Tag: ڈورے مون

  • کیا یہ صرف کارٹون ہیں؟ والدین کے لیے خاص – ماہی احمد

    کیا یہ صرف کارٹون ہیں؟ والدین کے لیے خاص – ماہی احمد

    جب بچہ اس دنیا میں آتا ہے تو اس کی خوراک دودھ ہوتا ہے. وہ بھی کوئی عام دودھ نہیں. ایسا مخصوص قسم کی کمپوزیشن والا ہلکا اور پتلا سا دودھ جو بچے کو انرجی تو دیتا ہے مگر اس کے معدے پر بوجھ نہیں بنتا. جیسے جیسے بچہ بڑا ہوتا جاتا ہے دودھ کی کمپوزیشن بھی بدلتی ہے. پھر آہستہ آہستہ آپ بچے کو ٹھوس غذا کی طرف لاتے ہیں. پہلے بہت نرم، پھر ذرا سخت. غرض کم ازکم بچے کو اس دنیا میں موجود انواع و اقسام کے پکوان کھانے کے لیے4 یا 5 سال لگ جاتے ہیں. تب بھی ایک چیز پر غور کریں کہ بچہ ہر ذائقہ فورا قبول نہیں کرتا، آہستہ آہستہ، وقت کے ساتھ ساتھ، اگر آپ بچے کو پیدائش پر ہی یا ایک سال بعد کوئی انتہائی روغنی چیز مرچ مصالحوں سے بھری ہوئی کوئی ایسی چیز کھلائیں گے، اور کھلاتے چلے جائیں گے تو کیا ہوگا؟ اول تو بچہ کھائے گا نہیں. دوم، اگر کھائے گا بھی تو اس کا پیٹ خراب ہو جائے گا، طبیعت بگڑ جائے گی، معدے پر گراں گزرے گا. تین، ایسی صورت حال میں اس کی physical growth ہو پائےگی کیا؟ چار، چلو فرض کیا آپ کسی طرح قدرت کے قانون کو توڑنے میں کامیاب ہو گئے اور آپ کو دو ڈھائی سالہ بچہ انتہائی آرام سے صبح دوپہر شام آپ کے ساتھ لاہوری کھابے اور حیدرآبادی بریانی کے ساتھ انصاف کرتا ہے، تو سوچیں اسے معدے کی بیماریاں کتنی چھوٹی عمر میں شروع ہو جائیں گی.

    یہ سب باتیں اس لیے لکھیں کیونکہ میں نہ صرف ڈورے مون بلکہ اور بھی بہت سی (تقریبا 98%) کارٹون سیریز اور موویز کے خلاف ہوں. جب آپ کا بچہ کھانے کے معاملے میں ایک مخصوص عمر سے پہلے عام کھانے نہیں کھا سکتا، مرچ مصالحے ایکسپٹ نہیں کرسکتا، جب آپ کو اس کی جسمانی غذا کے متعلق سٹیپ بائے سٹیپ ہی چلنا ہے، تو روحانی اور ذہنی کے نشونما اور غذا کے متعلق ہم یہ بات کیوں بھول جاتے ہیں؟ کیا آپ اپنے 2، 3 سالہ بچے کو انگریزی کی abcd سکھائے بغیر، انگریزی پڑھنا سکھائے بغیر شیکسپئیر پڑھا سکتے ہیں؟ سائنس کی بنیادی چیزیں سمجھائے بغیر اس کو physics کے بڑے اور پیچیدہ لاز سمجھا سکتے ہیں؟ نہیں. تو پھر اس قسم کے کارٹونز کے ذریعے اپنے بچوں کو ذہنی کنفیوژن میں کیوں ڈال رہے ہیں؟ انٹرٹینمنٹ کے نام پر جو الم غلم ہم اپنے بچوں کو دیتے چلے جا رہے ہیں وہ ہمارے بچوں پر کیسا اثر ڈال رہا ہے ہم یہ کیوں نہیں سوچتے؟ کیا زبان سیکھنے کا کوئی اور طریقہ نہیں؟ کیا بہتر یہ نہیں کہ ایک مخصوص عمر میں پہنچنے کے بعد جب ماں باپ کو لگے کہ ہاں ہمارا بچہ اب اس قسم کی بات سمجھ سکتا ہے تب اس کو اس کے والدین جنسی تربیت دیں؟ ایک بات ذہن میں رکھیں، بچوں کے دماغوں کے taste buds نہیں ہوتے. جو بھی چیز آپ دکھائیں گے، وہ ہر چیز کو بڑے آرام سے ایکسپٹ کرتے جائیں گے. اگر تشدد اور اس قسم کی خرافات دکھائیں گے تو بچے بےحس ہو جائیں گے. میں نہیں سمجھتی کہ ایک مخصوص عمر سے پہلے، جب تک ماں باپ بچوں کو reality اور fantasy کا فرق نہ سمجھا دیں اور بچے اچھی طرح سمجھ نہ جائیں، بچوں کو ٹی وی کے سپرد کرنا چاہیے.

    اگر آپ انٹرٹینمنٹ کا بہانہ بنا کر اپنے بچوں کو ٹی وی، انٹر نیٹ اور کارٹونز کی آغوش میں چھوڑتے ہیں تو ایک بات یاد رکھیں کہ یہ بچوں کے ساتھ کھلی دشمنی ہے. اس طرح بچے کے اندر کی پرتجسس روح کہیں سو جاتی ہے. بچوں کے لیے یہ دنیا ایک عجوبہ ہے، روز نئی چیز ایکسپلور کرتے ہیں، دیکھتے ہیں، پرکھتے ہیں. ان کے لیے انٹرٹینمنٹ کا انتظام پہلے سے موجود ہے، بس انہیں اپنے بڑوں کی رہنمائی چاہیے. انہیں بے بی اسٹیپس لے لے کر ہی بڑھنے دیا جائے تو اچھا ہے. عقلمندی یہی ہے کہ ان کو معصوم ہی رہنے دیا جائے، بچے ہی رہنے دیا جائے. جس عمر میں آپ کے بچے کو راہ چلتے ہوئے کنارے پر لگے کسی ننھے سے پھول کو بیٹھ کر غور سے دیکھنا چاہیے، یہ سوچنا اور پوچھناچاہیے کہ وہ جو کل دیکھا تھا وہ لال تھا اور یہ پیلا ہے، کیوں؟ یہ پوچھناچاہیے یہ یہاں کیسے کھڑا ہے؟ یہ پہلے تو نہیں تھا آج یہاں کدھر سے آگیا؟ اس عمر میں آپ کے بچے رومانس، ایکشن، تھرل، فیری ٹیل نامی خرافات نہ صرف دیکھ رہے ہیں بلکہ سیکھ بھی رہے ہیں. ہم لوگوں میں یہ common sense کیوں نہیں ہے کہ اگر رومانس سیکھنے کے لیے 2، 3 سال کی عمر ہی قدرت کو منظور ہوتی تو پھر بلوغت کی عمر ڈیڑھ سال ہوتی اور آپ اپنے 3،4 سالہ بچوں کی شادیاں کر رہے ہوتے. (یہ نکتہ ان تمام لوگوں کے لیے جو سمجھتے کہ وہ بچوں کو اس قسم کےکارٹونز سے سکھا اور تربیت دے رہے ہیں، میرا ان سے سوال ہے کہ کیا آپ اپنے بچے کو 2، 3 سال کی یا 6، 7 سال کی عمر میں کیمسٹری سکھانے کے لیے کسی انتہائی بڑی اور اچھی کیمسٹری لیب میں بھیج دیں گے؟ یہ جانتے ہوئے کہ وہاں کتنے خطرناک کیمیکلز بھرے پڑے ہیں، اور آپ کے بچے کو پریکاشنز پڑھنا تک نہیں آتیں؟). ہم سب جانتے ہیں اور مانتے ہیں کہ بچے وہی کرتے ہیں جو دیکھتے ہیں.

    ایک بار سوچیں جب بچہ ٹام کو جیری پر تشدد کرتے دیکھتا ہے، دیکھتا ہے کہ ٹام نے ہتھوڑا اٹھایا اور جیری پر دے مارا، لیکن کچھ دیر بعد جیری بالکل ٹھیک ٹھاک شرارتیں کرتا پھر رہا ہے تو بچے کو اس مخصوص تشدد بھرے عمل کی سنگینی تو نہ سمجھ میں آئی نا. اب اگر خدانخواستہ کسی دن وہ اپنے کسی دوست یا چھوٹے بہن بھائی کے ساتھ پریکٹیکل کر بیٹھے تو کیا بنے گا؟ نقصان کا ذمےدار کون ہو گا؟ آپ نے تو سوچ لیا کہ بچہ کچھ غلط کرےگا تو سمجھا دیں گے، لیکن کبھی یہ سوچا کہ اگر موقع ہی نہ ملا سمجھانے کا تو؟ آپ کا بچہ دیکھتا ہے کہ سپر ہیرو کھڑکی سے چھلانگ لگاتا ہے اور ہووائوں میں اڑتا پھرتا ہے، کتنا فیسینیٹنگ ہےنا یہ، اب جب وہ خود اماں کا لال دوپٹہ باندھے کھڑکی سے چھلانگ لگائے گا تو کیا بنے گا؟ کبھی غور کیا آپ نے کہ ڈزنی فلموں میں اکثریت ایسی ہےکہ ماں پہلے سے مر چکی ہے. کیوں؟ یہ سوچا کیا؟ کیونکہ مائیں گھر کو گھر بنائے رکھتی ہیں، بچوں کو باہر نہیں دیکھنا پڑتا توجہ کے لیے، محبت کے لیے، خصوصا بیٹیوں کو، کیونکہ ان کی بہترین سہیلیاں مائیں ہوتی ہیں. مگر بچے یہ بات نہیں سمجھتے. 16،17 سال کی ڈزنی پرنسز کو گھر سے پہلا قدم نکالتے ہی خوابوں کا شہزادہ مل جاتا ہے.

    آپ کی بچیاں کیا سیکھ رہی ہے؟ یہی کہ یہ جو گھر میں ایک مما نامی عورت ہے، یہ جو مجھے باہرنہیں جانے دیتی، گھر میں رہنے کی، اجنیبیوں سے نہ ملنے اور بات نہ کرنے کی تلقین کرتی ہے تو یہ بالکل رپنزل کی سوتیلی ماں جیسی ہے، اور وہ تو فلم کی ولن تھی، وہ تو ایک بری عورت تھی. جب بچی دیکھتی ہے کہ میری ماں مجھے یہ کہہ رہی ہے کہ بٹیا گھر کے چھوٹے موٹے کاموں میں ہاتھ بٹائو وغیرہ تو وہ عورت سنڈریلا کی سوتیلی ماں جیسی لگنے لگتی ہے. جب بچی کو ایک شخص کہتا ہے کہ آئو تمہیں دنیا گھما کر لائوں تو وہ اسے فلین رائیڈر (tangled فلم کا ہیرو، ایک چور اچکا) لگنے لگتا ہے. بچے معاشرے میں خوبصورت نقاب کے پیچھے چھپے گھنائونے چہروں اور ان کی آنکھوں میں موجود گندے عزائم کو نہیں جانتے، آپ تو جانتے ہیں نا!. کیوں نہ اس سب خرافات کے بجائے بچوں کو creative learning کی طرف لایا جائے؟ انہیں اچھی اور مثبت باتیں سکھائی جائیں، ایسا لٹریچر پڑھنے کی عادت ڈالی جائے جو ان کی معصومیت کو برقرار رکھے اور انہیں معاشرے کا اچھا انسان بننے میں مدد دے؟ کیوں نہ انہیں physical activities میں مشغول رکھا جائے؟ مجھے یقین ہے اس کا جواب ہوگا کہ ماں باپ کے پاس وقت نہیں ہے. وہ کیسے کریں یہ سب؟ تو جناب ایک آخری بات اس سے متعلق. اگر آپ کے پاس وقت نہیں ہے تو ایسی معصوم اور پاک روحوں کو وہیں رہنے دیں جہاں سے وہ آئے، دھرتی پر پہلے ہی بہت غلاظت ہے، مزید ڈھیر مت لگائیں، خود کو بھی پریشانی ہو گی اوردوسروں کو بھی.

    وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ صرف کارٹونز ہی کیوں؟ ایک مخصوص پروگرام ہی کیوں بین کیا جائے؟ صرف بچوں پر ہی کیوں پابندی لگے وغیرہ، ان سے میرا ایک سوال ہے کہ اگر خدانخواستہ آپ کے گھر آگ لگ جائے، آگ بجھانے والا عملہ آنے میں تاخیر سے کام لے، تو آپ کیا کریں گے؟ یقینا ایک بالٹی اٹھائیں گے، پانی لیں گے اور آگ بجھانے کی کوشش شروع کر دیں گے. اب اگر ایسا ہو کہ ایک مجمع جمع ہو جائے وہاں اور آپ پر لعن طعن شروع کر دے اور کہے کہ جی ہم تو تمہارے اس عمل کےبہت خلاف ہیں. یہ کیا کیا؟ اس دیوار پر کیوں ڈالا؟ اس پر کیوں نہیں ڈالا؟ باقی آگ دیکھائی نہیں دیتی کیا؟ صرف ایک بالٹی سے کیا ہوگا؟ وغیرہ وغیرہ تو کیسا لگے گا آپ کو؟ کیا آپ چھوڑ کر بیٹھ جائیں گے؟ یہ جانتے ہوئے کہ اس گھر کےاندر آپ کا خاندان، بیوی بچے، والدین یا اور رشتہ دار موجود ہیں، آپ انہیں جلنے دیں گے؟ نہیں نا؟ تو پھر اس معاملے میں کیوں؟ ہماری approch یہ کیوں نہیں ہے کہ ہاں یہ پروگرام بھی بین ہونا چاہیے اور اس کے ساتھ دوسرے بھی جن کے ذریعے سے ہماری اقدار متاثر ہو رہی ہیں.

    کارٹونز کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ننھے منے دماغوں پر بہت جلدی اثر انداز ہوتے ہیں، ناصرف یہ بلکہ بہت چھوٹی عمر سے بچے وہ سب سیکھنا شروع کرتے ہیں جو کہ ان کی معصومیت کو تباہ کر دیتا ہے، ان کے دماغوں کو مائوف کردیتا ہے، وہ روبوٹ بنتے جاتے ہیں. پاکستانی میڈیا کے دوسرے بہت سے پروگرامز بھی قابل مذمت ہیں. بہت آہستہ آہستہ ہماری نسلوں کو تباہی کی طرف لایا گیا ہے. آج سے 15، 20 سال پرانا پروگرام اٹھائیے اور آج کے پروگرام سے اس کا موازنہ کیجیے. آپ کے سامنے حقیقت خودبخود کھل جائے گی. میڈیا کا ترقی کرنا، نئی ٹیکنالوجیز کا آنا اور تباہ کن مواد اور خرافات کا ایک مثبت موضوع بن جانا یہ دونوں بہت مختلف چیزیں ہیں. اپنے گھروں میں دیکھیے، روایات اور اخلاقیات کس موڑ پر ہیں؟ کیا ویسی ہی ہیں جیسے آپ کے باپ دادا کے دور میں تھیں؟ خدارا اس گرتے چلے جانےکو ترقی اور آگے بڑھنا مت کہیے گا. چلیں پرائم ٹائم ڈراموں کی بات کرتے ہیں کیونکہ قوم کی مائوں اور بیٹیوں کا یہ پسندیدہ پروگرام ہوتا ہے، اب سے تقریبا 5 سال قبل ڈراموں کا موضوع نوجوان نسل اور ان کے درمیان پلنے والی محبت تھی، جس کا دشمن پورا زمانہ ہوتا ہے، مگر ڈرامے کے اختتام پر وہ محبت حاصل ہو جاتی تھی کیونکہ وہ پریم پنچھی بالکل صحیح تھے اور پورا زمانہ غلط. اب موضوع تھوڑا آگے بڑھ چکا ہے. اب موضوع شادی شدہ افراد ہیں. پرائم ٹائم کے ڈراموں کو اٹھا کر دیکھیں صرف. 90% ڈراموں کا موضوع شادی شدہ افراد کی، بچے ہو جانے کے باوجود، ناکام ازدواجی زندگی ہے. طلاق کا ہونا تو ایک بہت عام سی بات دکھائی جاتی ہے، اور پھر اس کے بعد خاتون یا حضرت کی دوسری شادی. کیا دیکھ رہے ہیں ہم؟ کیا سیکھ رہے ہیں ہم؟ کیا سکھا رہے ہیں ہم؟

    اس قسم کے ڈرامے دکھانے کے بعد ہم روتے ہیں کہ معاشرے میں طلاق کی شرح کیوں بڑھ گئی؟ ہم پریشان ہوتے ہیں کہ ہماری بچیاں اپنے گھروں میں خوش نہیں، گھر بس نہیں رہے. ایک وقت تھا ماں باپ بچیوں کو سیکھاتے تھے کہ اب تمہارا جنازہ ہی نکلنا چائیے اس گھر سے، اوپر سے دیکھیں تو یہ جملہ بہت سخت لگتا ہے، ایسے لگتا ہے ماں باپ کے سینے میں تب پتھر ہوتے تھے، مگر حقیقت یہ ہے کہ تب دل ہوتے تھے، احساس ہوتے تھے، فہم ہوتا تھا اوراب بس پتھر، وہ بھی شاید عقلوں پر. تب اس جملے سے مراد یہ ہوتی تھی کہ بٹیا نباھنا، جیسے بھی حالات ہوں، رشتے نباھنا، اور بچیاں نباہ کرتی تھیں، سب کچھ سہتی تھیں، مگر گھر بنا لیتی تھیں. 5 سال بعد، 10 یا 20 سال بعد وہی سسرال ان بچیوں کے گن گاتا تھا، اور اب، اب شادی کے پہلے ماہ ہی بات طلاق تک پہنچتی ہے. اور میں نے ایسا دیکھا ہے، یہ مبالغہ آرائی نہیں.

    خیر موضوع سے بہت ہٹ گئے مگر خدارا کچھ خیال کریں. اپنی اقدار کا، اپنی روایات کا، خود کو اور اپنے اہل و عیال کو اس دنیا اور ہمیشہ کی دنیا والی آگ سے بچا لیں. کچھ وقت نکالیں اور غور سے دیکھیں، نوٹ کریں، آپ کے بچے، آپ کےگھر والے، کیا دیکھ رہے ہیں، کیا سیکھ رہے ہیں؟ کہیں وہ انجانے میں تباہی کے راہی تو نہیں بنتے جا رہے. تباہی بھی وہ جو صرف ایک فرد نہیں پوری نسلوں کو نگلتی جا رہی ہے.

  • ’’جانکاری‘‘اہم ہے یا ہماری اقدار؟ سحر فاروق

    ’’جانکاری‘‘اہم ہے یا ہماری اقدار؟ سحر فاروق

    سحر فاروق پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کی جانب سے ایک مخصوص کارٹون ( ڈورے مون) پر پابندی عائد کیے جانے کے لیے قرارداد جمع کروائی گئی ہے۔ ڈزنی چینل پر ہر وقت آن ائیر رہنے اور بچوں کے ہر وقت TV کے سامنے رہنے سے جتنے بھی والدین عاجز تھے سب نے خوشی کا اظہار کیا اور سکون کا سانس لیا ۔ بعض والدین نے البتہ سوال کیا کہ بچے اگر کارٹون بھی نہ دیکھیں پھر دیکھیں کیا؟یہ اعتراض بھی کیا گیا کہ بچے ان کارٹونز سے مختلف ممالک، خاص کر جاپان جہاں بنائے جاتے ہیں، کا کلچر سیکھ رہے ہیں اور جو خاص اصطلاحات والدین کو بھی نہیں معلوم، بچے اچھی طرح نہ صرف جانتے ہیں بلکہ اس کو روزمرہ زندگی میں استعمال بھی کرتے ہیں، یہ بچوں کے ذخیرہ الفاظ میں اضافے کا باعث ہیں. یہی دلیل اس کارٹون کے خلاف بھی ہے کہ بچوں کو اپنا کلچر اور اپنی اصطلاحات سیکھنی چاہییں.

    یہ حقیقت ہے کہ ہمارا غیرتخلیقی رویہ ان کارٹونز کے خاتمے میں ایک رکاوٹ ہے. خاص طور پر بچوں کے حوالے سے میڈیا کسی بھی قسم کے تفریحی اور معلوماتی پروگرامات پیش کرنے سے قاصر ہے۔ یہ بہت بڑا خلا ہے جو الیکٹرانک میڈیا کے ذمہ داران کی توجہ کا متقاضی ہے۔ اگر پاکستانی کارٹون چینلز موجود ہوں گے تو مائیں کیوں اپنے جگرگوشوں کو بھیم، ڈورا، مایٹی، راجو اور ڈورے مون دیکھنے کی اجازت دیں گی؟ جس میں نہ صرف ہندی زبان بلکہ اسلامی عقائد اور اسلامی و معاشرتی سے متصادم باتوں کی ترویج کی جاتی ہے۔

    پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے اور ابلاغ کے شعبے سے وابستہ تمام لوگ آئینی طور پر اس بات کے پابند ہیں کہ کسی پروگرام، تحریر، ڈرامے حتی کی کسی کارٹون میں بھی روایات اور اقدار پامال نہ ہونے پائیں۔ زبانیں اور کلچر اہم ہیں مگر ہماری اپنی اقدار زیادہ اہم ہیں اور معصوم ذہنوں کو آلودہ ہونے سے روکنا ہمارا فرض ہے۔ اقبال ؒ جیسے بڑے شاعر بچوں کے لیے لکھ گئے ہیں، بڑے بڑے ادیب، شعراء اور لکھاری موجود ہیں، پاکستان میں اینیمیٹد انڈسٹری فروغ پا رہی ہے اور سے انتہائی ہونہار لوگ وابستہ ہیں. نجی Tv مالکان کو چاہیے کہ ان وسائل کو استعمال کریں اور اپنی آنے والی نسل کو کچھ دے کر جائیں۔

  • کارٹونز؛ بچوں کی تفریح اور تربیت – عائش جدون

    کارٹونز؛ بچوں کی تفریح اور تربیت – عائش جدون

    ’’مجھے ڈورے مون والا بیگ چاہیے‘‘
    غلطی سے ابا حضور کوئی اور کریکٹر اٹھا لائے اور برخوردار نے شور مچا دیا ’’بابا مجھے یہ نہیں چاہیے تھا.‘‘
    آخر جب ڈورے مون کی شکل نظر آئی تو گھر میں سکون آیا.

    ’’بابا میں نے غباره لینا ہے.‘‘
    دل کی شکل کا بنا غبارہ جب ہاتھ میں آیا تو روتی آواز میں جواب ملا
    ’’نهیں مجھےچٹکی کی شکل والا غبارہ چاہیے.‘‘

    ’’مجھے موٹو پتلو کارٹون دیکھنے ہیں.‘‘
    چار سالہ بچہ ہے، اسے کیا سمجھ یہی سوچ کر پنک پینتھر لگا دیے گئے. جوابا بچے نے غصے میں سکرین کو مکا دے مارا اور چنگھارٹی آواز میں بولا
    ’’میں نے موٹو پتلو کہا تھا، یہ کیا لگا دیا.‘‘

    جو میوزک کو حرام سمجھتے ہیں وه بھی’’بچہ تنگ کرتا ہے‘‘ کا بہانہ تراش لیتے ہیں لہذا کمرہ میوزک والے ہندی کارٹون کے فلمی مناظر دکھا رہا ہے

    ’’اففففففف یہ بچہ کیا پھرکی کی طرح گھوم رہا ہے، ناراض ہے کیا؟‘‘
    والده ہنس کر ’’نہیں نہیں یہ بھیم والے کارٹون دیکھتا ہے، بس اس لیے اس کی نقل اتارتا رہتا ہے۔ بیٹا آپی کو بتاؤ ذرا چھوٹا بھیم کیسے کرتا ہے؟‘‘
    اور بچے کی الٹی سیدھی حرکات شروع.

    یہ ان مناظر میں سے چند ایک ہیں جو میں اپنی آنکھوں سے دیکھ چکی ہوں اور اس بنیاد پر میرا خیال ہے کہ انسان کی شکل کے بجائے صرف کارٹون والی شکل گردن پر لگانا باقی ہے، باقی حرکات و سکنات اور جملے سب ہمارے بچوں میں آچکے ہیں.

    بچوں پر مکمل پابندی لگا کر انھیں کارٹونز سے دور نہیں رکھا جا سکتا. دوست اور کزنز جب کارٹون کا تذکرہ کریں گے تو لامحالہ بچے کے دل میں بھی تجسس پیدا ہوگا، گھر میں پابندی ہوگی تو چھپ چھپا کے کہیں نہ کہیں سے شوق ضرور پورا کرے گا تو کیوں نہ بچے پر ایک ناممکن چیز کی پابندی لگانے کے بجائے اسے اس کا متبادل دے دیا جاۓ.

    یہ تو سب مانتے ہیں کہ بچوں کے ذہن صاف سلیٹ کی مانند ہوتے ہیں، جو دیکھیں گے نقش بھی رہے گا اور پھر تمام عمر وہی پسندیدہ بھی. یہ کچھ کارٹون لنکس ہیں جو ہمارے گھر میں بچے بڑے سب شوق سے دیکھتے ہیں. اس کے دو فوائد میں نے دیکھے ہیں۔ ایک تفریح کی تفریح اور دوسرا آہستہ آہستہ بغیر سکھلائے عربی کی سمجھ آنا شروع ہو جاتی ہے۔ یہ کارٹون دلچسپ بھی ہیں اور تربیتی بھی. ایک سیریز اردو ہندی مکس ’’عبدالباری‘‘ کے نام سے ہے جس میں روزمرہ دعائوں کی نسبت سے کارٹون بنائے گئے ہیں۔ اور ایک عربی سیریز ہے ’’حامل المسک‘‘ کے نام سے جس میں مختلف قرآنی آیات کے اسباق دکھا کر کارٹون بنائے گئے ہیں۔ یہ سب ہیں تو عربی میں لیکن جب ناسمجھ بچے ہندی اور انگلش دیکھ اور ان کی حرکات سے کہانی سمجھ سکتے ہیں تو عربی کیوں نہیں؟ بس کچھ وقت مخصوص کریں، یہ نہ ہو کہ ان کا نشہ لگ جائے اور باقی سب کام ٹھپ ہو جائیں۔ پہلے خود دیکھیں اور ان میں سے جو مناسب لگیں وہ بچوں کو دکھائیں۔ یہ کام مشکل ضرور لگے گا لیکن بچوں کی تفریحی تربیت کرنے کے مقابل کچھ مشکل نہیں۔

    عبدالباری سیریز
    https://www.youtube.com/user/moralvision/videos

    حامل المسک
    https://www.youtube.com/channel/UCzyZr4G2Dn2PKZnpxkU4Zsw/videos

    وصیت ابی (اس کارٹون میں ایک بچے کی عزم و ہمت کی داستان ہے جس میں وہ اپنے والد کے دوستوں کے ساتھ مل کر ان کی وصیت پوری کرتا ہے اور ایک بحری ڈاکو اس کی وجہ سے سیدھی راہ پر آتا ہے۔)
    https://www.youtube.com/watch?v=MqbB2B-y5i4

    ابطال العائدون (یہ چند چھوٹے جانوروں کی بہادری کی داستان ہے جو جنگل کے بھیڑیوں کا مقابلہ کرتے، اپنے محسن کے اہل خآنہ کو کس طرح بچاتے ہیں اور کس طرح ان کے اندر شامل ایک جاسوس ان کی جڑیں کاٹتا ہے۔ مزاح،خوف اور بہادری کی داستان لیے کارٹون)
    https://www.youtube.com/watch?v=yFS99Yhi8SE

    محمد فاتح مراد ثانی (مشہور اسلامی کمانڈر پر بنے کارٹوں جو اندلس کی تاریخ کے ایک رخ سے پردہ اٹھاتے ہیں)
    https://www.youtube.com/watch?v=KX-9a_C3lKg

    طارق بن زیاد کی زندگی پر بنے کارٹون “فتح الاندلس”
    https://www.youtube.com/watch?v=GFXxTuUAj0k

    اور یہ ایک ویب سائٹ ہے جس پر کارٹونز کا ڈھیر لگا ہوا ہے۔ بس یہ دھیان رہے حوصلے حوصلے سے دیکھنے ہیں تاکہ سٹاک طویل عرصہ چل سکے
    http://www.alsalafway.com/cms/multimedia.php

  • ڈورے مون اور ہمارےبچے – لائقہ عندلیب

    ڈورے مون اور ہمارےبچے – لائقہ عندلیب

    آج فیس بک کھولی تو چاروں طرف سے ڈورے مون کے حق میں آوازیں بلند ہوتی سنائی دیں. خبر تو پڑھ چکی تھی، تبصروں پر نگاہ ڈالی توپتہ چلا کہ عوام کارٹون شو پر پابندی کی محض قرارداد پیش ہونے پر ہی جلالی کیفیت میں ہے. دلائل کی طرف دیکھا تو معلوم ہوا کہ دہشت گردی اور غیرت کے نام پر قتل جیسے بڑے مسائل کو تو کوئی پوچھتا نہیں مگر کارٹون کو بغیر کسی وجہ کے بین کرایا جا رہا ہے.

    بحیثیت قوم مسائل میں اس قدر گھرے ہوئے ہیں کہ بچوں کی اخلاقی تربیت کی اہمیت کو ہی فراموش کر دیا ہے مگر اتنے پیچیدہ مسائل کے باوجود چھوٹے مسائل کو بھلا دینا کہاں کی عقلمندی ہے؟ کیا ہم یہ چاہتے ہیں کہ دہشت گردی جیسے عفریت کے ساتھ تو لڑیں مگر ہمارے بچے اپنی زندگیاں اخلاقی طور پر پسماندہ حالت میں گزاریں. یہاں یہ کہنے کا مقصد صرف اور صرف بچوں کی اخلاقی تربیت کی اہمیت کو واضح کرنا ہے.

    یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ ایک معمولی سا کارٹون شو بچوں پر کیسے اثرانداز ہو سکتا ہے؟ معصوم بچے کو یہ کس طرح متاثر کرتا ہے، اس کےلیے ضروری ہے کہ آپ اپنے گھر میں اپنے بچوں کی نفسیات اور الفاظ اور ان کی معصومانہ خواہشات کا جائزہ لے لیں تو بغیر کسی دلیل کے آپ کو سمجھنے میں آسانی ہوگی. اپنے گھرکی ہی مثال دوں تو میری چھ سالہ بہن بڑے شوق سے ڈورے مون دیکھتی ہے. جب وہ غصہ کرتی ہےتو جایان ( ڈورے مون کا کردار) کی طرح دانت پیس کر اور سر جھکا کر، اور کوئی اچھا کام کرنے کے بعد وہ ڈورے مون کی طرح ‘ دیکھا میرا کمال ‘ کہتی ہے. آپ خود سوچیے کہ پانچویں جماعت میں پڑھنے والے نوبیتا اور شےزور ( ڈورے مون کے کردار) کی لو سٹوری دکھانےکا مقصد کیا ہے اور یہ بچوں کو کیا سکھانے کی کوشش کی جا رہی ہے. پھر ہندووانہ تہذیب، الفاظ اور اصطلاحات بچوں کو یاد ہوتی ہیں، اور انھی میں بات کرتے اور سوال کرتے ہیں تو اپنی تہذیب سے منہ موڑنا کہاں کی دانشمندی ہے. جب ڈورے مون ہر مسئلے کے حل کے لیے گیجٹ نکالتا ہے تو وہ دراصل ہر کام کے لیے کسی پر انحصار کرنا سکھاتا ہے.

    بات صرف ڈورے مون کی نہیں ہے. اپنے اردگرد نگاہ دوڑائیے اور بچوں کے پروگراموں کو غور سے دیکھیے. کیا یہ تمام شو ایک سپر پاور کا تصور نہیں سکھا رہے؟ سپر پاور دکھانے والے کارٹون بچوں کی دلچسپی کا باعث تو بن سکتے ہیں مگر یہ بچوں کی ذہنی اور نفسیاتی حالت پر کس قدر منفی اثر چھوڑتے ہیں اس کا تصور بھی مشکل ہے.

    چند بڑے مسائل کی وجہ سے چھوٹے مسئلوں سے منہ نہیں موڑا جا سکتا. سیاسی لڑائیوں کے برعکس اگر کسی جماعت نے ایسے مسئلے کے لیے قرارداد جمع کرا دی ہے تو اس پر ہلڑبازی کے بجائے اچھی طرح سوچنے کی ضرورت ہے، ورنہ انتظار کیجیے کہ ڈورے مون اور اس جیسے دیگر کارٹونز ہمارے بچوں کو کہاں لے جاتے ہیں.