Tag: کچھ خاص

  • نیلی آنکھ والوں پر کیا گزری – حافظ یوسف سراج

    نیلی آنکھ والوں پر کیا گزری – حافظ یوسف سراج

    حافظ یوسف سراج چائے والے کی نیلی آنکھوں کی بات ہو رہی تھی اور یہ بات کہ کیا کوئی جانتا بھی ہے کہ ان جھیل جیسی نیلی آنکھوں کے پیچھے کیا درد چھپے ہیں؟ دراصل ان کے پیچھے ایک پوری قوم کی بےبسی کی داستان سو رہی ہے اور ان سمندر آنکھوں کے پیچھے ایک پوری قوم کی بےحسی جاگ رہی ہے۔ ان دل فریب نیلی آنکھوں کے پیچھے کرب بھرے کچھ نوحے ہیں اور دل چیر دیتے لہو میں ڈوبے کچھ دوہے ہیں۔ لوگ مگر چہرہ دیکھتے ہیں اور بیبیوں نے ان آنکھوں کی بس خیرہ کن چمک دیکھی ہے۔ اس چہرے کے پیچھے اجڑی بستی دل کی خستگی اور ان آنکھوں کی جھیل میں ڈوبی حسرت بھری کہانیاں کب دیکھتے ہیں ؎
    جو تار سے نکلی وہ دھن سب نے سنی ہے
    جو ساز پہ گزری وہ کس دل کو پتا ہے

    آئیے اِک نظر ان دل فریب نظاروں اور من موہ لیتی بہاروں کے پیچھے انسانیت کو شرما اور صاحبان دل کو لرزا دینے والی کچھ تلخ حقیقتیں بھی جھانک کے دیکھ لیں۔ میر اخیال ہے اس سے آشنائی کے لیے ہمیں جمال عبداللہ عثمان سے ملاقات کر نی چاہیے۔ جمال عبداللہ عثمان ایک نوجوان قلم کار ہے۔ سوات سے آئے اس نوجوان کا لہجہ کشمیری سیبوں کی طرح رسیلا اور اس کا قلم اہل زبان کی طرح البیلا ہے۔

    جمال عبداللہ عثمان
    جمال عبداللہ عثمان

    جمال عبداللہ عثمان نے اپنا کیریئر کراچی کے مختلف اخبارات میں لکھنے سے شروع کیا۔ پھر جسارت نے اس کا کالم چھاپا اور پھر یہ کراچی کے جرات مند اخبار ”امت“ کا حصہ بن گئے۔ امت میں انہوں نے کالم نگاری اور فیچر رائٹنگ میں اپنا لوہا منوایا۔ انہی دِنوں سوات میں ہمیں اپنی بقا کی جنگ لڑنا پڑی اور لاتعداد صحافیوں کے استاذ جناب اطہر ہاشمی کو اس نوجوان کے سواتی ہونے کا پتا چلا تو انہوں نے اسے فیلڈ میں بھیج دیا۔ ایک تو اپنے علاقے کی خانہ ویرانی اور پھر سوات کا جنت نظیر خطہ بندوق کی آگ سے جھلسا اور بارود کی بو سے متعفن ہوا اس سے دیکھا نہ گیا۔ خیر ایک صحافی کے لیے آنکھوں کی بندش کے کیا معنی؟ وہی مثل کہ گھوڑا گھاس سے محبت کرے گا تو کھائے گا کیا؟

    نہ چاہتے ہوئے بھی اس نے وہ نوحے لائیو دیکھے، اور وہ سب جبر دل پہ سہے۔ انسانوں کو چند بے دردوں کے کیے کی پاداش میں اپنے پیارے گھر گلیارے اور باغ و بازار چھوڑ کے مفلسانہ و مہاجرانہ نکلتے دیکھا۔ اس نے ہنستے بستے گھروں سے انجانی مسافتوں کو نکلتے مسافروں کے اشک بھی گنے اور ان کے پاؤں میں چبھے کانٹے بھی شمار کیے۔ اس نے بعض کم اندیشوں کی اٹھائی گرد کی اس دھول میں کئی نیلی آنکھوں اور کئی شہابی گالوں کی سندرتا اور مستقبل کو گم ہوتے بھی دیکھا۔ اس نے خیموں جیسے برقعوں میں جینے کو سعادت اور عادت سمجھنے والی کئی مہ رخوں کو تپتے سورجوں تلے بے پردہ جھلستے، نانِ جویں کو بلکتے اور اپنوں کی بے بسی کی تڑپ سے تڑپتے اور مچلتے دیکھا۔ یہ دیکھتا رہا، خود سے الجھتا رہا، گاہ روتا اور گاہ دور دیس والوں کے لیے آنکھوں دیکھے احوال لکھتا رہا۔ ستم کی سنگلاخ چکی کے پاٹوں میں آئے انسانوں کی سیاہ بختی پر یہاں کبھی یہ خود رو دیا اور کبھی اس کے قلم نے کچھ آنسو جذب کرکے دور بستے انسانوں کو رلایا۔

    1400509_556025357803123_1169724193_o پھر ایک رات جب یہ نوجوان سو کے اٹھا تو اس کے چشم دید وہ سارے درد، وہ سارے کرب، وہ سارے نوحے اور وہ سارے جگر خراش کردار ایک کتاب ہوگئے تھے اور یہ کتاب ”لہورنگ داستان“ کے نام سے آج تک میری دراز میں پڑی ہے اور میں اسے کبھی کامل پڑھنے کی جرات نہیں کرسکا۔ کاش! کبھی مجھے اتنا حوصلہ ارزاں ہو کہ میں ایک قوم کے اشک سہ سکنے کا ارادہ باندھ سکوں تاکہ اس نوجوان کو اس کتاب کی رسید دے سکوں۔ بہرحال یہ تاریخ کے ایک حساس عہد کی امانت تھی جو اس شخص نے عہد آیندہ مورخ کے لیے عین چوراہے پر رکھ دی ہے۔

    مجھے نہیں معلوم کہ اسلام آبادی چائے والا سواتی ہے، قبائلی ہے یا وزیرستانی یا کسی اور علاقے کا۔ مجھے نہیں معلوم وہ کسی درسگاہ کے اجڑنے سے چائے والا بنا ہے یا اپنے گھرکے لٹنے سے اتوار بازار میں آبسا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس جیسے اور کتنے اپنے لٹے مستقبلوں کے سہانے سپنے، اپنے چکنا چور ہوگئے خوابوں کے ریزے اور اپنے گم ہوگئے سکولوں میں بکھرے بستے تلاش کرتے کرتے کہاں کہاں کاغذ چننے والے، بوٹ پالش والے، چائے والے، ورکشاپ والے چھوٹے بنے ہماری بے حسی کا گلہ ثبوت ہوا کرتے ہیں۔ میں کچھ بھی نہیں جانتا، لیکن شعر و اد ب سے کچھ نہ کچھ تعلق رکھنے کے حوالے سے اپنوں سے اتنا پوچھنا چاہتا ہوں کہ صاحبو! ناصحو! پند گرو! مقتدرو! حکمرانو! اپنے عشاق سے ایسے بھی کوئی کرتا ہے؟

    اے میری تقدیر کے بننے اور بگڑنے کے قلمدان تھامنے والو! یہ ایک چائے والا کہ جس کی گالوں اور جس کی آنکھوں نے مصرکے بازار تمہارے فٹ پاتھوں پر سجادیئے ہیں۔ سچ کہوں تو تم نے ان نیلی آنکھوں سے کچھ اچھا سلوک نہیں کیا۔ یہ نہیں کہ انہیں گھروں سے نکال دیا، بلکہ یہ کہ پھر گھروں کو جانے نہیں دیا۔ یعنی جانے دیا؟ مگرریزہ ہوگئی زمیں پر گھر مگر کہاں؟ وہ سڑکیں اور وہ باغ کہاں تھے؟ وہ سکول اور وہ مدرسے کہاں تھے؟ وہ تتلیاں، وہ پھول اور وہ جگنو وہاں کہاں تھے؟ وہ تو اک ایسی اجڑی دلی ہے کہ جسے نوحہ کہنے کو کوئی غالب اور جسے المیہ کہنے کو کوئی شیکسپیئر تک نہیں ملا۔ آئیے اسی نوجوان کے چند روز پہلے کے ایک فیس بک سٹیٹس سے نیلی آنکھوں کا تازہ نوحہ دیکھتے ہیں کہ شاید کسی بنجردل میں ان کے لیے امید کا کوئی گلاب کھل اُٹھے۔

    ابھی ایک وزیرستانی دوست آئے۔ چہرے سے شدید تھکاوٹ عیاں تھی۔ میں نے حال احوال پوچھا تو کہنے لگے: ”چار سال بعد اس نیت سے گئے تھے کہ حالات بہتر ہوگئے ہوں گے، لیکن خواب اور سراب کے سوا کچھ نہیں۔ سب ختم ہوچکاہے۔ آبا و اجداد نے جو مکان بنائے تھے، نئی نسل دہائیاں محنت مزدوری کرکے بھی انہیں دوبارہ تعمیر نہیں کرسکتی۔ مٹی کے یہ گھر تو جیسے تیسے بن جائیں گے۔ نہ بھی بنیں گزر ہی جائے گی، مگر سب سے تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ہماری پوری کی پوری نسل اَن پڑھ پل رہی ہے۔ جہاں پندرہ سالوں سے گولہ بارود اور شیلنگ کے سوا کچھ نہ برساہو، وہاں تعلیم کیسی؟ علم کیسا؟“

  • زرد صحافت اسے کہتے ہیں!  –  احسان کوہاٹی

    زرد صحافت اسے کہتے ہیں! – احسان کوہاٹی

    یہ غالباً سولہ سترہ برس پرانی بات ہے جب روزنامہ امت کا دفتر کراچی کے گنجان ترین علاقے نامکو سینٹر میں ہوا کرتا تھا۔ یہ وہی وقت تھا جب شہر ایم کیو ایم کے قبضے میں اور صحافت یرغمال ہوا کرتی تھی۔ تب نیوز چینلز نے جنم نہیں لیا تھا۔ الیکٹرانک میڈیا میں صرف پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو پاکستان ہی تھے، جو بلاشرکت غیرے سرکار کے قبضے میں تھے۔ لے دے کر اخبارات اور جرائد ہی بچے تھے، جو ایم کیو ایم سے بچے ہوئے نہیں تھے، سرشام ہی اخبارات کے فیکس نائن زیرو کے بیانات دینا شروع کردیتے جن کی نوک پلک سنوار کر اخبارات نمایاں طور پر شائع کرنے کے پابند ہوتے تھے۔

    ایسے میں روزنامہ امت اکلوتا اخبار تھا جس نے اس پابندی کو قبول کرنے سے علانیہ انکار ہی نہیں کیا، بلکہ ایم کیو ایم کے حوالے سے کھل کر لکھنا بھی شروع کردیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب الطاف حسین کو لندن میں چھینک بھی آتی تو کراچی میں آٹھ دس معصوم شہریوں کا صدقہ دے دیا جاتا۔ اس ماحول میں امت کی بے باکی اکثر کی نظروں میں حماقت ٹہری تھی۔ ان دنوں ایڈیٹر صاحب کا معمول ہوتا تھا کہ وہ آٹھ نو بجے رپورٹنگ ڈیسک پر آتے اور ہر رپورٹر سے پوچھتے کہ آج کیا لائے ہو؟ خبر اچھی اور بڑی ہوتی تو وہ رپورٹر کو اپنے چھوٹے سے دفتر میں بلالیتے، خبر کے بارے میں سوال جواب کرتے، شواہد طلب کرتے کہ اس ایکسکلوزیو نیوز کے ثبوت کیا ہیں اور اس ادارے، شخص کا موقف کہاں ہے؟ موقف کے بنا خبر شائع نہیں ہوتی تھی۔ ایڈیٹر کا کہنا تھا کہ جس کے خلاف خبر ہے، اس سے لازمی رابطہ کریں۔ اس کا موقف لیں، بے شک وہ گالیاں دے۔

    ایسے ہی اک رات ایڈیٹر صاحب اپنے کمرے سے نکلے، رپورٹنگ ڈیسک پر پہنچے اور رپورٹروں سے کارگزاری پوچھنے لگے۔ ایک سینئر رپورٹر نے خبر سامنے رکھ دی جو ایم کیو ایم کی خاتون بااثر راہنما نسرین جلیل صاحبہ کے خلاف تھی۔ ایڈیٹر صاحب نے خبر ہاتھ میں لی اور پڑھنے کے بعد رپورٹر سے پوچھا کہ موقف کہاں ہے؟ رپورٹر نے پس و پیش کی کہ ایم کیو ایم والوں سے کیسے بات کی جائے؟ کیسے موقف لیا جائے؟ ایڈیٹر صاحب نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا کہ موقف لو، اس کے بعد ہی خبر فائل کرنا۔ رپورٹر نے سعادت مندی سے سر ہلایا اور تار کھینچ کر ٹیلی فون کو قریب کھسکاکر نمبر ڈائل کرکے نسرین جلیل صاحبہ سے لگا۔ ایڈیٹر صاحب اپنے کمرے کی طرف پلٹے تو آغا خالد صاحب نے رپورٹر سے پوچھا: ’’بات ہوگئی؟‘‘

    رپورٹر نے اثبات میں سر ہلایا جس پر آغا خالد صاحب نے ہنستے ہوئے کہا کہ فون تو ڈید پڑا ہوا ہے، موقف کیسے لے لیا؟ اب رپورٹنگ ڈیسک میں لگنے والا قہقہہ خاصا زور دار تھا۔

    آج سیلانی کو وہ واقعہ اور قہقہہ بڑی شدت سے یاد آرہا ہے کہ اک دور وہ بھی تھا اور یک دور آج کا بھی ہے کہ صحافت کی لغت سے ہی ذمہ داری، اصول پسندی کے الفاظ نکال دیئے گئے ہیں۔ مقام افسوس یہ کہ ایسی بے اصول صحافت اب وہ اخبار بھی کررہے ہیں جو پاکستان کے بڑے اخبار قرار پاتے ہیں۔ جو فرنٹ پیج پر پاکستان کے سب سے بااصول لیڈر بابائے قوم کی تصویر فخریہ چھاپتے ہیں کہ قائد اعظم ان کا اخبار پڑھا کرتے تھے۔ انگریزی کے اسی بڑے اخبار کے صفحہ اول پر لگنے والی خبر نے اپنی ہی ساکھ پر سوالیہ نشان لگادیا ہے۔

    سیلانی اسلام آباد سے دور کراچی میں رہتا ہے، لیکن اب فاصلوں کی اہمیت ہی کیا رہی ہے۔ سیکنڈوں منٹوں میں یہاں کی آگ کی تپش وہاں اور وہاں کی پھوہار کی بوندیں یہاں پہنچ جاتی ہیں۔ پھر کراچی کے اس بڑے انگریزی اخبار کی خبر ڈسکس کیسے نہ ہو، یہ خبر تو ملکی سرحدوں سے نکل کر نئی دہلی میں بھی مزے لے لے کر سنائی جارہی ہے کہ معاملہ پاکستان کا ہے۔ سچی بات ہے یہ خبر سیلانی کی نظر سے نہیں گزری تھی، البتہ اس نے سنا تھا کہ ایک بڑے انگریزی اخبار نے کچھ ’’بڑی بریکنگ نیوز‘‘ دی ہے۔

    سیلانی کو وہ خبر ای میل کی صورت اسلام آباد میں ایک دوست نے بھیجی، وہ دفاعی تجزیہ نگار ہیں، رابطہ ہوا تو پھبتی کستے ہوئے کہنے لگے ’’آج کل آپ کراچی والے کیا چلارہے ہیں۔۔۔۔‘‘

    ’’میں سمجھا نہیں‘‘ سیلانی کو معاملے کا علم ہی نہیں تھا۔

    ’’ارے بھئی کراچی والوں نے ڈی جی آئی ایس آئی اور شہباز شریف کو بھڑا دیا اور آپ کو خبر ہی نہیں۔‘‘

    استفسار پر پتا چلا کہ ایک بڑے اور پرانے انگریزی اخبار نے کسی اجلاس کی خبر چھاپی ہے، جس میں بتایا گیا ہے شہباز شریف اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل رضوان اختر کے درمیان گرما گرمی ہوئی ہے اور ظاہر یہ کیا جارہا ہے کہ سول اور عسکری قیادت فاصلے پر کھڑی ہے۔۔۔ سول حکومت کا گلہ ہے عسکری قیادت انتہا پسند جہادیوں کو سپورٹ کرتی ہے اور اسی وجہ سے پاکستان عالمی تنہائی کی طرف جارہا ہے۔۔۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ تو سیدھا سیدھا سول اور ملکی سلامتی کے اداروں کو ایک دوسرے سے بھڑانے کی کوشش ہے۔ بھارت سمیت دنیا کو بتانا ہے کہ فوج اور حکومت کے درمیان خلیج وسیع ہوتی جارہی ہے اور حکومت نے عسکری اداروں پر واضح کیا ہے کہ پاکستان کو عالمی سطح پر تنہائی سے بچنے کے لیے اہم معاملات پر اتفاق رائے سے کارروائیاں ہونی چاہئیں۔

    ’’اوہ ان حالات میں یہ خبر تو واقعی خطرناک ہے۔ اگر کسی اردو اخبار میں شائع ہوتی تو شاید اتنا زیادہ مسئلہ نہ ہوتا لیکن یہ انگریزی اخبار تو بااثر سفارتی حلقوں میں پڑھا جاتا ہے۔‘‘

    ’’اسی لیے تو کہہ رہا ہوں کہ سوچ سمجھ کر ہی خبر شائع کی گئی ہے۔‘‘

    انہوں نے سیلانی کو خبر ای میل کردی، جو اب سیلانی کے سامنے تھی۔ خبر کیا تھی نئی دہلی اور واشنگٹن کی باچھیں کھلارہی تھی۔

    ’’حکومت نے واضح اور غیر معمولی طریقے سے قیادت کو یہ پیغام پہنچادیا کہ عالمی سطح پر تیزی سے پاکستان تنہا ہورہا ہے جبکہ ریاستوں کی جانب سے کئی اہم معاملات پر کارروائیوں کے لیے اتفاق رائے کا بھی تقاضا کردیا۔‘‘

    پیر 3 اکتوبر کو آل پارٹیز کانفرنس کے موقع پر ہونے والی ایک خفیہ ملاقات میں کم سے کم دو اقدامات پر اتفاق کیا گیا۔ پہلا یہ کہ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر قومی سلامتی کے مشیر ناصر جنجوعہ کے ہمراہ چاروں صوبوں کا دورہ کریں گے اور صوبائی اپیکس کمیٹیوں اور آئی ایس آئی کے سیکٹرز کمانڈرز کو ایک پیغام دیں گے۔ وہ پیغام یہ ہوگا کہ: فوج کے زیر انتظام کام کرنے والی خفیہ ایجنسیاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے کالعدم شدت پسند گروہوں اور ان گروپس کے خلاف کارروائیوں میں مداخلت نہیں کریں گی، جنہیں اب تک سویلین ایکشن کی پہنچ سے دور سمجھا جاتا تھا۔ ڈی جی آئی ایس آئی رضوان اختر کے دورہ لاہور سے اس عمل کا آغاز ہوچکا ہے۔ دوسرا یہ کہ وزیر اعظم نواز شریف نے ہدایات دیں کہ پٹھان کوٹ حملے کی تحقیقات کو کسی نتیجے پر پہنچانے کے لیے نئے اقدامات کیے جائیں جبکہ ممبئی حملہ کیس سے متعلق مقدمات راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی عدالت میں دوبارہ سے شروع کی جائیں۔ یہ فیصلے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے درمیان ہونے والی زبردست بحث کے بعد کیے گئے۔ زیر نظر مضمون ان شخصیات سے ہونے والی گفتگو پر مبنی ہے جو رواں ہفتے ہونے والے اس اہم اجلاس میں شریک تھے، تاہم ان تمام افراد نے آن ریکارڈ بات کرنے سے انکار کیا اور انہوں نے جو باتیں کیں، ان کی تصدیق متعلقہ افراد کی جانب سے بھی نہیں کی گئی۔‘‘

    حیرت کی بات یہ تھی کہ خبر ہی میں کہا جارہا تھا کہ اس حوالے سے فریقین میں سے کسی نے تصدیق کی نہ آن دی ریکارڈ بات کی۔ پھر بھی خبر صفحہ اول پر چھاپ دی گئی۔ خبر میں مزید دعویٰ کیا گیا تھا:

    ’’سیکریٹری خارجہ کی بریفنگ کے بعد ڈی جی آئی ایس آئی اور دیگر سول عہدے داروں کے درمیان حیرت انگیز اور غیر معمولی تبادلہ خیال شروع ہوگیا۔ سیکریٹری خارجہ کی بریفنگ کے رد عمل میں ڈی جی آئی ایس آئی رضوان اختر نے استفسار کیا کہ پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا ہونے سے بچانے کے لیے کیا اقدامات کیے جاسکتے ہیں؟ اس پر اعزاز چوہدری نے جواب دیا کہ عالمی برادری کا سب سے اہم مطالبہ یہ ہے کہ جیش محمد، مسعود اظہر، حافظ سعید، لشکر طیبہ اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کی جائے۔ ڈی جی آئی ایس آئی نے جواب دیا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ جسے ضروری سمجھتی ہے گرفتار کرے، تاہم یہ واضح نہیں کہ انہوں نے یہ بات مذکورہ افراد اور تنظیموں کے حوالے سے کہی یا پھر عمومی طور پر کالعدم تنظیموں کے ارکان کے حوالے سے کہی۔ اس موقع پر وزیر اعلیٰ پنجاب کی جانب سے غیر متوقع طور پر مداخلت کی گئی اور انہوں نے رضوان اختر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جب بھی سول حکام ان گروپس کے خلاف کارروائی کرتے ہیں، سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ انہیں رہا کرانے کے لیے پس پردہ کوششیں شروع کردیتی ہے۔

    شہباز شریف کا یہ موقف سن کر شرکاء ششدر رہ گئے، تاہم کشیدگی کو کم کرنے کے لیے خود وزیر اعظم نواز شریف نے رضوان اختر کو مخاطب کیا اور کہا کہ ماضی میں جو کچھ ہوتا رہا، وہ ریاستی پالیسیاں تھیں اور ڈی جی آئی ایس آئی کو موجودہ صورتحال کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جارہا۔ قبل ازیں اجلاس میں ڈی جی آئی ایس آئی نے بتایا کہ فوج کی پالیسی ہے کہ وہ شدت پسند گروہوں کے درمیان فرق نہیں کرتی اور فوج اس پالیسی کو رائج رکھنے کے لیے پر عزم ہے۔ تاہم آئی ایس آئی چیف نے مختلف شدت پسند تنظیموں کے خلاف کارروائی کے وقت کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا اور کہا ان کارروائیوں سے ایسا تاثر نہیں جانا چاہیے کہ یہ بھارت کے دباؤ پر کی جارہی ہیں یا ہم نے کشمیریوں سے اظہار لاتعلقی کردیا ہے۔‘‘

    ملک کے ٓبڑے انگریزی روزنامے میں سیاسی اور عسکری قیادت میں تلخ ملاقات کا الزام، اس کا ’’احوال‘‘ اور ’’فیصلے‘‘ رپورٹ کرنے والے نے اتنی بڑی خبر بنا موقف کے ہی نیوز ڈیسک کو دے دی اور پھرشاباش کہ اسے چھاپ بھی دیا گیا۔ سیلانی کے دوست نے بتایا کہ اصولی صحافت کے علمبرداروں نے اگلے روز وزیر اعظم ہاؤس سے آنے والی تردید بھی اندرونی صفحوں میں شائع کر دی۔

    اس خبر کے حوالے سے سیلانی کے دوست کا کہنا تھا یہ خبر دینے والے صاحب انگریزی اخبار کے رپورٹر ہی نہیں ہیں، وہ تو کالم نگار ہیں۔

    اصولی صحافت کی شاہکار خبر سیلانی کے لیپ ٹاپ پر اپنی تما م تر شرانگیزیوں کے ساتھ موجود تھی۔ اس خبر کا مقصد قومی سلامتی کے اداروں اور حکومت کو آنے سامنے لانے اور پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کے بجائے کیا ہوسکتا ہے۔ وہ بھی ایسے وقت میں جب مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی جوبن پر ہے۔ بھارت سے بپھرے کشمیری سنبھلے نہیں سنبھل رہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں پر مجاہدین کے حملے پھر سے بڑھ گئے ہیں۔ نوجوانوں نے پھر سے بندوقیں اٹھالی ہیں اور ایسی صورتحال میں جب بھارت پاکستان کو عالمی سطح پرتنہا کرنے کے لیے سازشیں کررہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی لائن آف کنٹرول پر توپیں لارہا ہے، راجھستان میں مورچے کھود رہا ہے، بارڈر کے دیہات خالی کرا رہا ہے، جنگی تیاریاں کررہا ہے، نریندرا مودی جنگ کے دنوں کے لیے اسلحے کی مخصوص پوجا کررہا ہے اور ہم یہاں اپنی ہی سول اور عسکری قیادت کو لڑوا رہے ہیں۔ دنیا کو پیغام دے رہے ہیں کہ حکومت کچھ کہتی ہے اور فوج کچھ کرتی ہے۔۔۔

    بالفرض مان لیتے ہیں اجلاس میں ایسا ہی ہوا ہوگا تو بھی کیا اسے ان حالات میں خبر بننا چاہیے تھا؟ صحافی ہونے، اخبار نکالنے اور پیسہ کمانے سے پہلے ہم پاکستانی بھی ہیں۔ پاکستان ہے تو ہم یہاں موجیں کررہے ہیں۔ مزے سے رہ رہے ہیں۔ یہاں سے کمائے جانے والے پیسوں سے ہمارے بچے باہر کی یونیورسٹیوں میں پڑھ رہے ہیں اور ہم سالانہ تعطیلات میں دنیا کے مہنگے شہروں میں مع اہل و عیال پائے جاتے ہیں۔۔۔ ہمیں تھوڑی دیر کے لیے خودغرض ہوکر وطن کی نہیں، اپنی ان عیاشیوں کی ہی فکر کرلینی چاہیے کہ پاکستان ہے تو یہ عیاشیاں ہیں۔ ہم اس شاخ کو تو نہ کاٹیں جس پر آشیانہ ہے۔۔۔۔ سیلانی یہ سوچتا ہوا سامنے میز پر رکھے لیپ ٹاپ کی اسکرین کو لب بھینچے دیکھتا رہا دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔

  • ’’حاجی صاحب‘‘  –  احسان کوہاٹی

    ’’حاجی صاحب‘‘ – احسان کوہاٹی

    سیلانی نے آنکھیں ملتے ہوئے سیل فون کی روشن اسکرین پر نظر ڈالی اور ایس ایم ایس پڑھ کر بڑبڑانے لگا ’’یہ نہیں سدھریں گے۔۔۔‘‘

    سیلانی فون چارجنگ پر لگاکر غسل خانے میں گھس گیا۔ وضو کیا، نماز پڑھی اور کالم لکھنے کے لیے مسہری پر لیپ ٹاپ لے کر بیٹھ گیا، لیکن اس کا ذہن اسی ایس ایم ایس کی طرف تھا۔ اس نے لیپ ٹاپ ایک طرف کیا اور حاجی صاحب سے لڑنے کے لیے ان کا نمبر ڈائل کرنے لگا کہ یہ کیا طریقہ ہے۔ صبح سویرے کوئی اس طرح کا بیہودہ مذاق بھی کرتاہے۔۔۔

    سیلانی نے حاجی صاحب کا نمبر ڈائل کیا، دوسری طرف سیل فون کی گھنٹی بجی اور پھر خلاف توقع کسی نسوانی آواز میں اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔
    ’’السلام علیکم حاجی صاحب سے بات کرادیں۔‘‘
    ’’حاجی صاحب کا تو انتقال ہوگیا ہے۔۔۔‘‘
    ’’کیا، یایایایایا۔۔۔ آپ کون بات کررہی ہیں؟‘‘

    ’’میں ان کی مسز بات کررہی ہوں۔۔۔ رات ان کی طبیعت خراب ہوئی، اسپتال لے کر گئے لیکن۔۔۔‘‘

    ’’آپ مذاق نہ کریں، یہ کیسے ہوسکتا ہے؟‘‘
    ’’بھائی ہمیں تو خود بھی یقین نہیں آرہا۔۔۔‘‘

    سیلانی نے لائن کاٹ دی اور دوبارہ لیپ ٹاپ لے کر بیٹھ گیا۔ اسے پتا تھا کہ پینسٹھ برس کے شرارتی حاجی صاحب نے مسز کو بھی ساتھ ملالیا ہے۔ اس نے کالم لکھا، ’’امت‘‘ کو ای میل کرکے حاجی صاحب سے دو دو ہاتھ کرنے نکل کھڑا ہوا۔

    حاجی صاحب سیلانی کے ان خاموش قارئین میں سے تھے جو برسوں سے سیلانی سے جڑے ہوئے ہیں۔ ہاتھوں کے پیالوں میں اس کے لیے دعائیں لیے رکھتے ہیں، لیکن کبھی سیلانی سے نہیں ملے۔ غالبا ایک سال پیچھے حاجی طفیل صاحب ان خاموش قارئین کی صف سے نکل آئے۔ انہوں نے سیلانی کا سیل نمبر لیا اور کال کرکے پاکستان چوک آنے کی دعوت دی۔

    ’’پاکستان چوک پر دکنی مسجد معروف ہے، اس کے بالکل سامنے خاکسار کی چھوٹی سے ڈیری شاپ ہے۔ ادھر آکر کسی بسم اللہ ملک شاپ اور لال داڑھی والے حاجی صاحب کا پوچھ لیجیے گا، آپ پہنچ جائیں گے۔‘‘

    اور ایسا ہی تھا، خوش مزاج حاجی صاحب پاکستان چوک میں اپنے خالص دودھ دہی اور خوش مزاجی کی وجہ سے چھوٹوں بڑوں، سب میں مشہور تھے۔ خاص کر بچے تو ان کے گرویدہ تھے۔ شاید ہی کوئی بچہ ہو جو انہیں دیکھ کر مسکراتے ہوئے ہاتھ نہ ہلاتا ہو۔ انہوں نے دکان میں بچوں کے لیے ٹافیوں کی بڑی سی برنی بھر رکھی تھی اور ہر وہ بچہ اس ٹافی کا حقدار تھا جن پر ان کی نظر پڑجاتی۔

    حاجی صاحب کے اخلاق نے پہلی ہی ملاقات میں سیلانی کو اپنا گرویدہ کرلیا۔ وہ گوجرانوالہ کے تھے اور دیکھنے میں بھی گوجرانوالہ کے ریٹائرڈ پہلوان ہی لگتے تھے۔ سیلانی نے انہیں کھرے مزاج کاسچا بندہ پایا۔ انہوں نے سفید داڑھی ہی مہندی سے رنگی ہوئی تھی، اس کے سوا ان کی شخصیت پر ملمع کاری کا دور دور تک واسطہ نہ تھا۔

    سیلانی کی حاجی صاحب سے دوستی ہوگئی۔ عمروں کے فرق کے باوجود مزاج ایک سے تھے، اس لیے خوب دوستی ہوگئی۔ اس دوستی میں پاکستانیت اور خوش خوراکی کا بڑا عمل دخل تھا۔ سیلانی خود ہی کو بڑا خوش خوراک سمجھتا تھا، لیکن حاجی صاحب کے سامنے وہ واقعی طفل مکتب تھا۔ سیلانی ان سے سٹی کورٹ کے پیچھے کیفے حسن کی نہاری کا ذکر کرتا تو حاجی صاحب کہتے اسلم روڈ والے کی نہاری کھائی ہے؟ سیلانی ان سے جامع کلاتھ کی چنا چاٹ کی بات کرتا تو فرماتے اقبال کی چنا چاٹ کھائی ہے؟ اور پھر وہ سیلانی کو وہ چیز کھلانا فرض سمجھ لیتے۔ انہوں نے اصرار کرکے منیب الرحمان اور شیث خان کو بھی ایک دن دکان پر بلالیا اور اس کے بعد تو حاجی صاحب سیلانی کے گھر کے فرد جیسے ہی ہوگئے۔ منیب الرحمان تو اٹھتے بیٹھتے ان کے گن گاتا رہتا۔ اس کی حاجی صاحب سے ایسی دوستی ہوگئی کہ نیند سے بھی اٹھاکر حاجی صاحب کے پاس چلنے کے لیے کہا جاتا تو آنکھیں ملتا ہوا پاؤں میں چپل ڈال کر کھڑا ہوجاتا۔

    سیلانی موٹر سائیکل دوڑائے چلا جارہا تھا اور وہ تمام القابات، خطابات جمع کررہا تھا جو اس نے آج حاجی صاحب کو عطا کرنے تھے۔ اس سے پہلے بھی وہ ایک بار ایسی ہی حرکت کرچکے تھے۔ حرکتیں تو بہت سی کرتے رہتے تھے، ان کی تازہ ترین حرکت سیلانی کو اپنا پیر ومرشد قرار دینا تھی۔ وہ ان سے ملنے جاتا تو کسی مرید کی طرح کھڑے ہوجاتے۔ سیلانی بھی کسی پیر کی طرح ان کے شانے پر کرامتی ہاتھ سے تھپتھپاہٹ دے دیتا اور پھر دونوں پیر مرید مل کر قہقہہ لگاتے۔ بات پیر و مرشد ٹھہرانے تک رہتی تو کوئی مضائقہ نہ تھا۔ حاجی صاحب نے تو اوروں سے بھی سیلانی کا تعارف ’’میرے پیر ومرشد‘‘ کی حیثیت سے کرانا شروع کردیا تھا۔ کچھ دن پہلے دو خواتین دکان میں داخل ہوئیں۔ سیلانی کی شامت آئی ہوئی تھی کہ وہ بھی وہیں موجود تھا۔ ان خواتین کو دیکھ کر حاجی صاحب نے فورا کہا
    ’’او بسم اللہ بسم اللہ، میری بیٹیاں آئی ہیں، کوئی ٹھنڈی لسی شسی پلائے‘‘۔
    ملازم نے ان کے لیے بنچ صاف کرکے رکھ دیا۔ وہ دونوں خواتین تھکی ہوئی لگ رہی تھیں۔ حاجی صاحب نے بتایا کہ یہ بچیاں پولیو ورکر ہیں۔ بڑی محنت کر تی ہیں۔ پھر ان سے خیر خیریت پوچھتے پوچھتے اچانک ہی گویا ہوئے ’’یہ میرے پیر صاحب ہیں، انہیں سلام کریں، دعائیں لیں۔‘‘

    اب جو خواتین نے کلین شیو پیر صاحب پر نظر ڈالی تو یہ بات ہضم نہ کرسکیں۔ ادھر سیلانی ان کے سامنے ہاتھ جوڑنے لگا، لیکن حاجی صاحب کہاں باز آنے والے تھے۔ انہوں نے مزید کہا: ’’ان کے کلین شیو چہرے کی طرف نہ جائیں یہ اللہ والے اپنا آپ چھپاکر رکھتے ہیں‘‘۔

    بس ان کا یہ کہنا تھا کہ ایک پولیو ورکر التجائیہ لہجے میں گویا ہوئی ’’میرے لیے دعا کیجئے کہ اس بار پوری تنخواہ مل جائے، بہت محنت کر رہے ہیں‘‘
    دوسری نے کہا ’’بس دعا کریں کہ ہمارے حالات اچھے ہوجائیں، ہمیں گھر سے باہر دھکے نہ کھانا پڑیں‘‘

    حاجی صاحب نے صدق دل سے آمین کہا اور ملازم سے کہا کہ انہیں ایک ایک لسی گھر کے لیے بھی پارسل کرکے دو۔ آج میرے پیر صاحب آئے ہوئے ہیں، میرا دل بڑا ہی خوش ہے۔۔۔ وہ احسان مند لہجے میں شکریہ ادا کرکے چلی گئیں اور سیلانی نے حاجی صاحب کے سامنے ہاتھ جوڑ لیے

    ’’نہ کیتا کرو حاجی صاحب، کیوں پھنسوائوگے‘‘

    ’’میں توانوں اتھے پیر صاحب مشہور نہ کردیاں تے کہنا‘‘ حاجی صاحب نے شرارتی انداز میں اپنے ارادوں کا اظہار کیا اور سیلانی نے وہاں سے بھاگنے میں ہی عافیت سمجھی۔

    سیلانی موٹر سائیکل دوڑتا ہوا پاکستان چوک کے علاقے میں داخل ہوچکا تھا۔ وہ سوچ چکا تھا کہ حاجی صاحب کے ساتھ کیا کرنا ہے، لیکن کسی انجانے خدشے سے اس کا دل بھی دھک دھک کررہا تھا، جیسے جیسے دکان قریب آرہی تھی، اس کے دل اور تیزی سے دھڑکتا جارہا تھا۔ پھر دکان سامنے آگئی۔ دکان کھلی ہوئی تھی۔ اس کے دل کو ذرا ڈھارس سی ہوئی۔ اس نے دکان کے سامنے موٹرسائیکل کھڑی کی اور تیزی سے اترکر آگے بڑھا تو حاجی صاحب کے بیٹے انس کا اترا ہوا چہرہ دیکھ کر دل جیسے کسی نے مٹھی میں لے لیا ہو۔ اس نے دکان میں نگاہ ڈالی، حاجی صاحب کی کرسی خالی تھی۔
    ’’حاجی صا۔۔۔صاب‘‘ سیلانی نے دھڑکتے دل سے پوچھا۔
    ’’رات انتقال ہوگیا جی۔‘‘ ملازم نے اداس لہجے میں بتایا۔

    ’’کب کیسے۔۔۔ ابھی تو تین دن پہلے میں ان سے مل کر گیا تھا، کیا کہہ رہے ہو؟‘‘
    ’’ابو جی کی دو دن سے طبیعت خراب تھی، رات کو طبیعت پھر بگڑگئی، ایمبولینس منگوائی، اسپتال لے کر گئے لیکن ۔۔۔‘‘

    سیلانی انس کے گلے لگ کر رو پڑا۔ انس سیلانی کے گلے لگ کر رو رہا تھا اور سیلانی انس کو گلے لگاکر گلوگیر آواز میں جانے کیا کیا کہہ رہا تھا۔ تھوڑی دیر میں علی بھی آگیا۔ تدفین کا انتظام کرنا تھا۔ سچی بات ہے سیلانی کی تو سمجھ نے ہی کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔ وہ خاموشی سے ایک طرف بیٹھ گیا۔ اس کا دل ہی نہیں مان رہا تھا کہ حاجی صاحب اس طرح اچانک چلے جائیں گے۔

    وہ تین دن پہلے ہی تو حاجی صاحب سے مل کر اور ہمیشہ کی طرح تڑی لگاکر گیا تھا کہ اب اگر انہوں نے یہ تکلفات کا سلسلہ بند نہ کیا تو وہ نہیں آئے گا اور یہ سچ بھی تھا۔ حاجی صاحب اس کی موٹرسائیکل کے ہینڈل پر بڑا سا تھیلا لٹکا دیتے جس میں بچوں کے لیے کبھی لسی کبھی بسکٹ اور والدہ کے لیے میٹھا دہی ہوتا۔ ان کے اس تکلف کی وجہ سے سیلانی نے ان سے ملنا کم کردیا تھا، لیکن ایسا کم ہی ہوتا کہ یہ وقفہ ہفتہ دس دن سے زیادہ رہا ہو۔ حاجی صاحب کی محبت خلوص اسے زیادہ دن پاکستان چوک سے دور رہنے نہیں دیتی تھی، لیکن اب وہ ہی دور ہو رہے تھے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جارہے تھے۔

    حاجی صاحب سے سیلانی کی دوستی سال بھر کی بھی نہ تھی، لیکن اس مختصر سے عرصے میں حاجی صاحب نے سیلانی کے دل میں ہمیشہ ہمیشہ کی جگہ بنالی تھی۔ ایسی جگہ کہ شاید ہی کوئی اس کا مالک ہوسکے۔ ایسے محبت کرنے والے کھرے سچے لوگ آج کل کی مصنوعیت میں کہاں ملتے ہیں؟ حاجی صاحب کی نماز جنازہ آرام باغ کی مسجد میں ادا کی گئی۔ نماز جنازہ کے بعد حاجی صاحب کے چہرے پر سے چادر ہٹائی گئی، ہنسنے بولنے والا حاجی طفیل خاموشی سے آنکھیں موندے لیٹا ہوا تھا، جیسے طویل مسافت کے بعد مسافر تھک کر سوتے ہیں۔ سیلانی کا جی چاہا کہ وہ اس تھکے ماندے مسافر کو جگادے، کہہ دے کہ کچھ دن تو ٹھہرجاؤ۔ ابھی تو علی اور انس کی دُلہن تلاش کرنی ہے۔ بیٹی کو وداع کرنا ہے۔ نادر نے تیز موٹرسائیکل چلانا نہیں چھوڑی، اس کے کان کھینچنے ہیں اور منیب الرحمان بھی تو آپ کو بہت یاد کرتا ہے، اسے کیا کہوں گا۔۔۔۔ اے کاش کسی کے جگانے سے ابدی نیند سونے والے جاگ سکتے، روکنے سے رک سکتے۔۔۔ سیلانی حاجی صاحب کے سرہانے کھڑا تھا کہ آواز آئی آگے آگے بڑھتے جائیں، بھائی اوروں کو بھی چہرہ دیکھنے دیں، تب سیلانی بوجھل قدموں سے آگے بڑھتے ہوئے نمناک آنکھوں سے حاجی صاحب کو آنکھیں موندے لیٹادیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔

  • قوموں کے لیے موٹر وے ٹو ایکسی لینس  –  حافظ یوسف سراج

    قوموں کے لیے موٹر وے ٹو ایکسی لینس – حافظ یوسف سراج

    بخاراور درد بذات خود کوئی بیماری نہیں ہوتے۔ یہ کسی نہ کسی بیماری کے انڈیکیٹر (اشارے) ضرور ہوتے ہیں۔ یہ بتاتے ہیںکہ جسم میں کوئی قابلِ علاج خرابی جنم لے چکی ہے۔ یوں یہ درد دینے کے باوجود انسانی جسم کے خیرخواہ اور محسن ہوتے ہیں۔ اپنی کم اندیشی کے باعث کچھ لوگ اس کے باوجود درد یابخار کو برا کہنے لگتے ہیں۔ یہ بھی مگر طے ہے کہ ایسے لوگ زیادہ عرصہ یہ زبردستی نبھانہیں پاتے۔ یہ اپنی عاقبت نا اندیشی کے ہاتھوں جلد ہی ناقابلِ علاج ہوکر اعزہ و اقربا کو داغِ مفارقت دے جاتے ہیں۔ اس کے برعکس جو لوگ باشعور اور سیانے ہوتے ہیں وہ ڈاکٹر سے رجوع کرتے ہیں۔ جس سے مرض کی تشخیص بھی ہوجاتی اوراس کا واجب علاج بھی ہوجاتا ہے۔

    ہمارے جسم کی طرح ہی ہماری زندگی بھی ہے۔ موٹر وے پر کسی تیز رفتار گاڑی کی طرح دوڑتی ہماری زندگی میںبھی نشیب و فراز آتے رہتے ہیں۔ سطحی سوچ والا آدمی اس پر سر پکڑکے بیٹھ جاتاہے، تاہم اگر وہ سیدنا علی ؓجیسی سوچ رکھتا ہو تو پکار اٹھتاہے ”عرفت ربی بفسخ العزائم۔“ اپنے ارادے ٹوٹنے ہی سے تو میں نے اللہ کی قوت کا عرفان پایا ہے۔ بخار ہی کی طرح زندگی میں آ نے والی ایسی چھوٹی موٹی رکاوٹیں بھی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت بھی ثابت ہوتی ہیں۔ ان کی وجہ سے ہم اپنی سرپٹ اور بگٹٹ دوڑتی زندگی کو چند لمحے روک کراپنا ، اپنی مصروفیات کا او راپنے اعمال و کردار کا جائزہ لے لیتے ہیں۔ اپنی اصلاح کرلیتے اور یوں کسی بہت بڑے اور ناقابلِ تلافی نقصان سے بچ جاتے ہیں۔

    قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے: ’’ہم تمھیں چھوٹی چھوٹی آزمائشوں میں ڈالتے ہیں تاکہ تم اپنی روش کی اصلاح کرکے بڑے بحرانوں سے بچ جاؤ۔ عہد رسول میں مسلمانوں کو پہنچنے والے کم ازکم دو ایسے بڑے دردناک واقعات پر قرآن مجید نے یہی تبصرہ فرمایا ہے کہ یہ اپنے اثرات میں تلخ ہونے کے باوجود اپنے نتائج میں برے نہ تھے۔ ایک غزوہ احد اور دوسرا واقعۂ افک۔

    اگر ہم خود کو غور پر آمادہ کر سکیں توموٹر وے پر پیش آنے والے حالیہ واقعہ میں بھی ہمارے لیے کئی اسباق ہیں۔ موٹر وے پولیس نے سادہ کپڑوں میں ملبوس قانون کی خلاف ورزی کرنے والے ایک آرمی نوجوان کو روکا۔ اس نے گاڑی بھگا دی۔ پولیس آفیسر نے پکڑلیا۔ اب یہاں بات بڑھ کے بگڑ گئی۔ ممکن ہے موٹر وے پولیس کی طرف سے ہی زیادتی ہوئی ہو، بہرحال آرمی آفیسر نے کمک منگوالی۔ جو ہونا تھا ہوا اور اس موٹر وے آفیسر کو وہ لوگ ساتھ لے گئے او ر مناسب ”تواضع“ کے بعد لوٹادیا۔

    ممکن ہے اگر یہ کوئی اور دور ہوتا تویہ واقعہ اخبارات یا میڈیا میں رپورٹ ہونے تک قابو کرکے گم کیا جاسکتا۔ یہ مگر میڈیا ہی نہیں، سوشل میڈیا کا بھی دور ہے۔ سوشل میڈیا نے بڑے کرشمے کر دکھائے ہیں۔ عرب بہار میں مشرق وسطیٰ میں بدلتی حکومتیں ہوں۔ کشمیر و فلسطین اور مصر میں سوشل میڈیا کی کارکردگی یا کامیابی ہو یا پھر اپنے آئی فون کی ایک ایپ سے بغاوت کو بھگادیتے طیب اردوان کے حالات و واقعات ہوں۔ یہ بتاتے ہیں کہ ہم بہرحال ایک اور طرح کے دور میں جی رہے ہیں۔ چنانچہ سوشل میڈیا پریہ واقعہ سیکنڈوں میں وائرل ہوگیا۔ یہاں تک کہ آئی ایس پی آر کے ترجمان جنرل عاصم باجوہ صاحب کو اس پر ٹویٹ کرنا پڑا کہ ہم تحقیقات کر رہے ہیں۔یہی ا س واقعے کا پہلا سبق ہے۔ ہمیں سمجھنا ہو گاکہ زندگی پہلے جتنی ہمارے کنٹرول میں تھی اب اس سے مزید کچھ کم ہو گئی ہے۔

    اس و۱قعہ پر عوامی ردِ عمل حیران کن تھا۔ لوگ پہلی بارایسے کسی واقعہ میں اپنی پیاری فوج کے آفیسر کے بجائے اپنی پولیس کے ساتھ کھڑے تھے۔ یہ وہ لوگ نہ تھے جو سائیبریا سے آئی ٹھنڈ سے ہوئے اپنے نزلے کوبھی فوج کے خلاف استعمال کرنے کا بہانہ بنالیتے ہیں۔ یہ موٹر وے پولیس کا شعبہ تعلقاتِ عامہ بھی نہ تھاکہ جو اپنی تنخواہ حلال کرنے کی تگ و دو کر رہا ہو۔ یہ وہ لوگ تھے جن کا اپنے ملک کے اس ادارے سے کسی نہ کسی طرح سابقہ پڑچکاتھا اور وہ موٹر وے پولیس کے اخلاق، خدمت اور فرض شناسی کا تجربہ کرچکے تھے۔ حیران کن طور پر مختلف جید لوگوں کی طرف فیس بک وال پر ایسی پوسٹیں نمودار ہونے لگیں، جو معاملے کی ”حساسیت“‘سے قطع نظرموٹر وے پولیس کے دفاع میں بولتی تھیں۔ بڑے بڑے ممتاز، محب وطن اور حالات و واقعات کو سمجھنے والے لوگ اپنے ذاتی واقعات شیئر کرکے موٹر وے پولیس کا کیس لڑ رہے تھے۔

    یہ اس واقعہ کا دوسرا سبق ہے۔ یعنی اگر آپ دیانت داری اور فرض شناسی سے اپنا کام کرتے ہیں تو پھر بھلے اپنا تعلقاتِ عامہ کا شعبہ بنائیں یا سرے سے نہ بنائیں وقت پڑنے پر قوم آپ کے ساتھ کھڑی ہوجائے گی۔ یہ سبق فوج، پولیس سیاستدانوں اور حکمرانوں، سبھی کے لیے ہے۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ جب تک فلاں قوت ان کے ساتھ ہے اقتدار کا ہما ان کے سر پر رہے گا اور جونہی وہ قوت ان سے ناراض ہوئی اقتدار ان سے چھن جائے۔ ایسا ہو تا بھی ہے، لیکن یہ واقعہ ہمیں چیخ چیخ کے بتاتا ہے کہ دوامِ اقتدار کا ایک طریقہ خدمتِ عوام سے ہوکر بھی گزرتا ہے اور یہ ایسا فول پروف طریقہ ہے کہ جس کے بعد کسی عارضی اور ضمیر کی قیمت پر ادھار لیے گئے طریقے کی محتاجی نہیں رہتی۔

    اس واقعہ پر ہونے والے تبصروں میں کچھ دیر کے بعد ایک اور طبقہ بھی شریک ہوگیا۔ یہ وہ لوگ تھے جو فوج کے ساتھ اپنی بے لوث محبت میں مشہور تھے۔ انہوں نے قرار دیا کہ اس موقع کو فوج کے خلاف برتا جارہا ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ ان لوگوں کی بد ترین غلطی تھی، کسی سادہ سے واقعہ میں قوم کے اجتماعی دھارے سے الگ ہوکر فوج سے محبت کا اظہار فوج کو متنازع بنانے کی کامیاب کوشش ہوسکتی ہے۔ جب آپ ایسے موقع پر کسی فریق کی حمایت پر تل جاتے ہیں کہ جب ایک فریق طاقت ور بھی ہو، وہ سول کپڑوں میں بھی ہو، اس کے مقابل ایک ستھرا ادارہ بھی ہو اور وہ وردی میں بھی اور پھر اپنی ڈومین میں بھی ہو تو ناصرف آپ اپنی طرف انگلیاں اٹھوانے کا خاطر خواہ سامان کرلیتے ہیں، بلکہ بیچارے اپنے ممدوح کو بھی خاصا قابلِ غور بنادیتے ہیں۔ یہی وہ تعصبات ہیں جو معاشروں سے امن، اصلاح اور ترقی کی سپرٹ چھین لیتے ہیں۔

    بطورِ مسلمان اور بطور اکیسویں صدی کے باشعور شہری ہونے کے ہمیں صرف انصاف کے ساتھ کھڑے ہونا چاہیے۔ ہمیں کہنا چاہیے کہ جرم ہر گز کسی کا استحقاق نہیں۔ کسی کی اہمیت یا عزت اس کے لیے ظلم کا جواز نہیں ہونا چاہیے۔ اس امت میں صحابہ سے بڑھ کر کوئی قابلِ عزت و دفاع نہیں، اس کے باوجود بطور انسان ان سے ہونے والی کوتاہیوں پر انہیں ملنے والی سزائیں ہمارے نظامِ عدل کی اولیں نظیریں ہیں۔ امہات المومنین کو نبیؐ سے قربت کی بدولت جو مقام ومرتبہ حاصل تھا، اس پر انہیں رعایت یا استثنا دینے کے بجائے کسی بھی ارتکابِ جرم پر قرآن مجید نے دہری سزا کی وعید سنائی ہے۔ خالد بن ولیدؓ جیسابے مثل سپہ سالاراسلامی تو کیا عام تاریخ میں بھی نہیں گزرا۔ معمولی کوتاہی پر اور اصلاً نظم قائم کرنے کی خاطر ان کی معزولی مجمع عام میں کر دکھائی گئی۔ آفریں ہے کہ انھوں نے کسی وقار کی بات نہیں کی۔ گورنرِ مصرعمرو بن عاص ؓکے بیٹے نے کسی معاملے میںایک شخص پرکچھ ظلم کر ڈالا تو خلیفہ عمر ِ فاروقؓ نے ان کے بیٹے کو کوڑے لگانے کے بعد گورنر باپ کو بھی میدان میں طلب کرلیا کہ وہ باپ بھی کوڑوں کا مستحق ہے کہ جس کی گورنری کی شہ پاکر بیٹے کو زیادتی کی جرات ہوئی۔

    یہی قوموں کی زندگی میں ترقی اور ایکسی لینس کا موٹر وے ہے اور سنا ہے مغربی قوموں نے بھی اسی سے ترقی کی ہے، واللہ اعلم!

  • ’’پھر پاکستان مردہ باد!‘‘ –  احسان کوہاٹی

    ’’پھر پاکستان مردہ باد!‘‘ – احسان کوہاٹی

    ٹیلی ویژن اسکرین ایک نیا تماشا دکھا رہی تھی۔ بااثر لوگوں کا منہ چڑھا پولیس افسر ایس ایس پی ملیر راؤ انوار سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہار کو ہتھکڑیاں لگا ئے لیے جا رہا تھا اور خواجہ اظہار الحسن اس سے پوچھے جارہے تھے کہ آپ مجھے کس جرم میں گرفتار کررہے ہیں؟ وارنٹ کہاں ہے؟ وہاں ایم کیو ایم پاکستان کے قائد فاروق ستار بھی دکھائی دے رہے تھے جو راؤ انوار سے یہی کچھ کہہ رہے تھے، لیکن راؤ انوار نے پہلے کب کسی کی سنی تھی جو اب سنتا۔ اس نے ستائیس مقدمات میں ضمانتوں پر رہا ایم کیو ایم کے رکن سندھ اسمبلی خواجہ اظہار الحسن کو ساتھ لیا اور سپر ہائی وے کے سائیٹ تھانے کی طرف چل پڑا۔
    sailani-01
    یہ اس چھاپے کے دو گھنٹے بعد ہوا جو خواجہ اظہار الحسن کے گھر پر مارا گیا تھا۔ اس چھاپے سے ہی نیوز چینلز کو بریکنگ نیوز کا بوفے لنچ ملا۔ سیلانی اس ”وقت“ کے دفتر میں تھا جب ایک ساتھی نے کسی کا ٹیلی فون وصول کرکے کہا:
    ’’خواجہ اظہار کے گھر پولیس نے چھاپہ مارا ہے‘‘

    ’’ابے بھائی! پولیس میں یہ مجال کہاں، رینجرز والے ہوں گے۔‘‘ سیلانی نے فوراً کہا اور خبر کی تصدیق کے لیے سامنے دیوار پر آوایزاں درجن بھر ٹیلی ویژن اسکرینیں دیکھنے لگا۔ تھوڑی ہی دیر میں ایک نیوز چینل کی اسکرین پر ڈبا گھوما خواجہ اظہار کے گھر پولیس کا چھاپہ۔۔۔ سیلانی کے لیے یہ چھاپہ حیران کن تھا۔ ہماری پولیس ’’سیاہ سی‘‘ ہونے کے ساتھ مکمل طور پر سیاسی رنگ میں رنگی بلکہ لتھڑی ہوئی ہے۔ فی الوقت بوڑھے شاہ کی جگہ لینے والا جوان العمر شاہ اس موڈ میں نہیں تھا کہ ایم کیو ایم پاکستان سے مخاصمت کا کوئی دروازہ کھولے، پھر پولیس کس کے کہنے پر سندھ اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر کے گھر گئی اور کیا لینے گئی؟ سیلانی کے ذہن میں ان سوالات کا جھکڑ چلنے لگا۔ اس نے اپنے ذرائع سے رابطے کی کوشش کی، لیکن اتفاق کہ کسی سے بات نہ ہوسکی، البتہ راؤ انوار سے قریب کچھ صحافی دوستوں کے توسط سے پتا چلا کہ راؤ انوار کا کہنا ہے کہ خواجہ اظہار کے گھر میں کچھ ٹارگٹ کلرز موجود تھے۔۔۔ راؤ انوار کا یہ موقف دینے والے کو بھی اس پر ہنسی آرہی تھی اور سیلانی کو بھی۔ ایسے برے وقت میں کوئی پڑوسی کی بلی بھی گھر میں گھسنے نہ دے کجا کہ کوئی ٹارگٹ کلر کو مہمان بنائے۔ ایم کیو ایم کے حوالے سے باخبر ساتھی جانتے ہیں کہ اس کا سیاسی سیٹ اپ تنظیمی سیٹ اپ سے بالکل ہٹ کر ہے۔ مار دھاڑ والے کارکنوں سے کام لینا اور انہیں محفوظ پناہ گاہوں میں محفوظ رکھنا کے ٹی سی (کراچی رابطہ کمیٹی) کی ذمہ داری ہوا کرتی ہے، سیاسی سیٹ اپ والے ان معاملات میں ’’معصوم‘‘ ہوتے ہیں۔
    sailani-03
    ٹیلی ویژن کی اسکرینوں پر راؤ انوار کا یہی موقف ڈبے میں گھومنے لگا۔ ادھر وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے اس چھاپے کا فوری نوٹس لیا کہ معاملہ سپر ہائی وے پر مارے جانے والے ’’باریش دہشت گردوں‘‘ کا نہیں تھا، جو کلائیوں میں پڑی ہتھکڑیوں کے باوجود ’’مقابلہ‘‘ کرلیتے ہیں اور عدلیہ سے لے کر مقننہ تک کوئی نوٹس نہیں لیتا کہ دہشت گردی کے نام پر قتل ہونے والے نے ہتھکڑیاں کیوں پہنیں اور پھر مقابلہ کیسے کیا۔۔۔ وزیر اعلیٰ نے نہ صرف نوٹس لیا بلکہ کچھ دیر بعد یہ بھی کہہ دیا کہ راؤ انوار کے خلاف کارروائی ہوگی۔

    ادھر وزیر اعلیٰ نے ایکشن لینے کا عندیہ دیا، ادھر راؤ انوار خود نفری لے کر خواجہ اظہار کو گرفتار کرنے چل پڑے اور اسے ہتھکڑیاں لگاکر سائیٹ تھانہ سپر ہائی وے پہنچ گئے۔ وزیر اعلیٰ بپھر گئے۔ انہوں نے ایس ایس پی کو فوری طور پر معطل کرکے اس زون کے ڈی آئی جی کو بھی فارغ کردیا۔ اس معطلی نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ معطل ایس ایس پی نے نیوز کانفرنس بلالی اور اب تمام اسکرینوں پر سفید کنپٹیوں والا ایک معطل ایس ایس پی بتارہا تھا کہ خواجہ اظہار الحسن کو باقاعدہ گرفتار کیا گیا ہے۔ کراچی میں ان ہی کے حکم پر گزشتہ دنوں گاڑیاں جلائی گئی تھیں اور ان پر نفرت انگیز تقاریر کے لیے سہولت کار ہونے کا بھی الزام ہے۔ اب انہیں کوئی پولیس افسر رہا نہیں کراسکتا۔ اب صرف عدالت ہی میں فیصلہ ہوگا۔۔۔
    sialani-04
    سیلانی کو اس سارے ڈرامے سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ لیلائے اقتدار کو کنیز رکھنے والے ایسی چالیں چلتے رہتے ہیں۔ اسے یقین تھا کہ راؤ انوار کو قانون کی رکھوالی کا ہیضہ نہیں ہوا، کہیں سے اسے ہدایات دی گئی ہیں، اس پر کسی کا تو ہاتھ ہے جو وہ نیوز کانفرنس میں دھڑلے سے اپنے سینئر افسران کو کہہ رہا ہے کہ وہ اسے ہلکا نہ لیں۔ میں وہ اور وہ ڈی آئی جی نہیں ہوں۔۔۔ اس لہجے کی کوئی تو وجہ ہوگی۔ کوئی تو سبب ہوگا۔ کسی نے تو اس دھاگے کو پسے ہوئے کانچ کا لیپ دے کر مانجھا بنایا ہوگا۔ راؤ انوار پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری سے خاصے قریب سمجھے جاتے ہیں۔ اسی قربت کی بنا پر وہ کسی کو گھاس نہیں ڈالتے۔ مرضی کے علاقے ملیر میں تعینات رہتے ہیں اور مرضی پر چلتے ہیں۔ یہ تعلقات بڑے پرانے ہیں۔ کراچی کے سینئر کرائم رپورٹر ائیر پورٹ تھانے کے اس سب انسپکٹر تھانیدار کو نہیں بھولے ہوں گے، جو دو ہفتے کی چھٹی کی درخواست لے کر ایس ایس پی شرقی کے پاس جاتا ہے۔ درخواست منظور ہوجاتی ہے تو فرمائش کرتا ہے کہ اس کی غیر حاضری میں کوئی دوسرا ایس ایچ او نہ لگایا جائے۔ ایس ایس پی اسے گھور کر چلے جانے کا کہتا ہے۔ وہ یہ درخواست اور فرمائش لے کر ڈی آئی جی کے پاس جاتا ہے۔ ڈی آئی جی اسے ڈانٹ کر دفتر سے نکال دیتا ہے کہ یہ پولیس ہے، تمہارے گھر کا باورچی خانہ نہیں کہ فرمائشی پروگرام چلاؤ۔ وہ چلا جاتا ہے اور پھر ڈی آئی جی آفس کو اسلام آباد سے ہدایت دی جاتی ہے کہ راؤ انوار کی چھٹی منظور کی جائے اور وہ اپنی رخصت پر تھانے کا ایڈشنل چارج جسے دے کر جارہا ہے اسے نہ چھیڑا جائے۔۔۔

    جی ہاں! اس وقت راؤ انوار سب انسپکٹر تھا اور اتنا بااثر تھا کہ سینئیرپولیس افسران بھی اس کے سامنے نہ آتے تھے، آج وہی ایس ایس پی ایم کیو ایم کے رکن سندھ اسمبلی اور اپوزیشن لیڈر پر ہاتھ ڈال رہا تھا تو اس ہاتھ کے پیچھے کس کا ہاتھ ہوسکتا تھا؟

    سیلانی کو اس ڈرامے سے زیادہ دلچسپی نہیں تھی، وہ دفتر سے نکل گیا، اسے ابرش یاد آرہی تھی، اس کا معصوم مسکراتا چہرہ یاد آرہا تھا، وہ جب اپنے بابا کو دیکھ کر خوشی سے چمکتی آنکھیں لیے اس کی طرف ہمکتی ہے تو اس لمحے کی لذت دنیا کی کسی چیز میں نہیں ملتی۔ سیلانی بائیک دوڑاتا ہوا گھر پہنچا۔ موٹر سائیکل کھڑی کی اور اپنے کمرے میں چلا آیا۔ وہاں ابرش مزے سے سورہی تھی۔ سیلانی نے اپنی بیٹی کی پیشانی چومی اور سیل فون ایک طرف رکھ کر کپڑے تبدیل کرنے چلا گیا۔ منہ ہاتھ دھوکر لباس بدل کر سیلانی غسل خانے سے باہر نکلا تو سیل فون اسے اپنی جانب متوجہ کررہا تھا۔ سیلانی نے موبائل فون اٹھایا، واٹس اپ پر آنے والے پیغام نے اسے چونکا دیا۔ یہ ایک چھوٹا سا کلپ تھا۔ فاروق ستار کی نیوز کانفرنس کا چھوٹا سا ٹکڑا، جس میں فاروق ستار کہہ رہے تھے:

    ’’معاملہ لندن سے آنے والے بیانات نہیں ہیں۔۔۔ معاملہ پاکستان مخالف نعرے لگانے کا نہیں ہے۔۔۔“ فاروق ستار نے ابھی یہ دو جملے ہی کہے تھے کہ ان پاس موجود لوگ کہنے لگے:
    ’’دشمنی ہے، دشمنی ہے، دشمنی ہے‘‘

    ایک اور آواز آئی:
    ’’مہاجر دشمنی ہے‘‘

    اور پھر وہ ہوا جو نہیں ہونا چاہیے تھا، وہاں موجود لوگوں نے دل میں چھپا بغض نکالنا شروع کردیا، ایک نے آواز لگائی:

    ’’پاکستان ‘‘
    اور بہت ساری آوازیں آئیں ’’مردہ باد‘‘
    اور یہ نعرہ ایک بار نہیں لگا، دو بار پاکستان کا نام لیا گیا اور دو ہی بار کیمروں کے مائک نے مردہ باد، مردہ باد کی ناپاک اور غلیظ آوازیں ریکارڈ کیں۔
    sailani-02
    چھاپہ پڑا خواجہ اظہار کے گھر پر۔۔۔ گرفتار کیا گیا خواجہ اظہار کو۔۔۔ اس چھاپے پر فوری نوٹس بھی لیا گیا، ایس ایس پی معطل بھی ہوگیا۔ ڈی آئی جی کو بھی سندھ سے باہر کردیا گیا لیکن پھر بھی پاکستان مردہ باد!

    یہ گرفتاریاں، یہ ہتھکڑیاں، جیل کی روٹیاں اور جیلر کی سوٹیاں سیاست دانوں کے لیے صرف اس وقت نئی ہوتی ہیں جب پہلی بار ان سے سامنا ہوتا ہے۔ پھر یہ سیاسی کارکنوں کی زندگی کا حصہ بن جاتی ہیں۔ ۱۹۵۴ ء ۱۹۵۵ میں قادیانیوں کے خلاف تحریک میں جمعیت علمائے پاکستان کے مولانا عبدالستار نیازی رح اور جماعت اسلامی کے مولانا مودودی رح کو عدالت نے سزائے موت سنائی، لیکن مولانا نیازی نے پاکستان سے بیزاری کا اظہار کیا اور نہ مولانا مودودی نے کہا کہ وہ اس پاکستان کو نہیں مانتے۔ یہ وہ پاکستان نہیں جو اسلام کے لیے بنا تھا۔ کسی نے بھی کہیں بھی پاکستان مردہ باد کا نعرہ نہیں لگایا۔۔۔ اس سے پہلے قائد ملت کو شہید کیا گیا۔ انہوں نے بھل بھل بہتے گولی کے زخم پرہاتھ رکھتے ہوئے آخری الفاظ کہے کہ اللہ پاکستان کی حفاظت کرے۔۔۔ ان کے بعد نوابزادہ صاحب کی اولاد میں سے کس نے کہا کہ ہم نے اس لیے پاکستان کے لیے جاگیریں چھوڑی تھیں کہ ہمارے باپ کو سرعام قتل کیا جائے؟ ہم ایسے پاکستان کو نہیں مانتے، جہاں ہم محفوظ نہ ہوں۔۔۔ اب آگے چلیں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی، کس جیالے نے پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگایا۔۔۔ اور آگے بڑھیں بی بی بینظیر کو قتل کیا گیا۔ بلاول، آصفہ، بختاور میں سے کس نے پاکستان مردہ باد کہا؟ دو برس پہلے جمیعت علماء اسلام کے مولانا خالد سومرو کو گولیاں ماری گئیں، جمعیت کے کس کارکن نے کہا کہ پاکستان مردہ باد؟
    sailani-05
    سیلانی انتظار کرتا رہا کہ سندھ اسمبلی کے معزز رکن کے گھر پر چھاپے اور گرفتاری کا نوٹس لینے والے وزیر اعلٰی اور برہمی کا اظہار کرنے والے وزیر اعظم پاکستان میں ’’پاکستان مردہ باد‘‘ کے نعرے لگانے کا بھی نوٹس لیں گے، وہ آئی جی سندھ اور آئی جی سندھ سے کہیں گے کہ فاروق ستار کی موجودگی میں جس جس نے پاکستان مردہ باد کہا اس کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے، اسے فوری طور پر گرفتار کیا جائے۔۔۔ لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔ ایک رکن سندھ اسمبلی کے گھر پر چھاپہ پڑا، اس کا استحقاق مجروح ہوا، اسے گرفتار کیا گیا، نوٹس لیا گیا، کارروائی کی گئی، لیکن پاکستان کے استحقاق کا کسی نے نوٹس نہیں لیا۔ سب ٹھنڈے پیٹوں پی گئے۔ پاکستان نہ ہوا غریب کی جورو ہوگئی۔ جس کا جی چاہے کھڑا ہوکر مادر وطن کو گالی دے دے۔ جیسے کوئی کالج کی عقبی دیوار کی طرف منہ کرکے پیشاب کردیتا ہے۔۔۔ سیلانی نے اراکین سندھ اسمبلی کے واٹس اپ گروپ میں اس مکروہ فعل کا ذکر کیا۔ اس نے اپنے صحافتی حلقوں میں دوستوں کو آگاہ کیا اور صبح تک موبائل اٹھا اٹھاکر اس نوٹس کا انتظار کرتا رہا جس نے نہیں آنا تھا، وہ ریموٹ لے کر ٹی وی اسکرین کے سامنے بیٹھ گیا۔ چینل بدل بدل کر دیکھتا رہا کہ ابھی وزیر اعلیٰ ہاؤس کے ترجمان کی پٹی چلے گی، ابھی وزیر اعظم ہاؤس سے نوٹس لیے جانے کی بریکنگ نیوز چلے گی، مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ کیوں کہ یہ معاملہ کسی پاکستانی سیاست دان کے استحقاق کا نہیں پاکستان کا تھااور پاکستان تو بس۔۔۔

    سیلانی نچلا ہونٹ دانتوں میں دبائے ریموٹ ہاتھ میں لیے ٹی اسکرین پر نظریں جمائے دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔

  • پیاری لائبہ! بھتیجی کے نام اک انکل کا خط  – حافظ یوسف سراج

    پیاری لائبہ! بھتیجی کے نام اک انکل کا خط – حافظ یوسف سراج

    یوسف سراج پیاری لائبہ!
    ذرا سا ٹھہرنا بیٹا! میں پہلے تمہیں یہ بتادوں کہ آخر میں آپ کویہ خط کیوں لکھ رہا ہوں۔ دراصل آپ بچہ لوگ اتنے ذہین ہوتے ہو اور اتنے اچھے ہوتے ہو کہ ہم جیسے بڑوں سے زیادہ نئی نئی چیزوں کے بارے میں جانتے ہو اور ہر چیز کے بارے میں کئی طرح سے اچھا اچھا اور پیارا پیارا سا سوچتے بھی بہت رہتے ہو۔ اور پھرسوچ سوچ کے سوال بھی ایسے کرتے ہو کہ سچ بتاؤں تو جن کے ہم بڑوں کو بھی جواب نہیں آتے۔ اس پر ہم بڑے شرمندہ ہو جاتے ہیں۔

    پیاری بیٹی! اس کا حل ہم بڑوں نے یہ نکالا ہے کہ آپ بچہ لوگوں کے کسی مشکل سوال سے پہلے ہی ہم اپنی طرف سے کوئی نہ کوئی وضاحت دے دیتے ہیں۔ وضاحت کا تو پتا ہے نا آپ کو؟ یعنی Explanation نہیں بیٹا Excuse نہیں Explanation . لگتا ہے کہ آپ کچھ کچھ شرارتی بھی ہو، یعنی بہت ذہین ہو۔ شرارتی بچے بڑے ذہین ہوتے ہیں۔ اور ہاں ویسے سچ کہو تو ہماری یہ Explanationبھی ایک Excuse ہی ہوتی ہے۔

    لہٰذا اس سے پہلے کہ آپ دل ہی دل میں یہ سوچ کر اپنے چچا پر پیاری سی ہنسی ہنسنے لگو کہ آپ کے اس والے انکل کے پاس شاید فون کرنے کے لیے موبائل ہی نہیں ہے۔ یعنی شاید 3310والا نوکیا بھی نہیں ہے۔ تو دیکھو، بیٹا ایسا نہیں ہے۔ موبائل تو میرے پاس بھی ہے اور بیٹا! سچ کہہ رہا ہوں، آج تو بیلنس بھی ہے ۔ لیکن پیاری لائبہ! ایک بات بتاؤں؟ بیٹا اصل میں کچھ باتیں کہی تو کئی طرح سے جاسکتی ہیں مگر وہ کسی ایک طرح سے زیادہ اچھی طرح بھی کہی جاسکتی ہیں۔ یہ بات سمجھنا آپ کے لیے بالکل مشکل نہیں ہوگا۔ کیونکہ آپ کو وہ والا طریقہ تو ضرور آتا ہو گا نا کہ جب آپ کو اپنی کوئی اچھی سی فرمائش اپنے پاپا یا مما سے منوانا ہوتی ہوگی تو آپ ضرور کسی خاص طریقے سے ہی بات کرکے، اپنی وہ بات منوالیتی ہوں گی۔ ایسے طریقے آپ بچوں کو اور بچوں کی مما جانوں کو بھی بہت آتے ہیں۔

    تو خیر، اب مجھے امید ہے کہ آپ ضرور میری بات غور سے سن لیں گی۔ کیا کہا؟ سن نہیں لیں گی، پڑھ لیں گی؟ اوہ! اچھا اچھا! آپ نے ٹھیک ہی کہا ہے بیٹا۔ سننے کے بجائے آپ تو پڑھیں گی۔ دیکھا! میں نے کہا تھا نا کہ آپ لوگ بہت ذہین بچے ہو اور ہرطرح سے سوچتے بھی بہت ہو۔ تو ٹھیک ہے مجھے یہی کہنا چاہیے تھا کہ آپ میری بات پڑھ لو گی۔ ظاہر ہے خط پڑھا ہی جاتاہے ،سنا نہیں جاتا۔

    اچھا تو بیٹاسنو! آپ ایک بہت ہی پیاری سی بیٹی ہو، بہت ہی پیاری۔ اتنی پیاری کہ جس کا بابا اتنا مصروف ہونے کے باوجود بھی اپنی بیٹی کو خط لکھتا ہے۔ اور پھر اتنے پیار سے لکھتا ہے کہ بہت سے بچے اب سوچا کریں گے کہ ان کے بابا بھلا انہیں ایسا اچھا خط کیوں نہیں لکھتے؟ اے بیٹی! ذرا کان پاس لانا، تاکہ میں ایک راز کی بات بتاؤں آپ کو۔ دیکھنا! کہیں آپ کی آنٹی نہ سن لیں ورنہ وہ پھر ایک اور خط لکھ دیں گی۔

    بات یہ ہے بیٹا جانی کہ آپ تو اس سے بھی کہیں زیادہ خوش قسمت ہو۔ اس لیے کہ آپ کو ایک بہت پڑھے لکھے اور پیار کرنے والے بابا ملے ہیں۔ دیکھیں وہ آپ بچوں کے ساتھ بیٹھ کر فلم بھی دیکھ لیتے ہیں۔ آپ کو پتا ہے؟ ایسے بابا سب کے نہیں ہوتے۔ پھر بیٹا !آپ کی سب سے بڑی خوش قسمتی تو یہ ہے کہ آپ کے بابا اتنے پیارے ہونے کے ساتھ ساتھ آپ سے ایسی اچھی اچھی باتیں بھی کرتے ہیں کہ جن کا فائدہ آپ کو بہت بعد تک بھی ہوتا رہے گا۔ اور وہاں کی نئی دنیامیں بھی ہوتا رہے گا کہ جہاںہم سب نے چلے جانا ہے۔

    آپ یوں سمجھیں کہ یہ ایک پریوں کا دیس ہے اور بڑا ہی خوبصورت دیس ہے۔ وہاں بہت سے رنگ برنگے کھلونے ہیں اور ڈھیر ساری تتلیاں، چاکلیٹیں اور اتنے پیارے پیارے کپڑے، جوتے اور اتنا کچھ ہے کہ بس کیا ہی بتاؤں۔ یہ نا بیٹا! بس آپ ہی جیسے اچھے اچھے بچوں کے لیے دنیا بنی ہے۔ وہ بچے جو اپنے ایسے اچھے اچھے بابا جانوں کی اچھی اچھی باتیں سنتے اور پھر مانتے بھی ہیں۔ ان کے لیے۔

    بیٹا! میں دراصل آپ کو یہ خط اس لیے نہیں لکھ رہا کہ آپ کے بابا جان نے آپ کو ایک خط کیوں لکھ دیا۔ وہ آپ کے بابا ہیں اور روز آپ کو خط لکھ سکتے ہیں۔ دراصل میں اس لیے خط لکھ رہا ہوں بیٹا کہ اس کے بعد آپ کی ایک آنٹی نے بھی آپ کے نام ایک خط لکھ دیا ہے۔ جس میں اس پیاری سی آنٹی نے آپ کے پیارے سے بابا کو تھوڑا تھوڑا wrong بھی کہا ہے۔ بھلا آپ ہی بتائیے کبھی اتنے پیارے بابا بھی رونگ ہوتے ہیں؟ ہوتے بھی ہوں تو بیٹا سب کے سامنے اگر انہیں رونگ کہیں گے تو ہماری پیاری سی بیٹی لائبہ ناراض اور پریشان بھی ہوجائے گی نا۔ یہ تو بری بات ہوئی نا بیٹا! کسی آنٹی کو بچوں کو یہ تو نہیں سکھانا چاہیے نا؟

    سنو بیٹی جی! آپ ایک بات زندگی میں کبھی بھولنا نہیں، یہی ایک آنٹی ہی نہیں، آپ کو زندگی میں بہت سے دوسرے بھی ایسے کئی لوگ ملیں گے۔ وہ آپ سے بہت پیار کرتے نظر آئیں گے۔ لیکن بیٹا وہ اگر یہ کہیں کہ آپ کے بابا اور ماما سے بھی زیادہ وہ آپ سے پیار کرتے ہیں تو بیٹا یہ جھوٹ ہوگا۔ سنو، بیٹا! ایسی باتوں کی اچھی طرح سمجھ تب آتی ہے، جب اللہ ہمیں بڑے کرتا ہے اور پھر پیارے پیارے سے بچے بھی ہمیں دے دیتا ہے اور ہمیں کہتا ہے کہ اب ان بچوں سے پیار بھی کرو اور انہیں اچھی اچھی چیزیں بھی لا کردو۔

    بیٹی جی! اس طرح آپ بھی یہ سب ایک دن جان جائیں گی۔ مگر کافی بعد میں۔ اس لیے ایک تو یہ بات ابھی سے یاد کرلینا۔ پھر بیٹا یہ جو لفظ ہے نا آنٹی۔۔۔! اصل میں یہ پہلے نہیں ہوتا تھا۔ تب نا بیٹا چچیاں، پھپھیاں اور تائیاں، خالائیں وغیرہ ہوتی تھیں۔ اب بیٹا! ان آنٹیوں کے پاس نا، نالج تو بہت ہے مگر بیٹا! نالج کبھی پیار کا بدل نہیں ہوتا اور نہ ماں باپ کی محبت ہی کا۔ ورنہ پڑھے لکھے لوگ اپنے ماں باپ کو کبھی نہ روتے۔

    پیاری بیٹی !
    آپ کی آنٹی کا خیال ہے کہ آپ کو اپنے بابا کا خط پڑھ کے دکھ ہوا ہوگا۔ لگتا ہے کہ آپ کی آنٹی کو ان کے بابا نے کبھی خط نہیں لکھا۔ ورنہ انہیں پتا چل جاتاکہ بیٹیاں بابا کا پیارا سا خط پڑھ کے خوش ہوتی ہیں، پریشان نہیں ہوتیں۔ انہوں نے لکھا کہ آپ کے بابانے خط میں بیٹوں کو کچھ نہیں لکھا۔ دیکھا آپ نے؟ آنٹی جی کو یہ بھی نہیں پتا کہ جب یہ خط بیٹوں کو لکھا ہی نہیں گیا اور بس آپ ہی کو لکھا گیا تھا تو پھر اس میں کسی اور سے کیسے بات کی جاتی؟ اور بیٹا یہ بھی غور سے سننا کہ جو راز کی باتیں اپنوں سے ہوتی ہیں، وہ سبھی سے نہیں ہوتی ہیں۔ آنٹی نے کہا کہ آپ کے بابا نے خط میں بیٹوں کو حیا نہیں سکھائی۔ مجھے لگتا ہے یہ آنٹی مذاق کررہی ہیں۔ وگرنہ اگر یہاں نہیں لکھا تو بھلا یہ کیسے ثابت ہوگیا کہ انھوں نے بیٹوں کو کلین چٹ دے دی ہے۔ پھر بیٹا اس آنٹی سے پوچھیے گا کہ آپ اپنے پیسے تالے میں رکھنے کی بجائے، چوروں کو کیوں نہیں سمجھاتیں کہ وہ چوری ہی نہ کریں۔ ظاہر ہے اس سے معاشرہ کتنا اچھا ہوجائے گا۔ ویسے پوچھیے گا تو سہی بیٹا کیا پتا آنٹی صاحبہ پیسے واقعی گلے کے بجائے گلی ہی میں رکھتی ہوں۔

    بیٹا! آپ تو سکول جاتی ہو، آپ کو تو پتا ہے کہ اپنی چیز کی خود ہی حفاظت کرنا ہوتی ہے۔ خود لاپروائی کریں تو ٹیچر ہمیں بھی ڈانٹ دیتی ہے کہ آپ نے اپنی چیز کا خود کیوں خیال نہیں رکھا۔ ہاں اگر ہم نے خیال رکھا ہو اور چیز گم ہوجائے توٹیچر ہمیں نہیں ڈانتی ۔اور بیٹا! آپ کو پتا ہے ناکہ جوچیز جتنی زیادہ قیمتی ہو، اتنا ہی اس کا زیادہ خیال بھی رکھا جاتاہے۔ بیٹا یقین ماننا کہ آپ کے بابا اور ماما کے پاس آپ سے زیادہ قیمتی چیز اور کوئی نہیں۔ ان کی دولت تو کیا ان کی جان بھی نہیں۔ بیٹا آپ کے اس انکل کی ابھی کوئی بیٹی نہیں۔ مگر اس انکل کے بچوں اسید، حمید اور عزیر کی مما جان بھی ایک بیٹی ہیں۔ آپ کے انکل کی مما بھی ایک بیٹی ہیں۔ میرے بابا کی بھی ایک بیٹی ہے، یعنی میری بہنا۔ بیٹا کیا بتاؤں کہ یہ سب اتنی اچھی ہیں کہ اگر یہ نہ ہوتیں تو آپ کے انکل بالکل بھی نہ ہوتے اور اچھے تو بالکل بھی نہ ہوتے۔ تو دیکھا آپ نے کہ جو بیٹیاں اتنی قیمتی ہوں کہ ان کے ہونے سے ہم زندہ ہوں تو کیا اب ہم ان کی قدر اور ان کا خیال بھی نہ کریں۔

    ایک بات اور سننا بیٹا!
    آپ کی آنٹی کہتی ہیں ’’دینی تعلیمات اور معاشرتی روایات کا بھی خیال رکھنا۔‘‘ آپ پوچھیے گا تو سہی کہ اچھی آنٹی جی! یہی تو میر ے پیارے بابا جانی نے لکھاہے۔ پھر میرے بابا آپ کے نزدیک غلط کیسے ہیں؟ آنٹی نے کہا کہ آپ کے بابا کی محبت میں ڈر چھپا ہے۔ بیٹا! تو اس میں بھلا برا ہی کیا ہے؟ ڈر نہ ہو توبھلا محبت ہوتی بھی ہے۔ بیٹا! جس کے پاس قیمتی چیز ہو وہ اس کی حفاظت کے لیے چوروں سے ڈرے تو اس میں کیا غلط ہے۔ بیٹا! یہ توبس محبت ہے، ہمارا تو ایمان بھی ڈر کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ بے ڈر تو بس وہی ہوتا ہے جس میں عقل نہ ہو۔

    آپ نے دیکھا ہوگا کہ کئی پاگل لوگ آگ میں ہاتھ ڈال دیتے ہیں۔ اگر آگ سے نہ ڈرنا ہی اچھی بات ہوتی تو ضرور آپ کی آنٹی بھی آگ میں ہاتھ ڈال دیتیں؟ لیکن میں آپ کو بتاتا ہوں کہ وہ کبھی آگ میں ہاتھ نہیں ڈالتیں، وہ بھی آگ سے ڈرتی ہیں۔ وہ چھپکلی سے بھی ڈرتی ہوں گی۔ مگر آپ کے بابا کو ایسے ہی ڈرنے والا کہہ رہی ہیں۔ آنٹی جی نے یہ بھی کہا، آپ آرٹ مووی دیکھیں گی تو آپ کے بابا کے ڈر کا کیا عالم ہوگا؟ انہیں کہیے گا آنٹی جی ہر چیز کا ایک وقت اور ایک عمر ہوتی ہے۔ آپ کے بابا جیسے اچھے لوگوں کی یہ پیاری لائبہ پہلی بیٹی نہیں ہے۔ پوچھیے گا آنٹی جی! کیا آپ بچوں کو پالنے میں ہی آرٹ مووی دکھانے لے جاتی ہیں؟ بیٹا! اپنی اچھی آنٹی کو یہ بھی بتائیے گا کہ اگر کوئی پیاری بیٹی سے اچھی بات کرلے تو ا س کایہ مطلب نہیں ہوتاکہ اب لازماً ہی باپ نے ابو بکر کا راستہ چھوڑ کرکوئی اور راہ اپنالی ہے۔ برے لوگ ہی نہیں اچھے لوگ بھی اچھی بات کرلیتے ہیں۔ یہ ضرور آنٹی کو بتادیجیےگا۔

    آنٹی جی سے یہ بھی کہیے گا کہ ضروری نہیں ہوتا کہ ایک ہی گھر میں رہ کے مکتوب اور مکتوب الیہ (مشکل سے لفظ ہیں نا؟ اللہ آنٹی سے سمجھے!) کی تفصیل نہ ہی لکھی جائے۔ بیٹا! یاد ہے نا جب آپ نے کوئی بات منوانی ہو اور پاپا مان نہ رہے ہوں تو آپ کیا کہتی ہیں؟ پاپا! کیا میں آپ کی بیٹی نہیں ہوں؟ تو کیا اس وقت پاپاکو پتا نہیں ہوتا کہ آپ ان کی بیٹی ہی ہیں؟ پتا ہی ہوتا ہے، مگر یہ محبت اور لاڈ کا اظہار ہوتا ہے۔ کچھ چیزوں کا ذکرعلم میں اضافہ کرنے کے لیے نہیں، احسا س دلانے کے لیے کیا جاتا ہے۔

    مثلاً: آپ کو پتا ہے ناکہ یہ حج کے دن ہیں۔ انہی دنوں ہمارے پیارے نبی نے مکہ شہر میں اپنے ساتھیوں سے پوچھا تھاکہ یہ کون سا شہر ہے؟ کون سا مہینہ ہے؟ اور کون سا دن ہے؟ اب آپ ہی بتائیے کہ کیا آپ نہیں جانتے تھے یا آپ کے ساتھی یہ سب نہیں جانتے تھے؟ جانتے تھے۔ توبیٹا! یہ جو آپ کے بابا نے آپ کو خط میں بتایا ہے کہ وہ خط کہاں سے لکھ رہے ہیں تو اس پر آپ کے بابا کو ایسی کسی بھی آنٹی سے ٹیوشن لینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہاں آنٹی جی کو یہ ضرور سیکھنا چاہیے کہ بچے کس سطح کی زبان میں لکھا گیاخط پڑھ سکتے ہیں۔ اور یہ کہ بڑوں کی لڑائی بچوں کے ذریعے لڑنا کم ازکم مہذب گھروں اور پڑھے لکھے لوگوں کا طریقہ نہیں ہوتا۔

    آنٹی جی کو یہ بھی بتائیے گاکہ یہ جو انہوں نے آپ کو فرشتوں کی حفاظت کی دعا دی ہے، اس پر ان کا بہت شکریہ، یہ بھی لیکن بتا دیجئے گا کہ فرشتے ان کی حفاظت کبھی نہیں کرتے جو خود اپنی حفاظت کی ضرورت ہی نہ محسوس کرتے ہوں۔

    پیاری بیٹی !
    خط طویل ہوگیا۔ آپ بور ہوگئی ہوں گی۔ مجھے معاف کردینا بیٹا! اب اس وقت عید شروع ہونے میں چند ہی گھنٹے رہ گئے ہیں، اس لیے مجھے جلدی جلدی لکھنا پڑا۔ جلدی جلدی لکھی بات لمبی ہوجاتی ہے۔ دعاہے کہ اللہ آپ جیسی ساری پھول سی بچیوں اور ان کے پیارے بابا جانوں کو ایسی دوری پیدا کرنے والی آنٹیوں سے بچائے۔ لیجیے اب آپ مزے سے عید کیجیے۔ ہاں یہ بھی بتائیے گا کہ بہاولپور میں گرمی لاہور سے زیادہ تو نہیں ہے؟ اور ہاں وہاں اب اچھے آم تو نہ ملتے ہوں گے۔ سیزن جوختم ہوگیا ہے، اس لیے آموں کی ضد نہ کرنا۔ پتا نہیں اب آپ کے بابا وہاں کیا کھائیں گے۔ خیر، جو بھی کھائیں، انہیں سلام کہنا۔
    آپ کا پیارا
    ایک انکل (غور سے پڑھنا، دیکھنا کہیں، مجھے اینکل نہ پڑھ جانا!)
    اللہ حافظ !

  • معرکہ ستمبر اور سیکولر احباب کی نفسیاتی گرہیں –  آصف محمود

    معرکہ ستمبر اور سیکولر احباب کی نفسیاتی گرہیں – آصف محمود

    آصف محمود معرکہ ستمبر کے بارے میں کل تفصیل سے لکھا، لیکن میں سمجھتا ہوں اسے دیکھنے کا ایک اور زاویہ بھی ہے اور وہ بہت اہم ہے۔ یہ ہے معرکہ ستمبر پر انتہا پسند سیکولر بیانیہ۔ یہ معرکہ سیکولر حضرات کی چاند ماری کا تازہ میدان ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ قوم خواہ مخواہ خوشیاں منا رہی ہے، حالانکہ پاکستان کو اس جنگ میں شکست ہوئی تھی۔ میرے نزدیک اس موقف کا ابلاغ کسی تحقیقی عمل کے نتائج سے زیادہ ان احباب کی نفسیاتی گرہوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ سوال یہ ہے: یہ گرہیں کب کھلیں گی؟

    سیکولر حضرات کا ایک مسئلہ ہے، یہ دنیا کے ہر معاملے میں معتدل رہیں گے، ہر ذی روح کی دل آزاری برائی تصور کریں گے، ہر مکالمہ پوری شائستگی سے کریں گے، ہر انسان کی آزادی کی بات کریں گے۔ لیکن جب معاملہ اسلام یا مسلمانوں کا آن پڑے گا، یہ اعتدال کا دامن بھی چھوڑ دیں گے اور تہذیب و شائستگی بھی۔ یہ موقع کی تلاش میں رہیں گے کہ کہاں مسلمانوں کے شعور اجتماعی کا مذاق اڑایا جائے، کہاں ان کا تمسخر اڑایا جائے، کہاں تحقیق کے نام پر ان کی دل آزاری کی جائے۔ چنانچہ کبھی تحقیق کے نام پر یہ پورے اہتمام سے ہمیں بتاتے ہیں کہ قرآن پاک کا قدیم ترین نسخہ نبی رحمت ﷺکی پیدائش سے پہلے کا ہوسکتا ہے تو کبھی یہ معرکہ ستمبر سے شکست برآمد کرکے خوشیاں مناتی قوم کو بد ذائقہ کرتے ہیں۔ مکرر عرض ہے کہ یہ تحقیق نہیں ایک نفسیاتی عارضہ ہے۔

    فوج طالبان سے لڑے تو یہ خود اس کے قصیدے پڑھیں گے لیکن فوج بھارت کو ناکوں چنے چبوا دے تو یہ اس کی فتح مان کر نہیں دیں گے۔ اس نفسیاتی مسئلے کی تفہیم کے لیے معرکہ ستمبر کے بیانیے کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ معرکہ ستمبر کا سارا بیانیہ مذہبی ہے۔ اس دور میں جو نغمے لکھے گے انھی کو دیکھ لیجیے: ’’اے مردِ مجاہد جاگ ذرا اب وقتِ شہادت ہے آیا، اے راہِ حق کے شہیدو، وفا کی تصویرو!، گئے جو ہوگے شہادت کا جام پی کر تم، رسول پاک ﷺ نے بانہوں میں لے لیا ہو گا، علی تمہاری شجاعت پہ جھومتے ہوں گے، حسین پاک نے ارشاد یہ کیا ہوگا، تمہیں خداکی رضائیں سلام کہتی ہیں‘‘۔

    اب کوئی ایسا بیانیہ جس میں مذہب کا حوالہ ہو، ان صاحبان کے لیے قابلِ برداشت نہیں ہے۔ جہاں یہ مذہبی بیانیہ سامنے آئے گا، ان کے ہاں رد عمل پیدا ہوگا کیونکہ یہ اپنی نفسیاتی گرہ کے ہاتھوں مجبور ہیں۔ یہ چاہتے ہیں کہ ایک ایک کرکے ہر اس حوالے کو منہدم، غیر معتبر یا متروک کردیا جائے، جس کی مذہب سے کوئی نسبت ہو۔ انسائیکلوپیڈیا آف تھیالوجی میں سیکولرزم کی اسی نفسیات کا ذکر یوں کیا گیا ہے: ’’سیکولرزم آج کل ایک ایسا طریق عمل بھی سمجھا جارہا ہے جس کے ذریعے انسانی زندگی کے مختلف عناصر (جیسے رسوم، آرا، سماجی طرزِ عمل، حتیٰ کہ اشیاء اور بشر) یا مکمل حیاتِ انسانی کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنا تعین مذہب کے ذریعے نہ کرسکے‘‘۔ اب جہاں مذہب کا حوالہ آتا ہے، یہ اپنی نفسیات کے اسیر ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ جب انہوں نے دیکھا کہ قوم بھر پور طریقے سے یومِ دفاع منارہی ہے اور اس کا سارا بیانیہ مذہبی ہے اور یہ بیانیہ دو قوموں کے تصور کو مستحکم کررہا ہے تو انہوں نے اس جنگ میں شکست برآمد کرلی۔ یہ نفسیات کے تقاضوں کے ہاتھوں مجبور تھے۔

    ان احباب کے ہاں دوسری نفسیاتی گرہ یہ ہے کہ یہ سمجھتے ہیں یہ اس وقت تک جمہوریت پسند اور آئین دوست ثابت نہیں ہوسکتے جب تک یہ فوج کی بطور ادارہ تضحیک نہ کرلیں۔ چنانچہ فوج کے بارے میں عوام میں پسندیدگی کے جذبات پیدا ہونے لگیں تو ان کو جمہوریت خطرے میں پڑتی نظر آتی ہے اور یہ میدان میں اتر آتے ہیں۔ لاشعوری طور پر یہ فوج بطور ادارہ اور فوجی آمر میں فرق نہیں کر پاتے۔ آمریت سے نفرت کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ فوج کو بطور ادارہ بےتوقیر کیا جائے اور فوج سے محبت کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آمروں کا ساتھ دیا جائے۔ یہ فرق روا رکھا جانا ضروری ہے۔ جہاں یہ فرق ختم ہوا، اعتدال بھی ختم ہوا اور خرابی نے جنم لیا۔ اب عجب تماشا یہ ہے کہ سیکولر احباب بھی، الا ماشاء اللہ، آمریتوں کے ساتھ ہنی مون مناتے رہے ہیں۔ مشرف دور میں کون کہاں کھڑا تھا، ایک فہرست بنا لیجیے، لگ پتا جائے گا۔ فرق صرف یہ ہے کہ مذہبی انتہا پسند ایک آمر کے دست و بازو رہے اور سیکولر انتہا پسند دوسرے آمر کے۔ آمریتوں سے یہ حضرات فیض یاب ہوتے رہے، لیکن ادارے کو سینگوں پر لے لیتے ہیں تاکہ جمہوریت دوستی کے باب میں سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔

    تیسری گرہ بھی ہے۔ بعض احباب ہر معاملے میں ایک نئی بات کرکے لوگوں کو حیران کرنا چاہتے ہیں۔ یہ گرہ مذہبی طبقے میں بھی ہے اور سیکولر گروہ میں بھی۔ چنانچہ اس سوچ کے تحت بھی یاروں نے ستمبر کی جنگ سے شکست برآمد کرلی۔

    غلطیاں کہاں نہیں ہوتیں، ستمبر کی جنگ میں بھی ہوئیں اور انتہائی سنگین۔ آپریشن جبرالٹر سے گرینڈ سلام تک، قیادت کی دانش پر درجنوں سوالات اٹھتے ہیں لیکن ایک کامیاب دفاع کو شکست کہنا کیا ایک صحت مند رویہ کہلائے گا؟ کیا بھارت کا کوئی ایک حملہ کامیاب ہوسکا؟ کیا اس کے جرنیل لاہور جم خانہ میں جام سے شغل فرما سکے؟ کیا اس کی بحریہ کراچی کا رخ کر سکی؟ کیا لاہور اور چونڈہ میں عزم و ہمت کے انمٹ نقوش نہیں چھوڑے گئے؟ کیا دفاع کرنا کامیابی نہیں ہوتی؟

    اگر ایم ایم عالم کے کارنامے پر ہم فخر کرتے ہیں، چونڈہ کے معرکے پر اپنے شہدا کی تحسین کرتے ہیں، عزیز بھٹی کی قربانی کو یاد کرتے ہیں، سیسل چودھری کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں، اصغر خان اور نور خان کی قیادت کو سراہتے ہیں جنہوں نے پیشہ ورانہ مہارت سے ایک ادارے کو تشکیل دیا، اور اگر ہم چھ ستمبر کو یوم دفاع مناکر ملک کے دفاع کا عہد کرتے ہیں اور شہدا اور غازیوں کی قربانیوں کا اعتراف کرتے ہیں تو اس میں غلط کیا ہے؟ ہر چیز کی سند کالم نگاروں اور اینکر پرسنوں سے حاصل نہیں کی جاسکتی، کچھ گواہیاں دھرتی پر بہنے والا خون بھی دیتا ہے۔

    لیکن پھر بھی ضد ہے تو مان لیتے ہیں۔ چلیں، اب ایک نئی تاریخ لکھتے ہیں۔ ایک ’’روشن خیال‘‘ تاریخ۔ عزیز ہم وطنو، یہ ایم ایم عالم، عزیز بھٹی، اور گمنام قبروں میں دفن ہونے والے ماؤں کے لال ہم نے خواہ مخواہ ہی ہیرو بنالیے۔ اصل کہانی کچھ اور ہے۔ جب دشمن بی آر بی کے اس پار پہنچا تو پاکستان کی جانب سے ایک پروڈیوسر آگے بڑھے اور بھارتی کمانڈر کو کہا: ’’ناہنجار شور نہ کرو، ابھی اینکر صاحب کا شو ریکارڈ ہو رہا ہے‘‘۔ یہ تنبیہ کارگر ثابت ہوئی اور آزادی صحافت کے احترام میں دشمن واپس چلا گیا۔ جب ایک جونیئر بھارتی افسر نے واپسی کا حکم ملنے پر اپنے کمانڈر کو جم خانہ لاہور میں شراب سے جی بہلانے کا وعدہ یاد دلایا تو اس افسر نے اپنے جونیئر سے کہا: جوان ہمارے حصے کا یہ کام اب پاکستان کے’روشن خیال‘ دانشور سنبھال لیں گے۔

    ادھر چونڈہ میں بھی یہی ہوا۔ بھارت کی ٹینک اس لیے آگے نہ بڑھ سکے کہ چونڈہ کے اس پار چند روشن خیال دانشور بیٹھے تھے، بھارتی فوجی نے ٹینک سے سر نکال کر پوچھا کیا یہ چونڈہ ہے؟ تو روشن خیال دانشور نے جواب دیا: ’’ہم کسی چونڈہ کو نہیں جانتے، ہم صرف چنڈو خانے کو جانتے ہیں‘‘۔ چنانچہ دشمن نے اپنے غلط نقشوں کو آگ لگائی اور روتا پیٹتا واپس چلا گیا۔

  • مہاجر !کیا اب بھی نہ سوچیں گے  –  احسان کوہاٹی

    مہاجر !کیا اب بھی نہ سوچیں گے – احسان کوہاٹی

    کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ بانیان پاکستان کی اولاد کہلانے والے خود سے سوال کریں، اپنے گریبان میں جھانکیں اور سوچیں کہ انہوں نے قائد کے لیے کیا کیا نہ کیا۔۔۔ قائد نے کہا کہ ٹیلی ویژن ریفریجریٹر بیچ کر کلاشنکوفیں خریدو۔۔۔ اردو بولنے والے نوجوانوں نے بستے اتار کر کلاشن کوفیں اُٹھالیں۔

    قائد نے کہا کہ پٹھان، پنجابی، سندھی دشمن ہیں تو شہر لسانی طور پر تقسیم ہوگیا۔ لالو کھیت لیاقت آباد میں رکشہ ٹیکسی والوں نے جانا چھوڑ دیا۔ سندھی ٹوپی پہننے والا غلطی سے چلا جاتا تو ’’بھائی‘‘ کے چاہنے والے ’’غلطی‘‘ نہ کرتے۔

    قائد کو پیر ہونے کا شوق ہوا تو ’’پیر صاحب‘‘ کی تصویریں کروٹن کے پتوں پر نمودار ہونے لگیں۔ لوگ قطاریں باندھ کر زیارت کے لیے آنے لگے۔ مسجد کے سنگ مرمر پر بھائی کی شبیہہ کا شبہ ہوا تو مرید پورا سلیب ہی اکھاڑ کر لے گئے۔

    قائد کی سالگرہ ہوئی تو کئی منزلہ کیک کاٹنے کے لیے ہاتھ میں سونے کی تلوار دی گئی۔
    قائد جو جو کہتے رہے، ’’قوم‘‘ وہ وہ کرتی رہی۔ مولانامحمد علی جوہر، شبلی، نعمانی، حسرت موہانی، نواب وقار الملک کی قوم میں کن کٹے، دادے، لولے لنگڑے اور پنواڑی ہونے لگے۔

    پھر قتل وغارت گری شروع ہوئی۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت میں آئے۔ قائد نے بھی حرکت کی اور برطانیہ پہنچ گئے۔ قوم نے اسے جلا وطنی کہہ کر نعرہ لگایا:
    ’’وہ دور ہے تو کیا ہوا دلوں میں ہے بسا ہوا‘‘
    altaf hussain daleel
    قوم یہاں آپریشن بھگتتی رہی اور قائد وہاں لند ن میں دنیا کے مہنگے ترین علاقوں میں مزے سے قوم کا دکھ ’’محسوس‘‘ کرتے رہے۔

    پھر قائد نے برطانیہ کی شہریت لی۔ ملکہ برطانیہ سے وفاداری کا وہاں حلف اٹھایا۔ حلف یافتہ کارکنوں نے جشن یہاں منایا۔

    قائد نے ایک قدم آگے بڑھایا۔ سندھ تقسیم کرنے کی بات کی۔ کارکنوں نے بھی کہا:
    سندھ میں ہوگا کیسے گزارا۔۔۔ آدھا تمہارا آدھا ہمارا

    پھر بات بڑھی اور بائیس اگست کی سہ پہر قائد کی نظر میں پاکستان ناسور اور عذاب ہوگیا۔

    میرے خیال میں اب بانیان پاکستان کی اولادوں کو سوچنا ہوگا کہ اس اسکرپٹ کے سامنے فل اسٹاپ لگا دینا چاہیے، لیکن ایسا جذباتی ہوکر نہ کیا جائے، سوچا جائے، سمجھا جائے۔ 80ء کی دہائی میں مہاجر تحریک کن اسباب پر اٹھی تھی؟

    محصورین وطن کی واپسی
    سندھ میں کوٹا سسٹم کا خاتمہ
    حکمرانی کا حق
    لسانی شناخت

    اب یہ سوال کس سے پوچھا جائے کہ محصورین کی واپسی کے لیے قائد نے کیا کیا؟ بنگلہ دیش کے مہاجر کیمپوں میں جانوروں سے بدتر زندگی گزارنے والے محصورین پاکستان کہاں ہیں؟ ایم کیو ایم چار دہائیوں سے وفاقی اور سندھ حکومت کا حصہ رہی ہے، پیپلز پارٹی سے لے کرمسلم لیگ نون تک ،جو جماعت بھی اقتدار میں آئی، ایم کیو ایم اس کی گود میں آبیٹھی۔ اہم وزارتیں،اہم مناصب ان کے پا س رہے، بس محصورین پاکستان پاس نہ رہے۔

    سندھ میں دیہی اور شہری سندھ کو تقسیم کرنے والا کوٹا سسٹم آج بھی اسی شکل میں موجود ہے، ایم کیو ایم نے اسے ختم کیوں نہ کیا؟

    آج سوچا جائے کہ حکمرانی میں حصہ ملنے کے بعد مہاجر وں کو کیا ملا؟ بار بار تصادم کی راہ پر مہاجروں کو کس نے ڈالا اور مشکل وقت میں قائد صرف زبانی جمع خرچ کے کیا کرسکے؟

    خود سے پوچھا جائے کہ لسانی شناخت نے مہاجروں کو کیا دیا؟ ملک کا سب سے پڑھا لکھا مہذب سمجھا جانے والے لوگ اب کیا سمجھے اور کیا کہے جاتے ہیں؟ اُردو داں طبقے کو پہلے کس نظر سے دیکھا جاتا تھا اور اب مہاجروں کو کس نظر سے دیکھاجاتا ہے؟ پہلے اُردو بولنے والوں کی شناخت شستہ لہجہ، تہذیب، شائستگی، رکھ کھاؤ ہوا کرتی تھی، اب وہ شناخت کہاں گئی؟ مہاجروں نے چار دہائیوں کی لسانی سیاست میں کیا پایا اور کیا کھویا؟ قائد تو اپنا الو سیدھا کرکے لندن سدھار گئے، قوم یہاں راستوں کی پیچیدگیوں میں بھٹک گئی اور جانے کب تک بھٹکتی رہے گی.

  • آزادی کی جنگ اور بین الاقوامی قانون-  دوسرا اور آخری حصہ

    آزادی کی جنگ اور بین الاقوامی قانون- دوسرا اور آخری حصہ

    محمد مشتاق
    اس اہم مضمون کا پہلا حصہ پڑھیں

    دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپی قابض طاقتیں کمزور ہوگئی تھیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایشیا، افریقہ، مشرق بعید اور لاطینی امریکا میں ان کے خلاف مزاحمت میں مزید شدت آتی گئی۔ اس دوران میں بین الاقوامی سطح پر حالات کی تبدیلی میں ایک اور عامل نے اہم کردار ادا کیا اور وہ تھا روس کا امریکا اور مغربی طاقتوں کے مد مقابل کے طور پر سامنے آنا۔ 1949ء میں روس کی مدد سے چین میں کمیونسٹوں نے امریکی اتحادی نیشنلسٹ حکومت کو شکست دے کر عوامی جمہوریۂ چین کی تشکیل کا اعلان کیا۔ 1950ء میں امریکا اور اس کے اتحادیوں نے شمالی کوریا پر حملہ کیا جسے روس اور چین کے تعاون سے پسپا کیا گیا اور بالآخر جنگ بندی کا سمجھوتہ کرنا پڑا۔

    1956ء میں نہر سویز کے تنازعے کے موقع پر اگرچہ روس نے مصر کی مدد نہیں کی لیکن اس موقع پر امریکا نے اسرائیل، برطانیہ اور فرانس کے خلاف سلامتی کونسل میں قرارداد پیش کرکے ان کو واپس ہونے پر مجبور کیا اور اس تنازعے کے بعد برطانیہ اور فرانس کو مشرق وسطی میں اپنے کئی اڈے ختم کرنے پڑے۔ اس خلا کو پر کرنے کے لیے امریکا اور روس میں دوڑ شروع ہوئی۔ کئی عرب ممالک میں اشتراکی حکومتیں قائم ہوئیں۔ سرمایہ دارانہ نظام اور اشتراکی نظام کی کشمکش نے جلد ہی افریقہ اور ایشیا کے بیشتر علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

    چونکہ سرمایہ دارانہ نظام کو قابض طاقتوں کا نظام سمجھا جاتا تھا اس لیے ان علاقوں میں قابض طاقتوں کے خلاف مزاحمت کرنے والے لوگوں نے اشتراکی نظام میں کافی کشش محسوس کی۔ دوسری طرف چینی گوریلا مزاحمت کار بھی ان کے لیے نمونہ اور ماڈل بن گئے۔ اس لیے ان علاقوں میں ”قومی آزادی“ کی تحریکوں اور اشتراکیت نے مل کر ایک نئے نظریے کی تشکیل کی۔ دنیا کے مختلف خطوں میں آزادی کے لیے جد و جہد کرنے والوں نے باقاعدہ مسلح جد و جہد بھی شروع کی اور ایک دفعہ پھر قومی آزادی کی جنگ اور دہشت گردی کے درمیان موازنہ کیا جانے لگا۔ تاہم اب توازن کا رخ قومی آزادی کے لیے لڑنے والوں کے حق میں تھا۔ اس پس منظر میں 1960ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے مقبوضہ علاقوں کے لیے مشہور ”اعلان آزادی“ (Declaration of Independence) کیا۔

    اس قرارداد میں ایک طرف یہ بات تسلیم کی گئی کہ حق خود ارادیت سے انکار بین الاقوامی جنگوں کا باعث بنتا ہے اور دنیا میں امن کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں کے اوپر سے ”غیروں کے تسلط“ (Alien Domination) کا خاتمہ کیا جائے، تو دوسری طرف اس قرارداد میں اس حقیقت پر بھی زور دیا گیا کہ کئی مقبوضہ علاقوں کے لوگوں کی جد و جہد کامیابی سے ہمکنار ہوچکی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی واضح کیا گیا کہ کئی دیگر علاقوں میں آزادی کی تحریکیں دن بدن زور پکڑتی جارہی ہیں اور ان کو دبانا اب ممکن نہیں رہا ہے۔ اس پس منظر میں ”تمام لوگوں“ کے لیے حق خود ارادیت کا اعلان کیا گیا۔ پھر بالخصوص مقبوضہ علاقوں کے لوگوں کے لیے اس بنیادی انسانی حق کے تحفظ اور نفاذ کو لازمی اور دنیا کے امن کے لیے ضروری قرار دیا گیا۔ یہ بھی کہا گیا کہ ان علاقوں کے لوگوں کو اپنی حکومت خود چلانے کے لیے نااہل نہیں قرار دیا جاسکتا خواہ وہ سیاسی، معاشی یا تعلیمی طور پر پسماندہ ہوں۔ ان لوگوں کے خلاف طاقت کے استعمال کو ناجائز قرار دیا گیا اور اس بات پر زور دیا گیا کہ تمام مقبوضہ علاقوں سے غیروں کے قبضے کو پوری طور پر ختم کردیا جائے۔ البتہ ریاستوں کے ”اندرونی معاملات“ میں مداخلت کی پابندی کو اس قرارداد میں بھی دہرایا گیا تاکہ آزادی کی تحریکوں کی مدد کے بہانے سے ریاستیں دوسری ریاستوں میں مداخلت کرکے عالمی عدم استحکام کا باعث نہ بن سکیں۔

    تقریباً انہی باتوں کو اگلے کئی سالوں تک دیگر اہم قراردادوں میں دہرایا گیا۔ ان میں ایک اہم قرارداد 1970ء میں منظور کی گئی جس کا عنوان تھا: بین الاقوامی قانون، ریاستوں کے مابین دوستانہ تعلقات اور تعاون کے قواعد عامہ کا اعلان“ (Declaration of the Principles of International Law, Friendly Relations and Cooperation between States)۔ اس قرارداد میں حق خود ارادیت کے حوالے سے دیگر باتوں کے علاوہ ایک اہم بات یہ کی گئی کہ حق خود ارادیت کی جد و جہد کے تین قانونی نتائج نکل سکتے ہیں:

    ۱۔ آزاد اور خودمختار ریاست کا قیام؛
    ۲۔ کسی دوسری ریاست کے ساتھ آزادانہ الحاق؛
    ۳۔ کسی اور سیاسی حیثیت کا تقرر جو لوگوں کی آزادانہ مرضی سے ہو۔

    1967ء کے بعد سے اسرائیلی قبضے کے خلاف برسرپیکار فلسطینی مزاحمت کاروں نے اس بحث کو ایک نیا موڑ دیا کیونکہ اب جہازوں کا اغوا کرنا، لوگوں کو یرغمال بنانا اور اس طرح کے دیگر طریقوں سے قابض طاقت کو مادی اور نفسیاتی نقصان پہنچانے کا سلسلہ تیز ہوا۔ اسرائیل اور دیگر ریاستیں اسے دہشت گردی کا نام دیتی رہیں اور اس طرح ”بین الاقوامی دہشت گردی“ (International Terrorism) کی اصطلاح بھی مستعمل ہونے لگی۔ اس پس منظر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 1972ء میں ایک اہم قرارداد منظور کی جس کا عنوان تھا: ”بین الاقوامی دہشت گردی کے تدارک کے لیے اقدامات“ (Measures to Prevent Internatioal Terrorism)۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اگرچہ اس قرارداد کا عنوان دہشت گردی کا تدارک تھا لیکن اس میں پھر حق خود ارادیت کو تسلیم کرنے پر زور دیا گیا۔ قرارداد کے مکمل عنوان میں دہشت گردی کے اسباب کا بھی ذکر کیا گیا:

    Measures to prevent international terrorism which endangers or takes innocent human lives or jeopardises fundamental freedom, and study of underlying causes of those forms of terrorism and acts of violence which lie in misery, frustration, grievance and dispair and which causes some people to sacrifice human lives, including their own, in order to affect radical changes

    (دہشت گردی، جو معصوم انسانوں کی جانوں کو خطرے میں ڈالتی ہے اور بنیادی آزادیوں کو نقصان پہنچاتی ہے، کی روک تھام کے لیے اقدامات اور دہشت گردی اور متشددانہ کاروائیوں کی ان اقسام کے اسباب کا مطالعہ جن کی جڑیں بے بسی، پریشانی، احساس محرومی اور مایوسی میں پائی جاتی ہیں جو بعض لوگوں کو ان کی اپنی زندگی سمیت دیگر انسانوں کی زندگیوں کی بھینٹ اس مقصد کے لیے دینے پر مجبور کردیتی ہیں کہ وہ کوئی بڑی تبدیلی لے آئیں۔ )

    یہ عنوان سالہاسال تک کئی قراردادوں کو دیا گیا۔ اس عنوان کے ساتھ آخری قرارداد دسمبر 1989ء میں منظور کی گئی۔

    1974ء میں جنرل اسمبلی نے ایک اور اہم قرارداد منظور کی جس کے ذریعے ”جارحیت“ (Aggression) کی تعریف پیش کی گئی۔ اگر کوئی ریاست کسی دوسری ریاست کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کرے تو اقوام متحدہ کے منشور کے باب ہفتم کے تحت جارح ریاست کے خلاف سلامتی کونسل کو اجتماعی فوجی کاروائی کا اختیار ہوتا ہے۔ جنرل اسمبلی نے اس قرارداد کی دفعہ ۷ میں تصریح کی ہے کہ آزادی کی جنگ لڑنے والوں یا ان کی مدد کرنے والوں کو جارحیت کا مرتکب نہیں قرار دیا جاسکتا۔ البتہ ایک دفعہ پھر ریاستوں کو یاد دلایا گیا کہ دیگر ریاستوں کے ”اندرونی معاملات“ میں مداخلت ناجائز ہے۔

    1977ء میں جنیوا معاہدات کے ساتھ دو اضافی معاہدات ملحق کیے گئے اور ان اضافی پروٹوکولز میں پہلا پروٹوکول بین الاقوامی مسلح تصادم کے دوران میں عام شہریوں کے تحفظ کے متعلق ہے۔ اس پروٹوکول کی ایک اہم شق یہ ہے کہ آزادی کی جنگ کو ”بین الاقوامی مسلح تصادم“ قرار دیا گیا۔ چنانچہ کوئی ریاست یہ نہیں کہہ سکتی کہ اس کے زیر تسلط علاقے میں جاری آزادی کی جنگ اس کا ”اندرونی معاملہ“ ہے۔ مزید برآں، اس پروٹوکول نے ”مقاتل“ (Combatant) کی تعریف میں وسعت پیدا کرکے آزادی کے لیے لڑنے والوں کو بھی مقاتل کی حیثیت دی اور قرار دیا کہ قید ہونے کی صورت میں انہیں وہ تمام حقوق حاصل ہوں گے جو جنگی قیدی کو حاصل ہوتے ہیں۔ نیز اس پروٹوکول نے تصریح کی کہ بعض ناگزیر حالات میں مقاتل باقاعدہ یونیفارم پہنے بغیر بھی لڑ سکتا ہے بشرطیکہ وہ حملے کے وقت واضح طور پر مسلح ہو اور غدر (Perfidy)کا ارتکاب نہ کرے۔ اس طرح اس نے گوریلا طرز کی جنگ کو بہت حد تک قانونی حیثیت دے دی۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی طاقتیں اور ماہرین قانون بالعموم اس پروٹوکول کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں اور کوشش کرتے رہے ہیں کہ ان شقوں کی ایسی تعبیر پیش کی جائے کہ یہ عملاً غیر مؤثر ہوجائیں۔

    اس دوران میں ”ریاستی دہشت گردی“ (State Terrorism) کی اصطلاح بھی عام طور پر مستعمل ہوگئی لیکن اس اصطلاح کو دو مختلف، بلکہ متضاد، مفاہیم میں استعمال کیا جاتا رہا۔ ایک مفہوم کے تحت اسرائیل فلسطینیوں کو مدد فراہم کرنے والی ریاستوں کو ریاستی دہشت گردی کا مرتکب قرار دیتا رہا، جبکہ دوسرے مفہوم کے مطابق فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کو ریاستی دہشت گردی کا نام دیا جاتا رہا۔ 1984ء میں جنرل اسمبلی نے ریاستی دہشت گردی کے خلاف جو قرارداد منظور کی اس میں اس اصطلاح کو ان دونوں مفاہیم میں استعمال کیا گیا۔ اس لیے صحیح قانونی پوزیشن واضح ہونے کے بجائے مزید مبہم ہوگئی۔

    دسمبر 1979ء میں روس نے افغانستان میں فوجیں داخل کیں اور 1980ء کی دہائی میں روسی قبضے کے خلاف افغانستان میں جو جنگ لڑی گئی اس نے آزادی کی تحریکوں اور معاصر دنیا میں جہاد کے تصور، نظریے اور تطبیق پر نہایت دور رس اثرات مرتب کیے۔ روس کے خلاف مزاحمت نے عالمی سطح پر غیر وں کے تسلط کے خلاف مسلح مزاحمت کی تحریکوں کو بہت تقویت دی، بالخصوص جب 1989ء میں روس کو افغانستان سے فوجیں واپس بلوانا پڑیں۔ 1989ء میں ہی مغربی اور مشرقی جرمنی کا الحاق ہوا اور دیوار برلن گرادی گئی۔ خود روس کی بڑی ریاست شکست و ریخت کا شکار ہوگئی۔

    1990ء کی دہائی میں عالمی سطح پر دوررس اثرات کی حامل کئی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔

    عراق نے کویت پر اگست 1990ء میں قبضہ کیا اور امریکا نے اس کے خلاف کاروائی کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے منظوری حاصل کرنی چاہی تو روس اور چین اس کی مزاحمت نہیں کرسکے۔ چین تو ویسے بھی امریکا کے ساتھ براہ راست تصادم سے گریز کی پالیسی پر عمل پیرا تھا لیکن روس کی جانب سے عدم مزاحمت عراق کی حکومت کے لیے نہایت حیرت کا باعث بنی۔ اس کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ روس اندرونی طور پر انتہائی سنگین نوعیت کے بحرانوں کا شکار ہوچکا تھا۔ اس کی طویل اور غیر ضروری مہم جوئیوں نے اس کی معیشت تباہ کردی تھی اور بالخصوص افغانستان کی مہم جوئی اس کے تابوت کی آخری کیل ثابت ہوئی تھی۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے کویت کو ”آزاد کراکے“ آزادی کی جدوجہد کو ایک نیا مفہوم دیا۔

    دسمبر ۱۹۹۱ء میں سوویت یونین کا خاتمہ ہوگیا اور کئی ایسی ریاستیں وجود میں آگئیں جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔ افغانستان کی جنگ کے تربیت یافتہ جنگجوؤں نے ان ریاستوں کا رخ کیا لیکن وہاں ”اسلامی حکومت“کے قیام کا خواب شرمندہئ تعبیر نہیں ہوسکا کیونکہ وہاں کی حکومتیں اس راہ میں مزاحم تھیں۔ اس دوران میں مشرقی یورپ میں بڑی کمیونسٹ ریاست یوگوسلاویا بھی شکست و ریخت کا شکار ہوگئی اور جلد ہی چار الگ ریاستوں ۔ سربیا، کروشیا، بوسنیا اور مونٹے نیگرو ۔ میں تقسیم ہوگئی۔ ان ریاستوں کی آپس میں بھی لڑائی ہوئی۔ بالخصوص بوسنیا پر سربیا کے مظالم نے ظلم و عدوان کی ایک نئی داستان رقم کی۔ افغان جنگ کی تربیت نے یہاں بھی کردار ادا کیا اور یہاں بھی آزادی کی جنگ کے ساتھ جہاد کے نعرے لگائے گئے۔

    یورپی یونین نے یوگو سلاویا کی شکست و ریخت کے بعد وجود میں آئی ہوئی ریاستوں کو تسلیم کرنے کے لیے خصوصی شرائط رکھیں جن میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کو خصوصی اہمیت دی گئی۔

    چنانچہ یورپی یونین کے ثالثی کمیشن نے حق خود ارادیت کے حوالے سے قرار دیا کہ بعض لوگوں کو اس حق کا ”پہلا درجہ“ حاصل ہے اور بعض کو ”دوسرا درجہ“۔ پہلے درجے کے حق خود ارادیت (First Level Self-determination) سے مکمل آزادی کا حق مراد لیا گیا اور قرار دیا گیا کہ وفاقی ریاست کے صوبوں کو یہ حق حاصل ہے بشرطیکہ وہ ریاست کے عناصر اربعہ حاصل کرسکتے ہوں۔ اب ظاہر ہے کہ وفاقی ریاست کے صوبے کے پاس تین عناصر (زمین کا معین ٹکڑا، مستقل آبادی اور حکومت) تو پہلے ہی سے ہوتے ہیں۔ پس اسے ضرورت صرف چوتھے عنصر (دوسری ریاستوں کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی صلاحیت) کی ہوتی ہے۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ اس چوتھے عنصر کے حصول کی راہ میں وفاقی حکومت مزاحمت کرے گی۔ پس اس طرح آزادی کے حصول کی کوشش لازماً جنگ کی صورت میں نکلے گا۔ اس میں جہاں آزادی کے حصول کی خواہشمند صوبے کی صلاحیت ضروری ہوتی ہے وہاں دوسری ریاستوں کا تعاون بھی نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے کیونکہ بین الاقوامی تعلقات میں یکطرفہ ٹریفک نہیں چلاکرتی۔ تعلقات استوار کرنے کے لیے دوطرفہ تعاون ضروری اور ناگزیر ہوتا ہے۔ یہ بھی واضح ہے مکمل آزادی کا یہ حق ان لوگوں کے لیے موجود ہی ہے جو غیروں کے تسلط کے تحت ہوں یاجن کے لیے سلامتی کونسل نے یہ حق تسلیم کیا ہو۔

    دوسرے درجے کے حق خود ارادیت (Second Level Self-determination) سے ثالثی کمیشن کی مراد یہ تھی کہ بعض لوگوں کو مکمل آزادی کا حق تو نہیں دیا جاسکتا لیکن اندرونی خود مختاری اور مذہب و ثقافت اور شناخت کا تحفظ ان کا قانونی حق ہے۔ اس طرح اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے مکمل آزادی اور الگ ریاست کی تشکیل کے بجائے اندرونی خود مختاری کی راہ تجویز کی گئی۔

    1990ء کی دہائی میں کشمیر میں حق خود ارادیت کی جد و جہد نے ”آزادی کی جنگ“ کی صورت اختیار کرلی۔ 1972ء کے شملہ معاہدے کے بعد سے بھارت کا سرکاری موقف یہ رہا کہ کشمیر کے متعلق سلامتی کونسل کی قراردادیں غیر مؤثر اور غیر متعلق ہوگئیں کیونکہ اس معاہدے میں پاکستان اور بھارت نے مان لیا تھا کہ وہ تمام تنازعات دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے حل کریں گے اور کوئی فریق کسی تنازعے کو بین الاقوامی فورم پر دوسرے فریق کی مرضی کے بغیر نہیں لے جائے گا۔1990ء کی دہائی میں پاکستان کی مسلسل یہ کوشش رہی کہ کشمیر کے مسئلے کو عالمی امن کے لیے خطرے (Threat to International Peace) کے طور پر پیش کیا جائے تاکہ عالمی دباؤ کے پیش نظر بھارت مذاکرات کی میز پر آکر اس مسئلے کے حل کے لیے سنجیدہ کوشش پر آمادہ ہوجائے۔ 1998ء میں جب دونوں ریاستوں نے یکے بعد دیگرے ایٹمی دھماکے کیے تو عالمی سطح پر کشمیر کے مسئلے کی سنگینی کا احساس پیدا ہوا جسے 1999ء کی کارگل جنگ نے مزید شدید کردیا۔ تاہم کارگل کی جنگ میں پاکستان کی فوج کی حکمت عملی انتہائی حد تک ناقص تھی جس کی وجہ سے پاکستان کو فوجیں واپس بلوانا پڑیں۔

    1990ء کی دہائی کا ایک اور اہم مسئلہ چیچنیا کا تھا۔ وہاں بھی روسی تسلط کے خلاف مسلح مزاحمت ہوئی جس کے جواب میں روس نے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دیے اور چنگیز و ہلاکو کی یاد تازہ کردی۔ اسی طرح البانیا اور کوسووا میں بھی غیروں کے تسلط اور ظلم کے خلاف مسلح مزاحمت ہوئی۔ امریکا اور اس کے اتحادی چیچنیا میں روس کے خلاف کچھ نہیں کرسکے لیکن 1998ء۔ 1999ء میں نیٹو نے سربیا پر بمباری کرکے اس کے مظالم کا سلسلہ روکنے میں اہم کردار ادا کیا اگرچہ اس بمباری میں مقامی آبادی کو بھی بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا اور قانونی لحاظ سے بھی اس کاروائی کا جواز مشکوک تھا۔ تاہم اس کاروائی کی وجہ سے آزادی کی جنگ میں فوجی مدد فراہم کرنے کے مسئلے پر بحث کرنے والوں کو ”انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مداخلت“ کے جواز اور عدم جواز پر بھی بحث کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔

    ستمبر 2001ء امریکا میں رونما ہونے والے حادثات کے بعد امریکا نے ”دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ“ (Global War on Terror) شروع کرنے کا اعلان کیا۔ اس جنگ کے پہلے مرحلے میں افغانستان پر حملہ کرکے طالبان کی حکومت ختم کردی گئی اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے تعاون سے ایک کٹھ پتلی حکومت قائم کی گئی۔ اس کے بعد 2003ء میں عراق پر حملہ کرکے اس تجربے کو وہاں بھی دہرایا گیا۔دونوں ممالک میں اس قبضے کے خلاف مزاحمت کا سلسلہ تا حال جاری ہے۔

    دہشت گردی کے خلاف اس نام نہاد جنگ میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے مسلسل یہ کوشش کی جارہی ہے کہ بین الاقوامی کی من پسند تعبیر جبراً پوری دنیا پر نافذ کی جائے۔ اس سلسلے کی ایک اہم کڑی یہ ہے کہ حق خود ارادیت کے لیے جد و جہد، غیروں کے تسلط کے خلاف مزاحمت اور آزادی کی جنگ کو دہشت گردی قرار دیا جارہا ہے اور پچھلی پوری صدی میں بین الاقوامی قانون نے اس سلسلے میں جو پیش رفت کی اس کو کالعدم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ تاہم، جیسا کہ آگے ہم دیکھیں گے، بین الاقوامی قانون کو اس طرح تبدیل کرنے کی کوشش کامیاب نہیں ہوسکتی، نہ ہی اس طریقے سے غیروں کے تسلط کے خلاف مزاحمت کے جذبے اور جد و جہد کو دبایا جاسکتا ہے۔ کئی ماہرین قانون کے نزدیک آزادی کا حق بین الاقوامی قانون کے ان بنیادی قواعد (Jus Cogens) میں شامل ہوچکا ہے جنہیں کسی معاہدے کی صریح شق کے ذریعے بھی تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔

    آزادی کی جنگ سے متعلق بین الاقوامی قانون کی تقریباً سوا سو سال کی تاریخ کے اس جائزے کے بعد اس قانون کی رو سے اس مسئلے کا قانونی تجزیہ آئندہ پیش کریں گے ، ان شاء اللہ ۔

  • آزادی کی جنگ اور بین الاقوامی قانون – محمد مشتاق

    آزادی کی جنگ اور بین الاقوامی قانون – محمد مشتاق

    محمد مشتاق آزادی کی جنگ کی شرعی حیثیت پر الگ گفتگو کی ضرورت ہے لیکن چوں کہ بعض لوگ بین الاقوامی قانون سے ناواقفیت کی بنیاد پر یہ سمجھتے ہیں کہ معاصر قانون کی رو سے اسے ناجائز سمجھا جاتا ہے ، اس لیے یہاں اس ضمن میں بین الاقوامی قانون کی کچھ تفصیلات دی جارہی ہیں ۔

    بین الاقوامی قانون میں آزادی کی جنگ کے جواز اور عدم جواز پر بحث ”حق خود ارادیت“ (Right of Self-determination) کے لیے جد و جہد پر بحث کے ضمن میں شروع ہوئی۔

    معاصر بین الاقوامی قانونی نظام کی ابتدا یورپ میں ”قومی ریاست“(Nation-state) کے تصور سے ہوئی۔ اس تصور کا بنیادی مفروضہ یہ تھا کہ ایک ریاست کے اندر رہنے والے لوگ ایک قوم ہیں۔ یورپ میں یہ تصور جس طرح وجود میں آیا اور جس طرح اس نے پرانے نظام کی جگہ لی، اس پس منظر میں یورپ کی حد تک اس تصور سے کوئی بڑا مسئلہ پیدا نہیں ہوا، اگرچہ کہیں کہیں ایک ریاست کے اندر رہنے والے لوگ خود کو ”الگ قوم“ متصور کرکے ”آزادی“ حاصل کرنے اور ”الگ ریاست“ کی تشکیل کے لیے آواز بلند کرتے رہے۔ البتہ جب یورپی اقوام کے قبضے کے خلاف ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ میں مزاحمت کا سلسلہ شروع ہوا تو ”قومی آزادی کی جنگ“ (War of National Liberation) کے جواز اور عدم جواز پر بحث بھی شروع ہوئی۔

    ظاہر ہے کہ قابض قوتیں ابتدا میں اس کے جواز کی قائل نہیں ہوسکتی تھیں، اور چوں کہ بیسویں صدی کے ربع اول تک یورپی قوموں کا تصور یہی تھا کہ ریاست کو جنگ شروع کرنے کا مطلق اختیار ہے جو اس کے اقتدار اعلی (Sovereignty)کا لازمی نتیجہ ہے، اس لیے یورپی قبضے اور تسلط کے خلاف جہاں بھی مزاحمت ہوئی اسے ناجائز قرار دیا گیا اور مزاحمت کاروں کو ”دہشت گرد“ (Terrorists) کا خطاب دیا گیا۔ یہیں سے آزادی کی جنگ اور دہشت گردی کے تعلق پر بحث شروع ہوئی۔ پھر آزادی کی جنگ لڑنے والوں نے بھی دہشت گردی کے خطاب کو اپنے لیے اعزاز سمجھنا شروع کیا اور یہ بات مشہور ہوگئی کہ ایک شخص جسے دہشت گرد کہتا ہے وہ دوسرے کے نزدیک آزادی کی جنگ لڑنے والا مجاہد ہے:
    One man’s terrorist is another’s freedom fighter.

    پہلی جنگ عظیم کے خاتمے (1918ء) پر جو بین الاقوامی نظام وجود میں آیا اس میں آزادی کی جنگ اور حق خود ارادیت کی جد و جہد کی بحث کو ایک نیا رخ دیا۔

    اس جنگ عظیم میں ترکی اور جرمنی نے شکست کھائی اور ان کے زیر تسلط علاقوں پر برطانیہ، فرانس اور ان کے اتحادیوں کا قبضہ ہوگیا۔ جنگ کے دوران میں ہی انہوں نے مستقبل کے متعلق جن امور پر آپس میں اتفاق کیا تھا ان میں ایک امر یہ تھا کہ جنگ کے بعد ان علاقوں کو کس طرح تقسیم کرنا ہے، بالخصوص مشرق وسطی کے نقشے کو نئے سرے سے بنانے (Redrawing the Map of the Middle East) کا منصوبہ بنایا جاچکا تھا۔ اسی طرح افریقہ کے وہ علاقے جو اس وقت تک جرمنی کے قبضے میں تھے ان کی تقسیم کا بھی فیصلہ ہوچکا تھا۔ 1918ء میں ”میثاقِ مجلسِ اقوام“ (Covenant of the League of Nations) کے ذریعے ایک عالمی تنظیم قائم کی گئی۔ ان علاقوں کی تقسیم کے لیے میثاق کے تحت ایک ”نظامِ انتداب“ (Mandate System) وضع کیا گیا جس کے تحت طے پایا کہ یہ علاقے مختلف یورپی طاقتوں کو بطور ”ذمہ داری“ (Mandate) دیے جائیں گے اور ان یورپی طاقتوں کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ ان علاقوں کے لوگوں کو اپنی حکومت خود چلانے (Self-rule) کا اہل بنائیں اور اس مقصد کے لیے ان کی تربیت کریں۔ پھر جب وہ اس کے اہل ہوجائیں گے تو یورپی طاقتیں ان پر قبضہ ختم کرلیں گی۔ یوں دو صدیوں سے جاری ظلم و استحصال کو ایک قانونی شکل دے دی گئی۔

    اس نظام کے تحت مقبوضہ علاقوں کو تین درجوں میں تقسیم کیا گیا:

    درجۂ اول (Mandate ‘A’): اس درجے میں رکھے گئے علاقوں کو کاغذات کی حد تک یہ حق دیا گیا کہ وہ اپنے اوپر قبضے کے لیے یورپی طاقتوں میں کسی کو اپنی مرضی سے چن سکتے ہیں۔ ویسے عملاً ایسا کچھ نہیں ہوا اور عراق کے امیر فیصل نے فرانس جاکر جب اس سلسلے میں مذاکرات کی کوشش کی تو کسی نے اس کی بات سنی ہی نہیں۔ ان علاقوں میں قابض یورپی طاقت کی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ ان علاقوں کے لوگوں کو ”انتظامی امور میں مشورے اور تعاون“دیں یہاں تک کہ یہ خود اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے اہل ہوجائیں۔ عرب علاقے جو اس وقت تک عثمانی سلطنت کا حصہ تھے اس درجے میں رکھے گئے۔ شام کا علاقہ فرانس کے سپرد کیا گیا جبکہ عراق، فلسطین اور دریائے اردن کے پار کا علاقہ برطانیہ کو دیا گیا۔ یاد رہے کہ 1917ء میں برطانوی وزیر خارجہ بالفور نے عالمی صہیونی تنظیم کے سربراہ کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ جنگ کے خاتمے پر برطانیہ فلسطین میں یہودیوں کے لیے ”قومی وطن“ (National Home) کی تشکیل میں ہر ممکن مدد دے گا۔

    درجۂ دوم (Mandate ‘B’): اس درجے میں زیادہ تر افریقہ کے وہ علاقے رکھے گئے جو اس وقت تک جرمنی کے مقبوضہ جات تھے۔ ان علاقوں کو مجلس اقوام کی تمام ممبر ریاستوں کی تجارت کے لیے آزاد رکھا گیا۔ البتہ قابض ریاستوں کی ذمہ داری قرار دی گئی کہ وہ ان علاقوں میں غلاموں کی تجارت اور اسلحے کی ترسیل ختم کرنے کی کوشش کریں۔ ٹانگانائیکا کو برطانیہ، بیلجیم اور پرتگال میں، جبکہ کیمرون اور ٹوگولینڈ کو برطانیہ اور فرانس میں تقسیم کردیا گیا۔

    درجۂ سوم (Mandate ‘C’): اس درجے میں مغربی افریقہ اور بحر الکاہل میں جرمنی کے سابقہ مقبوضہ جات کو رکھا گیا۔ مغربی افریقہ کے علاقوں کو جنوبی افریقہ کے حوالے کیا گیا جبکہ بحر الکاہل کے علاقوں کو آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور جاپان میں تقسیم کیا گیا۔ مجلس اقوام کی ممبر ریاستوں کو ان علاقوں میں تجارت کی قطعاً اجازت نہیں تھی۔ واضح رہے کہ درجۂ دوم اور درجۂ سوم کے علاقوں کے لوگوں کو قابض فوج میں ملازمت کی اجازت بھی نہیں تھی۔

    یہاں اس بات کی وضاحت ضروری محسوس ہوتی ہے کہ پہلی جنگ عظیم سے قبل ان یورپی طاقتوں نے جن علاقوں پر قبضہ کیا تھا ان پر وہ اپنا قبضہ قانونی طور پر جائز اور مستقل سمجھتی تھیں اور انتداب کا نظام ان کے لیے نہیں تھا۔ چنانچہ مثال کے طور پر برصغیر کو 1857ء سے ”برطانیۂ عظمی“کا حصہ سمجھا جاتا تھا اور اسے ”برطانوی ہند“ کہا جاتا تھا۔ برطانیہ کے بادشاہ کے القابات میں ایک لقب ”شہنشاہِ ہند“ کا بھی تھا۔

    1919ء کے ورسائی معاہدے (Treaty of Versailles) میں یورپ کی حد تک علاقائی تنازعات کے حل بھی کوشش کی گئی۔ چنانچہ جرمنی کے مقبوضہ علاقے ”طاس ِسار“ (Saar Basin) کو فرانس کے قبضے میں دیا گیا تاکہ جرمنی کے حملے سے فرانس کو جو نقصان پہنچا اس کی تلافی ہوسکے! البتہ ساتھ ہی طے پایا کہ اس علاقے کے لوگوں سے پندرہ سال بعد استصواب رائے (Plebiscite) کیا جائے گا۔ 1935ء میں کیے گئے استصواب رائے میں لوگوں کی غالب اکثریت نے جرمنی کے ساتھ الحاق کے حق میں رائے دی۔

    1864ء میں جرمنی نے ڈنمارک سے شمالی اور مرکزی شلیز وگ (Schlezwig) کے علاقے قبضے میں لیے تھے۔ یہاں جب استصواب رائے کیا گیا تو شمالی علاقے نے ڈنمارک کے ساتھ اور مرکزی علاقے نے جرمنی کے ساتھ الحاق کو اختیار کیا۔

    ایک اور استصواب رائے کے ذریعے بالائی سلیشیا (Upper Silesia) کو جرمنی اور پولینڈ کے درمیان تقسیم کردیا گیا۔

    1917ء میں امریکی صدر ووڈرو ولسن نے یورپی طاقتوں کو تنبیہ کی تھی کہ اگر انہوں نے مقبوضہ علاقوں میں بندربانٹ کی اور لوگوں کی خواہشات اور حقوق کا خیال نہ رکھا تو ان علاقوں میں کبھی امن قائم نہیں ہوسکے گا اور یہ دنیا کے امن کے لیے بھی خطرے کا باعث بنیں گے۔ ولسن کے ان الفاظ کو حق خود ارادایت کی بہترین وضاحت سمجھا جاتا ہے:

    We beleive first, that every people have the right to choose the sovereignty under which it shall live; second, that the small states of the world have a right to enjoy the same respect for their sovereignty and for their territorial integrity that the powerful nations expect and insist upon; third, that the world has a right to be free from every disturbance of its peace that has its origin in aggression and disregard of the right of peoples and nations.

    (ہم یقین رکھتے ہیں اولاً کہ تمام لوگوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ خود اپنے لیے وہ حکومت پسند کریں جس کے تحت وہ رہنا چاہتے ہیں؛ ثانیاً کہ دنیا کی چھوٹی ریاستیں اپنے اقتدار اعلی اور اپنی علاقائی سا لمیت کے احترام کا اتنا ہی حق رکھتی ہیں جتنا بڑی طاقتیں اپنے لیے توقع رکھتی ہیں اور اصرار کرتی ہیں؛ ثالثاً کہ دنیا کویہ حق حاصل ہے کہ اس کا امن ہر طرح کی خرابی سے محفوظ رہے جس کی جڑیں جارحیت اور لوگوں اور اقوام کے حقوق کے عدم احترام میں پائی جاتی ہیں۔)

    No peace can last, or ought to last, which does not accept the principle that governments derive all their just powers from the consent of the governed, and that no right anywhere exists to hand people from sovereignty to sovereignty as if they were property.

    (کوئی امن اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتا، نہ ہی قائم ہونا چاہیے، جب تک اس کی بنیاد اصول کے تسلیم کرنے پر نہ ہو کہ حکومتیں اپنے تمام جائز اختیارات عوام کی رضامندی سے حاصل کرتی ہیں اور کوئی ایسا حق کہیں پایا نہیں جاتا جس کے تحت لوگوں کو ایک حکومت سے دوسری حکومت کے حوالے یوں کیا جائے جیسے وہ انسان نہیں بلکہ اموال ہوں۔ )

    اپنے مشہور ”چودہ نکات“میں ولسن نے ایک طرف آسٹریا اور ہنگری کے لوگوں کے لیے ”زیادہ سے زیادہ“آزادی کے مواقع دینے کی بات کی اور رومانیہ، سربیا اور مونٹے نیگرو سے غیر ملکی فوجوں کے مکمل انخلا کو ضروری قرار دیا تو دوسری طرف اس پر بھی زور دیا کہ عثمانی سلطنت میں موجود ”ترک علاقوں“ پر مشتمل ریاست کی خودمختاری کو محفوظ بنانا نہایت ضروری ہے۔

    دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک طرف ولسن نے حق خود ارادیت کا چیمپئن بننے کی کوشش کی اور دوسری طرف امریکی حکومت نے روسی صدر لینن کو اس بنا پر مذمت کا نشانہ بنایا ہوا تھا کہ لینن نے افریقہ اور ایشیا کی تمام اقوام کے حق خود ارادیت کو تسلیم کرنے پر زور دیا تھا۔ امریکی وزیر خارجہ لینزگ نے صراحتاً قرار دیا کہ اگر حق خود ارادیت کو افریقہ اور ایشیا کی اقوام کے لیے تسلیم کیا گیا تو مستقبل کا عالمی نظام عدم استحکام کا شکار ہوجائے گا۔

    اس سے معلوم ہوا کہ امریکی صدر نے جس حق خود ارادیت کی بات کی اس سے مراد صرف یورپی اقوام کا حق خود ارادیت تھا! یہی وہ دوہرا معیار ہے جو حق خود ارادیت کی جد و جہد اور آزادی کی جنگ کے سلسلے میں مغربی طاقتوں کی پالیسی کا رکن ِ رکین رہا ہے۔ چنانچہ مثال کے طور پر 1941ء میں امریکی صدر اور برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل نے ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا جسے ”منشور اوقیانوس“ (Atlantic Charter) کہا جاتا ہے۔ اس منشور میں بشمول دیگر امور کے کہا گیا:

    They desire to see no territorial changes that do not accord with the freely expressed wishes of the people concerned. They respect the right of all peoples to choose the form of geovernment under which they live; and they wish to see sovereign rights and self-government to those who have been forcibly deprived of them.

    (وہ کوئی ایسی جغرافیائی تبدیلی دیکھنا نہیں چاہتے جو لوگوں کی مرضی کے آزادانہ اظہار کے مطابق نہ ہو۔ وہ تمام لوگوں کے اپنی پسند کی حکومت کے تحت رہنے کا حق کا احترام کرتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ جن لوگوں کو جبراً اقتدار اعلی اور اپنی حکومت سے محروم کیا گیا ہے انہیں یہ حقوق پھر میسر ہوں۔ )

    تاہم بعد میں چرچل نے دار العوام سے خطاب کے دوران میں قرار دیا کہ یہ وعدہ صرف یورپی اقوام کے لیے اور ان کے لیے کیا گیا تھا جو جرمن نازی مظالم کے تحت گھرے ہوئے تھے۔

    1945ء میں دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر اقوام متحدہ کی تنظیم وجود میں لائی گئی۔ اس تنظیم کے منشور میں حق خود ارادیت کو تمام انسانوں کا بنیادی حق قرار دیا گیا۔ اگرچہ یورپی قابض طاقتوں، بالخصوص بیلجیم نے اس شق پر بہت اعتراض کیا تھا لیکن اس شق کو منشور سے حذف نہیں کیا گیا۔ تاہم ان قابض طاقتوں کے دباؤ کی وجہ سے اصل شق میں تبدیلی کی گئی اور ایک نسبتاً کمزور شق منشور میں داخل کی گئی۔

    منشور کے تحت ”لوگوں کے حق خود ارادیت کے احترام پر مبنی بین الاقوامی تعلقات“ کی تشکیل کو تنظیم کا بنیادی مقصد قرار دیا گیا۔ منشور نے تمام چھوٹی بڑی ریاستوں کے لیے مساوات کا اصول بھی تسلیم کیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ریاستوں کے ”اندرونی معاملات“میں مداخلت کو ناجائز بھی قرار دیا ہے۔ منشور میں یہ بھی تسلیم کیا گیا ہے کہ دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں کے حق خود ارادیت کا احترام کیا جائے۔ واضح رہے کہ منشور کے تحت تمام رکن ریاستوں پر لازم کیا گیا ہے کہ وہ انفرادی طور پر اور اجتماعی طور پر تنظیم کے بنیادی مقاصد کے حصول کے لیے کوشش کریں۔

    اقوام متحدہ کی تنظیم کے قیام کے وقت چوہتر (۴۷) علاقے ایسے تھے جن کو Non-self-governing territories کہا جاتا تھا، یعنی وہ علاقے جن پر وہاں کے لوگوں کی اپنی حکومت نہیں ہے۔ منشور کے گیارھویں باب میں ان علاقوں کو ان کے اوپر قابض طاقتوں کے پاس ”امانت“ (Trust) قرار دیا گیا اور ان کی ذمہ داری یہ قرار دی گئی کہ وہ ان علاقوں کے لوگوں کی بہبود اور ترقی کا خیال رکھیں گے۔ میثاقِ مجلسِ اقوام کے نظامِ انتداب کو اب منشور کے بارھویں باب کے تحت ”نظامِ امانت“ (Trusteeship System) میں تبدیل کردیا گیا اور اس کی نگرانی کے لیے تیرھویں باب کے تحت Trusteeship Council قائم کی گئی۔ نظامِ انتداب کے تحت جو علاقے ایسی طاقتوں کو دیے گئے تھے جنہوں نے دوسری جنگ عظیم میں شکست کھائی ان کو اب اس نئے نظام کے تحت دیگر ریاستوں کو دیا گیا۔ ان Trust Territories کی تعداد گیارہ تھی۔

    اس نظام کے تحت مشرقی تیمور کا علاقہ بھی تھا جس پر انڈونیشیا اور پرتگال کا تنازعہ بھی تھا۔ انڈونیشیا نے مشرقی تیمور کے لیے اندرونی خود مختاری کا بھی وعدہ کیا لیکن اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کے مطابق جب 1999ء میں مشرقی تیمور کے لوگوں سے استصواب رائے کیا گیا تو ان کی اکثریت نے آزادی کو ترجیح دی۔

    فلسطین اور ماورائے اردن کا علاقہ 1918ء سے برطانوی انتداب کے تحت تھا۔ 1948ء میں برطانیہ نے اقوام متحدہ کے سامنے اپنی معذوری ظاہر کی اور کہا کہ اب وہ انتداب کی ذمہ داری مزید اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس دوران میں صہیونی تنظیم کے پیروکاروں کی کاوشوں سے برطانیہ، امریکا، فرانس اور دیگر مغربی طاقتوں کے تعاون اور مدد اور جرمن نازیوں کے مظالم کی وجہ سے لاکھوں کی تعداد میں یہودی دنیا کے کونے کونے سے فلسطین میں آبادکاری کے لیے پہنچ گئے تھے۔ ان کے اور مقامی عرب آبادی کے درمیان خونریز جھڑپیں بھی ہوتی رہیں۔ بعض یہودیوں نے عرب آبادی اور برطانوی حکومتی اہلکاروں پر حملوں کے لیے تنظیمیں بھی بنائیں۔ بالآخر جب معاملہ اقوام متحدہ کے سامنے پیش ہوا تو جنرل اسمبلی نے فلسطین کو یہودیوں اور عربوں کے درمیان تقسیم کا فیصلہ کرلیا۔ واضح رہے کہ اس وقت جنرل اسمبلی میں اکثریت مغربی ممالک اور ان کے اتحادیوں کی تھی۔ اس تقسیم کے اعلان کے ساتھ فسادات پھوٹ پڑے۔ برطانیہ نے فلسطین سے نکلنے کا اعلان کیا لیکن صہیونی تنظیم کی باقاعدہ مدد جاری رکھی۔ مئی 1948ء میں صہیونی تنظیم بالآخر ریاست اسرائیل کے قیام کا اعلان کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ عربوں کو جنگ میں شکست ہو گئی۔ البتہ یروشلم اور ماورائے دریائے اردن کے علاقے پر ہاشمی امیر عبد اللہ کی حکومت برقرار رہی۔

    1956ء میں نہر سویز کے بحران کے موقع پر اسرائیل، برطانیہ اور فرانس نے مشترکہ طور پر مصر پر حملہ کیا لیکن عالمی دباؤ کے نتیجے میں انہیں واپس ہٹنا پڑا۔ اس جنگ کا اور کوئی نتیجہ نکلا ہو یا نہ نکلا ہو، لیکن اتنا ضرور ہوا کہ عرب قوم پرستی کو مزید تقویت ملی اور جمال عبد الناصر کو قوم پرستی کے اس مذہب کے پیغمبر کی حیثیت حاصل ہوگئی۔ 1967ء میں تیسری جنگ کے موقع پر عربوں کی مشترک طاقت کو عبرتناک اور انتہائی ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا اور اسرائیل نے مزید کئی علاقوں پر قبضہ قائم کرلیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ یروشلم پر اسرائیل کا قبضہ ہوا۔ اس قبضے کے بعد ”عرب اسرائیل“ تنازعے نے ”فلسطیینوں اور یہودیوں“ کے تنازعے کی شکل اختیار کرلی۔ یہاں یہ بات ذکر کرنا ضروری ہے کہ 1967ء کی جنگ میں جو علاقے اسرائیل نے قبضے میں لیے یروشلم سمیت ان تمام علاقوں پر اسرائیل کا قبضہ اقوام متحدہ کے موقف کے مطابق ناجائز ہے اور وہ ریاست اسرائیل کا حصہ نہیں ہیں، بلکہ ان علاقوں میں اسرائیل کو قابض طاقت (Occupying Power) کی حیثیت حاصل ہے۔

    ”برطانوی ہند“ کا تعلق نظام انتداب سے نہیں تھا۔ تاہم دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ کے لیے ہندوستان پر قبضہ برقرار رکھنا ناممکن ہوگیا تھا۔ چنانچہ برطانوی حکومت نے ہندوستان پر قبضہ ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ ہندوستانی سیاستدانوں کا اس امر پر اختلاف تھا کہ برطانیہ کے قبضے کے خاتمے پر کیا ہندوستان ایک سیاسی وحدت کے طور پر برقرار رہے یا اسے تقسیم کردیا جائے۔ 1946ء کے انتخابات میں مسلم لیگ کی کامیابی نے تقسیم کی راہ ہموار کردی جس کو روکنے کی آخری کوشش کے لیے برطانیہ نے تین وزراء بھجوائے لیکن پنڈت نہرو کی ایک بھیانک سیاسی غلطی نے تقسیم کو یقینی کردیا۔

    برطانوی ہند میں کچھ علاقے ایسے تھے جن پر برطانیہ کا مکمل کنٹرول تھا اور کچھ علاقوں میں مقامی سرداروں، نوابوں، راجوں، شہزادوں اور والیان کا اختیار تسلیم کیا گیا تھا۔ ان مؤخر الذکر علاقوں کو ”شاہی ریاستیں“ (Princely States) کہا جاتا تھا۔

    جون 1947ء میں ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے تقسیم ہند کا جو منصوبہ پیش کیا اس کے تحت طے پایا کہ چونکہ بنگال اور پنجاب کے صوبوں میں ایک طرف مسلمانوں کی اکثریت ہے اور دوسری طرف غیر مسلموں کی، اس لیے اگر وہاں کی اسمبلیاں تقسیم کا فیصلہ کریں تو پھر ان صوبوں کو تقسیم کرکے مسلم اکثریتی علاقے پاکستان میں اور ہندو اکثریتی علاقے بھارت میں شامل کردیے جائیں گے۔ صوبہ سرحد کے متعلق فیصلہ کیا گیا کہ یہاں کے عوام سے استصواب رائے کیا جائے گا کہ وہ پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں یا بھارت کے ساتھ۔ یہ فیصلہ اس بنا پر کیا گیا کہ اس صوبے میں کانگریس کے اتحادی سرخپوشوں کی حکومت تھی، حالانکہ یہاں کی آبادی کی انتہائی غالب اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ استصواب رائے میں لوگوں کی غالب اکثریت نے پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کے حق میں ووٹ دیا۔

    شاہی ریاستوں کے سربراہان کو حق دیا گیا کہ بھارت یا پاکستان میں کسی کے ساتھ شامل ہونے کا فیصلہ کرلیں۔ اگرچہ بعض ریاستوں کے سربراہان نے خود مختار رہنے کا آپشن بھی مانگا مگر اسے تسلیم نہیں کیا گیا۔ اکثر ریاستوں کی جغرافیائی پوزیشن ایسی تھی کہ ان کے سربراہان کے پاس عملاً کوئی آپشن نہیں تھا۔ مثال کے طور پر سوات کی ریاست کا الحاق لازماً پاکستان سے ہونا تھا اور جوناگڑھ کا الحاق لازماً بھارت سے ہی ہونا تھا۔ البتہ جموں و کشمیر کی ریاست ایسی تھی جس کے سربراہ کے پاس یقینا یہ موقع تھا کہ وہ پاکستان یا بھارت میں کسی کے ساتھ بھی شامل ہونے کا فیصلہ کرسکتا تھا، اور یہی تنازعے کا باعث بنا۔ پھر جب تنازعے نے جنگ کی شکل اختیار کرلی اور معاملہ سلامتی کونسل کے پاس چلا گیا تو سلامتی کونسل نے فیصلہ کیا کہ جموں و کشمیر کے عوام سے استصواب رائے کیا جائے۔ یوں پہلی دفعہ حق خود ارادیت کا معاملہ نظام انتداب اور نظام امانت سے باہر علاقوں تک بھی چلا گیا۔
    (موضوع کے اعتبار سے اس اہم مضمون کا اگلا حصہ آپ کل ملاحظہ کرسکیں گے)