Tag: ڈونلڈ ٹرمپ

  • کیا عمران خان ڈونلڈ ٹرمپ بن سکتے ہیں؟ محمد عامر خاکوانی

    کیا عمران خان ڈونلڈ ٹرمپ بن سکتے ہیں؟ محمد عامر خاکوانی

    پچھلے دو تین ماہ سے مسلم لیگ ن کے رہنما، کارکن اور میڈیا میں ان کے حامی لکھاری بڑے شدومد سے عمران خان کو ڈونلڈ ٹرمپ سے تشبیہ دے رہے تھے۔ اسلام آباد میں احتجاج اور لاک ڈاؤن کی دھمکی کے بعد زیادہ جوش وخروش سے عمران اور ٹرمپ میں مماثلت ڈھونڈی جانے لگی تھی۔ اس وقت تک ن لیگ والوں کا یہ خیال تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایک مضحکہ خیز شخصیت ہے اور الیکشن ڈے کے بعد وہ ناکامی کی ایک علامت بن کر سامنے آئے گا۔ ٹرمپ کی ممکنہ ناکامی کو عمران خان کے خلاف بطور حربہ استعمال کرنے کی سوچ بھی کہیں کارفرما تھی۔ معلوم نہیں کہ مسلم لیگ ن کے اندر ٹرمپ کی کامیابی سے کیا قیامت گزری ، مگراب ٹرمپ کا طعنہ دینا ختم ہوچکا ہے۔

    عمران خان کے ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ موازنے میں ویسے حرج کوئی نہیں، اب تو خیر وہ جیتے ہوئے گھوڑے ہیں تو ہر کوئی ان کی مثال دینا چاہے گا۔ دو تین باتیں تو دور سے ہی مشترک نظر آ رہی ہیں۔ دونوں ہی منہ پھٹ اور تیزدھار تبصرے کرنے کے شائق ہیں۔ ٹرمپ نے بھی بہت سے ایسے تبصرے کر رکھے ہیں ،جنہیں پڑھ یا سن کر حیرت ہوتی ہے۔ ادھر اردو محاورے کے مطابق خان صاحب کی زبان کے آگے بھی خندق نہیں۔ اکثر وہ بولنے کے بعد ہی اس پر غور فرماتے ہیں، پھر ان کے ساتھیوں کو تاویلیں دے کر بات سنبھالنا پڑتی ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ پر یہ الزام رہا کہ وہ تہذیب کے دائرے میں رہ کر خطاب نہیں کرتے۔

    ایک آدھ اور کامن پوائنٹ بھی ڈھونڈا جا سکتا ہے، مگر دیانت داری سے جائزہ لیں تو نومنتخب امریکی صدر اور پاکستان کے اپوزیشن لیڈر میں بڑا واضح فرق موجود ہے۔ کئی اہم امور پر دونوں کی آرا ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ اعلانیہ قسم کے نسل پرست ہیں، ان کی انتخابی مہم پر بھی وائٹ مین سپرمیسی (سفید فام کی بالا دستی) کے اثرات نمایاں رہے ۔عمران خان کی سیاست میں نسل پرستی یا قوم پرستی کے جذبات موجود نہیں۔ پھر ٹرمپ کی تیز زبان کا نشانہ معاشرے کے کئی طبقات بنے، تارکین وطن پر وہ گرجتے برستے رہے، اسلاموفوبیا کا شکار نظر آئے، میکسیکو سے آنے والوں پر تیر برساتے رہے، خواتین ان کے خاص کرم کا نشانہ بنیں، ٹی وی اینکرز کے حوالے سے نہایت معیوب جملے کہہ ڈالے۔ ایسی باتیں جن کا دفاع کرنا ممکن نہیں تھا۔ عمران خان کے زبانی حملوں کا ہدف سیاسی نظام، سٹیٹس کو کی روایتی سیاست کرنے والی جماعتیں، خاص کر حکمران جماعت اور شریف خاندان ہے۔ ایک میڈیا گروپ اور الیکشن کمیشن پر بھی برستے رہے اور بلاسوچے سمجھے پینتیس پنکچر والی بات اعلانیہ کہہ ڈالی، یہ ادراک کیے بغیر کہ اگرالزام درست ہو، تب بھی اسے ثابت کیسے کیا جا سکتا ہے، بعد میں پھر معذرت کرنا پڑی۔ ٹرمپ کے برعکس خواتین کے حوالے سے خان کا رویہ بہت شائستہ اور مہذب رہا۔ ان کے حوالے سے کبھی کوئی عامیانہ بات بھی نہیں کی۔

    عمران خان کے حوالے سے ان کے مداحین اور حامی البتہ یہ دعا ضرور کر سکتے ہیں کہ جس نہج پر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ میں کامیابی حاصل کی، اسی طرح تحریک انصاف کے قائد بھی میدان مار لیں۔ ٹرمپ کی کامیابی ایک طرح سے کامیابی کے تمام جگمگاتے روایتی ماڈلز کی نفی ہے۔ کامیابی کا لٹریچر امریکہ میں بے پناہ شائع اور فروخت ہوتا ہے، اب وہی لٹریچر ہمارے ہاں بھی عام ہے۔ کامیاب بنیے، کروڑ پتی بننے کے نسخے، کامیاب ترین زندگی کیسے گزاری جائے، اپنی شخصیت کو پراثر بنایا جائے وغیرہ وغیرہ۔ امریکی سیاست میں بھی مختلف کامیابی کے ماڈلز STORIES SUCCESS موجود ہیں۔ صدارتی امیدوار ان کو فالو کرتے ہیں، جیسے ہیلری کلنٹن نے کیا۔ ان کو دیکھنے سے لگتا ہے کہ وہ بنی ہی کامیاب ہونے کے لیے ہیں۔ سجی سجائی، نفیس، تراشا ہوا پیکر، خوبصورت انگریزی، مرتب گفتگو، شائستگی، تحمل، دلنواز مسکراہٹ ، تجربہ کار ٹیم، آزمودہ سیاسی حربے۔ یہ ایک اور کامیابی کی داستان معلوم ہو رہی تھی، آئیڈیل لیڈی، ایک یقینی جیت جس کا انتظار کر رہی تھی۔ نتیجہ مگر ہر ایک کی امیدوں کے برعکس نکلا۔

    ٹرمپ ایک اینٹی ہیرو ہیں۔ غیر مہذب، کرخت، درشت لہجے میں بات کرنے والے، جھگڑالو، تیز مزاج، برداشت نہ کرنے والے، مخالف پر سیدھے اور تیز حملے کرنے والے، ناتجربہ کار۔ جنہوں نے کوئی بھی سیاسی عہدہ آج تک حاصل نہیں کیا، ہاں کچھ ادارے اچھے طریقے سے چلائے، اپنے کاروباری ادارے۔ ٹرمپ نے اپنی تمام تر خامیوں، تمام تر منفی امیج کے باوجود ہیلری کلنٹن کے سحرانگیز امیج کو پاش پاش کیا اور ان کی امیدیں خاک میں ملا دیں۔ ہنستی مسکراتی دیوی ہار گئی اور رف اینڈ ٹف ٹرمپ جیت گئے۔

    اگر کوئی چاہے تو پاکستانی سیاست پر بھی نظر دوڑا سکتا ہے۔ اسے وہ چہرے نظر آئیں گے جو ایسے ہی مرتب، چمکتے چہروں، صاف لباس، تجربہ کار مشیروں، آزمودہ سیاسی حربوں سے آراستہ اور طاقتور دوستوں سے مزین سیاسی نیٹ ورک کے مالک ہیں۔ کامیابی جن کے دروازوں پر دستک دیتی آئی، جن کی کامیابی پر شرطیں لگائی جا سکتی ہیں۔ کیا ہیلری کلنٹن کی مانند ان ”کامیاب سیاستدانوں“ کو شکست دی جا سکتی ہے؟ جواب میں ہاں کہا جا سکتا ہے، تاہم اس کے ساتھ کئی اگر مگر بھی ہیں۔

    ٹرمپ نے عام امریکیوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ دیہات، چھوٹے شہروں، پسماندہ ریاستوں میں مقیم امریکی جو پچھلے دو تین عشروں سے ترقی کی شاہراہ پر دوسروں سے پیچھے رہ گئے تھے۔ بے روزگاری، غربت اور محرومی کے سائے جن پر منڈلا رہے تھے۔ ٹرمپ نے ان کے لیے فراموش لوگوں (Forgotten Peoples) کی اصطلاح استعمال کی۔ وہ انتخابی ایجنڈا سیٹ کیا، جس نے ان کے دل جیت لیے، انہیں متحرک کیا اور الیکشن کے دن دیوانہ وار باہر نکلنے پر آمادہ کیا۔ انہی لوگوں نے ہیلری کلنٹن سے یقینی جیت چھین لی۔ ایسے فراموش لوگوں کی تعداد پاکستان میں امریکہ سے بہت زیادہ ہے۔ ہمارے ہاں تو بڑے شہروں میں بھی محرومی اور مسائل کی کمی نہیں۔ کراچی، لاہور، پنڈی جیسے شہروں میں بھی ہزاروں لاکھوں لوگ ایسی زندگی گزار رہے ہیں، جس میں کوئی رس، ذائقہ یا خوشی نہیں۔ چھوٹے شہروں کے مسائل بے پناہ ہیں، ملک کے کئی علاقوں میں دیہات کے لوگ ایک صدی پرانی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ تعلیم، صحت، صاف پانی، انصاف اور امن عامہ کو وہ ترس رہے ہیں۔ ان کی اگلی نسلوں کے لیے اعلیٰ تعلیم، سستا علاج اور باعزت روزگار ایک خواب بن چکا ہے۔ عمران خان ان فراموش شدہ لوگوں کے دلوں کی آواز بن سکتا ہے۔ خان نے کرپشن کو بڑے زوردار طریقے سے ہدف بنایا اور اسے نیشنل ایجنڈا بنا دیا۔ الیکشن اصلاحات پر اس نے بھرپور طریقے سے بات کی۔ تعلیم، صحت، صاف پانی، روزگار، تھانہ کچہری کے معاملات، پٹواریوں کے مظالم اور سسٹم کی بے حسی کو اب ایجنڈا بنانے کی ضرورت ہے ۔

    عمران خان اگر کامیابی حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے عام پاکستانی کے مزاج، جذبات اور خواہشات کا ادراک کرنا ہوگا۔ ملک کے مختلف علاقوں میں مختلف انداز کی سوچ ہوسکتی ہے۔ اندرون سندھ کا رہنے والا، جنوبی پنجاب کے باسی، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے حرماں نصیب لوگ، حتیٰ کہ سنٹرل پنجاب کے عام آدمی کے اپنے اپنے مسائل ہیں۔ ان سب کو سمجھنا، انہیں بھرپور انداز میں اٹھانا اور ایک اچھا ٹھوس پلان دینے کی ضرورت ہے۔ ووٹر کو علم ہونا چاہیے کہ اگر عمران خان کو جتوایا گیا تو ملک میں کیا تبدیلی آئے گی؟ اسے یقین ہوجائے کہ ایسی صورت میں نظام بدل جائے گا، تھانہ، کچہری، پٹوار کے مظالم ختم ہوجائیں گے، انصاف ملنے لگے گا اور کاشت کار کی جھکی کمر ایک بار پھر سیدھی ہوجائے گی … ایسی صورت میں ٹرمپ جیسا معجزہ پاکستان میں بھی تخلیق ہوسکتا ہے۔ جب عام آدمی دل وجاں سے کسی کی حمایت میں اٹھے، تب مخالف کی میڈیا مینجمنٹ، اربوں کی انتخابی مہم، سسٹم کی سپورٹ بھی کام نہیں آتی۔ تب کامیابی کی مثالیں دھندلا جاتیں اور جگمگاتے پیکر اپنے رنگ کھو بیٹھتے ہیں۔ ہم پاکستانی ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی سے یہ ایک مثبت بات تو سیکھ سکتے ہیں ۔

  • ٹرمپ کی جیت اور مشرق وسطی پر اثرات؟ غلام نبی مدنی

    ٹرمپ کی جیت اور مشرق وسطی پر اثرات؟ غلام نبی مدنی

    غلام نبی مدنی ڈونلد ٹرمپ کی غیر متوقع جیت پر دنیا بھر میں کہیں بہت زیادہ تشویش پائی جارہی ہے اور کہیں خوشی کی شادیانے بجائے جارہے ہیں۔امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف اب تک تاریخ کے بدترین مظاہرات ہورہے۔دوسری طرف امریکہ ،اسرائیل سمیت بہت سی جگہوں پر ٹرمپ کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیاجارہاہے۔جب کہ کئی ممالک نے نہ چاہتے ہوئے بھی ٹرمپ کو مبارکباد دی اور مستقبل میں باہم مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا۔امریکہ کے بعد مشرق وسطی ٰمیں ٹرمپ کی جیت غیرمعمولی اثرات مرتب کرنے والی ہے۔امریکی تجزیہ نگاروں کے مطابق ٹرمپ فارن پالیسی سے بالکل ناواقف ہیں،جب کہ ٹرمپ کی ریپبلکن پارٹی کےکئی سابق اور سنئیر افسران نے بھی ٹرمپ کے ساتھ کام کرنے سے انکار کردیا ہے۔ نیویارک ٹائمز نےمارچ2016میں سابق ریپبلکن صدور بش سینئراور بش جونئیر کی انتظامیہ کے ساتھ کام کرنے والےایسے کئی افسران کی رائے شائع کی ہے۔ان میں ورلڈ بنک کے سابق صدر سے لے امریکی دفاعی اور خفیہ ایجنسیوں کے اعلی اہلکاراور بیوروکریٹ بھی شامل ہیں۔ٹرمپ کی انتخابی مہم سے بھی اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ ٹرمپ جذباتی اور متنازع بیانات کے علاوہ کوئی سنجیدہ اور مستحکم پالیسی نہیں رکھتے۔لیکن بہرحال وہ امریکہ کے صدر ہیں،جس کی پشت پر امریکی اور ریپبلکن پارٹی کی مضبوط پالیسیاں ہیں اور دنیا انہیں پالیسیوں پر اعتماد اور یقین کرتی ہے۔

    ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت پر ترکی سمیت مشرق وسطیٰ کے دیگر اہم ممالک بالخصوص سعودی عرب ناخوش نظر آتے ہیں۔جب کہ ٹرمپ کی جیت پر اسرائیل بھر میں انتہائی جوش وخروش پایا جارہاہے۔اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے ٹرمپ کی جیت پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ” ٹرمپ ان کا جگری دوست ہے،وہ امید کرتے ہیں کہ ٹرمپ ان کے لیے کام کرے گا”۔یروشلم پوسٹ کے مطابق اسرائیلی وزیرانصاف نے ٹرمپ کی جیت پر اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ” ٹرمپ اسرائیل کے ساتھ کیے گئے وعدے پورے کرے گااور القدس کو اسرائیل کا دارلخلافہ تسلیم کرکے اپنا سفارتخانہ تل ابیب سے القدس منتقل کرے گا”۔1897ء سے نیویارک سے شائع ہونے والی یہودی اخبار(The Forward) نے ٹرمپ کے اسرائیل کے ساتھ قریبی تعلقات پر ایک رپورٹ شائع کی ہے ۔اس رپورٹ میں ٹرمپ کا بیان ذکرگیا ہے کہ”مجھے اس پر خوشی ہے کہ میری بیٹی اور پوتے یہودی ہیں،ہم اسرائیل سے محبت کرتے ہیں،ہم ہمیشہ اسرائیل کے لیے سوفیصد نہیں بلکہ ہزار فیصد لڑیں گے”۔ٹرمپ کی اسی یہودی بیٹی نےچھ ماہ قبل یہودیوں کے ایک اجلاس میں یقین دلایا تھا کہ وہ اپنے والد کے جیتنے کے بعد انہیں اسرائیل کے لیے کام کرنے پر ضرور مجبور کریں گی۔دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ ٹرمپ بہت بڑے بزنس مین ہیں،مشرق وسطی سمیت دنیابھر میں ان کے کاروبار کا جال بچھا ہوا ہے۔ٹرمپ کے داماد اس کے بزنس پاٹنر یہودی کے بیٹے ہیں۔ٹرمپ کی سب سے بڑی آرگنائزیشن کے چیف ایگزیٹو بھی ایک یہودی ہیں۔نیتن یاہو کی انتخابی مہم کے لیے ٹرمپ نے ایک ویڈیو پیغام میں اسرائیلی عوام کو نیتن یاہو کے لیے ووٹ کاسٹ کرنے کا کہاتھا۔اس کے علاوہ تل ابیب میں ٹرمپ ٹاور کے نام سے اسرائیل کی سب سے لمبی عمارت بنانے کے لیے زمین خریدی جو بعدازاں بیچ دی گئی۔ ٹرمپ امریکہ میں یہودیوں کے بہت قریب سمجھے جاتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ امریکہ میں انتخابی مہم کے دوران سارے یہودیوں نے ٹرمپ کی حمایت میں ووٹ ڈالا۔یہودیوں کے ساتھ اس قدر گہرے روابط عیسائیت اور تاریخ کے ایک امریکی پروفیسر نے ٹرمپ کے مذہب پر نیویارک کے اخبار میں ایک رپورٹ لکھی،جس میں اس کا کہنا تھا کہ” اگرچہ ٹرمپ خود کو عیسائی کہتا ہے،لیکن اس نے عیسائیت کی عبادات اور اخلاقیات کو چھوڑ دیا،اس کے غیر عورتوں کے ساتھ جنسی اسکینڈل اور اپنی بیٹی کے ایک یہودی شخص سے شادی کرنے اور پھر بیٹی اور پوتوں کے یہودی بننے پر خوش ہونے سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ ٹرمپ کا عیسائیت سے برائے نام تعلق ہے”۔مشہور امریکی عیسائی مذہبی تنظیم کے چئیرمین نے ٹرمپ کی جیت کے بعد ٹرمپ کے چرچ آکر خدا کا شکر ادا نہ کرنے پربرہمی کا اظہارکرتے ہوئے کہاکہ وہ چرچ کے ساتھ کیے گئے وعدوں کو پورا کرے ۔چرچ ہی نے ٹرمپ کو ووٹ دینے کے لیے لوگوں کو قائل کیا تھا”۔

    ان شواہد کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ “پرواسرائیلی”امریکی صدر ہیں۔سابق امریکی صدور کی بہ نسبت اسرائیل کے معاملے میں یہ زیادہ متشدد ہیں۔جس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ2013ء میں ٹرمپ اوبامہ کو اسرائیل کے ساتھ بھرپور تعاون نہ کرنے پر برابھلا کہہ چکے ہیں۔ ٹرمپ کے اسرئیل کے ساتھ اس قدر گہرے تعلقات کا مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر بہت گہرا اثر پڑے گا۔یہی وجہ ہے تل ابیب یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے یروشلم پوسٹ کو بیان دیتے ہوئے کہا کہ “ٹرمپ کو اسرائیل کی حمایت میں کام کرنا ہوگا تاکہ خطے میں اسرائیل کی بالادستی قائم رہے اور روس اور ترکی مشرق وسطیٰ میں مضبوط نہ ہونے پائیں”۔دوسری طرف شام کے معاملے میں ٹرمپ کاجیت کے بعد پالیسی بیان سامنے آیا ہے کہ وہ پہلے سے زیادہ داعش کے خلاف شام میں لڑیں گے،جب کہ ہیلری کلنٹن انتخابی مہم کے دوران اس بات کا اظہار کرتی رہیں کہ شام میں داعش کے نام پر عام لوگوں کو مارنے سے احتراز کیا جائے گا،جب کہ ٹرمپ کے حالیہ بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ اصل مقصود داعش کو مارنا ہے،کوئی اور مرے یا جیے اس سے ہمیں کوئی غرض نہیں۔شام میں بشارالاسد کے حامی ایران اور روس کے بارے بھی ٹرمپ کی الگ الگ پالیسی سامنے آئی ہے۔درحقیقت ٹرمپ اور ریپبلکن پارٹی ایران کے ساتھ پچھلے سال کیے گئے نیوکلئیر معاہدے کےخلاف ہے،یہی وجہ ہے کہ ایرانی صدر حسن روحانی نے ٹرمپ کو سابقہ معاہدوں پرقائم رہنے کا پیغام دیا ہے۔جب کہ روسی صدر نے ٹرمپ کی جیت پر نیک خواہشات کا اظہار کیا اورمل کر کام کرنے کا عزم کیا،ٹرمپ کا بھی روس کی طرف مثبت جھکاؤ ہے،جس کی وجہ سے کئی امریکی اعلی و دفاعی عہدیدار اور بیور کریٹ ٹرمپ کے ساتھ مل کر کام کرنے سے انکار کرچکے ہیں۔دوسری طرف سعودی عرب کے ساتھ امریکہ کے تعلقات ان دنوں کافی ناخوشگوارہیں،اس کی وجہ حال ہی میں سعودی عرب کے خلاف امریکی کانگریس کا پاس کیا گیا”جاسٹا نامی قانون “اور ایران کے ساتھ امریکہ کی نیوکلئیر ڈیل ہے۔یہی وجہ ہے سعودی عرب ترکی کے ساتھ مل کر روس کے ساتھ تعلقات بہتر کررہاہے۔لیکن ٹرمپ کی جیت پر شاہ سلمان اور دونوں ولی عہد الگ الگ پیغامات میں ٹرمپ کو مبارکباد دے چکے ہیں اور مل کر کام کرنے کے عزم کا اظہار کرچکے ہیں۔

    سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی روسی اور ایرانی اجارہ داری روک پائے گا؟کیا سعودی عرب ٹرمپ کے ساتھ ٹوٹے ہوئے تعلقات بحال کرپائے گا؟بظاہر ان دونوں سوالوں کا جواب نفی میں ہے۔کیوں کہ مشرق وسطیٰ میں روس کی بڑھتی ہوئی بالادستی اور دیگر ملکوں کے ساتھ روسی اتحاد پر امریکی دفاعی وخارجہ بیوروکریسی میں کافی تشویش پائی جاتی ہے،جب کہ ٹرمپ نیٹو اور روس کے ساتھ اتحاد کا قائل ہے۔دوسری طرف سعودی عرب امریکہ کے دوہرے رویے کے خلاف نئے اتحادی تلاش کرنے کی جستجو میں لگا ہے۔اس کے علاوہ ٹرمپ کی اسرائیل نوازی بھی خطے میں امن قائم کرنے کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے ۔نتیجتا مشرق وسطیٰ میں چاروں طرف لگی آگ بجھنے کی بجائے مزید بڑھکنے کا خدشہ ہے جس سے بڑی خانہ جنگی کے امکانات کو رد نہیں کیا جاسکتا۔

  • تارکینِ وطن اور ٹرمپ – راؤ‌ کامران علی

    تارکینِ وطن اور ٹرمپ – راؤ‌ کامران علی

    راؤ کے علی ڈونلڈ ٹرمپ نے معذوروں کی نقل اُتاری، خواتین کی بےحُرمتی کی، کالوں کا تمسخر بنایا، ہسپانیوں اور میکسیکن کو ”ریپسٹ“ اور چور کہا اور ان کے لیے دیوار بنانے کا اعادہ کیا، مسلمانوں کو دہشت گرد اور فساد کی جڑ قرار دیا، لیکن گوروں کی تعریف کی اور انھیں سُہانے خواب دکھائے، جس کے باعث گوروں نے اُسے صدر چُن لیا۔ اس صورتحال میں دیکھا جائے تو گورے، انتہائی خود غرض، مطلب پرست، جاہل اور عورت کی حُکمرانی کو حقیر ماننے والے لوگ ہیں۔

    چلیں اب ایک منٹ کے لیے فرض کرتے ہیں کہ
    یہی ٹرمپ معذروں کی نقل اُتارتا ہے، خواتین کی بےحُرمتی کرتا ہی، کالوں کا تمسخر بناتا ہے، ہسپانیوں اور میکسیکن کو ریپسٹ اور چور کہتا ہے اور ان کے لیے دیوار بنانے کا اعادہ کرتا ہے، لیکن اس بار وہ مسلمانوں اور گوروں، دونوں کی تعریف کرتا ہے اور انھیں سُہانے خواب دکھاتا ہے، تو کیا مسلمان اُسے صدر چُنیں گے؟ جی یقیناً چُنیں گے۔ تو کیا اب مسلمان بھی گوروں کی طرح انتہائی خود غرض، مطلب پرست، جاہل اور عورت کی حُکمرانی کو حقیر ماننے والے لوگ کہلائیں گے؟ ظاہری سی بات ہے کہ اس کا جواب ہے”نہیں“۔ یہ اپنے اپنے مفادات کی جنگ ہے جو کہ دُنیا کے ہر مُلک اور خطے میں لڑی جاتی ہے۔ گوروں نے اپنا مفاد دیکھا اور ”رنگ داروں“ نے اپنا۔

    یاد رہے کہ راقم بھی دیگر مسلمانوں کی طرح ہیلری کلنٹن کی حمایت میں آگے آگے تھا اور وجہ وہی ہے جو اوپر بتائی گئی ہے کہ ٹرمپ نے ہمیں مُنہ نہیں لگایا۔ بظاہر لگتا تھا کہ ٹرمپ بےوقوف اور مشتعل مزاج انسان ہے لیکن اس نے بڑی چالاکی سے %0.9 مسلمانوں، %13 کالوں اور %16 ہسپانیوں کو امریکہ کی ترقی اور برائے نام عظمت کی زوال پذیری کا باعث قرار دے کر %70 سے زائد سفید فام ووٹرز اپنے ہاتھ میں لے لیے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ %58 گوروں نے اسے ووٹ تو دیے ہی مگر%30 ایشین اور %30 ہسپانوی ووٹ بھی لے اُڑا (اصل ”پٹواری“ تو ہسپانوی ہوئے، اتنی بے عزتی کے بعد بھی تیس فیصد لوگ ٹرمپ کے ساتھ)۔ یاد رہے کہ ہندوستانی بھی ٹرمپ کے حق میں تھے۔

    ہم امریکہ میں تارکینِ وطن ہیں اور رہیں گے، جب تک ہم اپنے بچوں کی گوروں سے شادیاں کرکے ایک نئی کارٹون نما نسل پیدا نہ کرلیں، اور یہ کارٹون نما نسل بھی کوئی ایک دو نسلوں کے بعد ”اصلی امریکی“ کہلائے گی، بالکل اسی طرح جس طرح ہمارے ہاں کئی ”اصلی شاہ“ بنتے ہیں اور چونکہ ہمارے سامنے بنتے ہیں، اس لیے ہم ان کے ”اصلی“ ہونے کی گواہی دے سکتے ہیں۔ کارٹون نما نسل کیسی ہوتی ہے:؟ اس کا نمونہ ٹی وی پر ”انکل الطاف“ یا ”چاچا عمران“ کہتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔

    تارکینِ وطن کو زمینی حقائق کے مطابق زندگی گزارنی ہوتی ہے۔ تارکینِ وطن کا بھٹو زندہ رہتا ہے نہ ہی لوہار ہمیشہ کے لیےگلے کا ہار بن سکتا ہے۔ تارکینِ وطن نہ تو ٹرمپ کے گھر کے سامنے دھرنا دے سکتے ہیں اور نہ ہی ان کا لیڈر ایسا مجمع اکھٹا کرکے ”بچہ پیدا کرنے کے طریقے“ بیان کرسکتا ہےجس میں خود بچے بھی سُن رہے ہوں۔ حکومت کی پالیسیوں پر ہر حال میں عمل کرنا پڑتا ہے تاہم آزادی اظہار کے طور پر اپنی آواز مُناسب طریقے سے بُلند کی جا سکتی ہے۔

    مسلمانوں خصوصاً پاکستانیوں نے اس الیکشن جس اتحاد اور نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا، ان کی اثر اندازی اور ان کے علاقوں میں ہیلری کے ووٹوں کو دیکھ کر اندازہ لگانا مُشکل نہیں کہ اگلے الیکشن میں کم از کم دس سیٹوں پر پاکستانی ایوانِ زیریں (House of Representative) کا الیکشن لڑ سکتے ہیں۔

    اب وقت ہے کہ آنے والی ری پبلکن حکومت کی جیت کا کھُلے دل سے خیر مقدم کرکے اس کے ساتھ بہترین تعلقات بنائے جائیں اور بہتر تعلقات کے لیے بہترین پلیٹ فارم استعمال کیے جائیں۔ زندہ قومیں زندہ فیصلوں سے زندہ رہتی ہیں۔ بیدار مغزی ، سمجھداری اور مُلک و قوم کی بہتری جذباتی وابستگیوں سے بڑھ کر ہے۔ خدا ہمیں مناسب وقت پر مناسب فیصلے کرنے کی توفیق عطا فرمائے! آمین

    (راؤ کامران علی امریکہ میں مقیم ہیں)

  • قصرِابیض میں ٹرمپ کی آمد – محمد عمار احمد

    قصرِابیض میں ٹرمپ کی آمد – محمد عمار احمد

    عمار احمد کئی ماہ سے جاری مباحثوں، تجزیوں اورانتخابی مہم کے بعد9 نومبر2016ء کو امریکی عوام نے اپنے صدر کا انتخاب کر لیا۔ ری پبلکن پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے ہاتھوں میں امریکی عوام نے بالخصوص اپنی اور بالعموم پوری دنیا کی تقدیر تھما دی۔ دنیا بھر میں اس وقت اہم موضوع ٹرمپ کی بطور امریکی صدر کامیابی ہے۔ عالمی میڈیا اور خود امریکی ذرائع ابلاغ ٹرمپ کے متشدد رویے اور متنازعہ شخصیت ہونے اور سیاسی ناتجربہ کاری کے سبب قریباََ پُریقین تھے کہ وہ انتخاب ہارجائیں گے۔ ہیلری کلنٹن نرم خو، سنجیدہ، بطور وزیرِخارجہ خدمات سرانجام دینے کے سبب تجربہ کار اور بہتر امیدوار تھیں، مگر کیا کیجیے کہ جمہوریت میں ایسی شکست کسی کو بھی ہوسکتی ہے، چاہے اس کی پشت پر باراک اوباما ہی کیوں نہ ہو۔

    یورپ، اسلامی دنیا اور سنجیدہ طبقات ٹرمپ کی جیت پر پریشان ہیں جبکہ بھارت جیسی ریاستیں خوش ہیں کہ ٹرمپ کے ساتھ معاملات بہتر سمت میں چلیں گے۔ اسلامی دنیا کی پریشانی بجا ہے کہ انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے خلیجی ریاستوں سے تعلقات پر کچھ معاملات میں نظرِثانی کی باتیں کیں جبکہ مسلمانوں کے خلاف نفرت بھرے انداز میں تقاریر کیں۔ یورپ اور دیگر ممالک بھی سوچ میں پڑ گئے ہیں کہ اگرٹرمپ نے مسندِ صدارت سنبھالنے کے بعد اپنے متشد درویے میں تبدیلی نہ لائی تو دنیا کے حالات کس رخ پر جائیں گے۔دوسری طرف بھارت کی خوشی بھی سمجھ میں آتی ہے کہ اس خطہ میں ٹرمپ کو پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو وہ یقینا بھارت کو ہی مناسب سمجھے گا۔پاکستان کو نظرانداز کرنا بھی آسان نہیں مگر اس صورت میں بھی بھارت سے تعلقات کی اہمیت پاکستان سے زیادہ ہوگی۔ روس نے بھی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب امریکہ سے بامعنی بات چیت ہوگی۔ افغان طالبان نے مطالبہ کیا ہے کہ ٹرمپ امریکی فوج کی افغانستان سے واپسی کا اعلان کریں۔

    نومنتخب صدر نے کامیابی کے بعد تقریر میں اپنے عمومی مزاج سے ہٹ کر بلا تفریق مذہب، رنگ اور نسل کے امریکہ کی خدمت کرنے کا عزم کیا جو کہ خوش آئند ہے۔ یہ کہنا کہ قبل از وقت ہوگا کہ مزاج میں یہ تبدیلی وقتی ہے یا پھر پالیسی بناتے وقت بھی اسی مزاج سے کام کریں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے جس انداز میں انتخابی مہم چلائی، وہ خاصی خطرناک اور نفرت انگیز تھی، یہی وجہ ہے کہ ان کی کامیابی پر دنیا بھر میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ مقتدر حلقوں کے ساتھ ساتھ عوامی حلقوں کا موضوعِ گفتگو بھی یہی ہے کہ نجانے اب کیا ہوگا؟ امریکہ سے مسلمانوں کو بےدخل کرنے، مسلمانوں کو ویزوں کا اجرا روکنے نیز نسلی تعصب پر مبنی بیانات ٹرمپ کی انتخابی مہم کا حصہ تھے۔ ٹرمپ کی کامیابی پر کئی لوگوں کو دکھایا گیا جو دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے۔ تجارتی محاذ بھی خاصا سرد رہا جس سے عالمی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ اس قدر لوگ امریکہ سے ہجرت کرنے کے خواہش مند ہیں کہ کینیڈا کی مائیگریشن ویب سائٹ کریش کرگئی۔

    نومنتخب صدر کو امریکی عوام اور دنیا بھر کے سنجیدہ طبقات کے خدشات و تحفظات کو مدِنظر رکھ کر حکمتِ عملی مرتب کرنا ہوگی۔ اگر ایسا نہ ہوا تو دنیا میں پہلے سے موجود فساد، ظلم اور نفرتیں مزید بڑھیں گی جس کی لپیٹ میں خود امریکہ بھی آئے گا۔ دنیا کے موجودہ خراب حالات کی ذمہ داری بھی امریکہ پر ہے۔ امریکہ ہی نے نائن الیون کے بعد صلیبی جنگ کی ابتدا کی اور افغانستان و عراق میں ظلم و بربریت کا بازار گرم کیا۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی غلط پالیسیوں کے سبب دنیا کو آج داعش جیسی تنظیموں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جبکہ لیبیا، شام اور یمن میں آگ و خون کا کھیل جاری ہے۔ یورپ اور امریکہ بھی وقتاََ فوقتاََ اس آگ کا ایندھن بنتے رہتے ہیں۔ اگر ٹرمپ نے موجودہ پالیسیوں کو ہی جاری رکھا یا متشدد پالیسی اختیار کی تو اس کا نقصان جہاں دوسرے مذاہب اور خطوں کو ہوگا وہیں امریکہ و یورپ بھی اسی آگ میں جھلسیں گے۔ دہشت گردی ایک عالمی مسئلہ ہے جس سے نمٹنے کے لیے تمام ممالک سے بہتر تعلقات لازمی ہیں۔

    صدارتی انتخاب کے روز قصرِابیض کے سامنے ہیلری کلنٹن اور ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کے درمیان ہاتھا پائی بھی ہوئی جو یقینا مہذب دنیا کی طرف سے’’جمہوریت کے حسن‘‘ کا اظہار تھا۔ ٹرمپ بھی اپنی جیت کے واضح امکانات سے پہلے بیانات دیتے رہے کہ حالات دیکھ کر الیکشن کے نتائج تسلیم کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کروں گا۔ دنیا کو رواداری، برداشت اور جمہوریت کا سبق دینے والے اس طرح کے واقعات کی کیا تاویل پیش کریں گے؟ یہاں امریکہ و یورپ کی تہذیب، عورتوں کی برابری کی مثالیں دینے والوں کو سوچنا چاہیے کہ امریکی معاشرے کی اکثریت نے ایک عورت کو مسترد کر کے عورتوں کے خلاف غلط زبان استعمال کرنے، گالیاں دینے والے اور نفرت پھیلانے والے مَرد کو اپنا صدر کیوں بنایا؟ پاکستانی عوام کو متشدد مزاج کہنے والوں سے ایک سوال ہے کہ کیا پاکستان کی ’’تشدد پسند عوام‘‘ صدر، وزیرِاعظم تو الگ کسی ایسے شخص کو صوبائی و قومی اسمبلی کی رکنیت کے لیے بھی ووٹ دے گی جو یہ نعرہ لے کر سیاست میں آئے کہ میں فلاں مذہب، فلاں فرقہ کے لوگوں کو اپنے ملک سے نکال دوں گا؟

  • ویلکم مسٹر ڈونلڈ ٹرمپ – انعام الحق مسعودی

    ویلکم مسٹر ڈونلڈ ٹرمپ – انعام الحق مسعودی

    انعام مسعودی ولایت میں چند برس گذارنے کے دوران اپنے دوستوں کو اسلامی شریعت کی اصطلاح ”دارلکفر“ اور ”دارالاسلام“ کا فرق سمجھاتا رہا۔ ایک بڑی تعداد ”گلے گلے“ تک اس تصور میں دھنسی ہو ئی ہے کہ پاکستان سمیت اکثر ”دارالاسلاموں“ کی نسبت انصاف پسند مغربی معاشرہ ہزار گنا بہتر ہے۔ ان کے خیال میں مغربی لوگ جھوٹ نہیں بولتے، چوری بازاری اور بےایمانی ان کا شیوہ نہیں، مفافقت نہیں کرتے، بہت مہذب ہیں اور برداشت کا مادہ رکھتے ہیں، شخصی آزادی اور اظہار رائے کی آزادی بے مثال ہے، جمہوریت اور احتساب کا نظام بہترین ہے، ترقی ان کے مرہون منت ہے اور ہم تو صرف ”لینے والی“ طرف ہیں، مزید یہ کہ وہ ”دینے والی“ طرف، جبکہ دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ اگراچھی طرح تبلیغ کی جائے تو مغرب مسلمان بن جائے گا اور صرف کلمہ پڑھنے سے وہاں اسلامی شریعت عملاً نافذ ہو جائے گی، کیونکہ ان کے باقی ”اوصاف ِحمیدہ“ تو عین مطابقِ شریعت ہیں، بس کلمہ پڑھنے کی دیر ہے، اسی لیے ہم تو بس اب ولایتی ہیں (اصل اصطلاح جس پر زور دیا جاتا ہے وہ ہے برٹش مسلم، سکاٹش مسلم، امریکن مسلم وغیرہ )۔ ویسے بھی اسلام میں وطن پرستی حرام ہے، بچے عربی سیکھ لیں، دین اور اسلام خود بخود سمجھ آجائے گا۔ اسی لیے عربی کی کلاسوں پر زور دیتے ہیں (چاہے وہاں بھی کلاسوں کا ماحول ”فُل ولایتی“ ہو )۔ ہمارا اور ہمارے بچوں کا دیس اب یہی ہے۔ پاکستان سے ہمارا کیا لینا دینا؟ پاکستان میں رکھا کیا ہے؟ رشتہ داروں کی نظر ہماری دولت پر ہوتی ہے اور وہ دھوکے اور فراڈ سے باز نہیں آتے، اسی لیے ہر رشتہ مطلبی ہے وغیرہ وغیرہ۔ اسی خیال کے مطابق وہاں کی اکثریت اُٹھتے بیٹھتے پاکستان کو کوستی رہتی ہے۔ ایک دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ کو ن سی بُرائی ہے جو کہ پاکستان میں نہیں ہوتی۔ جنہیں انگور کا رس چاہیے ہے وہ بھی ملتا ہے، جو کسی ناری کی مہکتی ہوئی خوشبووں کے اسیر ہیں وہ پا لیتے ہیں، پاکستان کے وزیر ، سیاستدان اور معاشرہ سب کرپٹ ہیں اس لئے ہم نے تو اب بس یہیں بسنا ہے۔

    اس میں کوئی شک نہیں کہ ان باتوں میں کچھ نہ کچھ وزن بھی ہے، پاکستانی معاشرہ واقعی چند خرابیوں میں بُری طرح جکڑا ہوا ہے۔ انفرادی اور اجتماعی سطح پر اخلاقی طور پر زوال پذیر ہے۔ تاہم مغربی جمہوریت کتنی آزاد اور انصاف پسند ہے اس کا مکمل جائزہ کسی ایک نشست میں لینا ممکن نہیں۔ اگر برطانیہ اور امریکہ کے قصیدہ خوان وہاں کی ان دیکھی اسٹیبلشمنٹ اور اس کی ترجیحات کا جائزہ لینا چاہیں تو برطانیہ اور امریکہ میں ہو نے والے سابقہ الیکشنز کو قریب سے دیکھ لیں یا پھر حال ہی میں ہونے والے ”بریگزٹ“ کے معاملے کو تو ان ممالک کی اصل حکمران قوتوں کے بار ے میں اندازوں سے بڑھ کر حقائق معلوم ہو ں گے۔ امریکہ کے حالیہ الیکشنز کے معاملے میں بھی ہمارے ولایتی بھائی اور ہمارا میڈیا حقیقت پسندی کے بجائے اپنی خواہشات اور جذبات کا اسیر دکھائی دیتا ہے۔ میرے نزدیک ڈونلڈ ٹرمپ کا جیتنا مسلمانوں اور باالخصوص پاکستانیوں کے لیے اس لحاظ سے شاید بہتر ثابت ہو کہ برطانیہ کے مسلمانوں کی طرح ان کی آنکھیں بھی کھل جائیں۔ اس میں کو ئی دوسری رائے نہیں کہ عرصہ دراز سے مغرب میں مقیم پاکستانیوں کی بڑی تعداد ایک کثیر زرمبادلہ پاکستان بھیج رہی ہے تاہم اس کے باجود یورپ، برطانیہ اور امریکہ میں مقیم پاکستانی وہاں کی معیشت میں بھی ایک اہم کردار ادا کررہے ہیں۔

    ٹرمپ کے جیتنے کی صورت میں ایک قابل غور توجہ پہلو یہ بھی ہے کہ وہاں سے خوفزدہ پاکستانی واپسی کے بارے میں ایک بار ضرور سوچیں گے۔ میرے کئی دوست اس پر مجھ سے اظہار خیال کر چکے ہیں۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ برطانیہ میں موجود میرے کئی دوست گذشتہ تین سالوں میں ”نفرت انگیزی“ یا Hate Crimes کی وجہ سے وطن واپسی یا پھر جزوی طور پر یہاں پر بھی اپنے لیے دروازے کھلے رکھنے کےراستے پر گامزن ہیں۔ بالکل اسی طر ح ”اب کی بار – ٹرمپ سرکار“ کے آتے ہی امریکہ سے بھی پاکستانیوں کی ایک بڑ ی تعداد وطن واپسی یا پھر یہاں پر اپنے لیے قابل عزت آپشنز بنانے پر غور کرے گی۔ کیا پاکستان کی حکومت اور یہاں کے پالیسی ساز ادارے اس پر سوچ رہے ہیں کہ وہ کیسے ان پاکستانیوں کو وہ سب سہولتیں دینے کا اہتمام کریں کہ جس سے یہاں پر ایک اچھی اور مثبت معاشی سرگرمی پیدا ہو۔ لیکن کیا کہیے کہ یہاں پر حالات ایسے بالکل بھی نہیں دکھ رہے۔ بلکہ یہاں پر تو پہلے سے موجود سی پیک کی وجہ سے پیداہونے والے سرمایہ کاری کے مواقع سے اپنے مقامی سرمایہ کاروں کو اور ملک کو فائدہ پہنچانے کے لیے سرے سے کوئی منصوبہ بندی ہی نہیں کی گئی۔ ایک دوست نےچند روز قبل لاہور میں ہونے والی ایک کنسٹرکشن کانفرنس اور اس میں بین الاقوامی اداروں کے مقابلے میں مقامی سرمایہ کاروں کے احوال سے متعلق جو صورتحال بتائی ہے اس پر الگ سے لکھنے کی ضرورت ہے۔ لگتا یہ ہے کہ چین کی جانب سے ہمارے ملک میں لگائے جانے والے تنور میں ایندھن کے طور پر تو ہم جلیں گے مگر روٹیاں کوئی اور پکائے گا اور فروخت کسی اور کو ہوں گی، ہمارےحصے کی بھوک ہم ہی بھگتیں گے۔ ہمیشہ کی طرح ”ہر بحران میں سے اچھائی کے مواقع“ موجود ہونے کی صورت میں ٹرمپ کی جیت پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے جو مواقع لائی ہے، ہم اور ہمارا ملک اس کے لیے بالکل بھی تیار نہیں۔ اگر ہم تیار ہوتے تو میں بہت پُرجوش ہو کر تمام پاکستانیوں کی طرف سے بھرپور نعرہ لگا کر کہتا، ”ویلکم مسٹر ڈونلڈٹرمپ“

    (انعام الحق مسعودی ماس کمیونیکیشن میں گریجوایشن کے ساتھ برطانیہ سے مینیجمنٹ اسٹڈیز میں پوسٹ گریجوایٹ ہیں۔ گذشتہ سترہ برس سے سوشل سیکٹر، میڈیا اور ایڈورٹائزنگ انڈسٹری سے منسلک ہیں اور ایک پروڈکشن ہاؤس چلانے کے ساتھ ساتھ رفاہی اور سماجی تنظیموں کے لیے بطور فری لانس اور ٹرسٹی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔)

  • ڈونلڈ ٹرمپ اور ہم – عبدالسلام

    ڈونلڈ ٹرمپ اور ہم – عبدالسلام

    عبد السلام پاکستانی ٹی وی چینلز اور اخبارات سے لے کر ایک عام آدمی تک، سب امریکی صدارتی انتخابات میں کافی سرگرم نظر آئے۔ہر جگہ تبصرے اور تجزیے ہوتے رہے کہ اگر ہیلری صدربنی توہم پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔اور اگر ٹرمپ بن گیا تو ہمارا کیا ہوگا۔ ایک پریشانی جو کہ چارسو پھیلی ہوئی تھی ہمیں بھی متاثر کئے بغیرنہ رہ سکی۔ لیکن بھلا ہو پاکستان میں تعینات امریکی سفیر کا۔ جس نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے خوشخبری سنائی کہ امریکی صدر کوئی بھی بنے۔ پاکستان کے لئے ہماری پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئیگی۔ لہٰذا کم ازکم ہمیں تو اطمینان ہوگیاکہ جو مرضی امریکی صدر بنے کچھ بدلنے والا نہیں ۔ پاکستان کے ساتھ وہی دوغلی پالیسی اور ڈو مور کے مطالبے ہوں گے اور بھارت کو علاقے کا چوہدری بنانے کی مہم جاری رہیگی۔ لیکن دوسرے کے کام میں ٹانگ اڑانے کی عادت سے ہم پھر بھی باز نہ آئے اور مسلسل براہ راست کوریج کے ذریعے امریکی انتخابات کو مانیٹر کرتے رہے۔ اس دوران معلوم یہ ہوا کہ زیادہ تر لوگ ٹرمپ سے خوف زدہ ہے جبکہ ہیلری کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔پورے دن کی خبروں ، تجزیوں اورسروے رپورٹس کی جھلکیوں سے ہم نے ہیلری کلنٹن کو امریکی صدر تسلیم کر لیا اور دل ہی دل میں سوچھتے رہے کہ واہ کیا قسمت پائی ہے میاں بھی ایک سپر پاور ملک کا صدر رہا اور اب بیوی بھی۔ اس بات پر بھی خوش ہوتے رہے کہ امریکہ میں بھی ہماری طرح خاندانی سیاست سرایت کر رہی ہے۔ اور امریکی سیاست بھی زوال پذیر ہونے جارہی ہے۔ لیکن شام تک حالات پریشان کن حد تک تبدیل ہو گئے اور اس بدلتی صورتحال میں پنسلوانیا کے نتائج نے ایک کاری ضرب لگا کر ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکہ کا پینتالیسواں صدر بنا دیا۔ اعلان کے ساتھ ہی پوری دنیا حیرت کدہ بن گئی کہ کیا امریکی عوام ٹرمپ جیسے آدمی کو بھی اپنا صدر بنا سکتی ہے۔ منفی شہرت کے حامل شخص کو کوئی بھی مہذب قوم اپنا لیڈر کیسے بنا سکتی ہے۔

    ٹرمپ جو کہ ایک بڑے کاروباری شخصیت ہے سیاست سے دور دور تک ان کا کوئی تعلق نہیں رہا جبکہ ان کے مقابلے میں ہیلری کی ملک کے لئے چالیس سالہ سیاسی خدمات سے سب واقف تھے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ٹرمپ اب امریکہ کا صدر ہے۔ اور اس کے صدر ہونے کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ میں اور آپ کیا سوچھتے ہیں یا امریکہ کے چند شہروں میں چند ہزار مظاہرین کیا نعرہ لگاتے ہیں۔ کیونکہ وہ امریکہ کے اکثریت کا منتخب نمائندہ ہے۔

    اصل سوال یہ ہے کہ ایسا کیسے ممکن ہوا۔اور اس میں ہمارے لیے کیا سبق ہے۔ تجزیہ نگار اس کی مختلف وجوہات پر سیر حاصل تبصرے کر رہے ہیں لیکن میری ناقص رائے میں اس کا جواب یہ ہے کہ قومیں ہمیشہ نڈر اور بے باک قیادت کو اسلئے پسند کرتی ہے کیونکہ وہ بولڈ فیصلے کرنے سے نہیں کتراتے، چیلنجز کا سامنا بہادری سے کرتے ہیں اورڈوبتی کشتی کو بھنور سے نکالنے کا ہنر جانتے ہیں۔ اسلئے جب بھی کوئی ایسا آپشن موجود ہو لوگ اس کا انتخاب کرتے ہیں۔ ترکی کا طیب ارودوان ہو یا بھارت کا نریندر مودی، ان کی باقی خوبیاں اور خامیاں اپنی جگہ لیکن ان میں یہ خاصیت موجود ہے کہ اپنے موقف کوبھرپور انداز میں بیان کرتے ہیں اپنی قوم کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں اور بولڈ فیصلے کرتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ٹرمپ نے بلا جھجھک اسلام اور مسلمانوں کو تنقید کا نشانہ بنایا، اور امیگرینٹس کو امریکہ کے بڑے مسائل میں سے ایک قرار دیتے ہوئے اس کو حل کرنے کا وعدہ کیا۔ گزشتہ نصف صدی سے پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف میڈیا کے ذریعے جو پروپیگنڈہ کیا گیا اس کے نتیجے میں پوری دنیا میں غیر مسلموں کی اکثریت تمام مسائل کی جڑ اسلام اور مسلمانوں کو سمجھنے لگی۔ ایسے میں ٹرمپ کے مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز تقاریر نے امریکہ کے ووٹر کو متاثر کیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ امریکہ میں بڑھتی ہوئی بیروزگاری کے تناظر میں نئے مواقع اور نوکریاں دینے کے اعلان نے بھی ٹرمپ کے سپورٹرز میں اضافہ کیا۔

    اس الیکشن کے نتائج سے ایک اور پہلو بھی نمایاں ہو گیا کہ امریکی عہدیدار جو کہ ہمیں اعتدال پسندی کا درس دیتے نہیں تھکتے، خود وہاں کے عوام نے ایک انتہا پسند شخص کو منتخب کر کے یہ واضح کر دیا کہ امریکی معاشرہ خود کتنا انتہا پسند ہے۔ عورت کا مرد کے برابر ہونے کا بھاشن دینے والے ملک میں اکثر ووٹرز نے ہیلری کو اسلئے ووٹ نہیں دیا کہ وہ ایک خاتون کو امریکہ کا صدر نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔اس الیکشن سے امریکی معاشرہ بری طرح ایکسپوز ہوگیااور ان کے دوہرے معیارات بالکل واضح ہو گئے۔ پوری دنیا نے دیکھا کہ آج کے جدید دور میں بھی امریکہ کالے اور گورے میں بری طرح تقسیم ہے۔ خواتین کو برابری کے دعوے کے با وجود برابری حاصل نہیں ہے۔ لبرل معاشرے کا تاثر اپنی جگہ لیکن انتہا پسندوں کی اکثریت ہے۔ جبکہ علاقائی اور نسلی تعصب بھی انتہاپرہے۔اب ٹرمپ کا امتحان شروع ہوچکا ہے اور وقت ثابت کر دیگا کہ وہ اپنے ووٹرز کے توقعات پر پورا اترتے ہیں یا دنیا بھر کے تجزیہ نگاروں کو ٹھیک ثابت کرتے ہیں۔

    جہاں تک ہماری بات ہے، تو ہمیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہم پہلے بھی نشانے پر تھے اور آئندہ بھی رہیں گے۔ ہمیں امریکی انتخابات کے بعد اب اپنے معاملات پر توجہ دینی ہوگی۔ آئندہ عام انتخابات میں کسی ایماندار ، دیانت دار، محب وطن اور ملک وقوم کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے والا راہنما چننا ہوگا۔ ورنہ یہ کرپٹ، خود غرض اور بے حس حکمران اس ملک کو کھا جائیں گے۔

  • ٹرمپ کی صدارت میں ایک نئی رکاوٹ – عمران عمر جانباز

    ٹرمپ کی صدارت میں ایک نئی رکاوٹ – عمران عمر جانباز

    20160828_122458 جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ہیلری کلنٹن نے پاپولر ووٹ ٹرمپ سے زیادہ حاصل کیے ہیں لیکن چونکہ امریکہ میں صدر کا انتخاب پاپولر ووٹ کی بجائے الیکٹورل کالج پر بیس کرتا ہے اور ٹرمپ کے زیادہ نمائندے الیکٹورل کالج کے لیے منتخب ہوئے ہیں، اس لیے اس کے صدر بننے کے چانس زیادہ ہیں. میں نے جان بوجھ کر چانس کا لفظ استعمال کیا ہے. یوں سمجھیے کہ امریکہ میں عوام ڈائریکٹ صدر اور نائب صدر کو منتخب نہیں کرتے بلکہ ایک باڈی کو منتخب کرتے ہیں جسے الیکٹورل کالج کہتے ہیں. امریکہ کے عوام ہر اسٹیٹ سے اپنے اپنے نمائندہ اس باڈی کے لیے چنتے ہیں جو صدارتی امیدوار کو ووٹ ڈالتے ہیں. الیکٹورل کالج کے ٹوٹل 538 ممبرز ہوتے ہیں جن میں 435 سٹیٹس سے منتخب ہوکر آتے ہیں جبکہ کولمبیا اسٹیٹ کے تین اضافی ممبر ہوتے ہیں. اس کے علاوہ سینٹ کے 100 ممبرز بھی اس کا حصہ ہوتے ہیں.

    اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہیلری نے (%47.7) اور ٹرمپ نے (%47.4) پاپولر ووٹ حاصل کیے ہیں یعنی ہیلری نے ٹوٹل ووٹ زیادہ حاصل کیے ہیں لیکن اصل فیصلہ الیکٹورل کالج کے نمائندوں نے کرنا ہے جہاں ٹرمپ کے حمایتی 290 اور ہیلری کے 228 جیتے ہیں. اگرچہ 290 نمائندے ٹرمپ کی کمپین اور حمایت کے نتیجے میں جیتے ہیں لیکن کیا ان کے لیے ٹرمپ کی حمایت میں صدارت کا ووٹ ڈالنا لازم ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ لازم نہیں ہے. یہ نمائندے اگر چاہیں تو اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ہیلری کو بھی ووٹ ڈال سکتے ہیں.

    19 دسمبر کو الیکٹورل کالج کے نمائندوں نے صدارتی امیدواوں کو ووٹ ڈالنا ہے. یہ امیدوار اگر اسی نمونے پر چلیں جس پر ان کی سٹیٹ کے لوگوں نے ووٹ ڈالا ہے تو ٹرمپ جیت جائےگا لیکن اس وقت امریکہ میں کچھ لوگ یہ تحریک چلا رہے ہیں کہ یہ نمائندے ٹرمپ سے بغاوت کر کے ہیلری کو ووٹ ڈالیں. یہ تحریک کامیاب ہوگی یا نہیں، اس کا حتمی نتیجہ تو 19 دسمبر کو سامنے آئے گا لیکن بہرحال امریکہ کے انٹلیکچولز اور سڑکوں پر احتجاج کرتے مظاہرین کے لیے امید کا ایک ٹمٹماتا ہوا چراغ ضرور ہے.

    امریکی انٹلیکچولز ٹرمپ کی صدارت سے اتنا خوف زدہ کیوں ہیں؟ اور عوام سڑکوں پر پرتشدد احتجاج کیوں کر رہے ہیں؟ اس کی وجہ صاف واضح ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ ٹرمپ نے امریکی معاشرے کو انتہائی حد تک تقسیم کر دیا ہے اور اس کی پالیسیز تیزی سے زوال پذیر سپر پاور کی طاقت کو مزید کمزور کرنے کا باعث بنیں گی.

    (عمران عمر جانباز ایک شاعر اور قلم کار ہیں جن کی زندگی کا کا بڑا حصہ پاکستان اور آسٹریلیا میں مختلف خیراتی اور اسلامی اداروں کی تعمیر و تشکیل میں گزرا ہے. اپنے حالیہ قیام پاکستان کے دوران بھی یتیم بچوں کی نگہداشت کے ایک ادارے سے رضاکارانہ طور پر منسلک ہیں.)

  • ٹرمپ اور مودی کی جیت، مسلمان اب کیا کریں؟ توقیر احمد سیاف

    ٹرمپ اور مودی کی جیت، مسلمان اب کیا کریں؟ توقیر احمد سیاف

    توقیر احمد امریکی عوام نے متعصب ڈونلڈ ٹرمپ کو بطور صدر منتخب کر کے پورے عالم کو یہ واضح پیغام دیا ہے کہ ہماری اکثریت متعصب، انتہا پسند اور مسلمانوں کے خلاف اندر باہر سے بغض، عناد اور دشمنی سے بھری پڑی ہے
    ٹرمپ کی فتح سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ امریکی عوام کی اکثریت کس طرح کے فکری اور عملی رحجانات کی حامل ہے اور کس طرح کے صدر کو چاہتی ہے.
    ٹرمپ نے جب اپنی انتخابی عوامی مہم کا آغاز کیا تو مسلمانوں کے خلاف زہر اگلا اور یہاں تک کہہ دیا کہ مسلمانوں کو امریکہ سے نکال دیا جائے گا. جس پر اسے مسلمانوں کی طرف سےگہری تنقید کا سامنا کرنا پڑا.
    بظاہر یہی لگ رہا تھا کہ ٹرمپ ہار جائے گا لیکن شاید ٹرمپ یہ جان چکا تھا کہ امریکی عوام کی اکثریت ٹرمپ ہی ہے اور ایسا ہی ہوا .
    اور یہ پہلی بار نہیں ہوا بلکہ بھارت کے متعصب وزیراعظم نریند مودی نے بھی انتخابات میں کامیابی مسلمانوں کے خلاف زہر اگل کر حاصل کی تھی. یہ وہی مودی تھا جس نے اپنی سرپرستی میں ایک ہزار گجراتی مسلمانوں کو شہید کروایا تھا. اس کے باوجود اسلام دشمنی کی بنیاد پر متعصب ہندوؤں نے اسے ووٹ دے کر وزیر اعظم بنایا. جس سے صاف ظاہر ہوا تھا کہ انڈیا کی اکثریت اس شخص کو پسند کرتی ہے جو مسلمانوں کے خلاف منصوبہ لے کر آئے. اور یہی بات امریکی قوم نے ٹرمپ کا انتخاب کر کے ثابت کی ہے.
    ان سب حقائق کے واضح ہونے کے بعد اب ان لوگوں کی زبانیں بند ہو جانی چاہییں جو صرف مسلمانوں پر انتہا پسندی اور بنیاد پرستی کا الزام لگاتے رہتے ہیں.
    اور دوسری اہم بات جو مسلم حکمرانوں، رہنماؤں اور عوام کو سوچنے اور کرنے کی ہے کہ ہم اس وقت کہاں کھڑے ہیں.
    آپس میں ہی دست وگریبان، ایک دوسرے کے خلاف ہی محاذ آرائی اور پروپیگنڈا!
    یاد رکھیں کہ سب سے اہم کام جو کرنے کے ہیں ان میں سے سر فہرست
    1. حقیقی اتحاد پیدا کرنا ہے.
    ہر ایک اسلامی ملک کو دوسرے اسلامی ملک کی پریشانی اور آزمائش کو اپنی آزمائش اور پریشانی سمجھنا ہوگا.
    2. اقوام متحدہ کے ادارے سلامتی کونسل میں دو مسلم ممالک کی مستقل نمائندگی کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے، جن کے پاس ویٹو کی پاور ہو. اور یہ مسلمان ممالک کا بنیادی حق ہے جسے عقل و نقل دونوں تسلیم کرتے ہیں. 65 سے زائد اسلامی ممالک، دنیا میں آبادی کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر، بہترین افواج، مضبوط معیشت لیکن افسوس ایک بھی اسلامی ملک ایسا نہیں جو سلامتی کونسل کا مستقل رکن ہو. اس بات کا مطالبہ مسلم حکمرانوں کو پرزور طریقہ سے کرنا چاہیے .
    3. مستقبل کے بارے میں مضبوط اور دیرپا پلاننگ. ایسا نہ ہو کہ ایک حکومت کے بعد دوسری حکومت کی ترجیحات تبدیل ہوں، جیسا کہ ماضی قریب میں ہوتا رہا ہے.
    4. نیٹو کی طرز پر مشترکہ فوجی اتحاد جو رنگ و نسل، عرب و عجم کے فرق سے پاک ہو .
    5 . آپس میں مضبوط تجارتی معاہدات.
    6. سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم کو اپنے اپنے ملک میں اولین ترجیحات میں شامل کریں، اس بات کو سمجھیں کہ آج کا دور ٹیکنالوجی کا دور ہے. اور وہی قومیں ہمیں آگے ترقی کرتی نظر آرہی ہیں جنھوں نے اس حقیقت کو سمجھا اور اس پر کام کیا. آج ان کی معیشت بھی مضبوط ہے اور دنیا پر حکومت بھی درحقیقت وہی کر رہے ہیں.
    7. نوجوانوں کی تعلیم و تربیت پر زور دیں. نوجوان کسی بھی معاشرہ میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں. تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں. مسلم حکمرانوں کو اپنے ملک کے نوجوانوں کو فکری، دینی، ذہنی اور تعلیمی طور پر مضبوط کرنا ہوگا .
    8. باصلاحیت لوگوں سے کام لیں. یورپ کی ترقی میں ہمارے مسلمان باصلاحیت ڈاکٹرز، اور سائنسدانوں کا اہم کردار ہے. ہمیں ان سے فائدہ اٹھانا چاہیے. ان کو اپنے اپنے ملک میں لائیں، ان کی عزت و حوصلہ افزائی کریں، ان کو مراعات دیں اور ان سے فائدہ اٹھائیں. ان تمام کاموں کے لیے ہمیں عوام میں شعور پیدا کرنے کی بھی ضرورت ہے. حالات کی سنگینی کو واضح کرنا بہت ضروری ہے، کیونکہ جب کوئی کام مل کر کیا جائے، وہ احسن انداز سے پایہ تکمیل تک پہنچتا ہے. ملت کے ہر فرد کو اپنے اندر اخلاص پیدا کرنا ہوگا اور اپنے فرائض منصبی کو جانتے ہوئے ملت کی بہتری کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا.
    بقول شاعر،
    افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
    ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا
    اور اس کے ساتھ ساتھ ہمیں کفر کے پروپیگنڈہ کو سمجھ کر مقابلہ کرنا چاہیے. آئے روز آنے والے فتنوں کو سمجھنا چاہیے، ایسا نہ ہو کہ جو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگائے، ہم بھاگنا شروع کر دیں اور اغیار کے ہاتھوں کھلونا بنتے رہیں. یاد رکھیں کہ اب صفیں تقسیم بھی ہو رہی ہیں اور بالکل واضح بھی. اگر ہم نے اپنی صفوں کو درست نہ کیا اور اتحاد قائم نہ کیا تو آنے والا وقت ہمارے لیے بہت کٹھن آزمائشوں والا ہوگا.
    بقول شاعر .
    تمھاری داستان تک نہ ہو گی داستانوں میں.

  • ٹرمپ نے وہ کہا جو اوبامہ اور بش نے ہمارے ساتھ کیا-انصار عباسی

    ٹرمپ نے وہ کہا جو اوبامہ اور بش نے ہمارے ساتھ کیا-انصار عباسی

    Ansar-Abbasi-1

    تجزیے، سروے، پیشن گوئیاں اور اندازے سب ہار گئے اور ڈونلڈ ٹرمپ جیت گئے۔ امریکیوں نے ایک ایسے شخص کو اپنا صدر منتخب کر لیا جس کے بارے میں امریکا میں کہا جاتا تھا کہ وہ ایک متعصب، منفی، بدکردار اور بدزبان شخص ہے جو مسلمانوں سے نفرت کرتا ہے اور اگر ایسا شخص امریکی صدر بن گیا تو امریکا میں اقلیتوں کے لیے خطرہ ہو گا اور وہاں شدت پسندی زور پکڑے گی۔ پی پی پی کی رہنما شیری رحمان سمیت ہمارے کچھ لوگوں کی رائے میں امریکا ٹرمپ کی جیت کے بعد مایوسی کی حالت میں ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ امریکا کی اکثریت نے ایک ٹرمپ کو اُس کی تمام تر خرابیوں کے ساتھ اپنا صدر منتخب کیا اور وہ اس انتخاب پر جشن بھی منا رہے ہیں۔ ہاں ہمارے ہاں بہت سو لوگ صدمہ میں ضرور ہیں۔ اُن کے لیے ہیلری کلنٹن تو جیسے پاکستان کی کوئی اپنی امیدوار تھیں اور ٹرمپ کوئی دشمن۔ چند ہفتوں پہلے میں نےسوشل میڈیا میں امریکی صدارتی امیدواروں کے حوالے سے لکھا تھا کہ ٹرمپ مسلمانوں کے خلاف اُس سے زیادہ کیا کچھ کر سکتا ہے جو خصوصاً 9/11 کے علاوہ بش اور ابامہ نے کیا۔ لاکھوں مسلمانوں کا قتل و غارت بش اور ابامہ کے ادوار میں ہوا۔

    ٹرمپ اس سے زیادہ بُرا کیا کرے گا۔ ٹرمپ سے پہلے امریکا نے افغانستان، عراق، لیبیا، شام وغیرہ میں تباہی و بربادی پھیلا دی جس میں ہمارے ـ’’اپنی‘‘ ہیلری کلنٹن کا بھی ان جرائم میں اہم حصہ رہا۔ پاکستان کو امریکا نے ہمیشہ دھوکہ دیا، استعمال کیا۔ 9/11 کے بعد ہمارے ملک کو دہشتگردی کا نشانہ بنوایا، یہاں ڈرون حملے کیے اور سینکڑوں افراد بشمول عورتوں اور بچوں کو مارا، ایبٹ آباد حملہ کیا، سلالہ میں ہمارے کئی فوجیوں کو شہید کیا، پاکستان میں سی آئی اے اور ایف بی آئی کے نیٹ ورک کو مضبوط کیا اور یہاں افراتفری پھیلانے کا سامان پیدا کیا۔ اب ٹرمپ اس سے زیادہ پاکستان کو کیا نقصان پہنچائے گا۔ تحریک انصاف کی رہنما ڈاکٹر شیری مزاری نے کیا خوب کہا کہ ہیلری وہ شیطان ہے جسے ہم جانتے ہیں جبکہ ٹرمپ وہ شیطان ہے جسے ہم نہیں جانتے۔ خاص بات یہ کہ دونوں (ہیلری اور ٹرمپ)پاکستان ہو یا مسلمان اُن کے خیر خواہ نہیں۔ ٹرمپ اور دوسروں میں جو فرق ہے وہ صرف اتنا کہ ٹرمپ کی مسلمانوں سے نفرت اُس کی زبان پر ہے جبکہ دوسروں نے اپنے اندر چھپا کر رکھی ہے۔ اس لیحاظ سے تو ٹرمپ دوسروں سے بہتر ہے کیوں کہ جو اُس کے دل میں ہے وہ اس کی زبان پر بھی ہے۔ٹرمپ اپنی زبان سے مسلمانوں کے خلاف تعصب کا اظہار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ مسلمانوں کوامریکا میں داخل نہیں ہونے دے گا، وہ کہتا ہے کہ پاکستان کے نیوکلئیر پروگرام پر سخت نظر رکھے گا تا کہ وہ شدت پسندوں کے ہاتھوں میں نہ جائے اور یہ بھی کہ وہ ہندوٗں اور بھارت کا دوست ہے۔ تو کیا یہ سب کچھ ابامہ اور بش نے اپنے اقدامات سے ثابت نہیں کیا۔

    نام نہاد دہشتگردی کے خلاف جنگ کے لیے امریکا نے پاکستان کو استعمال کیا، پاکستان کے اندر دہشتگردی کی لعنت کو دھکیلا۔ پاکستان کے احسانوں کا بدلا یہ دیا کہ پہلے افغانستان میں بھارت کے اثر و رسوخ کو بڑھایا اور اب مکمل طور پر اپنا جھکائو بھارت کے حق میں اور پاکستان کے خلاف کر دیا۔ پاکستان کے نیوکلئیر پروگرام کو شک کی نظر سے ہی امریکا دیکھتا رہا جبکہ بھارت کے ساتھ نہ صرف نیوکلئیر انرجی تعاون کا معاہدہ کیا بلکہ اُسے نیوکلئیر سپلئیرز گروپ میں شامل کرنے کے لیے اپنی مہم چلا رہا ہے۔ جو کچھ ابامہ اور ہیلری نے بھارت کے لیے گزشتہ آٹھ سالوں میں کیا اُس کو ٹرمپ نے زبان دی۔ ہاں اس الیکشن میں جیت سے امریکیوں کا چہرہ ضرور بے نقاب ہو گیا جس پر ٹرمپ کا ہمیں شکر گزار ہونا چاہیے۔ امریکیوں کے بارے میں اب بہت سوں کی یہ غلط فہمی دور ہو جانی چاہیے کہ وہ بہت شاندار اور کھلے دل کے لوگ ہیں۔ امریکی ووٹرز نے اس تاثر کو بھی غلط ثابت کر دیا کہ امریکی انتظامیہ کے مسلمان اور اسلام مخالف تعصب اور پالیسیوں کا امریکی عوام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ امریکی لوگ تو بڑے غیر متعصب ہوتے ہیں۔ ٹرمپ الیکشن جیتنے کے بعد کیا کریں گے اس پر بحث بعد میں ہو گی لیکن اس حقیقت کو کوئی جھٹلا نہیں سکتا کہ اُن کی جیت نے امریکی ووٹرز کے اندر کے بغض خصوصاً مسلمانوں اور اسلام کے خلاف نفرت کو سب پر ظاہر کر دیا۔

    میری ذاتی رائے میں جو امریکا میں ہوا وہ اچھا ہوا۔ ٹرمپ کی جیت امریکا کو اُسی طرح کمزور کرسکتی ہے جس طرح Brexit کے نتیجے میں برطانیہ اور یورپ کو خطرات کا سامنا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ کمزور امریکا اور منقسم یورپ مسلمانوں پر پہلے جیسا ظلم ڈھانے کے قابل نہیں ہوں گے اس لیے امریکی الیکشن نتائج اور Brexit سے ہمیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ اس ماحول میں مسلمانوں کو بھی ماضی سے سبق سیکھنا چاہیے، اپنی غلطیوں اور کمزوریوں کوتاہیوں کو دور کرنا چاہیے۔ بجائے اس کے کہ ہم امریکا و یورپ کی غلامی میں ہی اپنا مستقبل محفوظ رکھنے کے دھوکہ میں پڑے رہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان ممالک آپس میں تعاون اور رابطوں کو بڑھائیںتاکہ غیروں کی سازشوں کا مل کر مقابلہ کیا جاسکے۔

  • امریکہ میں صدارتی الیکشن کے بعد ہنگامے کیوں ہوئے؟ ابومحمد مصعب

    امریکہ میں صدارتی الیکشن کے بعد ہنگامے کیوں ہوئے؟ ابومحمد مصعب

    ابومصعب اگر آپ یہاں واشنگٹن پوسٹ کے دیے گئے لنک پر کلک کریں گے تو بالکل حیران نہیں ہوں گے کیوں کہ ویڈیو میں جو کچھ نظر آ رہا ہے، وہ ہم اور آپ بارہا اپنے ملک کے بڑے شہروں کراچی، لاہور وغیرہ میں دیکھ چکے ہیں۔ دوکانوں کے شیشے لاٹھیوں سے توڑے جا رہے ہیں، سڑک کے درمیان چیزوں کو رکھ کر نذرآتش کیا جا رہا ہے، ایک شخص کو آپ درخت کو آگ لگاتے ہوئے بھی دیکھ سکتے ہیں۔ مظاہرین کا بس ایک ہی نعرہ ہے:
    Not my President
    یعنی ٹرمپ ہمارا صدر نہیں ہے۔

    امریکی صدارتی الیکشن کے نتائج سے لوگ اتنے اپ سیٹ ہیں کہ کئی لوگوں کو اپنے ٹی وی سیٹ توڑتے، لیپ ٹاپس کے اوپر ڈنڈے برساتے اور دھاڑیں مار مار کر روتے دکھایا گیا ہے۔ اس تمام تر صورتحال کو صدر ٹرمپ بھی بڑی حیرت سے دیکھ رہے ہیں اور جیت کی خوشی میں ان کی کھلی باچھیں ابھی اپنی جگہ پر بھی نہ آئی تھیں کہ ہنگاموں کے پھوٹنے پر حیران و پریشان ہیں۔ لوگ امریکہ کی مختلف ریاستوں میں ٹرمپ کے خلاف نہ صرف مظاہرے کر رہے ہیں بلکہ غم و غصہ میں بھرے لوگ ہنگامے بھی کر رہے ہیں۔ ٹرمپ پراپرٹی کا کاروبار کرتے ہیں اور کئی ریاستوں میں ان کی فلک بوس عمارتیں ہیں۔ لوگوں نے ان عمارتوں کے باہر جمع ہو کر بھی اپنی نفرت اور غصہ کا اظہار کیا ہے۔ اسی لیے نو منتخب صدر ٹرمپ نے تازہ ٹوئٹ کیا ہے کہ اس قدر واضح جیت کے باوجود جو کچھ ہو رہا ہے، وہ نہایت افسوسناک ہے، وہ میڈیا کے مقرر کردہ لوگوں کی ایما پر ہو رہا ہے۔ مسٹر ٹرمپ کے الفاظ:
    Just had a very open and successful presidential election. Now professional protesters, incited by the media, are protesting. Very unfair!

    یہ سب کیوں ہوا؟ جمہوری ملک میں جمہوری مزاج رکھنے والے عوام کو آخر ٹرمپ کی جیت کیوں ہضم نہیں ہوئی؟ جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ امریکہ میں چاہے صدر جو بھی آئے، بادشاہ گروں کی طرف سے اس کے پیچھے ایک لمبی منصوبہ بندی ہوتی ہے۔ لابنگ کرنے والی فرموں کو اپنا اپنا گھوڑا جتوانے کے لیے ہائر کیا جاتا ہے، مہمات لانچ کی جاتی ہیں اور میڈیا کے ذریعہ ملک کے اندر ایک عمومی فضا بنا دی جاتی ہے کہ فلاں تو آیا ہی آیا۔ یہی وجہ ہے کہ تمام تر میڈیا ٹاکس، صحافیوں کے تجزیے اور سروے، مس کلنٹن کی جیت کی خوشخبری سنا رہے تھے، مگر الیکشن کے رزلٹ نے عوام کو حیران و پریشان کر دیا، اور وہ سڑکوں پر نکل آئے۔ کیا یہ بات حیران کن نہیں کہ آج سے بارہ تیرہ سال قبل کسی فلم میں یا ویڈیو گیم میں مسٹر ٹرمپ کو امریکی صدارتی دوڑ میں شامل دکھایا گیا ہے۔ کیا یہ سب کچھ اویں ای تھا؟

    آخر میں یہ بات کہ امریکی عوام کی اکثریت نے مس کلنٹن پر ڈونلڈ ٹرمپ کو کیوں ترجیح دی؟ اس کا جواب ہے کہ امریکی عوام کے ساتھ جارج بش کے بعد اوبامہ کی صورت میں ہاتھ ہو چکا ہے۔ لوگ جارج بش کی امریکی فارن پالیسی سے خوش نہیں تھے جبکہ وہ قوتیں جو اسی پالیسی کو جاری رکھنا چاہتی تھیں، جانتی تھیں کہ اگر کوئی ایسا شخص امریکہ کا صدر بن گیا جس پر ان کا ہاتھ نہ ہو تو کھیل کا پانسہ پلٹ بھی سکتا ہے۔ لہٰذا انہوں نے عوام کو ایک تبدیلی دکھانے کے لیے اوبامہ کو میدان میں اتارا۔ کوئی سوچ سکتا ہے کہ وہ ملک جس میں کالوں کے ساتھ ہر سطح پر تھوڑا بہت امتیاز برتا جاتا ہے، وہاں کیا کوئی گورا میسر نہیں تھا جو مسٹر اوبامہ کو آگے لایا گیا۔ جواب اس کا یہ ہے کہ یہ ’’تبدیلی‘‘ کے لفظ کو مزید اجاگر کرنے کے لیے یہ محض ایک چال تھی۔ گوری چمڑی کے بجائے جب لوگ کالی چمڑی کو دیکھیں گے تو پچاس فیصد تو نفسیاتی طور پر ویسے ہی ’’تبدیلی‘‘ آنے کا ذہن بنا لیں گے۔ مگر ثابت ہوا کہ یہ سب دھوکے کے سوا کچھ نہ تھا۔ اور عوام نے دیکھ لیا کہ امریکی فارن پالیسی سے لے کر گوانتانامو بے تک، اوبامہ نے جتنے وعدے کیے تھے، وہ سب سراب ثابت ہوئے، اور پالیسیاں جوں کی توں چلتی رہیں۔

    اب کی بار اسی شکاری نے ایک بار پھر ’’تبدیلی‘‘ کا تاثر دینے کے لیے جنس کا انتخاب کیا اور کسی مرد کے بجائے عورت کو آگے کیا، تاکہ لوگ ’’تبدیلی‘‘ کو نفسیاتی طور پر محسوس کریں۔ مگر اس بار عوام نے جان لیا کہ انہیں ایک بار پھر ماموں بنایا جا رہا ہے، اور مس کلنٹن کٹھ پتلی سے بڑھ کر کچھ نہیں، جو اسی فارن پالیسی کو جاری رکھیں گی جو پچھلے سولہ سالوں سے چل رہی ہے، لہٰذا انہوں نے اپنے تئیں ایک مختلف پروگرام رکھنے والے شخص کو اپنا صدر منتخب کر لیا۔

    سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نومنتخب صدر اپنے وہ وعدے پورے کر سکیں گے جو انہوں نے امریکی عوام سے الیکشن مہم کے دوران کیے تھے؟ ماہرین کا خیال ہے کہ ایسا کرنا ان کے لیے ناممکن نہیں تو آسان بھی نہ ہوگا۔ کیوں کہ اس سلسلہ میں ان کو کئی قانونی پیچیدگیوں اور ’’بادشاہ گروں‘‘ کی جانب سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ نتیجہ یہ کہ کسی بڑی تبدیلی کی امید نہیں رکھی جا سکتی۔ اور پھر ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے اصل ’’بادشاہ گروں‘‘ کی قوت کو بھی خوب جانتے ہیں۔ کیا انہیں چار امریکی صدور کا علم نہ ہوگا جن کو ان کی حکومت ہی میں قتل کر دیا گیا تھا۔ وہ ہیں: ابراہام لنکن، جیمس اے گارفیلڈ، ولیم مکین لی اور صدر جان ایف کینیڈی۔ یوں اب تک امریکہ کے 44 صدور میں سے چار کو مار کر جان چھڑائی گئی ہے۔
    ٹرمپ کے خلاف احتجاج کی ویڈیو

    https://www.youtube.com/watch?v=mEF-ruKn_fs

    خبریں
    https://www.washingtonpost.com/news/post-politics/wp/2016/11/10/not-my-president-thousand-protest-trump-in-rallies-across-the-u-s/

    http://www.dailymail.co.uk/news/article-3922098/The-backlash-begins-Disgruntled-anti-Trump-protesters-refuse-accept-election-result-gather-New-York-cities-country.html