Tag: چلکوٹ رپورٹ

  • معزز جنگی مجرم صاحبان…وسعت اللہ خان

    معزز جنگی مجرم صاحبان…وسعت اللہ خان

    557857-WusatullahNEWNEW-1468605895-811-640x480

    جب صدام حسین کو انسانیت سوز اور جنگی جرائم کی پاداش میں اکتیس دسمبر دو ہزار چار کی شب پھانسی دی گئی تو دورِ جدید کے ’’ چنگیز خان اور عرب ہٹلر ’’ کے خاتمے اور عراق کو دورِ جمہوریت سے سرفراز کرنے کے مشن کی کامیابی پر تالیاں بجانے والوں کی صفِ اول میں جارج بش اور ٹونی بلئیر سب سے نمایاں تھے۔

    صدام حسین کی پھانسی سے ساڑھے تین ماہ قبل پندرہ ستمبر کو اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کوفی عنان نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے الفاظ چبائے بغیر کہا ’’ ہاں عراق پر امریکی قیادت میں حملہ غیر قانونی تھا۔یہ اقوامِ متحدہ کی منظوری کے بغیر اقوامِ متحدہ کے چارٹر کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے کیا گیا‘‘۔

    حالانکہ میڈیا کئی ماہ سے ایک جنگی فضا بنانے کی وائٹ ہال اور واشنگٹن اسٹیبلشمنٹ کی مرتب کردہ مہم کا دانستہ و نادانستہ آلہِ کار بنتے ہوئے صدام حسین کے ایٹمی ، کیمیاوی و حیاتیاتی ہتھیاروں کے خطرے اور ان ہتھیاروں کو پینتالیس منٹ کے اندر برطانیہ سمیت مغرب کے خلاف قابلِ استعمال تیاری کی صلاحیت پر مبنی انٹیلی جینس رپورٹوں کی بنیاد پر پھیلایا جانے والا سرکاری خوف مسلسل نشر کر رہا تھا۔حالانکہ امریکی وزیرِ خارجہ کولن پاول سلامتی کونسل میں عراقی جوہری و کیمیاوی ہتھیاروں کی موبائل لیبارٹریوں کی تصاویر دکھا دکھا کر دنیا کو صدامی عفریت سے ڈرا کر متحد کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔مگر عام آدمی ڈر کے ہی نہیں دے رہا تھا۔دماغ پر پروپیگنڈے کی مسلسل بمباری کے باوجود دل کہہ رہا تھا  کہ دال میں بہت کچھ کالا ہے۔

    چنانچہ عراق پر حملے سے ایک ماہ پہلے پندرہ فروری دو ہزار تین کو ٹوکیو سے سڈنی اور لندن سے سان فرانسسکو تک ڈیڑھ کروڑ انسان سڑکوں پر یہ بینر اٹھائے چل رہے تھے ’’ ہمارے نام پر جنگ منظور نہیں‘‘۔سب سے بڑا جلوس لندن میں نکلا جس میں پندرہ لاکھ مرد ، عورتیں اور نوزائیدہ  بچے بھی شدید سردی کے باوجود شریک تھے۔( یہ خادم اور دو بچے بھی اس تاریخی مظاہرے کا حصہ تھے )۔

    جب برطانوی پارلیمنٹ کا ایوانِ زیریں جنگ میں جانے نہ جانے کے مباحثے میں بری طرح الجھا ہوا تھا۔اس دوران میرے پسندیدہ برطانوی لیبر رکنِ پارلیمان ٹونی بین نے اپنے خطاب کا اختتام ان الفاظ پر کیا۔

    ’’جنگ کے بارے میں بات کرنا جتنا آسان ہے اتنا ہی اس کی ہولناکی کے بارے میں سمجھانا مشکل ہے۔  بالخصوص انھیں جنہوں نے جنگ نہیں دیکھی۔ میں نے انیس سو چالیس میں لندن پر ہونے والی بمباری سے ڈاک لینڈ میں لگنے والی آگ میں پانچ سو افراد کو مرتے دیکھا۔اگر ہمارے لیے یہ تباہی اتنی خوفناک تھی کہ آج تک یاد ہے تو ذرا سوچئے کہ ہم ان لاکھوں لوگوں کو اس سے کہیں زیادہ تباہی سے دوچار کرنے جا رہے ہیں کہ جن کا صدام حکومت کے جرائم سے کوئی لینا دینا نہیں ؟ آج ہم ایک ایسے احمق دور میں رہ رہے ہیں جب ہمارے لیے جنگ کی اہمیت ایک ویڈیو گیم اور چینل فور کی ہیڈ لائن سے زیادہ نہیں رہی۔آج جس جس نے بھی جنگ میں جانے کے حق میں ووٹ دیا وہ اس جنگ کے تمام نتائج و عواقب کا بھی ساجھے دار ہوگا۔

    میں آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ انیس سو پینتالیس میں آپ نے اقوامِ متحدہ کے جس چارٹر پر دستخط کیے، اس کی پہلی سطر ہی یہی ہے کہ ہم اقوامِ متحدہِ کے شہری عہد کرتے ہیں کہ آنے والی نسلوں کو ایسی جنگوں اور تباہیوں سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے جنہوں نے آج تک ہمیں ناقابلِ بیان مصائب میں مبتلا کیے رکھا۔ہماری گذشتہ نسل نے یہ عہد آج کی نسل سے کیا تھا اور کتنے شرم کی بات ہے کہ ہم اگلی نسل کو اس چارٹر کی دھجیاں تحفے میں دینا چاہ رہے ہیں اور یہ سب ہم عالمی برادری کے نام پر کر رہے ہیں۔کم ازکم میں اس فیصلے کا حصہ نہیں ہوں ’’…

    tony_blair_iraq_war

    اٹھارہ مارچ کو جنگ سے ایک دن پہلے برطانوی پارلیمنٹ نے عراق سے جنگ کے بارے میں اقوامِ متحدہ کی دوسری قرار داد کا انتظار نہ کرنے کے حق میں کثرتِ رائے سے فیصلہ دے دیا اور اگلی شب بغداد پر بم گرنے شروع ہوگئے۔

    اس جنگ اور جنگ کے بعد کے تباہ کن حالات کے نتیجے میں اگلے تیرہ برس کے دوران ڈیڑھ سے چھ لاکھ کے درمیان عراقی (جتنی تنظیمیں اتنے اندازے) جاں بحق ہوئے۔ چار ہزار چار سو بیالیس امریکی اور ایک سو نواسی برطانوی فوجی ہلاک ہوئے۔عراقی ریاست تحلیل ہوگئی اور بھانت بھانت کے حشرات الارض چہار جانب سے نکل نکل کر زمین پر پھیلتے چلے گئے اور چلے جا رہے ہیں۔

    اس ماہ کے شروع میں سات برس کی محنت کے بعد برطانیہ میں شایع ہونے والی سرکاری چلکوٹ رپورٹ نے جنگ میں جانے کے اسباب پر منڈھے گئے رہے سہے جھوٹ کے کپڑے بھی اتار پھینکے۔اس رپورٹ میں ٹونی بلئیر اور بش کی خط و کتابت بھی ہے جو جنگ سے ڈیڑھ برس پہلے شروع ہوئی اور جس میں بلئیر نے بش کو یقین دلایا کہ ’’ حالات جو بھی ہوں میں آپ کے ساتھ ہوں ‘‘۔برطانوی فوج کے میجر جنرل مائیکل لاری نے چلکوٹ کمیشن کے سامنے شہادت دیتے ہوئے کہا کہ ’’ ہم اچھی طرح جانتے تھے کہ حکومت نے عراق کے وسیع تر تباہی کے ہتھیاروں کی بابت بڑھا چڑھا کر جو مقدمہ تیار کیا ہے۔

    اس کا مقصد جنگ کی راہ ہموار کرنا ہے ‘‘۔برطانوی انٹیلی جینس ادارے ایم آئی فائیو کی سابق سربراہ میننگھم بولر نے اپنی گواہی میں کہا کہ اس جنگ کے نتیجے میں دہشت گردی کم ہونے کے بجائے اور بڑھ گئی ‘‘۔اس وقت کے نائب برطانوی وزیرِ اعظم جان پریسکوٹ نے کہا  ’’ کابینہ کو جنگ کے معاملے میں گمراہ کرکے منظوری لی گئی۔اٹارنی جنرل لارڈ گولڈ اسمتھ نے کابینہ کو زبانی طور پر تو یہ بتایا کہ یہ جنگ قانونی ہے مگر کبھی تحریری طور پر یہ رائے کابینہ کے سامنے نہیں رکھی گئی۔ میرے خیال میں جو ہوا وہ قانون کے دائرے سے باہر تھا اور میں مرتے دم تک اس دکھ کے ساتھ جئیوں گا ‘‘۔

    ہمارے ہیرو ٹونی بلئیر صاحب نے اگرچہ اس رپورٹ کے آنے کے بعد یہ اعتراف ضرور کیا کہ انٹیلی جینس اطلاعات ناقص تھیں اور جنگ کی قانونی حیثیت کمزور تھی اور میں سب زمہ داری قبول کرتا ہوں مگر میں یہ نہیں مانتا کہ صدام حسین کو ہٹانے کا فیصلہ غلط تھا۔اس جنگ کے نتیجے میں ہی خان نیٹ ورک کا پتہ چلا اور ہم لیبیا کا ایٹمی پروگرام رول بیک کرنے میں کامیاب ہوئے ( یعنی دونوں کامیابیاں حاصل کرنے کے لیے عراقی ریاست تحلیل کرنا ضروری تھا۔سبحان اللہ )۔

    ایسا بیان اگر تیسری دنیا کا کوئی لیڈر دیتا تو اسے عالمی میڈیا کامیڈی کی بہترین مثال کے طور پر پیش کرتا اور ناظرین لوٹ پوٹ ہوجاتے۔پھر بھی غنیمت ہے کہ برطانیہ نے اپنے گریبان میں جھانکنے کی کوشش تو کی۔ امریکا سے تو یہ تکلف بھی نہ ہو پایا۔بش جونئیر آج بھی اپنی رینچ پر مچھلیاں پکڑ رہا ہے اور چھتری تلے ٹانگ پے ٹانگ دھرے  کتاب پڑھ رہا ہے۔

    رہا یہ مطالبہ کہ غیر قانونی جنگ کرنے والوں نے جن جرائم کی پاداش میں صدام حسین کو پھانسی پر لٹکایا اب انھیں انسانیت کے خلاف سنگین جرائم کے کٹہرے میں کھڑا کرنے میں کیا امر مانع ہے ؟ تو اس کا جواب ہے جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ بھینس احتجاج کرے تو بس آئی ایم سوری کہنا کافی ہے۔رہی یہ بات کہ اتنے مسلمان ممالک میں سے عراق سمیت کسی ایک کو چلکوٹ رپورٹ کی روشنی میں جنگی جرائم کی عالمی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا چاہیے تاکہ اگر روانڈا اور بوسنیا کے جنگی مجرم انصاف کے کٹہرے میں لائے جا سکتے ہیں تو ’’ مہذب دنیا  کے مہذب مجرم ’’ کیوں نہیں ؟  مطالبہ تو بہت معقول ہے مگر شیعہ سنی جھگڑے سے زیادہ معقول تو نہیں ؟

  • کیمیائی ہتھیاروں کی کہانی…طارق محمود چوہدری

    کیمیائی ہتھیاروں کی کہانی…طارق محمود چوہدری

    p12_04
    چلکوٹ رپورٹ۔ جنگ جو برطانیہ، بین الاقوامی سپر طاقتوں کے استعماری عزائم اور کمزور ملکوں پر چڑھ دوڑنے کی روش کو سند جواز فراہم کرنے والے شریک جرم، اقوام متحدہ کی بے خبری کے خلاف فرد جرم ہے۔ ایک ایسی فرد جرم جس پر کسی مجرم کے خلاف کوئی مقدمہ درج ہوگا نہ کسی کو سزا ملے گی۔ کیونکہ مدعی جرم ضعیفی کا سزاوار ہے لہٰذا مرگ مفاجات اس کا مقدر ہے۔ زور آوروں کی اس نام نہاد مہذب دنیا میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا فارمولا کارفرما ہے۔ عراقی عوام کو کبھی انصاف نہیں ملے گا۔ ایسے ہی جیسے لیبیا، شام، یمن، افغانستان اور فلسطین کے عوام کو انصاف نہ مل سکا۔ ایسے ہی جیسے ایٹم بم کی تباہ کاریوں کا شکار جاپان۔ جس طرح ویت نام کے قبرستانوں میں ابدی نیند سوئے لاکھوں شہید بے گناہی کے باوجود محروم انصاف رہے۔
    چلکوٹ رپورٹ عراق کو تاراج کر دینے، لاکھوں افراد کو موت کے گھاٹ اتار دینے، ایک خودمختار ملک کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دینے کی تحقیقات کیلئے تیار نہیں کی گئی تھی۔ ایسی کوئی بات نہیں، خون مسلم عالمی طاقتوں کیلئے اتنا ارزاں ہے کہ کوئی ایسی کمیٹیاں، کمیشن بنانے کی زحمت نہیں کرتا۔ یہ رپورٹ تو ایک انکوائری کمیشن نے یہ جاننے کیلئے تیار کی کہ عراق جنگ میں برطانوی فوج کی شمولیت کے نتیجہ میں 149 برطانوی فوجی کیسے ہلاک ہو گئے؟ واضح رہے کہ عراق پر امریکہ اور برطانیہ کے مشترکہ حملے کے نتیجہ میں آزاد ذرائع کے مطابق پندرہ لاکھ عراقی شہید ہوئے۔ دس لاکھ سے زائد بے گھر ہو گئے۔ اربوں ڈالر کی املاک تباہ ہوئیں۔ عراق اگلے کئی عشروں کے لئے خانہ جنگی کا شکار ہو کر رہ گیا۔ بابل و نیوا کی تہذیب کا امین، انبیاء واولیاء کا گہوارہ، نسلی و لسانی و مسلکی تغاوت کی آماجگاہ بن گیا۔ اس کی جغرافیائی وحدت پارہ پارہ ہو کر رہ گئی۔ لیکن برطانوی حکمران طبقہ کو دلچسپی تھی تو صرف ان 149 فوجیوں کی ہلاکت کی۔ جو ایک آزاد، خودمختار ملک کے نہتے عوام پر اپنی اندھی طاقت کا سکہ جمانے، اپنی دہشت کی دھاک بٹھانے گئے تھے۔ برطانوی رولنگ ایلیٹ یہ جاننا چاہتی تھی کہ اس کے منتخب لیڈر ٹونی بلیئر نے امریکی صدر بش کا اردلی بن کر جس جنگ میں حصہ لیا اس سے مال غنیمت میں کتنا حصہ ملا۔ وہ جھوٹ جو بین الاقوامی برادری کے سامنے دھڑلے سے بولا گیا کہ صدام دنیا کے امن کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہے کیونکہ اس کے قبضہ میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں۔ جن میں کیمیکل ویپن بھی شامل ہیں۔ عراقی عوام کی نسل کشی کے حوالے سے سرجان چلکوٹ کی سربراہی میں قائم، بااختیار کمیشن کی دلچسپی کا موضوع تھی نہ اس کے دائرہ اختیار میں یہ شامل تھی۔
    رپورٹ تیار کرنے میں سات سال کا طویل عرصہ لگا۔ اس طویل عرصہ بعد تیار و جاری ہونے والی رپورٹ پر دس ملین پاؤنڈ خرچ آیا۔ سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر کے علاوہ ڈیڑھ سو اہم ترین عہدیدار، فوجی سربراہان، انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اہلکار اس میں پیش ہوئے۔ 26 لاکھ الفاظ اور بارہ جلدوں پر مشتمل چلکوٹ رپورٹ کی سفارشات و مندرجات نہ صرف چشم کشا ہیں بلکہ اس بات کو بھی واضح کرتے ہیں کہ عراق جنگ کا ڈرامہ ایک بے بنیاد الزام کے گرد بنا گیا۔ اس تحقیقات کے نتیجہ میں جو بنیادی نکات سامنے آئے۔ اس کے نتیجہ میں ٹونی بلیئر کو
    اس جنگ کا شریک مجرم واضح طور پر ٹھہرایا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنگ میں کودنے کیلئے ٹونی بلیئر اور اس کے حاشیہ برداروں نے صدام حسین کو عالمی امن کیلئے خطرہ ظاہر کرنے کے معاملہ میں مبالغہ آرائی سے کام لیا۔ اس خطرے کو ہوا بھر کر غبارہ کی طرح پھیلایا گیا تاکہ وہ اپنے اصل سائز سے بہت بڑا نظر آئے۔ عراق کی جنگ میں کود پڑنے کی جلدبازی اور اندھی تقلید میں ایک ایسی فوج کو صحرائی جنگ میں دھکیلا گیا۔ جو پوری طرح تربیت یافتہ نہ تھی۔ وہ فوجی دستے ایسی مشکل و پیچیدہ جنگ کیلئے ذہنی طور پر تیار نہ تھے۔ رپورٹ کے کلیدی نکات میں کہا گیا کہ مارچ 2003ء میں جب جنگ میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا گیا تو صدام حسین سے کسی قسم کا سنگین خطرہ لاحق نہ تھا۔ لہٰذا فوجی کارروائی کوئی آخری آپشن یا چارہ نہ تھا۔ ایسے بہت سے اقدامات، آپشن موجود تھے جن کے ذریعے اس خطرہ کو بہت کم یا مکمل طور پر ختم کیا جا سکتا تھا۔ لیکن فیصلہ کرنے میں عجلت کا مظاہرہ کیا گیا۔ یہ جلد بازی دانستہ تھی کیونکہ ٹونی بلیئر امریکی صدر بش کے ساتھ اس جنگ میں اتحادی بن کر کود پڑنے کیلئے تیار تھے۔ دوسرا نکتہ یہ ہے برطانیہ نے تخفیف اسلحہ کے پرُامن راستے اختیار نہ کئے اور وہ راستہ اختیار کیا جو غیر ضروری تھا۔ کیونکہ اس فیصلہ سے کئی ماہ قبل ہی ٹونی بلیئر صدر بش کو 28 جولائی 2002ء کو لکھے گئے سرکاری خفیہ نوٹ میں یہ یقین دہانی کرا چکے تھے کہ برطانیہ ہر قیمت پر امریکہ کا ساتھ دے گا۔ شاید ٹونی بلیئر کو بھی بش کی طرح فاتح اعظم کہلانے اور تاریخ میں زندہ رہنے کا خبط تھا۔ رپورٹ کہتی ہے کہ وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے خطرات اور موجودگی کے متعلق شواہد پر مبنی رپورٹیں بہت کمزور تھیں۔ شواہد ناکافی اور نہ ہونے کے برابر تھے۔ زیادہ تر شواہد میڈیا رپورٹوں، زبانی دعووں سے حاصل کئے گئے۔ لیکن دانستہ طور پر ان دیگر ہتھیاروں کی موجودگی کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔ تاکہ فیصلے کیلئے دلائل اور جواز حاصل کیا جا سکے۔ رپورٹ کے مطابق ٹونی بلیئر کے فیصلہ کرنے سے قبل برطانوی اٹارنی جنرل کو بتایا گیا کہ عراق نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 1441 کی شدید خلاف ورزی کی ہے۔ لیکن سرکاری دستاویزات میں ایسا کوئی ثبوت موجود نہیں۔ جو اس حوالے سے دیا گیا ہو۔ رپورٹ میں حیرت انگیز انکشاف برطانوی افواج کو جنگ میں جھونک دینے کے بعد مطلوبہ سازو سامان، حربی آلات کی فراہمی کے متعلق کیا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ مطلوبہ سازوسامان کا کوئی پیشگی تخمینہ نہیں لگایا گیا۔ مذکورہ ضروری اشیاء فراہم کرنے میں حد درجہ تاخیر کی گئی۔ عسکری قواعد و ضوابط میں یہ بھی طے نہیں تھا کہ حالت جنگ میں ایسے حربی آلات کی فراہمی کس اتھارٹی کی ذمہ داری بنتی ہے۔ وزارت دفاع سڑکوں کے کنارے نصب دھماکہ خیز مواد، بارودی سرنگوں کے خطرہ کو پیشگی بھانپنے میں ناکام رہی۔ ایسے ہی دھماکوں میں مختلف واقعات میں 47 برطانوی فوجی ہلاک ہوئے۔ اس کے باوجود میڈیم سائز کی موبائل بکتر بند گاڑیوں کی فراہمی تین سال بعد کی گئی۔ اس دوران برطانوی سپاہی مکمل طور پر غیر محفوظ تھے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنگ کے بعد عراق کا سناریو کیا ہوگا۔ اس حوالے سے کوئی پلاننگ موجود نہ تھی۔ اس بات کا بھی کوئی ادراک نہ کیا گیا کہ صدام حکومت کو گرانے کے بعد مختلف مقامی حریف گروپ، قبائل یا مسلکی مخالف سے کیسے نمٹا جائے گا۔ پھر یہ بھی طے نہیں کیا گیا کہ عراق میں استحکام، اس کی تنظیم نو اور تشکیل نو کا مشکل کام کون اور کب سرانجام دے گا۔ رپورٹ اعلان کرتی ہے کہ بلیئر حکومت کے پاس عراق کی تعمیر نو کا کوئی منصوبہ موجود نہ تھا۔ اس بات کا بھی کوئی فیصلہ نہ کیا گیا کہ بعدازاں جب افغانستان میں برطانوی افواج کی تعیناتی کی جائے گی تو وسائل تقسیم ہونے کے معاملہ کو کس طرح ڈیل کیا جائے گا۔ رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر نے اپنی کابینہ سے مشورہ کئے بغیر جنگ میں شمولیت اختیار کی۔ جنگ سے پہلے ٹونی بلیئر کو بار بار خبردار کیا گیا کہ عراق جنگ میں کودنے کے بعد برطانیہ میں دہشت گردی کی لہر آ سکتی ہے۔ بعد کے واقعات نے یہ خدشہ درست ثابت کر دیا۔ لیکن ٹونی بلیئر نے اس ایڈوائس پر کان نہ دھرے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ یہ فیصلہ تو کوئی بین الاقوامی عدالت ہی کر سکتی ہے کہ اعلان جنگ جائز تھا یا ناجائز۔ البتہ شواہد بتاتے ہیں کہ جنگ کیلئے جو جواز پیش کیا گیا وہ ناجائز، ناکافی اور غیر تسلی بخش تھا۔ یہ فیصلہ نہ تو کابینہ نے کیا اور نہ ہی کسی مجاز اتھارٹی نے۔ یہ فیصلہ ٹونی بلیئر نے ذاتی طور پر کیا۔
    رپورٹ میں کہا گیا ہے عراق و افغانستان کی جنگ میں کودنے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ برطانوی فوج اب کسی زمینی لڑائی میں شرکت کیلئے آمادہ نہیں۔
    برطانوی عوام اس رپورٹ کے بعد ٹونی بلیئر پر مقدمہ چلانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ برطانوی نظام انصاف حرکت میں آتا ہے یا اس جرم پر مصلحت کا کور چڑھا کر اسے داخل دفتر کر دیا جاتا ہے۔