Tag: کمیونزم

  • اسلام کو دیس نکالا دیا جائے – آصف رندھاوا

    اسلام کو دیس نکالا دیا جائے – آصف رندھاوا

    اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو فرد واحد سے لے کر معاشرے کے ہر شعبہ ہائے زندگی میں رہنمائی کرتا ہے کیونکہ یہ خالق کا بنایا ہوا ہے جو انسان کی بحثیت انفرادی اور اجتماعی زندگی کی ضرورتوں سے واقف تھا، اس لیے اس مالک کائنات نے اسلام کو بنی نوع انسان کے لیے پسند کیا اور عملی نمونہ پیغمبر ﷺ کے ذریعے فراہم کیا اور بے شک آپ ﷺ کے اسوہ حسنہ پر عمل ہی دنیا و آخرت کی کامیابی کی ضمانت ملتی ہے لیکن جب جب انسان نے اس رہنمائی اور طریق کار (سنت) کو پس پشت ڈالا اور اپنی عقل و دانش کو معیار بنایا تو ٹھوکر کھا بیٹھا کیمونزم سوشلزم کے نظام آئے، پذیرائی بھی ملی مگر چند سال ہی، اور اب کیپٹل ازم کا نظام جس نے معاشرے کی خلیج کو کچھ اور بڑھاوا دیا، امیر کو امیر تر اور غریب کو نوالے نوالے کا محتاج کر دیا. کیمونزم اور سوشلزم کے پرچارک وہ تمام فکری یتیم جو کیمونزم کی گود میں پیدا ہوئے اور اس کے ترانے گاتے اور پرچم لہراتے جوان ہوئے، اب لے پالکوں کی کی طرح کیپٹل ازم کی گود میں پڑے نظر آتے ہیں اور وہی راگ الاپتے ہیں جو کل وہ کیمونزم کے لیے الاپ رہے تھے. اب نظام سرمایہ درانہ ہے لیکن اس کی راہ میں ابھی ایک رکاوٹ باقی ہے اور وہ ہے مذہب، جو حائل ہو جاتا ہے، حلال حرام، جائز و ناجائز، ذخیراندوزی، ناجائز منافع خوری، سود اور دوسرے تمام غیر اخلاقی افعال کے درمیان، اب اس مذہب کو معاشرتی یا اجتماعی زندگی سے نکالنے کے لیے سیکولر طبقہ معرض وجود میں لایا گیا جس نے خوش نما اصطلاحات اور پر فریب نعروں سے لوگوں کو بہلانے پھسلانے کا کام شروع کیا.

    اگر آپ یہودی پروٹوکول کا مطالعہ کریں تو اس میں بھی دانشوران یہود یہی فرماتے نظر آئیں گے کہ اپنے مکروہ مقاصد کو خوبصورت الفاظ اور نعروں میں چھپاؤ تاکہ عوامی سطح پر مخالفت کم ہو، جس کی چند عام فہم مثالیں روشن خیالی، آزادی اظہار رائے وغیرھم ہیں، لیکن اگر ان کی گہرائی اور گیرائی میں اترا جائے تو اندر سے وہی مکروہ مقاصد ہی برآمد ہوں گے، جن کا اول و آخر ہدف معاشرے کی تباہی ہی نکلتا ہے، مغرب نے اس کا مزہ چکھ لیا، جہاں معاشرے اور خاندان اپنا وجود کھو چکے ہیں، اب یہی کام اسلامی ممالک میں کرنے کی سعی کی جا رہی ہے کہ مذہب کو معاشرتی زندگی سے نکال کر ایک مادر پدر آزاد معاشرہ تشکیل دیا جائے. ایسا کون چاہتا ہے، اس کو سمجھنا کوئی راکٹ سائنس نہیں.

    اس میں ایک گروہ تو وہ ہے جس کا تعلق ایلیٹ کلاس سے ہے، جس کے پاس دھن دولت کے انبار ہیں، لیکن دنیاوی لذتیں کشید کرنے کی راہ میں حائل مذہب ہے، اس لیے ان سے نماز روزے کی بات کی جائے تو ارشاد ہوتا ہے کہ یہ اللہ اور بندے کا معاملہ ہے، آپ کون ہوتے ہو پوچھنے والے؟

    ثانی الذکر گروہ سامراج کے ان فرستادوں پر مشتمل ہے جن کو اسلام مخالف قوتوں نے ہائر کر رکھا ہے، یہ لوگ انفرادی سطح پر بھی پائے جاتے ہیں اور این جی اوز کی شکل میں بھی، اپنے آپ کو انسانی حقوق کا علمبردار کہلاتے ہیں، اور حق نمک ادا کرنے کے لیے وقتا فوقتا قرارداد مقاصد پر مباحثہ کرتے ہیں، جو ان کے گلے میں ہڈی کی طرح پھنسی ہے، نہ نگل پاتے ہیں نہ اگل پاتے ہیں، کبھی قائد کی 11 اگست کی تقریر کو لے کے بیٹھ جاتے ہیں، ان کا کام عوام میں کنفیوژن پھیلانا، حل شدہ مسائل پر بحث کرنا، دور دور کی کوڑیاں لانا اور گھسے پٹے دلائل کی جگالی کرتے رہنا ہے، فرد کے حقوق اور اخوت و مساوات کی بات کرنا لیکن نشانہ ہمیشہ اسلام کو بنانا، منافقت کے یہ پتلے کشمیر افغانستان عراق شام فلسطین کے مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر چپ کا روزہ رکھ لیتے ہیں، اس کےلیے بھی ملا اور مدرسہ کو مطعون کرتے ہیں.

    اور آخری گروہ ان سامراجی قوتوں کا ہے جو اپنے خاندانی اور معاشرتی نظام کو تو تباہ کر چکے ہیں، اب ان کی کوشش و کاوش اور وسائل مسلم معاشروں کو تباہ کرنے پر صرف ہو رہے ہیں اور ملکوں ملکوں پھیلے ان کے گماشتے ان کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں، بلکہ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بن کے دکھا رہے ہیں ہیں، پاکستانی لبرلز پاکستان میں کس طرح کا نظام چاہتے ہیں، اس پر پھر کبھی سہی لیکن ایک بات طے شدہ ہے کہ پاکستانی لبرلز کی پہلی اور آخری خواہش صرف اتنی سی ہے کہ اسلام کو دیس نکالا دیا جائے تاکہ ان کو کھل کھیلنے کے مواقع میسر آ سکیں.

  • ضیاء الحق سے نفرت کی وجہ کیا ہے؟ ارشد زمان

    ضیاء الحق سے نفرت کی وجہ کیا ہے؟ ارشد زمان

    ارشد زمان جنرل ضیاء الحق مرحوم کی آمریت، ایم کیو ایم کی تخلیق اور دیگر کئی پالیسیوں اور فیصلوں سے شدید اختلاف کے باوجود انھیں پاکستان بلکہ دنیا کی تمام تر خرابیوں اور انتہاپسندی، دہشت گردی، لسانیت اور فرقہ واریت کا ذمہ دار ٹھہرانا قرین انصاف نہیں ہے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ داعش کو بھی بعض حضرات نے ضیاء الحق کے کھاتے میں ڈال دیا ہے، اس سے ان کی نفرت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

    ضیاءالحق سے بغض رکھنے والوں میں ایک وہ پکے کیمونسٹ یا کیمونزم سے متاثر لوگ ہیں جو کیمونزم کے بت پاش پاش ہونے اور سویت یونین کے حصے بخرے ہونے پہ دل گرفتہ ہیں اور اس کا ذمہ دار ضیاء الحق اور افغان جہاد کو سمجھتے ہیں، اس لیے بھڑاس نکالنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ دوسرے وہ سیکولر حضرات ہیں جو دراصل دل میں اسلام سے پرخاش رکھتے ہیں اور جہاد کو کسی صورت برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ پہلے یہ طبقات روس کی گود میں بیٹھے روبلز سے جی بہلا رہے تھے اور اب روس سے باقاعدہ طلاق لیے بغیر مغرب اور امریکہ کے ساتھ ہنی مون منانے سے لطف اندوز ہو رہے ہیں جبکہ تیسرے وہ روشن خیال اور ماڈریٹ دوست ہیں جو کسی بھی نظام کے ساتھ کشمکش سے جی کتراتے ہیں اور حکمت و مفاہمت کےنام پر صرف ’’امن‘‘ کے ساتھ جینے کے قائل ہیں، نفاذ اسلام، اقامت دین، اسلامی ریاست اور جہاد کی اصطلاحات سے انھیں چڑ ہے اور دنیا کی تمام تر انتہاپسندی اور ریاستی دہشت گردی تک کو وہ اسی فکر کا نتیجہ گردانتے ہیں۔

    کیا یہ سوالات قابل غور نہیں ہے کہ
    ضیاءالحق کے دور سے پہلے پاکستان میں کون سی دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی تھیں؟
    کیا مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا ذمہ دار ضیاءالحق ہے؟
    کیا سندھو دیش، آزاد بلوچستان اور پختونستان کے نعرے پہلے کبھی نھی لگے؟
    کیا ضیاءالحق پہلا اور آخری ڈکٹیٹر ہے؟
    کیا وسطی ایشیا کے ممالک کو روس نے ضیاءالحق کی وجہ سے ہڑپ کر رکھا تھا؟
    کیا افغانستان پر جارحیت روس نے ضیاء الحق کی دعوت پر کی تھی؟
    کیا فرقہ واریت، انتہاپسندی اور دہشت گردی صرف پاکستان کا مسئلہ ہے؟
    کیا فلسطین، شام، شیشان، برما، عراق وغیرہ میں ریاستی دہشت گردی کا ذمہ دار بھی ضیاء الحق ہے؟

    اس بات کا بھی سنجیدہ اور منصفانہ تجزیہ کرنا ضروری ہے کہ نائن الیون سے پہلے اور بعد کے حالات میں دہشت گردی کی کیفیت، حالت اور حجم کیا رہا ہے؟
    کیا موجودہ حالات سے پرویز مشرف بالکل بری الذمہ ہے؟

    افغان جہاد اور مجاہدین کی ’’تخلیق‘‘ کا باقاعدہ عمل تو ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے دور میں شروع ہوچکا تھا جبکہ طالبان کی تخلیق کار محترمہ بےنظیر بھٹو تھیں جس پر انھیں فخر بھی تھا اور انھیں ہمارے بچے گردانتی تھیں۔

    یہ بھی نہایت اہم سوال ہے کہ ضیاء الحق کی پالیسیوں کو ’’سیکولر ولبرل حضرات‘‘ نے کیوں برقرار رکھا بلکہ پوری شدت کے ساتھ جاری رکھا؟
    معلوم ہوتا ہے کہ معاملہ ضیاء الحق کے بجائے کچھ اور ہے۔
    کیمونزم کا انہدام
    سویت یونین کا بکھر جانا
    سیکولرازم کی ناکامی
    اور
    اسلامی احیاء کی تحریکات کی بڑھوتری
    نفاذ اسلام، اسلامی ریاست کے قیام اور اسلامی احکامات پر عملدرآمد۔

    اسلام کی وجہ سے جنرل ضیاء الحق اور ملا آج تک ہدف کے طور پر چلے آ رہے ہیں

  • سرمائے کی منصفانہ تقسیم – کامران امین

    سرمائے کی منصفانہ تقسیم – کامران امین

    کامران امین اس وقت دنیا کے معاشی نظام پر سرمایہ داری کی حکومت ہے۔ اگر چہ سرمایہ داری کے بہت سارے فائدے ہیں اور بظاہراس کے زیراثر عالمی معیشت نے گراں قدر ترقی کی ہے لیکن کیا یہ ترقی واقعی ترقی ہے؟ اس سوال کو آج کے لیے ایک طرف رکھ کر سرمایہ دارانہ نظام کے کچھ نقصانات پر توجہ کرتے ہیں:

    سرمایہ دارانہ نظام میں خدمات اور اشیاء کے بدلے فرد کو اس کی مرضی کے مطابق رقم کی شکل میں منافع دیا جاتا ہے۔ جس شخص کے پاس زیادہ سرمایہ ہوگا وہ زیادہ اشیاء خرید کر مارکیٹ میں لا سکے گا اور من مرضی کا منافع وصول کر سکےگا۔ یہ سرمایہ دار کی مرضی ہے کہ وہ چاہے تو منافع کو دوبارہ مارکیٹ میں لے کر آئے یا پھر اسے اپنے پاس محفوظ کر لے۔ جس کے پاس مارکیٹ میں لگانے کے لیے سرمایہ نہیں وہ اپنی خدمات سرمایہ دار کو فروخت کر کے اس سے منافع لے سکتا ہے لیکن اس صورت میں بھی خدمات کی قیمت اکثر سرمایہ دار ہی طے کرتا ہے۔ حکومت اپنی ضروریات پوری کرنے اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے سرمایہ دار پر ٹیکس لگاتی ہے۔ اس سے حاصل ہونے والی آمدنی غریبوں پر خرچ ہوتی ہے لیکن حکومت میں آنے کے لیے بھی سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے جو اکثر سرمایہ دار ہی فراہم کرتے ہیں اس لیے یہ ٹیکس کی شرح بھی سرمایہ دار کی مرضی کی ہی ہوتی ہے اور حکومت محض سرمایہ دار کی غلام بن کر رہ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ چونکہ سرمایہ دار کو اپنی مرضی کا منافع وصول کرنے کی آزادی ہوتی ہے اس لیے سرمایہ دار امیر سے امیر تر اور غریب، اور بھی زیادہ غریب ہوتا جاتا ہے۔ سرمایہ دار اپنے سرمائے کی بنیاد پر معاشرے میں باقی تمام طبقات کا استحصال کرنے کے لیے مکمل طور پر آزاد ہوتا ہے۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ سرمایہ صرف چند ہاتھوں میں کھیل رہا ہوتا ہے جنہیں ہم سرمایہ دار کہتے ہیں اور باقی سب لوگ سرمایہ دار کے غلام.

    صنعتی انقلاب کے بعد یورپ میں سرمایہ دارانہ نظام نے جڑیں پکڑیں جس کے ردعمل میں کچھ اور نظریے بھی سامنے آئے۔ ان میں سے مشہور ترین کارل مارکس کا پیش کردہ کمیونزم ہے۔ مارکس کے پیش کردہ نظریے کے مطابق تاریخ کی ابتدا میں انسانی معاشرہ سوشلسٹ تھا، پھر انسانی ہوس نے دوسروں کے مال ہتھیانے شروع کیے تو سرمایہ دارانہ نظام نے اپنی جگہ بنا لی۔ لیکن اگر انسانی معاشرے کو تباہی سے بچنا ہے تو اسے دوبارہ سوشلزم کی طرف لوٹنا پڑے گا۔ نہیں بلکہ سوشلزم کی ایک ترقی یافتہ شکل کمیونزم کی طرف۔ (چونکہ کمیونزم سے زیادہ سوشلزم نے دنیا میں جگہ بنائی اس لیے اگے والی ساری گفتگو کی بنیاد سوشلزم پر ہی ہوگی اگر چہ دونوں میں کافی سارا فرق بھی ہے )

    اس نظریے کے مطابق اگردنیا سے نا انصافی ختم کرنی ہے تو سرمائے کے ارتکاز کے بجائے منصفانہ تقسیم ضروری ہے اور سرمایہ کسی بھی صورت میں فرد کی ملکیت میں نہیں ہونا چاہیے۔ چنانچہ سوشلزم میں تمام پیداواری ذرائع حکومت کی ملکیت ہوتے ہیں۔ ہر فرد اور ادارہ اپنی صلاحیتوں کے مطابق کام کرتا ہے، طے شدہ معاوضہ اور مراعات وصول کرتا ہے۔ لیکن معاوضہ اور منافع کی شرح سوشلسٹ حکومت طے کرتی ہے نہ کہ سرمایہ دار۔ سرمایہ داری کے برعکس، سوشلزم فرد سے سارے اختیارات لے کر حکومت کے نام پر ایک اور فرد کو منتقل کر دیتا ہے اور پھر وہ خدا بن جاتا ہے۔ چونکہ پیداواری ذرائع فرد کی اپنی ملکیت نہیں ہوتے اس لیے فرد سرمایہ لگانے میں بھی ہچکچاتا ہے اور زیادہ منافع حاصل کرنے کی صورت میں حکومت کے پاس جمع کروانا پڑتا ہے اس لیے وہ مناسب دل لگا کر محنت بھی نہیں کرتا بلکہ ایک جبر کی فضا میں کام کرتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں جتنے اختیارات سرمایہ دار کے پاس ہوتے ہیں اس سے کئی گناہ زیادہ اختیارات سوشلسٹ حکومت کے پاس ہوتے ہیں۔ بعض دفعہ تو حکومت کے ٹیکس ظالمانہ حد تک پہنچ جاتے ہیں اور پھیر یہ ٹیکس وصول کرنے کے لیے حکومت ظالمانہ ہتھکنڈے اختیار کرتی ہے۔ شخصی آزادی کا دم گھٹ جاتا ہے اسی لیے سوشلسٹ ممالک میں عوام موقع ملتے ہی فوراً سرمایہ دارانہ ممالک میں ہجرت کو اپنے لیے نجات سمجھتے ہیں۔

    سوشلزم کی طرح اسلام بھی کسی صورت سرمائے کا ارتکاز نہیں چاہتا۔ قران کی تعلیمات کے مطابق سرمایہ ہر صورت میں مارکیٹ میں گردش کرتے رہنا چاہیے لیکن اسلام ہرگز کسی فرد یا حکومت کو لامحدود آزادی نہیں دیتا کہ وہ اپنی مرضی سے ظالمانہ قسم کے ٹیکس لگائیں اور پھر ظالمانہ ہتھکنڈوں سے اسے وصول کریں۔ اسی طرح اسلام فرد کو اپنی صلاحیت کے مطابق معاوضہ حاصل کرنے اور اس کی ملکیت کا پورا پورا حق دیتا ہے جس سے انسانی جبلت کی تسکین ہوتی ہے۔ لیجیے جناب سرمایہ اگر سرمایہ دار کی ملکیت ٹھہرا تو بات وہیں پر آ پہنچی. اسلام بھی تو سرمایہ داری کا ہی ایک ورژن نکلا ؟ سرمائے کا ارتکاز پھر کیسے ہو؟

    سرمائے کے ارتکاز کے لیے اسلام سوشلزم کے بر عکس انتہائی خوبصورت نظام پیش کرتا ہے جس سے فرد کی آزادی بھی متاثر نہیں ہوتی، اس کی جبلت کی بھی تسکین ہو جاتی ہے اور سرمائے کا ارتکاز بھی جاری رہتا ہے۔ سب سے پہلے تو سرمائے کی ایک مخصوص حد چھونے پر سرمایہ دار کو ایک مخصوص ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے جسے زکوۃ کہتے ہیں۔ یہ لازمی جز ہے جو حکومت وقت زبردستی بھی وصول کر سکتی ہے، اگر کوئی فرد نہ دے تو لیکن اس کی ایک مقدار اللہ کی طرف سے مقرر ہے جس میں کمی بیشی کا کسی فرد کو کوئی اختیار نہیں۔ اس کے علاوہ قرآن انسان کو ترغیب دیتا ہے کہ اللہ کی رضا، خوشنودی اور قرب کے حصول کے لیے امرا کو چاہیے کہ وہ صدقات کریں اور فقرا اور غربا میں بخششیں بانٹیں۔ درا صل یہ لوگوں کو بھیک پر پلنا نہیں سکھاتا بلکہ ایک طرف تو اس سے سرمایہ دار سے سرمایہ نکلوانا مقصود ہوتا ہے اور دوسری طرف ان صدقات کی صورت میں وصول ہونے والے سرمائے سے غریب بھی کوئی کام کاروبار شروع کر سکتے ہیں۔ ان نفلی صدقات کے علاوہ گناہ کے سرزد ہونے کی صورت میں کفارے کی مختلف صورتوں میں سے ایک صورت یہ بھی ہے کہ کچھ رقم یا کھانا غربا میں بانٹا جائے۔ جیسے غلامی کے دور میں مسلمان فقہا نے کفارے کے لیے غلام کو آزاد کرنے کے عمل کی حوصلہ افزائی کی، اسی طرح غربت اور تنگ دستی کے دور میں مسلمان علما کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سرمایہ داروں کے لیے کفارے کی اس صورت پر زیادہ زور دیں تاکہ غریبوں کا بھلا ہو۔ لیکن سرمائے کے ارتکاز کی یہ ساری صورتیں ترغیبی ہیں نہ کہ جبراً۔ چونکہ ایک مسلمان کی زندگی کا مقصد اللہ کی رضا اور خوشنودی کا حصول ہے اسی لیے یہ کہا گیا کہ تم نیکی کے اعلی درجے پر اس وقت تک نہیں پہنچ سکتے جب تک اپنی محبوب چیزوں سے اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو ۔ لہذا ایک سوشلسٹ معاشرے کے برعکس جہاں ٹیکس جبراً وصول کیا جاتا ہے، ایک اچھے اسلامی معاشرے میں لوگ اپنی مرضی سے اپنی زائد دولت دوسروں پر خرچ کر رہے ہوتے ہیں. مقصد دونوں کا ایک ہی ہے سرمائے کے ارتکاز کے بجائے سرمائے کی منصفانہ تقسیم

  • نیولبرلزم نظریہ کا مستقبل – ناصر فاروق

    نیولبرلزم نظریہ کا مستقبل – ناصر فاروق

    تہذیب مغرب میں ہر وہ نظریہ مقبول ہوا جس کا ہدف لذت پرستی اور مادی آسائشات کا زیادہ سے زیادہ حصول قرار پایا، فقط طریق کار کا اختلاف رہا۔ خودپرستی ہمیشہ خود شناسی پر حاوی رہی۔ موضوع ہی معروض سمجھا گیا، بندہ خود ہی خدا بن گیا۔ انسان کی مالی و مادی مسابقت ہی سارے مباحث کا مرکزی خیال رہی۔ سرمایہ دارانہ نظام میں مال کا ارتکاز درجہ بند رہا۔ کمیونزم میں محنت، قابلیت، اور مسابقت کا تصور مجروح رہا۔ غرض آج تک انسانی دنیا نظریہ حیات کے سنگین بحران میں مبتلا ہے۔ آج کے مغرب کا حاکم نظریہ نیولبرلزم ہے۔ یہی یورپی یونین سے برطانیہ کی حالیہ طلاق کا سبب ہے۔ مدعا مضمون نیولبرلزم کا تعارف، برطانیہ کی تنہائی، اور نظریہ حیات کے مستقبل کا سوال ہے۔

    1938ء میں چند ماہرین معاشیات پیرس میں جمع ہوئے۔ ‘نیولبرلزم’ کی اصطلاح وجود میں آئی۔ Ludwig von Mises اور Friedrich Hayek نے اصطلاح کی تعریف پیش کی۔ نیولبرلزم پالیسی نمونہ ہے جو معاشی امور عوام سے پرائیوٹ سیکٹر کے حوالے کرتا ہے۔ 1947ء میں ہائیک نے نیولبرلزم نظریہ کی ترویج کے لیے پہلی تنظیم Mont Pelerin Society بنائی۔ اس سوسائٹی میں آٹھ نوبیل انعام یافتہ ماہرین معاشیات سمیت بڑے بڑے سائنسدان، دانشور اورپالیسی ساز شامل تھے۔ مونٹ پیلیرن سوسائٹی نے آزاد منڈی اور آزاد خیالی کی آبیاری پر خطیر رقوم خرچ کیں۔ یہ نیولبرلز انٹرنیشنل تھے۔ بڑے بڑے عالمی اداروں نے نظریہ کے پرچار میں اپنا اپنا کردارادا کیا۔ نظریہ کے حامل افراد اہم اداروں کی اہم نشستوں پر بٹھائے گئے، جامعات میں پروفیسرز، اور تھنک ٹینکس میں دانشور ٹھہرائے گئے۔ تاہم دوسری عالمی جنگ کے بعد John Maynard Keynes کے معاشی نسخے رائج ہوسکے، جن کے مرکزی اہداف روزگار کی یقین دہانی اور غربت میں کمی تھے۔ 1970ء کی دہائی میں جب Keynesian پالیسیاں ناکام ہوئیں تو نیولبرل نظریہ پھر مرکزی دھارے میں شامل ہوگیا۔ مانیٹری پالیسی کے لیے نیولبرل نسخے تجویز ہوئے۔ جمی کارٹر حکومت نے امریکا اورجیمس کلاگھن حکومت نے برطانیہ میں نیولبرل معاشی پالیسیاں نافذ کیں۔ مارگریٹ تھیچر اور رونالڈ ریگن کے اقتدارمیں آتے ہی یہ پالیسیاں پوری قوت سے رائج ہوئیں۔ امراء کے محصولات میں بڑے پیمانے پر کٹوتی، تجارتی تنظیموں کا خاتمہ، ظابطوں سے آزادی (ڈی ریگولیشن)، نجکاری، پبلک سروسز میں مسابقت اور اس کے لیے بیرونی ذرائع پر انحصار کرنا شامل ہیں۔ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ، عالمی بینک، Maastricht، اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن نے نیولبرل پالیسیاں مسلط کیں۔ عموما جمہور کی رائے کا استحصال ہوا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ماضی میں بائیں سے تعلق رکھنے والی جماعتوں نے سب سے زیادہ نیولبرلزم کا خیرمقدم کیا، مثلا لیبر اور ڈیموکریٹس۔ (نیولبرلزم کا یہ تعارف برطانوی دانشور جارج مونبیٹ کے مضمون Neoliberalism – the ideology at the root of all our problems سے حاصل کیا گیا ہے)

    کینیڈین ماہرمعاشیات نومی کلین کی The Shock Doctrine کہتی ہے کہ نیولبرلزم بحرانات استعمال کرکے غیرمقبول پالیسیاں مسلط کرتا ہے۔ جہاں یہ پالیسیاں مقامی سطح پر مسلط نہ کی جاسکیں وہاں عالمی دباؤ سے کام لیا جاتا ہے۔ اس کے لیے تجارتی معاہدے اور عالمی کارپوریشنز اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ جمہوریت تماشا بن کر رہ جاتی ہے۔ نومی کلین کہتی ہیں ‘عراق جنگ’ کا بحران نیولبرل پالیسیوں کے تسلط کے لیے استعمال ہوا۔ درحقیقت برطانیہ آج تک ٹونی بلئیر کی جنگی جارحیت کے ثمرات سمیٹ رہا ہے، اور نہ جانے کب تک سمیٹتا رہے گا۔ یقینا، بریگزٹ نیولبرلزم کے خلاف کامیاب بغاوت ہے۔ یہ آزاد تجارت سے جنگ ہے۔ ریاستوں کے اداروں پر قابض عالمی تاجروں، بینکاروں، اور پالیسی سازوں کے خلاف مقامی آبادیوں کا احساس ملکیت ہے۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے بعد اہل نظر نیٹو میں بھی دراڑیں دیکھ رہے ہیں۔ حکومتیں بحرانات کو بطور بہانہ استعمال کر رہی ہیں، امراء کے محصولات میں کٹوتی اور نجکاری مرکزی اہداف ہیں۔

    پاکستان سمیت تیسری دنیا کے اکثرممالک اور مشرقی یورپ سب سے زیادہ متاثر نظر آتے ہیں۔ کارپوریشنز کو مالی ظابطوں سے آزاد کیا جا رہا ہے، اور شہریوں کو نئے معاشی ظابطوں میں جکڑا جا رہا ہے۔ برطانوی دانشور جارج مونبیٹ مذکورہ موضوع کی تفصیل میں لکھتے ہیں ”مالیاتی بحران، ماحولیاتی تباہ کاری، یہاں تک کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا چرچا نیولبرلزم کا کھیل تماشا ہے۔ کیوں کہ بائیں بازو والے اب تک نیولبرلزم کا متبادل پیش نہیں کرسکے؟” (واضح رہے کہ لبرلزم میں اشتراکی اقدارشامل ہوئی ہیں، اور یہی تبدیلی نیولبرلزم کو لبرلزم سے جدا کرتی ہے۔) برطانیہ جو یورپ سے علیحدہ ہوا، تو سبب نیولبرلزم کی ناکام پالیسیاں ہیں۔ نیولبرلزم نے برطانوی عوام میں تنہائی کا احساس شدید تر کیا۔ معاشی جکڑبندیوں سے مزدور طبقہ عتاب میں مبتلا ہوا۔ عام وباؤں میں صحت اور نفسیات کے مسائل نمایاں رہے۔ برطانیہ وہ ملک ہے، جہاں نیولبرل پالیسیاں سب سے زیادہ شدت سے اختیار کی گئیں. اسی لیے برطانیہ یورپ کا سب سے زیادہ ‘تنہائی کا شکار’ دارالحکومت قرارپایا۔ اس تنہائی پر John Bingham نے Britain the loneliness capital of Europe کے عنوان سے تفصیلی مضمون باندھا۔ غرض برطانیہ کی یورپ سے علیحدگی نیولبرل پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔

    یہ یورپ میں نیولبرلزم کے زوال کا اہم مرحلہ ہے کیونکہ برطانیہ کے بغیر یورپ کا نظریاتی استحکام محال ہے۔ اس کے آثار نظر آنے لگے ہیں۔ پہلاواقعہ ‘برطانوی ریفرنڈم سے پہلے’ برطانوی خاتون رکن ‘جو کاکس’ کا قتل ہے۔ دوسرا واقعہ یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کا استعفٰی ہے، اور اب نسل پرست برطانوی شہری اقلیتوں اور غیرملکیوں پر باقاعدہ حملے کر رہے ہیں۔

    نیولبرلزم کا تعارف اور برطانیہ کی یورپ سے علیحدگی کا ذکر محض نیولبرلزم کے نقصانات گنوانے کی خاطر نہیں کیا گیا بلکہ یہاں مغرب کے نظریہ حیات کا رد مقصود ہے، کیونکہ ان سارے نظریات کا ہدف محض مادی آسائشات کا زیادہ سے زیادہ حصول ہے، جو انسانی فطرت اور نفسیات میں بہت بڑے عدم توازن کا سبب ہے، اور یہی عدم توازن نظریہ حیات کے مستقبل پر سوال اٹھا رہا ہے۔ نظریہ زندگی کا مستقبل کیا ہوگا؟ ڈاکٹر رفیع الدین کی گراں قدر اور نایاب تصنیف Future of The Ideology اس حوالے سے رہنمائی کرتی ہے. یہ کتاب مارکسزم کا ٹھوس، مدلل، اور مستقل رد ہے۔ مجموعی طور پر یہ تحقیق مغربی نظریہ حیات کا باطل ہونا ثابت کرتی ہے۔ گو کہ اس کا عہد بیسویں صدی کا پہلا نصف ہے، گویا سگمنڈ فرائیڈ، ایڈلر، اور کمیونزم سے مخاطب ہے، مگر ہر مادی نظریہ پر ایسی دوراندیش رائے ہے، جو مکمل ہے، جامع ہے اور ناقابل تردید ہے۔ یہ رفیع الدین صاحب کے پی ایچ ڈی کا شاندار مقالہ اور سوشل سائنسز کی دنیا کا بڑا علمی کارنامہ ہے۔ ڈاکٹر صاحب مغرب کے معاشی اور نفسیاتی نظریات کے رد میں لکھتے ہیں، ” اس کتاب کا نقطہ نظر یہ ہے کہ جب سے انسان نے خودی کا احساس کیا ہے، انسانی گروہوں کے مابین زندگی کے بارے میں اعلی تصورات کا تصادم رہا ہے، اور یہ نظریاتی مسابقت جاری رہے گی، یہاں تک کہ انسان اپنی فطرت سے ہم آہنگ نہ ہوجائے، نفس’مطمئن’ تک نہ پہنچ جائے۔ جب تک اعلی تصورات کا ارتقاء جاری رہے گا۔ بتدریج ہر ناقص نظریہ کے تضادات اپنی اپنی مدت پوری کرکے تحلیل ہوجائیں گے۔ آخر میں وہ نظریہ سب پر غالب آجائے گا، جو جمالیات اور جامعیت کا مکمل مظہر ہوگا۔” رفیع الدین صاحب کی جانب سے تصور حیات کا یہ تعارف انسانی تاریخ اور فطرت سے مکمل ہم آہنگ ہے۔ مغربی فلسفہ و نظریہ کی تاریخ اس پرگواہ ہے۔ ڈاکٹرصاحب کہتے ہیں کہ انبیاء انسان کا بہترین نمونہ ہیں۔ یہ بہترین انسان زندگی کا بہترین تصور پیش کرتے ہیں۔ بہترین انسانوں کا یہ ارتقاء اپنے کمال پر پہنچ چکا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا ‘نظریہ مستقبل’ محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ و سلم کے اسوہ حسنہ کی جانب رہنمائی کر رہا ہے۔ کمیونزم، سوشل ڈیموکریسی، لبرلزم، اور نیولبرلزم سب ایک ہی محرک اور ایک ہی منزل کے درمیان حرکت پذیر ہیں، مال اور مادی آسائشیں۔ یقینا یہ محرک اور منزل انسان کے مکمل اطمینان کا سبب نہیں ہوسکتیں۔ دنیا کے حالات اس پر گواہ ہیں۔

  • روس میں قرآن کیسے محفوظ رہا؟ محمد عالم خان

    روس میں قرآن کیسے محفوظ رہا؟ محمد عالم خان

    1973 میں جب روس میں کمیونزم کا طوطی بولتا تھا اور دنیا کہہ رہی تھی کہ پورا ایشیا سرخ ہوجائے گا، ان دنوں میں ہمارے ایک دوست ماسکو ٹریننگ کے لیے گئے. وہ بتاتے ہیں کہ جمعہ کے دن میں نے دوستوں سے نماز جمعہ کی ادائیگی کےلیے چلنے کو کہا تو جواب ملا کہ یہاں اکثر مساجد کو گودام جبکہ کچھ کو سیاحوں کی قیام گاہ بنا دیا گیا ہے. شہر میں صرف دو مسجدیں بچی ہیں جو کبھی بند اور کبھی کھلتی ہیں. ان سے پتہ لیا اور خود ایک مسجد چلا گیا. وہاں پہنچا تو مسجد بند تھی، پڑوس میں ہی ایک بندے کے پاس چابی تھی. اس آدمی سے دروازہ کھولنے کو کہا اور بتایا کہ مجھے نماز پڑھنی ہے. اس نے کہا کہ دروازہ تو میں کھول دوں گا لیکن اگر آپ کو کوئی نقصان پہنچا تو میں ذمہ دار نہیں ہوں گا. میں نے کہا کہ دیکھیں جناب! میں پاکستان میں بھی مسلمان تھا اور روس کے ماسکو میں بھی مسلمان ہی ہوں، پاکستان کے کراچی میں بھی نماز ادا کرتا تھا اور روس کے ماسکو میں بھی نماز ادا کروں گا، چاہے کچھ بھی ہوجائے. اس نے مسجد کا دروازہ کھولا تو اندر کا ماحول بہت خراب تھا. میں نے جلدی جلدی صفائی کی اور پھر بلند آواز سے اذان دی. اذان کی آواز سن کر بوڑھے بچے مرد عورت جوان سب مسجد کے دروازے پہ جمع ہوگئے کہ یہ کون ہے جس نے موت کو آواز دی ہے، لیکن مسجد کے اندر کوی بھی نہیں آیا، خیر میں نے نماز جمعہ تو ادا نہیں کی کیونکہ اکیلا تھا، بس ظہر کی نماز ادا کی اور مسجد سے باہر آگیا. واپسی پر لوگ مجھے ایسے دیکھ رہے تھے جیسے میں نماز ادا کر باہر نہیں نکلا بلکہ کوئی نیا کام متعارف کروا کر باہر آیا ہوں.

    ایک بچہ میرے پاس آیا اور کہا کہ آپ ہمارے گھر چاۓ پینے آئیے. اس کے لہجے میں خلوص ایسا تھا کہ انکار نہ کرسکا، گھر پہنچے تو وہاں طرح طرح کے پکوان بن چکے تھے اور سب بہت خوش دکھائی دے رہے تھے. کھانا کھایا، چائے پی اور ساتھ بیٹھے ایک بچے سے پوچھا آپ کو قرآن پاک پڑھنا آتا ہے؟ بچے نے جواب دیا، جی بالکل قرآن پاک تو ہم سب کو آتا ہے. میں نے جیب سے قرآن کا چھوٹا نسحہ نکالا اور کہا یہ پڑھ کر سنائو مجھے. بچے نے قرآن کو دیکھا، پھر مجھے دیکھا، پھر قرآن کو دیکھا، ماں باپ کو دیکھ کر دروازے کو دیکھا، پھر مجھے دیکھا. میں نے سوچا کہ اس کو قرآن پڑھنا نہیں آتا. میں نے کہا بیٹا قرآن کی یہ آیت پڑھو اور انگلی
    [pullquote]يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ
    [/pullquote]

    رکھی تو وہ فرفر پڑھنے لگا، قرآن کو دیکھے بنا ہی. مجھے حیرت کا شدید جھٹکا لگا کہ یہ تو قرآن کو دیکھے بنا ہی پڑھ رہا ہے. میں نے اس کے والدین سے پوچھا” حضرات یہ کیا معاملہ ہے؟ انھوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ” دراصل ہمارے پاس قرآن پاک موجود نہیں، کسی کے گھر سے قرآن پاک کی آیت کا ایک ٹکڑا بھی مل جائے تو اس تمام خاندان کو پھانسی کی سزا دے دی جاتی ہے، اس وجہ سے ہم لوگ قرآن پاک نہیں رکھتے گھروں میں”
    “تو پھر اس بچے نے قرآن کیسے حفظ کیا، کیونکہ قرآن پاک تو کسی کے پاس ہے ہی نہیں” میں نے مزید حیران ہوکر پوچھا
    “ہمارے پاس قرآن کے کئی حافظ ہیں، کوئی درزی ہے، کوئی دکاندار، کوئی سبزی فروش اور کوئی کسان، ہم ان کے پاس اپنے بچے بھیج دیتے ہیں محنت مزدوری کے بہانے. وہ ان کو الحمدللہ سے والناس تک زبانی قرآن پڑھاتے ہیں، اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ حافظ قرآن بن جاتے ہیں. کسی کے پاس قرآن کا نسحہ ہے نہیں، اس لیے ہماری نئی نسل کو ناظرہ قرآن پڑھنا نہیں آتا. اس وقت ہماری گلیوں میں آپ کو جتنے بچے دکھائی دے رہے ہیں، یہ سب حافظ قرآن ہیں. جب آپ نے اس بچے کے سامنے قرآن رکھا تو اس کو پڑھنا نہیں آیا لیکن جب آپ نے آیت سنائی تو وہ فرفر سنانے لگا. اگر آپ نہ روکتے تو یہ سارا قرآن ہی پڑھ کر سنا دیتا.

    ہمارا دوست کہتا ہے کہ میں نے قرآن کے ایک نہیں کئی ہزار معجزے دیکھے. جس معاشرے میں قرآن پڑھنے اور گھر میں رکھنے پر پابندی لگا دی گئی تھی، اس معاشرے کےبچوں کے سینوں میں قرآن محفوظ ہو گیا تھا. میں جب باہر نکلا تو کئی بچے دیکھے، ان سے قرآن سننے کی فرمائش کی تو کئی نے قرآن سنایا. دفعتا دل میں خیال آیا کہ کمیونسٹوں نے قرآن رکھنے پر پابندی لگا دی لیکن سینوں میں قرآن محفوظ کرنے پر پابندی نہ لگا سکے. تب مجھے اللہ پاک کے اس ارشاد کی حقانیت سمجھ آ گئی.
    [pullquote]إِنَّا نَحنُ نَزَّلْنَا الذِّكرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ
    [/pullquote]

    بے شک یہ ذکر (قران) ہم نے نازل فرمایا ہے اور بے شک ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں.