Tag: پرویز الہیٰ

  • تین لیڈرز، تین انقلاب، تین کہانیاں! – رؤف کلاسرا

    تین لیڈرز، تین انقلاب، تین کہانیاں! – رؤف کلاسرا

    رؤف کلاسرا دو ہزار دو کے الیکشن کے بعد یکدم آصف زرداری کی اہمیت جنرل مشرف کے نزدیک بہت بڑھ گئی تھی۔ اس وقت جنرل مشرف اکیلے حکومت نہیں بنا سکتے تھے۔ مرحوم امین فہیم بھی‘ جو جنرل مشرف کے ساتھ کبھی کبھار شام گزارتے تھے‘ زرداری کو اچھے لگنا شروع ہو گئے۔ جنرل مشرف کو یاد آیا کہ ایک سیاسی طوطا ان کی قید میں ہے‘ جس کے بدلے بینظیر بھٹو سے سیاسی حمایت حاصل کی جا سکتی ہے۔ بینظیر بھٹو بھی روایتی مشرقی بیوی کی طرح باپ کے سیاسی ورثے پر اپنے بچوں کے باپ کو اہمیت دیتی رہی تھیں‘ اور بعد میں شوہر کی کرپشن کی وہ سے ہی نواز شریف دور میں انہیں پاکستان چھوڑ کر دبئی منتقل ہونا پڑا تھا۔ زرداری بینظیر بھٹو کو یہ یقین دلا چکے تھے اگر نواز شریف کو سیاسی محاذ پر شکست دینا ہے تو پھر انہیں نواز شریف جتنی دولت درکار ہے۔ بینظیر بھٹو آخرکار قائل ہو گئیں‘ اور پھر ایک دن پتہ چلا کہ سوئس بینکوں میں چھ ارب روپیہ اکٹھا ہو چکا ہے۔ اس سے پہلے انیس سو پچانوے میں لاکھوں پائونڈز کا سرے محل بھی لندن میں خریدا جا چکا تھا۔ پھر دونوں نے مڑ کر نہ دیکھا۔ خدا کی قدرت‘ جو محل دبئی میں بینظیر بھٹو نے لاکھوں درہم کے عوض خریدا تھا‘ اس میں وہ چند ماہ بھی نہ رہ سکیں اور گڑھی خدا بخش ابدی نیند جا سوئیں۔

    جنرل مشرف نے اپنے سیکرٹ ایجنٹوں کے ذریعے زرداری کو قائل کر لیا کہ اگر وہ بینظیر بھٹو سے منوا لیں کہ امین فہیم وزیر اعظم بن جائیں‘ اور وہ خود دبئی میں رہیں تو ان کی (زرداری) رہائی ممکن ہے‘ ان پر مقدمات بھی کچھ عرصے بعد ختم ہو جائیں گے۔ بینظیر بھٹو سمجھدار تھیں۔ جانتی تھیں کہ اگر سندھ سے اپنی پارٹی میں سے انہوں نے کسی مخدوم کو وزیر اعظم بنوا دیا‘ تو ہمیشہ کے لیے وہ بھٹو کے سندھ سے وزارت عظمیٰ کا دعویٰ کھو دیں گی اور ان کے بچوں کو بھی مستقبل میں مشکلات پیش آئیں گی۔ امین فہیم کے نام پر رضامندی نہ ملی تو جنرل مشرف نے ایک اور پتہ پھینکا۔ مولانا فضل الرحمن کا نام سامنے آ گیا۔ زرداری اس نام پر بھی تیار تھے‘ لیکن بینظیر بھٹو ڈر گئیں کہ پہلے ہی ان پر الزام تھا کہ وہ طالبان کی گاڈ مدر ہیں‘ لہٰذا وہ طالبان کے گاڈ فادر کو وزیر اعظم بنوا کر مغربی ملکوں میں اپنی تباہی کا بندوبست نہیں کر سکتی تھیں۔ اس انکار پر زرداری بہت برہم تھے؛ تاہم اس دوران جنرل مشرف کے سیکرٹ ایجنٹ جیل میں زرداری سے مسلسل رابطے میں رہے۔ زرداری کو جیل سے اٹھا کر پمز ہسپتال کے وی آئی پی وارڈ میں داخل کرا دیا گیا تھا کہ کسی دن یہ مہرہ بھی جنرل مشرف کے کام آئے گا۔

    اس دوران زرداری اور ایک ایجنسی کے سربراہ اس بات پر متفق ہو گئے کہ انقلاب لایا جا سکتا ہے اور وہ بھی بینظیر بھٹو کے بغیر۔ ایک سیکریٹ ڈیل ہوئی‘ جس میں طے پایا کہ زرداری رہا ہو کر علاج کے بہانے ملک سے باہر جائیں گے اور پھر واپس لوٹ کر لاکھوں کا مجمع اکٹھا کرکے لاہور پر چڑھائی کریں گے‘ جہاں پرویز الٰہی کی حکومت تھی۔ طے پایا کہ اگر دھرنا کامیاب ہو گیا تو پھر نئے الیکشن دو ہزار پانچ میں ہوں گے۔ زرداری نے اپنی آزادی کے نام پر یہ ڈیل لے لی۔ اب اگلا کام بینظیر بھٹو کو قائل کرنا تھا۔ زرداری جیل میں رہ کر‘ اور سیکرٹ ایجنٹوں سے خفیہ ملاقاتیں کرکے سمجھدار ہو گئے تھے۔ پٹارو کے طالب علم نے آکسفورڈ کی گریجویٹ کو یہ گولی دے دی کہ اس بار جنرل مشرف سنجیدہ ہیں اور وہ چوہدری برادارن سے اکتا چکے ہیں‘ وہ جعلی جمہوریت کی بجائے اب اصلی اور نسلی جمہوریت لانا چاہتے ہیں اور ایسی جمہوریت صرف زرداری ہی لا سکتے تھے۔

    بینظیر بھٹو نے ڈیل کی دیگر تفصیلات پوچھیں تو جواب ملا‘ شرط یہ ہے کہ اس بار پیپلز پارٹی کی قیادت وہ سنبھال لیں گے اور اکیلے لاہور فتح کرنے جائیں گے‘ بینظیر بھٹو دبئی میں بیٹھ کر بچے سنبھالیں گی‘ زرداری دو تین روز میں لاہور فتح کرکے انہیں پاکستان بلا لیں گے اور اس کے بعد وہ نئے انتخابات کی تیاری کریں گے۔ بینظیر حیران تھیں کہ بھلا جنرل مشرف کیوں دو ہزار چار میں اپنے یس باس ٹائپ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کو ہٹا کر پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کو لائیں گے۔ زرداری نے بینظیر بھٹو سے کہا کہ آپ کو پاکستان چھوڑے پانچ برس سے زائد عرصہ گزر چکا ہے۔ آپ کو پاکستان کی نئی حقیقتوں کا علم نہیں۔ پاکستان میں سیاست، سیاستدان، جنرل اور سیکرٹ ایجنسیوں کے سربراہ بدل چکے ہیں۔ اب وہ ان سب کو ڈیل کر سکتے ہیں۔ وہ سب سمجھتے ہیں کہ کس کو کس اوقات میں رکھنا ہے۔ وہ ایک بار ان (زرداری) پر بھروسہ کرکے دیکھیں کہ وہ کیا کرتب دکھاتے ہیں۔

    بینظیر بھٹو کو اس یقین دہانی کے باوجود شکوک تھے‘ لیکن وہ تیار ہو گئیں کہ شاید زرداری کوئی تبدیلی لانے میں کامیاب ہو جائیں۔ جیل میں ڈیل ہو گئی تھی۔ وہی ہوا‘ جو بڑے لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ طبیعت بگڑنے کا بہانہ بنا کر زرداری کو جنرل مشرف کے سیکرٹ ایجنٹوں نے ضمانت کرا کے دبئی بھجوا دیا۔ دبئی سے ایک اعلان کیا گیا کہ پارٹی قیادت وقتی طور پر زرداری نے سنبھال لی ہے۔ سب لیڈر اور ورکر وہی کریں جو انہیں زرداری کہیں۔ اس دوران بینظیر بھٹو نے زرداری کے ساتھ بیٹھ کر ایک ٹی وی انٹرویو دیا۔ ان سے پوچھا گیا: جنرل مشرف اور ان کے ساتھی زرداری کے ساتھ ڈیل کرنے کو تیار ہیں‘ آپ کے ساتھ نہیں؟ بینظیر بھٹو نے بڑے طنزیہ انداز میں جواب دیا: دراصل زرداری بھی فوجی سکول پٹارو سے پڑھے ہوئے ہیں‘ لہٰذا فوجی زرداری کو قابل بھروسہ سمجھتے ہیں جبکہ وہ سویلین اداروں سے پڑھی ہیں لہٰذا ان پر بھروسہ نہیں کیا گیا۔

    زرداری نے پورا بندوبست کیا ہوا تھا کہ بینظیر بھٹو اس ساری سیاسی جنگ میں منظر پر نظر نہ آئیں اور سارا شو ان کا ہو۔ زرداری نے دبئی سے ہی زور و شور سے مہم شروع کر دی۔ پاکستان سے صحافیوں کے ایک جتھے کو تیار کیا گیا۔ ناموں کی ایک طویل فہرست بنائی گئی‘ جو دبئی سے زرداری کے لاہور پر حملہ آور ہونے کی روداد کے عینی شاہد ہوں۔ میرا نام بھی ان صحافیوں میں شامل تھا۔ دبئی میں ہر طرف زرداری صاحب کے چرچے تھے۔ لگتا تھا کہ وہ لاہور میں اپنے جھنڈے گاڑ دیں گے۔ روانگی کا وقت طے ہو رہا تھا کہ اس وقت لاہور اترا جائے۔ اس وقت تک سندھ اور پنجاب کے ورکرز پورے لاہور کو گھیر ے میں لے چکے ہوں۔ لاہور کی ساری مشینری معطل ہوچکی ہو۔ لاکھوں کے مجمعے نے ایئرپورٹ پر ڈیرے ڈالے ہوئے ہوں۔ وزیراعلیٰ پرویز الٰہی شاہ ایران کی طرح اقتدار چھوڑ کر کہیں پناہ کی تلاش میں ہوں گے اور چند گھنٹوں بعد جنرل مشرف خود ہی حکومتیں توڑ کر نئے انتخابات کا اعلان کر کے تین ماہ بعد اقتدار زرداری کے حوالے کر کے خود حج کرنے چلے جائیں گے اور باقی کی عمر اللہ اللہ کر کے گزاریں گے کہ اب اللہ کا نیک بندہ زرداری اس ملک کا نیا سربراہ ہوگا۔

    پیپلز پارٹی کی پوری لیڈرشپ مسلسل یہ تاثر اپنے ورکرز، لیڈروں اور میڈیا کو دے رہی تھی کہ ان کی جنرل مشرف سے ڈیل ہوگئی تھی اور ان کا لاہور اتر کر لاہور پر قبضہ کرنا اسی ڈیل کا ہی حصہ تھا ۔ ہم صحافیوں کو صبح سویرے ہی نیند سے جگا کر دوبئی ایئرپورٹ لایا گیا۔ امین فہیم اور زرداری ایئرپورٹ پر موجود تھے۔ کچھ جیالوں نے زرداری کے نعرے لگانے کی کوشش کی تو صرف ایک سپاہی ان کی طرف آیا اور سب کی سٹی گم ہوگئی۔ نعرے بند جب کہ زرداری جو وہیں کھڑے تھے وہ بھی وہاں سے دور ہوگئے کہ جناب میرا ان سے کیا تعلق جو نعرے ماررہے ہیں ۔ جہاز میں داخل ہوئے تو پتہ چلا چارٹرڈ طیارہ تھا۔جہاں جی چاہے بیٹھ جائیں۔ زرداری صاحب چہرے پر مسکراہٹ کا لبادہ اوڑھے طیارے پر سوار ہوئے تو لگا ایک اور امام خمینی پاکستان میں انقلاب کے لیے جارہے تھے۔ جہاز لاہور کی فضائوں میں چکر لگا رہا تھا۔پیپلز پارٹی کے جیالے اپنے نئے چی گویرا کے استقبال کے لیے لاہور پہنچنے کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے۔ زرداری پرامید تھے اس بار تو لاہور کی خیر نہیں ہے۔ہم سب بھی یہی سمجھ بیٹھے تھے سورج اب کی دفعہ مغرب سے نکلنے والا تھا ۔ جنرل مشرف اپنے وزیراعظم جمالی اور وزیراعلیٰ پرویز الٰہی کو برطرف کر کے زرداری کو نیا وزیراعظم بنانے ہی والے تھے۔بس لاہور فتح کرنے کی دیر تھی جو ابھی زرداری کے قدموں میں گرنے ہی والا تھا۔ابھی جہاز کی لینڈنگ میں کچھ دیر تھی کہ ایک ٹی وی اینکر جو زرداری کے باڈی گارڈ کم مشیر کا رول ادا کررہے تھے ہانپتے کاپنتے آئے اور میرے کان میں پراسرار انداز میں بولے۔کہانی ختم ہوگئی ہے!مجھے ان کی اس پراسرار سرگوشی سے اندازہ نہ ہوسکا کس کی کہانی ختم ہوئی تھی؟ زرداری کی کہانی ختم ہوگئی تھی؟ پرویز الٰہی کی ؟ کیا وہ زرداری کے لاہور ایئرپورٹ اترنے سے پہلے ہی کہیں فرار ہوگئے تھے؟

    میں اسی خیال میں ڈوبا ہوا تھا کہ جہاز نے لاہور ایئرپورٹ کو ٹچ کیا۔ اب جو کچھ جہاز میں ہوتے دیکھ رہا تھا ، اس کے بعد واقعی کہانی ختم ہوگئی تھی ۔ ایک ایس پی مبین جہاز میں کورنش بجا لایا ۔ اس ایس پی نے جھک کر زرداری کے گھٹنوں کو ہاتھ لگایا اور بولا سائیں آپ میرے ساتھ چلیں ۔ باہر مرسیڈیز آپ کا انتظار کر رہی ہے۔

    واقعی انقلاب آگیا تھا؟ پیپلز پارٹی کے جیالوں نے لاہور کا تختہ الٹ دیا تھا ؟ دو سوا دو سو سال پہلے گوجرانوالہ میں پیدا ہونے و الے رنجیت سنگھ کے بعد اب لاہور کا نیا بادشاہ نواب شاہ سندھ کا زرداری تھا اور پولیس سرکاری پروٹوکول کے ساتھ انہیں گورنر ہاؤس لے جا کر تخت ِلاہور پر بٹھانے آئی ہوئی تھی؟ (جاری)

  • کچھ کر کے دکھائیں ورنہ!-عمار چوہدری

    کچھ کر کے دکھائیں ورنہ!-عمار چوہدری

    emar

    تازہ ترین خبر یہ ہے کہ وزیراعلیٰ پرویز خٹک کے آبائی علاقے میں بجلی چوری عروج پر ہے۔گزشتہ دنوں ان کے قریبی عزیز سمیت بائیس عزیز بجلی چوری کیس میں رنگے ہاتھوں پکڑے گئے۔پیسکو حکام نے الزام عائد کیا ہے کہ وزیراعلیٰ بھی بجلی چوروں کی مدد کر رہے ہیں۔
    ایسی تمام تر خبروں پر ہمیں یقین نہیں کرنا چاہیے کیونکہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان تو کرپشن سے پاک ہیں۔ ہمیں تو صرف عمران خان کو دیکھنا ہے۔ ان کی ٹیم کمزور ہے‘ اس میں خامیاں ہیں یاوہ اپنے صوبے میں ڈیلیور نہیں کر پا رہے‘ ان تمام باتوں سے کسی کو کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی ان کی نشاندہی کرنی چاہیے۔ ایسا کرنا سراسر جرم ہے۔ جو بھی یہ جرم کرے گا وہ اس ملک کا خیرخواہ نہیں ہو سکتا۔

    خیبرپختونخوا حکومت کا سرکاری ہیلی کاپٹر وزیرتعلیم نے استعمال کیا‘ تو ان پر غلط تنقید کی گئی۔یہ نہیں کہنا چاہیے تھا کہ لکی مروت سکول کے افتتاح کے لئے وہاں بائی روڈ بھی جایا جا سکتا تھا ۔یہ مان لینا چاہیے کہ ہیلی کاپٹر سرکاری استعمال کے لئے ہی مخصوص ہے اور اسی لئے عاطف خان انجینئرز کی ٹیم کو لے کر وہاں پہنچے۔ یہ سوال کرنا سراسر زیادتی ہے کہ کیا وہاں کوئی ایمرجنسی تھی؟ کیا کسی زخمی کی مدد درکار تھی؟ کسی کو ایئرایمبولینس درکار تھی؟ اگر ایمرجنسی نہیں تھی تو پھر لاکھوں روپے کا فیول کیوں خرچ کیا گیا؟ اس طرح کے سوالات کرنے والا محب وطن نہیں کہلا سکتا ۔

    ہمیں خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی کارکردگی پر بھی انگلی نہیں اٹھانی چاہیے کیونکہ وہ صوبہ دہشت گردی سے تباہ حال اور سب سے زیادہ متاثر ہے۔ اس لئے اس کا دیگر صوبوں سے موازنہ نہیں کرنا
    چاہیے۔ تحریک انصاف کو ویسے بھی پہلی مرتبہ حکومت ملی ہے۔ یہ پانچ سال تو صرف حکمرانی کا ذائقہ چکھنے کے لئے بھی ناکافی ہیں۔ مسلم لیگ نون تو عرصہ تیس برس سے پنجاب کو نہیں سنوار سکی تو تحریک انصاف ایک ہی دور میں کیسے صوبے کی کایا پلٹ سکتی ہے۔ یہ بات بالکل درست ہے۔ تحریک انصاف کو بھی کم از کم اگلے بیس تیس برس دے دینے چاہئیں۔ جہاں تک پنجاب کی بات ہے‘ تو اس کی حالت پہلے سے بگڑ چکی۔ بڑے شہروں کی چند سڑکوں اور چند ترقیاتی منصوبوں کے سوا کسی چیز پر توجہ نہیں دی گئی۔جس صوبے میں صحت کے لئے فل ٹائم وزیر مختص نہ ہو‘ جہاں سرکاری ہسپتالوں میں جاتے ہوئے باقاعدہ خوف آتا ہو ااو رجہاں کے نجی ہسپتال ڈاکوئوں کی طرح عوام کو لُوٹ رہے ہوں‘ اسے کون عقل کا اندھا ترقی یافتہ کہہ سکتا ہے۔

    موجودہ حکمران صرف اور صرف اپنے مفاد کے لئے صوبے پر قابض ہیں۔یقین کریں‘ اگر شہباز شریف چند کام کر لیتے تو میٹرو یا اورنج ٹرین پر کبھی تنقید نہ ہوتی۔ لوگوں کی شہباز شریف‘ زرداری یا عمران خان سے ذاتی دشمنی نہیں۔ وہ صرف اس بات پر کڑھتے ہیں کہ یہ لوگ اتنے عرصے سے اقتدار میں ہیں لیکن یہ بھی نہیں سمجھ سکے کہ عوام کے مسائل ہیں کیا؟ تعلیم‘ صحت اور روزگار کے حوالے سے جو چند کام کئے جاتے ہیں‘ وہ رسمی ہوتے ہیں اور ان کا مقصد اپنی تعریف زیادہ اور عوام کی خدمت کم ہوتا ہے۔تعلیم کے حوالے سے شہباز شریف
    صاحب نے کیا کیا؟ چند دانش سکول بنائے۔ وہ سکول اب کہاں ہیں؟ کس حالت میں ہیں؟ کوئی جا کر دیکھے اور بتائے۔بچوں کی سکولوں میں انرولمنٹ اور مفت کتابوں کا سلسلہ چودھری پرویز الٰہی کے دور میں شروع ہوا تھا۔ اسی کو نئے رنگ کے ساتھ پیش کر کے نمبر بنانے کی کوشش کی جاتی رہی۔ سرکاری سکولوں کی صورتحال بہتر ہوتی تو میٹرک کے نتائج خود اس کے گواہ بن جاتے۔

    صحت کے حوالے سے کارکردگی صفر ہے۔لاہور میں پنجاب کارڈیالوجی دل کا اکلوتا سرکاری ہسپتال ہے۔ گزشتہ دنوں اس کے لئے دو انیجوگرافی اور ایک سی ٹی سکین مشین کے لئے وزیراعلیٰ نے چوہتر کروڑ روپے جاری کئے۔ یہ مشینیں کئی ماہ سے درکار تھیں لیکن چونکہ اس کی اجازت بھی وزیراعلیٰ نے دینا تھی چنانچہ جب انہیں فرصت ملی یا ان کے دل میں رحم آیا‘ انہوں نے فنڈز ریلیز کرنے کا حکم جاری کر دیا۔ اورنج ٹرین البتہ وہ پورے جوش و جذبے سے بنا رہے ہیں۔ ہائی کورٹ نے حال
    ہی میں اس پر کام روکنے کا حکم دیا ہے لیکن حکومت پنجاب سپریم کورٹ جانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اتنی پھرتیاں اگر دل کے ایک مزید ہسپتال کی تعمیر کے لئے بھی دکھائی جاتیں تو کیا حرج تھا؟

    گردوں کے ڈائلسز کے ہزاروں مریض ادھر اُدھر رُل رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ تھوڑا سا ترس ان پر بھی کھالیتے اور ضلعی سطح پر ایک ایک ڈائلسز سنٹرقائم کروا دیتے تو ان کا کیا جاتا؟ یہ کتنا تکلیف دہ اور مہنگا عمل ہے‘ کیا وزیراعلیٰ پنجاب کو معلوم نہ ہو گا؟بچوں کا ایک چلڈرن ہسپتال لاہور میں کب تک بوجھ برداشت کرتا رہے گا‘ کیا وہ نہیں جانتے؟ یہ تو وزیراعلیٰ کی ماڈل ٹائون والی رہائش گاہ کے بالکل سامنے ہے۔ کبھی وہ بھیس بدل کر کوئی بچہ لے کر وہاں علاج کے لئے جائیں تو انہیں معلوم ہو‘ بندے کے ساتھ وہاں ہوتا کیا ہے۔روزگار کے لئے پنجاب نے بھی کچھ نہیں کیا۔ نوجوانوں کو ٹیکسی ڈرائیور بنانے کی وہی پرانی کوشش کی گئی اور وہ بھی بھاری قرض اور سود پر۔اب بچوں کے اغوا کا سلسلہ شروع ہے تو اسے بھی سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

    یہ درست ہے کہ کچھ بچے والدین کے رویے سے گھر چھوڑتے ہوں گے لیکن اغوا ہونے والے ننانوے فیصد بچوں کو والدین سے ناراضگی کا ذمہ دارٹھہرانا قابل قبول نہیں۔ اس ملک میں غریب کا بچہ اغوا ہو جائے یا بیماری سے مر جائے ‘ کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن وزیراعظم گیلانی یا سلمان تاثیر کا بیٹا اغوا ہو تو تمام قومی ادارے اور ایجنسیاں حرکت میں آ جاتی ہیں۔ یہ کیسا مذاق ہے۔ کیا عام آدمی اس ملک کا شہری نہیں؟ کیا وہ ٹیکس نہیں دیتا؟ کیا انہی عوام کے دکھ درد نعروں کی صورت میں بیچ کر یہ لوگ بار بار الیکشن نہیں جیتتے؟ تو پھر وزیراعلیٰ پنجاب نے اغوا شدہ بچوں کے لئے کیا کیا؟ وہ کتنوں کے والدین کے پاس گئے؟ جو اغوا کار پکڑے گئے انہیں کیا سزا دلوا ئی گئی؟ کیا یہ درست نہیں کہ یہ مجرم قانون کی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر چھوٹ جائیں گے اور دوبارہ یہی جرائم دہرانے لگیں گے۔ان سوالوں کا جواب کون دے گا؟ آپ وزیرقانون رانا ثنا اللہ کے ذریعے پریس کانفرنس کرا کر اگر یہ سمجھتے ہیں کہ مغوی بچوں کے والدین کو سکون آ جائے گا تو یہ سراسر غلط فہمی ہے۔ جس ماں کا لخت جگر اس سے چھن جائے اس کی آہ تو آسمان تک کا سینہ شق کر سکتی ہے۔حکمران اس کے سامنے کیا چیز ہیں۔

    بجلی چوری وزیراعلیٰ پرویز خٹک کے حلقے میں ہو اور وہ اپنے عزیزوں کو بچانے کی کوشش کریں تو ان کا بھی محاسبہ ہو گا‘ہیلی کاپٹر سرکاری ہو تو حکمرانوں کے پاس عوام کی امانت ہوتا ہے‘ اس کا درست استعمال حکمرانوں پر فرض ہے اور اگر وزیراعلیٰ شہباز شریف کے شہر میں بچے اغواہو رہے ہوں‘ ہسپتال بھوت بنگلے بنے ہوں تو لوگ ان سے بھی سوال کریں گے۔ معافی کسی کو نہیں ہو سکتی۔ وزیراعلیٰ شہبازشریف توتیسری مرتبہ اس عہدے پر ہیں۔ اگر ان کے دور میں اب بھی لوگوں کو ہسپتالوں میں موت اور ذلت کے سوا کچھ نہیں مل رہا تو پھر عوام اورنج ٹرین کو کیوں قبول کریں گے؟ ہر کسی کو اپنا حساب دینا ہے۔ خیبرپختونخوا اگر تباہ حال تھا تو جناب!اقتدار سنبھالنے سے پہلے یہ سب سوچنا چاہیے تھا اور پنجاب! پنجاب کے حکمرانوں کا تو کوئی عذر قابل قبول ہو ہی نہیںسکتا۔حضور والا!کچھ کر کے دکھائیں‘ وگرنہ چھوڑیں اس کی جان اور کسی قابل کو موقع دیں۔

  • سیاسی پارٹیاں اور شخصیات…منیر احمد خلیلی

    سیاسی پارٹیاں اور شخصیات…منیر احمد خلیلی

    Graphic1

    جب سیاسی پارٹیاں مضبوط اور ڈسپلن کی پابند ہوں تو شخصیات کے آنے جانے سے نظام میں خلل نہیں پڑتا۔ ٹونی بلیئر حکومت کرتے کرتے مستعفی ہو گیا تو لیبر پارٹی کی حکومت ختم نہیں ہوئی تھی گولڈن براون نے بطور وزیر اعظم چارج سنبھال لیا تھا اور کنزرویٹو پارٹی کا وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون ایک ریفرنڈم ہار گیا تو پارٹی کی حکومت ختم نہیں ہوئی بلکہ اسی پارٹی کی خاتون رہنما تھریسا مے نے وزیر اعظم کا منصب سنبھال لیا۔

    یہاں اپنے ہاں وزیر اعظم نواز شریف کی صحت ان کا ساتھ نہیں دے رہی ہے لیکن وہ بستر پر لیٹے لیٹے وزارت عظمیٰ چلانا چاہتے ہیں۔ انہیں نہ پارٹی میں کسی دوسرے آدمی پر اعتماد ہے اور نہ ہی ہمارے ملک کے جدی پشتی سیاست دان کسی کو متبادل کے طور پر ابھرنے دیتے ہیں۔ پارٹیوں کے اندر بادشاہتیں ہیں۔ پارٹی سربراہ جو فیصلے چاہتا ہے، کر دیتا ہے۔

    عمران خان نے پارٹی کے اندر الیکشن کا دھوم دھام سے اعلان کیا تھا لیکن جب الیکشن سے پہلے ہی خود ان کے دائیں بائیں والے بڑے لیڈر آپس میں لڑنے لگے۔ پہلے الیکشن ملتوی کرنے کا اعلان کیا اور اب اپنی مرضی سے اپنے چہیتوں کو پرانے عہدے بانٹ دیے۔ مسلم لیگ ن کے سیکرٹری جنرل جیسا اہم عہدہ جھگڑا صاحب کے گورنر بننے سے خالی ہوا کسی کو نہ یاد اور نہ ضرورت ہے کہ اس منصب پر الیکشن تو درکنار سلیکشن ہی کر دے۔

    وزیر اعظم اپنی بیماری میں نہ خود اپنے منصب کو چھوڑنے پر تیار ہیں اور نہ کسی اور کو آگے لانے کے روادار ہیں۔ جمہوریت جمہوریت کی جتنی گردان ہمارے سیاست دانوں کی زبان پر ہوتی ہے کہیں اور ایسی تکرار کم ہی ہوتی ہو گی لیکن جمہوریت یہ نہ اپنی پارٹیوں میں لاگو کرتے ہیں اور نہ اصلی اور کھری جمہوریت ملک میں ان کو گوارا ہے۔

    عمران خان نے ترکی کے تناظر میں بالواسطہ فوج کو دعوت دے دی ہے کہ وہ ائے تو ہم گویا مٹھائیآں تقسیم کریں گے۔ طاہر القادری اور شیخ رشید اور پرویز الہیٰ اور کسی حد تک اعتزاز احسن کا حال تو یہ ہے کہ شیطان ائے نواز شریف کی حکومت ختم کرنے تو یہ لمحہ بھر میں اس کی بیعت کر لیں۔ خان صاحب اسے اپنی پارٹی کا اعلی عہدہ دے دیں۔ چئیرمین کی پوسٹ تو اس لیے نہیں چھوڑ سکتے کہ یہاں بے اختیار ہو کر انسانی خدمت کوئی ایدھی کر سکتا ہے سیاست دان تو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سلسلہ روز و شب اور یہ طلوع و غروب آفتاب انہی کے دم سے ہے۔ وہ سیاست چھوڑ دیں تو زمین اپنی گردش بھول جائے گی اور ہواؤں کا دم نکل جائے گا دریاؤں کی روانی تھم جائے گی اور خاکم بدہن پاکستان کا وجود ختم ہو جائے گا۔ یہ اپنے ٹائیگر ون اپنے جیالوں اپنے متوالون اور اپنے مریدوں پر اپنا تسلط کھونے کے لیے ہر گز تیار نہیں ہیں۔ عمران خان پارٹی چئیرمین کا عہدہ چھوڑ دیں تو بنی گالہ کے گھر میں پانچ پالتو کتوں کے سوا ان کو کون اپنا مانے گا۔ یہی حال سب کا ہے۔

    ہمارے چوہدری شجاعت نہ درست انداز میں بات کر سکتے ہیں اور کالی عینک اتار دیں تو ان کے لیے سارا جہاں تاریک ہے لیکن پارٹی کی سربراہی سے دست بردار نہیں ہوتے۔ سیخ رشید کی سیاست اب یا تو عمران خان کے پہلو میں بیٹھنے سے زندہ ہے یا ٹی وی اینکر ہر شام انہیں ہفوات سنانے بلا لیتے ہیں تو منظر پر ہیں لیکن ایک نفری پارٹی کے سربراہ کا مان و گمان جو سوار ہے اس سے ہاتھ دھونا نہیں چاہتے۔