میں لائبریری سے کتاب ایشو کروا کر باغ کی جانب چل دیا۔ عصر کا وقت قریب تھا اور میں جانتا تھا کہ سر اختر صاحب نماز ادا کر کے ہی آئیں گے۔ تب تک کے لیے مجھے سر کا انتظار کرنا تھا۔ مقرر کردہ جگہ پر پہنچ چکا تھا، اسی جگہ پر بیٹھ کر ہم زیر مطالعہ کتاب پر بحث کرتے تھے۔ مجھے انتطار کرنا دشوار لگ رہا تھا تو میں مطالعہ کرنے لگ گیا وقت کے گزرنے کا احساس بھی نہ ہوا،وقت کا تب پتا چلا جب سر نے آکر سلام کیا اور بولے صاحبزادے مطالعے میں کافی مگن ہیں کہ ارد گرد کی کوئی خبر ہی نہیں۔ میں نے جلدی سے کتاب بند کی اور سر کے سلام کا جواب دیا۔ اتنے میں سر بیٹھ چکے تھے۔ بیٹھتے ہی بولے،برخوردار مجھے خوشی ہے کہ آپ مطالعہ کے شوقین ہو ورنہ آج کے نوجوان مطالعہ کرنے کو پسند نہیں کرتے۔
آج کون سی کتاب لے کر آئے ہو؟
سر آج اشفاق احمد صاحب کی کتاب زاویہ لے کر آیا ہوں۔
بہت خوب بڑے احسن طریقے سے مطالعے کی پیاس بجھائی جا رہی ہے۔ اس کتاب میں بہت سی اچھی باتیں کہی گئی ہیں۔ ایک نہیں بہت سے پیغام ملتے ہیں۔
جی سر اور ہم ان اچھی باتوں کو اپنی عملی زندگی میں لاگو کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔
جی بلکل ایسا ہی ہے بیٹا۔ پر بیٹا ایک کتاب ایسی بھی ہے جس کے مطالعہ سے نہ صرف مطالعہ کی پیاس بجھتی ہے بلکہ غور و فکر اور عمل کرنے سے دنیاوی اور اخروی فائدے بھی بہت ہو گئے۔ مجھے امید ہے کہ آپ سمجھ چکے ہوں گے کہ میں قرآن مجید کی بات کر رہا ہوں۔ میں آپ کوئی لیکچر نہیں دینے لگا۔ بس ایک واقعہ سنانے لگا ہوں۔
آپ اسرائیل کے بارے میں جانتے ہیں؟
جی بلکل سر جانتا ہوں۔
اسرائیل میں ایک یونیورسٹی ہیبرو ہے،ہیبرو یونیورسٹی کا شعبہ تقابل ادیان غور وفکر کے لیے بڑا مشہور ہے۔ کچھ سال پہلے جب Comparative Study کے دوران وہاں کے طلبہ اور ان کے پروفیسرز قرآن پاک کی اس سورۃ پر پہنچے جس میں حضرت داؤد علیہ والسلام کا ذکر ہے تو لحن داؤدی کی تاثیر اور قوت کے بارے پر بحث کا آغاز ہو گیا اور کہا گیا کہ ان کی آواز کی خوبصورتی کے باعث چرند پرند بھی مسحور ہو جاتے تھے تو اس کا مطلب ہوا کہ ان کا علاقہ سرسبز ہو گا۔ سبزے کے لیے پانی ضروری ہے پانی ہو گا تبھی تو چرند پرند ہو گئے اور جو علاقہ حضرت داؤد کی بعثت کا ہے وہ اسرائیل اور شام کی سرحد کے دونوں طرف پھیلا ہوا ہے۔ اس بنجر اور بے آب و گیاہ وادی میں سبزہ اور چرند پرند کہاں سے آگئے۔ ماہرین نے انکار کرنے کی بجائے تحقیق و جستجو کے لیے جیالوجی اور سروے آف اسرائیل کے ذمہ دار شعبے کو کیس بھجوا دیا کچھ عرصے بعد متعلقہ محکمے نے اس خطے میں ایک پرانے مٹی کے بند کے آثار ڈھونڈ لیے
اسی بند کو دوبارہ تعمیر کیاگیا۔ بارش کا پانی اس پورے علاقے میں زراعت اور کاشت کے لیے استعمال ہونے لگا تو خطے کی شکل ہی بدل گئی پورا علاقہ خوبصورت نظر آنے لگا جبکہ اس سے متصل فلسطینی پٹی اور شام کی پٹی بلکل ویرانی اور بیابانی کا نظارہ پیش کرتی ہے۔
اسی طرح تقابل ادیان کے شعبے نے دوسرا کیس بھجا کہ قرآن قوم عاد پر عزاب اس طور پر آیا کہ زمیں میں سے آگ کے بڑے بڑے ستونوں نے انھیں گھیر لیا۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ کوئی اور ہوتا تو انکار کر دیتا۔ انہوں نے ہھر جستجو کی، قوم عاد کے علاقے کا تعین کیا گیا۔ یاد رہے اسرائیل انبیاء کی سر زمین رہا ہے۔ جیالوجی والوں نے وہاں کئی قسم کی گیس کے ذخائر دریافت کر لیے۔ گیس جب زمین سے نکلی تو فوارے کے پانی کی قوت کے ساتھ۔ تب قدرت نے گیس کو آگ لگا کر عزاب کی شکل دی۔ اب وہاں سے گیس پورے ملک کو سپلائی کی جاتی ہے
سر یہ لوگ تو کافر ہیں قرآن اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو نہیں مانتے پھر کیوں تحقیق کر رہے ہیں؟ اور مہارتیں اور علوم ان کے آگے ہاتھ باندھ کر کیوں کھڑے ہو گئے؟؟
مجھے معلوم تھا کہ تم ایسا ہی سوال کرو گئے۔دیکھو بیٹا یہ لوگ ہیں تو ہمارے دشمن لیکن یہ لوگ ہم سے زیادہ قرآن، احادیث، سنت نبوی اور احکامات پر غورو فکر، تحقیق و جستجو اور محنت کر رہے ہیں اور آپ جانتے ہیں اللہ کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتا ۔ اب یہ لوگ روحانی نہ سہی پر دنیاوی فائدے پوری طرح اٹھا رہے ہیں۔
جبکہ ہمارا حال یہ ہے کہ ہمیں انھیں برا کہنے سے ہی فرضت نہیں ملتی بلکہ خود بھی فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں، یوں سوچنے کا سارا کام دھرہ کا دھرہ رہ جاتا ہے، جب سوچ نہیں ہوگی تو عمل کیسے ہو گا؟
بیٹا ہمارے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ہم لوگ قرآن کو بس ثواب کی نیت سے پڑھتے ہیں،کبھی غوروفکر کے لیے کھولا ہی نہیں۔ درس قرآن صرف ثواب کے لیے سنتے ہیں اس لیے نہیں کہ اللہ ہمیں اس کے ذریعے کیا کہہ رہا ہے۔ نماز صرف فرض سمجھ کر ادا کرتے ہیں،کبھی اس نیت سے گئے ہی نہیں کہ ہم اللہ سے ملاقات کے لیے جا رہے ہیں۔ اللہ ہمیں کامیابی کی طرف بلا رہا ہے ہم کامیابی کی طرف جا رہے ہیں۔۔ بس فرض بلکہ قرض ادا کرنے جاتے ہیں
اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔
لو بھی اللہ سے ملاقات اور کامیابی کی طرف بلاوا آگیا ہے۔ میں تو چلا، اگر کامیابی چاہتے ہو تو آجاؤں۔۔۔
میں بھی سر کے پیچھے چل دیا اور سوچ رہا تھا کہ اللہ روزانہ پانج وقت کامیابی کی طرف بلاتا ہے اور ہم ہیں کہ کامیابی کی طرف جاتے ہی نہیں۔ آج ہمارے زوال کی یہی وجہ ہے۔
آج میں خود سے شرمندہ ہوں اللہ مجھے بلاتا رہا اور میں خواب غفلت میں رہا۔ اے اللہ مجھے معاف کر دے میں بھٹک گیا تھا۔ اب جب تو بلائے گا تو میں تیری طرف بھاگتا آؤں گا۔ اے اللہ مجھے معاف کر دے، معاف کر دے
Tag: کامیابی
-
کامیابی کا راستہ – حیدر مجید
-
ہمیں کھوکھلی کامیابی نہیں چاہیے جناب – میاں جمشید
یار کمال ہے ویسے اکثر لوگوں کی سوچ اور اپروچ پر . . . جب کامیابی کے گر جاننے اور حوصلہ بڑھانے کو آپ کے اپنے دین اسلام کے کامیاب لوگوں کی باتیں، کتابیں ،سوانح عمری وغیرہ موجود ہیں تو بھائی “پہلے انکو تو پڑھو” اچھی طرح. . . پھر بھاگنا غیروں کے بتاے رہنما اصولوں کی طرف ۔ یہ تو ایسے ہی ہے جسے بھوک لگی ہو تو اپنے گھر کی پکی پکائی روٹی چھوڑ کر ہمسایے کے گھر گھستے پھریں ۔ آپ ضرور پڑھیں دوسروں کو لیکن اپنی چھوڑ کر اور صرف انکی پڑھ کر واہ واہ کرنا یہ اچھی بات نہیں۔ یاد رکھیں دوستو ، ہم نے صرف دنیا ہی میں کامیابی حاصل نہیں کرنی بلکہ آخرت میں کامیابی بھی ہمارا حصول ہے ۔
ایمان سے اگر آپ صرف اپنے نبی حضرت محمّد صلی اللّه عیلہ وسلم کی سیرت مبارک ہی پڑھ لیں تو زندگی کے ہر پہلو کی رہنمائی ملے گی اور ساتھ کامیاب ہونے کے پائیدار عملی طریقے ۔ غورو فکر سے پڑھ کر تو دیکھں ذرا انکی سیرت. پہلے یتیم اور پھر ماں کھونے کےبعد کیسے انہوں نے بکریاں چرا کر عملی زندگی کا آغاز کیا ، کیسے ایمان داری سے عمدہ تجارت کی، کیسے غار حرا میں پہلے غور و فکر کر کے ایک عظیم جدوجہد کا آغاز کیا۔ کیسے اپنے قریبی رشتے داریوں کی نفرتیں سہیں ، کیسے اپنے جسم پر اوجھڑی رکھوا کر سرے محفل عزت نفس کی قربانی دی۔ کیسے اپنے آپ کو منوانے کے لئے اکیلے سفر کیا اور پتهر کھا کھا کر خون بہایا ۔ اپنے اکلوتے بیٹے کی موت کا غم سہا ، بیٹوں کی طلاق کے طعنہ برداشت کیے ، کیوں خود بھی اور اپنے پیارے خاندان کو بھوکا رکھا ، پتے کھاے ، پیٹ پر پتھر باندھے ، جنگیں لڑیں، پیارے رشتے شہید کروا دیے، ہجرت کی ،کیسے ہر پریشانی ہمت سے برداشت کی اور آخر میں تمام دشمنوں کو معاف کرتے ہوے کیوں اور کیسے 23 سال کی بےمثل جدوجہد اورعظیم قربانیوں کے بعد وہ منزل حاصل کی جو آغاز میں ناممکن دکھائی دیتی تھی۔
اگر آپ اپنے نبی جو آپ کے پیدا کرنے والے ، آپکو رزق ، عزت ، اولاد دینے والے کی باتیں بتانے والے اور رہنماے حیات قرآن پاک کا عملی نمونہ بن کر دکھانے والے کی سیرت نہ پڑھیں یا پڑھ کر بھی حوصلہ نہ پا سکیں تو قصور آپ کا نہیں بلکہ اس معاشرے کا ہے جو آپ کو صرف دنیا میں کامیاب ہونے کے گر بتا رہا ، حلال حرام کی تمیز کیے بغیر مادی چیزوں اور آسائشوں کو جلدی جلدی حاصل کرنے کی تربیت دے رہا ہے ۔ یار ، جس جگہ آپ کو 23 دنوں میں سود پے دنیاوی خوابوں کی چیزیں گھر ، گاڑی وغیرہ ملتا ہو وہاں کون اونچا مقصد حیات پانے کو 23 سال تو چھوڑو 23 مہینے تک ہی حلال جدوجہد کرنے کا سوچے گا۔
سمجھ آ گئی ہو میری بات تو ٹھیک ورنہ جائیں جا کر صرف دنیاوی اقوال زریں ہی یاد کریں ۔ ہمیں تو کامیابی کے لئے بس اپنے رب کی باتیں اور اپنے نبی پر لکھی کتابیں ہی پہلے پڑھنی ہیں ذرا ، کہ ہمیں دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت بھی کمانی ہے. سود، رشوت ، بے ایمانی ، فراڈ ، جھوٹ، حق تلفی وغیرہ کی حرام کمائی سے کامیابی کے رہنما اصول بنانے اور بتانے والوں کو ہمارا دور سے سلام ! ہمیں نہیں چاہیے آپ سے کھوکھلی اور صرف دنیاوی کامیابی حاصل کرنے کا حوصلہ.
-
کامیابی .. مگر کیسے ؟؟؟ راحیل اسلم
رات کے پچھلے پہر جاگتے ہوئے کسی ایسی اساءنمنٹ پہ کام کرتے ہوئے,
جو اگلے
سے 6 گھنٹے میں آپ کو جمع کرانے کروانی ہو 5
یہ وقت کسی بھی طالبعلم یا کسی بھی شخص کے لئےاپنی زندگی پہ غور کرنے کے لئے سب سے بہترین وقت ہوتا ہے.
ایسے موقع پہ کبھی آپ کو لگتا ہے کہ اگر آپ یہ نہ کر پائے تو پورے سمسٹر کی محنت
رائیگاں چلی جائے گئی
اور ایک لمحے کے لیے آپ کو ایسا لگنے لگتا ہے کہ آپ یقینا ناکام ہونے والے ہیں .میرے ساتھ ایسا تقریبا ہر سمسٹر میں ہوتا
رہا اور یہ خوف وقتکے ساتھ ساتھ بڑھتا رہا.
اپنی
GPA
کو بہتر کرنے سے لے کر اپنی
CV
کو مینٹین کرنے تک یا پھر اپنے پروفیشنل کیریئر میں پہلا قدم اٹھانے سے لے کر ایک انٹرپرینیور بننے تک ہر
ہر چیز مجھے اکثر اپنے ہاتھ سے نکلتی ہوئی محسوس ہوتی رہی
. ناکامی کا خوف ہمیشہ میرے اوپر چھایا رہاناکامی کے اس خوف کا سامنا تقریبا ہم سب کو اپنی زندگی کے اکثر مقامات پہ کرنا پڑتا ہے.
کبھی امتحان میں فیل ہونے کا خوف کبھی خود سے وابستہ اپنیتوقعات پوری نہ ہونے کا خوف، کبھی والدین اور آپکی ذات سے جڑے لوگوں کی توقعات پوری نہ کر پانے کا خوف.
غرض یہ کہ ناکامی کا خوف
ہماری زندگیوں کا سب سے بڑا خوف
ثابت ہوتا ہے
. اور میرے نزدیک اسی خوف کے باعث ہم خود سے وابستہ اپنی بہت سے توققمت کو پورا نہیں کر پاتےہارنے کا ناکام ہونے کا ڈر ہمیں ہر وہ شئے
بھلانے پہ مجبور کر دیتا ہے
جسے ہم نے اپنی محنت سے حاصل کیا ہوتا ہے.
اور ہم یہ سوچنے پہ
مجبور ہو جاتے ہیں کہ شاید ہم کوئی بے منزل مسافت طے کر رہے ہیں.
یہاں سمجھنے کی یہ بات ضروری ہے کہ اگر چیزیں ویسے نہیں ہو رہیں جیسے آپ نے سوچا تھا تو اس کا قطعی یہ مطلب نہیں کہ آپ کی مسافت بےمنزل ہے.
ہمارے حالات ہمارے اختيار سے باهر ہوتے ہیں اور وقت کے ساتھ انسان کو اس
کا اندازہ ہوتا ہے
کہ ناکامی قطعی کوئی بری چیز
نہیں ہے
کسی دانشور کے بقول ناکامی آپ کو کامیابی کے متعلق بہتر زاویہء نظر دیتی ہےاس کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ جب تک آپ گرنا نہیں سیکھیں گئے تب تک چلنا نہیں سیکھیں گئے، اور اگر
آپ سیکھیں گے نہیں تو کامیاب کس طرح ہوں گے.
ہم میں سے کتنے لوگ یہ جانتے ہوں گے کہ بل گیٹس کو ہارورڈ سے نکال دیا گیا تھا . جس کے بعد اس نے پال ایلن کے ساتھ مل کر بزنس شروع کیا جو بری طرح ناکام ہوا
بل گیٹس کو مائیکروسافٹ کا بل گیٹس بننے میں بہت سال لگے.
کم و بیش کچھ یہی صورت حال کے ایف سی کے ہرلنڈ سندرس کو بھی درپیش رہی جو
تقریبن ٦٠ سال تک ایک ناکام شخص کہلاتا رہا.
ایسی بہت سی مثالیں ہمیں یقینا ہمارے گردو پیش میں بھی مل جائیں گی۔
ہم سب کو یہ چیز تسلیم کرنا ہو گی کے ہم انسان ہیں اور بہت سی چیزیں ہمارے دائر اختیار سے
باہر ہیں. ہمیں خود کو صرف اس وجہ سے ناکام تصّور کرنے کی روش کو ختم کرنا ہو گا کہ ہمارا ہمعصر کتنا کامیاب ہے
ہمارے ہمعصر کی کامیابی کسی صورت ہماری ناکامی یا کامیابی کو جانچنے کا پیمانہ نہیں ہو سکتی
ہر لمحہ ہوتی ہوئے ترقی کے دور میں یہ سوچنا کے شائد ہم پیچھے رہ گے ہیں اک فطری عمل ہے لیکن اس دوران خود کا موازنہ دوسروں سے کرنا.
اور پھر اس پہ کڑھتے رہنا بیوقوفی ہو گا
اگر آپکو آگے بڑھنا ہے تو اپنی ناکامیوں سے سیکھنا ہو گا اور بہتر سے بہتر کی جستجو کرنا ہو گی
اب یہاں سب سے قابل فکر بات یہ ہے کے ناکامی سے کیسے نمٹا جاۓ
ہمیں سب سے پہلے یہ سوچ بدلنا ہو گی کے اگر ہم کسی مہم میں ناکام ہوئے ہیں تو ایسا صرف ہمارے ساتھ ہی ہوا ہے
ایک تحقیق کے مطابق تقریبا ٩٠ فیصد لوگ اپنی پہلی کوشش میں ناکام ہو جاتے ہیں.صرف اس وجہ سے یہ سوچ لینا کے فلاں بندہ کتنا کامیاب ہے
یقیناّ اس کے لئے سب کچھ ٹھیک ہی رہا ہو گا ایک غیر مناسب بات ہے.
دوسری چیز ہمیں یہ کرنا ہو گی کے جب ہم اپنی ناکامی کا ذکر
کرتے ہیں تو ہمیں ان باتوں پی غور کرنا چاہے جو ہم نہیں کر پاے . یہ بلکل ایسا ہی ہے جیسے ہم کہتے ہیں کہ انسان اپنے تجربات سے سیکھتا
ہے.وقت گزرنے کے ساتھ ہمیں اس بات کا ادراک ہونا شروع ہو جاتا ہے کے ہم نے کہاں غلطی کی
ناکامی سے بچنے کے بہت سے راستے ہوتے ہیں جب ہم یہ سوچنا چھوڑ دیں گے کہ کامیابی تک پہنچنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے
ہر ناکامی کی صورت میں ہم خود کو کوسنا شروع کر دیتے ہیں ان چیزوں سے صرف نظر کرتے ہوئے جو ہم نے اپنی دانست میں بہترین کیا
ہمیں اپنی کوششوں کی قدر کرنا ہو گی اور خود کی صلاحیتوں کا معترف ہونا ہو گا
کسی بھی کام کے لئے محنت شرط ہے.ہمیں ہر کام پوری محنت اور خلوص سے کرنے کے ساتھ اپنی محنت کو سراہنا بھی ہو گا
اور اس بات کا ادراک کرنا بھی انتہائی ضروری ہے کہ غلطیاں یا ناکامی اک فطری چیز ہے اس سے گھبرانے کی بجاے اسے اپنی طاقت بنانا سیکھنا ہو گا
کیوں کہ بھر حال ہم انسان ہیں اور انسان کبھی غلطیوں سے مبرّا نہیں ہوتا. -
مثبت سوچ اور کامیابی – عثمان عابد
زندگی کو پر مسرت اور خوشگوار بنانے کا فن صدیوں سے موجود ہے ۔ ہر مذہب نے زندہ رہنے کے اصول سکھائے ہیں ۔ خواہ دانشور ہوں یا ماہرین نفسیات ، سب نے اس کی اہمیت کا پرچار کیا ہے۔ Psycology کے ماہرین کے مطابق انسان کی شخصیت اُس کی سوچ کا عکس ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ تمام انسان اپنے ذہنی نقوش کی زندہ تصویر ہوتے ہیں۔ یعنی وہ اپنے خیالات اور اپنے ارادوں کا عکس ہوتے ہیں۔ ہمارے خیالات ہمارے کردار کی تعمیر کرتے ہیں۔ ہم ارادی طور پر یا غیرارادی طور پر جو کچھ سوچتے ہیں، وہ ہماری شخصیت اور زندگی پر بہت گہرا اثر ڈالتا ہے۔ اگر ہمارے خیالات منفی نوعیت کے ہیں تو ہماری زندگی منفی اثرات کا عکس ہو گی اور ہمارے ہر عمل سے Negativity جھلکے گی۔ اس کے بر عکس اگر ہمارے خیالات مثبت نوعیت کے ہوں گے تو ہماری زندگی مثبت اثرات کا عکس ہو گی اور ہمارے ہر عمل سے Positivity جھلکے گی۔
آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا قانون ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید میں انسان سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ اے انسان تو میری بنائی ہوئی چیزوں پر غور کیوں نہیں کرتا؟ اگر ہم اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی اس کائنات پر غور کریں تو ہمیں آفاقی قوانین دکھائی دیتے ہیں ۔ یہ کائنات اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے انھی آفاقی قوانین کے مطابق چل رہی ہے۔ جو انسان اللہ کی دی ہوئی عقل کو استعمال میں لاتے ہوئے ان قوانین کو تلاش کرتا ہے اور تلاش کرنے کے بعد ان پر عمل کرتا ہے تو وہ کامیاب کہلاتا ہے۔
یہاں ہم صرف ایک قانون پر بات کریں گے اور وہ ہے ’’قانون ثبات‘‘۔ اسے انگریزی میں Law of Consistency کہتے ہیں ۔ قانون ثبات کے اور بھی کئی نام ہیں جیسا کہ قانون مکافات ِ عمل یا قانونِ استحکام، یہ ناقابل تغیر آفاقی قانون ہے۔ جب سے یہ دنیا معرض و جود میں آئی ہے تب سے یہ آفاقی قانون لاگو ہے اور انشا ء اللہ قیامت تک رہے گا۔ ہم جتنی مرضی کوشش کرلیں، اسے تبدیل نہیں کر سکتے یہ قانون فطرت ہے ۔ اس کا بنانے والا قادر مطلق ہے ۔ Law of Consistency اپنی پوری طاقت و توانائی کے ساتھ اس کائنات میں وقوع پزیر ہو رہا ہے۔ ثبوت چاہیے تو اپنے اردگرد نگاہ دوڑائیے۔۔۔ثبوت ہر جگہ موجود ہے صرف تلاش کرنے والی آنکھ کی ضرورت ہے۔
قانون ثبات ہے کیا؟ ’’جو بوؤگے وہی کاٹو گے‘‘۔ یہ ہے قانون ثبات! اگر آپ گندم کو زمین میں بوئیں گے تو گندم ہی کاٹیں گے۔ گندم کی جگہ مکئی نہیں اُگے گی۔ اس لیے کہ یہ قانون فطرت کے خلاف ہے۔ Law of Consistency ہماری زندگی کے ہر شعبے میں کارفرما ہے۔ آئیے اس قانون کو ایک اور زاویے سے دیکھتے ہیں۔
اگر آپ اپنے ذہن میں ناکامی کے بیج بوئیں گے تو ناکامی کی فصل اُگے گی ۔ ناکامی کا تصور کبھی بھی کامیابی میں نہیں بدل سکتا ۔ کیونکہ یہ فطرت کے قانون کے خلاف ہے۔ لیکن اس کے بر عکس اگر آپ کامیابی کا بیج بوئیں گے تو کامیابی کی فصل اُگے گی۔
انسان اپنی قسمت خود بناتا ہے۔ ہم جس چیز پر اپنی توجہ مرکوز کر تے ہیں۔ وہی چیز ہمارا مقدر بن جاتی ہے۔ آپ نے اپنے ذہن کو ناکامی کے تصور پر مرکوز رکھا اور اس کا عمل یا نتیجہ ناکامی ہی کی شکل میں نکلا۔ اس میں قصور حالات کا نہیں اور نہ ہی آپ کے مقدر کا ہے۔ آپ نے جو کچھ سو چا وہ پورا ہوگیا ۔ قانون ثبات ناکامی کے تصور کو کامیابی کی شکل میں نہیں بدل سکتا ۔ اگر آپ کامیابی کا سوچیں گے تو کامیابی آپ کا مقدر ہوگی۔ اگر آپ دوسروں کی بھلائی کے متعلق سوچیں گے تو دوسرے بھی آپ کا بھلاسوچیں گے ۔ اگر آپ محبت کریں گے تو آپ سے محبت کی جائے گی ۔ یہی Law of Consistency ہے۔ ہماری شخصیت ، ہماری زندگی دراصل ہمارے تصورات کا عکس ہوتی ہے۔ ہماری کامیابیوں یا ناکامیوں کا دارو مدار ہمارے تصورات ، ہمارے خیالات اور ہماری سوچ پر ہوتا ہے۔ اس لیے کہا گیا ہے کہ:۔
’’ہمارے اعمال کا دارومدار ہماری نیتوں (سوچ) پر ہے‘‘۔میرا خیال ہے کہ اب آپ اس اصول کو بخوبی سمجھ گئے ہوںگے ۔ لہذا آپ جو کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ اس کا پختہ ارادہ کرلیں ۔ آپ کا Sub-Concious mind (تحت الشعور ) آپ کیلئے اسباب مہیا کرئے گا۔ اور آپ کامیاب ہو جائیں گے ۔ Sub-Concious mind ہے کیا اور یہ ہماری زندگی کو کیسے کنٹرول کرتا ہے؟ ان شاء اللہ یہ کسی اورتحریر میں گوش گزار کروں گا۔
اللہ مجھے اور آپ کو دوسروں کی زندگی میں آسانیاں تقسیم کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ (آمین) -
کامیابی حاصل کرنے کا شارٹ کٹ نہیں ہوتا – بشارت حمید
ہماری کالونی نہر کے کنارے واقع ہے اور نہر کے دونوں جانب تین لین کی ایکسپریس وے گزرتی ہے۔ عید کے دوسرے دن ایک شخص اپنی فیملی کے ساتھ گاڑی میں جا رہا تھا بجائے ون وے فالو کرنے کے اور تھوڑی دور سےیو ٹرن لے کر درست سمت میں جانے کے اس نے ون وے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے گاڑی غلط رخ پر ڈال دی کہ چلو خیر ہے شارٹ کٹ مار لیتے ہیں۔
ہوا یہ کہ مخالف سمت سے ایک دوسری تیز رفتار گاڑی جو کہ اپنی درست سمت میں آرہی تھی ، اس گاڑی کے ساتھ ٹکرا گئی نتیجتاً دونوں گاڑیاں تباہ ہوگئیں اور دو لوگوں کی جان بھی گئی۔ اک ذرا سی لاپرواہی ایک لمحے میں کتنے لوگوں کی زندگی کا رخ ہی بدل گئی۔ کوئی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا اور کوئی زخمی ہو کر ہسپتال جا پہنچا اور عمر بھر کے لیے معذور ہو گیا۔
اگر ہم اپنی زندگی کا جائزہ لیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم سب ہر وقت شارٹ کٹ کے چکر میں پڑے رہتے ہیں۔ صبر نام کی کوئی چیز ہماری زندگی میں نہیں پائی جاتی اور نہ ہی اس کی تعلیم و تربیت دی جاتی ہے۔ یہ صرف سڑک پر چلنے والی ٹریفک کا ہی مسئلہ نہیں زندگی کے ہر شعبے میں دیکھیں تو یہی بے صبری نظر آتی ہے۔ نا ہم اشارےکی پابندی مانتے ہیں نا ون وے کی،نا ہی قطار میں کھڑے ہونا پسند کرتے ہیں اور ہر جگہ کوشش یہ کرتے ہیں کہ دوسروں کو پھلانگ کر ہم آگے نکل جائیں۔ اپنے اس غیرمناسب طرز عمل پر کسی قسم کی شرمندگی کی بجائے سمجھانے والے سے الجھنے لگتے ہیں۔
آخر ہم کیوں یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمارے دین میں صبر اور برداشت کی کتنی اہمیت اور تاکید کی گئی ہے۔ قرآن مجید میں حضور اکرم صل اللہ علیہ و سلم کو بار بار ارشاد فرمایا گیا کہ اے نبی آپ لوگوں کو اللہ کے دین کی طرف بلاتے رہیے اور صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیے۔ اہل ایمان کو مخاطب کر کے فرمایا گیا کہ اللہ تعالٰی سے مدد مانگو صبر اور نماز کے ساتھ۔ بے صبری اور جلد بازی کو دین میں پسند نہیں کیا گیا۔
دنیاوی لحاظ سے جن لوگوں کو ہم کامیاب سمجھتے ہیں ان کی زندگیوں کا جائزہ لیا جائے تو وہ بھی اس مقام پر ایک دن میں نہیں پہنچ گئے ان کے ساتھ بھی صبر اور مسلسل جدوجہد کی ایک داستان ہوتی ہے جو عام لوگوں کو نظر نہیں آتی۔ آخرت میں اللہ تعالٰی نے مومنوں کےساتھ جنت کا وعدہ کیا ہے لیکن وہ بھی صبر کرنے والوں کو ملے گی۔
یاد رکھیے کامیابی حاصل کرنے کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوتا۔ اس لئے دنیا اور آخرت دونوں میں کامیاب ہونے کے لئے صبر کے ساتھ سیدھے راستے پر چلنا ہو گا کہ شارٹ کٹ کا انجام بالآخر تباہی و بربادی ہے کامیابی نہیں۔
-
مثبت سوچ اور کامیابی کا بنیادی اصول – عثمان عابد
زندگی کو پرمسرت اور خوشگوار بنانے کا فن صدیوں سے موجود ہے ۔ ہر مذہب نے زندہ رہنے کے اصول سِکھائے ہیں۔ خواہ دانشور ہوں یا ماہرین نفسیات۔۔۔ سب نے اس کی اہمیت کا پرچار کیا ہے۔ Psycology کے ماہرین کے مطابق انسان کی شخصیت اُس کی سوچ کا عکس ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ تمام انسان اپنے ذہنی نقوش کی زندہ تصویر ہوتے ہیں ۔ یعنی وہ اپنے خیالات اور اپنے ارادوں کا عکس ہوتے ہیں ۔ ہمارے خیالات ہمارے کردار کی تعمیر کرتے ہیں ۔ ہم ارادی طور پر یا غیرارادی طور پر جو کچھ سوچتے ہیں وہ ہماری شخصیت اور زندگی پر بہت گہرا اثر ڈالتا ہے ۔ اگر ہمارے خیالات منفی نوعیت کے ہیں تو ہماری زندگی منفی اثرات کا عکس ہو گی اور ہمارے ہر عمل سے Negativity جھلکے گی۔ اس کے بر عکس اگر ہمارے خیالات مثبت نوعیت کے ہوں گے تو ہماری زندگی مثبت اثرات کا عکس ہو گی اور ہمارے ہر عمل سے Positivity جھلکے گی۔
آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا قانون ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید میں انسان سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ اے انسان تو میری بنائی ہوئی چیزوں پر غور کیوں نہیں کرتا ؟ اگر ہم اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی اس کائنات پر غور کریں تو ہمیں آفاقی قوانین دکھائی دیتے ہیں ۔ یہ کائنات اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے انھی آفاقی قوانین کے مطابق چل رہی ہے ۔ جو انسان اللہ کی دی ہوئی عقل کو استعمال میں لاتے ہوئے ان قوانین کو تلاش کرتا ہے اور تلاش کرنے کے بعد ان پر عمل کرتا ہے تو وہ کامیاب کہلاتا ہے۔
اس کالم میں ہم صرف ایک قانون پر بات کریں گے اور وہ ہے’’قانون ثبات‘‘۔ اسے انگریزی میںLaw of Consistency کہتے ہیں ۔ قانون ثبات کے اور بھی کئی نام ہیں جیسا کہ قانون مکافاتِ عمل یا قانونِ استحکام ، یہ ناقابل تغیر آفاقی قانون ہے ۔ جب سے یہ دنیا معرض و جود میں آئی ہے تب سے یہ آفاقی قانون لاگو ہے اور انشا ء اللہ قیامت تک رہے گا۔ ہم جتنی مرضی کوشش کرلیں ، اسے تبدیل نہیں کر سکتے یہ قانون فطرت ہے ۔ اس کا بنانے والا قادر مطلق ہے ۔ Law of Consistency اپنی پوری طاقت و توانائی کیساتھ اس کائنات میں وقوع پزیر ہو رہا ہے ۔ ۔۔ ثبوت چاہیے تو اپنے اردگرد نگاہ دوڑائیے۔۔۔ثبوت ہر جگہ موجود ہے صرف تلاش کرنے والی آنکھ کی ضرورت ہے ۔
قانون ثبات ہے کیا ؟ ’’جو بوؤگے وہی کاٹو گے ‘‘۔ یہ ہے قانون ثبات! اگر آپ گندم کو زمین میں بوئیں گے تو گندم ہی کاٹیں گے ۔ گندم کی جگہ مکئی نہیں اُگے گی ۔ اس لیے کہ یہ قانون فطرت کے خلاف ہے ۔ Law of Consistency ہماری زندگی کے ہر شعبے میں کارفرماہے ۔ آیئے اس قانون کو ایک اور زاویئے سے دیکھتے ہیں۔ اگر آپ اپنے ذہن میں ناکامی کے بیج بوئیں گے تو ناکامی کی فصل اُگے گی ۔ ناکامی کا تصور کبھی بھی کامیابی میں نہیں بدل سکتا ۔ کیونکہ یہ فطرت کے قانون کے خلاف ہے ۔ لیکن اس کے بر عکس اگر آپ کامیابی کا بیج بوئیں گے تو کامیابی کی فصل اُگے گی ۔
انسان اپنی قسمت خود بناتا ہے ۔ ہم جس چیز پر اپنی توجہ مرکوز کر تے ہیں ۔ وہی چیز ہمارا مقدر بن جاتی ہے ۔ آپ نے اپنے ذہن کو ناکامی کے تصور پر مرکوز رکھا اور اس کا عمل یا نتیجہ ناکامی ہی کی شکل میں نکلا۔ اس میں قصور حالات کا نہیں اور نہ ہی آپ کے مقدر کا ہے ۔ آپ نے جو کچھ سو چا وہ پورا ہوگیا ۔ قانون ثبات ناکامی کے تصور کو کامیابی کی شکل میں نہیں بدل سکتا ۔ اگر آپ کامیابی کا سوچیں گے تو کامیابی آپ کا مقدر ہوگی ۔ اگر آپ دوسروں کی بھلائی کے متعلق سوچیں گے تو دوسرے بھی آپ کا بھلاسوچیں گے۔ اگر آپ محبت کریں گے تو آپ سے محبت کی جائے گی ۔ یہی Law of Consistency ہے۔ ہماری شخصیت، ہماری زندگی دراصل ہمارے تصورات کا عکس ہوتی ہے۔ ہماری کامیابیوں یا ناکامیوں کا دارو مدار ہمارے تصورات ، ہمارے خیالات اور ہماری سوچ پر ہوتا ہے ۔ اس لیے کہا گیا ہے کہ:
’’ہمارے اعمال کا دارومدار ہماری نیتوں (سوچ) پر ہے ‘‘۔میرا خیال ہے کہ اب آپ اس اصول کو بخوبی سمجھ گئے ہوں گے ۔ لہذا آپ جو کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ اس کا پختہ ارادہ کرلیں ۔ آپ کا Sub-Concious mind (تحت الشعور ) آپ کیلئے اسباب مہیا کرئے گا۔ اور آپ کامیاب ہو جائیں گے ۔ Sub-Concious mind ہے کیا اور یہ ہماری زندگی کو کیسے کنٹرول کرتا ہے ؟ انشاء اللہ یہ کسی اور کالم میں گوش گزار کروں گا۔
اللہ مجھے اور آپ کو دوسروں کی زندگی میں آسانیاں تقسیم کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ (آمین) -
کامیابی کیا ہے؟ کیسے حاصل کریں؟ سجاد احمد
فرض کیا آپ ایک بک سٹال پہ کھڑے ہیں اور آپ کے سامنے ملک کے ایک مشہور و معروف مصنف کی دو مختلف مگر یکساں قیمت کی کتابیں پڑی ہیں، ایک کا عنوان ہے ’’کامیابی کیسے حاصل کریں؟‘‘ اور دوسری ہے’’ زندگی کیسے گزاریں؟‘‘ آپ کون سی کتاب لینا پسند کریں گے؟ یقینا آپ اول الذکر کتاب ہی خریدیں گے۔ آپ ہی کیا ہم میں سے کوئی بھی ہو، اس کی اول ترجیح یہی کتاب ہوگی۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ ہم سب زندگی میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں ۔ اور اس کامیابی کو پانے کے لیے جہاں سے بھی تیر بہدف نسخہ ملے گا، ہماری کوشش ہوگی کہ اسے حاصل کریں۔
مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کامیابی ہے کیا؟ ہماری نظر میں قیمتی لباس، اچھا کھانا پینا، قیمتی سواری، بہترین رہائش اور اونچا سٹیٹس ہی وہ چیزیں ہیں جنہیں عموما کامیابی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اورحلال و حرام کی بحث سے قطع نظر ان کے حصول کے لیے دن رات ایک کر دیا جاتا ہے۔ انسانی حیات میں ان چیزوں کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں مگر ایک شے اور بھی ہے۔ اطمینانِ قلب! جی ہاں دل کاچین ایسی چیز ہے کہ زندگی کی کل آسائشیں آپ کو حاصل ہوجائیں مگر سکون نہ ہو تو یہ سب نعمتیں بےکار بلکہ سوہانِ روح بن جاتی ہیں۔ اور اس کے برعکس اگر آپ روحانی سکون اور طمانیتِ قلب کی دولت سے مالامال ہیں تو پھرآ پ کو زندگی کے ان عارضی معیارات کی زیادہ پرواہ بھی نہیں ہوتی۔
ہمارے اردگرد کئی لوگ ایسے بستے ہیں جن کے پاس مال و متاع کی کثرت ہے مگراس کثرت نے بجائے آسودگی بخشنے کے الٹا انہیں مضطرب کر رکھا ہے۔ کبھی مال کی حفاظت کی فکر کھائے جا رہی ہے تو کبھی دو اور دو چار، اور پھر چار کو سولہ بنانے کے چکر میں ان کی راتوں کی نیند تک اڑ چکی ہے اور سلیپنگ پلز کے بغیر جن کا گزارا ہی نہیں۔ اس کے برعکس کئی ایسے بھی ہیں کہ جن کے پاس اعلٰی لباس نہیں، اچھی خوراک نہیں، حتٰی کہ رہنے کے لیے ذاتی مکان نہیں، پھر بھی وہ سکون کی دولت سے مالامال ہیں۔ یقین کیجیے ایسے ٹینشن فری لوگ بھی میں نے دیکھے ہیں جو جب چاہیں، جہاں چا ہیں پہلو کے بل لیٹ کر خراٹے لیناشروع کر دیتے ہیں۔ وہ نیند جس کا کافی حد تک تعلق ذہنی سکون اور دلی قرار کے ساتھ ہے ،گویا ان کے گھر کی باندی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ زندگی کے یہ ظاہری ٹھاٹھ باٹھ درحقیقت کچھ بھی نہیں اور نہ ہی کامیابی مال و دولت کی کثرت میں ہے بلکہ اصل کامیابی یہ ہے کہ میں اور آپ خالقِ کائنات کی عطا کردہ اس خوبصورت زندگی کو استعمال کیسے کرتے ہیں۔ اپنے پروردگار سے ہمارا تعلق کیسا ہے؟ اور پروردگار کی پیداکردہ دیگر مخلوقات کے ساتھ ہمارا برتائو کس درجے میں ہے؟ گردوپیش کے ماحول کے لیے میرا اور آپ کا وجود خیر کا سبب ہے یا شر کا باعث؟
کا میابی یہ نہیں کہ ہم نے اس دنیا سے کیا کچھ لیا بلکہ حقیقی کامیابی یہ ہے کہ ہم نے دنیا والوں کو کیا کچھ دیا۔راحت کی شکل میں، محبت کے روپ میں، آسانیاں پیدا کرکے، میٹھے بول بول کر اور غموں کو بانٹ کر، کیونکہ سچی اور پائیدار خوشی کا حصول ایسے ہی ممکن ہے۔آپ کے علم میں ہوگا کہ اکثر امیر لوگ جب دولت کے اعتبار سے دنیا میں نمایاں ترین پوزیشن پر آجاتے ہیں تو اپنی دولت کابڑا حصہ چیریٹی کے کاموں کے لیے مختص کر دیتے ہیں۔ کبھی سوچا کہ آخر وجہ کیا ہے؟؟
-
صفت پر ہےمنحصر، سہولت کاملنا – قاضی عبدالرحمان
کچھ وصف تو ہوتا ہےدماغوں میں دلوں میں
یونہی کوئی سقراط و سکندر نہیں ہوتا
انٹرمیڈیٹ کے زمانے میں سوشل گیدرنگ کے موقع پرایک صاحب کا لیکچر ہوا تھا، جس کاعنوان ’’صلاحیتوں کی اہمیت‘‘ تھا. موضوع کی مناسبت سے موصوف نے یہ قول سامعین کےگوش گذار کیاتھا.
If you want to become a great man then you should cultivate good qualities and sublime norms.
(ترجمہ: اگر تم عظیم انسان بننا چاہتے ہو تو تمہیں عمدہ صفات اور اعلی معیار کو پروان چڑھاناچاہیے)دنیامیں قبول عام کےحصول کےلیے قابل ہونا شرط ہے. قابل کے در پر کامرانی اگرچہ دیر سے سہی مگر ناک رگڑتی ہوئی آتی ہے. ناکارہ اشخاص کا حال ’یہ ناداں گرگئے سجدے میں جب وقت قیام آیا‘ سے مختلف نہیں ہوتا. جوہر قابل کو ہرکہ ومہ کے در پر کاسہ گدائی پکڑنا اور جبیں کو خاک آلود کرنا نہیں پڑتا. اس کا نشیمن شاہوں کا محل نہیں ہوتا بلکہ درگاہ حق ہوتی ہے. ہرشعبہ میں اہل کمال کو پلکوں پر بٹھاتے ہیں اور نااہلوں کو باہر کا راستہ دکھاتے ہیں. اسی لیے فارسی کامقولہ ہے،
’کسب کمال کن کہ عزیز جہاں شوی‘ (اپنے کام میں ایسا کمال پیدا کرو کہ جہاں کو عزیز ہو جائو)ہمارے معاشرے میں پنپتا ایک عام مغالطہ یہ ہے کہ باہر موجود چیزوں کو کامیابی کی کنجی سمجھنے لگتے ہیں جو کہ کامیابی کا دھوکہ ہے، اصل کامیابی انسان کے اندرون کا بننا اور باطن کا صفات سے آراستہ ہونا ہے. اخلاق حمیدہ اور صفات سعیدہ سے مزین شخص، اپنوں اور غیروں کی نظر میں یکساں محبوب ہوتا ہے. اس کی صحبت، راحت کا سبب ہوتی ہے. یہ شخصیت کی تعمیر، کردار کی صفائی اور روح کی پاکیزگی قرآن مجید کا اہم موضوع ہے. اس موضوع پر کئی آیات قرآنیہ شاہد عدل ہیں. یہاں صرف تین آیات بطور استشہاد پیش کرنے کا ارادہ ہے.
1) جب غاصب جالوت کے ظلم و ستم سے لڑنے کے لیے بنی اسرائیل میں سے کسی کو بادشاہ بنانے کی ضرورت پیش آتی ہے، اس وقت کا منظر قرآن محکم کی زبانی سنیے،
’’اور پیغمبر نے ان سے (یہ بھی) کہا کہ خدا نے تم پر طالوت کو بادشاہ مقرر فرمایا ہے۔ وہ بولے کہ اسے ہم پر بادشاہی کا حق کیونکر ہوسکتا ہے، بادشاہی کے مستحق تو ہم ہیں اور اس کے پاس تو بہت سی دولت بھی نہیں.‘‘
آگے نبی فضیلت کا سبب مال و اسباب کو نہیں بلکہ باطنی معیار بتاتے ہیں.
’’پیغمبر نے کہا کہ ترجمہ:’’خدا نے اس کو تم پر فضیلت دی ہے اور (بادشاہی کے لیے) منتخب فرمایا ہے اس نے اسے علم بھی بہت سا بخشا ہے اور تن و توش بھی (بڑا عطا کیا ہے) اور خدا (کو اختیار ہے) جسے چاہے بادشاہی بخشے۔ وہ بڑا کشائش والا اور دانا ہے.‘‘ (البقرہ)
حافظ عمادالدین ابن کثیررحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں، یہاں سے یہ بھی ثابت ہوا کہ بادشاہ ذی علم، شکیل، قوی، طاقتور اور بڑے دِل و دماغ والا ہونا چاہیے۔ (ابن کثیر)2) جیل سے باعزت رہائی کے بعد، جب بادشاہ نے حضرت یوسف علیہ السلام کو اپنا مصاحب خاص بنایا اور عہدہ کی پیشکش کی تو وزیرخزانہ کے عہدے کے لیے آپ علیہ السلام نے اپنی شخصیت کی موزونیت کا اظہار خاندانی عظمت کی بنیاد پر نہیں بلکہ اس عہدہ کےلیے درکار صفات کی بنیاد پر کیا. فرمانےلگے،
ترجمہ: ’’مجھے اس ملک کے خزانوں پر مقرر کر دیجیے کیونکہ میں حفاظت بھی کرسکتا ہوں اور اس کام سے واقف ہوں.‘‘ (سورہ یوسف)
تفسیرمظہری میں اس آیت کےذیل میں لکھاہےکہ میں ناجائز اخراجات سے خزانے کی حفاظت کرسکتا ہوں اور مفید اور نفع بخش مقامات پر خرچ کرنے کے اصولوں سے اچھی طرح واقف ہوں۔3) حضرت موسی علیہ السلام، فرعون کے شر سے بچنے کی خاطر مدین پہنچتے ہیں. قول مشہور کے مطابق حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹیوں کے بکریوں کے ریوڑ کو پانی پلاتے ہیں جس کاحال وہ اپنے والد کے سامنے بیان کرتی ہیں. قرآنی منظر کے مطابق ایک لڑکی بولی کہ ابّا ان کو نوکر رکھ لیجیے. آگے بیان ہو رہی ہیں وہ خوبیاں جن کے سبب وہ انہیں ملازمت کا اہل قرار دیتی ہے ترجمہ:’’ کیونکہ بہتر نوکر جو آپ رکھیں وہ ہے (جو) توانا اور امانت دار (ہو).‘‘ (سورہ قصص)
علامہ شبیراحمدعثمانی فرماتے ہیں، یعنی موسٰیؑ میں دونوں باتیں موجود ہیں۔ زور دیکھا ڈول نکالنے یا مجمع کو ہٹا دینے سے، اور امانت دار سمجھا بے طمع اور عفیف ہونے سے. (تفسیرعثمانی)یہ آیات اس کائناتی سچائی کو مبرہن کرتی ہیں کہ اللہ جل جلالہ کے یہاں حسب نسب معیار نہیں ہیں (چاہے فرد کا نسب انبیاء علیھم السلام سے ہی کیوں نہ جاملے!) بلکہ شمائل و خصائل معیار ہیں. یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ فاطر ہستی کی کائنات قانون یہ ہے کہ صلاحیتیں، شدائد و حوادث کے راستے سے گزر کر ہی نکھار خالص ہوتی ہیں. جب پھول کچلا جاتا ہے تو عطر برآمد ہوتا ہے، پھلوں کو نچوڑنے سےجوس ملتا ہے، زیتون اور سرسوں پر دبائو پڑتا ہے تو روغن عطا ہوتا ہے، جب خون کا قطرہ ہرن کے نافہ میں قید ہونا قبول کرتا ہے تو مشک بن کر خواص کی توجہ حاصل کرتا ہے، عود جب آگ میں جلتا ہے تو اس کی خوشبو چہار سمت پھیلتی ہے. یہی سبب ہے کہ طالوت کی صلاحیتیں عین حالت جنگ سے قبل پتہ چلتی ہیں. حضرت موسی علیہ السلام کی خوبیاں حالت مسافرت میں توجہ حاصل کرتی ہیں. حضرت یوسف علیہ السلام کی صفات جیل میں قید ہونے کے دوران خوشبو کی مانند اطراف و اکناف میں پھیلتی ہیں. اسمعیل میرٹھی مرحوم نے اس موضوع کو بڑی خوبصورتی کےساتھ بیان کیاہے،
کوئی پیشہ ہو زراعت یا تجارت یا کہ علم
چاہیے انسان کو پیدا کرے اس میں کمال
کاہلوں کی عمر بڑھ جاتی ہے خود کر لو حساب
با ہنر کا ایک دن اور بے ہنر کا ایک سالسبق:
سہولتوں کا تعاقب نہ کریں بلکہ صفات پیدا کریں. تجربہ شاہد ہے کہ جب صفات ہو تو سہولیات مل ہی جایا کرتی ہیں.