Tag: وزیر اعظم

  • خود پسند اور جنونی لیڈر-ہارون الرشید

    خود پسند اور جنونی لیڈر-ہارون الرشید

    m-bathak.com-1421247288haroon-rasheed

    حالات ایک خطرناک موڑ پر آ گئے۔ فقط لیڈروں پر ملک کو چھوڑا نہیں جا سکتا۔ کچھ لوگ اٹھیں اور قوم کی رہنمائی کریں۔ بیدار مغز پاکستانی دنیا بھر میں پاکستان کا مقدمہ لڑیں۔ لیڈر تو دیوانے سے ہو گئے، خود پسند اور جنونی، تاریخ کے کوڑے دان کا رزق۔
    داغستان کے امیرالشعرا حمزہ توف کو نوجوان شاعر نے لکّھا: ازراہِ کرم کوئی عنوان تجویز کیجئے۔ انھوں نے کہا: اﷲ سے یہ دعا نہ کرو کہ وہ تمہیں کوئی موضوع عطا کرے بلکہ یہ کہ تمہیں آنکھیں بخش دے۔

    سزا کی ایک شکل یہ ہے کہ ادراک چھین لیا جاتا ہے۔ احساس کی لَو مرتی ہے تو علم غائب ہو جاتا ہے اور آدم زاد بھول بھلیّوں کے حوالے۔
    امیدوں اور اُمنگوں سے لبریز ایک جواں سال آدمی عملی زندگی کے سٹیج پر قدم رکھتا ہے تو کبھی کبھی یہ کرّۂ خاک اُسے اپنے عزائم کے لیے چھوٹا لگتا ہے۔ عزم بجا مگر روشنی تو علم میں ہوتی ہے۔ منزل ہی معلوم نہ ہو تو توانائی کے سب طوفان پیوندِ خاک ہوتے ہیں۔

    انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے مرحوم صدر، ڈاکٹر محمود احمد غازی نے ابتدائی تعلیم مدرسے میں پائی تھی۔ ہوش مندی خمیر میں تھی۔ انگریزی خود سے پڑھی اور غالباً فرانسیسی بھی۔ فقہ میں رواں، قرآن، حدیث اور عصری علوم کے خوش ذوق طالب علم۔ اہلِ علم کی محبت کے جویا۔ پیرس میں مقیم ڈاکٹر حمیداﷲ کو لکھا کہ فلاں اور فلاں موضوع پر دادِ تحقیق کا ارادہ ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا جواب یہ تھا: استنبول کے لیے پا بہ رکاب ہوں… آپ کا خط مجھے بھایا نہیں… اہمیت عنوانات کی نہیں متن کی ہوتی ہے۔

    حدیثِ قدسی وہ ہوتی ہے، جس کے الفاظ بھی آپﷺ کے قلب پر نازل ہوئے ہوں۔ ایک مبارک قول کا خلاصہ یہ ہے: آدمی اﷲ کے بتائے ہوئے راستے پر چلتا ہے یا خود سے سوچے ہوئے راستوں پر۔ اپنی پسند سے اگر وہ تگ و تاز میں لگا ہے تو منزل اسے نصیب نہیں ہوتی، راستوں میں تھکا دیا جاتا ہے۔ ”اے اِبنِ آدم ہو گا وہی جو میری مرضی ہے‘‘۔

    رحمۃ اللعالمینﷺ نے ایک تنکا اٹھایا۔ بہت سی ٹیڑھی میڑھی لکیریں خاک پر کھینچ دیں، پھر ایک سیدھی لکیر اور ارشاد کیا: یہ صراط مستقیم ہے۔ قیادت کے باب میں ایک معروف ارشاد یہ ہے: تمہارے اعمال ہی تمہارے عمّال ہیں، تمہارے حاکم۔ سیّد ابوالاعلی مودودی اگرچہ بعد میں خود بھی بھول گئے، مگر ان کا ارشاد آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے کہ جیسا دودھ ہو، ویسا ہی مکھن نکلتا ہے۔

    قدرت کسی قوم پر مہربان ہو تو اسے نورالدین زنگی، صلاح الدین ایّوبی اور قائد اعظم محمد علی جناح جیسے رہنما عطا کرتی ہے۔ راستوں میں سرگرداں ہی رکھنا ہو تو میاں محمد نواز شریف، آصف علی زرداری اور عمران خان۔ کپتان کے حامی برہم بہت ہوتے ہیں کہ ان کے لیڈر کا نام دوسروں کے ساتھ لیا جائے۔ اس نے شوکت خانم ہسپتال اور نمل یونیورسٹی بنائی۔ بجا ارشاد کہ مالی معاملات میں اس کا اپنا دامن صاف ہے۔ سوال یہ ہے کہ منزلِ مقصود اس کی کیا ہے؟- اقتدار؟ خیال اس کا یہ ہے کہ ایک بار اقتدار مل جائے تو ہر چیز وہ سنوار دے گا۔ اپنی تنہائی میں غالباً وہ یہ سوچتا ہے کہ موقع مل گیا تو اپنی پارٹی سے بھی گندگی نکال پھینکے گا، سماج بھی اُجلا کر دے گا۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ بہت اچھے نصیب کے ساتھ، وہ ایک برگزیدہ آدمی ہے۔ کرکٹ میں، ہسپتال اور یونیورسٹی کی تعلیم میں‘ ہر کہیں کامیابی نے اس کے قدم چومے ہیں۔ سیاست میں بھی آخرکار وہ معجزہ کر دکھائے گا۔

    اس دن، جب اس کی کتاب کے اردو ترجمے کی تقریب رونمائی تھی- اور چالیس دن لاہور کے ایک ہوٹل میں بند رہ کر، ناچیز نے ریاضت کی تھی- اسٹیج پر بیٹھے، باہم بات کرتے ہوئے، چڑ کر میں نے کہا: اے میرے عزیز دوست، تم کوئی قائد اعظم یا مہاتیر محمد تو نہیں ہو۔ ”میں تمہیں بن کر دکھاؤں گا‘‘ اسی بچوں کی معصومیت سے بولا۔ ”جو کچھ بننا تھا، تم بن چکے، 56 برس کے ہو چکے‘‘۔ آٹھ برس اُس نے اورکھو دیے ہیں، آغاز گرما میں اس کی عمر 64 برس ہو چکی۔ سامنے کا سوال یہ ہے کہ پارٹی اُس سے بنتی نہیں، حکمتِ عملی سنورتی نہیں‘ ڈھنگ کے مشیروں کا انتخاب کر نہیں پاتا۔ مل بھی جائے تو 20 کروڑ آبادی کے اس مشکل ملک کی حکومت وہ کیسے چلائے گا‘ داخلی اور خارجی قوتیں جہاں ایک منتشر مزاج قوم کو ہیجان پر آمادہ کرنے میں لگی رہتی ہیں۔

    اس علمی مجدد اقبال نے کہ قدیم و جدید کا شعور تھا، یہ کہا تھا: ”جہاں کہیں دنیا میں روشنی ہے، مصطفیﷺ کے طفیل ہے یا مصطفیﷺ کی تلاش میں‘‘۔ شاعری نہیں یہ زندگی کی عظیم ترین صداقتوں میں سے ایک ہے۔ سیدنا عمرؓ بن عبدالعزیز سے لے کر خواجہ مہر علی شاہ تک، مسلم تاریخ میں جتنے کامران ہو گزرے ہیں، اُن میں سے ہر ایک کا وصف یہ تھا کہ سرکارﷺ کی زندگی پہ اس نے غور کیا تھا، اُنہی سے اکتساب نور!

    ملوکیت کے باوجود، کربلا کے باوجود، تاتاریوں کی یلغار کے باوجود، ایک ہزار برس تک مسلمانوں کا پرچم کیوں لہراتا رہا؟ علم کے طفیل۔ قرآن کریم اور سیرت طیّبہ کی روشنی‘ مگر تاریخ انسانی کا وہ سب سے بڑا کارنامہ کیا تھا، جو میدان عمل میں سرکارﷺ کے روشن ہاتھوں سے انجام پایا۔ لگ بھگ چار ہزار قدوسیوں کی تربیت۔ غالب نے کہا تھا:

    بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
    آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا

    چار ہزار آدمی، نفیٔ ذات پہ قادر، الجھنوں سے پاک، اجلے اذہان، تاریخ انسانی کے عظیم ترین جنرل، سکالر، منتظم، خطیب اور تاجر۔ ان میں ہر ایک یہ جانتا تھا کہ انسان کیا ہے، کائنات کیا ہے اور زندگی کیا ہے۔ عمر فاروق اعظمؓ نے کہا تھا: ہم دھوکہ نہیں دیتے مگر دھوکے کی ہزار شکلوں سے واقف ہیں۔ سپین میں اسی لیے وہ سرفراز تھے۔ صلیبی جنگوں میں بھی، علم اور اخلاق سے۔ مغربیوں کا لشکر بڑا تھا، مگر صلاح الدین کا ادراک اور اخلاق بہت بلند تھا۔ سلیمان ذی شان کی ذہانت اور عزم نے نہیں ترکوں کے علم نے انہیں مغرب پر ہیبت طاری کر دینے والی فوقیت عطا کی تھی۔ ترکوں کی عدالتیں اور سکول بہتر تھے، پولیس، ان کی باوردی فوج اور تربیت یافتہ سول سروس۔ مسلمان ہندوؤں سے بہتر تھے۔ اس لیے ہزار سال ان پر حکومت کر سکے۔ پھر انگریز غالب آئے، اس لیے کہ وہ مسلمانوں سے بہتر تھے۔ وقت اور وعدے کے پابند، زیادہ سائنسی اندازِ فکر رکھنے والے، ریاضت کیش، اپنی قوم سے محبت کرنے والے۔ علم کا کوئی بدل نہیں، خلوص اور اخلاق کا کوئی بدل نہیں۔ افراد کی تربیت اور اپنی عملی مثال سے۔ وہ جسے کاروباری انگریزی میں اب Human Resource کہا جاتا ہے۔ سکھائے پڑھائے لوگ، اپنے کام کی نوعیت اور اپنے عصر کو سمجھنے والے۔ تنگ نظری علم ہی سے دور ہوتی ہے، کشادہ نظری اسی سے جنم لیتی ہے۔

    گستاخی معاف یہ اندھے لیڈر ہیں۔ کشمیر کی صورتِ حال خطرناک ہے۔ امریکہ کی مدد سے بھارت نے لشکر طیبہ اور جیش محمد کو دہشت گرد قرار دلوایا۔ ہماری معیشت تباہ کرنے کے لیے اب وہ پاکستان پر پابندیاں لگوانے کے درپے ہے۔ اقوامِ متحدہ سے نہیں تو کم از کم امریکہ سے۔ کشمیر میں زچ ہو جانے والے بھارت میں جنگی بخار ہے۔ خدانخواستہ، چھوٹا سا حادثہ بھی ہو گیا تو جنگ چھڑ سکتی اور تباہی لا سکتی ہے۔ بدقسمتی سے صرف فوج اور سول میں ہی رابطے کا فقدان نہیں‘ وحشت کے مارے سیاست دان بھی ایک دوسرے کے گریبان پکڑے کھڑے ہیں۔ اُڑی حادثے کے مضمرات کا ادراک وزیر اعظم کو ہے، زرداری صاحب اور نہ عمران خان کو۔ وزیر اعظم اور وزارتِ خارجہ کا کوئی بھرپور اور جامع بیان سامنے نہیں آیا۔ مشیر خارجہ سرتاج عزیز کو اسلام آباد میں مقیم سفیروں کے سامنے پاکستان کا مقدمہ پیش کرنا چاہیے۔ اقوام متحدہ سے تحقیقات کی پیشکش کرنی چاہیے۔ فوج اور سول ہی نہیں حکومت کو اپوزیشن سے بھی رابطہ کرنا چاہیے۔ وہ سب کے سب تو مگر فساد میں مگن ہیں۔

    حالات ایسے خطرناک موڑ پر آ گئے کہ فقط لیڈروں پر ملک کو چھوڑا نہیں جا سکتا۔ کچھ لوگ اٹھیں اور قوم کی رہنمائی کریں۔ بیدار مغز پاکستانی دنیا بھر میں پاکستان کا مقدمہ لڑیں۔ لیڈر تو دیوانے سے ہو گئے، خود پسند اور جنونی، تاریخ کے کوڑے دان کا رزق۔

  • شارٹ کٹ-ہارون الرشید

    شارٹ کٹ-ہارون الرشید

    m-bathak.com-1421247288haroon-rasheed

    قسم ہے زمانے کی بے شک انسان خسارے میں ہے مگر وہ جو ایمان لائے اور اچھے عمل کیے‘ جوسچائی اور صبر کی نصیحت کرتے رہے۔
    نیک نام جسٹس سردار احمد رضا خان کی صدارت میں وزیر اعظم کو نا اہل قرار دینے کی درخواستوں پر سماعت کا آغاز ہوا تو کمیشن کے ایک افسر نے اخبار نویسوں کو کمرۂ عدالت سے نکل جانے کا حکم دیا۔ اخبار نویسوں نے انکار کر دیا اور کہا کہ حکم تحریر طور پر جاری کیا جائے۔ پیپلزپارٹی کے وکیل نے سوال اٹھایا کہ کیا یہ ایک فوجی عدالت ہے؟ پھر تمام وکلا نے بائیکاٹ کی دھمکی دی تو حکم واپس لے لیا گیا۔

    عدالتیں خلا میں کام نہیں کرتیں۔ ملک کا مجموعی ماحول اثرانداز ہوتا ہے۔ گزشتہ کمیشن کے مقابلے میں موجودہ بڑی حد تک قابل اعتبار ہے، شدید عوامی تنقید کے ہنگام جس کے ایک ممبر جسٹس کیانی نے فرمایا تھا: اگر بے عزتی کا احساس ہوا تو چھوڑ کر ہم چلے جائیں گے، وگرنہ برقرار رہیں گے۔ وزیر اعظم کو نا اہل قرار دینے کے لیے دلائل کے انبار دھرے ہیں۔

    2011ء میں اپنے اثاثے انہوں نے 16کروڑ اور 2013ء میں 26 کروڑ بتائے۔ کیا یہ قابل فہم ہے؟ 2013ء کے الیکشن میں کاغذاتِ نامزدگی داخل کرتے ہوئے انہوں نے لندن کے مکانات کا ذکر کیا اور نہ پراپرٹی کے کاروبار کا، جس کی مالیت 800 ملین ڈالر سے کم نہیں۔ پاناما کی ان کمپنیوں کا بھی نہیں، جو اس وقت بنائی گئیں جب حسین نواز نیکر پہن کر سکول جایا کرتے تھے۔ برطانوی مکانوں کے بارے میں میاں صاحب ‘ان کی اہلیہ محترمہ‘ صاحبزادی اور فرزندوں کے بیانات مختلف ہیں، اتنے مختلف کہ مضحکہ خیز۔ انتخابی دستاویزات میں دبئی کی اس سرمایہ کاری کا بھی انہوں نے ذکر نہ کیا، پاناما لیکس پر شور و غوغا کے بعد قومی اسمبلی کو جس پر انہوں نے اعتماد میں لیا۔ جدہ کی سٹیل مل کا حوالہ کیا اس میں موجود تھا، ان کے بقول جسے بیچ کر لندن کی جائیداد خریدی۔ چوہدری نثار علی خان اور صدیق الفاروق کہتے ہیں کہ یہ خریداری 1992ء میں ہوئی۔ وزیر اعظم کے داماد کیپٹن صفدر کو بھی ظاہر ہے کہ جوابدہی کرنا ہو گی، 2008ء اور 2013ء میں جنہوں نے اپنی اہلیہ محترمہ کے اثاثوں کی تفصیل چھپا رکھی۔ ان دنوں اپنا دربار وہ الگ سجاتی ہیں‘سرکاری صحافیوں کو جہاں سے ہدایات ملتی ہیں کہ آزاد اخبار نویسوں کی کردار کشی کی جائے۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ گالی گلوچ تو کیا، آزاد اخبار نویس کو اپنی نوکری ، حتیٰ کہ جان تک کی پروا نہیں ہوتی ۔

    فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے افسر نے وضاحت کر دی ہے کہ قانون سمندر پار کمپنیاں بنانے والوں کے احتساب کی اجازت نہیں دیتا۔ شریف خاندان اگر منتقم مزاج اور سفاک بھٹو کے ہاتھوں اتفاق فائونڈری قومیائے جانے کے بعد دبئی میں سٹیل مل لگا سکتاہے ۔ جنرل مشرف کاہدف ہونے کے باوجود سعودی عرب میں اس سے بڑا کارخانہ تعمیرکر سکتاہے ۔ عرب حکمرانوں کی مدد سے سینکڑوں بھارتیوں کو اس میں کھپا سکتاہے ۔ اگر وہ اپنی شوگر مل میں دشمن ملک کے کاریگروں کو پناہ دے سکتاہے ، ممکنہ طور پر جو ”را‘‘ کے ایجنٹ بھی ہو سکتے ہیں تو کیا اس نے الیکشن کمیشن سے بچ نکلنے کا بندوبست نہ کیا ہوگا؟ تمام بڑے سرمایہ داروں کو قانون دان دستیاب ہوتے ہیں ۔

    سبکدوشی کے بعد جسٹس لون کو شریف خاندان نے سینیٹر کا عہدہ عطا کیا تھا اور جسٹس رفیق تارڑ کو صدارت کا۔
    ہم فرض کرتے ہیں اور یہ فرض کرنے کا پورا جواز موجود ہے کہ الیکشن کمیشن کے تمام ارکان مکمل طور پر دیانت دار اور مکمل طور پر بے خوف ہیں ، عدالتیں مگر خلا میں کام نہیں کرتیں ۔ وہ قانون کے دائرے میں کارفرما ہوتی ہیں۔ شہادتوں پر وہ انحصار کرتی ہیں ۔ جہاں تک پیپلز پارٹی کا تعلق ہے ،ستمبر میں احتجاجی تحریک شروع کرنے اور وزیرِ اعظم کے استعفے کا مطالبہ کرنے کے ساتھ ہی انہوں نے اعلان کیا ہے کہ جمہوری نظام کو وہ پٹڑی سے اترنے نہیں دیں گے ۔ اس کا مطلب کیا ہے ؟ دبئی میں زرداری صاحب سے سینیٹر اسحٰق ڈار کی ملاقات کا مطلب کیا ہے ؟ ٹی او آر کمیٹی سے ایم کیو ایم کے راہِ فرار اختیار کرنے کا مطلب کیا ہے ؟ ؎

    ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
    دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا

    پنجابی ضرب المثل یہ ہے کہ فلاں آدمی تپتے ہوئے توے پر بیٹھ کر بھی کوئی بات کہے تو اعتبار نہ کیا جائے۔ زرداری خاندان ایک ہزاربار نواز شریف کو اکھاڑ پھینکنے کا دعویٰ کرے تو بھی اس پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ اعتزاز احسن اور شیخ رشید ضرورسنجیدہ ہیں مگر غیظ و غضب کے جلو میں۔ غیظ و غضب میں شور و غوغا کیا جا سکتا ہے‘ دھمکیاں دی جا سکتی ہیں‘ مذاق اڑایا جا سکتا ہے‘ پیش گوئیاں کی جا سکتی ہیں، ظفر مندی ممکن نہیں ہوتی۔ ظفر مندی ٹھنڈے دل سے تجزیہ کرنے پھر مستقل مزاجی سے جدوجہد اور ایثار و قربانی سے ممکن ہوا کرتی ہے ۔اعتزاز احسن چیختے رہ جائیں گے اور زرداری صاحب مفاہمت کر لیں گے دونوں کی اسی میں بقا ہے۔

    مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی
    ہیولیٰ برقِ خرمن کا‘ ہے خونِ گرم دہقاں کا

    بیرسٹر اعتزاز احسن کے موقف اور لب و لہجے پر غور کیجیے۔ وہ ہرگز یہ نہیں کہتے کہ لوٹ مار قابل برداشت نہیں۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ شریف خاندان کو من مانی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ناجائز دولت سمیٹنے کے وہ خلاف ہوتے تو جناب آصف علی زرداری کا اتباع کیسے کرتے؟1993ء کی ایک شام ‘جب میاں محمد نواز شریف قومی اسمبلی میں سرے محل کا انکشاف کرنے والے تھے‘ بیرسٹر صاحب نے مجھ سے کہا تھا: اس عورت (بے نظیر )سے میں تنگ آ چکا ہوں ۔دو دن کے بعد ڈٹ کر انہوں نے محترمہ کا مقدمہ لڑا۔ اب وہ انہیں شہید کہتے ہیں‘ ایک روحانی مقام و مرتبے پر فائز۔ چوہدری نثار علی خان کے خلاف ہر روز وہ ایک بے معنی سی تقریر کرتے اور ان سے شکوہ سنج اخبار نویسوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ اپنے بے لچک مزاج اور گاہے مردم بیزاری کا ارتکاب کرنے والے چوہدری صاحب بعض کے نزدیک ناپسندیدہ ہیں۔ مگر وہ بھکاری ہیں اور نہ خوشامدی۔ اپنے بل پر ضدی آدمی جیتا ہے۔ سیاست کی باریکیوں کو اعتزاز احسن اینڈ کمپنی سے وہ بدرجہا بہتر سمجھتا ہے ‘فصیح و بلیغ بھی ۔

    الیکشن کمیشن وزیر اعظم کے بارے میں کیا فیصلہ کرے گا؟ ممکن ہے وہ انہیں نااہل قرار دے۔ میرا خیال ہے کہ اگر ایسا ہوا تو ان کے حریفوں میں سے اکثر کا انجام بھی یہی ہو گا۔ جب ایشیا کے نیلسن منڈیلا آصف علی زرداری‘ قائد انقلاب عمران خان ‘شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری سمیت سب کا۔

    کاش یہ لوگ ادراک کر سکتے‘ کاش نفی ٔذات پر کم از کم اس قدر وہ قادر ہوتے کہ تجزیہ کرنے کی صلاحیت کھو نہ دیتے۔ پہلی بار یہ مشق نہیں‘ فیلڈ مارشل ایوب خان کے زمانے میں سینکڑوں سیاستدانوں کو ”ایبڈو‘‘کردیا گیا تھا ،بعض کو عدالتوں کے ذریعے۔ پھر کیا ہوا؟ سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ فوج کاروبارِ حکومت چلا نہیں سکتی کہ جس کا کام اسی کو ساجھے ۔ سیاستدانوں کو برادری باہر کیا جا نہیں سکتا۔ طاقتور فوج ہے اور مقبول بھی ۔ کور کمانڈروں کا کیا یہ جی نہ چاہتا ہوگا کہ بدعنوان سیاستدانوں کو بحیرہ ء عرب میں اٹھا پھینکیں۔ مگر وہ پھینک نہیں سکتے۔ تجربات سے انہوں نے سیکھا ہے کہ انہی کے پامال حربوں پہ انہیں اترنا پڑتاہے۔ ان کا اپنا وقار جاتا رہتاہے اور آخر کار وہ ڈھے پڑتے ہیں ۔

    راستہ اور ہے ، حضورِ والا ! راستہ اور ہے ۔ ماضی کو بھول کر شائستہ مستقبل کی تلاش ۔ صاحبِ دانش جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کہا تھا :تاریخ سے کبھی کوئی نہیں لڑ سکا۔ تاریخ سے کبھی کوئی نہ لڑ سکے گا۔ آخر ایک دن وقت یہ فرمان جاری کرے گا کہ فوج کو جو راہ انہوں نے سمجھائی تھی ؛اگرچہ مخمصے کے ساتھ مگر اب بھی جس پر وہ چل رہی ہے ، وہی قابلِ عمل ہے۔ بھائیوں کی نا م پر ان کی کردار کشی ایک الگ موضوع ہے ، اس پر پھر کبھی ۔

    قوموں کے مقدر نعرہ بازی سے نہیں بدلتے ، شعبدہ بازی سے نہیں ۔ تدبر کی ضرورت ہوتی ہے ، دانش ، حوصلہ مندی ، مستقل مزاجی اور رواداری کے ساتھ پیہم جدوجہد کی۔ کوئی مختصر راستہ نہیں ہوتا۔ بلوغت اور بالیدگی کے لیے قوموں کو عشروں کی ریاضت درکار ہوتی ہے ۔ نواز شریف کو اٹھا پھینکنا سہل نہیں اور اٹھا پھینکا تو عدم استحکام کے ایک نئے‘ سنگین تر دور کا آغاز ہوگا۔ ع

    سخت کوشی سے ہے تلخیٔ زندگانی انگبیں

    قسم ہے زمانے کی بے شک انسان خسارے میں ہے ‘مگر وہ جو ایمان لائے اور اچھے عمل کیے، جو سچائی اور صبر کی نصیحت کرتے رہے۔

  • یہ قدم اچھا ہے-جاوید چوہدری

    یہ قدم اچھا ہے-جاوید چوہدری

    566527-JavedChaudhryNew-1469464911-239-640x480

    پی آئی اے نے 14 اگست کو لندن کے لیے پریمیئر سروس شروع کی، میں 14 اگست کو لندن گیا اور 16 اگست کو اسی سروس کے ذریعے واپس اسلام آباد آ گیا، یہ تجربہ اچھا رہا، مسافروں نے عرصے بعد قومی ائیر لائین کو بین الاقوامی سطح کی سروس بنتے دیکھا، ہیتھرو ائیرپورٹ پر سفارت خانے اور پی آئی اے کا اسٹاف مسافروں کے استقبال کے لیے موجود تھا، میں نے مبارکباد کے لیے اسٹیشن منیجر کو تلاش کیا، مجھے منیجر کا لب ولہجہ جانا پہچانا لگا، میں نے ان سے پوچھا ’’ کیا ہم پہلے بھی ملے ہیں‘‘ انھوں نے قہقہہ لگایا اور جواب دیا ’’ہم نہیں ملے لیکن آپ میری آواز سے مل چکے ہیں‘‘ پتہ چلا یہ سینیٹر مشاہد اللہ خان کے چھوٹے بھائی ساجد اللہ خان ہیں، وہی آواز، وہی لہجہ، وہی شعر فہمی اور وہی حس مزاح، میں ان کا گرویدہ ہو گیا۔

    پریمیئر سروس کا آئیڈیا شجاعت عظیم کا تھا، یہ حقیقتاً کام کرنے والے انسان ہیں، شجاعت صاحب نے دو اڑھائی برسوں میں پاکستان کی سول ایوی ایشن، ائیر پورٹ سیکیورٹی فورس اور پی آئی اے کا حلیہ بدل دیا، آپ پرانے ائیر پورٹس یاد کریں اورآج کے دیکھیں، آپ کو زمین آسمان کا فرق محسوس ہو گا، آپ تین سال پرانی پی آئی اے کا مقابلہ آج کی پی آئی اے سے کر لیں، آپ کو  پی آئی اے میں بہتری نظر آئے گی اور آپ 2013ء کی ائیرپورٹ سیکیورٹی فورس کا مقابلہ آج کی اے ایس ایف سے کر لیں آپ کو اس میں بھی فرق نظر آئے گا اور ہم مانیں یا نہ مانیں ان تبدیلیوں کا کریڈٹ بہرحال شجاعت عظیم کو جاتا ہے لیکن افسوس ہم نے انھیں کام نہیں کرنے دیا،ہم بہت دلچسپ قوم ہیں، ہم نے آج تک پی آئی اے کو خراب کرنے والے کسی شخص کا حساب نہیں کیا، جنرل پرویز مشرف نے دوبار آئین توڑ دیا، ان کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے 60 ہزار پاکستانی شہید ہو گئے۔

    فوج دہشت گردوں کا نشانہ بن گئی اور ہماری معیشت تباہ ہو گئی لیکن سزا دینا تو درکنار ہم انھیں باہر جانے سے بھی نہیں روک سکے جب کہ ہم نے پی آئی اے کی حالت بدلنے والے شجاعت عظیم کو عدالتوں کے کوریڈورز میں رول دیا، ہم نے انھیں عبرت کی نشانی بنا دیا، ہم کیسے لوگ ہیں، ہم کام کرنے والوں کو ناک رگڑنے پر مجبور کر دیتے ہیں اور کام نہ کرنے والوں کو اعزازات سے نوازتے ہیں، یہ سلسلہ بھی اب بند ہونا چاہیے، میری وزیراعظم نواز شریف سے درخواست ہے آپ ملک میں ایک نیا قانون متعارف کرائیں، حکومت سزائیں بھگتنے والے تمام مجرموں کی سلیٹ پانچ سال بعد صاف کر دے، آپ برطانیہ سے لے کر امریکا تک دنیا کا مطالعہ کریں۔

    آپ حیران رہ جائیں گے ان تمام ممالک میں سزا بھگتنے کے چند برس بعد مجرموں کی شیٹ صاف ہو جاتی ہے اور ریاست انھیں دوبارہ مکمل زندگی گزارنے کا موقع دیتی ہے لیکن ہم مرنے کے بعد بھی لوگوں کی فائلیں کھلی رکھتے ہیں، اللہ تعالیٰ انسانوں کو معاف کر دیتا ہے لیکن اللہ کے بندے اپنے جیسے بندوں کو معاف نہیں کرتے، کیوں؟ سپریم کورٹ کو شجاعت عظیم کے معاملے کا ازسر نو جائزہ لینا چاہیے، ایک شخص اگر تنخواہ اور مراعات کے بغیر ملک کی خدمت کرنا چاہتا ہے تو ہمیں کیا اعتراض ہے، ہم راہ میں رکاوٹ کیوں بن رہے ہیں۔

    میں پریمیئر سروس کی طرف واپس آتا ہوں، پاکستان نے سری لنکا سے 330 Aکے تین جہاز لیز پر لیے ہیں ،لنکن ائیر لائین کے پاس 21 ائیر بسیں ہیں، یہ جہاز سری لنکا کی غلط سرمایہ کاری تھی، سری لنکا میں مسافر کم ہیں اور جہاز زیادہ چنانچہ ائیر لائین معاشی دباؤ میں آ گئی، پی آئی اے کو خبر ملی تو یہ ایکٹو ہو گئی، سری لنکا سال بھر کی گفت وشنید کے بعد اپنے جہاز لیز پر پی آئی اے کو دینے کے لیے رضا مند ہو گیا، یہ بہت اچھی ڈیل ہے، پاکستان کو جہاز چاہیے تھے لیکن نقد رقم نہیں تھی اور ادھار دینے کے لیے کوئی تیار نہیں تھا دوسری طرف سری لنکا کے لیے قسطیں نکالنا مشکل تھا چنانچہ دونوں نے مسئلے کا خوبصورت حل نکال لیا، پاکستان کو جہاز مل گئے اور سری لنکا قسطیں ادا کرنے کے قابل ہو گیا۔

    جہازوں کے پائلٹس اور سینئر عملہ سری لنکن ہے جب کہ جونیئر کریو پاکستانی ہے، آپریشن اور مینٹیننس سری لنکا کے پاس رہے گی یوں یہ جہاز ہمارے انجینئروں اور آلات کے سپلائرز سے محفوظ رہیں گے، ہم لوگ باس برے اور ماتحت بہت اچھے ہوتے ہیں لہٰذا ہمارے لوگ لنکن عملے کی نگرانی میں بہتر کام کریں گے، سری لنکا میں میزبانی باقاعدہ انڈسٹری بن چکی ہے، آپ کو دنیا بھر میں سری لنکن خانساماں اور ویٹرز ملتے ہیں، یہ لوگ باقاعدہ ٹریننگ لے کر دنیا میں نکل رہے ہیں، پریمیئر سروس کا لنکن اسٹاف ہمارے لوگوں کو بھی میزبانی سکھائے گا، یہ مسافروں کو بھی ڈسپلن میں رکھے گا، لنکن پائلٹس کی وجہ سے پاکستانی پائلٹس کی بلیک میلنگ بھی کم ہو جائے گی، یہ اب اندھا دھند ہڑتالیں نہیں کر سکیں گے اور اگر ہڑتال ہو بھی گئی تو بھی پریمیئر سروس چلتی رہے گی یوں مسافر اور ائیر لائین دونوں نقصان سے بچ جائیں گی، ہمارے جہاز پرانے ہو چکے ہیں، ائیر بسیں ان کے مقابلے میں جدید ہیں، سہولتیں بھی زیادہ ہیں، یہ سہولتیں بھی پی آئی اے کو بہت آگے لے جائیں گی چنانچہ یہ ڈیل ہر لحاظ سے اچھا فیصلہ ہے۔

    میں 14 اگست کو ائیر پورٹ پہنچا، سروس کا افتتاح وزیراعظم، وزیر خزانہ، مشاہداللہ خان اور شجاعت عظیم نے کیا، میں سروس کے ابتدائی مسافروں میں شامل تھا، وزیراعظم نے مجھے مسافروں کی قطار میں دیکھ کر پوچھا ’’آپ کہاں جا رہے ہیں‘‘ میں نے قہقہہ لگا کر جواب دیا ’’میں سروس کا جائزہ لینے جا رہا ہوں‘‘ وزیراعظم بھی ہنس پڑے۔ پی آئی اے نے پریمیئر سروس کے لیے ائیر ہوسٹس کی یونیفارم بھی تبدیل کر دی ہے، ہماری ائیر ہوسٹس 1960ء کی دہائی میں سفید شلوار پرسبز قمیض پہنتی تھیں، ان کے گلے میں اسکول یونیفارم کی طرح سفید ربن ہوتا تھا اور سر پر سبزرنگ کی نیوی کیپ ہوتی تھی، یہ یونیفارم دوبارہ متعارف کرا دیا گیا، ائیر ہوسٹس مہمانوں کے استقبال کے لیے یہ یونیفارم پہن لیتی ہیں اور جہاز میں سروس کے دوران بینگنی رنگ کی شلوار قمیض اور اسی رنگ کی کیپ استعمال کرتی ہیں، یہ یونیفارم پرانی وردی کے مقابلے میں خوبصورت، پریکٹیکل اور گریس فل ہے۔

    کھانے کا معیار بھی اچھا تھا، جہاز بھی صاف ستھرا تھا اور ٹیک آف کے بعد اور لینڈنگ سے پہلے پورے جہاز میں پرفیوم کا چھڑکاؤ بھی کیا گیا تاہم مسافروں کا رویہ روایتی تھا، ایک مسافر نے جہاز میں داخل ہوتے ہی دروازے کے قریب قے کر دی، باقی مسافر قے کے اوپر سے گزرتے رہے اور یوں یہ گندگی چند لمحوں میں پورے جہاز میں پھیل گئی، ٹوائلٹس بھی آدھ گھنٹے میں ’’چوک‘‘ ہو گئے، بچوں کے رونے کی آوازیں ساڑھے سات گھنٹے تک مسلسل آتی رہیں، درمیانی عمر کے ایک صاحب ہر گھنٹے بعد ٹوائلٹ آتے اور پورا جہاز ان کے ناک اور گلا صاف کرنے کی آوازیں سنتا، لوگوں نے آوازوں سے ’’متاثر‘‘ ہو کر کھانا پینا چھوڑ دیا، لنکن عملہ بھی خاصا پریشان تھا۔

    میرا خیال ہے پی آئی اے کو ’’پیٹی کسنے اور پیٹی کھولنے‘‘ کی اناؤنسمنٹ میں واش روم کے استعمال کوبھی شامل کر دینا چاہیے، یہ ممکن نہ ہوتو ادارہ ٹوائلٹس میں ’’ایل سی ڈی‘‘ لگوا دے اور اس ’’ایل سی ڈی‘‘ پر واش روم کے طریقہ استعمال، عملے کے ساتھ برتاؤ اور مسافروں کے ساتھ رویئے کے بارے میں فلم چلتی رہے، یہ فلم پاکستانی مسافروں کی تربیت میں اہم کردار ادا کرے گی، میں نے مسافروں کو ائیر ہوسٹسز کے ساتھ بدتمیزی کرتے بھی دیکھا، یہ زیادتی ہے، یہ بے چاری مسلسل آٹھ گھنٹے مسافروں کی خدمت کرتی ہیں، یہ اتنی خدمت کے بعد شکریہ کی مستحق ہوتی ہیں لیکن ہم شکریہ ادا کرنے کے بجائے ان کے ساتھ غلاموں جیسا سلوک کرتے ہیں، یہ رویہ بھی بدلنا چاہیے۔

    میں طویل عرصے سے مسافر ہوں، میں نے ان مسافتوں کے درمیان سعودی عرب اور لندن کے روٹس کو بہت مشکل پایا، لوگ احرام باندھ کر دوسروں کے ساتھ بدتمیزی کرتے ہیں، لندن جانے والے مسافر انگریزی بولتے ہیں لیکن رویئے اجڈ دیہاتیوں سے بدتر ہوتے ہیں، کیوں؟ میں آج تک وجہ نہیں جان سکا جب کہ کینیڈا اور امریکا کی فلائیٹس بہت اچھی ہوتی ہیں لیکن بہرحال پریمیئر سروس اچھی شروعات ہے، ہمیں پہلا جہاز مل گیا، باقی بھی جلد مل جائیں گے، یہ جہاز پی آئی اے میں نیا خون ثابت ہوں گے، ہمیں ماننا ہوگا ہم اداروں کو مکمل طور پر تبدیل نہیں کر سکتے لہٰذا ہمیں انتقال کرتے اداروں کے درمیان پریمیئرسروس جیسے زندگی کے چھوٹے چھوٹے جزیرے بنانے چاہئیں، یہ جزیرے آہستہ آہستہ اداروں کو تبدیل کر دیں گے، یہ پریمیئر سروس سردست صرف برطانیہ تک محدود رہے گی، برطانیہ میں ہر ہفتے 22 فلائیٹس جاتی ہیں، ہم اگر یہ روٹ ٹھیک کر لیتے ہیں تو آہستہ آہستہ دوسرے روٹس بھی ٹھیک ہو جائیں گے اور یوں چند برسوں میں پی آئی اے کے مردہ جسم میں نئی روح آ جائے گی، یہاں سے تبدیلی کا عمل شروع ہو جائے گا۔

    میں وزیراعظم اور پی آئی اے دونوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

  • ہمارے نگرکے عجائباتِ سیاست…منیر احمد خلیلی

    ہمارے نگرکے عجائباتِ سیاست…منیر احمد خلیلی

    Graphic1

    وزیر اعظم نواز شریف کی ٹانگ میں انفکشن ہے۔ ڈاکٹر علاج کر رہے ہیں۔اسلام آباد آنا اور وزیرِ اعظم ہاؤس میں بیٹھ کر امورِ مملکت چلانا فی الحال ان کے لیے ممکن نہیں ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انہیں علاج کے لیے پھر لندن جانا پڑے۔پوری طرح ٹھیک ہو نے بعد ہی وہ دارالحکومت میں آکر وزیرِ اعظم ہاؤس کو رونق بخشیں گے۔ہمیں اسلام آباد اور رائے ونڈ کی آب و ہوا میں فرق کے بارے میں کچھ زیادہ معلومات نہیں ہیں۔اس لیے یہ نہیں کہہ سکتے کہ جنابِ وزیر اعظم کا اسلام آباد میں لاہور جیسا علاج کیوں ممکن نہیں اور ان کے انفکشن پر اسلام آباد کی آب و ہوا کے کیا منفی اثرات ہو سکتے ہیں؟اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ انہیں جلد شفایاب کرے۔سوال یہ ہے کہ اگر خُدا نخواستہ وزیرِاعظم کی ٹانگ کی تکلیف ٹھیک ہونے میں بات دنوں اور ہفتوں سے گزر کر مہینوں تک چلی گئی تو کاروبارِحکومت اسی طرح ایڈہاک بنیادوں پر چلتارہے گا؟ اور اگر ایڈہاک طرز پر آسانی سے چل سکتا ہے تو پھر لوگ سوچنے ہی نہیں ، کہنے لگیں گے کہ وزیر اعظم کے منصب کی ضرورت ہی کیا ہے؟ کسی اسحاق ڈار کو کام سونپ دیں، کام چلتا رہے گا۔

    یہ صورتِ حال ان ملکوں اور معاشروں میں ہوتی ہے جہاں نظام کسی زرّیں آدرش اور اصول سے خالی ہوتا ہے اور اسے مستحکم اقدار اور مضبوط اداروں کے بجائے طاقتور شخصیات اور خاندانوں کے تابع کر دیا جاتا ہے۔ہمارے ملک میں سیاسی اور مذہبی جماعتیں کچھ خاندانوں اور شخصیات کی جاگیریں ہیں۔ملکہ برطانیہ کا ولی عہدبیٹا اب خود بڑھاپے کی سنجیدہ سرحدوں سے بھی آگے جا رہا ہے لیکن وہ جیتے جی تخت سے اترنے اور تاج سے دسر بردار نہیں ہو رہی ہیں۔ہمارے ہاں بھی ’شاہی ‘ سیاسی خاندانوں میں در پردہ یا علانیہ ولی عہد تو مقرر ہو جاتے ہیں لیکن شاہانِ معظّم ’تخت‘ اسی وقت چھوڑتے ہیں جب عزرائیل ان کے دروازے پر آ کر دستک دیتے ہیں۔ یہ ولی عہدوں کی اپنے طرز کی سیاسی تربیت تو کرتے ہیں مگر سیاسی جاگیر جیتے جی وہ ان کے سپرد بھی نہیں کرتے۔بلاول کی تاج پوشی نہیں ہوئی ہے مگر شہنشاہِ معظم کے لیے چونکہ راج دہانی میں کچھ ’ سنجیدہ مسائل ‘ پیدا ہو گئے تھے اس لیے پرجا کو ولی عہد کی ماتحت چھوڑ گئے، راج لاج مگر ابھی تک اپنے ہاتھ میں رکھے ہوئے ہیں۔جب چاہتے ہیں وزرا کو دوبئی یا لندن طلب کر لیتے ہیں۔

    وہ جو کہتے ہیں ناں کہ ’راجہ جوگی کس کے مِیت ‘ یعنی بادشاہ اور فقیر کسی کے دوست نہیں ہوتے، یہاں یہی معاملہ ہے۔کسی پر اعتماد نہیں ہے۔زرداری صاحب نے راج دلارے پر بھی اپنی بہن کو نگران مقرر کر رکھا ہے اور جناب وزیر اعظم اپنے بہت سے پرانے وفاشعارساتھیوں کو نظرانداز کر کے کاروبارِ مملکت اپنے سمدھی اسحاق ڈار کے ذریعہ چلانا چاہتے ہیں۔لیکن ان کے اوپر بھی ان کی صاحبزادی کی کڑی نظر ہے۔اسحاق ڈار لاہور کی داتا دربار سمیت کئی مسجدوں اور مزاروں کی انتظامی کمیٹیوں کے عہدہ دار بتائے جاتے ہیں۔تسبیح ہر وقت ہاتھ میں رکھتے ہیں۔وزیر اعظم حج عمرہ کے لیے جب حرمَین شریفَین جاتے ہیں،یہ موقع ضائع نہیں کرتے۔ہمیشہ ساتھ، اتنے ساتھ جیسے وزیر اعطم کے بائیں کندھے والے فرشتے کی طرح کی کوئی پراسرار ڈیوٹی دے رہے ہوں۔وزیر اعظم کو عبادت اور ذکر و دعا کے لیے تخلیہ میں نہیں چھوڑتے ۔

    لیکن انسانوں کے دل تسبیح گردانی اور ورد وظیفہ سے نہیں بلکہ زبان کی مٹھاس اورعاجزانہ مزاج اور ملنساری جیسے اخلاقی اوصاف سے جیتے جاتے ہیں۔پارٹیاں مذہبی ہوں یا سیاسی،ڈسپلن ان کی بنیادی ضرورت ہوتی ہے۔ڈسپلن اصول و قواعد کی پابندی کا نام ہے اور یہ جتنا کارکنوں اور ارکان کے لیے ضروری ہوتا ہے اس کی زیادہ ضرورت قائدین کے لیے ہوتی ہے کہ وہ اعلی اصولوں اور بلند اخلاقی قدروں کا قابلِ تقلید نمونہ ثابت ہوں۔اسحاق ڈار صاحب کا کیسہ اس سرمائے سے تہی بتایا جاتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ ارکانِ اسمبلی سے ان کے برتاؤ میں رعونت اور تکبّر جھلکتاہے۔

    بجٹ بنانا اور چیز ہے اور بجٹ پاس کرانا پارٹی ڈسپلن سے تعلق رکھنے والی ایک اورچیز ہے اور پارٹی ڈسپلن قیادت کے برتاؤ سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔ ارکان اسمبلی کی زبانیں اور ووٹ کے لیے اٹھنے والے ہاتھ تواٹھارھویں ترمیم کی رسی سے بندھے ہوئے ہیں لیکن دل کسی رسی سے نہیں باندھے جا سکتے۔ بابر اعوان دل سے ننانوے فیصد تحریک انصاف کے ہو چکے ہیں ۔سینیٹ کی نشست کو نہ خود چھوڑنا چاہتے ہیں اور نہ پارٹی انہیں فارغ کرنا چاہتی ہے۔اٹھارھویں ترمیم کی رسی سے بندھے ہونے کی وجہ سے پابند ہیں کہ پیپلز پارٹی کی پالیسی سے انحراف نہ کریں۔پارٹی انہیں نکالتی اسی لیے نہیں ہے کہ ان کی خالی نشست پراپنے کسی اور بندے کو جتوانا ممکن نہیں۔اگر سینیٹ کی نشست عزیز ہے تودل پی ٹی آئی کو دے بیٹھنے کے باوجود وہ پیپلز پارٹی کی پالیسی سے ہٹ کر ووٹ نہیں دے سکتے۔دل عمران خان کی مٹھی میں اور ووٹ زرداری کی مٹھی میں ہے۔

    اب کی بار بجٹ کی مہم وزیرِ اعظم کی غیر موجودگی میں سر آ پڑی۔ اسے پاس کرانے کے لیے کم از کم اپنی پارٹی کے ارکانِ اسمبلی پر کچھ اخلاقی اثر اور پارٹی میں نظم و ضبط تو ہونا چاہیے تھا۔ قبلہ ڈارسمجھ رہے تھے کہ وزیر اعظم کے سمدھی ہونے کے باعث تمام ارکان اسمبلی ان کے اشاروں پر ناچیں گے۔لیکن ہوا یہ کہ ارکانِ اسمبلی کی اکثریت ان کی بجٹ تقریر اور دیگر چیخ و پکار سننے پر آمادہ نہیں تھی۔انہوں نے ارکان کے اعزاز میں ڈنر کا اہتمام کیا اس کا بھی اکثر نے بائیکاٹ کیا۔حمزہ شہبازقومی اسمبلی کے رکن ہیں لیکن مہینہ بھر میں کہیں ایک آدھ بار ہی اسمبلی میں آتے ہیں۔ مسلم لیگ ن کا election ikon by-ہیں۔ پنجاب میں کم و بیش تمام ضمنی انتخابات اسی نوجوان کی محنت اور کوشش اور شخصی جاذبیت کے بل پر جیتے گئے تھے۔بجٹ پاس کرانے کے لیے نہ ڈار کی چرب زبانی کام آئی ،نہ مریم کے ٹوٹر۔ پارٹی ارکان کو قابو میں رکھنے کے لیے آخر حمزہ شہباز کو تین دن اسمبلی میں بیٹھنا پڑا۔ آزاد کشمیر کے انتخابات میں بھی ان کی کمک مطلوب تھی لیکن وہ جا کر لندن میں بیٹھ گئے۔

    جمہوریت پارٹی کے اندر سے شروع ہوتی ہے۔جن ملکوں کی جمہوریت کی ہم نقل کرتے ہیں وہاں سیاسی پارٹیاں اصولوں اور قواعد کے مطابق چلتی ہیں ۔پارٹی لیڈر سے لے کر عام کارکن تک سب ان اصول و قواعد کے پابند ہوتے ہیں تو نظام میں خلل نہیں آتا۔برطانیہ میں تاج تو ملکہ الزبتھ کے سر پر ہے لیکن حکومت سیاسی پارٹیاں کرتی ہیں۔لیڈر متبادل قیادت تیار کرتے ہیں اور اختیارات سنبھالنے کے لیے جوہرِ قابل ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ برطانیہ میں چند سال قبل تک لیبر پارٹی کی حکومت تھی۔ ٹونی بلیئرنے اپنی پالیسیوں پر سخت کی وجہ سے وزارتِ عظمیٰ چھوڑی تو ابھی حکومت کی مدت باقی تھی۔ اس مدت کے لیے گولڈن براؤن نے یہ عہدہ سنبھال لیا۔ پارٹی میں نہ کوئی فارورڈ بلاک بنا اور نہ ہارس ٹریڈنگ کی کوئی صورت حال رونما ہوئی۔ مدتِ حکومت پوری ہونے پر انتخابات ہوئے۔ کنزرویٹو پارٹی کے قائد ڈیوڈ کیمرون وزیر اعظم بن گئے۔ حال ہی میں ایک ریفرنڈم میں ایک اہم مسئلے پران کے موقف کی عوام نے تائید نہیں کی۔ ریفرنڈم میں شکست کھانے پر کیمرون نے ذاتی طور پرمحسوس کیا کہ اخلاقی اور جمہوری اصولوں کی روشنی میں وہ وزیرِ اعظم کے منصب پر برقرار رہنے کا جواز کھو بیٹھے ہیں ۔انہوں نے اپنا منصب چھوڑ دیا اور اسی پارٹی کی خاتون رہنما ٹریسے مے نے بقیہ مدت کے لیے وہ منصب سنبھال لیا۔نہ ٹونی بلیئر نے اپنے آپ کو ناگزیر قرار دیا اور نہ ڈیوڈ کیمرون نے سوچا کہ وہ نہیں رہے گا تو حکومت دھڑام سے گر جائے گی۔یہاں نہ میاں نواز شریف نے پارٹی کے اندر کوئی قابلِ اعتماد متبادل ابھرنے دیا، نہ عمران خان یہ سمجھتے ہیں کہ کوئی سیاسی تدبّر ، عقل و فراست ، سیاسی اخلاقیات اور اصولوں کی پاسداری میں ان سے بہت بہتر ہو سکتا ہے۔جب سیاست کے عجائب خانہ کی ساری مورتیاں احساس و شعور کے حوالے سے یکساں ہیں اس نوعیت کے بحران تو پیدا ہوں گے جیسا جناب نواز شریف کی بیماری کی صورت میں حکومتی سطح پر نظر آ رہا ہے۔

  • سیاسی پارٹیاں اور شخصیات…منیر احمد خلیلی

    سیاسی پارٹیاں اور شخصیات…منیر احمد خلیلی

    Graphic1

    جب سیاسی پارٹیاں مضبوط اور ڈسپلن کی پابند ہوں تو شخصیات کے آنے جانے سے نظام میں خلل نہیں پڑتا۔ ٹونی بلیئر حکومت کرتے کرتے مستعفی ہو گیا تو لیبر پارٹی کی حکومت ختم نہیں ہوئی تھی گولڈن براون نے بطور وزیر اعظم چارج سنبھال لیا تھا اور کنزرویٹو پارٹی کا وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون ایک ریفرنڈم ہار گیا تو پارٹی کی حکومت ختم نہیں ہوئی بلکہ اسی پارٹی کی خاتون رہنما تھریسا مے نے وزیر اعظم کا منصب سنبھال لیا۔

    یہاں اپنے ہاں وزیر اعظم نواز شریف کی صحت ان کا ساتھ نہیں دے رہی ہے لیکن وہ بستر پر لیٹے لیٹے وزارت عظمیٰ چلانا چاہتے ہیں۔ انہیں نہ پارٹی میں کسی دوسرے آدمی پر اعتماد ہے اور نہ ہی ہمارے ملک کے جدی پشتی سیاست دان کسی کو متبادل کے طور پر ابھرنے دیتے ہیں۔ پارٹیوں کے اندر بادشاہتیں ہیں۔ پارٹی سربراہ جو فیصلے چاہتا ہے، کر دیتا ہے۔

    عمران خان نے پارٹی کے اندر الیکشن کا دھوم دھام سے اعلان کیا تھا لیکن جب الیکشن سے پہلے ہی خود ان کے دائیں بائیں والے بڑے لیڈر آپس میں لڑنے لگے۔ پہلے الیکشن ملتوی کرنے کا اعلان کیا اور اب اپنی مرضی سے اپنے چہیتوں کو پرانے عہدے بانٹ دیے۔ مسلم لیگ ن کے سیکرٹری جنرل جیسا اہم عہدہ جھگڑا صاحب کے گورنر بننے سے خالی ہوا کسی کو نہ یاد اور نہ ضرورت ہے کہ اس منصب پر الیکشن تو درکنار سلیکشن ہی کر دے۔

    وزیر اعظم اپنی بیماری میں نہ خود اپنے منصب کو چھوڑنے پر تیار ہیں اور نہ کسی اور کو آگے لانے کے روادار ہیں۔ جمہوریت جمہوریت کی جتنی گردان ہمارے سیاست دانوں کی زبان پر ہوتی ہے کہیں اور ایسی تکرار کم ہی ہوتی ہو گی لیکن جمہوریت یہ نہ اپنی پارٹیوں میں لاگو کرتے ہیں اور نہ اصلی اور کھری جمہوریت ملک میں ان کو گوارا ہے۔

    عمران خان نے ترکی کے تناظر میں بالواسطہ فوج کو دعوت دے دی ہے کہ وہ ائے تو ہم گویا مٹھائیآں تقسیم کریں گے۔ طاہر القادری اور شیخ رشید اور پرویز الہیٰ اور کسی حد تک اعتزاز احسن کا حال تو یہ ہے کہ شیطان ائے نواز شریف کی حکومت ختم کرنے تو یہ لمحہ بھر میں اس کی بیعت کر لیں۔ خان صاحب اسے اپنی پارٹی کا اعلی عہدہ دے دیں۔ چئیرمین کی پوسٹ تو اس لیے نہیں چھوڑ سکتے کہ یہاں بے اختیار ہو کر انسانی خدمت کوئی ایدھی کر سکتا ہے سیاست دان تو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سلسلہ روز و شب اور یہ طلوع و غروب آفتاب انہی کے دم سے ہے۔ وہ سیاست چھوڑ دیں تو زمین اپنی گردش بھول جائے گی اور ہواؤں کا دم نکل جائے گا دریاؤں کی روانی تھم جائے گی اور خاکم بدہن پاکستان کا وجود ختم ہو جائے گا۔ یہ اپنے ٹائیگر ون اپنے جیالوں اپنے متوالون اور اپنے مریدوں پر اپنا تسلط کھونے کے لیے ہر گز تیار نہیں ہیں۔ عمران خان پارٹی چئیرمین کا عہدہ چھوڑ دیں تو بنی گالہ کے گھر میں پانچ پالتو کتوں کے سوا ان کو کون اپنا مانے گا۔ یہی حال سب کا ہے۔

    ہمارے چوہدری شجاعت نہ درست انداز میں بات کر سکتے ہیں اور کالی عینک اتار دیں تو ان کے لیے سارا جہاں تاریک ہے لیکن پارٹی کی سربراہی سے دست بردار نہیں ہوتے۔ سیخ رشید کی سیاست اب یا تو عمران خان کے پہلو میں بیٹھنے سے زندہ ہے یا ٹی وی اینکر ہر شام انہیں ہفوات سنانے بلا لیتے ہیں تو منظر پر ہیں لیکن ایک نفری پارٹی کے سربراہ کا مان و گمان جو سوار ہے اس سے ہاتھ دھونا نہیں چاہتے۔