Tag: پی ایم ایل این

  • گزرے تھے ہم یہاں سے-ڈاکٹر صفدر محمود

    گزرے تھے ہم یہاں سے-ڈاکٹر صفدر محمود

    dr-safdar-mehmood

    سیاسی پیش رفت اور موجودہ صورتحال میں تھوڑا سا اپنی معلومات کا اضافہ کر دیا جائے تو وہ تجزیہ بن جاتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ سطحی مطالعہ ہو تا ہے اور اس میں بار بار انہی واقعات کو دہرایا جاتا ہے جو ہم کسی نہ کسی شکل میں دیکھ یا پڑھ چکے ہوتے ہیں ۔ حکومت کے مخالف انہی واقعات پر تنقید کا رنگ چڑھا دیتے ہیں جبکہ اقتدار کے حواری ان پر تعریف یا جواز کی مسلح سازی کر دیتے ہیں ۔ چنانچہ ایک ہی سیاسی پیش رفت کچھ حضرات کے لئے تنقیص کا سامان بن جاتی ہے جبکہ دوسرے گروہ کے لئے قصیدے کا بہانہ بن جاتی ہے ۔ مجھے کہنے دیجئے کہ میں صبح و شام ایسے تجزیات کی بارش میں بھیگتا رہتا ہوں اور اپنے خالی دامن کو نچوڑتا رہتا ہوں۔

    البتہ کبھی کبھی مجھے خیال آتا ہے کہ ان تجزیات میں جس صورتحال کا نقشہ پیش کیا جا رہا ہے کیا وہ ہماری تاریخ میں پہلی بار ابھری اور سامنے آئی ہے یا اسکی مثالیں ماضی میں بھی ملتی ہیں ۔یہ درست ہے کہ قومی حوالے سے ستر برس کی تاریخ بڑی مختصر تاریخ ہوتی ہے کیونکہ قومیں صدیوں کی تاریخ کی امین ہوتی ہیں لیکن ہماری ستر سالہ تاریخ بھی اس قدر متنوع، رنگ برنگے تجربات اور اتار چڑھائو کا شکار رہی ہے کہ اس میں ہر قسم کے تجربات کے مناظر اور ان کے نتائج ملتے ہیں ۔ میری ذاتی رائے میں معروضی حالات کا جائزہ لیتے ہوئے اور تجزیہ کرتے ہوئے اگر اس میں تاریخ کی معمولی سی روشنی بھی شامل کر لی جائے تو شاید تجزیہ زیادہ مستند اور جاندار کہلائے۔

    مثال کے طور پر آج کل تمام تجزیہ نگار مستقبل کا نقشہ بناتے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں کہ میاں نواز شریف اور ان کی مسلم لیگ (ن) 2018ء کے انتخابات بھی سوئپ کر جائے گی یعنی امکان ہے کہ بھاری اکثریت لیکر ہیوی مینڈیٹ کے ساتھ اقتدار میں آئے گی ۔ کچھ تجزیہ نگاروں کے قریب اس پیش گوئی کی بنیاد یہ وجوہ ہیں (1)تمام تر تنقید کے باوجود مسلم لیگ کی ضمنی انتخابات میں بہتر کامیابی (2)معاشی راہداری، سی پیک، کی تکمیل کے نتیجے کے طور پر ملک میں روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، معاشی خوشحالی آئے گی، پسماندہ علاقوں میں ترقی کا خواب پورا ہو گا، گوادر اس علاقے میں اہم ترین بندرگاہ بن جائے گی اور عالمی سطح پر پاکستان کی اہمیت میں اضافہ ہو گا(3)حکومت 2018ء تک لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کرکے عوام کے دلوں کو مسخر کرے گی اور اسکی عوامی حمایت میں کئی گنا اضافہ ہو گا۔

    میں صرف اہم نکات کا ذکر کر رہا ہوں چند ایک تجزیہ نگار مسلم لیگ (ن) کی آئندہ انتخابات میں کامیابی کا الزام حسب مخالف کو دیتے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ مسلم لیگ( ن) کی کارکردگی اس قابل نہیں کہ بڑی اکثریت کے ساتھ انتخابات جیت سکے لیکن وہ جیت جائے گی کیونکہ میاں صاحب مقدر کے سکندر اور قسمت کے دھنی ہیں اور انہیں ماشااللہ زرداری صاحب اور عمران خان جیسی حزب مخالف سے پالا پڑا ہے جس نے اپنے پائوں پہ خود کلہاڑی نہیں بلکہ کلہاڑے مارے ہیں ۔ زرداری صاحب اور پی پی پی کا پانچ سالہ دور حکومت ان کی سیاسی کشتی ڈبونے کے لئے کافی تھا اور اب پی پی پی کرپشن، بدنامی اور ناکامی کے ملبے سے نکل نہیں سکے گی۔ رہے عمران خان تو وہ ایک غیر پختہ سیاست دان کا امیج بنانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ وہ اس امیج کو آئندہ دو برسوں میں نہ بدل سکیں گے نہ بہتر بنا سکیں گے۔ عمران خان کی خیبر پختونخوا میں بھی کارکردگی اتنی قابل رشک نہیں رہی کہ عوام اسے بہتر حکمران تصور کریں۔ دھرنوں اور مارچوں سے کچھ حاصل نہیں ہو گا بلکہ اس سے پارٹی کی ’’پوشیدہ‘‘ کمزوریاں عیاں ہو جائیں گی ۔

    بلاشبہ عمران خان ذاتی طور پر اچھی شہرت رکھتے ہیں لوگ انہیں دوسرے سیاست دانوں کے مقابلے میں ایماندار بھی کہتے ہیں، ان میں خدمت کا جذبہ سند کی حیثیت رکھتا ہے لیکن اول تو لوگ ان کے ساتھیوں اور مشیروں کو مشکوک اور میاں صاحب کے مشیروں + حواریوں کی مانند ہی سمجھتے ہیں، دوم عمران خان نے عملی سیاست کے میدان میں پختگی، بصیرت اور بہتر سمجھ بوجھ کا ثبوت نہیں دیا۔ کئی تجزیہ نگاروں کے فہم و ادراک کا نچوڑ یہ ہے کہ میاں صاحب اپنی خوبیوں کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے مخالفین (RIVALS)کی نالائقیوں کے سبب انتخابات جیت جائیں گے چند ایک گرو قسم کے تجزیہ نگاروں کا فرمان ہے کہ میاں صاحب نے میڈیا پر دسترس حاصل کرکے سرمایہ کاری کرکے اور سیکرٹ فنڈ کے خزانوں کا منہ کھول کر اپنے مخالفین کو عوامی نظروں میں خاصی حد تک مطعون اور بے نقاب کر دیا ہے اور وہ آئندہ انتخابات میں دولت کا بے تحاشا استعمال کرکے انتخابات جیت جائیں گے۔

    یہ ہے خلاصہ ان تجزیوں کا جو میں اخبارات میں پڑھتا اور الیکٹرانک میڈیا پر سنتا رہا ہوں۔ اور سچی بات یہ ہے کہ اس اندازے، پیش گوئی اور تجزیے میں بڑا وزن ہے دیکھنے والی آنکھیں یہی منظر دیکھ رہی ہیں اور اس سے ایک فضا سی بنتی جا رہی ہے جو انتخابی مہم کی کامیابی میں اہم کردار سرانجام دیتی ہے۔ جب اس طرح کی فضا بنتی ہے تو ہزاروں موقع پرست اور مطلب پرست سیاست دان، حواری، لکھاری، سیاسی کارکن، مقامی بااثر حضرات وغیرہ بظاہر جیتنے والے لیڈر کا طواف کرنے لگتے ہیں کرسی پرستوں میں لیڈر کی قربت، اک نگاہ کرم،حاصل کرنے کے لئے باقاعدہ مقابلہ شروع ہو جاتا ہے ۔چُوری کے دلدادہ طوطے چہچہانے لگتے ہیں، وفاداری کا یقین دلانے کے لئے ڈنڈا فورس بنائی جاتی اور ٹی وی چینلوں پر دکھائی جاتی ہے، سیاست کے خالی برتن چھلک کر میڈیا پر بڑھکیں مارنے لگتے ہیں اور ہر طرف شیرآیا شیرآیا کے نعرے لگائے جاتے ہیں ۔

    یوں ایک اچھے بھلے دو ٹانگوں والے انسان کو چیر پھاڑ کرنے والا چار ٹانگوں کا شیر بنا دیا جاتا ہے۔ حواریوں، خوشامدیوں اور پیشہ ور تماش بین سیاست دانوں کے چہروں پر نہ صرف مسکراہٹ چھا جاتی ہے بلکہ ان میں متوقع فتح و کامیابی کی رعونت اور غرور بھی عود آتا ہے۔وہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے ایک انسان کو جسے اللہ پاک نے اشرف المخلوقات کا درجہ دیا ہے ۔ شیر یعنی خونخوار جانور بنا کر اسکی عزت افزائی کی ہے اسے اعلیٰ مقام عطا کر دیا ہے جبکہ مجھ جیسے سادہ لوح حیران و پریشان ہو کر سوچتے ہیں کہ انسان کو حیوان بنانا اس کا مرتبہ بڑھانا ہے یا مرتبہ گھٹانا، امریکہ کی ایک مشہور سیاسی پارٹی ڈیموکریٹ کئی بار امریکہ پر حکمرانی کر چکی ہے ،امریکہ کے موجودہ صدر اوبامہ کا تعلق بھی ڈیموکریٹ DEMOCRATE پارٹی سے ہے ۔ اس پارٹی کا سمبل یا نشان گدھا (DONKEY) ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ صدر اوبامہ کانگریس کے اجلاس میں جائیں تو ان کی پارٹی کے اراکین یہ نعرے لگا کر ان کا استقبال کریں دیکھو دیکھو گدھا آیا، گدھا آیا، آج کل اسی پارٹی کی امیدوار ہیلری کلنٹن ہے جو سارے ملک میں انتخابی مہم کے حوالے سے جلسے کر رہی ہے لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اسکی پارٹی کے جیالے اور جذباتی کارکن ہیلری کا استقبال یہ نعرہ لگا کر کریں کہ دیکھو دیکھو گدھی آئی، گدھی آئی، جبکہ ہمارا وزیراعظم قومی اسمبلی کے اجلاس میں جائے تو بی اے پاس اراکین شور مچا دیتے ہیں ’’دیکھو دیکھو شیر آیا‘‘ اور اگر میاں صاحب کسی جلسے میں جائیں تو کارکن نعرہ لگا لگا کر گلے پھاڑ لیتے ہیں کہ دیکھو دیکھو شیر آیا یا پھر یہ نعرے لگاتے ہیں میاں ساڈا شیر اے ، باقی ہیر پھیر اے،
    میں اپنی ملکی تاریخ میں یہ منظر پہلے بھی دیکھ چکا ہوں، ہوبہوایسا ہی تھا لیکن اس کاذکرآئندہ اِن شاءاللہ

  • آخری اٹھارہ ماہ ؟عمار چوہدری

    آخری اٹھارہ ماہ ؟عمار چوہدری

    emar

    میرے سامنے دو خبریں ہیں۔

    پہلی خبر وزیراعظم نواز شریف کے حوالے سے ہے جنہوں نے ملک بھر میں 39 جدیدترین ہسپتالوں کی تعمیرکی منظوری دے دی ہے۔ان انتالیس ہسپتالوں میں سے چھ ‘چھ سوبستروں کی گنجائش کے حامل تین ہسپتال اسلام آباد میںتعمیر کئے جائیں گے۔ اس کے علاوہ ملک بھر میں پانچ سو بستروں کے دس اور اڑھائی سو بستروں کے بیس ہسپتال قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیاہے ۔ تمام ہسپتالوں کی تعمیرپر 110ارب روپے لاگت آئے گی۔وزیراعظم نے ملک بھر میں ہسپتالوں پرپیش رفت کی ذاتی طور پر نگرانی کا بھی عندیہ دیا۔یہ بھی کہا گیا کہ ہسپتالوں کی تعمیر کیلئے مقامات کو حتمی شکل دیتے ہوئے بلوچستان ‘اندرون سندھ‘ جنوبی پنجاب‘ خیبر پختونخوا ‘فاٹا ‘آزاد جموں کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاقوں کا سروے کیا جائے اور غربت درجہ بندی‘دورافتادگی ‘بیماریوں کا بوجھ‘سرکاری اور نجی ہسپتالوں کی موجودگی‘ صحت عامہ کے ناقص اشاریوں کو ترجیح دی جائے۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ ان ہسپتالوں کی تمام تعمیرات آئندہ 18ماہ کے اندر مکمل کی جائیں گی۔

    اب دوسری خبر کی طرف آئیے۔

    خیبر پختونخوا حکومت نے میگا پراجیکٹ سوات موٹر وے کا سنگ بنیاد رکھ دیا ہے جس پر35 ارب روپے لاگت آئے گی۔وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے گزشتہ ہفتے سوات موٹروے کا افتتاح کیا۔ موٹروے صوابی میں کرنل شیر خان شہید انٹرچینج سے چکدرہ تک جائے گی۔اکیاسی کلومیٹر پر مشتمل اس موٹروے کا فاصلہ پینتالیس منٹ میں طے کیا جا سکے گا۔ روزانہ اٹھارہ ہزار گاڑیاں اس موٹروے کو استعمال کریں گی۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ ایکٹ کے تحت اس منصوبے کا بھی اہم ترین نکتہ یہی ہے کہ یہ منصوبہ بھی 18 مہینوں میں مکمل ہو گا ۔

    ان دونوں خبروں میں جو چیز مشترک ہے‘ وہ آخری اٹھارہ ماہ ہیں۔کہا جا رہا ہے کہ آخر وفاقی اور صوبائی حکومت کو یہ منصوبے شروع کرنے کا خیال اس وقت کیوں آیا جب آئندہ انتخابات میں صرف اٹھارہ ماہ باقی ہیں تاہم اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ دونوں منصوبے عوام اور ملک دونوں کے لئے سود مند ہیں اور ان کا فائدہ بالآخر عوام کو ہی ہو گا۔ مسلم لیگ ن تو اگرچہ پنجاب میں اس طرح کے کئی ترقیاتی منصوبے شروع اور مکمل بھی کر چکی ہے لیکن خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت تھی۔ یہ بنیادی طور پر ایسے بڑے منصوبوں کے حق میں نہ تھی اور اسی لئے اس کے سربراہ عمران خان ہر دوسرے جلسے اور بیان میں میاں صاحبان کو موٹروے جیسے منصوبوں کے طعنے ضرور دیتے تھے۔

    اسی طرح میٹرو بسوں ‘ انڈرپاسوں وغیرہ پر بھی کڑی تنقید کی جاتی رہی اور کہا جاتا کہ ایسے بڑے منصوبے عوام کی فلاح کے لئے نہیں بلکہ اپنی جیبیں بھرنے کے لئے شروع کئے گئے۔ اب تین سال گزرنے کے بعد جبکہ الیکشن میں دھاندلی والا ایشو بھی دب چکا ہے‘ دھرنے کے ذریعے اقتدار میں آنے کی کوشش بھی ناکام ہو چکی ہے اور پاناما لیکس پر بھی حکمران جماعت کو ٹف ٹائم
    نہیں دیا جا سکا‘تحریک انصاف کے پاس میگا پراجیکٹس کے اعلانات اور ان کی تکمیل کاہی واحد راستہ بچا تھا ۔

    عمران خان نے گزشتہ روز فرمایا‘ امیر اور غریب کے درمیان فرق بڑھ رہا ہے۔ انہیں کوئی بتائے کہ یہ فرق صرف پنجاب یا سندھ میں نہیں خیبرپختونخوا میں بھی اتنا ہی بڑھ رہا ہے ۔خان صاحب کو معلوم ہے بقایا اٹھارہ ماہ میں ان کے پاس جادو کی کوئی ایسی چھڑی موجود نہیں جس کے ذریعے وہ پسے ہوئے عوام کو خوشحال کر سکیں؛ چنانچہ کڑوی گولی کھانے کے مصداق انہیں بھی موٹروے جیسے منصوبوں کا سہارا لینا پڑا جن پر وہ گزشتہ بیس برس سے تنقید بھی کرتے آ رہے ہیں اور سفر بھی۔ اگر وہ یہ کام پہلے کر دیتے تو سوات موٹر وے سے عوام اور خطے کو فوائد اب تک ملنا شروع ہو جاتے۔ موٹروے کی تکمیل کے بعد چالیس سے زائد مقامات کی اہم اور بڑی منڈیوں تک رسائی ممکن ہو جائے گی اور ان چالیس منڈیوں تک رسائی ہونے کا مطلب ہزاروں لاکھوں افراد کے معاش میں بہتری آنا ہے۔

    شکر ہے کہ آج تحریک انصاف کی حکومت کو یہ احساس ہو گیا ہے کہ موٹروے کے کیا فوائد ہیں اور اگر انہوں نے اس طرح کے منصوبے مکمل نہ کئے تو کہیں آئندہ الیکشن میں عوام انہیں بالکل ہی فارغ نہ کر دیں۔ غربت‘ بے روزگاری اور مہنگائی کے حوالے سے دوسروں پر تنقید کرنا تو بہت آسان ہے لیکن عملی طور پر ان پر قابو پانا یا انہیں کم کرنا آسان نہیں۔ عمران خان جن امیدوں کے ساتھ جلوہ افروز ہوئے تھے‘ لوگوں کو یقین تھا کہ وہ کچھ نہ کچھ ایسا کریں گے کہ ان کے دن بدل جائیں گے اور تبدیلی کے نعرے کو عملی سانچے میں ڈھال کر اپنے لئے آئندہ الیکشن میں کامیابی کا راستہ ہموار کر لیں گے۔ ایسا تو مگر نہ ہوا البتہ اسی جماعت کی نقالی شروع کر دی گئی جس پر تنقید کی جاتی رہی۔ اس حوالے سے حکمران جماعت نے بہت بڑا کارڈ کھیلا ہے۔

    وقت تو ان کے پاس بھی ڈیڑھ سال کا ہی بچا ہے لیکن وزیراعظم نے صحت جیسے اہم ایشو کو چنا ہے اور ساتھ ہی اسے کسی ایک صوبے تک بھی محدود نہیں رکھا۔ ہسپتالوں کے حوالے سے عمران خان کو زیادہ بہتر تجربہ حاصل تھا۔ وہ شوکت خانم کو کامیابی سے چلا بھی رہے ہیں‘ اپنے صوبے میں مگر وہ صحت کے شعبے میں ایسی کوئی انقلابی تبدیلی نہ لا سکے۔ وفاقی حکومت نے یہ سہرا اپنے سر باندھ لیا ہے۔ اگر واقعی ہر صوبے میں ایسے جدید ہسپتال بہترین سہولیات کے ساتھ وقت مقررہ میں مکمل کر دئیے گئے تو یہ منصوبہ جہاں عوام کو ریلیف پہنچائے گا وہاں حکمران جماعت کے ووٹ بینک میں زبردست اضافہ کرے گا۔ یہی کام خان صاحب کرتے تو انہیں بھی پذیرائی ملتی ‘ انہیںمگر ان کے دوستوں نے انہیں مخالفین پر تنقید کے نشتر برسانے اور جلسے جلوسوں میں مصروف رکھا۔ خان صاحب کو بھی احساس ہوگیا ہے کہ وقت بہت ضائع ہو چکا‘ اب کچھ کرنے میں ہی عافیت ہے۔

    میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں‘ دونوں حریفوں کی اس سیاسی جنگ میں بہرحال فائدہ عوام کو ہی پہنچے گا۔ ایسے کام اگر پہلے اٹھارہ ماہ میں کئے جاتے‘ تو یہ تنقید ان پر نہ ہوتی کہ اب الیکشن کے قریب عوام کا خیال کیوں آ گیا ہے۔ وزیراعظم کو دیکھنا ہو گا کہ ان کے اعلانات صرف اعلانات ہی نہ رہ جائیں‘ ہسپتالوں کا اتنا بڑا نیٹ ورک بنانا آسان نہیں ۔ موجودہ سرکاری ہسپتالوں کا احوال سب کے سامنے ہے۔ کرپشن ‘ٹھیکیدار اور ڈرگ مافیا سے انہیں کیسے نمٹنا ہے‘ اس کے لئے انہیں اسی جذبے سے کام کرنا ہو گا جس جذبے سے شہبازشریف میٹرو بس اور اورنج ٹرین کے لئے کام کرتے ہیں۔

    محض چند تعمیراتی ڈھانچے اگر الیکشن سے قبل کھڑے کر بھی لئے گئے تو انہیں واقعتاً الیکشن سٹنٹ سے تعبیر کیا جائے گا۔ عمران خان کو بھی اپنے طرز سیاست پر نظر ثانی کرنا ہو گی۔ چاہے وہ تنقید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں لیکن عوامی فلاح کے ایسے منصوبوں میں صرف اس لئے مزید تاخیر نہ کریں کہ لوگ کہیں گے کہ وہ حکمران جماعت کی نقالی کر رہے ہیں۔سنا ہے کہ تحریک انصاف میں اس معاملے میں بھی دو دھڑے بن چکے ہیں۔ ایک دھڑا احتجاجی سیاست جبکہ دوسرا تعمیری سیاست پر مصر ہے۔عمران خان کو پہلے دھڑے سے خود کو بچانا ہو گا وگرنہ عوام ان کا اگلے انتخابات میں دھڑن تختہ کر دیں گے۔

  • شاباش خیبر پختون خواہ اسمبلی-انصار عباسی

    شاباش خیبر پختون خواہ اسمبلی-انصار عباسی

    Ansar-Abbasi-1

    خیبر پختون خواہ اسمبلی کو خراج تحسین جس نے سود کے خاتمہ کے لیے قانون سازی کرنے کا ارادہ کر لیا ہے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں چاہے وہ تحریک انصاف ہو یا پیپلز پارٹی، ن لیگ ہو، قومی وطن پارٹی یا عوامی نیشنل پارٹی سب نے ایک ایسے مسودہ قانون کی مکمل حمایت کی جس کا مقصدصوبہ بھر میں سود کے کاروبار کوخلاف قانون قرار دینا اور اس میں ملوث افراد اور نجی کمپنیوں کو دس سال تک سزا دینے کی تجویز ہے۔ خبر کے مطابق گزشتہ ہفتہ پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن فخر اعظم، قومی وطن پارٹی کے سلطان محمد خان اور تحریک انصاف کے محمود جان نے اس سلسلے میں ایک مسودہ قانون خیبر پختون خواہ اسمبلی میں پیش کیا جس کی اسمبلی میں موجود تمام اراکین نے حمایت کی۔

    اس مسودہ قانون کو فوری پاس ہو جانا تھا لیکن فیصلہ یہ ہوا کہ مشاورت کے بعد مسودہ میں مزید بہتری لائی جائے اور دوبارہ اسمبلی میں پیش کر کے قانون سازی کی جائے۔ اسمبلی میں موجود حکومت اور اپوزیشن کے تمام رہنمائوں نے سودی کاروبار کے خاتمہ کے لیے اس کوشش کو سراہا اور اپنی حمایت کا یقین دلایا۔ خبر کے مطابق اسپیکر پختون خواہ اسمبلی اسد قیصر نے اراکین کو بتایا کہ انہیں کئی افراد
    نے شکایت کی کہ کس طرح سودی کاروبار میں شامل افراد اور نجی کمپنیاں لوگوں کی زندگیوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔

    اسد قیصر کے مطابق سودی کاروبار میں استحصال کی یہ حالت ہے کہ انہیں ایک شخص ملا جس نے شکایت کی اُس نے ایک فرد سے چار لاکھ روپیہ قرضہ لیا لیکن واپس چوبیس لاکھ روپیہ کرنا پڑے۔ یعنی چار لاکھ کے قرض پر اُس شخص کو بیس لاکھ روپیہ سود ادا کرنا پڑا۔ ایک اور شخص نے شکایت کی کہ اُسے سود پر آٹھ لاکھ کی گاڑی پچاس لاکھ میں فروخت کی گئی۔

    خیبر پختون خواہ اسمبلی نے اسی سیشن کے دوران ایک قرارداد بھی متفقہ طور پر پیش کی جس میں وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ قانون سازی کے ذریعے سودی کاروبار کو پاکستان بھر میں خلاف قانون قرار دیا جائے۔ سود کے خاتمہ کے لیے اگرچہ وفاقی حکومت کا کردار قلیدی نوعیت کا ہو گا لیکن خیبر پختون خواہ اسمبلی جو کرنے جا رہی ہے وہ نہ صرف ایک حوصلہ افزا اقدام ہے بلکہ دوسروں کے لیے قابل تقلید بھی۔ ہو سکتا ہے خیبر پختون خواہ اسمبلی کو دیکھ کر ہی دوسرے صوبے اور مرکز کو بھی احساس ہو جائے کہ سودی کاروبار کرنے والوں کے چنگل سے کس طرح انگنت شہریوں کو بچایا جائے۔

    سود کی لعنت کا مسئلہ کسی ایک صوبہ کا نہیں بلکہ پورے پاکستان کا ہے۔ اس لعنت نے کئی افرادکی جانیں تک لے لیں، خاندان کے خاندان اجڑ گئے، اچھے خاصے کھاتے پیتے افراد کو سود نے گھر سے بے گھر اور مانگنے پر مجبور کر دیا۔ سود کے بھنور میں پھنسے مجبور افراد مختلف قسم کی معاشرتی برائیوں کے علاوہ جرائم تک میں بھی ملوث ہو جاتے ہیں۔ سود کے خاتمہ کے لیے جو کام ایک صوبائی اسمبلی کرنے جا رہی ہے وہ پارلیمنٹ یعنی قومی اسمبلی اور سینٹ کو بہت پہلے کر دینا چاہیے تھاکیوں کہ جو آئین سود کے خاتمہ کی بات کرتا ہے وہ آئین اسی پارلیمنٹ کا بنایا ہوا ہے۔

    اگر ایک صوبائی اسمبلی میں حکومتی اور اپوزیشن پارٹیاں اس بارے میں اتفاق کر سکتی ہیں تو یہی اتفاق وفاق اور دوسرے صوبوں اور متعلقہ اسمبلیوں میں ممکن کیوں نہیں ہو سکتا۔ میری رائے میں نجی طور پر سودی کاروبار کرنے والے افراد اور کمپنیوں کے ساتھ ساتھ سرکاری اور نجی بنکوں کو بھی سود سے پاک بنکاری کرنے کے بارے میں قانون سازی کی جائے۔ اس سلسلے میں خیبر پختون خواہ اسمبلی کے پاس سنہری موقعہ ہے کہ وہ سود کے خاتمہ سے متعلق مجوزہ قانون سازی میں خیبر بنک کو بھی شامل کر دے۔ کوئی صوبہ وفاقی قانون کے مطابق چلنے والے بنکوں کے بارے میں تو فیصلہ نہیں کر سکتا لیکن صوبہ کے ماتحت چلنے والے بنکوں کے ضابطہ کار اور پالیسی کو بنانے اور اُسے تبدیل کرنے کا حق اُسے حاصل ہے۔ اگر پاکستان کے ایک صوبہ کو سود سے پاک کر دیا جائے تو یہ عمل اُسے دوسرے صوبوں اور علاقوں کے مقابلہ میں نکھار دے گا۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ صوبہ خیبر پختون خواہ اسمبلی کو اس کوشش میں کامیاب کرے اور دوسروں کو بھی اپنی اپنی حدود میں سود کے خاتمہ کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

  • بروٹس! خرابی ہمارے ستاروں میں نہیں-ہارون الرشید

    بروٹس! خرابی ہمارے ستاروں میں نہیں-ہارون الرشید

    m-bathak.com-1421247288haroon-rasheed

    اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان یہ ہے ”کلکم راع وکلکم مسئول‘‘۔ ہر شخص تم میں سے حاکم ہے اور ہر شخص تم میں سے جواب دہ! سب ذمہ دار ہیں‘ ہم سب!

    اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ابراہیم لوٹ آیا ہے۔ شدید گھبراہٹ کا وہ شکار ہے اور پولیس افسروں کا کہنا ہے کہ ذہنی دبائو سے بچانے کے لیے اس سے کوئی سوال نہ کیا جائے۔ کم از کم اگلے دو دن تک۔ فیصل آباد کی پولیس نے غیرمعمولی ذمہ داری ہی نہیں‘ دردمندی کا بھی مظاہرہ کیا۔ خاص طور پر ریجنل پولیس افسر بلال کمیانہ اور ڈی پی او افضال کوثر نے۔ ہمیشہ یہ خاندان ان کا شکرگزار رہے گا۔ مسلسل اور متواتر کئی ٹیمیں تلاش میں مصروف رہیں۔ آخرکار اسے ڈھونڈ نکالا۔

    ابھی کچھ دیر پہلے وزیراعلیٰ پنجاب کے دفتر سے ایک دوست نے فون کیا۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ بے شک اغوا کے واقعات ہو رہے ہیں اور اس بات میں پولیس کے مؤقف کو من و عن تسلیم نہیں کیا جا سکتا؛ تاہم دو پہلو اس کے سوا بھی ہیں۔ ماں باپ کی سخت گیری کا شکار زیادہ تر کمسن خود گھروں سے بھاگتے ہیں۔ ان میں سے بعض جونشے کی لت کا شکار ہوتے ہیں‘ جرائم پیشہ لوگوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ پھر حکومت سے نفرت کرنے والے ہیں‘ منصوبہ بندی کے ساتھ جو مبالغہ آرائی کرتے اور مہم چلاتے ہیں۔ کچھ تصاویر انہوں نے بھیجیں کہ ملائشیا کے بچوں کو پنجابی بنا کر سوشل میڈیا پر الزامات کی بارش کی گئی۔ ایک سیاسی لیڈر کا نام بھی لیا کہ ایسے لوگوں کی وہ حوصلہ افزائی اور پشت پناہی کرتے ہیں۔

    عرض کیا: بنیادی مسئلہ اور ہے۔ پاکستان کی پولیس‘ سرے سے پولیس ہی نہیں۔ نیویارک اور لندن حتیٰ کہ جدہ‘ دبئی اور خرطوم میں ریاست کی پوری قوت کانسٹیبل کی پشت پر ہوتی ہے۔ قانون کیایک چھوٹی سی خلاف ورزی پر بھی‘ اگر وہ دھرلے تو آسانی سے قصوروار بچ نہیں سکتا۔ پاکستان میں پولیس افسر سرے سے افسر ہی نہیں‘ ”ملازم‘‘ ہے۔ طاقتوروں کے رحم و کرم پر۔ اخبار نویس‘ جج اور ایم پی اے سے ڈرائیونگ لائسنس تک طلب نہیں کیا جا سکتا۔ اس ملک میں جو دہشت گردی کا شکار ہے‘ اس بے نیازی کے متحمل ہم کیسے ہو سکتے ہیں؟ ترک پولیس‘ بغاوت کرنے والے فوجی اگر گرفتار کر سکتی ہے تو پاکستان میں یہ کیوں ممکن نہیں کہ بارسوخ لوگ بھی کسی نہ کسی درجے میں‘ اس کے خوف کا شکار ہوں۔ خوف ایک ہتھیار ہے‘ جو سلیقہ مندی کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے‘ انفرادی و اجتماعی زندگی کے ہر شعبے میں‘ کارِ سرکار میں بھی۔

    سرما کے گزشتہ موسم میں وزیراعلیٰ شہبازشریف سے ملاقات ہوئی تو ان سے عرض کیا تھا کہ 1999ء کے بعد اب تک پولیس میں بہتری کے لیے کوئی ایک قدم بھی وہ کیوں نہ اٹھا سکے۔ یہ بھی غنیمت ہے کہ خاموشی سے وہ سنتے رہے۔ سندھی لیڈروں کی طرح تاویل کی کوشش نہ کی کہ قائداعظم کے زمانے میں بھی کرپشن ہوا کرتی تھی‘ بدامنی کے واقعات ہوا کرتے۔ پانچ برس ہوتے ہیں‘ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی خواہش پر ایوان وزیراعظم جانا ہوا تو بڑھتی پھیلتی کرپشن اور سرکاری وسائل کے ضیاع پر متوجہ کرنے کی کوشش کی۔ ان کے جواب کا خلاصہ یہ تھا۔ ہمیشہ سے یہی ہوتا آیا ہے اور ہمیشہ یہی ہوتا رہے گا۔ پتھر کے دل‘اس معاشرے کا کیا ہوگا جس کے رہنمایہ انداز فکر اختیار کرلیں۔ ٹی وی پرابھی کچھ دیر قبل لطیف کھوسہ فرما رہے تھے کہ شریف خاندان امانت و دیانت سے محروم ہے۔ اقتدار میں رہنے کا ہرگز اسے کوئی حق نہیں۔ سبحان اللہ‘ آصف علی زرداری تو صلاح الدین ایوبی ہیں۔الیکٹرانک میڈیا کے دوست اگر ناراض نہ ہوں تو سوال یہ ہے کہ اس میں خبر کیا ہے؟ پیپلزپارٹی کا ایک لیڈر اور وہ بھی جناب لطیف کھوسہ ایسی ذات گرامی‘ اگر کرپشن کی بات کرے تو ناظرین کا وقت ضائع کرنے کا جواز کیا ہے ؎

    یہ امت روایات میں کھو گئی
    حقیقت خرافات میں کھو گئی

    کوئی احساس نہیں‘ ادراک نہیں‘ نتیجہ یہ کہ کوئی تجزیہ ہی نہیں‘ کوئی منزلِ مراد ہی نہیں ؎

    اس موج کے ماتم میں روتی ہے بھنور کی آنکھ
    دریا سے اٹھی لیکن ساحل سے نہ ٹکرائی

    سب جانتے ہیں کہ آدم کی اولاد نے تین بنیادی مقاصد کے لیے حکومت کا ادارہ تشکیل دیا تھا۔ امن و امان کا قیام‘ انصاف کی فراہمی اور ملک کا دفاع۔ انفرادی صلاحیتوں کا فروغ‘ معاشی و علمی ترقی‘ صحت اور آزاد خارجہ پالیسی کا انحصار بھی اسی پر ہے۔ مملکت خداداد میں قومی دفاع کے سوا‘ کس خبر پر کبھی توجہ دی گئی۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان ایک گیریژن سٹیٹ ہے تو ایک اعتبار سے بالکل درست ہے۔ سول ادارے دولے شاہ کے چوہے بن کر رہے گئے۔ خالد لونگو‘ رانا مشہود اور شرجیل میمن ایسے وزیر ملک پر مسلط ہوگئے۔ بگاڑ اورپیہم بگاڑ کے سوا پھر کیا حاصل ہوگا؟ زرداری صاحب کو شرجیل میمن اب بھی عزیز ہیں اور شہباز شریف رانا مشہود کے محافظ ہیں تو ان کی جمہوریت کو کیا شہد لگا کر چاٹا جائے۔ میاں محمد نواز شریف کا ایک عالم فاضل وزیر اشتہاری مجرم پالتا اور ان کے بل پر انتخابی مہم چلاتا ہے ؎

    خوفِ خدائے پاک دلوں سے نکل گیا
    آنکھوں سے شرمِ سرورِ کون و مکاں گئی

    حکمران ہی نہیں‘ اپوزیشن پارٹیوں کا عالم بھی یہی ہے۔ پنجاب سے تعلق رکھنے والے تحریک انصاف کے ایک ایم پی اے نے ایک مجبور خاندان کی جائیداد پر قبضہ جما رکھا ہے۔کوئی شنوائی نہیں‘ کوئی شنوائی نہیں۔

    کوئی معاشرہ‘ تہذیب‘ ترقی اور بالیدگی کی راہ پہ سفر کا آغاز ہی نہیں کر سکتا‘ اگر اس کی پولیس اور عدالتوں سے انصاف کی امید نہ ہو۔ مشکل یہ ہے کہ پیپلز پارٹی ہو یا نون لیگ‘ ترجیحات کا تمام تر انحصار‘ چند افراد‘فی الجملہ شاہی خاندان پہ ہوتا ہے۔ جمہوریت کا رونا بہت ہے اور اس کے ”حسن‘‘ کا تذکرہ بے حد مگر اسمبلیوں کی کوئی سنتا ہے اور نہ کابینہ کی۔ اقبال نے چیخ کر کہا تھا ؎

    دیو استبداد اور جمہوری بقا میں پائے کوب
    تو سمجھتاہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری

    قائد اعظم اور ان کے چند ساتھیوں‘ مہاتما گاندھی اور ان کے چند رفقا کی مستثنیات کے سوا‘ برصغیر کا سیاستدان اکثر پست رہا۔ آزادی کی تحریک نے لاکھوں نہیں تو ہزاروں اجلے سیاسی کارکن پیدا کیے‘مگر یہ غلیظ اشرافیہ۔ ان کی مگر کم ہی تربیت کی گئی۔ کارکنوں کی صلاحیت سے کم ہی فائدہ اٹھایا گیا۔ برصغیر میں قانون کی تقدیس کا تصور کبھی گہرا نہ ہو سکا۔ آج نہیں‘ لگ بھگ پون صدی پہلے اقبال نے کہا تھا ع

    ابلیس کے فرزند ہیں ارباب سیاست

    بیٹھے بٹھائے ایک دن میاں محمد شہباز شریف نے پولیس والوں اور پھر ججوں کی تنخواہیں دو گنا کر دیں۔ کس لیے‘ کس بنیاد پر؟۔ غورو فکر کے بغیر‘ مشاورت کے بغیر‘ منصوبہ بندی کے بغیر فرد واحد جب فیصلے فرمائے گا تو نتیجہ یہی ہو گا۔

    لاہور اسلام آباد موٹر وے‘ اسی معاشرے کا حصہ ہے۔ اسی پنجاب پولیس کے انسپکٹر وہاںاپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔ پھر قانون وہاں کیوں نافذ ہے؟اس لیے کہ موٹر وے پر قانون کے دائرے میں‘ آزادی عمل انہیں حاصل ہے۔ عقل کے اندھے ہیں کہ غور نہیں کرتے۔ شیکسپیئر کا وہ جملہ: بروٹس خرابی ہمارے ستاروں میں نہیں‘ ہم میں ہے۔

    یہ ہمارے لیڈر ہیں‘آئین اور قانون کی عمل داری جو قائم نہیں ہونے دیتے… اور یہ ہم ہیں جو ان کا احتساب نہیں کرتے۔ ہم سب ذمہ دار ہیں ‘ ہم سب۔

    اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان یہ ہے” کلکم راع و کلکم مسئول‘‘۔ ہر شخص تم میں سے حاکم ہے اور ہر شخص جواب دہ!
    پس تحریر: ٹی او آر کمیٹی سے ایم کیو ایم بھاگ گئی۔ بابر غوری اور فاروق ستار سے اسحق ڈار کا رابطہ ہے۔ دبئی میں آصف علی زرداری سے بھی وہ مل چکے ۔ سیاسی حکمت عملی تشکیل دینے والے بزرجمہر بدلتی ہوئی صورتحال کو سمجھ رہے ہیں ؟

  • وسیع تراصلاحاتی ایجنڈہ خواب تھا خواب رہے گا-انصار عباسی

    وسیع تراصلاحاتی ایجنڈہ خواب تھا خواب رہے گا-انصار عباسی

    Ansar-Abbasi-1
    وزیر اعظم میاں نواز شریف کی حکومت خوش ہے کہ ہم نے میٹرو بس چلا دی، میٹرو ٹرین بنانے کا بھی فیصلہ کر لیا، موٹر وےکے جال کو ملک بھرمیں پھیلایاجا رہاہے، بجلی پیدا کرنےکےنئے پلانٹ لگ رہے ہیں، پاک چائینا راہداری کے منصوبوں پر بھی کام ہو رہا ہے، رنگ روڈز، پل ، انڈرپاس بنائےجارہےہیں۔لیکن جب کوئی حکمرانوں سے سوال پوچھتا ہے کہ آپ نے اپنے ڈھائی سالہ دور میں اداروں کو مضبوط بنانےکےلیے کون کون سی اصلاحات کیں تو اُن کی سٹی گم ہو جاتی ہے۔ وہ آئیں بائیں شائیں کرنےلگتے ہیں۔

    اب تک حکومت کاسارا زور ترقیاتی منصوبوں تک محدود رہا جبکہ عوام کی زندگیوں میں بہتری لانےاور ان کے حقوق کے حصول کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل جامع اصلاحاتی ایجنڈا کوئی اہمیت حاصل نہ کر سکا۔ حکومت اپنے بقیہ دور حکومت میں اس سلسلے میں کیا کرتی ہے اس کےلیے سال 2016 ہی حکمرانوں کو یہ موقع فراہم کرتاہے کہ وہ اس انتہائی اہمیت کے حامل اس فرض کو نبھائیں اس سے پہلے کہ بہت دیرہو جائے۔ عوام کو اگر بہتر سفری سہولتوں کی ضرورت ہے، وہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا جلد از جلد خاتمہ چاہتے ہیں، انہیں اونچی عمارتیں ، خوبصورت پل، ائیر کنڈیشنڈ بسوں یا جدید ٹرین سسٹم چاہیے تو اس سے کہیں زیادہ لوگ جلد انصاف کی فراہمی کےلیے ترس رہے ہیں۔ وہ پولیس اور سول سروس کے موجودہ نظام سے انتہائی تنگ ہیں۔ انہیں جھوٹے مقدمات اور جعلی ایف آئی آرز کا سامنا ہے۔ وہ عزت کے ساتھ میٹرو میں سفر تو کرتےہیں لیکن جب وہ اس سفر کے بعد تھانہ کچہری یا کسی سرکاری دفتر میں پہنچتے ہیں تو انہیں ذلیل کر دیاجاتاہے۔ اُن کو جائز کام کےلیے بھی سفارش یا رشوت کی ضرورت ہوتی ہے۔ سرکاری ادارے اپنا کام ذمہ داری سے ادا کرنے کی بجائے عوام کی مشکلات اور شکایات کے حل کےلیے کچھ ایسا طرز عمل اپنائے ہوئے ہیں کہ جیسے اپنا کام کر کے وہ لوگوں پر احسان کر رہے ہوں۔ لوگ اچھی تعلیم ، بہتر طبی سہولت، قانون کی حکمرانی، میرٹ کے قیام اور سفارش کا خاتمہ چاہتے ہیں جس کے لیے institutional reform )اداروں کی مضبوطی کے لیے اصلاحات ) کی اشد ضرورت ہے۔

    پاکستان تحریک انصاف کی احتجاجی سیاست کے دبائو کےنتیجے میں حکومت نے 2014 میں انتخابات کے سسٹم میں اصلاحات کےلیے کمیٹی بنائی جس نے 2015 میں کافی کام کیا اور امید یہ ہے سال 2016 میں ان اصلاحات کو عملی جامع پہنانے کے لیے قانونی اور آئینی ترامیم اتفاق رائے سے پارلیمنٹ سے منظور کروا لی جائیں گی۔ اس سے کم از کم انتخابی عمل کو صاف شفاف بنانے میں مدد ملے گی۔ جہاں تک وسیع تر اصلاحاتی ایجنڈے کا تعلق ہے اُس پر کچھ نہ کچھ کام تو ہوا لیکن جو اہمیت اور ترجیح ان کو ملنی چاہیے تھی وہ نہ مل سکی۔

    2016 میں اگر نواز شریف حکومت کا رویہ پہلے والا رہا تو پھر موجودہ دور حکومت میں گورننس اور سرکاری اداروں کی کارگردگی میں بہتری کی امید رکھنا بے کار ہو گا۔ نئے سال کے دوران بہت کچھ ہو بھی سکتا ہے لیکن اس کےلیے اپوزیشن خصوصاً عمران خان صاحب کو اصلاحاتی ایجنڈے پر عمل درآمد کرنےکے لیے خیبر پختون خوا پر توجہ دینےکے ساتھ ساتھ وفاق حکومت پرپریشر ڈالنا ہو گا۔ اس سلسلے میں میڈیا کا کردار بھی بہت اہم ہو گا۔ اگر اپوزیشن اور میڈیا اس سلسلے میں اپنا کردار ذمہ داری کے ساتھ ادا کرتے ہیں اور اصلاحات کے نفاذکےلیے ایک مہم چلاتے ہیں تو 2016 پاکستانیوں کی قسمت بدلنے کے لیے بہت اہم ہو گا۔ اصلاحات کے لیے پولیس اور سول سروس کو فوری طور پر غیر سیاسی اور بیرونی مداخلت سے پاک کرنے کے ساتھ ساتھ ایک ایسا نظام وضع کرنے کی اشد ضرورت ہے جہاں ہر افسر کو اس کی اہلیت، تجربہ اور ٹریننگ کے مطابق اُس ادارے اور پوسٹ پر تعینات کیا جائے جہاں وہ بہترین پرفارمنس دےسکے۔ سول سروس اور پولیس میں بیرونی یا سیاسی مداخلت کی وجہ سے پاکستان کو ایک ایسے المیہ کا سامنا ہے جہاں کوئی سرکاری ادارہ اپنا کام بہتر انداز میں اس لیے کرنےسے قاصر ہے کیوں کہ صحیح جگہ میں صحیح افسر (right man for the right post) کی تعیناتی کی بجائے افسروں کو ان کے تعلقات اور حکمرانوں سے وفاداری کی بنا پر حکومتی عہدے دیے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ سے وفاقی اور صوبائی سطح پر پالیسی میکنگ اور فیصلہ سازی کا عمل تبا ہ ہو چکا ہے جبکہ ہر افسر عوام کی بجائے حکمرانوں اور طاقت ور طبقوں کو خوش کرنے میں لگا ہوا ہے۔ وفاقی وزیر احسن اقبال کی زیر نگرانی پلاننگ کمیشن سول سروس ریفارمزپر کچھ عرصہ سے کام تو کر رہا ہے لیکن خطرہ یہ ہے کہ ان کی تیار کردہ اصلاحاتی رپورٹس کہیں ماضی کے سول ریفارمز کمیشن اور کمیٹیز کی تیار کردہ موٹی موٹی جلدوں میںلپٹی رپورٹس کی طرح سرکاری الماریوں کی زینت ہی نہ بن کر رہ جائیں۔اس کے ساتھ ساتھ جلد انصاف کو یقینی بنانے اورایف آئی آرکے نظام کی اصلاح کےلیےپاکستان کے کرمنل جسٹس سسٹم میں بنیادی تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے۔ ن لیگ نے اپنی 2013 کی الیکشن مہم میں وعدہ کیا کہ وہ جلد اور سستے انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانےکےلیے ضروری اصلاحات لائے گی لیکن اب تک تو ایسا نہ ہو سکا۔ کیا یہ کام 2016 میں ممکن ہو گا؟ اس بارے میں صورت حال غیر یقینی ہی رہے گی۔

    2014 اور 2015 کے دوران وفاقی وزارت قانون کے اُس وقت کے سیکرٹری بیرسٹر ظفراللہ خان نے کرمنل جسٹس سسٹم کی بہتری، جلد انصاف کی فراہمی، جھوٹے اور غیر اہم مقدمات کی روک تھام کےلیے موجودہ قوانین میں تبدیلیوںکے ساتھ ساتھ کچھ نئے قانون تجویز کئے۔ وزیر اعظم صاحب کو ایک سے زیادہ بار بریفنگز بھی دی گئیں لیکن یہ اہم ترین کام حکمرانوں کی وہ توجہ حاصل نہ کر سکا جو میٹرو منصوبے کو نصیب ہوا۔ 2016 میں کیا نواز شریف حکومت ان مجوزہ قوانین اور ترامیم پر حتمی نتیجے تک پہنچ پائے گی؟؟ اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

    کرپشن کے خاتمےکے لیے پی پی پی اور ن لیگ نے 2007 میں چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کرتے ہوئے وعدہ کیا تھا کہ سیاسی مصلحتوں کے شکار نیب کو ختم کر کے بلاامتیاز احتساب کے لیے ایک آزاد اور خودمختار کمیشن بنایا جائے گا۔ آٹھ سال گزر گئے جس کے دوران پی پی پی نے اپنا دور حکومت مکمل کیا اور ن لیگ نے حکومت میںاپنے ڈھائی سال پورے کر لیے لیکن دونوں پارٹیاں اپنا یہ وعدہ وفا کرنے میں ناکام رہیں۔ نویں سال میں کیا آزاد اور خودمختار کمیشن بن جائے گا؟؟ یہ ممکن نظر نہیں آتا اور اس کی ایک بنیادی وجہ 2014 کی لندن سازش ہے جس نے حکمراں پارٹی کو یہ باور کرا دیا ہے کہ اُسے پی پی پی کو کسی صورت ناراض نہیں کرنا۔ یعنی پی پی پی کے گزشتہ دور کی کرپشن کو بھول جانا بہتر ہے بصورت دیگر ن لیگ کسی نئی سازش کی صورت میں اپنی حکومت شاید قائم نہ رکھ سکے۔

    یہاں ٹیکس ریفارمزکے متعلق پاکستان کے اندر سے زیادہ بیرونی دنیا ، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک وغیرہ کا دبائو ہے جس کی وجہ سے وزارت خزانہ اور ایف بی آر آہستہ آہستہ ٹیکس اصلاحات کو نافذ کرنے میں مصروف ہیں۔ کسی انقلابی اقدام کی تو یہاں توقع نہیں لیکن 2016 کے دوران ملک میں ٹیکس نادہندگان کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی کوششیں جاری رہیں گی۔ مضبوط پارلیمنٹ ہمیشہ سے یہاں ایک خواب رہا۔ پارلیمنٹ کو ہمیشہ ربرا سٹمپ کے طورپر حکومتوں اور حکمرانوں نے استعمال کیا۔ پارلیمنٹ کی مضبوطی کا تعلق قومی اسمبلی یا سینیٹ میںکی جانے والی تقریروں سے کم اورپارلیمانی کمیٹیوں کو ایسے اختیار دینے سے زیادہ ہے جو پارلیمنٹ و حکومت اور اس کے اداروں پرایک ایسے نگراں کا کردار ادا کرنے کا حق دیتا ہے جس کے ذریعے عوامی فلاح اور مفاد کو ہر فیصلے میں فوقیت دی جاتی ہے ۔ افسوس کہ پاکستان کی پارلیمنٹ نہ گزرے کل مضبوط تھی اور نہ ہی وہ آنے والے کل میں اس کی مضبوطی کی کوئی توقع ہے۔

    نوٹ: میرا یہ کالم جنگ گروپ کے سالانہ میگزین ’’کیسا ہو گا 2016 ‘‘ میں شائع ہوا۔ میری توقع کے مطابق نواز شریف کی حکومت اصلاحات اور اداروں کی مضبوطی کے لیے نہ پہلے سنجیدہ تھی نہ اب ہے۔ حکومت کا سارا زور تختیاں لگانے اور سڑکیں بنانے پر ہے۔ بغیر اصلاحات اور نظام کی بہتری کے عوام کی زندگیوں میں بہتر تبدیلی کیسے آئے گی یہ وہ سوال ہے جس کی پاکستانی حکمرانوں کو نہ پہلے فکر تھی نہ اب ہے۔

  • ملاکنڈ ڈویژن پر ٹیکس کا نفاذ ظالمانہ اقدام کیوں؟-ارشد اللہ

    ملاکنڈ ڈویژن پر ٹیکس کا نفاذ ظالمانہ اقدام کیوں؟-ارشد اللہ

    tmg پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 247 کے مطابق ملاکنڈ ڈویژن کو ٹیکس فری زون کی آئینی حثیت حاصل ہے۔ 1973ء کے آئین میں متفقہ طور پر یہاں کے باشندوں کو ضمانت دی گئی تھی کہ ان سے کوئی ٹیکس نہیں لیا جائے گا۔ ملاکنڈ ڈویژن صوبے کے زیر انتظام قبائلی علاقہ (پاٹا) ہے جس میں سات اضلاع ملاکنڈ ایجنسی، سوات، بونیر، شانگلہ، دیر لوئر، دیر اپر اور چترال شامل ہیں۔

    ملاکنڈ خیبر پختونخوا کا رقبے اور آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا ڈویژن ہے اور گوناگوں مسائل سے دوچار اور بنیادی سہولیات سے محروم چلا آ رہا ہے. ڈویژن میں شامل سات اضلاع گذشتہ 8 سال سے پے درپے قدرتی آفات سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں. 2009 میں دہشت گردی کے عفریت نے پورے ملاکنڈ ڈویژن کا نقشہ بدل کر رکھ دیا. کم و بیش 35 لاکھ لوگوں نے صوبے اور ملک کے دوسرے شہروں کی جانب ہجرت کی. ان کے گھر بار، کاروبار اور فصلیں تباہ ہوگئیں، اور معاشی طور پر ملاکنڈ ڈویژن کے عوام خط غربت سے بھی نیچے چلے گئے. آٹھ سال گزرنے کے باوجود بھی یہاں کے لوگوں کی معاشی حالت سدھرنے کا نام نہیں لے رہی.

    آپریشن راہ راست کامیاب ہونے کے بعد ملاکنڈ ڈویژن کے عوام گھروں کو واپس آئے لیکن ان کی مشکلات کم ہونے کے بجائے بڑھ گئیں. 2010ء میں تباہ کن سیلاب عوام کے لیے ڈرائونا خواب بن کر سامنے آیا، اور ڈویژن کا انفراسٹرکچر ایک دن میں دریا برد ہوگیا. دریا کنارے قائم آب پاشی و آب نوشی کے سینکڑوں پراجیکٹس خاک میں مل گئے. لاکھوں روپے کی آمدن دینے والے پھلوں کے باغات مالکان اراضی کا منہ چڑانے لگے. کاروبار ختم ہو کر رہ گیا، آمدورفت کے لیے قائم کردہ رابطہ پل اور سڑکیں بڑی تعداد میں ایسے کٹے کہ لوگوں کا ایک دوسرے سے رابطہ ہی منقطع ہوگیا.

    خدا خدا کرکے انفراسٹرکچر کچھ بحال ہوا تو 2015ء کے خوفناک زلزلہ نے اسے پھر سے تباہی سے دوچار کر دیا. زلزلے سے ملاکنڈ ڈویژن کے ساتوں اضلاع بری طرح متاثر ہوئے. سینکڑوں لوگ لقمہ اجل اور ہزاروں زندگی بھر کے لیے معذور بن گئے. گھر خالی کھنڈرات کا منظر پیش کرنے لگے جن کی بحالی کےلیے لوگ آج بھی حکومتی امدادی پیکج کے منتظر ہیں. پے درپے قدرتی آفات نے یہاں کے عوام کو روٹی کے ایک ایک لقمے کے لیے پاپڑ بیلنے پر مجبور کردیا، حالات سے مایوس ہوکر ایک بڑی تعداد نے خلیجی ممالک میں محنت مزدوری کے لیے رخ کیا، اور باقی ماندہ لوگ کاروبار اور زراعت کی بحالی کی تگ و دو میں لگ گئے.

    relief-work-idps-swat ورلڈ بینک کے اعدادو شمار کے مطابق ملاکنڈ ڈویژن میں انفراسٹرکچر کی بحالی کے لیے کم از کم 70 ارب روپے کے پیکج کی ضرورت ہے. بڑی تعداد میں دشہت گردی سے متاثرہ سکول ابھی تک بغیر کسی عمارت کے قائم ہیں، اور بچے سردی و گرمی میں کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں. بنیادی مراکز صحت کی عمارات بھوت بنگلوں میں تبدیل ہوگئی ہیں. اور طبی عملے کی عدم دستیابی پر نوحہ کناں ہیں. دہشت گردی، سیلاب اور زلزلے سے متاثرہ گھروں کے مکین تاحال حکومتی پیکیج کی راہ تک رہے ہیں.

    شٹرڈائون ہڑتال کا ایک منظر
    شٹرڈائون ہڑتال کا ایک منظر

    ایسی صورتحال میں نہ جانے حکومت کو کیا سوجھی کہ اس نے کسٹم ایکٹ کی صورت میں ملاکنڈ ڈویژن کے عوام پر ڈرون حملہ کردیا. عجلت میں کیے گئے فیصلے کے مضمرات اب سامنے آ رہے ہیں. ڈویژن کے عوام میں مرکزی و صوبائی حکومت کے خلاف سخت غم و غصہ پایا جارہا ہے. گذشتہ تین ماہ سے ملاکنڈ دویژن کے عوام اور کاروباری طبقہ بشمول سیاسی جماعتیں کسٹم ایکٹ کے نفاذ کو روکنے اور واپس لینے کے لیے جدوجہد اور احتجاج کر رہی ہیں لیکن صوبائی و وفاقی حکومت پروں پر پانی نہیں پڑنے دے ر ہی. صوبائی حکومت کی غلطی سے نافذ شدہ کسٹم ایکٹ اب خود صوبائی حکومت کے لیے سوہان روح بنا ہوا ہے. وفاقی حکومت صوبے میں برسر اقتدار اور ملاکنڈ ڈویژن کے اکثر اضلاع میں جیتنے والی پارٹی پاکستان تحریک انصاف کو بند گلی میں دھکیلنے میں کامیاب ہوچکی ہے جس سے باہر نکلنا بظاہر پی ٹی آئی کے لیے ناممکن ہوچکا ہے. خود صوبائی حکومت میں شامل اتحادی جماعت، جماعت اسلامی کسٹم ایکٹ کے نفاذ پر سیخ پا ہے اور پی ٹی آئی اور نون لیگ دونوں کو کسٹم ایکٹ کے نفاذ میں برابر کا حصہ دار قرار دے رہی ہے.

    11 سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ملاکنڈ ڈویژن میں ایک لاکھ سے زیادہ نان کسٹم پیڈ گاڑیاں چل رہی ہیں جن کے مستقبل پر اب سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔ حکومت اگرچہ ایک ٹیکس لگانے کی بات کر رہی ہے لیکن عملا یہ پورا منصوبہ ہے جس سے بتدریج ملاکنڈ ڈویژن کو ٹیکس کے شکنجے میں لایا جائے گا۔ اس کے بعد ایکسائز ٹیکس، پراپرٹی ٹیکس، سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس سمیت درجن بھر ٹیکسوں کا نفاذ ہوگا جو عوام کے لیے دہشت گردی، سیلاب اور زلزلے کے بعد چوتھا عذاب ثابت ہوگا جس سے پھر تاحیات نکلنے کا کوئی امکان نہیں۔ ایسے میں یہاں کے عوام بجا طور پر وفاقی و صوبائی حکومت سے شکوہ کناں ہیں کہ ملاکنڈ ڈویژن کے عوام نے کیا گناہ کیا تھا جس کی پاداش میں یہاں کے شہریوں کو پیکیج دینے کے بجائے ان کے رزق پر لات مارنے کی منصوبہ بندی کی گئی.

    1973ء کے آئین میں ملاکنڈ ڈویژن کے عوام کو ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا لیکن شریفوں اور تبدیلی لانے والے کے سرخیلوں کا مزاج موسم کے ساتھ کیا بدلا کہ ملاکنڈ ڈویژن پر ٹیکس کی بلا منڈلانے لگی۔ ملاکنڈ ڈویژن کے عوام کے ساتھ 1973ء کے آئین میں جو وعدہ کیا گیا تھا اس کے ساتھ مرکزی و صوبائی حکومت کھلواڑ کر رہی ہیں۔
    56393084ed7d0 دبے لفظوں میں گورنر صاحب نے ٹیکس کے نفاذ کو پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کے کہنے پر نافذ کرنے کی وضاحت کردی ہے جو کہ نہایت افسوسناک امر ہے۔ آخر ان دونوں پارٹیوں کو ملاکنڈ ڈویژن کے عوام نے کیا تکلیف پہنچائی ہے؟ دونوں پارٹیوں کے ورکرز کو چاہیے کہ وہ اپنی پارٹیوں کے قائدین سے اس حوالے سے سوال کریں تاکہ ملاکنڈ ڈویژن کے ستم رسیدہ عوام سکھ کا سانس لے سکیں

  • مودی کا یار…حامد میر

    مودی کا یار…حامد میر

    hamid_mir1

    ’’مودی کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے‘‘ یہ تھا وہ نعرہ جو آزاد کشمیر کی انتخابی مہم میں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنمائوں کی تقاریر کا محور تھا۔ وہ پیپلز پارٹی جس کی قیادت2013ءکی انتخابی مہم میں بلٹ پروف روسٹرم کے بغیر تقریر کیلئے تیار نہ تھی]2016میں آزاد کشمیر کے مختلف شہروں میں بڑی بے خوفی سے نواز شریف کو مودی کا یار قرار دے رہی تھی۔

    پیپلز پارٹی نے آزاد کشمیر کی انتخابی مہم میں بلاول صاحب کو لانچ کیا تھا جبکہ پاکستان تحریک انصاف ایک دفعہ پھر عمران خان کی مقبولیت پر انحصار کررہی تھی۔ بلاول اور عمران خان کی اکثر تقاریر کا اسکرپٹ ملتا جلتا تھا۔ دونوں نے نواز شریف کی کشمیر کاز سے مبینہ غداری اور پاناما لیکس کو موضوع سخن بنا رکھا تھا۔

    مسلم لیگ (ن)کے قائد نواز شریف آزاد کشمیر کے انتخابات سے کئی ہفتے قبل بیمار ہوگئے اور وہ غداری کے الزامات کا جواب دینے کے قابل نہیں تھے، تاہم مسلم لیگ(ن) کے وزراء نے بڑے زور و شور سے آزاد کشمیر میں انتخابی مہم جاری رکھی۔ الیکٹرانک میڈیا پر کچھ سیاسی پنڈتوں نے یہ دعوے شروع کردئیے کہ2016تبدیلی کا سال ہوگا اور یہ تبدیلی آزاد کشمیر سے شروع ہوگی۔ یہ بھی کہا گیا کہ پہلے آزاد کشمیر میں وہی جماعت انتخابات جیتتی تھی جس کے پاس اسلام آباد کی حکومت ہوتی تھی لیکن اس مرتبہ اسلام آبادکے حکمرانوں کو آزاد کشمیر میں منہ کی کھانی پڑے گی۔ طاقتور حلقوں کے ساتھ قربتوں کے دعویداران نے بند کمروں میں مکے لہراتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف اور مسلم کانفرنس کا اتحاد آزاد کشمیر میں گیم چینجر بنے گا۔

    ایسے ہی دعوئوں کو سن کر انتخابات سے چند روز قبل اس خاکسار نے آزاد کشمیر کا رخ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایک ویک اینڈ پر خاموشی سے بھوربن پہنچا۔رات اس پرفضا مقام پر گزار کر اگلی صبح مظفر آباد جا پہنچا۔ عام لوگوں سے بات چیت کیلئے حضرت سائیں سخی سہیل سرکارؒ اور حضرت شاہ عنایت ولیؒ کے مزارات پر فاتحہ کی سعادت حاصل کی۔ کچھ مقامی دوستوں سے حالات معلوم کئے۔ سرکاری افسران سے صورتحال پر آف دی ریکارڈ تبادلہ خیال کیا تو زمینی حقائق مختلف نکلے۔

    پی ایس ایف سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے ایک گروپ کو یقین تھا کہ پیپلز پارٹی کو دوبارہ اکثریت ملنے والی ہے لیکن پیپلز پارٹی کے ایک پرانے کارکن کی رائے بالکل مختلف تھی۔ موصوف مظفر آباد شہر میں اپنی پارٹی کے ایک انتخابی دفتر کے نگران تھے لیکن ان کا خیال تھا کہ پیپلز پارٹی بمشکل تین چار نشستیں جیتے گی اور تحریک انصاف کو آزاد کشمیر سے کچھ نہیں ملے گا، البتہ مہاجرین کی ایک دو نشستیں اسے مل سکتی ہیں۔ میں نے وجہ پوچھی، بزرگ سیاسی کارکن نے کہا کہ آزاد کشمیر کے لوگ سیاسی طور پر بہت باشعور ہیں۔ انہیں اچھی طرح پتہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت پاکستان کے وزیر اعظم کو مودی کا یار قر ار دے کر مودی سے نفرت کا اظہار نہیں کررہی بلکہ ڈاکٹر عاصم حسین اور ایان علی کیلئے کچھ سہولتیں حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اس بزرگ سیاسی کارکن نے بتایا کہ جب بیرسٹر سلطان محمود، خواجہ فاروق اور دیوان محی الدین جیسے لوگ تحریک انصاف میں شامل ہوجائیں اور تحریک انصاف سردار عتیق کی مسلم کانفرنس سے اتحاد کرے تو کشمیریوں کو سمجھ آجاتی ہے کہ آزاد کشمیر کی سیاست کو غلام بنانے کا منصوبہ کون بنارہا ہے؟پھر اس بزرگ نے مسکراتے ہوئے داغ کا یہ شعر پیش کیا؎
    خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
    صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
    Abdul-Rasheed-Turabi
    اسی بزرگ نے جماعت اسلامی کے ایک مقامی کارکن سے تعارف کرایا اور کہا کہ ان اسلام پسندوں سے پوچھیے ناں کہ یہ خیبر پختونخوا میں تو تحریک انصاف کے ساتھ ہیں لیکن آزاد کشمیر میں مودی کے یار کا ساتھ کیوں دے رہے ہیں؟جماعت اسلامی کے اس بے باک کارکن نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر کہا کہ سب جانتے ہیں کہ کشمیریوں کی تحریک آزادی کو سب سے زیادہ نقصان جنرل پرویز مشرف نے پہنچایا تھا جس نے پہلے واجپائی اور پھر منموہن سنگھ کے ساتھ سیکرٹ ڈپلومیسی کے ذریعہ کشمیر پر سرنڈر کا فیصلہ کرلیا تھا۔ اس لئے مقبوضہ جموں و کشمیر کے بزرگ رہنما سید علی گیلانی نے مشرف کو غدار کشمیر قرار دیا۔ پیپلز پارٹی نے اس مشرف کے ساتھ این آر او کی ڈیل کی اور تحریک انصاف نے مشرف کے ایک شریک کار سردار عتیق کے ساتھ اتحاد کرلیا۔ جماعت اسلامی کیلئے نواز شریف چھوٹی برائی ہے لہٰذا آزاد کشمیر کی جماعت اسلامی نوازشریف کے ساتھ ہے۔ پھر ان صاحب نے راز دارانہ لہجے میں کہا کہ ذرا مظفر آباد میں پار کے مہاجرین کے کیمپوں کا دورہ کریں تو آپ کو پتہ چل جائے گا کہ تحریک انصاف کو ووٹ ڈالنے کیلئے دبائو کون ڈال رہا ہے؟ مظفر آباد کے ایک ریسٹ ہائوس میں کچھ مقامی سرکاری افسران نے بھی دبے لہجوں میں بتایا کہ ایک تاثر قائم کیا جارہا ہے کہ نواز شریف نے کشمیر بیچ دیا ہے لیکن آزاد کشمیر کے لوگ غداری کے الزامات پر توجہ دینے والے نہیں وہ جانتے ہیں کہ عبدالرشید ترابی اور خالد ابراہیم جیسے لوگ مودی کے کسی یار کے اتحادی نہیں بن سکتے ۔ تمام دن مظفر آباد میں گزار کر یہ ناچیز واپس اسلام آباد چلا آیا۔

    میں نے اپنے تاثرات اور مشاہدات کو کالم کا موضوع بنانے سے گزیر کیا اور انتخابات کا انتظار کرنے لگا۔ انتخابات میں مودی کے یا ر کو میری توقعات سے کہیں زیادہ پذیرائی ملی۔ یہ انتخابات فوج کی نگرانی میں منعقد ہوئے لیکن پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف دھاندلی کے الزامات لگارہی ہیں۔ مجموعی طور پر پیپلز پارٹی کی کارکردگی تحریک انصاف سے بہتر نظر آئی۔ پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ(ن) کی 32نشستوں کے مقابلے پر جو تین نشستیں حاصل کیں وہ آزاد کشمیر سے جیتیں۔ تحریک انصاف کو آزاد کشمیر سے ایک بھی نشست نہیں ملی۔ تحریک انصاف کو ایک نشست لاہور سے ملی اور ایک صوبہ خیبر پختونخوا سے ملی۔ یہ درست ہے کہ اسلام آباد کی حکمران جماعت کو آزاد کشمیر میں سرکاری وسائل کے استعمال کا بھرپور موقع ملا لیکن یہی کچھ پیپلز پارٹی نے بھی کیا۔2011میں پیپلز پارٹی کو اسلام آبادکی حکمرانی کے باوجود آزاد کشمیر میں 21نشستیں ملیں جبکہ2016میں مسلم لیگ(ن) نے اسلام آباد کی حکمرانی کے ساتھ32نشستیں حاصل کیں اور لاہور میں ایک نشست پر شکست کھائی۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ آزاد کشمیر کے ووٹروں نے پاکستان کے منتخب وزیر اعظم پر غداری کے الزامات لگانے والوں کو مسترد کردیا۔ یہ وہ الزامات تھے جو کبھی حسین شہید سہروردی ، کبھی محترمہ فاطمہ جناح، کبھی ذوالفقار علی بھٹو اور کبھی محترمہ بینظیر بھٹو پر لگائے گئے۔ کسی پر یہ الزامات ثابت نہ ہوئے لیکن کوئی سیاستدان پاکستان سے فرار نہیں ہوا۔ فرار کون ہوا؟ مجھے بتانے کی ضرورت نہیں۔

    Barrister-Sultan-Mehmood-Chaudhry-PTI

    ایک طرف بلاول صاحب اور عمران خان نے نواز شریف کو مودی کا یار قرار دیا دوسری طرف بھارت کے ایک شہر انبالہ میں نواز شریف کے خلاف برہان مظفر وانی کو شہید قرار دینے پر مقدمہ چلایا جارہاہےاور سشما سوراج بھی نواز شریف پر اپنا غصہ دکھا رہی ہیں ۔ آزاد کشمیر کے ووٹروں نے نواز شریف پر اعتماد کا اظہار تو کردیا لیکن نواز شریف کو اس اعتماد پر پورا اترنے کیلئے دو قدم نہیں چار قدم آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کو اپنے قول و فعل سے ثابت کرنا ہوگا کہ وہ کسی فوجی ڈکٹیٹر کی طرح بیک ڈور چینل سے منصور اعجاز جیسے مشکوک لوگوں کے ذریعہ مذاکرات کے نام پر سرنڈر کے کسی آپشن پر یقین نہیں رکھتے بلکہ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے ظلم و ستم کے خلاف اتنی موثر اور بھرپور آواز اٹھائیں کہ انہیں مودی کا یار قرار دینے والوں کیلئے ان کے اپنے کہے ہوئے الفاظ ندامت کا باعث بن جائیں

     

  • سیاسی پارٹیاں اور شخصیات…منیر احمد خلیلی

    سیاسی پارٹیاں اور شخصیات…منیر احمد خلیلی

    Graphic1

    جب سیاسی پارٹیاں مضبوط اور ڈسپلن کی پابند ہوں تو شخصیات کے آنے جانے سے نظام میں خلل نہیں پڑتا۔ ٹونی بلیئر حکومت کرتے کرتے مستعفی ہو گیا تو لیبر پارٹی کی حکومت ختم نہیں ہوئی تھی گولڈن براون نے بطور وزیر اعظم چارج سنبھال لیا تھا اور کنزرویٹو پارٹی کا وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون ایک ریفرنڈم ہار گیا تو پارٹی کی حکومت ختم نہیں ہوئی بلکہ اسی پارٹی کی خاتون رہنما تھریسا مے نے وزیر اعظم کا منصب سنبھال لیا۔

    یہاں اپنے ہاں وزیر اعظم نواز شریف کی صحت ان کا ساتھ نہیں دے رہی ہے لیکن وہ بستر پر لیٹے لیٹے وزارت عظمیٰ چلانا چاہتے ہیں۔ انہیں نہ پارٹی میں کسی دوسرے آدمی پر اعتماد ہے اور نہ ہی ہمارے ملک کے جدی پشتی سیاست دان کسی کو متبادل کے طور پر ابھرنے دیتے ہیں۔ پارٹیوں کے اندر بادشاہتیں ہیں۔ پارٹی سربراہ جو فیصلے چاہتا ہے، کر دیتا ہے۔

    عمران خان نے پارٹی کے اندر الیکشن کا دھوم دھام سے اعلان کیا تھا لیکن جب الیکشن سے پہلے ہی خود ان کے دائیں بائیں والے بڑے لیڈر آپس میں لڑنے لگے۔ پہلے الیکشن ملتوی کرنے کا اعلان کیا اور اب اپنی مرضی سے اپنے چہیتوں کو پرانے عہدے بانٹ دیے۔ مسلم لیگ ن کے سیکرٹری جنرل جیسا اہم عہدہ جھگڑا صاحب کے گورنر بننے سے خالی ہوا کسی کو نہ یاد اور نہ ضرورت ہے کہ اس منصب پر الیکشن تو درکنار سلیکشن ہی کر دے۔

    وزیر اعظم اپنی بیماری میں نہ خود اپنے منصب کو چھوڑنے پر تیار ہیں اور نہ کسی اور کو آگے لانے کے روادار ہیں۔ جمہوریت جمہوریت کی جتنی گردان ہمارے سیاست دانوں کی زبان پر ہوتی ہے کہیں اور ایسی تکرار کم ہی ہوتی ہو گی لیکن جمہوریت یہ نہ اپنی پارٹیوں میں لاگو کرتے ہیں اور نہ اصلی اور کھری جمہوریت ملک میں ان کو گوارا ہے۔

    عمران خان نے ترکی کے تناظر میں بالواسطہ فوج کو دعوت دے دی ہے کہ وہ ائے تو ہم گویا مٹھائیآں تقسیم کریں گے۔ طاہر القادری اور شیخ رشید اور پرویز الہیٰ اور کسی حد تک اعتزاز احسن کا حال تو یہ ہے کہ شیطان ائے نواز شریف کی حکومت ختم کرنے تو یہ لمحہ بھر میں اس کی بیعت کر لیں۔ خان صاحب اسے اپنی پارٹی کا اعلی عہدہ دے دیں۔ چئیرمین کی پوسٹ تو اس لیے نہیں چھوڑ سکتے کہ یہاں بے اختیار ہو کر انسانی خدمت کوئی ایدھی کر سکتا ہے سیاست دان تو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سلسلہ روز و شب اور یہ طلوع و غروب آفتاب انہی کے دم سے ہے۔ وہ سیاست چھوڑ دیں تو زمین اپنی گردش بھول جائے گی اور ہواؤں کا دم نکل جائے گا دریاؤں کی روانی تھم جائے گی اور خاکم بدہن پاکستان کا وجود ختم ہو جائے گا۔ یہ اپنے ٹائیگر ون اپنے جیالوں اپنے متوالون اور اپنے مریدوں پر اپنا تسلط کھونے کے لیے ہر گز تیار نہیں ہیں۔ عمران خان پارٹی چئیرمین کا عہدہ چھوڑ دیں تو بنی گالہ کے گھر میں پانچ پالتو کتوں کے سوا ان کو کون اپنا مانے گا۔ یہی حال سب کا ہے۔

    ہمارے چوہدری شجاعت نہ درست انداز میں بات کر سکتے ہیں اور کالی عینک اتار دیں تو ان کے لیے سارا جہاں تاریک ہے لیکن پارٹی کی سربراہی سے دست بردار نہیں ہوتے۔ سیخ رشید کی سیاست اب یا تو عمران خان کے پہلو میں بیٹھنے سے زندہ ہے یا ٹی وی اینکر ہر شام انہیں ہفوات سنانے بلا لیتے ہیں تو منظر پر ہیں لیکن ایک نفری پارٹی کے سربراہ کا مان و گمان جو سوار ہے اس سے ہاتھ دھونا نہیں چاہتے۔