Tag: ٹریفک

  • چیف جسٹس یہ نوٹس بھی لیں-جاوید چوہدری

    چیف جسٹس یہ نوٹس بھی لیں-جاوید چوہدری

    566527-JavedChaudhryNew-1469464911-239-640x480

    آپ فن لینڈ کا ماڈل ملاحظہ کیجیے‘ فن لینڈ یورپ کے شمال میں چھوٹا سا ملک ہے‘ رقبہ تین لاکھ 38ہزار مربع کلو میٹر اور آبادی 55 لاکھ ہے‘ یہ سکینڈے نیویا کا حصہ ہے‘ موسم شدید سرد ہے‘موسم سرما میں درجہ حرارت منفی 45 ڈگری تک گر جاتا ہے‘ لوگ مہذب‘ صلح جو اور نرم خو ہیں‘ جرائم نہ ہونے کے برابر ہیں‘ یہ ملک ٹریفک قوانین میں باقی دنیا سے مختلف ہے۔

    پوری دنیا میں آپ کی آمدنی میں جوں جوں اضافہ ہوتا جاتا ہے آپ میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کا رجحان بڑھتا جاتا ہے‘ کیوں؟ کیونکہ آپ قانون شکنی کو جرمانے میں تولنے لگتے ہیں‘ غلط پارکنگ کا جرمانہ پچاس ڈالر‘ کوئی بات نہیں‘ اشارہ ٹوٹ گیا جرمانہ دو سو ڈالر‘ نو پرابلم‘ گاڑی لگ گئی کوئی مسئلہ نہیں انشورنس کمپنی پے کر دے گی اور اسپیڈ زیادہ ہو گئی‘ او کوئی ایشو نہیں میرا دفتر جرمانہ ادا کر دے گا وغیرہ وغیرہ چنانچہ آپ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرتے چلے جاتے ہیں لیکن فن لینڈ میں ایسا نہیں ہوتا۔

    آپ اس ملک میں جوں جوں امیر ہوتے جاتے ہیں آپ ٹریفک قوانین کے معاملے میں اتنے ہی محتاط اور شریف ہوتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ آپ اگر ارب پتی ہیں تو آپ ذاتی کار چلانا بند کر دیتے ہیں اور آپ ٹیکسی‘ بس‘ ٹرین اور ہوائی جہاز استعمال کرتے ہیں‘ یہ دنیا کا واحد ملک ہے جس میں امراء گاڑی چلانا بند کر دیتے ہیں اور یہ گاڑیاں خریدنا بھی چھوڑ دیتے ہیں‘ کیوں؟ کیونکہ فن لینڈ میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر آپ کا جرم نہیں دیکھا جاتا‘ آپ کی آمدنی دیکھی جاتی ہے‘ آپ اگر مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں تو آپ کو ’’اوور اسپیڈنگ‘‘ پر زیادہ سے زیادہ پانچ سو یوروجرمانہ ہو گا لیکن آپ اگر خوش حال‘ امیر یا رئیس ہیں تو آپ کو دس ہزار‘ پچاس ہزار اور ایک لاکھ تین ہزار یورو جرمانہ ہو جائے گا۔

    فن لینڈ میں ایسے کیس بھی سامنے آئے جن میں گاڑی چلانے والا اسپیڈ لمٹ سے صرف پندرہ کلومیٹر فی گھنٹہ اوپر گیا اور اسے ایک لاکھ تین ہزار یورو جرمانہ ہو گیا جب کہ پچاس ہزار یورو اور دس ہزار یورو جرمانے کی سیکڑوں مثالیں موجود ہیں‘ ملک میں جس شخص کو پچاس ہزار یا لاکھ یورو جرمانہ ہوجاتا ہے وہ گاڑیاں چلانا بند کر دیتا ہے اور وہ باقی زندگی نہایت شریفانہ گزارتا ہے‘ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس کی وجہ ذرایع آمدنی ہے‘ فن لینڈ کی حکومت نے 1920ء کی دہائی میں اندازہ لگایا تھا‘ ایک شخص ماہانہ پانچ سو مارکہ کماتا ہے‘ یہ جرم کرتا ہے‘ عدالت اسے پانچ سو مارکہ جرمانہ کر دیتی ہے‘ یہ رقم اس کے لیے بہت بڑی ہے‘ یہ پانچ سو مارکہ حکومت کو دے کر باقی مہینہ شدید مسائل کا شکار رہے گا جب کہ دوسری طرف ایک شخص گھنٹے میں پانچ سو مارکہ کماتا ہے۔

    عدالت اسے پانچ ہزار مارکہ جرمانہ کر دے تو بھی اسے کوئی فرق نہیں پڑے گا‘ یہ جرمانہ ادا کرے گا اور بھول جائے گا لیکن اگر اسے پانچ لاکھ مارکہ جرمانہ کردیا جائے تو یہ مستقبل میں یہ غلطی نہیں دہرائے گا چنانچہ حکومت نے قانون بنا دیا جو شخص سڑک پر ٹریفک رولز کی خلاف ورزی کرے اسے جرم کی نوعیت پر جرمانہ نہیں ہو گا‘ وہ اپنی آمدنی کے مطابق سزا بھگتے گا‘ آج پولیس کے پاس تمام شہریوں کا ڈیٹا موجود ہوتا ہے‘ یہ چند سیکنڈ میں شہری کے ذرایع آمدنی دیکھتے ہیں‘ اس کی ٹیکس ریٹرنز‘ پراپرٹیز اور بینک اکاؤنٹس دیکھتے ہیں اور اسے اس کے مطابق جرمانہ ’’ٹھوک‘‘ دیتے ہیں‘ ملزم اعتراض کرے تو پولیس اہلکاروں کے پاس خصوصی اختیارات ہیں۔

    یہ اکاؤنٹ سے رقم نکال لیتے ہیں یا پھر اس کی کوئی جائیداد جرمانے کے ساتھ منسلک کر دیتے ہیں‘ وہ شخص جب تک جرمانہ ادا نہ کرے‘ وہ اس وقت تک اپنی پراپرٹی بیچ نہیں سکتا اور اگر اس نے وہ پراپرٹی کرائے پر دے رکھی ہے تو وہ اس کا کرایہ وصول نہیں کر سکے گا‘ حکومت پہلے کرائے سے اپنا جرمانہ وصول کرے گی اور اس کے بعد اسے کرایہ وصول کرنے کی اجازت دے گی چنانچہ یہ اس قانون کا کمال ہے‘ آپ فن لینڈ میں جتنا ترقی کرتے جاتے ہیں آپ اتنا ہی محتاط ہوتے جاتے ہیں‘ آپ اتنا ہی قانون کی پابندی کرتے ہیں‘ آپ جانتے ہیں آپ کی غلطی آپ کی پوری زندگی کی محنت اکارت کر دے گی اور یہ قانون کا وہ خوف ہے جس کی وجہ سے فن لینڈ کے امراء گاڑی چلانے کا رسک نہیں لیتے اور یہ ٹیکسیوں‘ پبلک ٹرانسپورٹ اور ٹرینوں میں سفر کرتے ہیں۔

    آپ فن لینڈ سے اب پاکستان میں آئیے‘ ہمارے ملک میں سڑکیں انتہائی غیر محفوظ ہیں‘ آپ اسلام آباد‘ لاہور اور کراچی کی سڑکوں پر نکل جائیں‘ آپ جی ٹی روڈ اور موٹر وے پر سفر کر کے دیکھ لیں‘ آپ کے دائیں بائیں سے گاڑیاں ساں ساں کر کے گزریں گی‘ آپ کو کوئی شخص اسپیڈ لمٹ کا خیال رکھتا نظر نہیں آئے گا‘ کیوں؟ کیونکہ پاکستان میں جرمانے انتہائی کم ہیں‘ آپ اسپیڈ لمٹ سے خواہ پچاس کلو میٹر اوپر چلے جائیں آپ کو اڑھائی سو سے ساڑھے سات سو روپے جرمانہ ہو گا ‘ یہ رقم قانون شکنوں کے لیے مونگ پھلی سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔

    میں نے موٹر وے پر ایسے مناظر بھی دیکھے ہیں جب ایک شخص قانون توڑتا جا رہا ہے اور اس کے پیچھے موجود اس کی اضافی گاڑیاں اس کے جرمانے ادا کرتی جا رہی ہیں یہاں تک کہ وہ دو گھنٹے میں اسلام آباد سے لاہور پہنچ گیا‘ میں نے یہ بھی دیکھا موٹروے پولیس نے گاڑی کو زبردستی روکا‘ ڈرائیور چالان کروانے میں مصروف ہو گیا‘ صاحب اترے‘ دوسری گاڑی میں سوار ہوئے اور آگے روانہ ہو گئے‘ آپ کسی روز رات کے وقت اسلام آباد کے سیونتھ ایونیو‘ نائنتھ ایونیو اور مارگلہ روڈ پر سفر کر کے دیکھیں‘ آپ کو لوگ نشے میں دھت اوور اسپیڈنگ کرتے دکھائی دیں گے‘ آپ کو بچے ویلنگ کرتے بھی ملیں گے اور ریس لگاتے بھی‘ ایسا کیوں ہوتا ہے؟

    یہ اس لیے ہوتا ہے کہ ملک میں جرمانہ جرم پر کیا جاتا ہے‘ مجرم کی پوزیشن پر نہیں‘ موٹروے پر دو سو روپے سے لے کر ساڑھے سات سو روپے جرمانہ ہے‘ یہ رقم ہر معمولی خوش حال شخص آسانی سے ادا کر سکتا ہے لہٰذا پھر یہ اوور اسپیڈنگ کیوں نہ کرے؟ یہ قانون کیوں نہ توڑے؟ملک میں ویلنگ اور ریس بھی بڑے جرائم نہیں ہیں‘ نوجوان معمولی جرمانہ ادا کرتے ہیں یا گڑگڑا کر جان چھڑا لیتے ہیں لہٰذا یہ سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے‘ پنجاب 20 دن سموگ کا شکار رہا‘ یہ سموگ پچاس جانیں لے گئی مگر گاڑیوں پر فوگ لائیٹس نہیں لگیں‘ کیوں؟ کیونکہ یہ سرے سے جرم ہی نہیں‘یہ درست ہے ہم غریب ملک ہیں۔

    ہماری اکانومی بھی ریکارڈ میں نہیں آئی اور ہم فن لینڈ نہیں بن سکتے لیکن ہم بڑی آسانی سے جرمانوں کو گاڑیوں کی مالیت سے تو نتھی کر سکتے ہیں‘ آپ سائیکل اور موٹر سائیکل سوار سے ساڑھے سات سو روپے جرمانہ وصول کریں لیکن آپ مرسیڈیز‘ بی ایم ڈبلیو‘ لینڈ کروزر‘ اڈوی اور پراڈو کے مالک کو لاکھ روپے جرمانہ کریں‘ ہم دیکھتے ہیں یہ لوگ اس کے بعد کیسے اوور اسپیڈنگ کرتے ہیں‘ یہ کیسے اشارہ توڑتے ہیں اور یہ کیسے غلط لائین سے اوورٹیک کرتے ہیں‘ آپ اسی طرح لائسنس کے بغیر ڈرائیو کرنے والوں کی گاڑیاں ضبط کرلیں‘ آپ یقین کریں ملک میں جس دن دو گاڑیاں آکشن ہوجائیں گی‘ لوگ لائنوں میں لگ کر لائسنس حاصل کریں گے۔

    آپ اسی طرح ریس اور ویلنگ کرنے والے نوجوانوں کی فلم بنائیں اور ان کی گاڑیاں اور موٹر سائیکل بھی ضبط کر لیں‘ آپ اگلے دن نتیجہ دیکھ لیجیے اور آپ اسی طرح قانون بنا دیں جو گاڑی پندرہ اکتوبر سے 15 اپریل تک فوگ لائیٹس کے بغیر روڈ پر چڑھے گی اسے لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنا پڑے گا‘ آپ اس کے بعد رزلٹ دیکھ لیجیے گا‘ آپ اسی طرح انشورنس اور مینٹیننس کو بھی قانون بنا دیں‘آپ اعلان کریں ملک میں کوئی گاڑی انشورنس اور مینٹیننس کے بغیر سڑک پر نہیں آ ئے گی اور اگر آئی تو اسے ضبط کر لیا جائے گا‘ آپ چند ماہ میں اس کا نتیجہ بھی دیکھ لیجیے گا‘ ہماری سڑکیں اور سفر دونوں محفوظ ہو جائیں گے۔

    خدا کی پناہ ہمارے ملک میں ہر سال سڑکوں پر اتنے لوگ ہلاک ہو جاتے ہیں جتنے دس برسوں میں دہشت گردی سے مارے گئے ‘ ہم من حیث القوم اس قتال کے ذمے دار ہیں‘کیوں؟کیونکہ ہم نے آج تک ٹریفک کے مسائل سے نبٹنے کے لیے کوئی قانون ہی نہیں بنایا اور اگر قانون ہے تو یہ بہت کمزور اور بہت غریب ہے‘ میری چیف جسٹس سے درخواست ہے آپ یہ نوٹس بھی اپنے نوٹسوں میں شامل کر لیں‘ خلق خدا آپ کو دعائیں دے گی۔

  • موت کے ہرکارے – سجاد حیدر

    موت کے ہرکارے – سجاد حیدر

    سجاد حیدر باپ دل کا مریض تھا، بغرض علاج فیصل آباد کارڈیالوجی میں داخل تھا. عید نزدیک آئی تو ماں نے کہا کہ بڑی بہن کو جا کر عید دے آؤ، چھوٹی بہن نے ضد کر دی کہ مجھے بھی لے جاؤ بہن سے ملوانے … بہنیں سہیلیاں بھی تو ہوتی ہیں ناں، اس نے چھوٹی بہن کو موٹر سائیکل پر بٹھایا اور اپنےگاؤں جو مین روڈ پر واقع تھا، سے بیس کلومیٹر دور دوسرے گاؤں، جہاں بہن بیاہی تھی، روانہ ہوگیا. عید دے کر دونوں بہن بھائی واپس آ رہے تھے کہ تیز رفتار بس کی ٹکر لگی، بھائی موقع پر دم توڑ گیا، اور بہن ہسپتال میں زخموں کی تاب نہ لا کر گزر گئی. ابھی کہانی ختم نہیں ہوئی، ماموں اور نانی ان بچوں کے قلوں میں شرکت کے لیے موٹر سائیکل پر آ رہے تھے کہ تقدیر نے پھر ہاتھ دکھایا، اب کی بار بہانہ آئل ٹینکر بنا، ماموں موقع پر ختم ہوگیا اور نانی معذور ہو گئی. یہ صرف ایک واقعہ ہے مگر پنجاب بلکہ پورے پاکستان کے طول و عرض میں ہر جگہ ہر روز یہی کہانی دہرائی جاتی ہے. قصور کس کا ہے. مرنے والوں کا جو موٹر سائیکل کو ہر جگہ آنے جانے کے لیے استعمال کرتے ہیں، بس ڈرائیوروں کا جو کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ فاصلہ طے کرنے کے چکر میں بے تحاشا رفتار سے گاڑیاں چلاتے ہیں، ٹرانسپورٹ مالکان کا جنہوں نے لمبے روٹ کی سواری کو ہی اپنا ٹارگٹ بنایا ہوا ہے، اور مضافات اور کم فاصلے کی سواری کے لیے کوئی راستہ نہیں سوائے اس کے کہ وہ موٹر سائیکل یا چنگ چی رکشہ کو استعمال کریں. حکام بالا جو اپنے ٹھنڈے گرم کمروں میں بیٹھ کر صرف مراعات حاصل کرتے ہیں، انھیں اس سے کوئی غرض نہیں ہے.

    اگر دیکھا جائے تو یہ تمام عوامل اپنی اپنی جگہ کارفرما ہیں. ایک وقت تھا کہ ٹرانسپورٹ کمپنی کی بسیں چلتی تھیں، اور ایک مناسب وقفہ کے بعد ایک ایسی بس نکلتی تھی جو مضافات اور چھوٹے دورانیے کے سفر کرنے والے مسافروں کے لیے ہوتی تھی. زیادہ لمبے عرصے کی بات نہیں، جب جھنگ سے ملتان کے روٹ پر اپنے گاؤں کے لیے بس، کا ملنا مشکل ہوتاتھا لیکن ناممکن نہیں، کیونکہ ہرگھنٹے دو گھنٹے کے بعد ایک بس نکلتی تھی جو شٹل کہلاتی تھی، اب پتہ نہیں اس کا خلائی شٹل سے کوئی تعلق تھا یا نہیں لیکن ہمیں آخری سیٹ جو ستاں آلی سیٹ کہلاتی تھی کہ اس پر سات سواریاں بیٹھنے کی گنجائش بنا دی گئی تھی. اور اگر وہ بھر جاتی تو پھر کھڑے ہو کر سفر کرنا ہمارا مقدر تھا. ہمارے ایک انکل کے بقول آپ پیچھے بےشک جہاز پر بیٹھ کر آئیں لیکن آخر میں شٹل کی ستاں والی سیٹ پر ہی بیٹھنا پڑتا تھا. جب کبھی ملتان جانا ہوتا تو سب سے بڑی عیاشی اور لگژری آگے والی سیٹوں پر بیٹھنا تھا کہ عام حالات میں وہ ہمارے لیے شجر ممنوعہ تھیں. اور اگر کبھی شومی قسمت یا گاڑی خالی ہونے کی صورت میں اگلی سیٹیں مل بھی جاتیں تو راستے میں توڑ کی سواری ملنے کی صورت میں جس عزت افزائی سے ہم وہ سیٹ خالی کرتے تھے، وہ کچھ ہم جانتے ہیں یا جس نے اسے بھگتا ہے. یعنی پروٹوکول میں ہمارا نمبر سب سے آخری تھا.

    پھر یوں ہوا کہ ہائی ایس ویگنوں کا رواج آ گیا، اب وہ گاڑی جو ڈرائیور سمیت صرف 15 افراد کے لیے بنائی گئی تھی، اسے کانٹ چھانٹ کر 24 افراد کے لیے تیار کر دیا گیا. عورت مرد کی تخصیص کیے بغیر بھیڑ بکریوں کی طرح سواریاں ٹھونسنے کا عمل شروع ہو گیا، پردہ دار خواتین مجبور تھیں کہ مردوں کی ٹانگوں میں ٹانگیں گھسا کر بیٹھیں، مرد اپنی جگہ سکڑے سمٹے شرمندہ ہو رہے ہیں اور خواتین الگ خوار ہو رہی ہیں. اگرچہ ان کی رفتار بہتر تھی لیکن یہی رفتار ہی ان کی سب سے بڑی خامی بھی تھی کہ حادثے کی صورت میں کسی فرد کا بچنا معجزہ سمجھا جاتا تھا. پھر دور بدلا اور نئی نحوست چنگ چی رکشہ آ گیا. یہ ایسی بے ہودہ سواری ہے جو بریک سے بےنیاز ہے کیونکہ یہ موٹر سائیکل کو کانٹ چھانٹ کر بنایا گیا ہے. موٹر سائیکل میں جو بریک ہوتی ہے وہ زیادہ سے زیادہ دو افراد اور موٹر سائیکل کے مومینٹم کو روکنے کے لیے بنائی گئی ہے. اب اس گاڑی پر جب آٹھ افراد سوار ہوں گے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اتنے زیادہ مومینٹم کو روکنے کے لیے بچاری بریک کتنی لاچار و لاغر ہے. آئے دن سڑکوں پر ہونے والے حادثات کی اور بہت سی وجوہات کے ساتھ ساتھ ایک بڑی وجہ ہر جگہ اور ہر وقت ان رکشوں کی رسائی اور استعمال ہے. آپ شہر کے اند یا باہر، دیہاتوں میں کہیں بھی چلے جائیں، آپ کو دس بارہ سال کی عمر کے بچے یہ رکشے چلاتے نظر آئیں گے. یہ بچے ہر جگہ اپنی اور لوگوں کی جان سے کھیلتے نظر آتے ہیں، نہ کسی قانون کی پرواہ، نہ کسی ظابطے کا خیال، نہ کوئی لائسنس چاہیے اور نہ تربیت کی ضرورت.. بس سواری ملے نہ ملے، سپیڈ 190. ایک طوفان بدتمیزی ہے جو ہر جگہ برپا ہے. آپ اس میں بیٹھ جائیں، مجال ہے کہ ایک لمحہ بھی سکون میسر آجائے. ہر وقت یہی دھڑکا کہ اب ٹکر ہوئی کہ اب. ایک دماغ کو دہی بنانے والا شور ہے اور بے تحاشا رفتار. لیکن کیا کیا جائے، عوام کے پاس اور کوئی چارہ ہی نہیں، سستی اور ہر جگہ میسر آنے والا یہی ذریعہ آمد و رفت ہے، جو ملک کی 80 فی صد عوام کا مقدر ہے. ان رکشاؤں کے کم عمر ڈرائیوروں کو دیکھ کر چائلڈ لیبر کی جگہ چائلڈ کلر کا لفظ مناسب لگتا ہے، چائلڈ لیبر کا یہ پہلو کتنا خوفناک ہےکہ ایک غیر تربیت یافتہ اور انتہائی کم عمر بچے کے ہاتھ میں کئی انسانوں کی جان دے دی گئی ہے. جو موت کے ہرکارے بن کر نہ صرف اپنے رکشاً میں بیٹھنے والی سواریوں بلکہ سڑک پر چلنے والی ٹریفک کے لیے بھی انتہائی خطرناک ہیں. حکومتوں کے اقدامات بھی نمائشی سے زیادہ نہیں کہ جب یہ برائی پنپ رہی تھی، اس وقت سب ادارے بےحسی کی نیند سو رہے تھے اور اب ان کی تعداد اتنی زیادہ ہو چکی ہے کہ کوئی بھی اقدام جو ان رکشاؤں کے خلاف اٹھایا جائے گا، وہ ایجی ٹیشن اور بدامنی پر ختم ہوگا. کراچی میں کریک ڈاؤن ناکام ہو چکا ہے کیونکہ اس طرح کا کوئی بھی کام بہت جلد مافیاز کے ہاتھوں میں چلا جاتا ہے. دوسری طرف متبادل میسر نہ ہونے کی وجہ سے عام آدمی مجبور ہے کہ انہی چلتے پھرتے عفریتوں پر سواری کریں.

    دیہات اور چھوٹے شہروں میں رہنے والے مجبور ہیں کہ انھی رکشوں اور موٹر بائیکس کو استعمال کریں کیونکہ لمبے سفر پر چلنے والی آرام دہ اور ایئر کنڈیشن بسوں میں ان کی کوئی جگہ نہیں. چھوٹے روٹ پر چلنے والی بسوں کی شدید قلت اور تیز رفتار زندگی سب مل کر اسے مجبور کرتے ہیں کہ وہ انھی غیر میعاری اور خطرناک ذرائع کو استعمال کریں. مجھے خود الیکشن کے دن کوئی اور ذریعہ میسر نہ آنے کی صورت میں چنگ چی پر سفر کرنے کا اتفاق ہوا. کیا آپ یقین کریں گے کہ رکشہ پر ڈرائیور سمیت 9 افراد سوار تھے اور ساتھ بونس میں ایک بکرا بھی سواریوں میں شامل تھا .. وہ آدھا گھنٹہ صدیوں پر محیط ہو گیا.

    ہمارے حکمرانوں نے شاید اسے بالواسطہ طور پر خاندانی منصوبہ بندی کا ایک طریقہ سمجھ لیا ہے کہ نہ مولویوں کی مخالفت کا سامنا کرے پڑے گا اور نہ کوئی الزام آئے گا. لیکن ایسا ہمیشہ چلنے والا نہیں. عوام میں بھی شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے کہ تھوڑا سا وقت بچانے کی خاطر اس طرح اپنی اور دوسروں کی زندگی داؤ پر لگانا کوئی عقل مندی کا کام نہیں، اپنے بچوں کو یتیم بنانے اور خواتین کو بے سہارا کرنے کے بجائے اگر انتظار کر لیا جائے تو بھی گزارا ہو سکتا ہے. حکمرانوں سے بھی گزارش ہے کہ ٹرانسپورٹ اتھارٹی کو بیدار کر کے اور حکام کو گرم کمروں سے نکال کر چھوٹے روٹ پر چلنے والے مسافروں کی فلاح و بہبود کے لیے ٹرانسپوٹرز حضرات کے ساتھ مل کر کوئی لائحہ عمل طے کا جائے. لائسنس یافتہ شخص ہی سڑک پرگاڑی یا موٹر سائیکل لے کر آ سکے، ایک کریک ڈاؤن کیا جائے کہ بغیر لائسنس کوئی شخص گاڑی، رکشہ یا موٹر سائیکل ڈرائیو نہ کر سکے. لائسنس کے حصول کے طیقہ کار کو آسان بنایا جائے. اس وقت حالت یہ ہے کہ جو شخص پچھلے تیس سال سےگاڑی چلا رہا ہے، وہ بھی ڈرائیونگ ٹیسٹ پاس نہیں کر سکتا کیونکہ یہ ٹیسٹ صرف ٹریفک پولیس کے لیے اضافی آمدنی کا ایک ذریعہ ہے نہ کہ مہارت چیک کرنے کا ٹیسٹ. والدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ اپنے بچوں کو اپنے اور دوسروں کے لیے باعث آزار نہ بنائیں اور ان کی تربیت کی طرف توجہ دیں. اس ضمن میں ڈرائیونگ سکولوں کی فیسوں کو مانیٹر کرنے اور انسٹرکٹرز کی تربیت کا اہتمان بھی حکومت اور سماجی اداروں کی ذمہ داری ہے.

    خدارا اس طرف توجہ کیجیے کہ دنیا بھر میں ٹریفک کے بہاؤ کو کم کرنے کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کو زیادہ سے زیادہ آرام دہ، قابل رسائی اور سستا کیا جاتا ہے تاکہ لوگ پرائیویٹ ٹرانسپورٹ کا استعمال کم سے کم کریں. اس سے نہ صرف سڑکیں محفوظ ہوتی ہیں بلکہ ایندھن کے استعمال کو کم سے کم کر کے قیمتی زرمبادلہ بھی بچایا جاتا ہے، لیکن اپنے وطن عزیز میں الٹی گنگا بہ رہی ہے، اور کوئی پرسان حال نہیں ہے.

  • پَرتھ، کراچی اور رانگ سائیڈ ڈرائیونگ – مجیب الحق حقی

    پَرتھ، کراچی اور رانگ سائیڈ ڈرائیونگ – مجیب الحق حقی

    مجیب الحق حقی چوراہے پر ٹریفک پھنسا ہوا تھا کیونکہ رش کا وقت تھا۔ سب لوگ خاموش تھے، ہارن کا شور شرابہ بھی نہیں تھا اور ٹریفک آہستہ آہستہ سرک رہا تھا۔ میری بیٹی بھی صبر کے ساتھ اسٹیرنگ پر بیٹھی تھی۔ چورنگی کے قریب پہنچ کر میں چونکا، دیکھا کہ کوئی پولیس کا سپاہی نہیں ہے، لیکن حیران کرنے والی بات یہ تھی کہ سارا ٹریفک رکا تھا کہ ہمارے بائیں طرف کی سڑک کی قطار سے دو گاڑیاں نکل کر چورنگی کراس کر گئیں اور پچھلی گاڑیاں رک گئیں۔ اس کے بعد ہمارے سامنے کی سڑک کی قطار سے دو گاڑیاں بڑھیں اور نکل گئیں، اس کے بعد ہمارے دائیں جانب کی قطار سے دو گاڑیاں نکل کر چورنگی پار کر گئیں۔ پھر ہماری قطار آگے بڑھی۔ ہر کوئی اپنے سیدھے ہاتھ کے ٹریفک کو راستہ دے رہا تھا اور ہر قطار سے صرف دو گاڑیاں ہی نکل کے جا رہی تھیں۔ اس طرح دیکھتے دیکھتے ہمارا نمبر بھی آگیا اور ہم بھی اس رش سے نکل آئے۔ واہ کیا ڈسپلن اور سوک سینس ہے، میں نے بیٹی کی طرف ستائش بھری نظروں سے دیکھا اور کہا کہ کیا یہاں ٹریفک پولیس چوراہوں پر نہیں ہوتی اور لوگ ایسے ہی دوسروں کا خیال کرتے ہیں تو اس نے کہا کہ جی ہاں رش میں ایسے ہی ہوتا ہے اور پولس آپ کو شاذو نادر ہی کہیں نظر آئے گی۔ اپنے دہ ماہ قیام کے دوران مجھے ٹریفک پولیس کی گاڑی صرف دو دفعہ دستاویزات چیک کرتی ہی نظر آئی۔ روڈپر لگے اسپیڈ کی حد کے نشان کی حد درجہ پابندی دیکھی کیونکہ کیمرے ہر جگہ لگے ہیں۔ لیکن لوگ خود ہی قانون پر عمل کرتے ہیں اور غلط کام کرنے والے کو گھورتے ہیں۔ ایک دوسرا واقعہ یہ ہوا کہ شہر کے باہر سے واپس آتے ہوئے رات میں کافی دیر ہوگئی، اطراف میں جنگل تھا، اچانک تیز روشنی کا جھماکہ ہوا، میرے بھانجے نے فوراً اسپیڈ کم کی، میں نے پوچھا کیا ہوا؟ تو اس نے بتایا کہ دھیان نہیں رہا تھا، اسپیڈ زیادہ ہوگئی تھی، اب تصویر کھینچ لی گئی ہے اور جرمانے کا ٹکٹ تصویر کے ساتھ گھر پر آجائے گا۔ یہ تذکرہ پرتھ آسٹریلیا کا ہے۔ وہاں پر شہری ذمّہ داریاں اسکول سے ہی سکھائی جاتی ہیں۔ قانون کی سختی ہے اور سب کے لیے برابر ہے۔ جس کا نتیجہ ایک مہذّب معاشرے کی صورت نظر آیا۔ اسی دوران کسی نے بتایا کہ وہاں کے سابق چیف جسٹس کو شاید کسی غلط بیانی پر سزا سنادی گئی تو حیرت ہی ہونی تھی۔

    کسی نے درست ہی کہا کہ کسی معاشرے میں نظم و ضبط جانچنے کا پیمانہ اس کا ٹریفک کا نظام ہے۔ ہمارے معاشرے میں پھیلی نفسا نفسی، خود غرضی کا مظاہرہ ہر وقت سڑکوں پر ہوتا ہے۔ ایثار اور بھائی چارہ مفقود ہوچکا ہے۔ چوراہوں پر جگہ جگہ ٹریفک جام اس لیے ہوتا ہے کہ کوئی بھی کسی کو راستہ دینے پر آمادہ نہیں ہوتا اور کوشش یہی ہوتی ہے کہ میں پہلے نکلوں۔ خاص طور پر موٹر سائیکل والے حضرات جان خطرے میں ڈال کر رینگتے ہوئے ٹرک اور گاڑیوں کے آگے بھی نوّے ڈگری کا زاویہ بناکر گھوم کر نکلتے رہتے ہیں مگر راستہ دینے کو رکتے نہیں۔ یہ خودغرضی آپ کسی بھی سگنل اور چوراہے پر دیکھ سکتے ہیں۔ ایم اے جناح روڈ اور صدر میں ٹریفک سگنلز پر چار چار سپاہی کھڑے ہوتے ہیں، تب ہی ہمارے موٹر سائیکل کے جوان رکتے ہیں مگر پھر بھی اتنے بےتاب کہ سگنل کھلنے سے پہلے ہی چوتھائی سڑک عبور کرچکے ہوتے ہیں۔ یہ فرق ہے ایک تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ معاشرے میں اور ہمارے مادر پدر آزاد سسٹم میں کہ وہاں سگنل نہ بھی ہوتو بھی ٹریفک ضابطوں کا پاس کیا جاتا ہے جبکہ ہم کو سگنل پر بھی پولیس والے درکار ہیں۔

    سونے پر سہاگہ یہ کہ کراچی میں رانگ سائیڈ ڈرائیونگ تو اب ایک ایسا رویّہ بن چکا ہے جس کو بادل نخواستہ قبولیّت عامہ مل چکی ہے۔ اب تو گنجان علاقوں میں پولیس والے بھی عام طور پر اس کو نظر انداز کرتے نظر آتے ہیں۔ پہلے یہ خرابی موٹر سائیکل سواروں سے شروع ہوئی اور پھر رفتہ رفتہ ہر قسم کی سواری اس میں ملوث ہوتی گئی۔ مین شاہراہوں کو چھوڑ کر اندرون شہر اور مضافات کی سڑکیں رانگ سائیڈ ڈرائیونگ سے بری طرح متاثر ہیں۔ کار سے لے کر ٹرک بس، ڈمپر سبھی اس سے مستفید ہوتے نظر آتے ہیں۔ ایک خاتون کو رانگ سائیڈ پر کارڈرائیو کرتے دیکھ کر اندازہ ہوا کہ واقعی قانون شکنی ایک معاشرتی رویّہ بنتا جا رہا ہے۔ کہیں ٹریفک پھنسا ہو تو اب کوئی بھی رانگ سائیڈ سے آنے والے کو آنکھ نہیں دکھاتا کیونکہ اگلے کسی موڑ پر اسے بھی ایسا ہی کرنا ہوتا ہے ۔ یہ پر امن بقائے باہمی برائے قانون شکنی ہے۔ کسی کو ٹوکنے کا مطلب جھگڑا ہے، یعنی الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔ المیہ یہ ہے کہ اب اکثر کے نزدیک یہ کوئی جرم نہیں رہا بلکہ یہ ایک مجبوری ہے۔

    رانگ سائیڈ ڈرائیونگ کی وجہ سے اب لوگ روڈ کراس کرتے وقت ون وے پر بھی دونوں طرف دیکھتے ہیں کہ کہیں سے بھی کوئی وارد ہوسکتا ہے۔ بیمار، خواتین اور بوڑھے کافی دیر حیران و پریشان روڈ پر کھڑے گردن گھماتے رہتے ہیں کہ ہر طرف سے ٹریفک ہلکا ہو تو کراس کریں۔ کراچی ٹریفک پولیس اس وبا کو روکنے میں ناکام ہوچکی ہے جس کی وجہ سے بہت سے حادثات ہو چکے ہیں۔ رات کے وقت عموماً چند گاڑیوں کے بعد کوئی نہ کوئی موٹر سائیکل بغیر لائٹ کے اور تیز رفتاری سے آتی نظرآتی ہے اور رانگ سائیڈ پر بھی بغیر لائٹ کے چلا جاتا ہے۔ اس وجہ سے جہاں اسٹریٹ لائٹ نہ ہو وہاں روڈ کراس کرنا جان جوکھم میں ڈالنا ہوتا ہے۔ میں خود ایک دو دفعہ خوف کے عالم میں روڈ کراس کرنے کے بعد رات کو لوڈ شیڈنگ کے دوران گھر کو مسجد پر فوقیت دینے پر مجبور ہوا۔ بچّوں کو کسی بھی کام سے رات کو روڈ کراس کرنے کی ممانعت کر دی۔

    کراچی میں چند سال پہلے جو سڑکیں، انڈرپاس اور پل وغیرہ بنے، اس سے ٹریفک میں سہولت تو ہوئی لیکن وہ نظام مغرب کے تربیت یافتہ شہری کو سامنے رکھ کر ڈیزائن کیا گیا تھا جہاں صبر اور ایثار کے ساتھ قوانین کا احترام کیا جاتا ہے، یہاں مسئلہ یہی ہوا کہ کیونکہ آدھا کلومیٹر جا کر سگنل سے یوٹرن لینے میں بہت زیادہ وقت لگتا اور فیول بھی لہٰذا لوگوں نے اس صورتحال اور ٹریفک جام سے تنگ آ کر رانگ سائیڈ جانا شروع کیا جو اب کراچی میں ٹریفک کی روایت بن چکا ہے۔

    ضرورت اس امر کی ہے کہ اسکول میں بچوں کی اچھے شہری بننے کی مناسب عملی تربیت ہونی چاہیے کہ روڈ کیسے پار کی جاتی ہے، کوڑا کیسے اور کہاں ڈالنا چاہیے وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح میڈیا کے اصحاب کو چاہیے کہ اپنے پروگراموں میں اور ڈراموں میں چھوٹے چھوٹے پیغامات سے لوگوں کی ذہنی تربیت کریں کہ ٹریفک کے قوانین کیا ہیں اور رانگ سائیڈ ڈرائیونگ کیسے کیسے نقصانات پہنچاسکتی ہے۔ ایثار اور بھائی چارے کے جذبات جگانے والے پروگرام اور ڈرامے دکھانے چاہییں تاکہ تفریح کے ساتھ ذہنی تربیت ہو۔

  • وہ سبق جو ہم بھولتے جا رہے ہیں – نعیم احمد

    وہ سبق جو ہم بھولتے جا رہے ہیں – نعیم احمد

    نعیم احمد اسلام کے نام پر قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کی ان تھک کوششوں سے بننے والا ملک، جس میں بسنے والوں کو قائد نے اچھا شہری بننے کے لیے ’’ایمان، اتحاد، تنظیم‘‘ کا ایک سبق دیا تھا۔ کیا یہ سبق ہم بھولتے جا رہے ہیں؟ ایسا ہم جان بوجھ کر کر رہے ہیں؟ یا ہم اچھا شہری بننا ہی نہیں چاہتے؟ یہ فکر ہم میں کیوں پروان چڑھ گئی ہے کہ کسی بھی اچھے عمل میں پہل دوسروں کو کرنی چاہیے؟ اس کے لیے ہم خود پہل کیوں نہیں کرتے؟ اس سبق کی نفی کرتے ہوئے اس طرح کے کئی اور سوال پیدا ہو گئے ہیں۔

    کسی بھی شعبے کو دیکھ لیجیے، عام آدمی صرف اس وجہ سے کسی بھی نظم کی پابندی نہیں کرنا چاہتا کہ اس سے اوپر جو کلاس ہے وہ ان ضوابط کی پابندی نہیں کرتی جو کہ سب کے لیے ایک ہی ہیں۔ کسی بھی نظام کو بگاڑنے کے لیے ہزار تاویلیں ہو سکتی ہیں، لیکن اس نظام کو کامیاب بنانے کے لیے صحیح اصول کا رد کر دینا عقل مندی کی بات نہیں ہے۔ اکثریت کی غلط روش کو دیکھتے ہوئے اس کا حصہ آسانی سے بنا جا سکتا ہے، اس کے برعکس صحیح راہ کو اختیار کرنے کے لیے صرف اس لیے گریز کیا جاتا ہے کہ اس میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ شارٹ کٹ کامیاب زندگی کا حل نہیں ہیں۔ کامیابی چاہتے ہیں تو ان مشکلات کا مقابلہ دلیرانہ انداز سے کیجیے۔

    ملکی سطح پر چلنے والے اداروں میں برے افراد کے ساتھ اچھے ذہن کے لوگ بھی کام کرتے ہیں۔ آپ نظام کے خلاف کام ہوتا ہوا دیکھیں تو اپنی آواز متعلقہ حکام تک پہنچائیے۔ اپنا فرض تو ادا کیجیے! ایک دو بار کی کوشش کی ناکامی کے بعد ہمت مت ہاریے۔ قطرہ قطرہ گرنے والا پانی، پتھر میں بھی سوراخ کر دیتا ہے۔ یہ تو پھر آپ جیسے گوشت پوست کے انسان ہیں۔

    شہر میں ٹریفک کے اصولوں کی پاسداری کس حد تک کی جاتی ہے، اس کا مشاہدہ آئے روز کرتے ہیں۔ اسی ایک نظام سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آپ میں ذمہ داری کا احساس کس حد تک پایا جاتا ہے۔ جس اشارے پر وارڈن موجود ہے وہاں بڑے نظم کے ساتھ ٹریفک قوانین کی پابندی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، اور جس جگہ نگران موجود نہیں ہے، وہاں بے دھڑک اشارہ توڑ دیا جاتا ہے۔ مستزاد یہ کہ اسے اپنی بہادری کی دھاک بٹھانے کے تناظر میں لیا جاتا ہے، حالانکہ بہادری تو یہ ہے کہ آپ خود اصولوں کی پاسداری کریں اور کسی دوسرے کی طرف سے اس کی خلاف ورزی پر خاموش تماشائی نہ بنیں، بلکہ اس غلط فعل کی مذمت کے لیے آواز اٹھائیں۔

    ہم سب نے یہ الفاظ سن رکھے ہیں: ’’نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے‘‘ اس تناظر میں ہم نماز پڑھتے جاتے ہیں اور ہر وہ کام بھی کیے جا رہے ہیں جس کی ممانعت ہے۔ اور سمجھ یہ رہے ہیں کہ نماز پڑھ لی بس اب ہم سے کوئی برائی سرزد نہیں ہو سکتی، اگر الفاظ پر غور کیا جائے تو وہاں ’’روکتی ہے‘‘ کے الفاظ ہیں، ’’روک دیتی ہے‘‘ کے الفاظ نہیں ہیں۔ اپنے ارادے کی پختگی سے آپ کو خود برے کاموں سے رکنا ہو گا، ہر برائی سے خود کو بچانا ہوگا۔ نماز پڑھنے کے بعد ہر قبیح فعل آپ کے لیے جائز نہیں ہو جائےگا۔ بے ایمانی کے کاموں میں ایمان داری دکھانے کے بجائے ایمان داری کے امور پوری دیانت سے انجام دیجیے۔ اسی میں سب کی بھلائی ہے۔

  • مجرم کون ؟ پولیس یا ہم؟ سید بدر سعید

    مجرم کون ؟ پولیس یا ہم؟ سید بدر سعید

    بدر سعید پولیس کا نام آتے ہی تھرڈ ڈگری، طاقت، کرپشن اور بدمعاشی جیسے خیالات جنم لیتے ہیں۔ یہ ہماری مجموعی سوچ ہے۔ آئیے اس سوچ کو منطقی انداز سے پرکھتے ہیں۔ ہم میں سے کتنے لوگوں کو گذشتہ 6 ماہ میں گرفتار ہونا پڑا؟ یا یوں کہہ لیں کہ ہمیں کتنی بار تھانے جا کر رپٹ لکھوانے پڑی۔ یقینا کئی لوگ تھانے گئے ہوں گے لیکن ان سے کہیں زیادہ افراد گذشتہ ایک برس یا اس سے بھی زیادہ عرصہ سے کسی پولیس اسٹیشن کے قریب بھی نہیں پھٹکے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ دونوں کے الگ تجربات اور سوچ ہو لیکن جو شخص کبھی پولیس اسٹیشن نہیں گیا اورکبھی کسی پولیس اہلکار سے اس کا واسطہ نہیں پڑا، وہ بھی پولیس سے نالاں نظر آئے گا۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ شاید اس لیے کہ پولیس کے خلاف ہم مخصوص ذہن بنا چکے ہیں اور سوشل میڈیا پر پولیس مخالف سٹیٹس لکھنے سے ریٹنگ ملتی ہے۔

    سوال تو یہ بھی ہے کہ کیا ہم ایماندار پولیس اہلکار کو برداشت کرنے کو تیار ہیں؟ یقینا ہم سب ایماندار اور فرض شناس پولیس کے حق میں ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ پولیس کی ایمانداری کے قاتل ہم خود ہیں۔ ہم قانون کی پابندی کے بجائے قانون ہاتھ میں لینا چاہتے ہیں۔ ایمانداری، قانون کی حکومت اور معاشرے کی بہتری کے نعرے تو لگاتے ہیں لیکن ووٹ اسی بدمعاش کو دینا پسند کرتے ہیں جو تھانے سے ہمارا بگڑا ہوا بچہ چھڑوا لائے۔ ہم کبھی یہ نہیں سوچتے کہ اگر ہمارا بچہ ون ویلنگ، لڑائی جھگڑے یا کسی اور جرم کے تحت گرفتار کیا گیا ہے تو اسےگرفتار کرنے والا پولیس اہلکار برا نہیں ہے، برائی تو ہمارے اپنے دامن سے لپٹی ہوئی ہے۔ ہمیں شریف اور ایماندار سیاسی قیادت کے بجائے وہ بدمعاش چاہیے جو ہمارے ناجائز کام کروانے کی سکت رکھتا ہو۔

    آپ کسی روز سڑک پر کھڑے ہو کر خود سروے کر لیں۔ لائن اور لین کی پابندی تو دور ہمارے اکثر شہریوں کو ان کاعلم تک نہیں ہوگا۔ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں اشارے موجود ہونے کے باوجود ٹریفک اہلکار کھڑا کرنا پڑتا ہے۔ ہر دوسرے ڈرائیور کے پاس ڈرائیونگ لائسنس نہیں ہوتا اور وہ شناختی کارڈ پر چالان کرواتا نظر آتا ہے۔ گاڑیوں کی فٹنس کا حال اس سے بھی برا ہے۔ گاڑیوں کے کاغذات پاس رکھنا ہم جرم سمجھتے ہیں۔ ہیلمٹ اور سائیڈ مرر سے ہماری شان گھٹتی ہے۔ معمولی باتوں پر اشتعال میں ایک دوسرے کا گریبان پکڑنا معمول ہے۔ ہیرا پھیری کا یہ عالم ہے کہ سیاسی اکابرین سے لے کر دودھ فروش تک اس میں ملوث پائے جاتے ہیں۔ اکثر ٹریفک جام ہونے کی وجہ ہماری اپنی جلدبازی ہوتی ہے۔ ان حالات میں جب پولیس اہلکار کسی کو گرفتار کرتا ہے تو الٹا اس پر دبائو ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہماری پولیس کرپٹ ہے یا ہم خود کرپشن کی کھیر پسند کرتے ہیں۔

    اسی صورت حال کو ایک اور رخ سے دیکھ لیتے ہیں۔ ہمارا مجموعی خیال یہی ہے کہ کسی صحافی کو گرفتار کرنے کی جرات سنگین جرم ہے۔ کوئی قلمکار یا صحافی غلط ہو تب بھی ہمارے نعرے پولیس مخالف ہوتے ہیں۔ کسی تاجر کو چوری کا مال خریدنے پرگرفتار کیا جائے تو مارکیٹ یونین احتجاجاً پوری مارکیٹ بند کر دیتی ہے۔ کسی وکیل کے خلاف رپٹ بھی لکھی جائے تو عدالتوں کو تالے لگا دیے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ محلہ کے کسی کونسلر کو بھی کسی جرم میں گرفتار کیا جائے تو اسے سیاسی انتقام کا رنگ دے کر ٹائر جلانے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہم ایسے ہر موقع پر نہ تو تحقیق کی زحمت گوارا کرتے ہیں اور نہ ہی تسلیم کرنے پر آمادہ ہوتے ہیں کہ کوئی صحافی، وکیل، تاجر یا سیاست دان بھی مجرم ہو سکتا ہے۔ ہم یہ اعلان بھی کرتے ہیں کہ سیاست دانوں کی اکثریت ملک لوٹ کر کھا گئی ہے اور ہم انہی سیاست دانوں کی گرفتاری پر ملک بند کر دینے کا اعلان بھی کرنے لگتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پھر پولیس کسے گرفتار کرے؟ میری طرح آپ بھی کچھ دیر کے لیے سب کام چھوڑ کر یہی سوچیں کہ مجرم کون ہے؟ ملزم کو گرفتار کرنے والی پولیس یا ملزم کو چھڑاوانے والے بااثر شہری؟ ہمارے معاشرے اور اسلام کے عدل و انصاف کے کلچر کو کون تباہ کر رہا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ چند لمحات کی یہ خود احتسابی آپ کو بھی قانون کی پاسداری پر مجبور کر دے گی۔

  • تو پھر کیا عشق دنیا میں کہیں کا بھی نہ رہ جائے؟-محمد اظہار الحق

    تو پھر کیا عشق دنیا میں کہیں کا بھی نہ رہ جائے؟-محمد اظہار الحق

    izhar

    ہمارا آخر عمران خان صاحب سے کیا جھگڑا ہے؟ ہو بھی کیا سکتا ہے؟ ہمارے کھیتوں کی پگڈنڈیاں ایک دوسرے کو چھو رہی ہیں نہ ہم نے ان کے گھر کے سامنے سے جلوس گزارنا ہے۔ ہماری تو کوئی قدر مشترک ہی نہیں! وہ شہرت کے بامِ بلند پر کھڑے ہیں، ہم گمنام ۔ وہ بادشاہ بننے کے خواہش مند ہیں۔ ایسا ہو گیا تو ہم ان کی رعایا میں شمار ہوںگے۔

    ہم اور ہم جیسے ہزاروں جب کئی عشروں بعد پہلی بار گھروں سے نکلے اور عمران خان کو ووٹ دینے کے لیے قطاروں میں جا کھڑے ہوئے تو اس وقت ہماری ان کے ساتھ کون سی رشتہ داری تھی؟

    وہی تین عورتوں والی پرانی کہانی! جو بادشاہ کے دربار میں طلب کی گئیں کہ چُھپ کر سازش کر رہی تھیں۔ انہوں نے بادشاہ کو دیکھا، پھر ایک نے دوسری سے کہا ”یہ تو وہی ہے‘‘ دوسری نے کہا ”مگر اس کے وہ تو نہیں‘‘ تیسری نے جواب دیا ”ان کے بغیر بھی ہوتے ہیں‘‘۔ ان معنی خیز جملوں اور عورتوں کے چہروں پر کھیلتی ہنسی نے ظل الٰہی کو مزید پریشان کر دیا کہ سازش کھلم کھلا دربار کے اندر بنی جا رہی ہے! حالانکہ پہلی عورت نے کہا تھا کہ یہ بھی بیل ہی ہے۔ دوسری نے شک کا اظہار کیا تھا کہ اس کے سر پر سینگ جو نہیں‘ تیسری نے یہ کہہ کر معاملہ نمٹا دیا کہ کچھ بیل سینگوں بغیر بھی ہوتے ہیں اور بادشاہ سلامت کا شمار انہی میں ہے!

    تو پھر اپنی کمر کے گرد پٹکا باندھ لو‘ بال کھول لو‘ سینہ کوبی کرو۔ جی بھر کر سینہ کوبی کرو! تمہاری امید کی فصل پر ژالہ باری ہوئی ہے۔ تمہارے درختوں پر لگا بور تباہ ہو گیا ہے۔ زنداں کی دیوار تمہارے چمن تک آن پہنچی ہے۔ تم نے جسے پانی سمجھا تھا‘ وہ سراب نکلا۔ تم سمجھے تھے کہ طویل سفر کے بعد‘ اگلا موڑ مڑو گے تو سامنے باغ ہوگا اور اس کے درمیان خوبصورت گھر! مگر آہ! موڑ مڑنے کے بعد بھی وہی طویل راستہ‘ سانپ کی طرح بل کھاتا‘ حدِّ نگاہ تک‘ صحرا کے وسط میں جاتا ہوا! منزل کا نشان ہے نہ وجود!

    جاناں! دل کا شہر نگر افسوس کا ہے
    تیرا میرا سارا سفر افسوس کا ہے
    کس چاہت سے زہرِ تمنا مانگا تھا
    اور اب ہاتھوں میں ساغر افسوس کا ہے
    دیکھو اِس چاہت کے پیڑ کی شاخوں پر
    پھول اداسی کا ہے‘ ثمر افسوس کا ہے
    کوئی پچھتاوا سا پچھتاوا ہے فرازؔ
    دُکھ کا نہیں افسوس! مگر افسوس کا ہے!

    تم سمجھے تھے اب ایک ایسا کلچر آئے گا جو زرداریوں‘ شریفوں‘ چوہدریوں‘ فضل الرحمانوں کے کلچر سے مختلف ہوگا۔ تم نے سنگا پور‘ کینیڈا اور برطانیہ میں قانون کی حکمرانی کے خواب اپنے ملک کے لیے دیکھے تھے۔ مگر خواب خواب ہی رہے؟ زور والا اُوپر ہی رہا، بے بس نیچے ہی رہا!

    کاش! تحریک انصاف میں کوئی جرأت مند ہو اور عمران خان کے تین سو کنال کے محل کے باہر‘ فقیر کی طرح صدا بلند کرے ؎

    تیرے امیر مست‘ تیرے غریب حال مست
    بندہ ہے کوچہ گرد ابھی‘خواجہ بلند بام ابھی

    یہ ایک معمولی واقعہ نہیں! بہت سے بزر جمہر ضرور اس کا دفاع کریں گے۔ لوگ دو قسم کے ہوتے ہیں۔ اوّل، ہر حال میں اپنے لیڈر کا‘ اپنی پارٹی کا‘ اپنی حکومت کا دفاع کرنے والے! دوم، جو غلط کو غلط‘ صحیح کو صحیح‘ سیاہ کو سیاہ اور سفید کو سفید کہتے ہیں! انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ شخصیت کون سی اس غلط کام کی پشت پر ہے‘ وہ برملا سچ کہتے ہیں۔ افسوس! صد افسوس! وہ لوگ جو پارٹیوں‘ لیڈروں اور اپنی حکومتوں سے وابستہ ہیں، ان کی بھاری اکثریت غلطی کو غلطی نہیں مانتی، تاویل کرتی ہے، کج بحثی کرتی ہے۔ جب نشان دہی کی جائے تو غلطی کا اعتراف کرنے کے بجائے الزامی جواب دیتے ہیں کہ تمہاری پارٹی نے فلاں وقت اور تمہارے لیڈر نے فلاں موقع پر یہ کیا تھا! یہ ذہنی افلاس ہے‘ یہ دانش کا قحط ہے! یہ زوال کی واضح علامت ہے۔ یہ اس قوم کی وہ بدقسمتی ہے جس نے قائد اعظم کی وفات کے بعد اپنے جبڑے کھولے اور آج تک ہر امید کو ہڑپ کئے جا رہی ہے!

    نہیں جناب! یہ واقعہ معمولی واقعہ نہیں۔ یہ علامت ہے اس حقیقت کی کہ پولیس کی آزادی کے خیبر پختونخواہ میں سب دعوے جھوٹے نکلے۔ تحریک انصاف کے ایم این اے کے والد نے ٹریفک کے قانون کی خلاف ورزی کی۔ ٹریفک اہلکار نے جو ڈیوٹی پر تھا‘ اپنی ڈیوٹی انجام دی اور چالان کیا۔ کم و بیش سب اخبارات میں ایک جملہ مشترک ہے کہ چالان پر صاحب برہم ہوئے۔ پھر وہی ہوا جو لدھیانہ میں ہوتا آیا ہے۔

    13873133_1771308883112179_3930263588853033351_n
    اس بات پر میڈیا متفق ہے کہ ایم این اے نے مداخلت کی۔ ایم این اے کے والد ڈی پی او سے ملے اور ٹریفک اہلکار کو معطل کر دیا گیا۔ رہا یہ الزام کہ اہلکار نے گالیاں دیں! تو چالان کرنے کے بعد کون اہلکار گالیاں دے گا یا دے سکتا ہے! کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی اہلکار چالان کر کے گالیاں دے؟ جھگڑا چالان کرنے والا نہیں، وہ کرتا ہے جس کا چالان کیا جاتا ہے۔ ایم این اے نے کہا ہے کہ اس کے والد ڈی پی او کے پاس شکایت کرنے گئے جو ان کا حق ہے۔ سیدھا سا سوال یہ ہے کہ دن میں کتنے لوگوں کے ٹریفک قانون کی خلاف ورزی پر چالان ہوتے ہیں؟ کتنے ڈی پی او سے مل سکتے ہیں؟ بات واضح ہے۔ ایم این اے نے مداخلت کی۔ ڈی پی او دب گیا۔ پولیس کے پی میں سیاسی مداخلت سے آزاد ہوتی تو ایم این اے کی مداخلت پر اہلکار کو معطل ہی کیوں کیا جاتا؟ یہ کہنا کہ معطل کر دیا اور پھر انکوائری ہو گی‘ ایک مضحکہ خیز بات ہے۔ پہلے انکوائری کرائو‘ جرم ثابت ہو تب معطل کر و یا جو سزا قانون کے مطابق بنتی ہے دو۔ ایم این اے نے وہی کیا جو پیپلز پارٹی کا یا نون لیگ کا یا قاف لیگ کا یا کسی بھی پاکستانی سیاسی جماعت کا ایم این اے کرتا! عمران خان کا تبدیلی کا دعویٰ تب درست نکلتا جب ایم این اے مداخلت نہ کرتا‘ جب ڈی پی او چالان کرنے پر اہلکار کا دفاع کرتا!

    یہی وہ شرم ناک واقعات ہیں جو اس ملک کے عوام‘ خاص طور پر مڈل کلاس کو مایوسی میں مبتلا کرتے ہیں! ایسے ہی واقعات پر ہزاروں لاکھوں حساس افراد ٹھنڈی سانس بھرتے ہیں اور ان کے منہ سے بلا ارادہ الفاظ نکلتے ہیں کہ”اس ملک پر قانون کی حکمرانی کبھی نہیں آئے گی‘‘ کچھ بے اختیار پکار اٹھتے ہیں کہ یہ ملک رہنے کے قابل نہیں! اس اہلکار کی ذہنی اذیت کا اندازہ لگائیے جس کا واحد جرم یہ ہے کہ اس نے ایم این اے کے والد کے خلاف قانون توڑنے پر قانونی ایکشن لیا۔ اس کے رفقائے کار کے ذہنوں میں حشر بپا کرنے والے خیالات کا اندازہ لگائیے! کل کو چالان کرتے وقت کون بہادر اہلکار ہے جو جرم کرنے والے سے یہ نہ پوچھے گا کہ حضور! آپ کا کوئی قریبی عزیز ایم این اے یا ایم پی اے یا پارٹی کا عہدیدار تو نہیں؟ جن دنوں جنرل ضیاء الحق کی حکومت تھی اور ریلوے سے لے کر سول کے دیگر محکموں پر جرنیلوں کا قبضہ تھا‘ ایک لطیفہ گردش کرتا تھا۔ بس میں رش تھا‘ مسافر کھڑے تھے۔ ایک صاحب نے دوسرے سے پوچھا‘ آپ کے صاحبزادے فوج میں افسر تو نہیں؟ اس نے جواب دیا کہ نہیں! پھر اس نے پوچھا آپ کے قریبی عزیزوں میں کوئی جرنیل تو نہیں‘ اس نے پھر جواب نفی میں دیا۔ مگر سوال کرنے والے کی تسلی ہو ہی نہیں رہی تھی۔ اس نے پھر پوچھا کہ حضور! کیا آپ کے دور و نزدیک کے رشتہ داروں میں کوئی بھی فوجی نہیں؟ اس نے کہا کوئی بھی نہیں! اس پر اس نے غصے سے کہا کہ بدتمیز! پھر اپنا پائوں میرے پائوں کے اوپر کیوں رکھا ہوا ہے؟

    3-4-e1470312787175

    ہو سکتا ہے کہ اس واقعہ کو عمران خان کوئی اہمیت نہ دیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے وہ کوئی ضعیف، مری ماری ہوئی دلیل دے کر اپنے ساتھی کا دفاع کریں! اس سے پہلے بھی وہ ایک کچی بات کہہ کر نکّو بن چکے ہیں۔ تیس کروڑ روپے کی ”معمولی‘‘ رقم دینے کے بعد ان کی دلیل یہ تھی کہ مدارس کو مین سٹریم میں لائیں گے۔ خان صاحب جتنا زور لگا لیں‘ اس معاملے میں”مین سٹریم‘‘ کی تعریف ہی نہیں کر سکتے! مین سٹریم سے ان کی مراد کیا ہے؟ کیا انہوں نے کسی مدرسہ کو قریب سے دیکھا ہے؟ کیا آٹھ سال وہاں گزارنے والے طلبہ سے کچھ تبادلۂ خیال کیا ہے؟ کیا انہیں مدارس میں پڑھائے جانے والے کورس سے سرسری سی بھی واقفیت ہے؟ مین سٹریم کی وہ وضاحت ہی کر دیتے؟ وہ تو مدارس میں زیر تعلیم بچوں کے لیے میز کرسی پر بیٹھنے کا کلچر تک متعارف نہیں کرا سکیں گے؟ چلیے‘ وہ صرف ایک کام کر کے دکھا دیں۔ وہ اپنے پسندیدہ مدرسہ میں درس نظامی کے کورس میں ایک مختصر مضمون تحریک پاکستان پر اور حیاتِ قائد اعظم ہی پر شامل کرا کے دکھا دیں۔ وہ مولانا سے یہی بات منوا لیں کہ قائد اعظم کے مزار پر فاتحہ خوانی کے لیے‘ ایک بار ہی سہی‘ چلے جائیں گے! مین سٹریم؟ کیا مراد ہے خان صاحب! آپ کی مین سٹریم سے؟

    کیا کیا طعنے نہ سنے خان صاحب کے چاہنے والوں نے! کبھی انہیں ممی ڈیڈی کلاس کہا گیا، کبھی برگر فیملی کا لیبل چسپاں کیا گیا۔ اب وہ اپنے زخم چاٹتے ہیں اور فراقؔ کی زبان میں خان صاحب سے اور ان کی پارٹی سے مخاطب ہو کر کہتے پھرتے ہیں ؎
    تو پھر کیا عشق دنیا میں کہیں کا بھی نہ رہ جائے؟
    زمانے سے لڑائی مول لے‘ تجھ سے بُرا بھی ہو؟
    بشکریہ روزنامہ دنیا