Tag: پنجابی

  • آؤ پنجابی بن کر سوچیں – ظفر عمران

    آؤ پنجابی بن کر سوچیں – ظفر عمران

    ظفر عمران سندھ دریا جہاں جہاں سے گزرتا ہے، اس کے پانیوں سے سیراب ہونے والی تہذیب کو سندھی تہذیب یا انڈس ویلی سولائزیشن کہا جاتا ہے۔ یہاں آباد قبیلے سندھی ہیں۔ اب آپ ذرا سا کشٹ اٹھائیے اور نقشہ دیکھیے کہ دریائے سندھ کا روٹ کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اہل فارس نے اس سندھ کو ہند کہنا شروع کر دیا۔ اس نسبت سے جو بھی ہند سے ہوا، ہندی کہلایا۔ سکندر یونانی (مقدونی) کے ساتھ آئے پرچا نویسوں نے اسے انڈس لکھا، اسی سے انڈیا ہوا۔ مغلوں نے اسے ہندستان کر دیا۔ حال آں کہ گنگا جمنا دریاؤں کی تہذیب سندھی تہذیب سے یک سر مختلف ہے، لیکن اسے بھی ہندستان نامی ملک میں شامل کر کے، ہندستان کا نام دیا گیا۔ ہندستان پر انگریز سرکار آئی تو اس نے سارے انڈیا میں سیاسی و انتظامی تبدیلیاں کیں۔ پانچ بڑے دریاؤں کی سرزمین جو سندھی تہذیب کا حصہ ہے، اسے اہل فارس پنج آبہ کے نام سے پکارتے، جو پنجاب کہلانے لگا۔ پنجاب کی سرحدیں مختلف ادوار میں تبدیل ہوتی رہیں۔ راجا رنجیت سنگھ کے دور میں اس کی سرحد گلگت، جموں، پشاور جیسے علاقوں تک تھیں۔ ثقافتی طور پر دیکھا جائے تو گلگت، پشاور کی تہذیب اور پنج آبے کی تہذیبیں مختلف ہیں۔ اسی طرح موجودہ ہندستان نامی ملک کا دریائے سندھ یا اس کی تہذیب سے اتنا ہی واسطہ ہے، کہ شمال میں چند سو میٹر یا کلومیٹر بھارت کی سرحد میں سے دریائے سندھ گزرتا ہے۔ دریائے ہند یعنی سندھ کی تہذیب کے وارث پاکستان میں ہیں۔ یہی وہ علاقہ ہے، جسے فارس والوں نے ہند کہا۔

    تو یہ واضح ہو، کہ پنج آبہ دریائے سندھ کی تہذیب ہے۔ پنج آبے کی دھرتی پر کئی قبائل بستے ہیں؛ اکثریت کا تعلق کاشت کاری کے پیشے سے ہے، جو دُنیا کے قدیم پیشوں میں سے ایک ہے۔ موجودہ پنجاب کے شمال کی طرف بڑھیں، تو بارانی علاقہ شروع ہو جاتا ہے، لہذا کاشت کاری اس طرح نفع بخش نہیں رہتی، جیسے دریاؤں یا زیر زمین پانی پر انحصار کر کے آسانیاں ہیں۔ اس لیے یہاں کے لوگ دیگر پیشوں جیسا کہ فوج میں‌ جانے کو فوقیت دیتے رہے۔ صدیوں کا چکر ہے، آرین سے لے کر نادر شاہ وغیرہ سبھی شمال سے حملہ آور ہوتے رہے، اور پنج آبے کے کسانوں سے خراج لے کر جنوبی ہند کی طرف بڑھ گئے۔ جہاں جہاں سے سونا چاندی مال متاع حاصل ہوا، لے کر چلتے بنے۔ ان میں سے آرین اور مغلوں نے یہیں ٹھیرنے کو ترجیح دی۔ بیرونی حملہ آوروں کے ہم راہ عموما کرائے کی افواج ہوتیں، کابل دُنیا بھر سے آئے کرائے کے سپاہیوں کی منڈی رہی ہے۔ سکندر نے ہندستان پر حملہ کرتے یہیں سے کرائے کے فوجی بھرتی کیے۔ پاکستانی پختون پٹی، اور افغانستان کی پختون پٹی اسلحے کے کارخانوں کا علاقہ رہا ہے۔ جس کی جیب میں رقم ہے، وہ جائے اور خرید لائے۔ آج تک یہ انگریز تھا، جس نے رنجیت سنگھ کو شکست دے کر پشاور اور اس کے ملکیتی علاقوں پر قبضہ کیا، پھر افغانستان سے آنے والے حملہ آوروں جنھیں انگریز ہی کی طرح لٹیرا کہنا زیادہ مناسب ہے، سے معاہدہ کیا، کہ جو علاقہ اُن کے زیر نگیں ہے، اس کا انتظام وہ دیکھیں، جو اِن کے تسلط میں ہے، وہ اِن کا ہوا۔ مزید یہ کہ متحدہ ہندُستان کی سب سے بڑی چھاؤنی راول پنڈی کینٹ کی بنیاد پڑی، تا کہ شمال سے آنے والوں کو اس مقام سے آگے نہ بڑھنے دیا جا سکے، اور مرکزی ہندستان کا نظم و نسق متاثر نہ ہوا۔

    انگریز کے افغانستان سے معاہدے سے پہلے سندھ جس میں پنج آبہ بھی شامل ہے، کو لوٹنے والے یہیں سے آتے رہے، انھی کی مدد سے آتے رہے۔ کسان اپنی فصلوں کا خراج دیتے آئے، اور کسان تو کسان تھے، سپاہی نہیں، کہ لٹیروں کا مقابلہ کرتے۔ پرانے زمانے میں دریا گزرگاہیں تھیں، تجارت کرنے والے بھی انھی راستوں سے گزرے۔ برسوں سے آتے جاتے تاجروں اور لٹیروں کے حملوں نے سندھ تہذیب پر اپنی چھاپ چھوڑی۔ پنج آبہ براہ راست متاثر ہوا۔ یہ مرکزی گزرگاہ پہ آتا تھا۔ یہ ممکن ہی نہیں تھا، کہ شمال سے آنے والا پنج آبے سےگزر کر نہ جائے؛ یا لوٹتے ہوئے وہ یہاں سے نہ گزرے۔ ایک سکندر نے ایسا کیا، کہ اپنی افواج کو بلوچستان کے بے آب اور بنجر راستے سے ایران پہنچنے کی ہدایت کی۔ کہتے ہیں، وہ اپنی باغی فوج کو سزا دینا چاہتا تھا۔

    تواریخ بتاتی ہیں، کہ کسانوں نے حملہ آوروں کی راہ میں کبھی مزاحمت نہ کی، یا کی بھی تو اتنی کم زور جس سے پیشہ ور فوجی کو روکا نہ جا سکتا تھا۔ انگریز کو جانا پڑا، تو ہندستان نامی ملک کی تقسیم ہوئی۔ دریائے سندھ کے علاقے کے علاوہ وہ پختون علاقے جو رنجیت سنگھ کی ملکیت سے انگریز کی عمل داری میں آئے، اور بلوچستان یہ پاکستان میں شامل ہوگئے۔ دریائے سندھ کی تہذیب سے ان کا اتنا ہی واسطہ تھا، جتنا بھارت نامی ملک کا۔ پیداواری علاقے وہی تھے جہاں سے دریا گزرتے تھے۔ ان میں پنج آبہ یا پنجاب بھی شامل ہے۔ اتنے حملوں لوٹ کھسوٹ‌ کے باوجود دریاؤں پر انحصار کرنے والا خطہ خوش حال ہی رہا۔ نہ تو اس وقت مغربی پاکستان کی پٹ سن لوٹ کر یہاں‌لائی جاتی تھی، نہ سوئی کے مقام سے گیس نکلی تھی، نہ تربیلا ڈیم کی بجلی تھی۔ نہ انگریز نے کراچی پورٹ بنائی تھی۔ پنجابی تو اتنے امن پسند رہے، کہ اپنی زبان، اپنے لباس، اپنی تہذیب میں ہر پیوند لگنے دیا۔ آج بھی پنجاب کے اسکولوں میں پنجابی نہیں پڑھائی جاتی۔ بنگالی اور کشمیریوں ہی نے نہیں پنجابیوں نے بھی مذہب کے نام پر تقسیم کا وار سہا۔ کوئی عرب تھا، گیلانی، افغانی، کشمیری ہذا القیاس؛ پنجاب کے دروازے پنجاب کے دل ہر غیر پنجابی کے لیے کھلے رہے۔ آج صوبہ سندھ تک محدود ہو جانے والی پاکستان پیپلز پارٹی کو پہلے عام انتخابات میں سب سے زیادہ ووٹ، اور نشستیں پنجاب ہی سے حاصل ہوئی تھیں۔ موجودہ وزیراعظم کے اجداد کشمیری ہیں، لیکن پنجاب نے انھیں کبھی یہ کہ کر رد نہیں کیا، کہ وہ پنجابی نہیں ہیں۔ اپنے آپ کو پختون کہلوانے میں فخر محسوس کرنے والے عمران خان کو پنجابیوں نے ووٹ دیتے کبھی یہ سوچا، کہ وہ پنجابی نہیں ہیں؟ ایچی سن کالج لاہور، پنجاب سے تعلیم یافتہ پرویز خٹک کو اس لیے وہاں‌ داخلہ نہ ملا، کہ وہ غیر پنجابی ہیں؟

    ایچیسونین پرویز خٹک فرماتے ہیں، پنجاب پولِس نے انھیں پنجاب میں داخلے سے روک دیا، ہمیں مجبور نہ کیا جائے کہ ہم علاحدگی کی طرف بڑھیں۔ خٹک صاحب نے مجبور کیا، تو سوچا، ہم ذرا پنجابی بن کر سوچتے ہیں، اور پنجابی بن کر جواب دیتے ہیں۔ جناب آپ کے پختون بھائی عمران خان کو اقتدار کی ہوس چین نہیں لینے دے رہی، اور آپ ہی کے بقول آپ لاکھوں کا قافلہ لے کر پنجاب پر حملہ آور ہونے چلے ہیں، تو یہ معمولی مزاحمتیں ایسی ناگوار ہوئی، کہ آپ پاکستان سے لاتعلقی کا اعلان کرنے چلے؟ پنجابیوں نے آپ کے اجداد کے ہزاروں حملے سہے ہیں، ایک آدھ روکنا چاہا تو اس پر اتنی برہمی کیوں؟ آپ ہی کے قائد ایک پختون عمران خان کی زبان میں اسے بےشرمی کہا جائےگا، کہ آپ اپنی ہوس کی تکمیل میں رکاوٹ آنے پر، پاکستانی سے پختون بننے میں ایک لمحے کی تاخیر نہیں کرتے۔ دیکھیے جناب! برصغیر کی تقسیم کے وقت ہمارے بڑوں نے یہ عہد کیا تھا، کہ ہمیں پاکستانی بن کر رہنا ہے۔ اگر آج ہم یہ محسوس کرتے ہیں، کہ ہمارے لیے بلوچی، پنجابی، سندھی، پختون، کشمیری بن کر رہنا افضل ہے، تو ٹھیک ہے، ایسا ہی کیجیے، لیکن پنجاب کی طرف انگلی اٹھانا بند کیجیے، کہ پنجاب کو ہمیشہ آپ ہی کے گھر سے آنے والوں‌ نے لوٹا۔

    پاکستان کل کی بات ہے، پنجاب کی ترقی کا سفر پاکستان بننے کے بعد نہیں شروع ہوتا۔ پنجاب اِن کل کے منصوبوں سوئی گیس، تربیلا ڈیم، اور آنے والے کل کے گوادر کا محتاج نہ تھا، نہ ہے۔ یہ پاکستان کے منصوبے ہیں، ہر پاکستانی کا ان پہ حق ہے۔ برسوں میں آپ اپنے سرداروں کے چنگل سے نہ نکل سکے، تو اس میں پنجاب کا دوش نہیں۔ پنج آبے کی دھرتی پر بسنے والوں نے اپنے سینے پر بہت زخم کھائے ہیں، پھر بھی سب کو اپنے سر کا تاج کیا۔ اگر زمین ہی کا جھگڑا ہے، تو پنجاب کی گزرگاہوں کے بنا گوادر ایک مہمل منصوبہ ہے۔ اور پھر سوئی کی گیس پنجاب کو خیرات میں نہیں دی جاتی۔ تربیلا کی بجلی کی رائلٹی پنجاب کو نہیں ملتی۔ بندرگاہ پر اترنے والے پنجابی تاجر کے مال کو کرائے اور محصول میں چھوٹ نہیں ہے۔ آپ کہیے یہ بات پنجابیوں نے نہیں سہی کہ کالا باغ ڈیم اس لیے نہیں بننے دیں گے، کہ اس کا سب سے زیادہ فائدہ پنجاب کو ہوتا ہے؟ پنج آبے کی زمین سونا اگلنے والی ہیں، اسے کسی اور کی زمیں کے نیچے بہتے سونے سے کوئی مطلب نہیں، وہ بھی جو ابھی نکالا ہی نہیں گیا۔ جناب سدا سے پنجابیوں کو لوٹ لوٹ کر اور پنجاب سے فیض یاب ہو کر، پنجابی کو گالی دینا بند کیجیے۔ پنجابیوں کے بہت سے جرم ہوں گے، ایسے ہی جیسے غیر پنجابی کے جرائم ہیں، لیکن پنجابی پر تعصب کا الزام لگانا ناممکن ہے۔ سو یہ مت کہیے کہ پنجاب پولِس نے آپ کو اس لیے داخل نہیں ہونے دیا، کہ آپ غیر پنجابی ہیں۔ میری ان باتوں کا برا مانا گیا ہے، تو میرا جواب ہے، کہ آپ پاکستانی بن کر نہیں سوچ سکتے، تو دوسروں کو پنجابی بن کر سوچنے پر مجبور مت کیجیے۔ ورنہ ایسے ہی جواب آئیں گے، اور ایسے جوابات نفرت کے سوا کچھ نہ دیں گے۔ پاکستان زندہ باد۔

  • کٹر پنجابی، کٹر پاکستانی اور کٹر اردو ادیب

    کٹر پنجابی، کٹر پاکستانی اور کٹر اردو ادیب

    %d8%aa%d8%a7%d8%b1%da%91%d8%a7 مستنصرحسین تارڑ عہدِ حاضر میں جہاں اردو زبان و ادب کا قابلِ فخر سرمایہ ہیں، وہیں اپنی شخصیت اور عادات وگفتار کے لحاظ سے قابلِ تقلید ”تعصب“ اور اُس کے توازن کی عمدہ مثال ہیں۔
    لکھاری جس مٹی میں پلا بڑھا ہواس کی خوشبو سے کبھی فرار حاصل نہیں کر سکتا۔ اور مٹی سے وابستہ اس کے پڑھنے والے بھی اُسے اِسی طور محسوس کرتے ہیں۔ کسی لکھاری کو پسند کرنے والوں کو درحقیقت اس کے لفظ میں اپنے دل اپنی سوچ سے قربت کی مہک آتی ہے۔ وہ لکھاری جو ہمارے دل کے تار چھو جاتا ہے اس ساز کی ایک جھلک دیکھنے کی خواہش سے انکار نہیں کیا جا سکتا خاص طور پر اگر وہ ہمارے عہد اور ہماری دنیا میں ہمارے قریب بھی کہیں موجود ہو۔ قاری اور لکھاری کا گم نام سا رشتہ ساز و آواز کی مانند ہے، بےشک آواز ساز کے بنا مکمل تو ہے لیکن ساز آواز کو چہار سو پہنچا ضرور دیتا ہے، ورنہ دل کی بات دل ہی میں رہ جاتی ہے۔ ہم انسان ہر رشتے ہر احساس میں بنیادی طور پر بُت پرست واقع ہوئے ہیں جہاں ذرا سی روشنی دکھائی دی، سجدہ کر لیا۔ شخصیت کا بُت پہلی نظر یا پہلی ملاقات میں ٹوٹ بھی سکتا ہے۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ لکھنے والا اپنے افعال و کردار میں ہمارے جیسا عام انسان ہی ہے۔ کبھی بت یوں ٹوٹتا ہے جب ہم قول و فعل کا تضاد دیکھتے ہیں یا لفظ اور کردار میں کہیں سے بھی مماثلت دکھائی نہ دے۔ اکثر کاغذی رشتے، صوتی ہم آہنگی جب رسائی کی حدت میں جذب ہوتے ہیں تو خزاں رسیدہ پتوں کی طرح بےجان لگتے ہیں تو کبھی پُرشور ڈھول کی طرح اندر سے خالی۔ اس لمحے ہماری محبت ہمارا عشق چپکے سے دل کے مدفن میں اُتر جاتا ہے۔ یاد رہے”بت ٹوٹنے کے لیے ہی ہوتے ہیں۔“ یہ بہت اچھی بات ہے کہ اس طرح انسان حقیقت اور تصور کے مابین گومگو کی کیفیت سے نکل جاتا ہے۔ اس میں اس لکھاری کا ذرا سا بھی قصور نہیں کہ
    ”بُت ہم خود بناتے ہیں اور اپنی خواہشوں کے مندر میں اونچا مقام دیتے ہیں۔“

    اپنے محبوب لکھاری مستنصرحسین تارڑ سے ملاقات کرنے والے ان کے لفظ کے عشق میں سرشار کیا کہتے ہیں، ذرا سنیے۔

    24 اکتوبر 2016ء …… ایک ملاقات ……. از سید عرفان احمد

    گھنٹہ پہلے مستنصر صاحب سے اُن کے لکھائی والے کمرے میں ملاقات ہوئی۔
    آج سارا دن نزلے اور بخار کی وجہ سے بستر پر لیٹ لیٹ کر اُکتاہٹ اور بوریت سی ہونے لگی۔ شام کو خیال آیا کہ مستنصر صاحب سے اُن کے نئے گھر میں ابھی تک ملاقات نہیں ہوئی، اُن سے ملا جائے۔ غیر مناسب وقت کی پروا نہ کرتے ہوئے رات آٹھ بجے اُن کے گھر کے دروازے پر پہنچ گیا۔ فون کیا اور اپنا نام بتایا۔ نام پہچانتے ہوئے انہوں نے کہا ’’کِدّر پھرنا پیا ایں؟‘‘۔ میں نے کہا ایسے ہی آپ سے ملنے کا خیال آ گیا تھا۔

    مستنصر حسین تارڑ ’’کِتھے ویں ایس ویلے؟ انہوں نے پوچھا۔
    ’’تُہاڈے گیٹ تے‘‘ میں نے جواب دیا۔
    ’’اچھا میں گیٹ کھلوانا واں‘‘
    ملازمہ نے کہیں سے چابی ڈھونڈ کر دروازہ کھولا اور مجھے مستنصر صاحب کے لکھائی والے کمرے میں بٹھا دیا۔ اُن کی غیرحاضری کوغنیمت جان کر اردگرد کی چند تصویریں کھینچیں۔ چند منٹوں بعد مستنصر صاحب آ گئے اور پہلے والا سوال دہرایا۔ میں نے کہا کہ صبح سے نزلے اور بخار سےگھر پر تھا اور اب آپ سے ملنے آ گیا ہوں۔ میری بےساختہ ہنسی نکل گئی جب انہوں نے کہا ’’میرے کولوں پراں ای رو‘‘۔ اُن کے لہجے میں پیار و محبت اور مذاق اکٹھے ہی تھے۔
    تھوڑا پیلوں آ جانا سی، تینوں تھوڑا وقت تے دیندا۔ ھُن میرا لکھن دا ویلا ہُندا پیا اے‘‘۔”
    مستنصر صاحب اپنی آنے والی کتابوں کا بتانے لگے اور اُن کی جو تحریریں انگریزی زبان میں چند لوگ ترجمہ کر رہے ہیں۔ اُن کے دوستوں نے انہیں اپنی ٹی وی کی زندگی اور اُس سے جڑے واقعات کو کتابی شکل دینے کا کہا تھا۔ اس کا ذکر جب انہوں نے اپنی اہلیہ سے کیا تو انہوں نے اسے ویٹو کر دیا۔ میں نے کہا کہ ٹی وی سے متعلقہ جو واقعات ہم آپ سے سنتے رہتے ہیں وہ واقعی اس قابل ہیں کہ انہیں ضبطِ تحریر میں لایا جائے۔ ایک تاریخ ہے جو محفوظ ہو جائے گی۔ اس پر انہوں نے کہا ’’لکھاری پر ایک ایسا وقت بھی آتا ہے جب اُس کا مقابلہ اپنے آپ سے ہو جاتا ہے اور اپنے آپ سے لڑنا آسان نہیں۔ اب مجھے کچھ لکھنا ہے تو پہلے سے بڑھ کر لکھنا ہے،یہ میرا خود سے مقابلہ ہے‘‘۔
    کیہڑی کتاب لینی اُوں‘‘ میں اُٹھنے لگا تو انہوں نے مجھ سے پوچھا۔”
    ’’تہاڈیاں کافی کتاباں ہین نے میرے کول، رہن دیو‘‘۔ میں نے رسماً کہا۔ دل تو کر رہا تھا کہ کہہ دوں کہ ساریاں دے دوو۔
    ’’فیر وی، دس کوئی‘‘ انہوں نے پھر پوچھا
    ’’بہاؤ دے دیو‘‘
    مستنصرصاحب نے اُٹھ کر کتابوں کے ریک سے بہاؤ نکالی اور اپنے شفیق جملے اور دستخطوں کے ساتھ مجھے عنایت کی۔ میرے اصرار کے باوجود کہ رہنے دیں، مستنصر صاحب باہر نکل کر دروازے تک مجھے چھوڑنے آئے۔
    پتھر کے پہاڑ اور اور انسان کے پہاڑ بننے میں فرق یہ ہے کہ پتھر کے پہاڑ کا سر جھک نہیں سکتا۔ انسان جب پہاڑ بنتا ہے تو کسی بڑے ظرف والے انسانی پہاڑ کا سر انکساری اور اعلیٰ ظرفی سے جھک جاتا ہے اور یہ ادا اُسے اور بلند کر دیتی ہے۔
    مستنصر صاحب کے یار دوست اگر کبھی غلطی سے اُن سے اردو میں گفتگو کرنے لگیں تو مستنصر صاحب اکثر یہ جملہ بولتے ہیں:
    تیری طبیعت ٹھیک اے، اردو پیا بولنا ایں؟
    ……………………………………
    عمارہ خان کہتی ہیں،
    میں ان کو اپنی فیملی میں پنجابی ہی بولتے دیکھا ہے۔میں نے اپنی زندگی میں سر جیسے انکساری برتنے والے انسان نہیں دیکھے.. ان سے مل کے نہیں لگتا کہ یہ ایک لیجنڈ ہیں.. اور یہ ہی چیز سر کو سب میں بہت نمایاں کرتی ہے..
    دوسری بات سر کا اپنی زبان پہ قائم رہنا واہ شاندار.. آج کے زمانے میں جب لوگ اپنے گھر پنجابی نہیں بولتے سر ڈنکے کی چوٹ پہ ہر محفل, ڈنر, تقریب میں بولتے ہیں .. انسان کو اپنے اصل کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے۔
    ……………………………………
    ابوبکر سیال کہتے ہیں،
    مجھے بھی ٹوکا تھا کہ کونسے علاقے سے ہو تو میں نے سرائیکی بیلٹ کا بتایا اور اردو میں بات کی۔ تو انہوں نے کہا کہ اتنی گاڑھی اردو مت بولو اور پنجابی میں بات کرو۔ میری بھی جھجھک ختم ہوئی اور پنجابی تو میٹھی زبان ہے ہی۔
    ……………………………………
    حرفِ آخر از نورین تبسم
    اپنی زمین ہر انسان کی پہچان ہے تو زمین سے نسبت اس کو سربلندی عطا کرتی ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا۔۔۔
    زمین اچھی طرح ان کی جڑیں جب تھام لیتی ہے
    درختوں کی بھی پھر طوفاں میں گردن خم نہیں ہوتی

    تاثرات بشکریہ ….. مستنصرحسین تارڑ ریڈرز ورلڈ

  • پنجابی بےہودہ زبان ہے – مصطفی ملک

    پنجابی بےہودہ زبان ہے – مصطفی ملک

    مصطفی ملک تحریک انصاف کی خاتون راہنما کے سکولوں کے نیٹ ورک ”بیکن ہاؤس“ نے اپنے سکولوں میں پنجابی زبان کو بےہودہ زبان قرار دیتے ہوئے اس زبان میں گفتگو کرنے پر پابندی لگانے کا باقاعدہ نوٹیفیکیشن جاری کر کے پوری ایک تہذیب پر حملہ کیا ہے۔ اس افسوس ناک خبر نے اپنی مادری زبان سے محبت کرنے والے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے میرے جیسے کروڑوں لوگوں کی دل آزاری کی ہے لیکن میرے خیال میں اس میں قصور وار شاید وہ سکول والے نہیں جتنے ہم خود پنجابی ہیں۔

    ایک بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پنجابی متعصب نہیں ہیں، اس لیے پنجابی سے ان کی محبت بھی کمزور ہوتی جارہی ہے۔ اگر آپ اندرون سندھ جائیں تو آپ کو ہر ریلوے اسٹیشن پر نام اردو کے ساتھ سندھی میں بھی لکھا نظر آئے گا۔ بعض جگہوں پر دکانوں کے سائن بورڈ بھی سندھی میں لکھے نظر آئیں گے، دوسری طرف پختون بھائیوں کی ایک انتہائی اچھی عادت ہے، جب بھی اور جہاں بھی دو پختون اکھٹے ہوں گے تو پشتو میں بات کریں گے لیکن ہمارے ہاں پہلے گھروں میں پنجابی کی جگہ اردو نے لی اور اب اس کی جگہ بتدریج انگریزی لے رہی ہے۔ مائوں کا اپنے بچوں سے گفتگو کا سٹائل کچھ اس طرح ہے ـ ”پپو بیٹا، جلدی سے میڈیسن لے لو، یو نو سنڈے کو تمہاری برتھ ڈے ہے، مما پاپا آپ کو وش کریں گے، کیک کاٹیں گے، پپا آپ کو سرپرائز گفٹ دیں گے، اس لیے جلدی جدی ہیل اپ ہو جائو.“ اب جو لوگ اردو کے ساتھ یہ کھلواڑ کر سکتے ہیں، پنجابی ان کی کیا لگتی ہے۔

    یہ لوگ جو جی چاہیں کریں مگر میرے جیسے کروڑوں پنجابی، جنہیں اس زبان سے اپنی مائوں کی خوشبو آتی ہے، کبھی اس سے ناطہ نہیں توڑیں گے۔ بچوں کے ساتھ ہونے والے اس کھلواڑ نے بچوں کو ذہنی مریض بنا دیا ہے،گھر میں اردو بولی جاتی ہے، سکول میں انگریزی بولنے کا حکم آتا ہے تو محلے میں دوسرے بچوں کے ساتھ پنجابی بولنی پڑتی ہے جس سے بچوں کی ذہنی نشوونما پر انتہائی برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

    پنجابی کو بے ہودہ زبان کہنے والوں کو معلوم ہی نہیں کہ یہ تو صوفیائے کرام کی زبان ہے، یہ توبابا بلھے شاہ، بابا فرید گنج شکر، وارث شاہ اور شاہ حسین جیسے بزرگوں کی زبان ہے۔کیا ایسا ممکن ہے کہ کسی زبان کو ہی بےہودہ قرار دے دیا جائے۔ آپ کو کبھی کینیڈا، برطانیہ یا ان یورپی ممالک جانے کا اتفاق ہوا جہاں بھارتی سکھ آباد ہیں، وہ آج بھی اپنےگھروں میں اور اپنے بچوں کے ساتھ پنجابی بولتے ہیں، ان کے معصوم بچے ٹھیٹھ پنجابی میں گفتگو کرتے کتنے پیارے لگتے ہیں. حیرت ہے ان لوگوں پر جو اپنی ماں بولی، اپنی تہذیب کو چھوڑنے اور برا بھلا کہنے پر تلے ہوئے ہیں۔ دنیا بھر کے ماہرین تعلیم اس بات پر متفق ہیں کہ اگر مادری زبان میں تعلیم دی جائے تو اس کے دور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں کیونکہ سکول جانے کی عمر سے پہلے ہی بچے کے پاس اپنی مادری زبان کے ہزاروں الفاظ کا ذخیرہ ہوتا ہے لیکن جب اسے سکول میں جا کر نئے الفاظ اور نئی زبان سیکھنی پڑتی ہے تو اسے اس کے لیے کئی سال لگ جاتے ہیں ۔

    ایک طرف تو آئین پاکستان کی دفعہ 251 میں صوبائی حکومتوں کو مقامی زبانوں کی ترویج و اشاعت کا پابند کیا گیا ہے تو دوسری طرف ایک سکول کی طرف سے اس طرح کا نوٹیفیکیشن جاری ہونا قابل افسوس ہے، میرا خیال ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کو بھی اس پر نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔

  • مہاجر مہاجر مہاجر – روبینہ فیصل

    مہاجر مہاجر مہاجر – روبینہ فیصل

    بار بار کہنے سے کوئی عمر بھر کے لیے مہاجر نہیں ہو جاتا۔ یہ ایک ذہنی کیفیت ہے جسے اپنے مفادات کے لیے معصوم ذہنوں پر طاری کر دیا گیا ہے۔ سوال اٹھتا ہے:
    کیا پنجاب میں مہاجر اس لیے نظر نہیں آتے کیونکہ وہاں بھٹو کا کوٹہ سسٹم نہیں؟ تو پنجابی مہاجروں نے یہ شور کیوں نہیں مچایا کہ پنجاب آبادی کے لحاظ سے سب بڑے صوبہ تھا، اور پاکستان بننے میں پنجابیوں نے جانوں اور عزتوں کے نذرانے سب سے زیادہ دیے تھے تو پنجابی کو قومی زبان کیوں نہیں بنایا گیا؟ کیا آج تک پنجابیوں نے اپنی قربانیوں کا معاوضہ مانگا؟ کیاانہوں نے کہا کہ اردو کو قومی زبان بنا کر پنجاب کے ساتھ ناانصافی کی گئی؟ ہم نے تو پنجاب میں رہتے ہوئے کبھی لفظ مہاجر ہی نہیں سنا تھا کیونکہ پنجاب میں آکر مہاجرین، مقامی لوگوں سے زیادہ مقامی ہو گئے ہیں۔ کیا ان کی زبان اور ان کی تہذیب ایک تھی؟ مہاجر تو مہاجر ہی ہو تا ہے، زبان ایک ہو، پھر بھی اپناآبائی لہجہ، اور ثقافت کچھ نہ کچھ ساتھ اٹھا لاتا ہے۔ مگر !

    روم میں رہنا ہے تو وہی کرو جو رومن کر تے ہیں، پنجابی مہاجروں نے رونے نہیں روئے بس اپنے آپ کو وہاں ضم کر لیا، اسی لیے آج پنجاب میں لفظ مہاجر غائب ہے۔ کیا ہم آج کینیڈین شہری اس لیے نہیں ہیں کہ ہم نے یہاں کے نظام میں، سوال اٹھائے بغیر خود کو جذب کر لیا ہے. کیا ہم کینیڈا سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمارے لیے یہ یہ کیا جائے یا یہاں کے مقامی لوگوں کے لیے یہ یہ نہ کیا جائے ورنہ ہم ناراض ہو جائیں گے؟۔ ہم حکومت سے مطالبے نہیں کر تے بلکہ اس کا مفید حصہ بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہاں کی زبان اور ثقافت سیکھنے کے لیے سر توڑ کوششیں کرتے رہتے ہیں کیونکہ اچھی طرح پتہ ہے کہ یہ نہ کیا تو، خود بخود نہ چاہتے ہو ئے بھی تھرڈ کلاس شہری بن جائیں گے، جن پر یہاں کا سسٹم ترس کھا کر ویلفئیر تو دیتا رہے گا، مگر تنخواہ نہیں دے گا۔

    سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا پاکستان نے مہاجروں کو اچھے طریقے سے خوش آمدید نہیں کیا؟ ہاں اچھے سے کیا کیونکہ لیاقت علی خان جو خود مہاجر تھے اور چاہتے تھے کہ کراچی میں مہاجر اچھے سے سیٹل ہوجائیں، ان کی فلاح کے لیے سب کیا گیا۔ 1947ء میں پناہ گرین آئے اس کے بعد 1958ء تک مسلسل ہندوستان سے مہاجرین اپنی رضا و منشا سے آتے رہے، اور یہ سلسلہ ابھی تک کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے. مگر شروع کی دہائی میں تو تعداد اتنی زیادہ تھی کہ جواہر لال نہرو بھی مسلمانوں کی اس ہجرت سے پریشان ہو گیا تھا، کیونکہ پڑھے لکھے مہاجرین کو کراچی میں اپنا مستقبل زیادہ تابناک نظر آتا تھا، اس لیے سوچ سمجھ کر انہوں نے کراچی آنے کا فیصلہ کیا، انھیں ہندوستان میں مشکلیں اور پاکستان میں مواقع نظر آرہے تھے۔

    دانشوروں کو ابوالکلا آزاد کی یہ پیشن گوئی تو یاد ہے جس میں انہوں نے ہندوستانیوں کو پاکستان جلد ٹوٹنے کی بشارت دی تھی اور ہندوستانی مسلمانوں کو نصحیت کی تھی کہ پاکستان نہ جانا، نہ ادھر کے رہو گے نہ اُدھر کے۔ مگر انہی دانشوروں کو قائد اعظم کی بصیرت ماننے میں ہچکچاہٹ ہے، جس کے مطابق ہندوستان میں مسلم اقلیت میں ہوں گے اور ہندو انہیں اپنے اطوار کے مطابق زندگی گزارنے پر اس طرح مجبور کریں گے کہ وہ اُف بھی نہیں کر سکیں گے اور کیا ایسا نہیں ہو رہا؟ مسلمان رام دین بن کے رہ گئے ہیں یا شاہ رخ خان کی طرح گھروں میں مورتیاں رکھتے ہیں اور خود کو شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار ثابت کر نے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے رہتے ہیں۔ ساری عمر کے مہمان اور کیسے ہوتے ہیں؟

    کوٹہ سسٹم، مہاجرین کو نیچے گرانے کے لیے نہیں بلکہ مفلوک الحال سندھیوں کو ان کے برابر لانے کے لیے لایا گیا تھا۔ تو کیا پڑھے لکھے مہاجروں کی سوچ بھی سرداروں، نوابوں اور وڈیروں جیسی ہے؟ یعنی گرے ہوئے کو پستی سے اٹھانے کی کوشش نہ کرو؟ اور سب سے بنیادی بات بھٹو، اسے صرف دس سال کے لیے لائے تھے تاکہ اس دوران دیہاتی اور شہری تعلیم نظام یکساں کر دیا جائے، پھر سب ایک جیسے کھلاڑی، میدان میں ایک دوسرے کے مقابل اتریں۔ ورنہ تو دیسی گھی کھانے والے اور تیل کھانے والے کو لڑوا کر آپ کس حیران کن نتیجے کی توقع رکھیں گے؟ آسائشوں والے غریبوں کو کچلتے رہیں گے۔ میرٹ پر لڑوانے کے لیے تیاری کے مواقع بھی تو ایک جیسے فراہم کیے جائیں۔

    اور کیا برا کیا پاکستان نے مہاجروں کے ساتھ، سب سے بڑے شہر میں آباد ہوئے، جہاں پورے پاکستان کی صنعتیں، کاروبار کے مواقع تھے۔ پورٹ سٹی، دنیا کی بڑی یونیورسٹی، کیا پاکستان نے آپ پر کچھ بند کیا؟ سارے ملک کی انوسٹمنٹ تو کراچی میں جائز مگر اس سے کمائی جانے والی رقم پر کہا جائے کہ یہ صرف ہمارا حق ؟ بات تو سوشلزم کی کرنا مگر جب اداروں کو قومی تحویل میں دے دیا گیا تو اسے بھی مہاجروں کے خلاف سازش کہنا اور اس کے بعد پاکستان کو گالی دینا۔ یہ کیسی وفاداری ہے ؟

    ذاتی مثال نہ دوں تو لوگ کہیں گے پنجابی ہے، اس نے کیا کھویا ہوگا؟
    میرے ابو کا قائد ماڈل کے نام سے عبداللہ پور فیصل آباد میں سکول تھا، امی ابو کی، یا کسی بھولے بھٹکے شاگرد کی زبانی ہی اس کی شان و شوکت اور کامیابی کے بارے میں سنا. اس سکول کی وجہ سے ابو پورے فیصل آباد میں جانے جاتے تھے اور ان کی عزت تھی، کیونکہ ہر دم معیاری تعلیم دینے اور سکول میں مثالی نظم و ضبط قائم رکھنے کے لیے کوشاں رہتے تھے. ایک دن یہ سکول قومی ملکیت میں چلا گیا۔ ابو کو اپنے ہی ہاتھوں سے آباد کیے گئے چمن میں ہیڈ ماسٹر بننے کی آفر کی گئی، مگر انھوں نے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ ساری عمر اپنا سکول چلایا، نوکری نہیں ہو سکے گی۔ اس کے بعد پرائیویٹ سکول بناتے رہے مگر اس طرح کی کامیابی اور عزت دوبارہ نہ پا سکے۔ ساری عمر ابو نہ پھر کبھی اس پائے کا سکول کھڑا کر پائے اور نہ خود اس غم سے نکل سکے مگر ان کے منہ سے میں نے کبھی پاکستان کے لیے تو دور کی بات، کبھی بھٹو کے لیے بھی برے الفاظ نہیں سنے۔ وہ بھٹوکو آج بھی ایک لیڈر کی حیثیت سے پسند کر تے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس نے پاکستان کو آئین دیا، ایٹمی طاقت بنایا اور ہمارے جنگی قیدی چھڑوا کے لایا۔ بھٹو کے پاکستان کے لیے کیے گئے بڑے کارناموں کے سامنے اپنے ذاتی نقصان اور دکھ کو کبھی یاد بھی نہیں کرتے حالانکہ اس سے ان کے بچوں کی روزی ہی نہیں بلکہ ان کی عزت بھی جڑی ہوئی تھی۔

    بعد میں جب کوئی بھی کاروبار سیٹ نہیں ہو سکا تو پھر بھی کسی کو الزام دینے کے بجائے خود کو حالات کا ذمہ دار سمجھتے، کسی دوست یا رشتے دار سے اپنے اوپر ہونے والی زیادتی کا رونا رو کر کبھی مدد نہیں مانگی، خودادری کے ساتھ سر اٹھا کر جیتے دیکھا، حالات نے توڑا بھی تو امی ابو کو خدا کے ہی آگے جھکتے دیکھا۔ باتوں سے نہیں، اپنے عمل سے سکھایا کہ گھر کی پریشانی باہر بتانے سے نہ گھر کی عزت باقی بچتی ہے نہ خود انسان کی، اوراگر وقتی رحم کھا کر لوگ مدد بھی کر دیں تو اس کے بدلے عزت نفس کو گروی رکھنا پڑتا ہے، اسی لیے آج بھی حیرت ہوتی ہے جب ان لوگوں کے منہ سے جنہوں نے پاکستان کے اعلی اداروں سے تعلیم حاصل کی، انگریزی زبان میں فرفر بولنا بھی وہیں سے سیکھا اور پھر اسی سیکھے کو انٹرنیشنل میڈیا میں پاکستان کو گالی دینے کے لہے استعمال کر تے ہیں۔

    سوچتی ہوں کہ کیا ان کے ماں باپ اپنے دکھوں کا رونا پوری دنیا کے سامنے روتے رہتے تھے؟ کیا انہیں کسی نے نہیں بتایا کہ جب پناہ دینے والے، پالنے پوسنے والے، چھت دینے والے گھر کو گالیاں دو تو اس گھر کی عزت تو خراب ہوتی ہی ہے، آپ کو بھی دنیا عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتی۔ شاید محرومیوں کے رونے رو کر وقتی ترس اور فائدے سمیٹنا، ایک بیماری ہے جو انفرادی سطح سے لے کر گروپوں تک پھیلی ہوئی ہے۔ اس بیماری کا علاج کروانا چاہیے اور یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے۔

  • اوریا صاحب! کیا پنجابی ہونا قابل شرم ہے؟ فلک شیر چیمہ

    اوریا صاحب! کیا پنجابی ہونا قابل شرم ہے؟ فلک شیر چیمہ

    فلک شیر ہمارے محترم شاہد اعوان صاحب نے اوریا مقبول جان صاحب کی ایک ویڈیو کی طرف توجہ دلائی، جس میں اوریا صاحب فرما رہے تھے کہ انہیں اپنے پنجابی ہونے پر شرمندگی ہوتی ہے۔ ویڈیو شئیر کرنے والے صاحب ایک لسانی جماعت کے ہمدرد تھے۔ اس پر جو پریشان سے خیالات پیش کیے، وہ پیش خدمت ہیں.

    جن صاحب نے یہ ویڈیو شئیر کی ہے، اسی نسل کے سید مودودی کو بالآخر نظر آیا تھا کہ اسلام کے لیے کام کرنے کے لیے جو حرارت درکار ہے، وہ پنجاب اور لاہور کے سوا کہیں دستیاب نہیں اور اقبال جیسا نابغہ وہیں مدفون ہے، اور جس زمانے کی کہانی اوریا صاحب سنا رہے ہیں، اس زمانے میں پنجاب میں مذہب اور دنیا کے ٹھیکیدار یہی گروہ تھے، جن سپاہیوں نے اٹک سے چکوال اور رحیم یار خان تک انگریز کے جھنڈے تلے جان دی تھی، انہیں یہ بتایا گیا تھا کہ انگریز عادل حاکم ہے. روٹی سے مجبور وہ بےچارہ کسان زادہ اپنی ماں کی دعاؤں کے سائے میں انگریز بہادر کی فوج کی وردی پہن لیتا تھا، اسےگالی دینا مجھے اچھا نہیں لگتا، آپ یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ سیاسی شعور ان میں نہیں تھا اتنا، لیکن آپ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہر دس بیس سال بعد کوئی افغانستان یا کسی اور خطے سے یہاں آن دھمکتا تھا، کبھی سکھ آ جاتے تھے، تو اس کے لیے ہر کوئی حاکم ہوتا تھا، مذہب اس سلسلہ میں کوئی بڑا معاملہ نہیں تھا، یہ دین اسلام کی خاطر لڑی جانے والی جنگیں کم اور اقتدار کی کشمکش زیادہ ہوتی تھیں، اسی کے تسلسل میں انگریزوں کے لیے لڑنے والے سپاہی کو دیکھیں۔

    جہاں تک مخدوموں، ٹوانوں اور چودھریوں کی بات ہے، ان کی صفائی دینے کی ضرورت ہمیں نہیں ہے اور نہ ہی انہیں، وہ آج بھی حاکم ہیں اور کل بھی تھے. ان کی منزل کھوٹی کرنے کے لیے ہم جیسے کئی لہو میں نہا گئے، معاش کا چراغ گل کروایا، بچوں کا مستقبل برباد کیا، صلاحیتیں برباد کیں، خواب دیکھتے لوگ، آدرش کی خاطر سب کچھ تج دیتے لوگ، لیکن وہ آج بھی وہیں ہیں، آپ انہیں غدار کہیں یا بیسواؤں کی اولاد، انہیں کچھ فرق نہیں پڑتا۔

    یو پی اور سی پی کے علماء نے واقعی انگریز کے خلاف جنگ لڑی تھی، اس میں البتہ کوئی شک نہیں، لیکن اس کے بعد وہیں کے مدارس نے حالات سے سمجھوتہ کر لیا، اور ملکہ عالیہ اور ریذیڈنٹ بہادر کی شان میں قصائد اور استقبالیے پیش کیے حالات سے مجبور ہو کر، ہم انہیں گالی کیسے دے سکتے ہیں، وہ بڑے لوگ تھے، حالات سے مجبور ہو گئے۔

    اوریا صاحب سے مجھے گلہ ہے کہ کسی خالص علمی اور عملی کام کی طرف یہ نوجوان طبقے، بالخصوص دینی رجحان رکھنے والوں کو موڑ نہیں سکے اور بس ایک جذباتیت سی جذباتیت ہے ۔

    خطے اپنا رنگ بدلتے ہیں، پنجابی ہونے پر شرم کیوں آتی ہے انہیں، اپنی کمزوریوں کو مٹی کے سر نہیں ڈالنا چاہیے۔

  • مترجم علم کا پٹواری ہے-وسعت اللہ خان

    مترجم علم کا پٹواری ہے-وسعت اللہ خان

    557857-WusatullahNEWNEW-1468605895-811-640x480

    (کل یعنی تیس ستمبر کو مترجمین سے اظہارِ یکجہتی کے لیے ورلڈ ٹرانسلیشن ڈے منایا گیا۔یہ دن ویسے تو عالمی پیمانے پر انیس سو اکیانوے سے منایا جا رہا ہے تاہم پاکستان میں اس سال پہلی مرتبہ دو تقاریب ہوئیں۔اول گجرات یونیورسٹی میں علاقائی زبانوں اور تراجم کے موضوع پر دو روزہ کانفرنس جس کا انعقاد پاکستان میں ٹرانسلیشن اسٹڈیز کے اکلوتے تدریسی شعبے نے کیا جس میں ترجمہ کے مضمون میں ایم اے اور پی ایچ ڈی تک کا انتظام ہے۔دوسری تقریب کراچی میں مترجمین کی خدمات کے اعتراف کے طور پر منعقد ہوئی۔ بطور صحافی میرا اور ترجمے کا ساتھ بھی چولی دامن کا ہے۔لہذا اس مضمون کی تلخیص قبول فرمائیے جو گجرات یونیورسٹی کی کانفرنس میں پڑھا گیا)

    اگر مترجم نہ میسر ہوتا تو برطانوی سامراجی ہندوستان میں نوے برس تو کیا شائد نوے دن بھی نہ ٹک پاتا۔ علم اور اجنبی کو جاننے کے لیے ترجمے کی وہی اہمیت ہے جو زندگی کے لیے سانس کی۔یوں سمجھئے کہ

    یہ ’’تراجم‘‘  کا کارخانہ ہے
    یاں وہی ہے جو اعتبار کیا

    اب سے پہلے  دو بار گجرات یونیورسٹی آ چکا ہوں اور دونوں بار مجھے کسی نے شبہ نہیں ہونے دیا کہ یہاں ترجمے کے فن کی باقاعدہ تدریس کا انتظام ہے۔ اگر یہ کانفرنس نہ ہوتی تو شائد تیسری بار بھی معلوم نہ ہوتا۔

    اب سے بارہ برس پہلے مجھے پٹیالہ یونیورسٹی  اور وہاں ترجمے کا کام دیکھنے کا اتفاق ہوا۔شعبے کے انچارج گردیو اروڑا صاحب سے گفتگو میں پہلی بار اندازہ ہوا کہ کسی تہذیب کا رسم الخط تبدیل ہونا بسا اوقات کتنا بڑا المیہ بن جاتا ہے۔انچارج صاحب نے بتایا کہ نئی نسل چونکہ صرف گرمکھی سے واقف ہے لہذا وہ شاہ مکھی میں موجود پنجابی کے وسیع علمی خزانے سے محروم ہو چکی ہے۔

    پاکستان سے پنجابی میں بہت سی کتابیں آتی ہیں مگر ان کو پڑھ کے گرمکھی میں منتقل کرنے کا کام صرف وہ تین چار بزرگ ہی  کر سکتے ہیں جنہوں نے تقسیم سے پہلے عربی فارسی رسم الخط میں تعلیم حاصل کی۔اب یہ انتظام کیا گیا کہ پٹیالہ یونیورسٹی سے جو بھی طالبِ علم پنجابی میں ایم فل یا ڈاکٹریٹ کرتا ہے اسے پہلے سال میں شاہ مکھی سیکھنا پڑتی ہے۔تاکہ گلشنِ ترجمہ کا کاروبار آیندہ بھی چلتا رہے۔شکر ہے بلھے شاہ اور وارث شاہ گورمکھی میں منتقل ہو گیا ورنہ ہماری نئی نسل اس سے بھی جاتی۔

    مجھے اس وقت پراگ بھی یاد آ رہا ہے۔جہاں چار مہینے قیام کے دوران احساس ہوا کہ ترجمے کا فن اور اس کی سرکاری سرپرستی کتنا بڑا قومی خدمت کا کام ہے۔چیک ری پبلک کی آبادی لگ بھگ ایک کروڑ ہے اور دارلحکومت پراگ میں تین بڑے بک اسٹورز میں تازہ ترین عالمی فکشن اور نان فکشن بھرا پڑا ہے۔

    ایک بک اسٹور کے مالک نے بتایا کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ جو ہمیں درکار ہو وہ زیادہ سے زیادہ چار ماہ کے اندر چیک زبان میں منتقل نہ ہو جائے۔چیک ری پبلک میں جو لوگ ترجمے کا کام کرتے ہیں۔انھیں اس فن کے ہوتے اپنی مالی آسودگی برقرار رکھنے کے لیے کوئی اور کام کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔

    وہاں اچھا مترجم وہ مانا جاتا ہے جسے چیک کے علاوہ کم ازکم دو بڑی عالمی زبانیں آتی ہوں۔اور یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ بھی نہیں کیونکہ اسکول کی سطح پر ہر بچے کو اہم یورپی زبانوں  میں سے کوئی ایک زبان ضرور پڑھنا پڑتی ہے۔

    میں نے اسی بک اسٹور میں محمد حنیف کا ناول ’’اے کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوز‘‘ کا چیک ترجمہ ایک بک شیلف  میں پڑا ہوا پایا۔حالانکہ اصل ناول انگریزی میں صرف تین ماہ پہلے شایع ہوا تھا۔اس کے بعد مجھے چیک ری پبلک کے ٹرانسلیشن کلچر کے بارے میں کسی سے مزید کچھ پوچھنے کی ضرورت نہ رہی۔

    اگرچہ پاکستان ایک وفاق ہے مگر وفاقی اکائیوں کی باہمی اجنبیت کا ایک بنیادی سبب عدم ترجمہ بھی ہے۔مثلاً کتنے وفاق پرست جانتے ہیں کہ سندھی فکشن اور نان فکشن کس سطح کا اور کتنی مقدار میں ہے۔پچھلے ڈیڑھ سو برس میں ادب، شاعری، تاریخ اور سیاست پر سندھی زبان میں جتنا کچھ لکھا گیا۔ہم اس کے پانچ فیصد سے بھی واقف نہیں۔ اگر پچھلے ستر برس میں یہی کام ہو جاتا کہ پاکستان کی علاقائی زبانوں کا پچیس فیصذ حزانہ بھی اردو یا انگریزی میں منتقل ہوجاتا تو آج وفاق کے چار یونٹوں کے لوگ ایک دوسرے کے لیے ایک دوسرے کے دکھ سکھ کو واقعی جان سکتے

    میں پچھلے اڑتیس برس سے ذرایع ابلاغ سے منسلک ہوں۔اس عرصے میں غلط یا صحیح میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ترجمے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کو کم ازکم ایک زبان پر دسترس ہو۔

    اگر آپ انگریزی سے اردو ترجمے کا کام کر رہے ہوں تو انگریزی بھلے اتنی اچھی نہ بھی ہو لیکن اردو کے لسانی و استعاراتی و علاقائی قواعد، محاورے، روزمرہ اور لہجوں سے آپ کو بنیادی واقفیت ضرور ہونی چاہیے۔ اگر آپ نے خدانخواستہ اس فن کو آسان جانا اور یہ فرض کر لیا کہ ترجمہ کرنا کون سا مسئلہ ہے ڈکشنری سامنے رکھو اور ترجمہ کر لو۔بس یہیں سے آپ کی فنی بربادی شروع ہوجاتی ہے۔

    ایک صحافتی اپرنٹس کوایک خبر ترجمے کے لیے دی گئی جس میں ایک جملہ یہ بھی تھا کہ ’’ فارن منسٹر گوہر ایوب سیڈ پاکستان از ناٹ بنانا ری پبلک‘‘ ۔ غریب اپرنٹس نے اس کا ترجمہ کیا کہ ’’وزیرِ خارجہ گوہر ایوب نے کہا ہے کہ پاکستان کوئی کیلا جمہوریہ نہیں ہے‘‘

    ڈکشنری زدہ نو وارد و نوزائدہ صحافیوں کو بعض اوقات یہ سمجھانا مشکل ہے کہ جملے کو پہلے دھیان سے پڑھا جائے۔ اگر سمجھ میں نہیں آ رہا تو کسی سے مفہوم پوچھ لیا جائے۔اگر ایک لفظ یا اصطلاح کے پانچ یا چھ مختلف معنی ہیں تو ان میں سے مناسب معنی کے بارے میں مشورہ لینے یا پوچھنے سے توہین ہرگز نہیں ہوتی بلکہ مترجم بعد میں بے در پے شرمندگی سے بچ جاتا ہے۔اور جب تک آپ عصری علوم اور لٹریچر سے کماحقہ نہ سہی واجبی واقف بھی نہ ہوں گے تو ڈکشنری کی تلوار آپ کو ہارا کاری کروانے کے لیے کافی ہے۔

    حالیہ برسوں میں میڈیا میں کام کرنے والے جواں سال مترجم کے ساتھ ایک ٹریجڈی یہ بھی ہوئی ہے کہ پہلے اے پی پی، پی پی آئی اور دیگر نیوز ایجنسیوں کی خبریں صرف انگریزی میں آتی تھیں لہذا چار و ناچار ان کا ترجمہ اردو یا کسی اور زبان میں کرنا ہی پڑتا تھا۔

    اس بہانے مترجم کے تحت الشعور میں ضروری انگریزی الفاظ و اصطلاحات کا ایک خزانہ ترتیب پاتا چلا جاتا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس  کی ترجمہ کرنے کی صلاحیت رواں تر ہوتی جاتی۔لیکن جب سے نیوز ایجنسیوں نے انگریزی کے بجائے تمام خبریں اردو میں مہیا کرنی شروع کی ہیں تب سے ترجمہ کرنے اور سیکھنے کی رہی سہی مجبوری نے بھی ابلاغی کھڑکی سے کود کر جان دے دی ہے۔

    آج صورت یہ ہے کہ بولی اور زبان میں تمیز ختم ہو گئی ہے۔اکثر صحافیوں نے زبان کاغذ پر پڑھی نہیں بلکہ سنی ہے۔اس سنی ان سنی کے نتیجے میں اپنے بہت سے ابلاغی ساتھیوں کے بارے میں کہہ سکتا ہوں کہ خدانخواستہ بہرے ہوتے تو جاہل ہوتے۔

    میں یہ نہیں کہتا کہ ’’وی ول لیو نو اسٹون اَن ٹرنڈ‘‘ کا ترجمہ یہی کیا جائے کہ کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا جائے گا۔اس کا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’ہم ہر ممکن کوشش کریں گے‘‘۔لیکن اگر مجھے ’’ وی ول لیو نو اسٹون ان ٹرنڈ‘‘  جیسے عام سے محاورے کا ترجمہ یہ ملے کہ ہم ہر پتھر اکھاڑ پھینکیں گے تو پھر مجھے بھی یہ حق دیں کہ یہی پتھر میں مترجم پر نہ سہی اپنے ہی سر پے مار لوں۔

    اور جنھیں اچھا ترجمہ آتا ہے ان میں سے بہت سوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے ملی جذبات پر قابو نہیں رکھ پاتے۔ جملے کا ترجمہ کرتے ہوئے اسے اپنے تعصبات اور خواہشات میں ایسا رنگ دیتے ہیں کہ جملہ کہیں کا کہیں پہنچ کر اگر فوت نہ بھی ہو تو پاگل ضرور ہو جائے۔مثلاً ایک بار ایک نوجوان سب ایڈیٹر کو میں نے ایک نیوز ایجنسی کی ایک خبر دی جس میں ایک جملہ یہ تھا کہ ’’ وائہیل ایڈرینسگ اے گیدرنگ آف لیجسلیٹرز ان سری نگر، دی انڈین پرائم منسٹر مسٹر اٹل بہاری واجپائی ویہمنٹلی سیڈ دیٹ کشمیر از این انٹیگرل پارٹ آف انڈیا اینڈ وِِل رمین سو…

    اب ترجمہ ملاحظہ کیجیے ’’بھارتی وزیرِ اعظم اٹل بہاری واجپائی نے سری نگر میں منتخب ارکانِ اسمبلی کے  اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ایک بار پھر ڈھٹائی سے کام لیتے ہوئے ہرزہ سرائی کی کہ مقبوضہ کشمیر بھارت کا اٹونگ انگ ہے اور رہے گا‘‘ اب بتائیے کہ آپ میری جگہ ہوتے تو حب الوطنی سے سرشار اس جوشیلے مترجم کا کیا کرتے۔

    ترجمہ لفظ کا نہیں تحریر کا ہوتا ہے اور سب سے اچھا ترجمہ تحریر کا نہیں مصنف کا کیا جاتا ہے۔

  • پاکستان میں انتشار، قصوروار کون؟ ملک جہانگیر اقبال

    پاکستان میں انتشار، قصوروار کون؟ ملک جہانگیر اقبال

    ملک جہانگیر اقبال بچپن میں جب مٹی میں کھیل کود کے بعد خیال آتا تھا کہ ابو جی نے دیکھ لیا تو ”چمپا پریڈ“ ہوجانی ہے تو فوری طور پر اٹھ کھڑے ہوتے، ہاتھ جھاڑتے اور سائیڈ پر کھڑے ہو کر مٹی میں کھیلتے بچوں کو دیکھ کر افسوس سے سوچتے ”افففف کتنے گندے بچے ہیں“. اپنے تئیں تو ہم معزز بن جایا کرتے تھے اور اگر اس دوران ابو جی دور سے آتے دکھائی دیتے تو ان ”گندے بچوں“ کو بظاہر مٹی میں کھیلنے سے منع بھی کرنے لگ جاتے تھے کہ چلو اسی بہانے ابو جی دیکھیں گے کہ ان کا بیٹا کتنا اچھا ہے، خود مٹی میں کھیلتا ہے نہ دوسرے بچوں کو کھیلنے دیتا ہے. مگر ابو جی جب آتے تو گھوم پھر کر شامت ہماری ہی آجاتی تھی کہ ہم نے بھی صرف ہاتھ ہی جھاڑے ہوتے تھے جبکہ کپڑوں پر لگی مٹی ہمارے ”مجرم“ ہونے کی گواہی دے رہی ہوتی تھی.

    کہنے کو تو یہ میرے بچپن کی بات ہے مگر یقیناً بہت سے دوستوں کے بچپن میں ایسے واقعات گزرے ہوں گے جب وہ خود کسی جرم میں شریک ہوں، ابو یا کسی اور بڑے کو آتا دیکھ کر سائیڈ پر کھڑے ہو کر شرارت کرنے والوں کو کوسنے کی اداکاری کر رہے ہوں، اور پھر بھی پکڑے جائیں.

    یہ صرف ”میرے“ بچپن ہی کی شرارت نہیں ہے بلکہ یہ پاکستانی قوم کے بچپن کی بھی شرارت ہے. اقوام صدیوں بعد کہیں جا کر راہ کا تعین کرتی ہیں، خود میں شامل مختلف گروہوں کو سمجھتی ہیں، جبکہ پاکستان کو تو بنے ہوئے ہی ابھی بمشکل صرف ستر سال ہوئے ہیں، اور یہ جن گروہوں پر مشتمل ہے ان کی زبان، ثقافت، رنگ، نسل، زمین اور پانی تک سب جدا جدا ہیں، اگر ان میں کوئی شے مشترک ہے تو وہ ”اسلام“ ہے جس نے اسے جوڑ کر رکھا ہوا ہے. اگر ایک لمحے کے لیے بھی اسلام کو پاکستان میں سے نکال دیا جائے تو آپ اس قوم کا شیرازہ بکھرتا ہوا دیکھیں گے. فرض کریں کہ ہمارے درمیان ”اسلام“ کا رشتہ نہ ہو تو پنجابی اور پٹھان کیوں کر ایک دوسرے کی بات سمجھیں گے؟ بلوچوں کو سندھیوں سے کیا لینا دینا؟ اور باقی پاکستان والے ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والوں کو اپنی زمین پر کیوں رہنے دیں؟ پاکستانی کوئی زمینی خطہ نہیں ہے بلکہ یہ مختلف اقوام کی باہمی رضامندی یا مکسچر سے طلوع ہونے والا مجموعہ اور ”ملک“ ہے. جہاں ہر قوم ہر ریاست ہر صوبے نے صرف اور صرف اس بات پر اتحاد کیا تھا کہ ”ہم مسلمان ہیں“، اس لیے ہمارا الگ سے ملک ہونا چاہیے جہاں ہم اکٹھے رہیں گے. وگرنہ پنجابی، بلوچ، سندھی، پٹھان اور باقی اقوام اپنے اپنے علاقوں میں رہ ہی رہے تھے، پاکستان بنتا نہ بنتا، وہ اپنے علاقوں میں ہی رہتے. کیا ضرورت تھی کسی کو یوپی، بہار، دہلی، لکھنؤ، امرتسر وغیرہ میں اپنی آبائی زمین اور گھر چھوڑنے کی؟ کیا کوئی پکنک منانے جارہے تھے یہ لوگ؟

    جواب نہیں ملے گا.

    قیام پاکستان کے بعد روسی انقلاب سے متاثرہ دانشور اور امریکی سرمایہ دارانہ نظام کے حامی سیکولرز پاکستان کی جڑوں میں آ کر بیٹھ گئے. اسلامی جمہوریہ پاکستان نام تو رکھ دیا گیا مگر ”اسلام“ کو اہمیت نہ دینے کی وجہ سے پاکستان تین طبقات میں بٹ گیا، ایک بیوروکریسی جو سیکولرز پر مشتمل تھی، دوم دانشوری جو کمیونسٹ عناصر کے نرغے میں تھی جبکہ تیسری کروڑوں کی تعداد میں موجود عوام جس کا اوڑھنا بچھونا صرف اور صرف ”اسلام“ تھا، اس کی آواز مگر نقارخانے میں طوطی کی آواز سے بھی باریک تھی. اس دور میں ”ادیب“ کہلوانے کے لیے آپ کو تقسیم پر نوحہ لکھنا اور انقلاب انقلاب کے منجن میں سرخ انقلاب سوویت سے امپورٹ کرنے کی خواہش کا دبے لفظوں میں پرچار کرنا ضروری تھا، نتیجہ یہ نکلا کہ جب سیکولر طبقہ سے تعلق رکھنے والے ایوب خان کے بعد یحییٰ خان نے پاکستان کی باگ دوڑ سنبھالی تو اس وقت لبرلزم کا جعلی منجن بیس پچیس سال پرانا ہو چکا تھا لہٰذا مشرقی پاکستان اپنی زبان کی بنیاد پر علیحدہ ہوگیا، دونوں حصوں کو جوڑ کر رکھنے والا صرف ایک اسلام کا ہی رشتہ تھا جسے پاکستان بننے کے بعد ہی فراموش
    کردیا گیا. جب اسلام ہی نہ رہا تو پیچھے جھوٹے وعدے، تسلیاں، برابر کی تقسیم کے وہ نعرے رہ گئے جو اپنی کشش صرف اور صرف نعروں میں ہی رکھتے تھے. اگر لوگوں کو ساتھ جوڑے رکھنا ہے تو کوئی ایک مشترکہ نقطہ ضرور ہونا چاہیے جس پر قوم کے مختلف گروہوں کو جوڑے رکھا جا سکے.

    پاکستان دو لخت ہوگیا تو یہ سیکولر لبرل لابی ہاتھ جھاڑ کر سائیڈ پر کھڑی ہوگئی، کہ دیکھو جی پاکستان تو کبھی ترقی کر ہی نہیں سکتا کہ ان میں تو آپس میں ہی اتحاد نہیں، بندہ ان سے پوچھے کہ یہ جو پاکستان سے اسلام کو نکالنے کے داغ تمہارے کپڑوں پر لگے ہیں، پہلے اس کا تو جواب دو. جو پاکستان کی بنیاد تھی، تم نے اسے ہی کمزور کردیا، تمھیں کیا لگتا ہے کہ محض سیاسی نعروں کی بنیاد پر دو ایک دوسرے سے یکسر مختلف گروہوں کو ساتھ رکھا جاسکتا ہے؟

    اس کے بعد دور آیا سیاسی رسہ کشیوں کا یعنی ذولفقار علی بھٹو صاحب کا، یہاں شروع میں ملک کو استحکام دینے کے لیے اسلام کا سہارا لیا گیا، اسلامی تنظیموں کے مطالبات پہلی بار سنے گئے، اور بظاہر ایک نئی شروعات کی گئی لیکن یہاں اسلام کو جس طرح سیاسی فائدے کے لیے استعمال کیا گیا اس کی مثال نہیں ملتی اور پھر اسلام کو پاکستان کی اساس کے بجائے حکومت کی بقاء کے لیے استعمال کرنے کا دور ضیاء الحق تک چلا. ضیاء الحق کٹر اسلام پسند حکمران تھا مگر مزے کی بات یہ ہے کہ اس کی مخالفت سیکولر حضرات نے کم اور کمیونسٹ حضرات نے زیادہ کی، حالانکہ آمرانہ نظام کمیونزم یا سوشلزم سے بہت زیادہ قربت رکھتا ہے. کمیونسٹوں کی ضیاء الحق کی مخالفت کی وجہ ”پاکستان“ نہیں بلکہ وہ ”سرخ انقلاب“ تھا جو افغانستان تک پہنچ چکا تھا اور جلد یا بدیر اس کے پاکستان میں آنے کے سہانے سپنے دیکھے جانے لگے تھے. ضیاء الحق کی سوویت یونین کے خلاف تاریخی جنگ سے ان کے سپنے ٹوٹ گئے. ضیاء الحق کو جہاں ایک جانب افغانستان میں موجود مختلف اقوام کی نسل کشی اور بھٹو دور میں پاکستان میں پناہ حاصل کرنے والے افغان لیڈرز کی فکر تھی تو دوسری جانب اسے یہ بھی معلوم تھا کہ اس کا مخالف طبقہ کن لوگوں پر مشتمل ہے، اس اندازہ تھا کہ اگر سوویت یونین پاکستانی سرحد تک آگیا تو ان ”اپنوں“ کا اس کے بعد کا کردار کتنا بھیانک ہوگا؟ لہٰذا امریکہ، پاکستان، اور پشتون قبائل ان تینوں نے اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے روس سے جنگ کی. یہاں کوئی کسی کے ہاتھوں استعمال نہیں ہوا بلکہ اپنا مقصد تینوں نے ہی حاصل کیا .

    اس جنگ کے بعد کمیونسٹ حضرات کی کمر تو ٹوٹ گئی اور سیکولر لابی کی طرح وہ بھی اپنے کپڑے جھاڑ کر سائیڈ پر کھڑے ہوگئے، اور نوے کی دہائی میں سیاست میں ہونے والی رسہ کشی اور عدم استحکام دیکھ کر پاکستانی قوم پر تف کرنے لگے جبکہ اس دوران وہ اپنے کپڑوں پر لگنے والے ان داغوں کو نظر انداز کرتے رہے جو انھوں نے پاکستان سے زیادہ سوویت یونین سے وفاداری نبھا کر اپنے کپڑوں پر ملے تھے.

    پھر دور آیا مشرف صاحب کا یعنی لبرلزم کا، جس طرح پچھلی بار لبرلزم ہمارا مشرقی پاکستان کھا گیا تھا، ٹھیک اسی طرح اس لبرلزم نے سندھ، بلوچستان اور قبائلی پٹی پر شورش پیدا کی، سب سے پہلے پاکستان بہت خوب نعرہ ہے مگر بنا اسلام کے پاکستان کا کوئی وجود ہی نہیں تو نعرہ کس کام کا ؟ لیکن اس دوران مذہب کو سیاست کے لیے استعمال کرنے والوں کا بھی بھیانک روپ سامنے آیا جس میں مذہب کو بطور بلیک میلنگ اور ذاتی مفادات کے لیے استعمال کیا گیا یعنی عملی طور پر اسلام کا دور دور تک کوئی نام و نشان ہی نہیں تھا. سول سوسائٹی کے طور پر یا تو اسلام کو پاکستان میں دیکھ کر ناک بھوں چڑھانے والے لوگ تھے یا پھر اسلام پسندوں کو اپنے سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرنے والے.

    نتیجہ کیا نکلا؟ ہر صوبے میں شورش، دنیا میں بدنامی، صوبائیت کا فروغ، قوم پرستی کا عروج.

    اس دور سے لے کر اب تک پاکستانی قوم نہیں بن سکے، سیاست سے لے کر ایک عام فرد کی سوچ تک میں صوبائیت کی بو رچ بس گئی. جب اسلام سے زیادہ شخصیات طاقتور ہوئیں تو کالے کوے بھی سفید ہونے لگے، یہاں کے مذہبی حضرات سیاست کرنے لگے ہیں جبکہ سائنسدان حضرت مذہبی بحث و مباحثہ، غرض اپنے پروفیشن سے زیادہ اپنے عقائد کی ترویج پہلا مقصد بنا چھوڑا ہے. مذہبی انتہا پسندی نے اگر پاکستان کے اندر بدنام کیا تو لبرل حضرات نے پاکستان سے باہر جا کر پاکستان کو بدنام کیا. ایک طویل فہرست ہے کہ کون کس طرح کے فراڈ میں ملوث ہے.

    اب یہاں سوال اٹھتا ہے کہ کیا پاکستان ایسے ہی بنا دیا گیا؟ کوئی اصول اور ضابطہ نہیں طے کیا گیا؟

    پاکستان بہت سوچ سمجھ کر بنایا گیا تھا. قائد اعظم کی 22 مارچ 1940ء کی تقریر ہو یا علامہ اقبال کا جمہوریت کا وہ نظریہ جو مغربی جمہوریت سے ہزار گنا بہتر تھا، یا پھر وہ قرارداد مقاصد ہو جس نے پاکستان کی بنیاد رکھ چھوڑی تھی. اگر اس پر کاربند رہتے تو لبرلزم میں جعلی پن ہوتا نہ مذہب میں انتہا پسندی. پاکستان کے پہلے وزیراعظم اور قائداعظم کے معتمد لیاقت علی خان کی قرارداد مقاصد پیش کرنے کے دوران تقریر کا اگر متن ہی پڑھ لیا جائے تو سب باتیں واضح ہوجاتی ہیں کہ پاکستان کو کن اصولوں پر بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا. لیاقت علی خان نے کہا تھا:
    ”جناب والا! آپ کو یاد ہوگا کہ قائداعظم اور مسلم لیگ کے دوسرے رہنمائوں نے ہمیشہ یہ واضح اور غیر مبہم اعلانات کیے کہ پاکستان کا اس لیے ضروری ہے کہ مسلمانوں کے پاس اپنا طریق زندگی اور ضابطہ اخلاق موجود ہے جو ہندوؤں سے الگ ہے۔ انہوں نے باربار اس امر پر بھی زور دیا کہ اسلام کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ خدا اور بندہ کے درمیان ایک ایسا تعلق قائم ہو جسے مملکت کے کاروبار میں کسی قسم کا دخل نہ ہو بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں عمرانی اخلاق کے متعلق مخصوص ہدایات ہیں اور اسلام روز مرہ پیش آنے والے مسائل کے متعلق معاشرہ کے طرزِ عمل کی راہنمائی کرتا ہے۔ اسلام صرف ذاتی عقائد اور اخلاق کا نام نہیں ہے بلکہ اپنے پیروؤں سے توقع کرتا ہے کہ وہ ایک ایسے معاشرے کی تعمیر کریں جس کا مقصد حیات صالح ہو۔ یونانیوں کے برخلاف اسلام نے صالح زندگی کا جو تصور پیش کیا ہے اس کی اساس لازماً روحانی اقدار پر قائم ہے۔ ان اقدار کو اہمیت دینے اور انہیں نافذ کرنے کے لیے مملکت پر لازم ہو جاتا ہے کہ وہ مسلمانوں کی سرگرمیوں کی اس طریقہ پر ہمنوائی کریں کہ ایک ایسا نیا عمرانی نظام قائم ہوجائے جو اسلام کے بنیادی اصولوں پر مبنی ہو، جن میں جمہوریت، حریت، رواداری اور عمرانی عدل شامل ہیں۔ ان کا ذکر تو میں نے تمثیلاً کیا ہے کیونکہ وہ اسلامی تعلیمات جو قرآن اور سنت نبویﷺ پر مشتمل ہیں، محض اس پر ختم نہیں ہو جاتیں۔ کوئی مسلمان ایسا نہیں ہو سکتا جس کا اس پر ایمان نہ ہو کہ کلام اللہ اور اسوہ رسول ﷺ ہی اس کے روحانی فیضان کے بنیادی سرچشمہ ہیں۔ ان کے متعلق مسلمانوں کے مابین کوئی اختلاف رائے نہیں ہے اور اسلام کا کوئی فرقہ نہیں ہے جو ان کے وجود کو تسلیم نہ کرتا ہو۔“

    جناب والا! یہ قوم زبردست کامیابیوں کی روایات رکھتی ہے۔ اس کی تاریخ کارناموں سے پھر پور ہے۔ اس نے زندگی کے ہر شعبہ میں کامیابی کے ساتھ پورا پورا حصہ لیا ہے۔ ہماری قوم کی بہادری کے کارنامے قومی تاریخ کی زینت ہیں۔ یہ وہ قوم ہے جس کے ارباب نظم و نسق نے ایسی روایات قائم کی ہیں جو زمانہ کی دستبرد سے اب تک محفوظ ہیں۔ اس کے تخلیقی فنون میں شعر و شاعری، فنِ تعمیر اور جمالیاتی ذوق کے لیے اسے خراج تحسین ادا کیا گیا ہے۔ روحانی عظمت کے لحاظ سے یہ قوم عدیم المثال ہے۔ اب پھر یہ قوم راہ عمل پر گامزن ہے اور اگر اسے ضروری مواقع میسر آجائیں تو وہ اپنی شاندار کامیابیوں کی سابقہ عظیم الشان روایات کو پھاند کر ان سے بہتر کام کر دکھائے گی۔ یہ قرارداد مقاصد اس ماحول کے پیدا کرنے کی طرف پہلا قدم ہے جس میں قوم کی روح پھر بیدار ہو جائے گی۔ ہم لوگوں کو قدرت نے قوم کی اس نشاۃ ثانیہ کے زبردست ہنگامہ میں حصہ لینے کے لیے خواہ وہ حصہ کتنا ہی حقیر اور غیر اہم ہو، منتخب کیا ہے اور ہم ان زبردست گوناگوں مواقع سے جو ہمیں حاصل ہیں، محو حیرت ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ان مواقع سے خردمندی اور دور اندیشی کے ساتھ فائدہ اٹھائیں اور مجھے اس میں ذرا بھی شک نہیں ہے کہ اس اللہ کے فضل وکرم سے جس کی رحمت سے پاکستان قائد ہوا ہے، ہماری یہ کوشش ہماری برے سے بڑی توقعات سے برھ کر بار آور ہوگی۔ قوم کی نشاۃ ثانیہ کا باب ہر روز نہیں کھلتا اور ہر روز قدرت مظلوموں اور محکوموں کو نہیں ابھارتی اور انہیں شاندار مستقبل کی طرف بڑھنے کی باربار دعوت نہیں دیتی۔ روشنی کی کرنیں افق پر تحریر ہو۔ (لیاقت علی خان 12مارچ 1949)

    دوستو! پاکستان برا نہیں ہے. ہمارے اپنے ہی کپڑوں پر داغ ہیں. قصور پاکستان کا نہیں ہے، ہم خود ہی مٹی سے کھیلتے آئے ہیں. پاکستان کو قائم رکھنا ہے تو اس کی اصل اساس کو سامنے رکھ کر ہی آگے بڑھنا ہے. ورنہ ملک جہانگیر اقبال پنجابی کسی ولی افضل خان پٹھان کے دکھ درد میں شریک کیوں ہوگا؟ میر باز بلوچ کو اللہ بخش سندھی سے کیسی ہمدردی؟ اور وقاص دہلوی مہاجر کے لیے کوئی وحید عباسی ہزارے وال کیوں اپنا نوالہ چھوڑے؟ سوچیے گا ضرور، کیوں کہ سوچنے پر فی الحال کوئی حکومتی ٹیکس لاگو نہیں ہوتا.
    پاکستان زندہ باد

  • مادری زبان، قوم پرستوں کا مقدمہ – دائود ظفر ندیم

    مادری زبان، قوم پرستوں کا مقدمہ – دائود ظفر ندیم

    دائود ظفر ندیم جب میں بچہ تھا، تو مجھے لگتا تھا کہ اردو زبان ہی ہماری اپنی زبان ہے مگر مجھے مشکل ہوتی تھی جب گھر میں پنجابی بولی جاتی تھی، ہمارے اردو میڈیم سکول میں یہ بات سکھائی جاتی تھی کہ پنجابی ایک گنواروں کی زبان ہے جس کا لہجہ ایک مقررہ فاصلے کے بعد بدل جاتا ہے اور اس کی کا کوئی معیاری لہجہ نہیں، اس میں کوئی ادب تخلیق نہیں ہو رہا، یہ بانجھ اور جامد زبان ہے. مجھے واقعی ایسے لگتا کہ سبزی والا، دودھ والا، کام کرنے والے غریب لوگ اور ان کے بچے یہ زبان بولتے مگر اس وقت پریشان ہوجاتا جب مری ماں بھی یہی زبان استعمال کرتی، میرے والد بھی اسی بان میں گفتگو کرتے، میں بڑے شوق سے اے حمید سے لے کر اشتیاق احمد اور جبار توقیر وغیرہ کی بچوں کے لیے کہانیاں پڑھا کرتا، بچوں کے لیے اردو زبان میں نونہال، جگنو، تعلیم و تربیت نامی رسائل شائع ہوا کرتے تھے. میری اپنی کچھ کہانیاں جگنو میں چھپا کرتیں اور مجھے فخر ہوتا کہ میں دوسرے پنجابی بچوں کی طرح جاہل نہیں بلکہ ایک پڑھا لکھا بچہ ہوں جسے اردو آتی ہے، مگر میری ماں مجھے رات کو سونے سے پہلے پنجابی گیت سناتی، لکڑ بگڑ باوے دا، اسی نو نواسی، جیسےگیت دل کو چھو لیتے اور پھر پنجابی میں مختلف کہانیاں، رات کو بستر میں لیٹ کر کہانی سننے کا جو نشہ آتا، وہ بیان سے باہر ہے. مگر سکول میں اور نصاب میں مجھے اسماعیل میرٹھی کی ہماری گائے جیسی نظمیں پڑھنے کو ملتیں اور محلے کی لائبریری میں بھی اردو کتابیں ملتیں. میں نے ابن صفی بڑے شوق سے پڑھا، پاکستان ٹیلے ویژن کارپوریشن بھی اردو کی ترویج کا اہم ہتھیار تھا جہاں اردو زبان میں بڑوں کے لیے بہت سے اچھے پروگراموں کے علاوہ ننھے بچوں کے لیے پروگرام تیار کیے جاتے تھے.

    مگر جب میں داستان امیر حمزہ، طلسم ہوش ربا اور الف لیلی پڑھ رہا تھا تو گھر میں میرے دادا کی بڑی بہن مجھے راجہ رسالو کی کہانیاں سناتی، مجھے پورن بھگت کی کہانی بہت پسند تھی، اور پھر ہیر رانجھا اور سوہنی مہیوال کے رومانی قصے، میں سوچا کرتا کہ یہ کون لوگ ہیں جو پنجابی زبان میں لکھتے تھے، بہرحال میں یہ جانتا تھا کہ اب پنجابی کہیں نہیں لکھی جاتی اور اردو زبان ہی پاکستان کی قومی اور واحد زبان ہے. کچھ متعصب اور پاکستان دشمن عناصر نے پہلے بنگالی زبان کا نام لیا اور پاکستان توڑا، اور اب بھی کچھ نالائق لوگ سندھی اور پشتو اور بلوچی میں بات کرتے ہیں، اس میں لکھتے ہیں، یہ پاکستان کے دشمن اور غدار ہیں جو پاکستان میں لسانی اور علاقائی تعصب پھیلاتے ہیں۔ مگر جب میں بی اے کی تیاری کررہا تھا تو اس وقت مجھے پہلی دفعہ پتہ چلا کہ پنجاب میں بھی کچھ متعصب لوگ پنجابی لکھتے ہیں، پنجاب میں پنجابی کہانی لکھنے والے اور پنجابی شاعری کرنے والے شرپسند ابھی بھی موجود ہیں۔ یہ میرے لیے بہت پریشانی کی بات تھی۔

    میرے نئے دوستوں نے مجھے بتلایا کہ آپ کسی بھی زبان کا ادب کسی بھی زبان میں پڑھیں، کوئی حرج نہیں. جی بالکل پڑھیے، چہ خوب. لیکن اپنی زبان کا ادب نہ پڑھیں، تو جڑیں اپنی مٹی میں پیوست نہیں ہوتیں. اگر آپ ان داستانوں کو نہ پڑھیں، سنیں جو آپ کے اطراف میں ہیں، آپ کے زمانے میں یا آپ سے پہلے اس دھرتی پہ سانس لیتی رہیں، یعنی جن سے آپ کے اجداد کا تعلق رہا تو آپ کو مکالمے کے دوران ابلاغ میں مشکل پیش آئے گی. چنانچہ مجھے رانجھن ہونا، کچا گھڑا، مہینوال، بھگت، اور پنجابی کے مختلف اکھان اور محاروں کا علم ہوا. یہ معلوم ہوا کہ غالب، داغ، مومن، انشا، جرات، حالی بڑے شاعر ہیں مگر وہ وادی گنگا و جمنا میں تھے جسے اب بھارت کہتے ہیں. ہمارے پنجاب میں بلھے شاہ، وارث شاہ، شاہ حسین، اور سب سے بڑھ کر بابا فرید جیسے لوگ تھے جنہوں نے پنجابی زبان میں لکھا، اور پنجابی کی اپنی اساطیر، استعارے، تشبیہات، محاورے موجود ہیں. اور جب ایم اے کے بعد میں نے پنجاب یونیورسٹی میں ہندی زبان میں ڈپلومہ کیا تو معلوم ہوا کہ اردو اور ہندی ایک ہی زبان ہیں جن کو مذہبی تعصب اور الگ رسم الخط کی ضد نے دو الگ زبانیں بنا رکھا ہے اور دونوں کی جڑیں ایک ہی علاقے یعنی گنگا جمنا کی وادی میں ہیں. پنجابی دنیا کی دس بڑی زبانوں میں شامل ہے پاکستان کے بعد کینیڈا میں ایک بڑی زبان ہے جہاں کچھ پاکستانی محب وطن کوشش کر رہے ہیں کہ پاکستانی پنجابی اپنی مادری زبان کے طور پر پنجابی کے بجائے اردو لکھیں تاکہ کینیڈا میں پنجابی کا مقام ختم ہو.

    میں اردو کا مخالف نہیں مگر جب اردو کو ایک ایسے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جس سے پاکستان کی اپنی زبانوں کو ختم کیا جائے تو تکلیف ہوتی ہے۔ پاکستان میں کرتا دھرتا یہ نہیں جانتے کہ اگر پاکستانی چینلوں پر پنجابی کی کوئی جگہ نہیں رہی، پنجابی فلم کو پاکستان میں ختم کرنے کو کوشش کی جا رہی ہے، تویہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ میری چھوٹی سی، بہت بڑی دنیا میں تبدیل ہوگئی اب پاکستانی چینل ہی اول و آخر نہیں، اب بچے ستر اسی نہیں تو پچاس ساٹھ ٹیلے ویژن چینل کی دنیا میں آنکھ کھولتے ہیں. اگر کسی پاکستانی ٹیلے ویژن چینل پر پنجابی کے پروگرام کا ‘اسپاٹ’ ہی نہیں تو بھی پنجابی فلمیں اور پروگرام غیرملکی چینلوں اور انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں۔ اس لیے آپ کسی کے نصاب، میڈیا اور اشرافیہ سے اس کی زبان ختم کرنے کے بعد بھی یہ توقع نہیں رکھ سکتے کہ وہ زبان ختم ہو سکتی ہے.

    میں آج بھی اردو کو ہی اپنے ہی لکھنے پڑھنے کا ذریعہ بنائے ہوں مگر اس سارے معاملے کی تفہیم نے مجھے اس قابل بنایا کہ میں قوم پرستوں کے بیانیے کو سمجھ پائوں، قوم پرستوں کا بیانیہ کچھ تحفظات اور کچھ اندیشوں پر مبنی ہے۔

    ان کے بیانیے کا پہلا جز یہ ہے کہ پاکستان ایک وفاق ہے ایک قوم نہیں یہاں مختلف قومیتیں آباد ہیں ایک وفاق میں رہنے والی تمام قومیتوں کے لسانی، اور جغرافیائی حقوق کا تحفظ ہونا چاہیے۔
    ایک تو ان کو اپنے علاقے اور سرزمین میں اقلیت بننے کا اندیشہ ہے دوسرا ان کو اپنی لسانی شناخت چھن جانے کا اندیشہ ہے۔

    بلوچوں کو خطرہ ہے کہ وہ اپنی روایتی سرزمین پر ریڈانڈین کی طرح ایک اقلیت میں تبدیل ہو جائیں گے. وہ اس کے لیے کراچی کی مثال دیتے ہیں کہ کراچی روایتی طور پر ایک بلوچ علاقہ تھا جہاں ایک دوسری قومیت کو بسایا گیا اور بلوچ لیاری میں محصور رہ گئے جہاں وہ روزگار کے مواقع، شناخت اور اختیار سے محرومی کی وجہ سے جرائم پیشہ بننے پر مجبور ہوگئے، ان کے فٹ بالروں اور ان کے باکسروں کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ ان کو قومی ہیرو نہیں سمجھا گیا۔ ان کو سہولیات نہیں ملیں۔
    بلوچوں کو یہی اندیشہ بلوچستان میں ہے کہ ان کو لسانی اقلیت بنایا جائے گا۔ وہ ایسے تحفظات چاہتے ہیں کہ انھیں اپنی سرزمین پر اپنی زبان اور اپنی عددی اقلیت کا تحفظ مل سکے کہ وہ معاملہ ہے جس پر تمام قوم پرست اور وفاق پرستون بلوچوں کا اتفاق ہے.

    یہی معاملہ سندھیوں کا ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ کراچی کو ان سے چھینا جا رہا ہے، وہ اس کی ملکیت سے دست بردار نہیں ہوں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سندھی زبان اور تہذیب کو ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے.

    قوم پرستوں کی تمام باتوں کو یکسر غلط قرار نہیں دیا جاسکتا۔ پاکستان ایک قوم بننے کے عمل میں ہے. اردو زبان اس سرزمین پر عوامی رابطے کی سب سے بڑی زبان ہے مگر اس کے باوجود دوسری زبانوں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس سرزمین کی تمام زبانوں کو قومی زبانیں قرار دینے کی ضرورت ہے، ان کے تمام بڑے شاعروں کو قومی شعرا قرار دینے کی ضرورت ہے، اس سے قومی یک جہتی میں اضافہ ہوگا.

    سندھیوں اور بلوچوں کو عددی اقلیت بننے کا بھی خوف ہے جیسے سندھ میں کوٹہ سسٹم ہے اس طرح وفاق کی سطح پر بھی بلوچی اور سندھی بولنے والوں کو مقررہ مدت تک تمام ملازمتوں میں کوٹہ دیا جا سکتا ہے. اس طرح کے کئی اقدامات ہیں جو بلوچوں اور سندھیوں کو قومی دھارے میں شریک کر سکتے ہیں

    اردو بولنے والوں کے لیے کچھ الگ کرنے کی ضرورت ہے. ایک تو ان کا بیانیہ ہے کہ وہ کسی خاص صوبے میں نہیں، ایک نئے وطن پاکستان میں آئے تھے جو ان کی جدوجہد سے تشکیل پایا تھا۔ ہمارا نصاب اور میڈیا بھی یہی بتلاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کو ان کے میرٹ پر پاکستان اور سندھ میں ملازمتیں دی جائیں، کسی کوٹے کی وجہ سے امتیازی سلوک نہ کیا جائے۔ ان کے علاقے کراچی اور حیدر آباد کا اختیار کسی صوبائی نظم یا کسی بلدیاتی نظم کے تحت ان کے حوالے کیا جائے۔ ان معاملات کو سنجیدگی سے سمجھنے کی ضرورت ہے. بلدیاتی اختیار میں ان کو شریک کرنا ان کا حق ہے.

    ہم پاکستانی اور مسلم قومیت کی بنیاد پر کسی کی لسانی اور جغرافیائی شناخت کو ختم نہیں کر سکتے۔ ہمیں اس مسئلے کا ادراک کرنا ہوگا.

  • پاکستان کا کیا قصور؟ کامران امین

    پاکستان کا کیا قصور؟ کامران امین

    کامران امین برصغیر پر جب انگریز حاکم بنے تو شرح خواندگی90 فیصد تھی۔ دلی کے بازاروں میں خوب رونق ہوا کرتی، اگرچہ عام لوگوں کے پاس زمینیں نہ ہونے کے برابر ہوتیں لیکن پھر بھی لوگ خوشحال تھے. انگریز سیاح اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ بھکاری ڈھونڈنے سے بھی نہ ملتے تھے۔ یہی انگریز جب سو سال حکومت کرنے کے بعد رخصت ہوا تو برصغیر کی صرف 5 فی صد آبادی خواندہ تھی اور جامع مسجد دہلی کی سیڑھیوں پر نمازیوں سے زیادہ بھکاری ہوتے تھے۔

    چونکہ انگریزوں نے حکومت مسلمانوں سے چھینی تھی اور مسلمان بھی خود کو برصغیر کا جائز حکمران سمجھتے تھے اس لیے عتاب زیادہ تر مسلمانوں پر ہی گرا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے برصغیر کی سب سے بڑی آبادی ہندئووں اور مسلمانوں میں نفرت کے بیج بھی بونا شروع کر دیے. نتیجہ یہ نکلا کہ انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے شروع میں مسلمانوں کا سوچ سمجھ رکھنے والا طبقہ یہ محسوس کرنا شروع ہو گیا تھا کہ ہندو اور مسلمانوں کا ایک ملک میں نباہ کرنا اب تقریباً نا ممکن ہو گیا ہے۔ کانگریسی وزارتوں کے دور میں مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے رویے نے اس رائے کو اور تقویت دی اور ہندو مسلم اتحاد کے داعی قائداعظم جیسے مدبر شخص نے بھی مسلمانوں کے لیے الگ وطن کا فیصلہ کر لیا۔

    پاکستان اپنے قیام کے روز سے ہی اس لحاظ سے بدقسمت رہا ہے کہ حصول کے وقت کیے گئے وعدے پورے نہیں ہو سکے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں نے یہ ملک اس لیے حاصل کیا تھا کہ یہاں وہ اپنے عقائد اور نظریات کے مطابق آزادانہ زندگی گزار سکیں بلکہ ہندوئوں کے معاشی جبر سے بھی آزاد ہوں۔ اگر چہ یہ مسلمانوں کے اجتماعی مفاد کا فیصلہ تھا لیکن پھر بھی اس دور کے مومنین صالحین نے کھل کر اس کی مخالفت کی، چنانچہ اس اصول پرست اور دیانتدار شخص پر فتوے لگائے گئے جو ایک غلام قوم کا مقدمہ لڑ رہا تھا۔ کوئی ایسی قوم بھی ہوگی جس کے رہنما خود اسے یہ بتا رہے ہوں کہ آزادی تمارے مفاد میں نہیں، تم غلام ہی ٹھیک ہو۔ جب یہ بات واضح ہوگئی کہ پاکستان بن کر ہی رہےگا تو راتوں رات وہ تمام لوگ جو قیام پاکستان کے لیے سد راہ تھے، توبہ تائب ہو کر مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔ جی ہاں وہ تمام راجے مہاراجے، نواب، جاگیردار، زمیندار اور سرمایہ دار جو گزشتہ سو سالوں سے انگریزوں کے تلوے چاٹ رہے تھے، عین آزادی کے وقت وہ بھی آزادی والی ٹرین میں سوار ہو گئے۔ قائد اعظم نے اگرچہ ایسے لوگوں کو عہدے نہ دینے میں عافیت جانی لیکن ان کی وفات کے فوراً بعد یہ لوگ اپنے اثر و رسوخ کا فائدہ اٹھا کر نوزائیدہ مملکت میں اہم عہدوں پر فائز ہو گئے اور اس کے بعد سے پاکستانی عوام آزادی کے بہلاوے میں ابھی تک غلام ہی ہیں۔ مثال کے طور پر خان عبد الغفار خان کی عوامی نیشنل پارٹی اور جمیعت علمائے ہند پاکستان کے مخالاف تھے لیکن اسی پاکستان کے ایک صوبے میں ان کے وارثوں نے کئی دفعہ جم کر حکومت کی۔ پنجاب میں سکندر حیات کی اولاد مخدوموں، کھروں اور ٹوانوں کی کہانیاں بھی کچھ ایسی ہی ہیں۔

    ایک ملک بنانے کے بعد جب ایک قوم بنانے کی باری آئی تو اس قوم کی باگ دوڑ ان ہاتھوں میں چلی گئی جنہیں اس قوم سے تو کیا ملک سے بھی دلچسپی نہ تھی چنانچہ سب سے پہلے تو انہوں نے بنگالیوں سے جان چھڑائی جو اس وقت تک پاکستان میں سب سے باشعور طبقہ تھا اور تحریک آزادی میں جس کا کردار ناقابل فراموش رہا تھا۔ اس کے بعد بھی چین نہیں ملا تو انہوں نے باقی ماندہ پاکستان کو ایک اکائی کے طور پر مضبوط کرنے کے بجائے لوگوں کو پنجابی، بلوچی، سندھی، پختون، مہاجر، سرائیکی وغیرہ میں بانٹ دیا اور ایسے اسباب مسلسل فراہم کیے جاتے رہے کہ یہ لسانی گروہ ایک دوسرے سے باہم دست و گریبان ہی رہیں ۔

    سب سے بڑی بدقسمتی یہ رہی کہ قائداعظم کے بعد کوئی رہنما نہ ملا جو بھیڑ بکریوں کے اس گلے کی نگہبانی کے ساتھ رہنمائی کرتا۔ اور اس سے بڑا المیہ یہ ہوا کہ ایشیا کا ڈیگال، قائد عوام، مرد مومن اور مشرق کی بیٹی تو آج بھی زندہ ہے لیکن حضرت قائداعظم صاحب انتقال کر گئے۔ آج حال یہ ہے کہ ایک ملک جسے کوئی اس کا حق دینے کے لیے تیار نہیں لیکن سارے اس سے اپنا حق مانگ رہے ہیں۔ سوال مگر یہ ہے کہ اس ملک کا کیا قصور ہے؟ کیا جب ہم الیکشن میں بار بار آزمائے ہوئے لوگوں کو، کرپٹ ترین لوگوں کو ووٹ دیتے ہیں تو یہ پاکستان کا قصور ہے؟ ہمارے اپنے بھائی ہمارے خاندان کے لوگ جو پولیس، فوج اور اسٹیبلیشمنٹ کا حصہ ہیں، کرپشن اور لوٹ مار کے ذریعے محرومی و ناانصافی کو جنم دے رہے ہیں، کیا یہ بھی پاکستان کا قصور ہے؟ ہماری عدالتیں انصاف نہیں کرتیں، ہمارے منصف سرعام بک جاتے ہیں، کیا یہ بھی پاکستان کا قصور ہے؟ ہمارا تعلیمی نظام عوام میں شعور و بیدار کرنے میں ناکام ہے تو کیا اس میں بھی پاکستان کا قصور ہے؟ اس ملک نے تو ہمیں یہ موقع دیا تھا کہ ہم اپنے نصیب خود اپنے ہاتھوں سے لکھیں لیکن وہ نصیب لکھنے والا قلم ہم نے اپنی مرضی سے غلاموں کے ہاتھوں میں تھما دیا تو یہ بھی پاکستان کا قصور ہے؟ نوجوان جو 14 اگست کو سڑکوں پر پاکستان کی جھنڈیاں سجا کر ناچتے نطر آئے، تعلیمی اداروں میں لسانی جھگڑوں میں بھی سب سے آگے ہوتے ہیں، کیا یہ بھی پاکستان کا قصور ہے؟ کبھی انڈیا میں پیچھے رہ جانے والے مسلمانوں کی حالت زار پر غور کیا ہے؟ سفر کرتے ہوئے آنکھیں بند کر لیں اور جس علاقے سے بدبو آنا شروع ہو جائے سمجھ لیں کہ مسلمانوں کا علاقہ شروع ہوگیا ہے۔ کیا پاکستان میں بھی ایسا ہی ہے؟ کیا کسی نے سچر کمیٹی کی رپورٹ پڑھنے کی کوشش کی ہے وقت نکال کر؟

    آج تک پنجابی، سندھی، بلوچی، مہاجر اور پٹھان بن کر تو سوچتے رہے تو آئیے آج ایک لمحے کے لیے پاکستانی بن کر سوچتے ہیں کہ آخر پاکستان کا کیا قصور ہے؟ ہم پاکستان سے کیوں ناراض ہیں؟ آئیے ایک دفعہ پاکستانی بن کر سوچتے اور عمل کرتے ہیں.