Tag: پارلیمان

  • آج کا اہم ترین سوال-خورشید ندیم

    آج کا اہم ترین سوال-خورشید ندیم

    m-bathak.com-1421245366khursheed-nadeem

    پرویز رشید بہت دنوں کے بعد سینیٹ میں آئے تو ان کا والہانہ استقبال ہوا۔ سوال یہ ہے کہ پرویز رشید نے آخر کون سا ایسا کارنامہ سر انجام دیا تھا کہ سینیٹ میں ان کی پذیرائی محاذِ جنگ سے لوٹنے والے ایک بہادر سپاہی کی طرح ہوئی؟
    یہ آج کا اہم ترین سوال ہے۔ اگر ہم اس کو حل نہ کرسکے تو پاکستان کو عدم استحکام کے خدشات سے نہیں نکالا جا سکتا۔ بمشکل سال گزرتا ہے کہ سیاسی نظام کا سفینہ کسی گرداب میں پھنس جاتا ہے۔ ٹی وی کی چھوٹی سی سکرین سے ایک مہم اٹھتی ہے جو پورے ملک کا احاطہ کر لیتی ہے۔ یہ سکرین چوبیس گھنٹے قوم کو اضطراب میں مبتلا رکھتی ہے۔ قلم تلوار بنتے اور بے نیام ہو جاتے ہیں۔ ایسی ہر مہم کا ہدف سیاسی قیادت ہوتی ہے۔ معاشرے کو باور کرا دیا جاتا ہے کہ اس ملک کے تمام مسائل کا سبب اہلِ سیاست ہیں، جب تک ان سے نجات کی کوئی صورت دریافت نہیں ہوتی ،اصلاحِ احوال کا کوئی امکان نہیں۔ لوگ حسبِ توفیق متبادل پیش کرتے اور ایک نسخہ کیمیا کے طور پراسے بازار میں لے آتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کچھ ایسے لوگ اس مہم کے سرخیل بن جا تے ہیں جن پر سیاست دان کی تہمت بھی دھری ہوتی ہے۔ اتنا اہتمام بہر حال ہوتا ہے کہ سرخیل کی پاک دامنی کے قصے بھی ساتھ ہی عام ہوتے رہیں۔اب یہ بھی واضح ہو چکا کہ اصل کہانی میں ان کا کردار صرف زیبِ داستاں کے لیے ہوتا ہے۔

    ایساں کیوں ہوتا ہے؟جب اصولی طور پر اس پر اتفاق ہے کہ جمہوریت ہی ہمارے مسائل کا حل ہے تو پھرمتبادل کی تلاش کیوں؟ سب جانتے ہیں کہ اس کا ایک ہی سبب ہے اور وہ ریاستی اداروں میں اختیارات کی کشمکش ہے۔ ہم آج تک یہ نہیں جان سکے کہ ریاست میںقوت کا حقیقی مرکز کون سا ہے؟ ریاست کے موجودہ نظام میں، یہ تو ممکن نہیں رہا کہ کوئی ایک ادارہ قادرِ مطلق ہو۔ یہ دنیا میں کہیں نہیں ہوتا لیکن نظام کی بقا کے لیے لازم ہے کہ پلڑا کسی ایک جانب جھکا رہے۔کسی ایک کے پاس ویٹو کا حق ہو۔ صنفی اعتبار سے مرد اور عورت میںکوئی دوسرے سے برتر نہیں، مگر یہی مرد اورعورت جب خاندان کی بنیاد رکھتے ہیں تو مشاورت کے اصول کے ساتھ یہ ناگزیر ہے کہ پلڑا کسی ایک جانب جھک جائے۔ اللہ تعالیٰ نے فیصلہ سنایا کہ خاندان کی سربراہی اس کے لیے ہے جو معاشی ذمہ داری اٹھاتا ہے۔ انسانی سماج کی تاریخ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ عام طور پر مرد ہی خاندان کا ”قوّام‘‘ رہا ہے، اس لیے اسلام نے خاندان کی سربراہی مرد کو سونپ دی۔

    ریاست کے باب میں پاکستان کے آئین نے یہ مسئلہ حل کر دیا ہے۔ ہم نے بطور اصول جو باتیں طے کی ہیں، ان میں سے ایک پارلیمانی نظام ہے۔ سادہ لفظوں میں ہم نے بطور قوم جس ریاستی بندو بست کو قبول کیا، اس میں اختیارات کا توازن پارلیمان کی طرف جھکتا ہے۔ اصول یہ ہے کہ طاقت کا مرکز عوام ہیں۔ ان کی نمائندگی پارلیمان کرتا ہے،لہٰذا گھر کے نظام میں جو اہمیت مرد کی ہے، وہی ریاستی نظام میں پارلیمان کی ہے۔ ماضی بعید میں ہم کسی ایک آئین پر متفق نہیں ہو پائے لیکن 1973ء کے بعد تو ہم نے اجماع سے یہ مسئلہ حل کر دیا۔ بد قسمتی سے فوجی آ مریتوں نے اس اجماع کو اپنے بوٹوں تلے روند ڈالا۔ یہ کانامہ پہلے ضیاالحق صاحب اور پھر پرویز مشرف صاحب نے سر انجام دیا۔

    اقبال نے متنبہ کیا تھا کہ ‘غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر‘۔ ہمارے ساتھ بھی یہی ہوا۔ مارشل لا میں ایک نیا بیانیہ تشکیل دینے کی کوشش ہوئی جس میں اس بیانیہ کو چیلنج کیا گیا جس میں جمہور کو قوت کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ ضیا الحق صاحب نے نئے بیاننے کے لیے اسلام کا سہارا لیا۔کبھی یہ شوشہ چھوڑا گیا کہ اسلام میں سیاسی جماعتوں کی اجازت نہیں۔کبھی شوریٰ سازی ہوئی۔کبھی علما نے مدد کی کہ اسلامی تاریخ کا پہلا مارشل لا حضرت ابو بکر صدیقؓ نے لگا یا تھا۔ اسی بیانیے کو پرویز مشرف صاحب نے سیکولر یا غیر مذہبی استدلال کے ساتھ پیش کیا۔ اس میں ‘کرپشن کا خاتمہ‘ اور ‘سب سے پہلے پاکستان‘ کو نئے بیانیے کی بنیاد بنایا گیا۔ ضیا الحق صاحب کے سامنے پیپلز پارٹی ‘جمہور کی آواز‘ تھی۔ اس کے لبرل تشخص کے خلاف پہلے ہی مذہب کا بیانیہ کامیابی کے ساتھ استعمال ہو رہا تھا۔ ضیاالحق صاحب نے اسی کو جاری رکھا۔ مشرف صاحب کے سامنے مسلم لیگ ‘جمہور کی آواز‘ تھی۔ انہوں نے ‘کرپشن کے خاتمے‘ کو اپنے بیانیے کا مرکز قرار دیا کیونکہ ا س کی قیادت کے خلاف کرپشن کے الزام پہلے مو جود تھے۔ہماری قلبِ ماہیت یوں ہوئی کہ اب جمہور مخالف بیانیہ پورے اعتماد کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔

    کیا ضیاالحق صاحب نے اسلام نافذکر دیا؟ کیا انہوں نے ہمیں وہ نظام دے دیا جس نے خلافتِ راشدہ کی یاد تازہ کرد ی؟ کیا مشرف صاحب نے کرپشن کا خاتمہ کر دیا؟ کیا سب سے پہلے پاکستان کے نعرے نے ملک کو داخلی اور خارجی چیلنجوں سے محفوظ بنا دیا؟ ان سب سوالات کے جواب نفی میں ہیں۔ مجھے رتی برا بر شبہ نہیں کہ دونوں کا مقصد جمہور کے بجائے ایک دوسرے مرکزِ قوت کومستحکم کرنا تھا۔ ایک نے جمہور کی مرکزیت کو اسلام کے نام پر چیلنج کیا اور دوسرے نے کرپشن کے نام پر۔ دونوں میں ایک قدرِ مشترک یہ تھی کہ انہوں نے جمہور کے نمائندوں کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا۔ ایک نے بھٹو خاندان کوسکیورٹی رسک بنایا اور دوسرے نے شریف خاندان کو۔ قوم کا اجتماعی شعور اس بات کو کبھی قبول نہیں کر سکا کہ جس نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کے عمل کا آغاز کیا اور جس نے دنیا کے سامنے اس کا اعلان کیا، وہ سکیورٹی رسک کیسے ہو سکتے ہیں؟ جو نوے ہزار فوجیوں کی رہائی کے لیے اندرا گاندھی سے مذاکرات کرتا رہا اور جو کارگل کے پس منظر میں پاک فوج پر منڈلاتے سائے کو ٹالنے کرنے کے لیے واشنگٹن میں ڈیرے ڈالے رہا، وہ دونوں سکیورٹی رسک کیسے ہو سکتے ہیں؟

    اس کے باوجود سیاست دانوں کی کردار کشی کا عمل جاری رہا۔ بظاہر جمہور کی رائے سے حکمران منتخب ہوئے لیکن یہ کشمکش ختم نہیں ہو ئی کہ طاقت کا مرکز کون ہے۔ انگریزی اخبار میں ایک خبر کی اشاعت اس قضیے کو برسرِِ زمین پر لے آئی جوزیر ِزمین ہمیشہ موجود رہا۔ منتخب حکومت کی صفِ اوّ ل کی قیادت جب باجماعت راولپنڈی پہنچی تو یہ واضح تھا اب بھی کون کس کو جواب دہ ہے؟ پرویز رشید کا سینیٹ میں استقبال دراصل اسی کا جواب ہے۔ پارلیمان کا ایک ایوان زبان ِحال سے یہ کہہ رہا ہے کہ اس ملک کا سیاسی نظام پارلیمانی ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ پارلیمان بالا دست ہے۔ چیئرمین سینٹ نے یہ بھی کہا کہ اگر فوج اور عدلیہ کا داخلی نظامِ احتساب ہے تو پارلیمان کے ایک رکن کا احتساب بھی پارلیمان ہی کرے گی۔

    گویا وہ بنیادی سوال اپنی جگہ مو جود ہے کہ پاکستان میںطاقت کا پلڑا کس جانب جھکنا ہے۔ اگر آئین پارلیمانی نظام کو بنیادی اصولوں میں شمار کرتا ہے تو پھر یہ پلڑا پارلیمان کی کی طرف جھکنا چاہیے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ دیگر ریاستی ادارے
    بے وقعت ہو جائیںگے۔ فوج، عدلیہ ریاست کی ستون ہیں۔ ان کے کمزور ہونے سے ریاست قائم نہیں رہ سکتی۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ ہم نے کس کو ریاست کا ‘قوّام‘ ماننا ہے۔ اگر ہم ویٹوکا حق کسی دوسرے کودینا چاہتے ہیں تو اس پر بھی کھل کر بات کرنی چاہیے۔
    مجھے معلوم ہے کہ اس مقدمے کے جواب میں لوگ سیاست دانوں کی کمزوریاں بیان کریں گے۔کہا جائے گا: وزیر اعظم خودکب پارلیمان میں آتے ہیں؟ ان کی خدمت میں پیشگی عرض ہے کہ وہ کوئی نئی دلیل لے کر آئیں۔ اس بات کا جواب بار ہا دیا جا چکا۔

  • جمہوریت کی لانڈری-اوریا مقبول جان

    جمہوریت کی لانڈری-اوریا مقبول جان

    orya

    ایک معمولی پولیس اہلکار جس کے ہم کاتب تقدیر ہیں، جس کا دانہ پانی ہم جب چاہیں روک دیں اور جب چاہیں فراخ کر دیں، جس کی عزت و ذلت بھی ہمارے ہاتھ میں ہے، جب چاہیں اسے کامیاب پولیس آفیسر قرار دے کر میڈل سے نواز دیں اور جب چاہیں بددیانتی، ماورائے قتل یا کسی اور جرم کا الزام لگا کر اسے زمانے بھر میں بدنام کر دیں۔

    پولیس آفیسر بھی اس شہر کا‘ جہاں بھتہ خوروں، بوری بند لاشوں کے ٹھیکیداروں، اغواء برائے تاوان کے مجرموں، مسخ شدہ لاشوں کے تحفے دینے والوں اور انسانوں کے جسموں میں ڈرل مشینوں سے سوراخ کر کے چنگیز خان اور ہلاکو کی وحشت و بربریت کی داستانیں رقم کرنے والوں کے خلاف جب آپریشن ہوا تو ایسے سب ’’معمولی‘‘ پولیس اہلکار جو اس آپریشن کو ایک فرض منصبی سمجھ کر شریک ہوئے تھے، انھیں ایک ایک کر کے چن چن کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، عبرت کا نشان بنا دیا گیا۔

    حالت یہ ہے کہ برطانیہ میں کراچی کا ایک پولیس آفیسر پناہ کی درخواست دیتا ہے تو برطانوی جج اپنے فیصلے میں لکھتا ہے کہ اسے پناہ اس لیے دی جا رہی ہے کہ کراچی میں اس کے ساتھی دو سو پولیس آفیسروں کو قتل کر دیا ہے اور اگر یہ پاکستان واپس چلا گیا تو اسے بھی قتل کر دیا جائے گا۔ ایسے شہر میں اس پولیس آفیسر کی یہ جرأت کہ جمہوری طور پر منتخب ایک ممبر صوبائی اسمبلی اور لیڈر آف اپوزیشن کو قتل اور گھیراؤ جلاؤ جیسے فوجداری جرائم کے تحت درج مقدموں میں گرفتار کرنے جائے، اس کو اس بات کا احساس تک نہیں یہ ایک ایسی شخصیت کا گھر ہے جسے ووٹ کی طاقت نے پاکبازی و معصومیت کا سرٹیفکیٹ عطا کر دیا ہے۔

    اسے اندازہ نہیں اس نے خواجہ اظہار کو گرفتار نہیں کیا‘ جمہوریت کی عزت و حرمت پر ہاتھ ڈالا ہے۔ اس کی یہ جرأت، یہ ہمت جب کہ اس ملک میں ایک ایسی حکومت ہے جس نے پاکستان کی ساری بیوروکریسی اور ساری پولیس کو پرونواز اور اینٹی نواز میں تقسیم کرنے کا ’’شرف‘‘ حاصل کیا ہے۔ اس معمولی پولیس اہلکار کو جاننا چاہیے تھا کہ ساری بیوروکریسی اور ساری پولیس جمہوری نظام کی بقاء کے لیے کیا کچھ کر گزرتی ہے اور تب جا کر ان جمہوری حکمرانوں کی آنکھوں کا تارا بن جاتی ہے۔ اسے نہیں معلوم کیسے الیکشن کے دنوں میں یہ تمام افسران رائے ونڈ اور بلاول ہاؤس میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔

    اپنے اپنے عظیم ’’جمہوری‘‘ رہنماؤںکو بہترین مشوروں سے نوازتے ہیں۔ بتاتے ہیں کہ ہم نے پولنگ اسکیم کیسے بنائی ہے کہ آپ ہی جیتیں گے‘ بتاتے ہیں کہ ہم نے ان کے مخالفین کے اہم ترین لوگوں کو کیسے مقدموں میں الجھا دیا ہے۔ ہم نے کیسے دباؤ ڈال کر جعلی کیس بنا کر کتنے لوگوں کو مجبور کیا ہے کہ وہ آپ کی حمایت کا اعلان کریں۔ ہم نے پولنگ اسٹیشنوں کے عملے کو انتہائی احتیاط سے تعینات کیا اور اب آپ بے فکر ہو جائیں، ہم موجود ہیں فیلڈ میں، کوئی ہم پر شک تھوڑا کرے گا کہ ہم میاں نواز شریف کے وفادار ہیں یا آصف علی زرداری کے۔ ہم پولیس اور انتظامیہ کے آفیسر ہیں، غیر جانبدار۔ جیتنے پر انعامات کی سب سے پہلی بارش انھی افسران پر ہوتی ہے۔

    ایک منظور نظر کو جب پنجاب کا چیف سیکریٹری لگایا تو وہ بہت جونیئراور دیگر سیکریٹری سینئر تھے۔ جو نالاں رہتے تھے ایک دن اس نے سیکریٹری کمیٹی میں بے لاگ اور کھرا سچ بول دیا۔ اس نے کہا دیکھو میں نے پہلے دن اس بات کا اندازہ لگا لیا تھا کہ یہ نوکری اب سیاسی وفاداریوں کی نوکری بن چکی ہے۔ ضیاالحق کا دور تھاجب میں سروس میں آیا اور سب سے منظور نظر گھرانہ ماڈل ٹاؤن کا شریف گھرانہ تھا۔ میں نے ان کی چوکھٹ پر خود کو ’’سرنڈر‘‘ کیا اور آج تک ان کا وفادار ہوں۔ جب تک یہ ہیں میرا کوئی کچھ نہیں بگاڑسکتا۔ یہ نوکری عوام کی نہیں گھرانوں کی نوکری ہے۔

    اس ’’معمولی‘‘ پولیس آفیسر کو اس بات کا احساس تک نہیں کہ جمہوریت کی بقا اور سسٹم کے تحفظ کے لیے کیا کچھ کرنا پڑتا ہے۔ اخلاق، ضمیر، قانون اور ذاتی غیرت کو بھی میٹھی نیند سلانا پڑتا ہے۔ جمہوری حکمران تمہیں میٹنگ میں بے نقط سنائے، عوام کے سامنے بے عزت و رسوا کرے، بے شک تم پولیس کے انسپکٹر جنرل ہو جاؤ، تمہارے چہرے پر شرعی داڑھی ہو، وہ تمہیں تحقیر کے ساتھ ’’دڑھیل‘‘ کہہ کر پکارے، تمہیں سب سننا پڑتا ہے۔ تمہیں سیاسی مخالفین کے خلاف جھوٹے کیس بنانا ہوتے ہیں۔ ان کے گھروں پر چھاپے مار کر ان کی بیٹیوں، بہنوں، بہوؤں اور ماؤں تک کو تھانے میں لا کر بٹھانا ہوتا ہے۔ تم سوچ بھی نہیں سکتے کہ کوئی ممبر اسمبلی قتل بھی کر سکتا ہے، یا کروا سکتا ہے۔ چوری کر بھی سکتا ہے یا چوروں کی سرپرستی بھی کر سکتا ہے۔ توبہ توبہ، ہزار بار توبہ۔ جس شخص کو یہ قوم منتخب کر کے اسمبلی میں بھیجتی ہے اس کے بارے میں ایسا سوچنا بھی تمہاری نوکری میں جرم ہے۔

    یہ تو معصوم لوگ ہیں۔ اللہ کے بنائے معصوم تو پیغمبر ہوتے ہیں۔ لیکن پاکستان کی جمہوریت کے بنائے معصوم پارلیمانی نظام کے منتخب لوگ ہوتے ہیں۔ جمہوری نظام کے ستون، جن کے دست قدرت میں سارا نظام یرغمال ہے۔ اگر آپ کا وفادار نیب کا سربراہ ہے، ایف آئی اے کا ڈائریکٹر ہے، پولیس کا انسپکٹر جنرل ہے اور ایف بی آر کا چیئرمین ہے تو آپ پر لاکھ الزام لگے، پوری قوم کا بچہ بچہ جانتا ہو کہ آپ نے بددیانتی کی ہے، قتل کروائے ہیں، لوگوں کی جائیدادیں ہڑپ کی ہیں، آپ پاکستان کی کسی بھی عدالت میں سزا کے مستحق نہیں ہو سکتے۔

    اس لیے کہ آپ کے خلاف مقدمے کے شواہد جج نے نہیں، نیب نے، پولیس نے، ایف آئی اے یا ایف بی آر نے جمع کروانے ہیں اور آپ نے کس خوبصورتی سے ان کو رائے ونڈ اور بلاول ہاؤس کی چوکھٹوں کا غلام بنا لیا ہے۔ جب ان عہدوں پر ایسے وفادار بیٹھے ہوں گے تو کون ان سیاستدانوں کو مجرم ثابت کرنے کے لیے ثبوت اکٹھا کرے گا۔ 1999ء تک یہ جمہوری لیڈران تھوڑے بے وقوف تھے۔ ایک دوسرے کے خلاف ثبوت اکٹھا کرتے تھے۔ اب یہ سب متحد ہو گئے ہیں۔یہ کس کے خلاف متحد ہوئے ہیں اٹھارہ کروڑ عوام کے خلاف۔ کس ڈھٹائی سے کہا جاتا ہے تمہاری جرأت تم ایک رکن اسمبلی پر ہاتھ ڈالو جس پر قتل کا الزام ہے۔ ہاتھ ڈالنے کے لیے اٹھارہ کروڑ عوام جو موجود ہیں۔ جاؤ ان کے گھروں پر چھاپے مارو، جاؤ ان کی عورتوں کو اٹھا کر تھانے لاؤ، جاؤ ان کو ننگی گالیاں نکالو، جاؤ ان کو تھانے لے جا کر اتنا مارو کے ان کی چمڑی ادھڑ جائے، ان پر بے گناہ کیس بناؤ، تمہیں کوئی کچھ نہیں کہے گا۔

    لیکن خبردار جمہوری طور پر منتخب شخص کی طرف آنکھ اٹھا کر مت دیکھنا اور دیکھو ہمیں قاتل، بددیانت، چور، بھتہ خور مت بولو، جب تک عدالت میں جرم ثابت نہ ہو جائے اور جرم تمہارا باپ بھی ثابت نہیں کر سکتا۔ تفتیش کرنے والے سب کے سب تو اپنی مٹھی میں ہیں، آدھے رائے ونڈ کی غلامی میں اور آدھے بلاول ہاؤس کی۔ کراچی والوں کا کیا ہے ان کو تو دو سو پولیس افسروں کی لاشیں ہی ڈرانے کے لیے کافی ہے اور جو ایسا پولیس آفیسر جرأت کرے اسے نشان عبرت بنا دو۔

    اگر عدالت میں ثابت ہونے سے ہی کوئی شخص واقعی مجرم کہلاتا ہے تو کیا مسند اقتدار پر بیٹھے یا اپوزیشن کے عظیم جمہوری لیڈران اپنی بیٹیوں کا رشتہ جان بوجھ کر کسی ایسے لڑکے سے کریں گے جس کے بارے میں مشہور ہوکہ وہ قاتل ہے، بھتہ خور ہے، چوروں کا سرغنہ ہے، جوئے کا اڈہ چلاتا ہے، کئی بار خواتین کے ساتھ جنسی تشدد میں ملوث ہوا مگر ثبوت نہ ہونے پر صاف بچ نکلا۔ کیا یہ سیاست دان ایسے شخص کو اپنی شوگر مل، اسٹیل مل یا کسی دفتر میں ملازم رکھیں گے، حالانکہ اس کے خلاف کوئی جرم تو ثابت نہیں ہوا ہوتا۔ وہ بھی یہی کہتے پھرتے ہیں کہ ہم پر پولیس نے ناجائز کیس بنائے ہیں۔ لیکن تمہارا فیصلہ چونکہ جمہوری بنیاد پر نہیں بلکہ بہترین مفاد کے لیے ہوتا ہے اس لیے آپ بیٹی یا بیٹے کا رشتہ اور اپنا ملازم تک اس کی شہرت دیکھ کر رکھتے ہیں۔ عدالت کے فیصلے نہیں مانگتے۔

    ان جمہوری لیڈران کو اگر اس بات کا اندازہ ہو جائے کہ ان کی شہرت کیا ہے اور اللہ اس پر انھیں شرمندہ ہونے کی توفیق عطا فرما دے تو شرم کے مارے سب کچھ چھوڑ کر جنگلوں کو بھاگ جائیں لیکن کیا کیا جائے جس ملک میں جرم دھونے کی سب سے بڑی لانڈری الیکشن ہو وہاں کبھی انصاف اپنی جڑیں نہیں پکڑ سکتا۔