میں انصاف ہوں.
آج عدالت میں کھڑا تھا.
مقدمے کی دوبارہ سماعت ہو رہی تھی.
جج صاحب نے فیصلہ سنایا.
”شواہد نا کافی ہیں … پھانسی نہیں دی جا سکتی ..“
یہ سن کر میں بے اختیار اپنے بال نوچنے لگا.
دونوں بھائی تو کب کے پھانسی پر لٹک چکے تھے.
دراصل مجھے پھانسی ہو چکی تھی.
Tag: پھانسی
-
پچاس لفظی کہانی – صداقت حسین ساجد
-
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں-خالد مسعود خان
قوم کا مورال حکمران بلند یا پست کرتے ہیں لیکن ذہنی غلام حکمرانوں سے قوم کا مورال بلند کرنے کی اُمید رکھنا حماقت کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ غلامی اتنی بری چیز نہیں کہ یہ مجبوری کا معاملہ ہے البتہ غلامانہ ذہنیت ناقابل معافی ہے کہ یہ اختیاری معاملہ ہے۔ غلام اگر غلامانہ ذہنیت کا غلام نہیں تو اس کی آزادی کے دن جلد یا بدیر ختم ہو جاتے ہیں مگر غلامانہ ذہنیت کی شب تاریک کا سحر میں تبدیل ہونا ایک بالکل علیحدہ معاملہ ہے اور اس کا خاتمہ ذہنیت کی تبدیلی تک ممکن نہیں۔ ذہنیت کی تبدیلی شاید ایک نسل کا معاملہ نہیں۔ ہم اسی تاریک اور بدترین دور سے گزر رہے ہیں کہ ہمیں ذہنی غلام حکمران سے واسطہ پڑا ہے اور کم از کم حکمرانوں کی موجودہ قبیل سے کسی تبدیلی کی امید رکھنا عبث ہے۔
یہ معاملہ آج کا نہیں عشروں کا ہے اور صرف آج کے حکمرانوں سے متعلق نہیں ماضی کے حکمران بھی بدقسمتی سے ذہنی غلامی کی آخری سطح پر فائز تھے۔ اس میں سول اور فوجی آمروں میں کوئی خاص تحصیص نہیں۔ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں اس لیے کسی ایک پر انگلی اٹھانا زیادتی ہو گی تاہم دونوں طرز کے حکمرانوں سے گلہ علیحدہ علیحدہ ہے۔ جنہوں نے وردی پہن کر ملک کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کا حلف اٹھایا تھا انہوں نے بھی ملکی وقار اور عزت و آبرو کے معاملے میں بے حسی اور چشم پوشی کا مظاہرہ کیا اور جو عوام کی طاقت سے آنے کے دعویدار تھے انہوں نے بھی اپنی ذات سے آگے نکل کر نہ سوچا اور نہ ہی اس کا کوئی عملی مظاہرہ کیا۔ حکمران آمر تھے یا جمہوری‘ دونوں نے ملکی عزت و آبرو کے مسئلے پر کسی حمیت کا مظاہرہ نہ کیا۔ ایسے میں قوم کا مورال بھلا کس طرح بلند اور سر کیسے فخر سے اونچا ہو سکتا ہے۔
ریمنڈ ڈیوس کا قصہ ہمارے سامنے ہے۔ سرعام بھرے شہر میں دو قتل کئے اور سول اور فوجی گٹھ جوڑ سے قائم ہونے والی بے حمیتی کے طفیل جہاز پر بیٹھ کر ملک سے ”باعزت‘‘ روانہ ہو گیا۔ ایک طرف قوم کی بیٹی عافیہ صدیقی ایک امریکی فوجی کو جان سے مارنے کی کوشش کے نام نہاد مقدمے میں چھیاسی سال کی قید بھگت رہی ہے اور فورٹ ورتھ ٹیکساس میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہی ہے۔ اس پر امریکی فوجیوں پر جس حملے کا الزام ہے اس میں کسی کی موت واقع نہیں ہوئی۔ وہ اس جرم میں ایک صدی کے لگ بھگ سزائے قید کی مستوجب قرار پائی کہ وہ 2010ء میں اس سزا کے سنائے جانے سے سات سال قبل 2003ء میں اغوا کر لی گئی اور بگرام ایئربیس پر قیدی نمبر 650 اور گرے لیڈی آف بگرام کے نام سے شہرت پا چکی تھی۔ سات سال کی یہ قید اور چھیاسی سال کی سزائے قید مل کر ترانوے سال یعنی سات سال کم ایک صدی بنتی ہے۔ اس پر دہشت گردی کے الزامات پر زور ہی نہ دیا گیا کہ استغاثہ میں الزام اتنا مضحکہ خیز تھا کہ جس کی کوئی حد نہیں۔ بقول استغاثہ اسے سترہ جولائی 2008ء کو غزنی (افغانستان) سے بم بنانے کی ترکیب پر مشتمل ہاتھ سے لکھے ہوئے کاغذات اور سوڈیم سائنائیڈ سمیت پکڑا گیا۔ یعنی دنیا کی بہترین سائنس اور ٹیکنالوجی کی یونیورسٹی ایم آئی ٹی سے فارغ التحصیل عافیہ صدیقی بم بنانے کی ترکیب کا نسخہ تھیلے میں ڈال کر ساتھ لیے پھر رہی تھی۔ یہ ایک حماقت انگیز الزام تھا جسے بعدازاں عدالت میں زیر بحث ہی نہ لایا گیا اور امریکی فوجیوں پر ہلاکت خیز ہتھیار (M-4) رائفل سے قاتلانہ حملے کے مقدمے میں چھیاسی سال قید سنائی اور قصہ تمام ہو گیا۔
ادھر لاہور جیسے پررونق شہر میں دن دیہاڑے سی آئی اے کے ایجنٹ ریمنڈ ڈیوس نے دو پاکستانی نوجوانوں کو سرعام اپنے پستول سے نشانہ بنا کر قتل کر دیا۔ بھاگتے ہوئے رش کی وجہ سے پھنس گیا اور مع اسلحہ پکڑا گیا۔ اسے کس طرح آئی ایس آئی کے چیف جنرل پاشا نے سارا بندوبست کر کے چھڑوایا ‘ایک بے غیرتی سے بھرپور قصہ ہے جسے رئوف کلاسرا بڑی تفصیل سے لکھ چکا ہے، اب اس پر دوبارہ کیا لکھنا کہ رئوف نے کوئی بات تشنہ نہیں رہنے دی۔ ہم بحیثیت ملک کے اور ایک قوم کے ریمنڈ ڈیوس کا عافیہ سے تبادلے کا معاملہ اٹھا سکتے تھے۔ ریمنڈ ڈیوس کی رہائی میں بے حال ہوئے جانے والی امریکی انتظامیہ سے سودے بازی ہو سکتی تھی مگر یہ تب ہوتا جب حکمرانوں کو اپنے کسی شہری کی‘ اپنی بیٹی کی اور اپنے ملک کی عزت و آبرو کی فکر ہوتی جو بظاہر ندارد ہے۔ لہٰذا جو ہوا وہ سب نے دیکھا۔ ریمنڈ ڈیوس امریکہ چلا گیا اور عافیہ صدیقی ابھی تک امریکی جیل میں ہے۔
یہ تو وہ ہے جو سب کو معلوم ہے لیکن بہت سی چیزیں ایسی بھی ہیں جو بہت سے لوگوں کو معلوم۔ نہیں مثلاً میجر محمد اکرم (نشان حیدر) کا معاملہ ۔میں اپنے گزشتہ کالم میں غدار فلائٹ لیفٹیننٹ مطیع الرحمان کا قصہ لکھ چکا ہوں کہ بنگلہ دیشی حکومت نے کس طرح پاک فضائیہ کے طیارے کو اغواء کر کے ہندوستان لے جانے کی کوشش میں مارے جانے والے بنگالی افسر کی میت واپس منگوائی اور اسی حادثے میں شہید ہونے والے نوجوان پائلٹ راشد منہاس کو پاکستان کی طرف سے نشان حیدر ملنے کے جواب میں اسی حادثے میں مرنے والے بنگالی کو بنگلہ دیش کا بہادری کا سب سے بڑا ایوارڈ بیرسر یشتھو(Bir Sreshtho) سے نوازا۔ حالانکہ اس وقت بنگلہ دیش بنا بھی نہیں تھا اور وہ مرنے کے وقت بنگلہ دیش ائرفورس کا نہیں، پاکستان ائیرفورس کا باوردی ملازم تھا اور اس کا نمبر PAK/4367 تھا اور وہ سکوارڈن نمبر 2 میں فلائٹ لیفٹیننٹ تھا۔ بنگلہ دیشی حکومتوں نے مسلسل تیس سال تک تگ و دو جاری رکھی اور قطع نظر اس کے کہ بنگلہ دیش کا حکمران ضیاء الرحمان (1977-81) تھا یا حسین محمد ارشاد (1982-90) خالد ضیاء تھی یا حسینہ واجد‘ سب نے ایک ہی سوچ اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا اور 1976ء سے مسرور ایئربیس کے قبرستان میں دفن اپنے بنگالی غدار پائلٹ کی میت کی واپسی کی کوششوں میں لگے رہے اور بالآخر چوبیس جون 2006ء کو ان کی تیس سالہ کوششیں رنگ لائیں اور وہ اپنے ”شہید‘‘ کی لاش واپس لینے میں کامیاب ہو گئے۔ بنگلہ دیشی حکومت کی جانب سے مطیع الرحمان کی لاش کی واپسی کی باضابطہ یا بے ضابطہ گفت و شنید کا آغاز 1976ء میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں شروع ہوا اور میت کی منتقلی کا مرحلہ ہمارے بہادر کمانڈوصدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں تکمیل پذیر ہوا۔
اس دوران کسی پاکستانی حکمران کو شاید یہ یاد ہی نہ رہا کہ ہمارا ایک نشان حیدر کا حامل سپوت میجر محمد اکرم شہید بنگلہ دیش میں دفن ہے۔ جہلم میں اس کی صرف یادگار تو موجود ہے مگر اس کی تربت اس کے آبائی گائوں نکہ کلاں سے ہزار میل سے بھی زیادہ دور بنگلہ دیش کے قصبہ بوگرہ میں اس طرح موجود ہے کہ خدا جانے وہاں کوئی اس کے لیے فاتحہ بھی پڑھتا ہے کہ نہیں۔
”ہلی کا ہیرو‘‘ بھارتی توپ خانے اور فضائیہ کے بے پناہ حملوں کے خلاف ہلی کے محاذ پر بہادری سے لڑتا ہوا اور ناقابل یقین مزاحمت کرتا ہوا پانچ دسمبر 1971ء کو شہید ہوا۔ شہادت کی تاریخ کے اعتبار سے میجر محمد اکرم شہید پاکستان کا نشان حیدر حاصل کرنے والا پانچواں شہید سپوت تھا۔ میجر محمد اکرم کی شہادت میجر شبیر شریف شہید نشان حیدر سے ایک دن قبل ہوئی۔ میجر محمد اکرم ضلع دیناج پور کے قریب ہلی کے محاذ پر شہید ہوا اور اسے حاکم پور (بنگلہ ہلی) کے قریبی گائوں بوالار میں دفن کر دیا۔ میجر اکرم ہماری بے حسی کے طفیل ابھی تک وہیں آسودہ خاک ہے۔ ہم اپنے ہیروز کو فراموش کر چکے ہیں اور ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات ہی دوسری ہیں۔ گزشتہ پینتالیس سال میں سے بیس سال تک دو فوجی حکمران برسر اقتدار رہے اور پچیس سال سول حکمرانوں نے اقتدار کے مزے لوٹے مگر شاید ان میں سے کسی کو بھی یہ یاد نہ رہا کہ ”ہیلی کا ہیرو‘‘ بنگلہ دیش میں دفن ہے اور اس کی روح مطیع الرحمان کی میت کی منتقلی پر کس قدر بے چین ہو گی۔
نہ ہم ریمنڈ ڈیوس کے بدلے عافیہ صدیقی کی رہائی یا پاکستان منتقلی کا سودا کر سکے اور نہ ہی بنگلہ دیش کے جعلی ”بیرسرپشتھو‘‘ مطیع الرحمان کی میت کے بدلے اپنے نشان حیدر محمد اکرم شہید کی میت حاصل کر سکے۔ دراصل ملکی وقار اور عزت و حمیت ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات میں شامل نہیں ہیں کہ وہ خود ان اعلیٰ صفات سے یکسر محروم ہیں۔ یہ بات الگ کہ جنت کے مکین کو اس بات سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ اس کا جسد خاکی کہاں دفن ہے مگر قوموں کی عزت، آبرو اور حمیت کا تعلق بہر حال اسی دنیا سے ہے جہاں ہم سانس لیتے ہیں۔ بقول اقبال ع
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں
-
اے کاش!-خالد مسعود خان
لہو میں بھیگے تمام موسم…گواہی دیں گے کہ تم کھڑے تھے…وفا کے رستے کا ہر مسافر…گواہی دے گا کہ تم کھڑے تھے…سحر کا سورج گواہی دے گا…کہ جب اندھیرے کی کوکھ میں سے…نکلنے والے یہ سوچتے تھے…کہ کوئی جگنو نہیں بچا ہے تو تم کھڑے تھے…تمہاری آنکھوں کے طاقچوں میں…جلے چراغوں کی روشنی نے…نئی منازل ہمیں دکھائیں…تمہارے چہرے کی بڑھتی جھریوں نے…ولولوں کو نمود بخشی…تمہارے بھائی‘ تمہارے بیٹے‘ تمہاری بہنیں…تمہاری مائیں‘ تمہاری مٹی کا ذرہ ذرہ…گواہی دے گا کہ تم کھڑے تھے…ہماری دھرتی کے جسم سے جب…ہوس کے مارے…سیاہ جونکوں کی طرح چمٹے…تو تم کھڑے تھے…تمہاری ہمت‘ تمہاری عظمت اور استقامت…تو وہ ہمالہ ہے…جس کی چوٹی تلک پہنچنا…نہ پہلے بس میں رہا کسی کے…نہ آنے والے دنوں میں ہو گا…سو آنے والی تمام نسلیں…گواہی دیں گی کہ تم کھڑے تھے…لہو میں بھیگے تمام موسم…گواہی دیں گے کہ تم کھڑے تھے…وفا کے رستے کا ہر مسافر…گواہی دے گا کہ تم کھڑے تھے.
طارق حبیب کی یہ نظم گزشتہ ایک ہفتے سے میری نظروں کے سامنے ہے اور اس کے پس منظر میں پاکستان کی محبت میں پھانسی کا پھندہ چومنے والے سرپھروں کی ایک مختصر سی ”بٹالین‘‘ جنت کی کھڑکیوں سے جھانکتی نظر آتی ہے۔ اس ملک میں شہادت کے اتنے فتوے جاری ہو چکے ہیں کہ ان سرفروشوں کو اب شہید کہنا بھی عجیب لگتا ہے کہ ہم نے قاتلوں‘ تکفیریوں اور باغیوں کو بھی اس سند سے نوازنے میں تامل نہیں کیا تو بھلا اب اس فانی دنیا سے کسی رخصت ہو جانے والے کے لیے ہمارے جاری کردہ القاب کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟ شہادت اور ہلاکت کے فیصلے وہ کرے گا جو ہر چیز پر قادر ہے اور اس دن سب معاملات سامنے آ جائیں گے جس روز وہ میزان عدل لگائے گا۔
بیانوے سالہ پروفیسر غلام اعظم 23 اکتوبر 2014ء کو اپنے خالق حقیقی کے ہاں حاضر ہوئے۔ ضعیف العمر پروفیسر غلام اعظم کو پاکستان آرمی کے لیے رضاکار‘ البدر کے لیے جنگجو بھرتی کرنے اور پاک فوج کا ساتھ دینے کے جرم میں نوے سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ پاکستان کی حمایت کرنے کے جرم میں غلام اعظم صاحب کی بنگلہ دیشی شہریت ختم کر دی گئی تھی۔ وہ 1978ء سے لے کر 1994ء تک سولہ سال تک بنگلہ دیش میں ”غیر قانونی‘‘ طور پر رہائش پذیر رہے تاوقتیکہ بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے ان کی شہریت بحال کر دی۔ 11 جنوری 2012 ء کو انہیں گرفتار کیا گیا۔ بنگلہ دیش کی ”جنگ آزادی‘‘ میں کئے جانے والے جنگی جرائم کے الزام میں انہیں حسینہ واجد کے خود ساختہ ”انٹرنیشنل کرائم ٹربیونل‘‘ میں پیش کیا گیا، جہاں انہیں نوے سال قید کی سزا سنائی گئی۔ وہ جیل میں دو سال نو ماہ اور بارہ دن گزارنے کے بعد جیل اور زندگی کی قید سے اکٹھے ہی آزاد ہو گئے۔
عبدالقادر ملا 12 دسمبر 2013ء کو، محمد قمر الزماں 11 اپریل 2015ء ، علی احسن مجاہد اور صلاح الدین قادر چوہدری 22 نومبر 2015ء ، مطیع الرحمان نظامی11 مئی 2015 ء کو اور اب میر قاسم علی 3 ستمبر 2016 ء کو اس دارفانی سے اپنے خالق حقیقی کے دربار میں حاضر ہو گئے۔ ان سب کو پاکستان سے محبت اور وفاداری نبھانے کے جرم میں پھانسی پر لٹکایا گیا۔ سب نے پھانسی پر مسکرا کر داعیٔ اجل کو لبیک کہا۔ کسی نے رحم کی اپیل نہ کی۔ سب مستانہ وار پھندے کو چومنے ایسے چلے کہ فیض یاد آ گیا ؎
دست افشاں چلو…مست و رقصاں چلو…خاک بر سر چلو…خوں بداماں چلو …راہ تکتا ہے سب شہر جاناں چلو
کسی کو سٹریچر پر ڈال کر تختہ دار تک پہنچانے کی تکلیف نہ اٹھانا پڑی۔پاکستان اس سارے معاملے میں اتنا غیر جانبدار ہے کہ لگتا ہے اس سارے معاملے میں نہ وہ فریق ہے اور نہ ان پھانسی پانے والوں سے ہماری کوئی جان پہچان ہے۔ یہ بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ ہے اور ”مجرم‘‘ محض بنگلہ دیش کے عام سے ”غدار‘‘ تھے جنہیں اس غداری کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی اور تختہ دار پر چڑھا دیا گیا۔ موم بتی مافیا کو تو چھوڑیں کہ ان کی ترجیحات کا سب کو اندازہ ہے۔ کشمیر میں ”پیلٹ گن‘‘ یعنی چھروں والی بندوق سے کشمیریوں پر فائرنگ ہو، ان کو رتی برابر پروا نہیں، دو ماہ سے زائد عرصہ سے کرفیو لگا ہو اور شہری محصور ہوں، انہیں کوئی فکر نہیں۔ بچوں کو دودھ تک نہ مل رہا ہو، انہیں انسانی حقوق یاد نہیں آتے۔ تازہ ترین احتجاجی لہر میں پچانوے لوگ جاں بحق ہو جائیں، ان کو کوئی ملال نہیں کہ ان کے آقائے ولی نعمت کی جانب سے کوئی اشارا نہیں اور وہ ہو بھی کیسے؟ بھلا وہ یہ سارا خرچہ اپنے خلاف آواز اٹھانے والوں پر کر سکتے ہیں اور کیا یہ موم بتی مافیا اپنے رزق روٹی فراہم کرنے والوں کے خلاف آواز بلند کر سکتا ہے؟ ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور انسانی حقوق کے دیگر اداروں نے ان تمام پھانسی پانے والوں کے ٹرائل پر شدید ترین تحفظات کا اظہار کیا اور سارے بنگلہ دیشی نظام انصاف کو اس معاملے میں عموماً اور انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل آف بنگلہ دیش کی ساری عدالتی کارروائی کو خصوصاً انصاف کے تقاضوں کے منافی قرار دیا؛
تاہم ان تنظیموں نے اس سلسلے میں وہ کہرام نہ مچایا جو یہ عموماً مچاتی ہیں۔ سارا مغرب خاموش ہے اور ان این جی اور عالمی انسانی حقوق کے تنظیموں اور مغرب کے بارے میں کیا کہا جائے؟ خود حکومت پاکستان نے اس سلسلے میں مکمل مجرمانہ خاموشی کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ ہر پھانسی پر ہماری وزارت خارجہ ایک ڈھیلا ڈھالا سا بیان جاری کر دیتی ہے کہ ان کا کام ایک پنجابی محاورے کے مطابق ”شلجموں سے مٹی اتارنے کے برابر ہے‘‘ صرف ایک ترک صدر اردوان تھا جس نے مطیع الرحمان نظامی کی سزائے موت کے خلاف کھل کر بات کی۔ بنگلہ دیشی حکومت کی مذمت کی اور اپنا سفیر بنگلہ دیش سے واپس بلا لیا۔ اردوان نے یہ تقریر دراصل بنگلہ دیش کی حکومت کے اقدامات کے خلاف نہیں کی تھی، ہمارے منہ پر جوتا مارا تھا۔ ترک غیرت کا ثبوت نہیں دیا تھا، ہمارے بے غیرتی کا مذاق اڑایا تھا۔ مطیع الرحمان کی پھانسی پر احتجاج نہیں کیا تھا، ہماری خاموشی پر ہمیں شرم دلانے کی کوشش کی تھی۔ ترکی کی میٹرو سے لے کر نظام صفائی تک کی نقل مارنے والے ہمارے حکمرانوں کو صدر اردوان کی اس سلسلے میں نقل مارنے کی ہمت نہ ہوئی کہ یہ کام غیرت مند قوموں کا ہوتا ہے۔
میں نے ترک صدر کی وہ تقریر دیکھی، سنی کا معاملہ یوں نہیں کہہ سکتا کہ یہ تقریر ترک زبان میں تھی اور ”زبان یار من ترکی‘ ومن ترکی نمی دانم‘‘ والا معاملہ تھا؛ تاہم نیچے چلنے والے انگریزی ترجمے کو محض دیکھا جا سکتا تھا اور ترک صدر کے خطاب کے دوران اس کے جوش اور جذبے کو محسوس کیا جا سکتا تھا۔ ترجمہ اصل کا عشر عشیر بھی نہیں ہوتا مگر اردوان کی ”باڈی لینگوئج‘‘ اتنی زوردار اور جاندار تھی کہ ترجمے کی کمی بیشی پوری کر دی۔ ترک صدر نے کہا : ”میں مطیع الرحمان نظامی کی پھانسی کا غم آپ لوگوں سے بانٹنا چاہتا ہوں۔ ہر بات سے پہلے میرا یقین ہے کہ مطیع الرحمان نظامی نہ کسی ایسے جرم کے مرتکب تھے اور نہ ہی اس سزا کے حقدار تھے۔ ہم بنگلہ دیش کی قیادت سے ملک کے امن‘ استحکام اور اچھے مستقبل کے لیے زیادہ محتاط اور صحیح فیصلوں کے منتظر ہیں۔ دنیا میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم اور ایسے واقعات کی ہم خبر رکھتے ہیں۔
جیسا کہ مطیع الرحمن نے اپنے خط میں کہا ‘میں جا رہا ہوں اور اپنے پیچھے ایک فکر چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ ایسے مشکل حالات میں بھی موت کے خوف کے بجائے استقامت دیکھ کر حیران ہونے والوں اور ہمارے لیے موت کے معنی ایک نہیں ہیں۔ بھائیو! یہ احمق سمجھتے ہیں کہ ہمارے متعلق انہوں نے فیصلہ کیا ہے، یہ فیصلے تو آسمانوں پر ہوتے ہیں۔ میں ان سے کہتا ہوں تم کون ہوتے ہو یہ فیصلہ کرنے والے؟ اپنے بندے کو راضی کرنے کے لیے اللہ سے کوئی گلہ نہیں۔ میرا یہ پیغام ہے کہ میں جا رہا ہوں، میں خود سے پہلے جانے والے دوستوں‘ بھائیوں اور رسول اللہ ﷺ کے پاس جا رہا ہوں۔ تم لوگ یہیں رہ جائو گے، جہاں میں جا رہا ہوں وہاں فیصلہ ہو جائے گا کہ کون حق پر تھا۔ میں جا رہا ہوں، تم اپنے آپ کو منظم کرو اور یہ نہ بھولنا کہ تمہاری باری بھی آئے گی۔ شہادت کی موت اور کسی انسان کی غلامی قبول نہ کرنے کو ہمیشہ یاد رکھنا‘۔ مطیع الرحمان نظامی پر اللہ کی رحمتیں ہوں۔
میں بنگلہ دیش اور دنیا کے مسلمانوں کے لیے صبر کی دعا کرتا ہوں۔ ڈھاکہ میں موجود سفیر کو ہم نے واپش بلا لیا ہے اور وہ اس وقت استنبول پہنچنے والا ہے۔ اور مت بھولنا، ظالموں کے لیے جہنم ہے‘‘۔ سارا ہال نعرے مار رہا تھا۔ مجھے کچھ پتا نہیں کہ وہ کیا کہہ رہے تھے۔ کاش میں وہاں ہوتا اور کم از کم کھل کر نعرہ تو لگا سکتا۔ کاش یہ تقریر صدر اردوان کے بجائے ہمارے کسی حکمران کی ہوتی۔ کاش یہ غیرت ہم نے دکھائی ہوتی۔ کاش اس شہادت کا درد ہم نے اسی طرح محسوس کیا ہوتا۔ اے کاش…اے کاش!
-
حکومت کے لئے سب اچھا نہیں-حامد میر
تین ستمبر کو بنگلہ دیش کے شہر غازی پور میں جماعت اسلامی کے ایک رہنما میر قاسم کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ میر قاسم پر الزام تھاکہ انہوں نے1971ءمیںالبدر کے پلیٹ فارم سے پاکستان کی سلامتی کی جنگ لڑی۔ جس دن میر قاسم کو پھانسی پر لٹکایا گیا اس دن لاہور میں عمران خان جبکہ راولپنڈی میں ڈاکٹر طاہر القادری اور شیخ رشید احمد کی طرف سے وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف احتجاج کیا جارہا تھا۔ کسی کو میر قاسم کی پھانسی کے خلاف احتجاج یاد نہ رہا۔ اس پھانسی پر پاکستان کے دفتر خارجہ کی طرف سے ایک کمزور سا مذمتی بیان جاری کیا گیا جس میں ایک دفعہ پھر صرف یہ کہا گیا کہ1974ءمیں پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان ہونے والے معاہدے کی خلاف ورزی کی جارہی ہے جس کے تحت1971ءکے واقعات کو بھول کر آگے بڑھنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔
پاکستانی دفتر خارجہ نے اپنے بیان میں ہیومن رائٹس واچ کا ذکر نہیں کیا جس کے ایشیاء کےڈائریکٹر بریڈ ایڈمز نے بنگلہ دیش کے انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل کی طرف سے میر قاسم کو دی جانے والی پھانسی کی سزا کو انصاف کے تقاضوں کے منافی قرار دیا اور کہا کہ میر قاسم کا فیئر ٹرائل نہیں ہوا۔ میر قاسم کو چودہ مختلف مقدمات میں72سال قید اور پھانسی کی سزا دی گئی۔ اس سزا کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی تو اغواء اور تشدد کے تین مقدامات میں سزا معطل کردی گئی اور قتل کے دو مقدمات میں سزا بھی ختم کردی گئی البتہ ایک مقدمے میں پھانسی کی سزا برقرار رکھی گئی۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سریندرا کمار سنہا نے میر قاسم کے خلاف پیش کئے جانے والے شواہد اور گواہوں کے بیانات پر کھلم کھلا عدم اطمینان کا اظہار کیا اور اٹارنی جنرل محبوب عالم کو کہا کہ آپ کرائمز ٹربیونل کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کررہے ہیں۔ یہ پہلو انتہائی اہم ہے کہ ہیومن رائٹس واچ نے ہمیشہ 1971ءمیں ہونے والے جرائم کی مذمت کی اور 1971ءکے جرائم میں ملوث افراد کا ٹرائل کرنے کی حمایت کی لیکن حسینہ واجد کی حکومت نے جس انداز میں ٹرائل شروع کئے اور سیاسی مخالفین کو پھانسیوں پر لٹکانا شروع کیا اس پر ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کمیٹی سمیت انسانی حقوق کے کئی عالمی ادارے بھی چیخ اٹھے ہیں۔ بنگلہ دیش حکومت نے ڈیلی اسٹار ڈھاکہ کے لبرل اور سیکولر ایڈیٹر محفوظ انعام پر غداری کے مقدمات بنا کر یہ پیغام دیا ہے کہ بنگلہ دیش میں جمہوریت کے نام پر آمریت قائم کی جارہی ہے۔ میں نے ذاتی طور پر1971ءمیں اس وقت کے مشرقی پاکستان میں ہونے والے فوجی آپریشن پر ہمیشہ تنقید کی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ بنگلہ دیش میں عوامی لیگ کی حکومت ظلم کی یاد میں مزید ظلم کرے اور ناانصافی کے نام پر مزید ناانصافی کرے۔ ان اقدامات سے خطے میں مزید نفرتیں جنم لیں گی اور نوجوان نسل میں انتہا پسندی فروغ پائے گی، لہٰذا بنگلہ دیش میں ہونے والی ناانصافی پر آواز اٹھانا کسی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں بلکہ اس پورے خطے کو انتہا پسندی سے بچانے کی کوشش ہے۔
بنگلہ دیش میں ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانے کا یہ مطلب نہیں کہ پاکستان میں ناانصافی نہیں ہوتی۔ تین ستمبر کو لاہور اور راولپنڈی میں اپوزیشن جماعتوں کے احتجاج پر کئی اعتراضات کئے جاسکتے ہیں لیکن کیا یہ درست نہیں کہ2014ءمیں لاہور میں پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں پر پولیس نے گولیاں برسائیں اور14بے گناہ مرد و خواتین مرغابیوں کی طرح مارے گئے؟ عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر طاہر القادری کے انداز سیاست سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن دو سال گزرنے کے باوجود ان کی جماعت کے مقتولین کو انصاف نہیں ملا اور اگر وہ بار بار احتجاج کریں تو یہ ان کا حق ہے۔ تین ستمبر کو ڈاکٹر طاہر القادری اور عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید احمد نے راولپنڈی میں احتجاج کیا۔ دونوں مل کر بڑی تعداد میں لوگوں کو سڑکوں پر لانے میں کامیاب رہے۔ لوگوں کو سڑکوں پر آنے سے روکنے کے لئے راولپنڈی اور لاہور کی سڑکوں کو کنٹینروں سے بند کیا گیا لیکن اس کے باوجود دونوں شہروں میں رات گئے تک ہزاروں افراد وفاقی و صوبائی حکومت کے خلاف نعرے بازی کررہے تھے۔
2014ءمیں عمران خان اور طاہر القادری سڑکوں پر آئے تو اکثر اپوزیشن جماعتوں کا خیال تھا کہ یہ دونوں جمہوریت کے خلاف کسی سازش کا حصہ ہیں۔2014ء میں جب عمران خان اور طاہر القادری نے پارلیمنٹ ہائوس کے باہر دھرنادیا تو پیپلز پارٹی سمیت کئی دیگر جماعتوں نے پارلیمنٹ ہائوس کے اندر وزیر اعظم نواز شریف کا ساتھ دیا۔ جماعت اسلامی نے مذاکرات کے ذریعے حکومت اور سڑکوں پر موجود مظاہرین میں پل بننے کی کوشش کی۔ 2016ءمیں صورتحال مختلف ہے، پاناما پیپرز کے معاملے پر پیپلز پارٹی سمیت اپوزیشن کی نو جماعتیں یکساں موقف رکھتی ہیں۔ تین ستمبر کو لاہور میں تحریک انصاف کی احتساب ریلی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے قائدین کی شرکت بہت اہم ہے۔
آنے والے دنوں میں پیپلز پارٹی بھی وفاقی حکومت کے خلاف سڑکوں پر آنے کی تیاری کررہی ہے اور قربانی کی عید کے بعد پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف میں قربتیں بڑھ سکتی ہیں۔ پیپلز پارٹی صرف یہ چاہتی ہے کہ اپوزیشن کے احتجاج کے نتیجے میں جمہوریت کو کوئی خطرہ پیدا نہ ہوجائے۔ تحریک انصاف کی قیادت نے پیپلز پارٹی کو یقین دلایا ہے کہ اس کے احتجاج کا مقصد صرف اور صرف کرپشن میں ملوث طاقتور افراد کا احتساب اور2018ءمیں صاف و شفاف انتخابات کا انعقاد ہے۔ یہ دونوں جماعتیں دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مل کر عدالتوں کا دروازہ بھی کھٹکھٹائیں گی۔ حکومت کے خلاف سیاسی دبائو کے ساتھ ساتھ قانونی دبائو بھی بڑھایا جائے گا۔حکومت کو معاملہ فہمی سے کام لینا ہوگا۔ حکومت اس غلط فہمی سے نکل آئے کہ چند اہم عہدوں پر نئی تقرریوں سے اس کے مسائل ختم ہوجائیں گے۔2014ءاور2016ءمیں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ دو سال کے دوران غیر ملکی دشمنوں نے پاکستان کے گرد اپنا گھیرا تنگ کردیا ہے اور پاکستان میں عدم استحکام پھیلانے کے لئے بڑے بڑے منصوبے بنائے جارہے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں داخلی استحکام کی ضرورت ہے لیکن پاناما پیپرز کے معاملے میں حکومت کا غیر لچکدار رویہ صرف حکومت کے لئے نہیں بلکہ داخلی استحکام کے لئے بھی خطرات میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے لہٰذا حالات کی نزاکت حکومت کے رویے میں لچک کا تقاضا کرتی ہے۔
تین ستمبر کی رات عمران خان نے وزیر اعظم سے کہا ہے کہ ان کے خاندان نے لندن میں جو جائیداد خریدی اس کی دستاویزات دکھادیں، یہ بتادیں کہ اس جائیداد کو خریدنے کے لئے پیسہ کہاں سے آیا، یہ پیسہ ملک سے باہر کیسے گیا اور جس پیسے سے جائیداد خریدی گئی اس پر ٹیکس دیا گیا یا نہیں؟ یہ بڑے سادہ سے سوالات ہیں۔ حکومت کچھ سوالات کا جواب دے چکی ہے اور کچھ کا جواب دے سکتی ہے لیکن نجانے کیوں پاناما پیپرز پر اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات میں لچک کیوں نہ دکھائی گئی۔ حکومت سے گزارش ہے کہ ضمنی انتخابات میں فتح کے نشے سے چھٹکارا پائے اور عمران خان کے سوالات کا ٹھوس شواہد کی مدد سے جواب دے بصورت دیگر قربانی کی عید کے بعد اپوزیشن جماعتوں کا ایک بڑا اتحاد تشکیل پانے والا ہے اور حکومت کے اندر بھی بغاوت ہوسکتی ہے۔ جمہوریت قائم رہے گی لیکن چہروں میں تبدیلی کا دبائو بڑھنے والا ہے۔
-
تو کیا اب ہر محب وطن یہ سمجھ لے کہ وہ اکیلا ہے؟ زبیر منصوری
تو کیا اب ہر محب وطن یہ سمجھ لے کہ وہ اکیلا ہے؟
اس کی پیٹھ خالی ہے؟
اس کو بس اپنے ہی بل بوتے پر جو کرنا ہے سو کرنا ہے؟
اسے کسی سے کوئی امید نہیں رکھنی چاہیے ؟
ان سے بھی نہیں جنہوں نے ان کے ملک و دین کے لیے اخلاص کو ملکہ نور جہاں کی ایک مسکراہٹ جتنی اہمیت بھی نہیں دی؟
جن کی نظر میں ان کا اپنی زندگی سے گزر جانا کسی طوائف کے کوٹھے پر”چیچی دے چھلے“ والا گانا گا لینے سے بھی کم اہم ہے؟
ان کے لیے بھی نہیں جو ملک و قوم کے نام پر سیاست کرتے نہیں تھکتے؟غضب خدا کا بنگلہ دیش میں پھانسی گھاٹ پر میرے شہداء کی قطاریں لگی ہیں اور پاکستان میں کوئی پھوٹے منہ ان کا ذکر کرنے کو بھی تیار نہیں؟
کوئی بنگلہ سفیر کو بلا کر رسمی کارروائی کا روادار بھی نہیں؟
کوئی میڈیا اینکر؟
کسی سیاسی جماعت کا کوئی ورکر؟
کوئی تیسرے درجہ کا سیاسی لیڈر ہی سہی؟
کوئی این جی او ؟
کوئی ادارہ ؟
کوئی بھی نہیں ؟
زبانیں گنگ ہیں، قدم زنگ آلود ہیں، کیوں آخر کیوں؟
یارو کچھ تو بولو، یہ قبرستان کی خاموشی کیوں ہے؟یہ میرا میر قاسم
خدا کی قسم! تم ایک تو ایسا پیدا کر کے دکھائو؟
موت کی سزا ہوئی ہے اسے، موت کی سزا!
پتہ بھی ہے موت ہوتی کیا ہے؟
مگر وہ کمال کا آدمی مسکرا کر بولا ہے رحم کی اپیل؟
وہ بھی ان ظالموں سے؟
سوری یہ زبان اس کے لیے بنی ہی نہیںجس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے، اس جان کی تو کوئی بات نہیں
یہ وفاداروں کے قبیلہ کے لوگ ہیں
یہ نظام حاضر و موجود کے باغی ہیں
یہ مودودی کے شاگرد ہیں جس نے خود بھی کہہ دیا تھا کہ زندگی و موت کے فیصلہ یہاں نہیں ہوتے
یہ اس قافلہ کے شہ سوار ہیں جسے صحابہ کی روایتوں نے قوت اور توانائی فراہم کی ہے
ان کی راہیں عارضی وقتی فوری مفادات کی بنیاد پر بنتی اور تبدیل نہیں ہوتیں بلکہ ازلی اور ابدی اصولوں سے کشید کی جاتی ہیں
ان کے پیش رو سید احمد شہید اور ٹیپو سلطان جیسے لوگ ہیں
تم انہیں پھانسی نہیں دیتے، شہادت کا تحفہ دیتے ہو
ان کی زندگی تو امانت ہوتی ہے اور امانت جتنی اچھی طرح مالک تک پہنچے، امین کے لیے اتنے ہی اچھے انعام کا سبب بنتی ہے
یہ تو اس روایت کے پیروکار ہیں کہ جب ان کے ایک بڑے کی پھانسی نظربندی میں تبدیل ہوئی تو انہوں نے کیا خوب کہا تھا کہ
مستحق دار کو حکم نظربندی ملا
کیا کہوں کیسے رہائی ہوتے ہوتے رہ گئی
یہ تو اپنا بہترین صلہ پانے جا ہی رہے ہیں
یہ تو کشاں کشاں اپنے رب کی طرف لوٹ رہے ہیں مگر
تیرا کیا بنے گا حسینہ ؟
تو مودی کے ساتھ ہی اپنا انجام دیکھ لے
اور وہ سب بھی سوچ لیں جنہوں نے اپنی زبانیں بےنام سے مفادات اور سفارتی آداب کی سوئیوں سے سی لی ہیں
جلد میرے رب کے پھانسی گھاٹ سجنے کو ہیں
تمہارے اور ان پھانسی گھاٹوں میں فرق بس اتنا ہے کہ تم پھانسی دے کر عزت والی موت سے ہمکنار کرتے ہو اور میرے رب کی سزا میں موت نہیں آئے گی، ہر لمحہ مرنا اور اذیت ناک مرنا ظالموں کا نصیب بن جائے گا. ان شا اللہ