Tag: گوادر

  • پاک چین سفارتی تعلقات کے65سال- محمد شاہد محمود

    پاک چین سفارتی تعلقات کے65سال- محمد شاہد محمود

    محمد شاہد محمود چین کے پاکستان میں سفیر سن وی ڈونگ نے کہا ہے کہ چائنا پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ دونوں ممالک کے لیے مفید ہے، یہ منصوبہ پاکستان کے ایشین ٹائیگر بننے کے خواب کی تعبیر ثابت ہوگا۔ سی پیک کے منصوبوں کو تیزی سے عملی جامہ پہنایا جارہا ہے، توانائی، انفرااسٹرکچر، گوادر پورٹ اور صنعتی تعاون سی پیک کے اہم حصے ہیں جن پر موثر انداز میں عمل درآمد ہورہا ہے، آئندہ برسوں میں اس منصوبے کے تحت اور کامیابیاں بھی حاصل ہوں گی۔ سی پیک کے تحت شمسی، کوئلہ اور پانی سے بجلی پیدا کرنے کے پلانٹس لگائے جارہے ہیں جو پاکستان میں توانائی بحران سے نمٹنے کے لیے مدد گار ہوں گے۔ قراقرم ہائی وے پر تھاکوٹ تا حویلیاں روڈ کی اپ گریڈیشن، ملتان سے سکھر موٹروے جو کراچی تالاہور موٹر وے کا حصہ ہے کی تعمیر کا کام تیزی سے جاری ہے۔ پاکستان اور چین کے درمیان بہتر ٹیلی کمیونیکشن کی سہولتیں مہیا کرنے کے لیے خنجراب سے راولپنڈی تک فائبر آپٹک بچھائی جارہی ہے جس کا مقصد سائبر اور ڈیٹا راہداریاں بنانا ہے۔

    گوادر بند گاہ کو چین کے حوالے کرنے کے بعد وہاں پر متعدد سرگرمیوں بشمول قومی و بین الاقوامی ایئرپورٹ کی تعمیر، ایکسپریس وے کی تعیمر اور شہر میں ٹرانسپورٹ و تجارت سے منسلک لوگوں کو سہولتوں کی فراہمی پر تیزی سے کام جاری ہے۔ صنعتی ماہرین کی موجودگی میں صنعتی تعاون کے ذریعے دونوں ممالک کی گروتھ میں اضافہ ہو گا۔ اس وقت دونوں ممالک کے درمیان باہمی تجارت 18.9ارب ڈالر ہے، 46ارب ڈالر سے سی پیک کا فری ورک بن رہا ہے، چین جنوبی ایشیا میں پاکستان میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری کرنے والا ملک ہے، باہمی صنعتی اشتراک سے دونوں ممالک اس قابل ہوجائیں گے کہ اپنی مصنوعات دیگر ممالک کی مارکیٹ تک بھجوا سکیں۔ ہمارا تعاون صرف معاشی تعلقات تک ہی محدود نہیں بلکہ یہ عوام سے عوام کے رابطے، ثقافتی تبادلے، صحت اور تعلیم کے شعبوں تک پھیلا ہوا ہے۔ گزشتہ سال چین نے 6.9 فیصد جی ڈی پی گروتھ ریٹ حاصل کی اور اس سال بھی مقررہ ہدف کے مطابق ترقی حاصل کی، چین دنیا میں تیز ترقی کرنے والی معشیت ہے اور عالمی رینکنگ میں دوسرے نمبر پر ہے۔ پاکستان بھی اپنی معاشی حالت کو بہتر بنانے کے لیے اپنے عوام کو بہتر سہولتوں کی فراہمی یقینی بنائے، اگرچہ پاکستان کی معاشی ترقی تسلی بخش ہے لیکن سی پیک اور دوسرے منصوبوں کے ساتھ یہ دیرپا معاشی ترقی حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔

    پاکستان اور چین کے سفارتی تعلقات کو 65سال مکمل ہونے کے موقع پرمنعقدہ چین پاکستان اقتصادی راہداری میڈیا فورم نے کہاہے کہ سی پیک کی کامیابی بنیادی اہمیت کی حامل ہے، سماجی میڈیا سے بھی سی پیک کے بارے میں معلومات اور شعور کی آگاہی کے لئے استفادہ کیا جانا چاہیے،پاکستان اور چین نے ہر قسم کے حالات میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا ، میڈیا اور تھنک ٹینکس کی اہمیت سی پیک کی وجہ سے کئی گنا بڑھ گئی ہے، سی پیک سے نا خوش قوتیں اسے سبوتاڑ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔سی پیک بارے معلومات اور آگاہی کے لئے دونوں ممالک کے صحافیوں کے لئے ایک وی چیٹ گروپ قائم جبکہ سی پیک کے لئے پہلی ویب سائیٹ کے اجراء کا بھی اعلان کیاگیاہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ پراجیکٹ کی فلیگ شپ کے پیش نظر سی پیک کی کامیابی بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ میڈیا تعاون میں اضافہ کرنا سی پیک کے لئے پلیٹ فارم کا قیام کرنا فورم کا موضوع تھا۔پاکستان میں چین کے سفارتخانے نے ریسرچ وڈولپمنٹ انٹرنیشنل ،آل چائنہ جرنلسٹس ایسوسی ایشن (اے سی جے اے) ،چائنہ اکنامک نیٹ ، پاکستان چین انسٹیٹیوٹ اور تھری گارجز کارپوریشن کے اشتراک سے اس فورم کا اہتمام کیا۔اس موقع پر خطاب کرنے والوں میں عوامی جمہوریہ چین (پی آرسی)کی قومی عوامی کانگریس(این پی سی) کی خارجہ امور کمیٹی کے وائس چیئرمین ڑاؤ بائیگی ،چین پاکستان اقتصادی راہداری کے بارے میں پارلیمانی کمیٹی کے چیئرمین مشاہدحسین سید، چین میں پاکستان کے سفیر مسعود خالد ،تسنگ ہوا انٹرنیشنل سینٹر برائے کمیونیکیشن کے ڈائریکٹر لی ڑی گوانگ ،اے سی جے اے کے نائب صدر ڑاہی ہوئی شنگ ، پاکستان ریسرچ سینٹر پیکنگ یونیورسٹی کے ڈائریکٹر ٹانگ مینگ شینگ ،سی پی ای سی میڈیا فورم کے صدر حافظ طاہر خلیل ، سابق ڈائریکٹر جنرل پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن غلام مرتضیٰ سولنگی اور ڈائریکٹر چائنہ ریڈیو انٹرنیشنل ڑاؤ چیاؤ شامل تھے۔ مقررین نے یہ رائے تھی کہ وی چیٹ ، فیس بک، اور ٹوئٹر جیسے سماجی میڈیا سے بھی سی پیک کے بارے میں معلومات اور شعور کی آگاہی کے لئے استفادہ کیا جانا چاہیے۔اس مقصد کے لئے دونوں ممالک کے صحافیوں کے لئے ایک وی چیٹ گروپ قائم کیا گیا ہے۔

    پاک چین اقتصادی راہداری پارلیمانی کمیٹی کے چیئرمین مشاہد حسین سید نے کہا کہ پاکستان اور چین نے ہر قسم کے حالات میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے۔ میڈیا اور تھنک ٹینکس کی اہمیت سی پیک کی وجہ سے کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ آج کی جنگ ٹینکوں کی نہیں بلکہ پراپیگنڈے کی جنگ ہے۔ سی پیک سے نا خوش قوتیں اس سبوتاڑ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔بعض مغربی اخبارات میں چین کے خلاف خبریں بھی دیکھی ہیں۔پاکستانی سفیر مسعود خالد نے بین الاقوامی تعلقات میں معلومات اور کلچر کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے دونوں ممالک ، پورے خطے اور بالاخردنیا بھر کی معیشت کے لئے سی پیک کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالی۔ڑاؤ بائیگی نے کہا کہ یہ بی اینڈ آر منصوبے کا پہلا اور انتہائی اہم منصوبہ ہے۔ اگر سی پیک کو اس کی کامیابی میں مشکل کا سامنا کرنا پڑا تو دوسرے منصوبوں پر منفی اثر پڑے گا۔ دفتر خارجہ ترجمان نفیس ذکریا کا کہنا ہے کہ پاکستان چین اقتصادی راہداری کے خلاف بھارتی سازشوں کے ثبوت موجود ہیں اور بھارتی جاسوس، پاکستان چین اقتصادی راہداری کو سبوتاڑ کرنے کے لئے کام کرتے رہے ہیں۔ ان جاسوں میں کمرشل قونصلر و ’’را‘‘ سٹیشن چیف راجیش اگنی ہوتری، فرسٹ سیکرٹری کمرشل انوراگ سنگھ، ویزا اتاشی امردیپ سنگھ بھٹی، سٹاف ممبر دھرمیندرا سوڈھی، سٹاف وجے کمار ورما، سٹاف مدھاون نندا کمار کا تعلق ’’را‘‘ جبکہ فرسٹ سیکرٹری پریس اینڈ انفارمیشن بلبیر سنگھ آئی بی کے سٹیشن چیف، اسسٹنٹ پرسونل ویلفیئر آفیسر جیابالن سنتھل کا تعلق آئی بی سے ہے۔چینی وفد نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے ملاقات کی۔ وزیر خزانہ نے وفد کا خیز مقدم کیا جبکہ چینی سرمایہ کاروں کی پاکستان میں دلچسپی کی تعریف کی۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک کے منصوبے پاکستان میں انفرانسٹرکچر کی ترقی سرمایہ کاری کا باعث بن رہے ہیں۔وزیر خزانہ نے پاکستان سٹاک ایکسچینج کی کارکردگی کا ذکر کیا اور کہا کہ پاکستان ڈویلپمنٹ فنڈ کے ذریعے کمرشل بنیاد پر قابل عمل منصوبوں میں سرمایہ کار رہے گا۔

    وزیر اعلیٰ شہباز شریف کا کہنا ہے کہ کامیابی افراتفری پھیلانے سے نہیں بلکہ عوام کی خلوص نیت سے خدمت کرنے سے ملتی ہے – ملک کی ترقی،استحکام اور قومی مفادات کو ہر حال میں ذاتی مفادات پر ترجیح دینی چاہیے۔ عوام نے دھرنا گروپ سے لا تعلق ہو کر مسترد شدہ عناصر کے عزائم کو خاک میں ملا دیا ہے۔ اربوں روپے کے میگا پراجیکٹس کی تکمیل سے عوام کی تقدیر بدلنے جا رہی ہے۔ سی پیک پر تیزرفتاری سے عملدرآمد سے دوست خوش اور عوام کی ترقی کے مخالفین کو تکلیف ہو رہی ہے – منفی سیاست کے علمبردار پاکستان کی ترقی اور خوشحالی نہیں چاہتے۔ ملک کے روشن مستقبل کی نوید سی پیک کو نقصان پہنچانا کسی طور پر عوام کی خیر خواہی نہیں۔ چیلنجز سے نمٹنے کیلئے سیاسی قوتوں کو مثبت کردار ادا کرنا ہے۔ انتشار کی سیاست پاکستان کی ترقی اورعوام کی خوشحالی کیلئے زہر قاتل ہے۔ احتجاجی عناصر کے غیر جمہوری رویوں سے سی پیک کے منصوبے بھی تاخیر کا شکار ہوئے۔ باشعور عوام جان چکے ہیں کہ افراتفری کی سیاست کرنیوالے ملک میں اندھیروں کا راج چاہتے ہیں

  • سی پیک، وفاق اور صوبوں میں اعتماد کا فقدان –  بادشاہ خان

    سی پیک، وفاق اور صوبوں میں اعتماد کا فقدان – بادشاہ خان

    بادشاہ خان کئی اہم ملکی مسائل ایسے ہیں جن پر وفاقی حکومت کسی کی بات سننے کو تیار نہیں، فاٹا کا مسئلہ ہو یا پھر سی پیک کے مغربی روٹ پر صوبوں کو اعتماد میں لینے کا، مجبورا سی پیک منصوبے میں مغربی روٹ کا اسٹیٹس معلوم کرنے کے لیے اسپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی اسد قیصر اور حکمران اتحاد کے پارلیمانی لیڈروں نے پشاور ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کردی ہے جس کی قاضی محمد انور ایڈووکیٹ پیروی کریں گے. رٹ صوبائی اسمبلی میں منظور کی گئی قرارداد نمبر 882 کے تحت دائر کی گئی، تاہم قرارداد پر دستخط کرنے والی چاروں اپوزیشن جماعتیں جے یو آئی، مسلم لیگ ن، اے این پی اور پیپلزپارٹی پیچھے ہٹ گئی ہیں اور اب رٹ حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور قومی وطن پارٹی کی جانب سے دائر کی گئی ہے. صوبائی کابینہ کے رکن مشتاق غنی نے کہا ہے کہ صوبے کے حصے میں ایک رابطہ سڑک کے سوا کچھ نہیں دیا گیا، نہ ہی وفاق نے معاہدے کی دستاویزات دی ہیں، اور یہ رٹ قرارداد کی بنیاد پر دائر کی گئی ہے، اب کچھ جماعتیں پیچھے ہٹ رہی ہیں تو ان کی مرضی تاہم قرارداد کی سب نے ہی حمایت کی تھی. صوبائی اکائیوں کے اقتصادی راہداری (سی پیک) پر شدید اعتراضات وشبہات ہیں، اعتراضات کرنے والے کوئی انڈین ایجنٹ نہیں بلکہ پاکستان سے محبت کرنے والا سنجیدہ محب وطن طبقہ ہے. خیبر پختونخوا کے وزیراعلی پرویز خٹک نے کئی بار کہا کہ وفاقی حکومت نے چائنہ پاکستان اقتصادی راہداری سے منسلک تمام منصوبوں کو راہداری کے مشرقی روٹ پر منتقل کر کے کام شروع کردیا ہے، اور خیبر پختونخوا و بلوچستان کو اقتصادی راہداری کے منصوبے سے تقریبا محروم کر دیا گیا ہے، جبکہ منصوبے کا مغربی روٹ بھی ختم کر دیا گیا ہے جس کا ہم سے وفاقی حکومت نے وعدہ کیا تھا. یہ الفاظ ایک صوبے کے وزیر اعلی نے کئی بارکہے، اسی قسم کا بیان بلوچ رہنما سردار اختر جان مینگل کا سامنے آچکا ہے کہ جس میں انھوں نے گوادر پورٹ پر اپنے تحفظات کا واضح الفاط میں ذکر کیا تھا۔

    چند ماہ قبل ایک نجی چینل پر احسن اقبال کا ون ٹو ون انٹرویو سننے کا شرف حاصل ہوا، انٹرویو میں وزیر موصوف نے سی پیک کے بارے میں دلائل کے انبار پیش کیے، ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ چینل حکومتی مؤقف کی ترجمانی کے لیے یہ پروگرام کروا رہا تھا، اور پروگرام میں ایسا تاثر دیا گیا کہ کام تو مغربی روٹ پر ہی جاری ہے. گودار سے سوراب تک چھ سو پچاس کلومیٹر روڈ کو مغربی روٹ قرار دیا گیا جو کہ مغربی روٹ نہیں ہے، جس نے یہ علاقہ نہیں دیکھا اسے کیسے معلوم ہوسکتا ہے کہ کام کہاں ہو رہا ہے؟ وہ یہی سمجھےگا کہ یہ دوسری پارٹیاں اور صوبے شاید بےوقوف ہیں کہ خطے میں گیم چینجر منصوبے کی مخالفت کر رہی ہیں، جب پاکستان کے پس ماندہ علاقوں میں تبدیلی نہیں آرہی تو پھر کیسے یقین کرلیا جائے کہ خطے میں تبدیلی کا منصوبہ ہے. خود اس وقت تک گوادر کے مقامی رہائشی پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔

    بلوچستان میرا آنا جانا رہتا ہے، کوئٹہ اسی سوراب سے گذر کر جاتا ہوں. سوراب چار راستوں کے سنگم پر واقع ہے. ایک سڑک کراچی کی جانب، دوسرا راستہ خضدار سے رتوڈیرو سندھ، تیسرا راستہ کوئٹہ اور چوتھا راستہ گوادار کو جاتا ہے. اس وقت سوراب سے گودار والے روٹ پر کام جاری ہے اور یہ مغربی روٹ نہیں ہے بلکہ یہ تو وہ راستہ ہے جو گودار سے لازمی یہاں تک بنے گا، اور یہی گودار سے پورے ملک کو لنک کرنے کا مختصر راستہ ہے. یہ مغربی روٹ نہیں،گوادر سے نکلنے والا مین روٹ ہے کیونکہ ساحل سمندر کے ساتھ بنائی گئی دوسری سڑک جو کہ پسنی، اور ماڑہ بوزی ٹاپ، ہنگول ندی سے ہوتے ہوئے کراچی کو لنک کرتی ہے، یہ طویل راستہ ہے، اس لیے پہلے مرحلے میں سوراب تک شارٹ ہائے وے تعمیر کی جا رہی ہے. اس سڑک اور کوری ڈور کو خضدار سے جیک آباد، رتوڈیرو سندھ سے لنک کیے جانے کی منصوبہ بندی ہے، جسے چھپایا جارہا ہے. کوری ڈور کا یہ حصہ بھی ضروری ہے کیونکہ اس سے سندھ کو فائدہ ہوگا مگر مغربی روٹ وہ ہے جو کہ سوراب، کوئٹہ سے ہوتے ہوئے برہان کو لنک کرے گا، اس روت پر خاموشی ہے. کچھ عرصہ قبل حکومت کی جانب سے سیاسی جماعتوں کو یہ بتایا گیا تھا کہ دونوں روٹس پر انفراسٹرکچر یکساں ہوگا، لیکن جب اس سے زیادہ مناسب مغربی روٹ پر توانائی کے پلانٹ ہوں گے نہ کوئی صنعتی پارکس اور انفراسٹرکچر ہوگا تو پھر یہ کیسے یکساں ہوگا؟ توانائی اور دیگر پروجیکٹ کوئی چھوٹے منصوبے نہیں ہیں۔ یہ انڈسٹریل پارکس چھوٹے چھوٹے نہیں بلکہ پورے پورے شہر بنیں گے ۔ تو جب مغربی روٹ پر توانائی نہیں ہوگی، بجلی نہیں ہوگی، موٹر وے نہیں ہو گی تو کیسے یہ علاقے ترقی کریں گے۔

    ایک صوبے کے علاوہ تمام صوبے راہداری پروجیکٹ کے مخالف ہیں، کیوں؟ سوال بڑا اہم ہے اور جواب بہت سادہ کیونکہ انہیں نظر انداز کیا جارہا ہے۔ اقتصادی زونز کے لیے جب پیسے ہی نہیں تو زونز کا اعلان کرکے لالی پاپ کیوں دیا جارہا ہے۔ سی پیک منصوبے کی کامیابی کے لیے یہ بات ضروری ہے کہ سب سے پہلے بلوچستان کے عوام اور حکومت کو اعتماد میں لیا جائے تاکہ ان کے اندر 69 سالوں سے محرومی کا احساس ختم ہو، اور ان کو بھی ترقی کے ثمرات میں پورا حصہ ملے. دلوں کو جیتنے کے لیے پاکستان کے ساتھ ساتھ چین کو بھی آگے آنا ہوگا اور سب سے زیادہ ضروری تو پاک فوج کا کردار ہونا چاہیے کہ جس پر پہلی بار بلوچ قوم اور نوجوان بھروسہ کر رہے ہیں. ان کو امید ہے کہ اب ان کے مسائل حل کروانے میں پاک فوج کردار ادا کرے گی. اکائیوں میں اتفاق سے قومیں تشکیل پاتی ہیں، جب صورت حال نازک ہو تو بڑے ہونے کا دعوی کرنے والوں کو چھوٹوں کو راضی کرنا پڑتا ہے ، پنجاب بڑا بھائی ہے اس لیے بڑی ذمہ داری اور قربانی بھی اسے دینا ہوگی۔ اس سے چھوٹے صوبوں میں وفاق اور پنجاب کی جانب سے خیر سگالی کا پیغام جائے گا اور چاروں صوبوں کے عوام میں محبت اور بھائی چارگی کو فروغ ملے گا، جبکہ سی پیک راہداری سے جنوبی پنجاب، سندھ ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے پسماندہ علاقے کو ترقی کے مواقع ملیں گے۔

  • بدلتا ہوا بلوچستان-جاوید چوہدری

    بدلتا ہوا بلوچستان-جاوید چوہدری

    566527-JavedChaudhryNew-1469464911-239-640x480

    بلوچستان یونیورسٹی  کے وائس چانسلرپروفیسر ڈاکٹر جاویداقبال بہت بڑی کیس اسٹڈی ہیں‘ وفاقی حکومت کو یہ کیس اسٹڈی پی آئی اے‘ پاکستان اسٹیل مل اور پاکستان ریلوے جیسے تمام مریض اداروں کو پڑھانی چاہیے‘ یہ اسٹڈی ثابت کر دے گی اگروِل ہو‘ آپ اگر میرٹ پر تقرری کریں‘ آپ اختیارات دیں اور آپ کام میں مداخلت نہ کریں تو ادارے بھی اپنے قدموں پر کھڑے ہو جاتے ہیں۔
    >
    بلوچستان یونیورسٹی 2013ء تک پاکستان کا خوفناک ترین ادارہ تھا‘ کیمپس میں مسلح جتھے کھلے عام پھرتے تھے‘ یہ اساتذہ کو سرعام گولی مار دیتے تھے اور کسی میں لاش اٹھانے کی جرأت نہیں ہوتی تھی‘ ہڑتال عام تھی‘ طالب علم امتحان کے بغیر پاس ہو جاتے تھے‘ ہاسٹلوں پر قبضے تھے‘ بجلی اور گیس کے میٹر کٹے ہوئے تھے‘ یونیورسٹی میں پاکستان کا نام لینا جرم تھا‘ جھنڈا لہرانے یا پاکستان زندہ باد کہنے والوں کو گولی مار دی جاتی تھی اور یونیورسٹی کے ملازمین کی تنخواہیں رک چکی تھیں۔

    آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو گی بلوچستان یونیورسٹی دنیا کی واحد یونیورسٹی تھی جس کے اساتذہ نے 2013ء میں یونیورسٹی گاؤن پہنے‘ ہاتھوں میں کشکول اٹھائے اور بھیک مانگنے کے لیے سڑک پر کھڑے ہو گئے اور لوگوں نے انھیں باقاعدہ بھیک دی‘ یونیورسٹی کے زیادہ تر پروفیسر اس دور میں کراچی‘ لاہور اور اسلام آباد نقل مکانی کر گئے لیکن پھر یہ یونیورسٹی بدل گئی‘ یہ تعلیم کا گہوارہ بن گئی‘ طالب علم تین ہزار سے11 ہزار6 سو ہو چکے ہیں‘ پی ایچ ڈی اساتذہ کی تعداد 180 ہے اور ان میں 135 فارن کوالی فائیڈ ہیں‘ یہ لوگ امریکا اور یورپ کی نامور یونیورسٹیوں سے پی ایچ ڈی کر کے کوئٹہ آئے ہیں۔

    آپ یونیورسٹی میں جس سے ہاتھ ملاتے ہیں وہ ڈاکٹر نکلتا ہے اور اس کے پاس ہارورڈ‘ آکسفورڈ اور ہائیڈل برگ کی ڈگری ہوتی ہے‘ یونیورسٹی میں چار سو طالب علم ایم فل کر رہے ہیں‘ پی ایچ ڈی پروگرام بھی فل سوئنگ میں چل رہا ہے‘ آپ کو یونیورسٹی کے لباس‘ چال ڈھال اور اطوار کسی بھی طرح پنجاب اور سندھ کی بڑی یونیورسٹیوں سے کم دکھائی نہیں دیتے‘ لائبریری بڑی اور خوبصورت ہے‘ یہ رات تک آباد رہتی ہے‘ نوجوانوں کو نشست نہ ملے تو یہ فرش پر بیٹھ کر پڑھنا شروع کر دیتے ہیں۔

    کیمپس میں پاکستان زندہ باد کے نعرے بھی لگتے ہیں اور پاکستان کا پرچم بھی لہراتا ہے‘ یونیورسٹی اپنے اخراجات کا 39 فیصد خود پیدا کر رہی ہے‘ وہ ادارہ جس کاسٹاف کشکول لے کر سڑک پر کھڑاتھا اس کے اکاؤنٹ میں اب نصف ارب روپے جمع ہیں اور یہ اچھے طالب علموں کو فیسیں واپس کر رہا ہے ‘ آپ کو شاید یہ جان کر بھی حیرت ہو گی یہ ملک کی واحد یونیورسٹی ہے جو اپلائی کرنے والے تمام طالب علموں کو داخلہ دے دیتی ہے‘ یہ معجزہ کیسے ہوا اور یہ کتنی مدت میں ہوا؟ یہ سوال اصل کیس اسٹڈی ہے۔

    یہ معجزہ وائس چانسلر ڈاکٹر پروفیسر جاوید اقبال نے صرف دو سال میں کیا‘ ڈاکٹر جاوید اقبال فارما سسٹ ہیں‘ یہ بلوچستان یونیورسٹی کے طالب علم بھی تھے اور یہ یہاں پڑھاتے بھی رہے‘ یہ خاندان سمیت کراچی شفٹ ہو گئے تھے‘ حکومت نے 2013ء میں دہشت گردی سے نبٹنے کا فیصلہ کیا‘ لیفٹیننٹ جنرل ناصر جنجوعہ کو کوئٹہ کا کور کمانڈر بنایا گیا‘ انھیں مکمل اختیارات دیے گئے‘ یہ وژنری اور ان تھک انسان ہیں‘ یہ آگے بڑھے‘ کام شروع کیا۔

    بلوچوں کے مسائل سنے اور ان مسائل کا حل تلاش کرنے لگے‘ میں دو دن کوئٹہ رہا‘ میں نے ان دو دنوں میں جنرل ناصر جنجوعہ کا نام ہر زبان سے سنا‘ یہ محبت ثابت کرتی ہے جب فیصلے میرٹ پر ہوتے ہیں تو لوگ قومیت اور لسانیت دونوں سے بالاتر ہو کر خدمات کا اعتراف کرتے ہیں‘ میری جنرل جنجوعہ سے صرف ایک ملاقات ہے‘ یہ ملاقات سری لنکا میں ہوئی‘ میں نے جنرل صاحب سے عرض کیا‘ آپ کی آنکھیں آپ کے چہرے کے تاثرات سے میچ نہیں کرتیں‘ وہ بولے ’’کیسے؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’آپ کے چہرے پر سنجیدگی لیکن آنکھوں میں شرارت ہوتی ہے‘‘ انھوں نے قہقہہ لگایا‘ مجھے کوئٹہ میں آ کر معلوم ہوا یہ بلوچستان میں بہت مقبول ہیں‘ لوگ دل سے ان کا احترام کرتے ہیں۔

    مجھے یہاں آ کر محسوس ہوا حکومت بلوچستان کے معاملے میں بہت سنجیدہ ہے‘ یہ جان چکی ہے ہم نے اگر دوریاں ختم نہ کیں تو بلوچستان ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا‘ ہماری حکومت جان چکی ہے بھارت اور امریکا بلوچستان میں دہشت گردی کے لیے بھاری سرمایہ کاری کر رہے ہیں‘ یہ بلوچستان کو پاکستان سے توڑنا چاہتے ہیں اور ہم اگر ملک کو سلامت دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں بلوچوں سے اپنا دل جوڑنا ہو گا اور جنرل ناصر جنجوعہ نے یہ کام کیا چنانچہ لوگ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی انھیں یاد کر رہے ہیں‘ یہ کوئٹہ میں ہیرو کی طرح پہچانے جاتے ہیں‘ ڈاکٹر جاویداقبال بھی جنرل ناصر جنجوعہ کی دریافت تھے‘ یہ انھیں واپس کوئٹہ لائے اور بلوچستان یونیورسٹی ان کے حوالے کر دی۔

    ہمارے ملک کی تاریخ ہے ہم نے جس ادارے کو تباہ کر دیا وہ ادارہ دوبارہ قدموں پر کھڑا نہیں ہو سکا لیکن بلوچستان یونیورسٹی استثنیٰ ہے‘ یہ مکمل طور پر تباہ ہوئی اور پھر دوبارہ کھڑی ہو گئی‘ یہ بالکل ایسے ہے جیسے کوئی شخص فوت ہو جائے‘ اسے کفن پہنا کر قبر میں دفن کر دیا جائے اور یہ دوبارہ زندہ ہو جائے‘ بلوچستان یونیورسٹی ایک ایسا معجزہ ہے۔

    میں 28 اکتوبر کی صبح بلوچستان یونیورسٹی گیا‘ گیٹ پر پہرے تھے‘ دیواریں قلعہ نما تھیں اور ان پر درجنوں کیمرے لگے تھے‘ وائس چانسلر کی حفاظت کے لیے خصوصی انتظامات ہیں‘ یہ گھر سے نکلتے ہیں یا یونیورسٹی سے گھر جاتے ہیں تو ان کے آگے پیچھے ‘دائیں بائیں ایف سی کی گاڑیاں چلتی ہیں‘ یہ یونیورسٹی کے اندر بھی گارڈز کے نرغے میں رہتے ہیں۔

    ڈاکٹر صاحب اپنی پشت پر لوڈڈ پستول بھی لگائے رکھتے ہیں اور دفتر میں ان کی میز کے نیچے کلاشنکوف ہوتی ہے‘ میں نے ان انتظامات کے بارے میں پوچھا تو ڈاکٹر صاحب نے بتایا ’’ مجھے چار گروپوں کی طرف سے دھمکیاں مل رہی ہیں‘ ملک کے دشمن یہ سمجھتے ہیں میں نے بند یونیورسٹی کھول کر ان کے ایجنڈے کو نقصان پہنچایا اور ہم لوگ بلوچستان کو زندہ کر رہے ہیں‘ یہ لوگ ہمارے صوبے کو برین لیس کرنا چاہتے ہیں‘ یہ ڈاکٹروں اور وکلاء کو ختم کرتے چلے جا رہے ہیں‘ یہ اس کے بعد پروفیسروں کو نشانہ بنائیں گے۔

    ہمارے پاس ملک کی سب سے بڑی اور مضبوط فیکلٹی ہے‘ یہ لوگ اس فیکلٹی کو اڑانا چاہتے ہیں چنانچہ میں اپنے اساتذہ کی حفاظت بھی کر رہا ہوں اور اپنی بھی‘ میں انھیں بتا دینا چاہتا ہوں‘ میں بطخ کی طرح نہیں مروں گا‘ میں بلوچ کی طرح لڑ کر مروں گا‘‘ ڈاکٹر صاحب نے بتایا ’’ہم کسی شخص کو یونیورسٹی کا ماحول خراب نہیں کرنے دیتے‘ ہماری یونیورسٹی کا اپنا حفاظتی نظام ہے اور ہمارے پاس ٹرینڈ گارڈز ہیں۔

    یہ انتظامات دہشت گردوں کو یونیورسٹی کی طرف نہیں دیکھنے دیتے لہٰذا ہمارے اساتذہ اور طالب علم اطمینان سے پڑھ اور پڑھا رہے ہیں‘‘ مجھے ڈاکٹر جاوید اقبال کی اسپرٹ اچھی لگی‘ یہ میدان میں ڈٹ گئے ہیں‘ بلوچستان کے زیادہ تر لوگ ڈاکٹر جاوید اقبال کی طرح میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں‘ یہ بھی بطخ کی طرح نہیں بلکہ لڑ کر مرنا چاہتے ہیں‘ وفاق بھی ان لوگوں کی مدد کر رہا ہے‘ بلوچی نوجوان دھڑا دھڑ فوج‘ نیوی اور فضائیہ میں بھرتی کیے جا رہے ہیں۔

    پی ایم اے کے ہر بیچ سے 70 بلوچی نوجوان سکینڈ لیفٹیننٹ بن رہے ہیں‘ افواج پاکستان نے بلوچی نوجوانوں کے لیے سلیکشن کا معیار بھی نرم کر دیا ہے‘ صوبائی حکومت بھی بھرتیاں کر رہی ہے اور نوجوانوں کو ہنر بھی سکھائے جارہے ہیں‘ یہ سارے عناصر مل کر بلوچستان کو تبدیل کر رہے ہیں‘ یہ تبدیلی اگر اسی ترتیب اور رفتار سے چلتی رہی تو کل کا بلوچستان آج اور گزرے کل کے بلوچستان سے ہزار گنا بہتر ہو گا‘ یہ بلوچستان صرف بلوچستان نہیں ہو گایہ پاکستان ہو گا‘ مکمل پاکستان۔

  • اقتصادی راہداری اور ہمارا بیانیہ – ملک محمد بلال

    اقتصادی راہداری اور ہمارا بیانیہ – ملک محمد بلال

    جب سے اقتصادی راہداری کا ڈھنڈورا میرے ملک میں پیٹا گیا ہے، میں بہت خوش ہوں کیونکہ اب کسی بھی ”واردات“ پہ میں اپنے آپ کو یہ سمجھانے میں کامیاب ہوجاتا ہوں کہ چونکہ ہم اس وقت دنیا کی سب سے بڑی منڈی کا حصہ بننے جارہے ہیں اور دشمن جسے شریکے کی وجہ سے یہ سب برادشت نہیں ہو رہا، اقتصادی راہداری کے راستے میں روڑے اٹکا رہا ہے.

    بے شک وہ مائیں جن کے بیٹے صبح روٹی کمانے نکلے تھے اور رات ان کے لاشے گھر پہنچتے ہیں، ایسے کسی بھی منصوبے کو اپنے جوتے کی نوک پہ رکھتی ہیں، میں اپنے آپ کو یہ کہہ کر مطمئن کرلیتا ہوں کہ پوری قوم اقتصادی راہداری کے توسط سے جب ترقی کے زینے چڑھنے جا رہی ہے تو کیا ہوا جو چند غریبوں کا لہو اس راہداری کے تارکول میں کام آگیا ہے،
    بلکہ صرف میرا ہی نہیں میرے ملک کا مجموعی بیانیہ ہی یہ بات بن چکی ہے.

    کراچی تا خیبر کوئی بم حملہ ہو، دہشت گردی کا واقعہ ہو، یا پھر کوئی خود کش حملہ، میڈیا کے سامنے سول و ملٹری بیوروکریسی ہو یا کوئی سیاسی شخصیت، رٹو طوطے کی طرح ایک ہی بیانیہ جاری فرمایا جاتا ہے چونکہ ہم ایک عدد سڑک بنانے جارہے ہیں، اس لیے امریکی، ایرانی اور بھارتی قوموں سے ہماری ترقی دیکھی نہیں جارہی، اس لیے وہ اوچھے ہتھکنڈوں پہ اتر آئے ہیں.

    ہمارے اس بیانیے پہ مجھے وہ غریب خاتون یاد آجاتی ہے جسے خاوند نے ساری عمر کی کمائی سے سونے کی انگوٹھی بنوا کے دی تو اس بیچاری کے لیے ایک اور مسئلہ کھڑا ہوگیا، وہ پہنتی تو اس کی انگوٹھی کے طرف لوگوں کا دھیان ہی نہ جاتا، اس دکھ کو صرف عورت ہی سمجھ سکتی ہے، جب کوئی اس کی ”جیولری“ کی تعریف نا کرے تو اس پہ کیا بیتتی ہے. اس خاتون نے انگوٹھی کے نمائش کا عجب حل یہ نکالا کہ اپنی واحد کُٹیا کو ہی آگ لگا دی، اب جو کوئی پرسہ دینے آتا، اسے انگوٹھی نکال کے دکھاتی کہ سب کچھ جل گیا ہے، بس یہی ایک انگوٹھی بچی ہے.

    ہم پتہ نہیں کب سمجھیں گے کہ ریاست اہم ہوتی ہے نہ کہ اس میں بننے والی سڑکیں، جب ریاست میں آگ لگی ہو تو یہ سڑکوں کا لالی پاپ پاکستانی قوم کو ہی دیا جاسکتا ہے، کسی مہذب قوم کو نہیں، کیونکہ کسی بھی ریاست کا اصل مسئلہ امن عامہ قائم رکھنا ہوتا ہے نہ کہ سڑکیں بنانا کیونکہ مسلمہ اصول ہے کہ لوگوں کو امن میسر ہوگا تو وہ کاروبار کا سوچیں گے، کاروبار چلے گا تو لوگ تعلیم کی طرف آئیں گے کیونکہ خالی پیٹ اور اعصاب پر سوار دہشت کسی ریاست کو پنپنے نہیں دیتی.

  • سی پیک۔ تنازع کا ذمہ دار کون؟-سلیم صافی

    سی پیک۔ تنازع کا ذمہ دار کون؟-سلیم صافی

    saleem safi

    چین کی حکومت خود بھی اس کلیے پر عمل کرتی ہے اور دوستوں کو بھی یہی نصیحت کرتی ہے کہ عمل زیادہ اور قول کم ۔ وہ منصوبوں کے اعلانات اور ان کے فوائد کے ڈھنڈورے کی بجائے اس بات کے قائل ہیں کہ منصوبے کو تکمیل اور فوائد کی شکل میں خود بولنا چاہئے نہ کہ منصوبہ ساز بولتے رہیں ۔چائنا پاکستان اکنامک کاریڈور(CPEC) ان چھ اکنامک کاریڈورز میں سے ایک ہے جو چین کی حکومت ون بلٹ ون روٹ منصوبے کے تحت بنارہی ہے ۔ (1) چانئا منگولیا اکنامک کاریڈور (2) نیوایروایشیا لینڈ برج اکنامک کاریڈور (3) چائنا سینٹرایشیا ۔ ایسٹ ایشیا اکنامک کاریڈور (4) چائنا ۔انڈوچائنا پننسویلا اکنامک کاریڈور اور (5) بنگلہ دیش ۔چائنا۔انڈیا میانمار اکنامک کاریڈور ، پاکستان سے گزرنے والے کاریڈور کے علاوہ ہیں۔ اب پورے چین میں ان چھ کاریڈورز کا اتنا ڈھنڈورا نہیں پیٹا گیا جتنا کہ پاکستانی حکمرانوںنے ایک کا پیٹ دیا بلکہ عام چینیوں کو علم تک نہیں کہ ان کی حکومت کیا کررہی ہے ۔

    اسی طرح مزید پانچ کاریڈورز خطے کے ایک درجن سے زائد ممالک سے گزررہے ہیں لیکن کسی اور حکومت کی طرف سے آپ نے اعلانات سنے ہوں گے اور نہ اشتہارات دیکھے ہوں گے ، اسی طرح چونکہ ان کو علم ہے کہ بنیادی طور پر یہ چینی حکومت کے منصوبے ہیں جن سے ان کو بھی فائدہ مل رہا ہے ، اس لئے کسی اور ملک کی حکومت نے ان کو اپنا کارنامہ بھی قرار نہیں دیا لیکن پاکستانی حکمران سیاسی مقاصد کے لئے اٹھتے بیٹھتے ، ہر جلسے ، ہر پریس کانفرنس اور اجلاس میں اس کا ورد کرتے رہتے ہیں ، جس کی وجہ سے عام پاکستانی کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی کہ شاید چینی حکومت پیسے، ترقیاتی پروجیکٹس اور خوشحال دنیا میں داخلے کے ٹکٹ بانٹ رہی ہے جس میں اس کو اس کا حصہ نہیں مل رہا ۔ دوسرا نقصان یہ ہوا کہ پروجیکٹ ابھی شروع نہیں ہوا تھاکہ سی پیک کے دشمن پہلے سے متحرک ہوگئے۔

    چین اگرچہ فیڈریشن نہیں لیکن اس کے حکمرانوں نے اپنی طرف کے جے سی سی (JCC) ( جو سی پیک کے حوالے سے اصل فیصلہ ساز فورم ہے اور جس میں دونوں حکومتوں کے نمائندے بیٹھ کر منصوبوں کا تعین کرتے ہیں اور پھر اس کے تحت قائم چار ورکنگ گروپس عمل درآمد کو یقینی بناتے ہیں) میں سنکیانگ کی ریاست کو مستقل ممبر بنا دیا ہے اور ہر ورکنگ گروپ میں بھی اس کا نمائندہ بیٹھتا ہے لیکن پاکستان کی حکومت نے تنازعات کا شکار فیڈریشن کی حکومت ہو کر بھی صوبوں اور گلگت بلتستان یا کشمیر کو نمائندگی نہیں دی ۔ گزشتہ تین سال سے یہی میرا اور چھوٹے صوبوں کی حکومتوں کا مطالبہ ہے لیکن حکمران ، اسے ایک پارٹی یا پھر ایک خاندان کا پروجیکٹ بنانے پر مصر ہیں ۔ اگر پرویز خٹک یا مراد علی شاہ خود وہاں بیٹھے ہوتے تو آج وہ کس منہ سے اعتراض کرتے اور مجھ جیسے لوگوں کو اعتراض کی ہمت کیسے ہوتی؟۔

    چین کی ضرورت صرف ایک یعنی مختصر ترین راستے سے گوادر تک پہنچنا ہے اور باقی چھ کاریڈورز وہ جہاں بنارہا ہے ، وہ بنیادی طور پر انفراسٹرکچر کے پروجیکٹس ہیں لیکن ہمارے حکمرانوں نے سیاسی ضرورتوں کے تحت اس میں انرجی کو اولیت دی ۔ پھر اسی سوچ سے کہ 2018ء تک مکمل ہوکر اگلے انتخابات کے لئے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال ہوں ، ہائیڈل کی بجائے صرف اور صرف تھرمل پروجیکٹس کو ترجیح دی ۔شاید ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس میں کمائی کے مواقع بھی زیادہ تھے ۔ پھر ان میں بھی ایک خاص علاقے کو اولیت دی ۔ پھر ان معاہدوں کی تفصیلات کو اخفا میں رکھا اور آج تک پارلیمنٹ کی کمیٹیوں کو نہیں دکھارہے ہیں ۔ اسی طرح انفراسٹرکچر کے ٹھیکوں کی تفصیلات کو بھی خفیہ رکھا جارہا ہے ۔ یہی شکایت سینیٹر تاج حیدر کی سربراہی میں قائم سینیٹ کی خصوصی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کی ہے ۔اب چلیں بقول احسن اقبال صاحب میں تو تعصب کا شکار ہوگیا ہوں یا پھر ان کے بقول کسی کا ایجنٹ ہوں لیکن تاج حیدر صاحب اور ان کی کمیٹی کے دیگر ارکان تو ایسی کسی بیماری میں مبتلا نہیں ۔ پھر انہوںنے بعینہ وہی شکایت کیوں کی ہے جو میں گزشتہ دو سال سے کررہا ہوں۔

    مغربی کی بجائے مشرقی روٹ کو ترجیح دینا ہو، ہائیڈل کی بجائے ، تھرمل بجلی کے منصوبوں کو فوقیت دینا ہو یا پھر بلوچستان اور گلگت بلتستان کی بجائے وسطی پنجاب کو منصوبوں کا مرکز بنانا ہو، سب کچھ پلاننگ کمیشن نے کیا ہے ۔ میرے پاس جے سی سی کے سارے منٹس موجود ہیں جس میں چینی ذمہ داران اسٹرٹیجک پہلوئوں کو مدنظر رکھنے پر زور دے رہے ہیں لیکن پاکستانی نمائندے ان کو اپنی علاقائی ، سیاسی اور مالی ضرورتوں کے تحت منصوبوں پر قائل اور مجبور کررہے ہیں اور چینی نمائندوںنے پاکستان ہی کی بات مانی ہے ۔ لیکن جب ہم جیسے لوگ کچھ حقائق سامنے لے آئے تو حکومتی ترجمان ، چین کی حکومت کو بدنام کرکے یہ عذر پیش کرنے لگے کہ یہ تو چینی بھائیوں کے پروجیکٹس ہیں اور جو کچھ کیا ہے چینیوں نے کیا ہے ۔ گویا اپنے مالی اور سیاسی مفادات کی خاطر ، قوم سے جھوٹ بول کر چین جیسے محسن دوست کو اپنے عوام اور سیاستدانوں کی نظروں میں متنازع کرنے کی کوشش کی ۔

    پاکستانی حکمران نہ صرف مغربی روٹ بلکہ دیگر پروجیکٹس سے متعلق غلط بیانی سے کام لیتے رہے ۔ پہلے یہ کہا جاتا رہا کہ مغربی کی بجائے مشرقی روٹ بدلا ہی نہیں گیا لیکن جب ہم جیسے لوگ حقائق سامنے لے آئے اور ایک طرف حویلیاں تا اسلام آباد (واضح رہے کہ حسن ابدال کی بجائے اسے اسلام آباد تک تعمیر کیا جارہا ہے اور اگر مستقبل میں بھی مغربی راستے کو روٹ بنانے کا ارادہ ہوتا توپھر اس کا رخ حسن ابدال سے اسلام آباد کی طرف نہ موڑا جاتا ) موٹروے اور دوسری طرف لاہور ملتان اور ملتان کراچی موٹروے کی تعمیر شروع ہوئی جبکہ مغربی روٹ پر خاموشی تھی تو صدائے احتجاج بلند ہوا۔ جس سے مجبورہوکر پہلی اے پی سی بلائی گئی ۔ اس میں وزیراعظم نے قوم کے سامنے اعلان کیا کہ پہلے مغربی روٹ مکمل کیا جائے گا لیکن وعدہ مکمل کرنے کی بجائے سی پیک کے مغربی روٹ کے نام پر ژوب میں ایک عام سڑک کا افتتاح کروا کر دھوکہ دینے کی کوشش کی گئی ۔ پھر جب ہم جیسے لوگوں نے اس دھوکے کی نشاندہی کی اور پھر دبائو بڑھا تو دوسری اے پی سی بلائی گئی ۔

    دوسری اے پی سی میں وزیراعظم نے پھر تمام سیاسی رہنمائوں سے زبانی وعدہ کیا کہ مغربی روٹ کو ترجیح دی جائے گی لیکن اعلامیہ جاری کرتے وقت دھوکہ دے دیا گیا ، جسے عمران خان سمجھ سکے اور نہ پرویز خٹک ۔ وہ دھوکہ کیاکیا گیا، زندگی رہی تو اگلے کالم میں اس کا جواب دینے کی کوشش کروں گا کیونکہ جنگ کے ایڈیٹوریل صفحے کے منتظمین نے سختی سے احکامات جاری کردئیے ہیں کہ کالم کا سائز ایک ہزار الفاظ سے زیادہ نہیں ہونا چاہئے ۔ تاہم مذکورہ چند حقائق سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ سی پیک کو کسی اور نے نہیں بلکہ خود موجودہ حکومت نے متنازع کردیا ہے اور اسی وجہ سے جہاں ہماری آئندہ نسلیں چین کو محسن سمجھیں گی ، وہاں موجودہ حکمران ان کے مجرم ہوں گے ۔واضح رہے کہ چینی سفارتخانے کے وضاحتی بیانات ، وفاقی حکومت کے موقف کی تائید نہیں بلکہ تردید کررہےہیں ۔افسوس کہ پرویزخٹک صاحب آج تک سی پیک کو سمجھ پائے ہیں اور نہ اس پریس ریلیز کو ، اس لئے چینی سفیر سے متعلق غلط بیانی کرکے سفارتی آداب کی خلاف ورزی کررہے ہیں۔ آج ہی کے کالم میں واضح کرلیتاسفارتخانے کی پریس ریلیز کس طرح ہمارے موقف کی تائید اور حکومتی موقف کی تردید ہے لیکن ادارتی صفحے کے حکام کی ناراضی سے بچنے کے لئے ایسا نہیں کرسکتا ۔زندگی رہی تو وہ وضاحت بھی پھر کبھی۔

  • سی پیک اور ہمارے رویے – احمد سلیم سلیمی

    سی پیک اور ہمارے رویے – احمد سلیم سلیمی

    دنیا بہت تیز ہو گئی ہے۔ اس کی ہر کروٹ نئے انقلابات کو جنم دے رہی ہے۔ نئے نئے امکانات سامنے آرہے ہیں۔ اسی طرح نئے نئے تقاضے چیلنج بن کر راستہ روکے کھڑے ہیں۔
    پہلے زمانوں میں دوسرے ملکوں پہ چڑھائی کی جاتی تھی، حکومتوں کو تاراج کر کے خزانے لوٹے جاتے تھے، اپنا زیر نگیں بنا کے خراج وصول کر کیا جاتا تھا، کشتوں کے پشتے لگا کر فاتح عالم کہلایا جاتا تھا اور طاقت کے زور پر حاصل ہوئی دولت سے اپنی سلطنت چلائی جاتی تھی۔

    اب دنیا کا چلن بدل گیا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی نے فتح و شکست، عروج و زوال کا انداز بدل دیا ہے۔ اب دوسرے ملکوں پر براہ راست حملہ نہیں کیا جاتا۔ ویسے تو ہزار ہزار میل سے زیادہ تک ضرب لگانے والے میزائل بھی ہیں، آواز سے تیز جنگی جہاز بھی ہیں، اور ایٹم بم بھی، مگر یہ سب ہاتھی دانت کی طرح ہیں۔ اس مجسمے (ہوا) کی طرح ہیں جسے کھیت میں پرندوں کو ڈرانے کے لیے بانس کے ایک ڈنڈے پر چڑھایا جاتا ہے تاکہ اس کے خوف سے پرندے قریب نہ آئیں اور ان کا اناج محفوظ رہے۔ یہ اسلحے کے انبار اور نیوکلیائی ہتھیار بھی ایسے ہی ہیں۔ اب دوسروں پر قابو پانے کے لیے انہیں اندر سے کمزور کیا جاتا ہے۔ ان کی اجتماعیت کو اس طرح کھوکھلا کیا جاتا ہے کہ بظاہر ٹانگوں پہ کھڑی ہوتی ہے مگر ایک ہلکی مار سے زمین بوس ہو جاتی ہے۔

    اپنے مقاصد کے حصول کے لیے قوم کو ٹکڑوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ کبھی مسلک کے نام پر، کبھی ذات پات اور زبان کے نام پر، کبھی حقوق اور مفادات کے نام پر ڈگڈگی بجائی جاتی ہے اور ناچتے ناچتے قوم ایسی پاگل ہوتی ہے کہ انجام بھول جاتی ہے۔ کیا ہم بحیثیت پاکستانی بھی اور گلگت بلتستانی بھی اپنا انجام بھول گئے ہیں؟ امید ہے نہیں بھولے ہوں گے۔

    پچھلے کچھ عرصے سے ہر طرف سی پیک کا غلغلہ ہے۔ دنیا کی سیاست میں یہ محض پاک چائنا اقتصادی منصوبہ نہیں بلکہ کئی ملکوں کے لیے براہ راست ایک چیلنج ہے۔ ان کے مفادات پر ایک کاری وار ہے۔ ان ملکوں میں انڈیا کے علاوہ بھی طاقتیں ہیں، اس خطے کی بھی، سات سمندر پار کی بھی۔ پہلے تو صرف پاکستان کی مخالف طاقتوں سے اندیشہ رہتا تھا، اب تو چائنا کے دشمن بھی اس پروجیکٹ کی وجہ سے مخالفوں میں شامل ہو گئے ہیں۔ ایسے میں دشمن کے مقابلے کے لیے پہلے سے زیادہ چوکنا اور پرعزم ہونا ہے۔

    اب دشمن طاقتیں سی پیک کو سبوتاژ کرنے کے لیے جنگ نہیں چھیڑیں گی، میزائل نہیں چلائیں گی بلکہ ہماری قومی جڑوں میں اتر کر بنیادوں سے ہلانے کی کوشش کریں گی۔ماضی میں جس طرح کے زہریلے رویے پنپتے رہے ہیں، بدامنی اور خوف کے جو بادل چھائے رہے ہیں، خاکم بدہن کہیں پھر سے دشمن اس کو ٹارگٹ نہ کرے، اور اس راکھ میں دبی چنگاری کو پھر سے ہوا نہ دے۔ اور پھر ایک ہی علاقہ، ایک ہی گلی محلہ، ایک ہی بازار، ایک ہی تعلیمی ادارہ اور ایک ہی دفتر میں کام کرنے والے ہم لوگ اس آگ میں جل کر راکھ نہ بن جائیں۔ بس اس کے لیے احساس زندہ رکھنا ہے۔ میڈیا کی ہر خبر درست بھی نہیں ہوتی ہے، سیاست دانوں کی ہر بات قابل قبول بھی نہیں ہوتی ہے، اسی طرح تجزیہ کاروں کی ہر رائے معقول بھی نہیں ہوتی۔

    عوام کے لیے ضروری ہے کہ ہر خبر، ہر تجزیے اور رائے کو آخری نہ سمجھیں، ہر پہلو سے اسے پرکھیں۔ تبھی ایک سنجیدہ اور با وقار قوم بن کر سی پیک جیسے گیم چینجر منصوبے سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ ورنہ کالا باغ اور دیامر بھاشا ڈیمز کی طرح یہ منصوبہ بھی کچھ عرصہ ڈھول بجا بجا کر خاموش ہو جائے گا، اور ملک اور قوم پھر سے ترقی معکوس کے کانٹوں میں الجھ کر رہ جائیں گے۔

  • پاکستان ایک معجزہ کیسے؟ سنگین زادران

    پاکستان ایک معجزہ کیسے؟ سنگین زادران

    پاکستان کے معجزہ ہونے سے انکار کرنے والے وہ لوگ ہیں جو اپنی نااہلیوں کا قصور وار اس ملک کو قرار دیتے ہیں۔ پاکستان کے معجزہ ہونے کی تشریح میں جائیں تو پتہ لگتا ہے کہ دنیا کی ساڑھے سات ارب آبادی میں سے 3 ارب آبادی کو فائدہ ہو گا پاکستان کی صرف ایک سڑک اقتصادی راہداری کی وجہ سے۔ سوچ لیں اگر پاکستان کی ایک سڑک اقتصادی راہداری دنیا کی 3 ارب آبادی کو فائدہ دیتی ہے تو پورا پاکستان کتنا فائدہ دے سکتا ہے دنیا کو؟

    سوچیں اللہ نے دماغ اسی کام کےلیے دیا ہوا ہے ہمیں۔ زرا سوچیں کہ پاکستان وہ ملک ہے جس کے صرف ایک چھوٹے سے علاقہ شوال سے دھشت گرد اربوں روپے کما کر دھشت گردی میں استعمال کر رہے تھے۔ اگر اہل قیادت ہوتوچلغوزے کے کاروبار سے ملنے والے وہ اربوں روپے ملکی معیشت پر کیا اثر ڈالیں گے۔ کہاں ایک سڑک اور دنیا کے تین ارب افراد کو فائدہ، کہاں ایک چھوٹا علاقہ شوال اور اربوں روپے کی آمدن۔ کیا یہ ملک معجزہ نہیں ہے؟

    چلو گوادر چلتے ہیں دنیا میں اور بھی کافی بندرگاہیں ہیں اور اپنے اپنے حساب سے کافی مؤثر انداز میں آپریشنل بھی ہیں مگر انگریزی لفظ ٹی (T) کی شکل میں بنی یہ قدرتی بندرگاہ ۔۔۔۔ واہ واہ واہ ۔۔۔۔ میں نے دنیا کی دس مصروف ترین بندرگاہوں کو گوگل کر کے دیکھا اور ان کی شکلیں دیکھ کرہنس دیا۔ شکل سے مراد جغرافیائی محلِ وقوع ہے۔ جس دن گوادار بندرگاہ مکمل آپریشنل ہو گئی یہ دنیا کی مصروف ترین بندرگاہوں میں سے پہلے نمبر پر ہو گی لکھ کر رکھ لیں اپنے پاس۔ جغرافیائی اعتبار سے دنیا میں2آبنائے سب سے اہم قرار دیے جاتے ہیں ایک آبنائے ملاکا ایک آبنائے ہورمز۔ گوادر کو اللہ نے وہ محلِ وقوع عطا کیا ہے کہ یہ دونوں کی اہمیت پر اثر انداز ہوتا ہے۔ ٹکیٹیکل نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو گوادر وہ مقام ہے جو چاہے تو آبنائے ملاکا کی خلیج فارس والی سپلائی لائن کاٹ دے۔ اورچاہے تو آبنائے ہرمز سمیت خلیج فارس کا منہ توڑ دے۔ یہ خغرافیائی محلِ وقوع دنیا بھر کی 4764 بندرگاہوں میں سے اللہ نے جسے دیا وہ بندرگاہ گوادر پاکستان میں واقع ہے۔ 1947ء میں یا اس سے قبل کسی کو نہیں پتہ تھا کہ یہ اتنی اہم ہو گی۔ ویسے صدر ایوب کے وژن کو سلام جنہوں نے 1958ء میں ہی یہ بات محسوس کر لی تھی اور گوادر کو عمان سے خرید کر پاکستان میں شامل کر لیا۔

    اور یہ جو ہمارا بلوچستان ہے یہ تو سونے کی کان ہے۔ جی ہاں کالے سونے کا دنیا بھر میں دوسرا سب سے بڑا ذخیرہ ہمارے بلوچستان میں ہے۔ جی ہاں میں کوئلے کی ہی بات کر رہا ہوں۔ شکر ہے کہ اللہ نے ابھی خائن حکمرانوں کی پہنچ سے دور رکھا ہوا ہے ابھی۔ اس کے علاوہ معدنیات اور دیگر قدرتی ذخائر سے بلوچستان بھرا پڑا ہے۔

    چلو ذرا کھیوڑا چلتے ہیں۔ پاکستان کے معجزہ ہونے کی بڑی دلیلوں میں سے ایک دلیل کھیوڑہ بھی ہے۔ لگ بھگ 80 ارب سال قبل جی ہاں 800 ملین سال پہلے یہاں اتھلا سمندر ہوا کرتا تھا۔ اتھلا یعنی کم گہرا اور کم چوڑا سمندر۔ زمینی حالات میں موسمیاتی تبدیلیوں کی بنا پر وہ سمندر یوں ہی کروڑوں سال قبل بھاپ بن کر اڑ گیا۔ نمک پیچھے پاکستان میں رہ گیا۔ معجزہ نہیں ہے کیا ؟ کہ اللہ نے 80 ارب سال پہلے زمین پر سمندر کو اس جگہ سے خشک کر کے نمک بنا دیا جہاں 1947ء میں پاکستان کو بننا تھا۔ نمک کی یہ کان سکندرِ اعظم کےگھوڑوں نے یہاں کی زمین چاٹ کر دریافت کی تھی۔ تب سے اب تک یعنی مسلسل 2400 سال زائد سے دنیا کے لوگ یہاں کا نمک استعمال کر رہے ہیں۔ اور اگلے 350 سال تک نمک اسی طرح نکلتا رہے گا۔ ایک سال میں اوسط نکلنے والے نمک کی مقدار 4 لاکھ ٹن ہے جو مسلسل بڑھ رہی ہے۔

    لکھنے پر آئیں تو اس پر کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں کہ پاکستان میں اللہ نے قدرتی وسائل کی تقسیم کرتے وقت بڑی ہی سخاوت کا مظاہرہ کیا ہے۔ جتنے قدرتی وسائل اللہ نے پاکستان کو نوازے ہیں اتنے دنیا بھر میں کہیں نہیں ہیں۔ مگر غور کرنے کا مقام یہ ہے کہ قدرت اسی خطے پر جسے دنیا پاکستان کہتی ہے اور جو ہر طرف سے دشمنوں میں گھرا ہوا ہے کیوں اتنی مہربان ہے۔ قدرتی وسائل وقت کی کروڑں برس کی مشقت کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ وقت نے کروڑوں برس اس خطے پر محنت کی اور جب یہ خطہ کروڑ ہا کروڑ سال کی کڑی محنت کے بعد وسائل سے مالامال ہو گیا اللہ نے اس خطے پر پاکستان قائم کر دیا۔ یہ محض اتفاق تو نہیں ہو سکتا نا کہ زمینی محلِ وقوع بھی اللہ نے اس خطے کو وہ دیا کہ پورے ایشیاء کی سلامتی پر اثرانداز ہوتا ہے۔ اللہ نے وسائل میں بھی رحمت فرمائی ہم پر۔ اللہ نے سمندری حیثیت بھی ممتاز دی ہمیں۔ کیا یہ سارے اتفاقات پاکستان کے ساتھ ہی ہونے تھے؟ نہیں یہ اتفاقات نہیں ہیں۔ یہ پاکستان خدا کی اس پلاننگ کا حصہ ہے جس میں عیسیٰ ؑ و مہدیؑ بھی آتے ہیں۔ وقت کی کروڑوں برس کی محنت بلاوجہ نہیں ہے اس خطے کےلیے بلکہ یہ خطہ اپنے وجود کے اعتبار سے اعلانیہ کہہ رہا ہے کہ میں پاکستان ہی عیسیٰ ؑ اور مہدی ؑ کے لشکروں کی مرکزی قرارگاہ بنوں گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کی صورت میں اللہ نے جو کچھ ہمیں عطا کیا ہے ہم خود کو اس کے اہل بنائیں اور اس ثابت کریں کہ ہم واقعی پاکستان میں رہنے کے قابل ہیں

  • کسی کے باپ کا پاکستان تھوڑی ہے-محمد بلال غوری

    کسی کے باپ کا پاکستان تھوڑی ہے-محمد بلال غوری

    m-bathak.com-1421246902muhammad-bilal-ghouri

    کوئٹہ ایئر پورٹ سے نکلا تو لاتعداد اندیشے اور وسوسے میرے ساتھ تھے۔جن چاہنے والوں کو معلوم ہوا کہ بلوچستان کا قصد ہے،انہوں نے روکنے کی ناکام کوشش کے بعد بس ایک ہی نصیحت کی کہ حالات خراب ہیں، احتیاط کا دامن تھام کر چلنا۔مگر اس شہر بے مثال نے بازو پھیلا کر اپنی محبتوں کی آغوش میں لیا تو سب اندیشے اور وسوسے کافور ہو گئے۔پہلا پڑائو وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری کی طرف تھا۔ان کی نشست کے ساتھ ہی سائڈٹیبل پر ایک خوبرو نوجوان کی تصویر آویزاں تھی۔یہ ثناء اللہ زہری کے جواں سال بیٹے سکندر ہیں جو 16اپریل 2013ء کو ہونے والے ایک بم دھماکے میں مارے گئے۔

    اس حملے کا ہدف خود ثناء اللہ زہری تھے مگر وہ بلٹ پروف گاڑی کے باعث بال بال بچ گئے۔جس شخص نے خود اپنے فرزند ارجمند کا جنازہ اٹھایا ہو،وہی اپنوں کی موت کا غم محسوس کر سکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان دہشتگردی کے خلاف فوج اور فرنٹیئر کانسٹیبلری کا بھرپور ساتھ دے رہے ہیں۔پنجاب کے حوالے سے تعصب کی بات ہوئی تو مسکراتے ہوئے کہنے لگے،میں تو اپنے لوگوں سے کہتا ہوں،پنجابی بہت اچھے مقتول ہیں۔تم انہیں مارتے بھی ہو اور اپنی من مانی بھی کرتے ہو،ایسی آزادی اور کہاں ملے گی۔ہمسایہ ملک میں مقیم بلوچوں کی حالت زار دیکھو،انہیںمعمولی باتوں پر سرعام پھانسیاں دی جاتی ہیں اور نشان عبرت بنانے کے لئے لاشیں کئی کئی دن پھندے سے لٹکتی رہتی ہیں۔اگلے دن خیال آیا،اقتدار کی غلام گردشوں سے نکل کر کیوں نہ عوام کی نبض پر ہاتھ رکھا جائے۔

    بلوچستان یونیورسٹی کا رُخ کیا تو ایک مرتبہ پھر اندیشہ ہائے دوردراز نے گھیر لیا۔چند برس قبل یہ صورتحال تھی کہ لیکچررز کو یونیورسٹی کی دہلیز پر قتل کر دیا جاتا تھا۔پیپلز پارٹی کے دور میں جب اسلم رئیسانی وزیراعلیٰ تھے توجامعہ بلوچستان علیحدگی پسندوں کا گڑھ تھی۔ نائلہ قادری نامی ایک خاتون جن کا تعلق ایبٹ آباد سے ہے اور ان دنوں وہ بھارت میں مختلف ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر پاکستان کے خلاف زہر اگلتی ہیں،یہ 9سال تک لیکچرر کے روپ میں یہاں طلبہ کو ہتھیار اٹھانے پر اکساتی رہیں،صبادشتیاری جیسے لوگ یہاں مسلح تربیت دیا کرتے تھے،چاروں طرف بی ایس او (آزادـ) کے جھنڈے لگتے اور عام افراد تو درکنار قانون نافذ کرنے والے ادارے یونیورسٹی میں داخل نہیں ہو سکتے تھے۔قائد اعظم اور علامہ اقبال کی تصویر لگانا جرم تھا۔

    پاکستان کا نام لینے کی اجازت نہ تھی۔ فیکلٹی میں شامل قابل اساتذہ نے راہ فرار اختیار کرنے میں ہی عافیت جانی اور دیکھتے ہی دیکھتے یونیورسٹی طلبہ و طالبات سے بھی خالی ہوگئی۔ تعلیمی انحطاط کا یہ عالم تھا کہ پاکستان بھر سے لوگ جعلی ڈگریاں لینے کیلئے بلوچستان یونیورسٹی کا رخ کرتے۔ مسلم لیگ (ن) کے صدیق بلوچ جو چند ماہ قبل نااہل ہوئے اور ضمنی الیکشن میں جہانگیر ترین نے انہیں شکست دیکر کامیابی حاصل کی،انہوں نے بی اے کی ڈگری بلوچستان یونیورسٹی سے ہی حاصل کی۔ بلوچستان یونیورسٹی سریاب روڈ پر واقع ہے،وہی سریاب روڈ جسے ہم سب بم دھماکوں اور دہشت گردی کے واقعات کے حوالے سے ہی جانتے ہیں۔

    ان منفی تصورات کے حصار میں یونیورسٹی پہنچے تو خوشگوار حیرت منتظر تھی۔طلبہ و طالبات کی گہما گہمی دیکھ کر محسوس ہی نہیں ہوا کہ یہ جامعہ پنجاب ہے یا جامعہ بلوچستان۔ شعبہ ابلاغیات کے طلبہ و طالبات نے بالخصوص اپنی ذہانت و فطانت اور قابلیت سے حیران کر دیا۔وائس چانسلرڈاکٹر جاوید اقبال نے بتایا کہ اب طلبہ و طالبات کی تعداد 11000سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔500انتہائی قابل ترین اساتذہ پر مشتمل فیکلٹی میں 170اساتذہ پی ایچ ڈی ہیں۔70اسکالرز کو یونیورسٹی نے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے تعاون سے پی ایچ ڈی کرنے کے لئے بیرون ملک بھیجا ہے۔8اگست کو جب سول اسپتال میں دھماکے کے بعد خوف وہراس نے ایک مرتبہ پھر کوئٹہ کا بے ساختہ پن چھین لیاتو بلوچستان یونیورسٹی کی دعوت پر 14اگست کو ملک بھر کی یونیورسٹیوں کے 2000طلبہ و طالبات کوئٹہ آئے اور انہوں نے دہشت اور وحشت کا دھندہ کرنے والوںکو پیغام دیا کہ

    میں جانتا ہوںکہ دشمن بھی کم نہیں لیکن
    ہماری طرح ہتھیلی پہ جان تھوڑی ہے

    اس کے بعد بلوچستان یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اینڈ مینجمنٹ سائنسز (BUITEMS ) کا دورہ کیا تو پہلی بار یہ پتہ چلا کہ حیرت کے پہاڑ ٹوٹ پڑنے کا مطلب کیا ہے۔ایسی سہو لتیں،ایسے نظم وضبط اور ایسے تعلیم دوست ماحول کا تو لاہور اور اسلام آباد جیسے انتہائی ترقی یافتہ شہروں میں بھی تصور نہیں کیا جا سکتا۔مثبت ترین پہلو یہ ہے کہ طلبہ وطالبات کے ہاتھ میں محض ڈگریاں تھمانے کے بجائے انہیں پیشہ ورانہ تربیت دیکر عملی میدان کے لئے تیار کیا جاتا ہے۔مثال کے طور پر ایک شعبہ ہے جس میں نوجوانوں سے درخواستیں مانگی جاتی ہیں کہ وہ اپنے تخلیقی تصورات جمع کروائیں کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں۔مثال کے طور پر کوئی طالب علم کہتا ہے کہ میں سوشل میڈیا کی کوئی نئی ویب سائٹ متعارف کرانا چاہتا ہوں

    مگر میرے پاس وسائل دستیاب نہیں۔یونیورسٹی کا پینل ان تخلیقی تصورات کے قابل عمل اور موثر ہونے کا جائزہ لے گا اور منظور ہونے کی صورت میں درخواست گزار کو اس خاکے میں رنگ بھرنے کے لئےدرکار تمام تر وسائل مہیا کئے جائیں گے۔مجھے اس شعبے میں کچلاک کا رہائشی آرٹسٹ نصیب خان ملا۔یہ نوجوان اپنے آبائی علاقے میں دیواروں پر لکھائی کیا کرتا تھا لیکن اس یونیورسٹی نے تخلیقی صلاحیتیں بروئے کار لانے کا موقع فراہم کیا تو اب اس کے شہ پارے دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔بلا مبالغہ یہ پاکستان کی بہترین یونیورسٹی ہے اور اس کا کریڈٹ وائس چانسلر احمد فاروق باروزئی کو جاتا ہے جو بیرون ملک پرکشش آفرز چھوڑ کر یہاں آئے۔

    بلوچستان پر بدستور بدترین خطرات کے سائے منڈلا رہے ہیں،زخم ابھی مندمل نہیں ہوا،مرض کی شدت کم ہوئی ہے مگر اس کے اثرات قائم و دائم ہیں۔بلوچستان کے حکام کیا سوچتے ہیںاور عوام اس تبدیلی کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟مسائل کس قدر پیچیدہ ہیں اور فوجی و عسکری قیادت ان سے نمٹنے کیلئے کیا لائحہ عمل اختیار کئے ہوئے ہے؟ان سوالات پر اگلی نشست میں تفصیل سے بات ہوگی کہ بلوچستان کا لاینحل مسئلہ توجہ اور احتیاج کا طلبگار ہے۔مگر ایک بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ تین برس قبل اور آج کے حالات میں انیس بیس نہیں،زمین آسمان کا فرق ہے۔آئے دن سنتے تھے کہ ریلوے کی پٹری اڑا دی گئی،کوہلو اور ڈیرہ بگٹی میں گیس پائپ لائن دھماکہ خیز مواد سے تباہ کر دی گئی، ہزاروں کی نسل کشی اور ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ عروج پر تھا مگر اب ایسی خبریں تواتر کے ساتھ نہیں آتیں تو لامحالہ حالات بہتری کی طرف گامزن ہیں۔سردست تو بس اتنا عرض کرنا ہے کہ بلوچستان کے بگٹی، مینگل، زہری، کاکڑ، بزنجو، مری، کھیتران، رند، کرد، بھوتانی، درانی اور بدینی بھی اتنے ہی محب وطن اور وفادار ہیں جتنے سندھ،پنجاب اور خیبر پختونخوا سمیت پاکستان کے دیگر شہری۔ہندوستان کے معروف شاعر راحت اندوری جن کی مشہور غزل کا ایک شعر پہلے بھی عرض کیا ہے،اسی غزل کا ایک اور شعر معمولی تحریف کے ساتھ پیش خدمت ہے:

    سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
    کسی کے باپ کا پاکستان تھوڑی ہے

  • پاکستان کی عزت کا ٹھیکہ دوست ملک کے سپرد-محمد بلال غوری

    پاکستان کی عزت کا ٹھیکہ دوست ملک کے سپرد-محمد بلال غوری

    m-bathak.com-1421246902muhammad-bilal-ghouri

    فرض کریں آپ کا شمار گائوں کے انتہائی غریب افراد میں ہوتا ہے۔آپ کے کچے گھر کے پیچھے ایک بہت بڑا بنگلہ ہے ۔اس بنگلے میں مقیم آپ کے ہمسائے کی دِقت یہ ہے کہ اسے منڈی تک پہنچنے کے لئے راستہ میسر نہیں۔وہ کہتا ہے کہ اپنے گھر سے ایک راستہ بنانے دو تاکہ اسے باہر تک رسائی ممکن ہو سکے۔یہ پیشکش بھی کی جاتی ہے کہ نہ صرف یہاں سے آمد و رفت کے عوض معقول رقم دی جائے گی بلکہ راستہ بنانے کے لئے تمہارے گھر کے جو افراد مزدوری کر یں گے انہیں معاوضہ بھی دیا جائے گا۔

    دوطرفہ مفادات کا تقاضا یہی ہے کہ اس پیشکش کو قبول کر لیا جائے لیکن اگر آپ اس پیشکش کو فیاضی جان کر اپنے متمول ہمسائے کے احسان تلے اس قدر دب جائیں کہ اپنے گھر کا انتظام و انصرام ہی اس کے حوالے کر دیں تو آپ کی سوچ کو اکیس توپوں کی سلامی دینا پڑے گی۔ اقتصادی راہداری منصوبے کے حوالے سے حکومت پاکستان کی پالیسی بھی کم و بیش ایسی ہی ہے۔بار بار جتلایا اور بتلایا جا رہا ہے کہ ہمارے دوست ہمسایہ ملک نے اس اکنامک کاریڈور کی صورت میں پاکستان پر جو احسان عظیم کیا ہے اس کا بدلہ ہماری آنے والی نسلیں بھی نہیں چکا سکیں گی۔چند روز قبل وزیراعظم نے ایک تقریب میں انکشاف کیاکہ یہ دوست ہمسایہ ملک پاکستان کی عزت کا محافظ ہے۔اور یہ بات محض بیانات تک محدود نہیں بلکہ عملی اقدامات سے بھی محسوس ہوتا ہے کہ اس ہمسایہ ملک سے دوستی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ہمارے حکمرانوں نے طویل عرصہ تک ارض وطن امریکہ کو پٹے پر دی ہوئی تھی،پھر معلوم ہوا کہ ملک کے بیشتر حقوق بعض عرب دوستوں کے ہاں رہن رکھے ہوئے ہیں اور اب یہ راز کھل رہا ہے کہ محض گوادر ہی نہیں بلکہ پاکستان کا بیشتر حصہ ایک دوست ہمسایہ ملک کے ہاں گروی رکھا ہوا ہے۔ہمارے غیرملکی دوست پاکستان کو کس طرح اپنی چراگاہ سمجھتے ہیں ،اس کی ایک ادنیٰ مثال گزشتہ ماہ ملتان میں پیش آنے والے واقعات ہیں۔

    ملتان تا سکھر موٹروے منصوبہ جوسی پیک کا حصہ ہے،اس کے کام کی نگرانی کے لئے 30غیر ملکی باشندے ملتان میں مقیم ہیں۔انتظامیہ نے اپنے معزز مہمانوں کو ملتان کینٹ کے علاقے میں چند کوٹھیاں عارضی قیام گاہ کے طور پر لیکر دیں۔مستقل قیام کے لئے تحصیل جلال پور کے موضع چدھڑ میں 11.5ایکڑ پر مشتمل بیس کیمپ بنایا گیا ہے۔محکمہ داخلہ کے اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر کا تقاضا تھا کہ ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی جس میں تمام خفیہ اداروں کی نمائندگی ہوتی ہے ،حفاظتی انتظامات کا جائزہ لیکر رپورٹ دے اور اس کی روشنی میں سی پی او NOCجاری کرے جس کے بعد یہ غیر ملکی حکام اپنے بیس کیمپ منتقل ہو سکیں۔اگست کے پہلے ہفتے میں ان حکام نے اس بیس کیمپ میں منتقل ہونا تھا مگر حفاظتی انتظامات مکمل نہ ہونے کے باعث تاخیر ہوگئی۔11اگست کو معمول کے مطابق شام کوان غیرملکی حکام نے واپس ملتان آنے سے انکار کر دیا اور بیس کیمپ میں رہنے پر اصرار کیا۔انہیں بتایا گیا کہ جب تک این او سی جاری نہ ہو آپ یہاں نہیں رہ سکتے اور یہ سب آپ کے تحفظ کے لئے کیا جا رہا ہے۔بحث و تکرار کے بعد یہ غیرملکی باشندے واپس آنے پر رضامند ہو گئے۔

    15اگست کو ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی نے بیس کیمپ کا معائنہ کیا تو 75فیصد انتظامات ادھورے تھے۔SOPکے مطابق ہر 200میٹر کے فاصلے پر واچ ٹاور نہیں بنائے گئے تھے،سی سی ٹی وی کیمرے نصب نہیں ہوئے تھے۔غیرملکی حکام نے کہا کہ ایک ہفتے میں یہ انتظامات مکمل کر لئے جائیں گے لیکن 22اگست کو جب دوبارہ بیس کیمپ پر حفاظتی انتظامات کا جائزہ لیا گیا تو 40فیصد کام مکمل نہیں ہواتھا۔چنانچہ کمیٹی نے این او سی دینے سے انکار کر دیا۔23اگست کو جب 20غیرملکی باشندے معمول کے مطابق صبح یہاں پہنچے تو انہوں نے شام کو ایک مرتبہ پھر واپس جانے سے انکار کر دیا۔انہیں بتایا گیا کہ بیس کیمپ کے چاروں طرف کھیت ہیں،ویران علاقہ ہے،حفاظتی انتظامات کے بغیر ان کا یہاں رہنا خطرے سے خالی نہیں لہٰذا واپس جانا ہوگا ۔

    ان غیر ملکی باشندوں کے اپنے SOP کے مطابق ہر بیس کیمپ میں ایک ریٹائرڈ میجر کا بطور سیکورٹی انچارج موجود ہونا ضروری ہے جبکہ اس مقصد کے لئے جس شخص کی خدمات حاصل کی گئی تھیں ،وہ استعفیٰ دیکر گھر جا چکا تھا۔پولیس حکام نے اسلام آباد میں متعلقہ سفارتخانے کے اس افسر سے رابطہ کیا جو اپنے شہریوں کی سیکورٹی کا ذمہ دار ہے،اس نے یقین دہانی کرائی کہ یہ غیرملکی باشندے واپس ملتان چلے جائیں گے۔گفت و شنید کے بعد 20میں سے 14غیرملکی شہری واپس جانے پر آمادہ ہو گئے مگر 6غیرملکی باشندے جن کا تعلق فوج سے تھا ،انہوں نے سیکورٹی پر تعینات ایس ایچ اوتھانہ راجہ رام (ظریف شہید)محمد اشرف پر حملہ کر کے اسے شدیدزخمی کر دیا۔چند دیگر اہلکار بھی زخمی ہوئے۔بعد میں جب پولیس والوں اور ان غیرملکی باشندوں کا طبی معائنہ ہوا تو رپورٹ کے مطابق غیرملکی حکام کو کوئی چوٹ نہیں آئی تھی جبکہ ایس ایچ او کو لگنے والی ضربیں قابل دست اندازی پولیس تھیں۔

    اس واقعہ کی انکوائری ہوئی تو غیرملکی باشندے قصوروار ٹھہرے۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ان غیرملکی شہریوں کے خلاف مقدمہ درج کرکے گرفتار کیا جاتا تاکہ آئندہ کسی کو قانون ہاتھ میں لینے اور باوردی اہلکاروں پر حملہ کرنے کی جرات نہ ہوتی لیکن خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے اپنے دوست ملک کے حکام کو خوش کرنے کے لئے تین ایس ایچ اوز اور 6اہلکاروں کو معطل کر دیا جبکہ سی پی او ملتان اظہر اکرم کو عہدے سے ہٹا کر او ایس ڈی بنا دیا۔

    عالمی تعلقات کا پہلا اور بنیادی سبق ہی یہی ہے کہ کوئی مستقل دوست ہوتا ہے نا حتمی دشمن ۔یہاں دوستیاں یا دشمنیاں نہیں نباہی جاتیں بلکہ دوطرفہ مفادات کی بنیاد پر تعلقات استوار کئے جاتے ہیں۔مگر ہم ہر بار ان عالمی تعلقات کو دوستی کے اٹوٹ رشتے سمجھ کر حد سے گزر جاتے ہیں۔

    جس دوست ملک کے شہریوں نے ملتان میں قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں پر حملہ کیااگر دوستی کے ناتے ایسا کرنا جائز ہے تو کسی دن پاکستانی باشندے بھی ان کے ملک میں باوردی اہلکاروں کی پھینٹی لگا کر دیکھیں تاکہ آٹے دال کا بھائو معلوم ہو جائے۔ ہمارے اس دوست ملک کی کمپنیاں توانائی کے بیشمار منصوبوں پر کام کر رہی ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ اقتصادی راہداری سے اس خطے کی تقدیر سنور جائے گی اور چارسو دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی۔ہم نے وارفتگی کے عالم میں گوادر پورٹ کا منصوبہ بھی اس دوست ملک کے حوالے کر رکھا ہے۔

    دوستی اور تعلقات اپنی جگہ مگر کوئی بھی ریاست غیر ملکی باشندوں کو قوانین سے کھلواڑ کی اجازت نہیں دیتی۔مگر ہم نے تو چونکہ دیگر بیسیوں منصوبوں کے ساتھ ساتھ اپنی عزت کی حفاظت کا ٹھیکہ بھی اس دوست ملک کو دیدیا ہے اس لئے کیسی شکایت اور کیساگلہ شکوہ۔وزیر اعظم میاں نوازشریف نے جو فرمایا وہ سب قوم کا سرمایہ مگر کیا ہی اچھا ہواگر لگے ہاتھوں وہ یہ بھی بتا دیں کہ پاکستان کی عزت کی حفاظت کا یہ ٹھیکہ کب اور کیسے اس دوست ملک کو دیا گیا اور اس کی مدت کیا ہے؟کیا اس معاہدے کی رو سے پاکستانی پولیس اہلکاروں کی ’’عزت افزائی‘‘ بھی غیر ملکی باشندوں کا استحقاق ہے؟معزز غیر ملکی مہمانوں کو اس کے علاوہ بھی کسی قسم کے حقوق ودیعت کئے گئے ہیں تو قوم کو آگاہ کیا جائے تاکہ لوگ’’عزت افزائی‘‘ کے لئے تیار رہیں اور غفلت میں نہ مارے جائیں۔

  • سی پیک۔ جی، بی اور پی-سلیم صافی

    سی پیک۔ جی، بی اور پی-سلیم صافی

    saleem safi

    چین پاکستان اکنامک کاریڈور ایک جی (گلگت بلتستان) سے شروع ہوتا اور دوسری جی (گوادر ) پر ختم ہوتا ہے ۔ گوادر اس منصوبے کادل ہے تو گلگت بلتستان شہ رگ اور دروازے کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہم بے بس پاکستانیوں کا مطالبہ فقط یہ تھا کہ اس منصوبے سے سب سے زیادہ اورپہلی فرصت میں ان دونوں کو مستفید کرایا جائے کیونکہ سب سے زیادہ حق ان دونوں کا ہے ۔ پھر اگر گنجائش ہو تو رخ پاکستان کے بی (B)سے شروع ہونے والے علاقوں یعنی بلوچستان اور پسماندہ (Backward) علاقوں (جنوبی پنجاب، پختونخوا ، فاٹا اور آزاد کشمیر) کی طرف رکھا جائے لیکن حکمرانوں نے صرف پی (P) اور وہ بھی صرف سی پی یعنی سینٹرل پنجاب کو سرفہرست رکھا۔بی سے تو بدستور کنارہ کشی ہے لیکن اللہ کا شکر ہے کہ بعدازخرابی بسیار اب حکمران دونوں جیز کی طرف متوجہ ہوگئے ہیں اور یکم ستمبر کو جب وزیراعظم میاں محمد نوازشریف گوادر میں بعض ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح کرنے وہاں پہنچے تھے تو آرمی چیف جنرل راحیل شریف شہ رگ یعنی گلگت بلتستان میں سی پیک کے حوالے سے جی بی حکومت کے سیمینار میں بحیثیت مہمان خصوصی موجود تھے۔

    گلگت بلتستان کے سنجیدہ اور فعال وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمان نے اس سیمینار میں علاقے کے تمام طبقوں کی نمائندگی کو یقینی بنایا تھااور ان کی محنت، محبت اور تاکید نے ہم جیسوں کو بھی شرکت پر مجبور کیا تھا۔سیمینار سے وفاقی وزیر جناب احسن اقبال ، مشاہد حسین سید، اسد عمر ، عمر ایوب ، ثاقب شیرانی اور کئی مختلف شعبوں کے ماہرین نے خطاب کیا ۔ وزیراعلیٰ حفیظ الرحمان مستقل طور پر دو روزہ سیمینار میں موجود رہے جبکہ گورنر نے بھی اپنی بیگم رانی کے ساتھ تمام نشستوں میں اپنی شرکت کو یقینی بنایا ۔ نہ جانے ان کی اپنی خواہش تھی یا کوئی اور حکمت تھی کہ میڈیا کے سیشن کو ملتوی کرکے اس وقت رکھا گیا کہ خود آرمی چیف ہم جیسوں کی الٹی سیدھی باتوں کو سن سکیں۔ سینئر صحافی اویس توحید کی طرف سے تجویز سامنے آئی کہ الیکٹرانک چینلز چھوٹے صوبوں ، پسماندہ علاقوں اور گلگت بلتستان وغیرہ کے لئے الگ وقت مختص کریں، تو تائید کرتے ہوئے میں نے مطالبہ کیا کہ جس طرح پیمرا نے چینلز کو پابند کیا ہوا ہے کہ وہ خاص دورانیہ سے زیادہ اشتہار نہیں چلائیں گے ،

    اسی طرح انہیں پابند بنادینا چاہئے کہ وہ اوسطاً ایک متعین وقت ان علاقوں کی کوریج کے لئے مختص رکھیں گے ۔ ساتھ یہ پابندی بھی ہونی چاہئے کہ ہر چینل ہر ضلع میں باقاعدہ تنخواہ لینے والا رپورٹر اور کیمرہ مین رکھے جبکہ اینکرز میں بھی چھوٹے صوبوں اور گلگت بلتستان جیسے علاقوں کا کوٹہ ہونا چاہئے ۔ مزید عرض کیا کہ اگرچہ میں مخصوص طاقتوں کی دوسروں کے دائرہ اختیار میں مداخلت کے حق میں نہیں لیکن اگر اس نیک کام کے لئے وہ طاقتور ادارے بھی اپنا کردار ادا کریں تو میں تائید کروں گا ۔ میں نے مزید عرض کیا کہ چھوٹے صوبوں اور پسماندہ علاقوں کو میڈیا میں ان کا حق دلانے کے لئے اگر ضرورت پڑے تو آرمی چیف ،آئی ایس پی آر کے لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ صاحب سے ایک ٹوئٹ جاری کروادیں کیونکہ اس ملک میں صرف آئی ایس پی آر کے ٹوئٹ کوہی سنجیدہ لیا جاتا ہے ۔ میری اس گستاخی پر جنرل راحیل شریف اور ان کے ساتھ بیٹھے کور کمانڈر پنڈی اور کورکمانڈر پشاور نے زوردار قہقہہ لگایاجبکہ پورے پنڈال میں تالیاں گونجنے لگیں۔ میں نے لکھی تقریر کی بجائے حسب عادت اردو میں زبانی تقریر کی اور گلگت بلتستان کے حسن اور وہاں کے معصوم اور پیارے لوگوں کی عزت اور محبت نے اس قدر مسحور کردیا تھا کہ تقریر کے دوران ہوش نہیں رہا کہ کیا کہہ رہا ہوں لیکن جو کچھ کچھ یاد ہے ، اس کا خلاصہ یہاں عرض کئے دیتا ہوں۔

    ’’گزشتہ روز میرے اور احسن اقبال صاحب کے مابین تلخ جملوں کے تبادلے ، جس کو آج گلگت بلتستان کے میڈیا میں بھرپور طریقے سے رپورٹ کیا گیا ہے ، سے کوئی یہ تاثر نہ لے کہ سی پیک منصوبے کے حوالے سے قوم میں کوئی اختلاف ہے ۔ یہ وہ منصوبہ ہے کہ جس پر اسفندیار ولی خان سے لے کر سردار اختر جان مینگل تک ،خورشید شاہ سے لے کر سراج الحق تک ، عمران خان سے لے کر مولانا فضل الرحمان تک اور میاں نوازشریف سے لے کرجنرل راحیل شریف تک پوری قوم یک زبان ہے ۔ ہر کوئی اس کی جلد از جلد تکمیل چاہتا ہے ۔ اختلاف ہے تو صرف منصوبے پر عمل درآمد کے لحاظ سے حکومتی رویے اور طریق کار پر ہے ۔ گلگت بلتستان اور دیگر پسماندہ علاقوں کے عوام کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ سی پیک جس بھی روٹ سے جائے اور جس بھی شکل میں اس کے منصوبے مکمل ہوں ، کسی علاقے یا کسی پاکستانی کو مالی حوالوںسے کوئی نقصان نہیں پہنچے ۔ یہ ہر شکل میں ، ہر پاکستانی کے لئے فائدہ ہی فائدہ ہے ۔ ہم جیسے لوگ اس لئے لڑرہے ہیں کہ ہم اس فائدے کو زیادہ سے زیادہ کرنا چاہتے ہیں اورحکمرانوں کو متنبہ کررہے ہیں کہ وہ ایسی روش نہ اپنائیں کہ یہ منصوبہ مالی فائدے کا تو موجب بنے لیکن ا س کے ساتھ ساتھ سیاسی، علاقائی اور لسانی تعصبات کو جنم دے ۔ یہ منصوبہ جتنا پاکستان کے لئے اہم ہے ، اس سے زیادہ چین کے لئے اہم ہے ۔ پہلے ہمیں اپنے گھر میں صرف پاکستان کے دشمنوں کی سازشوں کا سامنا تھا لیکن اب چین کے دشمن بھی ہمارے دشمن بنتے جارہے ہیں اورپاکستان کے ساتھ چین کے دشمن بھی پاکستان کے اندر پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہوگئے

    ہیں ۔ ان لوگوں کی سازشوں کا ہدف پاکستان کے معاشی اور تزویراتی دروازے یعنی کراچی ، بلوچستان ، گلگت بلتستان اور فاٹا و پختونخوا ہیں ۔ ان سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے ضروری ہے کہ انہیںخصوصی طور پر خوشحال بنانے کی کوشش کی جائے ۔ تبھی ہم ملتمس رہے کہ سی پیک سے ان علاقوں کو مستفید کرانے کو پہلی ترجیح رکھا جائے ۔ ہم اگر ہر معاملے میں چین کی تقلید نہیں کرسکتے تو کم از کم سی پیک کے معاملے میں اس کی تقلید کرنی چاہئے ۔ چینی قیادت نے سنکیانگ، تبت اور انرمنگولیا میں علیحدگی پسندی اور دہشت گردی کے مسائل کو ختم کرنے کے لئے کھربوں ڈالر مشرقی چین سے اٹھا کر مغربی چین کے پسماندہ علاقوں میں منتقل کئے ۔ پاکستان چونکہ فیڈریشن ہے اور یہ ممکن نہیں کہ ترقی یافتہ علاقوں کے وسائل کو پسماندہ علاقوں میں منتقل کئے جائے ، اس لئے سی پیک جیسے منصوبوں میں پسماندہ علاقوں کو اولیت دینی چاہئے ۔ چین میں وحدانی نظام اور ایک پارٹی کی حکومت ہے لیکن اس کی قیادت نے جمہوری سوچ کا مظاہرہ کرکے سنکیانگ کی حکومت کو سی پیک کے اصل فیصلہ ساز فورم یعنی جے سی سی (جوائنٹ کوآپریشن کمیٹی) کا مستقل ممبر بنا دیا ہے ۔ جبکہ پاکستان کی طرف سے جو کمیٹی بنائی گئی ہے

    اس میں کسی بھی صوبائی حکومت ، حتیٰ کہ سی پیک کی شہ رگ یعنی گلگت بلتستان کی حکومت کو بھی ممبر نہیں بنا یا گیا ۔ پاکستان کی طرف سے اس کمیٹی میں جو سات وزراء ممبر ہیں ، ان میں سے چھ کا تعلق وسطی پنجاب سے ہے ۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ تمام وزرائے اعلیٰ بالخصوص گلگت بلتستان اور بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ اور آزاد کشمیر کے وزیراعظم اس کے ممبر بنائے جائیں ۔ مختصر الفاظ میں اپنی التجا یہ ہے کہ سی پیک کو ایک سیاسی جماعت کا انتخابی منصوبہ بنانے کی بجائے قومی منصوبہ سمجھ کر آگے بڑھایا جائے ۔ گوادر کو پرویز مشرف نے شروع کیا، آصف علی زرداری نے چین کے حوالے کیا اور اس کے ساتھ سی پیک کے ایم یو پر دستخط کئے ، میاں نوازشریف نے اس کو اپنی ترجیحات میں سرفہرست رکھا اور جنرل راحیل شریف نے ذاتی اور خصوصی دلچسپی لے کر اس کی سیکورٹی کی ذمہ داری اپنے اداروں کو دی ۔اس لحاظ سے سب کو کریڈٹ جاتا ہے اور اسے سب کا کریڈٹ بنا کر قومی منصوبے کے طور پر آگے بڑھایا جائے ۔

    ہر وقت سی پیک سی پیک کرنے کی بجائے چین کی تقلید کی جائے یعنی قول نہیں عمل ۔ خاموش رہ کر کام کیا جائے اور زبان سے بولنے کی بجائے منصوبے کو بولنے دیا جائے ۔ سیاست کی خاطر سی پیک کے اشتہارات چلا چلا کر ایک طرف حکمرانوں نے ہر علاقے کے عوام کی توقعات حد سے بڑھادی ہیں اوردوسری طرف دشمنوں کو بھی زیادہ متحرک کردیا۔ یہ سلسلہ بند ہونا چاہئے۔ جس کام (معاملات کو اخفا میں رکھنا) میں چین کی تقلید نہیں ہونی چاہئے تھی ، بدقسمتی سے موجودہ حکومت اس میں اس کی تقلید کررہی ہے ۔ حالانکہ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے۔ یوں معاملات سے پردہ اٹھا کر سی پیک کے حوالے سے تمام معاہدوں کی تفصیلات پارلیمنٹ میں لانی چاہئیں تاکہ شکوک و شبہات جنم نہ لیں ۔ اسی طرح عمل درآمد اور نگرانی کے لئے ایک ایسی اتھارٹی ہونی چاہئے کہ جس میںتمام صوبوں، گلگت بلتستان، فاٹا اور آزاد کشمیر کے ساتھ ساتھ فوج، آئی ایس آئی اور دیگر اداروں کو بھی نمائندگی حاصل ہو۔‘‘