Tag: ڈاکٹر

  • ریڈیوپاکستان میں کام کرنےوالی عروج کی سچی اور دردناک داستان – جمال عبداللہ عثمان

    ریڈیوپاکستان میں کام کرنےوالی عروج کی سچی اور دردناک داستان – جمال عبداللہ عثمان

    جمال عبداللہ عثمان ’’عروج اختر‘‘ کی شادی 19 سال کی عمر میں ہوئی۔ یہ شادی والدین کی مرضی کے بغیر ایک 50 سالہ ادھیڑ عمر ڈاکٹر سے ہوئی۔ شادی کے فوراً بعد شوہر نے نشہ کرنا اور جوا کھیلنا شروع کردیا۔ ’’عروج اختر‘‘ کے شوہر کو آخری عمر میں فالج ہوا اور فالج کے دوران ہی اپنے گزشتہ رویوں پر پشیمان ہوکر عروج کو طلاق دے دی۔ عروج کے مطابق اس طرح وہ اپنی کوتاہیوں کا ازالہ چاہتے تھے۔ ”عروج اختر“ نے مشکل حالات کے باوجود گریجویشن کیا اور ریڈیو پاکستان میں بھی کچھ عرصے تک کام کرتی رہیں۔ وہ اس وقت کراچی میں اپنے بچوں کے ساتھ رہ رہی ہیں۔ یہاں بوجوہ ان کا اصل نام نہیں دیا جارہا۔
    ٭
    ’’میں ایک ایسے گھر میں پیدا ہوئی، جہاں ہمیشہ لڑائی، جھگڑا اور فساد ہی دیکھا۔ میری چار بہنیں تھیں۔ والد صاحب انتہائی سخت مزاج کے مالک تھے۔ خصوصاً مجھے یاد نہیں پڑتا کہ انہوں نے بیٹیوں کو کبھی محبت بھری نظر سے دیکھا ہو۔ جس طرح انسان صبح، دوپہر اور شام کو کھانا کھاتا ہے۔ اسی طرح ہمارے والد ہمیں تین وقت جسمانی سزا ضرور دیتے تھے۔ مجھے کبھی یاد نہیں پڑتا کہ والد نے کسی بیٹی کو پیار کیا ہو۔ وہ اسکول کالج کے بھی مخالف تھے۔ میری ایک ٹانگ پولیو سے متاثر تھی۔ اس کے باوجود اللہ نے بڑا کرم کیا اور میں نے اتنی مشکلات کے ہوتے ہوئے بی اے کا امتحان دے دیا۔ اس کے بعد کچھ عرصہ اسکول میں پڑھایا۔ ریڈیو پاکستان میں مختصر عرصے کے لیے کام کیا۔ لکھنے کا شوق تھا، کچھ رسائل کے لیے لکھا بھی۔ اللہ نے بہت سی صلاحیتوں سے نوازا تھا، مگر اس دوران ایک ایسا حادثہ پیش آیا، جس نے زندگی کو تباہ کرکے رکھ دیا۔‘‘

    ’’یہ ایسا حادثہ ہے جس کی تفصیلات بیان کرنا مناسب نہیں۔ بہرحال! مختصراً یہ بتادیتی ہوں کہ ایک ڈاکٹر سے ملاقات ہوئی۔ یہ ڈاکٹر کراچی میں ملازمت کرتے تھے۔ ان کی عمر تقریباً 50 سال تھی۔ یہ پہلے سے شادی شدہ تھے اور بچے وغیرہ بھی تھے، لیکن پہلی بیوی اور بچوں کے ساتھ تعلقات نہ ہونے کے برابر تھے۔ ان کے ہاں گھریلو ناچاقی چل رہی تھی۔ میری اور ان صاحب کی ملاقاتیں شروع ہوئیں۔ اکثر کہا کرتے تھے کہ مجھے تم میں اور کوئی دلچسپی نہیں، بس مجھے تمہارا نام پسند ہے اور میں تمہارے نام کو اپنے نام کا حصہ بنانا چاہتا ہوں۔ میں بھی مسائل اور پریشانیوں میں گھری ہوئی تھی۔ گھر کا ماحول انتہائی گھٹن زدہ تھا۔ ہر وقت لڑائی جھگڑا رہتا تھا۔ اس سے فرار چاہتی تھی۔ لہٰذا اسے سنہرا موقع سمجھا اور بدقسمتی سے ان کی باتوں میں آگئی، فرار کا راستہ اختیار کرلیا۔ یہ صاحب مجھے فیصل آباد سے اپنے شہر کراچی لے کر آئے، اس وقت میری عمر 19 سال تھی۔‘‘

    ’’جب ہم کراچی پہنچے، اس وقت ہمارا نکاح نہیں ہوا تھا۔ ان صاحب نے مجھے ایک رشتہ دار کے گھر رکھا۔ وہاں لوگ مجھے بڑی عجیب نظروں سے دیکھتے تھے۔ شاید وہ مجھے کوئی بہت ہی بری عورت سمجھتے تھے۔ میرے پاس اپنے گھر کے کسی فردکو قریب نہیں پھٹکنے دیتے تھے۔ خصوصاً لڑکیاں میرے پاس آنے سے بہت ہچکچاتی تھیں۔ جب میں نے ان صاحب سے تذکرہ کیا، انہوں نے اپنے رشتے داروں کو بتایا کہ یہ کوئی ایسی ویسی لڑکی نہیں۔ خاندانی لڑکی ہے۔ حالات کی ترسی ہوئی ہے۔ اس کے بارے میں آپ لوگ غلط نہ سوچیں۔ اس طرح وہ لوگ مطمئن ہوگئے اور ان کا رویہ بہت بہتر ہوگیا۔ ہم نے وہاں 20، 22 دن گزارے۔ میں اس وقت انتہائی خوفزدہ تھی، کیونکہ میری عمر زیادہ نہیں تھی۔ اس کے بعد وہ صاحب مجھے ایک اور رشتے دار کے گھر لے گئے۔ جہاں میرا نکاح پڑھایا گیا۔ نکاح کے بعد مجھے اپنے گھر لے گئے اور میں نے ایک نئی زندگی میں قدم رکھا۔ میں اُداس تھی، مگر سوچتی تھی والدین کو راضی کرلوں گی۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ آسمان سے گرکر کھجور میں اٹک گئی ہوں۔‘‘

    ’’آج اس واقعے کو تقریباً 20 سال ہوچکے ہیں۔ والدین سے اس کے بعد کوئی ملاقات ہوئی نہ ہی رابطہ۔ البتہ کئی بہنوں سے کچھ عرصے بعد رابطہ بحال ہوگیا تھا۔ ایک بھائی باہر ہوتے ہیں۔ ان سے فون پر بات ہوجاتی ہے۔ باقی تمام بہنوں کی شادیاں ہوگئی ہیں۔ سب اپنے اپنے گھروں میں بہت خوش ہیں۔ جو مجھ سے بڑی ہیں، ان کی بھی شادی ہوگئی ہے۔ ان کے جوان بچے ہیں۔ مجھ سے چھوٹی بہن نے کورٹ میرج کی ہے۔ چوتھی نمبر کی بہن یہاں کراچی میں رہتی ہے۔ وہ بھی بہت خوش ہے۔ اللہ نے اسے ہر نعمت سے نوازا ہے۔ میں سمجھتی ہوں میری بہنوں نے ماں باپ کے گھر میں بہت دُکھ دیکھے اور مصائب جھیلے۔ اللہ نے ان پر بڑا رحم کیا۔ ان کی مشکلات ان کی شادیوں کے ساتھ ختم ہوگئیں۔‘‘

    ’’میں نے اپنے تمام رشتہ داروں اور خاندان سے جھگڑا مول لے کر شادی کی۔ ایک شخص کی خاطر اپنا سب کچھ چھوڑدیا۔ بدقسمتی سے وہ ایسا بدلا جس کا میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ چند دن تک ان کا رویہ میرے ساتھ ٹھیک رہا، اس کے بعد ذہنی ٹارچر شروع کردیا۔ انہوں نے ملازمت چھوڑدی۔ میرے پاس جو کچھ تھا، وہ ایک ایک کرکے مجھ سے لے لیا۔ مجھے اس وقت بہت شدید دھچکا لگا جب پتا چلا کہ میرے شوہر نے جوا کھیلنا شروع کر دیا ہے۔ پھر کچھ عرصہ بعد اس انکشاف نے میرے تن بدن میں آگ لگا دی کہ وہ شراب پینے لگے ہیں۔ میں نے اس شخص کی خاطر سب کو چھوڑ دیا تھا۔ اب دنیا میں میرا کوئی نہیں رہا تھا۔ والدین سے رابطے ختم ہوگئے تھے۔ دیگر رشتہ داروں کے ساتھ بھی تعلقات نہ ہونے کے برابر تھے۔ میں نے اتنا بڑا قدم اُٹھایا تھا۔ آج بھی میں سوچتی ہوں کہ 20 سال ہوگئے ہیں، میں نے اپنے والدین کی شکل تک نہیں دیکھی، لیکن جس کی خاطر یہ سب کچھ کیا، اس نے بہت زیادتی کی۔ اچھا صلہ نہ دیا۔ اس نے مجھے ترسایا۔ گھر میں راشن ہوتا نہ سبزی۔ فاقوں پر فاقے ہوتے۔ پڑوس والے کھانے پینے کی اشیا بھیجتے۔‘‘

    ’’میرا خیال ہے کہ میں نے اپنے شوہر کو سمجھنے میں غلطی کی تھی۔ وہ شروع سے ہی ایسے تھے۔ محنت سے جی چراتے تھے۔ بیٹھے بٹھائے کچھ مل جائے۔ اسی طرح ملازمت کی اور چھوڑ دی۔ کلینک کھولا اور بند کردیا۔ وہ آرام پسند تھے۔ کبھی ان میں غیرت آجاتی اور کام شروع کردیتے، مگر جلد ہی اپنی ڈگر پر واپس آجاتے۔ میں نے ان کا یہ رویہ بدلنے کی بہت کوشش کی۔ میرے پاس الفاظ نہیں جن کا سہارا لے کر میں بتاسکوں کہ میں نے کتنی کوششیں کیں۔ ظاہر سی بات ہے کون چاہتا ہے کہ اس کا گھر تباہ ہو، لیکن مسئلہ یہ تھا کہ ان کے اندر فریب کاری بہت تھی۔ یہاں وعدہ کیا، آگے جاکر توڑ دیا۔

    آپ اس سے اندازہ لگائیں کہ جب دُکھ درد اور غموں میں اللہ نے مجھے بیٹے کی نعمت سے نوازا۔ اس وقت میں نے ان سے فیصلہ کن انداز میں بات کی۔ انہیں اپنی عادات اور رویہ بدلنے کے لیے کہا۔ میں نے انہیں بتایا کہ اب آپ پر ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں۔ خدارا! اپنے لیے نہیں، اس ننھی جان کی خاطر ہی اپنے آپ کو بدل ڈالیں۔ اس کا وقتی اثر ہوا۔ انہوں نے جوا اور نشہ چھوڑ دیا۔ ملازمت پر بھی جانا شروع ہوگئے، لیکن ایک دن پتا چلا کہ ملازمت پھر چھوڑدی اور شراب پی کر آ رہے ہیں۔ وہ بالکل مستقل مزاج نہیں تھے۔ اپنا مکان بیچ کر کرائے کے مکانوں میں لیے پھرتے رہتے تھے۔ کہتے تھے میرے بچوں کی تربیت پر اثر پڑے گا۔ آج یہاں، کل وہاں۔ پھر بھی میں ان کے ساتھ زندگی گزارتی رہی، کیونکہ میرے لیے اور کوئی راستہ نہیں تھا۔‘‘

    ’’میرے ہاں پہلے سالوں میں دو بیٹوں کی ولادت ہوئی، اس کے بعد اللہ نے ایک بیٹی سے نوازا۔ میں نے زندگی میں ہمیشہ دُکھ دیکھے ہیں۔ اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ زندگی کا پرمسرت لمحہ کون سا تھا تو میں کہہ سکتی ہوں کہ جب مجھے اللہ نے اپنی رحمت سے نوازا۔ مجھے بیٹی کی بڑی خواہش تھی۔ جتنی میرے والد کو بیٹیوں سے نفرت تھی، اتنی ہی میری بیٹیوں کی آرزو تھی۔ پھر یہ بھی سنا تھا کہ جس گھر میں ایک لڑکی ہو، اس پر اللہ کی رحمت ہوتی ہے۔ اس لیے میں نے مزاروں پر حاضری دی۔ منتیں مانیں۔ اللہ کے سامنے گڑگڑا کر دُعائیں مانگیں۔ حالانکہ لوگ کہتے تھے تمہاری قسمت میں بیٹی نہیں ہے۔ جب لوگ اس طرح کی باتیں کرتے، میرے دل میں بیٹی کے لیے اور خواہش پیدا ہوتی۔ میں بیٹی کو اللہ کی رحمت سمجھتی تھی اور یہی سوچتی تھی کہ لوگ کچھ بھی کہیں، میں اللہ کی رحمت سے نااُمید نہیں ہوسکتی۔ آج بھی اپنی بیٹی کو دیکھتی ہوں، سکون ملتا ہے۔ سارے غم دور ہوجاتے ہیں۔ میں تمام والدین سے کہتی ہوں کہ بیٹیوں کو کبھی نہ دھتکاریں۔ کبھی انہیں تنہا نہ چھوڑیں۔ ان سے نفرت نہ کریں۔ وہ بہت معصوم ہوتی ہیں۔ بڑی مظلوم ہوتی ہیں۔‘‘

    ’’میرے شوہر کو بچوں سے محبت تھی۔ یہاں تک کہ جب بیٹی کی ولادت ہوئی، انہوں نے ایک بار پھر تمام خرافات سے توبہ کی۔ رمضان کے روزے باقاعدگی سے رکھنا شروع کردیے۔ ملازمت پر جانے لگے، لیکن میں نے بتایا کہ وہ مستقل مزاج نہیں تھے۔ کاہل قسم کے تھے۔ بہت جلدی بہک جاتے تھے۔‘‘

    ’’ایک بار جب میرے شوہر بیمار ہوئے، میری ہمت ٹوٹ گئی۔ میں سوچتی تھی کہ بچوں کو اکیلے کیسے سنبھالوں گی؟ حالات کا مقابلہ کیسے کروں گی؟ کیونکہ میرے شوہر جیسے بھی تھے، بہرحال مرد ایک سہارا ہوتا ہے۔ اس لیے میں اتنی پریشان ہوئی کہ سوچا اب زندگی کا خاتمہ کرلینا ضروری ہے۔ اور ایک بار اس وقت ٹوٹ کر رہ گئی جب میرے شوہر نے میری ساری پروفائل جلادی۔ آخری وقت میں وہ کچھ نفسیاتی ہوگئے تھے۔ اس وقت انہوں نے میری پوری لائبریری اور ڈائریاں بیچ ڈالیں۔ میں نے زندگی بھر اتنی پریشانیوں کے باوجود کتابیں اکٹھی کی تھیں۔ مجھے بہت سی کتابیں تحفے میں ملی تھیں۔ لوگ دولت کماتے ہیں۔ میں نے اپنی دولت کتابوں کو بنایا۔ اس دن میں ان کے رشتہ داروں کے ہاں گئی تھی۔ جب واپس آئی تو پتا چلا کہ اس ظالم نے ایک ہزار پچاس روپے میں میری پوری لائبریری بیچ ڈالی ہے۔‘‘

    ’’اصل میں وہ ہائی بلڈ پریشر کے مریض تھے۔ آخری عمر میں ان کے پورے جسم پر فالج کا حملہ ہوا۔ اس وقت وہ پریشان رہتے تھے۔ انہوں نے مجھے کہا کہ میں نے تمہیں کچھ نہیں دیا۔ اب تم کہیں اور چلی جائو۔ میں ان سے کہتی کہ جو جوانی کا زمانہ تھا، وہ آپ کے ساتھ گزارا۔ آپ کے لیے اپنا گھر بار چھوڑا، والدین کی شکل بھلادی۔ اب اس دنیا میں میرا کون ہے اور اس عمر میں تین بچوں کے ساتھ مجھے کون قبول کرے گا؟ لیکن وہ کہتے تھے تم کہیں بھی جاؤ، بس مجھے میرے حال پر چھوڑ دو۔ وہ چیختے تھے، چلاتے تھے اور بار بار کہتے تھے تم چلی جاؤ، ورنہ میں طلاق دے دوں گا۔ مجھے سمجھ نہیں آتی تھی کس طرح ان حالات کا سامنا کروں، کیونکہ وہ کسی بھی وقت روح کو گھائل کردینے والے یہ الفاظ بول سکتے تھے۔ مجھے ہر وقت یہ خوف لگارہتا تھا۔ اور ایک روز ایسا ہی ہوا۔ انہوں نے مجھے کئی طلاقیں دیں۔ وہ بار بارکہتے جارہے تھے اب تم چلی جاؤ۔ میں نے تمہارے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ پوری زندگی تمہیں پریشان رکھا۔ دکھ دیے، درد دیے۔ تم مجھے معاف کردینا۔ شاید وہ اس طرح اپنی غلطیوں کا ازالہ کرنا چاہتے تھے۔‘‘

    ’’میں انہیں اس حال میں کیسے چھوڑکر جاتی؟ وہ بستر پر تھے۔ ان کی حالت خراب تھی۔ وہ خود اُٹھ کر پانی نہیں پی سکتے تھے۔ میری زندگی میں دکھ کا زمانہ یہ بھی تھا کہ طلاق کے باوجود میں نے دو ڈھائی سال تک ان کی خدمت کی۔ میں اپنے اللہ کے حضور بہت روتی تھی اور کہتی تھی اے اللہ! میں انہیں اس حال میں چھوڑکر کیسے چلی جائوں؟ میں کہتی تھی: ’’میرے اللہ! آپ جانتے ہیں کہ میں ان کے ساتھ میاں بیوی کا کوئی تعلق نہیں رکھ رہی۔ میں بطورِ نرس ان کی خدمت کر رہی ہوں۔‘‘

    میں اس بات پر آج بھی شرمندہ ہوں۔ اپنے آپ کو گنہگار سمجھتی ہوں کہ طلاق کے باوجود ان کے ساتھ دو ڈھائی سال گزارے۔ مگر میں یہی کہہ رہی ہوں کہ انہیں کیسے چھوڑتی؟ اس کے خاندان والے طعنے دیتے کہ جب وہ کسی کام کا نہ رہا، تب اسے بے یار و مددگار چھوڑ دیا۔ میں نے انتقال کے بعد لوگوں کی باتوں سے بچنے کے لیے عدت کے ایام گزارے۔‘‘

    ’’میں نے ان کے تمام رشتہ داروں کو بتایا تھا کہ میرے شوہر نے مجھے طلاق دی ہے، لیکن تب بھی میں ہی بری تھی۔ وہ سب یہی سمجھتے تھے کہ شاید میں آخری عمر میں ان سے جان چھڑانا چاہتی ہوں۔ یہی وجہ ہے میں نے مجبوراً عدت کے چار ماہ دس دن بھی گزارے۔ صرف اس لیے کہ کل کہیں لوگ میرے بچوں کو طعنے نہ دیں۔ مجھے معلوم ہے کہ یہ چار ماہ دس دن مجھ پر کس اذیت میں گزرے؟ کوئی رات ایسی نہیں آئی جب میں نے انہیں آگ میں جلتا ہوا نہ دیکھا ہو۔ اور جب میں انہیں آگ سے بچانے کے لیے آگے بڑھتی، کوئی اَن دیکھی قوت مجھے زور سے پیچھے دھکیل دیتی۔‘‘

    ’’انتقال سے تین چار ماہ پہلے ان کا نفسیاتی مسئلہ بہت بڑھ گیا تھا۔ وہ رات کو اُٹھ کر بچوں کا گلا دبانے کی کوشش کرتے۔ وہ کہتے تھے میں ان سب کو قتل کردوں گا۔ جب یہ حال ہوا، میں نے ان کی پہلی بیوی کے بیٹے کو فون کیا۔ انہیں بتایا کہ میرے پاس کوئی راستہ نہیں۔ آپ خدارا! انہیں کسی ہسپتال لے جائیں یا انہیں اپنے گھر پر علاج کرائیں۔ وہ سرکاری دفتر میں اچھی پوسٹ پر ہوتے ہیں، مگر انہوں نے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ پھر میں نے ان کے دیگر رشتے داروں کو بلوایا اور پوچھا کہ ان کے ساتھ کیا کروں، کیونکہ اب یہ بچوں کی جان کے لیے خطرہ بن رہے ہیں۔ رشتہ داروں میں سے کسی نے مشورہ دیا کہ انہیں ’’ایدھی ہوم‘‘ میں داخل کرا دیں۔ میرے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ مجبوراً انہیں رشتہ داروں کے مشورے سے ایدھی ہوم میں داخل کرایا۔ تین ماہ بعد ہمیں ان کے انتقال کی خبر ملی۔ میں نے ان کے انتقال کے بعد مجبوراً عدت کی مدت بھی گزاری، تاکہ کل کوئی مجھے طعنہ نہ دے سکے۔‘‘

    ”تب سے لے کر اب تک میں اسی مکان میں رہ رہی ہوں۔ زندگی میں بہت دکھوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ بس اب تو اپنی اولاد کی خاطر جی رہی ہوں۔ انہیں دیکھتی ہوں تو ہمت کچھ کچھ بندھ جاتی ہے۔“

    ”میں نے اپنی زندگی سے بس ایک ہی سبق سیکھا ہے اور آپ سے بھی یہی درخواست کر رہی ہوں کہ اسے زیادہ لوگوں تک پہنچائیں۔ وہ یہ کہ والدین اپنے بچوں، خصوصاً بچیوں پر کبھی سختی نہ کریں۔ آج اگر میرا یہ برا انجام ہوا ہے تو میں اس کا ذمہ دار اپنے گھر کے حالات اور اپنے والد کے رویے کو سمجھتی ہوں۔ میں آج شاید مشکل میں نہ ہوتی، اگر میں گھر کی مشکلات سے بچنے کے لیے یہ قدم نہ اُٹھاتی۔“

  • مسیحا، پچاس لفظی کہانی – صداقت حسین ساجد

    مسیحا، پچاس لفظی کہانی – صداقت حسین ساجد

    بچی چھت سے گر پڑی.
    بچی کی تکلیف نےباپ کو تڑپا دیا.
    بیٹی گود میں اٹھائے ہسپتال پہنچا.
    ڈاکٹرز ہڑتال پر تھے .
    بچی نے تڑپ تڑپ کر جان دے دی.
    میسحا تماشا دیکھتے رہے.
    انھیں اپنے مطالبات منوانے تھے.
    غم زدہ باپ لاش اٹھائے ان کی مسیحائی پر تھوک کر گھر لوٹ آیا.

  • ڈاکٹرز ہڑتال کیوں کرتے ہیں؟ ڈاکٹر رابعہ خرم درانی

    ڈاکٹرز ہڑتال کیوں کرتے ہیں؟ ڈاکٹر رابعہ خرم درانی

    میو اسپتال بچہ وارڈ میڈیکل ایمرجنسی میں میری نائٹ ڈیوٹی تھی .. ہیوی ٹرن اوور تھا. کھوے سے کھوا چل رہا تھا .. ایک ہاؤس آفیسر، ایک میڈیکل آفیسر اور ایک سینئر رجسٹرار دو نرسز کے ساتھ میڈیکل ایمرجنسی سنبھال رہی تھیں. اتفاق سے سارا سٹاف خواتین پر مشتمل تھا. صرف ایمرجنسی کے گیٹ پر کھڑا چوکیدار مرد تھا.

    رات کے دو اڑھائی بجے ایک تین سالہ بچی کو جھٹکوں اور تیز بخار کے ساتھ اسپتال لایا گیا. خوبصورت اور فربہی مائل صحت مند بچی بےہوشی، بخار اور جھٹکوں میں مبتلا تھی. پریشان حال روتی دھوتی ماں، پریشان اور غصیلا باپ اور چار پانچ درباری قسم کے رشتے دار بچی کے ساتھ تھے. ویل آف سیاسی قسم کی فیملی لگ رہی تھی جو رات کے اس پہر کوئی پرائیویٹ ڈاکٹر نہ ملنے کے باعث میو اسپتال کا رخ کرنے پر مجبور ہوئی تھی. درباری رشتے داروں کو چوکیدار نےگیٹ پر روکا لیکن وہ ایم ایس سے تعلق کا حوالہ دے کر اندر گھس آئے .. ایمرجنسی کا چھوٹا سا کمرہ مریضوں سے بھرا ہوتا ہے، اس میں بچوں کے ساتھ ایک فرد کو کھڑا ہونے کی اجازت ہوتی ہے، جبکہ اس بچی کے ساتھ چھ سات لوگ اندر آ گئے تھے. بچی کو فوری طور پر ڈیوٹی ہاؤس آفیسر اور نرس نے اٹینڈ کیا جبکہ ایم او بھی ساتھ موجود تھی. اگر آپ لوگوں کو دیکھنے کا اتفاق ہوا ہو تو بچے کو کینولا لگانا ایک مشکل کام ہوتا ہے خصوصا ایک فربہ بچے کو جو جھٹکے بھی لے رہا ہو، اگر اس کے اٹینڈنٹس ڈاکٹر کو سوئی چبھونے کی اجازت بھی نہ دے رہے ہوں تو کینولا لگانا مزید مشکل ہو جاتا ہے. بچی کے ہاتھ کی طرف سوئی بعد میں بڑھتی تھی، پریشان حال ماں بچی کا بازو اپنی طرف پہلے کھینچ لیتی تھی. جھٹکے شدید ہوتے جا رہے تھے. غصیلے اور عدم تعاون پر آمادہ اٹینڈنٹس .. رات گئے کا وقت .. چوکیدار نے سینئر رجسٹرار صاحبہ کو بھی کال کر لیا. خدا خدا کر کے بچی کو کینولا پاس کرنے میں کامیابی ہوئی .. دوا دی گئی اور بچی کے جھٹکے رکے تو سب نے سکون کا سانس لیا ..

    اسی وقت میرے کندھے پر ایک غیر دوستانہ دستک ہوئی .. میں ڈیوٹی ہاؤس آفیسر تھی جو کینولا لگانے کی سب سے زیادہ ماہر مانی جاتی تھی، اس روز بھی کینولا میں نے ہی لگایا تھا، اور بچی کے جھٹکے کنٹرول ہوتے دیکھ کر بےحد خوش تھی .. خیر اس دستک کے جواب میں پلٹ کر دیکھا تو ایک درباری اٹینڈنٹ جسے بچی کے باپ کے سامنے کارروائی دکھانے کا کوئی موقع نصیب نہیں ہوا تھا، اس نے اپنی کمر سے لگا ہولسٹر اور گن دکھاتے ہوئے سلطان راہی کے انداز میں مجھے ایک ڈائیلاگ سے نوازا ..
    ”اگر آج تم ہماری بچی کا علاج نہ کرتی تو صبح تمہیں نوکری سے فارغ کروا دیتا . ایم ایس میرا رشتے دار ہے.“
    اتنی عمدہ تعریف اور حوصلہ افزائی پر مجھ سمیت تمام ڈاکٹرز کا دماغ گھوم گیا لیکن کچھ بولنے سے پہلے ہی چوکیدار نے اسے پکڑا، اور بزور باہر لے گیا. اس کے بعد ہماری ایس آر نے بچی کے والدین اور تمام وارڈ کے سامنے ایک جوشیلی جذباتی تقریر کی جس کا لب لباب یہ تھا کہ ہم ایک رات اور ایک دن میں سینکڑوں بچوں کی جان بچاتے ہیں. ایسے برے رویے کے حقدار ہم نہیں. اگلی صبح مارننگ میٹنگ میں رات کے واقعہ پر بحث ہوئی اور وارڈ سکیورٹی بڑھا دی گئی. اس واقعہ سے ڈاکٹرز خوفزدہ بھی تھے اور کام کرنے کا جذبہ بھی خوف و طیش کے ملے جلے جذبات کی آڑ میں چھپ سا گیا تھا .. لیکن پروفیسر صاحب اور سینئیرز کی حوصلہ افزائی کے بعد کام بلاتعطل جاری رہا..

    یہ واقعہ آج کل جاری ڈاکٹرز کی ہڑتال کے تناظر میں یاد آ گیا .. جہاں جذباتی اٹینڈنٹس اپنے غصے اور طاقت کا غلط استعمال کر کے ڈاکٹرز کا تعاون کھو دیتے ہیں. ڈاکٹر آپ کا دوست اور ساتھی ہے، آپ کی صحت اس کا مقصد ہے لیکن وہ ایک انسان ہے، آپ کا بےدام غلام نہیں. باہمی عزت و احترام پر دو طرف سے ملحوظ خاطر رکھا جانا چاہیے.

    ڈاکٹرز کو اپنی بات سنانے کے لیے ہڑتال کرنا پڑی .. ایمرجنسی میں کام جاری تھا لیکن ریپورٹڈلی ایک ڈی ایم ایس صاحب پستول لہرا کر ایمرجنسی کے ڈاکٹرز کو دھمکاتے رہے. ینگ ڈاکٹر سے زیادہ انرجی اور کام کا جذبہ کسی میں نہیں ہوتا لیکن خوف و دہشت کے سائے میں گن پوائنٹ پر کیا کسی سے کوئی کام لے سکتا ہے؟ اگر دو ہفتے سے اسپتال کا آؤٹ ڈور اور ان ڈور بند ہے تو یہ انتظامیہ کی بد ترین نااہلی کا مظہر ہے.

    ینگ ڈاکٹرز کو بھی ہمدردی سے کام لیتے ہوئے غیر مشروط طور پر ایمرجنسی ڈیوٹیز کو سنبھال لینا چاہیے .. بےشک بطور احتجاج کالی پٹیاں باندھے رکھیں اور انتظامیہ کو بھی ڈاکٹرز کی خاطرخواہ دل جوئی اور حفاظت کا بندوبست کرنا چاہیے.

    ایک عام آدمی سے میرا سوال ہے کہ یہ نوجوان ڈاکٹر آپ کا بیٹا بیٹی یا چھوٹا بھائی بہن ہوتا اور اس کو مریض کے رشتے دار جان کی دھمکی دیتے یا پستول سے دھمکاتے تو آپ اپنی بہن کو اگلے روز مسیحائی کے لیے بھیجتے یا اسے تب تک کام پر جانے دیتے جب تک اس کی حفاظت کا یقینی بندوبست نہ کر دیا جاتا..

    میری تمام ینگ ڈاکٹرز سے درخواست ہے کہ وہ اپنےاعلی تعلیم و تربیت یافتہ ہونے کا ثبوت دیں اور مریض کے سوشل اسٹیٹس سے قطع نظر عزت و ہمدردی کا سلوک روا رکھیں ..
    اسی طرح عوام سے درخواست ہے کہ وہ بھی ڈاکٹر کو مشکل مصیبت اور تکلیف میں کام آنے والا مخلص اور ہمدرد دوست مانیں اور اس کو عزت دیں..

  • ڈاکو مسیحا – حنیف سمانا

    ڈاکو مسیحا – حنیف سمانا

    اٹھارہ بیس سال درس گاہوں میں جھک مارنا ………. اپنے والدین کے لاکھوں روپے جھونک دینا … مسلمان کے گھر پیدا ہونا … گھروں میں قرآن شریف کی موجودگی … محلے میں بیسیوں مسجدوں اور مدرسوں کا ہونا …. صبح شام مؤذنوں کی چیخ و پکار سننا …… آس پاس اتنی ساری دینی جماعتوں کا ہونا .
    اور اس سب سے نکلتا کیا ہے؟
    ایک ایسا ڈاکٹر ………….
    کہ جو اپنے دنیاوی فائدے کے لیے ہڑتال کرے اور ایک معصوم بچی کو سسک سسک کے مرتا دیکھے .
    لعنت ہے ایسی پڑھائی لکھائی پر ………. ایسی درس گاہوں پر …. ایسے ماحول پر ……
    کہ جو ایک اچھا انسان تخلیق نہ کر سکے ….
    کہ جس میں احساس ہو ……. انسانیت ہو ……. مروت ہو …. شرم ہو …….. حیا ہو ……. جو کسی کو تکلیف میں دیکھے تو اپنی ضرورتیں بھول جائے .
    ارے دولت ہی کمانی تھی تو اس مقدس پیشے میں کیوں آئے تھے؟
    بن جاتے چور، ڈاکو ، اسمگلر، سیاستدان …….. کوئی ٹٹ پونجیے دکاندار ………. حلیم کی یا بریانی کی دیگ لگالیتے……… مل جاتے پیسے .
    اب اس پیشے میں آئے ہو تو قربانی دو … اپنے مسیحا ہونے کا ثبوت دو .
    یہ کیا کہ اپنے مفاد کے لیے آئے دن ہڑتالیں ……… احتجاج .
    اگر اپنے مسائل اوپر تک پہچانے کے لیے ہڑتال ضروری بھی ہو…. تو پھر بھی ہر ہسپتال کی ایمرجنسی میں کام نہیں رکنا چاہیے .
    یہ بحیثیت ڈاکٹر ………… مسلمان …………… اور انسان آپ پر فرض ہے کہ آپ تکلیف میں لوگوں کی مدد کرو .
    کچھ شرم کرو کس کے ماننے والے ہو ……… جو بلی کے بچے کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے تھے .
    تم انسان کے بچے کو مرتا چھوڑ آئے .

  • ذلیل ایسے ڈاکٹر ہیں نہ کہ ان کا پیشہ – احمر اکبر

    ذلیل ایسے ڈاکٹر ہیں نہ کہ ان کا پیشہ – احمر اکبر

    (ذیل میں جس تصویر کی بنا پر یہ تحریر لکھی گئی ہے، وہ دلیل کو موصول ہوئی ہے. تصویر بےشرمی اور بےحسی کی علامت ہے. حساسیت کی وجہ سے اسے شامل اشاعت نہیں کیا جا رہا. آپریشن تھیٹر میں مردوں کی موجودگی یا خود ان کا آپریشن کرنا ایک بھیانک مسئلہ ہے اور اس طرح کی شکایات مختلف مواقع پر آتی رہی ہیں، انٹرنیٹ پر بھی ایسے کئی واقعات کے حوالے سے مواد موجود ہے. ضروری ہو گیا ہے کہ نہ صرف حکومت قوانین سخت کرکے ان پر عملدرآمد کو یقینی بنائے بلکہ ڈاکٹروں کو بھی اپنے درمیان ایسے کالی بھیڑوں کی نہ صرف نشاندہی کرنی چاہیے بلکہ انھیں اپنے پیشے سے الگ کرنا چاہیے.)

    ڈاکٹر ایک مسیحا سمجھا جاتا ہے. دنیا میں ڈاکٹری کو مقدس ترین پیشوں میں جانا اور پہچانا جاتا ہے، ہماری مقدس کتاب قرآن مجید میں بھی حضرت لقمان حکیم کا ذکر موجود ہے۔ ڈاکٹر حکیم لقمان کی ہی جدید قسم ہے.

    ڈاکٹروں کی اہمیت ہر دور میں رہی ہے۔ ہم کو بچپن سے ہی یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ ڈاکٹر سے کبھی بھی شرمانا نہیں چاہیے. پہلے فیملی ڈاکٹر ہوا کرتے تھے، اب ان کی گھر آنے والی سروس تو ختم ہوئی، ساتھ میں نخرے بھی بڑھ گئے. مخصوص ڈاکٹروں کو ہم اپنا رازدار بنا کر، انھیں اپنی پریشانی اور جسمانی بیماریوں کے بارے میں بتا کر بہتر علاج کی توقع کرتے ہیں، جس کی ہم مخصوص رقم بھی ادا کرتے ہیں. اگر وہی ڈاکٹر جن کو ہم اپنا مسیحا مانتے ہیں، ہماری عزتیں بھی اچھالنے لگیں تو آپ کو کیسا محسوس ہوگا؟ یقینا میری طرح آپ بھی ردعمل دیں گے.

    اب آتے ہیں اصلی بات کی طرف۔ کل سوشل میڈیا پر ایک تصویر دیکھی ہے جس کو دیکھنے کے بعد نہایت افسوس بھی ہوا، شرمندگی بھی ہوئی اور اپنی قوم کی بےحسی پر ترس بھی آیا۔ تصویر میں دو ڈاکٹرز کسی سرکاری یا نجی ہسپتال کے آپریشن تھیٹر میں اپنی سیلفی بنا رہے ہیں، سیلفی بنانا جرم نہیں مگر اس تصویر کے پیچھے اگر ہم دیکھیں تو ایک بیٹی، ایک بہن، ایک ماں بنا کپڑوں کے نیم بےہوشی کی حالت میں سٹیچر پر پڑی نظر آتی ہے۔
    مجھے سب سے زیادہ تکلیف دہ پہلو یہ لگا کہ ہم جن ڈاکٹروں کے سپرد اپنی عزت کرتے ہیں، وہ اتنے گھٹیا اور بےشرم بھی ہو سکتے ہیں کہ عورتوں کی اس حالت میں جب وہ اپنی زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی ہوتی ہیں، نیم بے ہوش ہوتی ہیں، ان کی عزت کو نیلام کیا جائے؟ کیا ایسے ہوتے ہیں ڈاکٹر؟ کیا آپ اپنے ڈاکٹر کی ایسی حرکت برداشت کر سکتے ہیں؟ یقینا آپ میں سے کسی نے بھی کھی کوئی ایسی ریکی نہیں کی ہوگی، ہم ایسا سوچ بھی نہیں سکتے کہ جن ڈاکٹروں کے پاس ہم بغیر کسی خوف کے جاتے ہیں، ان کا عملہ یا وہ خود ایسا کوئی کام کر سکتے ہیں، مگر یہ جو آج سب دیکھا، آنے والی نسلوں کے لیے بھی فکر کی علامت ہے.

    لوگ کہیں گے یہ ان کا ذاتی فعل ہے، سب ڈاکٹروں کو اس کیٹگری میں مت ڈالیں، مجھے اتفاق ہے مگر آپ لوگ خود بتائیں، جو واقعہ لکھا ہے یا جو باتیں بیان کرنے لگا ہوں؟ کیا وہ غلط ہیں؟
    عورتوں کو بےہوشی کے دوران ہلکی پھلکی ہوش ہوتی ہے، وہ بہتر بتا سکتی ہیں کہ کیا وہاں ڈاکٹر اپنا موبائل استعمال نہیں کرتے؟
    کیا ان کے ساتھ نرسیں اور عملہ آپس میں مذاق نہیں کرتا؟
    کیا فی میل ڈاکٹر، آپریشن کو میل ڈاکٹر سے نہیں کرواتی؟

    آج سے بیس سال پہلے وقت بہت اچھا تھا، ڈاکٹر لوگوں کے گھروں تک جاتے تھے، فیملی ڈاکٹر کہلواتے تھے. اب ہر کوئی اپنا کاروبار، اپنا بزنس، اپنا ہسپتال بنا کر عوام کو لوٹ رہا ہے، اور ہم اور ہماری عورتیں بڑی خوشی سے ان کے پاس جا کر اپنا پیٹ چاک کرواتی ہیں، اور کبھی اس بارے میں سوچا تک نہیں کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے جو اس تصویر میں نظر آ رہا ہے.

    ایک ڈاکٹر پر کتنا خرچہ آتا ہو گا کوئی اندازہ ہے آپ کو؟
    ایک ڈاکٹر پر چالیس لاکھ تک خرچہ حکومت کا ہوتا ہے والدین کے علاوہ۔ دوسرے لفظوں میں وہ ہمارا پیسہ ہوتا ہے، عوام کے ٹیکس کا پیسہ۔ ہم کو معلوم ہی کب تھا کہ ان میں ایسے سانپ بھی پل رہے ہیں جو اس طرح عوام سے کھیلیں گے، پیسوں کے حوالے سے بھی اور عزت کے حوالے سے بھی۔گائنی کے شعبے میں آج کل مردوں کو بہت چارم نظر آتا ہے، اس کی کوئی خاص وجہ مجھے آپ ہی بتا دیں ؟ میں تو ناقص العقل ہوں کچھ بھی سوچ سکتا ہوں.

    کیا یہ حقیقت نہیں کہ بڑی بڑی لیڈی ڈاکٹروں کے نام سے چلنے والے ہسپتالوں میں بھی 80% لیڈی ڈاکٹر صرف ڈیکوریشن پیس ہوتی ہیں، وہاں آپریشن میل ڈاکٹر یا میل او ٹی کرتے ہیں، اور میڈم پاس پڑی کرسی پر اپنے موبائل کے ایس ایم ایس چیک کر رہی ہوتی ہیں. آپریشن کا دورانیہ آدھا گھنٹہ ہوتا ہے مگر اسے بڑھا کر دو گھنٹے کر دیا جاتا ہے تاکہ ورثا سوچیں کہ بہت تسلی بخش کام کیا جاتا ہے. یہ نہیں پتہ کہ اندر نرس، او ٹی ڈاکٹر موبائل میں مصروف ہیں.
    فی میل سرجن کی نسبت میل سرجن زیادہ بہادری سے اور جلدی کام ختم کرتے ہیں مگر پھر عوام کو دھوکے میں کیوں رکھا جاتا ہے؟
    ڈاکٹروں کی سہولت کے لیے پورے ہسپتال میں کیمرے لگے ہوتے ہیں؟ کیا مریض کے ورثا بھی آپریشن تھیٹر کا اندرونی حال دیکھنے کی فرمائش نہیں کر سکتے؟
    آپ یقین کریں، آج کل نجی ہسپتالوں میں ماحول کسی یورپی ملک سے کم نہیں ہے۔ یہ تصویر کسی سرکاری یا غریب نجی ہسپتال کی ہو سکتی ہے مگر یہ عزت ہم سب کی ہے، ہم سب کی مائیں اور بہنیں ان کے پاس جاتی ہیں، ان پر ہم اندھا اعتماد کیوں کرتے ہیں؟
    کیا ہمارے پاس آپشن ختم ہو چکے ہیں؟ کیا ہم ان جیسے گھٹیا لوگوں اور نام کی لیڈی ڈاکٹروں کے علاوہ کہیں اور نہیں جا سکتے؟
    ہم سب کب تک چپ رہیں گے؟ کب تک اپنے اوپر ہونے والے ظلم پر خاموش رہیں گے؟

    ابھی بھی وقت ہے، ہم سب مل کر ایسے عناصر کا خاتمہ کر سکتے ہیں، آپ نشاندہی کریں، آواز اٹھائیں کہ چپ رہنے سے ان جیسوں کو اور جرات مل جاتی ہے.
    میں حکومت وقت سے التجا کرتا ہوں کہ اپنی مصروفیات سے وقت نکال کر ایسے مسائل کا بھی حل نکالے اور ہسپتالوں میں کچھ اقدامات پر سختی سے عمل درآمد کرایا جائے. جیسے
    آپریشن تھیٹر میں موبائل فون کا استعمال ممنوع ہو۔
    آپریشین تھیٹر کا عملہ جنس کے حساب سے ہو، مرد کے لیے مرد اور عورتوں کے لیے عورتیں۔
    آپریشن اگر میل سرجن کرے مگر ان کے ساتھ تمام عملہ مہذب اور ایک ہی جنس کا ہو۔
    ورثا کو آپریشن تھیٹر تک رسائی دی جائے تاکہ وہ اندرونی ماحول کو دیکھ سکیں۔
    امید ہے کہ یہ مسئلہ جلد حل ہو گا اور جن کے چہرے تصویر میں نظر آ رہے ہیں، انھیں، اور ان جیسے عناصر کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے تاکہ دوبارہ ایسی جرات کوئی اور نہ کر سکے۔

  • نجی اسپتال ایمرجنسی کیسز لینے سے کیوں کتراتے ہیں؟ ڈاکٹر رابعہ خرم درانی

    نجی اسپتال ایمرجنسی کیسز لینے سے کیوں کتراتے ہیں؟ ڈاکٹر رابعہ خرم درانی

    ایمرجنسی کیس کا مطلب ہی زندگی کو خطرہ ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے، لیکن اسپتال میں مریض کے انتقال کی صورت میں لواحقین اور میڈیا عفریت بن کر اسپتال پر ٹوٹ پڑتے ہیں. گویا نجی اسپتال مذبح خانے ہیں، جہاں لائے جانے والی جان اگر بچائی نہیں جا سکی تو اس کا مطلب یہی ہے کہ اسے ارادتا قتل کیا گیا ہے. ایسی صورتحال دو طرح کے گروپس کری ایٹ کرتے ہیں. ”غمزدہ لواحقین“ جو اپنے پیارے کی مرگ کو قبول نہیں کر پا رہے ہوتے. یہ لوگ اپنا رنج و غم ظاہر کرنے کے لیے اسپتال میں توڑ پھوڑ شروع کر دیتے ہیں، ان کا نشانہ فرنیچر کھڑکی دروازے مشینری کے علاوہ ہاتھ لگنے والے ڈاکٹرز اور اسپتال کا عملہ کچھ بھی ہو سکتا ہے. دوران کالج ملحقہ سرکاری اسپتال میں ایک معمر بزرگ انتہائی شدید ایمرجنسی میں لائے گئے، ان کا 90 فیصد جسم جل چکا تھا، ایسے کیس میں مریض کے بچنے کے امکانات صفر کے برابر ہوتے ہیں. رات گئے ڈیوٹی پر ایک ینگ ڈاکٹر موجود تھا، جو ہاؤس جاب کر رہا تھا اور ایمرجنسی آؤٹ ڈور کو بھی ہینڈل کر رہا تھا. باقی تمام ڈاکٹرز اس وقت بھی آپریشنز میں مصروف تھے. آؤٹ ڈور ہیوی تھا، اور عملہ کم، نوجوان ہاؤس سرجن نے مریض کے ریسیونگ نوٹس ڈال کر ابتدائی درد کش ٹیکے لگا دیے. سینئر کو اطلاع / کال بھجوا دی، لیکن آپریشن درمیان میں چھوڑ کر آنا ایک ناممکن امر ہوتا ہے. جتنی دیر میں سینئر ڈاکٹر صاحب آپریشن سے فارغ ہو کر آتے، جاں بلب بزرگ نے آخری سانسیں لیں اور رب کو پیارے ہوگئے. غمزدہ لواحقین نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، نوجوان ڈاکٹر کو مار مار کر کومے میں پہنچا دیا. وہ ڈاکٹر چند روز کومے میں رہ کر اپنے آخری سفر پر روانہ ہوگیا. کسی نے ان لواحقین سے نہیں پوچھا کہ مریض اتنا جلا کیسے؟ کسی نے ڈاکٹر سے ہمدردی نہیں کی؟ کیوں؟ ایسی ناگہانی کے خوف سے نجی اسپتال اب سیریس مریض نہیں لیتے.

    دوسرا گروپ موقع پرست ”پریشر بلیک میلر گروپ“ ہوتا ہے جو ہر موقع پر کٹے سے دودھ دوہنے کے موقع کی تلاش میں رہتا ہے. مریض اپنے وقت پر رخصت ہو جاتا ہے، اور اس کے شایان شان رخصتی کے اخراجات اسپتال سے نکلوائے جاتے ہیں، کیونکہ شومی قسمت عزرائیل کو مریض کی جان اسپتال میں قبض کرنے کے احکامات ملے تھے. عموما ایسے لواحقین یا ان کو مشورہ دینے والے حضرات وہ ہوتے ہیں جن کے لیے میڈیا میں بات اچھالنا اور کورٹ کچہری کے چکر نئی چیز نہیں ہوتی. میڈیا جن کیسز کو پبلیسائز کر کے اپنے تئیں لواحقین کو انصاف دلاتا ہے اور ڈاکٹر یا اسپتال انتظامیہ کو بدنام اور بلیک میل کرتا ہے، وہی میڈیا مریض کو ڈاکٹر اور فوری طبی مدد سے دور بھی کرنے کا باعث بن رہا ہوتا ہے.
    ایک دفعہ اسپتال ایسے کسی میڈیائی عفریت کے چنگل میں آ جائے، پھر وہ اسپتال اور اس کے دور و نزدیک کے دوسرے اسپتال آئندہ کے لیے ایسی ایمرجنسی لینے سے محتاط ہو جاتے ہیں.

    جس کا کوئی عزیز فوت ہوتا ہے، اس کا غم سمجھ آتا ہے، لیکن یاد رکھیں ڈاکٹر آپ کا دشمن نہیں ہوتا، وہ آپ ہی کے مریض کی جان بچانے کے لیے ٹیکہ لگاتا ہے یا آپریشن کرتا ہے. ظاہر ہے مریض سیریس تھا، تبھی اسپتال لایا گیا تھا لیکن آپ لوگ اسی مریض کی اپنے گھر کے بیڈ پر وفات کو قبول کرتے ہیں اور گھر کے شیشے نہیں توڑتے،گھر کے مالک کو جان سے مار دینے یا پھانسی پر لٹکا دینے کا مطالبہ نہیں کرتے، اس پر دفعہ 302 کا پرچہ کٹوانے کے بینرز آویزاں نہیں کرتے.

    ہم سب مسلمانوں کا ماننا ہے کہ موت کا وقت اور جگہ مقرر ہے، لیکن اگر یہ جگہ اور وقت اسپتال میں ہو تو کیا موت اللہ کی طرف سے نہیں؟ کیا وہ ڈاکٹر یا عملے یا اسپتال کی غفلت کا نتیجہ ہے؟ گھر میں فوت ہونے والے عزیزوں کی وفات کس کی غفلت کا نتیجہ ہوتی ہے؟ ہاں اسپتال میں ایمرجنسی ادویات اور مشینری کا موجود ہونا ہم سب کا حق ہے. اور جان بچانے والی ادویات میں مہنگی ادویات بھی شامل ہونی چاہیے لیکن یاد رکھیں نجی اسپتال بیشتر اوقات معاشرے میں موجود آپ جیسے متوسط طبقے کے افراد ہی چلا رہے ہوتے ہیں. ایک پرائیویٹ ڈاکٹر روٹی، گھر،گاڑی اور بچوں کی تعلیم کے بعد بچنے والی کمائی کا ایک ایک پیسہ اسپتال میں مزید سہولیات فراہم کرنے پر صرف کر رہا ہوتا ہے، ایسی صورتحال میں وہ ہر مہنگی دوا اپنی جیب سے مہیا نہیں کر سکتا، یہ شعبہ گورنمنٹ کا ہے. اسی طرح ہر نجی اسپتال میں ہر قسم کی مہنگی مشینری موجود نہیں ہوسکتی.
    ہمارے ہاں اس مسئلے کا بہترین حل میڈیکل انشورنس ہے، اس سسٹم کوگورنمنٹ کی سرپرستی میں شروع کیا جانا چاہیے.

    اگلا سوال ہے کہ نجی اسپتال مہنگے کیوں ہیں؟
    اسپتال کو کچھ بھی مفت نہیں ملتا بلکہ عام صارفین کی نسبت یوٹیلیٹیز مہنگے داموں خریدنا پڑتی ہیں. بجلی کا نرخ کمرشل ہے یعنی جو بجلی عام صارف 12 روپے فی یونٹ خریدتا ہے، وہی بجلی اسپتال اس سے دگنے دام میں حاصل کرتا ہے. اس پر گورنمنٹ کی طرف سے کوئی سبسڈی نہیں، یہی حال کمرشل گیس کے میٹرز کا ہے. نجی اسپتال آنے والا مریض فوری آرام کا طالب ہوتا ہے، اس صورتحال میں اسے جینریک نان برانڈڈ ادویات استعمال نہیں کروائی جا سکتیں جبکہ برانڈڈ ادویات کی قیمت متعلقہ فارماسوٹیکل کمپنی طے کرتی ہے.گورنمنٹ اسپتال میں موجود وہی برانڈ مفت یا سبسڈائزڈ ہوتا ہے جبکہ پرائیویٹ وہ پوری قیمت پر مہیا کیا جاتا ہے. سرکاری اسپتال میں ڈاکٹرز، کنسلٹنٹس اور نرسنگ اسٹاف ماہانہ بنیاد پر تنخواہ لیتے ہیں جبکہ نجی اسپتال میں عموما یہ سب فی کیس شئیر کی بنیاد پر ہوتے ہیں، اسی طرح نجی اسپتال میں سیکھنے کے شوقین ڈاکٹرز مفت کام نہیں کرتے بلکہ سیکھے سکھائے ڈاکٹرز اور طبی عملہ پروفیشنل سروسز قیمتا مہیا کرتا ہے.

    غریبوں کا مفت علاج کیوں نہیں کیا جاتا؟
    ڈاکٹر معائنہ مفت کر بھی دے تب بھی ادویات اس نے اپنی جیب سے لینا ہیں یا آپریشن کے کچھ نہ کچھ اخراجات اپنی جیب سے ادا کرنے ہیں. مریض مستحق نہ بھی ہو تب بھی علاج کرواتے وقت مستحق ترین بن جاتا ہے. ایک فری کیمپ میں، جس میں، میں نے اپنے تین کولیگز کے ساتھ دو دن میں بارہ سو مریض دیکھے، اور ابتدائی دو دن کی دوا بھی مہیا کی، اس میں مریضوں کا رویہ یہ تھا کہ کیمپ سے باہر نکلتے ہی دوا کی پرچی پھاڑ کر پھینک جاتے تھے، اور اگر کسی نے دوا کھا لی تو مہینے بعد بھی مفت معائنے کے لیے ہی دوبارہ آیا. جبکہ فری کیمپ دو دن کا تھا. ایک نجی اسپتال نے اپنا سسٹم چلانے کے لیے آمدنی اپنے مریضوں سے ہی جنریٹ کرنی ہے. بنا تیل کے تو کوئی گاڑی نہیں چل سکتی.

    حکومت کی پالیسیز پریکٹس فرینڈلی نہیں!
    ڈاکٹر کو اوور آل/سفید کوٹ نہ پہننے پر معطل کر دیا جاتا ہے. کیوں بھائی! آپ نے اسپتال کے وارڈ میں اے سی لگائے ہیں، جہاں گرمی نہیں یا وہاں بجلی نہیں جاتی. پرائیویٹ اسپتال ہو یا سرکاری، لوڈ شیڈنگ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے. دوران آپریشن بجلی چلی جائے تو تھیٹر لائٹ اور بھاری مشینیں ایمان کی روشنی پر نہیں چلتیں. کم از کم پہلے قدم کے طور پر سرکاری اسپتال کو لوڈ شیڈنگ سے مستثنٰی قرار دیا جائے. اور پھر اسے نجی اسپتال تک بھی بڑھایا جائے ورنہ وہ چند لمحات جس میں بجلی کے جھٹکے لگا کر کسی کا بند دل چلایا جا سکتا ہے، وہ قیمتی لمحات لوڈشیڈنگ اور چینج اوور کی نظر ہو جائیں گے. ایک سرکاری اسپتال میں لوڈشیڈنگ کی وجہ سے آنکھ کا آپریشن درمیان میں چھوڑ دیا گیا، اور تین گھنٹے بعد لائٹ آنے پر آپریشن مکمل تو کیا گیا لیکن آنکھ ضائع ہو چکی تھی.

    چند تجاویز. .
    ایمرجنسی ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹرز کی مناسب حفاظت کا بندوبست کیا جائے.
    ڈاکٹرز کی تنخواہیں اتنی کر دیں کہ انہیں اپنا گھر چلانے کے لیے پرائیویٹ سیکٹر کا رخ ہی نہ کرنا پڑے، اور وہ درست معنوں میں شعبہ طب کو مسیحائی میں تبدیل کر سکیں.
    جان بچانے والی مشینری بےحد مہنگی ہے اور اسے باہر سے منگوانا پڑتا ہے، جس پر ہوشربا درآمدی ٹیکس نے ایسی مشینری کو بیشتر نجی اسپتالوں کی پہنچ سے دور کر دیا ہے. اس طرف ہمدردانہ غور کیا جائے اور اس پر عائد ٹیکس کم یا ختم کیا جائے. یہ ذاتی عشرت کا سامان نہیں، عوامی خدمت کے لیے اہم ہے.
    نئے ڈاکٹرز کو پریکٹس اسٹیبلش کرنے کے لیے اور اسٹیبلشڈ اسپتالوں کو سہولیات بہتر بنانے کے لیے آسان اقساط میں بلاسود قرض فراہم کیے جائیں.
    اسی طرح نیا اسپتال بنانے کے لیے مناسب ترین بلڈنگ اسٹرکچر کی تیاری میں بھی پیشہ ورانہ خدمات گورنمنٹ لیول پر مہیا کی جائیں.
    ڈاکٹرز کے ریفریشر کورسز بھی گورنمنٹ لیول پر کروائے جائیں نہ کہ اس معاملے کو میڈیکل کمپنیز کی صوابدید پر چھوڑ دیا جائے، تاکہ ڈاکٹر بیماری کا نیا علاج سیکھیں نہ کہ بیماری کی نئی دوا.
    میڈیکل انشورنس ڈاکٹرز اور مریض کے باہمی تعلقات کی بحالی کی طرف ایک عمدہ قدم ثابت ہو سکتا ہے، جہاں مریض کو ڈاکٹر کی تشخیص اور طریق علاج پر شک صرف اس لیے نہیں ہوگا کہ شاید پیسوں کے لیے ٹیسٹ /ادویات/آپریشن تجویز کیا جا رہا ہے اور اسی طرح جب ڈاکٹر کو محنت کا مناسب معاوضہ ملنے کا یقین ہوگا تو اس کی دلچسپی ٹو دا پوائنٹ تشخیص اور بہترین طریق علاج کی طرف مبذول رہےگی.

  • میں تیرا حاجی، تو میرا حاجی – حنیف سمانا

    میں تیرا حاجی، تو میرا حاجی – حنیف سمانا

    حکیم صاحب نے اپنے پڑوسی سے کہا ..
    ”میاں اکرم ! تمہیں بہت بہت مبارک ہو بچے کی ولادت کی… ماشاء اللہ… کیسے ہیں زچہ بچہ … بیگم گھر آگئیں؟“
    اکرم کہنے لگا….”بڑی مہربانی حکیم صاحب…. ابھی کہاں آئے گی… ابھی تو ہسپتال والے چار پانچ دن رکھیں گے“
    حکیم صاحب نے حیرت سے اکرم کو دیکھا…”کیوں میاں خیریت تو ہے… چار پانچ دن کیوں؟“
    اکرم نے سر جھکایا…پھر شرماتے ہوئے کہا… ”وہ حکیم صاحب بچہ آپریشن سے ہوا ہے… تو ہسپتال والوں نے کہا ہے کہ کم از کم چار پانچ دن یا پھر ایک ہفتہ رکھیں گے“
    حکیم صاحب کندھے اچکاتے ہوئے بولے… ”بھئی کمال ہے… ہمارے وقتوں میں تو عورتیں دس دس بچے پیدا کرتیں تھیں… نارمل طریقے سے…. وہ بھی گھر پہ … دائی کے ذریعے…. یہ جب سے ہسپتالوں میں بچے پیدا ہونا شروع ہوئے ہیں، ہر چار میں سے تین زچگیاں آپریشن سے ہورہی ہیں… حد تو یہ ہے کہ پہلا بچہ بھی آپریشن سے…“
    اکرم بولا…”کیا کریں حکیم صاحب …. ہمیں تو لیڈی ڈاکٹر کی ماننی پڑتی ہے … جو کہتی ہے وہی کرنا پڑتا ہے…. اب دیکھیے نا جس ہسپتال میں میری بیوی ہے وہاں نارمل ڈلیوری ہوتی ہے بیس پچیس ہزار میں …. جبکہ آپریشن کے ساتھ پینتالیس سے پچاس ہزار میں .. اسی لیے اکثر لیڈی ڈاکٹر آپریشن کا ہی مشورہ دیتی ہیں … اس میں ان کی اور ہسپتال کی دونوں کی کمائی ہوتی ہے ….. میں نے بھی پچیس تیس ہزار کا ڈلیوری کا بجٹ بنایا تھا… مگر بجٹ آؤٹ ہوگیا… بیس ہزار روپے اپنی آفس سے ادھار لینے پڑے… ان کو تو کمانے سے مطلب ہے… چاہے کوئی غریب مشکل میں آجائے..“
    حکیم صاحب نے بلند آواز میں استغفراللہ پڑھا…. پھر کہنے لگے….”جبھی تو…. میں خود سوچوں کہ یا اللہ! یہ کیا ماجرا ہے، آج کل بچے نارمل طریقے سے پیدا ہونا بند ہوگئے ہیں… تو اب سمجھ میں آیا کہ یہ کمائی کا گھر ہے….“
    پھر کچھ سوچ کے بولے.. ”میاں اکرم میاں! اس قوم کا کیا ہوگا… اس قوم نے ہر چیز کو کمائی کا ذریعہ بنا لیا ہے“
    اکرم نے لمبی آہ بھری….”کچھ نہیں ہوگا حکیم صاحب…. یہ سب کچھ اسی طرح چلتا رہے گا…. ہم سب نمازیں بھی پڑھتے رہیں گے… حج اور عمرے بھی کرتے رہیں گے…. اور ایک دوسرے کو اسی طرح لوٹتے بھی رہیں گے…یوں سمجھئیے ہم سب کا حال تو اس فلمی طوائف کے جیسا ہوگیا ہے کہ جو ناچ گانے سے فارغ ہوکر نماز پڑھتی تھی اور کہتی تھی…. کہ ناچ گانا میرا پیشہ ہے اور نماز میری عبادت.“
    حکیم صاحب مسکرائے.. کہنے لگے.. ”کل میرے پاس ایسا ہی ایک مریض آیا جو ایک سرکاری محکمے میں ہے…کہنے لگا ..حکیم صاحب… پیٹ بہت بڑھ گیا ہے…اور اس میں ہر وقت درد رہتا ہے… سانس بھی بہت پھولتی ہے…میں نے ہنستے ہوئے کہا… میاں صرف تنخواہ پر گزارہ کرو… اور اوپر کی کمائی چھوڑ دو… پیٹ کی ساری بیماریاں ختم ہوجائیں گی…. میاں… یہ بات سن کے ناراض ہوگیا… کہنے لگا، اگر تنخواہ پہ گزارا کرنا شروع کردوں تو پھر اپنے بچے کی انگلش میڈیم اسکول کی بیس ہزار روپے فیس کہاں سے دوں… اور سب کو چھوڑیں حکیم صاحب ….آپ کی پانچ سو روپے کی فیس کہاں سے لاؤں، کمبخت مجھے بھی شرمندہ کر کے چلا گیا..“
    اکرم نے ہنستے ہوئے کہا…. ”آپ نے جاتے جاتے کہہ دیا ہوگا کہ میاں …جاری رکھو اپنے اوپر کی کمائی…. تاکہ میری فیس نکلتی رہے…ہاہاہاہا“
    حکیم صاحب لال ہوگئے…فورا ڈانٹا… ”ابے چپ…. دانت دکھا رہا ہے… دیکھ دانت پیلے ہورہے ہیں…. آج مسواک کی یا نہیں؟“

  • اینٹی بائیوٹکس کے محتاط استعمال میں فارماسسٹ کا کردار – ڈاکٹر عثمان عابد

    اینٹی بائیوٹکس کے محتاط استعمال میں فارماسسٹ کا کردار – ڈاکٹر عثمان عابد

    عثمان عابد اگر اِنسانی تاریخ کی اہم دریافتوں کی فہرست مرتب کی جائے تو بلاشبہ یہ فہرست اینٹی بائیوٹک جیسی اہم ترین دوا کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی ۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اینٹی بائیوٹکس کے استعمال نے کروڑوں لوگوں کی زندگیاں بچائی ہیں۔ آئیے سب سے پہلے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیںکہ اینٹی بائیوٹک ہوتی کیاہے ؟ دراصل اینٹی بائیو ٹک ایک ایسی دوا ہے جو ایسے خردبینی جانداروںMicro-organisms جیساکہ بیکٹریا ،فنجائی وغیرہ کو جو ہماری صحت کے لیے نقصان دہ ہیں ان کا قتل عام کرتی ہے یا اُ ن کی نشوونما کو روک دیتی ہے۔

    اینٹی بائیوٹک کے تعارف کے بعد آئیے ذرا تاریخ کے جھروکوں سے جھانکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بہت سے قارئین کو شاید اندازہ نہیں کہ اینٹی بائیوٹک کی دریافت سے پہلے جب خرد بینی انفیکشن خاص طور پر بیکٹریل انفیکشن ہوتا تھا تو لاتعداد اموات وقوع پذیر ہوتی تھیں۔ اینٹی بائیوٹکس کی دریافت نے ادویات کی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا ہے ۔ اب ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیںجہاں بیکٹریل انفیکشن کی بڑی تعداد کا علاج معمول کے طور پر ہو رہا ہے ۔ وہ انفیکشنز جن کا آج آسانی سے علاج ہو رہا ہے اینٹی بائیوٹک کی دریافت سے پہلے یہ انفیکشنز بہت مہلک سمجھے جاتے تھے۔انفیکشنز کی وجہ سے اموات میں واضح کمی اینٹی بائیوٹکس کے ہی مرہونِ منت ہے۔

    اینٹی بائیوٹکس کی قصیدہ خوانی کے بعد اب آتے ہیں ان کے استعمال کی جانب ۔ بطور فارماسسٹ میرا فرض ہے کہ میں اپنے قارئین کو آگاہ کروں کہ وہ اینٹی بائیوٹک کے استعمال میں احتیاط برتیں کیونکہ اِن کا حد سے زیادہ استعمال صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے ۔ اینٹی بائیوٹک کا طریقہ ء واردا ت بھی عام ادوایات سے قدرے مختلف ہوتا ہے ۔ عام ادویات انسانی جسم میں جا کر حیا تیاتی کیمیا کے عمل کو تبدیل کرتی ہیں ۔اس عمل کے ساتھ ساتھ اینٹی بائیوٹکس کو ایک ایسے دشمن کے خلاف بھی لڑنا پڑتا ہے جو مڑُ کر حملہ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے ۔ جی ہاں ! آپ صحیح سمجھے میں اُن نامراد بیکٹریا کی بات کر رہا ہوں جو ہماری نرم و نازک جان کے درپے رہتے ہیں اور ہمیں نقصان پہنچانے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔

    اینٹی بائیوٹک کے اثر سے بچنے کے لیے بیکٹریا اپنے آپ کو تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جسے اینٹی بائیوٹک کے خلاف مزاحمت یا Antibiotic Resistance کہتے ہیں۔ا س مزاحمت کے نتیجے میں دوا کی اثریت کم ہو جاتی ہے یا بالکل ختم ہو جاتی ہے ۔ اس طرح بیکٹریا بچ جاتے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ ان کی تعداد بڑھنے سے صحت مزید خراب ہو جاتی ہے ۔ بدقسمتی سے دن بدن یہ مسئلہ اور بڑا ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے جس سے شرحِ اموات میں بھی اضافہ دیکھا گیاہے ۔

    اینٹی بائیوٹک کا یہ بے دریغ استعمال کون روکے گا؟ ہمارے ہسپتالوں میں فارمیسی سروسز کا سرے سے وجود ہی نہیں ہے ۔ مریض کو بتایا ہی نہیں جاتا کہ وہ دواکیسے استعمال کرے ۔ یہ بہت اہم مسئلہ ہے اور ایک وقت آنے والا ہے کہ جب کوئی اینٹی بائیوٹک اثر نہیں کرے گی اور ہم Pre-Antibiotic کے دور میں چلے جائیں گے ۔ مریض کو جب دوا دی جاتی ہے تو پہلے یہ تشخیص کرنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ کیا مریض کو واقعی اینٹی بائیوٹک کی ضرورت ہے یا نہیں۔ ہمارے ملک میں اینٹی بائیوٹک بلا جھجھک اور بغیر کسی فکر کے تجویز کی جاتی ہے۔ 60% سے 70% نسخوں میں آپکو اینٹی بائیوٹک ضرور لکھی ہوئی دیکھائی دے گی ۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم بہت زیادہ اینٹی بائیوٹکس کا استعمال کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر حضرات مریض کو دوا کے استعمال کے بارے میں پوری طرح نہیں بتا پاتے ۔ مناسب آگاہی نہ ہونے کے باعث مریض کو جیسے ہی تھوڑا سا افاقہ ہوتا ہے تو وہ دوا لینا بند کر دیتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اب ہم جب بیمار ہوتے ہیں اور اینٹی بائیوٹک کھاتے ہیں تو اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا ۔ پھر مریض یہی الزام لگاتا ہے کہ دوا ٹھیک نہیں تھی ۔ زیادہ تر کیسسز میں دوا بھی ٹھیک ہوتی ہے لیکن اُس دوا کا اثر اس لیے نہیں ہوتا کیونکہ بیکٹریا اُس دوا کے خلاف مزاحمت پیدا کر چکے ہوتے ہیں ۔ اُن کے اندر اتنی قوتِ مدافعت پیدا ہو چکی ہوتی ہے کہ اُن پر دوا اثر ہی نہیں کرتی ۔

    لیکن اگر فارماسسٹ موجود ہوگا تو وہ یہ دیکھے گا کہ کیا واقعی اینٹی بائیوٹک کی ضرورت تھی یا ڈاکٹر نے بلا ضرورت ہی تجویز کر دی ہے ؟ اور جو اینٹی بائیوٹک تجویز کی گئی ہے آیا اُس کی صحیح dose تجویز کی گئی ہے یا نہیں؟ کتنے دن تک اور کیسے مریض نے دوا کھانی ہے؟ فارماسسٹس اور صحت کے شعبے سے تعلق رکھنے والے تمام ماہرین کی ذمہ داری ہے کہ وہ صحت کی اس جنگ میں عوام کا بھر پور ساتھ دیں۔ اینٹی بائیوٹک کے خلاف بڑھتی ہوئی مزاحمت کے واقعات عوام کی صحت کے لیے خطرہ بنتے جارہے ہیں۔ ڈاکٹر حضرات کو بھی چاہیے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ جب تک متعلقہ لیبارٹری ٹسٹ اس بات کی نشاندہی نہ کریں کہ اینٹی بائیوٹک کااستعمال نا گزیر ہے وہ اینٹی بائیوٹک تجویز نہ کریں۔ نسخہ تجویز کرنے سے پہلے فارماسسٹ سے ضرور مشورہ لیں کیونکہ جس طرح مرض کی تشخیص میں ایک Physician مہارت رکھتا ہے بالکل اُسی طرح فارماسسٹ ہی ادویات کے بارے میں بہتر جانتا ہے ۔

    اس کے علاوہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کچھ ڈاکٹر حضرات (جنھوں نے دواساز کمپنیوں سے بھاری مراعات لی ہوتی ہیں) کمپنیوں کے دبائو میں آکر بلا ضرورت اینٹی بائیوٹکس لکھنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔ حکومت کو چاہیے کہ ایسی کالی بھیڑوں کا قلعہ قمع کرے جو مسیحائی کے بھیس میں انسانیت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچارہے ہیں۔اینٹی بائیوٹکس کے محتاط استعمال کے لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ ہسپتالوں میں فارماسسٹس کو تعینات کرے اور عوامی آگاہی کے لیے سیمینارز منعقد کروائے اور اس سلسلے میں فارماسسٹس کی خدمات حاصل کرے کیونکہ ہم اس دور میں داخل ہو چکے ہیں کہ جہا ں ایک بیکٹریل انفیکشن کے علاج کے لیے دس مختلف اینٹی بائیوٹکس مارکیٹ میں موجود ہیں اور فارماسسٹ کی رہنمائی کے بغیر ہم درست اینٹی بائیوٹک کا انتخاب نہیں کر سکتے ۔

    فارماسسٹس کو بھی چاہیے کہ وہ اپنا سب سے طاقتور ہتھیار یعنی Patient Counceling استعمال کریں۔ اینٹی بائیوٹکس کے مضر اثرات کے بارے میں بتلانے کے ساتھ ساتھ مریضوں کو اس بات سے بھی آگاہ کریں کہ وہ اینٹی بائیوٹکس کو خاص وقفے کے بعد استعمال کریں اور کورس کو ادھورا چھوڑنے کی بجائے مکمل کریں۔
    اللہ مجھے اور آپکو دوسروں کی زندگی میں آسانیاں تقسیم کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

  • گھر کی مرغی دال برابر – ریحان احمد صدیقی

    گھر کی مرغی دال برابر – ریحان احمد صدیقی

    ریحان احمد صدیقی وہ سردیوں کی ایک ٹھنڈی شام تھی جب اس سے ملنے کاحسین اتفاق ہوا۔ہم ایک عرصے بعد ایک دوسرے سے مل رہے تھے۔ علیک سلیک کے بعد اس نے چھوٹتے ہی اپنی بیماریوں کے سلسلے گنوانا شروع کر دیے، جو اس کی پرانی عادتوں میں سے ایک عادت تھی۔ میں نے پوچھا یہ بتاؤ کہ آج کل کون سی بیماری ’ہٹ لسٹ‘ پہ چل رہی ہے۔ اس نے کہا یار تو نے دکھتی کمر پر ہاتھ رکھ دیا ہے۔ میں نے کہا مطلب؟ جواب ملا یار آج کل کمر میں بہت درد ہو رہا ہے۔ میں نے پوچھا نماز پڑھتے ہو؟ ایک لمحے وہ حیرت سے مجھے دیکھتا رہا۔ کچھ توقف کے بعد اس نے کہا میرے کمر میں ایک عرصے سے درد اتنا ہے کہ اٹھا بیٹھا نہیں جا رہا اور تو نماز کی بات کر رہا ہے۔میں نے کہا اچھا چلو رہنے دو ،یہ بتاؤ کہ اب تک کتنے ڈاکٹر کے معاش کا ذریعہ بن چکے ہو؟ کہنے لگا اب تو اپنی ’فلاسفی‘ بند کر اور یہ بتا کہ چائے پیے گا یا کافی۔ میں نے کہا کہ چائے اور کافی بھی پی لیں گے لیکن میری مانو آج سے نماز شروع کر دو اور رکوع ذرا ٹھیک سے کرنا۔ اس سے کم ازکم تمھارے پرفیوم خریدنے کے شوق تو پورے ہو سکیں گے۔ ایک بار پھر وہ سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھنے لگا۔ میں نے اسے مزید کچھ بولنے کا موقع دیے بغیراس کی پریشان نگاہوں کو پرسکون کرنے کےلیے آسان الفاظ کا سہارا لیا اور کہا کہ اگر تم نماز پڑھو گے اور رکوع ٹھیک سے کرو گے تو اس سے تمہارے ایک فرض کی ادائیگی بھی ہوجائے گی اور تمہارے کمر کا درد بھی ٹھیک ہو جائے گا۔ ڈاکٹروں کی جو فیس بچے گی اس سے تم اچھے اچھے پرفیوم خرید لینا اور ایک آدھ مجھے بھی ’گفٹ‘کردینا۔ کہنے لگا یار تو پھر شروع ہو گیا۔ اتنے بڑے بڑے ڈاکٹرز موجود ہیں، سائنس نے اتنی ترقی کر لی ہے، جدید سے جدید طریقہ علاج مارکیٹ میں آگئے ہیں۔ میں نے کل ایک بہت بڑے فزیوتھراپسٹ سے اپوائنٹمنٹ بھی لے لیا ہے ، اس نے کہا ہے کہ صرف دو مہینوں کی ایکسرسائز سے درد بالکل ٹھیک ہو جائے گا۔ اور تو اور میں نے سنا ہے کہ وہ ڈاکٹر صاحب امریکہ میں پانچ سال کام کرنے کا تجربہ بھی رکھتے ہیں۔ اور انہوں نے بڑے بڑے کیسز کو بہت اچھی طرح سے ہینڈل کیا ہے۔ بس یار ان کی فیس تھوڑی زیادہ ہے پر کوئی بات نہیں جب صحت کا معاملہ ہو تو ہمیں پیسوں کی فکر نہیں کرنی چاہیے۔ اس کی نہ ختم ہونے والی باتیں ایک بار پھر پٹری پہ چل پری تھیں۔ میں نے سوچا یہا ں گھی سیدھی انگلی سے نہیں نکلنے والا۔میں نے اسے ایک غیر مسلم سائنسدان حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان صاحب سے نماز پہ بڑی ریسرچ کی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ نماز سے بہتر کوئی ایکسر سائز نہیں ہے اور خاص طور پہ جب بندہ رکوع کرتا ہے تو اس کے کمر کے عضلات کی ایکسرسائز بھی ہوجاتی ہے اور اگر کمر درد کی بیماری ہو تو وہ بھی ٹھیک ہو جاتی ہے۔ کہنے لگا یار تو پہلے کہاں تھا۔ واقعی یار کسی غیر ملکی سائنسدان نے اس پہ ریسرچ کی ہے تو اس کی بات میں وزن بھی ہے اور بات دل کو بھی لگتی ہے۔

    ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم یہ نہیں دیکھتے کہ’ کیا‘ کہا جا رہا ہے بلکہ ہماری توجہ کا مرکز و محور یہ ہوتا ہے کہ ’کون‘ کہہ رہا ہے۔اگر ہم واقعی کچھ کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی سوچ کے انداز کو بدلنا ہوگا۔چلیں اس بات کو بھی رہنے دیں ورنہ آپ بھی کہیں گے کہ میں اپنی شیخی بگھارنے بیٹھ گیا۔ مجھے تو یہ فکر لگ گئی ہے کہ اس دال کو مرغی کا درجہ دینے کے لیے ایک آدھ امریکہ یاترا بھی ضروری ہے۔ تو ڈئیر چلیں گے نا آپ میرے ساتھ امریکہ؟؟؟

  • پیدائشی ڈاکٹر اور بےچارے مریض – ساحر ماہی

    پیدائشی ڈاکٹر اور بےچارے مریض – ساحر ماہی

    کچھ لوگوں کو بچپن میں ڈاکٹر بننے کا بہت شوق اور ڈاکٹر بن کر غریبوں کا مفت علاج کرنے کا جذبہ ہوتا ہے. اگر یہ شوق و جذبہ نہ ہو تو لوگوں کو کیسے پتا چلے کہ بچے ناسمجھ ہوتے ہیں.

    اور جب بفضل خدا ڈاکٹر بن جائیں تو پھر مریضوں کے سامنے ایسے بل پیش کرتے ہیں گویا کہ یہ ڈاکٹر زکوۃ، فطرانہ اور دیگر صدقات کے حقدار ہوں.
    پانچ روپے کی پنسل سے کاغذ پر ہزاروں روپیوں کا نسخہ لکھ کر مریضوں کو تھما دیتے ہیں جس کی وجہ سے مریض بلڈ پریشر اور قلبی امراض میں گھرجاتا ہے.
    بےچارہ دوائی تو بخار کی لینے گیا اور مسیحا سے دل کی بیماری کی سند یعنی کہ ڈاکٹر کی فیس کی پرچی ساتھ لے آیا.
    بچپن میں اماں شریفاں اپنی سب سے زیادہ محبوب بھینس کے دودھ کی لسی بنا کر اور دیسی گھی میں تلے پراٹھے اور ان پر مکھن رکھ کر اس کو لپیٹتی اور فیقے کے ہاتھ اسے ڈاکٹر کو بجھواتی کہ ہمارے گاؤں کا لڑکا ڈاکٹر بن جائے.
    لیکن افسوس اس وقت ہوا جب سات سال بعد فیقا اپنی اماں شریفاں کو لےکر اسی ڈاکٹر کے کلینک پر گیا اور مسیحائی کی درخواست کی لیکن ڈاکٹر نے کہا کہ فیقے تم اماں کو گھر لے جاؤ، وہ ضعیف العمر ہوچکی ہیں.
    میرا وقت برباد کر نہ اپنے وقت کا ضیاع کرو.
    پتہ نہیں کتنی اماں شریفائیں اسی طرح رواداد سناتی نظر آتی ہیں.
    ڈاکٹر کا ایک اور پہلو بھی ہے جو کہ مدد کرنے کا ہے.
    جی جناب!
    یہ ڈاکٹر مدد بھی کرتے ہیں لیکن اپنی برادری مطلب ڈاکٹروں کی.
    یہ اپنا انداز تحریر شروع ہی سے انداز واردات کے طور پر استعمال کرتے ہیں جو کہ کسی کے پڑھنے کے بس کی بات نہیں.
    کیونکہ ان کا ”کوڈ آف واردات“ یہی پرچی ہوتی ہے جس پر تحریر ہوتا ہے کہ ان لوگوں کو جن کو میں آپ کے پاس بھیج رہا ہوں، میں نے اچھی طرح دیکھ لیا ہے اور ان کو اتنے کا ٹیکہ لگانا ہے.
    پھر میڈیکل والا ڈاکٹر کی ہدایات کے مطابق بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتا ہے اور اس مریض کو”گولی“ دے دیتا ہے.
    پھر بےچارہ مریض صبح و شام ڈاکٹر کی گولی کھاتا رہتا ہے.
    اور اتنا پاگل ہے کہ اب بھی اپنی اولاد کو کہتا ہے کہ بیٹا فلاں بندے نے ڈاکٹر بن کر گاؤں کا نام روشن کیا ہے حالانکہ وہ نہیں جانتا کہ جسے دعائیں مانگ مانگ کر ڈاکٹر بنایا تھا. وہ واقعی میں ڈاکٹر بن گیا اور اس نے انسانیت اور مسیحائی کا فرقہ چھوڑ کر پیسے کو اپنا دھرم بنا لیا ہے.