Tag: پاک فوج

  • آ بیل مجھے مار – ڈاکٹر غیث المعرفۃ

    آ بیل مجھے مار – ڈاکٹر غیث المعرفۃ

    یوں تو مسلمان ممالک میں کم فہم اور کم عقل قیادتیں کثرت میں پائی جاتی ہیں، حالات کی نبض سے بیگانہ، منصوبہ سازی سے عاری اور دوررس فیصلہ کرنے سے نا آشنا۔لیکن خوش قسمتی سے ہمیں اس قبیل کی ترقی یاب نسل سے فیض یاب ہونے کا موقع ملا ہے، کچھ لوگ ہوتے ہیں جو تاریخ کی کتابوں سے سبق حاصل کرتے ہیں، کچھ لوگ ہوتے ہیں جو ہمعصر امتحانات سے عبرت پکڑتے ہیں اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے ہی تجربات سے سیکھتے اور سمجھتے ہیں، لیکن یہاں تو معاملہ اس سے بھی چار قدم آگے کا ہے ہمارا واسطہ ان لوگوں سے پڑا ہے جن کو سمجھانے اور کچھ سکھانے کو ان کی اپنی آزمائشیں بھی ناکافی ثابت ہوئی ہیں، معلوم نہیں اس انتہاء کو کیا نام دیتے ہیں ہمیشہ کی طرح بلکہ اب تو حسب عادت اور حسب معمول کہا جانا چاہیے کہ آ بیل مجھے مار

    فوج کے سیاسی کردار بارے کوئی بحث نہیں کیونکہ طاقت کی میزان میں اس کا پلڑا ہمیشہ بھاری رہا ہے اس کے پیچھے بہت سی حقیقی وجوہات موجود رہی ہیں ایک طاقت ور کثیر فوج ہماری ضرورت ہی نہیں مجبوری بھی رہی ہے اور اس کی تشکیل میں قومی تائید اور حوصلے کی اپنی اہمیت ہوا کرتی ہے جسے حاصل کرنے لیے فوج نے روایتی حدوں سے بڑھ کر کام کیا ہے نتیجتاً عوام کا فوج سے تعلق ایک جانثار ادارے کے احترام سے بڑھ کر رومانس کی شکل اختیار کر جاتا ہے جس کا اظہار اس طرح سے بھی ہوتا ہے کہ ان کی آمد کے لیے بے تاب رہنے والوں کی، ہمیشہ ایک معقول تعداد ہمارے سماج کا حصہ رہی ہے موجود فوجی قیادت نے کئی مواقع کی موجودگی کے باوجود سویلین اداروں کو کام کرنے کی آزادی دی ہے اور ایسی آوازوں پر کان نہیں دھرا جو انہیں اپنی طاقت کے استعمال پر اکساتے رہے ہیں اس کا قطعاً مطلب یہ نہیں تھا کہ طاقت کے ترازو میں وہ کمزور ہو چکی ہے، دہشتگردی کے خلاف جامع آپریشن اور کامیابیوں نے اسے نہ صرف علاقائی بلکہ خطے میں مزید طاقتور اور مقبول بنا دیا ہے سویلین اداروں کو کام کرنے کا موقع دینا شاید اس وجہ سے ہے کہ فوج کے اندر پیشہ وارانہ ادراک مضبوط ہو رہا ہے، اس نے سیکیورٹی معاملات کو سنجیدگی اور یکسوئی سے سنبھالنے کی کوشش کی ہے، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اب وہ زمانہ نہیں رہا جب بجلی آف کر کے مارشل لاء آن کرنا آسان کام تھا، ذرائع ابلاغ کی ترقی اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس نے غیر متوقع نتائج اور ردعمل کے لیے آسانی پیدا کر دی ہے جسے پھیلنے سے روکنا قدرے مشکل ہو سکتا ہے۔ کم فہم نسل نے اسے فوجی کمزوری سمجھا اور سویلین بالادستی کا اعلان کر دیا سرل المیدا کی اسٹوری سے یہی پیغامِ عام دینے کی کوشش کی گئی اگرچہ یہ معاملہ فوجی زیردستی سے کچھ زیادہ تھا جس پر اگلی سطروں میں بات کرتے ہیں لیکن طاقتور ادارے سے چھیڑ کھانی کی گئی کہ آ بیل مجھے مار

    تجزیہ نگاروں، دانشوروں اور محققین کے لیے مصر، ترکی اور پاکستان کے سول ملٹری تعلقات ایک خاص کشش رکھتے ہیں کیونکہ عدمِ توازن کی وجہ سے تناؤ کے رنگ بدلتے رہتے ہیں۔ مصر میں فوج طاقت کے نشے میں دھت ہو کر جمہوری نظام کو سمیٹ چکی ہے، پاکستان میں فوجی بالادستی عیاں ہے البتہ ترکی نے 15 جولائی 2016ء کو ایک نئے ترکی کی بنیاد رکھ دی جس میں فوجی طاقت کو اس کی آیئنی حدوں میں دھکیل دیا گیا ہے، آخر یہ کیسے ممکن ہو گیا؟ یہ محض ایک رات کا قصہ نہیں جسے ایک اخباری اسٹوری میں نقل کرنے کی کوشش کی گئی، سولین بالادستی ثابت کرنے کے لیے ایک اردگان کی ضرورت ہوا کرتی ہے، ایسا اردگان جو حالات کی نبض محسوس کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو، دور رس منصوبہ بندی اور فیصلے کی ہمت اور استقامت رکھتا ہو- سچ تو یہ ہے کہ ایک بت کی ہیبت ختم کرنے کے لیے دوسرا بت کھڑا پڑتا ہے جو پہلے سے زیادہ پُرشکوہ اور عظیم ہو- پھراصل طاقتوری یہ ہےکہ کسی کو احساسِ کمزوری دلائے بغیر پیدا کر لی جائے ظاہر ہے یہ بونے دماغوں سے ممکن نہیں اس کے لیے پرفارمنس کے فقط دعوے ہی نہیں عملی کاریگری دکھانا پڑتی ہے اور اسے اس سطح تک پیش کرنا پڑتا ہے کہ عوام و خواص کو احساس ہو جائے کہ اردگان موجودہ نظام میں سب سے زیادہ حتیٰ کہ سیکولر فوج سے بھی زیادہ اس قوم سے محبت کرتا ہے اور اس ملک کے لیے اہم ہے ترکی میں فوجی طاقت کو زیر کئے بغیر سویلین بالادستی قائم ہو چکی ہے، یہ عمل 3 نومبر 2002ء سے شروع ہوا اور 14 جولائی 2016ء کی شب ایک ٹیسٹ کیس کے بعد اس کا تعین کر لیا گیا لیکن یہاں فقط ایک لمحاتی جرات میں نہ صرف اسے نافذ کرنے کی کوشش کی گئی بلکہ اس کا نقارہ بھی بڑے اہتمام سے بجانے کی سعی ہوئی شیر کی کھال میں چھپے کم عقل گیڈروں نے اپنی پرانی روش نہ بدلی آ بیل مجھے مار- اور پھر ہوا وہی جو تہی دامنوں کے ساتھ ہوا کرتا ہے، وزیراعظم ہاؤس کو ایک نہیں دو بار تردید جاری کرنا پڑی، اندرون خانہ معافیوں اور تلافیوں کی باتیں اب یہاں تک آ پہنچی ہیں کہ وفاقی وزیر اطلاعات سے استعفیٰ دلوانا پڑا، لیکن ابھی یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ یہ قربانی کافی رہے گی یا کوئی اور کفارہ (کفارے) ادا کرنا پڑے گا

    ہمارے جمہوریت پسندی کے جذبات، مسلسل جمہوری نظام کی خواہشیں اور فوجی اداروں کو آئینی حدوں میں رکھنے کی جدوجہد، قابل احترام سہی مگر موجود حالات میں کسی یوٹوپیا سے کم نہیں۔ اسے حاصل کرنے لیے جہاں اس فطری طریقہ کار کے اسباب موجود نہیں جو ترکی میں برتے گئے وہیں پاکستان میں جمہوریت کے وکیل وہ ہیں جو اپنے لفظوں سے موروثیت کی پرورش کرتے ہیں، یہاں جمہوریت کےمحافظ وہ ہیں جنہوں نے اپنی پارٹیوں میں جمہوریت کی قتل گاہیں بنا رکھی ہیں اور اگر چند جماعتیں جمہوری قدروں کو سہارنے کی کوشش کرتی بھی ہیں تو بہت جلد اپنی ساری محنت کو فوجی قدموں میں ڈھیر کر دیتی ہیں۔یہاں جمہوریت کی بقاء اور سویلین بالادستی سے قبل اس کے تمام تر ضروری لوازمات پورے کرنے کے بجائے آ بیل مجھے مار کا کھیل کھیلا جا رہا ہے اس معاملے کے اثرات فقط یہیں تک نہیں کہ دو اداروں میں تناؤ خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے بلکہ اس کا ایک اور بھیانک پہلو بھی ہے

    تحریک آزادی کشمیر اپنی تاریخ کے ایک منفرد موڑ پر پہنچ چکی تھی، اس مسئلہ کو عالمی سطح پر سنجیدگی سے دیکھا جا رہا تھا، خود بھارت میں کشمیر پر غیر روایتی آوازیں اٹھنا شروع ہوئی تھیں اس کی پہلی وجہ تو یہی تھی کہ بھارتی ظلم و تشدد کو دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی، سماجی رابطوں سے وہ پوری دنیا میں پہنچ رہا تھا، دوسری وجہ یہ تھی کہ آزادی کشمیر کی تحریک کو پہلی بار انڈیپنڈنٹ ہوم موومنٹ کے طور پر محسوس کیا گیا، بھارت کے پاس کوئی سنجیدہ شوائد موجود نہیں تھے کہ اس تحریک کی عملی پشت پناہی میں پاکستان کی موجودگی ثابت کر سکتا، اسی لیے فوری طور پر بھارت کو اڑی حملے جیسی کاروائی سجانا پڑی اس کے باوجود پاکستان اس قابل تھا کہ اپنی پوزیشن واضع کر سکتا اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ بھارتی وزیراعظم مودی اقوام متحدہ میں اقوام عالم کا سامنا کرنے سے کتراتے ہیں سرل المیدا کے اسٹوری چھپنے کے بعد کشمیر ٹیمپو صفر پر چلا گیا بلکہ عالمی سطح پر پاکستانی تشخص کو خطرناک حد تک دھچکا پہنچا، اس سے قبل پاکستان تمام تر بھارتی اور عالمی الزامات کو ٹیکل کرنے کی پوزیشن میں تھا، اس اسٹوری سے ان تمام الزامات پر مہرِ تصدیق ثبت ہو چکی ہے اور مسئلہ کشمیر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے

    نان اسٹیٹ ایکٹرز کا دشمنوں کےخلاف استعمال کرنا، ایک کا دہشتگرد، دوسرے کےلیے فریڈم فائٹر ہونا کوئی نئی چیز نہیں، امریکہ خود افغان مجاہدین کو روس کے خلاف استعمال کرتا رہا، اور آج کل کرد دہشتگرد تنظیموں کو داعش اور ترکی کے خلاف مدد فراہم کر رہا ہے، خود بھارت بلوچستان میں بلوچ باغیوں کو فریڈم فائٹر قرار دے کر ہر قسم کی مدد فراہم کرتا ہے ایسے میں پاکستان کا ایک متنازعہ علاقہ میں وہاں کی جنگ آزادی کو ہر طرح سے مدد فراہم کرنا اچنپے کی بات نہیں لیکن بطور جرم حکومتی سطح پر اسے قبول کرنا عالمی سطح پر پاکستان کا پیچھا کرتا رہے گااور پاکستان کے عالمی تعلقات پر منفی اثرات ڈالے گا

  • پرویز رشید صاحب کی رخصتی – ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

    پرویز رشید صاحب کی رخصتی – ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

    محمد مشتاق بعض محترم دوستوں کو حیرت ہوئی ہے کہ پرویز رشید صاحب کی رخصتی پر مجھے کیوں خوشی ہوئی ہے۔ بعض کو بدگمانیاں بھی لاحق ہوگئی ہیں۔ اس لیے یہ پوسٹ لکھ رہا ہوں تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آوے۔

    1۔ شریفوں کی کرپشن میرے نزدیک بہت زیادہ سنگین مسئلہ ہے اور وہ جمہوریت کی آڑ لے رہے ہیں لیکن درحقیقت خود جمہوریت کے لیے سب سے بڑا خطرہ وہی ہیں۔
    2۔ شریفوں کا اندازِ حکمرانی مجھے کبھی نہیں بھایا اور میں علی وجہ البصیرت اسے پاکستان کے لیے نقصان دہ سمجھتا ہوں۔
    3۔ پاناما لیکس کے بعد اصولاً شریفوں کو اقتدار سے الگ ہوجانا چاہیے تھا اور خود کو احتساب کے لیے پیش کرنا چاہیے تھا لیکن وہ سب کچھ چھوڑ سکتے ہیں، اقتدار نہیں۔
    یہ تو رہے پاناما سے متعلق امور۔

    جس معاملے میں پرویز رشید صاحب کی قربانی دی گئی ہے، اس کے متعلق درج ذیل باتوں پر غور کریں :
    1۔ میں سیاسی امور میں فوج کی مداخلت کے ناقدین میں سے ہوں اور جاننے والے جانتے ہیں۔
    2۔ فوج کو غیر ریاستی عناصر کی پشت پناہی نہیں کرنی چاہیے۔ مجھے اس سے بھی اتفاق ہے، بلکہ میں اسی کا علمبردار ہوں۔
    3۔ اگر میٹنگ میں سیاسی قیادت نے ایسی کوئی بات فوجی افسران سے یا خفیہ اداروں سے کہی تھی تو ٹھیک کیا تھا۔
    4۔ مسئلہ لیکن یہ ہے کہ اس میٹنگ کی یہ تفصیلات کسی نے لیک کیوں کیں اور میٹنگ کی منٹس تک صحافی کو کیوں دی گئیں؟ یہاں سے معاملہ قانون کی سنگین خلاف ورزی کی نوعیت کا بن جاتا ہے اور بہت حساس ہوجاتا ہے۔ جس نے بھی یہ کیا تھا اسے فوراً قانون کے مطابق قرار واقعی سزا دینے کے لیے آگے کردینا چاہیے تھا لیکن حکومت نے ایسا نہیں کیا بلکہ نااہلی اور شراکت جرم کی وجہ سے معاملے کو لٹکانے کی روش اختیار کی۔
    5۔ بالآخر چودھری نثار اور شہباز شریف نے آرمی چیف کے پاس جاکر وہ کچھ کیا جو انھیں آرمی چیف کے پاس گئے بغیر بہت پہلے کرنا چاہیے تھا۔ اب اسے سو پیاز اور سو جوتے نہ کہیں تو کیا کہیں؟
    ہر چہ دانا کند، کند ناداں
    لیک بعد از خرابیِ بسیار!

  • سیاپا فروشوں کے نام – ارمغان احمد

    سیاپا فروشوں کے نام – ارمغان احمد

    یہ مضمون بنیادی طور پر ان محترم دوستوں کے لیے ہے جو ہر دہشت گرد حملے کے بعد یہ ”رولا“ ڈال دیتے ہیں کہ ہماری ریاست ”گُڈ“ اور ”بیڈ“ طالبان میں تخصیص کرتی ہے۔ کشمیر میں جدوجہد کرنے والوں کو جب تک پکڑیں گے نہیں تب تک ختم نہیں ہوں گے وغیرہ۔ اس سلسلے میں حافظ سعید جیسے لوگ ان کا پسندیدہ ہدف ہوتے ہیں۔ اگر ان کے تمام تجزیوں کا جائزہ لیا جائے تو نتیجہ یہی نکلتا ہے: ”بس جس دن آپ نے کشمیر پر فاتحہ پڑھ لی، ان کی ہر قسم کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا، کشمیری مجاہدین کو بھی دہشت گرد قرار دے دیا، اس دن پاکستان میں امن قائم ہو جائے گا۔“

    سب سے پہلی بات تو یہ کہ مثالی طور پر میں اس بات سے متفق ہوں کہ دنیا کو امن کا گہوارہ ہونا چاہیے۔ کسی قسم کی عسکریت پسندی نہیں ہونی چاہئے۔ سویلین تو چھوڑ کسی ملک کی فوج تک پر بھی حملے نہیں ہونے چاہئیں۔ وغیرہ وغیرہ

    لیکن اب آ جائیں حقائق کی دنیا میں۔ عراق میں پاک فوج کی کون سی ”افغانستان پالیسی“ تھی؟ شام میں پاک فوج کی کونسی ”کشمیر پالیسی“ تھی؟ لیبیا میں پاک فوج کے کون سے ”گُڈ اور بیڈ طالبان“ تھے؟ حقائق یہ ہیں کہ ایٹمی ہتھیاروں کے دور میں کوئی بھی ملک براہ راست جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس لیے ہر ملک ہی پراکسی وار میں مشغول ہے۔ امریکا بھی، روس بھی، چین بھی، بھارت بھی، ایران بھی، سعودی عرب بھی اور پاکستان بھی۔ اور مستقبل قریب میں یہ ختم ہوتی نظر نہیں آتی۔

    نرم سے نرم الفاظ میں جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ کشمیری مجاہدین اور سب افغان طالبان کو دہشت گرد قرار دیا جائے تو پاکستان میں امن ہو جائے گا وہ یا تو اول درجے کے ”بھولے“ ہیں یا بددیانت۔ پاکستان میں غیر ممالک کے اشارے پر حملے کرنے والے دہشتگردوں کے تمام ٹھکانوں کا صفایا ہو چکا ہے۔ ابھی وہ افغانستان کو بیس کیمپ بنا کے پاکستان پر حملے کرتے ہیں اور یہ سلسلہ تب تک جاری رہے گا جب تک افغانستان میں پاکستان دوست حکومت نہیں آ جاتی۔ جی ہاں ابھی محض میں آپ کی روح تک ”مسیحائی کی تاثیر“ پہنچانے کے لیے ”تزویراتی گہرائی“ کی اصطلاح استعمال کرنے لگا ہوں۔ یہی ہے وہ تزویراتی گہرائی جس کے حصول کے بغیر پاکستان میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔

    اب چاہے آپ کا فرقہ آپ کو یہ تسلیم کرنے سے روکے، چاہے کوئی متجدد، چاہے آپ کی نسل پرستی، چاہے آپ کا دیسی مارکہ لبرل ازم، چاہے آپ کا الحاد، چاہے آپ کا سیکولر ازم اور چاہیے آپ کی ”دانشوری“، یہ حقائق تبدیل نہیں ہو سکتے۔ افغانستان میں ایک دوست حکومت قائم ہوئے بغیر پاکستان میں امن قائم نہیں ہو سکتا باقی آپ کی مرضی ہے جو مرضی اور جتنا مرضی ڈھول بجا لیں۔ نوازش

  • چودھری شجاعت والی مٹی؟-ہارون الرشید

    چودھری شجاعت والی مٹی؟-ہارون الرشید

    m-bathak.com-1421247288haroon-rasheed
    رحمت للعالمین کا وہی ارشاد: الصدق یُنجی والکذب یہلک۔ سچ نجات دیتا اور جھوٹ ہلاک کرتا ہے۔ سچ سننے کی تاب مگر ہم میں نہیں۔ کسی گروہ میں نہیں۔

    وعدہ نبھانے کا سوال تھا اور ایک مرد شریف سے‘ جس کے خاندان سے 46 برس سے تعلقات ہیں۔ بروقت گھر سے روانہ ہوئے۔ غلطی یہ کی کہ بڑی شاہراہ کی بجائے اس کے پہلو میں‘ قدرے چھوٹی سڑک پہ گاڑی موڑ لی۔ ایک سکول‘ دوسرا اور پھر تیسرا۔ سبھی کے باہر کاروں کی طویل قطاریں۔ جی ہاں‘ عریض بھی‘ تین قطاریں۔ دو اڑھائی کلومیٹر کا فاصلہ باقی تھا۔ ملاقات کے وقت میں پندرہ منٹ باقی تھے‘ اندازہ تھا کہ چھ سات منٹ میں مسافت طے ہو جائے گی۔ سست رفتاری سے‘ مگر پہلے سکول سے سلامت گزرے کہ چوکیدار چوکس تھا۔ دوسرے سے بھی مگر تیسرے پر جا پھنسے۔ ڈیڑھ سال سے‘ ایک سرکاری دفتر میں وہ صابر آدمی ستم جھیل رہا ہے۔ اس پہ ترس آتا ہے اور کبھی کبھار اپنے آپ پہ بھی کہ ہاتھ بٹانے کا پیمان کیوں کر لیا۔ وارداتِ قلبی ہی نہیں‘ کچھ اور معاملات میں بھی وہی رونما ہوتا ہے‘ شاعر نے جس کی دہائی دی تھی ؎

    مجبوری و دعوائے گرفتاریٔ الفت
    دستِ تہِ سنگ آمدہ پیمان وفا ہے

    تین ماہ ہوتے ہیں پروفیسر احمد رفیق اختر برطانیہ‘ سپین اور فرانس کے لیے پا بہ رکاب تھے‘ ناخوش و مجبور۔ عرض کیا: مت جائیے۔ بولے: وعدے کا کیا کروں۔ لوٹ کر آئے تو نڈھال۔ صبر کی بے پایاں توفیق درویش کو عطا ہوتی ہے۔ جھیل گئے۔ ہم سے عامی مگر کیا کریں؟
    فراق نے کہا تھا ؎
    اس دور میں زندگی بشر کی
    بیمار کی رات ہو گئی ہے

    زندگی کا دھاگہ ہمارے سماج میں الجھ گیا ہے‘ اور اس بری طرح کہ کسی طور بھی سلجھتا نہیں۔ وزیر اعلیٰ میاں محمد شہباز شریف کی خدمت میں ایک بار عرض کیا تھا: لوحِ زماں پہ دائم نقش رہنے والے کارنامے الگ‘ اتنی سی عنایت ہو کہ لاہور کی ٹریفک رواں ہو جائے۔ شہر کے قلب میں وہ گندے ڈرامے بند کر دیجئے‘ جس نے ایک پوری نسل کو ذہنی مریض بنا دیا ہے‘ ہزاروں‘ ہزاروں کو۔ بھارتی فلمیں اس کے سوا ہیں‘ آدمی کو جو حیوان بننے کی ترغیب دیتی ہیں۔

    بے یقینی کی گرفت میں جو جیتے ہوں‘ ذہنی سکون سے جو معاشرے محروم ہو جائیں‘ اپنی ترجیحات کا تعین وہ نہیں کر سکتے۔ ہرگزرتے دن کے ساتھ الجھائو بڑھتا چلا جاتا ہے۔ عدم تحفظ کا نوچ کھانے والا احساس‘ حواس مختل کر دیتا ہے۔ ایسے میں بقا کی غالب آنے والی جبلّت آسیب بن جاتی ہے۔ آدمی پھر آدمی نہیں رہتا‘ وحشی جانور سا ہو جاتا ہے‘ بے رحم بے رحم۔ حیات کا سارا جمال دھل جاتا ہے۔ زندگی بوجھ بن جاتی ہے۔ بازار شکارگاہیں بن جاتے ہیں اور گھر بازار۔ فیض احمد فیض کا شعر سمجھ میں نہ آسکا تھا ‘ اب آیا ؎
    گھر رہیے تو ویرانیٔ دل کھانے کو آوے
    رہ چلے تو ہرگام پہ غوغائے سگاں ہے

    تین عشرے قبل‘ پہلی بار یہ مصرعے سنے تو تعجب ہوا کہ ہمارے عہد کے شائستہ شاعر نے آدمی کو سگ کیسے کہہ دیا۔ پچھلے دو دن اسی خیال میں گزرے۔ تب دوسری صدی ہجری کے ایک عارف کا قول نظر سے گزرا‘ ”شیر جنگلوں میں بھوکے ہیں اور بستیوں میں کتے ہرن کا گوشت کھاتے ہیں‘‘۔

    ظالم حکمران لعنت سہی‘ طوائف الملوکی مگر اس سے بڑی لعنت ہے۔ ہشام بن عبدالملک نے کوفہ کے گورنر کو لکھا کہ منڈی میں غلے کی فروخت روک دی جائے‘ جب تک اس کی جاگیر کا اناج بازار میں پہنچ نہیں جاتا۔ اس گورنر کو ”ابن النصرانیہ‘‘ کہا جاتا‘ مسلمان باپ کا بیٹا مگر زندگی کی آخری سانس تک عیسائی رہنے والی ماں کا فرزند۔ تین چار گنا قیمتیں بڑھ گئیں تو خلقِ خدا میں بغاوت کے آثار اٹھے۔ گورنر بڑا ہی بدبخت تھا۔ مساجد کے مینار گرا دیے تھے کہ مؤذن گھروں میں جھانکتے ہیں۔ ایک افسانہ جو اس کے تعصب نے تراش دیا تھا۔ آخرکار منبر پر وہ نمودار ہوا اور یہ کہا: اس پر لعنت ہو جس کی وجہ سے غلے کی قیمت بڑھی۔ ایک کے بعد بنو اُمیّہ کا دوسرا حکمران تخت پر بیٹھا حتیٰ کہ نوبت خانہ جنگی تک پہنچی۔ پھر بے یقینی کے بطن سے عباسی لشکر نمودار ہوئے۔ سپین کے سوا ہر کہیں بنو اُمیّہ کے چراغ بجھ گئے۔ ان کی ایک بڑی تعداد نے سندھ سمیت دور دراز کی سرزمینوں کو ہجرت کی۔ بھیس بدل گئے اور قبیلوں کے نام تک۔ ظلم‘ وحشت کی آندھی میں پھوٹتا ہے‘ عقل کا دیا جس میں جلتا نہیں۔ نتائج کا ظالم کو ادراک نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر پانچ کروڑ لاشوں پر سوویت یونین میں کمیونزم کی سلطنت تعمیر کرنے والے۔

    پاکستان کا معاملہ مختلف ہے۔ دمشق کے تخت پر عبدالملک براجمان ہوا۔ مسجدِ نبوی میں خطبہ دیا: خلفائے راشدین کے عہد میں مسلمان بے باک ہو گئے‘ حتیٰ کہ ابوبکر صدیقؓ‘ عمر فاروق اعظمؓ اور عثمان غنی ؓ تک کو ٹوک دیتے: اتق اللہ۔ اللہ سے ڈرو۔ کسی نے یہ بات مجھ سے کہی تو گردن اڑا دوں گا۔ حجاج اسی پس منظر میں اٹھا اور حدِ نظر تک لاشیں بچھا دیں۔ مرا تو خواجہ حسن بصری سجدہ ریز ہو گئے۔ کہا‘ بارِ الہا‘ اس ظالم سے‘ جس طرح نجات دی ہے‘ اسی طرح اس کے اثرات بھی تمام کر دے۔ سرکارؐ کا فرمان مگر راہ میں حائل تھا: برائی سے جب روکا نہ جائے گا‘ بھلائی کی جب ترغیب نہ دی جائے گی تو بدترین حاکم تم پر مسلط کیے جائیں گے‘ سخت ترین ایذا وہ تمہیں دیں گے اور تمہارے نیک لوگوں کی دعائیں بھی تب قبول نہ ہوں گی۔ کچھ عرصے بعد‘ صرف سوا دو سال کا استثنا ملا۔ درویشوں کے درویش عمر بن عبدالعزیز کا عہد‘ جب دنیا بہشتِ برّیں سی ہو گئی۔ افتادگانِ خاک سر اٹھا کے جینے لگے۔ رحمۃ اللہ علیہ‘ جنہیں رضی اللہ تعالیٰ عنہ لکھنے کو جی چاہتا ہے۔

    آزادی ہی میں نمود ہے‘ جس طرح ابر و باراں سے ہریالی۔ ڈسپلن کے بغیر کوئی معاشرہ مگر پنپ نہیں سکتا۔ حکمرانوں کے ظلم ہی سے معاشرے نہیں اجڑتے‘ جتھے اگر بن جائیں‘ قبیلوں میں ڈھل کر گروہوں کے گروہ‘ مقابل آ جائیں تو پھر نفرت کی حکمرانی ہوا کرتی ہے‘ تعصبات کی فراوانی‘ اعتدال جس میں روند دیا جاتا ہے‘ عدل تمام ہوتا اور سچائی بے دردی سے ذبح کر دی جاتی ہے۔ زندگی کو خالق نے تنوع میں تخلیق کیا ہے۔ آزمائش اور کشمکش دائمی ہے مگر جتھے داری میں‘ زندگی کا تنوع بھاپ بن کے اڑ جاتا ہے۔ رواداری کا نام تک نہیں رہتا۔ کسی بھی گروہ کے لئے سچائی‘ فقط اس کا اپنا مؤقف رہ جاتی ہے۔ امن باقی نہیں رہتا‘ جو بشر کے لیے اللہ کا سب سے بڑا انعام ہے۔

    خبر یہ ہے کہ متنازعہ خبر کی تحقیقات میں ہونے والے انکشافات ہولناک ہیں۔ سرکاری شخصیات تو ملوث ہیں ہی‘ اخبار نویس اور خود اخبار کے بطن میں کینسر کی علامتیں پائی گئیں۔ اخبار نویس برادری اور ان کی انجمنیں مُصر ہیں کہ آزادی ٔ اظہار پہ حرف نہ آئے۔ حکومت کی آرزو ہے کہ بچ نکلے۔ فوجی قیادت نے اول یلغار کی‘ پھر یہ کہا کہ صحافی سے کوئی غرض اسے ہے اور نہ بنیادی طور پر اخبار سے۔ پورا سچ سننے کو کوئی بھی تیار نہیں۔ چار دن میں تحقیقات مکمل ہونا تھیں۔ قرائن اور شواہد یہ ہیں کہ نسبتاً طویل عرصہ درکار ہوگا۔
    بیرونِ ملک اخبار نویس اور اخبار کے روابط کا سراغ ملا ہے۔ تمام سرزمینیں‘ اخبار نویسوں کے لئے کھلی ہوتی ہیں۔ سب وادیاں‘ سب میدان اور چراگاہیں۔ اصول یہ ہے کہ جوچراگاہ کے اردگرد گھومے گا‘ وہ اس میں داخل بھی ہو سکتا ہے۔ درجنوں داخل ہیں۔ آدمی جی دار ہیں‘ مگر تحقیقات میں وزیر داخلہ پر یقینا ذہنی دبائو ہو گا‘ تینوں طرف سے۔ اب ایک سوال ان کے سامنے ہو گا۔ تمام تر حقائق کھول کر اگر بیان کر دیے جائیں تو سبھی ناشاد ہوں گے۔ سبھی کی غلطیاں ہیں۔ حافظ سعید اور مولانا اظہر مسعود کو گوارا کیا گیا۔

    سازش میں دو تین حکومتی شخصیات ملوث ہیں۔ پوری سچائی بیان ہوئی تو ایک برادری کے طورپر اخبار نویس بھی شاید برہم ہوں۔ اس کے سوا پھر کیا چارہ رہے گا کہ اندر خانہ مفاہمت کر لی جائے۔ قربانی کے بکرے تلاش کیے جائیں اور بھینٹ چڑھا دیے جائیں۔ فوج اور سول میں کشمکش بڑھی ہے۔ بظاہر کپتان کا دھرنا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اس سے بڑھ کر مگر ملک کے محافظوں اور منتخب حکمرانوں کی آویزش۔ کوئی دن میں اندازہ ہو گا کہ حقائق آشکار ہوتے ہیں یا چودھری شجاعت والی مٹی ان پر ڈال دی جاتی ہے۔
    رحمت للعالمین کا وہی ارشاد: الصدق یُنجی والکذب یہلک۔ سچ نجات دیتا اور جھوٹ ہلاک کرتا ہے۔ سچ سننے کی تاب مگر ہم میں نہیں۔ کسی گروہ میں نہیں۔

  • مسئلہ صرف ایک ہے-اوریا مقبول جان

    مسئلہ صرف ایک ہے-اوریا مقبول جان

    اوریا مقبول جان پاکستان کا قیام دراصل کرۂ ارض پر مسلط دو نظریات کی بدترین شکست تھی۔ ایک سیکولر جمہوری سرمایہ دارانہ معیشت پر مبنی طرز معاشرت اور دوسرا مزدور کی آمریت کے ذریعے کمیونسٹ معاشی نظام۔ پاکستان بننے سے پہلے ان دونوں نظریات کے پیروکار ایک دوسرے سے برسرپیکار تھے۔ برصغیر پاک و ہند میں انگریز کی نو آبادیاتی حکومت قائم تھی جو سرمایہ دارانہ سیکولر جمہوری معیشت و معاشرت کی محافظ تھی۔ اس کے مقابلے میں 17، اکتوبر 1920ء کو سوویت روس کے شہر تاشقند میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی بنیاد رکھی گئی۔

    یہ دراصل ہندوستان میں کام کرنے والے بے شمار کمیونسٹ گروہوں کا کنونشن تھا۔ یہ تمام گروہ دنیا کے مختلف ممالک کی مدد سے ہندوستان میں کام کررہے تھے اور ان پر برطانوی حکومت کی سختیاں بھی جاری تھیں۔ سوویت یونین نے ان کو اکٹھا کیا اور کمیونسٹ پارٹی بنا ڈالی، جس کا ہندوستان میں پہلا کنونشن 25 دسمبر 1925ء میں کانپور میں منعقد ہوا۔ برصغیر کے کمیونسٹ گروہ مسلح بغاوت اور انقلاب پر یقین رکھتے تھے۔

    ان کے خلاف 1920ء سے لے کر 1935ء تک لگ بھگ پچاس کے قریب بغاوت کے مقدمات مختلف عدالتوں میں چلائے گئے جن میں پانچ مقدمات پشاور سازش کیس اور اتنے ہی مقدمات میرٹھ سازش کیس سے متعلق تھے۔ بھگت سنگھ بھی ایک کمیونسٹ تھا جس نے ایسے بہت سارے گروہوں میں حصہ لیا اور بالآخر ہندوستان سوشلسٹ ریپبلکن ایسوسی ایشن کا اہم کارکن بن گیا۔ اسے برطانوی پولیس آفیسر جون سونڈرس کے قتل کے جرم میں سزائے موت دی گئی۔ کمیونسٹ پارٹی کے لوگ مہاتما گاندھی پر یہ الزام لگاتے رہے کہ اس نے نہ صرف بھگت سنگھ کو بچانے کی کوشش نہ کی بلکہ الٹا برطانوی سرکار سے مل کر اس کی پھانسی کی راہ ہموار کی۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ گاندھی برصغیر میں ایک سیکولر، جمہوری سرمایہ دارانہ معیشت کا ایجنٹ ہے۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا سے متاثر ادیبوں، شاعروں اور مصنفوں نے 1936ء میں لکھنو میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی بنیاد رکھی۔

    سجاد ظہیر اس کے بانی سربراہ چنے گئے۔ برصغیر کا شاید ہی کوئی بڑا ادیب ہو جو اس انجمن کاخوشہ چین نہ رہا ہو۔ متاثرین کا تو ایک وسیع حلقہ مدتوں قائم رہا۔ فیض احمد فیض سے احمد ندیم قاسمی کرشن چندر سے عصمت چغتائی اور امرتا پریتم سے لے کر ساحر لدھیانوی تک سب کمیونسٹ انقلاب کے داعی اور سیکولر جمہوری سرمایہ دارانہ طرز حکومت و معاشرت کے مخالف تھے۔ کمیونسٹ معاشرت کا علمبردار برطانوی اور امریکی حکومتوں کو سامراج تصور کرتا تھا اس لیے وہ اس سامراج کے خلاف نعرہ زن رہے۔ دوسری جانب سیکولر جمہوری سرمایہ دارانہ قوتیں رنگ، نسل، زبان اور علاقے کی بنیاد پر دنیا میں قومی ریاستوں کی تشکیل میں لگی ہوئی تھیں۔

    جنگ عظیم اول کے بعد یہ تقسیم ایک حقیقت بن گئی اور دنیا چھوٹی چھوٹی قومی ریاستوں میں تقسیم ہوگئی، اور ان کی ایک تنظیم بھی بنادی گئی جس کا نام لیگ آف نیشنز رکھا گیا۔ سوویت یونین کی کمیونسٹ حکومت کو بنے ہوئے ابھی صرف تین سال ہی ہوئے تھے کہ انھوں نے اس حقیقت کا ادراک کرلیا اور آزربائیجان کے شہر باکو میں قومیتوں کی ایک کانفرنس بلائی جس میں دنیا بھر کی ان قومیتوںکو بلایا گیا جو نئی بننے والی سیکولر جمہوری قومی ریاستوں میں اپنی جگہ نہیں بناسکی تھیں۔ سوویت یونین کا خواب تھا کہ ان قومیتوں کی آزادی کے نعروں کو بلند کرکے انھیں نئی بننے والی ریاستوں سے علیحدہ کردیا جائے تاکہ اپنی مرضی کی نئی کمیونسٹ ریاستیں وجود میں آجائیں۔

    1920ء میں ہونے والی اس کانفرنس میں بلوچ قوم پرستوں کا ایک گروہ کامریڈ مصری خان مری کی سربراہی میں  شریک ہوا۔ یہ تھی وہ کشمکش جودنیا کو کمیونسٹ یا سرمایہ دارانہ معیشت کے زیراثر لانے کے جاری تھی۔ دونوں قوتیں دنیا کو انھی نظریات کی بنیاد پر تقسیم کرتی تھیں۔ ان کے تصور اور گمان میں بھی نہ تھا کہ ایک دن اس خطۂ ارضی پر ایک ایسا ملک بھی وجود میں آجائے گا جو ان دونوں نظریات کی نفی کرتے ہوئے اسلام کے آفاقی نظریے کی بنیاد پر تشکیل ہوگا، جس میں ایک دادا کے پوتے آپس میں ایک قوم نہیں ہوں گے اس لیے کہ ایک نے کلمہ طیبہ پڑھ لیا تھا۔

    یہ ان دونوں نظریات کی حامل قوتوں کی اتنی بڑی شکست تھی کہ اس کی ٹیسیں آج بھی ان کی تحریروں سے اٹھتی ہیں اور ان کے بیانات اور سرگرمیوں سے نفرت کے پرچم بلند کرتے ہیں۔پاکستان بن گیا۔ اس کا وجود ہی ان لوگوں کے لیے سوالیہ نشان تھا جو گزشتہ کئی سو سال سے دنیا کو دو سبق پڑھارہے تھے، ایک یہ کہ قومیں رنگ، نسل، زبان اور علاقے سے بنتی ہیں اور دوسرے یہ کہتے تھے کہ اصل لڑائی تو معاشی ہے اور بقول کارل مارکس یہ مذہب تو ایک افیون ہے جو غریب آدمی کو جدوجہد سے روکتا ہے۔ اس کے بعد قرارداد مقاصد منظور ہوگئی۔

    ان کے نزدیک یہ بہت بڑی گڑبڑ ہوگئی تھی۔ قیام پاکستان سے انھوں نے اپنی تحریروں میں یہ لکھنا شروع کردیا تھا کہ پاکستان معاشی وجوہات کی بنیاد پر بنا تھا۔ قرارداد مقاصد کے منظور ہونے کے بعد یہ گروہ اور سرگرم ہوگیا۔ 1950ء میں ڈاؤ میڈیکل کالج میں ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھی گئی جس میں کمیونسٹ نظریات کے تمام طلبہ شامل تھے۔ اس تنظیم کا 1953ء کا احتجاج اور پولیس مقابلہ بہت مشہور ہوا۔ لیکن جب جنرل اکبر نے جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کی تو کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ اس تنظیم پر بھی پابندی لگادی گئی۔نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے ایک اہم ستون حسن ظفر عارف تھے جو کراچی یونیورسٹی میں فلسفہ کے استاد بھی رہے۔ نظریاتی طور پر کٹر کمیونسٹ ہیں۔

    حکومت سندھ کی خاص نوازش سے انھیں ایم کیو ایم لندن کا مؤقف بیان کرنے کے لیے پریس کلب میں جگہ ملی۔ ان کے ساتھ ایک سیکولر نظریہ کے حامی، برسوں سے پیپلزپارٹی کے جیالے وکیل ساتھی اسحاق بھی شامل تھے۔ اگر پاکستان مردہ باد کہنے کے باوجود الطاف حسین کے ساتھیوں کو پریس کلب میں اپنا مؤقف بیان کرنے کی آزادی ہے تو پھر طالبان کو بھی کوئی پریس کلب دے دیا جائے۔دانشوری اور تحریر میں آپ کو جب کبھی پاکستان ٹوٹنے کے خواب دیکھنے والا کوئی ملے گا تو وہ انھی صفوں میں سے ملے گا جنہوں نے پاکستان کے نظریاتی وجود سے ہمیشہ نفرت کی۔ نواز شریف اس دن سے ان کا محبوب رہنما ہے جس دن سے اس نے اپنی گزشتہ روش چھوڑ کر سیکولر نظریات کو اوڑھنا بچھونا بنایا۔ الطاف حسین، محمود خان اچکزئی، اسفندیارولی، اختر مینگل، یہ سب انھیں محبوب ہیں۔ شاید خواجہ آصف بھی ان کی صف میں اپنی تقریر کے بعد شامل ہوگیا ہو۔

    وجہ صرف اور صرف ایک ہے اور وہ ہے پاکستان کی فوج۔ یہ فوج ان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ یہ فوج پوری کی پوری سیکولر بھی ہوجائے تو نعرہ تکبیر بلند کرنے کے بغیر اس کا چارہ نہیں۔ آپ قیام پاکستان سے لے کر آج تک فوج کے خلاف لکھے گئے مضامین جمع کرلیں۔ خبریں اکٹھا کرلیں، تقریریں اور بیان نکال لیں۔ آپ کو مقرر، دانشور اور قلمکار وہی لوگ ملیں گے جنہوں نے 1947ء کی چودہ اگست کو شکست کھائی تھی۔ اگر پاکستان کی فوج بدنام ہو گی، کمزور ہوگی تو ریاست پاکستان کمزور ہوگی۔ ریاست پاکستان کمزور ہوگی تو ایک نعرہ ہمیشہ کے لیے دفن ہوجائے گا۔ پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اللہ۔

  • پاک فوج سے نفرت کرنے والوں کےلیے خاص اطلاع – محمد عامر خاکوانی

    پاک فوج سے نفرت کرنے والوں کےلیے خاص اطلاع – محمد عامر خاکوانی

    عامر خاکوانیپاک فوج سے نفرت کرنے والوں کے لیے ایک اطلاع ہے کہ ان کی ہر زیریلی اور نفرت انگیز مہم میرے جیسے لوگوں کو پاک فوج سے محبت کرنے پر مزید اکساتی اور فوج مخالف حلقوں کی فتنہ انگیزیوں کا دندان شکن جواب دینے کا خیال سجھاتی ہے۔

    اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی کردار سے ہمیں شدید اختلاف ہے۔ فوج کا کام اقتدار میں آنا، حکومت چلانا نہیں۔ ڈکٹیٹروں کے کبھی حامی رہے نہ ان شاءاللہ آئندہ کبھی حمایت کریں گے۔ مگر پاک فوج کی قربانیوں کی قدر نہ کرنے والا یا تو احمق اور نابینا ہے یا پھر وہ پاکستان سے زیادہ کسی اور ملک کا وفادار ہے۔

    اصولی تنقید میں کوئی حرج نہیں، مگر اس تنقید کا کوئی وقت، موقع محل ہوتا ہے۔ جب سرحدوں پر دشمن فوج موجود ہو، کسی بھی وقت جارحیت کا خطرہ ہو، بھارت جیسے بزدل اور کمینہ دشمن پراکسی وار کے ذریعے پاکستانی ریاست کو مفلوج کرنا چاہتا ہو، فوج کو واحد ڈیفنس لائن سمجھتے ہوئے نشانہ بنانا چاہتا ہو، اس وقت اصولی تنقیدوں کو ڈالیں مٹکے میں، جب وقت آئے گا ، تب ایسی بحثیں بہت ہوں گی، ہم بھی ان میں زور شور سے حصہ ڈالیں گے۔

    جہاں تک مسلم لیگ ن کے حامیوں کا تعلق ہے، ان کی برہمی اور ناراضی سمجھ میں آتی ہے۔ مگر سیاسی عصبیت اور سیاسی ہمدردی سے ملک زیادہ اہم ہے۔ فیس بک پر رہنے والوں کو برادر رعایت اللہ فاروقی کی مثال سامنے رکھنی چاہیے۔ اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی کردار کے وہ سخت خلاف ہیں، سیاسی طور پر ان کی ہمدردی مسلم لیگ ن کے ساتھ ہے، عمران خان کے سخت نقاد ہیں، آرمی چیف پر کئی امور پر براہ راست تنقید کر چکے ہیں، جس کی جرات کم لوگ کر پاتے ہیں، اس کے باوجود جب بھارتی جارحیت کا خدشہ پیدا ہوا تو فاروقی صاحب کمر ٹھونک کر میدان میں اترآئے، اپنے قلم سے وہ تلوار کا کام لیتے ہوئے دشمن کی چالوں کو بے نقاب کر رہے اور فوجی جوانوں کا حوصلہ بڑھا رہے ہیں۔ ایسا کوئی بندہ ہو تو اس کی فوج پر تنقید پڑھنے اور سننے کا بھی جی چاہتا ہے، اسے یہ حق بھی حاصل ہے کہ آرمی چیف سے لے کر تمام جرنیلوں کو کھری کھری سنا سکے، اداروں کی غلطیوں کا پوسٹ مارٹم کر سکے، کیونکہ اس نے اپنی جرات، دلیری کے ساتھ ریاست پاکستان کے ساتھ اپنی دردمندی، محبت اور غیرمعمولی استقلال بھی ثابت کر دیا ہے۔

    ن لیگ کے بعض ناسمجھ پرجوش حامی، بلوچستان یا کے پی کے سے تعلق رکھنے چند حماقت کی حد تک جذباتی قوم پرست اور ہر بات میں فوج کو گالیاں دینے والے نام نہاد لبرلز کی باتیں ہم نہیں سن سکتے۔ پاکستانی اداروں پر وہ بات کرے جو پاکستان کے ساتھ اپنی محبت کا ثبوت بھی دے سکے۔ بغداد تباہ کرانے والے علقمی کا کردار ادا کرنے والے جب یہ شکوہ کریں کہ ہم پر غداری کا لیبل لگایا جا رہا ہے اور ہماری بات نہیں سنی جار ہی تو ان کا شکوہ بےجا، فضول اور غلط ہے۔ باقی میری فیس بک وال پر اور میرے دل میں فوج دشمنوں کی کوئی جگہ نہیں۔

    پاکستان میری محبت ہے، اس کا دفاع کرنے والی فوج کے ساتھ بھی محبت کا یہی رشتہ ہے۔ پاکستان ہو، پاک فوج ہو یا پاکستانی عوام ، ان کے خلاف زہر اگلنے والوں، فتنہ پروروں کا جواب بلاک کے ہتھوڑے سے دیا جائے گا۔

    یاد رہے کہ دلیل ڈاٹ پی کے کی ادارت چھوڑنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کھل کر اپنے مافی الضمیر کا اظہار کیا جائے اور شرانگیزی کرنے والے ففتھ کالمسٹوں کے پرخچے اڑائے جائیں۔ اللہ نے چاہا تو یہ کام پوری قوت سے کریں گے۔

  • جب جنرل رضوان اختر نے معذرت کی – احسان کوہاٹی

    جب جنرل رضوان اختر نے معذرت کی – احسان کوہاٹی

    موٹروے پولیس کے ساتھ دو نوجوان آرمی افسروں کی گرما گرمی تو عرصہ ہوا ختم ہو چکی لیکن اس موضوع پرسوشل میڈیا کی گرمی پاکستان بھارت کی گرما گرمی بھی نہیں دبا سکی۔ موٹر وے پولیس اہلکاروں کی پھٹی ہوئی یونی فارم والی تصویریں ابھی بھی گردش کر رہی ہیں اور ان تصویروں کے نیچے طنزیہ تبصرے، افسوس بھری چچ چچ، موٹر وے پولیس سے اظہار یکجہتی اورکہیں کہیں آرمی کے حق میں جملے ابھی بھی لکھے جا رہے ہیں۔ یہ معاملہ چار افراد کا نہیں بلکہ دو اداروں کا بنا دیا گیا ہے، اور کپتانوں کا رویہ ’’کاکولین ‘‘ کی تربیت بتایا جا رہا ہے، اور خوش اخلاقی، قانون پسندی اور فرض شناسی موٹر وے پولیس کے کھاتے میں جا رہی ہے۔

    پہلی بات درست ہے نہ دوسری بات مکمل طور پر ٹھیک، آرمی افسران سویلین سے فاصلے پر چھاؤنیوں میں ضرور رہتے ہیں لیکن یہ چھاؤنیاں مریخ پر نہیں ہوتیں، نہ ہم انہیں کسی اور جہاں سے آرمی کے لیے درآمد کرتے ہیں۔ یہ ہماری ہی گلیوں، محلوں میں کھیل کود کر بڑھے ہوتے ہیں، انہوں نے بھی گلی مں کرکٹ کھیل کر میرے اور آپ کے گھر کی کھڑکی کے شیشے توڑے ہوتے ہیں، یہ بھی بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں ڈور بیل دبا کر چیونگم لگا کر بھاگ جاتے ہیں، یہ بھی کالج کے باہر سگریٹ کے سٹے مار کر سونف سپاری چبا چبا کر گھر آتے ہیں، یہ اسی معاشرے کا حصہ اور پروڈکشن ہیں، جیسے ہم ہیں ویسے ہی یہ بھی مختلف مزاج، رویوں اور عادات کے مالک ہوتے ہیں۔ دو افسروں کے طرز عمل کو کسی ادارے کا طرز عمل بنا کر پیش کرنا اور سمجھنا قطعا مناسب نہیں، آپ نے موٹر وے پر دو کپتانوں کے جھگڑے کا قصہ تو سن لیا اب ایک حاضر سروس جرنیل کی معذرت کا واقعہ بھی سن لیجیے۔

    یہ غالبا تین سال پہلے کی بات ہے۔ صبح سویرے رینجرز نے میرے محلے کا محاصرہ کیا اور اپنی انٹیلی جنس کی اطلاع پر یہاں موجود مشکوک افراد کو تلاش کرنی لگی،گھر گھر کی تلاشی لی گئی، میرے گھر بھی رینجرز کے جوان آئے، میں نے مکمل تعاون کیا اور وہ چلے گئے. اس کے بعد میں کسی کام سے باہر نکلا توکیا دیکھتا ہوں کہ سارے محلے دار گلی کے ایک نکڑ پر کھڑے ہیں، سامنے سے آنے والے ایک افسر نے مجھے بھی گلی کے نکڑ پر پہنچا دیا، میں نے ان سے اپنا تعارف بھی کرایا اور یہ بھی بتایا کہ میرے گھر کی تلاشی لی جا چکی ہے لیکن انہوں نے میری بات سنی ان سنی کر کے مجھے گلی کے نکڑ پر سب کے ساتھ کھڑا کر دیا جن کی نگرانی پر ایک رینجرز کا جوان بندوق لیے ایسے کھڑا تھا کہ ہم ذرا بھی ہلے تو وہ رائفل کاگھوڑا کھینچ لے گا۔ یہ میرے لیے بڑی ہی عجیب صورتحال تھی، کچھ دن پہلے ہی میں اپنے بچوں کے اسکول میں طلبہ بحیثیت ایک صحافی لیکچر دے کر آیا تھا اور میرے بیٹے جو اسکول میں اتراتے پھر رہے تھے، اب وہ گھر کے دروازے پر کھڑے مجھے قطار میں لگا دیکھ کر پریشان ہو رہے تھے اور میں سخت شرمندگی محسوس کر رہا تھا۔ اتفاق سے اس وقت موبائل فون میرے پاس ہی تھا، میں نے رینجرز کے پی آر او کو فون کیا جو میرا اچھا دوست بھی تھا، اسے ساری صورتحال بتائی اور جان چھڑانے کے لیے کہا، پہلے تو اس نے زوردار قہقہ لگایا، پھر کہا کہ وہاں موجود کسی بھی افسر سے میری بات کرا دو، جس کے بعد میری گلو خلاصی ہوئی لیکن تب تک میں اچھا خاصا ’’مشکوک‘‘ہو چکا تھا۔

    دوسرے دن میں نے اس پر کالم لکھا کہ رینجرز اہلکار بنا کسی خاتون سرچر کے گھروں میں داخل ہوئے، سب کو بلاتخصیص قطار میں لگایا اور پھر جو جو مشکوک لگا اس کی قمیض اتار کر آنکھوں پر باندھ کرتفتیش کے لیے لے گئے، یہ طرزعمل لوگوں کو رینجرز کے خلاف بھڑکا رہا ہے، یہ عزت دار لوگوں سے پیش آنے کا طریقہ بھی نہیں جنہیں دن کی روشنی میں آنکھوں پر قمیضیں باندھ کر لے جایا گیا ہے، چار دن بعد چھوڑ بھی دیں گے تو وہ کس کس کو اس عزت افزائی کی وضاحتیں دیتے پھریں گے؟

    میں نے اس واقعے کی اطلاع ڈی جی رینجرز کو بھی دی، یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان کے پاس وقت ہوگا نہ وہ اس کا نوٹس لیں گے، یہ تو معمول ہے لیکن جو ہوا وہ حیرت انگیز تھا۔ اس وقت کے ڈی جی رینجرز میجر جنرل رضوان اختر تھے جو اب لیفٹننٹ جنرل ہو کر آئی ایس آئی کی کمان کر رہے ہیں۔ خلاف توقع ان کی طرف سے مجھے معذرت کا پیغام موصول ہوا، انہوں نے مجھے ایس ایم ایس کیا کہ انہیں اس واقعے پر دلی افسوس ہوا ہے، میں کوشش کروں گا کہ آئندہ ایسا نہ ہو اور پھر انہوں نے مجھے اپنے دفتر آنے کی بھی دعوت دی۔ ساتھ ہی لکھا کہ اپنے صاحبزادوں کو بھی لے کر آؤں، میں اپنے چھوٹے بیٹے کے ہمراہ ان سے جا کر ملا، وہ بڑی عزت اور تکریم سے پیش آئے، اس دن اپنے ساری ملاقاتیں انھوں نے کینسل کر دیں اور جم کر بیٹھ گئے، تفصیلی ملاقات ہوئی، میں نے ان سے عرض کیا کہ سرچ آپریشن میں اس طرح لوگوں کو گلی کے نکڑوں پر بٹھانے، میدانوں میں جمع کرنے سے لوگوں میں نفرت پھیلتی ہے، آپ نے اگر انہیں کہیں جمع کرنا اور شناخت پریڈ کرانی ہی ہے تو کسی اسکول، کسی مسجد میں بٹھا دیں، ان کی عزت کا تماشہ تو نہ بنے۔ پھر آپ کے جوان گھروں میں جاتے ہیں، تلاشی لیتے ہیں جس گھر سے کچھ نہیں ملتا، وہ یقینا ایک عزت دار شہری ہی ہوا، اس گھر سے نکلتے ہوئے آپ کا افسر وہاں موجود کسی بچے کا پیار سے گال تھپتھپا کر اپنی جیب سے دو ٹافیاں نکا ل کر دے دے تو وہ گھر والے ساری عمر رینجرز کے اس چھاپے کو نہیں بھولیں گے۔ وہ یہ سب نوٹ کرتے رہے، یہ ملاقات لگ بھگ دو گھنٹوں پر محیط رہی جس کے اختتام پر میرے بیٹے کے ہاتھ میں بہت ساری چاکلیٹس اور گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے تحفہ تھا۔

    ایک اور واقعہ سن لیجیے۔ سال بھر پہلے اسلام آباد جانا ہوا، ایک دوست کو اطلاع دی، وہ بھی آرمی میں بریگیڈئیر ہیں اور آج کل ایک حساس ادارے میں ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ وہ مجھے لینے آئے کہ کھانا ساتھ کھائیں گے، میں ان کے ساتھ کار میں بیٹھ گیا، وہ خود ہی ڈرائیو کر رہے تھے، انہوں نے سیٹ بیلٹ باندھا اور کن اکھیوں سے مجھے دیکھ کر کچھ کہتے کہتے چپ ہوگئے۔ ہم کراچی والے ان بیلٹون شیلٹوں کے چکروں میں کہاں پڑتے ہیں، وہ کچھ دیر تو چپ رہے پھر مجھ سے کہنے لگے ’’احسان بھائی! سیٹ بیلٹ باندھ لیں، یہاں بہت سختی ہے۔‘‘
    میں ایک بریگیڈیر کے منہ سے یہ سن کر بڑا ہی حیران ہوا اور کہے بنا نہ رہ سکا ’’آپ کے لیے بھی سختی ہے؟‘‘
    ’’بھائی! پچھلے ہی ہفتے میرے ڈرائیور کا پانچ سو روپے کا چالان ہو گیا تھا اور بات یہ کہ قانون تو قانون ہے ناں جی۔‘‘

    اب آپ بتائیں کہ وہ دو نوجوان آرمی کے کپتان ہیں تو یہ بھی اسی آرمی کے سینئر افسر، ایک جرنیل اور دوسرا بریگیڈئیر، دونوں کے طرز عمل میں فرق ہے کہ نہیں اور پھر ایک جنرل کی معذرت کو کس رویے میں فٹ کریں گے؟ جنرل رضوان اختر نے تو ایسا کچھ نہیں کیا تھا، ان کے سپاہی جنہیں وہ جانتے بھی نہ تھے، میری شکایت تو ان سے تھی لیکن یہ ان بڑا پن اور ظرف تھا۔ آخری بات موٹروے پولیس اس ملک کا قابل فخر ادارہ ہے، ان کی کارکردگی کو سلام ہے، وہ اپنے فرض کی راہ میں کچھ حائل نہیں ہونے دیتے لیکن گزارش پھر یہی ہے کہ انفرادی رویوں کو اجتماعی رویہ تو نہ بنایا جائے۔

  • موٹروے پولیس اور فوجی میجر، دو چشم کشا واقعات – ڈاکٹر رابعہ خرم درانی

    موٹروے پولیس اور فوجی میجر، دو چشم کشا واقعات – ڈاکٹر رابعہ خرم درانی

    پہلا واقعہ
    ہم لاہور سے اسلام آباد کی طرف جا رہے تھے. لاہور ٹول پلازہ سے ای ٹیگ والی لین سے کراس کیا لیکن وہاں بیلنس بتانے والی کوئی لائٹ نہ جلی. جو احباب ای ٹیگ لین سےگزرتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ اس لین سےگزرنے والے کو رکنے کی چنداں ضرورت نہیں ہوتی. رش بالکل نہیں تھا محض ہماری کار تھی. چند میٹر آگے گئے تو ٹول پلازہ کی بیلنس والی بتی کے نہ جلنے پر الجھن محسوس ہوئی اور یہ سوچ کر کہ ریکارڈ میں آئے بنا موٹروے پر سفر مناسب نہیں اور ایگزٹ پر کوئی مسئلہ نہ ہو، ہم نے سروس لین میں کار بیک کی. بمشکل 8 سے دس میٹر کا فاصلہ ہوگا. ٹول پلازہ کے پاس نسبتا کھلی جگہ میں کار روک کر ڈاکٹر صاحب جو کار ڈرائیو کر رہے تھے، ٹول پلازہ کیبن کی طرف گئے جہاں سے وہ موٹر وے پولیس کے ساتھ واپس آئے. بشرے پر غصے کے آثار تھے. کار کے کاغذات نکالے اور پولیس آفیسر کی طرف متوجہ ہوئے. موٹروے پولیس آفیسر کا موقف تھا کہ آپ موٹروے پر کار بیک نہیں کر سکتے، اس لیے آپ کا چالان ہوگا جبکہ ڈاکٹر صاحب کا موقف تھا کہ آپ کے ٹول پر مشین کام نہیں کر رہی جس کی وجہ سے ہم نے قانون پسندی کا ثبوت دیتے ہوئے کارڈ حاصل کرنے اور انٹری کروانے کے لیے سروس لین میں کار بیک کی.

    غیر دوستانہ تاثرات چہرے پر سجائے موٹر وے پولیس آفیسر نے گاڑی کے کاغذات ڈاکٹر صاحب سے لے لیے اور ان کے موقف کو غلط قرار دیتے ہوئے اور ان کی قانون پرستی اور اصول پرستی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے 17 سو روپے کا چالان کر دیا . جبکہ کارڈ نہ ملنے کا معاملہ اگلے ٹول پلازہ پر چند روپوں میں حل ہو جانا تھا . ہمیں اس دن کار بیک کرنے پر نہیں اصول پرست ہونے پر چالان ادا کرنا پڑا

    دوسرا واقعہ
    چند سال پہلے ہم دیوسائی کی سیر کو گئے. شیو سر لیک کا راستہ زیر تعمیر تھا، اور صرف جیپ ٹریک تھا. بذریعہ کار ہم پہنچ تو گئے لیکن واپسی پر سڑک کی تعمیر کے لیے بکھیرے گئے بڑے نکیلے پہاڑی پتھروں نے کار کا آئل چیمبر لیک کر ڈالا. آئل بہہ جانے سے ہماری کار اس سرسبز ویرانے میں جام ہوگئی. ہم سے پیچھے ایک جیپ تھی جس نے ہمیں بلامعاوضہ بریک آئل مہیا کیا اور انسانی بستی کے آنے تک ہمارے ساتھ رہنے کا وعدہ کیا. کچھ آگے جا کر کار ایک چشمے میں پھنس گئی اور تب تک بریک آئل بھی دوبارہ بہہ چکا تھا. تمام فیملی تیز دھار سرد ترین چشمے سے پیدل گزر کر دوسری طرف پہنچی. جون کا دن تھا اور گلیشئیرز کے پگھلنے سے بننے والے چشمے میں ایک سیکنڈ بھی گزارنا مشکل تھا. پانی کا بہائو لمحہ بہ لمحہ تیز ہو رہا تھا. کوئی پل جاتےتھے کہ گاڑی کو پانی دھکیل کر سڑک کے کنارے سے گہری کھائی میں دھکیل دیتا. اس جیپ کے سواروں نے ہمارا ساتھ نہیں چھوڑا. وائرلیس پر کچھ کالز کیں اور کچھ مزید سیاح بھی ہمارے ساتھ شامل ہوئے. جب ہمیں مزید مدد حاصل ہوگئی اور کار کے چشمے سے باہر آنے کی صورتحال پیدا ہوگئی، تب اس جیپ کے سواروں نے ہم سے اجازت لی کیونکہ وہ انٹیلیجنس کے ایک میجر اور ان کے چند ساتھی تھے جنہوں نے وقت مقررہ پر اپنی چھائونی میں رپورٹ کرنا تھی. اس چشمے سے نکلنے کے بعد ہمیں ٹوچین کر کے نزدیکی انسانی آبادی تک پہنچانے والے ایک مجسٹریٹ اور ان کے ساتھی گرداور حضرات تھے. انہوں نے سول گیسٹ ہائوس میں فیملی کے ٹھہرنے کا تب تک کے لیے انتظام کیا جب تک ہماری کار کی بریکس درست کروائی جا سکیں.

    چلم چوکی ایک خوبصورت چھوٹا سا گائوں ہے. جہاں موبائل فون اور ٹی وی ڈش کیبل ہنوز اجنبی ہیں. بیرونی دنیا سے رابطہ پی ٹی سی ایل یا آنے جانے والے سیاح اور فوجی ہیں. سو ایک سیاح فیملی کا پھنس جانا گائوں کے باسیوں کے لیے ایک بڑا واقعہ تھا. تمام گائوں کے مرد ہمارے ارد گرد جمع تھے اور اپنی اپنی رائے دے رہے تھے. اجنبی جگہ، فیملی کا ساتھ اور سواری بےکار. خاصی غیر یقینی صورتحال تھی. گائوں میں آٹومیٹک کار کے لیے کوئی ورکشاپ موجود نہیں تھی، سو کار کی مرمت ممکن نہ تھی. ہم پھنس چکے تھے کہ ہماری کار کے خراب ہونے اور سیاح فیملی کے پھنس جانے کی خبر سن کر ایک نوجوان میجر صاحب ہماری مدد کو آ پہنچے. اور کار کو اپنی پراڈو کے ساتھ ٹوچین کرنے کی آفر کی. وہ گلگت کے ایک بااثر گھرانے کے فرزند بھی ہیں. رات 11 بجے جو ایسے دوردراز پہاڑی علاقے کے لیے رات کے تین بجے کے قریب کا وقت ہے، ہم میجر صاحب کی پراڈو کے ساتھ موٹی رسیوں سے کار باندھ کر پہاڑی راستوں پر استور کی جانب چلے. کار کا وزن کم کرنے کے لیے سواریاں اور سامان بھی میجر صاحب کی جیپ میں بھیج دیا گیا. چند کلومیٹر کے سفر میں تین بار رسی ٹوٹی تو سمجھ آیا کہ کار کو اس طرح استور تک پہنچانا ممکن نہیں. سو دونوں سواریاں واپس چلم کی طرف موڑی گئیں. ڈاکٹر صاحب سول گیسٹ ہائوس میں فیملی کو غیرمحفوظ سمجھ رہے تھے. میجر صاحب نے ہمارے ٹھہرنے کا انتظام آرمی گیسٹ ہائوس کے وی آئی پی سویٹ میں کروایا. جہاں رات ایک بجے سفید چنوں، دہی اور مصالحہ رائس کے ساتھ گرماگرم چائے اور انگیٹھی نے ہمیں زندہ اور محفوظ ہونے کایقین دیا.

    اگلے روز ایک فوجی صوبیدار اور ایک لوکل لیکن انتہائی ماہر کار مکینک نے بریک چیمبر کو عارضی بنیادوں پر درست کر دیا. وہ عارضی درستگی اتنی پائیدار ثابت ہوئی کہ اسی کار پر ہم نے سارا جی بی دیکھا اور گھر تک واپس بھی پہنچے.

    ان واقعات میں آپ اداروں کے افراد کے انفرادی رویوں پر غور فرمائیے. ادارے بذات خود عوام کی مدد، خدمت اور حفاظت کے لیے تشکیل دیے جاتے ہیں. پولیس آفیسر کا اپنی طاقت کو استعمال کرنا، بیوروکریسی کے اہلکاروں اور فوجی آفیسرز کا اپنی طاقت کو استعمال کرنا بالکل الگ الگ انداز میں تھا.

    اصول انسانوں کے لیے ہوتے ہیں، انسان اصولوں کے لیے نہیں. اچھے برے انسان اور رویے ہر ادارے میں پائے جاتے ہیں، اس سے بحیثیت مجموعی ادارے درست یا غلط نہیں ٹھہرتے. ہاں انصاف کے تقاضے ہر جگہ پورے کیے جانے چاہیے.

  • پھر اس خنجر کی تیزی کو مقدر کے حوالے کر-ہارون الرشید

    پھر اس خنجر کی تیزی کو مقدر کے حوالے کر-ہارون الرشید

    m-bathak.com-1421247288haroon-rasheed

    اللہ پاکستان کی حفاظت کرے گا۔ طالب علم کو رتی برابر شبہ نہیں مگر وہ جو مولانا ظفر علی خان نے کہا تھا : ؎

    توکل کا یہ مطلب ہے کہ خنجر تیز رکھنا اپنا
    پھر اس خنجر کی تیزی کو مقدر کے حوالے کر

    جیسا کہ سیدّنا علی کرم اللہ وجہہ نے ارشاد کیا تھا : ہر آدمی کا اپنا سچ ہے اور ہر آدمی اپنے سچ کا خود ذمہ دار۔

    اتوار کی شب کراچی پہنچا اور اب بدھ کی دوپہر تک کئی باخبر لوگوں سے ملاقات ہو چکی۔ کچھ ان کے سوا بھی جو اندازوں اور افواہوں پہ بسر کرتے ہیں۔ ایک رائو انوار باقی ہیں۔ اُمید ہے کہ کچھ دیر میں ان کے نیاز حاصل ہونگے اور ایک حد تک تصویر مکمل ہو جائے گی۔
    بیس برس ہوتے ہیں‘ لاہور کے قوّت متخیلہ سے مالا مال ایک اخبار نویس دہلی پہنچے۔ کلدیپ نیئر سے ملاقات ہوئی تو فصاحت کا انہوں نے مظاہرہ کیا۔ کچھ دیر ہنستے رہے۔ پھر پوچھا : کب سے آپ اس شہر پہ عنایت فرما رہے ہیں۔ ”سات دن سے‘‘ انہوں نے کہا۔ بزرگ اخبار نویس نے حیرت سے انہیں دیکھا اور بڑ بڑائے‘ نصف صدی سے دارالحکومت میں مقیم ہوں‘ مگر اس اعتماد سے گفتگو نہیں کر سکتا۔

    جو جانتے ہیں‘ وہ محتاط ہیں؛ چنانچہ فتویٰ صادر کرنے سے گریز کرتے ہیں کہ آنے والا کل کیا لائے گا۔ جن کی کوئی ذمہ داری نہیں اور کسی کے سامنے وہ جوابدہ نہیں‘ وہ کچھ بھی ارشاد کر سکتے ہیں۔ ایسے ہی ایک دوست نے کاروبار جن کی تگ و تاز کا مظہر ہے‘ کل شب سمندر کنارے کی ضیافت میں ہم سب کو مطلع کیا کہ کراچی میں رینجرز کا ہر چوتھا آدمی ذاتی کاروبار میں مصروف ہے۔ مزید برآں یہ کہ امسال پاکستانی فوج نے‘ شوال میں اربوں روپے کی چلغوزوں کی فصل کا نصف ہتھیا لیا۔ پہلی بات پر حتمی تبصرے سے مسافر نے گریز کیا۔ دوسری افواہ پر عرض کیا : اپنی ایک ماہ کی تنخواہ میں آپ کی نذر کروں گا‘ اگر آپ یہ الزام ثابت کر سکیں۔ اس پر تھوڑا سا وہ کسمسائے‘ حسب توفیق تھوڑا سا شرمائے اور یہ فرمایا : مارکیٹ میں اطلاع یہی ہے۔

    افواہوں اور مغالطوں کی اس گرم بازاری کے باوصف‘ خواص اور عامی‘ ملکی اور غیر ملکی‘ لیڈر اور اخبار نویس‘ این جی اوز کے بھڑبونجے‘ اپنی استعداد کے مطابق، مسلسل جس میں حصہ ڈالتے رہتے ہیں، کچھ حقائق واضح ہیں اور کچھ سوالات پوری طرح نمایاں۔

    سب سے اہم یہ کہ 22 اگست سے پہلے کا کراچی اب کبھی بحال نہ ہو سکے گا۔ وہ دن جب الطاف حسین نے پاکستان کو دنیا کا کینسر کہا اور پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگایا۔ دوسری جماعتوں سے یہ مختلف رہی ہے۔ ایم این اے، ایم پی اے، سیاسی کارکن اور عہدیدار، دوسری پارٹیوں میں بھی ہوتے ہیں۔ اس کا ایک لشکر ہے، تربیت یافتہ اور اشارے کا منتظر۔ خون بہانے کا عادی Trigger Happyسیکٹر انچارج، جن کے دفاتر تھے اور جو ایک مافیا کی تشکیل کا، اہم ترین حصہ تھے۔ صدر دفتر 90 سمیت، جس کا دوسرا نام بیگم خورشید ہال بھی ہے، یہ سب کے سب دفاتر اُجڑ چکے۔ فاروق ستار خواہ الٹے لٹک جائیں، ان کی بحالی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ الیکشن وہ لڑ سکتے ہیں، ووٹ لے سکتے ہیں، تقریر فرما سکتے ہیں، صف بندی کرسکتے ہیں، مگر ہڑتال نہیں کرا سکتے۔ وہ کیا، کوئی اور بھی شہر کو خوف زدہ نہیں کرسکتا۔ بلیک میل نہیں کر سکتا۔

    غیر قانونی طور پر تعمیر کردہ درجنوں دفاتر گرائے جا چکے، باقی برباد ہیں۔90 اب کبھی انہیں واپس نہ ملے گا۔ اس کا ایک بڑا حصہ سرکاری اراضی پر مشتمل ہے۔ جتنا جائز ہے، وہ الطاف حسین کے ایک بھائی کے نام ہے۔ پارٹی کا کوئی تعلق اس سے نہیں۔ کیا اسے گرا دیا جائے گا، یا کسی قومی ادارے کی شکل اختیار کرے گا۔ اس سوال پرسنجیدگی سے غوروفکر کا آغاز ابھی نہیں ہوا۔

    تربیت یافتہ قاتلوں میں سے ساڑھے چھ سو گرفتار ہیں، کچھ فرار ہو کر بیرون ملک چلے گئے یا ملک کے باقی حصوں میں۔ واپسی کے وہ آرزومند ہیں مگر واپس آ نہیں سکتے۔ پیر اور منگل کے دن واسع جلیل اور ندیم نصرت کی تقاریر سے آشکار ہے کہ وطن واپسی کی امید ختم ہو چکی۔ باقی زندگی وہ بھارت کا گیت گاتے رہیں گے۔ مہاجروں، بلوچوں اور پشتونوں کے لیے ”آزادی‘‘ کا مطالبہ کرتے رہیں گے۔ برطانوی حکومت سے کچھ زیادہ امید نہیں کہ ان کے خلاف کارروائی کرے۔ امریکہ بہادراور بھارت کا وہ تزویراتی حلیف ہے اور کم از کم لندن کی ایم کیو ایم بھارت کے علاوہ‘ خود ان کا ایک اثاثہ۔چین کے ساتھ‘ پاکستان کے بڑھتے ہوئے معاشی روابط‘ ارض پاک میں بیجنگ کی طرف سے‘ سینکڑوں ارب ڈالر کی ممکنہ سرمایہ کاری کے امکان نے انکل سام کو ناراض کر دیا ہے‘ انگریز سرکار کو بھی‘ بھارت مشتعل ہے۔ اس کے لیڈر اعلان کر چکے کہ پاک چین تجارتی راہداری بنانے کی وہ اجازت نہ دیں گے۔

    بار بار جنرل راحیل شریف کا جملہ یاد آتا ہے‘ ایوان صدر اسلام آباد میں‘ صدر اشرف غنی کے اعزاز میں برپا تقریب میں‘ جو انہوں نے میرے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا۔ امریکہ کا وہ قصد رکھتے تھے۔ عرض کیا: افغانستان اور چین کے دورے تو کامیاب رہے‘ امید ہے ‘ اس کی بھی بھر پور تیاری آپ نے کی ہو گی۔ ایک ذرا سی تمہید کے بعد کسی توقف اور تامل کے بغیر کہا: اس خطے کی صورت حال یکسر بدل جائے گی۔

    چین کو امریکہ اب اپنا سب سے بڑا حریف سمجھتا ہے۔ وہ امریکہ جو ستر برس سے ایک نیا عالمی نظام تشکیل دینے کے لیے سرگرم ہے اور جنرل ڈیگال کے بقول دنیا کے ہر ملک کا پڑوسی ہے۔ پاکستان چین کا حلیف ہے ۔ دفاعی معاہدہ کوئی نہیں۔ مستقبل قریب میں ہو گا بھی نہیں لیکن پاکستان کی بقا اور استحکام‘ بیجنگ کے لیے اتنے ہی اہم ہیں جتنے امریکہ کے لیے اسرائیل کے۔ اسرائیل کے برعکس پاکستان ایک ناجائز ریاست نہیں۔ اس کے اندرونی معاملات میں چین کی کوئی مداخلت بھی نہیں۔ بھارتی عزائم اور دونوں کی مشترکہ ضروریات اب انہیں قریب تر لاتی جائیں گی۔ اڑی حادثے کے بعد‘ پاکستان کی سلامتی کو جو خطرات لاحق ہیں‘ چین کو اس پر لازماً تشویش ہوگی۔ معلومات نہیں‘ تجزیے کی بنیاد پر میں عرض کرتا ہوں کہ تبادلہ خیال کاسلسلہ خاموشی سے جاری ہو گا۔ بعید نہیں کہ جلد ہی اعلیٰ سطح کا ایک چینی وفد پاکستان کا دورہ کرے۔

    امریکہ اور برطانیہ یہ پسند کریں گے کہ پاکستان کو بھارت کم از کم چھوٹا موٹا زخم لگانے میں کامیاب رہے۔ چین اسے ٹالنے کی کوشش کرے گا۔ نریندر مودی عوامی جذبات سے کھیلنے والے ایک اتھلے سیاستدان ہیں۔ وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں مگر پاکستان میں ان کے (کارندے) کمزور پڑ گئے۔ مہم جوئی اگر کی تو لازم نہیں کہ اسے محدود رکھ سکیں گے۔ پاکستان کو وہ نقصان پہنچا سکتے ہیں مگر بھارت کا عالمی طاقت بننے کا خواب ہمیشہ کے لیے زمین بوس ہو جائے گا۔ یہ ہے پاکستان کا ایٹمی میزائل پروگرام اور یہ پاکستان کی فوج کھڑی ہے۔

    دہشت گردی کے خلاف تیرہ سالہ جنگ نے‘ جسے دنیا کی بہترین لڑاکا فوج بنا دیا ہے۔ وہ مستعد اور بیدار ہے۔ برطانیہ کے ایک ممتاز عسکری تھنک ٹینک کے بہت پہلے مرتب کئے گئے ایک مطالعے کے مطابق‘ خارجی خطرہ برپا ہوا تو پاکستانی قوم تیزی سے متحد ہو جائے گی۔ عمران خان کا احتجاج باقی نہ رہے گا۔ پرویز رشید‘ طلال چوہدری اور دانیال کی زبانیں بند کردی جائیں گی۔ منظر ہی دوسرا ہوگا۔
    ایک طرف پاکستان کا ایک ایک دشمن بے نقاب ہو رہا ہے۔ دوسری طرف لاحق خطرات کی شدت میں اضافہ ہے۔ ایک آدھ دن کی کسل مندی کے بعد بھارت کے مقابل‘ عسکری اور سیاسی قیادت ‘ایک ساتھ بروئے کار آئی ہے۔ اگلے چند دنوں میں زیادہ سرگرمی کا امکان ہے۔
    اللہ پاکستان کی حفاظت کرے گا۔ طالب علم کو رتی برابر شبہ نہیں مگر وہ جو مولانا ظفر علی خان نے کہا تھا: ؎

    توکل کا یہ مطلب ہے کہ خنجر تیز رکھنا اپنا
    پھر اس خنجر کی تیزی کو مقدر کے حوالے کر

  • یہ تصویر نہیں، بھارت کی ناکامی کی تحریر ہے – ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

    یہ تصویر نہیں، بھارت کی ناکامی کی تحریر ہے – ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

    عاصم اللہ بخش ایک تصویر ہزار الفاظ کی تحریر کی نسبت زیادہ بہتر ابلاغ کرتی ہے.
    اسی کی ایک مثال یہ تصویر ہے.
    اس ایک تصویر میں بھارت کا غصہ، جھنجھلاہٹ اور پریشانی عیاں ہے. اضطراب اس قدر زیادہ ہے کہ تہذیب، سفارتی آداب اور عمومی اخلاقیات بھی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور اس کے ”میچور“ میڈیا کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتے.

    اس تصویر سے معلوم ہوتا ہے کہ بھارت کشمیر کے حوالہ سے اس سے بھی زیادہ پریشر میں ہے جتنا کہ پاکستان کا خیال ہے. اس میں اس کی بے بسی بھی نظر آ رہی ہے کہ ابھی وہ پاکستان پر کشمیر کے حالات کے حوالہ سے کوئی ایسا الزام نہیں لگا سکا جو اسے کشمیر میں ڈھائے جا رہے انسانیت سوز مظالم کا جواز فراہم کر سکے یا اسے یہ رعایت دلا سکے کہ یہ دراصل کشمیریوں کی اپنی تحریک نہیں بلکہ پاکستان کی سازش ہے. نہ ہی وہ پاکستان کو اپنے تئیں کوئی تادیبی چرکا لگا سکا ہے.

    اس تصویر میں ایک پیغام بھی ہے. بھارت ایک زخمی سانپ کی طرح لوٹ رہا ہے اور پاکستان کو ہر اس جگہ ڈسنے کی کوشش کرے گا جہاں اس کا بس چلا.

    چیف آف آرمی سٹاف کی تصویر لگا کر اس نے اپنی حکمت عملی کی وضاحت بھی کر دی ہے. وہ پاکستانی فوج کو اصل ولن بنا کر دکھانا چاہتا ہے تاکہ پاکستان میں اپنے تخریبی اور قتل و غارت کے پروگرام کو جواز دے سکے، یہ بتا سکے کہ پاکستان فوج اپنے ملک میں بھی لوگوں کو مار رہی ہے اور ہمسایہ ممالک میں بھی گڑبڑ کرتی ہے اور اسی کو ٹارگٹ کیا جانا چاہیے. سب سے بڑھ کر یہ کہ صرف فوجی چہرہ کو بطور دشمن دکھا کر سول ملٹری خلیج کے تاثر کو ابھارنے کی قبیح حرکت کی گئی ہے تاکہ دنیا کو باور کروایا جا سکے کہ سول حکومت کی تو سنی ہی نہیں جاتی ورنہ ہم سے ضرور معاملہ کر لیتے، ہم تو امن کوش لوگ ہیں لیکن پاکستانی فوج ہمیں زچ کیے ہوئے ہے.

    دشمن نے اپنے عزائم ہر سطح پر واضح کر دیے ہیں. پاکستان میں اندرونی امن و امان اور سیاسی استحکام پاکستان کی بیرونی سکیورٹی کے لیے اب لازم و ملزوم ہے. البتہ دشمن کے لیے ہمارا پیغام یہ ہے کہ ہتھیار سے زیادہ اس ہتھیار کو چلانے والا اہم ہوتا ہے. کوئی کمپیوٹر پروگرام ڈاؤن لوڈ کر لینا ایک بات ہے، اسے صحیح طریقے سے آپریٹ کرنا بالکل دوسری بات. پورے بھارت میں ایک بھی بندہ اس قابل نہیں کہ فوٹوشاپ ہی ٹھیک سے استعمال کر سکے.

    بچے، یہ تھپڑ نہیں ”شاباش“ والا پرنٹ مارک ہے.!