Tag: پیپلزپارٹی

  • جہانگیر بدر انتقال کر گئے – آصف محمود

    جہانگیر بدر انتقال کر گئے – آصف محمود

    آصف محمود جہانگیر بدر انتقال کر گئے. انا للہ و انا الیہ راجعون.
    سپریم کورٹ میں بھٹو ریفرنس کی سماعت ہو رہی تھی. مجھے بھی اس کیس میں وفاق کی جانب سے معاون وکیل مقرر کیا گیا تھا، اس لیے ہر سماعت پر میں سپریم کورٹ میں موجود ہوتا تھا.
    ایک روز جب سماعت ابھی شروع نہیں ہوئی تھی، پیپلز پارٹی کے وزیر راجہ ریاض کے بھائی راجہ نعیم نے مجھے کہا کہ پیچھے چلو تمہیں ایک مزے کی چیز دکھاتا ہوں.
    میں ان کے ساتھ اٹھ کر پیچھے آگیا.
    جہانگیر بدر کو دیکھ رہے ہیں؟ انہوں نے سوال کیا. لیکن وہ خود جہانگیر بدر کی طرف نہیں دیکھ رہے تھے. ان کے نظریں سامنے ججز کی نشستوں کی طرف تھیں.
    جی دیکھ رہا ہوں.
    وہ کیا کر رہے ہیں؟
    ٹیب پر کچھ پڑھ رہے ہیں.
    جہانگیر بدر ٹیب پر کچھ پڑھ رہے تھے اور ساتھ ساتھ جیسے کتاب کا صفحہ الٹتے ہیں ویسے ہی ٹیب پر آگے بڑھتے جا رہے تھے.
    غور سے دیکھیں، نعیم نے کہا، وہ ٹیب کو انگلی سے آپریٹ کر رہے ہیں یا انگوٹھے سے؟
    انگوٹھے سے……. . میں نے انہیں بتایا.
    کیا وہ ساتھ ساتھ انگوٹھے پر تھوک بھی لگا رہے ہیں؟
    میں نے دیکھا وہ تھوڑی دیر بعد انگوٹھے کو زبان پر لگاتے اور پھر ٹیب پر گھماتے لگتے. یہ ایسے ہی تھا جیسے بعض لوگ نوٹ گنتے گنتے انگلی زبان سے لگا کر گیلی کرتے ہیں.
    ہاں لگا رہے ہیں.
    نعیم نے مسکراتے ہوئے کہا : بس یہی دکھانا تھا. اب آپ یہ بتائیں کہ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟
    خود بتاؤں یا انہی سے پوچھ کر بتاؤں؟
    ان سے پوچھ کے بتا دیں تو زیادہ بہتر ہے. نعیم نے جواب دیا اور ہم دونوں قہقہہ لگا کر خاموش ہو گئے. ججز کمرہ عدالت میں داخل ہو چکے تھے.
    کچھ دن بعد سپریم کورٹ بار روم میں کچھ وکلاء کے ساتھ گپ شپ ہو رہی تھی، جہانگیر بدر بھی موجود تھے. ماحول خاصا خوشگوار اور بےتکلف تھا. میں نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سارا قصہ سنا کر پوچھ لیا. جہانگیر بدر َصاحب خلق خدا اب یہ جاننا چاہتی ہے کہ آپ ٹیب کو تھوک کیوں لگاتے ہیں.
    قہقہے پھوٹ پڑے لیکن سب سے اونچا قہقہہ جہانگیر بدر صاحب کا تھا.
    تکلفات اور تصنع سے قدرے بے نیاز ایک سادہ اور جینیوئن جہانگیر بدر مجھے ہمیشہ اچھے لگے. سرمایہ دارانہ سیاست میں وہ کارکن سیاست کی چند نشانیوں میں سے ایک تھے. بھٹو مرحوم کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ مجبوریوں کے ساتھ ساتھ عوامی رومان کو کسی حد تک زندہ رکھا اور جہانگیر بدر جیسے غریب کارکن کو بھی عزت دی.
    جہانگیر بدر نے بھی اس عزت کی لاج رکھی. دھوپ چھاؤں زندگی کا حصہ ہے، جہانگیر بدر ہر دو صورتوں میں اپنی جماعت کے ساتھ رہے.
    اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے. آمین

  • عوام کی سوچ کا تناظر سمجھیے – عابد حسین

    عوام کی سوچ کا تناظر سمجھیے – عابد حسین

    عابد-حسین.jpg ہمارے کئی دانشور.. خاص طور پر سوشل میڈیا کے.. اپنی سوچ کو حرفِ آخر سمجھتے ہیں. اگر کوئی پی ٹی آئی کو پسند کرتا ہے یا پی پی پی سے ذہنی مطابقت رکھتا ہے تو دونوں کے لیے.. ن لیگ کی تعریف کرنے والا.. پٹواری کے درجے سے کبھی اوپر نہیں آسکتا۔ پی پی کی کسی اچھی کاردگی کا معترف، باقی دونوں کے متعلقین کے نزدیک، بھٹوز کی ذہنی غلامی کے طعنے کا پورا پورا حقدار ہے. اسی طرح کوئی چاہے PTI کی سیاسی حکمتِ عملی کا ناقد ہو مگر عمران خان کے کسی مؤقف یا ہار نہ ماننے کے جذبے کی تعریف کر بیٹھے تو وہ جمہوریت کا دشمن اور کئی کے نزدیک بوٹ پالیشیا ہی ہوگا.

    یہی سوچ آگے بڑھ کر اُس نسلی و صوبائی عصبیت کی انتہا تک پہنچ جاتی ہے، جس میں ان دانشوروں کے مطابق پنجاب کے عوام بحیثیتِ مجموعی نواز شریف کی رعایا قرار پاتے ہیں جو بنا سوچے سمجھے صرف پنجابی ہونے کے ناتے اسے ووٹ دیتے ہیں اور سندھ کے باسی اندھے بہرے بن کر بوجہ زبان، PPP اور MQM کو ووٹ دیتے ہیں. ان کی دانش کی تان ہی اس پر آ کر ٹوٹتی ہے کہ عوام اپنے حقِ رائے دہی کا استعمال بنا سوچے سمجھے کرتے ہیں.

    مجھے حیرت ہوتی ہے کہ وہ ہمارے دیہی و شہری علاقوں کے معاشرتی, سماجی اور معاشی تانے بانے اور لوگوں کے مختلف طبقات کے اندرونی و باہمی رویوں سے کتنے واقف ہو کر ان خیالات کا اظہار کرتے ہیں، جبکہ بدیہی طور پر ہم اپنی روزمرہ ذندگی میں دیکھتے ہیں کہ کوئی بھی شخص، نہ تو اپنی ذاتی حیثیت میں، جمع تفریق کیے یا فائدہ نقصان دیکھے بنا کوئی فیصلہ کرتا ہے نہ کسی چھوٹی یا بڑی اجتماعیت میں شامل ہو کر اپنے مفاد کو پسِ پشت ڈالتا ہے. پھر یہ الزام کیوں کہ وہ بنا سوچے سمجھے ووٹ ڈال دیتا ہوگا. اس کا جواب، عام لوگوں اور مختلف طبقات کے مسائل کی تفہیم چاہے وہ کتنے ہی سطحی ہوں، اور مقامی طور پر ان مسائل کو حل کرنے کے دعوے داروں کی سیاسی حیثیت و اہمیت میں مضمر ہے. اس معاملے میں پنجاب کا ووٹر اور اندرونِ سندھ کا ووٹر فیصلہ سازی کے ایک جیسے طریقے پر عمل کرتا ہے، یعنی وہ یہ بھی دیکھتا ہے کہ ان پرانے دعوے داروں کو چیلنج کرنے والے، کس حد تک قابلِ بھروسہ ہیں. پھر وہ نئے اور پرانے دعوے داروں کو ایک آنکھ سے دیکھ کر جمع تفریق نہیں کرتا بلکہ جب تک نیا دعوے دار, پرانے سے ڈیڑھ گنا طاقتور یعنی مسائل حل کرنے کی بظاہر زیادہ استطاعت نہ رکھتا ہو، وہ کم ہی اپنا فیصلہ بدلتا ہے. اس ایک نقطہ پر مطابقت کے باوجود، اندرونِ سندھ اور پنجاب کے ووٹنگ رجحان میں بہت سی باتیں مختلف بھی ہیں جو ایک علیحدہ مضمون کا متقاضی ہے.

    اس لیے میں اس استدلال کو لغو خیال کرتا ہوں کہ عوام بحیثیتِ مجموعی بنا سوچے سمجھے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرتے ہیں اور یہ کہ مختلف سیاسی پارٹیوں کے وفادار، اندھے بہرے بن کر اپنی پارٹیوں کو ووٹ دیتے ہیں. عوام کی مجموعی ذہنیت و فیصلہ سازی کو قابلِ اعتراض نہ سمجھیے. عوام کے مختلف طبقات کی ترجیحات میں تفاوت یا تطابق ہونے کا منطقی نتیجہ، وقت کے کسی خاص لمحے یا دور میں اگر کسی ایک پارٹی کے حق میں جا رہا ہو تو، اس پارٹی کو چیلنج کرنے والی قوتوں کو اپنی اسٹریٹجی میں جوہری تبدیلی اور عوام کے چھوٹے سے چھوٹے گروہ تک، اپنی بات پہنچانے اور اس کی نظر میں اپنی وقعت بڑھانے میں ذیادہ بہتر کاوشیں کرنے کی طرف توجہ مرکوز رکھنی چاہیے. اس وقت بھی کچھ ایسی ہی صورتحال ہے.

  • ہرگلی بندگلی – ناصر فاروق

    ہرگلی بندگلی – ناصر فاروق

    ہوشیار! خبردار! ہٹو بچو!
    زرداری خاندان کا بھٹو شہزادہ بلاول ہاؤس سے نکلا ہے۔
    چھٹی کے دن کراچی والوں کی چھٹی کردی گئی، سٹی گُم کردی گئی۔
    شاہراہ فيصل سے ایم اے جناح تک سپاہیوں کے جال بچھادیے گئے۔ خبردارکوئی یہاں سے نہ گزرے۔
    ہرگلی بند گلی بن چکی تھی۔
    کنٹینرز اور قناتیں ہر جگہ ہر نظر کو مایوس لوٹا رہی تھیں۔
    ہم صحافی، جنھیں ہفتہ اتوار تو کیا عید بھی کام کام اور کام کا موقع ہوتا ہے، دوسروں کی چھٹی غنیمت ہوتی ہے، یوں کم از کم دن دو دن شاہراہیں ُپرسکون مل جاتی ہیں۔ گھر آنا جانا آسان ہو جاتا ہے۔
    مگر سولہ اکتوبر دوہزار سولہ سانحہ کارساز کی یاد میں کچھ یوں گزارا گیا کہ سانحہ ٹریفک بن گیا۔

    ہم پیپلزپارٹی کی شاہانہ ریلی کی گرما گرم خبریں سرخیوں میں جما کر دفتر سے جو نکلے، توگھر پہنچنا پزل گیم ہوگیا۔ اللہ اللہ کر کے نکلے۔ ایک ساتھی ساتھ تھا۔ صدر کی جانب بڑھے کہ کہیں سے کوئی گلی ملے گی تو پانی کی طرح بہتے ہوئے کہیں نہ کہیں نکل ہی جائیں گے۔ مگر صدر پہنچ کر پسینہ نکل آیا۔ ایک پرپیچ راستہ دائیں بائیں کرتا ہوا نامعلوم مقام کی جانب لے گیا، کسی طرح شاہراہ فیصل کا دیدار نصیب ہوا، اور فلائی اوور کی فٹ پاتھ پر جوتے ٹکائے سفید والے سنتری جی نظر آئے۔ وہ نیچے پھنسے ہوئے بھیڑ بکری جیسے ہم عوام کی گاڑیوں کو ڈیفنس کی جانب دھکیل رہے تھے۔ ٹھنڈی سانس لے کر جو آگے بڑھے تو نئے نئے راستوں سے گزرے، یہاں تک کہ قیوم آباد کی چورنگی آگئی، ہماری بڑی بہن کاگھر بھی نظر سے گزرا۔ کچھ اور آگے بڑھے تو ہمارے ساتھی کا سسرال بھی آہی گیا۔ کلفٹن والے معروف سپر اسٹور تک پہنچے تو دائیں طرف ایک راستہ بلوچ کالونی کے پُل کی جانب جاتا تھا۔ امید کی باگ تھام کرگاڑی آگے بڑھائی۔ بلوچ کالونی کے پُل پر بھی جا بجا کالی اور سفید وردی والے کالے دھن کو سفید فرما رہے تھے، اور سفید کمائی کو کالا کر رہے تھے۔ یہاں سے ايک طویل راستہ جیل روڈ کی طرف جا رہا تھا۔ یہ جان کر خیال آیا کہ کچھ دیر جیل میں بند ہو کر اس شہر کی شورا شوری سے محفوظ ہوجائیں۔ لاکھوں ووٹوں سے کروڑوں لوگوں کي یہ درگت دیکھ کر دل کڑھ رہا تھا، یقینا سانحہ ٹریفک سے دوچار سب ہی لوگوں کا براحال تھا۔

    جیل روڈ سے سوک سینٹر اور پھر نیپا تک پہنچتے پہنچتے سورج ساتھ چھوڑ چکا تھا۔ اندھیرا شہر پر چھا چکا تھا۔ شہزادے کي سواری کہاں پہنچی تھی؟ کچھ پتا نہ تھا، مگر ہم کسی طرح گھر پہنچنے ميں کامیاب ہوچکے تھے۔ یوں تو جو سانحہ کارساز کی یاد میں اہل کراچی پرگزری، وہ لمحہ بہ لمحہ اور فردا فردا بیان کی جائے تو المناک داستان بن جائے، مگر یہ ہمارے بس میں نہیں۔ یقین کیجیے، سولہ اکتوبر کی شام کراچی کی شاہراہوں پر ایک کرب کا سمندر تھا، اور تیر کے جانا تھا۔

  • بلاول بھائی کے نام – محمد عرفان ندیم

    بلاول بھائی کے نام – محمد عرفان ندیم

    عرفان ندیم اسکندر اعظم کاشمار دنیا کے ٹاپ ٹین لیڈروں اور جرنیلوں میں ہوتا ہے ۔اسکندر کا باپ شاہ فلپ مقدونیہ کا حکمران اور اس کی والدہ اولمپیاس البانیہ کی سرحد پر واقع ایک پہاڑی ریاست ایپیرس کی شہزادی تھی ۔اسکندر ابھی آٹھ سال کا تھا کہ اس کی والدہ اولمپیاس کو اس کی تعلیم و تربیت کی فکر لا حق ہو ئی ،وہ جا نتی تھی مستقبل میں اسکندر کے کندھوں پر حکمرانی کا بوجھ پڑنے والی ہے اگر اس کی مناسب تعلیم و تربیت نہ کی گئے اور اس کے اندر لیڈر شپ کی صلا حیت پیدا نہ کی گئی تو اسکندر کبھی بھی ایک اچھا لیڈر نہیں بن سکے گا ۔اولمپیاس نے ایتھنز شہر کے نو بہترین دانشوروں کا انتخاب کیا اور انہیں اسکندر کا اتالیق مقرر کر دیا ۔یہ سب علم کے پہاڑ تھے اورعلم کے مختلف میدانوں کے شاہسوار تھے ۔ان میں اولمپیاس کا ایک عزیز لا نیڈس بھی تھا جو نظم و ضبط کے حوالے سے مشہو ر تھا ،اس کے ذمے تھا کہ وہ اسکندر کو وقت کی پا بندی اور نظم وضبط سکھائے ۔اولمپیاس نے اسکندر کی سرگرمیوں کی ترتیب خو د دی تھی ۔ لا نیڈس اسکندر کو صبح بیدار کر تا اور ایک تیز اوربہادر غلا م کے ساتھ اس کی دوڑ لگواتا ،محل واپس آنے سے پہلے اسکندر مذہبی رسوما ت ادا کرتا اور اس کے بعد اسے ناشتہ دیا جا تا ۔ناشتے میں اسے جنگلی جانوروں اور پرندوں کا گوشت ،ان کی ہڈیاں اور شوربہ پیش کیا جا تا تا کہ اس کا جسم مضبوط ہو۔ لا نیڈس چھوٹی چھوٹی باتوں پر اس کی سرزنش کر تا ،اسے رنگ برنگے شاہی لباس پہننے دیتا نہ ہی اسے شاہی مہمان خانے سے مرغن غذائیں کھانے دیتا۔ اسکندر کی جاسوسی کے لیے خفیہ مخبر مقرر کیے گئے تھے جو اس کی ہر لمحہ جا سوسی کرتے اور اولمپیاس کو رپورٹ پیش کر تے تھے۔ اسکندر کے باپ نے اپنے بیٹے کو چار دوستوں کے ساتھ ارسطو کی اکیڈمی میں بھیجا، ان دوستوں میں ایک شمشیر زنی کا ما ہر، دوسرا تیر انداز، تیسرا پڑھائی سے بیزار اور چوتھا احمق اور بیوقوف تھا۔ اسکندر کو ان چاروں کے ساتھ بھیجنے کا مقصد یہ تھا کہ اسکندر مختلف انسانی مزاجوں اور رویوں سے واقفیت حاصل کر سکے اور اس میں انسانوں کو برداشت کی صلا حیت پیدا ہو سکے۔

    اولمپیاس نے ارسطو کی اکیڈمی تک بیٹے کا پیچھا کیا اورجا سوس مقرر کیے تا کہ اسکندر کسی غلط کا م میں ملوث نہ ہو جا ئے ۔اسکندر نے تین چیزوں کے ساتھ عملی زندگی میں قدم رکھا ،خنجر ،اس کا پالتو گھوڑا اور قدیم یونانی شاعر ہو مر کی کتاب۔ابتدا ء میں اسکندر کو فو ج کے کچھ حصے کی کمان دی گئی ،اسکندر نے بہادری کے جو ہر دکھائے ،وہ سپاہیوں کی بجائے خود آگے بڑھ کر حملہ کر تا اور دشمن کی صفیں چیرتا ہوا آگے تک جا گھستا ، وہ فوج سے پہلے خود آگے بڑھ کر حملہ کر نے کا عادی تھا ،سکندر کی فتوحات کو دیکھ کر جلد ہی اسے فو ج کی کمان سونپ دی گئے ۔وہ سخت محنت اور مشقت کا عادی تھا ۔وہ سقراط کے اس فلسفے کا قائل تھا کہ ایک فلسفی کو باشاہ ہو نا چاہئے یا ایک بادشا ہ کو فلسفی ہو نا چاہئے ۔اسکندر ہی وہ پہلا شخص تھا جس نے اپنے باپ فلپ کو متحدہ یونان کی تنظیم بنانے کی دعوت دی تھی اور فلپ نے یو نانی ریاستوں کا وفاق تشکیل دیا تھا ۔اسکندر اپنے اساتذہ کا بہت ادب کر تا تھا ،ایک دفعہ اسکندر اپنے استاد ارسطو کے ساتھ ایک پہاڑی راستے سے گزر رہا تھا ،آگے جنگل کا راستہ بڑا خطرنا ک تھا اور ندی کو پار کر نا خاصا مشکل تھا ،اسکندر نے ارسطو کو وہیں کھڑا کیا اور پہلے خود جا کر راستہ صاف کیا ۔ندی پا ر کرنے کے بعد ارسطو نے اسکندر سے پو چھا ’’تم نے یہ خطرہ کیوں مو ل لیا اور پہلے خود کیوں ندی میں اترے ‘‘اسکندر نے سینے پر ہا تھ رکھا اور سر جھکاکر کہا ’’معزز استاد اگر ارسطو زندہ رہا تو وہ سینکڑوں اسکندر بنا دے گا لیکن ہزاروں اسکندر مل کر بھی ایک ارسطو نہیں بنا سکتے ‘ــ‘۔

    اسکندر نے صرف 33سال کی عمر میں آدھی دنیا فتح کر لی تھی ۔وہ313 قبل مسیح یورپ کے شہر مقدونیہ سے نکلا، یو نان کو فتح کرتا ہوا ترکی اور ایران میں داخل ہوا ،دارا کو شکست دی ،وہا ں سے شام گیا ،بیت المقدس اور بابل سے ہو تا ہوا مصر پہنچا ،کچھ عرصہ بعد ایران سے ہوتا ہوا افغانستان اور وہاں سے درہء خیبر کے راستے ہندوستان میں داخل ہو ا ،ہنڈ کے مقام پر دریائے سندھ کو عبور کیا اور آگے بڑھتا حضرو تک آ گیا ،وہاں چھچھ کے نام سے ایک بستی بسائی جو آج تک موجود ہے ،اس کے بعد سکندر اعظم کی فوجیں ٹیکسلا اور راولپنڈی کی جا نب بڑھیں، جہلم اور راولپنڈی کے درمیان راجہ پورس کو شکست دی ،اپنے پیارے گھوڑے کی یاد میں پھا لیہ کا شہر بسایا ،اسی دوران ملیریا کا شکا ر ہوا ،سارے جسم پر کپکپی طاری ہو گئی ، یونانی حکماء خاطر خواہ علا ج نہ کر سکے اوروہ 323 قبل مسیح واپس مقدونیہ جاتے ہوے راستے میں انتقال کر گیا۔
    بلا ول بھٹوگزشتہ تین چار سالوں سے سیاست میں ان ہیں اور ابھی تک ان کا کام سوائے بیانات بازی کے اور کچھ نہیں ، یوسف رضا گیلانی ، راجہ پرویز اشرف ،قمر الزمان کائرہ اور خورشید شاہ جیسے سینئر سیاستدانوں کی موجودگی اب پی پی کی باگ دوڑ بلاول بھٹو کے ہاتھ میں ہے اور ہما رے دانشوروں ا نہیں ایک عظیم لیڈر ڈکلیئر کر رہے ہیں لیکن مجھے ابھی تک سمجھ نہیں آ سکا بلاول میں لیڈروں والی کو ن سی بات ہے۔ بلا ول کا عوام سے رابطے کا واحد ذریعہ 27دسمبر کا جلسہ اور ٹوئٹر ہے اور اٹھارہ کروڑ عوام میں سے صرف دس فیصد لو گ ٹو ئٹر استعما ل کرتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ2018کے الیکشن میں اگر پی پی کو گو رنمنٹ بنانے کا مو قعہ ملا تو بلاول بھٹو ہمارے وزیراعظم ہو ں گے ۔مجھے بلاول کے وزیر اعظم بننے پر کوئی اعتراض نہیں لیکن کیا بلاول خود کو بیس کروڑ عوام کا لیڈر ثبت کر سکتے ہیں ، ان میں کو ن سی ایسی بات ہے یا کو ن سی ایسی اضافی خصوصیات ہیں جن کی بنیاد پر وہ خود کو ایک لیڈر ثابت کر سکتے ہیں ۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ ان سے ذیادہ ٹیلنٹڈ، پڑھے لکھے اور با شعور نوجوان پاکستان میں موجود ہیں اور ان میں لیڈر شپ کی خصوصیات موجود ہیں۔

    بلاول بھائی آپ بھی کمال کرتے ہیں ،آپ آکسفورڈ یونیورسٹی کے گریجویٹ ہیں اور یہ سیاسی ڈرامے بازی آپ کو زیب دیتی ہے اور نہ یہ آپ کے بس کی بات ہے،آپ عمران خا ن کے تجربے سے فائدہ اٹھائیں اور عمران خان سے سبق سیکھیں۔آپ کے پاؤں ابھی تک سیاست کی دلدل سے پاک ہیں ،آپ نے ابھی تک مفادات کی گنگا میں ہاتھ نہیں دھوئے ،آپ کا وجود ابھی تک گندی سیاست سے پاک ہے ،آپ ابھی تک سیاست کی غلاظت سے دور ہیں اور آپ کا لباس ابھی تک سیاست کی بدبودار چھینٹو ں سے دور ہے ،آپ دنیا کی صف اول کی یونیورسٹی کے گریجویٹ ہیں اور آپ کے پاس وقت ،پیسہ ،عزت ،دولت ،شہرت ،وسائل اور اختیارات سب کچھ موجود ہے ،آپ سیاست کے گندے اور غلیظ جو ہڑ سے باہر نکلیں اور تعلیم پر سرمایہ کاری کریں ،آپ پورے ملک میں اسکولو ں اور کالجوں کے جال بچھا دیں ،آپ پاکستان میں دنیا کی صف اول کی یونیورسٹی قائم کردیں ،انٹر نیشنل معیار کا کو ئی ہسپتال بنائیں اور غریب عوام کے لیے کو ئی فلا حی اور ترقیاتی منصوبہ لا نچ کریں یقین کریں یہ آپ کا اس قوم پر بہت بڑا احسان ہو گا ۔

  • یہ سیاست ہے بھائی، مولوی کا یہاں کیا کام؟ احمد علی جوہر

    یہ سیاست ہے بھائی، مولوی کا یہاں کیا کام؟ احمد علی جوہر

    احمد علی جوہر آج ساڑھے گیارہ بجے دن میں مارکیٹ میں سودا سلف لینے کے لیے ایک دکان پر کھڑا تھا تو پی پی پی کے نغمے کی مخصوص دھن سنائی دی۔ آواز کی سمت نظر دوڑائی تو پیپلزپارٹی کی ایک ریلی آتی دکھائی دی۔ موٹر سائیکلوں، کاروں، سوزوکیوں اور ٹرکوں میں سوار ریلی کے شرکا کا میں نے جائزہ لیا۔

    یہ بات تو سبھی جانتے ہیں کہ کراچی میں PPP کے جلسوں اور ریلیوں میں سندھی بھائی زیادہ شرکت کرتے ہیں جن کی اکثریت گوٹھوں کے رہنے والوں کی ہوتی ہے۔ میری نظر ایک سوزوکی پر سوار کھڑے ایک باریش چہرے پر رک گئی۔ یہ کوئی معمولی باریش چہرہ، خط یا چھوٹی داڑھی والا face نہیں تھا۔ مکمل باریش یعنی داڑھی کو قینچی نہ لگانے والا سلفی چہرہ تھا۔ یہاں میرا مقصد سلفی یا داڑھی والوں پر تنقید نہیں۔ میری گزارش یہ ہے کہ چاہے بندہ سلفی ہو، دیوبندی ہو، بریلوی ہو یا اہل تشیع، اس کے سامنے جب دین کے غلبے اور اسلامی نظام کے نفاذ کی بات کی جاتی ہے، اور اس کے لیے صالح و دیانت دار قیادت کو ووٹ دینے کو کہا جاتا ہے تو کہتا ہے کہ یہ سیاست ہے بھائی، مولوی کا کیا کام سیاست میں۔ یہ کیا حکومت چلائیں گے؟ مجموعی طور پر عوام کی اکثریت کی یہی سوچ ہے چاہے مذہبی کیوں نہ ہوں۔ دیندار طبقہ پنج وقتہ نماز کا پابند ہے۔ اپنے مسلک کے مطابق دین پر عمل کرتا ہے مگر جب انتخابات کا معرکہ ہوتا ہے تو اس معاملے میں دین بھول جاتا ہے۔ووٹ ان کو دیتا ہے جو لادین، کرپٹ، بھتہ خور اور دہشت گرد ہیں۔ یہی سوچ اور رویہ ایسے فرد کو بھی صدارت اور گورنر کے منصب تک پہنچا دینے میں معاون ثابت ہوتا ہے جو کرپشن اور دہشت گردی کے حوالے سے مشہور ہوتا ہے۔

    ریلی کو دیکھتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ جب تک یہ سوچ اور رویے برقرار ہیں گے تو تبدیلی کیسے آئے گی؟

  • جلسے کے لیے سڑکوں کی بندش، مذہب یا سیاست نہیں، جہالت ہے – سبوخ سید

    جلسے کے لیے سڑکوں کی بندش، مذہب یا سیاست نہیں، جہالت ہے – سبوخ سید

    سبوخ سید سلام شہدا ریلی
    کراچی میں پیپلز پارٹی کے شہدا کو خراج عقیدت پیش کرنے کےلیے سلام شہدا ریلی کا انعقاد بہت اچھی بات ہے۔ جن لوگوں نے اس ملک میں آمریت کی تاریک سیاہ رات کو ختم کرنے کےلیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے، ہر امن پسند، قانون پسند اور جمہوریت پسند فرد کا حق ہے وہ ان لوگوں کو سلام پیش کرے۔ پیپلز پارٹی نے ایک وقت میں گونگوں کو زبان دی تھی۔ جب سارا ملک وڈیروں، جاگیرداروں، آمروں اور مولویوں کے ہاتھوں ہرغمال بنا ہوا تھا، اس اندھیری اور مایوس رات میں پیپلز پارٹی حقیقی معنوں میں عوامی جمہوری پارٹی بن کر میدان عمل میں اتری تھی۔ پھانسی گھاٹ میں بھٹو کا بہنے والا خون امر ہو گیا، اب کوئی بد باطن خریدے گئے ججوں کے ذریعے قلم کا رخ تو موڑ سکتا ہے لیکن سینہ عوام میں بصورت الہام رقم تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کرے گا تو گڑھی خدا بخش کی قبروں سے اٹھنے والی چیخ اس کےلیے صور اسرافیل ثابت ہوگی۔ بلاول کا یہ احسان ہے کہ وہ شہید بی بی کی طرح جب نکلتا ہے تو غریب اور بےبس لوگ ناچنا شروع کر دیتے ہیں اور عورتیں گاتی ہوئی سڑکوں پر نکل آتی ہیں کہ ان کا بیٹا آگیا ہے۔ سیاسی ورکر اس ملک میں صرف پیپلزپارٹی کا ہی ہے۔ ہنسے تو فضا میں رنگ بکھیر دے، روئے تو آسمان اداس کر دے۔ میری ایک خامی ہے کہ میں چاہتے ہوئے بھی پیپلز پارٹی کے بارے میں بات کرتے ہوئے اعتدال میں نہیں رہ سکتا، میرے سامنے گہرے رنگوں کے سرخ، سیاہ اور سبز پرچم میں لپٹی لاشیں آ جاتی ہیں اور میں ایک خاص کیفیت کا شکار ہو جاتا ہوں۔ اس لیے میں اس پر زیادہ بات نہیں کروں گا۔
    خراج عقیدت پیش کرنے کا یہ کیا طریقہ ہے ؟
    شہدائے جمہوریت کو خراج عقیدت پیش کرنا چاہیے لیکن شہدا کو خراج عقیدت پیش کرنے کو کیا واحد یہی طریقہ رہ گیا ہے کہ لوگوں کے راستے اور کاروبار کو بند کر کے انہیں خراج عقیدت پیش کیا جائے۔ کراچی میں سلام شہدا ریلی کے موقع پر سڑکیں بند کرنا، ملکی معیشت کی مضبوطی میں حصہ ڈالنے والے کنٹینرز مالکان سے غنڈوں کی طرز پر کنٹینرز چھین کر سڑکیں بند کرنے کے لیے استعمال کرنا، میرے نزدیک سانحہ کارساز سے بڑی دہشت گردی ہے۔
    راستے بند کرنے والوں کےلیے رسول اللہ ﷺ کا فرمان
    رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ ایمان کے بہتر درجے ہیں اور سب سے آخری درجہ یہ ہے کہ راستے کی رکاوٹ ہٹائی جائے لیکن یہاں کبھی مذہب کے نام پر اور کبھی سیاست کے نام پر معاشرے کے مستنند اور رجسٹرڈ غنڈے سڑکیں بند کر کے لوگوں کو ہمہ وقت تکلیف پہنچاتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا شخص محفوظ نہیں، وہ ہم میں سے نہیں۔
    عوام، سیاسی مذہبی جماعتیں اور ادارے غور کریں
    میں ایسی سیاست اور ایسے مذہب سے بیزاری کا اعلان کرتا ہوں جو لوگوں کو تکلیف دیتا ہو۔ یہ نہ سیاست ہے اور نہ ہی مذہب، بلکہ خلق خدا کو تنگ کرنے کےلیے شیطانی منصوبہ بندی ہے۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، جے یو آئی، تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ اس سلسلے میں باقاعدہ پالیسی بنائیں ورنہ اس ملک کے لوگ مذہب اور سیاست کے نام پر رچائی جانے والی اس دہشت گردی کے خلاف بھی کھڑے ہو جائیں گے۔ الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ کو چاہیے کہ وہ سیاسی اور مذہبی جماعتوں پر پابندی لگائے کہ وہ اپنے اجتماعات اور احتجاج کےلیے سڑکوں کو بلاک نہ کریں ۔
    قومی سوچ اور رویہ
    ہمارے ایک دوست امتیاز احمد جرمنی میں ہوتے ہیں، گذشتہ ہفتے اسلام آباد میں تھے۔ انہوں نے بتایا کہ 2004ء میں بون یونیورسٹی کی طلبہ یونین نے اپنے حقوق کےلیے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مظاہرین پلے کارڈ لیکر سڑک کے اطراف کھڑے ہوگئے۔ امتیاز احمد کہتے ہیں کہ دس پندرہ منٹ بعد میں نے سب سے کہا کہ اب ہم سڑک بلاک کرتے ہیں تو سب نے حیرانی سے مجھے دیکھنا شروع کر دیا۔ میں نے انہیں بتایا کہ ہم تو پاکستان میں ایسے ہی کرتے ہیں تو یونین لیڈر نے جواب دیا کہ ان لوگوں کا کیا قصور ہے جن کا ہم راستہ بند کرتے ہیں۔ امتیاز احمد کہتے ہیں کہ مجھے اس دن سمجھ آئی کہ قوموں کو ان کی سوچ اور رویہ بڑا کرتا ہے۔
    شہری آزادی اور شہریوں کے حقوق
    ریاست میں ہر شہری کو آزادنہ نقل و حمل کا مکمل حق حاصل ہے، وہ کیا کہتا ہے، کیا سوچتا ہے، کیا کھاتا یا پیتا ہے اور کس قسم کے مذہبی یا سیاسی عقائد رکھتا ہے۔ اس کو تحریر، تقریر اور تصویر کیسی ہو، یہ اس کا حق ہے اور یہ حق کوئی بھی کسی سے چھین نہیں سکتا لیکن اس کے حقوق جب دوسروں کو متاثر کرنا شروع کر دیں، وہاں سے اس کے حقوق ختم ہو جاتے ہیں ۔
    غلط لاکھ تاویل کے باوجود بھی غلط ہے۔
    پارک، سینما، بازار، میدان تفریح، خرید و فروخت اور کھیل کا مقام ہے۔ جنازہ گاہ، عیدگاہ، امام بارگاہ، مسجد، مندر، گردوارہ، چرچ، سینگاگ، عبادت اور رسومات کی جگہیں ہیں۔ اسی طرح سڑک گاڑیوں کے چلنے کے لیے ہے۔ فٹ پاتھ پیدل چلنے والوں کےلیے ہے ۔ آپ کسی کی چار دیواری میں بغیر اجازت کے داخل نہیں ہو سکتے، اسی طرح مہذب معاشروں میں گاڑیوں کا یا پیدل چلنے والوں کا راستہ بند نہیں کیا جا سکتا۔ کوئی کرتا ہے تو لاکھ تاویلوں کے باوجود بھی یہ غلط ہے۔
    حاملہ خواتین کی اموات
    کئی بار ایمبولینسز میں لوگ مرتے رہے لیکن چند مذہبی اور سیاسی غنڈوں کا جشن جاری رہا۔ کئی بار حاملہ عورتیں اسپتال نہ پہنچ سکیں اور انہوں نے بچے رکشوں اور گاڑیوں میں جنے۔ کئی بار عورتیں بچہ جنتے ہوئے موت کی آغوش میں چلی گئیں لیکن کسی سیاست دان کو احساس ہوا اور نہ ہی کبھی کسی مولوی، ذاکر یا پیر کو، کیونکہ ان کے گھر گھی کے چراغوں سے روشن ہیں اور غریب کے خون پسینے سے چلتے ہیں۔ آپ عوام کی پراپرٹی میں کسی صورت داخل نہیں ہو سکتے۔ چار دیواری کے اندر کے خاص حقوق بھلے مذہبی ہوں یا انفرادی، سڑک شروع ہوتے ہی ختم ہو جاتے ہیں ۔
    سڑک اور فٹ پاتھ کا مقصد
    سڑکیں اور فٹ پاتھ لوگوں نے اپنے ٹیکس کے پیسوں سے ٹریفک اور اپنے چلنے کےلیے بنوائی ہیں۔ جلسے جلوسوں کے لیے جلسہ گاہیں موجود ہیں۔ جلسہ گاہوں میں سیکورٹی کا انتظام کرنا بھی آسان ہے۔ وہاں جا کر اپنے شوق پورے کریں۔ سڑکیں بند کرنا نہ مذہب ہے اور نہ ہی سیاست بلکہ تہذیب اور تمدن سے عاری افراد کی جہالت ہے۔ نہ جانے کب اس ملک میں تہذیب آئے گی۔

    زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن

  • بلاول بھٹو اور پاکستان کے نوجوان ووٹرز – محمود شفیع بھٹی

    بلاول بھٹو اور پاکستان کے نوجوان ووٹرز – محمود شفیع بھٹی

    محمود شفیع پاکستان پیپلزپارٹی خود کو جمہوری روایات اور اخلاقیات کی امین جماعت کہتی ہے۔ اس جماعت کا نام عوام سے محبت اور عوامی سیاست سے تعلق کی وجہ سے پیپلزپارٹی رکھا گیا لیکن یہ جماعت اپنے قیام کے چند ماہ بعد ہی عوامی ڈگر سے ہٹ گئی۔ قومیانے کے نام پر سیاسی انتقام شروع کردیا گیا جس کے اثرات آج بھی ہماری صنعت پر ہیں۔ ذوالفقار بھٹو صاحب جو اپنے دوٹوک مؤقف کی وجہ مشہور تھے اور ان کا اصل ہتھیار ان کا طرز خطابت اور عوامی انداز تھا، ان کی قابلیت پر تو کوئی شک نہیں لیکن تاریخ گواہ ہے کہ سقوط ڈھاکہ میں کس کس نے حصہ ڈالا تھا۔ پیپلز پارٹی کی روح کی تو اس وقت موت ہوگئی تھی جب بھٹو صاحب کی موجودگی میں اس جماعت میں کثیر تعداد میں وڈیرے جمع ہوگئے تھے اور سیاسی فیصلے بھی ان کی منشاء کے مطابق ہونے لگے تھے۔

    محترمہ بینظیر بھٹو نے اپنی جماعت کو بام عروج تک پہنچایا لیکن بی بی بھی جاگیرداروں کی اجارہ داری اور ان کی ہٹ دھرمی سے مجبور تھیں۔ محترمہ کی شہادت کے بعد جہاں پارٹی کرپشن کا گڑھ بنی وہاں غیر نظریاتی لوگوں کی بھی بھرمار ہوئی جس سے پارٹی کا وہ جیالا جس نے ضیاء دور میں کوڑے کھائے تھے، متنفر ہوکر ساتھ چھوڑ گیا۔ موجودہ پارٹی اور بھٹو کی پارٹی میں بہت فرق ہے۔ آج کے نظریات صرف جی حضوری پر قائم ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جس جماعت کو ضیاء کی آمریت نہ ختم کرسکی، زرداری نے اس کو ختم کر دیا۔ آج جہاں پی پی کا امیدوار کھڑا ہوتا ہے اس کی ضمانت ضبط ہو جاتی ہے۔ عوام نے اس جماعت سے کیا منہ موڑا اس کی بنیادی حیثیت ہی ختم ہوگئی۔ آج یہ جماعت سیاسی طور پر ایک علامت کے سوا کچھ بھی نہیں۔

    پیپلز پارٹی آج پنجاب میں سوائے پریس کانفرنس کے کہیں کھڑی نظر نہیں آتی۔ پنجاب کے ووٹرز کا یہ خاصا رہا ہے کہ وہ تیسری قوت کی طرف نہیں جاتے۔ پنجاب میں آج صرف ن لیگ اور تحریک انصاف کےدرمیان مقابلہ ہے۔bilawal-bhutto-zardari بلاول بھٹو جو نوجوان، پڑھے لکھے اور سمجھدار بھی ہیں لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا پاکستان کا نوجوان ووٹر ان کو جگہ دے گا؟ بلاول کی سیاسی ملاقاتیں اور پریس کانفرنسز سے کیا یہ نوجوان مطمئن ہوگا؟ آج عوام صرف ن لیگ اور عمران خان کی جانب دیکھ رہی ہے۔ بلاول جن سیاسی قائدین سے ملاقاتیں فرما رہے ہیں، کیا ان کو عوام پذیرائی دیتی ہے؟ بلاول غدار وطن لوگوں کو انکل کہہ رہا ہے، اس ملک کا وہ نوجوان جو عمران خان کی وجہ سے شعور یافتہ ہوا، کیا وہ اس طرح کے طرزعمل سے متاثر ہوگا؟

    گزشتہ کچھ عرصے سے پیپلزپارٹی میں ٹھہراؤ آگیا تھا لیکن بلاول کی بچگانہ سیاست اور عمران خان کے دوٹوک مؤقف کی وجہ سے پی پی کا گراف پہلے سے زیادہ نیچے جا چکا ہے۔ پاکستان کا وہ نوجوان جس کو موروثیت سے نفرت ہے، کرپشن کا خاتمہ چاہتا ہے، سیاست میں برابری چاہتا ہے اور لیڈر تک اپنا مؤقف پہچانا چاہتا ہے، وہ کیسے محترم بلاول کی جماعت سے متاثر ہوگا، جس میں اس کی دادا کی عمر کے لوگ اس کے پیچھے کھڑے ہوکر اس کی ہر غلط بات کو بھی سراہ رہے ہوں، کرپشن کو جمہوریت سے تشبیہ دے رہے ہوں اور ایک بچے کو اپنا لیڈر کہہ رہے ہوں۔ اس جماعت سے کس طرح نوجوان متاثر ہوگا؟

    پاکستان کا نوجوان ووٹر آج بھی عمران خان کی جانب جھکاؤ رکھتا ہے کیونکہ یہاں ان کو امید ہے، تمنا ہے۔ بلاول اگر پارٹی کو دوبارہ زندہ کرنا چاہتے ہیں تو پہلے رضاکارانہ طور پر چئیرمین شپ سے استعفی دیں اور کسی نظریاتی بندے کو معاملات سونپیں۔ دوسری بات بلاول اپنا طرزعمل جمہوری کریں اور پارٹی الیکشن کروائیں۔ پارٹی کے نعروں سے جئے بھٹو وغیرہ ختم کریں کیونکہ نوجوان نسل کو بھٹو سے کیا لینا دینا؟ پارٹی کے تنظیمی معاملات میں دخل اندازی ختم کریں اور میرٹ کو بنیاد بنائیں۔ عمران خان طرز پر اپنے وزراء شرجیل میمن، ڈاکٹر عاصم اور دیگران بشمول زرداری صاحب احتساب کے عمل سے گزاریں تاکہ عوام کو پتہ چلے کہ پیپلز پارٹی بھی سنجیدہ ہے۔

  • موروثی سیاست اور نوجوان – مزمل احمد فیروزی

    موروثی سیاست اور نوجوان – مزمل احمد فیروزی

    مزمل احمد فیروزی میں صحافت کے ساتھ ساتھ شام کے اوقات میں ایک پروفیشنل تعلیمی ادارے میں بحیثیت انگریزی استاد کے فرائض انجام دیتا ہوں جہاں پر اپنی مدد آپ کے تحت ایم بی اے، ایل ایل بی اور انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے والے متوسط گھرانوں کے نوجوان شام میں اپنی انگلش بہتر کرنے کےلیے میری کلاس میں آیا کرتے ہیں تاکہ تعلیم سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد انگلش لینگوئج کی اضافی تعلیم ہونے سے زندگی میں اچھے مواقع حاصل کر سکیں۔ انگریزی بول چال کے دوران اکثر گرم سرد بحث کاچھڑ جانا بھی کلاس کا معمول ہے۔ ایک روز نجی ادارے میں زیرتعلیم اورگھر کا واحد کفیل نوجوان دوران کلاس بات کرتے کرتے آبدیدہ ہوگیا اس پر میں نے اسطرح سے رونے کی وجہ جانی تو وہ نوجوان روتے روتے اور پھٹ پڑا، کہنے لگا کہ اس جمہوریت سے تو آمریت ہی بہتر ہے. مہنگا ئی، بےروزگاری اپنے عروج پر ہے اورحق دار کو اس کا حق نہیں مل رہا ہے. ہے کوئی پوچھنے والا؟ ایسی بھونڈی جمہوریت سے تو آمریت بھلی جس میں غریب انسان کم از کم دو وقت کی روٹی تو کما لیا کر تا تھا اور اس فوجی دور میں ایک نہ کہیں خونریزی تھی اور نہ ہی کسی شے کا بحران تھا بلکہ عام انسان کی زندگی قدرے محفوظ اور سہل تھی.

    آج اس نام نہاد جمہوریت میں ملک میں ہر چیز کا بحران ہے نہ بجلی ہے، نہ CNGہے، نہ آٹا ہے، نہ چینی ہے، بس ہے تو ایک جہموریت کی فوج ظفر موج جو قرضے لے لے کر عیاشیاں کر رہی ہے۔ جبکہ کلاس میں موجود ایک طالبہ کا کہنا تھا کہ مشرف کے دور حکومت یا کسی بھی آمریت میں صرف و صرف بین الاقوامی سطح پر نقصان ہوا ہے جبکہ عام لوگوں کی زندگی کا مورال بلند ہوا ہے صرف صحافی حضرات کے علاوہ سب مشرف سے خوش تھے مگر اس جہموریت نے تو عام انسان سے لے کر بڑے بڑے تاجروں کی نیندیں حرام کر دی ہیں، آئے دن تاجر حضرات پریس کلب کے باہر مظاہرے کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان نوجوانوں کو یہ بھی علم ہے کہ بازار سے چینی کیوں غائب ہوئی تھی، وہ جانتے ہیں کہ تمام شوگر ملز پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور ق والوں کی ہیں۔ جو اپنی ملز کی شوگر وسط ایشیا میں اسمگل کر کے اپنی جیبیں بھر رہے ہیں۔

    ایک نوجوان کا کہنا تھا کہ ہمارے یہاں جمہوریت کی ناکامی کے دو بنیادی اسباب ہیں، پہلے یہ کہ کوئی بھی جمہوری حکومت بااختیار نہیں ہوتی، اسے اسٹبلشمنٹ یا بیرونی ہاتھ چلاتے ہیں اور دوسرا یہ کہ جو لوگ اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں ان کا تعلق عوام سے نہیں ہوتا۔ ایک خاص طبقے کے لوگ ہوتے ہیں جو کبھی ان مسا ئل سے گزرے ہی نہیں ہوتے ہیں۔ صد افسوس! ہمارے ملک میں جمہوریت ہمیشہ ناکام رہی ہے اور ہمیشہ ان لوگوں نے اپنے ہی لوگوں کو مراعات دی ہیں اور دوسری طرف ہم متوسط طبقے کے نوجوان انتہائی پیچیدہ سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل میں گھر ے ہوئے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے نئی نسل شدید نوعیت کی فرسٹریشن کا شکار ہیں۔ آج کا نوجوان ہمارے نوجوانی کے زمانے سے زیادہ حقیقت پسند، سرگرم، جوشیلا اور جذباتی بھی ہے جہاں یہ نوجوان حقیقت پسندانہ روش اپناتا ہے تو دوسری طرف جذبات اور عدم برداشت بھی اس کا ہتھیار ہیں، شاید اسی لیے کہ ان کی تربیت میں میڈیا نے بھی خوب اپنا ہاتھ صاف کیا ہے.

    آج سو کے لگ بھگ چینلز ہیں اور بےشمار اخبارات ہیں، ایک Fax اور sms سے آپ کی آواز دنیا تک پہنچ جاتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نئی نسل کے تعلیم یافتہ اور سماجی شعور رکھنے والے نوجوانوں کو سیاسی عمل میں ضرور موقع دیا جائے تا کہ نئے خیالات اور رجحانات کو سیاسی جماعت کی پالیسیوں کا حصہ بنایا جا سکے مگر میں انتہائی افسوس سے یہ بات کرنا چاہوں گا کہ ہمارے یہاں متوسط طبقے کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو سیاسی عمل میں شرکت ہمیشہ نہ ہونے کے برابر رہی ہیں، اس کی وجہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ان متوسط طبقے کے نوجوانوں کو اپنے گھر کی ذمہ داری نبھانی ہوتی ہیں، اس لیے وہ میدانِ سیاست میں نہیں آپاتے ہیں اور اس کے برعکس دوسری طرف مراعات یافتہ طبقے کے نوجوانوں کو تعلیم سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد کوئی ذمہ داری نہیں ہوتی اس لیے وہ سیاست میں بآسانی آجاتے ہیں، اسی وجہ سے سیاست پر ایک مخصوص مراعات یافتہ طبقے کا قبضہ ہے۔ صرف 2 یا 3 سیاسی جماعتوں کو چھوڑ کر تمام سیاسی پارٹیوں میں موروثی سیاست کا رواج عام ہیں اور اس کی وجہ صرف اور صرف ہمارے متوسط طبقے کے نوجوان ہیں جو باصلاحیت اور محنتی ہونے کے باوجود سیاست کا رخ نہیں کر پاتے۔

    طلبہ کی سیاسی عمل سے دوری کے باعث وطن عزیز کے سیاسی عمل میں موروثی سیاست کی جڑیں مضبوط ہوتی رہی ہیں۔ پا کستان کی مقبول سیاسی جماعتوں میں موروثی سیاست کلچر کی شکل اختیار کر چکا ہے اور اس کی ابتداء پیپلزپارٹی نے اپنی جماعت کو ضیاء الحق سے بچا نے کے لیے بیگم نصرت بھٹو مرحومہ کو چیئرپرسن بنایا اور پھر ان کے بعد ان کی صاحبزادی محترمہ بےنظیر بھٹو کو چیئرپرسن بنایا تو یہ سلسلہ دوسری جماعتوں میں بھی شروع ہوگیا اور اسی رجحان کو عوامی نیشنل پارٹی نے بھی اپنایا اور باچا خان کے بعد ان کے صاحبزادے اور پھر ان کی غیر موجودگی میں بیگم ولی خان اور اسفندیار ولی، جمعیت علمائے اسلام کے بانی مفتی محمود صاحب کے بعد ان کے صاحبزادے مولانا فضل الرحمن، اور مسلم لیگ فنکشنل کی قیادت پیر پگارا کے صاحبزادے کے پاس ہے۔ ایک طرف مسلم لیگ (ن) حمزہ شہباز اور مریم نواز کو سامنے لا رہے ہیں تو چودھری برادران مونس الہی کو آگے لانے کی کوشش میں ہیں جبکہ یوسف رضاگیلانی بھی اس دوڑ میں اپنے بیٹے پنجاب کی سیاست میں لے آئے ہیں۔ غرضیکہ وراثت کے گرد گھومتی سیاست سے یہ بات تو واضع نظر آتی ہے کہ چاہے سیاسی جماعت کوئی بھی ہو، جیتنا مگر انہی چند خاندانوں نے ہے.

    اس کے برعکس ہم نے دیکھا ہے کہ مولانا مودودی کی جماعت اسلامی میں باقاعدہ الیکشن ہوتے ہیں۔ اس میں نوشہرہ سے قاضی حسین احمد اور کراچی سے تعلق رکھنے والے سید منور حسن امیر منتخب ہو چکے ہیں، اور اب دیر سے سراج الحق امیر ہے. اسی طرح ایم کیو ایم جہاں نچلی سطح پر الیکشن ضرور تو ہوتے ہیں مگر اس میں ون مین شو کے بارے میں بھی ہم سبھی واقف ہیں۔ اب نئے تناظر میں مائنس الطاف کے بعد دیکھتے ہیں کہ نئی ایم کیو ایم کس پوزیشن میں آتی ہے۔ تحریک انصاف جہاں الیکشن بھی ہوتے ہیں اور لگتا ہے سب کی سنی بھی جاتی ہے۔ حال ہی میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اعلان کیا ہے کہ الیکشن میں 50% پارٹی ٹکٹس نوجوانوں کو دیے جائیں گے جو کہ محض اعلان ہی رہا، حقیقت کچھ اور تھی، جبکہ نوجوانون کو آگے لانے کا خان صاحب کا اعلان قابل ستائش ہے۔ پاکستان کی آبادی کا 70%حصہ 30 سال سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے، بلاشبہ وطن عزیز کی باگ دوڑ ان نوجوانوں کے ہاتھ میں ہونی چاہیے مگر یہ نوجوان اپنے گھر کی کفالت سے باہر نکلیں گے تو ملک و قوم کے لیے کچھ کر سکیں گے. ضرورت اس امر کی ہے کہ متوسط طبقے کے نوجوانوں کو ایسے مواقع فراہم کیے جائیں کہ وہ بآسانی سیاست کی اونچ نیچ کو سمجھ سکے اور میدان تعلیم میں سیاست کے شعبے کو اور مضبوط بنایا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ نوجوان تعلیم سیاست سے روشناس ہو سکیں اور ملکی سیاست میں مثبت کردار ادا کر سکیں۔

    (مزمل احمد فیروزی بلاگر، کالم نگار اور رکن کراچی یونین آف جرنلسٹ ہونے کے ساتھ رکن مجلس عاملہ پاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ بھی ہیں۔ انگریزی میں ماسٹر کرنے کے بعد بطور صحافی روزنامہ آزاد ریاست سے منسلک ہیں اور اسکول آف جرنلزم میں شعبہ تدریس سے بھی وابستہ ہیں. گھومنے پھرنے، کتابیں پڑھنے اور انٹرنیٹ کے استعمال کو وقت کا بہترین مصرف سمجھتے ہیں۔)

  • عمران خان سے کچھ بھی ممکن ہے – محمد عامر خاکوانی

    عمران خان سے کچھ بھی ممکن ہے – محمد عامر خاکوانی

    عامر خاکوانی عمران خان واقعی کچھ بھی کر سکتا ہے۔ اس سے سب کچھ ممکن ہے۔ پاکستانی سیاست میں سرپرائز دینے کی صلاحیت کا سب سے زیادہ مظاہرہ خان نے ہی کیا ہے۔ رائیونڈ جلسہ کا اعلان ہوا تو ہر کوئی حیران تھا کہ ستمبر کے آخری دنوں میں جب لاہور میں شدید حبس اور گرمی چل رہی ہے، شہر سے میلوں دور رائیونڈ میں جلسہ کرنے کی کیا تک ہے۔ اوپر سے اڈہ پلاٹ کی جگہ چن لی، جسے بھرنا بظاہر ناممکن نظر آ رہا تھا۔ جلسے سے دو تین دن پہلے تک صحافیوں میں یہ سوال ایک دوسرے سے پوچھا جا رہا تھا کہ جلسہ کا کیا بنے گا؟ حیران کن طور پر اسی نوے فیصد یہ کہہ رہے تھے کہ عمران خان نے شدید غلطی کی ہے۔ موسم غلط ہے، جگہ غلط چنی، اتنے بڑے کھلے میدان کو بھرنا ممکن نہیں۔ دو لاکھ سے کم لوگ اسے بھر نہیں سکتے، جبکہ حالات بتا رہے ہیں کہ اس سے چار پانچ گنا کم لوگ بھی اکٹھے نہیں ہو پائیں گے۔ عمران خان کے آخری دو تین جلسے زیادہ اچھے نہیں رہے تھے۔ کراچی کا جلسہ تو پریشان کن حد تک خراب رہا۔ جلسہ گاہ میں خالی کرسیاں نظر آئیں۔ لاہور میں ریلی بھی درمیانی رہی۔ یہ خبریں بھی آ رہی تھیں کہ تحریک انصاف کے کارکن تھک چکے ہیں، رہنما چندہ دینے کو تیار نہیں، ارکان اسمبلی تک احتجاجی تحریک جاری رکھنے کے موڈ میں نہیں۔ دو دن پہلے ن لیگ کےلیے نرم گوشہ رکھنے والے ایک سینئر دوست نے اڈہ پلاٹ کا وزٹ کرنے کے بعد اپنا تجزیہ شیئر کیا، ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے دو غلطیاں کی ہیں، اڈہ پلاٹ کا انتخاب غلط ہوا، اوپر سے انتظامیہ کی شرائط مان لیں، جنہوں نے ہوشیاری سے قافلوں کے رکنے کےلیے کئی میل دور جگہوں کا انتخاب کیا ہے۔ خواتین کے لیے بھی چار پانچ کلومیٹر دور جگہ رکھی گئی ہے، وہ کیسے اتنا زیادہ چل کر اڈہ پلاٹ پہنچیں گی۔ ان کا تجزیہ تھا کہ جلسہ فلاپ ہوجائے گا۔ ادھر گوجرانوالہ، فیصل آباد، ملتان وغیرہ سے دوست صحافی خبر دے رہے تھے کہ مقامی سطح پر تحریک انصاف کی تنظیم متحرک نہیں، بہت کم لوگ لے جا سکیں گے۔ گوجرانوالہ سے ہمارے ایک سینئر صحافی دوست نے توصرف ایک ہزار لوگوں کے جانے کی پیش گوئی کی۔ نقشہ کچھ یوں بن رہا تھا کہ دس سے پندرہ ہزار تک لوگ بمشکل اکٹھے ہو سکیں گے۔ تحریک انصاف والے مجبوری کے عالم میں اپنی گاڑیاں پھیلا کر جگہ کور کرنے کی کوشش کریں گے، مگر ٹی وی کے کیمروں کے آگے یہ کہاں چھپ سکے گا۔

    %d8%b9%d9%85%d8%b1%d8%a7%d9%86-%d8%ae%d8%a7%d9%86-3 جمعہ کی شام مگر یکسر مختلف منظرنامہ دکھا رہی تھی۔ لوگوں کے پرجوش قافلے جوق در جوق چلے آرہے تھے۔ اتنی بڑی تعداد میں لوگ شریک ہوئے کہ پورا نظام مفلوج ہوگیا۔ موٹر وے کئی گھنٹوں تک بلاک رہی، جلسہ گاہ سے میلوں دور تک لوگ موجود تھے۔ انتظامیہ کا اندازہ تھا کہ اڈہ پلاٹ کا میدان بھرنے کے لیے دو لاکھ لوگ چاہییں۔ اسی لیے رانا ثنا اللہ نے بار بار دو لاکھ لوگ لانے کا مطالبہ کیا، انہیں یقین تھا کہ اس سے چار گنا کم لوگ بھی شریک نہیں ہوپائیں گے۔ عمران نے مگر ایک اور معجزہ تخلیق کر ڈالا۔ مجھے حیرت ہے کہ برادرم حفیظ اللہ نیازی نے جیو پر کہا کہ اڈہ پلاٹ پر پندرہ ہزار لوگ اکٹھے ہوسکتے ہیں۔ وہ اس تعداد کو پندرہ سے ضرب دینا بھول گئے تھے۔ عمران خان نے نہ صرف اڈہ پلاٹ بھر دیا بلکہ اس کے بہت باہر تک لوگ جمع تھے۔ میلوں تک پھیلا یہ ہجوم کم سے کم دس لاکھ تو نہیں تھا، جیسا کہ سٹیج سے دعویٰ کیا گیا، یہ توبچگانہ بات تھی۔ یہ جلسہ مگر ڈھائی سے تین لاکھ تک یقینا تھا۔ 30 ستمبر کی حبس آلود شام میں اتنے لوگ جمع کرنا دراصل چھ سات لاکھ لوگ اکٹھے کرنے کے برابر تھے۔ عمران خان نے ایک تاریخی جلسہ کر ڈالا۔ ایک اور تاریخی جلسہ۔ مجھے یاد ہے کہ30 اکتوبر 2011ء کو عمران خان کے جلسہ سے پہلے کسی کو امید نہیں تھی کہ اتنا بڑا جلسہ ہوجائے گا۔ ایک دن پہلے حفیظ اللہ نیازی جو ان دنوں عمران کے دست راست تھے، وہ ہماری ہفتہ وار نشست میں آئے اور انہوں نے انکشاف کیا کہ تحریک انصاف کے اندر یہ سوچ تھی کہ موچی دروازہ کا گراﺅنڈ نہ لے کر ہم نے غلطی کی، جسے پندرہ بیس ہزار سے بھی بھرا جا سکتا تھا، جبکہ مینار پاکستان کے گراﺅنڈ کو بھرنے کےلیے لاکھ دو لاکھ لوگ چاہییں۔ بعد میں سب حیرت زدہ رہ گئے۔ آج رائے ونڈ کے اس جلسے نے بھی بہت سوں کو حیران کیا ہوگا۔

    %d8%b9%d9%85%d8%b1%d8%a7%d9%86-%d8%ae%d8%a7%d9%86 جلسہ بہت بڑا، پرجوش اور نہایت کامیاب تھا۔ عمران کی تقریر بھی بہت عمدہ، موثر اور فوکسڈ تھی۔ اس کے تین چار حصے تھے۔ پہلی بار اس نے عام آدمی کو پاناما لیکس والا پورا ایشو سمجھانے کی کوشش کی۔ سکرین پر ویڈیوز اور دستاویزات کے ذریعے عمران نے پہلی بار نہایت مدلل انداز میں اپنا پانامہ والا کیس پیش کیا اور بڑی حد تک عام آدمی کو سمجھانے میں وہ کامیاب رہے۔ اس حصے کے انہیں دس میں سے دس پوائنٹ دیے جا سکتے ہیں۔ دوسرے حصے میں وہ نواز شریف صاحب پر خوب گرجے، برسے اور اپنے مخصوص انداز میں سخت ، تند وتیز حملے کیے۔ عمران خان کے بعض فقرے زیادہ سخت تھے، خواجہ آصف کے خلاف شعلہ بیانی غیر ضروری تھی، وزیراعظم پر کچھ سخت فقرے نرم ہوسکتے تھے، مگر یہ بہرحال عمران خان کا سٹائل ہے، اسے پسند کریں یا نہ کریں، وہ اپنے مخصوص انداز ہی میں بولتے ہیں۔ تقریر کا تیسرا حصہ بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کے خلاف تھا، وہ بھی ان کے مزاج اور توقعات کے عین مطابق تھا۔ کشمیریوں کی بھرپور حمایت کرنا مقبوضہ کشمیر کے مظلوم کشمیریوں کو یقیناً اچھا لگے گا۔ کرپٹ عناصر کے خلاف عمران خان کے حملے، اداروں کو مضبوط کرنے کی بات، نظام میں تبدیلی اور استحصالی قوتوں کو قانون کی گرفت میں لے آنے کی بات بھی مدلل اور موثر تھیں۔ عمران کی تقریر اگرچہ طویل تھی، مگر لگتا تھا کہ وہ اس بار خاصی تیاری کر کے آئے ہیں، ان کے پاس تمام نکات موجود تھے، جنہیں عمدگی سے بیان کرنے ، اور اپنا کیس اچھے طریقے سے لڑنے میں کامیاب رہے۔ میرا نو سالہ بیٹا معز میرے پاس بیٹھا یہ تقریر نہایت دلچسپی سے سن رہا تھا۔ اس کا تایا عمران خان کا سخت مخالف ہے۔ معز کو کچھ عرصے سے یہ شکوہ تھا کہ عمران خان جسے وہ عمان خان کہتا ہے، خان آخر ہر وقت دھرنے کی بات کیوں کرتا ہے۔ آج عمران کی تقریر نے پہلی بار معز کو متاثر کیا، میں نے اسے عمران خان کی باتوں پر سر ہلاتے دیکھا، بعد میں اس کا تبصرہ تھا کہ آج سمجھ آئی کہ عمران خان کیا چاہتا ہے۔ یہ واقعہ محاورتاً یا زیب داستان کے لیے بیان نہیں کیا، ایسے ہی پیش آیا ہے۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ تحریک انصاف کے کارکنوں اور حامیوں کا ذہن کس حد تک صاف ہو گیا ہوگا۔ مسلم لیگ ن کے حامیوں کے لیے ظاہر ہے یہ تقریر اتنی ہی تکلیف دہ رہی ہوگی۔

    %d8%b9%d9%85%d8%b1%d8%a7%d9%86-%d8%ae%d8%a7%d9%86-2اہم سوال یہ ہے کہ عمران خان نے اس سے کیا حاصل کیا؟ میرا خیال ہے کہ اس نے سب کچھ پا لیا۔ مسلم لیگ ن کی حکومت کمال مہارت سے اور پیپلز پارٹی کے تعاون کے بعد پانامہ لیکس والا معاملہ خاصی حد تک لٹکانے میں کامیاب ہوگئی تھی۔ یوں لگ رہا تھا کہ یہ ایشو ہوا میں تحلیل ہوگیا۔ رائیونڈ جلسے سے عمران خان نے دوبارہ پانامہ ایشو زندہ کرکے حکومت کو چار ماہ پرانی پوزیشن میں کھڑا کر دیا۔ تحریک انصاف کے بارے میں یہ تاثر بن رہا تھا کہ یہ کمزور ہوگئی اور اب اسے زندہ رہنے کے لیے متحدہ اپوزیشن کے سہارے کی ضرورت پڑے گی۔ عمران خان نے یہ تاثر مٹا دیا اور کسی کی مدد کے بغیر اتنا بڑا جلسہ کر کے ثابت کر دیا کہ وہ ملک کا واحد کراﺅڈ پلر ہے، رائیونڈ میں عمران کے علاوہ ملک کا کوئی بھی اور سیاستدان اس قدر بڑا شو نہیں کر سکتا۔ تحریک انصاف کا کارکن بھی چارج ہوگیا اور پارٹی دوبارہ خوداعتمادی سے سرشار ہوگئی۔ عوامی تحریک اب ساتھ شامل نہ ہونے پر پچھتا رہی ہوگی، پیپلزپارٹی کو یا عمران خان کے ساتھ ملنا پڑے گا، یا پھر کوئی نئی حکمت عملی بنانی ہوگی، ورنہ پنجاب سے ان کا صفایا تو ہوگیا، ان کا نام لیوا بھی کوئی نہیں رہے گا۔ جماعت اسلامی کو بھی اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہوگا۔ عمران خان کو جماعت کے ساتھ رابطہ کرنا چاہیے، ماضی میں بعض ناخوشگوار واقعات ہوئے، جن سے عدم اعتماد کی فضا قائم ہوئی۔ عمران کو جماعت سے رابطہ کرنا چاہے، وہ خود اگر سراج الحق صاحب سے ملیں تو جماعت ساتھ چل سکتی ہے، ایجنڈا دونوں کا ایک ہے، دونوں فطری اتحادی ہیں۔ آج شام فیصل آباد میں پولیس نے جماعت کے ساتھ زیادتی کی۔ سراج الحق کے ساتھ سرکاری گارڈ ہوتا ہے، جو کے پی کے حکومت نے دے رکھا ہے، عین جلسے کے وسط میں پولیس کا سٹیج پر چڑھ کر گارڈ کا لائسنس چیک کرنا احمقانہ قدم تھا، جس سے بدمزگی ہوئی۔ پی ٹی آئی اور جماعت میں کئی مشترک نکات ہیں، انہیں سامنے رکھ کر چلنا چاہیے۔

    %d8%b9%d9%85%d8%b1%d8%a7%d9%86-%d8%ae%d8%a7%d9%861عمران خان کا محرم کے بعد اسلام آباد جانے کا اعلان اور حکومت نہ چلنے دینے کا عزم بہت بولڈ قدم ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ عمران اس کے لیے کیا حکمت عملی بناتے ہیں۔ ممکن ہے انہوں نے یہ اعلان حکومت پر دباو ڈالنے کےلیے کیا ہو تاکہ جوڈیشل کمیشن بن سکے۔ ابھی اس میں ایک ماہ باقی ہے، کیا معلوم اس وقت سرحدوں پر صورتحال کیا ہو اور تحریک انصاف کو انتہائی اقدام تک نہ جانے پڑے۔ سردست تویہ امید کرنی چاہیے کہ سیاستدان حالات قابو سے باہر نہ جانے دیں۔ حکومت پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ پانامہ والے معاملے کو لٹکانے کے بجائے اپنے وعدے پر عمل کرے۔ یوں سیاسی عمل چلتا رہے گا، ٹکراﺅ کا شکار نہیں ہو پائے گا۔

  • کراچی اور ایم کیوایم، مستقبل میں کیا ہوگا؟ صفی الدین اعوان

    کراچی اور ایم کیوایم، مستقبل میں کیا ہوگا؟ صفی الدین اعوان

    %d9%85%d9%84%da%a9-%d8%b3%db%8c%d9%81-%d8%a7%d9%84%d8%af%db%8c%d9%86-%d8%a7%d8%b9%d9%88%d8%a7%d9%86 بعض ٹھوس وجوہات کی بنیاد پر میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایم کیو ایم کا سیاسی زوال شروع ہوچکا ہے. اگر فاروق ستار وغیرہ ایم کیو ایم کی موجودہ تنظیم کو بچالینے میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں تو بھی اس زوال کو روکنا ممکن نہیں ہوگا. آج کراچی کی آبادی اسی لاکھ سے بڑھ کر ڈھائی کروڑ تک پہنچ چکی ہے بلکہ محسوس تو یہ ہوتا ہے کہ آبادی ڈھائی کروڑ سے بھی بڑھ چکی ہے لیکن ایم کیو ایم کے پاس وہی ووٹ بینک ہے جو تیس سال پہلے تھا۔ شاید زوال کا لفظ مناسب نہ ہو تو یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ایم کیو ایم مخالف جماعتیں کراچی میں ایم کیو ایم کے مقابلے میں بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے زیادہ نشستیں جیتنے کی پوزیشن میں ہوں گی.

    ایم کیوایم حقیقی گروپ اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود بھی کراچی کے چند علاقوں میں ایم کیو ایم کے لیے حقیقی خطرہ ہے تو دوسری طرف مصطفٰی کمال کی پاک سرزمین پارٹی اپنا نیٹ ورک پھیلا رہی ہے. اگرچہ ایم کیو ایم جیسی پذیرائی حاصل کرنا ممکن نہ ہو لیکن ووٹ بینک تو ضرور تقسیم ہوگا. اس کے ساتھ ساتھ قتل و غارت گری کا بھی خدشہ ہے،
    بےشمار نئی آبادیاں آباد ہوچکی ہیں جہاں ایم کیو ایم کا کوئی ووٹ بینک نہیں اور کراچی کی وہ رہایئشی اسکیمیں جو مختلف وجوہات کی بنیاد پر آباد نہیں ہورہی تھیں، وہاں تیزی سے آباد کاری ہو رہی ہے. ملیر میں ہاری ہوئی نشست ایم کیو ایم کے لیے کھلا پیغام ہے.

    کل ایک مضافاتی بستی میں جانا ہوا تو دیکھا کہ گلشن مزدور بلدیہ ٹاؤن جو کے ایم سی کے ملازمین کو الاٹ کی گئی رہایئشی اسکیم تھی، گزشتہ سولہ سال تک غیر آباد رہنے کے بعد اور امن کا عمل بحال ہونے کے بعد اب وہاں بہت تیزی سے آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے اور چند ماہ میں پلاٹ کی قیمت دولاکھ سے بڑھ کر دس لاکھ روپے تک پہنچ گئی ہے. بلاشبہ وہاں سینکڑوں کی تعداد میں پلاٹ زیرتعمیر تھے، سیمنٹ بجری وغیرہ کی ضروریات پوری نہیں ہو پا رہی تھیں. کراچی شہر کے ساتھ ہی مضافات میں بے شمار پر رونق بستیاں وجود میں آچکی ہیں. اسی طرح ایک مضافاتی بستی میں ایک بلوچ سردار کا ایک بہت بڑا شاپنگ مال دیکھا جو بلوچستان کے سابق وزیراعلٰی بھی ہیں، وہاں جو رش کا عالم تھا اور جس طرح کاروباری سرگرمیاں عروج پر نظر آئیں، اس کامقابلہ کراچی کے روایتی بازار صدر اور جامع کلاتھ سے کیا جاسکتا ہے. طارق روڈ سمیت بہت سے مصروف کاروباری علاقوں سے آکر وہاں کپڑے کے تاجروں نے کاروبار شروع کیا اور وہ لوگ بہت مطمئن بھی تھے.

    مضافاتی علاقوں میں شہر کے اندر کئی نئے شہر آباد ہوچکے ہیں. نو آباد پررونق بستیوں کی چہل پہل اور کاروباری رونقیں دیکھ کر حیرت ہوتی ہے. اسی طرح کراچی سے ایک اہم فوجی چھاؤنی سکیورٹی وجوہات کی بنیاد پر حیدرآباد منتقل ہو رہی ہے، چھاؤنی کا ستر فیصد غیر آباد علاقہ کنٹونمنٹ کے رہائشی علاقے میں تبدیل کرنے کا پروگرام ہے، یہاں بھی ایک پورا شہر آباد ہوگا.

    کراچی میں پراپرٹی کی قیمت میں بےتحاشا اضافہ ہوا ہے، بہت سے علاقوں میں پلاٹ کی قیمتیں صرف ایک سال کے اندر ڈبل ہوچکی ہیں، کئی کامیاب رہائشی اسکیموں میں اب پلاٹ دستیاب نہیں ہیں، یہ وہ اسکیمیں ہیں جہاں صرف ایک سال پہلے تک کوئی پلاٹ خریدنے نہیں آتا تھا. بحریہ ٹاؤن اور ڈیفنس نیوسٹی میں ابھی آبادی کا عمل شروع نہیں ہوا مگر ان نئی اسکیموں کی وجہ سے اردگرد سینکڑوں نئی رہائشی اسکیمیں وجود میں آچکی ہیں، جہاں آئندہ چند سالوں میں ایک نئی دنیا آباد ہوجائےگی.

    جب سے امن بحال ہوا ہے، کراچی میں چہل پہل عروج پر پہنچ چکی ہے، اس عرصے میں جہاں بھی آبادی میں اضافہ ہوا ہے، وہاں کہیں بھی ایم کیو ایم نظر نہیں آتی. بہت بڑی تعداد میں مالی طور پر انتہائی خوشحال بلوچ سرمایہ کار بھی کراچی منتقل ہوئے ہیں اور پہلی بار بلوچ سرمایہ کاروں نے دبئی اور عمان وغیرہ سے پیسہ لا کر کراچی کی مضافاتی بستیوں شاپنگ مال وغیرہ کے کاروبار میں سرمایہ کاری کی ہے. کراچی کے مضافاتی علاقوں جو بلوچستان کے شہر حب چوکی سے منسلک ہیں، وہاں اورنگی سے سرجانی تک کی تمام زرعی زمینیں بلوچوں کی وراثتی ملکیت ہیں اور وہاں بھی بہت بڑی تعداد میں رہائشی اسکیمیں وجود میں آ رہی ہیں.

    ایم کیو ایم اپنے روایتی علاقوں میں بدستور موجود رہے گی لیکن پورے کراچی کی سطح پر شیئر کم ہوگا، اور اگر ووٹ بینک تقسیم ہوا تو ایم کیو ایم کے لیے ضرورت سے زیادہ مسائل سامنے ہوں گے کیونکہ اس کے پاس تاحال الطاف حسین کی سطح کا سخت گیر اور تنظیمی اصولوں کو سمجھنے والا لیڈر نہیں ہے. کراچی کے دواضلاع ملیر اور ساؤتھ میں ایم کیو ایم بلدیاتی انتخابات میں ایم کیو ایم اکثریت ثابت نہیں کرسکی اور کراچی کے علاقے ویسٹ میں جیت مشکوک ہوچکی ہے.

    موجودہ حالات میں نون لیگ کراچی میں سیاسی خلا پورا کرسکتی تھی لیکن میاں صاحب نے کراچی پر وہ توجہ نہیں دی جو دینا چاہیے تھی. کراچی نون لیگ کا روایتی شہر رہا ہے لیکن میاں صاحب کو کراچی میں ایک بھرپور قسم کی مضبوط شخصیت اور سیاسی قیادت دینی ہوگی جس کےلیے تاحال نون لیگ سنجیدہ نہیں ہے. پیپلزپارٹی، نون لیگ، جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی سمیت قومی جماعتوں کو کراچی کے لیے بالکل ہی الگ پالیسی تشکیل دینا ہوگی، مہاجروں کا خوف و ہراس دور کرنا ہوگا، مہاجر بستیوں کا تحفظ ہر صورت میں یقینی بنانا ہوگا کیونکہ مہاجر بستیاں آج بھی سانحہ علی گڑھ اور ماضی کے فسادات سے باہر نہیں نکل سکی ہیں، ملازمتوں اور دیگر معاملات کے لحاظ سے بھی کراچی کے شہری شکوک کا شکار ہیں. کراچی میں نئی یونیورسٹیوں، میڈیکل اور انجینرنگ کالجز کی فوری ضرورت ہے. کراچی کے شہریوں کا بالکل جائز شکوہ ہے کہ کوئی بھی جماعت صرف اور صرف کراچی کا مقدمہ نہیں لڑتی، اس لیے قومی جماعتوں کو پالیسی کے تحت ایک ایسی عوامی سطح کی قیادت کراچی کو دینی ہوگی جو کراچی کے روایتی مسائل پر ہر وقت اور ہر لمحہ بات کرے کیونکہ یہاں ایم کیو ایم کے علاوہ کوئی نہیں جو کراچی کراچی کا راگ ہروقت الاپتا رہے. اس حوالے سے ایم کیو ایم کا نیٹ ورک بہت زیادہ متحرک تھا، ایم این اے، ایم پی اے اور سینیٹر ہر روز اپنے علاقے میں خود عوام کے مسائل سنتے تھے اور کونسلرز وغیرہ تو بہت ہی زیادہ عوامی تھے.

    اس کے مقابلے میں دیگر سیاسی جماعتوں کے اندر ڈسپلن نام کی کوئی چیز نہیں ہے. ہر وقت آپس میں ہی الجھتے رہتے ہیں، وہ عوام کے مسائل کیا حل کریں گے؟ کراچی کا صدر اور دیگر قائدین جن کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں ہوتا، نہ وہ ایم این اے ایم پی اے ہوتے ہیں، اس کے باوجود وہ چھوٹے موٹے کارکن سے ہاتھ ملانا پسند نہیں کرتے، اس لیے دیگر سیاسی جماعتیں اس میدان میں اور عوامی رابطوں کے لحاظ سے ایم کیو ایم کا مقابلہ کا سوچ بھی نہیں سکتی ہیں. اگر دہشتگردی کا عنصر نکال دیا جائے تو ایم کیو ایم عام آدمی کی پارٹی ہے اور پاکستان کی کوئی جماعت اس کا مقابلہ کرنے کا سوچ نہیں سکتی. کیا یہ بات سچ نہیں کہ ایم کیو ایم کی پوری قیادت گلی محلے کے عام لوگوں اور کارکنان پر مشتمل ہے۔ میں نے خود ایک ایم پی دیکھا جو میرے سامنے ہی چند سال پہلے تک دن میں آلو پیاز کی ریڑھی لگاتا تھا اور شام کو شربت بیچتا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ منتخب ہونے کے بعد سب سے زیادہ مال اسی نے کمایا۔ اسی طرح بہت سے عام اور غریب لوگ آج بھی منتخب نمائندوں کے طور پر شہر میں موجود ہیں اور یہی تنظیمی ڈسپلن اور نیٹ ورک ایم کیو ایم کی کامیابی ہے.

    پبلک ٹرانسپورٹ کراچی شہر میں مکمل طور پر تباہ اور برباد ہے، اس لیے اگر سرکلر ریلوے کو بحال کردیا جائے تو یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے. اورنج ٹرین کے مقابلے میں کراچی شہر میں تو ریلوے کا پورا اسٹرکچر موجود ہے، ریلوے کی زمین پر ناجائز قبضہ ہے جو ختم کروایا جاسکتا ہے لیکن کیا وفاقی حکومت چاہے گی کہ کراچی کے شہریوں کی آمد و رفت کے مسائل کے حل کے لیے کوئی میگا پروجیکٹ دے. بدقسمتی سے اگر جائزہ لیاجائے تو ایم کیو ایم بھی مشرف کے پورے دور میں جب ان کی حکومت تھی، تو پانی اور ٹرانسپورٹ وغیرہ کا کوئی بہت بڑا منصوبہ نہیں لاسکی، جس کا مقابلہ میٹرو بس اور اورنج ٹرین سے کیا جاسکے. بعض چھوٹے منصوبے تھے مگر وہ بھی کرپشن کی نذر ہوگئے. جس طرح لاہور نون لیگ کی پہلی اور آخری ترجیح ہے، اسی طرح تمام سیاسی جماعتوں کو کراچی کےلیے بالکل الگ منصوبہ بندی کرکے کراچی کو پہلی اور آخری ترجیح قرار دینا ہوگا، اور کراچی کے شہریوں کے لیے میٹرو بس اور اورنج ٹرین وغیرہ کے بڑے بڑے منصوبے شروع کرنے ہوں گے. ایم کیو ایم صبح شام کراچی کا رونا روتی ہے، اس کے مقابلے میں آنے کے لیے اتنا ہی مضبوط مؤقف قومی جماعتوں کو اپنانا ہوگا.