Tag: وزیراعلی

  • مراد علی شاہ صاحب! آئیں بھنگ پیتے ہیں – عمیر محمود

    مراد علی شاہ صاحب! آئیں بھنگ پیتے ہیں – عمیر محمود

    عمیر محمود ارے مراد علی شاہ صاحب۔ آپ تو سنجیدہ ہی ہو گئے۔ یہ وزیراعلیٰ بنتے ہی عوامی خدمت کا نعرہ لگانے کی کیا ضرورت تھی؟ آپ کو عوام سے ایک ہی چیز تو چاہیے ہوتی ہے، ووٹ۔ وہ خدمت کیے بغیر بھی مل رہے ہیں۔ جب آپ کو وزیراعلیٰ بنانے کا اعلان کیا گیا، اس وقت آپ نے کہا تھا وہی کریں گے جو پارٹی لیڈر شپ کہے گی. پھر یہ عوامی خدمت کا اعلان کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ شاید ہمارے کان بجے، امن و امان کے حوالے سے آپ نے قائم علی شاہ کے دور کو سندھ کا بہترین دور قرار دیا۔ اگر آپ کے نزدیک بہتری کا معیار یہ ہے تو خدا جانے بدتری کسے کہیں گے؟

    ایک تو آپ نے اپنی تقریر میں انگریزی کے فقرے بار بار استعمال کیے۔ مجھ ان پڑھ کو تو سمجھ ہی نہیں آئی۔ صاف کراچی، ہرا تھر اور محفوظ سندھ۔۔۔ کیا یہی کہا آپ نے؟ کہیں آپ کراچی کا کچرا صاف کرانے کا پروگرام تو نہیں بنا بیٹھے؟ ارے کچھ تو اس کچرے پر پلنے والے اربوں جراثیم کا خیال کیا ہوتا۔ کس چاؤ سے یہ جراثیم عوام کو بیمار کرتے ہیں، اور آپ انہیں ختم کرنے چلے ہیں۔ اور تھر کو ہرا کرنے سے پہلے تھر کے رہنے والوں کو سیراب کرنے کا تو کچھ بندوبست کیجیے۔ سنتے ہیں آپ سے پہلے والوں نے کوئی پانی صاف کرنے کے پلانٹ وغیرہ لگوائے تھے۔ تھر واسیوں کی پیاس بجھانے کے بعد اب آپ کو تھر کی پیاس بجھانے کی بھی سوجھی ہے۔ اللہ کرے تھر کے سبزے میں کوئی سبز قدم حائل نہ ہو۔
    انگریزی میں آپ نے کچھ ایسی بات بھی کہی کہ اکیلا چلوں گا تو تیز چلوں گا لیکن سب کو ساتھ ملا کر چلوں گا تو دور تک چلوں گا۔ صاحب سب کو ساتھ ملا لیا تو آپ کو آگے بڑھنے کون دے گا؟ یہ انگریزی کی کہاوتیں انگریزوں کے ہاں ہی اچھی لگتی ہیں۔ دور تک جانا ہے تو اکیلے ہی قدم بڑھائیں۔

    آگاہ کیا، بس اتنا پروٹوکول لوں گا جتنا حفاظت کے لیے ضروری ہو۔ اب اس ‘ضرورت’ کا تعین کون کرے گا ؟ اور ساتھ ہی کہا۔۔۔ چاہتا ہوں سندھ کا ہر شہری خود کو محفوظ سمجھے۔ پہلے خود کو تو محفوظ سمجھ لیجیے۔ کرپشن کے ماضی کا ذکر کر کے بھی اچھا کیا۔ کہ یہ تو انیس سو سینتالیس سے ہے۔ قائد اعظم نے بھی اپنی تقریر میں کرپشن کے خاتمے کا ذکر کیا تھا۔ جو چیز جتنی قدیم ہو اس کی قدر تو اتنی ہی زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ اور جو چیز قائد اعظم اپنے ایک سالہ دور میں ختم نہ کر سکے، وہ آپ اتنے سال میں کیسے کر سکتے ہیں؟ اس کے لیے تو پالیسی نامی شے بنانا پڑتی ہے۔ لہذا نہ کرپشن کا اعتراف ہوگا، نہ خاتمے کی کوششیں ہوں گی۔ نہ نو من تیل ہو گا، نہ رادھا ناچے گی۔

    سندھ والوں کو تعلیم دینے کا خیال بھی خوب ہے۔ کہیں پورا ہو گیا تو ہر کسی کو شعور آ جائے گا۔ یہ شعور کوئی اچھی چیز نہیں ہوتی۔ پرہیز ہی بہتر ہے۔ اور پھر ہر استاد کو بچوں کو پڑھانا پڑے گا۔ وہ جو گھر بیٹھے تنخواہیں لے رہے ہیں، ان بے چاروں کا کیا بنے گا؟

    اپنے والدین کو یاد کرتے آپ آبدیدہ ہو گئے۔ وہ بھی آپ کو وزیراعلیٰ بنتے دیکھتے تو کتنا خوش ہوتے۔ اچھا کیا آپ نے صرف اپنے والدین کو ہی یاد کیا۔ سندھ میں بے امنی اور صحت کی سہولیات نہ ہونے سے مرنے والوں کو یاد نہ کیا۔ اس ننھی بیمار بسمہ کو یاد نہ کیا جو آپ کے لیڈر بلاول بھٹو کے پروٹوکول کی نذر ہو گئی تھی۔ زندہ ہوتی تو ایک سال اور بڑی ہو گئی ہوتی۔

    خیر چھوڑیں یہ باتیں۔ آئیں بھنگ پیتے ہیں، ایمان سے سرور آ جائے گا۔

  • آہ ! شاہ جی بھی نہیں رہے – محمد عمیر

    آہ ! شاہ جی بھی نہیں رہے – محمد عمیر

    محمد عمیر کل سے طبعیت کچھ مکدر ہے، دنیا کی بے ثباتی پر یقین مزید پختہ ہوگیا. ثبات صرف تغیر کو ہے، اس فقرے پر اگر ایمان متزلزل تھا تو وہ کیفیت اب نہیں رہی۔ ایک چیز کو آپ اور آپ کے ابائو اجداد دیکھتے آرہے ہوں تو اس کے بچھڑنے کا غم انسان کو کھوکھلا کر دیتا ہے، انسان خالی الذہن ہوجاتا ہے، اسے کچھ سجھائی نہیں دیتا، یہی کچھ میرے ساتھ قائم علی شاہ صاحب کے استعفے کی بات سن کر ہوا ہے۔ یوں لگ رہا ہے کہ کوئی بہت اپنا بہت دور جارہا ہے۔ اس کے بغیر زندگی کیسے ہوگی یہ سوچ ہی محال لگ رہی ہے۔
    جب سے ہوش سنبھالی ہے، شاہ جی کو سندھ کا وزیراعلی دیکھا ہے،گویا سندھ اور شاہ جی ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہیںدونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے، چاند چکوری اور ہیر رانجھے والا معاملہ ہے۔ دونوں ساتھ ہیں تو منظر حسین ہے، ایک کردار بھی غائب ہوا تو منظر دھندلا جاتا ہے۔ جس طرح عمروعیار کی کہانیوں میں جن کی جان ایک طوطے میں ہوتی تھی بالکل ایسے ہی سندھ کی جان شاہ جی میں ہے۔ شاہ جی کے بغیر سندھ ایسے ہی ہے جیسے ممتاز کے بغیر تاج محل، مشرف کے بنا ق لیگ، نواز شریف کے بنا ن لیگ اور عمران خان کے بغیر تحریک انصاف۔

    شاہ جی وزیراعلی تو سندھ کے تھے مگر ان کی پالیسیوں اور ایکشن سے سندھ سے زیادہ دیگر صوبوں کے لوگ محظوظ ہوتے تھے۔ شاہ جی وقت فوقتا اپنے بیانات سے پریشان چہروں پر خوشیاں بکھیرتے رہتے تھے اور پریشان لوگوں کی تفریح کا بندوبست کرتے تھے۔ کچی شراب سے لوگوں کی ہلاکت کا معاملہ ہو، بھنگ کے فوائد ہوں، امجد صابری کی شہادت، شعر کہنے کا یا اپنے مخالفین کو للکارنے کا، شاہ جی نے اپنے بیانات سے ہمیشہ عوام کو محظوظ کیا۔ یہ ان کے کلام کا اثر ہوتا تھا کہ لوگ پریشانی بھول کر ان کے فقرے کو انجوائے کرنا شروع کر دیتے تھے۔

    شاہ جی کو جب سے دیکھا ہے وہ بوڑھے ہی ہیں۔ جس طرح ماہ نور بلوچ نے جواں عمری کا، شاہد آفریدی نے کرکٹ کھیلنے کا اور رمیز راجہ نے ہر میچ میں کمنڑی کا سٹے لیا ہوا ہے، ایسے ہی شاہ جی نے بڑھاپے کا سٹے لیا ہوا ہے، تلاش کے باوجود شاہ جی کی ایسی کوئی تصویر نہیں مل سکی جس میں وہ بانکے نوجوان کی طرح زلفیں لہراتے نظر آئیں، بلیک اینڈ وائٹ زمانے کی تصاویر میں بھی وہ بزرگ ہی نظر آتے ہیں۔

    بوڑھے لوگ اگرچہ کچھ نہیں کرتے مگر ان کے پند و نصائح کا سلسلہ اور ان کی موجودگی ہی گھر کی وحدت کے لیے کافی ہوتی ہے۔ جب تک یہ بزرگ گھر میں ہوتے ہیں، گھر کی واحدت قائم رہتی ہے، بھائی بہنیں اپنے اختلافات کے باوجود ایک اکائی میں جڑے رہتے ہیں۔ ایم کیو ایم سمیت دیگر پارٹیز نے سندھ کے تقسیم کرنے کی بہت کوششیں کیں مگر یہ شاہ جی کی ذات ہی تھی جس کی وجہ سے یہ وحدت قائم رہی۔

    شاہ جی کا سب سے بڑا فائدہ یہ تھا کہ سندھ میں اطمینان کی کیفیت تھی، نہ کوئی اچانک دورے، نہ فوری نوٹس اور نہ ہی ہنگامی میٹنگ۔ شاہ جی ہر کام کو تسلی اور اطمینان سے کرنے کے عادی تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ کام کوشاہ کی موت کی سمجھ کر ہی کرتے تھے۔ شاہ جی کے بغیر سندھ کا نقشہ میری سمجھ اور سوچ سے تو بالاتر ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے سائنس کی کوئی نئی ایجاد، جس کے بارے لوگوں کو کچھ معلوم نہیں ہوتا۔ یہ ایجاد پہیے کی ایجاد کی طرح کارگر بھی ثابت ہوسکتی ہے اور پانی سے کار چلانے کی ناکام کوشش بھی۔

    سندھ کے نئے وزیراعلی چاہے مراد علی شاہ ہوں مگر اہلیان سندھ اور پوری پاکستان قوم کی کیفیت کچھ یوں ہے

    ابھی نہ جائو چھوڑ کر
    کہ دل ابھی بھرا نہیں
    ابھی ابھی تو آئے ہو
    بہار بن کے چھائے ہو
    ابھی نہ جائو چھوڑ کر

  • وزیراعلی پنجاب کے نام – نسیم الحق زاہدی

    وزیراعلی پنجاب کے نام – نسیم الحق زاہدی

    نسیم زاہدی وزیر اعلی پنجاب میاں محمد شہباز شریف کی بے پناہ محنت اور نتائج پیدا کرنے کی سعی نے اکثر پاکستانیوں کو متاثر کیا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ وہ ایک محترک سیاسی شخصیت اور قوت فیصلہ سے مالا مال ہیں. اسی خصوصیت نے انھیں دوسرے سیاستدانوں اور وزرائے اعلیٰ سے ممتاز بنا دیا ہے. انہوں نے دوسرے تمام محکموں کی طرح محکمہ پولیس میں بھی بہت سے اچھے اور مثبت اقدامات کیے ہیں، تھانوں کو مظلوں کے لیے دارالامن اور مجرموں کے لیے قید خانہ بنانے کا تصور قابل تحسین ہے مگر افسوس کہ اس کے باوجود جرائم پر قابو پایا جا سکا ہے نہ پولیس کا قبلہ درست ہوا ہے.

    جس محلے میں رہتا ہوں، وہاں ایک پولیس افسر کا گھر ہے، ان کے آوارہ لڑکے رات کو گھر کے آگے بیچ گلی میں آوارہ لڑکوں کو لے کر کھڑے ہوجاتے ہیں اور اونچی آواز میں بیہودہ گانے اور آوازیں کستے ہیں. کئی بار اپیل کی مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی. ایک بار تو حد ہوگئی، شراب پی کر گالم گلوچ اور سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں تو پولیس تھانے میں کال کی مگر انہوں نے کسی اعلیٰ افسر کی کال تھانہ میں کروائی تو ہم مجرم بن گئے اور وہ مظلوم. تعلق بھی بڑی چیز ہے، وہ آج بھی ویسے ہی کھڑے ہوتے ہیں بلکہ پہلے سے زیادہ طاقتور ہو گئے ہیں. اگر پویس والے ان کے خلاف مناسب کارروائی کرتے اور ان کو واننگ دیتے تو وہ باز آجاتے. اگر پولیس والے رات کو گلیوں محلوں کا باقاعدہ گشت کریں اور فضول اور بلاوجہ ٹولیوں کی صورت میں کھڑے ہونے والے نوجوانوں کو منع کریں تو بہت سے سنگین حالات جنم ہی نہ لیں مگر ایسا ممکن نہیں. ہمارے دوست حکیم منصورالعزیز بینز فیکٹری ملتان روڈ (لاہور) پر المنصور کے نام سے مطب اور فارمیسی چلاتے ہیں، پندرہ روز پہلے ان کی کی فارمیسی پر دن دہاڑے ڈکیتی ہوئی. تھانہ سبزازار میں ان کی FIR تو درج ہوچکی ہے. انویسٹی گیشن آفیسر کو سی سی ٹی وی ویڈیو اور اور تصاویر بنوا کردی گئی ہیں مگر اب تک کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی رابطہ پر آفیسرکا کہنا تھا کہ جب موڈ ہوگا کارروائی ہوگی، میں کسی کو جواب دینے کا پابند نہیں ہوں. اب بتائیے انصاف کہاں سے ملے گا؟

    پولیس میں بھرتی ہوتے وقت عوام کی حفاظت کرنے کی قسمیں کھانے والے اختیارات کا ناجائز استعمال کیوں کرتے ہیں؟ تنخواہوں کے باوجود مٹھائی کی عادت کیوں ہے؟ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ ہم جس ملک میں رہتے ہیں وہاں پر تھانوں کی بولیاں لگتی ہیں. بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی. یقین جانیے شریف آدمی اپنے ساتھ زیادتی برداشت کر لیتا ہے مگر تھانے جانے سے ڈرتا ہے. کراچی میں حکیم اے این عسکری اور ان کے بیوی بچوں کو سات مسلح افراد نے باندھ کر شدید زدوکوب کیا، لوٹ مار کی اور سامان گھر سے باہر پھینک کر مکان پر قبضہ کر لیا. فون پر بتا رہے تھے کہ پولیس والے کوئی تعاون نہیں کر رہے تو میں نے عرض کی کہ حکیم صاحب اگر پولیس والے وقت پر اپنا فرض اداکریں تو یقین جانیے مجرم انجام کے خوف سے گناہ چھوڑ دے. اگر تھانوں میں ٹیلی فون کلچر رشوت مٹھائی سفارش سسٹم ختم ہوجائے تو پاکستان جرائم فری ہو جائے. محکمہ پولیس کے اندر چھپی ہوئی چند کالی بھیڑوں نے اچھے اور ایماندار افسران کو بھی بدنام کیا ہوا ہے. سمجھ نہیں آتا کہ اس وردی کے اندر کیا ہے کہ جو اس کو پہن لیتا ہے اس کے نزدیک اس کے علاوہ دوسرے کسی انسان کی کوئی عزت وقعت نہیں رہتی.

    نبی مکرمﷺ کی حدیث مبارکہ ہے کہ وہ معاشرہ تباہ ہو جاتا ہے جس میں قانون امیر کے لیے کچھ اور ہوتا ہو اور غریب کے لیے کچھ اور. اسلام نے یہ بات بڑی وضاحت کے ساتھ کہی ہے کہ قانون کے سامنے سب برابر ہیں. مشہور واقعہ ہے کہ بنو مخزوم کی ایک عورت نے چوری کی تو نبیﷺسے درخواست کی گئی کہ اس عورت نے چوری کی ہے لیکن شریف گھرانے کی ہے، اس کا ہاتھ نہ کاٹا جائے کوئی اور سزا دی جائے، آپﷺنے فرمایا کہ قومیں اسی طرح تباہ ہوئی ہیں کہ ان میں جو بااقتدار اور شریف سمجھے جاتے تھے انہوں نے اگر کوئی غلط کام کیا توان کو سزا نہیں دی جاتی تھی اور جو کمزور تھے ان کو سزائیں دی جاتیں تھیں. آپﷺ نے وہ تاریخی جملے ارشاد فرمائے جو صرف آپﷺ ہی ارشاد فرماسکتے تھے کہ اس عورت کی جگہ اگر محمدﷺ کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں محمدﷺآج اس کے بھی ہاتھ کاٹ دیتا (متفق علیہ) قانون کی نظر میں سب برابر ہیں، اس سے کوئی مستثنیٰ نہیں. یہ اتنا صاف اور واضح تصور ہے کہ قانون کی برتری کا اس سے بہتر اور واضح تصور پیش نہیں کیا جا سکتا.

    ایک سینئر صحافی دوست عمرہ سے واپس آئے تو ملاقات کے لیے ان کے پاس گیا. اسلامی قانون کے بارے میں بات ہوئی تو کہنے لگے کہ میں سوچ رہا تھا کہ سعودی عرب میں ہر دسویں بندے کے ہاتھ کٹے ہوں گے مگر مجھے ڈھونڈنے سے بھی کوئی ایسا انسان نہیں ملا. اس سے مجھے اسلامی سزائوں کی فضیلت کا اندازہ ہوا کہ جب ایک انسان کو علم ہو کہ اس کے ساتھ ناانصافی نہیں ہوگی تو وہ کبھی بھی قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لے گا اور انجام کے خوف سے گناہ نہیں کرے گا. جب ایک انسان کو اس بات کا علم ہو کہ اگر وہ کوئی بھی غلطی کرے گا تو اس کے پیچھے اس کا بااثر باپ ہوگا، اس کا تعلق کسی اعلیٰ افسر سے ہوگا اور اسے تھانے میں پر وٹوکول ملے گا تو وہ گناہ کیسے نہیں کرے گا؟ مجھ جیسا ایک سفید پوش غریب انسان جو دو وقت کی روٹی مشکل سے کماتا ہو، وہ ایسے بااثر افراد کی ز یادتی کی شکایت بھی نہیں کر سکتا. وزیر اعلیٰ اور آئی جی پنجاب سے گزارش ہے کہ ابھی تبدیلی کی اور ضرورت ہے. عوام کے محافظوں کو عوام کی خدمت پر لگائیں اور اختیارات کا ناجائز استعمال روکنے کے لیے فوری اور سخت اقدامات کریں.

  • جانے دو شاہ کوآنے دو شاہ کو – احسان کوہاٹی

    جانے دو شاہ کوآنے دو شاہ کو – احسان کوہاٹی

    ایسا کہیں اور ہوتا تو لوگ انہیں اٹھا کر کچرے کے ڈھیر پرپھینک دیتے، انہیں کوڑے کے ٹرک میں ڈال کر ملک کی سرحدوں سے باہر الٹ دیتے لیکن ایسا یہاں نہیں ہوا اور نہ ہی کچھ ایسا ہونے کی امید ہے. اس کی وجہ یہ نہیں کہ بھوک، غربت، افلاس ہماری کچی آبادیوں سے نکل چکی ہے. اب کچرے کے ڈھیروں سے کوئی رزق تلاش کرتا نہیں ملتا. اب بھوک سے بلکتے بچے کے لیے کوئی مجبور بیوہ راہ چلتے بابو کو آنکھ نہیں مارتی. اب اسپتالوں میں غریبوں نے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنا چھوڑ دیا ہے. یہ سب کل بھی ہماری پہچان تھی اور یہ آج بھی ہماری شناخت ہے. ہم اپنی شناخت بھولے ہیں نہ پہچان کہ یہاں کل بھی بھٹو زندہ تھا اور آج بھی بھٹوزندہ ہے.

    جب کچھ نہیں بدلنا تو پھر ایک تھکے ماندے بوڑھے شاہ کے جانے اور ایک تازہ دم شاہ کے آنے سے دو وقت کی روٹی کو ترستے لوگ امید کیوں باندھ رہے ہیں؟ ذوالفقار علی بھٹو کے قریبی ساتھی قائم علی شاہ تیسری بار ’’شاہ‘‘بنے تھے، اس سے پہلے وہ دو بار وزیر اعلٰی سندھ کی حیثیت سے وزیر اعلٰی ہاؤس کے مکین رہ چکے تھے. یہ بڑی بات ہے کہ اتنے عرصے اتنے بڑے عہدے پر رہنے والے کے دامن پر مالی کرپشن کا کوئی داغ نہیں لگا لیکن یہ داغ کیا کم ہیں کہ کسی بھی کرپشن پر انھوں نے کبھی ناک بھوں نہیں چڑھائی، وہ پارٹی کی دبئی قیادت کے لیے انگوٹھے اور شہادت کی انگلی میں دبی ربڑ اسٹمپ بنے رہے بالکل ایسے ہی جیسے مقبوضہ کشمیر کے وزیر اعلٰی نئی دہلی کے کٹھ پتلی بنے رہتے ہیں، کشمیریوں پر گولی چلے یا اندھا کر دینے والی پیلٹ گن کے فائر ہوں، ان کے لبوں میں خلا پیدا نہیں ہوتا۔

    قائم علی شاہ کا دور امن و امان کے حوالے سے بدترین دور رہا. مجھے شاہ صاحب کے اقتدار میں رمضان کے وہ دن نہیں بھولتے جب شور مچاتی ایمبولینسیں سول اسپتال کے مردے خانے میں خاموشی سے آکر رک جاتیں، وہاں موجود ٹی وی چیبنلز کے کیمرا مین پھرتی سے کیمرے سیدھے کر لیتے، پریس فوٹو گرافر بھی کھچ کھچ تصویریں بنانے کے لیے تیار ہوجاتے، چھیپا اور ایدھی کے رضاکار ایمبولینس کا پچھلا دروازہ کھول کر اسٹریچر کھینچ کر نیچے اتارتے جس پر خون میں لت پت ایک لاش رکھی ہوتی تھی، ادھ کھلی آنکھوں والی کسی نوجوان کی لاش، جس کی آنکھوں میں خوف منجمد ہوچکا ہوتا تھا، اس کے پاؤں بندھے ہوتے تھے اور پیشانی کے وسط میں گولی کے سوراخ سے بہتا لہو اس کا چہرہ تر کرتا ہوا اسٹریچر پر پھیلتا جمتاچلا جاتا تھا. مجھے گنتی یاد نہیں لیکن اس روز سول اسپتال کراچی کے مردہ خانے میں اتنی لاشیں لائی گئیں کہ وہاں جگہ ختم ہوگئی، پوسٹ مارٹم کرنے والوں کے ہاتھ شل ہوچکے تھے اور لاشوں کا سلسلہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا. میرے خیال میں قائم علی شاہ کو تب ہٹانا چاہیے تھا

    سائیں کی واحد خوبی بھٹو خاندان سے وفاداری اور تابعدار ی تھی. بلاول ہاؤس سے جو کچھ کہا جاتا رہا وہ من و عن ویسا ہی کرتے. ان احکامات کے لیے انہوں نے قانون و آئین کی کتاب دراز میں رکھ کر بند کر رکھی تھی. بوڑھی چھاتی ٹھونک ٹھونک کر کراچی آپریشن کے کپتانی کے دعوے کرنے والے کپتان اپنی پارٹی قیادت کی ہدایت پر خود اس آپریشن کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتے رہے تاکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے کسی ڈاکٹر عاصم، اویس مظفر ٹپی اور اسد کھرل تک نہ پہنچ سکیں. اس وقت کے ڈی جی رینجرز جو اب ڈی جی آئی ایس آئی ہیں نے ایک ملاقات میں ان سرکاری رکاوٹوں کا بتایا جس سے آپریشن کے مطلوبہ نتائج نہیں مل رہے تھے. جناح کورٹ کی پرشکوہ عمارت میں ڈی جی رینجرز رضوان اختر کا کہنا تھا کہ ابھی تک انسداد دہشت گردی کی وہ خصوصی عدالتیں نہیں بنیں جہاں آپریشن میں گرفتار دہشت گردوں کے مقدمات چلنے ہیں، انہوں نے بتایا کہ سندھ حکومت نے مقدمات کی پیروی کے لیے وکلائے استغاثہ تک مہیا نہیں کیے، جب بھی بات ہوتی ٹال دی جاتی، مجبورا میں نے خود اپنے دفتر میں وکلاء کے انٹرویو کیے اور زور دے کر انہیں مناسب تنخواہوں پر رکھوایا.

    شاہ صاحب آخر وقت تک بلاول ہاؤس کے اشاروں پر فرمائشی گھنگھرو باندھ کر ناچتے رہے، ڈاکٹر عاصم کو ریلیف دلانے کے لیے رینجرز کے اختیارات پر قد غن لگادی، اسمبلی سے عجیب قانون پاس کرا لیا کہ رینجرز اب کسی سیاسی شخصیت یا سرکاری سیاسی جماعت کے دفتر پر چھاپے سے پہلے سندھ حکومت سے اجازت لے گی، وہ اشو کسی نہ کسی طرح حل ہوا کہ اب پھر پارٹی کے ایک اہم اور مرکزی رہنما کے فرنٹ مین اسد کھرل کی گرفتاری کے بعد حکومت رینجرز کو اختیارات دیتے ہوئے ماش کے آٹے کی طرح اینٹھ رہی ہے. یہ سب اسی طرح چلتا رہے گا، جانے دیجیے شاہ کو اور آنے دیجیے شاہ کو، جانے والے کے جانے سے کچھ بدلے گا نہ آنے والا کچھ بدل پائے گا. پہلے ایک بوڑھا گدھ لاش نوچا کرتا تھا، اب جوان گدھ طاقتور پنجوں کے ساتھ ماس نوچے گا

  • قائم علی شاہ پاکستانی سیاست کی روشن مثال – عبدالجبارناصر

    قائم علی شاہ پاکستانی سیاست کی روشن مثال – عبدالجبارناصر

    عبدالجبار ناصر سید قائم علی شاہ جیلانی کا شمار پاکستان کے ان سیاست دانوں میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنی سیاست کا آغاز نچلی سطح سے کیا اور اللہ نے بہت جلد انھیں عروج دیا مگر انھوں نے اس عروج کو کبھی لوگوں کے استحصال یا انتقام کے لیے استعمال نہیں کیا. اس کی واضح مثال یہ ہے کہ لوگوں نے سید قائم علی شاہ جیلانی کی بزرگی کی تذلیل کرتے ہوئے انھیں کبھی سکندر اعظم اور کبھی فرعون کا ساتھی، کبھی سندھ میں محمد بن قاسم کے استقبالی قافلے کا سالار اور کبھی موہنجو دوڑو کے آثار قدیمہ کا حصہ قرار دیا، یہاں تک کہ عزرائیل سے موت و حیات کے حوالے سے مکالمہ بھی کرادیا گیا مگر اس شریف النفس انسان نے کھی شکوہ یا شکایت نہیں کی۔ لوگوں نے ان کی خلوت اور جلوت کی ذاتی زندگی کو بھی معاف نہیں کیا۔ ان کی بزرگی کی وجہ سے ان کے سونے اور جاگنے کے عمل کو بھی مذاق بنایا گیا، ایسا کرنے والوں میں ان کے اپنے اور بیگانے سب شامل تھے، الیکٹرونک ممیڈیا نے تو حد کردی ۔ کسی نے یہ نہیں دیکھا کہ بزرگی قدرت کا انعام ہے اور اس عمل سے ہر انسان نے گزرنا ہے۔

    بہرحال سید قائم علی شاہ جیلانی واقعی ماضی کی عظیم روشن مثال ہیں جن کی آج مثال نہیں ملتی ہے۔ شاید شاہ صاحب کو آج کے اس معاشرے میں سرگرم رہنے کے بجائے گوشہ نشین ہونا چاہیے تھا ، کیونکہ یہ دور شرافت اور دیانت کا نہیں بلکہ کمپیوٹر کا ہے۔ شاہ صاحب نے سیاسی زندگی کا آغاز زمانہ طالب علمی میں کیا اور ان لوگوں میں شامل رہے جو بن کے رہے گا پاکستان اور بٹ کے رہے گا ہندوستان کے نعرے لگاتے تھے۔ سید قائم علی شاہ 1933 میں خیرپور میں پیدا ہوئے۔ ایس ایم لا کالج کراچی سے ایل ایل بی کیا۔ 1960 کی دہائی میں بی ڈی سسٹم کے تحت ضلع کونسل خیر پور کے چیئرمین منتخب ہوئے۔ 1967ء میں انھوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کر لی اور آج تقریبا 50 سال بعد بھی اس تعلق کو قائم رکھا ہوا ہے، انھوں نے بھٹو خاندان کی تین نسلوں کا ساتھ نبھایا۔

    سیدقائم علی شاہ جیلانی پاکستان کے پہلے انتخابات میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور انھیں صنعتوں اور امورکشمیر و گلگت بلتستان کا وفاقی وزیربنایا گیا. اس وقت ان کی عمر 42 بر س تھی۔ کسی بھی ریاست کی زندگی میں سب سے اہم واقعہ دستور کی تشکیل ہوتا ہے، قائم علی شاہ دستور بنانے والی 11 رکنی کمیٹی کے ممبر تھے، اس وقت اس دستوری کمیٹی کے غالباً یہ واحد حیات ممبر ہیں۔ بھٹو حکومت کی معزولی کے بعد سید قائم علی شاہ کو توڑ نے کی کوشش کی گئی مگر ایسا نہ ہوسکا اور پھرحکومت نے انھیں گرفتار کرلیا۔ شاہ صاحب 1988، 1990، 1993، 2002، 2008 اور 2013 کے انتخابات میں خیر پور سے رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوئے۔ دسمبر 1988 میں سندھ کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے، مگر غالبا14ماہ بعد ہی ان کو ہٹادیا گیا۔ 1999ء میں سینیٹ آف پاکستان کے ممبر منتخب ہوئے۔ سید قائم علی شاہ 1973 سے1977، 1987 سے 1997اور 2004 سے تاحال تقریباً 26 سال تک پیپلزپارٹی سندھ کے صدر رہے۔ مئی 2008 کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کی کامیابی کے بعد وہ دوسری مرتبہ کے وزیر اعلیٰ بنے جبکہ 2013 میں انھوں نے وزارت اعلیٰ کا منصب حاصل کرنے کی ہیٹرک مکمل کرلی۔ قائم علی شاہ کو ایک سنجیدہ اور معاملہ فہم سیاسی رہنما سمجھا جاتا ہے، اور اپنے اور بیگانوں سب میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے۔ تقریباً 50 سال تک سیاست میں سرگرم رہنے کے باوجود اس عظیم انسان پر بددیانتی یا اقربا پروری کا کوئی داغ نہیں، جس کا اعتراف دوست اور دشمن سب کرتے ہیں۔

    امید یہی تھی کہ ان کی سیاسی زندگی کا اختتام خوشگوار انداز میں ہوگا مگر پیپلزپارٹی نے سید قائم علی شاہ جیلانی کو ہٹانے کا جس انداز میں اعلان کیا، اس سے پاکستان کے اس عظیم انسان کی تذلیل کی گئی ہے اور ہم تو اسے ایک شریف النفس کی توہین، تذلیل اور بھیانک انجام سمجھتے ہیں. اتنی تذلیل کے بعد پیپلزپارٹی ان کو ملک کا صدر یا چیئرمین سینٹ بنابھی دے تو اس سے ازالہ نہیں ہوگا. میرے خیال میں اب شاہ صاحب کسی سیاسی آفر کو قبول کرنے کے بجائے گوشہ نشینی اختیار کریں گے۔