ضعفاء الرجال میں (۲۸)، طبرانی نے المعجم الاوسط میں (۲۹)، بیہیقی نے السنن الکبری میں (۳۰)، ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں (۳۱) ، امام دیلمی نے مسند الفردوس میں (۳۲)، امام سیوطی نے الجامع الکبیر میں اور امام مناوی نے الجامع الکبیر کی شرح فیض القدیر میں (۳۳)، امام بخاری نے التاریخ الکبیر میں (۳۴)، امام مزِّی نے تہذیب الکمال میں (۳۵) اور ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں (۳۶)۔

    ۳۔ حضرت ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ کی دوسری حدیث
    حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ہندوستان کا تذکرہ کیا اور ارشاد فرمایا:
    ضرور تمھارا ایک لشکر ہندوستان سے جنگ کرے گا، اللہ ان مجاہدین کو فتح عطا فرمائےگا حتی کہ وہ (مجاہدین ) ان (ہندوؤں ) کے بادشاہوں کو بیٹریوں میں جکڑ کر لائیں گے اور اللہ (اس جہاد عظیم کی برکت سے) ان (مجاہدین) کی مغفرت فرما دے گا، پھر جب وہ واپس پلٹیں گے تو عیسیٰ ابن مریم کو شام میں پائیں گے۔
    حضرت ابوہریرۃ نے فرمایا: اگر میں نے وہ غزوہ پایا تو اپنا نیا اور پرانا سب مال پیچ دوں گا اور اس میں شرکت کروں گا، پھرجب اللہ تعالیٰ نے ہمیں فتح عطا کر دی اور ہم واپس پلٹ آئے تو میں ایک آزاد ابوہریرہ ہوں گا جو ملک شام میں (اس شان سے) آئے گا کہ وہاں عیسی ابن مریم کو پائےگا۔ یارسول اللہ! اس وقت میری شدید خواہش ہوگی کہ میں ان کے پاس پہنچ کر انہیں بتائوں کہ میں آپ ﷺ کا صحابی ہوں، (راوی کا بیان ہے کہ) حضور ﷺ مسکرا پڑے اور ہنس کر فرمایا: بہت مشکل، بہت مشکل۔
    اس حدیث کو نعیم بن حماد نے اپنی کتاب ’’الفتن‘‘ میں روایت کیا ہے(۳۷)
    اسحاق بن راہویہ نے بھی اس حدیث کو اپنی مسند میں ذکر کیا ہے، اس میں کچھ اہم اضافے ہیں، اس لیے ہم اس روایت کو پیش کررہے ہیں۔
    حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہندوستان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: بالیقین تمھارا ایک لشکر ہندوستان سے جنگ کرے گا اور اللہ ان مجاہدین کو فتح دے گا حتی کہ وہ سند ھ کے حکمرانوں کو بیڑیوں میں جکڑ کر لائیں گے، اللہ ان کی مغفرت فرما دے گا۔ پھر جب وہ واپس پلٹیں گے تو عیسیٰ ابن مریم کو شام میں پائیں گے۔ ابوہریرہؓ بولے: اگر میں نے وہ غزوہ پایا تو اپنا نیا اور پرانا سب مال بیچ کر اس میں شرکت کروں گا، جب ہمیں اللہ تعالیٰ فتح دے دے گا تو ہم واپس آئیں گے اور میں ایک آزاد ابوہریرہ ہوں گا جو شام میں آئےگا تو وہاں عیسیٰ ابن مریم سے ملاقات کرے گا۔ یا رسول اللہ اس وقت میری شدید خواہش ہوگی کہ میں ان کے قریب پہنچ کر انہیں بتائوں کہ مجھے آپ کی صحبت کا شرف حاصل ہے (راوی کہتا ہے کہ) رسول اللہ ﷺ یہ سن کر خوب مسکرائے۔ (۳۸)

    ۴۔ حدیث حضرت کعب رضی اللہ عنہ
    یہ حضرت کعب رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث ہے، وہ فرماتے ہیں کہ:
    بیت المقدس کا ایک بادشاہ ہندوستان کی جانب ایک لشکر روانہ کرے گا جو اسے فتح کرے گا، مجاہدین سرزمین ہند کو پامال کر ڈالیں گے، اس کے خزانوں پر قبضہ کر لیں گے، پھر وہ بادشاہ ان خزانوں کو بیت المقدس کی تزئین و آرائش کے لیے استعمال کرے گا۔ وہ لشکر ہندوستان کے بادشاہوں کو بیڑیوں میں جکڑ کر اس بادشاہ کے روبرو پیش کرے گا، اس کے مجاہدین، بادشاہ کے حکم سے مشرق و مغرب کے درمیان کا سارا علاقہ فتح کرلیں گے اور دجال کے خروج تک ہندوستان میں قیام کریں گے۔
    اس روایت کو نعیم بن حماد استاذِ امام بخاری نے اپنی کتاب ’’الفتن‘‘ میں نقل کیا ہے۔ اس میں حضرت کعب سے روایت کرنے والے راوی کا نام نہیں ہے بلکہ ’’المحکم بن نافع عمن حدثہ عن کعب‘‘ کے الفاظ آئے ہیں، اس لیے یہ حدیث منقطع شمار ہوگی(۳۹)

    ۵۔حضرت صفوان بن عمرو رحمہ اللہ کی حدیث
    پانچویں حدیث حضرت صفوان بن عمرو رحمہ اللہ سے مروی ہے۔ اور حکم کے لحاظ سے مرفوع کے درجہ میں ہے۔ کہتے ہیں کہ انہیں کچھ لوگوں نے بتایا کہ نبیﷺ نے فرمایا: میری امت کے کچھ لوگ ہندوستان سے جنگ کریں گے، اللہ تعالیٰ ان کو فتح عطا فرمائےگا حتی کہ وہ ہندوستان کے بادشاہوں کو بیڑیوں میں جکڑے ہوئے پائیں گے، اللہ ان مجاہدین کی مغفرت فرمائے گا، جب وہ شام کی طرف پلٹیں گے تو عیسیٰ ابن مریم کو وہاں موجود پائیں گے۔
    اس حدیث کو امام نعیم بن حماد نے ’’الفتن‘‘ میں روایت کیا ہے۔(۴۰)

    الحمد للہ ہم نے اللہ کریم کی توفیق و عنایت سےغزوہ سِندھ و ہند سے متعلق جملہ احادیث کو آپ کے سامنے پیش کر دیا ہے، اب ہم ان احادیث مبارکہ کے معنی و مفہوم، اشارات و دروس پر ایک نظر ڈالیں گے۔

    غزوہ سِندھ و ہند کے متعلق نبوی ہدایات و اشارات پر ایک نظر
    یہ پانچوں احادیث، جن کے مآخذ، صحت وضعف کے اعتبار سے علم حدیث میں ان کا مقام پہلے بیان کرچکے ہیں، ان میں سچی پیش گوئیاں، بلند علمی نکات اور بہت سے اہم، ماضی و مستقبل کے حوالے سے واضح اشارات موجود ہیں، جن میں عام مسلمانوں کے لیے بالعموم اور برصغیر کے مسلمانوں کے لیے بالخصوص خوشخبریاں اور بشارتیں پائی جاتی ہیں۔ لیکن ان بشارتوں اور خوشخبریوں کی حلاوت و لذت کو وہی لوگ پوری طرح محسوس کرسکتے ہیں جنہیں اللہ تعالی نے کسی نہ کسی انداز سے اس مبارک نبوی غزوہ میں شریک ہونے کی سعادت بخشی ہے۔ ذیل میں ہم ان تمام اسباق و نکات کا بالترتیب ذکر کریں گے جو ان احادیث سے مستنبط کیے گئے ہیں۔

    ۱۔ نبی کریم ﷺ کی محبت ایمان کی شرط اوّل ہے
    ان احادیث میں نبی کریم ﷺ کی محبت کا بیان ہے جو حضرت ابوہریرۃ کے الفاظ ’’حدثنی خلیلی‘‘ سے مترشح ہوتا ہے۔ نبی کریم ﷺ کی محبت ایمان کا اوّلین تقاضا، اس کی دلیل، اس کی علامت اور اس کا ثمرہ ہے، محض محبت بھی کافی نہیں بلکہ ایسی والہانہ محبت چاہیے کہ ایک مؤمن کی نظر میں نبی اکرم کی ذات گرامی کائنات کی ہر چیز سے بلکہ اس کی اپنی جان سے بھی زیادہ اسے محبوب ہوجائے۔ یہی مضمون حضرت انس کی حدیث میں وارد ہوا ہے جس میں آپؐ نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اسے، اس کے ماں باپ اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب اور پیارا نہ ہوجاؤں۔
    عبداللہ بن ہشام سے روایت ہے کہ ہم ایک موقع پر حضور صلی اللہ کے ساتھ تھے، آپ ؐ نے حضرت عمر کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا کہ حضرت عمر بولے یارسول اللہ! آپ مجھے ہر چیز سے زیادہ عزیز ہیں سوائے اپنی جان کے، حضورؐ نے فرمایا: نہیں عمر! قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، جب تک میں تمہیں تمہاری اپنی جان سے بھی بڑھ کر محبوب نہ ہوجاؤں (تمہارا ایمان مکمل نہ ہوگا)، اس پر حضرت عمر نے کہاکہ اب آپ خدا کی قسم مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔ یہ سن کر حضورؐ نے فرمایا: اب بات بنی ہے عمر!!

    ۲۔ نبی اکرم ﷺ کے ساتھ صحابہ کرام کی والہانہ محبت
    ان احادیث میں آنحضرتؐ کے ساتھ صحابہ کرام کی الفت و محبت کا احوال بھی بیان ہوا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام کو آپؐ کے ساتھ والہانہ عقیدت اور بے پناہ محبت تھی اور وہ اس محبت اور تعلق پر فخر کیا کرتے تھے اور اپنی گفتگو میں اور خصوصاً احادیث روایت کرتے وقت اس قلبی تعلق کا مختلف انداز سے اظہار کرکے خوشی محسوس کرتے تھے۔ اور یہ محض ایک زبانی دعویٰ ہی نہیں تھا بلکہ ان کی تمام عملی زندگی میں اس محبت اور چاہت کے واضح اور نمایاں اثرات نظر آتے تھے۔ حتی کہ عروہ بن مسعود ثقفی نے صلح حدیبیہ کے موقع پر جب اس والہانہ عشق کا مظاہر دیکھا تو وہ بھی اس حقیقت کا اعتراف کیے بغیر نہ رہ سکا کہ محمد کے ساتھی ان سے جس طرح کی محبت کرتے ہیں وہ ہمیں دنیا کے کسی شاہی دربار میں نظر نہیں آئی۔

    ۳۔ صحابہ کرام کو نبی کریم ﷺ کی سچائی پر پختہ یقین تھا
    ان احادیث مبارکہ میں یہ چیز بھی نظر آتی ہے کہ صحابہ کرام کو آنحضرت کی ہر بات اور ہر خبر کے سچا ہونے کا اٹل یقین تھا خواہ وہ ماضی کے متعلق ہو یا مستقبل کے حوالے سے، خواہ اس کا ذریعہ وحی الہی ہو یا کچھ اور، یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام نے اس قسم کی خبریں اور پیشین گوئیاں صرف روایت و نقل کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ انہیں ایک ہونی شدنی حقیقت جان کر اپنے دلوں میں آرزوئیں پالتے رہے، اللہ تعالی سے دعائیں کرتے رہے، انہیں غزوہ ہند اور غزوہ سندھ میں شریک ہونے کی سعادت عطا فرمائے۔

    ۴۔ سندھ کا وجود
    حدیث ابوہریرۃ ؓ اس بات کی دلیل ہے کہ حضورؐ کے زمانے میں ایک ایسا خطہ ارض دنیا میں موجود تھا جسے سندھ (تقریبا موجودہ پاکستان) کے نام سے جانا جاتا تھا۔

    ۵۔ ہندوستان کا وجود
    اسی طرح اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ عہد رسالت میں روئے زمین پر ایک ایسا ملک بھی موجود تھا جسے ہند کہا جاتا تھا۔

    ۶۔ سندھ سرزمین عرب کے پڑوس میں اور اس پر چڑھائی غزوہ ہند سے پہلے ہوگی. یہ حدیث جس میں غزوہ سندھ و ہند کا ذکر آیا ہے، اس میں یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ سندھ کا علاقہ عرب کے پڑوس میں واقع ہے نیز یہ کہ عزوہ سندھ غزوہ ہند سے پہلے ہوگا۔

    ۷۔ سندھ اور ھند پر کفار کا قبصہ
    مزید یہ کہ عہد رسالت مآبؐ میں سندھ اور ہند دو ایسے خطوں کے طور پر معروف تھے جن پر کفار کا قبضہ اور تسلط تھا اور زمانہ نبوت کے بعد بھی ایک عرصہ تک باقی رہا، جبکہ ہندوستان پر مزید، غیرمعلوم مدت تک ان کا قبضہ برقرار رہنے کا امکان ہے.

    ۸۔ نبی کریم ﷺ ان حقائق سے آگاہ تھے
    ان احادیث سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ حضورؐ ان تمام حقائق سے آگاہ اور واقف تھے خواہ اس کا ذریعہ وحی الہی ہو یا تجارتی تعلقات یا دونوں ہوں، یہ بھی ممکن ہے کہ اپنے جاسوسوں اور خفیہ انٹیلی جنس کے ذریعے آپ نے یہ معلومات حاصل کی ہوں کیوں کہ عزوات میں آپ یہ طریقہ کار اختیار کیا کرتے تھے۔ اگرچہ پہلے دو احتمال زیادہ قرین قیاس ہیں لیکن تیسرا احتمال بھی ناممکن نہیں ہے لیکن اس کے لیے ہمارے پاس کوئی منقولی دلیل نہیں ہے۔

    ۹۔ دونوں ملکوں کی تاریخ
    ان احادیث میں ان دونوں ممالک (سندھ اور ہندوستان) میں مستقبل میں پیش آنے والے بعض تاریخی واقعات کا حوالہ ہے اس کے ساتھ یہ اشارہ بھی موجود ہے کہ آئندہ زمانے میں مسلمان ان ممالک سے جنگ کریں گے۔

    ۱۰۔غیب کی خبریں، پیشین گوئیاں
    سندھ اور ہندوستان کی طرف ایک اسلامی لشکر کی روانگی اور جہاد اور پھر کامل فتح کی بشارت کی شکل میں ان احادیث میں مستقبل بعید کی خبر اور پیش گوئی بھی موجود ہے۔
    ۱۱۔ رسالت محمدیؐ کی حقانیت کا ثبوت
    مخبر صادقؐ کی پیش گوئی آج ایک حقیقت بن چکی ہے۔ خلافت راشدہ اور پھر خلافت امویہ اور عباسیہ کے ادوار میں غزوہ ہند کی شروعات ہوئیں اور پھر ہندوستان پر انگریزی راج کے دوران بھی یہ جہاد جاری رہا، اور آج تقسیم ہند کے بعد بھی جاری ہے اور ان شاء اللہ اس وقت تک جاری رہےگا جب تک کہ مجاہدین سرزمین ہند سے کفار کا قبضہ و تسلط ختم کرکے، ان کے بادشاہوں کو بیڑیوں میں جکر کر خلیفۃ المسلمین کے سامنے نہ لے آئیں۔ ان میں سے بعض واقعات کا حدیث نبوی کے مطابق پیش آجانا حضرت محمد ﷺ کی نبوت کی صداقت کی دلیل ہے۔

    ۱۲۔ بیت المقدس کی بازیابی اور مسجد اقصی کی آزادی کی بشارت
    ان احادیث میں غزوہ ہند اور فتح بیت المقدس دونوں واقعات کو مربوط انداز میں ذکر کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ بیت المقدس کا مسلمان حاکم ایک لشکر روانہ کرے گا جسے اللہ تعالی ہندستان پر فتح عطا فرمائے گا۔ اس میں پوری امت مسلمہ کے لیے بیت المقدس کی آزادی اور مسجد اقصی کی بازیابی کی بشارت عظمی ہے، اور یہ پیش گوئی بھی موجود ہے کہ اس غزوہ کے دوران مجاہدین ہند اور مجاہدین فلسطین کے مابین زبردست رابطہ اور باہمی تعاون موجود ہوگا۔ اس سے یہ حقیقت ازخود واضح ہوجاتی ہے کہ ہندوستان کے بت پرست اور سرزمین معراج پر قابض یہودی عالم اسلام کے مشترک اور بدترین دشمن ہیں، آپسی رابطے میں ہیں، انہیں ہندوستان اور فلسطین کے مسلم علاقوں سے بےدخل کرنا واجب ہے۔

    ۱۳ جہاد تا قیامت جاری رہے گا
    ان احادیث میں غزوہ اور جہاد کو کسی خاص زمانے اور خاص وقت کے ساتھ مقید نہیں کیا گیا جو اس بات کی دلیل ہے کہ جہاد آخر زمانے تک جاری رہے گا حتی کہ سیدنا عیسی ابن مریم آسمانوں سے اتر کر دجال کو قتل کردیں گے، اور یہ بات صحیح اجادیث سے ثابت ہے کہ دجال اعظم کے اکثر پیروکار یہودی ہوں گے۔
    ۱۴۔ جہاد دفاعی بھی ہے اور اقدامی بھی
    یہ پانچوں احادیث اس پر واضح طور پر دلالت کر رہی ہیں کہ غزوہ ہندوستان میں جہاد صرف دفاع تک محدود نہیں ہوگا بلکہ اس میں حملہ آوری اور پیش قدمی ہوگی اور دارالکفر کے اندر گھس کر کفار سے جنگ کی جائے گی۔ غزوہ اور بعث کے دنوں الفاظ اس باب میں صریح ہیں۔ غزوہ کا لغوی مفہوم اقدامی جنگ ہے۔ جنگ دو طرح کی ہوتی ہے اوّل دعوتی و تہذیبی جنگ، دوم عسکری و فوجی جنگ، اور اسلام کی نظر میں دونوں طرح کی جنگ مطلوب ہے، یہ دونوں قسم کا جہاد پہلے بھی ہوا ہے اور اب بھی ہو رہا ہے اور ہوتا رہے گا، البتہ مذکورہ احادیث میں جس غزوہ اور جنگ کی پیش گوئی کی گئی ہے اس سے مراد عسکری اور فوجی جہاد ہے۔ واللہ اعلم

    ۱۵۔ دشمنوں کی پہچان
    ان احادیث میں اسلام اور مسلمانوں کے دو بدترین دشمنوں کی پہچان کرائی گئی ہے، ایک بت پرست ہندو اور دوسرے کینہ پرور یہودی۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ حضورؐ نے غزوہ ہند اور سندھ کا ذکر فرمایا اور ظاہر ہے کہ غزوہ اور جہاد صرف کفار کے خلاف ہی ہوسکتا ہے اور آج ہندوستان میں حکمران کفار، بت پرست ہندو ہیں اور حدیث ثوبان ؓ میں یہ بیان ہوا ہے کہ سیدنا عیسی ابن مریم اور ان کے ساتھی دجال اور اس کے یہودی رفقاء کے خلاف لڑیں گے۔ اس طرح گویا ایک طرف حدیث میں کفر اور اسلام دشمنی کی قدر مشترک کی بنا پر یہود و ہنود کو ایک قرار دے دیا گیا اور دوسری طرف مسلم اور مجاہد فی سبیل اللہ کی قدر مشترک کی وجہ سے مجاہدین ہند اور سیدنا عیسی اور ان کے اصحاب کو ایک ثابت کردیا گیا۔

    ۱۶۔نبوی اور صحابہ کرام کی مجالس میں ہندوستان کا تذکرہ
    ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریمؐ اور صحابہ کرام ؓ اپنی مجلسوں میں ہندوستان کا تذکرہ فرمایا کرتے تھے اور یہ تذکرہ اکثر ہوا کرتا تھا۔ اور ظاہر ہے کہ یہ تذکرہ صرف جہاد اور غزوہ کے ضمن میں ہی ہوتا ہوگا نہ کہ سفر تجارت یا سیروسیاحت کی غرض سے۔

    ۱۷۔غزوہ ہندوستان کے بارے میں حضورؐ کی نیت و آرزو
    نبی کریمؐ اور ان کے صحابہ کرام چونکہ اکثر اوقات غزوہ ہند کا تذکرہ کیا کرتے تھے لہذا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آنحضرت ؐ اور آپ کے صحابہ اس غزوہ میں شرکت کے آرزو مند تھے اور یہ بھی ممکن ہے کہ انہوں نے اس سلسلے میں غور و فکر کرکے اس کے لیے کوئی ابتدائی منصوبہ بندی بھی کی ہو اور اپنے صحابہ کو اس کی رغبت بھی دلائی ہو۔

    ۱۸۔ غزوہ ہندوستان نبی ﷺ کا وعدہ ہے
    حدیث میں دو الفاظ آئے ہیں (۱) وعدنی مجھ سے وعدہ کیا (۲) وعدنا ہم سے وعدہ کیا۔ اور وعدہ سے مراد کسی عمل خیر کا وعدہ ہے اور وعدے میں نیت اور ارادہ لازماً پائے جاتے ہیں۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں غزوہ ھند کی نیت اور قصد موجود تھا اور آپ ھندوستان پر چڑھائی کا ارادہ رکھتے تھے۔ آپؐ نے اپنا یہ ارادہ کبھی فرد واحد کے سامنے اور کبھی پوری مجلس کے سامنے ظاھر فرمایا تاکہ تمام صحابہ کرام بلکہ قیامت تک آنے والے تمام مسلمانوں کے علم میں آجائے۔
    ۱۹۔ یہ اللہ تعالی کا وعدہ بھی ہے
    ابو عاصم کی روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں وعدنا اللہ و رسولہ الخ، یہ الفاظ دلیل ہیں کہ یہ صرف حضورؐ کا وعدہ ہی نہیں بلکہ یہ اللہ تعالی کا وعدہ بھی ہے اور اللہ اپنے وعدے کی کبھی خلاف ورزی نہیں کرتا [pullquote](وعد اللہ لایخلف اللہ وعدہ ولکن اکثر الناس لایعلمون)[/pullquote]

    ۲۰۔ جنگ و جہاد کی ترغیب
    ان احادیث مبارکہ میں نبی ﷺ نے مسلمانوں کو جنگ اور جہاد کی رغبت دلائی ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے: (ترجمہ) اے نبی! ایمان والوں کو جہاد کی ترغیب دو، اگر تم میں سے بیس آدمی ثابت قدم ہوں گے تو وہ دو سو پر غالب آئیں گے اور اگر تم میں سے سو آدمی ہوں گے تو وہ ایک ہزار کافروں پر غالب آئیں گے کیونکہ وہ کفار سمجھ نہیں رکھتے۔ جنگ و جہاد کی یہ ترغیب صحابہ کرام ، تابعین اور قیامت تک آنے والے تمام مسلمانوں کے لیے عام ہے۔

    ۲۱۔ سامراجی قوتوں کا علاج
    اس میں امت کے لیے یہ رہنمائی بھی ہے کہ دنیا میں کفارومشرکین کے غلبہ و سامراجی، استعماری طاقتوں اور استبدادی کارروائیوں کا علاج بھی جنگ و جہاد ہی میں مضمر ہے۔ اس کے سوا اس مسئلے کا کوئی حل نہیں ہے، مذاکرات، عالمی اداروں میں مقدمہ بازی اور کسی دوست یا غیرجانبدار ثالث کی کوئی کوشش یا مداخلت ضیاعِ وقت کے سوا کچھ نہیں

    ۲۲۔ غزوہ ہند میں مال خرچ کرنے کی فضیلت
    ان احادیث میں غزوہ ہند میں مال خرچ کرنے کی بڑی فضلیت بیان ہوئی ہے۔ اگرچہ راہ جہاد میں مال خرچ کرنا اعلی درجے کا انفاق ہے لیکن غزوہ ہند میں خرچ کرنے کی فضیلت عمومی انفاق فی سبیل اللہ سے کہیں زیادہ ہے۔ اسی فضیلت کی بنا پر سیدنا ابوہریرہ بار بار یہ خواہش کرتے تھے کہ اگر میں نے وہ غزوہ پایا تو اپنی جان اور اپنا نیا پرانا سب مال اس میں خرچ کردوں گا۔

    ۲۳۔ غزوہ ھند کے شہداء کی فضیلت
    مذکورہ احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس غزوہ میں شریک ہونے والے شہداء کی بھی بہت بڑی فضیلت ہے کیونکہ ان کے آنحضرتؐ نے ’’افضل الشہداء‘‘ اور ’’خیر الشہداء‘‘ کے الفاظ بیان فرمائے ہیں۔

    ۲۴۔ مجاہدین ہند کے لیے جہنم سے نجات کی بشارت
    ان احادث میں ان مجاہدین کی جہنم سے آزادی کی بشارت آتی ہے جو اس غزوہ میں شریک ہوں گے اور غازی بن کر لوٹیں گے۔ آپؐ نے دو جماعتوں کا ذکر فرمایا کہ اللہ تعالی نے انہیں آگ سے محفوظ کردیا ہے اور پہلی جماعت کے متعلق یہ صراحت فرمائی کہ’’وہ ہندوستان سے جنگ کرے گی‘‘ اور حضرت ابوہریرۃ کے الفاظ بھی اس پر دلالت کرتے ہیں کہ اگر میں اس غزوہ میں غازی بن کر لوٹا تو میں ایک آزاد ابوہریرہ ہوں گا جسے اللہ نے جہنم سے آزاد کر دیا ہوگا۔

    ۲۵۔ آخری جنگ میں فتح کی بشارت
    ان میں یہ بشارت بھی موجود ہے کہ آخر زمانے میں جب حضرت مہدی اور سیدنا عیسی ابن مریم بھی دنیا میں موجود ہوں گے، اللہ تعالی مجاہدین ہند کو عظیم الشان فتح عطا فرمائے گا اور وہ کفار کے سرداروں اور بادشاہوں کو گرفتار کرکے قیدی بنائیں گے۔

    ۲۶۔ مال غنیمت کی خوشخبری
    اللہ تعالی ان مجاہدین کو بیش بہا مال عنیمت سے بھی نوازے گا۔

    ۲۷۔ سیدنا عیسی علیہ السلام سے ملاقات کی بشارت
    ایک بشارت ان احادیث میں یہ ملتی ہے کہ جو مجاہدین اس مبارک غزوے کے آخری مرحلے میں برسر پیکار ہوں گے وہ سیدنا عیسی ابن مریم علیہ السلام کی زیادرت باسعادت اور ملاقات بابرکات سے مشرف ہوں گے۔

    ۲۸۔ ہندوستان کے ٹکڑے ہوں گے
    آخری اور سب سے بڑی بشارت ان احادیث میں یہ ہے کہ اس غزوہ کے نتیجے میں ہندوستان ٹکڑے ٹکرے ہوکر متعدد چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں منقسم ہوجائے گا، جن پر ایک متفقہ بادشاہ کے بجائے کئی بادشاہ بیک وقت حکمرانی کر رہے ہوں گے۔

    اس کے علاوہ اہل علم نے اور بھی کئی بشارتیں ان احادیث سے مستنبط کی ہیں، البتہ ہم نے ان احادیث کی تخریج اور ان کے دروس و اشارات، اور نبوی ہدایات اِجمالا اہلِ علم کی خدمت میں پیش کردی ہیں۔ و فیہ الکفایۃ۔ واللہ اعلم

    حواشی و حوالہ جات
    (۱) غزواتِ نبوی کی تعداد مختلف کتبِ حدیث و سیر میں بیان ہوئی ہے، ہم نے مشہور مالکی فقیہ امام ابن الجزي الغرناطي سے لی ہے، ملاحظہ ہو ان کی کتاب: القوانین الفقہیۃ ۲/۲۷۲۔۲۷۳
    (۲ )ملاحظہ ہو: صحیح بخاري‘ کتاب الجہاد والسیر‘ باب قتال الترک: ۲۷۱۱‘ اور صحیح مسلم‘ کتاب الفتن‘ باب لاتقوم الساعۃ حتی یمر الرجل بقبر الرجل فیتمنی:۵۱۸۷
    (۳) یہ حدیث محدثین کے ہاں (حدیث الأعماق) کے نام سے معروف ہے‘ کیونکہ اس میں اعماق اور دابق، موجودہ ملک شام کے شہر حلب کے قریب واقع۔ دو ایسی جگہوں کا تذکرہ آیا ہے جہاں (ملحمۃ الأعماق) قرب قیامت سے پہلے وقوع پذیر ہوگا جس میں صلیبی عیسائیوں اور مجاہدینِ اسلام کے درمیان خونریز معرکہ ہوگا، حضرت حذیفہ ؓ کی ایک حدیث کے مطابق اس معرکہ میں کام آنے والے (افضل ترین شہداء امتِ محمدیہ) ہوں گے۔ ملاحظہ ہو:السنن الواردۃ فی الفتن وغوائلھا و الساعۃ وأشراطھا۵/۱۰۹۶ ‘ لأبی عمرو عثمان بن سعید المقرئ الدانی(۳۷۱۔۴۴۴ہ)تحقیق:رضاء اللہ مبارکپوری‘ معجم البلدان للحموي ۲/۲۲۲‘ و سیر أعلام النبلاء ۶/۳۵۷
    (۴) ملاحظہ ہو: صحیح مسلم‘ کتاب الفتن ‘ باب فتح القسطنطینیۃ: ۵۶۵۷
    (۵) ملاحظہ ہو: مسند احمد / مسند بشر بن سحیم الخثعمیؓ:۱۸۱۸۹‘ المستدرک علی الصحیحین ۴/۴۶۸حدیث:۱۴۸۲حاکم نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے‘ فضیل بن عیاض کا خواب ذھبی نے سیر أعلام النبلاء ۸/۵۴۲۔۵۴۳ میں نقل کیا ہے
    (۶) ملاحظہ ہو: مسند احمد ۲/۳۶۹ مسند ابو ھریرۃ ؓ:۸۴۶۷‘ البدایۃ والنھایۃ لابن کثیر‘ الابار عن غزوۃ الہند۶/۲۲۳ بقول ابن کثیر، یہ الفاظ صرف امام احمد نے نقل کیے ہیں
    (۷) ملاحظہ ہو: مسند احمد ‘ تحقیق وشرح: احمد شاکر ۱۷/۱۷حدیث:۸۸۰۹
    (۸) ملاحظہ ہو: السنن المجتبی ۶/۴۲‘ کتاب الجھاد باب غزوۃ الھند:۳۱۷۳‘ ۳۱۷۴‘ السنن الکبری للنسائی ۳/۲۸باب غزوۃ الھند:۴۳۸۲۔۴۳۸۳
    (۹) ملاحظہ ہو: السنن الکبری للبیہقي ۹/۱۷۶ ‘ کتاب السیر‘ باب ما جاء فی قتال الھند:۱۸۵۹۹
    (۱۰) ملاحظہ ہو: دلائل النبوۃ و معرفۃ أحوال صاحب الشریعۃ ‘ باب قول اللہ : وعد اللہ الذین آمنوا و عملوا الصالحات منکم لیستخلفنہم۶/۳۳۶
    (۱۱) ملاحظہ ہو: الخصائص الکبری للسیوطی۲/۱۹۰
    (۱۲) ملاحظہ ہو: مسند احمد تحقیق و شرح احمد شاکر۱۲/۹۷حدیث نمبر:۷۱۲۸
    (۱۳) ملاحظہ ہو: مسند احمد ۲/۲۲۹ مسند ابو ہریرۃؓ حدیث:۶۸۳۱‘ البدایۃ والنھایۃ ‘ الأخبار عن غزوۃ الھند۶/۲۲۳
    (۱۴) ملاحظہ ہو: حلیۃ الأولیاء ۸/۳۱۶۔۳۱۷
    (۱۵) ملاحظہ ہو: المستدرک علی الصحیحین‘ کتاب معرفۃ الصحابۃ ‘ ذکر ابی ھریرۃ الدوسی۳/۵۱۴ حدیث:۶۱۷۷
    (۱۶) ملاحظہ ہو: السنن لسعید بن منصور ۲/۱۷۸‘ حدیث نمبر:۲۳۷۴
    (۱۷) ملاحظہ ہو: تاریخِ بغداد ۱۰/۱۴۵ تذکرہ ابوبکر بن رزقویہ نمبر:۵۲۹۱
    (۱۸) ملاحظہ ہو: الفتن غزوۃ الھند۱/۴۰۹ حدیث:۱۲۳۷
    (۱۹) ملاحظہ ہو: الجھاد‘ فضل غزوۃ البحر ۲/۶۶۸ حدبث:۲۹۱
    (۲۰) ملاحظہ ہو: العلل ۱/۳۳۴ ترجمہ:۹۹۳
    (۲۱) ملاحظہ ہو: التاریخ الکبیر ۲/۲۴۳ تذکرہ جبر بن عبیدۃنمبر:۲۳۳۳
    (۲۲) ملاحظہ ہو: تھذیب الکمال ۴/۴۹۴ تذکرہ جبر بن عبیدۃ:۸۹۳
    (۲۳) ملاحظہ ہو: تھذیب التھذیب ۲/۵۲ تذکرہ جبر بن عبیدۃ الشاعر:۹۰ ابن حجر کہتے ہیں: میں نے امام ذھبی کے ہاتھ کی تحریر دیکھی، لکھا تھا: پتہ نہیں یہ کون ہے؟ اس کی روایت کردہ خبر منکر ہے‘‘۔ ابن حبان نے ان کا ذکر ثقات میں کیا ہے.
    (۲۴) ملاحظہ ہو: مسند احمد ۵/۲۷۸ حدیث ثوبان ؓ:۲۱۳۶۲
    (۲۵) دیکھیے: السنن المجتبی للنسائی ۶/۴۳ کتاب الجھاد ‘ باب غزوۃ الھند:۳۱۷۵ نیز ملاحظہ ہو: صحیح سنن النسائی ۲/۶۶۸ حدیث:۲۵۷۵
    (۲۶) ملاحظہ ہو: السنن الکبری للنسائی ۳/۲۸ باب غزوۃ الھند :۴۳۸۴
    (۲۷) ملاحظہ ہو: الجھاد ۲/۶۶۵ فضل غزوۃ البحر حدیث:۲۲۸ محققِ کتاب نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے
    (۲۸) ملاحظہ ہو: الکامل فی ضعفاء الرجال ۲/۱۶۱ تذکرہ جراح بن ملیح البھرانی :۳۵۱
    (۲۹) ملاحظہ ہو: المعجم الأوسط ۷/۲۳۔۲۴ حدیث:۶۷۴۱‘ امام طبرانی کہتے ہیں : اس حدیث کو حضرت ثوبان ؓ سے اسی سند کے ساتھ روایت کیا گیا ہے ‘ اس کے ایک راوی الزبیدی اس کی روایت میں اکیلے ہیں۔
    (۳۰) ملاحظہ ہو: السنن الکبری للبیہقي ۹/۷۶‘ کتاب السیر ‘ باب ما جاء فی قتال الھند:۱۸۶۰۰
    (۳۱) ملاحظہ ہو: البدایۃ والنھایۃ ‘ الأخبار عن غزوۃ الھند:۶/۲۲۳
    (۳۲) ملاحظہ ہو: الفردوس بماثور الخطاب ۳/۴۸ حدیث:۴۱۲۴
    (۳۳) ملاحظہ ہو: الجامع الکبیر مع شرحہ فیض القدیر۴/۳۱۷ امام مناوي نے ذھبی کی الضعفاء کے حوالہ سے امام دارقطنی کا یہ قول نقل کیا ہے: الجراح راوي حدیث کچھ بھی نہیں ہے
    (۳۴) ملاحظہ ہو: التاریخ الکبیر ۶/۷۲ تذکرہ عبد الأعلی بن عدي البھرانی الحمصی :۱۷۴۷
    (۳۵) ملاحظہ ہو: تھذیب الکمال ۳۳/۱۵۱ تذکرہ ابوبکر بن الولید بن عامر الزبیدي الشامي:۷۲۶۱
    (۳۶) ملاحظہ ہو: تاریخ دمشق ۵۲/۲۴۸
    (۳۷) ملاحظہ ہو: الفتن ‘ غزوۃ الھند ۱/۴۰۹۔۴۱۰ حدیث:۱۲۳۶۔۱۲۳۸
    (۳۸) ملاحظہ ہو: مسند اسحاق بن راھویہ ‘ قسم اول۔سوم ج۱/۴۶۲ حدبث:۵۳۷
    (۳۹) ملاحظہ ہو: الفتن ‘ غزوۃ الہند ۱/۴۰۹ حدیث:۱۲۳۵
    (۴۰) ملاحظہ ہو: الفتن ۱/۳۹۹‘ ۴۱۰ حدیث:۱۲۰۱‘ ۱۲۳۹

  • کشمیر میں تحریک انتفاضہ کا نیا عالمی ریکارڈ – ایس احمد پیرزادہ

    کشمیر میں تحریک انتفاضہ کا نیا عالمی ریکارڈ – ایس احمد پیرزادہ

    ستم کی وادی میں ظلم کی دیوی
    قوم کے ان گمنام جان بازوں کو سلام

    8جولائی 2016ء کے بعد کشمیر ی نوجوانوں نے گزشتہ تین دہائیوں کے کم عرصے میں تیسرے بڑے انتفادہ کی شروعات کرکے عوامی تحریکات کی تاریخ میں ایک نیا ریکارڈ قائم کر دیا ہے۔ تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو دنیا کی ہسٹری میں ایسی کوئی دوسری مثال موجود نہیں ہے جس میں مسلسل تین ماہ تک عوام نے مجموعی طور پر ظلم و جبر اور بنیادی حقوق کی پامالیوں کے خلاف اپنے روز مرہ کے کام کاج کو خیر باد کہتے ہوئے سڑکوں پر نکل کر صدائے احتجاج بلند کیا ہو، یہ تین ہی ماہ نہیں ہیں بلکہ چوتھے مہینے میں عوامی تحریک داخل ہوچکی ہے اور کہیں پر بھی تھکاوٹ کا دور دور تک کوئی نشان نظر نہیں آ رہا ہے۔ %da%a9%d8%b4%d9%85%db%8c%d8%b1 8 کشمیری قوم جس کے بارے میں مفروضے قائم کیے گئے ہیں کہ اِس میں مستقل مزاجی نہیں ہے، نے اکیسویں صدی کے اس دور میں جب انسان سیکنڈوں کا حساب رکھ کر مادی ترقی کی اندھی دوڑ میں لگ چکا ہے، کشمیریوں نے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا کر تحریک حق خود ارادیت کی جدوجہد کی آبیاری کرنے کو ترجیح دی۔ عوامی جوش، جذبے اور ولولے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جو ٹرانسپورٹر بینک سے قرضہ لے کر گاڑیاں حاصل کر چکے ہیں اور جنہیں مہینے میں ایک اچھی خاصی رقم بطور قسط ادا کرنی پڑتی ہے ،

    پہیہ جام ہڑتال کا منظر
    پہیہ جام ہڑتال کا منظر

    صد ہا مشکلات کے باوجود چار ماہ بعد بھی وہ متحدہ قیادت کے کلینڈر پر سختی کے ساتھ عمل پیرا ہیں۔ جو تاجر دن بھر لاکھوں کماتے تھے اُنہوں نے گزشتہ تین ماہ کے دوران اپنے دکانوں اور کاروباری اداروں کو بند رکھ کر ثابت کردیا کہ پیسہ قومی کاز کے سامنے ایک حقیر چیز ہوتی ہے۔ محتاط تخمینوں کے مطابق کشمیر کی معیشت کو ہڑتال کے پہلے ڈھائی ماہ میں 10000 کروڑ کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ الغرض مادی اور اقتصادی ترقی کے سہانے خواب بھی کشمیریوں کے عزم و ہمت کو نہیں توڑ سکے ہیں۔

    ہمارے حریفوں کو پہلے سے ہی اندازہ تھا کہ کشمیری نام کی یہ قوم ایسی ہے جسے مالی مفادات، تعمیر و ترقی اور اقتصادی مراعات کی لالچ اپنی راہ تبدیل کرنے سے نہیں روک سکتی، اس لیے حکومت ہند اور اُس کے مقامی کارندوں نے طاقت کی زبان سے کشمیری عوام کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کی ناکام کوششیں کیں، جو تاحال جاری ہیں۔ india_kashmir_protes تین ماہ کے عرصے میں یہاں93 افراد گولیوں اور پیلٹ گن کے چھروں سے جان بحق کردیے گئے۔ 14500 افراد جن میں خواتین، بچے، نوجوان اور بزرگ بھی شامل ہیں کو بری طرح سے گولیوں، پیلٹ گنوں اور لاٹھیوں سے زخمی کردیا گیا۔ 12244 زخمی افراد ریاست کے بڑے ہسپتالوں میں داخل کرائے گئے ہیں اور اُن میں سے بیشتر تاحال شفاخانوں میں ہی زیر علاج ہیں۔ جن زخمیوں کا علاج مقامی سطح پر پرائمری ہیلتھ سنٹروں پر کرایا گیا اُن کی تعداد بھی سینکڑوں میں ہے۔ 1062 افراد کی آنکھیں پیلٹ گن کے چھروں سے زخمی ہوئی ہیں، جن میں سے51 افراد کی دونوں آنکھیں متاثر ہوئی ہیں جبکہ 50 افراد کا Optic Nerve اور 250 افراد کا Macula متاثر ہوا ہے۔ 1146597-yearoldhamidcopy-1469117253-240-640x480 ڈاکٹر وں نے 500 سے زائد افراد کے آنکھوں کی دو دو تین تین سرجریاں کرکے اُن کی بینائی واپس لانے کی جی توڑ کوششیں کی ہیں، اس کے باوجود وہ خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ بیشتر زخمیوں کی ایک یا پھر دونوں آنکھیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بینائی سے محروم ہونے کے خدشات ہر آنے والے دن کے ساتھ بڑھ رہے ہیں۔ مسلسل سرجریاں کرنے کے بعد اب ڈاکٹر یہ کہہ رہے ہیں کہ آنکھوں سے متاثر ہونے والے زخمیوں میں اکثر Legally Blind رہیں گے یعنی اُنہیں بہت ہی قریب کی چیزیں بھی دھندلی ہی نظر آئیں گی۔ INDIA-KASHMIR-PAKISTAN-UNREST مثلا ہم پلوامہ کے رہنے والے15 سالہ اویس فاروق جن کی دونوں آنکھیں پیلٹ کے چھروں سے بُری طرح سے متاثر ہوچکی تھیں۔ ڈاکٹروں کی مسلسل کوششوں اور کئی سرجریوں کے باوجود وہ اپنی دائیں آنکھ سے سایہ ہی دیکھ پاتے ہیں جبکہ بائیں آنکھ سے نزدیک کی چیزیں تھوڑا سا صاف دکھائی دیتی ہیں۔ جب دونوں آنکھوں سے دیکھنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ اپنے ہاتھ کی انگلیوں کو بھی نہیں گن پاتا۔

    1144543-pellet_victimsss-1468899724-159-640x480 پیلٹ گن جسے اسرائیل سے برآمد کر کے دلی اور یہاں کی حکومت غیر مہلک ہتھیار قرار دے رہی ہے، سے تاحال نہ صرف سینکڑوں افراد اپاہچ اور ناکارہ بن چکے ہیں بلکہ اس کے چھروں کی وجہ سے9 جولائی سے8 اکتوبر تک چودہ افراد جان بحق بھی ہوچکے ہیں۔ جان بحق ہونے والے میں ٹینگہ پورہ سرینگر کا شبیر احمد میر (عمر26)، راجپورہ پلوامہ کا الطاف احمد (عمر25)، چھتہ بل سرینگر کا ریاض احمد (عمر23)، سدھو شوپیان کا عامر لون (عمر17)، بڈی پورہ ٹنگ مرگ کا اشفاق احمد (عمر18)، رتنی پورہ پلوامہ کا عامر گل میر (عمر18)، سن ون کپواڑہ کا مصعیب مجید (عمر17)، سیر ہمدان اسلام آباد کا نصیر احمد (عمر20)، بوٹینگو اسلام آباد کا یاور احمد (عمر23)، بونہ بازار شوپیان کا شاہد احمد (عمر24)، ہارون سرینگر کا ناصر شفیع (عمر11)، چک کاوسہ کا محمد مظفر پنڈت (عمر22)، سعیدہ پورہ عیدگاہ کا جنید احمد (عمر12) اور جنوبی کشمیر کا ایک اور نوجوان جس کی عمر 20 سال تھی اور جو 9 جولائی کو جان بحق ہوا تھا، شامل ہیں۔

    بزرگ کشمیری رہنما سید علی گیلانی کو گرفتار کیا جا رہا ہے
    بزرگ کشمیری رہنما سید علی گیلانی کو گرفتار کیا جا رہا ہے

    عوامی تحریک کے تین ماہ میں پولیس نے 7500 افراد کو گرفتار کرکے مختلف جیل خانوں میں پابند سلاسل بنایا ہے، اِن میں 489 ؍افراد کو بدنام زمانہ قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت نظر بند کر دیا گیا ہے۔ جن افراد پر پی ایس اے جیسے کالے قانون کا اطلاق کیا گیا اُن میں 14 سال کا کمسن طالب علم بھی شامل ہے اور75 برس کے شیخ محمد یوسف ساکن سوپور اور عبدالرشید وانی ساکن چوگل ہندواڑہ جیسے بزرگ بھی شامل ہیں۔ عبدالرشید وانی جسمانی طور معذور ہونے کے علاوہ کئی عارضوں میں مبتلا ہیں، اُنہیں باتھ روم جانے کے لیے کسی دوسرے فرد کا سہارا لینا پڑتا ہے اور بے شرمی کی حد یہ ہے کہ اُن پر گاڑیوں کی توڑ پھوڑ اور اشتعال انگیزی جیسے گھناؤنے الزام پولیس نے عائد کیے ہیں۔ دختران ملت سربراہ سعیدہ آسیہ اندرابی اور اُن کی سیکریٹری فہمیدہ صوفی کے علاوہ کئی خواتین کو بھی پابند سلاسل بنایا گیا ہے۔ تین ماہ کے عرصے میں 85 کمسن بچوں کو بھی سنگ بازی کی پاداش میں پابند سلاسل بنادیا گیا ہے، ان کی عمر 13 برس سے کم ہے۔گرفتاریوں کا سلسلہ ہنوز جاری ہے اور ہر دن 50 سے 70 افراد کو پکڑ کر پولیس تھانوں میں ڈال دیا جاتا ہے۔

    India Kashmir Protests ظلم و بربریت کا ایک اور وحشیانہ اور غیر انسانی طریقہ بھی فورسز اہلکاروں نے اختیار کیا ہوا ہے۔ وہ یہ کہ رات کے دوران یا پھر صبح صادق ہونے کے فوراً بعد ہزاروں افراد پر مشتمل فورسز اہلکار کسی دیہات میں داخل ہوجاتے ہیں، وہاں جو بھی چیز اُن کے سامنے آجاتی ہے اُن کی توڑ پھوڑ کر دیتے ہیں۔ سڑکوں اور مکانات کے صحن میں موجود چھوٹی بڑی گاڑیوں کی اس قدر توڑ پھوڑ کر دی جاتی ہے کہ وہ دوبارہ قابل استعمال نہیں رہتیں۔ گھروں میں گھس کر سامان تہس نہس کیا جاتا ہے۔ کھڑکیوں، دروازوں اور دیگر ساز و سامان کی توڑ پھوڑ کی جاتی ہے۔ فرج، واشنگ مشین اور ٹی وی توڑے جاتے ہیں۔ سونا، زعفران اور دیگر قیمتی اشیاء لوٹ لی جاتی ہے۔ سرشار پلوامہ کے ایک چھوٹے سے دیہات میں رات کے دوران صرف چند گھروں سے 13 لاکھ روپے مالیت کا زعفران لوٹ لیا گیا۔ یہاں ایک لیکچرار شبیر احمد کو بھی زیر چوب جان بحق کردیا گیا۔ گھر میں گھس کر مکینوں کو زد و کوب کیا جاتا ہے۔ kashmir-indian-army حد تو یہ ہے کہ رات کے دوران لوگوں کے بیڈ روم میں گھس کر پیلٹ اور آنسوں گیس کے گولے داغے جاتے ہیں۔ درجنوں دیہات میں دھان کی تیار فصل تباہ کرکے کسانوں کی سال بھر کی محنت پر پانی پھیر دیا گیا۔ جنوبی و شمالی کشمیر کے مختلف علاقوں میں سیب کی فصل کے جمع شدہ ڈھیر کی تباہی کے مناظر کسی بھی صاحب دل انسان کو خون کے آنسوں رلانے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ کروڑوں روپے مالیت کے سیب تباہ کر دیے گئے ہیں۔ دہشت اور وحشت کے جن المناک مناظر کا سامنا آئے روز کشمیری عوام کو کرنا پڑتا ہے، اُن سے حیوانیت بھی لرزہ براندام ہوجاتی ہے۔یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ بھارتی فورسز کی جانب سے جن حالات کا عام کشمیریوں کو سامنا ہے، اُس کا کشمیر سے باہر اندازہ لگانا ناممکن ہے۔ وردی پوشوں کی جانب سے شروع کی جانے والی دہشت کا اندازہ اخباری رپوٹوں، بیانات اور تحریروں سے نہیں لگایا جاسکتا۔

    متذکرہ بالا ظلم و جبر کی تمام داستانیں مظلوم کشمیریوں کے لیے قابل قبول ہیں کیونکہ ان مراحل سے گزرنے کے بعد ہی ہمیں کامیابی کا سورج طلوع ہوتے دیکھنے کا موقع نصیب ہوگا۔ 2016_7largeimg214_jul_2016_001556283 البتہ ہمارے لیے مسئلہ سدھو شوپیان کی 14 برس کی انشاء ملک ہے جنہیں پولیس اہلکاروں نے اپنے گھر کی تیسری منزل پر راست پیلٹ چھروں کا نشانہ بنا کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نہ صرف نابینا بنادیا ہے بلکہ اچھی خاصی شکل و صورت کی مالک اس معصوم بچی کا حلیہ بھی بگاڑ کے رکھ دیا گیا۔ ہمارے لیے مسئلہ آرونی بجبہاڑہ کی رہنے والی 20 برس کی شمیمہ ہے جو 94 دن گزرجانے کے بعد بھی ایس ایم ایچ ایس کے خصوصی نگاہ داشت والے وارڈ میں سوائے سر اور گردن کے جسم کا کوئی حصہ ہلا نہیں پاتی ہے۔ اُن پر 9 جولائی کو آرونی میں پولیس ٹاسک فورس کے اہلکاروں نے براہ راست گولیاں چلائیں، ایک گولی نے اُن کی ریڑھ کی ہڈی کو بُری طرح سے متاثر کیا اور اب سر اور گردن کے علاوہ اُن کا پورا بدن مفلوج ہوکر رہ گیا ہے۔ ہمارے لیے مسئلہ وہ سینکڑوں نوجوان ہیں جن کی دونوں یا پھر ایک آنکھ پیلٹ کے چھرے لگنے سے نابینا ہوگئی ہے اور اب وہ مکمل یا پھر جزوی طور پر دوسروں کی مدد کے محتاج بن چکے ہیں۔ ہمارے لیے مسئلہ وہ سینکڑوں نوجوان، بچے اور خواتین ہیں جن کے جسم کے اندر ابھی بھی درجنوں پیلٹ کے چھرے موجود ہیں کیونکہ چک کاوسہ بڈگام کے محمد مظفر پنڈت کی موت کے بعد اب ڈاکٹر یہ خدشہ ظاہر کرنے لگے ہیں کہ جسم میں موجود پیلٹ سے جان لیوا انفکشن ہونے کا قوی احتمال ہے۔ یہ سب ہماری جدوجہد کا اثاثہ ہیں۔ pellet-victim اِن لوگوں نے جان پر کھیل کر دنیا کی توجہ کشمیر کی جانب مبذول کروائی ہے۔ یہیں وہ قوت ہے جس نے پاکستانی وزیراعظم نواز شریف کو اقوام متحدہ کے71 ویں سالانہ اجلاس میں سینہ ٹھونک کر مسئلہ کشمیر کی وکالت کرنے کی ہمت عطا کی ہے۔ یہیں وہ طاقت ہے جس کی وجہ سے بھارت بوکھلاہٹ کا شکار ہوچکا ہے اور اب کشمیریوں کی جدوجہد سے دنیا کی نظریں پھیرنے کے لیے کبھی سرجیکل اسٹرائیکس کا ڈرامہ رچاتا ہے تو کبھی نام نہاد ’’دہشت گردی‘‘ کا شوشہ چھوڑ کر دنیا کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں موجود جسمانی طور ناکارہ بن جانے والے یہ نوجوان لڑکے، ملت کی بیٹیاں اور معصوم بچے آنے والے وقت میں مجموعی طور پر ہمارے مشکل ترین امتحان کا سبب بن سکتے ہیں۔ یہ ہمارے قومی ہیروز ہیں، اگر ہم نے اُن کے احسانوں کا صلہ بےرخی اور غفلت کے ذریعے سے دیا تو پھر تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ اُن کی دیکھ بھال، سماج میں اُنہیں اعلیٰ و ارفع مقام عطا کرنا، اُن کی ضروریات کا خیال رکھنا، اُنہیں ہر جگہ اور ہر معاملے میں ترجیح دینا اب ہماری ملی ذمہ داری بن چکی ہے۔ 500 نوجوان ایسے ہیں جن کی آنکھوں کی بینائی کے بارے میں تاحال ڈاکٹر کچھ نہیں کہہ پاتے ہیں۔ 50 کے قریب افراد کی دونوں آنکھیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مکمل طور پر بےکار ہوچکی ہیں۔ درجنوں ایسے ہیں جن کی ایک ایک آنکھیں ناکارہ ہوچکی ہے۔ اور ابھی بھی سینکڑوں پیلٹ گن کے متاثرین ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں جن کے بارے میں ڈاکٹر وثوق سے کچھ نہیں کہہ پاتے ہیں بلکہ خیال یہ کیا جارہا ہے کہ اُن میں سے بھی بیشتر کی ایک یا پھر دونوں آنکھیں بینائی سے محروم ہوسکتی ہیں۔ دوسری جانب نیم فوجی دستے ایک منظم سازش کے تحت جان بوجھ کر نوجوانوں کی آنکھوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہر ہفتے سینکڑوں زخمی ہسپتالوں میں داخل ہوجاتے ہیں جن میں درجنوں پیلٹ چھرے لگنے سے زخمی ہوئے ہوتے ہیں۔ پیلٹ گن کے چھروں سے جن نوجوانوں کی آنکھیں ناکارہ ہوچکی ہیں اُن میں 98 فیصد سے بھی زیادہ کی عمر 10 سے25 برس کے درمیان ہے۔ ان نونہالوں پر آج ہم فخر کرتے ہیں، اُن کی قربانیوں سے ہی ہماری تحریک میں جان موجود ہے لیکن اُنہیں مستقبل میں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، یہ فی الوقت ہمارے لیے سب سے بڑی پریشانی ہے۔

    متاثر ہونے والے نوجوانوں میں 99 فیصد غیر شادی شدہ ہیں۔ کل کو جب اِن کی شادیوں کی بات چلے گی تو کیا ہماری قوم کی لڑکیاں بلاجھجھک اُن سے شادی کرنے کی لیے تیار ہوں گی؟ یہ ایک مسئلہ ہے اور اس پر ہمیں آج سے ہی کام کرنا ہوگا۔ اس کی ایک اہم صورت یہ ہے کہ ہم قومی سطح پر ایسے طریقے رائج کریں جن کے ذریعے سے یہ نوجوان اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں، اُنہیں مستقبل میں معاشی لحاظ سے خود کفیل بنانے کے لیے آج سے ہی منصوبہ بندی کی جائے، اِنہیں دوسروں کے رحم و کرم پر نہ چھوڑا جائے۔ حریت پسند قیادت ہر سال کا کوئی بھی عشرہ اِن ہیروز کے نام کرے، جس میں سیمینار، سمپوزیم اور دیگر تقریبات کا انعقاد کرکے قومی کاز کے لیے جسمانی طور پر ناکارہ بن جانے والے ان ہیروز کو ایوارڈ سے نوازا جائے اور اُن کی قربانیوں کو یاد کیا جائے۔ اُن کی تعلیم کو جاری رکھنے کے لیے دنیا بھر میں قائم اندھوں کے لیے مخصوص اسکولوں میں اِن کا داخلہ کرایا جائے۔اگر ملالہ یوسف زئی ظلم وجبر کا شکار ہونے پر عالمی توجہ اور امداد کی مستحق بن سکتی ہے تو انشاء لون اور شمیمہ کیوں نہیں بن سکتی ہیں۔ آورہ کپواڑہ کی پروینہ اختر کیوں نہیں بن سکتی ہیں جنہیں فورسز اہلکار وں نے گھر کے دیگر نو افراد کے ساتھ پیلٹ گن کے چھروں سے نشانہ بنا کر اُن کی دونوں آنکھوں کو بُری طرح سے زخمی کردیا ہے، سمتھن بجبہاڑ کی روبی جان کیوں نہیں بن سکتی ہیں جنہیں صبح سویرے اپنے ہی گھرمیں پیلٹ گن کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اشاجی پورہ کی مسعودہ بانو، پنجرن پلوامہ کی الفت بشیر ہم کس کس کا نام لیں، یہاں تو درجنوں ملالائیں موجود ہیں۔ ہمارے اُن خوبصورت نونہالوں پر عالم انسانیت کیوں مہربان نہیں ہوسکتی ہے جن کا اپاہج پن ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بھارتی مظالم اور دہشت گردی کا منہ بولتا ثبوت رہے گا۔ ہمیں وسائل تلاشنے ہیں، راستے دیکھنے ہیں اور سوجھ بوجھ کے ساتھ لائحہ عمل ترتیب دینا ہے۔ اگر ہم نے ایسا کیا تو ضرور ان نوجوانوں کو لندن، امریکہ اور دنیا کے دیگر ممالک میں بھیج کر ایک تو اُنہیں اعلیٰ تعلیم سے نوازنے میں کامیابی حاصل کرلیں گے، دوسرا یہی نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بیرون دنیا کشمیر کاز کے Ambassadors بن جائیں گے۔

    پاکستان جہاں کے عوام نے بالخصوص اور حکومتوں نے بالعموم ہمیشہ کشمیریوں کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی مدد کی ہے، کی ذمہ داریاں مزید بڑھ جاتی ہیں۔ پاکستان مسئلہ کشمیر کا ایک اہم فریق ہے اور عالمی سطح پر کشمیریوں کا سب سے بڑا وکیل بھی۔ پاکستان کو یہاں متاثر ہونے والے نوجوانوں کو ملالہ یوسف زئی کی طرح عالمی سطح پر متعارف کرانے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔ یہاں ہم چاہتے ہوئے بھی بہت سارے کام نہیں کرپاتے ہیں کیونکہ یہاں بھارتی ایجنسیوں کی نظریں اور قدغنیں آڑے آتی ہیں لیکن باہر سے بہت کچھ کیا جاسکتا ہے۔

    بد سے بدترین حالات میں بھی اگر سوچ مثبت ہو تو کامیابی کی راہیں نکالی جاسکتی ہیں۔ کشمیری عوام جن حالات سے گزر رہے ہیں اُن میں بے شک بیرون دنیا ہمارے محسن ہماری آواز بلند کر رہے ہیں۔ پاکستان جیسے عظیم محسن ملک نے کشمیر کاز کے لیے قومی سلامتی تک کو بھی داؤ پر لگا رکھا ہے، اس سب کے باوجود ہمیں بحیثیت قوم خود اپنے لیے راہیں ڈھونڈنی ہیں، اندرون خانہ پیدا شدہ مسائل کا حل خود ڈھونڈنا ہے، حقائق کا ادراک کرکے لمبی جدوجہد کے لیے تیاریاں کرنی ہیں، اور جدوجہد کی راہ میں متاثر ہونے والے افراد کواپنے حال پر چھوڑنے کے بجائے اُنہیں اس قدر ہر سطح پر سپورٹ فراہم کرنا ہے کہ وہ اپنے اپاہج پن پر افسوس کرنے کے بجائے فخر کرنے لگیں۔ وہ وقت دور نہیں جب ہماری یہ قربانیاں رنگ لائیں گی اور ہماری آنے والی نسلیں ان قربانیوں کے طفیل ہی آزاد فضاؤں میں سانس لیں گی۔ ان شاء اللہ۔

  • اصل چہرہ-محمد اظہار الحق

    اصل چہرہ-محمد اظہار الحق

    izhar
    یہ ایک دلدوز منظر تھا۔ اتنا دل دوز کہ دیکھنے والے کا کلیجہ باہر آنے لگتا تھا۔
    وہ چار تھے۔ تن پر صرف پتلون نما چیتھڑے تھے۔ ہر ایک کی کمر کے گرد رسی تھی۔ رسی کا دوسرا سرا سامنے کھڑی گاڑی سے بندھا تھا۔ پہلے انہیں بھارتی ریاست کے قصبے اونا کی گلیوں میں پھرایا گیا۔ پھر ایک ایک اونچی ذات کا ہندو آتا اور لکڑی کے بہت چوڑے ڈنڈے کے ساتھ ان کے پیچھے ضرب لگاتا۔ ایک آیا۔ پھر دوسرا‘ پھر تیسرا‘ پھر چوتھا۔ وہ مار کھا کھا کر گر جاتے۔ پھر انہیں اٹھایا جاتا‘ اور مزید افراد آ کر مارتے۔

    یہ دلت تھے۔ اچھوت۔ ان کا قصور یہ تھا کہ وہ ایک مری ہوئی گائے کی کھال اتار رہے تھے۔ گائے پہلے سے مری ہوئی تھی۔ ان پر الزام لگا کہ انہوں نے گائے کو مارا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مرے ہوئے جانوروں کی کھال اتارنا ان کا پیشہ ہے۔ یہ لوگ صدیوں سے یہی کام کر رہے ہیں۔ مگر مودی کے گجرات میں ہندو دھرم اپنی نئی آفتوں کے ساتھ زور پکڑ رہا ہے۔ ”گائے بچائو‘‘ جتھے بنے ہوئے ہیں جو شہروں‘ قصبوں اور بستیوں میں گشت کرتے ہیں۔ شائبہ بھی پڑ جائے تو بغیر تحقیق یا تفتیش کیے‘ ”مجرموں‘‘ کو سزا دینا شروع کر دیتے ہیں۔
    مگرگجرات کے اچھوتوں نے ہڑتال کر دی۔ انہوں نے بہت سے مردار سرکاری دفتروں کے آگے ڈال دیے اور کہا کہ گائے تمہاری ماں ہے‘ خود سنبھالو۔ سینکڑوں ہزاروں مردہ جانور پڑے پڑے گلنے سڑنے لگے۔ پھر حکومتی کارندوں نے چمار خاندانوں کی منتیں کیں۔ مگر شیوسینا کے مار دھاڑ کرنے والے جتھوں کو کچھ نہ کہا گیا۔ یہ سب مودی کے چہیتے ہیں۔

    اُتر کھنڈ بھارتی پنجاب کے مشرق میں واقع ہے۔ چند دن پہلے وہاں گندم پیسنے کی چکی میں ایک اچھوت سوہن رام کی گندم پیسی جا رہی تھی۔ اوپر سے ماسٹر للت آ گیا۔ وہ اونچی ذات کا تھا۔ اس نے سوہن رام کو گالیاں دینا شروع کر دیں کہ چکّی کو پلید کر دیا۔ سوہن رام نے احتجاج کیا۔ ماسٹر للت کے ہاتھ میں تیز دھار درانتی تھی۔ اس نے سوہن رام کی گردن پر زور سے چلا دی۔ سوہن رام وہیں مر گیا۔
    یہ صرف دو واقعات ہیں۔ بھارت میں ہر روز ایسے سینکڑوں واقعات رونما ہوتے ہیں۔ اچھوتوں کی آبادی بھارت کی کل آبادی کا سولہ فیصد ہے یعنی تقریباً سترہ کروڑ! مگر قیاس یہ ہے کہ حکومتی مشینری یہ تعداد کم سے کم بتاتی ہے۔ گمان غالب یہ ہے کہ اچھوت بائیس اور پچیس کروڑ کے درمیان ضرور ہوں گے یعنی بیس فیصد۔ ان کے حقوق کوئی نہیں۔ صرف فرائض ہیں۔ بھارت میں آبادی کی اکثریت کے گھروں میں بیت الخلا کا رواج نہیں۔ بستیوں کے اردگرد جب غلاظت کے انبار آخری حدوں کو چھونے لگتے ہیں تو اچھوت انہیں ٹھکانے لگاتے ہیں۔ گلیاں صاب کرتے ہیں۔ مردہ جانوروں کی انتڑیاں سنبھالتے ہیں۔ کھالیں اتارتے ہیں۔ ہر گندا اور گھٹیا کام کرتے ہیں۔ پچانوے فیصد سے زیادہ اچھوت مکمل ان پڑھ ہیں۔ یہ فیصلہ صرف اونچی ذات کے ہندو کرتے ہیں کہ اچھوت کون کون سے کام کریں گے اور کون کون سے نہیں کریں گے۔ کہاں رہیں گے‘ کس کس کو پانی پکڑا سکتے ہیں؟ کس کس کے ساتھ کھانا کھا سکتے ہیں‘ شادیاں کہاں کہاں اور کس کس کے ساتھ کر سکتے ہیں۔ غرض ان کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اونچی ذات کے ہندوئوں کے ہاتھ میں ہے۔

    بھارت ذات پات کے مکروہ نظام میں سر سے پائوں تک جکڑا ہوتا ہے۔ ہندو عقیدے کے مطابق دیوتائوں کے مُونہہ سے برہمن نکلے۔ بازوئوں سے لشکری اور بادشاہ برآمد ہوئے۔ رانوں سے تاجر اور کسان نکلے۔ رہے شودر تو انہوں نے پائوں سے جنم لیا۔ منوں کی تعلیمات آج بھی بھارتی یونیورسٹیوں میں سنسکرت کی ڈگری کورس کا حصہ ہیں۔ ان تعلیمات کے مطابق اچھوت‘ سابق زندگی کے گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔ پڑھنا لکھنا بھی جرائم میں شامل ہے۔ اونچی ذات کے کسی ہندو کی توہین کی سزا درد ناک اور اذیت ناک موت ہے۔ اونچی ذات کے ہندو جو چاہیں اچھوتوں کے ساتھ کریں‘ پولیس مداخلت نہیں کرتی۔

    مودی کا گجرات صوبہ‘ جسے مثالی صوبہ کہا جاتا ہے‘ اس ضمن میں بدترین ریکارڈ رکھتا ہے۔ پورے بھارت میں اگر کہیں خوفناک ترین سلوک اچھوتوں کے ساتھ روا رکھا جا رہا ہے تو وہ گجرات ہے۔
    جس ملک کی بیس فیصد آبادی اچھوتوں پر مشتمل ہو اور وہ ترقی کے دائرے سے ہر امکانی حد تک باہر ہوں‘ وہ ملک حقیقت میں کبھی ترقی نہیں کر سکتا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چالاک بھارت نے اپنے چہرے کا یہ ڈرائونا حصّہ دنیا سے چھپایا ہوا ہے۔ سکارف باندھنے والی عورتوں کے غم میں دُبلے ہونے والے مغربی ملکوں کے لوگ اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ بھارت میں بیس کروڑ افراد جانوروں سے بدتر زندگی گزار رہے ہیں اور ان کی اکثریت انسانی غلاظت کو ہاتھوں سے صاف کر رہی ہے۔

    کیا پاکستان اس ضمن میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے؟ نہیں! پاکستان پر لازم ہے کہ ظلم کی چکی میں پسنے والے آدم کے ان بیٹوں کی دستگیری کرے اور دنیا کو آگاہ کرے کہ آئی ٹی میں ترقی کے دعوے کرنے والی دنیا کی یہ سب سے بڑی ”جمہوریت‘‘ اپنے بیس بائیس کروڑ لوگوں کے ساتھ کیا کر رہی ہے۔ کس طرح ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ انہیں مارا پیٹا جاتا ہے۔ بنیادی حقوق سے وہ محروم ہیں۔ سکول اور ہسپتال کے الفاظ ان کی ڈکشنریوں میں ڈھونڈے سے نہیں ملتے۔ مردہ جانوروں کی کھالیں اتارنے کا انہیں حکم دیا جاتا ہے اور پھر کھالیں اتارنے کی سزا دی جاتی ہے۔ وہ گندم جو کھیتوں میں اگتی ہے‘ جب اچھوت کے گھر میں پہنچتی ہے تو پلید ہو جاتی ہے۔ پھر وہ اس چکی میں پیسی تک نہیں جا سکتی جس میں اونچی ذات کے ہندوئوں کی گندم کا آٹا بنتا ہے!
    حیرت ہے کہ بلوچستان کے حقوق کی بات کرنے والے مودی کو‘ پاکستانی حکومت کا کوئی وزیر‘ وزیر اعظم‘ ڈپلومیٹ یہ نہیں کہتا کہ تم اپنی آبادی کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہو؟ پہلے ان کے حقوق کی بات کرو!

    پاکستان کے دفتر خارجہ پر لازم ہے کہ ایک مستقل شعبہ اپنے ہاں‘ بھارت کے اچھوتوں کی دیکھ بھال کے لیے قائم کرے۔ پھر اسے ہر لحاظ سے مستحکم کرے۔ پاکستان کا ہر سفارت خانہ‘ لازماً‘ بھارت کے اچھوتوں کا احوال دنیا کو بتائے اور ان کے حقوق کے لیے آواز اٹھائے۔
    پاکستانی میڈیا اس سلسلے میں اپنا کردار نہیں ادا کر رہا۔ کیا ہمارے اینکر پرسنوں کو‘ ان کے پروڈیوسروں کو اور مالکان کو سرحد پار دہکا ہوا یہ جہنم نظر نہیں آتا؟ اس پر خصوصی پروگرام نشر ہونے چاہئیں جن میں اعداد و شمار اور حقائق کی مدد سے دنیا بھر کے ناظرین کو بھارت کا اصل روپ دکھایا جائے۔ دلت لیڈروں اور ترجمانوں کو ٹیلی فون لائن پر لے کر ان کا موقف دنیا تک پہنچایا جائے۔

    پاکستان کی فلاحی تنظیمیں اگر چاہیں بھی تو بھارتی حکومت انہیں اچھوت آبادی میں کام کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ اس کا حل یہ ہے کہ یہ فلاحی تنظیمیں بین الاقوامی اداروں سے رابطہ کریں اور ان کے ذریعے اچھوتوں تک پہنچنے کی کوشش کریں۔ حیرت ہے کہ انجلینا جولی اور بل گیٹس جیسی مشہور شخصیات نے‘ جو فلاحی کاموں کی وجہ سے دنیا بھر میں معروف ہیں‘ بھارت کے بیس کروڑ اچھوتوں پر کوئی توجہ نہیں دی۔ کیا انہیں معلوم کہ اچھوت حاملہ عورتیں مر جاتی ہیں لیکن بچوں کو جنم دیتے وقت ڈاکٹروں کی توجہ سے محروم رہتی ہیں کیونکہ ڈاکٹر انہیں ہاتھ لگانا گوارا نہیں کرتے۔ سخت گرمی اور کڑکتی دھوپ میں کوئی اچھوت پانی کا گھونٹ پینے کے لیے نلکے کو ہاتھ لگا دے تو وہیں مار دیا جاتا ہے!

    بھارت مشرق وسطیٰ کے ملکوں کے ساتھ قربت کی پینگیں بڑھا رہا ہے۔ ان ملکوں میں مخیّر عربوں کی کثرت ہے۔ وہ ہر سال کروڑوں ریال خیراتی کاموں پر صرف کرتے ہیں۔ پاکستان کو چاہیے کہ مشرق وسطیٰ کے ان ملکوں کو بھارت کے اچھوتوں کے حالِ زار سے آگاہ کرے تاکہ وہ ان کی مدد کے لیے اقدامات کریں۔

  • غزوہ ہند کی روایات اور پاکستان (2) – خورشید ندیم

    غزوہ ہند کی روایات اور پاکستان (2) – خورشید ندیم

    خورشید ندیم دورِ جدید میں باب الفتن اور ملاحم کی روایات کا زیادہ تر اطلاق افغانستان پر ہوا ہے۔ سوویت یونین کے خلاف مزاحمت سے لے کر طالبان کے ظہور تک، مسلمانوں کو بتایا گیا کہ ان روایات میں قرب ِقیامت کے باب میں جو پیش گوئیاں کی گئی ہیں، آج کا افغانستان ان کا مصداق ہے۔ اس سلسہ ءمضامین کے پہلے حصے میں، میں نے ”جہادِ افغانستان سے ظہورِ مہدی تک“ کے عنوان سے شائع ہونے والے ایک کتابچے کا ذکر کیا تھا۔ یہ ابو عبداللہ آصف مجید نقشبندی صاحب کا مرتب کردہ ہے۔2002ء سے 2005ء تک اس کے پانچ ایڈیشن شائع ہوچکے۔ اس کتابچے پر لاہور اور حاصل پور کے پانچ مقامات کے پتے درج ہیں جہاں سے یہ کتابچہ مل سکتا ہے۔

    اس میں درج ایک روایت کے مطابق، جو مستدرک حاکم سے لی گئی ہے، رسول اللہ ﷺنے فرمایا: تمہارے خزانے کے لیے تین اشخاص جنگ کریں گے۔ یہ تینوں خلیفہ کے لڑکے ہوں گے۔ یہ خزانہ ان میں سے کسی کی طرف منتقل نہیں ہوگا۔ پھر مشرق کی جانب سے سیاہ جھنڈے نمودار ہوں گے اور وہ ان سے اس شدت کے ساتھ جنگ کریں گے جو پہلے کسی نے نہیں کی ہوگی۔“ اس کتابچے میں اس روایت کو اپنے عہد پر منطبق کرتے ہوئے لکھا گیا: ” شاہ فہد کے تین بھائی ہیں۔ یہ تینوں بادشاہت کے امیدوار ہیں۔ شہزادہ عبداﷲ چونکہ امریکہ کی پالیسیوں کے سخت خلاف ہیں اور سب سے پہلے طالبان کی حکومت کو انہوں نے ہی تسلیم کیا تھا، اس لیے امریکہ شہزادہ عبداﷲ کو ہرگز برداشت نہیں کرے گا۔ وہ یقیناً دوسرے دو بھائیوں میں سے کسی کو آگے لانا چاہے گا۔ جس کے بعد یہ تینوں خلفا کے لڑکے آپس میں جنگ کریں گے لیکن حکومت کسی کے ہاتھ نہ آئے گی۔ ایسے حالات میں حرمین شریفین کو خطرہ لاحق ہوگا۔ حرمین شریفین کی حفاظت کے لیے افغانستان کے مجاہدین سیاہ پرچم کے ساتھ نمودار ہوں گے۔“(صفحہ 71) شاہ عبداﷲ کا انتقال ہو چکا۔ امریکہ نے ان کو ہٹانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ ’شہزادوں‘ میں کوئی جنگ نہیں ہوئی۔ وہاں کی روایت کے عین مطابق، اقتدار دوسرے بھائی کو منتقل ہو گیا۔ سوال یہ ہے کہ جنہوں نے روایت کے اس مصداق کو درست مانتے ہوئے، افغانستان میں اپنی جان دی، اس کی ذمہ داری کس پر ہے؟

    ایک اور روایت دیکھیے:یہ مشکوۃ سے لی گئی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فر مایا: ” قیامت نہیں ہوگی جب تک دریائے فرات سونے کے پہاڑ سے نہ سرک جائے۔ لوگ اس کے حصول کے لیے لڑیں گے۔ (لڑائی اتنی سخت ہوگی کہ) سو میں سے ننانوے مارے جائیں گے۔“ کتابچے کے مصنف نے اس کا اطلاق کرتے ہوئے لکھا: ”دریائے فرات عراق میں ہے۔ صدام حسین نے دریائے فرات کے رخ کو موڑ دیا ہے جس کی وجہ سے ایک طرف سے دریا کا پانی خشک ہونا شروع ہو گیا ہے۔ وہ دن دور نہیں، جب دریائے فرات سونے کے پہاڑ کو ظاہر کر دے گا جس کے حصول کے لیے جنگ ہوگی۔“ دلچسپ بات یہ ہے کہ مصنف روایت کا ان واقعات پراطلاق کرتے ہیں اور ساتھ ’واللہ اعلم‘ بھی کہتے ہیں۔ جب ہر بات کا اصل علم اللہ کے پاس ہے تو ہم لوگوں کو کس دلیل کی بنیاد پر مقتل بھیج رہے ہیں؟ اس کا اذن ہمیں کس نے دیا ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی سند پر بغیر تحقیق لوگوں کو جنگ کا ایندھن بنا دیں؟

    یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ لوگوں نے تاریخی واقعات کو دینی سند فراہم کر نے کے لیے ان روایات کو استعمال کیا ہو۔ ہماری تاریخ ایسی مثالوں سے بھری ہوئی ہے۔ میں نے گزشتہ مضمون میں جب ’خلافت علیٰ منہاج النبوت‘ کے باب میں ماضی کی بعض آرا کا ذکر کیا تھا تو مقصد ان کی تائید نہیں، یہی نکتہ واضح کر نا تھا۔ میں نے لکھا: ”مجھے اس پر اصرار نہیں کہ ماضی میں لوگوں نے ان روایات کاجو مصداق طے کیا، وہ درست تھا۔ کل بھی یہ قیاس تھا، آج بھی قیاس ہے“۔ اس کے بعد یہ سوال بےمعنی ہے کہ سیوطی کی ’تاریخ الخلفا‘ مصدقہ ہے یا نہیں۔ میں نے جس کتابچے کا ذکر کیا ہے، اس میں بھی افغانستان میں ملا عمر کی حکومت کو اسی روایت کا مصداق مانا گیا ہے جس میں’ خلافت علیٰ منہاج النبوت‘ کاذکر ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ دین قیاس یا ظن پر نہیں کھڑا کہ اس کے مصداق کا تعین ہی نہ ہوسکے۔ جن باتوں کا تعلق ایمان سے ہے، اللہ تعالیٰ اور رسالت مآبﷺ نے اس طرح واضح کردی ہیں کہ قیامت کی صبح تک، ان کی سند اور ان کے مصدقہ ہونے کے بارے میں ابہام نہیں ہو سکتا۔ اسی لیے اس امت کی تاریخ میں اخبارِ آحاد سے دین کو ثابت نہیں کیا گیا۔

    مولانا مودودی نے یہ بات اس بلاغت کے ساتھ بیان کرد ی ہے کہ شاید میں اس پر کچھ اضافہ نہ کرسکوں۔ انہوں نے لکھا: ”یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ جن چیزوں پر کفر و اسلام کا مدار ہے، اور جن امور پر انسان کی نجات مو قوف ہے، انہیں بیان کرنے کا اللہ تعالیٰ نے خود ذمہ لیا ہے۔ وہ سب قرآن میں بیان کی گئی ہیں اور قرآن میں بھی ان کو اشارتا یا کنایۃ بیان نہیں کیا گیا بلکہ پوری صراحت اور وضاحت کے ساتھ ان کو کھول دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے: ان علینا للھدیٰ(اللیل۲۹:۲۱) ”(اور ہمارا کام سمجھا دینا ہے)۔ لہذا جو مسئلہ بھی دین میں یہ نوعیت رکھتا ہو، اس کا ثبوت لازماً قرآن ہی سے ملنا چاہیے۔ مجرد حدیث پر ایسی کسی چیز کی بنا نہیں رکھی جا سکتی جسے مدارِ کفر و ایمان قرار دیا جائے۔ احادیث چند انسانوں سے چند انسانوں تک پہنچتی ہیں جن سے حد سے حد اگر کوئی چیز حاصل ہوتی ہے تو وہ گمانِ صحت ہے نہ کہ علمِ یقین۔ اور ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اس خطرے میں ڈالنا پسند نہیں کرتا کہ جو امور اس کے دین میں اتنے اہم ہوں کہ ان سے کفر اور ایمان کو فرق واقع ہوتا ہو، انہیں صرف چند آدمیوں کی روایت پر منحصر کر دیا جائے۔“ (رسائل و مسائل، صفحہ 124 )۔

    میں نے اپنی بات کو ان روایات کے اطلاق تک محدود رکھا تھا۔ ان کی صحت کے بارے میں ابھی کچھ نہیں لکھا۔ مولانا مودودی ایک اصولی بات کہہ رہے ہیں کہ یہ روایات جس طرح چند افراد کی روایت سے ہم تک پہنچی ہیں، ان کی بنیاد پر انہیں اسلام و کفر کے لیے قولِ فیصل نہیں مانا جا سکتا۔ مولا نا تو اس سے بھی آگے کی بات کہہ رہے ہیں۔ ان کے نزدیک خبر واحد (جس کے روایت کرنے والوں صرف چند افراد ہوں) دین کے باب میں یقین کا فائدہ نہیں دیتی۔ ممکن ہے بعض ناقدین اسے انکارِ حدیث قرار دینے کے لیے بےتاب ہوں۔ ان سے صبر کی درخواست کے ساتھ یہ کہنا ہے کہ یہ رائے صرف مولانا مودودی کی نہیں ہے، جمہور احناف کی ہے۔ خود مولانا نے شمس الآئمہ امام سرخسی کی رائے کو اپنی تائید میں نقل کیا ہے۔

    مولانا مودودی امام مہدی سے متعلق روایات کے بارے میں کیا کہتے ہیں، وہ بھی پڑھ لیجیے: ”اب ’مہدی‘ کے متعلق خواہ کتنی ہی کھینچ تان کی جائے، بہر حال ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ اسلام میں اس کی یہ حیثیت نہیں ہے کہ اس کے جاننے اور ماننے پر کسی کے مسلمان ہونے اور نجات پانے کا انحصار ہے۔ یہ حیثیت اگر اس کی ہوتی تو قرآن میں پوری صراحت کے ساتھ اس کا ذکر کیا جاتا اور نبیﷺ بھی دو چار آدمیوں سے اس کو بیان کر دینے پر اکتفا نہ فرماتے بلکہ پوری امت تک اسے پہنچانے کی سعی بلیغ فرماتے اور اس کی تبلیغ میں آ پ کی سعی کا عالم وہی ہوتا جو ہمیں توحید اور آخرت کی تبلیغ کے معاملے میں نظر آتا ہے۔ درحقیقت جوشخص علومِ دینی میں کچھ بھی نظر اور بصیرت رکھتا ہو، وہ ایک لمحے کے لیے بھی یہ باور نہیں کر سکتا کہ جس مسئلے کی دین میں اتنی اہمیت ہو، اسے محض اخبارِآحاد پر چھوڑ دیا جائے اوراخبارِآحاد بھی اس درجے کی کہ امام مالک اورامام بخاری جیسے محدثین نے اپنے حدیث کے مجموعوں میں سرے سے ان کا لینا ہی پسند نہ کیا ہو۔“ (رسائل و مسائل،صفحہ124)

    یہ کسی منکرِ حدیث کی رائے نہیں، اس شخص کا موقف ہے جس نے پاکستان میں منکرینِ حدیث و سنت کے خلاف سب سے بڑا علمی معرکہ لڑا۔ ہمارے ہاں جب کوئی صاحبِ علم کسی روایت کی صحت پر گفتگو کرتا ہے تو عام لوگوں کی کم علمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، ان کے مذہبی جذبات کا استحصال کیا جاتا ہے اور ایسے عالم پر منکرِحدیث کا فتویٰ لگا دیا جا جاتا ہے۔ میں نے یہ بات مو لا نا مودودی کے حوالے سے اسی لیے بیان کی ہے کہ ہما شما کو ہدف بنانا آسان ہو تا ہے۔ اب کوئی ہمت کرے اور کہے کہ مو انا مودودی منکرِ حدیث تھے۔

    جب کسی روایت پر جرح ہوتی اور اسے رد کیا جاتا ہے تویہ حدیثِ رسول پر جرح نہیں ہوتی۔ کوئی مسلمان یہ کیسے سوچ سکتا ہے کہ وہ اللہ کے رسول کی بات پر جرح کرے۔ معاذ اللہ ثم معاذ اللہ۔ یہ جرح دراصل اس بات پر ہوتی ہے کہ روایت کی رسول اللہ ﷺسے نسبت ثابت ہے یا نہیں۔

    اگر امام مہدی جیسی روایات کا معاملہ، مولانا مودودی جیسے عالم کے نزدیک یہ ہے تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کالے جھنڈوں جیسی روایات کی روایتی اور درایتی حیثیت کیا ہوگی۔ اسی لیے میں لوگوں سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ کسی بات کو رسول اللہﷺ کی طرف نسبت دیتے وقت سو بار سوچنا چاہیے۔ جہاں لاکھوں لوگوں کے ایمان، جان اور مال کا معاملہ ہو تو وہاں زیادہ احتیاط اور خدا خوفی کی ضرورت ہوتی ہے۔ میرا حسنِ ظن ہے کہ یہ باتیں اخلاصِ نیت سے کی جا تی ہوں گی لیکن کسی بات کی صداقت کے لیے محض اخلاص کافی نہیں، ضروری ہے کہ اس کی عقلی توجیہ ممکن ہو۔ دین کے نام پر کچھ کہنے کے لیے یہ لازم ہے کہ اللہ اور اس کے رسول سے اس کی سند بھی ثابت ہو۔ محض ظنی علم کی بنیاد پر لوگوں کے ایمان اور جان و مال کو خطرے میں نہیں ڈالا جا سکتا۔

    ہمارے ہاں چونکہ ارتکازِ توجہ کے ساتھ علمی مباحث کا رواج نہیں، اس لیے بحثیں اکثر خلطِ مبحث کا شکار ہوجا تی ہیں۔ اسی نوعیت کا ایک اعتراض اس وقت سامنے آتا ہے جب کسی صاحبِ علم کی کوئی بات تائید میں نقل کی جاتی ہے۔ اب اس رائے کی صحت پر کچھ کہنے کے بجائے، یہ اعتراض اٹھایا جاتا ہے کہ اسی صاحبِ علم کی فلاں بات آپ کیوں نہیں مانتے۔ میں نے مو لانا مودودی کی ایک رائے نقل کی تو کہا جائے گا کہ ان کی فلاں رائے بھی ہے، آپ اسے تو نہیں مانتے۔ جیسے پچھلے کالم کے حوالے سے سیوطی کے بارے میں کہا گیا۔ یہ ایک غیر علمی بات ہے۔ اگر ہم فزکس میں نیوٹن کی بات کو درست کہتے ہیں تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ہم مسیحت کے بھی قائل ہو جائیں کیونکہ وہ مسیحی تھا۔
    ملاحم اور باب الفتن کی روایات کی صحت اور ان کے اطلاق پر عمومی گفتگو کے بعد، ان شااللہ اگلے مضمون میں اس سوال کو موضوع بنایا جائے گا کہ کیا پاکستان کا قیام کوئی الہی منصوبہ تھا اور اس کے قیام سے کیا غزوہ ہند کی روایات کا کوئی تعلق ہے؟

  • ہندوستانی فوج کی حیوانیت – مزمل احمد فیروزی

    ہندوستانی فوج کی حیوانیت – مزمل احمد فیروزی

    مزمل احمد فیروزی ”ہندوستان ٹائمز“ کی ایک خبر نظر سے گزری، جس میں انڈین آرمی کی جانب سے لگائے جانے والے بورڈ کا تذکرہ تھا جس میں انوشکا شرما، پرینکا چوپڑا، سیلینا جیٹلی اور گل پانگ انڈین اداکاروں کی تصاویر تھیں جو آرمی فیملی سے تھیں اور اس پر لکھا ہوا تھا کہ اگر آپ بھی ایسی ہی خوبصورت اور کامیاب بیٹیوں کے والدین بننا چاہتے ہیں تو آئیں آرمی جوائن کریں۔ مجھے حیرانگی اس بات پر نہیں تھی کہ اس بورڈ میں اداکارائوں کی تصاویر آویزاں تھیں بلکہ اس بات پر تھی کہ جو آرمی خواتین کے بارے میں انتہائی بے رحم، سفاک اور صنفی امتیاز برتنے والی ہو، وہی آرمی خواتین کا سہارا لے رہی ہے۔

    انڈین آرمی کی سفاکیت اور حیوانیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ انڈین آرمی کے کرتوت کوئی بھی باشعور اور انسان دوست حلقہ جھٹلا نہیں سکتا۔ خود بھارت میں بسنے والے اعتدال پسند دانشوروں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ انڈین آرمی کے افسر ان خواتین کے معاملے میں کتنے ”حساس“ اور ”مخلص“ ہیں، اس کا اندازہ انڈین آرمی کی جانب سے کیے جانے والے اس سفاکانہ واقعے سے لگایا جاسکتا ہے۔ کئی برس پہلے انڈین آرمی کے خلاف منی پور کے دارالحکومت امپھال میں واقع آسام رائفلز کے ہیڈ کوارٹر کے سامنے سیکڑوں خواتین نے بطورِ احتجاج بالکل برہنہ ہوکر جلوس نکالا۔ اْنہوں نے اپنے ہاتھوں میں جو پلے کارڈ اُٹھارکھے تھے، ان پر تحریر تھا کہ ’’بھارتی فوج کے درندہ صفت افسرو! اگر تمہیں انسانیت کا ذرا سا بھی لحاظ نہیں تو آئو اور ہمارے برہنہ جسموں سے بھی اپنی حیوانیت کی پیاس بجھائو… سیکڑوں برہنہ خواتین زور زور سے… Rape us Indian Army Officers …Rape us,Indian Officers take FLESH … کے نعرے لگاتے ہوئے آہ وزاری کررہی تھیں اور بھارتی فوج کے ظلم کے خلاف دیوانہ وار چلا رہی تھیں۔

    یہ احتجاج منی پور کے قصبے بامون لیکھائی سے 32 سالہ خاتون منورماکو انڈین آرمی کے ہاتھوں اجتماعی آبرو ریزی کے بعد کیا گیا تھا اور اِس گھنائونے عمل کے دوران اِس کی موت واقع ہوجانے کے بعد اس کی لاش کو گولیوں سے چھلنی کردیا گیا۔ پوسٹ مارٹم کے دوران اس کے مردہ جسم سے 16 گولیاں نکالی گئیں۔ اِس وحشیانہ حرکت کے نتیجے میں منی پور کے طول وعرض میں ایک آگ سی بھڑک اُٹھی تھی اور بھارت کے صف اول کے صحافیوں، بشمول پرفل بدوائی، کلدیپ نیئر اور وجے گوئل نے اِس مظاہرے کو بھارت ہی نہیں، دنیا بھر کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا واحد المیہ قرار دیا تھا۔

    اِس سانحہ کی سنگینی کا یہ عالم تھا کہ بھارتی فوج کی ایسٹرن کمان کے جنرل آفیسر کمانڈنگ لیفٹیننٹ جنرل جے آر مکرجی نے نہ صرف عوام سے معافی مانگی، بلکہ تسلیم کیا کہ گزشتہ چار برسوں میں ہندوستانی فوج کے 66افسر اور جوان صرف منی پور سے ایسے گھنائونے جرائم کا ارتکاب کرچکے ہیں۔

    انڈین آرمی کے افسروں کے ”اعلیٰ کردار“ کا اندازہ اِس امر سے بھی ہوتا ہے کہ اودھ پورجموں کشمیر (مقبوضہ) میں تعینات انڈین آرمی کیASC 5071 بٹالین کی نوجوان خاتون آفیسر لیفٹیننٹ سشمیتا چکر ورتی نے اپنی آبرو ریزی کے بعد خودکشی کرلی اور اس کا جسمانی استحصال اس کے سینئر آرمی آفیسرز نے ہی کیا۔ حد تو یہ ہے کہ اس گھنائونے جرم کا مرتکب ہونے کے بعد بجائے شرمندگی محسوس کرنے کے ہندوستانی افواج کے نائب سربراہ وائس چیف آف انڈین آرمی لیفٹیننٹ جنرل ایس پیتھمبرہن نے علانیہ کہا کہ بھارتی خواتین کو اگر اپنی عزت اتنی ہی عزیز ہے تو اْنہیں انڈین آرمی میں شمولیت سے گریز کرنا چاہیے۔

    ابھی حال ہی میں ایک 16سالہ بچی کی عصمت دری کی گئی۔ اخبارات کے مطابق تقریباً دس ہزار سات سو سے زائد اور صرف ستمبر میں 284کشمیری خواتین کو انڈین ٓرمی نے اپنی حیوانیت کا نشانہ بنایا ہے۔ انڈین آرمی تو درکنار انڈین شہری بھی آرمی سے پیچھے نہیں ہیں۔ ایک بھارتی سروے کے مطابق انڈیا میںہر روز 92 خواتین کو اپنی عزت سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں۔ یہ ایک سروے ہے جبکہ تعداد ان سے کہیں زیادہ ہے۔ ان حالات میں انڈین آرمی کا راگ الاپنے والوں کو اور ان کے بعض پاکستانی ہم نوائوں کو پاکستان کے بارے میں منہ کھولنے سے پہلے اپنے گربیان میں جھانک لینا چاہیے اور عالمی رائے عامہ کو بھی بھارتی بالا دست طبقات کو پیغام دینا چاہیے کہ اپنی پاک دامنی کی حکایت بیان کرتے ہوئے اپنے دامن پر موجود مکروہ دھبوں کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے۔

    امید کی جاتی ہے کہ وطن عزیز کے کچھ حلقے بھی بھارتی اعتدال پسندی کے گن گانے سے پہلے اِن تلخ زمینی حقائق کو مدنظر رکھیں گے کیونکہ انڈین آرمی کے کرتوت سے پوری دنیا واقف ہے، جبھی دنیا کے کئی ملکوں نے اپنی خواتین شہریوں کو مشورہ دیا ہے کہ انتہائی نا گزیر صورت کے بغیر بھارت نہ جائیں۔

  • ہندوستانی سرجیکل سٹرائیک اور پاکستانی لطیفے – سید اسرار علی

    ہندوستانی سرجیکل سٹرائیک اور پاکستانی لطیفے – سید اسرار علی

    سید اسرارعلی سرجیکل سٹرائیک کو ہندوستانی پینتیس پنچر قرار دے کر تحریک انصاف کو رگڑا جا رہا ہے تو دوسری طرف تحریک انصاف بھی اس سٹرائیک کو نوازشریف کی اوپن ہارٹ سرجری سے تشبیہ دے کر برابر کی چوٹ لگا رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر جابجا آپ کو لکھا ہوا نظر آئے گا ، ’’انڈیا کی سرجیکل سٹرائیک اور نوازشریف کی اوپن ہارٹ سرجری میں کوئی فرق نہیں۔ کب ہوئی؟ کہاں ہوئی؟ کیسے ہوئی؟ کچھ پتہ نہیں‘‘۔ ویسے حقیقت تو یہ ہے کہ بہت سارے لوگ انگشت بدنداں ہیں کہ یہ کیسی سٹرائیک تھی کہ جس کا کوئی ریکارڈ نہیں۔ اور تو اور اب دلی سرکار، اروند کیجروال نے بھی مودی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سرجیکل سٹرائیک کے ثبوت میڈیا کو فراہم کرے تاکہ پاکستانی پروپیگنڈے کا جواب دیا جاسکے۔ یہ اور بات ہے کہ ثبوت ہوں گے تو مودی سرکار پیش کریں گی نا۔ ثبوتوں کی مانگ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، اور ہندوستانی بھانڈوں اور مراثیوں کی طرف سے پاکستانی جگت باز مزاحیہ ٹویٹس کرکے بھرپور مزاح کا سامان کر رہے ہیں۔ ایک ٹویٹ میں کہا گیا کہ ’’اگر سرجیکل سٹرائیک نہیں کی گئی تو ہم سے زبردستی ٹویٹس کیوں کروائے گئے۔ بالی ووڈ ستاروں کا احتجاج‘‘۔

    ثبوت فراہم کرنے کے مطالبے پر بھی پاکستانی جگت بازوں نے زبردست لطیفے بنائے۔ سوشل میڈیا اور خاص کر فیس بکی کھوپچے (انباکس) کو عشقیہ مقاصد کے لیے استعمال کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم ہوگا کہ اکثر لڑکیوں کی طرف سے تصویروں کے مطالبے پر جواب میں وعدہ لیا جاتا ہے کہ دیکھ کر ڈیلیٹ کریں گے۔ خان بابا کی ریسرچ کے مطابق غالب اکثریت ڈیلیٹ نہیں کرتی۔ خیر ایک مزاحیہ ٹویٹ کے مطابق پاکستان نے بھی ہندوستان سے ثبوت دکھانے کا مطالبہ کیا تو مودی سرکار نے جواب دیا۔ ’’پہلے وعدہ کرو کہ دیکھ کر ڈیلیٹ کر دو گے‘‘۔ کچھ مزاح نگاروں نے ہندوستانی سرکار کا مذاق اڑاتے ہوئے لکھا ’’اگر ہماری سرجیکل سٹرائیک کا یقین نہ کیا گیا تو ہم رو دیں گے۔ بھارت کی اقوام عالم کو دھمکی‘‘۔ ہندوستانی میڈیا بھی اب مسلسل سوالات سے اپنے نیتاوؤں کو پریشان کر رہا ہے۔ نئی دہلی میں سمارٹ ٹوائیلٹ کی افتتاحی تقریب کے موقع پر جب وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ سے صحافیوں نے سوال کیا کہ بھارت نے سرجیکل سٹرائیک کے حوالے سے ابھی تک ویڈیو فوٹیج کیوں نہیں جاری کی حالانکہ اس کارروائی پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے تو راج ناتھ سنگھ لاجواب ہوگئے اور میڈیا کو انتظار کرو اور دیکھو کا مشورہ دے ڈالا۔ ایک پاکستانی مزاح نگار نے اس پر کیا خوب پھبتی کسی، لکھا کہ ’’ہم سے تو ایسی ہی سرجیکل سٹرائیک ہوتی ہے۔ پاکستان کو اعتراض ہے تو کسی اور سے کروالے‘‘۔

    جب یہ بات واضح ہوچکی کہ ہندوستانی سرکار کے پاس دکھانے کو کچھ نہیں تو پاکستانی جگت بازوں نے اپنے طرف سے مزاحیہ جوابات دینے شروع کردیے جو فن مزاح کا ایک بہترین شاہکار کہلائے جاسکتے ہیں۔ ایک صاحب نے لکھا کہ ’’سرجیکل سٹرائیک ہوئی ہیں۔ سٹرائیک پاک فوج نے کی اور سرجیکل انڈین ہسپتالوں میں بھارتی فوجیوں کا ہو رہا ہے‘‘۔ ایک صاحب ذوق نے سرجیکل سٹرائیک کے لفظ کو ٹکڑوں میں تقسیم کرکے ہندوستانی دعوے کو پارہ پارہ بلکہ مزاح کا فن پارہ کر دیا۔ پوسٹ میں لکھا تھا کہ ’’منتری جی! ہم تو یہی کہہ رہے تھے کہ ’’سر جی! کل سٹرائیک ہوچکی ہے‘‘ لیکن ان کم بختوں نے اسے’’سر جی کل سٹرائیک‘‘ کی جگہ سرجیکل سٹرائیک رپورٹ کروا دیا۔ بھارتی فوج کا اپنے میڈیا پر الزام‘‘۔ ویسے اس منطق کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ سرحد پار سے گولیاں برسا کر بھاگ جانا بھی سٹرائیک کی ایک قسم ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جس بزرگ سے ہم بچپن میں بہت تنگ ہوا کرتے تھے، اس کے گھر کی گھنٹی بجا کر بھاگ جایا کرتے تھے۔ اس حوالے سے بھی ایک صاحب نے کیا خوب لکھا ہے ’’بچپن میں ہم گھروں کی گھنٹیاں بجاکر بھاگ جاتے تھے۔ آج پتہ چلا کہ وہ سرجیکل سٹرائیکس تھے‘‘۔

    چونکہ عدم ثبوتوں کی بنیاد پر سرجیکل سٹرائیکس اب فرضیکل یعنی فرضی سٹرائیکس ثابت ہوچکے ہیں لہذا ایک رائے یہ بھی ہے کہ بھارتی ہٹ دھرمی کو مان کر اس باب کو بند کیا جائے۔ مشہور سوشل میڈیائی پیج ’’مشعل‘‘ نے اس بارے میں ایک بہت ہی خوبصورت پوسٹ بنائی ہے۔ تصویری پوسٹ میں لکھا گیا ہے،’’سیکورٹی کی نازک صورتِ حال کے پیش نظر پاک بھارت بارڈر پر ہماری فائرنگ کو ہی سرجیکل سٹرائیک سمجھا اور لکھا جائے۔ منجانب:نریندرموذی‘‘۔ ویسے بھی پاکستانی اور ہندوستانی عوام کنٹرول لائن پر آئے روز اشتعال انگیز فائرنگ کا سنتے سنتے بور ہوگئے تھے۔ اس لیے انڈیا والوں نے اسے نیا نام دے دیا، ’’سرجیکل سٹرائیک‘‘، تھوڑا ماڈرن ہے بٹ گڈ۔

    حل کوئی بھی نکلے لیکن سرجیکل سٹرائیک کا ہندوستانی ڈرامہ اب مودی سرکار کے لیے نالی میں پڑی ہوئی گیند کی طرح ہوگیا ہے۔ اگر گیند اٹھائی جاتی ہے تو ہاتھ گندے ہونے ہیں اور اگر نہیں تو گیم نے بند ہوجانا ہے۔ ایسے میں عزت اسی میں ہے کہ اس معاملے پر چپ سادھ لی جائے۔ یہ الگ مسئلہ ہے کہ سرحد کے دونوں طرف کافی دیر تک شور بلند ہوتا رہے گا۔ بھارتی عوام ثبوت (سرجیکل سٹرائیک) مانگ رہی ہوگی اور پاکستانی عوام رسیدیں۔ اس لیے کسی نئے مسئلے اور نئی بحرانی کیفیت تک، سرحدوں کے دونوں طرف کے حکمران طبقے کو برداشت سے کام لینا پڑے گا اور اپنی عوام کو کسی نئے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانا ہوگا۔

  • پاکستان، غزوہ ہند کا پڑاؤ – محمد عمر صدیق

    پاکستان، غزوہ ہند کا پڑاؤ – محمد عمر صدیق

    عمر صدیق ہندوستان دنیا کے قدیم ترین آباد خطوں اور قدیم ترین تہذیبوں میں شمار ہوتا ہے. ہندوازم بھی دنیا کے قدیم ترین مذاہب میں سے ہے. یونان اور روم کی ریاستیں فلسفہ اور منطق کے لیے مشہور تھیں لیکن غیر جانبداری سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا کہ جتنا فلسفہ ہندوستان اور ہندو مذہب نے تراشا ہے، یونان اور روم اس کی ہمسری نہیں کر سکتے.

    فلسفے کا عقلی یا غیر عقلی، اور درست یا غلط ہونا الگ بحث ہے لیکن اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ ہندوازم دنیا کا سب سے بڑا فلسفی مذہب ہے. ہندو ازم میں تقریبا تین کڑور معبود اور دیوی دیوتاؤں کا تصور موجود ہے اور ہر خدا اور دیوی دیوتا کا الگ فلسفہ اور الگ کہانی ہے. تاریخ نگار ہندو تہذیب یا ہندوستان کے بارے میں کہتے تھے کہ یہ خطہ قوموں کو کھا جانے والا ہے. دنیا کے جس حصے سے بھی لوگ یہاں آ کر آباد ہوئے، وہ آہستہ آہستہ ہندوستانی تہذیب میں رچ بس گئے. کئی قومیں اپنے مذاہب سے نا بلد ہو کر ہندو مذہب میں ضم ہو گئیں. ہندوستانی تہذیب اور روایات کا شاید یہ سحر تھا کہ جس کے اندر شامل ہو کر اور کوئی تہذیب قائم نہ رہ سکی.

    ہندو مذہب و تہذیب کا طلسم اس وقت ٹوٹا جب ہندوستان کی سرزمین پر مسلمان عرب تاجروں نے قدم رکھا. یہ تاجر اپنے ساتھ وہ اقدار اور کردار لے کر آئے جس نے قوموں کو کھا جانے کے تصور پر کاری ضرب لگائی. ہندوستان اور اس کی ہزاروں سالہ تہذیب اور اس کے ماننے والے اسلامی تہذیب اور تعلیمات کے زیر اثر آنا شروع ہوئے، اور آنے والے دور میں ہندوستان اسلام اور نظریہ اسلام کا بیس کیمپ ثابت ہوا.

    ہندو تہذیب اپنے تعصب اور ذات پات کے نظام میں ایسی جکڑی ہوئی تھی کہ ہندوستانی سرزمین کو بھی دیوی اور دھرتی ماتا پکارا جاتا تھا، یہی وجہ تھی کہ جب مسلمانان برصغیر نے علیحدہ وطن کا نعرہ لگایا تو ہندو راہنماؤں نے اس مطالبے کو دھرتی ماتا کی تقسیم کا مطالبہ کہہ کر ہندو انتہا پسندی کو ابھارنے کی کوشش کی. ہندو سامراج اور ساہوکاروں نے مسلمان ہونے والے ہندوؤں اور اسلام پھیلانے والے مسلمانوں کا ہر طرح سے راستہ روکنے کی کوشش کی، کبھی اپنے مال کے ذریعے، کبھی اپنی چال کے ذریعے اور کبھی انگریز حکومت سے ساز باز کر کے لیکن کامیابی کسی صورت حاصل نہ ہوئی. بلکہ اسلام زیادہ تیزی سے پھیلا.

    آج پاکستان اور اس کے اسلامی تشخص، دو قومی نظریہ اور نظریاتی وجود پر سوال اٹھانے والے آگاہ ہونے چاہییں کہ پاکستان کا قیام اصل میں ہر دور میں پیدا ہونے والے باطل فلسفے اور گمراہ تہذیب کے ہر سومنات کو منہدم کرنے کے لیے ہوا ہے. رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسی لیے ہندوستان کے کٹر تہذیبی بت پر حملہ آور ہونے والے اسلامی لشکر کے سپاہیوں کو جنت کی بشارت دی اور اسے غزوہ ہند قرار دیا. غزوہ ہند ہر پہلو کے اعتبار سے چاہے وہ نظریاتی محاذ ہو، عقل و دلیل کا میدان ہو، یا حرب و تحریر، جاری ہے. رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی پیش گوئی کو بےراہرو فلسفہ اور کلام کی بحثوں میں الجھایا نہیں جا سکتا.

    ہر دور اور ہر محاذ پر موجود اسلامی سوچ اور فکر باطل تہذیب کی فکری یلغار کے سامنے سینہ سپر رہی ہے. اسلام کے مقابلے میں جب کسی مذہب کی صداقت ثابت نہ ہو سکی تو باطل آج چہرے اور نام بدل کر کبھی دین الہی، سیکولرازم، لبرل ازم، کیمونزم اور اعتدال پسندی اور روشن خیالی کے خوشنما لاحقے لگا کر انسانیت کو چند کھاتے پیتے انسانوں کا غلام بنانے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن ہر دور میں اسلام کے علمبردار کبھی مجدد الف ثانی بن کر، کبھی شاہ ولی اللہ کی صورت میں، کبھی ابوالاعلی مودودی کی شکل میں باطل کی ہر فکری یلغار کے سامنے صف بستہ رہے ہیں، اور رہیں گے.

  • غزوہ ہند کی روایات اور پاکستان – خورشید احمد ندیم

    غزوہ ہند کی روایات اور پاکستان – خورشید احمد ندیم

    (اوریا مقبول جان کے شائع نہ ہونےو الے کالم کے جواب میں خورشید احمد ندیم کا شائع نہ ہونے والا کالم، دلیل کے پلیٹ فارم سے پیش کیا جا رہا ہے۔)

    خورشید ندیم مشکل یہ ہے کہ دنیا کا ہر کام محض خلوصِ نیت سے نہیں ہو سکتا۔ کچھ کام ایسے بھی ہوتے ہیں جو دلیل کا مطالبہ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر میں پورے خلوصِ نیت سے چاہوں، تو بھی علامہ اقبال کے پورے کلام میں یہ شعر تلاش نہیں کر سکتا :
    فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
    اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
    اب جو شعر مولانا ظفر علی خان نے لکھا ہو، کلیاتِ اقبال میں کیسے مل سکتا ہے؟ میرا تمام تر اخلاص اور میری بےکنار خواہش مل کر بھی، یہ کارنامہ سر انجام نہیں دے سکتے۔ میں لوگوں کو اسی جانب متوجہ کرنا چاہتا ہوں اور وہ چاہتے ہیں کہ ہر کام خلوص نیت ہی سے ہو جائے۔ انسان محض جذبات کا نام نہیں، اﷲ نے اسے عقل بھی عطا کی ہے۔ اﷲ کی یہی نعمت اسے شرفِ انسانیت سے نوازتی ہے۔ اسی کی وجہ سے وہ ایک اور بڑی اور غیر معمولی نعمت، وحی الٰہی کا مخاطب بنتا ہے۔ اسی کی مدد سے وہ اﷲ کے رسول کو پہچان سکتا ہے، جن کی بعثت کو اﷲ نے اپنا احسان قرار دیا ہے۔ قرآن مجید نے آپﷺ سے کہلوایا ’’میں تمہارے درمیان ایک عمر بسر کر چکا، کیا تمہیں عقل نہیں۔‘‘ عقل والوں کے لیے آپﷺ کی عمرِ مبارک کو دلیلِ نبوت بنا دیا گیا۔ عقل اگر خلوص نیت کے ہم رکاب نہ ہو تو فرد ہی نہیں قومیں بھی برباد ہو جاتی ہیں۔ یوں بھی خلوص ایک دلی کیفیت ہے۔ کوئی میرے اخلاص کو جاننے پر قادر ہے نہ میں کسی کے اخلاص کو جان سکتا ہوں۔ دلیل ہی واحد راستہ ہے جو مکالمے کو ممکن بناتا ہے۔

    گزشتہ کالم میں اپنے پڑھنے والوں کو اسی جانب متوجہ کرنے کی کوشش میں دو باتیں لکھی گئیں: ایک یہ کہ پاکستان کا قیام کوئی الٰہی منصوبہ نہیں۔ اس کی بنیادیں اسباب و علل میں ہیں۔ اس کے لیے دینی بنیادیں تلاش کرنا ایک غیر ضروری مشقت ہے۔ پھر یہ بھی عرض کیا کہ اسلام اﷲ کی نعمت ہے جو تمام بنی نوع انسان کے لیے ہے۔ اسے اہل پاکستان تک محدود کرنا درست نہیں۔ دوسری بات یہ کہی گئی کہ اس طرح کے تاریخی واقعات کو دینی استدلال فراہم کرنے کی کوشش میں، جب حدیث کی کتب میں موجود روایات کو عصری واقعات پر منطبق کیا جاتا ہے تو اس سے خود دین کی صحت کے بارے میں سوال اٹھتے ہیں۔ اس لیے، یہ ایک جسارت ہے جس سے گریز کیا جاناچاہیے۔ بطور مثال، دو روایات کا ذکر بھی کیا گیا کہ کیسے ماضی کے واقعات پر ان کا انطباق کیا گیا اور کیسے آج پھر ان کی بنیاد پر لوگوں کو قتل و غارت گری کے لیے ابھارا جا رہا ہے۔ یہ بات کہنے کی پاداش میں، ایک محترم ناقدکا خیال ہے کہ مجھ جیسے لوگوں سے’’ملحدین ہزار درجہ بہتر ہیں‘‘۔ میراحسنِ ظن یہ ہے کہ یہ فتویٰ بھی خلوص نیت سے دیا گیا ہوگا۔ اس لیے اس اخلاص پر، میں ان کے لیے اجر کی دعا کرتے ہوئے، ان کے اعتراضات اور ان کے موقف کی طرف رجوع کرتا ہوں اور اسے دلیل کی بنیاد پر پرکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ یوں بھی بابِ الفتن اور ملاحم کی روایات اور ان کا اطلاق ہمارے عہد کی اہم ترین دینی بحث ہے۔ ضرورت ہے کہ مسلم معاشرے میں اس حوالے سے ابہام کا خاتمہ ہو۔

    میں نے ان روایات کے باب میں امام احمد بن حنبل کا یہ قول نقل کیا کہ ان کی کوئی اصل نہیں تو کہا گیا۔ ’’نہیں معلوم کہ امام احمد بن حنبل کا قول انہوں نے کہاں سے لیا۔‘‘عرض ہے کہ اسے امام جلال الدین سیوطی نے اصولِ تفسیر پر اپنی مشہور کتاب ’’ الاتقاق فی علوم القرآن‘‘ کی دوسری جلد میں نقل کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
    [pullquote]’’قال احمد :ثلاث کتب لااصل لھا: المغازی والملاحم والتفسیر‘‘[/pullquote]

    تین قسم کی کتابیں ایسی ہیں، جن کی کوئی اصل نہیں: مغازی، ملاحم، اور تفسیر۔ آج مسلمانوں کو یہی ملاحم کی روایات سنا کر، انہیں جنگ پر ابھارا جاتا ہے۔

    میں نے مسند احمد کی روایت کا حوالہ دیا تھا جس میں ’خلافت علیٰ منہاج النبوت‘ کے قیام کا ذکر ہے اور اس ضمن میں حسن بصری کا ایک قول نقل کیا تھا۔ میں نے بتایا کہ اس کا مصداق بھی ماضی میں متعین ہو چکا۔ ناقد نے اسے بھی مشکوک بنانے کی کوشش کی کہ ’’حسن بصری کی عمر بن عبدالعزیز کے دور میں موجودگی کی مستند تاریخی شہادت نہیں ملتی‘‘۔ مکرر عرض ہے کہ یہاں بھی صرف خلوص نیت سے کام نہیں چل سکتا۔ اس کے لیے دلیل کی ضرورت ہے۔ حسن بصری کا سالِ وفات۱۱۰ھجری ہے۔ ان کا انتقال عمر بن عبدالعزیز کی وفات کے نو سال بعد ہوا۔ اس وقت مولانا علی میاں کی ’’تاریخ دعوت و عزیمت‘‘ اور عبدالرحمٰن رافت پاشا کی’’سیرتِ تابعین‘‘ میرے سامنے ہیں۔ دونوں نے حسن بصری کا سال وفات ۱۱۰ ھجری بتایا ہے۔ اب رجال الغیب نے ان کی تاریخِ وفات کچھ اور بتائی ہو تو اس کا جواب دینے سے یہ لکھنے والا عاجز ہے۔’’حضور‘‘ کی بات کرنے والوں کو امور غیب کی کیا خبر۔ میرے ناقد کو شاید یہ بھی معلوم نہ ہو کہ دراصل حسن بصری نے عمر بن عبدالعزیز کو مہدی قرار دیا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ اس کا بھی انکار کریں، عرض ہے کہ حوالے کے لیے پہلے سیوطی ہی کی ’’ تاریخ الخلفاء‘‘ سے رجوع فرمائیں۔ اس باب میں مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی روایت کے ایک راوی حبیب بن سالم یہ کہتے ہیں کہ جب عمر بن عبد العزیز کی حکومت قائم ہوئی تو انہوں نے یہ حدیث انہیں لکھ بھیجی اور ساتھ ہی اپنے اس احساس کا ذکر بھی کیا کہ آپ ہی وہ خلیفہ ہیں، جن کا اس روایت میں ذکر ہے۔ وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ اس تعبیر کو سن کر عمر بن عبد العزیز بہت خوش ہوئے۔ ( مشکوۃ، چہارم، حدیث 1309)

    مجھے اس پر اصرار نہیں کہ ماضی میں لوگوں نے ان روایات کاجو مصداق طے کیا، وہ درست تھا۔ کل بھی یہ قیاس تھا، آج بھی قیاس ہے۔ دین قیاس پر نہیں محکم بات اور یقین پر کھڑا ہے۔ جب لوگ غیر مصدقہ باتوں کو ’’رسول اللہ نے فرمایا‘‘ کے ساتھ بیان کرتے ہیں تو دراصل انہیں دینی سند دے دیتے ہیں۔ جب یہ باتیں غلط ثابت ہوتی ہیں تو ہماری یہ غلطی دین کی غلطی سمجھی جاتی ہے۔ اس لیے دین کے مسائل صرف خلوصِ نیت سے بیان نہیں ہو سکتے، اس کے لیے محکم دلیل کی ضرورت ہوتی ہے۔

    میں نے یہ بتانے کی بھی کوشش کی ہے کہ جب لوگ یقین کے ساتھ ان روایات کا مصداق طے کرتے ہیں تو کیسے لاکھوں لوگوں کے جان و مال اور ایمان کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔ مسلمانوں کی تاریخ میں بارہا یہ ہوا کہ چند واقعات پر ان روایات کو منطبق کیا گیا۔ لوگوں نے جان و مال کی قربانی دی مگر روایات میں کہی گئی کسی بات اور واقعے کا مصداق نہ بن سکے۔ مثال کے طور پر جب افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف معرکہ آرائی جاری تھی یا جب طالبان آئے تو پھر ان رویات کا مصداق طے کیا گیا۔ میرے سامنے اس وقت ایک کتابچہ ’’جہادِ پاکستان سے ظہورِ مہدی تک‘‘ رکھا ہے۔ یہ کتابچہ ۲۰۰۲ء میں لکھاگیا۔ اس میں باب الفتن کی روایات کا اطلاق افغانستان پر کیسے کیا گیا ہے اور اس کے بعد کے ماہ و سال نے کیسے انہیں غلط ثابت کیا، اس بات کو میں اگلے کالم کے لیے اٹھا رکھتا ہوں۔
    اس کے ساتھ مجھے یہ بھی بتانا ہے کہ الہی منصوبہ کیا ہوتا ہے اور کیا پاکستان الہی منصوبہ تھا؟ پھر یہ کہ غزوہ ہند کی روایات کی حقیقت، روایت اور درایت کے پہلو سے کیا ہے۔ماضی میں کس طرح اس روایات کا اطلاق کیا گیا؟ اﷲ نے چاہا تو یہ سب آنے والے کالموں کے موضوعات ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ غلطی ہائے مضامین کا ایک نیا سلسلہ میرا منتظر ہے:
    اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
    میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

    اوریا مقبول جان کا کالم یہاں ملاحظہ کریں