Tag: کاروبار

  • مسیحا یا ملک الموت : شیخ محمد ہاشم

    مسیحا یا ملک الموت : شیخ محمد ہاشم

    شیخ محمد ہاشم
    ڈاکٹر صاحب کو جب ہم نے بہت ہی کم وقتوں میں امیر بنتے دیکھا تو ہم نے ڈاکٹر صاحب سے ان کی ترقی کا راز پوچھا تو مسکراکر مولویوں کی طرح فتوے کے انداز میں گویا ہوئے “میاں محبت ،جنگ اور کاروبارمیں سب کچھ جائز ہے” ڈاکٹر صاحب مسکرا رہے تھے اُن کے اس محاورے کو سمجھنے میں ہمیںکچھ وقت لگا تب ہم حیرت کے عالم میں انھیں ٹکٹکی باندھے دیکھے جا رہے تھے ہم سکتے میں تھے اس ایک محاورے نے ہمارے سامنے ان کی شخصیت کو برہنہ کر دیا تھا ہمیںاس ڈاکٹری فتوے نے سناٹے میں لا کر کھڑا کر دیا ہر سو ویرانی دکھائی دینے لگی اس محاورے کو سننے سے قبل ہمارے تحت ُالشعور میں ڈاکٹر کا روپ ایک مسیحا کی مانند تھا زندگی بچانے والے تمام شعبے کے لوگ ہمیںسفید کوٹ میں ملبوس فرشتے کے ہیولے دکھائی دیتے تھے ہم اس شعبے سے جڑے افراد کی تعظیم میں کوئی کمی نہیں آنے دیتے رہے لیکن اس ایک محاورے نے ہماری سوچوں کو منتشر کر دیا ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ جن ڈاکٹر صاحب کو میرے رب نے زندگی بچانے والے فرشتے کے روپ میں ایک ذمہ داری سونپی ہے ایساا علیٰ مقام دیا ہے، وہ صرف چند سکوں کے خاطراس ذمہ داری کو کاروبار میں منتقل کر چکے ہیں تب ہم پر اُن کی ترقی کے راز آشکار ہونے شروع ہوئے ہم نے مزید کھوج لگانے کی کوشش کی کہ ڈاکٹر صاحب کے کاروبار میں اتنی برکت اتنی تیزی سے کیسے پیدا ہو گئی کہ اتنے کم وقتوں میں یہ امیروں کی صفوں میںکیسے کھڑے ہو گئے ؟ تو جناب ایسے ایسے انکشافات نے جنم لئے کہ ہمارے پیروں تلے زمین نکلنا شروع ہو گئی۔

    اس وقت دوائیوں کی ملٹی نیشنل اور نیشنل کمپنیاں سب سے زیادہ نا جائز منافع کما رہی ہیں جس کا سب سے زیادہ فائدہ وہ ڈاکٹروںکو فراہم کر رہی ہیںسیمنارکے نام پر ڈاکٹروںکو مطلع کیا جاتا ہے کہ آپ ہماری کمپنی کی جتنی زیادہ دوائی لکھیں گے اُتنا زیادہ کمیشن کمائیں گے اس کے علاوہ تحائف جس میں الیکٹرونک اشیاء سے لے کر کار ،بچوں کی تعلیمی فیسیں ،اور دنیا بھر کا دورہ بھی شامل ہے دلچسپ بات یہ ہے کہ عمرہ کا ٹکٹ بھی دیا جاتا ہے اب واللہ ا علم بصوا ب کہ اس صورت میں عمرہ جائز ہے کہ نہیں یا محبت، جنگ اور کاروبار میں مذہبی فرائض بھی جائز قرار ہو گئے ہو ؟آپ حیران ہو ں گے کہ ضمیر سے عاری ڈاکٹر حضرات دل کے عارضے میں مبتلا مریض کو دل کی ادویات کے ہمراہ معدے کی دوائی بھی شامل کر دیتے ہیں تاکہ دوائی لکھنے کی مد میں کمیشن دستیاب ہو سکے اس تجویز کردہ معدے کی دوائی کی قیمت آسمان کو چھو رہی ہوتی ہے۔ یہ بھی مشاہدے میں آیا ہے کہ معدے میں گیس کے سبب درد کی شکایت میں مبتلا مریض جب ڈاکٹرز کے پاس آتے ہیں تو انھیں کہا جاتا ہے کہ یہ درد، دل کی دھڑکن درست نہ چلنے کے باعث ہے، ECGکروایا جاتا ہے جو کہ دل کی دھڑکن کو درست ثابت کرتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ دھڑکن کی رفتار اس وقت تو درست ہے لیکن یہ مرض آپ کو لاحق ہے اب آپ کو میری تجویز کردہ دوائی تمام عمر کھانی ہے ورنہ ملک عدم سدھار جائو گے۔ مریض بے چارے کے پاس ڈاکٹر کی بات ماننے کے سواکوئی چارہ بھی نہیں ہوتا۔

    پاکستان میں موجود 240 نیشنل اور ملٹی نیشنل کمپنیوں سے منسلک کوٹ ، پینٹ،ٹائی میں ملبوس نوجوان لڑکوں کا ڈاکٹر ز کے کلینک اور ہسپتال کے گرد تانتا بندھا رہتا ہے ایک گائناکولوجسٹ لیڈی ڈاکٹر کو ان بیگ تھامے لڑکے سے ہم نے بانگ دہل یہ کہتے سُنا ہے کہ آپ کی کمپنی کی اس میڈیسن کے علاوہ میں کوئی دوسری میڈیسن نہیں لکھوں گی ،لیکن سوال یہ ہے کہ آپ کی کمپنی اس کے عوض مجھے کتنا کمیشن دے سکتی ہے؟کمیشن کے عوض ان لالچی دیوتاوں کویہ بھی جانچنے کی قطعی ضرورت نہیںکہ اس کمپنی کی میڈیسن کامیعارکیاہے ۔ اس قسم کے لوگ ڈاکٹروںکے روپ میں ملک الموت بن چکے ہیں ۔ ہسپتال،ڈاکٹرز،میڈیسن کمپنیاں زندگی بچانے کی ضمانت سمجھے جاتے تھے لیکن اب یہ منعفت بخش کاروبار کا روپ دھار چکے ہیں ہسپتالوں میں طبی امداد دے کر گھر رخصت کرنے کا تصور بھی مند مل ہوتا جا رہا ہے غریب کی زندگی موت سے بھی بدتر ہوتی جارہی ہے۔ پاکستان کا محکمہ صحت نہ جانے کن ہوائوں کے دوش پر اُڑ رہا ہے اس کا وجود ہے بھی کہ نہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات میں کمی ہوئی لیکن ادویات کی قیمتوں کے اضافے نے ہوش اُڑا کر رکھ دیا ،نادار و بے سہارا افراد کے پاس موت کو گلے لگانے کے سوا کوئی چارہ نہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم ان فرشتہ صفت ڈاکٹروں کو بھی خراج تحسین پیش کرتے ہیں جو اپنے فرائض سے غافل نہیں ہیں وہ واقعی مسیحا ہیں ان کی قدر و منزلت ہمارے دل اور معاشرے میں اسی طرح ہے جس طرح ہونی چاہئے اللہ ان کے دلوں میں انسانیت اور غرباء کی فکر اور قدر میں اضافہ فرمائیں آمین ، پاکستان کے وزیر اعظم اور انصاف کے رکھوالے غریبوں کا درد ضرور رکھتے ہیں اسی لئے تو وہ بے چارے اپنی ہر تقریروں میں غریبوں کے مستقبل کو روشن رکھتے ہیں ۔لیکن جو کچھ طب کے پیشے سے منسلک افراد غریبوں کے ساتھ کررہے ہیں یہ دیکھ کر تو اندازہ ہوتا ہے کہ حکمران حیران ہو رہے ہوتے ہیں کہ اتنے غریب اب تک کیوں زندہ ہیں۔

  • قانون اور کاروبار، چند ضروری باتیں – جہانگیر بدر

    قانون اور کاروبار، چند ضروری باتیں – جہانگیر بدر

    جہانگیر بدر وکالت کے دوران کچھ ایسی غلط فہمییوں کا تجربہ ہوا ہے جو عموما بہت سارے کاروباری لوگوں میں پائی جاتی ہیں۔ وہ لوگ جنہوں نے نیا نیا کاروبار شروع کیا ہے ان میں یہ غلط فہمیاں کچھ زیادہ ہی ہوتی ہیں، جس کی وجہ قانون کا نہ جاننا ہے۔

    اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ جب کوئی کلائنٹ ہمارے آفس کوئی قانونی مسئلہ لے کر آتا ہے تو اپنے کاروبار کو کمپنی سمجھ رہا ہوتا ہے اور ہر بات کے ساتھ میری کمپنی میری کمپنی کر رہا ہوتا ہے اور جب اس سے کاغذات مانگے جاتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کمپنی تو کیا وہ ایک فرم بھی نہیں ہوتی۔ کاروباری لوگوں کے لیے کچھ چیزوں کا جاننا بہت ضروری ہے۔

    ایک دفعہ ایک کلائینٹ کی رٹ کرنی تھی۔ میں نے اس سے تین دفعہ پوچھا کہ جناب آپ کی کمپنی ہی ہے نا؟ اس کا جواب ہاں میں تھا۔ آخری بار جب میں نے اس سے پوچھا تو وہ غصے ہو گیا کہ کیا وہ اتنا بڑا کاروبار ایسے چلا رہا ہے؟ لیکن جب اگلی صبح کاغذات آئے تو معلوم ہوا کہ وہ ایک فرم تھی۔ اور ہمیں پورا مقدمہ تبدیل کرنا پڑ گیا۔

    یہاں زیادہ تفصیلات تو بیان نہیں ہو سکتیں لیکن ان چیند باتوں کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔
    یاد رکھیں قانون میں ہر کاروبار کی اپنی ایک پہچان اور تشریح ہے۔
    اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ ایک کمپنی چلا رہے ہیں تو آپ کے پاس سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کا جاری کردہ انکارپوریشن سرٹیفیکیٹ ہونا ضروری ہے جس پر آپ کی کمپنی کا نام اور تاریخ درج ہوگی۔ کمپنیز کو کنٹرول کرنے والا ادارہ سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان ہے۔ ہر کمپنی یہیں رجسٹرڈ ہوتی ہے۔
    اگرآپ کے پاس یہ سرٹیفیکیٹ نہیں ہے اور فارم سی ہے جو رجسٹرار فرم نے جاری کیا ہے تو پھر یہ کمپنی نہیں بلکہ پارٹنر شپ ہے۔
    اگر آپ کے پاس یہ فارم سی بھی نہیں ہے اور صرف این ٹی این نمبر ہے تو آپ کا ایک شخصی کاروبار ہے۔
    بعض لوگ ٹریڈ مارک رجسٹریشن کو بھی کمپنی سمجھ لیتے ہیں، یہ بھی بلکل غلط ہے۔

  • شارٹ کٹ-ہارون الرشید

    شارٹ کٹ-ہارون الرشید

    m-bathak.com-1421247288haroon-rasheed

    قسم ہے زمانے کی بے شک انسان خسارے میں ہے مگر وہ جو ایمان لائے اور اچھے عمل کیے‘ جوسچائی اور صبر کی نصیحت کرتے رہے۔
    نیک نام جسٹس سردار احمد رضا خان کی صدارت میں وزیر اعظم کو نا اہل قرار دینے کی درخواستوں پر سماعت کا آغاز ہوا تو کمیشن کے ایک افسر نے اخبار نویسوں کو کمرۂ عدالت سے نکل جانے کا حکم دیا۔ اخبار نویسوں نے انکار کر دیا اور کہا کہ حکم تحریر طور پر جاری کیا جائے۔ پیپلزپارٹی کے وکیل نے سوال اٹھایا کہ کیا یہ ایک فوجی عدالت ہے؟ پھر تمام وکلا نے بائیکاٹ کی دھمکی دی تو حکم واپس لے لیا گیا۔

    عدالتیں خلا میں کام نہیں کرتیں۔ ملک کا مجموعی ماحول اثرانداز ہوتا ہے۔ گزشتہ کمیشن کے مقابلے میں موجودہ بڑی حد تک قابل اعتبار ہے، شدید عوامی تنقید کے ہنگام جس کے ایک ممبر جسٹس کیانی نے فرمایا تھا: اگر بے عزتی کا احساس ہوا تو چھوڑ کر ہم چلے جائیں گے، وگرنہ برقرار رہیں گے۔ وزیر اعظم کو نا اہل قرار دینے کے لیے دلائل کے انبار دھرے ہیں۔

    2011ء میں اپنے اثاثے انہوں نے 16کروڑ اور 2013ء میں 26 کروڑ بتائے۔ کیا یہ قابل فہم ہے؟ 2013ء کے الیکشن میں کاغذاتِ نامزدگی داخل کرتے ہوئے انہوں نے لندن کے مکانات کا ذکر کیا اور نہ پراپرٹی کے کاروبار کا، جس کی مالیت 800 ملین ڈالر سے کم نہیں۔ پاناما کی ان کمپنیوں کا بھی نہیں، جو اس وقت بنائی گئیں جب حسین نواز نیکر پہن کر سکول جایا کرتے تھے۔ برطانوی مکانوں کے بارے میں میاں صاحب ‘ان کی اہلیہ محترمہ‘ صاحبزادی اور فرزندوں کے بیانات مختلف ہیں، اتنے مختلف کہ مضحکہ خیز۔ انتخابی دستاویزات میں دبئی کی اس سرمایہ کاری کا بھی انہوں نے ذکر نہ کیا، پاناما لیکس پر شور و غوغا کے بعد قومی اسمبلی کو جس پر انہوں نے اعتماد میں لیا۔ جدہ کی سٹیل مل کا حوالہ کیا اس میں موجود تھا، ان کے بقول جسے بیچ کر لندن کی جائیداد خریدی۔ چوہدری نثار علی خان اور صدیق الفاروق کہتے ہیں کہ یہ خریداری 1992ء میں ہوئی۔ وزیر اعظم کے داماد کیپٹن صفدر کو بھی ظاہر ہے کہ جوابدہی کرنا ہو گی، 2008ء اور 2013ء میں جنہوں نے اپنی اہلیہ محترمہ کے اثاثوں کی تفصیل چھپا رکھی۔ ان دنوں اپنا دربار وہ الگ سجاتی ہیں‘سرکاری صحافیوں کو جہاں سے ہدایات ملتی ہیں کہ آزاد اخبار نویسوں کی کردار کشی کی جائے۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ گالی گلوچ تو کیا، آزاد اخبار نویس کو اپنی نوکری ، حتیٰ کہ جان تک کی پروا نہیں ہوتی ۔

    فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے افسر نے وضاحت کر دی ہے کہ قانون سمندر پار کمپنیاں بنانے والوں کے احتساب کی اجازت نہیں دیتا۔ شریف خاندان اگر منتقم مزاج اور سفاک بھٹو کے ہاتھوں اتفاق فائونڈری قومیائے جانے کے بعد دبئی میں سٹیل مل لگا سکتاہے ۔ جنرل مشرف کاہدف ہونے کے باوجود سعودی عرب میں اس سے بڑا کارخانہ تعمیرکر سکتاہے ۔ عرب حکمرانوں کی مدد سے سینکڑوں بھارتیوں کو اس میں کھپا سکتاہے ۔ اگر وہ اپنی شوگر مل میں دشمن ملک کے کاریگروں کو پناہ دے سکتاہے ، ممکنہ طور پر جو ”را‘‘ کے ایجنٹ بھی ہو سکتے ہیں تو کیا اس نے الیکشن کمیشن سے بچ نکلنے کا بندوبست نہ کیا ہوگا؟ تمام بڑے سرمایہ داروں کو قانون دان دستیاب ہوتے ہیں ۔

    سبکدوشی کے بعد جسٹس لون کو شریف خاندان نے سینیٹر کا عہدہ عطا کیا تھا اور جسٹس رفیق تارڑ کو صدارت کا۔
    ہم فرض کرتے ہیں اور یہ فرض کرنے کا پورا جواز موجود ہے کہ الیکشن کمیشن کے تمام ارکان مکمل طور پر دیانت دار اور مکمل طور پر بے خوف ہیں ، عدالتیں مگر خلا میں کام نہیں کرتیں ۔ وہ قانون کے دائرے میں کارفرما ہوتی ہیں۔ شہادتوں پر وہ انحصار کرتی ہیں ۔ جہاں تک پیپلز پارٹی کا تعلق ہے ،ستمبر میں احتجاجی تحریک شروع کرنے اور وزیرِ اعظم کے استعفے کا مطالبہ کرنے کے ساتھ ہی انہوں نے اعلان کیا ہے کہ جمہوری نظام کو وہ پٹڑی سے اترنے نہیں دیں گے ۔ اس کا مطلب کیا ہے ؟ دبئی میں زرداری صاحب سے سینیٹر اسحٰق ڈار کی ملاقات کا مطلب کیا ہے ؟ ٹی او آر کمیٹی سے ایم کیو ایم کے راہِ فرار اختیار کرنے کا مطلب کیا ہے ؟ ؎

    ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
    دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا

    پنجابی ضرب المثل یہ ہے کہ فلاں آدمی تپتے ہوئے توے پر بیٹھ کر بھی کوئی بات کہے تو اعتبار نہ کیا جائے۔ زرداری خاندان ایک ہزاربار نواز شریف کو اکھاڑ پھینکنے کا دعویٰ کرے تو بھی اس پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ اعتزاز احسن اور شیخ رشید ضرورسنجیدہ ہیں مگر غیظ و غضب کے جلو میں۔ غیظ و غضب میں شور و غوغا کیا جا سکتا ہے‘ دھمکیاں دی جا سکتی ہیں‘ مذاق اڑایا جا سکتا ہے‘ پیش گوئیاں کی جا سکتی ہیں، ظفر مندی ممکن نہیں ہوتی۔ ظفر مندی ٹھنڈے دل سے تجزیہ کرنے پھر مستقل مزاجی سے جدوجہد اور ایثار و قربانی سے ممکن ہوا کرتی ہے ۔اعتزاز احسن چیختے رہ جائیں گے اور زرداری صاحب مفاہمت کر لیں گے دونوں کی اسی میں بقا ہے۔

    مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی
    ہیولیٰ برقِ خرمن کا‘ ہے خونِ گرم دہقاں کا

    بیرسٹر اعتزاز احسن کے موقف اور لب و لہجے پر غور کیجیے۔ وہ ہرگز یہ نہیں کہتے کہ لوٹ مار قابل برداشت نہیں۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ شریف خاندان کو من مانی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ناجائز دولت سمیٹنے کے وہ خلاف ہوتے تو جناب آصف علی زرداری کا اتباع کیسے کرتے؟1993ء کی ایک شام ‘جب میاں محمد نواز شریف قومی اسمبلی میں سرے محل کا انکشاف کرنے والے تھے‘ بیرسٹر صاحب نے مجھ سے کہا تھا: اس عورت (بے نظیر )سے میں تنگ آ چکا ہوں ۔دو دن کے بعد ڈٹ کر انہوں نے محترمہ کا مقدمہ لڑا۔ اب وہ انہیں شہید کہتے ہیں‘ ایک روحانی مقام و مرتبے پر فائز۔ چوہدری نثار علی خان کے خلاف ہر روز وہ ایک بے معنی سی تقریر کرتے اور ان سے شکوہ سنج اخبار نویسوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ اپنے بے لچک مزاج اور گاہے مردم بیزاری کا ارتکاب کرنے والے چوہدری صاحب بعض کے نزدیک ناپسندیدہ ہیں۔ مگر وہ بھکاری ہیں اور نہ خوشامدی۔ اپنے بل پر ضدی آدمی جیتا ہے۔ سیاست کی باریکیوں کو اعتزاز احسن اینڈ کمپنی سے وہ بدرجہا بہتر سمجھتا ہے ‘فصیح و بلیغ بھی ۔

    الیکشن کمیشن وزیر اعظم کے بارے میں کیا فیصلہ کرے گا؟ ممکن ہے وہ انہیں نااہل قرار دے۔ میرا خیال ہے کہ اگر ایسا ہوا تو ان کے حریفوں میں سے اکثر کا انجام بھی یہی ہو گا۔ جب ایشیا کے نیلسن منڈیلا آصف علی زرداری‘ قائد انقلاب عمران خان ‘شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری سمیت سب کا۔

    کاش یہ لوگ ادراک کر سکتے‘ کاش نفی ٔذات پر کم از کم اس قدر وہ قادر ہوتے کہ تجزیہ کرنے کی صلاحیت کھو نہ دیتے۔ پہلی بار یہ مشق نہیں‘ فیلڈ مارشل ایوب خان کے زمانے میں سینکڑوں سیاستدانوں کو ”ایبڈو‘‘کردیا گیا تھا ،بعض کو عدالتوں کے ذریعے۔ پھر کیا ہوا؟ سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ فوج کاروبارِ حکومت چلا نہیں سکتی کہ جس کا کام اسی کو ساجھے ۔ سیاستدانوں کو برادری باہر کیا جا نہیں سکتا۔ طاقتور فوج ہے اور مقبول بھی ۔ کور کمانڈروں کا کیا یہ جی نہ چاہتا ہوگا کہ بدعنوان سیاستدانوں کو بحیرہ ء عرب میں اٹھا پھینکیں۔ مگر وہ پھینک نہیں سکتے۔ تجربات سے انہوں نے سیکھا ہے کہ انہی کے پامال حربوں پہ انہیں اترنا پڑتاہے۔ ان کا اپنا وقار جاتا رہتاہے اور آخر کار وہ ڈھے پڑتے ہیں ۔

    راستہ اور ہے ، حضورِ والا ! راستہ اور ہے ۔ ماضی کو بھول کر شائستہ مستقبل کی تلاش ۔ صاحبِ دانش جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کہا تھا :تاریخ سے کبھی کوئی نہیں لڑ سکا۔ تاریخ سے کبھی کوئی نہ لڑ سکے گا۔ آخر ایک دن وقت یہ فرمان جاری کرے گا کہ فوج کو جو راہ انہوں نے سمجھائی تھی ؛اگرچہ مخمصے کے ساتھ مگر اب بھی جس پر وہ چل رہی ہے ، وہی قابلِ عمل ہے۔ بھائیوں کی نا م پر ان کی کردار کشی ایک الگ موضوع ہے ، اس پر پھر کبھی ۔

    قوموں کے مقدر نعرہ بازی سے نہیں بدلتے ، شعبدہ بازی سے نہیں ۔ تدبر کی ضرورت ہوتی ہے ، دانش ، حوصلہ مندی ، مستقل مزاجی اور رواداری کے ساتھ پیہم جدوجہد کی۔ کوئی مختصر راستہ نہیں ہوتا۔ بلوغت اور بالیدگی کے لیے قوموں کو عشروں کی ریاضت درکار ہوتی ہے ۔ نواز شریف کو اٹھا پھینکنا سہل نہیں اور اٹھا پھینکا تو عدم استحکام کے ایک نئے‘ سنگین تر دور کا آغاز ہوگا۔ ع

    سخت کوشی سے ہے تلخیٔ زندگانی انگبیں

    قسم ہے زمانے کی بے شک انسان خسارے میں ہے ‘مگر وہ جو ایمان لائے اور اچھے عمل کیے، جو سچائی اور صبر کی نصیحت کرتے رہے۔