Tag: چائنا

  • گلوبل پاپولیشن، ون چائلڈ چائنا پالیسی اور پاکستان – عمران ساجد

    گلوبل پاپولیشن، ون چائلڈ چائنا پالیسی اور پاکستان – عمران ساجد

    صنعتی انقلاب کے بعد سے آج تک عالمی آبادی میں جتنی تیزی سے اضافہ ہوا ہے، اس کی مثال تاریخ میں کہیں نہیں ملتی. لیکن ہم زیادہ پرانی تاریخ کی چھان پھٹک نہیں کریں گے. سنہ 1960ء میں آبادی کا مجموعہ تین ارب تھا، جس میں چودہ سال بعد ایک ارب نئے افراد کا اضافہ ہوا، پھر اگلے تیرہ برس بعد یعنی سنہ 1987ء میں یہ عدد پانچ ارب پر پہنچ گیا. اگلے بارہ برس بعد مزید ایک ارب افراد اس مجموعے کا حصہ بن گئے اور 11 اکتوبر 2011ء کو اعلان کیا گیا کہ آج اس دنیا میں زندہ 7 ارب افراد موجود ہیں. آج اس اعلان کے پانچ برس بعد اس دنیا میں 7 ارب 40 کروڑ افراد کی موجودگی کی نوید مختلف فورمز کے ذریعے سنائی دیتی ہے. ایک پیچیدہ اور محتاط تخمینہ لگایا گیا ہے کہ 2024ء میں یہی عدد 8 ارب کے حدف کو بآسانی عبور کر لے گا. اور 2050ء میں مجموعی آبادی شاید 11 ارب ہو جائے.

    آبادی میں اضافہ کے اس خطرناک رجحان پر امریکی ماہر فلکیات اور سائنسدان نیل ٹائسن کا ماننا ہے کہ اگلے پانچ سو سال بعد اگر حالات میں بہتری نہیں آتی تو اس دنیا میں اتنے افراد موجود ہوں گے کہ اگر ان سب کو ایک دوسرے کے ساتھ کھڑا بھی کر دیا جائے تو یہ خشکی کا علاقہ کم پڑ جائے گا. اتنی آبادی کو مینج کرنے کے اول یا تو کوئی اور سیارہ انسان کو رہائش کے لیے آباد کرنا پڑے گا. دوم اس زمین پر ورٹیکل بلڈنگ اور بیسمنٹ ہاؤسز پر اکتفا کرنا پڑے گا. سوئم بہتر ہے کہ حالات کو اس نہج پر پہنچنے سے پہلے ہی کنٹرول کیا جائے جو مقابلتاً کم پیچیدہ اور کم خرچ بھی ہے.

    اب آبادی کے فیگرز کو تھوڑا ٹریکل ڈاؤن کر کے کونٹینٹل لیول پر دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ ایشیاء میں پوری دنیا کی آبادی کا 60 فیصد بلک موجود ہے. کینوس کو مزید نیرو کر کے دیکھیں تو دو ملک آبادی کے مجموعے پر ریڈ سگنل کی طرح نظر آتے ہیں. اول چین اور دوم بھارت. چین کی موجودہ آبادی لگ بھگ ارب اڑتیس کروڑ ہے اور بھارت کی آبادی ایک ارب تیس کروڑ ہے. ان دونوں ملکوں میں پوری دنیا کی کل آبادی کا 37 فیصد حصہ آباد ہے. ابھی بھارت دوسرے نمبر پر نظر آ رہا ہے لیکن تعلیم اور آبادی میں اضافہ کی آگاہی کی کمی جیسے مسائل کی وجہ سے اس کی آبادی 2030ء میں ڈیڑھ ارب ہو جائے گی. یوں بھارت زیادہ آبادی والے ممالک کی فہرست میں اول نمبر پر آ جائے گا. دنیا کے متعدد ممالک میں اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیا جاتا ہے. خصوصاً وہ ممالک جہاں تعلیم اور ترقی کا معیار بہتر ہے. اس میں چین جو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے. جس نے سنہ 1978ء میں اگلی دہائیوں میں پانی اور دیگر وسائل کی شدید کمی جیسے مسائل کی نشاندہی کی اور اس سے نمٹنے کے لیے ایک سو سال کا لائحہ عمل تیار کیا. تاکہ سنہ 2080ء تک آبادی کے عدد کم 700 ملین افراد تک محدود کیا جائے. اس پلاننگ میں ایک پالیسی ”ون چائلڈ پالیسی“ کے نام سے موسوم ہے. جو سنہ جنوری 1980 سے اگلی تقریباً ساڑھے تین دہائیوں تک لاگو رہی. چونکہ اس پالیسی کو ایک انسٹرومنٹ کے طور پر ایک جنریشن کے لیے ہی بنایا گیا تھا اس لیے اس پالیسی کو سرکاری طور پر سنہ 2015ء کے آخر میں سرکاری طور پر ختم کر دیا گیا. اور جنوری 2016ء سے نئی ”ٹو چائلڈ پالیسی“ کا اطلاق کر دیا گیا ہے.

    بنیادی طور پر ون چایلئیڈ پالیسی چین کے آبادی کنٹرول کرنے کے صد سالہ پروگرام کے منصوبے کا ایک انسٹرومنٹ تھا جسے ایک جنریشن کے لیے ہی طے کیا گیا تھا. اس پالیسی کے تحت تمام ریاستوں خصوصاً گنجان آباد علاقوں میں شادی شدہ جوڑوں کو ایک بچہ پیدا کرنے کی اجازت دی گئی تھی. اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے نیشنل پیپلز کانگریس کی ایک قائمہ کمیٹی نے ایک کمیشن بنایا جس کے ذمے لوگوں کو اس گھمبیر مسئلے پر بنیادی آگاہی فراہم کرنا، پیدا ہونے والے بچوں کی رجسٹریشن کرنا اور انسپیکشن کرنا شامل تھا. ماؤ زی دونگ کی رہنمائی میں اس منصوبے کے تحت فرٹیلیٹی ریٹ (ایک عورت کے ہاں اوسطاً زندہ بچوں کی پیدائش) کو جو سنہ 1979ء میں 2.8 تک کم کر کے 1.4
    پر لایا گیا. اس منصوبے کے تحت حکومتی دعوی ہے کہ 400 ملین بچوں کی ممکنہ پیدائش کو دانستہ طور پر روکا گیا ہے. (گو کہ محقق اس دعوے سے اختلاف کرتے ہیں. کیونکہ اسی وقت میں چین کے پڑوسی ملک تھائی لینڈ اور بھارتی ریاست کیرالہ میں اسی بنا کسی ون چایلئیڈ پالیسی کے فرٹیلیٹی ریٹ اس حد تک کم ہوا ہے جس کا ذکر دھوم سے کیا جاتا ہے. اگر کوئی جوڑا اس پالیسی کے برخلاف زیادہ بچوں کی پیدائش کا مرتکب ہوتا تھا تو دونوں مرد اور عورت کو حکومتی سطح پر جرمانہ عائد کیا جاتا تھا. جو مرتکب جوڑے کی جگہ، آمدنی اور حالات کے مطابق طے کیا جاتا تھا. مزید یہ کہ ایک ملک گیر سروے سنہ 2008 میں کیا گیا جس کے نتائج میں بتایا گیا 70 فیصد لوگ اس پالیسی کو سپورٹ کرتے ہیں. لیکن اس پالیسی کو بیرونی دنیا میں تنقید کا سامنا کرنا پڑتا تھا.

    اس پالیسی میں کئی ایسے راستے تھے جن کے ذریعے شادی شدہ جوڑے قانونی طور پر دوسرے بچے کی پیدائش کے لیے اہل قرار پاتے تھے.
    اول. اگر کسی کے ہاں پہلے بیٹی کی پیدائش ہو تو نرینہ اولاد کی خاطر ریاستی سطح پر دوسرے بچے کی پیدائش کا حق دیا جاتا تھا.
    دوم. اگر پہلا بچہ معذور یا ذہنی طور پر مکمل تندرست نہیں ہے تو تین سے چار سال کے وقفے کے بعد دوسرے بچے کی پیدائش کا حق دیا جاتا تھا.
    سوم. تبتی لوگوں اور اقلیتوں کو بھی عمومی چھوٹ دی جاتی تھی. دور دراز دیہاتی علاقوں میں بھی اس معاملے پر نرمی برتی جاتی تھی.
    چہارم. اس کے علاوہ اگر کسی جوڑے کے ہاں پہلا بچہ چین کی مین لینڈ کے باہر ہوتی تھی تو اس چینی جوڑے کو بھی چھوٹ دی جاتی تھی.

    سیچوان صوبے میں 2008 کے تباہ کن زلزلے کے باعث وہ لوگ جن کے بچے اس آفت میں ان سے جدا ہو گئے انہیں بھی اس چھوٹ کا اہل قرار دیا گیا. لیکن اس وسیع البنیاد منصوبے میں کئی جگہوں پر لوپ ہولز مجود تھے جن کی وجہ سے لوگ حکومت کو چکما دے جاتے تھے. مثلاً ہانگ کانگ کیونکہ مین لینڈ چائنہ کا حصہ نہیں اس لئے پالیسی کا عملی طور نفاذ وہاں اس طرح نہیں ہوتا تھا اس لیے لوگ بچوں کی پیدائش کے وقت ہانگ کانگ کا رخ کرتے تھے. لوگوں میں ملک سے باہر برتھ ٹؤرزم کا رجحان بڑھنے لگا. اور کچھ لوگ اپنے ہاں بیٹی کی پیدائش کا ذکر ہی نہیں کرتے تھے یا پھر اس بیٹی کو کسی دوسرے شخص کو لے پالک کے طور پر دے دیتے تھے. یا اس بیٹی کی پیدائش کے بعد رجسٹریشن میں جان بوجھ کر تاخیر کرتے تھے.

    جہاں حکومتی مشینری اس پالیسی کی کامیابی اور بہتر نتائج کا دعوٰی کرتی ہے وہیں کچھ مسائل نے بھی اس معاشرے کو شدید مشکلات کا شکار کیا ہے. اول یہ کہ نرینہ اولاد کی چاہت اور پالیسی رسٹریکشن کے باعث مردوں کی تعداد عورتوں کے مقابلے میں 30 ملین زیادہ ہو گئی. اس صنفی عدم توازن کی وجہ سے بہت سے مرد شادی کے لیے جنس مخالف کی تلاش میں نیم بوڑھے ہو جاتے تھے. چونکہ عورتیں اس معاشرے میں کم ہیں اس لیے شادی کے معاملے میں ان قدر بہت زیادہ ہوتی ہے. تقریباً ہر لڑکی شادی سے قبل اپنے ہونے والے شوہر سے ذاتی کاروبار یا اچھی نوکری کے علاوہ ذاتی گھر اور گاڑی کی بھی آس لگاتی ہے. یوں ایک اوسط چینی مرد شادی کے یہ لوازمات پورے کرنے کے بعد شادی کے وقت کم از کم تیس سال کی عمر تک پہنچ جاتا ہے. اور شادی پر اوسطاً 35 لاکھ پاکستانی روپے کے برابر رقم خرچ کرتا ہے.

    ایک چینی باشندے کی اوسط عمر میں جو کہ سنہ 1976ء میں 66 سال تھی آج وہی اوسط عمر 76 برس تک پہنچ گئی ہے. اس اوسط عمر میں اضافے کو جہاں صحت کے شعبے کی ترقی کہا جاتا وہیں یہ حقیقت بھی آشکار ہوتی ہے کہ اس وقت ہر پانچ میں سے ایک فرد ریٹائرڈ کی حیثیت سے اس معاشرے میں موجود ہے. سنہ 2050 تک کم از کم اس آبادی کا ایک تہائی حصہ 60 سال یا اس سے زائد عمر کے افراد پر مشتمل ہو گا. جو عموماً پروڈکٹیو نہیں ہوتے. اور ملکی معیشت پر ایک بھاری بوجھ ثابت ہوں گے. سنہ 2030 تک چین اس پالیسی کی وجہ سے اپنے 67 ملین مزدوروں سے محروم ہو جائے گا. آزاد تحقیقی رپورٹس کے مطابق کم از کم 100 ملین بچیاں مسنگ ہیں. جنہیں کسی حد تک حکومت بھی درد سر کے طور پر دیکھ رہی ہے.

    اس پالیسی کے تحت 36 فی صد لوگوں کو ایک بچے کی پیدائش تک محدود رکھا گیا. اور قریب 53 فیصد لوگوں کو انکی درخواست پر دوسرے بچے کی پیدائش کی اجازت دی گئی. پالیسی میں تمام تر خوبیوں، خامیوں اور وقت کو مدنظر رکھتے ہوئے یکم جنوری سنہ 2016ء سے ”ٹو چائلڈ پالیسی“ عملی نفاذ کیا گیا ہے تاکہ معاشی اور معاشرتی لیول پر مطلوبہ توازن کو برقرار کیا جائے. جس کے تحت 31 میں سے 29 صوبوں میں اس نئی پالیسی کا عملی نفاذ کر دیا گیا ہے.

    اس وقت ہمارے ملک کی آبادی تقریباً 20 کروڑ نفوس پر مشتمل ہے. جس میں بچوں کی سالانہ پیدائش کا حجم 35 لاکھ ہے. ایک تخمینہ لگایا گیا ہے کہ سنہ 2030ء میں اس ملک کی آبادی لگ بھگ 25 کروڑ تک پہنچ جائے گی، اسی سال شہری اور دیہی آبادی کا تناسب برابر ہو جائے گا جو فی الحال 36 فیصد شہری اور 54 فیصد دیہاتی آبادی پر مشتمل ہے. دنیا میں آبادی کے بے ربط اور بےلگام اضافہ کو روکنے کے لیے مختلف لیولز پر کام ہو رہا ہے. لیکن ایک میڈیم کامن ہے. اور وہ ہے تعلیم. میں یہ جاننا ہوں کہ اس ملک عظیم جس کی شرح خواندگی 60 فیصد ہونے کا دعوٰی کیا جاتا ہے اس میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 10 فیصد سے کم یونیورسٹی گریجویٹ ہیں. شاید کم از کم گریجویٹ لیول پر ہی آپ ایسی سیر حاصل گفتگو کر سکتے ہیں جو آبادی کے کنٹرول کے متعلق ہو. لیکن ان کے مجموعی تناسب کو ضرور ذہن نشین رکھیں.

  • صرف دو چیزیں جن پر پورا پاکستان ایک ہے – امریکی سینٹ میں انکشاف

    صرف دو چیزیں جن پر پورا پاکستان ایک ہے – امریکی سینٹ میں انکشاف

    واشنگٹن: نیوکلیئر سپلائرز گروپ (این ایس جی) کی رکنیت کے حصول میں امریکا کی جانب سے ہندوستان کی حمایت پر پاکستان کے تحفظات کی گونج بالآخر امریکی کانگریس میں بھی سنائی دی، جہاں سینیٹ کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی نے گواہوں کی مدد سے مشاہدہ کیا کہ اس پالیسی سے جنوبی ایشیاء میں نیوکلیئر ہتھیاروں کی دوڑ میں شدت آجائے گی۔ گواہان اور چند قانون سازوں کے مطابق 1990 میں پاکستان پر لگائی گئی پابندیوں سے جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے پاکستان کی خودمختاری میں اضافہ ہوا اور اگر یہ پابندیاں دوبارہ لگائی گئیں تو یہی سب کچھ دوبارہ ہوگا۔

    کارنیگی انڈوومنٹ فار انٹرنیشنل پیس کے شریک ڈائریکٹر ٹوبی ڈالٹن نے کمیٹی کو بتایا کہ ‘موجودہ امریکی انتظامیہ کی جانب سے این ایس جی رکنیت کے لیے ہندوستان کی غیر مشروط اور غیر معمولی حمایت مسئلے کا باعث ہوگی’۔ واضح رہے کہ پاکستان اور ہندوستان دونوں نے این ایس جی رکنیت کے لیے درخواست دے رکھی ہے، تاہم اسے مسترد کردیا گیا، کیونکہ این ایس جی رکنیت کے لیے جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے (این پی ٹی) پر دستخط لازمی شرط ہے۔ اگرچہ امریکا سمیت کچھ عالمی طاقتیں ہندوستان کی این ایس جی رکنیت کے حق میں ہیں تاہم چین نے اس کی مخالفت کی اور کہا کہ پاکستان کو بھی ہندوستان کے ساتھ این ایس جی رکنیت دی جانی چاہیے۔

    کانگریس کے اجلاس کے دوران پاکستان کے حوالے سے کچھ مصالحتی رویہ دیکھنے میں آیا جبکہ اس سے قبل جون میں ہونے والے اجلاس میں حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائیاں نہ کرنے پر پاکستان کی فوجی امداد میں 30 کرور ڈالر کی کمی کردی گئی تھی۔ تاہم جمعرات 8 ستمبر کو ہونے والے اجلاس میں امریکی سینیٹرز اور گواہان نے اس بات پر اتفاق کیا کہ امداد میں کمی سے پاکستان کو اپنی پالیسیوں میں تبدیلیوں پر مجبور نہیں کیا جاسکتا، کچھ تجزیہ نگاروں نے اس سماعت کو معطل شدہ امداد کی بحالی کی طرف ‘پہلا قدم’ قرار دیا۔

    نیو ہمپشائر سے تعلق رکھنے والے ڈیموکریٹ سینیٹر جیئین شاہین نے مسٹر ڈالٹن سے سوال کیا کہ ‘اپنی جوہری تنصیبات کی حفاظت میں پاکستان کے کیا مفادات ہیں’۔ جس پر ڈالٹن نے جواب دیا، ‘اس میں پاکستانیوں کی بہت زیادہ دلچسپی ہے اور جوہری پروگرام جاری رکھنے کے حوالے سے وہاں مکمل اتفاق رائے پایا جاتا ہے’۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘شاید ایٹمی ہتھیار اور کرکٹ وہ واحد 2 چیزیں ہیں، جن پر وہ اتفاق کرتے ہیں’، ساتھ ہی انھوں نے ایٹمی ہتھیاروں کو پاکستان کے ‘شاہی جواہرات’ قرار دیا۔ ڈالٹن نے کہا، ‘انھوں نے اپنے جوہری پروگرام کو محفوظ بنانے کے حوالے سے اہم اقدامات کیے ہیں، وہ تمام خطرات اور چینلجز کو سمجھتے ہیں’۔

    کولوراڈو ری پبلکن سے تعلق رکھنے والے سینیٹر کوری گارڈنر نے سوال کیا کہ ‘کیا ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے دور میں شمالی کوریا سے استوار کیے گئے پاکستان کے تعلقات اب بھی باقی ہیں’۔ جس پر ڈالٹن نے جواب دیا کہ ‘عبدالقدیر خان کے واقعے کے بعد پاکستان نے اس تعلق کو ختم کردیا تھا اور اس حوالے سے کچھ بھی باقی نہیں، سوائے چند سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے، جن کے مطابق یہ نیٹ ورک اب بھی موجود ہے’۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ اس طرح کا واقعہ دوبارہ نہ ہو’۔

    ایک واشنگٹن تھنک ٹینک کے چیئرمین روبرٹ ایل گرینیئر نے نشاندہی کی کہ پاکستان نے 1990 میں شمالی کوریا اور ایران سے اُس وقت رابطہ کیا، جب امریکا نے اس پر پابندیاں عائد کی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اپنا جوہری پروگرام ہندوستان کی جانب سے ممکنہ لاحق خطرات کی وجہ سے جاری رکھنا چاہتا ہے، ان کا کہنا تھا کہ ‘وہ روایتی ہتھیاروں سے ہندوستان کا مقابلہ نہیں کرسکتے، لہذا انھوں نے یہ راستہ اختیار کیا’۔ گرینیئر نے امریکا پر زور دیا کہ ‘وہ بہت زیادہ محتاط رہے اور حقانی نیٹ ورک پر اختلافات کے باوجود پاکستان کے ساتھ کچھ تعلقات برقرار رکھے’۔ انھوں نے خبردار کیا کہ ‘اگر ہم ان سے ایک اچھوت کی طرح سے سلوک کریں گے تو وہ بھی ایک اچھوت کی طرح ہی برتاؤ کریں گے’۔

    سب سے دلچسپ بات
    جون ہوپکنز یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ایک اور گواہ ڈینیئل مارکے نے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے (سی پیک) کو ‘واحد دلچسپ چیز’ قرار دیا، جو پاکستان میں ہونے جارہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘زیادہ تر پاکستانی اس حوالے سے پرجوش ہیں، صرف اس وجہ سے نہیں کہ اس سے ان کے چین سے تعلقات بہتر ہوں گے بلکہ اس لیے بھی اس طرح کہ ان کے لیے عالمی تجارت کے راستے کھلیں گے’۔ ڈاکٹر مارکے نے مزید کہا کہ ‘پاکستان میں موجودہ عدم استحکام کا تعلق ان کے معاشی عدم استحکام سے ہے اور کوئی بھی چیز جو ان کی معیشت کو مضبوط کرے وہ پاکستان کے لیے اچھی ہے’۔ انھوں نے کہا کہ ‘یہ منصوبہ امریکا کے لیے جزوی طور پر مثبت اور جزوی طور پر تحفظات کا باعث ہے، مثبت اس لیے کیوں کہ اس سے وہاں استحکام پیدا ہوگا اور تحفظات کا باعث اس لیے کیونکہ ہمیں اس حوالے سے اعتراض ہے کہ اس طرح خطے میں چین کا کردار مضبوط ہوجائے گا’۔ سینیٹر مارکے نے مزید کہا کہ ‘پاکستان نے حال ہی میں ہندوستان کو جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے دو طرفہ معاہدے کی پیشکش کی ہے’، ساتھ ہی انھوں نے مسٹر ڈالٹن سے اس پیشکش کے خلوص کے حوالے سے سوال کیا۔ جس پر ڈالٹن کا کہنا تھا کہ ‘اس طرح کا معاہدہ ممکن ہے لیکن یہ بہت مشکل ہوگا’۔

    (بشکریہ ڈان)

  • گلوبل ولیج کی چوپال – ریحان اصغر سید

    گلوبل ولیج کی چوپال – ریحان اصغر سید

    ریحان اصغر سید یہ گلوبل ولیج کی چوپال کا منظر ہے۔ چوپال بہت وسیع و عریض اور خوبصورت ہے، جس میں کہیں مخملی گھاس کے قالین بچھے ہیں کہیں میز کرسیاں اور صوفے لگے ہیں. میزوں پر فینسی حقے، سگریٹ پان، چائے کافی سگار سے لے کر پینے کے ہر قسم کے مشروبات کا سامان دھرا ہے۔ گلوبل ولیج کے اکثر باسی شام کو یہاں آتے ہیں اور کچھ اچھا وقت گزار کے چلے جاتے ہیں. کبھی کبھی تلخی اور لڑائیاں بھی ہو جاتیں ہیں.

    آج کل بھی چوپال کے حالات کچھ کشیدہ ہیں، ابھی شام ہونے کو ہے. سب سے پہلے سات بھائی چوپال میں داخل ہوتے ہیں۔ ان کے جسموں پر ریشم کے چوغے نما قیتی لباس ہے اور ان کے سروں پر سونے کے تاج چمک رہے ہیں. یہ ساتوں سگے بھائی ہیں، ان میں سے دو بڑے بھائی آگے آگے ہیں۔ یہ ابوظہبی اور دبئی ہیں، ان کے تاجوں میں ہیرے جوہرات بھی جڑے ہوئے ہیں اور ہاتھوں میں قیمتی انگوٹھیاں ہیں، ان کے پیچھے شارجہ اور فجیرہ وغیرہ پانچ بھائی ہیں جو دبئی اور ابوظہبی کی طرح امیر کبیر تو نہیں لیکن اچھے خاصے کھاتے پیتے اور صاحب ثروت ہیں۔ ساتوں بھائیوں کی چوپال میں ایک میز مخصوص ہے جس پر قہوہ، حقہ، کجھوروں سمیت دیگر لوازمات مہیا ہیں۔ سارے بھائی باہمی دلچسپی کے امور پر گفتگو کرتے ہوئے اپنی میز کے گرد بیٹھ جاتے ہیں، تھوڑی دیر میں ایک کرخت چہرے والا لحیم شحیم شخص چوپال میں داخل ہوتا ہے. اس شخص نے کمانڈوز جیسی یونی فارم پہن رکھی ہے، اس کے دونوں کندھوں پر میزائل بندھے ہیں اور پشت پر ایک بیگ ہے جس میں ایٹم بم چلانے کا ریموٹ کنٹرول سسٹم ہے. کرخت شکل شخص کا نام شمالی کوریا ہے، شمالی کوریا کے بوٹ پھٹے ہوئے اور کپڑے خستہ حال ہیں، شمالی کوریا اپنی چھوٹی چھوٹی آنکھوں سے اردگرد دیکھتا ہوا ایک کونے میں جا کے بیٹھ جاتا ہے اور اپنی بندوق کو کھول کے صاف کرنے لگتا ہے.

    اس کے ساتھ ہی چوپال میں تھری پیس سوٹوں میں ملبوس، پرفیوموں میں نہائے ہوئے سفید فام لوگوں کی ٹولی داخل ہوتی ہے۔ یہ ہٹے کٹے خوش لباس یورپی یونین کے ممالک ہیں، یہ لوگ تھوڑی دیر کھڑے ہو کے ہیلو ہائے کرتے ہیں، پھر چوپال کی بار کی طرف بڑھ جاتے ہیں، اب چوپال میں لوگوں کی مسلسل آمد جاری ہے، سوکھے سڑے ادھ ننگے افریقی ممالک بھی آ رہے ہیں اور عجیب و غریب لباس میں ملبوس ساوتھ امریکہ کے ممالک بھی جن میں سے کچھ خوش خال دکھائی دیتے اور کچھ مفلوک الحال، اتنے میں سروں پر تاج پہنے دو لوگ اندر داخل ہوتے ہیں، ایک نے ریشمی چوغہ نما لباس پہن رکھا ہے اور ہاتھ میں تسبیح ہے، یہ سعودی عرب ہے، اس کے ساتھ سوٹ میں تاج والا کافی بوڑھا سا آدمی برطانیہ ہے. یہ دونوں بھی مختلف لوگوں سے ملتے ملاتے چوپال میں گھل مل جاتے ہیں۔ اتنی دیر میں سٹیج پر ایک نیم برہنہ سی عورت نمودار ہوتی ہے اور میوزک کی آواز پر تھرکنا شروع ہو جاتی ہے اس عورت کا نام تھائی لینڈ ہے۔ اس کے ساتھ ہی چوپال میں سانولے سے لوگوں کا ایک گروہ داخل ہوتا ہے، سب سے آگے والے شخص کی ٹنڈ ہے بس سر کے بیچ میں بالوں کی ایک لمبی بودی ہے جسے کی چٹیا بن کے اس کی کمر پر لٹک رہی ہے، چٹیا میں ہیرے جوہرات جڑے ہیں، یہ بھارت ہے، بھارت سونے کے زیوارت سے لدا ہوا ہے، ماتھے پر سرخ ٹیکا ہے اور چہرے پر مکاری کے تاثرات ہیں، اوپر والا دھڑ ننگا ہے اور نیچے اس نے بھاری بھر کم سفید دھوتی پہن رکھی ہے. بھارت کے پیچھے ننگ دھڑنگ اور سوکھے سڑے نیپال، برما اور مالدیپ ہیں جو بھارت کی دھوتی کو اٹھائے غلاموں کی طرح چل رہے ہیں. بھارت چہرے پر نخوت آمیز انکساری سجائے سب کو جھک جھک کے پرنام کر رہا ہے۔ عربوں سے گلے مل کے وہ یورپ والوں کے ساتھ کھڑا ہو جاتا ہے

    اس کے ساتھ ہی چوپال میں ایک عجیب و غریب شخص داخل ہوتا ہے، اس شخص کا پورا جسم خون آلود ہے اور ایک بازو بھی کٹا ہوا ہے، برانڈڈ ٹی شرٹ کے نیچے شلوار پہنے یہ شخص ننگے پائوں ہے، اس کے پیروں سے بھی خون بہہ رہا ہے لیکن بےنیازی سے چیونگ چباتا شخص اپنے زخموں سے خاصا لاپروا لگ رہا ہے، اس کا نام پاکستان ہے۔ پاکستان کے کندھوں پر بھی شمالی کوریا کی طرح میزائل اور پشت پر ایٹم بم والا بیگ ہے. پاکستان کے چوپال میں داخل ہوتے ہی چہ مگوئیاں شروع ہو جاتی ہیں، ہر کوئی پاکستان کی طرف خوفزدہ نظروں سے دیکھ رہا ہے، پاکستان پیروں سے زمین کو کوٹتا ہوا پہلے عربوں کی ٹیبل پر جاتا ہے، سعودی عرب اپنے سونے کے سگریٹ کیس سے ایک سگریٹ نکال کر پاکستان کو پیش کرتا ہے، سگریٹ سلگا کے پاکستان سونے کو لائٹر اور سگریٹ کیس کو اپنی جیب میں ڈال لیتا ہے، کچھ دور کھڑا بھارت پاکستان کو گھور رہا ہے. اتنے میں پاکستان وہاں سے پائوں گھیسٹتا ہوا یورپ والوں کی طرف بڑھتا ہے، یورپ والے اسے اپنی طرف آتا دیکھ کر تیزی سے منتشر ہو جاتے ہیں، پاکستان کے چہرے پر ایک پھیکی سی مسکراہٹ نمودار ہو کے غائب ہو جاتی ہے اور وہ اکیلے بیٹھے شمالی کوریا کی طرف بڑھ جاتا ہےاور اس سے ہاتھ ملاتا ہے. اتنی دیر میں چوپال میں دھوپ کا چشمہ لگائے اوسط قامت کا ایک انتہائی تیز طرار شخص داخل ہوتا ہے، سپاٹ چہرے والا شخص ہر آدمی سے ملتا ہے، یہ چائنہ ہے، پاکستان دوڑ کے چائنہ سے گلے ملتا ہے، چائنہ کا چہرہ سپاٹ رہتا ہے، وہ نرمی سے پاکستان کو خود سے الگ کر کے حال چال پوچھتا ہے، پھر مشفقانہ انداز میں پاکستان کے خون آلودہ گال پر تھپکی دیتا ہے اور یہ کہتے ہوئے آگے بڑھ جاتا ہے، میں یہی ہوں کسی چیز کی ضرورت ہوئی تو بتانا.

    اتنی دیر میں چوپال کی انٹرنس پر کچھ ہلچل کے آثار پیدا ہوتے ہیں. لگتا ہے کسی خاص ہستی کی آمد آمد ہے، وہ خاص ہستی گلوبل ولیج کے چوہدری آمریکہ کے علاوہ کس کی ہو سکتی ہے۔ انتہائی قیمتی سوٹ میں ملبوس دیو قامت امریکہ طاقت کے نشے میں جھومتا ہوا چوپال میں داخل ہوتا ہے. امریکہ کے ہاتھ خون میں لتھڑے ہوئے ہیں اور منہ پر خون لگا ہے، امریکہ کے پیچھے حواریوں کا ایک گروہ ہے. سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ کی پشت پر چند رسیاں ہیں جن کے ساتھ انتہائی زخمی اور نیم مردہ لوگ بندھے ہیں، زخمی لوگوں کے منہ سے کراہیں نکل رہی ہیں اور زخموں سے مسلسل خون رس رہا ہے. یہ افغانستان، عراق، اور لیبیا ہیں. امریکہ اور بھارت خوب کٹ کے جھپی لگاتے ہیں، بھارت امریکہ کے کان میں کوئی بات کہتا ہے اور ساتھ پاکستان کی طرف اشارہ بھی کرتا ہے، لگتا ہے پاکستان کی شکایت لگائی جا رہی ہے. امریکہ پاکستان کو گھورتا ہے، قدم بوسی کا خواہشمند پاکستان بےبسی سے انکار میں سر ہلاتا ہے اور ہاتھ جوڑتا ہے. اتنی دیر میں بھارت امریکہ کے پیچھے بندھے زخموں سے چور نیم مردہ افغانستان کو نظروں ہی نظروں میں کوئی اشارہ کرتا ہے، افغانستان اٹھ کے بیٹھ جاتا ہے اور پاکستان کو گالیاں دینے لگتا ہے، اس نے ہم کو برباد کر دیا، آج ہمارا جو حال ہے سب اس کی وجہ سے ہے، میں تو کہتا ہوں دنیا میں سارے فساد کی جڑ یہی شخص ہے۔ چوہدری صاحب اس کو پھانسی چڑھا دو۔ غصے کی شدت سے افغانستان کانپ رہا ہے، اپنی بات مکمل کرکے وہ بیٹھے بیٹھے پاکستان کو مارنے کی نیت سے جھپٹتا ہے لیکن ادھ راستے میں ہی گر جاتا ہے اور زور زور سے کھانسنے لگتا ہے. امریکہ اس کی پشت پر تھپکی دیتا ہے اور بھارت نسوار نکال کر ایک چٹکی اس کے منہ میں ڈالتا ہے، یورپی پانی کا گلاس لا کے پلاتے ہیں تو افغانستان کی حالت کچھ سنبھلتی ہے۔ اتنی دیر میں بھارت کے اشارے پر ایک اور دبلا پتلا غریب صورت شخص آگے بڑھتا ہے، اس کی آنکھوں میں پاکستان کے لیے نفرت کا سمندر موجزن ہے، یہ بنگہ دیش ہے پاکستان کا کٹا ہوا بازو، وہ پاکستان کی طرف اشارہ کر کے کہتا ہے، اس نے ہمیشہ میرے اور بھارت کے ساتھ زیادتی کی ہے. یہ ہر وقت ہمارے خلاف سازشوں میں مصروف رہتا ہے، ہمارا خطہ اسی کی وجہ سے آج جہنم کا منظر پیش کر رہا ہے، اب بھی اگر دنیا نے اس کو لگام نہ دی تو پھر ہمیں خود ہی کچھ کرنا پڑے گا۔

    پاکستان بےبسی سے اردگرد دیکھتا ہے کہ شاید کوئی اس کے حق میں بھی بولے، چین چند قدم چل کے پاکستان کے پاس آ کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ امریکہ سگار کا ایک طویل کش لگا کے اپنی عینک اتار کے صاف کرتا ہے اور پاکستان کی طرف انگلی اٹھا کے کہتا ہے دیکھو میاں، یہاں رہنا ہے تو شرافت سے رہو، میں جانتا ہوں تم اتنے برے نہیں ہو تمھاری بھی مجبوریاں ہیں، یاروں کے یار ہو، ہماری پیسنے کی جگہ خون بہاتے رہے ہو پر دیکھو دوست بدلے جا سکتے ہیں ہمسائے نہیں، یہ بھارت، افغانستان اور تمھارا برادر ایران یہ ہمسائے ہیں تمھارے، ان کے ساتھ بیٹھو، ان کے تحفظات سنو، ان کو دور کرو، راضی کرو یار ان کو، یہ کہہ کے امریکہ تھوڑا آگے بڑھ کے پاکستان کے دونوں گالوں کو اپنے دیو قامت ہتھلیاں میں لے کے سرگوشی کرتا ہے، میں بھی مجبور ہوں میری جان۔ آئی مین بزنس پھر پاکستان کو آنکھ مار کے آگے بڑھ جاتا ہے، بیشتر ممالک بھی امریکہ کے ساتھ چلے جاتے ہیں، بس پاکستان اور بھارت وہی کھڑے رہتے ہیں، بھارت کی آنکھوں میں فاتحانہ چمک ہے، وہ ایک تمسخر انگیز مسکراہٹ سے پاکستان کو سر سے پائوں تک دیکھتا ہے، پھر منہ سے چخ چخ کی آواز نکالتے ہوئے جیب سے لائٹر نکال کر پاکستان کی شرٹ کو آگ لگانا شروع ہو جاتا ہے۔ یہ تم کیا کر رہے ہو، پاکستان درد سے چلاتا ہے، یہ دیکھو یہ بھارت کیا کر رہا ہے، یہ دیکھو لیکن کوئی بھی اس طرف متوجہ نہیں ہوتا، جو لوگ دیکھتے ہیں وہ دیکھ کے بھی منہ پھیر لیتے ہیں. پاکستان بھارت سے لائٹر چھین لیتا ہے اور اسے دھکا دے کر خود سے دور ہٹاتا ہے اور اپنے کپڑوں پر لگی آگ بجھانے کی کوششوں میں مصروف ہو جاتا ہے اور بھارت قہہقے لگاتا ہوا اپنے حواریوں کے ساتھ وہاں سے چلا جاتا ہے۔

    سپاٹ چہرے والا چین پاکستان کے کندھے پر تھپکی دیتے ہوئے کہتا ہے، دیکھو دوست! یہ دنیا ایک جنگل کی طرح ہے، یہاں طاقت اور مفادات کی زبان ہی بولی اور سمجھی جاتی ہے، میرا مشورہ ہے کہ تب تک اپنے دشمن کو نظر انداز کرنا سیکھو جب تک تم ان کا منہ توڑنے کے قابل نہیں ہو جاتے۔ یہ کہتے ہوئے چین پاکستان کو گلے لگاتا ہے اور چپکے سے کچھ پیسے اور اسلحہ اس کی جیب میں منتقل کر دیتا ہے۔ چین کے جانے کے بعد پاکستان اردگرد کا جائزہ لیتا ہے، چوپال کافی حد تک ویران ہو چکا ہے، پاکستان ایک میز سے بچا ہوا ڈرئی فروٹ اُٹھاتا ہے اور اسے کھاتا ہوا چوپال سے نکل جاتا ہے.

  • انٹر ڈسٹرکٹ سرکولر ریلوے پراجیکٹ، خیبرپختونخوا کے عوام سے ایک ظالمانہ مذاق – محمد اشفاق

    انٹر ڈسٹرکٹ سرکولر ریلوے پراجیکٹ، خیبرپختونخوا کے عوام سے ایک ظالمانہ مذاق – محمد اشفاق

    محمد اشفاق خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو بھیجی گئی 3 اگست کی رپورٹ کے مطابق کے پی کے حکومت نے پشاور، نوشہرہ، چارسدہ اور مردان کے درمیان 220 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی سرکولر ٹرین پراجیکٹ کے لیے چائنا کمیونیکیشن کنسٹرکشن کمپنی کے ساتھ 1.6 ارب ڈالر مالیت کی مفاہمت کی ایک یادداشت پہ دستخط کیے ہیں. مزید تفصیلات بھی پریس ریلیز میں موجود ہیں مگر ٹھہریے ذرا یہیں رک جائیے.

    کس کمپنی کے ساتھ، چائنا کمیونیکیشن کنسٹرکشن کمپنی یعنی CCCC کے ساتھ. برسبیلِ تذکرہ یہ وہی کمپنی ہے جسے ورلڈ بنک 2009ء میں فلپائن کے روڈز کنسٹرکشن کے ایک میگا پراجیکٹ میں (جسے ورلڈبنک فنانس کر رہا تھا) بےایمانی اور بدعنوانی کے الزامات کے تحت ڈی بار کر چکا ہے. اب 2017ء تک یہ کمپنی ورلڈبنک کے فنانس کیے گئے کسی پراجیکٹ میں شریک نہیں ہوسکتی. چائنیز حکومت کی کوششوں سے 2011ء میں اس فیصلے کا دوبارہ سے جائزہ لے کر بھی ورلڈبنک نے اسے درست قرار دیا.

    اب جناب عمران خان صاحب اور ان کی ٹیم سے پہلا سوال یہ ہے کہ 1.6 ارب ڈالر کا میگا پراجیکٹ سائن کرنے سے پہلے کیا انھوں نے کمپنی کی ساکھ اور عمومی شہرت کے بارے میں ذرا سی تحقیق کی زحمت بھی نہیں کی؟ جو معلومات اس عاجز کو پانچ منٹ گوگل سرچ کر کے مل گئیں، وہ ان کی لائق فائق انتظامیہ کو کیوں نہ مل سکیں؟

    اب کچھ اور آگے بڑھیے، پریس ریلیز میں مہیا کردہ اطلاعات کے مطابق اس منصوبے کی فیزیبلٹی رپورٹ، مجوزہ روٹ اور دیگر تکنیکی معاملات پہ اب یہ کمپنی کام شروع کرے گی. پراجیکٹ کی فنانسنگ کا باقاعدہ معاہدہ اس کے بعد ہوگا.
    دوسرا سوال یہ ہے کہ حضورِ والا جب فزیبلٹی رپورٹ بنی ہے نہ روٹ طے ہوا ہے تو تخمینہ لاگت کیسے نکل آیا؟ آپ نے پوچھا کہ ٹرین چلانی ہے، خرچہ کتنا ہوگا؟ انہوں نے کہا جناب وہی جو اورنج لائن پہ پنجاب کا ہو رہا ہے؟ اب یہاں لامحالہ اورنج لائن میٹرو کا ذکر ہوگا، تو عرض کرتا چلوں کہ اس کی فزیبلٹی جانے کب کی بن چکی تھی بلکہ پراجیکٹ کے آغاز سے دو سال قبل دوبارہ کروائی گئی تھی. اس لیے اس کی لاگت کا تخمینہ کرنا بہت آسان تھا، جبکہ یہاں محض تھُوک میں پکوڑے تلنے پہ اکتفا کیا گیا ہے.

    ہمیں مژدہ یہ سنایا گیا ہے کہ اس سے چاروں مذکورہ بالا اضلاع کے شہریوں کو سفر کی بہتر سہولیات فراہم ہوں گی بلکہ اس کو صوابی تک بڑھانے کا آپشن بھی موجود ہے، نیز اسی کے تحت پشاور تا اسلام آباد بھی ایک تیزرفتار سروس چلائی جائے گی.
    تیسرا سوال یہاں یہ بنتا ہے کہ پشاور تا اسلام آباد موجودہ ٹریکس پہ تو ٹرین کی زیادہ سے زیادہ رفتار پچاسی سے ایک سو پانچ کلومیٹر ہوتی ہے، نیز وہ ٹریک پاکستان ریلوے کی ملکیت ہے جو آپ کے اس منصوبے میں شریک ہی نہیں، تو اب آپ کیا پشاور تا اسلام آباد 220 کلومیٹر کی رفتار سے ٹرین چلانے کے لیے نیا ٹریک بچھائیں گے؟ لگ بھگ ڈیڑھ سو کلومیٹر پہ لگ بھگ چالیس فٹ چوڑائی کے حساب سے دو کروڑ سکوائر فٹ سے زیادہ اراضی درکار ہوگی، اس کی قیمت کا تخمینہ قارئین خود لگاتے رہیں.

    اب معاملہ یہ ہے کہ آپ پشاور صدر سے بائسیکل پہ سوار ہو کر نوشہرہ کو نکلیں تو بھی ایک گھنٹے میں اپنی منزل پہ پہنچ سکتے ہیں. پشاور سے آپ ایک گھنٹے سے بھی کم میں چارسدہ پہنچ سکتے ہیں اگر براستہ نوشہرہ نہ جائیں تو، اور اگر نوشہرہ سے چارسدہ جائیں تو بھی اٹھائیس کلومیٹر کا فاصلہ اتنے ہی وقت میں طے ہوگا. چارسدہ سے مردان بھی محض چالیس کلومیٹر کی دوری پہ واقع ہے. ان سب راستوں پہ ہزاروں پبلک و پرائیویٹ گاڑیاں ہمہ وقت رواں دواں رہتی ہیں، سڑک بہترین ہے اور وقتا فوقتا مرمت ہوتی رہتی ہے. اگر آپ نے پشاور سے براہ راست مردان جانا ہو تو موٹروے کی بدولت یہ فاصلہ بھی محض ساٹھ منٹ کا رہ گیا ہے. اس سے زیادہ وقت آپ کو کارخانو مارکیٹ سے بالاحصار چوک تک پہنچنے میں لگ جاتا ہے. کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کیا واقعی اس روٹ پہ 1.6 ارب ڈالر سے ٹرین چلانے کی ضرورت ہے؟ یہ چوتھا سوال ہے.

    پانچواں سوال یہ ہے کہ میٹرو اور اورنج لائن پہ ہم جیسوں کا سب سے بڑا اعتراض جس میں تحریکِ انصاف والے ہمارے ہمنوا تھے، یہی تھا کہ اتنی خطیر رقم اگر تعلیم اور صحت پہ خرچ کی جاتی تو پنجاب کی کایا پلٹ سکتی تھی، تو کیا خیبرپختونخوا میں سو فی صد شرح خواندگی اور سو فی صد آبادی کو طبی سہولیات کی فراہمی کا ہدف حاصل کر لیا گیا ہے جو آپ اربوں ڈالر سے بلٹ ٹرین چلانے چلے ہیں؟

    اب کچھ دوست کہیں گے کہ جناب اورنج لائن تو صرف ایک شہر میں چلائی گئی ہے جبکہ ہماری سرکولر ریلوے چار اضلاع کو ملائے گی، تو عرض یہ ہے کہ پشاور اور مردان کے اندر ٹریفک کا مسئلہ جتنا گھمبیر ہے، ان دونوں شہروں کے درمیان اس کا عشرعشیر بھی نہیں. آپ ایک جنگلا بس پشاور میں چلانے کا ارادہ رکھتے ہیں تو دوسری مردان چلا لیتے. یہ چاروں اضلاع تو پہلے بھی ایسے باہم ملے ہوئے ہیں کہ ایسے کسی منصوبےکی ضرورت ہی نہیں تھی. پشاور سے نوشہرہ، نوشہرہ سے چارسدہ اور چارسدہ سے مردان کل فاصلہ 107 کلومیٹر بنتا ہے. آپ کو پشاور سے مردان ڈائریکٹ روٹ بھی دستیاب ہے، پشاور سے چارسدہ بھی، اور پشاور سے نوشہرہ بھی، گویا ٹرین چلے یا نا چلے عوام کو قطعی کوئی فرق نہیں پڑتا.

    کہاں کے عوام کو فرق پڑتا ہے، اب یہ بھی سنتے چلیے. ہری پور سے بالاکوٹ کا فاصلہ 102 کلومیٹر، اپروچ صرف ایک روٹ سے ممکن، سیاحتی علاقہ، شاہراہ قراقرم کا حصہ اور انتہائی گنجان آباد ہونے کے سبب واحد ہائی وے پر بے تحاشا رش، ہری پور سے ایبٹ آباد کے انتالیس منٹ رش آورز میں گھنٹوں پہ محیط ہوجاتے ہیں، اسی طرح ایبٹ آباد سے مانسہرہ رش کے اوقات میں جانا کتنی بڑی دردسری ہے یہ بھی وہاں جو ایک بار بھی گیا ہو اسے بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے. سیاحت کے سیزن میں وہاں کے حالات ہم اسی عید پہ ایک بار پھر دیکھ آئے ہیں

    آپ کہیں گے کہ سیاست کے سینے میں دل کہاں. یہ بھی بجا فرمایا حضور، مگر آئیے کوشش کرتے ہیں یہ دیکھنے کی کہ بطور ایک سیاسی منصوبے کے بھی اس کے خان صاحب اور ان کی جماعت کو کیا فوائد حاصل ہو سکتے تھے.
    ایک یہ کہ ساٹھ لاکھ کے لگ بھگ آبادی کے ہزارہ ڈویژن میں کے پی کے حکومت کے خلاف کئی تحفظات پائے جاتے ہیں، علیحدہ صوبے کےلیے صوبائی اسمبلی کی قرارداد بھی موجود ہے. یہاں ووٹ بھی نون لیگ اچھے خاصے کھینچ کے لے جاتی ہے اور تین سال میں ایسا لگ رہا تھا کہ اگلے الیکشن میں ہزارہ ڈویژن خان صاحب کی جماعت کے ہاتھوں سے مکمل نکل سکتا ہے. خان صاحب کی جانب سے اس ایک منصوبے کا اعلان ہوا کا رخ ان کے حق میں بدل سکتا تھا. یہ وہ منصوبہ ہوتا جو نون لیگ ہزارہ کے عوام کو دینے میں ناکام رہی. جبکہ یہ ان کا دیرینہ مطالبہ تھا کہ انھیں ایک متبادل راستہ بھی دیا جائے.
    دوم یہ کہ ہری پور سے بالاکوٹ تک چلنے والی ٹرین سے سیاحت کو بے پناہ فروغ حاصل ہوتا اور منصوبے کی لاگت بہت کم وقت میں وصول ہو جاتی.
    تیسرا یہ کہ جنگلوں، ندیوں، آبشاروں اور دریاؤں سے گزرتی یہ ٹرین بجائے خود بہت بڑی ٹورسٹ اٹریکشن ثابت ہوتی اور دنیا کے خوبصورت ترین ریلوے ٹریکس میں اس کا شمار ہوتا. یہاں جو اصحاب یہ سوچ رہے ہیں کہ اس علاقے میں ریلوے ٹریک بچھانا ناممکن یا بہت زیادہ دشوار ہے یا منصوبے کی لاگت کئی گنا بڑھ جاتی، ان سے عرض ہے کہ حضور! عمر گزری ہے انھی پہاڑوں کی سیاحی میں. آپ خٹک صاحب کے مشیرِ خصوصی برائے ٹرانسپورٹ جنہوں نے اس یادداشت پہ دستخط فرمائے ہیں، کو میرے ساتھ بھیج دیجیے، یہ عاجز ہری پور سے مانسہرہ تک انھیں خود ایسے روٹ کی نشان دہی کروا سکتا ہے جہاں ٹریک بچھانا ایسا ہی ہے جیسا پوٹھوہار ریجن میں.
    چوتھا, آخری اور سب سے بڑا فائدہ پتہ ہے کیا تھا؟ چھوٹے میاں صاحب نے کمال چالاکی و مہارت سے اورنج لائن کو زبردستی سی پیک منصوبے میں شامل کروا دیا جبکہ اس کی وہاں کوئی جگہ ہی نہیں بنتی تھی، جبکہ شاہراہ ریشم پہ، یعنی کہ سی پیک کے مرکزی روٹ پہ واقع اس منصوبے پہ تو چینی خود اش اش کر اٹھتے، کیونکہ سی پیک منصوبے پہ ایک بڑا اور وزنی اعتراض یہ بھی ہے کہ ریلوے ٹریکس روڈز کی نسبت زیادہ سستے اور کارآمد ثابت ہوتے ہیں، ایسے میں یہ منصوبہ اگر ایک دو ارب ڈالر مزید بڑھا کر کے پی کے حکومت چلاس تک لے جاتی تو چینی اسے فنانس کر کے نہ صرف دعائیں دیتے عمران خان کو، بلکہ ریکارڈ وقت میں اسے مکمل کروا کر بھی دکھاتے. اس ایک منصوبے سے خیبرپختونخوا کی کایا پلٹ جاتی. ملکی سطح پہ بھی خان صاحب کی دوراندیشی، وژن اور تدبر کی دھاک بیٹھ جاتی، ایک ہاتھ سے پھسلتا ہوا ڈویژن ان کی جھولی میں آ گرتا اور چونکہ ہزارہ میں سب سے زیادہ سیاح پنجاب سے آتے ہیں تو اہلِ پنجاب اس منصوبے پہ رشک کرتے اور اگلے الیکشن میں یقینا خان صاحب سے بہتر سلوک کرتے، مگر ظاہر ہے کہ جو خوبیاں ان میں سرے سے ناپید ہیں، ان کی دھاک بھلا کیونکر بیٹھے.

    آخری تجزیے میں یہ بیکار، پھسپھسا اور احمقانہ فیصلہ صرف الیکشنز اور اس سوچ کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے کہ عوام محض نمائشی اقدامات پہ ووٹ دیتے ہیں. گزشتہ الیکشن کے بعد جس صوبے کے عوام کو پنجاب کے مقابلے میں زیادہ سمجھدار اور بالغ نظر قرار دیا گیا تھا، گویا اب انھی کو بیوقوف سمجھنے کی غلطی کی جا رہی ہے.
    گویا تحریکِ انصاف نے مسلم لیگ نون کی حکمت عملی کو اپنا لیا.
    گویا شہباز شریف اور عمران خان کے وژن میں بال برابر فرق بھی نہ رہا.
    گویا اب بھوکے ننگے عوام کو دو بڑے صوبوں میں ٹرین کے جھولے دے کر بہلایا جاتا رہے گا.
    چھٹا، آخری اور بہت گھسا پٹا سوال خان صاحب سے یہ کہ جناب وہ تبدیلی کیا ہوئی جس کا آپ وعدہ کیا کرتے تھے؟

    ہر گزرتے دن کے ساتھ بدقسمتی سے یہ ثابت ہوتا جا رہا ہے کہ خان صاحب سر سے پاؤں تک ایک روایتی سیاستدان ہی ہیں اور مزید بدقسمتی یہ کہ دستیاب قیادت میں وژن کے لحاظ سے بدترین بھی