Tag: پانامہ لیکس

  • رجوع کا وقت – رضوان الرحمن رضی

    رجوع کا وقت – رضوان الرحمن رضی

    رضوان رضی اگر بارِ خاطر گراں نہ گذرے اور جان کی امان عطا ہو تو عرض بس اتنا ساکرنا تھا کہ جن لوگوں نے بہت بڑے بڑے منہ کھول کر وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف ، ان کے بچوں ، رشتے داروں اور دیگر ساتھیوں کے مالی معاملات کے عدلیہ کے پاس جانے پر بغلیں بجائی تھیں اور اسے اپنی فتح پر محمول کیا تھا ،ان کا اپنی پہلی رائے سے رجوع کرنے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ اہلِ نظر کو تو بات سمٹتی نظر آ رہی ہے اور اگر کسی کس و ناکس کو اب تک بھی نظر نہیں آ رہی تو وہ اپنی آنکھوں کا علاج کروائے۔

    خواہشات کے انبوہ اور نفرتوں کے انبار اپنی جگہ لیکن عام محاورہ یہی ہے کہ ’’قانون اندھا ہوتا ہے ‘‘ اور یوں قانون کے ایوانوں میں بیٹھے اس کے نمائندے وہی کچھ دیکھتے ہیں جو انہیں ثبوتوں کے ساتھ ان کی میز پر لا کر دکھایا جاتاہے۔ ہمارے ملک میں نافذ برطانوی قانون کے مطابق اگر جج اپنی آنکھوں کے سامنے کسی بے گناہ کا قتل ہوتے ہوئے بھی دیکھ لے تو وہ اس کا فیصلہ اس وقت تک کرنے کا مجاز نہیں ہوتا جب تک کہ ریاست کے قانون نافذ کرنے والے ادارے اس کے سامنے اس واقعے کے تمام ثبوت اور گواہیاں لا کر پیش نہ کر دیں۔ وہ زیادہ سے زیادہ ’سووموٹو‘ (خود اختیار کردہ ) نوٹس کے تحت ان اداروں کو ثبوت جلدی اور ایمانداری سے پیش کرنے کاتو کہہ سکتا ہے لیکن اپنے آنکھوں دیکھے واقعے پر بھی کوئی فیصلہ سنانے سے عاری ہوتا ہے۔ جج تو خود کسی واقعے کی تحقیقات بھی نہیں کرسکتا اس کے لئے پھر اسے ریاست کے دیگر اداروں پر ہی انحصار کرنا ہوتا ہے۔

    دراصل ہماری عمومی عدالتوں میں جج ایڈووکیٹ جنرل (جیگ) برانچ سے معاملات ذرا مختلف طریقے سے فیصل ہوتے ہیں ، اگرعدالت عظمیٰ کے سامنے پیش کئے جانے معاملات اور ان کے ثبوت جیگ برانچ کے سامنے پیش ہوتے اور ملزم کوئی سویلئن ہوتا تو وہ یقینناً سزا سے نہ بچ پاتا، وردی پوش جرنیلوں کا معاملہ تا ہم دیگرہے کہ ان کے منہ سے نکلا ہر لفظ ہی دراصل قانون ہوتا ہے۔ اس لئے کشمیر پر بھارتی فوج کے خلاف دفاع سے لے کر مشرقی پاکستان اور چار مارشل لاوں تک کے معاملے پر کسی ذمہ دار جرنیل کے خلاف یہ قانون کبھی حرکت میں نہیں آیا، لیکن تخریب کاری کے ’شک‘ میں پکڑے جانے والوں کی پھانسیاں نان سٹاپ جاری ہیں۔ کہیں تو کس سے کہیں؟

    گورے نے اپنی نوآبادیات میں جیگ برانچ متعارف ہی اس لئے کروائی تھی کی غلاموں کی فوج میں نظم و ضبط کے نام پر اپنے حکم اور حکمرانی کا شکنجہ اچھی طرح کس کے رکھا جائے کہ کسی کو ملکہ کے نام پر جان دینے کے علاوہ کچھ اور سوچنے کی ہمت ہی نہ ہو۔ سوچوں پر پہرے بٹھانا اسے ہی کہتے ہیں۔

    سارے معاملات کی فائل اسی حوالے سے تیار کی گئی تھی لیکن وہ کیا ہے کہ مقدمہ ایک سویلئن عدالت میں پیش ہو گیا ہے اور چوں کہ ملک کی عدالتیں برطانوی ترکے میں چھوڑے رومن قانون کے تحت رو بہ عمل ہیں تو یہ انہی حقائق پر اسی معیار کی بناء پر فیصلہ کریں گی۔ اب معاملہ یہ ہے کہ میاں محمد نواز شریف صاحب نے بیرونِ ملک اثاثے کیسے بنائے؟ اور اگر یہ اثاثے بنائے تو ان کے لئے ذرائع آمدن کہاں ہیں؟ اور اگر یہ ذرائع آمدن موجود ہیں تو ان کا اظہار ان کاغذات میں کیوں نہیں جو انہوں نے اپنی نامزدگی کے وقت الیکشن کمیشن کو پیش کئے تھے؟ اور چوں کہ انہوں نے ایسا کرکے جھوٹ بولا ہے ، اس لئے ان کو نا اہل قرار دیا جائے۔
    آج کل ویسے بھی بہت سے لوگوں کو چچا یاد آ رہے ہیں لیکن ہمیں ایسے وقت میں چچا غالب یاد آئے اور کیا خوب یاد آئے
    مگس کو جنگل میں جانے نہ دیجیو
    کہ نا حق خون پروانے کا ہوگا

    کیسی کیسی کہانیاں گھڑی ہیں ہمارے محترمین نے۔ جب حالات غیر معمولی ہوں تواقدامات بھی غیر معمولی ہی ہوا کرتے ہیں۔ اگر میاں شریف اور ان کے خاندان کے اثاثوں کے بارے میں شکوک ہیں تو دونوں مواقع پر جب ان سے تمام کاروبار اور جائیداد چھین کر ان کو جلاوطن کیا گیا ، توکیا وہ حالات شکوک کے ہالے میں گھرے ہوئے نہیں ہیں؟ جس قانون کے تحت ان کی اتفاق فاونڈری کو قومیایا گیا اور بعد ازاں صرف ان کو واپس تھمایا گیا جب کہ باقیوں کے اثاثوں کو سرکاری تحویل میں ہی رکھا گیا ، یا جس قانون کے تحت ان کو قتل کے مقدمے میں سزا یافتہ ہونے کے باوجود سعودی شاہی جہاز پر جلاوطن کیا گیا تھا بس اسی قانون کے تحت یہ رقوم بھی ملک سے باہر گئی ہیں۔ چوں کہ ہم میں بحثیت قوم یہ یارا نہیں کہ ہم کسی وردی پوش جرنیل سے اس قانون کی کسی شق کے بارے میں استفسار کر سکیں تو پھر میاں صاحب اور ان کے خاندان سے بھی یہ سوال کرنے کا حق نہیں رکھتے، یہاں پر یقینناً ہمارے معاشرے اور قانون کے پر جلتے ہیں۔

    یہ تمام باتیں کسی مظاہرے یا دھرنے کے کنٹینر پر بنے سٹیج سے اوئے توئے کے ساتھ کرنے کے لئے تو اچھا مصالحہ ہیں لیکن ’اندھے قانون‘ کے سامنے ان کی حیثیت پرِ کاہ کے برابر بھی نہیں۔

    تازہ ترین اطلاعات یہ ہیں کہ کوئی تین ماہ قبل میاں صاحب کے بڑے صاحبزادے کچھ ہفتے سعودی عرب میں مقیم رہے۔ بظاہر تو مقصد اپنی دوسری اہلیہ کے ساتھ کچھ وقت گذار نا تھا لیکن دراصل اپنے ان اثاثوں کو قانونی غلاف پہنانا تھا۔ ایک شخص جو بیس کروڑ والی آبادی اور 270 ارب ڈالر سے زائد جی ڈی پی والے ملک کا تین دفعہ وزیر اعظم رہ چکا ہو، کیا اس کو پوری دنیا میں کوئی ایک شخص بھی دستیاب نہیں ہوگا جو یہ کہہ سکے کہ میاں صاحب کی تمام ناجائز دولت اس کے تحفے کا شاخسانہ ہے؟ اور ظاہر ہے کسی نے کہہ دیا ہے اور ہمارے ملک میں نافذ ’اندھے قانون‘ نے تو پیش کیے گئے ثبوتوں پر جانا ہے۔

    مقدمہ بنانے والوں کو پتہ نہ چل سکا کہ سال 2011 میں سالانہ ٹیکس ریٹرن کے فارم میں (Dependent)کا خانہ ہی نہیں تھا ۔ اس بات کا باقاعدہ سرٹیفیکیٹ ملک کی سب سے بڑی چارٹرڈ اکاونٹنٹ فرم سے حاصل بھی کر لیا گیا ہے۔ رہی بات بیرونِ ملک اثاثوں کی تو اس کی ٹریل بھی مکمل کیا جا چکی ہے۔ اب تو ان ملزموں کو سزا دینے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ان کو آرمی ایکٹ مجریہ 1942 کے تحت گرفتار کرلیا جائے ، جس خواہش کا اظہار جناب شیخ رشید روزانہ ٹی وی کے مختلف حالاتِ حاضرہ (Entertainment ) کے پروگراموں میں بیٹھ کر کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں تو پھر ہی ان کو ان کردہ گناہوں کے الزام میں لٹکایا جا سکتا ہے۔

    خاکسار نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں ان تمام امور کی رپورٹنگ کر رکھی ہے اور یہ تمام حقائق میری انگلیوں کے رستے ہی قرطاس پر منتقل ہوئے تھے اس لیے میری بہت واضح یادداشت کا حصہ ہیں۔ جن معاملات پر ہمارے ’دوست ‘ ہاتھ ڈال رہے ہیں، ان پر میاں صاحب کو پکڑا تو کیا انگلی بھی نہیں لگائی جا سکتی۔ لیکن جن معاملات پر پکڑ اجا سکتا ہے، اس طرف کسی کا دھیان ہی نہیں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ حدیبیہ پیپر اینڈ بورڈ ملز کے لیے استعمال شدہ مشینری جب اتفاق فاؤنڈری کے سکریپ کے پردے میں بغیر کوئی ٹیکس یا ڈیوٹی دیے درآمد کر کے نصب کی گئی تھی تو پھر اس کے بدلے نیشنل بینک سے قرض جاری کرتے وقت اسے نئی مشینری کیسے ظاہر کیا گیا؟ اور بعد میں یہ قرض جان بوجھ کر ڈیفالٹ کیوں کر دیا گیا؟ اور دیگر اداروں کے ساتھ یہ ادارہ بینک کے حوالے کردیا گیا کہ بیچ کر اپنے پیسے پورے کر لو؟ شاید اس لیے کہ سکریپ کے بدلے نئی مشینری کی قیمت وصول کر کے اب اس مل کو کون بےوقوف چلاتا۔

    یہ تو ایک چھوٹی سی مثال ہے ورنہ میاں صاحبان کی اس طرح کی بے شمار مالیاتی داستانیں اور ان کے کاغذات آج بھی خاکسار کی ذاتی لائبریری میں محفوظ ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ میاں صاحب کے مخالفین کی نظر اس تک کیوں نہیں جاتی؟ تو کیا پھر معاملہ وہی ہے ناں کہ ہمارا سیاسی طبقہ اشرافیہ آپس میں ملا ہواہے، یہ کبھی بھی ایک دوسرے کے خلاف ’درست الزام‘ نہیں لگائیں گے تاکہ ان میں سے ہر فریق کا کام چلتا رہے اور ان کے ووٹرز ایک دوسرے سے لڑتے رہیں؟

  • تین محکمے‘ تین سوال-اوریا مقبول جان

    تین محکمے‘ تین سوال-اوریا مقبول جان

    orya

    جمہوریت ہو یا آمریت‘ شہنشاہت ہو یا کمیونزم‘ کسی بھی نظام کے تحت قائم ریاست میں ایک عدالتی نظام ضرور موجود ہوتا ہے۔ یہ عدالتی نظام کتنا ہی مفلوج کیوں نہ ہو‘ اس کو بادشاہ کے فرامین یا پارلیمنٹ کے قوانین نے بے بس کیوں نہ کر دیا ہو‘ پھر بھی یہ تمام ریاستیں‘ عدالتی نظام کا ایک ہی اعلیٰ و ارفع مقصد بیان کرتے ہیں اور وہ ہے ’’ہر حال میں عدل و انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا‘‘۔ یہی اعلیٰ و ارفع مقصد دنیا کے ہر ملک کی سب سے بڑی عدالت کی بنیادی ذمے داری تصور کیا جاتا ہے۔

    بادشاہ غلطی کر سکتا ہے‘ بے انصافی سے کام لے سکتا ہے‘ پارلیمنٹ قوانین بناتے وقت کسی کا حق غضب کر سکتی ہے‘ کسی چور‘ ڈاکو یا بددیانت کو تحفظ دے سکتی ہے‘ آمر یا ڈکٹیٹر کا تعصب لوگوں کو انصاف سے محروم کر سکتا ہے‘ لیکن ان سب کے خلاف دادرسی‘ فریاد یا انصاف اور عدل کی درخواست صرف اور صرف عدالت عظمیٰ میں کی جا سکتی ہے۔ دنیا کی تاریخ میں کبھی کسی نے یہ الٹی گنگا نہیں بہائی کہ قاضی‘ جج یا عدلیہ کے خلاف بادشاہ‘ صدر‘ یا وزیراعظم کو اپیل یا درخواست دی جائے۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت کا فیصلہ حرف آخر سمجھا جاتا ہے‘ کیونکہ سلطنت کے کسی اور ادارے کا مقصد اولیٰ ’’عدل و انصاف کی فراہمی‘‘ نہیں ہوتا۔ کوئی ادارہ تعلیم مہیا کرتا ہے تو کوئی صحت کی سہولیات‘ کوئی سڑکوں کا جال بچھاتا ہے تو کوئی امن و عامہ کی ذمے داریاں نبھاتا ہے۔

    اپنی ذمے داریاں نبھاتے ہوئے جب یہ ادارے کوتاہی کریں‘ بے انصافی سے کام لیں تو اس وقت عدالتی نظام انصاف کی فراہمی کو یقینی بناتا ہے۔ اسی لیے دنیا کے جدید ترین جمہوری معاشروں میں آئین کے اندر سپریم کورٹ کے اختیارات کے ضمن میں ایک شق یا آرٹیکل ایسا ضرور رکھا جاتا ہے جس کے مطابق سپریم کورٹ کے اختیارات لامحدود ہوتے ہیں۔ وہ انصاف کی فراہمی کے لیے کوئی بھی طریق کار اختیار کر سکتی ہے اور کسی بھی قانون میں پائی جانے والی بددیانتی اور ناانصافی کا خاتمہ کر سکتی ہے۔ آئین پاکستان کا آرٹیکل 184(3) اسی مقصد کے لیے تخلیق کیا گیا تھا۔ اس سے ملتے جلتے آرٹیکل دنیا کے ہر ملک کے آئین میں موجود ہیں جو اپنے ملک کی عدالت کو عدل و انصاف کی فراہمی کے لیے لامحدود اختیارات دیتے ہیں۔

    پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 184(3) کہتا ہے ’’آرٹیکل 199 کے احکام پر اثر انداز ہوئے بغیر عدالت عظمیٰ کو‘ اگر وہ یہ سمجھے کہ حصہ دوم کے باب (1) کے ذریعے تفویض شدہ بنیادی حقوق میں سے کسی حق کے نفاذ کے سلسلہ میں عوامی اہمیت کا کوئی سوال درپیش ہے مذکورہ آرٹیکل میں بیان کردہ نوعیت کا کوئی حکم صادر کرنے کا اختیار ہو گا‘‘۔

    یہ ہے وہ بنیادی مقصد کہ اگر کوئی عوامی اہمیت کا سوال درپیش ہو تو عدالت آرٹیکل 199 کے تحت دیے گئے وسیع اختیارات بھی اور اس کے علاوہ بھی کوئی حکم صادر کر سکتی ہے۔ اس میں سب سے اہم نکتہ عوامی ’’اہمیت کا حامل‘‘ ہونا ہے اور دوسرا بنیادی حقوق کی فراہمی ہے۔ ایک کرپشن فری اور مبنی پر انصاف حکومت‘ پاکستان کے عوام کا بنیادی حق ہے‘ جب کہ اس کرپشن کے حوالے سے حکومتی کرپشن اور بددیانتی اس وقت پاکستان کا سب سے اہم عوامی اہمیت کا مسئلہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاناما لیکس کے معاملے میں ’’عوامی اہمیت‘‘ کے مسئلہ کو سننا شروع کیا ہے۔

    اس وقت سے لے کر اب تک عوام سے نہیں بلکہ سیاسی افراد کی جانب سے ایک بحث کا آغاز کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کو ایسا کرنے کا اختیار حاصل ہے یا نہیں۔ اس بحث کا عوام سے کوئی تعلق نہیں‘ عوام تو بددیانت اور کرپٹ حکمرانوں کو کٹہرے میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس بحث کو چھیڑنے کا اصل مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ عدالت کے اعلیٰ و ارفع مقصد یعنی ’’انصاف کی فراہمی‘‘ کو متنازعہ بنایا جائے۔

    پاناما لیکس کا مسئلہ سپریم کورٹ تک اس لیے پہنچا کہ پاکستان میں کرپشن اور بددیانتی کے خاتمے کی ذمے داری تین اداروں کے پاس ہے۔ -1نیب‘-2 ایف آئی اے اور -3فیڈرل بورڈ آف ریونیو۔ اگر یہ تینوں ادارے اپنی ذمے داریاں نبھاتے توآج پاناما لیکس کا عفریت عوام کے دماغوں پر نہ چھایا ہوتا۔ اگر پاکستان کا کوئی محکمہ اپنی ذمے داریاں ادا نہ کرے تو سپریم کورٹ بلکہ ہائی کورٹ بھی ان کی درستگی کے لیے حکم جاری کر سکتی ہے۔

    سپریم کورٹ اگر اس کیس کے دوران نیب کے حکام کو بلا کر سوال کرے کہ تمہارے قانون کے مطابق اگر کسی حکومتی اہلکار یا فرد پر الزام ہو کہ اس نے کرپشن کی ہے‘ ناجائز ذرایع سے جائداد اور کاروبار کیا اور اپنے معلوم ذرایع سے زیادہ دولت کا مالک ہے تو نیب کا فرض ہے کہ وہ اس شخص کو بلائے اور اسے فرد جرم سنائے پھر یہ اس فرد کی ذمے داری ہے کہ وہ ثابت کرے کہ وہ بے قصور ہے۔ کیا نیب نے پاناما لیکس کے تمام کرداروں کو اس طرح نوٹس جاری کیے اور کیا جواب نہ آنے پر انھیں گرفتار کیا۔

    سپریم کورٹ ایف آئی اے کے حکام کو طلب کر کے یہ پوچھ سکتی ہے کہ کیا تمہارے علم میں آیا تھا کہ اس ملک کے کچھ لوگ جن کا یورپ یا بیرون ملک کوئی کاروبار نہیں‘ وہاں اچانک جائیداد خریدتے ہیں اور کاروبار کا آغاز کرتے ہیں۔ یقیناً پیسہ پاکستان سے گیا ہوگا‘ جسے منی لانڈرنگ کہتے ہیں۔ تم ایک عام آدمی کو خاندان سمیت اٹھا لیتے ہو‘ کیا تم نے اس معاملے میں ایسا کیا۔سپریم کورٹ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے حکام کو بلا کر سوال کر سکتی ہے کہ تمہارا ایک انسپکٹر اگر کوئی شخص ایک گاڑی خرید لے‘ چھوٹا سا گھر بنا لے تو اس کا جینا دوبھر کر دیتا ہے۔ تمہارے سامنے ان لوگوں کی جائیدادیں ایسے بڑھتی چلی گئیں جیسے ان کو اعلیٰ قسم کھاد ملتی رہی۔ وہ مٹی کو ہاتھ ڈالتے تو وہ سونا بن جاتی۔ کیا تمہارے ریکارڈ کے مطابق یہ سب درست ہے۔ کیا تمہیں نہیں معلوم کہ انکم ٹیکس کے انسپکٹر سے لے کر کمشنر تک سب اس ’’قسمت کی باوری‘‘ کا بھید جانتے ہیں۔ سپریم کورٹ ان پچاس سالوں کے بارے بھی جواب طلب کر سکتی ہے۔

    اگر یہ تینوں محکمے اپنی مجبوری کا اظہار کر دیں اور کہیں کہ ہم دباؤ کی وجہ سے ہاتھ نہیں ڈال سکتے تو سپریم کورٹ کو چاہیے کہ ایک حکم نامے کے ذریعے تینوں محکموں کو فوراً ختم کردے اور اس کے افسران کو فارغ کرنے کا حکم صادر کرتے ہوئے ممکنہ سزا بھی سنا دے۔ صرف اس حکم نامے کی وارننگ کی دیر ہے‘ ملک بھر سے ایسے ہزاروں اہل کاروں کا ہجوم سپریم کورٹ کی طرف یہ کہتے ہوئے بھاگے گا کہ ہم اس کرپشن کی تحقیق کر سکتے۔ ہم اہل ہیں‘ ہم راضی ہیں۔ اگر ایسا نہیں کیا جا سکتا تو پھر آئین کی کتاب سے آرٹیکل 184(3) کو کھرچ کر پھینک دینا چاہیے۔

  • پانامہ لیکس اور فلاپ جمہوری تماشا – ثقلین مشتاق

    پانامہ لیکس اور فلاپ جمہوری تماشا – ثقلین مشتاق

    ثقلین مشتاق یہ 3 اپریل2016ء کا دن تھا جب International Consortium of Investigative Journalists نے انکشاف کیا کہ ملک پاکستان کی حکمران شریف فیملی نے عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ چوری کرکے شمروک، چنیڈ رون جرسی، نیلسن انٹر پرائزز لمیٹڈ اور نیسکول لمیٹڈ نامی آف شور کمپنیاں بنائی ہیں۔ اس انکشاف کے بعد بڑے میاں صاحب نے اگلے ہی روز پاکستان کی عوام سے خطاب کرکے اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کرنے کا وعدہ کیا۔ منٹ گھنٹوں، گھنٹے دنوں اور دن ہفتوں میں تبدیل ہوتے گئے لیکن وہ دن نہ آیا جب میاں صاحب نے خود کو احتساب کے لیے پیش کرنا تھا۔ یہ وعدہ بھی میاں صاحب کے الیکشن کے دنوں میں کیےگئے وعدوں کی طرح ہوا ہوگیا۔
    میاں صاحب نے سوچا پانامہ لیکس کیس بھی مہران بینک سیکنڈل کی طرح بریکینگ نیوز بن کر کسی قبرستان کی نامعلوم قبر میں ابدی نیند سو جائے گا۔ شاید اس بار میاں صاحب بھول گئے تھے کہ اصل اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی اس معصومانہ خواہش کو عملی جامہ نہیں پہننے دی گی؟ عمران خان نے مسلم لیگ نون کی نیت کو بھانپ لیا تھا، اس لیے پانامہ پیپرز کے مسئلہ کو حل کرنے کا بیڑا اُٹھا لیا، اور تحقیقات کے لیے نیب، ایف آئی اے اور الیکشن کمیشن کے دروازے پر متعدد بار دستک دی لیکن بڑے بےحس نکلے یہ احتساب کرنے والے، اور غریب عوام کے چوری شدہ پیسہ کی تحقیقات کرنے سے عملا صاف انکار کردیا۔ نیب والے کہتے ہیں کہ یہ ہمارا مسئلہ نہیں، ایف آئی والے کہتے ہیں ہمارا نہیں۔ جی جناب، یہ وہی نیب اور ایف آئی اے ہے جن کے نام سے لوگ خوف کھا کرتے تھے، لیکن اس بار یہ ادارے میاں صاحب کے سامنے ہاتھ کھڑے کر گئے۔ بھلا احتساب کے ادارے کے سربراہان میاں صاحب کی تلاشی کیوں لیں؟

    عمران خان کو جب ملکی کے احتساب کے اداروں سے مایوس پلٹنا پڑا تو ان کے پاس صرف ایک ہی آپشن تھا کہ اس کیس کو عوام کی عدالت میں لے کر جائیں۔ خان صاحب نے بالکل ایسا ہی پانامہ پیپرز کی تحقیقات کے لیے عوام کے ساتھ مل کر احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا۔ شروع میں میاں صاحب اور حکومتی نمائندوں نے اس کو خوشحال پاکستان کی ترقی میں رکاٹ قرار دیا، اور لوگوں کو نیلی، پیلی، ہری، لال بسوں اور ٹرینوں کے پروجیکٹ کی داستان سُنا کر بیوقوف بنانے کی ناکام کوشش کی۔ اگر ترقی ہورہی ہوتی تو ملک پر 20 ہزار ارب ڈالر کے قرضے ہوتے؟ موٹروے گروی رکھی جاتی؟ اگر ترقی ہو رہی ہوتی تو پھر کیا غریب کے چولہے میں ہفتہ میں ایک بار آگ جلتی؟ بچے بھوک سے مر رہے ہوتے؟ سکول جانے کے بجائے ہوٹلوں پر برتن دھوتے؟ لڑکیاں دلہن بننے کا خواب دل میں لے کر ہی مرجاتیں؟ ہاں اگر ترقی ہو رہی ہے تو شاید حکمران جماعت کی آف شور کمپنیوں میں ترقی ہو رہی ہوگی۔

    ترقی کا شوشہ ناکام ہوا تو جمہوریت یاد آگئی، اور عمران خان کے احتجاج سے جمہوریت خطرے میں نظر آنے لگی۔ لیکن میاں صاحب کے دور میں جب ملک کی اعلیٰ عدلیہ پر حملہ کیا گیا، اور جب میاں صاحب فرماتے تھے کہ اب قوم کی تقدیر کا فیصلہ سڑکوں پر ہوگا، لانگ مارچ اور دھرنے کو کوئی نہیں روکا سکتا، تبدیلی کی ہوا چل پڑی ہے روکنے والا تباہ ہوجائےگا، اور زندہ قومیں اپنے جذبات کا اظہار احتجاج سے کرتی ہیں اور گو زرداری گو کی مہم شروع کی تھی تو تب جمہوریت کو خطرہ نہیں تھا۔ اگر عمران خان ملک کے غربیوں کا چوری شدہ پیسہ واپس لینے کے لیے احتجاج کرے تو جمہوریت کو خطرہ ہے۔ ویسے مصباح الحق کے پش اپ سے بھی جمہوریت کو خطرہ ہے اور لگتا ہے عنقریب ارشد خان کی نیلی آنکھوں سے بھی جمہوریت کو خطرہ ہوگا۔

    چادر اور چار دیواری کا درس دینے والے یہ بتانا پسند کریں گے کہ عدالتی حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسلام آباد میں دفعہ 144 لگانا، پرامن کنونشن پر حملہ کرنا، ماؤں، بہنوں کے ساتھ طوفان بدتمیزی برپا کرنا، خواتین کارکن کو بالوں سےگھسیٹنا، ذاتی انا کی بنیاد پر شہریوں کوگرفتار کرنا، کیا چادر اور چار دیواری کے تقدس کی پامالی نہیں؟ برہان اور صوابی انٹرچینج پر پنجاب پولیس نے ظلم و ستم اور انتشار کی جو تاریخ رقم کی، اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ پنجاب پولیس نے کے پی کے کے عوام پر ایسے شلیلنگ اور ربڑ کی گولیں فائر کیں جیسے وہ کسی دوسرے ملک کے باشندے ہوں۔ ایک صوبے کے منتخب وزیراعلیٰ کو ملک کے ایک حصہ دوسرے حصے میں جانے سے روکا گیا۔ اور اس کارنامے کو جمہوریت کا نام دیا جا رہا ہے۔

    جمہوریت کی تسبیح کرنے والے خود جمہوریت کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ پتہ نہیں جمہوریت کس چیز کا نام رکھا ہوا ہے؟ جمہوریت کی آڑ لی جائے یا ایک منصوبے کا پچاس پچاس مرتبہ افتتاح کیا جائے لیکن پانامہ حکمرانوں کے گلے کا طوق بن چکا ہے۔ خدا بھلا کرے خان صاحب کا جس کی شہر بند کرنے کی دھمکی کام کر گئی اور ملک کی اعلیٰ عدلیہ نے خان صاحب کی فریاد سن لی۔ اب پاکستانی عوام کی نگاہیں سپریم کورٹ پر مرکوز ہیں۔ چند دنوں تک دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔ ان شاءاللہ عنقریب اس ملک کے غریب کا پیسہ واپس آئے گا اور میرے ملک کا غریب راج کرے گا۔

  • اوریا مقبول جان کی نواز شریف کے اثاثوں پر خصوصی تحریر

    اوریا مقبول جان کی نواز شریف کے اثاثوں پر خصوصی تحریر

    اوریا مقبول جان انکم ٹیکس کے گوشواروں کی دنیا بھی عجیب ہے۔ ہر سال وکیل اس ملک کے سرمایہ داروں کا ٹیکس بچانے کے لیے ایسے ایسے داؤ پیچ اور ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں کہ آدمی حیران اور ششدر رہ جاتا ہے۔ ایسے ہی ایک گوشوارے کے بارے میں آج کے ایک اخبار میں ایک مشہور آڈٹ فرم کے حوالے سے یہ رپورٹ شائع ہوئی ہے کہ وزیراعظم پاکستان اور ان کی صاحبزادی مریم نوازشریف کے ٹیکس گوشواروں میں کسی بھی قسم کی کوئی لاقانونیت نہیں پائی جاتی اور یہ عین انکم ٹیکس قانون کے مطابق ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ کسی بھی پرائیویٹ آڈٹ کمپنی خواہ وہ کس قدر قابل اعتماد کیوں نہ ہو، کی کوئی رپورٹ اس وقت تک قانون میں اعتماد کا درجہ نہیں رکھتی جب تک اس کام پر مامور سرکاری محکمہ آڈیٹر جنرل یا انکم ٹیکس آڈٹ کے افسران اس کی تصدیق نہ کریں۔ اس لیے کہ تمام آڈٹ فرمیں مختلف کمپنیوں کے آڈٹ اس لیے کرتی ہیں کہ ان کے نامکمل کاغذات کو مکمل کرائیں، اور ان کی خامیاں دور کریں۔ ان کمپنیوں کا خرچہ وہ سرمایہ دار خود ادا کرتے ہیں البتہ وہ رپورٹ قابل اعتماد سمجھی جاتی ہے جو کسی عدالت یا حکومتی محکمہ کی جانب سے انکوائری کےلیے تھرڈ پارٹی آڈٹ کے طور پر پیش کی جائے۔ اس لیے پہلی بات تو یہ کہ آڈٹ رپورٹ کی حیثیت ایک خبر سے زیادہ نہیں، جو ایک اخبار میں شہ سرخی کے طور پر شائع ہوئی۔

    آئیں اب دیکھتے ہیں کہ میاں محمد نوازشریف کے 2011ء میں انکم ٹیکس کے گوشواروں میں کیا تھا جس کی پانچ سال بعد ایک پرائیویٹ آڈٹ فرم سے تصدیق کروائی گئی۔ اس گوشوارے میں ملک کے غریب و بےنوا سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کا نہ کوئی ذاتی کاروبار ہے اور نہ ہی آمدن کا کوئی ذریعہ۔ وہ لندن سے اپنے بیٹے (جن کا نام درج نہیں) سے 1،29،836،905 تقریبا تیرہ کروڑ روپے منگواتے ہیں، جن میں سے وہ اپنی زیرکفالت مریم نواز کو 31،700،1080 یعنی تین کروڑ روپے گفٹ کر دیتے ہیں اور اپنے ایک بیٹے حسن نواز کو بھی 19،459440 یعنی تقریبا دو کروڑ روپے عنایت کر دیتے ہیں۔ میں نے مریم نواز کو زیرکفالت اس لیے لکھا ہے کیونکہ اس انکم ٹیکس کے گوشوارے میں ایک خانہ ہے جس میں یہ سوال پوچھا گیا ہے (اثاثے جو آپ کی بیوی، نابالغ بچوں یا دیگر زیرکفالت افراد کے نام پر ہیں)، اس خانے میں مریم نواز کے نام پر ایک زرعی جائیداد دکھائی گئی ہے جس کا کوئی نام مقام نہیں ہے، لیکن اس کی مالیت 24،851،526 روپے یعنی تقریبا ڈھائی کروڑ روپے بتائی گئی۔

    ایک سال کے بعد خیال آیا کہ یہ زرعی زمین جو مریم نواز کے نام پر ہے، اس کا علیحدہ گوشوارہ جمع کروایا جائے، کہ کہیں لوگ یہ سوال نہ کرنے لگیں کہ باقی دو بچوں کو کوئی جائیداد نہیں دی، کس قدر ناانصاف باپ ہے۔ یوں مریم نواز نے 2012ء میں پہلی دفعہ نیشنل انکم ٹیکس نمبر حاصل کیا اور اپنے باپ سے جو تین کروڑ روپے گفٹ کے طور پر لیے تھے، اس میں سے زمین کی قیمت 24،851،526 روپے واپس کر دیے، گویا باپ کے دیے گئے پیسوں کی صورت تحفے کو زمین کے طور پر بدل دیا۔ ان سارے تحفوں کے بارے میں اس وقت ایک بےچاری اسسٹنٹ انکم ٹیکس کمشنر نے نوٹس جاری کیا کہ یہ ساری دولت جو بیٹے سے باپ اور پھر باپ سے بیٹے اور بیٹی کو دی گئی ہے، اگر یہ کراس چیک کی صورت نہیں ہے تو یہ گفٹ یا تحفہ شمار نہیں ہوگی بلکہ یہ آمدنی شمار ہوگی جس پر آپ کو ٹیکس دینا پڑے گا۔ اس گستاخی پر اس خاتون کو جو سزا بھگتنا پڑی، وہ تاریخ کا حصہ ہے۔

    یہ ہے اس گوشوارے کی مختصر سی کہانی جس کو ایک عام سی سمجھ بوجھ والا آدمی بھی اگر پڑھے تو اسے حیرت و استعجاب کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ وہ میاں محمد نواز شریف جس کے چوہدری شوگر مل میں ایک کروڑ ساٹھ لاکھ کے حصص ہیں، رمضان شوگر ملز اور حدیبیہ پیپرز میں حصے ہیں، وہ پہلے پیسے منگواتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ لندن کے کسی کاروبار کا منافع حاصل کر رہا ہے، اور پھر یہ ”غریب آدمی“ اس میں سے بیٹے بیٹی کو کروڑوں روپے گفٹ کر دیتا ہے، اور اسی سے بیٹی باپ کو زمین کے پیسے ادا کرتی ہے، مگر کیونکہ انکم ٹیکس قوانین کے مطابق کراس چیک کے بغیر رقم دراصل آمدن شمار ہوتی ہے، (یہ وہی زرعی اراضی ہے جس کا انکار مریم نواز اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں کر چکی ہیں) اس لیے سوال اٹھتا ہے مگر جواب کے بجائے بےچاری اسسٹنٹ کمشنر پر نزلہ گرا دیا جاتا ہے. یہ میاں محمد نوازشریف صاحب جن کا کوئی ذریعہ آمدن اس قابل نہ تھا کہ گزارا ہو سکے، اور وہ اپنے بیٹے سے پیسے منگوانے پر مجبور تھے، وہ اس شریف خاندان کے چشم و چراغ ہیں جس کے خلاف 16مارچ 1999ء کو لندن کی ہائی کورٹ نے ایک فیصلہ صادر کیا کہ حدیبیہ پیپرز، میاں شہباز شریف، میاں محمد شریف اور میاں عباس شریف کے خلاف التوفیق انوسٹمنٹ فنڈز نے جو قرضہ واپس لینے کا دعوی کیا ہے، وہ مبنی برحقیقت ہے اور رقم ادا کی جائے۔ 5 نومبر 1999ء تک قرضہ ادا نہ کیا گیا تو عدالت نے شریف خاندان کے چار فلیٹ قرضے کے بدلے میں اٹیچ کر دیے جو لندن میں واقع ہیں۔ یہ وہی فلیٹس ہیں جن کی ملکیت کے بارے میں ہر کوئی مختلف تاریخیں بتاتا ہے۔ میاں محمد شریف کی ملکیت سے فلیٹ براہ راست بچوں کو منتقل ہو گئے اور میاں محمد شریف نے اس دنیاوی دولت کی طرف اپنی درویشانہ خصلت کی وجہ سے دیکھنا بھی گوارا نہ کیا۔

    یہ صرف ایک پہلو ہے۔ ایک جائیداد ہے، ایک گوشوارہ انکم ٹیکس ہے، جوابدہی کرنا ہو تو جس تاریخ سے یہ خاندان اقتدارکی راہداریوں میں آیا ہے، اس دن سے آج تک سوال کیا جا سکتا ہے کہ آپ پر قسمت کی دیوی اس قدر مہربان کیسے ہو گئی؟ یہ صرف پانامہ لیکس کا معاملہ نہیں، پاکستان کے مستقبل کا معاملہ ہے۔ پاکستان کا مستقبل اور ترقی صرف اور صرف ایک بنیادی تصور میں پوشیدہ ہے کہ پاکستان کے تمام ادارے جو انکم ٹیکس، منی لانڈرنگ یا کرپشن ختم کرنے کے ذمہ دار ہیں، وہ اس ملک کے ہر طاقتور کا گریبان پکڑ کر سوال کریں، اور اگر وہ نہ کریں تو عدالت اس پر مجبور کرے، اگر عدالت بھی کچھ نہ کرے، اور اس ظلم پر خاموشی رہے تو یہ ملک کو بربادی کی گہری کھائی میں پھینکنے کے مترادف ہوگا۔

    سوال کیا جاتا ہے کہ عدالت کی حدود کیا ہیں؟ یہ معاملہ تو پارلیمنٹ کا ہے۔ اس ملک کی بدقسمتی یہی ہے کہ عام آدمی کرپشن، منی لانڈرنگ یا انکم ٹیکس چوری کرے تو یہ ایک جرم ہے لیکن سیاستدان ایسا کرے تو یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے، سیاسی انتقام ہے، کسی کو سوال کرنے کی جرات نہیں ہونی چاہیے۔ عام آدمی بددیانتی، کرپشن، منی لانڈرنگ اور ٹیکس چوری کرے تو مجرم اور چور جبکہ کوئی سیاستدان کرے تو سیاسی الزام۔ عدالت پر صرف ایک ہی بات لازم ہے کہ وہ عام آدمی اور صاحب حیثیت کے درمیان عدل کرتے ہوئے فرق کو ختم کر دے۔ کیا نیب کو بلا کر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ تمھارے قانون کے مطابق جس شخص پر الزام ہو، اسے خود اپنی صفائی میں بتانا ہوگا کہ یہ الزام غلط ہے۔ مریم نواز کو نیب قوانین کے تحت پانامہ پیپرز لا کر دکھانا ہوگا کہ اس میں اس کا نام نہیں بلکہ بھائیوں کا نام ہے۔ ایف آئی اے کو بلا کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ تمھارے سامنے پاکستان کے خاندان نے ملک کے باہر اثاثے بنائے، جبکہ ان کا وہاں کوئی ذریعہ آمدن نہ تھا، تم روز منی لانڈرنگ پر عام آدمی کو پکڑتے ہو، تم تحقیق و تفتیش کرکے بتاؤ۔ انکم ٹیکس کے حکام کو بلا کر پوچھا جا سکتا ہے کہ ایک نئی گاڑی خریدنے پر تمھارا انسپکٹر عام آدمی کا جینا حرام کر دیتا ہے، تم نے گذشتہ برسوں میں اس قدر تیزی سے بڑھنے والے کاروبار کے بارے میں کیا کیا۔ اگر یہ عوام کے ٹیکس پر پلنے والے تمام ادارے انکار کر دیں اور کہہ دیں کہ ہم میں یہ ہمت و جرات نہیں کہ ہم قانون پر عملدرآمد کر سکیں تو کیا سپریم کورٹ کے پاس یہ اختیار بھی نہیں کہ وہ ان تینوں اداروں کے تمام اہلکاروں کو بیک جنبش قلم سزا سنا دے، تمام اہلکاروں کو نوکری سے فارغ کیا جا سکتا ہے۔ جو ادارے اپنے بنیادی مقصد یعنی کرپشن، منی لانڈرنگ یا ٹیکس چوری کا خاتمہ کرنے سے انکار کرتے ہیں، ان کے ”وجود مسعود“ کی اس ملک کو کوئی ضرورت نہیں۔ ایسے میں عدالت اس اداروں کی غیرموجودگی میں اپنی مدد کےلیے دنیا کے کسی بھی آزاد تفتیشی ادارے کی مدد لے سکتی ہے۔ لیکن شاید اس کی نوبت ہی نہ آئے۔ ان تینوں اداروں کو ختم کرنے کی وارننگ دے کر دیکھیں، خوف سے ان کی ٹانگیں کانپنے لگیں گی، ہزاروں اہلکار نوکری بچانے اور جیل سے بچنے کےلیے ثبوت ہاتھوں میں لے کر عدالت کی جانب بھاگیں گے۔ اگر یہ نہیں ہو سکتا تو آئین کے آرٹیکل 184 کو کھرچ دینا چاہیے۔

  • ہُن کیہ کریے-ہارون الرشید

    ہُن کیہ کریے-ہارون الرشید

    haroon-rasheed

    اعمال کا دارومدار بے شک نیت پر ہے۔ نیت اگر اچھی ہے تو ابھی سے ریاضت کیوں نہیں؟ ابھی سے شفافیت کیوں نہیں؟ حسنِِ نیت کا اظہار کیا نعرہ بازی میں ہوا کرتا ہے؟
    بلاول بھٹو نے عمران خان کے والد اکرام اللہ نیازی مرحوم کے بارے میں انکشافات کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اعلان کیا‘ وفاقی حکومت نے میرے مطالبات اگر نہ مانے تو پاناما لیکس پر سپریم کورٹ کے کمیشن کو تسلیم کرنے سے وہ انکار کر دیں گے۔ سبحان اللہ!
    کیسے کیسے لیڈر ہیں‘ کیسے کیسے مشیر اور کیسے کیسے دانشور۔ معاشرے کو جب زوال آ لیتا ہے تو کیا کچھ دیکھنا پڑتا ہے۔ اس سے قطع نظر کہ اس خوددار اور باوقار آدمی کی اگر وہ کردار کشی کریں گے‘ ایک عشرے سے لاہور کی مٹی اوڑھے جو سو رہا ہے تو جواب میں کیا سننا پڑے گا؟ کچھ سوالات اور بھی ذہن میں ابھرتے ہیں۔ اس کا خیال کیا یہ ہے کہ وہ بہت طاقت ور ہے؟ دوسروں کو وہ خوف زدہ کر سکتا ہے؟

    عالم تو یہ ہے کہ دو تین برس جزبز ہونے کے بعد‘ آخرکار اس نے ملک کے سب سے ناقبول اور ناکام لیڈر کی اطاعت قبول کر لی ہے۔ ان صاحب کا نام آصف علی زرداری ہے۔ ایک آدھ نہیں‘ تین فوجی آمر‘ ملک کے طاقتور کاروباری طبقات‘ صنعت کاروں اور جاگیرداروں کی ایک قابل ذکر تعداد پیپلز پارٹی کے پہاڑ سے سر ٹکراتی رہی۔ چھیالیس برس میں یہ تمام لوگ کچھ نہ کر سکے۔ جناب آصف علی زرداری نے پانچ برس میں پارٹی کو نمٹا دیا۔ افتادگانِ خاک اور ترقی پسندوں کی بجائے‘ زرگروں کے ایک چھوٹے سے ٹولے کی جماعت اسے بنا دیا۔

    روپے پیسے کا جہاں تک تعلق ہے‘ بہت سے لوگ بلاول بھٹو سے حسنِ ظن رکھتے ہیں۔ رکھنا بھی چاہیے کہ ان کے براہ راست کرپشن میں ملوث ہونے کا کوئی ثبوت ابھی تک سامنے نہیں آیا۔ اس کا مطلب مگر یہ بھی نہیں کہ برطانوی یونیورسٹی کا گریجویٹ‘ والد گرامی کے کارہائے نمایاں سے یکسر بے خبر ہے۔ اس کے ذہن میں یہ سوال کیا کبھی نہ ابھرا ہو گا کہ سرے محل کیا تھا؟ سوئزرلینڈ کے کھاتے کیوں کھولے گئے؟ کس طرح ان کی وجہ سے پاکستانی سیاست برسوں تک بھونچال کا شکار رہی؟ ظاہر ہے کہ وہ اس سے کہیں زیادہ جانتے ہیں۔

    سندھ کی صوبائی حکومت نے کرپشن کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں۔ بچہ بچہ جانتا ہے کہ ٹینکر بھر کر سرکاری پانی بیچنے والے ناجائز سرچشمے (HYDRANTS) کس کا کارنامہ ہیں؟ شہر کی سڑکوں پر لاکھوں سائن بورڈ بھی برسوں وہ دیکھتے رہے۔ ان میں سے ہر ایک بدعنوانی ہی نہیں بدذوقی کا بھی گواہ ہے۔ صوبے کے طول و عرض میں نامکمل عمارتوں کا بین بھی وہ سنتے ہوں گے۔ یہ راز ان سے پوشیدہ تو نہیں کہ سندھ میں ایک خاکروب کی نوکری بھی فروخت کی جاتی ہے۔ جب تک ہو سکا‘ ایک ایک سکول ٹیچر اور کانسٹیبل کی بھی۔
    خوف ایک ہتھیار ہے‘ سوچ سمجھ کر‘ دیکھ بھال کر جو برتنا چاہیے۔ چوک جائے تو تباہی‘ نشانے پر بیٹھ جائے‘ تب بھی خطرناک ہو سکتا ہے۔ کس کی زبان وہ بند کرنا چاہتے ہیں؟ عمران خان کی؟ آج تک کوئی کر سکا؟ مان لیجئے‘ وہ خاموش ہو جائیں‘ تحریک انصاف کے دوسرے لیڈر؟ فرض کیجئے‘ وہ بھی چپ کرا دیے جائیں۔ گلی کی نکڑ پر‘ حجام کی دکان پر‘ محلّے کے چائے خانے میں لاکھوں کارکنوں کی‘ کروڑوں بندگان خدا کی زبانیں کون بند کرے گا؟ ؎

    کس کس کی زباں روکنے جائوں تری خاطر
    کس کس کی تباہی میں تیرا ہاتھ نہیں ہے

    جناب آصف علی زرداری اب تاریخ کا حصہ ہیں۔ معاف کیجئے‘ وہ لوگ سیاست کی حرکیات سے یکسر بے خبر ہیں‘ جن کا خیال یہ ہے کہ دیہی سندھ ان کے چنگل سے نجات نہیں پا سکتا۔ حالیہ ایک سروے میں سندھ کے 68 فیصد رائے دہندگان نے جمہوریت پر فوجی حکومت کو ترجیح دینے کا اظہار کیا۔ کوئی بھی آمریت کو پسند نہیں کرتا۔ آزادی پر غلامی کو کون ترجیح دیا کرتا ہے۔ اب بھی مگر وہ غلام ہی ہیں۔ بلیک میلنگ کا شکار‘ وڈیرے کے علاوہ ڈاکو اور پولیس کے ستم میں مبتلا۔ کسی کا مال محفوظ ہے‘ عزت اور نہ جان۔ خوش فہمی یہ ہے کہ بلاول کو اگر اقتدار ملا تو وہ مختلف ہوں گے۔ حسنِ ظن ہی چاہیے‘ پنجابی کا محاورہ اگرچہ یہ ہے کہ دھان والے گائوں ”پرالی‘‘ سے پہچانے جاتے ہیں‘ مگر حسنِ ظن ہی اختیار کر لیجئے۔ آخر اس میں نقصان ہی کیا ہے؟ چالیس برس کی عمر سے پہلے صاحبزادہ وزیر اعظم نہیں بن سکتا۔ آئندہ کے ان برسوں میں بدگمانی سے خود کو اذیت کیوں دی جائے؟ ؎

    رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
    ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا

    معلوم یہ ہوا کہ عنان ابھی تک زرداری صاحب کے دست مبارک میں ہے۔ بلاول کے اعلان سے انکشاف ہوا کہ عدالتی کمیشن کو وہ مسترد کر سکتے ہیں۔ ایسے کسی اقدام کا فائدہ کسے ہو گا؟ ظاہر ہے قائد اعظم ثانی میاں محمد نواز شریف کو۔ عمر کم سہی‘ دنیا دیکھی ہے‘ کتنی سرزمینیں‘ کتنے المناک حادثے؟ جناب بلاول بھٹو دودھ پیتے بچے تو نہیں کہ اس اعلان کے مضمرات سے بے خبر ہوں۔ ظاہر ہے کہ گرامی قدر والد نے انہیں حکم دیا ہے۔ چلیے حکم نہیں دیا‘ سمجھایا ہو گا۔

    میثاقِ جمہوریت کے تاریخی دن سے‘ دونوں پارٹیوں میں بنیادی ہم آہنگی ہمیشہ موجود رہی۔ وہ میثاق جو امریکہ اور برطانیہ کے ایما پر طے پایا۔ جس کا مقصد پاکستان کو سکم اور بھوٹان نہیں تو زیادہ سے زیادہ بنگلہ دیش بنانا ہے۔ بھارت کا حاشیہ بردار۔ اس معاہدے کی سترہویں شق یہ کہتی ہے: کسی تعصب کے بغیر‘ افغانستان اور بھارت سے خوشگوار مراسم بحال رکھے جائیں گے۔ ترجمہ اس کا یہ ہے کہ افغانستان اور بھارت‘ پاکستان کے ساتھ خواہ زیادتی کریں‘ ظلم کا ارتکاب کریں‘ اسے برباد کریں‘ تب بھی تعلقات ان سے خراب نہیں کئے جائیں گے۔ علاقے میں بھارتی بالادستی کس کا خواب ہے؟ اسی کا‘ اسرائیل کو جس نے مشرقِ وسطیٰ کا تھانیدار بنا رکھا ہے۔ عراق‘ لیبیا‘ مصر اور شام کو جس نے طوفان کے حوالے کر دیا۔ فارسی کا شاعر کہاں یاد آیا ؎

    صبا بہ لطف بگو آں غزالِ رعنا را
    کہ سر بہ کوہ و بیاباں تو دادہ ای ما را

    اے بادِ صبا‘ اس سے غزالِ رعنا سے کہنا کہ تو نے مجھے کوہ و بیاباں کے حوالے کر دیا۔ بعض کو محبت برباد کرتی ہے‘ افراد کو اقوام کو مرعوبیت تباہ کر ڈالتی ہے۔ مغرب کے علم اور تجربات سے استفادہ ایک چیز ہے‘ مرعوبیت بالکل دوسری۔ سیکھنے کی آرزو‘ فطری‘ مثبت اور تعمیری ہے۔ دوسرا انداز فکر احساس کمتری کا آئینہ دار۔ وہ جو برصغیر کا مرض ہے۔ خوئے غلامی کا ثمر۔ جاگیرداری کا حاصل۔ احساس کمتری ہی نہیں‘ ریاکاری اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے نفسیاتی امراض۔ ذہن محدود ہو جاتے ہیں۔ خواب تو کجا‘ سامنے کی سچائی کو بھی پا نہیں سکتے۔ نوشتۂ دیوار بھی دیکھ نہیں سکے ؎

    بینر پہ لکھے حرفِ خوشامد پہ جو خوش ہے
    دیوار پہ لکھی ہوئی تحریر بھی دیکھے

    ماتم کرنا چاہیے ماتم‘ خود کو کن کے حوالے ہم نے کر دیا۔ یہ ہیں بلاول بھٹو‘ ہم پر حکومت کرنے کا جو خواب دیکھتے ہیں۔ ادھر میاں محمد نواز شریف ہیں۔ سپریم کورٹ سے حکم صادر ہونے کے باوجود‘ ہر روز اربوں روپے جو بانٹ رہے ہیں۔ یہ ہیں جناب عمران خان‘ جن کا خیال یہ ہے کہ معاشروں کی عظمت و بالیدگی کا انحصار فقط ایک فرد پہ ہوتا ہے۔ ڈھنگ کے ایک لیڈر پر… اور یہ لیڈر وہ خود ہیں۔

    ہرگز انہیں اس کی کوئی پروا نہیں کہ خود ان کی پارٹی میں بدعنوان بھرے پڑے ہیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک۔ بدعنوان کیا‘ نوسر باز۔ ان سے نجات حاصل کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں۔ ہرگز کوئی فکر نہیں کہ ابھی سے پولیس‘ نوکر شاہی‘ نجکاری‘ ایف بی آر‘ صنعت و زراعت‘ پی آئی اے‘ ریلوے اور سٹیل مل کے لیے تھنک ٹینک بنانے چاہئیں۔ ورنہ وہ ناکام رہیں گے۔ ورنہ وہی ہو گا‘ نومبر 1996ء کا الیکشن جیتنے کے بعد جو نواز شریف کے ساتھ ہوا تھا۔ اپنے مشیروں کے ساتھ اوّلین اجلاس میں انہوں نے پہلا جملہ یہ ارشاد کیا تھا‘ ”ہُن کیہ کریے‘‘ اب کیا کریں؟
    اعمال کا دارومدار بے شک نیت پر ہے۔ نیت اگر اچھی ہے تو ابھی سے ریاضت کیوں نہیں؟ ابھی سے شفافیت کیوں نہیں؟ حسنِ نیت کا اظہار کیا نعرہ بازی میں ہوا کرتا ہے؟

  • میاں صاحب کے پانامے اور پاجامے – خورشید احمد خان

    میاں صاحب کے پانامے اور پاجامے – خورشید احمد خان

    بھائی یہ پانامہ لیکس کیا شے ہے۔ بقول شاہی سید یہ دھاندلی کیا بلا ہے یہ مولی ہے گاجر ہے ٹماٹر ہے کیا چیز ھے دھاندلی؟۔ ہم پانامہ لیکس کے بارے شاہی سید کے جملہ سے متفق
    ہیں۔ کیونکہ مرغی کا نمک سے کیا واسطہ میاں صاحب کا پانامہ ہو یا پاجامہ ہونے دو۔ البتہ اتنا ادراک ہے کہ خان صاب کہہ رہے ہیں کہ میں جب پانامہ لیکس کا نام لیتاہوں تو راے ونڈ میں تہلکہ مچ جاتاہے۔ پتہ نھی کیو۔؟ مصافحوں کی بات بعد میں کرینگے پھلے ذرا یہاں جھانک کر چل دیتے ہیں۔

    عرب میں ایک عجیب روایت تھی جب انکا کوئی مشہور بندہ جنگ میں مارا جاتا تو وہ اس کا بدلہ لینے تک رونے پر پابندی لگادیتے تھے مثلا غزوہ بدر کو لیں۔ جنگ میں مشرکین کے بڑے ستر سردار مارے گیے جن میں ابو جہل جیسے کئی نامور سردار شامل تھے۔ یہ پیغام جب مکہ پہنچا تو انہوں نے رونے پر پابندی لگا دی اعلان۔ہوا کہ ہم پہلے مقتولوں کا بدلہ لیں گے اسکے بعد رونے کی اجازت دی جاے گی جس نے اس سے پھلے رونے کی کوشش کی اسکو قبیلہ سے نکال دیا جائے گا۔ یہ پیغام لواحقین کے لیے موت سے بھی زیادہ سنگین تھا ان دنوں رات کے پچھلے پھر کسی عورت نے دوسری بوڑھی کے ررونے کی آواز سنی اور خوشی کے مارے اسکی جانب چپکے سے گئی اور کہا اماں اگر رونے سے پابندی ختم ہوگئی ہو تو بتاو میں بھی رودوں۔؟ بوڑھی عورت نے آنکھیں پونچھتے ہویے سسکیاں لیتے ہویے کہا میں تو اپنے پیارے سے اونٹ کیلئے رورہی ہوں جو مجھے کل سے دکھائی نہی دے رہا۔ آنے والی عورت نے کہا میرا بیٹا بدر میں مرا تھا میرا کلیجہ غم سے پھٹا جارہا ہے اگر پابندی ختم ہو تو میں………؟اور پھر کہنے لگی کہ اماں آپ رشتے میں میری پھوپھی لگتی ہو سو آؤ میرے گلے لگ جاو میں آپکے غم میں برابر کی شریک ہوجاتی ہوں اور پھر وہ پھوٹ پھوٹ کر رودیں۔

    یہ عربوں کی روایت تھی کہ یہ عورتیں اپنے بیٹوں کا غم بھلانے کے لیے اونٹ اور بکریوں کا سہارا لیتی تھیں۔ آندھیوں طوفانوں اور جنگوں کا ذکر کرتیں اور اپنے بھائی بیٹے کا غم غلط کرتی تھیں۔ معلوم نھی اس دور میں اس واردات کو کیا کہاجا تھا لیکن آج کا معاشرہ اسے منافقت کہتا ہے۔ اس قسم کی صورتحال کے لیے پشتو میں بھی ایک محاورہ ہے کہ بھائیوں کا نام لے کر اپنے بوائے فرینڈ کو رونا۔ لیکن اب لوگ ہوشیار اور بالغ النظر ہوچکے، بہادر اور سمجھ دار ہوچکے لہذا انہیں اب دکھ پیٹنے کے لیے بکریوں اور اونٹوں کا سہارا نھی لینا پڑتا۔ لیکن پانامہ میاں صاحب کے بعد معلوم ہوا کہ یہ تو بنیادی طور پر منافق معاشرے کا مسئلہ ہے۔ اور منافق معاشرہ چودہ سو سال بعد یا پھر 21ویں صدی کی جگمگاتی روشنیوں میں پروان چڑھا ہو، لوگوں کے رد عمل لوگوں کے رویے یکساں ہوتے ہیں۔

    جہاں تک خیال ناقص ہے…. میاں صاحب کے پانامے کے پچھے خود ہی ان کا دست اقدس کارفرما ہے۔ اور یہ کوئی نئی بات نہیں. میاں صاحب اس طرح کے طاقتور اور صحت مند کٹے اپنے دور اقتدار میں نہ چھوڑیں تو ذہنی بوجھ کی شکایت ہوتی ہے انھیں۔ لیکن افسوس اور حیرت انگیز افسوس تو ان مخالفینِ میاں صاحب کے موقف پر ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم یہ سب کچھ جمہوریت کی بقا کے لیے کرہے ہیں۔ واہ یہ کیسی جمہوریت ہے بابا جو یہ تک نہیں جانتی کہ جمہوریت اقتدار نہیں اپوزیشن سے مظبوط ہوتی ہے جس ملک میں جتنی بڑی اپوزیشن ہو وہ ملک اتنی ہی بڑی جمہوریہ ہوتا ہے۔ اور جس ملک میں جتننی مختصر اپوزیشن ہو وہ ملک اتنا ہی شہنشاہ ہوا کرتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس ملک کا اپوزیشن لیڈر کا اپنے آپ سے خطرہ ہوتا ہے مخالفین کی بات دور کی ہے۔ چلو یہ بھی مان لیا۔سیاست حصول اقتدار کا ذریعہ ہوتی ہے یہ وہ راستہ ہے جس پر لوگ چل کر لیلائے اقتدار تک پہنچے ہیں۔ تو پھر یہ لوگ اعتراف کیوں نہیں کرتے؟ یہ لوگ یہ کیوں نہیں کہتے کہ ہمارا کوئی پارٹی کوئی نظریہ کوئی مشور نہیں۔ ہر وہ سیاسی نظریہ ہر وہ منشور اور ہر وہ پارٹی ہمارا منشور ہے جو ہمیں ایوان اقتدار تک لے جائے۔ آپ اپنی کارکردگی اپنے فن کو جمہوریت کا نام کیوں دیتے ہیں۔ بھائیوں کا نام لیکر بوائے فرینڈ کا ذکر کیوں کرتے ہو۔ اونٹوں اور بکریوں کا بہانہ لیکر اپنی خواہشوں اور حسرتوں کے آنسوں کیوں بہاتے ہوں۔؟ خان صاب کے ساتھ دیگر رفیقان سفر سامنے آکر صاف کیوں نہیں کہتے کہ ہماری زندگی کا ایک ہی مقصد ہے وہ ہے اقتدار۔ کیونکہ وہ تو ہمیں بھی پتہ ہے کہ مچھلی اور پاکیستانی سیاست دان اقتدار کے تالاب سے باہر کبھی نھی رہ سکتے ۔ یقین کیحیے برائی کرنے
    والے اتنے برے نہیں ہوتے جتنے برے اس برائی کو اچھائی ثابت کرنے والے ہوتے ہیں۔

    عمران خان قدم بڑھاؤ ہم تمہارے ساتھ اگر نہیں تو پیچھے ضرور ہیں….

  • آپ اپنی خامیاں تبدیل کر لیں-جاوید چوہدری

    آپ اپنی خامیاں تبدیل کر لیں-جاوید چوہدری

    566527-JavedChaudhryNew-1469464911-239-640x480

    یہ دونوں ایک دوسرے کے محسن بھی ہیں‘ آپ کو یقین نہ آئے تو آپ چند لمحوں کے لیے 2014ء میں چلے جائیے‘ آپ کو میرا نکتہ سمجھ آ جائے گا۔

    2014ء میں میاں نواز شریف کے فوج سے تعلقات خراب تھے‘ فوج بھارت اور افغان پالیسی میں مداخلت سے ناراض تھی‘ فوج محمود اچکزئی کے کابل کے دوروں اور افغان حکومت کے ساتھ رابطوں سے خوش نہیں تھی‘ حقانی نیٹ ورک بھی نزاع کا باعث بن رہا تھا‘ میاں صاحبان بھارت سے اندھا دھند معاملات طے کر رہے تھے‘  فوج کو اس پر بھی تشویش تھی‘ جنرل پرویز مشرف بھی اختلافات کی وجہ تھے۔

    میاں شہباز شریف اور چوہدری نثار نے وعدہ کیا تھا حکومت جنرل پرویز مشرف کے خلاف کارروائی نہیں کرے گی لیکن وعدہ وفا نہ ہوا‘ یہ وعدہ خلافی بھی مسائل پیدا کر رہی تھی‘ مولانا فضل الرحمٰن کو حسب معاہدہ وزارتیں نہیں ملیں‘ وہ بھی وعدے کی گٹھڑی اٹھا کر میاں نواز شریف کو تلاش کر رہے تھے‘ وفاقی حکومت نے سندھ میں بھی مداخلت شروع کر دی‘ زرداری صاحب کے فرنٹ مین گرفتار ہو رہے تھے‘ ایم کیو ایم کے خلاف بھی کارروائیاں شروع تھیں اور پیر صاحب پگاڑا سے بھی وعدے پورے نہیں کیے گئے تھے۔

    وزیراعظم بھی زندگی کے سست ترین دور میں داخل ہو گئے تھے‘ یہ صبح آٹھ بجے دفتر آتے تھے‘ شام چھ بجے چلے جاتے تھے اور اس کے بعد ان سے رابطہ ممکن نہیں رہتا تھا‘ وزیراعظم پورے دن میں صرف چار میٹنگز کرتے تھے اور یہ میٹنگز بھی بے نتیجہ رہتی تھیں‘ یہ اکثر دوروں پر بھی رہتے تھے اور ان کی ہر وزٹ کا اختتام لندن میں ہوتا تھا‘ یہ جمعہ‘ ہفتہ اور اتوار تین دن لاہور میں گزارتے تھے اور یہ جس سے خوش ہوتے تھے یہ اسے سب کچھ دے دیتے تھے اور جس سے ناراض ہو جاتے تھے اس سے سب کچھ چھین لیتے تھے‘ کابینہ کے اجلاس نہیں ہوتے تھے۔

    وزیراعظم قومی اسمبلی اور سینیٹ نہیں جاتے تھے اور یہ وزراء سے بھی نہیں ملتے تھے‘ ایم این اے اور ایم پی ایز اسلام آباد میں بے یار و مددگار پھر رہے تھے‘ کچن کیبنٹ اسحاق ڈار‘ چوہدری نثار اور طارق فاطمی تک سکڑ گئی تھی‘ باقی کابینہ وزیراعظم کی زیارت کے لیے ترستی رہتی تھی‘ سینئر بیوروکریسی بھی پریشان تھی اور وزیراعظم آفس اور ہاؤس پر جونیئر افسروں کا قبضہ تھا‘ یہ لوگ مرضی کے فیصلے کرتے تھے۔

    یہ تمام خرابیاں خلا بن چکی تھیں اور یوں محسوس ہوتا تھا حکومت 2014ء نہیں گزار سکے گی‘ یہ اپنے وزن کے نیچے دب کر ختم ہو جائے گی لیکن پھر عمران خان غیبی مدد بن کرآئے اور انھوں نے سوئے ہوئے محل کے تمام باسیوں کو جگا دیا۔

    عمران خان کی دستک سے میاں نواز شریف کی گہری نیند ٹوٹ گئی‘ یہ ہڑبڑا کر اٹھے اور اپنی کشتی کے سوراخ بند کرنا شروع کر دیے‘ پاکستان پیپلز پارٹی‘ جے یو آئی ف‘ اے این پی اور ایم کیو ایم کے ساتھ تعلقات ٹھیک کیے‘ چین اور امریکا کی سفارتی مدد لی‘ صبح جلدی آنے اور دیر تک دفتر میں بیٹھنے لگے‘ بھارت اور افغانستان دونوں دوبارہ فوج کے حوالے کر دیے‘ جنرل مشرف کی ٹائی ڈھیلی کر دی‘ فیصلوں میں تاخیر ختم کر دی‘ کابینہ کے اجلاس بھی ہونے لگے‘ پارٹی کی میٹنگز بھی شروع ہو گئیں‘ یہ ایم این ایز اور ایم پی ایز سے ملاقاتیں بھی کرنے لگے‘ عوامی جلسے بھی شروع ہو گئے۔

    ترقیاتی کاموں کی رفتار بھی بڑھ گئی‘ یہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بھی جانے لگے‘ وزراء میں صلح بھی ہو گئی‘ یہ دوسروں کی بات بھی سننے لگے‘ حکومت نے دہشتگردی‘ لوڈ شیڈنگ‘ اقتصادی صورتحال اور ’’سی پیک‘‘ پر فوکس بھی بڑھا دیا اور یہ فوکس بھی چند ماہ میں پھل پھول دینے لگا، یوں حکومت بحرانوں سے باہر آ گئی‘ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجیے‘ اس کامیابی کا کریڈٹ کس کو جاتا ہے؟ کیا یہ شخص عمران خان نہیں تھے اور اگر یہ میاں نواز شریف کو نہ جگاتے تو کیا یہ اب تک عدالتوں میں دھکے نہ کھا رہے ہوتے؟

    آپ اب پانامہ لیکس کی طرف بھی آ ئیے‘ میاں نواز شریف 35 برسوں میں پہلی بار خوفناک جال میں پھنسے ہیں‘ آپ کو پانامہ ایشو پر پورے ملک میں کوئی ایسی سیاسی جماعت‘ لیڈر اور گروپ نہیں ملے گا جس نے اس ایشو پر حکومت کی حمایت کی ہو‘ ملک کا ہر شخص پانامہ لیکس پر شریف خاندان کا احتساب چاہتا تھا‘ حکومت یہ دباؤ برداشت نہیں کر پا رہی تھی‘ وزیراعظم دوبار قوم کے سامنے آئے اور خود کو احتساب کے لیے پیش کر دیا۔

    سپریم کورٹ بھی تیار تھی اور سیاسی جماعتیں بھی قانون سازی چاہتی تھیں لہٰذا ملک میں اگر احتساب کا کوئی متفقہ قانون بن جاتا تو ماضی کے کرپٹ بھی پکڑے جاتے‘ حال کی کرپشن بھی کم ہو جاتی اور ملک کا مستقبل بھی کرپشن فری ہو جاتا لیکن یہ ہونے سے پہلے عمران خان دوبارہ فرشتہ بن کر سامنے آ گئے‘ میاں نواز شریف کے خلاف تحریک شروع ہوئی اور اس کے نتیجے میں قومی ایشو دو شخصیات کا تنازعہ بن گیا۔

    یہ پارلیمنٹ سے باہر آیا اور عدالت میں پہنچ گیا‘ ہمیں اب یہ نکتہ بھی سمجھنا ہو گا ملک میں قانون نہیں ہو گا یا پھر قانون کمزور ہو گا تو عدالت ملزم کو کوئی حتمی سزا نہیں دے سکے گی اور ملک میں آف شور کمپنیوں کے خلاف کوئی ٹھوس قانون موجود نہیں‘ عدالت شریف خاندان کے خلاف زیادہ سے زیادہ ٹیکس میں بدعنوانی اسٹیبلش کر سکے گی اور بس لہٰذا پھر اس ساری ایکسرسائز کا کیا فائدہ ہوا؟

    اس کے برعکس اگر قانون بن جاتا تو شریف فیملی سمیت ہزاروں لاکھوں لوگ قابو آ جاتے مگر عمران خان نے شیر پر گولی چلنے سے پہلے ہی بکری کھول دی اور یوں بکری اور شیر دونوں جنگل میں غائب ہو گئے چنانچہ ہم اگر دل پر ہاتھ رکھ کر اس کمال کا کریڈٹ بھی تلاش کریں تو ہمیں اس بار بھی عمران خان میاں نواز شریف کے محسن نظر آئیں گے اور ہم یہ ماننے پر مجبور ہو جائیں گے یہ اگرطریقے سے چلتے تو اب تک پانامہ لیکس پر قانون بھی بن چکا ہوتا اور احتساب کا عمل بھی شروع ہو چکا ہوتا لیکن افسوس خان صاحب کی جلد بازی نے شریف فیملی کو ایک بار پھر بچا لیا۔

    عمران خان شریف خاندان کے ساتھ ساتھ پاکستان پیپلز پارٹی کے محسن بھی ہیں‘ پیپلز پارٹی2013ء کے الیکشن کے بعد سندھ تک محدود ہو چکی تھی لیکن خان صاحب کی یلغار اور کراچی میں ان کی پے درپے ناکامیوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کو دوبارہ زندہ کر دیا‘ یہ بلاول بھٹو کا لانچنگ پیڈ بن گئے‘ پیپلز پارٹی اب عمران خان کی برکت سے 2018ء میں پنجاب سے بھی ٹھیک ٹھاک سیٹیں حاصل کر لے گی۔

    میں اسی طرح میاں نواز شریف کو عمران خان کا محسن سمجھتا ہوں‘ عمران خان 2013ء کے الیکشنوں کے بعد پسپا ہو چکے تھے اور یہ کے پی کے کی سیاسی دلدل میں بھی پھنس چکے تھے‘ میاں نواز شریف اگر اس وقت چار حلقے کھول دیتے یا چار حلقوں کو متنازعہ مان کر دوبارہ الیکشن کرا دیتے تو عمران خان ’’گاڈزیلا‘‘ نہ بنتے‘ یہ تاریخ کا سب سے بڑا دھرنا نہ دے پاتے۔

    میاں نواز شریف نے اگر اسی طرح پانامہ لیکس کے فوراً بعد اپوزیشن کی مرضی کا جوڈیشل کمیشن بنا دیا ہوتا یا یہ اپوزیشن کے ٹی او آرز مان لیتے تو بھی حکومت کو دو نومبر کا دن نہ دیکھنا پڑتا‘ عمران خان اگر آج یوم تشکر منا رہے ہیں تو اس کے ذمے دار میاں نواز شریف ہیں‘ یہ میاں صاحب کی انا تھی جس پر چل کر عمران خان یہاں تک پہنچے‘ میاں صاحب اگر اپنا شملہ ذرا سا نیچے کر لیتے تو معاملات یہاں تک نہ پہنچتے لیکن یہ ہمارے ملک کی بدقسمتی ہے ہمارے تینوں لیڈر اپنی اپنی ذات کے اسیر ہیں‘ عمران خان ہمیشہ جلدی کر جاتے ہیں‘ میاں نواز شریف دیر کر دیتے ہیں اور آصف علی زرداری کچھ کرتے ہی نہیں ہیں۔

    یہ تینوں اپنی فطرت کے غلام ہیں‘ عمران خان مانتے نہیں ہیں‘ میاں نواز شریف سنتے نہیں ہیں اور آصف علی زرداری ہلتے نہیں ہیں‘ یہ ان تینوں کی فطرت ہے‘ میرا تینوں کو مشورہ ہے‘ آپ اپنی خامیاں آپس میں تبدیل کر لیں‘ خان صاحب فیصلوں میں تاخیر لے آئیں‘ نواز شریف جلدی فیصلہ کر لیا کریں اور زرداری صاحب اچھا یا برا کوئی نہ کوئی فیصلہ ضرور کیا کریں‘ یہ ملک واقعی بدل جائے گا ورنہ دوسری صورت میں آپ تینوں ملک سے باہر ہوں گے اور عوام دھرنا دے کربیٹھے ہوں گے۔

  • قانون کی حکمرانی نہیں انصاف کی حکمرانی، فیصلے کی گھڑی-اوریا مقبول جان

    قانون کی حکمرانی نہیں انصاف کی حکمرانی، فیصلے کی گھڑی-اوریا مقبول جان

    orya

    دنیا میں جہاں کہیں سودی سرمایہ دارانہ نظام کا پروردہ جمہوری نظام نافذ ہے وہاں ایک تصور بہت عام ہے، ’’قانون کی حکمرانی یا قانون کی بالادستی‘‘ ۔ اس کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ انصاف کو قانون کے ماتحت ہونا چاہیے‘ اور قانون وہ ہے جسے عوام کے منتخب نمایندے اکثریت کی بنیاد پر بناتے ہیں۔ جمہوریت کو ’’اکثریت کی آمریت‘‘ کہا جاتا ہے یعنی اگر اکیاون فیصد ممبران اسمبلی انچاس فیصد اقلیت کے خلاف ایک قانون منظور کر لیتے ہیں تو وہ اس ملک کا قانون بن جاتا ہے۔

    چار سو کے لگ بھگ ارکان اسمبلی اپنی عددی اکثریت کی بنیاد پر ایک قانون منظور کرتے ہیں کہ صدر‘ وزیراعظم‘ وزرائے اعلیٰ اور وزراء کے مالی معاملات میں کوئی عدالت‘ ملک کا کوئی قانون نافذ کرنے والا ادارہ یا بددیانتی اور کرپشن کے خلاف کارروائی پر مامور محکمہ مداخلت نہیں کر سکتا۔ انھیں طلب نہیں کر سکتا‘ ان کے کاغذات کی جانچ پڑتال نہیں کر سکتا‘ اگر وہ ایسا کرے گا تو ان کا استحقاق مجروح ہو گا۔ایسے میں یہ ملک کا قانون بن جاتا ہے اور اس پر اگر مکمل طور پر عملدرآمد ہو جائے تو اسے قانون کی حکمرانی کہا جاتا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ جمہوریت اور قانون کی حکمرانی لازم و ملزوم ہے۔

    اس کے مقابلے میں ایک لفظ ہوتا ہے ’’انصاف کی حکمرانی‘‘۔ اس کا بنیادی مقصد اور ہدف یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے درمیان انصاف کیا جائے۔ اگر کوئی طاقتور ایک قانون اپنے حق میں منظور کر والیتا ہے تو اس کو پس پشت ڈال کر کمزور‘ محکوم اور مجبور کو اس کا حق دلایا جائے۔ انصاف کی حکمرانی کے اصول کسی پارلیمنٹ یا کانگریس کے مرہون منت نہیں ہیں۔

    یہ اصول ہر معاشرے کو صدیوں سے ازبر ہیں۔ اس لیے کہ یہ اصول دنیا کے ہر الہامی مذہب نے اصول ہدایت کے طور پر لوگوں کو سکھائے ہیں۔ انھیں اکیاون فیصد اکثریت کی ضرورت نہیں ہوتی‘ بلکہ یہ سو فیصد لوگوں کے ذہنوں میں محفوظ ہوتے ہیں۔ دنیا کے کسی قانون کو سچ اور جھوٹ کی تعریف کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی‘ دھوکا‘ فریب‘ بددیانتی‘ کرپشن‘ حق تلفی‘ قتل اور تشدد جیسے جرم بھی تعارف اور تعریف کے محتاج نہیں ہوتے۔

    لوگوں کو یہ بھی خوب پتہ ہے کہ انصاف اسی وقت ممکن ہوتا ہے جب طاقتور ترین اور کمزور ترین کے درمیان کوئی امتیاز نہ برتا جائے۔ رنگ‘ نسل‘ زبان‘ علاقہ‘ گروہ‘ قبیلہ‘ برادری یہاں تک کہ سیاسی پارٹی کا تعصب بھی انصاف کی حکمرانی کا تصور باطل کر دیتا ہے۔ اسی لیے انصاف کی حکمرانی کے تمام اصول ازلی‘ ابدی اور الہامی ہیں جب کہ قانون کی حکمرانی کے اصول انسانی اکثریت کے محتاج ہیں۔

    انسانی معاشرے نے شروع دن ہی سے اپنے درمیان عدل اور انصاف کرنے کے لیے انسانوں کو ذمے داریاں سونپیں اور ادارے تخلیق کیے۔ جرگے سے پنچایت تک اور قاضی سے جج تک ایسے تمام ادارے اور فرد اس لیے منتخب کیے گئے کہ وہ لوگوں کے درمیان انصاف کریں گے۔ دنیا کے ہر ملک میں موجود کہانیوں کا آغاز ایک جیسے فقرے سے ہوتا ہے ’’ایک تھا بادشاہ جس کے دور میں اس قدر انصاف تھا کہ شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پیتے تھے‘‘۔

    انصاف پہلے بھی جرگہ‘ پنچایت‘ قاضی اور جج کے پاس تھا اور آج بھی یہ انھی کی ذمے داری ہے۔ پہلے بادشاہ قاضی یا جج پر قدغن لگا کر اسے اپنے احکامات کا پابند کرتے تھے اور آجکل جمہوری معاشرے‘ قانون کی حکمرانی کے نام پر عدالتوں کے اختیار صلب کرتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ انصاف کی بالادستی کی کہانی سناتی ہے جب کہ جمہوریت کی تاریخ پارلیمنٹ کی بالادستی کا درس دیتی ہے‘ یعنی اکثریت کی بالادستی۔

    جس طرح بادشاہوں کے مقابلے میں کھڑے ہونے والے انصاف کی حکمرانی کے علمبردار قاضیوں کے وجود سے تاریخ کی صفحات روشن ہیں‘ اسی طرح پارلیمنٹ کی آمریت کے مقابلے میں سینہ سپر ہونے والے جج بھی دنیا کی ہر جمہوریت میں پائے جاتے ہیں۔ جب کبھی بھی کسی ملک کی سب سے بڑی عدالت کے سامنے یہ معاملہ زیر بحث آیا کہ کیا وہ انصاف کی بالادستی کے لیے پارلیمنٹ کے بنائے گئے قوانین کو مسترد کر سکتی ہے یا نہیں تو اس وقت عدالتوں کے سامنے امریکی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جان مارشل Jan Marshall کا وہ شہرہ آفاق فیصلہ ضرور پیش ہوا جو انھوں نے مشہور مقدمے مربری بمقابلہ میڈیسن (Marbury VS Madisan) میں دیا تھا۔

    1803ء میں سپریم کورٹ کے سامنے ایک ایسا مقدمہ پیش ہوا جس میں یہ بنیادی سوال سامنے آیا کہ اگر کانگریس کوئی ایسا قانون منظور کر لیتی ہے جو آئین میں دیے گئے بنیادی انسانی حقوق جن میں انصاف کا حق بھی شامل ہے‘ اس سے متصادم ہے تو کیا عدالت اس قانون کو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔

    اس پر جسٹس مارشل کا تاریخی فیصلہ گونجتا ہے کہ انصاف کی حکمرانی ایک تصور ہے جس کا تحفظ عدلیہ کی بنیادی ذمے داری ہے اور اگر کانگریس کوئی ایسا قانون منظور کرتی ہے جس سے انصاف کے بنیادی حق پر ضرب لگتی ہے تو عدالت اسے منسوخ کر سکتی ہے اور عدالت کسی ایسی پابندی کو بھی نہیں مانتی جو کانگریس اس کے اس بنیادی اختیار کو محدود کرنے کے لیے لگاتی ہے جس کا مقصد انصاف کی حکمرانی‘ بالادستی اور فراہمی ہے۔

    دنیا کے ہر ملک میں اعلیٰ ترین عدلیہ کا یہ اختیار مسلم سمجھا گیا کہ اس کا بنیادی مقصد انصاف کی حکمرانی ہے کیونکہ اس کے بعد صرف اللہ تعالیٰ کی عدالت باقی رہ جاتی ہے۔ اس لیے ایسے قوانین جو انصاف کی فراہمی سے روکیں‘ سپریم کورٹ انھیں ختم کر سکتی ہے۔

    پاکستان کی سپریم کورٹ بھی ایسی ہی ایک تاریخ مرتب کرنے جا رہی ہے۔ اس کا آغاز اس دن ہو گیا تھا جب انھوں نے حکومت کی جانب سے 1956ء کے تحت کمیشن کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم اس طرح کی لامتناہی کوشش کا حصہ نہیں بننا چاہتے‘ ہمیں بتائیں کس کس کے خلاف تحقیقات کرنا ہیں۔ حکومتوں کا ہمیشہ سے یہ وتیرہ رہا ہے کہ ایک کمیشن بنایا جائے اور پھر اس کی سفارشات پر سانپ بن کر بیٹھا جائے جیسے ماڈل ٹاؤن واقعہ میں باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ ہے۔

    گزشتہ سات ماہ سے نواز شریف حکومت اس خط کا جواب نہیں دے رہی تھی اور تمام جماعتوں کے ساتھ مل کر ٹی او آر کی بانسری بجائی جا رہی تھی۔ دوسری جانب وہ ادارے جن کی ذمے داری تھی کہ پاکستانی تاریخ کے اتنے بڑے اسکینڈل پر تحقیقات کا آغاز کرتے جیسے نیب‘ ایف آئی اے‘ اور ایف بی آر‘ وہ صرف اس لیے اپنی نااہلی کا اظہار کرتے رہے کیونکہ وزیراعظم کے خاندان کے لوگوں کے نام اس میں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ باقی دو سو کے قریب افراد جن کا نام پانامہ لیکس میں تھا ان پر بھی ہاتھ نہ ڈالا جا سکا۔

    حکومت کو اندازہ تھا کہ جیسے اس ملک میں باقی اسکینڈل دفن ہو جاتے ہیں‘ ویسے ہی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی دفن ہو جائے گا‘ لیکن عمران خان کی پاکستانی سیاست پر یہ مہربانی یاد رکھی جائے گی کہ اس نے پانامہ لیکس کے اس اسکینڈل کو دفن نہیں ہونے دیا۔ یہ اسکینڈل زندہ رہا اور اس نے 20 کروڑ عوام کو مضطرب‘ بے چین اور بے خواب رکھا۔ لوگ مسلسل سوچتے تھے اس کا فیصلہ کون کرے گا۔ کیا یہ اس وقت کھولا جائے گا جب حکومت ختم ہو گی اور پوری ن لیگ پکارے گی کہ یہ ایک سیاسی انتقام ہے لیکن نہیں‘ ایسا نہ ہو سکا۔

    سپریم کورٹ آف پاکستان نے فیصلہ کر لیا کہ انصاف کی حکمرانی اور بالادستی صرف اور صرف انھی کا فریضہ ہے۔ عدالت نے کہا کہ ہم اس کیس کو سنیں گے اور قوم کو بے یقینی کے عذاب سے نکالیں گے۔ سپریم کورٹ کے پاس آئین کی دفعہ 184(3) کے مطابق جو اختیارات ہیں‘ ان کے تحت وہ عوامی اہمیت کے ہر معاملے میں کسی بھی قسم کا حکم جاری کر سکتی ہے اور آرٹیکل 190 کے تحت اس حکم کے نفاذ کی ذمے داری پاکستان میں موجود ہر انتظامی اور عدالتی فرد یا ادارے پر ہے۔

    سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ طے کرے گا کہ پاکستان میں اگر پوری پارلیمنٹ بھی انصاف‘ عدل اور اخلاق کے خلاف متحد ہو جائے‘ سپریم کورٹ اکیلی اسے کالعدم قرار دے سکتی ہے۔ اس لیے کہ سپریم کورٹ کی بنیادی ذمے داری انصاف کی حکمرانی ہے قانون کی حکمرانی اس کے تابع ہے۔

    نوٹ:میرے نام سے فیس بک پر بہت سے خیر خواہوں نے مختلف قسم کے پیج بنا رکھے ہیں جو میرے نام سے منسوب ہیں‘ لیکن ایک پیچ Orya Maqbool Jan Official ایسا پیج ہے جس سے لوگ اکثر یہ دھوکا کھاتے ہیں کہ یہ میرا اصل پیج ہے۔ میرا اس پیج سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی اس پر شایع شدہ مواد کا ذمے دار ہوں۔ میرے ذاتی فیس بک پیج کا ایڈریس یہ ہےhttps://m.facebook.com./oryamj/۔

  • حکومت سے تین اہم سوال – سنگین زادران

    حکومت سے تین اہم سوال – سنگین زادران

    اچھا 20 کروڑ پاکستانیو کو کتنی صفائی سے استرا پھیرا گیا ہے اس مرتبہ۔ ڈان میں خبر چھپی اور حکومت نے اعلامیہ جاری کیا کہ خبر جھوٹ ہے۔ اس سے تین سوال جنم لیتے ہیں جن سے کئی ذیلی سوالات مزید جنم لیتے ہیں۔ خیر جوابات سب کے درکار ہیں۔

    پہلا سوال:
    جب حکومت یہ اقرار کر چکی ہے کہ ڈان میں چھپنے والی خبر کسی نے لیک نہیں کی بلکہ ایک من گھڑت خبر ہے تو وزیرِ داخلہ نے پرویز رشید کی برطرفی کی وجہ یہ کیوں بتائی کہ پرویز رشید خبر رکوانے میں ناکام رہے؟
    اگر حکومت کی پہلی بات کو مان لیا جائے کہ ڈان نے جھوٹی کہانی لگائی تو اسکا مطلب وزیرِ داخلہ کے بیان کی روشنی میں یہ بنتا ہے کہ پرویز رشید کو پتہ تھا کہ ڈان کے پاس جھوٹی خبر ہے اور وہ رکوانے میں ناکام رہے۔ تو یہ کیسے ممکن ہے کہ پرویز رشید کو جھوٹی خبر کا تو علم ہو اور یہ علم نہ ہو کہ وہ جھوٹی خبر ڈان کو دی کس نے ہے۔
    وزیرِ داخلہ کا بیان حکومت کے بیان کی روشنی میں یہ مطلب بھی دیتا ہے کہ ریاست کا وزیرِ اطلاعات و نشریات فوج اور ملک کے خلاف لگنے والی جھوٹی خبر کا پتہ ہونے کے باوجود خاموش رہا۔ اس خبر کی وجہ سے جس کی وجہ سے پوری دنیا میں پاکستان کی رسوائی ہوئی۔ وزیرِ داخلہ صاحب کیا یہ قوم سے غداری نہیں ہے اور اس پر وزیرِ اطلاعات و نشریات پرویز رشید کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت کاروائی نہیں ہونی چاہیے؟

    دوسرا سوال:
    حکومت نے کہا کہ خبر جھوٹی ہے جو ڈان نے شائع کی۔ اور وزیرِ داخلہ کو برطرف کیا گیا اس وجہ سے کہ وہ جھوٹی خبر پتہ ہونے کے باوجود ملک دشمنی کا مظاہرہ کرتے رہے اور خبر نہ رکوائی۔ چلو مان لیا اس بات کوبھی۔ اصل سوال تو ابھی بھی وہیں کا وہیں کھڑا ہے۔ کہ ڈان کو جھوٹی خبر دی کس نے؟ بھئی دیکھیں نا حکومت ایک جھوٹی خبر لگنے کی وجہ سے اپنے ایک وزیر کو برطرف کر رہی ہے اس وجہ سے کہ جھوٹی خبر نہ رکوا سکا۔ تو جناب جھوٹی خبر آئی کہاں سے؟ وزیر تو قربانی بکرا بنا رہے ہیں اصل سوال کا جواب کیوں نہیں دے رہی حکومت کہ جھوٹی خبر ڈان کو دی کس نے؟

    تیسرا سوال:
    ڈان نے جھوٹی کہانی چھاپی حکومت نے کہا جھوٹ ہے۔ اچھا اس جھوٹ کی وجہ سے دنیا بھر میں پاکستان کو دھشت گرد کہا گیا، مودی کی ساکھ بحال ہو گئی، ضربِ عضب کو دنیا والوں نے ڈرامہ قرار دیا۔ جھوٹی کہانی چھاپنے والوں کے خلاف حکومت نے اب تک کوئی کاروائی کیوں نہیں کی اگر حکومت خود ملوث نہیں ہے تو؟ حکومت کو کس بات کا ڈر ہے جو ڈان کے خلاف کاروائی سے گبھرا رہی ہے؟

    جاننا قوم کا حق ہے۔ جمہوری، آئینی اور معاشرتی طور پر قوم سے سچائی چھپانا جرم ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اولین فرصت میں ان سوالات کا جواب دے کر عوام کو مطمئن کرے۔

  • شریف خاندان کیوں مشکل میں پھنسنے والا ہے – ابومحمد

    شریف خاندان کیوں مشکل میں پھنسنے والا ہے – ابومحمد

    سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے مؤرخہ 30 اگست کو عمران خان کی پٹیشن خارج کر دی تھی۔ اس کے بعد سے پاناما لیکس کے خلاف درخواستیں سپریم کورٹ میں التوا میں پڑی تھیں۔ جب تحریک انصاف نے اسلام آباد لاک ڈاؤن کا اعلان کیا تو معاملے کی سنگینی کے پیش نظر سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاناما لیکس سے متعلقہ درخواستیں سماعت کے لیے منظور کر لیں۔ پہلی پیشی پہلی نومبر کو تھی۔ اس پہلی پیشی میں عدالت عالیہ نے یہ حکم دیا کہ
    ”نواز شریف اپنے اوراپنے بچوں کے اثاثہ جات کی تفصیل جمع کرائیں“
    اس حکم کو عمران خان نے اپنے مطالبے”استعفی یا تلاشی“ کے مطابق ”تلاشی“ تصور کرتے ہوئے اپنا احتجاج ختم کرکے یوم تشکر منانے کا اعلان کیا۔ کشیدگی کے اتنی ہائپ اختیار کرنے کے بعد لوگوں کا خیال یہ تھا کہ حکومت کو ٹف ٹائم دیا جائے، اسلام آباد لاک ڈاؤن کیا جائے۔ سپریم کورٹ نے اگلی پیشی ایک دن کے وقفے کے بعد یعنی 3 نومبر کو رکھی۔ آج پیشی کے وقت سپریم کورٹ کا سب سے پہلا سوال یہ تھا کہ کیا نواز شریف صاحب نے جواب جمع کرایا؟

    سپریم کورٹ اورنواز شریف کے وکلاء کے چند مکالمے حرف بحرف آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں، اس سے آپ بہت سی چیزوں کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اس سے اس مقدمے کی سنگینی کے علاوہ، نواز شریف کی پوزیشن، سپریم کورٹ کا موڈ، اور نواز شریف کے پس و پیش کی صورت نتائج کا تو اندازہ ہوتا ہی ہے، ساتھ یہ بھی اندازہ ہو جاتا ہے کہ عمران خان کی سپریم کورٹ کی طرف سے نواز شریف کی تلاشی پر مسرت کتنی حقیقی تھی۔
    آج جب اسلام آباد سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت جاری تھی تو پاناما کیس میں وزیر اعظم کا سپریم کورٹ میں جو جواب جمع کرایا گیا میڈیا کے مطابق اس کے مندرجات اور ان پر سپریم کورٹ کے کمنٹس یہ ہیں۔
    بیرون ملک فلیٹس اور دیگر جائیدادوں کا مالک نہیں، نواز شریف کا جواب
    میں آف شور کمپنیوں کا مالک نہیں، وزیر اعظم نواز شریف کا جواب
    ریگولر ٹیکس قانون کے مطابق ادا کرتا ہوں، وزیر اعظم نواز شریف کا جواب
    2013ء کے گوشواروں میں تمام اثاثے ڈکلئیر ہیں، وزیر اعظم کا جواب
    میرا کوئی بچہ میرے زیر کفالت نہیں، وزیر اعظم نواز شریف کا جواب
    وزیر اعظم کو آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت نا اہل نہیں قرار دیا جا سکتا، جواب

    پاناما کیس، سپریم کورٹ میں وزیراعظم کے بچوں کے جواب جمع نہ ہو سکنے پر سپریم کورٹ کی برہمی واضح تھی۔ جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ نواز شریف صاحب کے 3 بچوں کی جانب سے جواب کیوں جمع نہیں کرایا؟ اس پر جب نواز شریف صاحب کے وکیل سلمان اسلم بٹ نے یہ کہا کہ مریم صفدر، حسن اور حسین نواز ملک سے باہر ہیں تو جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ کیا آئندہ سال جواب جمع کرائیں گے؟ آپ ہمارا وقت ظائع کر رہے ہیں۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ جو ملک میں موجود ہیں ان کے جواب جمع ہونے چاہییں۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ اگر پتہ ہوتا کہ یہ کرنا ہے تو عدالت ہی نہ لگاتے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے جو ریمارکس دیے وہ یقینا وزیراعظم ہاؤس تک من و عن پہنچ جائیں گے، انہوں نے کہا کہ قانون کے مطابق جواب جمع نہ کرایا تو الزامات تسلیم کر لیں گے۔ ایک موقع پر جب نواز شریف کے وکیل سلمان اسلم بٹ نے یہ کہا کہ مریم صفدر وزیراعظم نواز شریف کی کفالت میں نہیں تو جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ یہ بات لکھ کر دیں کہ مریم نواز، وزیر اعظم کی کفالت میں نہیں۔

    اس ساری گفتگو کے تناظر میں چند باتیں بہت واضح ہیں کہ نواز شریف اپنے بچوں کے اثاثہ جات کے متعلق جواب جمع نہیں کرانا چاہتے، سب جانتے ہیں کہ مریم نواز، حسن اور حسین نواز کی جائیدادوں کی تفصیل کے آتے ہی بہت سے سوالات کے جواب خود بخود مل جائیں گے اور بہت سے سوالات پیدا ہو جائیں گے جو کہ نواز شریف کی صحت کے لیے بہت مضر ہیں، کیونکہ وہ دل کے مریض بھی ہیں۔

    دوسری جو چیز سامنے آتی ہے وہ یہ کہ عدالت کے ریمارکس ہیں کہ اگر نواز شریف صاحب کے بچوں کے جواب نہ آئے تو قانونی طور پر عدالت ان الزامات کو درست تسلیم کر لے گی۔ جائیداد کی ملکیت خود یہ ڈھائی ڈھائی من کے بچے تسلیم کر لیں یا ان کے جواب نہ دینے کی صورت میں عدالت یہ فرض کر لے، دونوں صورتوں میں نواز شریف کے یہ تینوں ہونہار سپوت اپنے فرار کے راستے مسدود پائیں گے۔ ملکیت ثابت ہوتے ہی رجسٹریوں سے یہ بات بھی ثابت ہو جائے گی کہ یہ پراپرٹیاں کب اور کتنے کی لی گئی تھیں۔ اگر یہ پراپرٹیاں نوے کی دہائی میں لی گئی ہیں تو پھر تو مقدمہ سیدھا سیدھا نوازشریف صاحب کے گلے میں فٹ ہو جائے گا کیونکہ اس وقت یہ تینوں بچے پندرہ سولہ سال کے تھے۔ اگر اس کے بعد بھی لی گئی ہیں تو بھی انہیں یہ بات ثابت کرنا پڑے گی کہ اتنی مہنگی جائیدادوں کی خریداری کے لیے رقم کہاں سے آئی؟ رقم بیرون ملک کیسے بھیجی گئی؟ وہ مریم نواز جو نواز شریف صاحب کی 2011ء کی ٹیکس ریٹرن کے مطابق ان کی کفالت میں تھیں، وہ اتنی مہنگی جائیداد بھلا کیسے خرید سکتی ہیں؟ اور سب سے بڑی بات کہ فلیٹس چاہے جائز پیسوں سے بھی لیے گئے ہوں، کیا نواز شریف صاحب نے پچھلے الیکشنز میں اپنے اہل خانہ کی جائیداد کی تفصیل میں ان کے متعلق لکھا تھا یا نہیں؟ یہ معاملہ کچھ طول اسی وقت پکڑ سکتا ہے جب مریم بھی حسن اور حسین نواز کی طرح بیرون ملک فرار ہو جائے اور واپس آنے کا نام نہ لے۔

    ابھی بہت سے پہلو ایسے ہیں جن پر بات کی جا سکتی ہے، مزید تفصیلات وقت کے ساتھ ساتھ گوش گزار کرتا رہوں گا۔ اس وقت تک وہ تمام حضرات جو عمران خان کے یوم تشکر منانے پر سوال اٹھا رہے تھے انہیں چاہیے کہ وہ آیوڈین ملا نمک استعمال کرنا شروع کر دیں۔