Tag: پولیس ٹریننگ سنٹر

  • مرد جری کا انتظار-حامد میر

    مرد جری کا انتظار-حامد میر

    hamid_mir1

    جس ملک میں جوان لاشیں اٹھانا آسان اور سوال اٹھانا مشکل ہوجائے وہاں لو گ ایک دوسرے سے نہیں بلکہ اپنے آپ سے بھی ڈرنے لگتے ہیں۔ سوال اٹھانے والوں کو کفر کے فتوئوں اور غداری کے ا لزامات سے خاموش کرنے کی کوشش دشمنوں کی خفیہ مدد کے مترادف ہوتی ہے لیکن ایسے مشکل وقت میں بھی سوال اٹھاتے رہنا خوف خدا اور انسانیت سے محبت کا ثبوت بن جاتا ہے۔ پولیس ٹریننگ کوئٹہ پر تین دہشت گردوں کے حملے میں 61نوجوان کیڈٹس کی شہادت کے بعد کچھ سوالات اٹھائے جارہے ہیں اور ایک دفعہ پھر سوالات اٹھانے والوں کو دشمنوں کا ایجنٹ کہا جارہا ہے۔ بلوچستان کے ایک معروف وکیل نے دکھ بھرے لہجے اور پرنم آنکھوں سے مجھے کہا کہ کوئٹہ کے مضافات میں بنائے گئے پولیس ٹریننگ کالج پر پرویز مشرف کے دور میں بھی حملہ ہوا تھا لیکن پھر بھی اس کی سیکورٹی کے مناسب انتظامات نہ کئے گئے۔

    2008ء میں اسلام آباد کی پولیس لائنز، 2009ء میں پولیس ٹریننگ اکیڈمی مناواں اور2014ء میں پولیس ٹریننگ کالج ہنگو پر حملے کے بعد بلوچستان کے واحد پولیس ٹریننگ کالج کو محفوظ بنانے کی ضرورت تھی لیکن کسی کو یہ خیال کیوں نہ آیا؟ کوئٹہ میں طاقتور اداروں کے دفاتر اور رہائشی علاقوں کو اتنا محفوظ بنادیا گیا کہ شہر کے اندر کئی شہر بن گئے جن میں عام شہری داخل نہیں ہوسکتے لیکن پولیس ٹریننگ کالج کوئٹہ کو صرف ایک بندوق بردار گارڈ کے سہارے کیوں چھوڑ دیا گیا؟کیا اس لئے کہ بلوچستان پولیس ایک کمزور ادارہ ہے؟ 6ستمبر 2016ءکو آئی جی نے وزیر اعلیٰ کو واضح الفاظ میں یاد دلایا کہ پولیس ٹریننگ کالج کوئٹہ کے ارد گرد چار دیواری تعمیر کرنا بہت ضروری ہے۔ وزیر اعلیٰ نے منظوری تو دیدی لیکن دو ماہ میں کوئی کام شروع نہ ہوا حالانکہ دیوار تعمیر کرنا چند دنوں کا کام ہے۔ کیا اس پورے واقعہ کی ذمہ داری صرف پولیس افسران پر ڈال دینا انصاف ہے؟ اس پولیس ٹریننگ کالج کی طرف جانے والے راستوں پر کس کے ناکے ہیں؟ دہشت گردوں نے بھاری اسلحے سمیت یہ ناکے کیسے عبور کئے؟

    یہ تمام سوالات اٹھانا دشمن کی مدد کرنا ہے یا دشمن کے طریقہ کار کو ناکام بنانے کی کوشش ہے؟ پاکستان میں 26خفیہ ادارے ہیں۔ ان اداروں کا دعویٰ ہے کہ وہ دنیا کے بہترین خفیہ ادارے ہیں۔ کیا کسی ایک ادارے کو بھی خیال نہیں آیا کہ دہشت گرد لاہور اور اسلام آباد میں پولیس کی عمارتوں پر حملے کرسکتے ہیں تو کوئٹہ میں بھی کریں گے؟ حیرت کی بات ہے کہ کروڑوں روپے کی لاگت سے ایک فلم بنائی گئی جس کا نام’’وار‘‘ رکھا گیا۔ اس فلم کی کہانی میں بتایا گیا کہ کس طرح بھارتی خفیہ ادارے نے اسلام آباد میں پولیس اکیڈمی پر حملہ کیا تاکہ سیکورٹی اداروں کو افراتفری کا شکار کیا جائے اور پھر جناح کنونشن سینٹر اسلام آباد پر حملہ کردیا جائے۔فلم کا ہیرو شان کنونشن سینٹر پر حملے کو ناکام بنادیتا ہے۔ جس جس نے یہ فلم دیکھی ہے وہ سوچ رہا ہوگا کہ ہم پولیس اکیڈمی پر حملے کو فلم کا موضوع بنارہے ہیں لیکن پولیس کے تربیتی مراکز کی حفاظت سے غافل کیوں ہیں؟

    کہنے کو تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ2009ءمیں جی ایچ کیو راولپنڈی میںدس حملہ آو ر گھس گئے، 2011ءمیں مہران بیس کراچی میں 15حملہ آورگھس گئے، 2012ءمیں کامرہ ائر بیس میں9حملہ آوروں نے تباہی مچادی اور 2014 ء میں بھی دس حملہ آورکراچی ائرپورٹ میں گھس گئے جہاں اچھے خاصے حفاظتی انتظا مات تھے پھر آپ پولیس ٹریننگ کالج کوئٹہ کی کچی دیوار پر شور کیوں مچارہے ہیں؟ عرض یہ ہے کہ کوئٹہ کے واقعہ میں صرف تین حملہ آوروں نے60نہتے کیڈٹس کو گولیوں کا نشانہ بنایا، اگر حفاظتی انتظامات بہتر ہوتے تو ا تنا زیادہ جانی نقصان نہ ہوتا۔ میں غلام حیدر نامی پولیس گارڈ کی جرأت کو سلام کرتا ہوں جس نے حملہ آوروں کو روکنے کی کوشش کی لیکن جب اس پر تین اطراف سے حملہ ہوا تو وہ شہید ہوگیا۔ یہاں مناسب حفاظتی انتظامات ہوتے تو ایف سی اور فوج کو آپریشن نہ کرنا پڑتا اور فوج کے دو بہادر جوان بھی شہید نہ ہوتے، کاش کے جب2013ءمیں علمدار روڈ کوئٹہ کے حملے میں 105پاکستانی شہید اور169زخمی ہوئے تو کوئی کسی سے پوچھتا کہ اس چھوٹے سے شہر میں خود کش حملہ آوردرجنوں چیک پوسٹوں سے کیسے نکل جاتے ہیں؟ ستم تو یہ تھا کہ2013ءمیں پولیس لائنز کوئٹہ میں پولیس اہلکاروں کی نماز جنازہ پر حملہ ہوگیا جس میں39نمازی شہید ہوگئے اور یہ پتہ نہ چل سکا کہ پولیس لائنز میں خود کش حملہ آور کیسے گھس گیا؟

    سردار بہادر خان وویمن یونیورسٹی اور زیارت ریذیڈینسی پر حملے کے بعد بھی غفلت کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہوئی ۔8اگست 2016ءکو ایک خود کش حملے میں بلوچستان کے56وکلاء سمیت 70افراد شہید ہوگئے۔ اس واقعے کے بعد ضروری تھا کہ صرف مذمت اور ہمدردی نہ کی جائے بلکہ کامیابیوں کے دعوئوں کے پیچھے اپنی غفلتیں چھپانے والے کچھ سوالوں کا جواب دے دیں لیکن سوال کرنے والے ایک دفعہ پھر دشمن کے ایجنٹ قرار پائے ا ور ہر طرف خاموشی چھا گئی۔ اپنوں کو ڈرا دھمکا کر خاموش کرادیا گیا لیکن دشمن خاموش نہیں بیٹھا اور اس نے ایک اور حملہ کرا کے اہل اختیار کی غفلتوں اور نااہلیوں کا پردہ چاک کردیا۔ کامن سینس تو یہی کہتاہے کہ دشمن نے مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کی حمایت کا بدلہ لینے کے لئے کوئٹہ میں پولیس ٹریننگ کالج پر حملہ کرادیا لیکن ہم ان حملوں کو روکنے میں ناکام کیوں ہیں؟ آخر کسی کو تو جواب دینا ہوگا۔

    اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے عوام اور سیکورٹی فورسز نے دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں بے مثال قربانیاں دی ہیں لیکن ان قربانیوں میں مسلسل اضافہ قابل فخر نہیں۔ عوام اور سیکورٹی فورسز کو مسلسل مرواتے رہنا کہاں کی بہادری ہے؟ کیا یہ سوچنے کی ضرورت نہیں کہ خرابی کی جڑ کہاں ہے؟ جب ہم یہ دعویٰ سنتے ہیں کہ دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے تو ایک لمحے کے لئے ہم سکھ کا سانس لیتے ہیں لیکن اگلے ہی لمحے پتہ چلتا ہے کہ جن کی کمر توڑی جاچکی ہے وہ دیواریں پھاند کر کسی سکول، یونیورسٹی یا پولیس ٹریننگ کالج میں گھس کر موت کا کھیل شروع کرچکے ہیں تو پھر کس پر یقین کریں؟ کیا ٹوٹی کمر61پولیس کیڈٹس کو موت کی نیند سلاسکتی ہے؟ سوال یہ ہے کہ ان ٹوٹی کمر والوں کو پاکستان کے اندر پناہ گاہیں کون فراہم کرتا ہے؟ یہ گھر کے بھیدی کب گرفت میں آئیں گے؟ میں جانتا ہوں میرے سوالات 61جوان لاشوں سے زیادہ بھاری ہیں لیکن مجھے اس مرد جری کا انتظار ہے جو مجھے خاموش کرانے کی بجائے ان سوالات کا جواب دے۔

  • رک جاؤ‘ خدا کے لیے رک جاؤ-ہارون الرشید

    رک جاؤ‘ خدا کے لیے رک جاؤ-ہارون الرشید

    m-bathak.com-1421247288haroon-rasheed
    انگریزی میں کہتے ہیں “Someone Should cry halt”۔رک جائو خدا کے لیے اب تو رک جائو۔ اجیت دودل کا ہاتھ‘ ہماری شہ رگ تک آپہنچا ہے اور اس وقت آ پہنچا ہے‘ جب غنیم‘ ہم سے قوی ہرگز نہیں۔
    کوئٹہ کا سانحہ دلدوز ہے۔ اصل اوربنیادی المیہ مگر اس سے بڑا ہے۔ صبح سویرے نصرت جاوید کو فون کیا تو اس نے کہا: تم دل لگی کرتے ہو‘ شب مجھے نیند کی گولی کھانا پڑی۔ سویا میںبھی نہیں تھا‘ بس یہی‘ ایک ڈیڑھ گھنٹہ۔ کاہلی کا شکار نہ ہوتا تو بلوچستان پہنچ چکا ہوتا۔ بارہ بجے کی پرواز میں سیٹ میسر تھی ۔سبھی کے دل دکھ سے بھرے ہیں ۔ اپنے آپ پر ترس کھانے سے مگر کیا حاصل؟

    جنگ ٹھہری ہے ‘ کوئی کھیل نہیں ہے اے دل
    دشمن جاں ہیں سبھی‘ سارے کے سارے قاتل
    یہ کڑی رات بھی‘ سائے بھی‘ تنہائی بھی
    درد اور جنگ میں کچھ میل نہیں ہے اے دل
    اورپھر شاعر نے یہ کہا
    لائو سلگائو کوئی جوشِ غضب کا انگار
    طیش کی آتش جرار کہاں ہے لائو
    وہ دھکتا ہوا انگار کہاں ہے لائو
    جس میں گرمی بھی ہو ‘ حرکت بھی توانائی بھی
    ہونہ ہو اپنے قبیلے کا بھی کوئی لشکر
    منتظر ہو گا اندھیرے کی فصیلوں کے اُدھر
    ان کو شعلوں کے رجز اپنا پتا تو دیں گے
    خیر‘ ہم تک وہ نہ پہنچیں بھی‘ صدا تو دیں گے
    دُورکتنی ہے ابھی صبح‘ بتا تو دیں گے

    المیہ یہی نہیں کہ اتنے بہت سے بانکے سجیلے فرزند اس بے بسی کے عالم میں‘ مقابلے کی حسرت لیے گاجر مولی کی طرح کاٹ دیے گئے۔ حکومت کی صاحباں نے ہر ایک مرزے کا تیر جنڈ کے درخت میں ٹانک دیا‘ اور بے موت وہ مارا گیا۔ حادثہ اس سے بھی زیادہ ہے۔ سگ آزاد ہیں اور پتھر بندھے ہوئے ہیں۔ غنیم تباہی پر تلا ہے اور ہم جوتم پیزارمیں مصروف ہیں۔ گریبان میں جھانکنے کا اگر یارا ہو تو اب بھی سبق سیکھا جا سکتا ہے۔ آئندہ کے لیے تباہی ‘ ناکامی اور حسرت کا دروازہ بند کیا جا سکتا ہے۔

    پولیس ٹریننگ کالج کی دیوار؟ حفاظتی انتظامات میں المناک بلکہ مجرمانہ تساہل؟ پولیس کی قیادت اور صوبائی حکومت کی اذیت ناک غفلت؟ ان سب سے بڑھ کر خود کو حالات کے حوالے کر دینے کی روش۔ قوم نے خود کو حاکموں کے حوالے کر دیا اور حاکموں نے حالات کے۔
    شرمناک بات ہے‘ شرمناک کہ اہل اقتدار اور اپوزیشن‘ ایک دوسرے کو دشمن سے ملی بھگت کا طعنہ دے رہے ہیں۔ سمجھانے کی کوشش کرے تو سمجھنے پر آمادہ نظر نہیں آتے۔ علامہ طاہرالقادری کو کون قائل کرسکتا ہے۔ خواجہ محمد آصف کس کے بس کے ہیں ؟ کپتان کو تنقید کی کیا پروا؟ وزیر اعظم کو خود احتسابی کی فرصت کیا میسر آ سکتی ہے؟

    کوئی چیز ایسی نہیں جو قابل فہم نہ ہو۔ غفلت اور نااہلی کمزور الفاظ ہیں۔ بلوچستان اور سندھ میں سول انتظامیہ کا حال ہمیشہ سے پتلا ہے۔ وزیر اعلیٰ ثناء اللہ نواب زہری سے خاص طور پر شکایت نہیں ‘ پوری صوبائی انتظامیہ سوئی پڑی رہتی ہے۔ مسلّح افواج کا جو واحد ادارہ بچ رہا ہے‘ سارے کا سارا بوجھ اس پر ڈال دیا گیا ہے۔ نظم و نسق کا عملی تجربہ نہ رکھنے والا ‘ ایک عام ذہن بھی ادراک کر سکتا ہے کہ بیرونِ شہراس ویرانے میں کالج کی دیوار بلند ہونی چاہیے تھی۔ اردگرد اور چھت پر محافظوں کی تعداد دو تین درجن چاہیے تھی۔ اس سے بھی پہلے یہ کہ کورس کی تکمیل کے بعد‘ کیڈٹس کو غیر ضروری طور پر روکنے کا جواز ہی نہ تھا۔

    بنیادی سوالات اوربھی بڑے ہیں۔ وفاقی حکومت مستقل طور پر‘ عدم دلچسپی کی مرتکب کیوں ہے؟ کوئٹہ میں کہا جاتا ہے کہ اسلام آباد سے آنے والے‘ اس طرح آتے ہیں ‘ جیسے ولیمے یا تعزیت کے لیے تشریف لائے ہوں۔
    دوسری صدی ہجری میں‘ امام نفس ذکیہ کا خروج‘ اسلامی تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ بدترین حاکموں کے خلاف‘ بہترین انسانوں کی بغاوت۔ خلیفہ منصور عباسی کے چچا نے اسے کہا تھا کہ امام ابو حنیفہؒ کے لیے داروگیرہوئی تو (صرف کوفہ میں) ایک لاکھ تلواریں بے نیام ہونے کوتیار ہوں گی۔ ایک سوال کرنے والے کو امامؒ نے بتایا تھا کہ آزادی کی اس جدوجہد میں شریک ہونا پچاس حج کرنے سے زیادہ افضل ہے۔

    کالم کے مقالہ بننے کا اندیشہ نہ ہوتا تو تفصیلات عرض کرتا۔ نکتہ یہ ہے کہ نو دن کی مسافت طے کر کے دربان کی منت سماجت کرتا پیامبر ‘ دجلہ کنارے زیر تعمیر نئے دارالحکومت کے دربار میں داخل ہوا تو منصور اٹھ کھڑا ہوا۔ برق رفتاری سے دارالحکومت کوفہ پہنچا۔ پچاس
    دن تک وہ قالین کے ایک ٹکڑے پر بیٹھ کر‘ اجلاس کرتا اور اسی پہ سوتا رہا۔ تاریخ اس ٹکڑے کو جائے نمازکہتی ہے۔ ممکن ہے سجادہ ہی ہو‘ چھوٹا سا فرش۔ پچاس دن تک اس نے غسل نہ کیا‘ سرخ رنگ کا جو جبّہ وہ پہنے ہوئے تھا‘ میلا ہوتا گیا۔ فتح کے حصول تک وہ تدبیر میںرہا۔ بگولہ رقص میں رہتا ہے‘ صحرا میں نہیں رہتا۔ دوسری طرف بھی عالم یہی تھا۔ مورخوں نے‘ واعظوں نے موشگافیاں بہت کی ہیں۔ واقعہ یہ ہے خروج کی حمایت کے باوجود ‘ امام ابوحنیفہؒ اس لیے کوفہ میں مقیم رہے کہ نگرانی کرتے رہیں۔ جہاں کہیں رخنہ ہو‘ اسے دور کر سکیں۔

    جیسی رعایا‘ ویسے حاکم۔ امام حسنؓ کی اولاد کو اقتدار مل جاتا تو عالم اسلام کی تقدیر بدل جاتی۔ اللہ کو مگر منظور نہ تھا۔ جیسا کہ بعد میں خروج کرنے والے ‘ تاریخ انسانی کے اعلیٰ ترین خاندان کے ایک بزرگ نے کہا تھا: اللہ سے ہم ہار گئے۔ ظاہر ہے کہ قوم اپنے اعمال کی سزا میں محروم رہ گئی ۔ جہاد کرنے والوں نے منصوبہ بندی میں اگرچہ کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔ امامؒ کے چاروں فرزند اور سارے بھائی تاریخ کی اس عظیم ترین سلطنت میں پھیل گئے تھے۔ دور دور تک چراغاں کردیا تھا۔ منصور کا حال یہ تھا کہ درجن بھر دروازوں پر سواری کے جانور ہمہ وقت مہیا رکھتاکہ ضرورت پڑے تو بھاگ کر” رے ‘‘ چلا جائے۔ اس قدر بے یقینی اور خطرناک حالات کے باوجود‘ جان ہتھیلی پر رکھے‘ پچاس دن‘ پوری یکسوئی سے‘ جنگ کی وہ قیادت کرتا رہا۔ ”حالات فیصلہ کریں گے کہ میرا سر(مجاہدین کے جنرل) ابراہیم کے سامنے پیش کیا جاتا ہے یا اس کا سر میرے پاس لایا جاتا ہے‘‘۔اس نے کہا تھا ۔

    کس چیز نے وزیراعظم کو روک رکھا ہے کہ بلوچستان کو اتنا وقت وہ دیا کریں جتنا کہ دینا چاہئے۔ ٹیلی ویژن کے مزاحیہ پروگرام دیکھنے کی فرصت انہیں میسر ہے۔ ”میرا سلطان ‘‘ایسے ڈرامے دیکھنے کو۔ امن و امان کے لیے کیوں نہیں؟اس سوال کا جواب بہت تلخ ہے۔ منصور کی وہ اپنی سلطنت تھی۔ اسی دیار میں اسے جینا اور مرنا تھا۔ وزیراعظم کی دولت کا بڑا حصہ اور اولاد ملک سے باہر ہے۔ ان کی حمایت کا ایک حصہ بھی۔ پاکستان کی سلامتی کے یقینا وہ آرزو مند ہیں مگر یہ ان کی واحد اور اوّلین ترجیح ہرگز نہیں۔

    پولیس کو انہوں نے بہتر بنایا ہوتا۔ برصغیر کی تاریخ یہ کہتی ہے کہ کسی بھی علاقے کا اصل محافظ‘ اس کا تھانیدار ہوتا ہے‘ مقامی پولیس اسٹیشن۔ اسامہ بن لادن کو قتل کرنے والے آئے تو جو آدمی سب سے پہلے وہاں پہنچا وہ ایک پولیس انسپکٹر تھا۔ سول انٹیلی جنس کو بہتر بنایا ہوتا۔ جون 1995ء میں الطاف حسین کے دہشت گردوں کے خلاف عظیم کامیابی پولیس کی تھی مگر اتنی ہی انٹیلی جنس بیورو کی تھی۔ شریف خٹک کی تھی‘ محمد فواد کی بھی‘ شجاعت اللہ کی بھی۔ وزیراعظم بینظیر بھٹو‘ ہمہ وقت پولیس افسر کے ساتھ رابطے میں رہا کرتیں۔ وزیرداخلہ نصیراللہ بابر مہینے میں چار پانچ بار کراچی جایا کرتے۔ نیشنل ایکشن پلان ؟ماتم کافی ہو چکا‘ مزید سینہ کوبی سے حاصل کیا؟پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے ۔

    سیاست اپنی جگہ‘ اختلافات بجا۔ قوم کے دفاع پر پوری کی پوری سیاسی قیادت میں ہم آہنگی ہونا چاہئے۔ سول اور فوجی قیادت میں تنائو کا مطلب تباہی کے سوا کچھ نہیں۔ وزیراعظم کے مشیر مشاہد اللہ خان کی شہادت واضح ہے:ایک صفحے پر دونوں کبھی نہ تھے۔ نریندر مودی سے وزیراعظم خوش دلی سے بات کرتے ہیں۔ اشرف غنی سے جنرل صاحبان اتنی ہی بشاشت کے ساتھ گفتگو کرتے رہے۔ وزیراعظم میاں محمد نوازشریف اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف سے‘ قوم سوال کرنے کا حق رکھتی ہے کہ باہمی اختلافات کو کم کرنے کی انہوں نے کتنی کوشش کی؟

    انگریزی میں کہتے ہیں” “Someone Should cry halt۔ رک جائو خدا کے لیے اب تو رک جائو۔ اجیت دودل کا ہاتھ‘ ہماری شہ رگ تک آپہنچا ہے اور اس وقت آ پہنچا ہے‘ جب غنیم‘ ہم سے قوی ہرگز نہیں۔

  • عقل نہیں ڈالرز چاہئیں۔۔۔۔!-رؤف کلاسرہ

    عقل نہیں ڈالرز چاہئیں۔۔۔۔!-رؤف کلاسرہ

    m-bathak.com-1421245675rauf-kalasra
    دہشت گردوں نے ایک دفعہ پھر کوئٹہ میں ظلم ڈھا دیا ہے۔ حسب دستور اس کی مذمت جاری ہے اور جاری رہے گی۔ چند دن اجلاس ہوںگے، سخت کارروائی کرنے کے اعلانات کئے جائیں گے، قوم کو دو تین عالمی سازشیں سنائی جائیں گی اور پھرکاروبار زندگی معمول کے مطابق چلتا رہے گا۔

    تحقیقات کے بعدپریس کانفرنسیں کرکے ہمیں وہ راستے سمجھانے کی کوشش کی جائے گی جن کو عبور کرکے دہشت گرد پولیس ٹریننگ سکول تک پہنچے۔ پھر ان کے سہولت کاروں کے بارے میںبتایا جائے گا۔ ایسے لگے گا کہ جب دہشت گرد گھر سے حملہ کرنے نکلے تھے تو ہمارا کیمرہ ان کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔لیکن حملہ رک نہ سکا۔

    ہماری نااہلیوں کی داستان اتنی طویل ہوگئی ہے کہ اب ہر جگہ آپ کو اسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کوئٹہ میں جاری ظلم و ستم تو اپنی جگہ، حالت یہ ہو چکی ہے کہ اب اسلام آباد بھی ایسے لوگوں کے ہاتھ لگ گیا ہے جو اس کی تباہی و بربادی کے در پے ہیں۔ ملک کے پالیسی میکرز اور بیوروکریٹس سے آپ کیا توقع رکھتے ہیں!

    کوئٹہ کے پولیس ٹریننگ سکول کی چار دیواری تک نہیں تھی۔ باقی اندازہ آپ خود کر لیں۔ اگر ہوتی بھی تو ہم نے کیا کر لینا تھا۔ پشاور آرمی سکول کی تو عمارت بھی تھی، اس پر حملے کی دھمکی بھی آئی ہوئی تھی۔ وزیراعلیٰ بلوچستان فرماتے ہیںکہ اس سکول پر حملے کی خبر پہلے سے موجود تھی۔ سو، سب پتا ہوتا ہے۔ ہماری اوقات ہی یہ ہے کہ اس کے باوجود حملے ہو جاتے ہیں۔ ہمارے بچے مارے جاتے ہیں۔ جب ہم یہ رونا رو رہے ہیں کہ کوئٹہ کے ٹرینگ سکول کی دیوار تک نہ تھی تو اسلام آباد کی حالت بھی سن لیں۔

    میجر عامر ایک پرائیویٹ ہسپتال میں زیرعلاج ہیں۔ خیریت پوچھنے گیا تو حیرت کا پہاڑ مجھ پر آ گرا۔ ان کے بیٹے عمار نے بتایا کہ چند دن پہلے بابا کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی۔ وہ انہیں اسلام آبادکے بڑے ہسپتال پمز لے کرگئے۔ وی آئی پی روم لیا۔ چوبیس گھنٹوں تک کوئی ڈاکٹر چیک اپ کے لئے نہ آیا۔ فریج کھولا تو اس کی بہت بری حالت تھی، واش روم کی حالت اس سے بھی زیادہ خراب! جو صاحب پمزکے سربراہ ہیں وہ ایک بڑے سیاسی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ چوبیس گھنٹے گزرنے کے بعد بابا کی طبیعت بگڑنی شروع ہوئی تو ان کی چھوٹی بہن نے والد کے دوست ملک ریاض کو فون کیا کہ انکل بابا کی طبیعت بگڑ گئی ہے اور ہسپتال میں انہیں اٹنڈکرنے والا کوئی نہیں۔ ملک ریاض آئے اور انہیں پرائیویٹ ہسپتال لے گئے، جہاں ان کی طبیعت بہتر ہو رہی ہے۔ پرائیویٹ ہسپتال میں آپ کی زندگی بچ سکتی ہے، سرکاری ہسپتال میں آپ صرف مرنے کا انتظار کریں۔

    میجر عامر وضع دار انسان ہیں۔ دوستوں کا گلہ نہیںکرتے۔ نواز شریف سے قریبی تعلق رہا، حرف شکایت زبان پر نہ لائے۔ اگر میجر عامر جیسا نامور اور وسیع تعلقات رکھنے والا انسان بھی سرکاری ہسپتال سے بھاگ جائے اور پرائیویٹ ہسپتال میں علاج کرانے پر مجبور ہو تو کیا وزیراعظم کے رحیم یار خان میں غریبوں کا علاج نہ ہونے پر بہائے گئے آنسوئوں کو ہمیں سنجیدہ لینا چاہیے؟ اگر اسلام آباد کے ایک ہسپتال کی یہ حالت ہے کہ چوبیس گھنٹے تک علاج شروع نہ ہوسکا توکیا ایسی حکومت کے سربراہ کو آنسو بہانے کا ڈرامہ کرنا چاہیے؟ خود کو چھینک بھی آ جائے تو اگلے دن لندن تشریف لے جاتے ہیں۔

    درست، جوکچھ کوئٹہ میں ہوا اس کے سامنے پمز میں میجر عامرکی کہانی عام سی بات لگے گی۔ لیکن اسے سنانے کا مقصد یہ تھا کہ جن حکمرانوں سے اسلام آباد کا ایک چھوٹا سا ہسپتال نہیں چل پا رہا، وہ ملک کو در پیش بڑے مسائل سے کیسے ہماری جان چھڑائیںگے؟ ہرجگہ اپنا بندہ لگانے کی کوشش ہوگی تو پھر گورننس اور سروس لیول تو نیچے ہی جائے گا!

    ہم سب جانتے ہیںکہ شاید پاکستان کے پاس دہشت گردی کے ناسورکا کوئی پائیدار حل موجود نہیں ہے۔ ہم اس خطے میں جاری پراکسی وار کا حصہ ہیں۔ کچھ پراکسی کھیل ہم کھیل رہے ہیں اور کچھ ہمارے دشمن۔ معصوم شہریوںکو مارا جاتا ہے اور الزام دوسرے پر لگا دیا جاتا ہے۔کابل،کوئٹہ، ممبئی۔۔۔۔ ہر جگہ بے گناہ شہری مارے جاتے ہیں۔ اسّی کی دہائی میں بھی اس طرح کی دہشت گردی ہوئی تھی۔ بازاروں میں اسی طرح بم دھماکے ہوتے تھے۔ اس وقت ہم افغانستان میں روس کے خلاف جنگ لڑ رہے تھے۔ جی ہاں، وہی روس جس کے فوجی دستے کچھ روز قبل ہمارے ہاں مشترکہ مشقیں کرتے پائے گئے۔ دوست اور دشمن بدلتے رہتے ہیں۔ اُس وقت امریکی ہمارے جان جگر تھے اور آج روس پر ہم صدقے واری جا رہے ہیں۔ اُس وقت امریکی ہماری جان تھے اور ہمیں بتایا جاتا تھا کہ وہ اہل کتاب ہیں، ان کی خواتین سے تو شادی جائز ہے جبکہ روسی تو کمیونسٹ ہیں، خدا تک کو نہیں مانتے۔ آج ہمیں بتایا جا رہا ہے، اسلامی فرمودات کے مطابق یہود و ہنود تمہارے دوست نہیں ہو سکتے۔ یوں آج ہم نے کیمونسٹوں سے دوستی کر لی ہے۔

    ہمارے ملک کے اصل حکمرانوں کے پاس جنرل ضیاء دور میں روس کے خلاف لڑنے کی ہزاروں دلیلیں تھیں۔ آج اسی روس کے ساتھ دوستی کی بھی وجوہات ہیں۔ ہمیں بتایا گیا تھا روس گرم پانیوں تک پہنچنے کے لیے افغانستان کے بعد پاکستان پر قبضہ کرے گا۔ روس نے تو آج تک بھول کر بھی گرم پانیوںکا ذکر نہیں کیا؛ تاہم پتا چلا کہ ہم تو افغانستان میں روسیوں کوگرم پانی تک نہ پہنچنے دینے کے لئے لڑتے رہے جبکہ گرم پانی پر نظریں تو چین کی تھیں۔ اب چین گوادرکے ذریعے بیرونی دنیا تک پہنچ گیا ہے۔ ہمیں کبھی کسی نے بتانے کی کوشش نہیں کی کہ ہم کیوں اورکب دشمن اور دوست بناتے ہیں۔

    افغانستان کو ہی لے لیں۔ چار سابق پاکستانی سفارتکاروں نے پچھلے دنوں ایک انگریزی اخبار میں اہم مضمون لکھا تھا۔ یہ چاروں عام لوگ نہیں۔ پوری دنیا دیکھی ہوئی ہے۔ اچھا برا سب سمجھتے ہیں۔ یہ سفارت کار بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ دنیا میں ہمارے بارے میں مشہور ہوگیا ہے کہ ہم دہشت گردوں کے ساتھی ہیں۔ غلط یا درست لیکن ہمار امیج یہی بن گیا ہے۔ مثلًا افغانستان ہمارے بارے میں کہتا ہے کہ ہم حقانی نیٹ ورک کے ذریعے وہاں کارروائیاں کراتے ہیں۔ بھارت کہتا ہے ہم مسعود اظہرگروپ کے ذریعے وہاں کارروائیاں کراتے ہیں۔ ہم یہی الزامات افغانستان اور بھارت پر لگاتے ہیں کہ وہ اپنی اپنی پراکسی کے ذریعے پاکستان میں حملے کراتے ہیں۔

    ان سفارتکا روں نے ایک اہم سوال اٹھایا: ہم ہر بار افغانستان میں طالبان کے ساتھ کیوں کھڑے ہوتے ہیں جو وہاں بربادی، قتل و غارت اور پس ماندہ قوتوں کے نمائندہ سمجھے جاتے ہیں؟ ہم افغانستان کے پڑھے لکھے، روشن خیال اور سمجھدار طبقات کے ساتھ کیوں تعلقات نہیں رکھتے؟ طالبان کو افغانستان میں پروموٹ کر کے ہم نے کیا نتائج حاصل کیے؟ پاکستان کو کیا فائدہ ہوا ہے؟ تیس برس سے زیادہ عرصے سے ہم افغانستان کے معاملات میں دخل اندازی کر رہے ہیں، اس کے بدلے میں افغانستان اور بھارت نے پاکستان میں تحریک طالبان کو ایکٹوکرکے ہمارے ساٹھ ہزار افراد قتل کرا دیے۔

    ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے تھی کہ افغانستان میں باون ملکوں کی افواج پر مشتمل عالمی فورس موجود ہے۔ ہم پوری دنیا سے ٹکر لے رہے ہیں۔ اب پوری دنیا دہشت گردی کا سامنا کر رہی ہے۔ ہمیں دنیا میں بھارت نے تنہا نہیں کیا بلکہ ہم نے خود اپنے آپ کو تنہا کیا ہے۔ ہمیں طالبان کو راضی کرنا چاہیے کہ وہ بھی کابل کے ساتھ تعلقات درست کریں۔ گلبدین حکمت یار کی طرح پاور میں شیئر لیں اور وہاں بیٹھ کر پاکستان کے مفادات کی نگرانی کریں۔ طالبان کابل حکومت میں بیٹھ کر ہمارے لیے زیادہ فائدہ مند ہو سکتے ہیں، پہاڑوں پر رہتے ہوئے کابل کی مارکیٹوں پر حملہ آور ہوکر بے گناہ افغانوںکو قتل کر کے نہیں۔ پاکستان کو بہر صورت افغانستان میں امن کرانے کے لیے آخری حد تک جانا ہوگا۔ میرے خیال میں اس وقت افغانستان میں امن قائم کرنا افغانوں سے زیادہ پاکستان کے لیے ضروری ہے۔اس پر ٹھنڈے دل سے غور کریں۔بڑھکیں بہت مار لیں اور اس کے نتائج بھی بھگت لیے۔

    چکوال کے ٹاپ آسٹرولوجسٹ پروفیسر غنی جاوید مجھے بڑے عرصے سے خبردار کر رہے ہیںکہ تم کالموں میں لکھو اور بار بار لکھو کہ پاکستان سمجھداری سے کام لے۔ پاکستان کے حالات 1971ء سے بھی زیادہ خراب ہونے جا رہے ہیں۔ ہمیں اس وقت دنیا کو دوست بنانے اور بچا کچھا پاکستان بچانے کی ضرورت ہے۔ میں انہیںکہتا ہوں پروفیسر صاحب! ہمارے عقلمندوں کو ان مشوروں کی ضرورت نہیں ہے۔وہ 1971ء میں بھی سمجھدارکہلاتے تھے اور اب بھی ماشاء اللہ سمجھدار ہیں۔ آپ لاکھ انہیں ستاروں کی چالیں سمجھاتے رہیں، انہیں آسمان پر ہونے والی تبدیلیوں سے خبردار کرتے رہیں، انہوں نے پھر بھی کرنی وہی ہے! یہ واحد قوم ہے جس نے ماضی سے سیکھنے سے انکار کیا ہوا ہے۔ جس روس کے ساتھ جنگیں لڑیں، ہزاروں بچے مروائے آج اس کے ساتھ فوجی مشقیں اور جس امریکہ کے لیے اپنے بچے مروائے آج اسے دشمن بنایا ہوا ہے۔ ان کو عقل کی نہیں ڈالروں کی ضرورت ہے۔جہاں سے ملیں، جیسے ملیں۔ پراکسی جنگوں میں دہشت گردوں کے ہاتھوں مرنے والے ہمارے نوجوان بچوںکی ماتم کرتی مائوںکا کیا ہے، وہ اور پیدا کر لیں گی۔۔۔۔!