Tag: وقت

  • اے وقت گواہ رہنا ہم ایسے نہ تھے – دُر صدف ایمان

    اے وقت گواہ رہنا ہم ایسے نہ تھے – دُر صدف ایمان

    میرا دل آج اور اس وقت ’’بو ل کہ لب آزاد نہیں‘‘ کی تفسیر بنتے ہوئے ایک ایسے موضوع پر لب آزاد کرنے کا ہے کہ جس کی طرف نظر کرو تو آنکھ بار شرم سے جھک جائے، سر بار ندامت سے خم ہو جائے، چشم فلک و ارض نم ہو جائے، ضمیر کی عدالت میں خود پر کوڑے پڑتے محسوس ہوں، شرم سے نظر چرائے اپنا اور اپنی قوم کی حالت کا محاسبہ کرتے اور موجود وقت سے گواہی لیتے سر ندامت سے جھکتا چلا جائے۔

    اور ہاں ہاں یہ سچ ہے اور کڑوا سچ ہے، تاریخ گواہ ہے کہ واقعی ہم ایسے نہ تھے. یہ وقت خود کہہ رہا ہے. کس کس بات کو بیان کروں میں آج اپنی گواہی کے لیے؟ کیا اس وقت کو جب عرب میں جہالت مٹ گئی تھی اور ایک قرآن اور ایک اللہ کو ماننے والے تھے، طالبان تھے نہ داعش، سیکولرازم و لبرل ازم کے چاہنے والے تھے نہ گستاخان رسول ﷺ، تھے تو صرف اور صرف عاشقان رسول ﷺ تھے۔ آج کی طرح ناموس رسالت کے دشمن نہ تھے، عاشقان رسول کے قاتل نہ تھے، یہ قتل و غارت یہ ناانصافیاں نہ تھیں۔

    یا پھر اس بات پر گواہی دوں کہ دورِ صدیق اکبر میں ایسی گری ہوئی سیاست تھی نہ ایسے گرے ہوئے سیاست دان تھے، وہ تو مزدور کی اجرت کے مساوی اپنی اجرت رکھتے تھے، یا شرمندہ خم کر کے اس بات سے گواہی بیان کروں کہ عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسا حاکم گلی گلی کوچے کوچے بنا سکیورٹی، بنا پروٹوکول کے پھر کر عوام کی خبر گیری کیا کرتا تھا۔ عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہ تھے جو اپنی دولت اپنا پیسہ رعایا پر خرچ کرتے تھے، اپنے اکاؤنٹ نہیں بھرتے تھے، اپنی پراپرٹی میں اضافہ نہ کرتے تھے، یا میں گواہی دوں اسی اسد اللہ کی جو نام محمد ﷺ پر حرف اٹھانے والے بڑے بڑے عہدے دار کا سر تن سے جدا کر دیتا تھا، پیاز اور ٹماٹر کی لالچ میں ناموسِ رسالت پر حرف نہ آنے دیتا تھا، خاموش نہ رہتا تھا. کیا کیا گواہی دے گایہ وقت؟ اے وقت! کیا کیا گواہی دے گا؟

    کیا اس وقت اس ایماندار بانی پاکستان قائداعظم کا حوالہ دوں اور انھیں یاد کر کے اشک بار چشم سے لرزیدہ لبوں سے یہ بیان کروں کہ جو بھری محفل میں بنا ڈرے بنا جھکے بڑے بڑے وزراء سے کھلے عام کہتا تھا کہ عوام کا پیسہ عوام کے لیے ہے، وزراء کی چائے پانی کے لیے نہیں ہے، بلاوجہ کے ظہرانے عشائیوں کے لیے نہیں ہے، یا میں اس شرمندہ وقت کو مزید شرمندہ کروں کہ یہ قوم اس وقت اظہار یکجہتی کے لیے سڑ کوں پر آ گئی تھی جب کشمیر میں ایک مسلمان عورت کو ظلم و بربریت کا نشانہ بنایا گیا، اس کی عزت کو اپنی بہن، بیٹی کی عزت سمجھ کے اس کا ساتھ دیا گیا تھا۔ آج تک کشمیر ڈے منایا جا رہا ہے لیکن افسوس اس وقت پر ہے جب ان مسلمانوں کے سامنے حافظ قرآن کو زندہ جلایا گیا، لیکن کوئی گھر سے باہر آیا نہ کسی نے آواز بلند کی، یا یہ وقت اس وقت کی گواہی دے جب مساجد سے قرآن ملتے تھے، نمازی ملتے تھے، اسلحہ و بارود نہ ملتا تھا یا یہ وقت اس وقت کی گواہی دے جب داڑھی والے کو دیکھ کر ادب سے اس کے سامنے سر جھکایا جاتا تھا، اسے احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا، آج کی طرح ڈر کر منہ نہ چھپایا جاتا تھا۔ آج کی طرح کسی دہشت گرد تنظیم کا کارکن سمجھ کر شک کی نگاہ سے نہ دیکھا جاتا تھا۔

    آج یہ وقت خود رو رہا ہے، ماتم کدہ ہے، اپنے آپ کو اس حالت میں دیکھ کر اس وقت کو یادکر کے جب طالب علم کے پاس علم، قلم، کاغذ، امنگ، لگن ملتی تھی، نہ ملتی تھی تو بس 9MM نہ ملتی تھی، نہ ملتا تھا تو کسی دہشت گرد تنظیم سے تعلق نہ ملتا تھا۔ ہاں یہ وقت اس بات پر بھی گواہ ہے جب کوئی ماں اپنے لخت جگر، ٹکڑا دل و جان کو علم کی روشنی حاصل کرنے کے لیے روانہ کرتی تھی تو وہ زندہ ہی لوٹ آتا تھا۔ اپنے دو قدموں پر ہی لوٹ آتا تھا۔ آج کی طرح ٹکڑوں میں بٹا ہوا چار کندھوں میں نہ آتا تھا۔ یہ وقت اپنا گھناؤنا چہرہ دیکھ کر دکھ سے سوگ منا رہا ہے، اس وقت کو یاد کر کے جب کوئی کمسن بچی سکھی سہیلیوں کے ساتھ کھیلنے جاتی تھی تو گھر ہستی مسکراتی لوٹ آتی تھی لیکن آج لوٹ کر نہیں آتی، ڈھونڈی جاتی ہے، تلاش کی جاتی ہے اور مل بھی جاتی ہے تو ہستی مسکراتی نہیں، مردہ وجود کے ساتھ کسی ندی نالے میں، کسی دریا و سمندر میں، کسی کی وحشت و ہوس کا نشانہ بن کر. یہ شرمندہ وقت اس بات پر بھی گواہ ہے جب بہن بیٹی کی عزت گھر کی چار دیواری میں محفوظ رہتی تھی، انٹر نیٹ، ہوٹلوں، کلبوں، گلیوں میں رلتی نہ پھرتی تھی، آزادی کے نام پر بیٹیاں رلتی نہیں تھیں، عزت کا آنچل اتار نہیں پھینکتی تھیں. ہاں یہ وقت گواہ ہے لوگو! یہ وقت گواہ ہے، تاریخ گواہ ہے، میں گواہ ہوں، اور شاید آپ بھی ایسے نہ تھے، نہ لوگ ایسے تھے نہ انسان ایسے تھے، سب سے بڑی بات مسلمان بھی ایسے نہ تھے۔ نہ پاک زمین ایسی تھی نہ پاکستان ایسا تھا، نہ سیاست ایسی تھی نہ حکمران ایسے تھے، نہ لہو اتنا سستا تھا نہ روٹی اتنی مہنگی تھی، نہ عزت یوں تارتار تھی، نہ آنچل یوں بکھرا بکھرا تھا، نہ حاکم اتنے گھٹیا تھے نہ حکومت اتنی خراب تھی، نہ وقت ایسا تھا، نہ وقت ایسا تھا۔

    آج یہ مسلمان مجسم سوال بنا کھڑا ہے اور جواب بھی موجود ہے لیکن اس جواب سے نظریں ملانے کا حوصلہ ہے نہ اس جواب کے لیے سماعت میں اتنی ہمت ہے کہ اس جواب کی تلخی اپنے کانوں میں اتارے، لیکن میں امید کروں گی، اللہ سے دعا کروں گی، یا اللہ! ہمیں امن و امان والا وطن عطا فرما دے، انسانیت والا انسان بنادے، خلفائے راشدین جیسے حاکم عطا فرمادے ، صحابہ کرام جیسا عبادت گزار بنادے۔ پھر میں دوبارہ سے کہہ سکوں گی، اے وقت گواہی دے ہم لوگ نہ تھے ایسے!۔

  • وقت کی حقیقت کیا ہے؟ کیسے سمجھا جائے؟ ہمایوں مجاہد تارڑ

    وقت کی حقیقت کیا ہے؟ کیسے سمجھا جائے؟ ہمایوں مجاہد تارڑ

    humayoon جیسے زندگی ایک بڑے حجم کا، بڑےپھیلاؤ کا، بڑےپیمانے کا مظہر ہے، جس میں بے شمار چھوٹے اور بڑے مظاہر ہیں، مخلوقات ہیں، مناظرہیں اور نوع بہ نوع عوامل اس میں کارفرما ہیں،اسی طرح ہم ایک لمحے کے لیے یہ تصوّر کر لیں کہ ہمارے سامنے ایک میز پر رکھا کمپیوٹر سسٹم بھی ایک دنیا ہے، جس کے اندر بے شمار عوامل ہیں: بجلی، کیبل، کی پیڈ، ماؤس، اس کے ٹھوس یاhard باڈی پاڑٹس، اس کا سافٹ حصّہ یعنی ونڈوز، انٹرنیٹ کنیکشن، ونڈوز میں پڑے بے شمار سافٹ ویئرز، او ر پھر انٹر نیٹ پر موجود لاتعداد آن لائن سافٹ ویئرز- اب اس دنیا (کمپیوٹر) کو ذرا اس نظر سے مشاہدہ کریں کہ ان تمام اشیا کو ایک ایک کر کے بنایا اور پھر آپس میں جوڑا گیا ہے ، کچھ اسطرح کہ سب مل کر ، ہم رابطہ ہو کر ایک وحدت کیساتھ ایک عمل انجام دیں یعنی کمپیوٹر سسٹم بن جائیں۔

    اس چھوٹی سی دنیا کا خالق انسان ہے اور مخلوق یہ کمپیوٹر جو بے شمار چھوٹے بڑے ٹکڑوں اور عوامل پر مشتمل ہے۔یہ سب چھوٹی چھوٹی مخلوقات ہیں۔کمپیوٹر کے اس جہان میں موجود کسی ایک phenomenon کو پوری طرح سمجھنے، اس پر حاوی آنے میں مہینوں صرف ہوتے ہیں۔جیسے مائیکرو سافٹ وَرڈ ایسی سادہ سی شے کے تمام menu کو از برکرنے میں لوگ دو تین ماہ کا کورس مکمل کرتے ہیں۔کسی ایک کمپیوٹر لینگویج پر عبور حاصل کرنا اس سے بھی سِوا مقدارِ وقت کا تقاضا کرتا ہے۔

    کہنا یہ ہے کہ زندگی میں کارفرما تمام عوامل اور اشیا بھی اسی طرح مخلوقات ہیں۔وقت بھی ایک مخلوق ہےیہ بھی ایک چھوٹا سا سافٹ ویئر ہے جسے خدا مختلف جگہوں، ادوار اور سیچویشنز میں مختلف انداز میں برت رہا ہے، اس سے کام لے رہا ہے۔وقت کی رفتار اس جہانِ فانی میں نسبتاً تیز ہے۔جیسے آپ اڑھائی گھنٹے کی ہالی ووڈ فلم کو فاسٹ موشن پر سیٹ کر کے چلا دیں تو وہ دس منٹ یا اس سے بھی کم وقت میں ختم ہو جائے گی۔فلم کو اس کی نارمل رفتار پر دیکھیں گے تو اس کی ساعتیں دو گھنٹے تیس منٹس ہی ہوں گی۔اس نسبت سےایک واقعہ کتاب مقدّس کی سورہ البقرہ میں اسی لیے مذکور ہوا ہے کہ انسان وقت سے متعلق بحث کو اس سادہ سی مثال سے سمجھ لے۔ اس وقوعے میں وقت کے سافٹ ویئر کو تین جگہوں پر مختلف انداز میں فنکشن کرایا گیا ہے:

    ” مثال کے طور پر اس شخص کو دیکھو جس کا گزر ایک بستی پر ہوا، جو اپنی چھتوں پر اوندھی گری پڑی تھی۔ اُس نے کہا ’’یہ آبادی جو ہلاک ہوچکی ہے اسے اللہ کس طرح دوبارہ زندگی بخشے گا؟‘‘ اِس پر اللہ نے اس کی رُوح قبض کرلی اور وہ سو برس تک مردہ پڑا رہا۔ پھر اللہ نے اسے دوبارہ زندگی بخشی اور اس سے پوچھا ’’بتاؤ کتنی مدت پڑے رہے ہو؟‘ ‘ اس نے کہا ’’ایک دن یا چند گھنٹے رہا ہوں گا‘‘ فرمایا ’’تم پر سو سال اسی حالت میں گزر چکے ہیں اب ذرا اپنے کھانے اور پانی کو دیکھو اس میں ذرا تغیّر نہیں آیا۔ دوسری طرف اپنے گدھے کو بھی دیکھو ( کہ اس کا پنجر تک بوسیدہ ہورہا ہے ) اور یہ ہم نے اس لئے کیا ہے کہ ہم تمہیں لوگوں کے لئے ایک نشانی بنا دینا چاہتے ہیں۔ پھر دیکھو کہ ہڈیوں کے اس پنجر کو کس طرح اُٹھا کر گوشت پوست اس پر چڑھاتے ہیں۔‘‘ اس طرح جب حقیقت اس کے سامنے بالکل عیاں ہوگئی تو اس نے کہا ’’ میں جان گیا کہ اللہ ہر چیز ہر قادر ہے ‘ ‘ (سورہ بقرہ آیت 259) ۔

    دیکھیں، یہاں وقت کے سافٹ ویئر نےکھانے پر الگ انداز میں فنکشن کیا۔گویا وقت کو منجمد یاfreeze کر دیا گیا۔اسے Hot Pot Set بنا دیا گیا جس میں اس کی گرمائش اور تازگی برقرار رہی۔جیسے اس پر ایک ساعت بھی نہ گذری ہو۔ جبکہ خود ان صاحب پر اور گدھے پر وہ نارمل رفتار سے گذرا،۔ گدھا بیچارا چند روز یا ہفتے زندہ رہ سکا ہو گا۔ادھر خود وہ صاحب سو برس مردہ حالت میں پڑے رہے جس کے بعد یوں اٹھ بیٹھے جیسے بس سوئے پڑے تھے۔
    تو گویا یہ وقت بھی ایک سافٹ ویئر نما مخلوق ہے جسے خالق جب چاہے سکیڑ دے، جب چاہے پھیلا دے، اور جب چاہے منجمد کردے۔وقت کی رفتارخلائے بسیط میں ہماری اس دنیا کی نسبت مختلف ہے۔ اب یہ ایک روزِ روشن ایس عیاں حقیقت ہے ۔ کوئی خلانوردوں سے کوئی پوچھے تو وہ بتائیں وہاں ذائقے، رنگ، وزن، احساس اور رفتارِ وقت ایسی چیزوں کا یا تو کوئی تصوّر ہی نہیں، یا کم از کم ہماری دنیا سے یکسر مختلف ہے۔ہماری دنیا جسے گیسوں کے دبیز غلاف تلے، ایک خاص پریشر میں رکھا گیا ہے۔ نیچے سے کشش ثقل کی بیڑیاں پہنائی گئی ہیں۔دیکھ لیں، ہم سب جانتے ہیں کہ چاند پر اس نوع کی کشش ثقل نہیں۔ 90 کلو گرام وزن رکھنے والا انسان وہاں ایک غبارے جتنا وزن رکھتا ہے۔چاند کی سطح پر حضرت انسان دو چار ڈگ بھرے تو آدھے لاہور جتنا فاصلہ طے کر جائے۔تو طے ہوا کہ وقت ، ذائقہ، احساس وغیرہ کا چلن زمین کی حدوں سے پار پوتے ہی بدل جاتا ہے۔ جبھی اشارہ دیا گیا کہ اخروی زندگی میں ایک دن یہاں کے پچاس ہزار سال کے برابر ہے۔

    اشفاق احمد کی ڈرامہ سیریل حیرت کدہ کا مائی بلوری والا وہ ناقابلِ فراموش ڈرامہ تو سب کو یاد ہی ہو گا جس میں ایک نوجوان کی مائی بلوری سے ملاقات ہوتی ہے۔یہ ملاقات ایک پرانے قبرستان کے منظر میں دکھائی گئی۔پھر، مائی بلوری یکایک فوت ہو جاتی ہے، تو وہ نوجوان اسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے ایک خیمے کے قریب پہنچتا ہے۔ اندر داخل ہوتے ہی ششدر رہ جاتا ہے۔ دکھایا یہ جاتا ہے کہ مائی بلوری اب عالم برزخ میں ہے۔ جہاں وہ شانت چہرے کیساتھ ایک صاف و شفاف چبوترے پر سفید لباس میں ملبوس، ہاتھ میں تسبیح پکڑے بیٹھی ہے۔ نوجوان اس سے کچھ باتیں کرتا ہے۔ تب وہ اسے جلد واپس لوٹنے کا کہتی ہے ،کہ دیر ہو گئی؛ تمہاری دنیا کی ساعتیں بہت سبک رفتار ہیں؛ اس اثنا میں تمہاری دنیا بہت آگے جا چکی ہو گی۔ وہ پلٹ آتا ہے، اور یہ دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے کہ اس کے رشتہ دار، دوست احباب یا تو فوت ہو چکے ہیں، یا انتہائی ضعیف ہو چکے ہیں۔ہم یہاں بارِ دگر کہیں گے کہ اِس پر وہی مثال صادق آتی ہے کہ جیسے آپ اڑھائی گھنٹے کی ہالی ووڈ فلم کو فاسٹ موشن پر سیٹ کر کے چلا دیں تو وہ دس منٹ یا اس سے بھی کم وقت میں ختم ہو جائے گی۔فلم کو اس کی نارمل رفتار پر دیکھیں گے تو اس کی ساعتیں دو گھنٹے تیس منٹس ہی ہوں گی۔با لکل اسی طرح کائنات میں نصب کردہ زندگی کا سافٹ ویئر ایجاد کرنے والا خالق زندگی کی ونڈوز یا سکرین پر روبہ عمل اپنے اس Time والے سافٹ ویئر کو مختلف جگہوں اور سیچویشنز میں مختلف انداز میں استعمال کر رہا ہے۔

    انسانی زندگی میں وقت کی گزران کو ایک فرد کے احساس کی سطح پر دیکھیں تو جب بھی اس کا چلن عجیب سا ہے۔ مثلاً انتظار کے لمحات بڑے طویل ، اور اعصاب شکن ہوتے ہیں۔خوشی کا وقت تیزی سے بیت جاتا ، جبکہ مصیبت کی گھڑی ٹھہر سی جاتی ہے۔ من پسند ہستی سے ملاقات کے سمے بھی سبک رفتاری سے گزرتے ہیں، جبکہ اس سے دُوری اور جدائی کے لمحات گویا صدیوں میں ڈھل جاتے ہیں۔ حضرت اقبالؒ ہوں یا دوسرے شعرا، اکثر وقت کے اس چلن کا شکوہ کرتے نظر آتے ہیں:

    مہینے وصل کے گھڑیوں کی صورت اُڑتے جاتے ہیں
    مگر گھڑیاں جدائی کی گزرتی ہیں مہینوں میں
    (اقبالؒ)