معاشرے پر اس وقت مغرب کی یلغار ہے ،غیروں کے بڑہتے ہوئے رجحانات،ان کی عادات و اطوار کو اختیار کرنے کی وجہ سے ہم نت نئے مسائل کا شکار ہیں ،اسلامی ،اخلاقی ،تھذیبی ،تمدنی ،اور معاشرتی اقدار اس وقت زوروں سے زوال پذیر اور گراوٹ کی انتہاؤن کو چھو رہے ہیں ،منجملہ ان مسائل میں بوڑھے والدین کے ساتھ بڑھتی ہوئی بے رخی،ناقدری ،توہیں ،تحقیر وتذلیل ہے .جب وہ بڑھاپے کی عمر کو پہچتے ہیں ،عمر رسید اور ضعیف ہوتے ہیں ،اولاد انہیں اپنے اوپر بوجھ اور مصیبت سمجھنے لگتی ہے ،بات بات پر ان کو ڈانٹا ،جھڑکنا ،ذلیل ورسوا کرنا روز کا معمول بن جاتا ہے ،ان کے ساتھ مل بیٹھنا ،باتیں کرنا انہیں وقت دینا تو دور کی بات ہے ،ان کو دو ٹائم کی روکھی سوکھی روٹی دینے کو راضی نہیں ہوتے ،ان کو بیماری لاحق ہو جائے علاج و معالجے پر رقم خرچ کرنا فضول سمجھتے ہیں ،
افسوس !وہ والدین جنھوں نے پوری زندگی ہماری لئے سھولیات ،چین وسکون ،راحت ومسرت مھیا کرنے کی نذر کردی ،آج تمام اولاد اس سے بیزار ہے،جس نے بیک وقت پانچ پانچ بچوں کو پالا پوسا ،اچھی سے اچھی خوراک ،لذیذ طعام ،بھترین لباس، ناز ونخرے برداشت کیے، اور انکی خواہشات پوری کی ،آج وہ سب مل کر بھی ایک والد کو نہیں پال سکتے ،انکی خواہشات کو فضول گردانتے ہیں ،انہیں عید پر ایک اچھا سوٹ نہیں دلا سکتے ،بیماری میں سسک سسک کر موت کو گلے لگا لیتے ہیں ،انکا علاج تک نہیں کرا پاتے ،
وہ والدین جنہوں نے رہن سھن کے لیے اچھا مکان ،ٹھنڈے کمرے، گھریلوضروریات کی تمام چیزیں میسر کی، آج والد نے بڑھاپے کی دھلیز پر کیا قدم رکھا،بیٹوں نے گھر کا بٹوارہ کر دیا ، والدین کو بوجھ سمجھ کر اولاد بے رخی اختیار کرنا شروع کر دیتی ہے ،بعض دفعہ بے مروت اولاد بوڑھے باپ کو گھر بدر کردیتے ہیں ،اس پر بس نہیں اولڈ ھاؤسسز میں چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے عاق کر دیتےہیں ،روڈ رستوں پر ،گلی محلے میں یہ جنت کے ٹکٹ رلتے، لاچار وبے بس دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے ،
ہم دوسروں کی چال چل کر اپنے اسلامی اقدار کو پس پشت ڈال رہے رہیں ،اخلاقی فریضہ کو یکسر بھلا چکے ہیں ،ان کے احسان کا بدلہ بدی سے دینے کی راہ پر گامزن ہیں ،تھذیبی اور تمدنی روایات سے نابلد ہو چکے ہیں ،
کیا ہماری اسلامی تعلیمات یہ ہیں ؟
معاشرتی اقدار کہاں دفن ہو گئے ہیں ؟
یقین جانئے !اسلامی معاشرتی اقدار کی بنیاد ہی اخلاق پر ہے ،پرانے وقتوں لوگ اپنے والدین کی عزت وتکریم کے ساتھ گلی محلہ کے بڑوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے ،مجلس میں انکے اعزاز کے لیے با ادب کھڑے ہو جاتے ،انکے سامنے بولنا تک گوارہ نہیں کرتے تھے ،آج ہم کس تنزلی کا شکار ہوگئے ہیں ،بیٹا بالغ کیا ہوا باپ کو جاہل ،اجڈ گنوار کے لقب سے نوازنا فرض سمجھتا ہے ،معمولی باتوں پر گالم گلوچ ،طعن وتشنیع سے گریز نہیں کرتا ،
آج ہم دوسروں کی چال چل کر “کوا چلا ہنس کی چال ….. ” کی عملی تعبیر بن چکے ہیں ،
اللہ تبارک وتعالی نے قرآن مجید میں والدین کے ساتھ حسن سلوک ،عجز و انکساری اور محبت وشفقت کے واضح اور روشن احکامات نازل فرمائے ہیں ،ان کو “اف “تک کہنے کی اجازت نہیں دی ،امام قرطبی رح والدین کے ساتھ حسن سلوک والی آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :” اللہ رب العزت نے اپنی عبادت کے ساتھ والدین کے ساتھ ادب واحترام اور اچھا سلوک کرنے کو واجب قرار دیا ہے ،
صحیح بخاری میں روایت ہے کہ حضور اکرم سے ایک شخص نے سوال کیا :”اللہ تبارک وتعالی کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب عمل کونسا ہے ؟” آپ علیہ السلام نے فرمایا :”نماز اپنے وقت میں “اس نے پھر دریافت کیا اس کے بعد کونسا عمل ؟آپ نے فرمایا :”والدین کے ساتھ اچھا سلوک ”
آپ علیہ السلام نے ایک دوسری روایت میں والدین کو جنت کا درمیانی دروازہ قرار دیا ہے آپ نے فرمایا :جس کی مرضی چاہے اس کی حفاظت کرے یا ضائع کردے ”
ترمذی شریف میں روایت ہے آپ علیہ السلام نے فرمایا :”اللہ کی رضا والد کی رضا میں،اللہ کی ناراضی والد کی ناراضی میں ہے ”
ایک صحابی نے آپ علیہ السلام سے دریافت فرمایا “والدین کا اولاد پر کیا حق ہے ؟”آپ نے فرمایا “وہ تیری جنت اور دوزخ ہیں ،ان کی اطاعت و فرمانبرداری میں جنت ان کی بے ادبی اور ناراضی میں تیری دوزخ ہے ”
“والدین پر شفقت ومحبت سے ایک نگاہ ڈالو تو حج مقبول کا ثواب ملتا ہے “،آپ علیہ السلام کی یہ بات سن کر لوگوں نے سوال کیا یا رسول اللہ ! “اگر دن میں سو مرتبہ نظر ڈالے ؟ ” آپ نے فرمایا :”ہاں سو مرتبہ بھی (ہر مرتبہ اسی طرح ثواب ملتا رہے گا )
دنیا میں والدین کی خدمت کرنے والوں کو جہاں یہ عمدہ اعزازات ملتے ہیں وہاں والدین کی نافرمانی کرنے والے کے لیے سخت سے سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :”اللہ تمام گناہوں میں سے جس گناہ کی سزاچاہیں دنیا میں دیں یا اس کو آخرت تک موخر کردیں ،لیکن والدین کی نافرمانی،حق تلفی ،بے ادبی کرنے والے شخص کو اس کی سزا آخرت سے پہلے دنیا میں ہے دی جاتی ہے”
والدین چاہے مسلم ہوں یا کافر خدمت و اطاعت انکا حق ہے ، یہ کسی زمانے یا عمر میں مقید نہیں ،ہر حال ،ہر عمر میں والدین کے ساتھ اچھائی حسن سلوک واجب ہے ،والدین جب بوڑھے ہو جاتے ہیں ،انکی زندگی اولاد کے رحم وکرم پر ہوتی ہے ،اولاد کی ایک چھوٹی سی بات ،معمولی بے رخی والدین کے لیے ضرب کاری بن جاتی ہے ،بڑھاپے کے طبعی عوارض ،عقل وفھم کی کمی وجہ سے انکی طبیعت میں چڑچڑا پن آجا تا ہے ،بچوں کو چاہیے درگز کریں ،انکی صحت اور کھانے پینے کا خیال رکہیں،ان کی ہر ممکن خواہش پوری کریں ، اپنی مصروف زندگی ،میڈیا انٹر نیٹ ،تعلیم ،امتحانات اور کاروبار سے تھوڑا وقت والدین کے لیے مختص کریں ،انکی ،خدمت کریں ، ان سے دعائیں لیں ،یہی سب کچھ کامیابی اور کامرانی کا سبب بنے گا ،والدین کو بھی چاہیے کہ اپنے بچوں کی اصلاح اور تربیت کریں جہاں آپ انکو مہنگے سے مہنگے اسکولوں میں تعلیم دلواتے ہیں وہاں انہیں اسلامی تعلیمات و اقدار سے روشناس کرائیں ،اپنے بڑوں کی خدمت کرکے انہیں عملی سبق سکھائیں ،خدارا !اپنی جنت کی قدر کریں .
Tag: والدین
-
“بوڑھے والدین اور اسلامی تعلیمات ” نعیم الدین جمالی
-
شوہر نے رخ پھیر لیا، بزنس میں ہوا نقصان – فرح رضوان
ارشاد صرف نام ہی نہیں تھا اریبہ کی ملازمہ کا بلکہ کام بھی یہی تھا، ہر بات میں مفت اور فوری مشورہ ارشاد فرما دینا اپنا بنیادی حق اور فرض عین سمجھتی، اور اس وقت بھی تن دہی سے اسی کام میں لگی، بےتکان کسی اللہ والی باجی کی تعریفوں کے پل باندھ رہی تھی.
”باجی میں کوئی اندھی تھوڑی ہوں کہ تیرا دکھ نہیں دیکھ سکوں، سالوں سے تیرے ساتھ ہوں تو کچھ نہ بھی بولے میں تو سمجھ سکتی ہوں ناں.“
باجی تو وہ اسے عادتا بولتی لیکن اریبہ کو بیٹی کی طرح پیار کرتی تھی، سو باجی کے ساتھ تو تڑاک کا انداز کچھ انوکھا نہ تھا، اور آج تو انوکھے سے کہیں زیادہ خفیہ دکھائی دے رہا تھا،
”باجی تو مانے یا نہ مانے پر کسی نے حسد اتاری ہے اپنی، کچھ کرا دیا ہے تیرے پر، تو بائی سے بات تو کر ساتھ چلنےکی، قسمے اتنا کوئی دور نہ ہوتا تو میں اپنی بیٹی کے ساتھ خود بس پکڑ کے چل پڑتی، لیکن سنا ہے ایک ایک مریض کے اتارے پر گھنٹہ لگ جاتا تو کوئی بات ہی نہیں، تو نہ جانے لمبر وی کون سا لگے اپنا، پتہ ہے ارلے پاسے جو نیلی کوٹھی اے، میری دیرانی اوس دے نال..“
اریبہ نے قدرے جھلا کر اسے دوسروں کی بات کرنے سے روک دیا، ”نہیں سننی مجھے کسی کے گھر کی بات اور تم پھر میرے گھر کی بات بتانا بیٹھ کر دوسروں کو.“
ارشاد اس کے تیور دیکھ کر وہاں سے کھسک گئی، لیکن اریبہ کی سوچ میں تلاطم بکھر چکا تھا. وہ ایک مثبت سوچ رکھنے والی عورت تھی، زندگی کی ہر مشکل کو اس نے چیلنج جان کر قبول کیا تھا اور ہمیشہ کامیابی اس کا مقدر رہی تھی. غم کیا ہوتا ہے؟ مصیبت کسے کہتے ہیں؟ اسے جیسے پتہ ہی نہ تھا. سبھی جاننے والے اس کی کامیاب و خوشحال زندگی پر رشک کرتے تھے …… لیکن اب جو حالات کا رخ تھا، وہ اس کی سمجھ اور ضبط سے باہر دکھائی دے رہا تھا …. محبت کرنے والا شوہر ہر دم شاکی ہی رہتا، بات ہوتی کچھ سمجھتا کچھ اور پھر اریبہ کو جس انداز اور زبان میں سمجھاتا وہ اس کی روح کو چھلنی کر ڈالنے کو کافی ہوتا. اس کی اپنی صحت نامعلوم طریقے سےگرتی جا رہی تھی، بچوں کی لڑائی دشمنی کی حد تک پہنچ چکی تھی کہ اسے خوف لاحق ہونے لگا تھا کہ دونوں بھائی آپس میں گتھم گتھا ایک دوسرے کو شدید نقصان ہی نہ پہنچا بیٹھیں، بزنس الگ گھاٹے کا شکار تھا، تو دوسری جانب اس کے اپنے والدین بات بات پر اس سے خفا، جب ملنے جاتی اس کے خلاف ایک مقدمہ تیار کھڑا ملتا، وہ نماز تو پابندی سے پڑھتی تھی، صبح کو روز یس شریف بھی عرصے سے پڑھ رہی تھی، اب تو کسی نے دو وظیفے بتائے تھے، وہ بھی بڑے دل سے پڑھ رہی تھی، لیکن گزشتہ کئی ماہ سے تو یہ معمول بن گیا تھا کہ اس کا خاوند کام پر روانہ ہوتا، تب بچے اور ملازمہ کوئی گھر پر موجود نہ ہوتے تب وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رو کر اپنے اللہ سے مدد مانگتی، اپنے رویوں پر خوب غور کرتی کہ کس انداز سے اپنے شوہر کو راضی رکھے کہ اتنے میں ارشاد کام کرنے آن دھمکتی، اس جہاندیدہ عورت نے معاملہ تو کئی دن پہلے ہی جان لیا تھا لیکن آج جب کھل کے بات کی تو اریبہ کو بھی اپنے کچھ قریبی عزیزوں کے رویوں پر یقین کی حد تک حسد کا گمان ہونے لگا تھا.
………………………
بات ناممکن تھی لیکن اس کے شوہر تیمور کوگزشتہ روز کاروبار میں اس قدر گھاٹا ہوا کہ وہ اریبہ کے ساتھ ”باجی“ اور انک ے میاں شیخ صاحب کے گھر جانے پر راضی ہوگیا. صبح سے بیٹھے قریباً بارہ بجے ان کی باری آئی، تیمور کے ذہن میں شیخ صاحب کا حلیہ جو بھی تھا، وہ اس سے یکسر مختلف، اسے عام سے انسان دکھائی دیے، بہت تپاک سے اس سے مصافحہ کیا جیسے برسوں کی جان پہچان ہو، لیکن کوئی کرتب نہیں دکھایا کہ اس کے ماضی حال مستقبل کے بارے میں سب کچھ فرفر بتا رہے ہوں بلکہ ان کی شخصیت میں ایسی اپنائیت تھی کہ تیمور ہی ان سے بہت کھل کے بات کر رہا تھا، جسے وہ بہت تحمل اور غور سے سن رہے تھے.
اریبہ کے ذہن میں باجی کا خاکہ کسی چارپائی سے لگی عمر رسیدہ خاتون کا تھا لیکن وہ اس کے برعکس دکھائی دیں. رسمی تعارف کے فورا بعد ہی انہوں نے کوئی چھوٹی سی دعا تین بار پڑھ کر اس پر پھونکی اور اس کا ہاتھ ہاتھوں میں لے کر سہلاتے ہوئے بس اتنا ہی پوچھا کہ کیسے آنا ہوا؟ اور جواب میں خود اریبہ کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ وہ جو مہینوں سالوں سے کسی سے کچھ نہیں کہہ رہی تھی، ان کے سامنے بچوں کی طرح رو رو کر شکایتیں کرے گی، باجی بھی اسے بچوں کی طرح ہی تسلی دیتی اور چمکارتی رہیں.
…………………………………
تیمور کو اندازہ نہیں تھا کہ شیخ صاحب کے اندر اتنا بڑا بزنس مین چھپا بیٹھا ہے، وہ اتنی سی دیر میں اسے کئی گر کی باتیں بتا چکے تھے اور تیمور دل ہی دل میں اپنی غلطیوں کا اعتراف کر کے ان پر پچھتا رہا تھا، پھر اس نے اپنی محنت و جانفشانی کے دفتر کھول ڈالے کہ دن رات کیسے گھن چکر بنا رہتا ہے اور ساتھ ہی بیوی کی لاپرواہی کا رونا کہ اسے اس کی محنت کی قدر ہی نہیں، بچوں کو بےجا ڈھیل دے رکھی ہے کہ ان کی نظر میں اچھی بنی رہے اور میں روک ٹوک کروں تو بچے مجھے ظالم سمجھیں، کبھی استری کھلی چھوڑ دیتی ہے، بجلی ضائع ہوتی رہتی ہے، رات کو گھر کے لاک تک نہیں چیک کرتی جبکہ میں تو ایک ایک کھڑکی روشن دان کو ٹھیک سے بند کرتا ہوں کہ کوئی چور نہ گھس آئے گھر میں …..
تیمور سانس لینے کو رکا تو شیخ صاحب نے گلا صاف کرتے ہوئے اس سے کہا،
”تیمور صاحب! یہاں آپ ایک نہیں بلکہ تین روشن دان بند کرنا بھول جاتے ہیں، چور آکے صفایا کر جاتا ہے اور آپ کو خبر تک نہیں ہوتی.“
تیمور نے حیرت سے دیکھا تو وہ بولے
”دیکھو بیٹا! یہ جو ہمارا دل ہے ناں، ایک گھر ہے، اس کا ایگزاسٹ فین انسان کی زبان ہوتی ہے جو اگر اپنے برابر یا اپنے سے زور آور کو تو کچھ نہیں کہتی لیکن اپنے سے کمزور پر بھرپور زور آزمائی کیے بنا چین نہیں پاتی تو سمجھو اخلاق کے پرچے میں لال رنگ سے فیل لکھ دیا گیا اور اگر درمیانہ اخلاق برتنے میں کامیاب تو ہو جاتی ہے مگر اللہ کے ذکر سے تر نہیں رہتی تو بھی لال دوات سے لکھا فیل سمجھ لو، اور خدانخواستہ لغو مذاق، لطیفے،گالی تب تو سمجھو اس سے بھی بدتر. ہماری آنکھ اور کان اصل میں دل کے روشن دان ہیں، جب تم ان سے وہ سب سنو گے اور دیکھو گے جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہے تو فرشتے اس گھر میں بسیرا کریں گے اور دل و دماغ میں فلاح کے مشورے پنپنا شروع ہو جائیں گے، لیکن دن رات آپ مصروف اتنا رہو کہ اللہ تعالیٰ نے جو مسجد میں جا کر نماز باجماعت پڑھنے کا حکم دیا ہے، اسے چھوڑ کر اپنے آرام کے لحاظ سے گھر یا دفتر میں ہی پڑھ لو، اور پھر تھکن دور کرنے کو ان سب لوگوں کے تیار کردہ مواد سے لطف اندوز ہو، جن پر اللہ تعالیٰ نے قران کے شروع میں ہی بتا دیا ہے کہ یہ لوگ، اللہ کی اس کے فرشتوں اور مقرب بندوں کی لعنت کے مستحق ہیں، آپ خود بتاؤ کہ آپ اپنے بچے سے کہو کہ سکول روز جانا لیکن وہ ہفتے میں ایک بار جائے، آپ کہیں امتحان کی تیاری کرو، فلاں بہت آوارہ ہے اس سے نہ ملو مگر اس کو اس کے بغیر قرار ہی نہ ہو..“
تیمور نے ان کی بات بیچ میں سے اچکتے ہوئے کہا کہ میں سب سے پہلے جیب خرچ بند کروں گا …. اور یہی شاید میرے ساتھ ہو رہا ہے کہ جب تک میں دین میں صحیح غلط جانتا نہیں تھا، مٹی کو ہاتھ لگاتا تو سونا بن جاتی تھی، لیکن رفتہ رفتہ میں نے دین کے بارے میں جانا تو صحیح لیکن عمل کو اپنے بڑھاپے کے لیے اٹھا رکھا تو میرے رب نے اس منہ زور گھوڑے کی لگام کو کھینچنا شروع کر دیا …. بات دل کو کیا لگی کہ رقت اور شرمندگی کے آنسوؤں کے ساتھ تیمور سے بات کرنا محال ہو گیا، اس نے استغفار پڑھنا شروع کر دیا اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ سے وعدے ….. کچھ حالت سنبھلی تو شیخ صاحب کا خوب شکریہ ادا کیا. وہ اسے دیر تک مختلف نصیحتیں کرتے رہے حتی کہ اریبہ کا فون آگیا کہ وہ اس کا انتظار کر رہی ہے.
…………………………………
باجی نے اریبہ کے کندھے تھپکاتے ہوئے اس سے پوچھا،
”اریبہ آپ نے اپنے میاں کی خوشی کے لیے اتنی قربانیاں دیں، اپنی اولاد کے لیے، اپنے والدین کی اولاد کے لیے، اور اپنے شوہر کے والدین کی اولاد کے لیے … اور بدلے میں سب نے الزامات لاد دیے آپ پر، آپ کو نہیں لگتا کہ کاش آپ نے اللہ کو خوش کیا ہوتا ان سب کی جگہ؟“
اریبہ نے حیرت اور دکھ سے بی بی کی جانب دیکھتے ہوئے کہا کہ،
”ان سب کو میں نے صرف اللہ تعالیٰ کی رضا پانے کے لیے خوش کیا اور میری کوئی نیت نہیں تھی.“
باجی نے جگ میں سے پانی گلاس میں ڈالتے ہوئے بغور اس کا چہرہ دیکھا اور پانی کا گلاس اسے پکڑاتے ہوئے پوچھا،
”اپنے جیب خرچ سے صدقہ کتنا کرتی ہو؟“
اریبہ نے بتایا کہ ”میں خود نہیں کماتی ہوں، میرے شوہر اور میں مل کر طے کرتے ہیں کہ کسے کتنا دینا ہے، باقی میرا جیب خرچ تو اتنا کم ہے کہ…“
”پارلر پر ہر ماہ کتنا خرچ ہو جاتا ہوگا؟“باجی کا یہ سوال بہت اچانک اور زیادہ ہی پرسنل تھا لیکن ابھی تک جو کچھ خود اس نے بتایا تھا، وہ اس سے کہیں زیادہ نجی نوعیت کی باتیں تھیں …. سو اس نے صاف صاف بتا دیا. باجی نے یہ سنتے ہی کسی کا نمبر ڈائل کیا اور کہا کہ،
”آپ اس بچے کی فیس کی پرواہ نہ کریں، ان شا اللہ آپ کو ہر ماہ یہ رقم مل جائے گی.“فون رکھ کر وہ اس کی طرف متوجہ ہوئیں اور بولیں کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کو سجنے سے نہیں روکا لیکن اس کی حدود ہیں، اور، جو کچھ پارلرز میں کیمیکلز کی صورت میں ملتا ہے، وہ اصل صورت میں تقریبا ہر گھر میں موجود ہوتا ہے، اگر ذرا سی حکمت سے انہی سے کام چلا لیا جائے تو وہی پیسے جو فقط دو مہینے بھی کسی کے چہرے کو بشاشت نہیں دے سکتے، کسی معصوم کی زندگی بنانے اور آپ کی آخرت میں ہمیشہ ہمیشہ کے نور کا باعث بن سکتے ہیں …. اور سب سے بدترین بات ان پارلرز اور ہماری خواتین کی یہ کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے، وہ بھنوئیں نوچنے والیوں اور نوچوانے والیوں پر لعنت فرما گئے ہیں اور ایسا ہو نہیں سکتا کہ قرآن میں ہو کہ تم سنتوں سے محبت کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا، اور یہاں میری بہنیں وہ کام کریں جن پر لعنت کی گئی ہے، اور اللہ ان سے محبت کرے بھی، اور ان کی محبت لوگوں کے دلوں میں بھی ڈال دے؟
میرے پاس کوئی طلسمی چھڑی نہیں لیکن آپ کے پاس اختیار کی قوت ہے کہ جس بات کو آپ جادو سمجھ رہی ہیں، اس کی جڑ کو پکڑ لیں، اپنی محبوب خواہشات کو اپنے قدموں میں لا ڈالیں، چست لباس، زینت سے آراستہ ہو کر کھلے عام پھرنا، وہی تصاویر ہر ایک کو دکھانا، عورتوں ہی کی محفل کیوں نہ ہو، وہاں ناچنا اور مستی کرنا، وہ بات جسے آپ فحش نہ بھی سمجھتی ہوں لیکن آپ کا دین اسے لغو اور فحش بتاتا ہے تو اسے اپنی زندگی سے کاٹ دیں، اللہ کی طرف پلٹ جائیں جسے ہم سچی توبہ کہتے ہیں. اللہ ہی تو ہر شے پر قادر ہے تو کیوں لوگ سب سے بنا کر رکھتے ہیں اور اللہ کو راضی کرنا انہیں دشوار لگتا ہے؟ خواتین کو جوان نظر آنے کا جو شوق ہے، وہ جدید طریقوں سے بھی آخر کو کتنے سال جوان نظر آسکتی ہیں بھلا؟ جبکہ ان شاءاللہ جنت میں گئیں تو ہمیشہ ہمیشہ جوان رہ پائیں گی تو اپنے اس شوق کو دیرپا بنائیں، اتنا عارضی اور اس قدر مصنوعی اور …… خیر چھوڑو.
اریبہ خاموشی سے ان کی بات سن بھی رہی تھی اور خود کو بھی سمجھا رہی تھی، خود ہی کہنے لگی،
”میں ہر دو سال بعد روٹین لائف سے اکتا کر باہر گھومنے چلی جاتی ہوں، ہزاروں کے گفٹس لا کر بانٹتی ہوں، پر وہی کچھ دن بعد میں بھی سب بھول جاتی ہو،ں لوگ بھی قدر نہیں کرتے، معاملہ اگر دیرپا ہی کرنا ہے تو اتنی بڑی رقم سے تو واقعی بہت سی جنت کمائی جا سکتی ہے، شاید میری روح کو قرار اسی سبب سے نہیں مل پا رہا کہ میں مسکینوں کی راحت کا سامان نہیں کرتی. اسی کو خوش کرنے کی کوشش کرتی ہوں جس سے بدلے میں مجھے عزت محبت سب مل سکے …. شاید مجھے زندگی گزارنے کا ہنر نہیں آیا….“افسوس اس کے لہجے اور چہرے دونوں سے عیاں تھا. باجی نے لوہا گرم دیکھ کر ایک لمبی سانس لی، پھر بہت دھیمے لہجے میں بولیں، اب ایک بات گرہ میں باندھ لو، وہ جو ایک حدیث ہم بچپن سے جانتے ہیں پر عمل نہیں کرتے، اس پر عمل شروع کر دو. اریبہ نے حیران سوالیہ نگاہوں سے ان کی طرف دیکھا تو انہوں نے کہا کہ جس کا مفہوم ہے کہ سورہ البقرہ اور آل عمران کی تلاوت باعث رحمت اور ان کا چھوڑ دینا باعث حسرت ہے.
غور طلب بات کیا ہے بھلا؟ کہ ہم تلاوت کا مطلب محدود کر کے صرف خوش الحانی سے قرآن پڑھنے یا رٹ لینے کو سمجھتے ہیں جبکہ اس لفظ تلاوت میں اس کی باتوں کو سمجھ کر ان پر عمل کرنا بھی شامل ہے. تو ہر روز، کچھ ہی سہی لیکن ضرور ان آیات کا غور و فکر اور تدبر اور عمل کے ارادے اور دعا کے ساتھ پڑھنے کا وعدہ کرو مجھ سے ….. اریبہ نے کچھ وقت لیا، اتنا بڑا وعدہ کرنے سے قبل تو باجی نے ان کے فضائل بتانے شروع کر دیے اور پھر یک دم ان کے چہرے پر مسلسل جمی مسکراہٹ کچھ دیر کو غائب ہو گئی، وہ انتہائی رنجیدہ لہجے میں بولیں،
”اللہ پاک نے تو شروع قرآن میں ہی دنیا کو برتنے کے تمام گر سکھا دیے، یہ سوال پوچھتے ہیں. اس کا یہ جواب ہے، فلاں بارے میں اس کا یہ طریقہ ہے …. اور ہم کہ زندگی گزارنے والی باتوں کو میت کی بخشش کے لیے ہل ہل کے مل مل کے بےسمجھے من گھڑت رسمیں ایجاد کر کے نسل در نسل پڑھے جاتے ہیں.“
اس دوران اریبہ اپنا ذہن بنا چکی تھی. اس نے بی بی سے مصافحہ کرتے ہوئے ان سے پکا وعدہ کیا کہ اللہ نے چاہا تو مرتے دم تک اس روٹین کو نہیں چھوڑے گی، اور آپ کا ساتھ بھی، ابھی تو مجھے آپ سے بہت کچھ سیکھنا ہے، رخصت ہوتے ہوئے پھر اس کی آنکھیں بھر آئیں، تو وہ تیزی سے ان کے کمرے سے باہر آگئی. اسے باہر نکلتے دیکھ کر ایک سادہ لوح عورت نے نزدیک آکر بہت رازداری سے پوچھا.
”بی بی جی! کیا تھا، کوئی بندش تھی؟ جن یا جادو، آپ کا اتارا ہوگیا؟“ -
ایک لڑکی کی روح کی فریاد – نوشابہ عبدالواجد
میں! آسمانوں میں قائم خداوندہ کریم کی بارگاہ میں روح کی شکل دے کر وجود میں لائی گئی ہوں اور مجھے اُس قطار میں کھڑا کیا گیا ہے، جو عنقریب اولاد بن کر دنیا میں جانے والی ہے۔ اُس دنیا میں جو ہمارے لیے ہی تخلیق کی گئی اور جس کا وجود ہم سے ہی ہے۔
اولاد کی قطار میں کھڑی، اللہ کے فرمان کا انتظار کرتے ہوئے، میں دنیا میں آنے والی زندگی کو اپنی آنکھوں کے پردے پر چلتا دیکھ رہی ہوں اور خوف ذدہ ہوں کہ اللہ کا فرمان میرے لیے کیا فیصلہ لے کر آ رہا ہے ۔ انسانی شکل حاصل کرنے کے لیے مجھے کسی نہ کسی ماں کے شکم کی ضرورت ہو گی ۔۔۔کون ہو گی میری ماں؟ مسلمان یا کسی اور عقیدے سے تعلق رکھنے والی؟ میں یہ جانتی ہوں کہ میں مسلمان ہوں اور میرے تحتِ شعور میں دینِ اسلام محفوظ ہے، مگر مجھے کس عقیدے کو ماننا ہے اِس کا انحصار اِس بات پر ہے کہ میرے ہونے والے والدین کس عقیدے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اگر میں مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئی تو مجھے اپنی فطرت کے مطابق ماحول مل جائے گا، جہاں میں باآسانی اپنے تحتِ شعور میں محفوظ دینِ اسلام کو سمجھ پاؤں گی اور اگر بدقسمتی سے ایسا نہ ہوا تو میرے لیے اپنی فطرت کے خلاف ساری زندگی گزارنا مشکل ہو گا اور اگر میں خود دینِ اسلام کی کھوج میں نہ نکلی تو ایک اضطرابی روح بن کر رہ جاؤں گی۔
انتظار کے لمحوں میں نِت نئے سوالات میرے ذہن میں آ رہے تھے کہ اُسی وقت ایک خواہش نے میرے اندر جنم لیا کہ کاش! اللہ تعالی مجھ سے پوچھے کہ کیا میں اولاد بن کر دنیا میں جانا چاہتی ہوں؟ اور پوچھے جانے پر میں جواب دوں۔ نہیں کبھی نہیں۔
اللہ تعالی میرا یہ جواب سُن کر مجھ سے ایک بار پھر پوچھے آخر کیوں؟ تب میں اپنا حالِ دل بیان کرتے ہوئے کہوں۔اے اللہ! میں اس بات پر فخر کرتی ہوں کہ دنیا کا کوئی کونا ایسا نہیں ہے جہاں مجھے مانگا نہ جاتا ہومگر جب میں اپنے مانگے جانے کی وجوہات پر نظر ڈالتی ہوں تو دل برداشتہ ہو کر یہ خواہش کرتی ہوں کہ مجھے اولاد بن کر اِن مانگنے والوں کے گھروں میں نہیں جانا۔۔۔۔۔۔اللہ تعالی آپ نے مجھے ان مانگنے والوں کو دینے کے لیے ہی بنایا ہے، مگر یہ مجھے کیوں مانگ رہے ہیں؟؟؟
ذرا دیکھیں تو۔
کوئی مجھے اس لیے مانگ رہا ہے کہ اُن کو صاحبِ اولاد ہونے کا سرٹیفکیٹ چاہیے، تاکہ وہ دنیا میں اَکڑ کر چل سکیں۔ کوئی مجھے اس لیے مانگ رہا ہے کہ اُن کو اپنی نسل اور وراثت چلانی ہے۔ کوئی مجھے اس لیے مانگ رہا ہے کہ اُن کو اپنی ادھوری خواہشات کو پورا کرنا ہے، تو کوئی مجھ میں اپنے بڑھاپے کا سہارا دیکھ رہا ہے۔
اے میرے رب! ہر کوئی مجھ میں اپنا مفاد دیکھ رہا ہے ، کوئی بھی مجھے اُس مقصد کے لیے نہیں مانگ رہا جس کے لیے میری تخلیق ہوئی ہے۔ مرد اور عورت پر یہ ذمہ داری ہے کہ وہ مجھے پیدا کرکے آپ کے آگے جھکنے والوں کی تعداد میں ایک اور عاجز بندے کا اضافہ کریں۔ معاشرے کو ایک مکمل انسان بنا کردیں تاکہ وہ دین اور انسانیت کے اُصولوں کو آگے لے کر چل سکے۔یا اللہ! صرف یہ ہی وجہ نہیں ہے، جس نے میرے اندر دنیا میں جانے کی خواہش کو کم کر دیا ہے۔ ۔ ذرا میرے وجود کا آغاز دیکھیں، جب میں اپنی ماں کے شکم میں ہوتی ہوں تب بھی اپنی ماں کے رحم و کرم پر ہوتی ہوں، اگر ماں چاہے تو مجھے ایک صحت مند انسان بنا کردنیا میں لانے کا ذریعہ بن جائے اور اگر نہ چاہے تو میری بے بسی کا فائدہ اُٹھا لے۔
میں یہ بات جانتی ہوں کہ میرے اور میرے والدین کے درمیان احسان کا رشتہ ہے کیونکہ جہاں بے بسی ہوتی ہے وہیں تو احسان ہوتا ہے۔ مگر کیا میرے ہونے والے والدین یہ جانتے ہیں کہ میرے اور ان کے درمیان کون سا رشتہ ہے؟
اے میرے مالک! میں اپنی ماں کہ شکم میں جتنی بےبس ہوں اُتنی ہی لاچار دنیا میں آنے کے بعد بھی ہوں گی۔ زبان، آنکھ، کان اور عقل سب ہونے کے باوجود کسی چیز پر میرا کوئی اختیار نہیں ہو گا، والدین کی آغوش میں ایسے سمٹی رہوں گی کہ کوئی یہ گمان بھی نہیں کر سکتا کہ ایک دن اکیلے دنیا فتح کر سکتی ہوں۔
اللہ کون ہے؟ وہ دین جومیرے تحتِ شعور میں محفوظ ہے وہ کیا ہے؟ یہ بات جاننے اور سمجھنے سے پہلے میرے والدین ہی میرے لیے سب کچھ ہوتے ہیں، اندھادہند ان کے پیچھے چلنا شروع کر دیتی ہوں یہ بھی نہیں جانتی کہ وہ میرے ساتھ اچھائی کر رہے ہیں یا بُرائی۔ بس ایک اندھا یقین کہ وہ مجھے کامیاب بنا رہے ہیں۔۔۔
یااللہ! افسوس تو اس بات کا ہے کہ مجھے حاصل کرنے کے لیے والدین ہر حد سے گزر جاتے ہیں، مگر مجھے حاصل کرنے کے بعد وہ میری بھلائی کے بارے میں سوچنا چھوڑ دیتے ہیں۔ میرا نام رکھنے سے لے کر زندگی کے بڑے بڑے فیصلوں میں اپنی پسند نا پسند کو ترجیحی دیتے ہیں۔ میرے لیے صحیح کیا ہے اور غلط کیا ، اس کے بارے میں کبھی نہیں سوچتے۔
میرے مالک! ذرا سوچئیے،اِن مانگنے والے والدین کو پرورش اور تربیت میں فرق بھی نہیں پتہ۔ پرورش میں میری جسمانی نشوونما شامل ہے اور تربیت میں میرے عقائد، اخلاقیات، رسم ورواج اور نفسی شعور کا علم شامل ہے، مگر آج کل کے والدین پرورش کو تربیت کا نام دے کر تربیت کی اہم ذمہ داری میں کوتاہی کر رہے ہیں۔۔۔ بہترین کھانا کھلانے، اعلٰی اسکولوں میں تعلیم دلانے اور بہترین جگہ پر رکھ کر پرورش کرنے کو بہترین تربیت کا نام دیتے ہیں۔والدین کی یہ لاپرواہی اور لاعلمی دیکھ کرکس کا دل کرے گا کہ وہ اولاد بن کر اِن مانگنے والوں کی زندگیوں کا حصہ بنے ۔اے میرے رب! آج کل کے والدین یہ بھول گئے ہیں کہ اُن کو یہ منصب اُن کی صلاحیتوں پر نہیں ملتا ہے بلکہ یہ آپ کا فضل ہے، آپ مانگنے والے کو وہ سب دیتے ہیں جو وہ مانگ رہے ہیں، کیونکہ ہرمانگی جانے والی چیز پر ہی تو مانگنے والے کا حساب لیا جائے گا ۔۔۔۔ میرا وجود تو والدین کا منصب حاصل کرنے والوں کے لیے کڑا امتحان لے کر آتا ہے۔ والدین کا امتحان میرے لیے بھی آزماش کا سبب بنتا ہے، کیونکہ وہ مجھے جو بنا کر دنیا کے حوالے کرتے ہیں وہاں ہرقدم پر میری جنگ خود سے ہوتی ہے۔ ٹھوکریں میرا مقدر بنتی ہیں اگر میری تربیت آپ کے بتائے اُصولوں پر نہ ہوئی ہو۔
یا اللہ! شکوہ تو یہ ہے کہ والدین یہ جانتے ہیں کہ ہر کام کو بہترین طریقے سے کرنے کے لیے اُس کے بارے میں علم حاصل کرنا ضروری ہے، اس لیے وہ ہر کام کو کرنے سے پہلے اُس کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کرتے ہیں، تاکہ وہ زندگی کے ہر میدان میں کامیاب ہوں اور اپنی ساری خواہشات کو پورا کر سکیں، مگرآج کے والدین اولاد کی تربیت کرنے کے لیے کوئی بھی علم حاصل کرنا ضروری نہیں سمجھتے، مجھے اپنی تجربہ گاہ سمجھتے ہیں جہاں وہ صرف تجربے کرتے نظر آتے ہیں۔ والدین یہ نہیں جانتے کہ اُن کو میری تربیت کیسے کرنی ہے، اپنی زندگی سے جو سیکھا وہ سیکھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ والدین یہ بھی نہیں جانتے کہ انھوں نے اپنی زندگی سے صحیح سیکھا ہے یا غلط ۔ جس چیز کا وہ علم رکھتے ہیں اُسے بھی سیکھانے میں کوتاہی کرتے ہیں کیونکہ انسان ایک ایسی ذات ہے جو عمل سے سیکھتی ہے بولے جانے والے لفظوں سے نہیں اور آج کے والدین عمل سے سیکھانے پر یقین نہیں رکھتے۔۔۔۔اے اللہ! میری کہی سب باتوں کا ملطب یہ نہیں ہے کہ میں والدین کی خالص محبت کو مانتی نہیں ہوں، مگر میں اس بات پر حیران و پرشان ہوں کہ والدین مجھے اچھی زندگی دینے کے لیے کسی کی بھی حق تعلفی کر سکتے ہیں، چوری ، ڈاکہ اور قتل جیسے سنگن جُرم کر سکتے ہیں، حرام ذریعے سے کما کر میری ضروریات پوری کر سکتے ہیں لیکن مجھے بااخلاق بنانے کے لیے اپنے اخلاق کو بلند نہیں کر سکتے، مجھے نمازی بنانے کے لیے خود نمازی پرہیزگار نہیں بن سکتے، مجھے خوش کلام بنانے کے لیے آپس کی گالی گلوچ اور لڑائی جھگڑوں سے اجتناب نہیں کر سکتے ، ہر بُری عادت جو میرے لیے نقصان دہ بن سکتی ہے میری بھلائی کے لیے نہیں چھوڑ سکتے۔۔۔آج کل کے والدین کی محبت بھی اُن کی طرح گمراہ ہو گئی ہے۔۔۔۔ اولاد کی محبت میں والدین جو کچھ کر رہے ہیں اُس سے نہ اُن کی زندگی بن سکتی ہے اور نہ میری ۔
یا اللہ! میں یہ جانتی ہوں کہ بلوغت میری عمر کا وہ مرحلہ ہے جہاں مجھ میں سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت آ جائےگی، مگر چودہ سال والدین کی اندھی تقلید مجھے حقیقت سے اتنا دور کر دے گی کے میں اپنے ضمیر کی آواز، جو میرے تحتِ شعور میں محفوظ دینِ اسلام کی ترجمانی کرے گی، سننے سے قاصر ہوں گی ۔ میں چاہ کر بھی اس بات پر یقین نہیں کر پاؤں گی کہ میری زندگی میں آنے والی آزمائش اور ناکامیوں کی وجہ میرے والدین کی غلط تربیت اور غلط فیصلے ہیں ۔۔۔ ایک بار پھر میں ایسے دو راہے پر آ کر کھڑی ہو جاؤں گی جہاں خود کو ایک بار پھر بہت بے بس محسوس کروں گی ۔ میری پوری زندگی غلط تربیت اور غلط فیصلوں کی وجہ سے برباد ہو جائے گی۔ پتہ نہیں اُس لمحے میں خود کو سنبھال پاؤں گی بھی کے نہیں؟ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ میں پوری زندگی والدین کے بتائے ہوئے غلط راستوں پر بھٹکتے گزار دوں۔
رب العزت! والدین یہ سمجھتے ہیں کہ شعور آنے کے بعد اولاد اپنے صحیح اور غلط اقدامات کی خود ذمہ دار ہے ، کسی حد تک تو ہم اولاد کو ذمہ دار کہہ سکتے ہیں، کیونکہ زندگی کے کسی بھی موڑ پر حق کا راستہ اپنانا خود بندے کی ذمہ داری ہے، مگر اولاد کی بربادی کے زیادہ ذمہ دار والدین ہوتے ہیں، اگر ایسا نہ ہوتا تو عیسائی، یہودی اور مُشرکین کی اولاد شعور کی عمر کو آتے ہی اللہ اور اُس کے رسول کے بتائے راستے پر چلنے لگتی اور اپنے والدین کا بتایا اور سیکھایا ہر سبق بھول جاتی ۔ والدین شاید یہ نہیں جانتے کہ غلط تربیت کے اثرات اتنے مہلک ہوتے ہیں کہ ان سے چھٹکارا حاصل کرتے کرتے کبھی ساری زندگی گزر جاتی ہے مگر چھٹکارا نہیں ملتا۔اے میرے مالک! میں جب اپنے سے پہلے دنیا میں جانے والی اولاد کا بُرا حال دیکھتی ہوں تو خواہش کرتی ہوں کہ یا تو آپ مجھے صرف اُن والدین کو نوازیں جو میری تربیت کرنے کے قابل ہوں یا آپ مجھ سے پوچھیں کہ کیا میں اولاد بن کر دنیا میں جانا چاہتی ہوں اور میرا جواب وہی ہو ۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ نہیں کبھی نہیں
-
بچے کی کامیابی میں والدین کا کردار – حسیب الرحمن زاہد
ماں جب اپنے ننھے سے پھول کی انگلی تھامے سکول کی طرف جارہی ہوتی ہے تو اس کی ساری توجہ اپنے بچے کی طرف ہوتی ہے۔ وہ چاہتی ہے سکول میں اس کا بچہ سب سے نمایاں ہو۔ سب اساتذہ کی توجہ بس اسی کے بچے پر ہو۔ لیکن ظاہری بات ہے ہر ماں کی یہ خواہش پوری نہیں ہوسکتی ۔ تعلیم کے میدان میں سب سے اچھے نمبروں اور سب سے اعلی ڈگری کا خواب بھی ہر ماں دیکھتی ہے ۔وہ اپنی زندگی کو مقابلے کا میدان بنالیتی ہے۔ نتیجتا بہت ساری تلخیاں اور مصیبتیں وہ اپنے سر لے لیتی ہے۔ اس کی نظر میں اساتذہ اس کے بچے کو توجہ نہیں دیتے۔ ان کے پڑھانے کا انداز درست نہیں ہوتا، وہ قابل نہیں ہوتے، اس کے بچے کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں یہ اور ان جسے کئی وہم پال کر وہ بے چاری اپنی خواہش کو پورا ہوتے دیکھنا چاہتی ہے۔ ہر ماں کو یہ حقیقت تسلیم کرلینی چاہیے کہ اس کا بچہ اس کے دو یا چار خاص بچوں میں سے اس کے لیے خاص ہے جبکہ جس سکول میں وہ اسے داخل کرانے جارہی ہے اس میں اس جیسے تین چار سو خاص بچے اور بھی ہیں۔ کلاس ٹیچر کےلیےیہ بچہ پچاس، ساٹھ خاص بچوں میں سے ایک ہے۔ جبکہ سبجیکٹ ٹیچر کے لیے کم از کم دو سو خاص بچوں میں سے ایک ہے۔ یہ تو شاید ممکن نہیں کہ بچے میں کسی خاص چیز کی صلاحیت نہ ہو اور وہ اس میں نمایاں کامیابی حاصل کرلے۔ ہاں مگر بعض خاص چیزیں ایسی ہیں جن میں ذرا سی توجہ سے آپ کا بچہ سکول میں نمایاں ہوسکتا ہے۔ اساتذہ کی خاص توجہ حاصل کر کے کامیابی کے راستے پر گامزن ہوسکتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں چونکہ عام طور پر مائیں جاب نہیں کرتیں اس لیے بچے کی تعلیم و تربیت کی سب سے بڑی ذمہ داری انہیں پر عائد ہوتی ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کے مشورے سے بچے کو مینج کریں ۔بچے کے سامنے ایک دوسرے کی عزت کریں اور بچے کے دل میں ایک دوسرے کا احترام اور محبت ڈالیں۔ بےجا سختی اور ڈانٹ ڈپٹ سے بچے وقتی طور پر تو بات مان جاتے ہیں لیکن ایک وقت کے بعد یہ طریقہ کار آمد نہیں ہوتا ۔بچے سے بات منوانے کا درست طریقہ والدین کی ناراضگی کا خوف ہے۔ جو بچے پیار اور محبت کے ہوتے ہوئے والدین کی ناراضگی سے ڈرتے رہتے ہیں ان کی تربیت درست سمت کی طرف گامزن ہوتی ہے ۔جن بچوں میں ڈسپلن ہوتاہے ان کی تربیت میں زیادہ پاپڑ نہیں بیلنے پڑتے۔ اس لیےاپنے بچے کو ڈسپلن کا عادی بنائیے۔صبح بیدار ہونے سے لے کر رات کو سونے تک اس کا ہر کام ڈسپلن سےہونا چاہیے ۔ بچے میں ڈسپلن صرف اسی صورت آسکتا ہے جب والدین خود اپنے آپ کو ڈسپلن کا عادی بنائیں گے ۔ بچے جب صبح بیدار ہوں تو ان کا ٹوتھ برش اپنی جگہ پر موجود ہو۔یونیفارم رات کو ہی استری ہوچکا ہو۔ شوز پالش ہوں ۔ اور اطمینان سے ناشتہ کرنے کے بعد وقت سے پندرہ منٹ پہلے وہ سکول پہنچ چکے ہوں ۔گھر میں بچوں کے لیے علیحدہ سٹڈی روم بنائیں یا کم از کم سٹڈی ٹیبل سیٹ کریں جہاں وہ سکول سے آنے کے بعد تعلیمی مشاغل سر انجام دیں ۔بچے کی کاپیاں اور ڈائری روزانہ بلاناغہ چیک کریں ۔ ہوم ورک کرنے کے بعد بچے کا بیگ ایک دفعہ لازمی چیک کریں اور کوئی کاپی ،کتاب ،پنسل ،شارپنر،ربڑ وغیرہ مس نہ ہونے دیں ۔سٹڈی روم میں اضافی کلرز ،چارٹ پیپر اور سٹوری بک بھی رکھیں تاکہ بچے کے تجسس کی تسکین ہوسکے اور اس کی انرجی درست جگہ پر خرچ ہو۔ سٹڈی روم میں ایک عدد کمپیوٹر بھی ہونا چاہیئے لیکن اس کا کنٹرول صرف والدین کے ہاتھ میں ہو۔کارٹون اور گیمیں والدین خود منتخب کریں ۔ایسے کارٹون اور گیمیں منتخب کریں جن میں تفریح کے ساتھ ساتھ تعلیم اور تربیت کا پہلو بھی ہو۔بچوں کے کمپیوٹر میں ایسے کارٹون کو ہرگز جگہ نہ دیں جن میں پھکڑ پن ہو یا اشیاء کو بڑھا چڑھا کر غنڈہ گردی کی طرف مائل کیا گیا ہو۔یا ایسے کارٹون ہوں جن میں جنس مخالف کے پیار و محبت اور عریانی کو واضح کیا گیا ہو۔ یاد رکھیں ایسے تمام تفریح کے ذرائع آپ کے بچے کی تربیت کے لیے زہر قاتل کا درجہ رکھتے ہیں۔
بچے کے جب دودھ کے دانت گرنے لگ جائیں تو اسے ٹوتھ برش کرنے کا عادی بنائیں ۔اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ رات کے کھانے کے بعد اپنے ساتھ اسے برش کروائیں ۔اور برش کرنے کا درست طریقہ اسے سکھائیں ۔سٹڈی روم میں ایک پیپر آویزاں کردیں جس میں پورے مہینے کے برش کرنے کا ریکارڈ ہو۔صبح اور شام کو برش کرنے کے بعد بچہ مطلوبہ خانے کو فل کردے ۔ اور مہینے کے آخر میں اس کی کارگردی پر اسے انعام سے نوازیں۔
اکثر بچے ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی لنچ میں مختلف چیزیں لے جانے کی فرمائش کرتے ہیں ۔ لنچ میں بچے کو زود ہضم صحت مند کھانا دیں ۔اور اس کے ذہن میں پہلے دن سے ہی برانڈڈ اور فاسٹ فوڈ کھانوں کی نفرت بٹھا دیں ۔اسے بتائیں کہ جوکھانا وہ سکول لے کر جارہا ہے وہ صحت مند اور سب سے اچھا کھانا ہے ۔ بچے کی فرمائشوں پر اسے ڈانٹ کر ہر گز چپ نہ کرائیں بلکہ بچے کی ہر بات اہمیت سے سنیں ۔ اور اس کی غلط فرمائشوں کا رد اس کے سمجھ میں آنے والی دلیل سےکریں ۔اسی طرح اگر آپ کا بچہ سکول میں کوئی غلطی کربیٹھے یا گھر میں اس سے کوئی غلط کام سرزد ہوجائے تو اس کی تشہیر ہرگز نہ کریں ۔تشہیر سے آپ کا بچہ بے عزتی محسوس کر سکتا ہے اور مخالفت میں اس سے بڑھ کر برائی کا سوچ سکتا ہے ۔اس لیے اس کا بھرم رکھیں۔دھمکی ہرگز نہ دیں بلکہ دوستانہ انداز سے اس کام کا غلط ہونا بیان کریں ۔اپنی ناراضگی کا اظہار کریں اور آئندہ وہ کام نہ کرنے کا وعدہ لیں ۔اس طریقے سےوہ غلط کام بھول کر تو کرسکتا ہے لیکن مخالفت اور ڈھٹائی سے ہرگز نہیں۔
اکثر بچے جب سکول سے گھر واپس آتےہیں تو میڈیا رپورٹر کی طرح سکول کے تمام احوال گھر میں سناتے ہیں۔ فلاں ٹیچر یوں ہے۔ فلاں سخت ہے۔ فلاں نرم ہے۔ میرے کلاس فیلو ایسے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ یہ وہ موقع ہوتا ہے جب آپ اپنے بچے کو سکول سے جوڑ سکتے ہیں ۔تعلیم اور اس کی اہمیت اس کے دل میں ڈال سکتے ہیں۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ اکثر والدین اس موقعے کو ضائع کردیتے ہیں۔ اس موقعے پر اپنے بچے کی بات انتھائی توجہ سے سنیئے ۔اس کی باتوں کو پرکھیئے ۔اس کے رجحانات کا اندازہ کیجیے۔ اگر بچہ کوئی غیر معمولی بات کرے تو سنجیدگی سے اس کی بات کا نوٹس لیجئے ۔اگر بچہ کسی استاد کا منفی رویہ ذکر کر رہا ہے تو اسے خاص طور پر نوٹ کیجئے ۔مگر بات کا بتنگڑ بنانے سے گریز کیجئے ۔اور اس کے سامنے استاد کی ہتک ہرگز نہ کیجئے۔ بعض والدین بچے کی باتوں کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور ان کا ردعمل وہی ہوتا ہے جو کسی بڑے کی باتوں پر ہونا چاہیے ۔سکول سے متعلق بچے کی ہر خبر کو بالکل درست تسلیم کر کے اساتذہ کی شکایت کرنے کو دوڑ پڑتے ہیں ۔حالانکہ وہ جانتے بھی ہیں کہ کبھی بچے بات صحیح سمجھ نہیں پاتے یا کسی استاد کی طبیعت ان سے میل نہیں کھاتی تو اس کے متعلق ان کی خبریں درست نہیں ہوتیں۔چنانچہ جب سکول میں استاد کی شکایت پہنچتی ہے اور تحقیق کے بعد بچے کی خبر غلط ثابت ہوتی ہے تو والدین کو شرمندگی اٹھانا پڑتی ہے۔ اور استاد کے دل میں ان والدین اور ان کے بچے کے خلاف سخت جذبات پیدا ہوجاتے ہیں اور یوں ان کے درمیان سرد جنگ کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ۔اور والدین اور استاد کے درمیان بچہ پستا رہتا ہے۔
دوسری قسم کے والدین بچے کی خبر کو بالکل بھی اہمیت نہیں دیتے ۔بلکہ بعض والدین اس موقعے پر اپنے بچے کو ڈانٹ دیتے ہیں ۔یہ رویہ پہلی قسم کے رویے سے زیادہ خطرناک ہے۔اس رویے سے بچہ دب کر رہ جاتا ہے ۔بعض اوقات بچے کی خبر واقعی درست ہوتی ہے لیکن والدین کے رویے کی وجہ سے وہ خود پر ہونے والے ظلم کو وقتی طور پر برداشت کر جاتا ہے مگر مستقبل میں والدین کو پریشان کرتا ہے ۔عام طور پر جنسی زیادتی کے واقعات انہیں بچوں کے ساتھ ہوتے ہیں جن کے والدین شروع میں بچے کی شکایت کو اہمیت نہیں دیتے ۔ چنانچہ نوبت بڑھتے بڑھتے جنسی زیادتی تک پہنچ جاتی ہے ۔اس لیے یہ موقع نہایت احتیاط کا ہوتا ہے ۔ اس موقعے پر بچے کی بات نہایت دھیان سے سن کر اس میں غور کرنا چاہیئے۔آپ سے زیادہ آپ کے بچے کے مزاج کو کوئی نہیں سمجھتا،اس کے مزاج کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کرنا چاہیئے ۔اور سکول مینجمنٹ سے نہایت راز داری کے ساتھ تحقیق کروا لی جائے تاکہ استاد کی عزت بھی باقی رہے اور آپ کی درست رہنمائی بھی ہوجائے۔
اپنے بچے کے ہاتھ سال میں کم از کم ایک دفعہ اساتذہ کے لیے چھوٹا سا گفٹ ضرور بھیجیں ۔خواہ وہ گفٹ ایک پھول ،ایک پین یا سمائل کارڈ ہی کیوں نہ ہو۔اس طرح آپ کی عزت اساتذہ کی نظروں میں بڑھ جائے گی اور آپ کا بچہ ان کی نظروں میں نمایاں ہوجائے گا ۔اسی طرح اساتذہ سے اپنے بچے کے بارے میں وقتا فوقتا مشورہ کرتے رہیں ۔اس کے رویے اور تعلیم کے بارے میں آگاہی رکھیں ۔اگر وہ کسی پہلو سے کمزور ہوتو اساتذہ سے اس کمزوری کی وجہ پوچھیں ۔ اور اس کے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کریں ۔ عام طور پر جو والدین اساتذہ سے اپنے بچے کا تعارف کرواتے رہتے ہیں لاشعوری طور پر استاد ان کے بچے کو زیادہ اہمیت دیتا ہے ۔ اور بچے میں بھی ایک قسم کی سنجیدگی آجاتی ہے ۔چنانچہ آپ کے مہینے کی ایک ملاقات آپ کے بچے میں مثبت تبدیلی لاسکتی ہے۔
بچے اکثر کسی ایک استاد سے متاثر ہوجاتے ہیں ۔ہر عمر کے بچے کے متاثر ہونے کا معیار علیحدہ ہوتا ہے ۔چوتھی کلاس تک کے بچے عام طور پر اس استاد سے متاثر ہوتے ہیں جو طبعا مزاحیہ ہو۔ پانچویں سے لے کر آٹھویں جماعت کے طلبہ کی عمر عموماً گیارہ سال سے سترہ سال تک ہوتی ہے ۔اس عمر کے بچوں میں شوخا پن کے ابتدائی اثرات آنے شروع ہوجاتے ہیں ۔لہذا اس عمر کے بچے اسی استاد کو پسند کرتے ہیں جو ٹھاٹھ باٹھ کا عادی ہو۔ اسکے بعد کی عمر کے طلبہ اکثر ذہین ،اور دوستانہ طبیعت کے اساتذہ سے متاثر ہوتے ہیں ۔ان کے متاثر ہونے کا معیار استاد کی قابلیت ہوتا ہے ۔چنانچہ اگر آپ کا بچہ کسی استاد سے متاثر ہوتو آپ اس کا بھر پور فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔اگر بچہ کسی بات میں ضد کرے ،یا تربیت میں کسی حوالے سے کمی کا شکار نظر آئے تو استاد کے ذریعے نصیحت کیجیے۔
اگر آپ کا بچہ اضافی ذہین ہے اور سوال کرنے کی عادت بھی اس میں ہے تو آپ پر اضافی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے ۔اپنے بچے کی روزانہ کی بنیاد پر تربیت کیجئے۔ اس کے کسی بے وقوفانہ سوال پر ہنسی اور مذاق اڑانے سے مکمل پرہیز کریں ۔اس طرح آپ کی وقعت اس کی نظروں میں کم ہوجاتی ہے اور وہ اپنی صلاحیتوں کو خود ہی روند ڈالتا ہے ۔اس موقع پراسے سوال کرنے کا ڈھنگ سکھائیں ۔ اسے بتائیں کہ کب کون سا سوال کیسے کرنا ہے۔عام طور پر زیادہ ذہین بچوں کے سوال تو درست ہوتے ہیں مگر ان کے سوال کرنے کا طریقہ بے ڈھنگا ہوتا ہے ۔اور اسی وجہ سے اساتذہ کی ان سے نہیں بنتی ۔اور وہ اپنے تجسس کی تسکین نہ پاکر استاد کو اپنا مخالف سمجھ بیٹھتے ہیں ۔جو کہ بالکل غلط رویہ ہے ۔اس کےاس رویے کی ذمہ داری والدین پر جاتی ہے ۔اگر والدین اپنے بچے کی تربیت درست طریقے سے مستقل بنیادوں پر کریں تو اس کی کامیابی کے امکانات بالکل واضح ہوتے ہیں خواہ ان کا بچہ معمولی ذہانت کا حامل ہی کیوں نہ ہو۔’
-
بچوں کی تربیت، نگرانی کیسے کریں؟ حوریہ ذیشان
رات ہوتے ہی آپ کو گلیوں کی سنسان جگہوں پر اٹھارہ بیس سال کے بہت سے ایسے نوجوان نظر آئیں گے جو موبائل فون کان کو لگائے سرگوشیوں میں گھنٹوں کسی نامحرم سے باتیں کرنے اور اسے سنہرے خواب دکھانے میں مصروف ہوں گے۔ اولاد کو صرف ضروریات ِزندگی مہیا کردینا ہی والدین کا فرض نہیں ہے بلکہ ان کی تربیت کرنا، اچھے برے کی تمیز سکھانا اور کسی قسم کے گناہ میں مبتلا ہونے سے بچانے کے لیے ان پر نظر رکھنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ اولاد پر حد سے زیادہ اعتماد بھی کبھی کبھی نقصان دہ ثابت ہوتا ہے، اس لیےان پر ایک حد تک اعتماد کریں اور ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں تاکہ انہیں ڈر ہو کہ کوئی ہے جو غلط کام پر گرفت کر سکتا ہے۔ جوان ہوتے بچوں کو رہنمائی کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے، اس لیے والدین کو چاہیے کہ انہیں بھرپور وقت دیں۔ آج کے دور میں اولاد کی طرف سے ذرا سی بھی لاپرواہی برتنا والدین کے لیے ساری عمر کے پچھتاوے کا باعث بن سکتا ہے۔
چند باتیں گوش گزار کردیتی ہوں جو ان شاء اللہ فائدہ مند ثابت ہوں گی۔
٭ بچیوں کو اگر ضرورت کے لیے موبائل فون لے کر دیا ہے تو والدین کو اس کے سکیورٹی کوڈ کا علم ہونا چاہیے۔ ماں کے پاس بیٹی کی تمام سہیلیوں کے فون نمبر ہونا ضروری ہیں۔ اسی طرح باپ کو بھی اپنے بیٹے کے دوستوں کا رابطہ نمبر معلوم ہونا چاہیے۔
٭ بچے اگر کمپیوٹر اور نیٹ یوز کرتے ہیں تو کمپیوٹر ایسی جگہ پر ہوں جہاں پر آتے جاتے گھر کے کسی فرد کی نظر پڑتی رہے۔ بچوں کے الگ کمرہ میں کمپیوٹر رکھ دینا اور نیٹ لگوا دینا مناسب نہیں ہے۔
٭ بچوں کے دوستوں کو وقتاََ فوقتاََ اپنے گھر بلوا لیا کریں اور ان سے بات چیت کریں تاکہ آپ کو اندازہ ہو کہ آپ کے بچے کس قسم کے لوگوں سے دوستی رکھتے ہیں۔
٭ بچوں کے دوستوں کے والدین سے بھی رابطہ رکھیں اور وقتاََ فوقتاََ ان سے بھی حال احوال لیتے رہیں۔
٭ بچوں کو یہ اعتماد دیں کہ وہ اپنا ہر مسئلہ کھل کر آپ سے بیان کر سکیں، ان کی بات توجہ سے سنیں اور انہیں اعتماد میں لے کر اس کا مناسب حل پیش کریں۔ حد سے زیادہ سختی اور بچوں کی بات کو اہمیت نہ دینا بھی بچوں کو باغی بنا دیتا ہے۔
٭ بچوں کے معمولات پر غیر محسوس طریقے سے نظر رکھیں اور اگر ان میں کوئی غیر معمولی بدلاؤ نظر آئے تو اس کی وجہ جاننے کی کوشش کریں۔
٭ سب سے بڑھ کر یہ کہ بچوں کے دل میں خوفِ خدا پیدا کریں ۔انہیں اچھائی اور برائی میں تمیز کرنا اس طریقے سے سمجھائیں کہ انہیں خود ہی برائی سے نفرت ہوجائے۔یاد رکھیے! اولاد آپ کے پاس اللہ کی امانت ہے تو اس امانت کا حق صحیح طریقے سے ادا کرنے کی کوشش کیجیے۔ اولاد کی بہترین تربیت والدین کی ذمہ داری ہے، جس کی روز ِمحشر پوچھ ہوگی۔ ذرا سوچیے کہ اگراس دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سوال کرلیا کہ میرے رب نے میری امت کا ایک نوجوان تمہارے حوالے کیا تھا تاکہ تم اس کی تربیت کر کے اسے ایک اچھا مسلمان بناؤ تو تم نے اس میں کوتاہی کیوں برتی۔ اس وقت والدین اس سوال کا کیا جواب دیں گے؟ یہ انہیں ابھی سے سوچنا ہوگا۔
-
والدین سے معذرت کے ساتھ – میاں جمشید
کون چاہتا ہے کہ اسے کوئی پیار نہ کرے ، اس کی تعریف نہ کرے . . کوئی توجہ نہ دے . . کوئی محبت سے نہ بلاے. . . وغیرہ وغیرہ . . .
یقین جانیں سب ہی ایسا کوئی تعلق چاہتے ہیں جس میں مان ہو ، خیال ہو ، بہت ہی اپنا پن ہو . . بلاوجہ کا خوف نہ ہو . .
ایسا تعلق کہ جس میں سکوں ہو ، باتوں و رویوں میں مٹھاس ہو . . اور پہلا اتنا خالص تعلق صرف والدین کا اپنی اولاد ساتھ ہوتا ہے . . ہونا چاہیے ، مگر . . .
مگر یہ جناب، کہ آجکل زیادہ کمانے ، آسائش پانے کے چکر کی مصروفیت ، یا کہیں انا و جھگڑوں کی وجہ سے اکثر والدین کہیں جان بوجھ کر اور کہیں انجانے میں اپنی اولاد ساتھ اتنا کے فاصلہ بڑھا لیتے جس کا اثر نسل در نسل منتقل ہوتا رہتا . . .
جب آج کا نوجوان اپنے والدین کو صبح و شام تک مصروف دیکھے ، یا ان کے سخت رویہ کے خوف سے سامنے آنے سے گھبرایے تو ایسی اولاد پھر کیسے ، کس طرح اور کس سےاچھی تربیت و رہنمائی پاے؟؟ ٹیچر سے؟ کتابوں سے ؟ میڈیا سے؟ انٹرنیٹ سے ؟؟ کمال کرتے ہیں آپ بھی .
تو محترم والدین ، اگر آپ اولاد کو تعلیم ، خوراک ، پہناوا ، اچھی سہولیات وغیرہ جیسی بنیادی ضروریات دیتے وقت اس میں اپنی “محبت و توجہ” شامل نہیں کرتے تو یقین مانیں سب بے معنی ہے . بیکار ہے…
اولاد کو پیسہ و سہولیات سے پہلے اور ساتھ پیار دیجئے. اپنا لمس دیجئے . دوست بنئے . وقت دیجئے. . .ناکامی کے بعد بھی ساتھ دیجئے . .
حوصلہ و رہنمائی دیجئے . .
اپنی توجہ و خیال دیجئے .اپنی مسکراہٹ و شرارت دیجئے. . .
اور اگر آپ گھر میں نہیں دیں گے تو وہ باہر سے لیں گے اور باہر والے جیسے دیتے ہیں وہ آپکو خوب پتا ہے. .
بچےنہیں ہیں آپ! -
کیا واقعی مشترکہ خاندانی نظام ہندوؤںکا نظام ہے؟ محمد عامر خاکوانی
دلیل پر اس حوالے سے تحریر شائع ہوئی، جس میں کہا گیا کہ مشترکہ خاندانی نظام یا جوائنٹ فیملی سسٹم کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، اور یہ ہندوؤںکے ساتھ رہنے کی یادگار ہے، جہاں بڑا بیٹا جائیداد کا وارث ہوتا ہے اور پورا خاندان اکٹھا گزارا کرتا ہے، وغیرہ۔ کیا واقعی ایسا ہے؟
پہلے تو یہ کہ اس مضمون میں شروع سے ایک بات فرضکر لی گئی اور پوری گفتگو اسی نکتے کے گرد گھومتی رہی۔ وہ یہ کہ گھر کا بڑا بیٹا ہی گھر چلا رہا ہے اور باقی گھر والے یعنی چھوٹے بہن بھائی، بھتیجے، بھانجے اس کی کمائی کھا رہے ہیں، وہ اپنے بچوںکا حق مار کر بھیتجیوں کو موٹرسائیکل لے کر دے رہا ہے، وغیرہ وغیرہ۔
یہ مفروضہ اس لحاظ سے غلط ہے کہ مشترکہ خاندانی نظام صرف یہ نہیں ہے۔ یہ تو ممکن ہے کہ کسی گھر میں بڑا بیٹا جلدی سیٹل ہوگیا اور اپنی خوشحالی کی وجہ سے اس کا گھر چلانے میں کنٹری بیوشن دوسروں سے کچھ زیادہ ہوا، مگر یہ کوئی بنیادی شرط نہیںہے۔ ہم نے ایسے کئی گھر دیکھے جہاںچھوٹا بھائی یا منجھلا اپنے پروفیشن یا کاروباری صلاحیتوں کی وجہ سے نسبتآ آگے نکل گیا اور اپنے بڑے بھائیوںکی کمزور مالی حالت دیکھتے ہوئے اس نے ایثار کر لیا۔
بنیادی طور پر مشترکہ خاندانی نظام کا مطلب ہے گھر کے ایک سے زیادہ یونٹس کا یکجا ہو کر رہنا۔ نوے فیصد سے زیادہ کیسز میں والد ہی گھر کا سربراہ ہوتا ہے، مگر جب اس پر بڑھاپا وارد ہوگیا اور اس کے دو، تین یا چار بیٹے جوان ہوگئے، کمانے لگے تو ایک خاص وقت تک وہ اکٹھے رہ سکتے ہیں، رہ جاتے ہیں۔ ایسے معاملات میں عام طور سے والدہ ہی فنانس منسٹر ہوتی ہے اور سب بچے اپنی اپنی تنخواہ یا آمدنی سے ایک خاص حصہ والدہ کو دے دیتے ہیں، وہی پھر گھریلو معاملات چلاتی ہیں، مکان کا کرایہ، بلز، راشن، کھانے پینے کے اخراجات وغیرہ۔ اب اس کا انحصار مختلف خاندانوں، ان کے مالی حالات اور زمینی حقائق پر ہے۔ اگر والد نے ہمت کر کے اپنا آبائی گھر بنا لیا اور کوشش کر کے ڈبل، ٹرپل سٹوری یہ سوچ کر بنا ڈالی کہ کل کو میرے بچے اکٹھے ہو کر رہ جائیں گے تو وہاں پر زیادہ آسانی رہتی ہے۔ مختلف بھائی مختلف پورشنز میں رہتے ہیں اور بل وغیرہ کی شیئرنگ ہی ہوتی ہے، اس میں بھی بجلی کے سب میٹر کی گنجائش باقی رہتی ہے۔ کہیں پر کھانا مشترک ہوا تو پھر دوسرا معاملہ ہے، ورنہ اکثر و بیشتر کیسز میں کچن الگ الگ کر دیا جاتا ہے۔ اب اس کی بھی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ کبھی تو ایسا کہ راشن مشترک ہے، مگر کھانا ہر بہو اپنے انداز میںبنا لے گی، اپنے خاوند اور اپنے معروضی تقاضوںکے مطابق۔ جیسے میرے جیسے کسی صحافی نے رات کو ایک دو بجے آنا، تین چار بجے سونا ہے تو پھر وہ ناشتہ آٹھ بجے نہیں کر سکے گا، اس کا ناشتہ برنچ ٹائپ ہوگا، گیارہ بارہ بجے، جبکہ پورا گھر صبح ناشتہ کر لے گا اپنے اپنے حساب سے۔ بعض گھرانوں میں ابھی تک ایک ہی دسترخوان کی شرط موجود ہے کہ سب گھر والے کھانا اکٹھا کھائیں گے، کم از کم ناشتہ اور رات کا کھانا۔ ایسا تب ہوتا ہے جب والد بڑھاپے کے باوجود مالی اعتبار سے بھی مضبوط ہو اور اولاد سعادت مند، والد کے حکم کو ماننے والی۔ ایک آسان صورت یہ نکال لی جاتی ہے کہ اوپر نیچے رہنے والے بھائی اپنااپنا کچن ہی الگ بنا لیتے ہیں، یوں راشن وغیرہ بھی الگ الگ آتا ہے، کبھی کسی ضرورت میں ایک دوسرے سے خام یا پکا ہوا کھانا لے لیا، اچھے ہمسائیوںکی طرح۔
اب یہ جو شیئرنگ کی صورت ہے، جس میں ماںیا باپ کے کہنے کے مطابق ہر بھائی گھر چلانے کے لیے اپنا شیئر ڈالتا ہے، اس میںکیا برائی ہے؟ یہ تو ممکن ہے کہ سب سے چھوٹا بھائی اگر ابھی تعلیم حاصل کر رہا ہے تو پھر ظاہر ہے وہ کنٹری بیوٹ نہیں کر سکتا، اس سے یہ تقاضا بھی نہیں کرنا چاہیے۔ اگر اپنی بہتر مالی حالت کی وجہ سے ایک بھائی کچھ زیادہ کنٹری بیوٹکر ڈالتا ہے تو اس میں اس کی بیوی کو برا نہیں ماننا چاہیے۔ یہ فطری بات ہے اور اس کے خاندان کا اپنے فرزند پر حق بھی ہے۔ رہی یہ بات کہ بڑا بھائی اپنے مسٹنڈے بھتیجے کو موٹر سائیکل لے کر دے اور اپنے بچوںکا حق مار دے تو بھیا یہ مفروضہ صورتحال ہی ہے۔ ہم نے تو ایسا ایثار کرنے والے کم ہی دیکھے، دو تین فیصد بمشکل۔ ستر اسی فیصد تو ایسے ہیں جو اپنا شیئر ایمانداری سے دے دیں، بڑی بات ہے۔ جو دو چار اچھی مثالیں ہیں، ان سے کسی عورت کو خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ صلہ رحمی کی اسلام میں بڑی اہمیت ہے اور کوئی ایثار کرے گا تو وہ یقین رکھے کہ رب تعالیٰ کےخزانے میں کوئی کمی نہیں، اس سے بڑھ کر منصف مزاج اور حق ادا کرنے والا بھی کوئی نہیں۔ جو دس دے گا، اسے ستر، سو بلکہ ہزاروں بھی مل سکتے ہیں۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ بہت سے کیسز میں بڑے بیٹے کی کامیابی میں پورے خاندان کا حصہ، قربانی اور کوششیں شامل ہوتی ہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ اسے اچھی تعلیم دلوانے، اکیڈمی وغیرہ میں پڑھانے کے لیے چھوٹے بچوں کو نسبتا ہلکے سکولوںمیں پڑھانا اور اکیڈمی بھیجنے کی عیاشی سے گریز کرنا پڑ جاتا ہے۔ ماںباپ اپنا پیٹ کاٹ کر بڑے بیٹے پر محنت کرتے ہیں، خود بہت سی لذات سے برسوں محروم رہ جاتے ہیں اور فطری طور پر کسی لوئر مڈل کلاس گھر میں بڑے بچے یا بچوںکو اعلیٰ تعلیم دلوانے کی قیمت چھوٹوں کو بھی ادا کرنی پڑتی ہے۔ بعد میں جب تعلیم مکمل ہوئی اور بڑے بیٹوں کو ثمرات ملنے لگیں تو کیا وہ خود غرضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سب کچھ اپنے بچوں تک محدود رکھ دیں۔ ایسا تو دین کہتا ہے نہ اخلاقیات نہ منطق۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ بہت بڑی اکثریت کے کیسز میں اس بڑے لڑکے کی محنت، کوششوں میں اس کے ماں باپ، چچا، ماموں وغیرہ تو شامل رہے ہوتے ہیں، کسی نہ کسی صورت میں، اس کی بیوی تو اس پوری فلم میں ہوتی ہی نہیں۔ تیس سال کی عمر میں شادی ہوئی اور لڑکی جو تیس سال کے بعد زندگی میں شامل ہوئی، اگلے دو برسوں کے دوران ہی وہ چاہتی ہے کہ پچھلی انتیس تیس برسوں میں جو گھر والے اس کے خاوند کی زندگی کا حصہ رہے، وہ اب اچانک ہی دنیا سے ہی غائب ہوجائیں۔ ایسا کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ یہ سوچ ہی انتہائی خود غرضی کا مظہر ہے۔
ہندوؤں میں رواج ایک الگ معاملہ ہے، اس کا ہمارے مشترکہ خاندانی نظام سے کوئی موازنہ نہیں۔ ہمارا مشترکہ خاندانی نظام جہاں جہاںکامیاب ہے تو وہ اخوت و بھائی چارہ کے جذبات اور صلہ رحمی کی تلقین کے باعث۔ دل میںخوف خدا رکھنے والا شخص جانتا ہے کہ اگر میں نے صلہ رحمی سے کام لیا اور اپنے وسائل میں اپنے بھائی بہنوںکو شامل کیا تو رب خوش ہوگا۔ اس کا یہ جذبہ مستحسن ہے اور مطلوب بھی۔
یہ درست ہے کہ عربوں میں ہماری طرز کا خاندانی نظام نہیں تھا، مگر یاد رکھیے کہ وہ قبائلی نظام تھا اور قبائلی سادہ معاشرت پر مبنی، جس میںدو منزلہ، تین منزلہ آبائی گھر نہیں تھے، خیموںمیں رہائش رکھی جاتی تھی یا کچے چھوٹے مکان۔ ویسے تو قبائلی نظام بھی ایک لارجر مشترکہ خاندانی نظام کی طرح ہے، جس میں بہت سی چیزیں شیئر کرنا پڑتی ہیں بلکہ دوسروں کی دوستیاں اور دشمنیاں بھی اپنانی پڑتی ہیں۔ آج کی جدید شہری زندگی سے اس زمانے کا موازنہ کرنا سادگی اور بھولپن ہے، مگر اسلام کی سپرٹ کہیں پر مشترکہ خاندانی نظام سے نہیں روکتی۔ اسلام تو نام ہی ایک دوسرے سے محبت، بھائی چارہ، صلہ رحمی، ایثار اور قربانی دینے کا ہے۔ اس میں تو پڑوسیوں کے اتنے حقوق ہیں کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب ایک قول ہے کہ انہیںیوں لگا کہ کہیں پڑوسیوں کو وراثت میں حق نہ مل جائے۔ وہ خدا کیا بھائی بہنوںکو دور کر دینے کی تلقین کرے گا؟ ہرگز نہیں۔ یہ تو ممکن ہے کہ کسی عرب ملک میں چلے جانے اور وہاں مقیم ہو جانے والے شخص کے ذاتی تجربات تلخ ہوں کہ ہمارے ہاں دبئی، سعودی عرب چلے جانے والے سیٹھ سمجھے جاتے تھے اور پورا گاؤں ان سے امیدیں لگا بیٹھتا تھا، ایسے میں ممکن ہے کسی اوورسیز پاکستانی کو ضرورت سے زیادہ کنٹری بیوٹ کرنا پڑا ہو، مگر پاکستان میں آج جس طرح مادیت پرستی کا چلن عام ہوگیا، خودغرضی بڑھ رہی ہے اور سنگل فیملی یونٹکا رواج بڑھ رہا ہے، اسے دیکھتے ہوئے مشترکہ خاندانی نظام پر تنقید کے بجائے اس کے فضائل بیان کرنے کی ضرورت ہے ۔
مشترکہ خاندانی نظام میں ظاہر ہے کچھ خامیاں بھی ہیں۔ کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ بھائی اپنی بیویوںکی پڑھائی پٹی پڑھ کر آپس میں بلا وجہ الجھ پڑتے ہیں اور نوبت وہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ اگر اکٹھے رہے تو بول چال ہی جاتی رہے گی، اس لیے الگ الگ ہوجائیں تاکہ رسمی تعلقات تو رہ جائیں۔ جگہ کی تنگی، چھوٹے مکان کی وجہ سے بھی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ کبھی والدہ یعنی ساس کے مزاج کے باعث بہوؤں یا کسی ایک بہو کے لیے مشکلات بڑھ جاتی ہیں۔ بچوںکی آپس کی لڑائیوں میں اگر بڑے شامل ہوجائیں تو تلخی بڑھ جاتی ہے۔ چھوٹی چھوٹی چیزوں پر دل بڑا نہ کرنا بھی مسائل کو جنم دیتا ہے۔ فلانی توے پر گھی میں تربتر پراٹھے پکاتی ہے، اپنے حصے سے زیادہ گھی لگا دیتی ہے، یا اچھی بوٹیاں پہلے خود نکال لیں وغیرہ وغیرہ۔ ایسی عامیانہ سوچ اور تنگ نظری سے بچنے کی ضرورت ہے۔ ایک دوسرے کی تلخ باتوں کو نظرانداز کرنے اور کبھی ہنس کر ٹال دینے کی روش اپنانی پڑتی ہے۔ سب سے بڑھ کر ایک دوسرے کو سپیس دی جائے تو بہت سے معاملات از خود سلجھ جاتے ہیں۔
آپس میں رہنے کے دیگر فوائد کے علاوہ بڑھتی ہوئی مہنگائی میں بلز وغیرہ شیئر ہوجائیں، کچن کی شیئرنگ ہو تو اخراجات خاصے کم ہوجاتے ہیں۔ پھر گھرانہ کچھ محفوظ بھی محسوس کرتا ہے۔ گھر میں مرد زیادہ ہوں تو آج کل کے خطرات کے دور میں بچت رہتی ہے۔ ایک بھائی مصروف ہے تو دوسرا سودا سلف لا سکتا ہے، ایمرجنسی میں کسی کو ہسپتال لے جانا ہو، وہ ہو جاتا ہے۔ اگر ہم مشترکہ خاندانی نظام میں کچھ سوچی سمجھی اصلاحات لے آئیں، ’’مضبوط مرکز‘‘ کے بجائے ’’ڈھیلا ڈھالا وفاقی نظام‘‘ یا’’کنفیڈریشن‘‘ ہی قائم کر لیں تو معاملہ احسن طریقے سے چل سکتا ہے۔ اگر مختلف وجوہات کی بنا پر اکٹھا رہنا ممکن نہیں، تب بھی ایسی بےرحمی سے اس تصور کو رد کرنا اور اسے غیر اسلامی اور ہندوؤں سے منسوب کرنا تو ظلم کے مترادف ہے۔
-
مشترکہ خاندانی نظام، نعمت ہے یا زحمت؟ ریحان اصغر سید
جوائنٹ فیملی سسٹم اسلامی نہیں ہندوانہ نظام ہے ! نامی بلاگ جو کچھ دن پہلے دلیل پر ہی شائع ہوا ہے، نظروں سے گزرا۔ بلاگ میں مخصوص پاکستانی انداز میں ایک انتہائی مؤقف لیتے ہوئے اپنے حق میں دلائل دیے گئے ہیں۔ پڑھ کے یہ احساس ہوا کہ اس وسیع موضوع کے بہت سے گوشوں کو شعوری یا لاشعوری طور پر نظر انداز کیا گیا ہے۔ میرے ذاتی خیال میں یہ دو انتہائی سنجیدہ موضوعات ہیں جھنیں ایک ہی بلاگ میں بھگتانے کی کوشش کی گئی ہے۔
پہلا یہ کہ یہ سوال اہم نہیں کہ کیا مشترکہ خاندانی نظام ہندوانہ نظام ہے یا نہیں؟ زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ کیا مشترکہ خاندانی نظام اسلام مخالف ہے؟
دوسرا یہ کہ کیا مشترکہ خاندانی نظام پاکستانی معاشرے کے لیے زیادہ موزوں اور سود مند ہے یا نہیں؟مذکورہ بلاگ کے نام میں پہلے موضوع کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور متن میں اسے دوسرے موضوع کی مدد سے ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ بہتر یہ ہو گا کہ ان کو علیحدہ علیحدہ موضوع بحث بنایا جائے۔ پہلے دوسرے سوال پر بات کر لیتے ہیں کہ کیا مشترکہ خاندانی نظام پاکستان کے شہریوں کے لیے ایک رحمت ہے یا زحمت؟
حضرت علی بن عثمان ہجویری ؒ سے کسی نے دریافت کیا، حضرت، شادی کرنا سنت ہے یا واجب؟
آپ نے فرمایا، جو طاقت رکھتا ہو اور اس کے گناہ میں پڑ جانے کا قوی اندیشہ ہو اس کے لیے فرض ہے۔ جو طاقت رکھتا ہو لیکن نفس پر قدرت رکھتا ہو اس کے لیے واجب ہے۔ صحت مند لیکن تنگ دست کے لیے سنت ہے اور نامرد کے لیے حرام ہے۔ایسا ہی کچھ معاملہ مشترکہ خاندانی نظام کا بھی ہے۔ پاکستانی معاشرے میں کہیں اسےاپنانا مجبوری ہے، کہیں یہ خیر کا باعث ہے اور کہیں یہ ٹوٹ پھوٹ اور ناکامی کا شکار ہے۔ بیشتر جگہوں پر یہ یہ واحد چوائس اور مجبوری کے طور پر نافذ ہے اور جب آپ کے پاس کوئی دوسری چوائس نہ ہو تو بہتر ہوتا ہے کہ موجودہ حالات میں رہتے ہوئے نظام میں آنے والی خرابیوں کو دور کر کے بہتری کی طرف سفر جاری رکھا جائے۔
اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی کل آبادی کا تقریباً 37 فیصد حصہ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔ یعنی تقریباً سات کروڑ لوگ روٹی اور فاقے کے درمیان ڈول رہے ہیں کسی قسم کی جائیداد اور اس کی تقسیم ان کے لیے دیوانے کا خواب ہے ۔ ایک دو کمرے کے مکان میں چھ سے لے کر درجن تک لوگ رہتے ہیں۔ تمام تر مسائل اور مشکالات کے باوجود مشترکہ خاندانی نظام کو اپنائے رکھنا ان کی مجبوری ہے۔
اگر پاکستان کی اشرافیہ اور اپر مڈل کلاس کی بات کریں تو جوائنٹ فیملی سسٹم ان کا مسئلہ ہے ہی نہیں۔ یہ سب لوگ اپنے الگ الگ شاندار محل نما گھروں اور مختلف شہروں، ملکوں میں مقیم ہوتے ہیں۔ اگر کہیں اکٹھے ہوں بھی تو پورشن اور ہانڈی روٹی علحیدہ ہوتی ہے۔ اس کے بعد لوئر مڈل کلاس اور مڈل کلاس ہی رہ جاتی ہے۔ ان میں سرکاری ملازم بھی ہوتے ہیں اور درمیانے اور چھوٹے کاروباری لوگ بھی۔ روزگار کے لیے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی اکثریت کو بھی آپ ان میں شامل کر لیں۔ یہی وہ طبقہ ہے جس میں مشترکہ خاندانی نظام وجہ نزاع بنا ہوا ہے۔ لیکن مجموعی طور پر اس طبقے کے لیے بھی اس نظام کا متبادل ڈھونڈنا آسان نہیں۔ کمر توڑ مہنگائی، محدود آمدنی، کم وسائل، مہنگے پلاٹ، بےپناہ تعمیری لاگت، اور کرایہ کے گھر کے جھنجھٹوں کی وجہ سے مشترکہ خاندانی نظام سے چاہ کر بھی چھٹکارا پانا اس طبقے کے لیے بھی آسان نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بھی کچھ دیگر مسائل اور سوال ہیں۔
اگر گھر میں چار پانچ بھائی رہتے ہیں، والد کی وفات کے بعد اگر وہ مکان بیچ دیں تو بہنوں کو بھی حصہ دینے کے بعد ان کے پاس شاید آٹھ دس لاکھ بھی حصہ نہیں آئے گا۔ ظاہر ہے ان پیسوں میں پلاٹ ملنا ہی مشکل ہے، سب کے گھر کیسے بنیں گے؟ چھوٹے اور طالب علم بھائی اپنا کرایہ اور دیگر اخراجات کیسے پورے کریں گے؟ چھوٹی بہنیں اور والدہ کہاں جائیں گی؟ ایک اوسط مڈل کلاس لڑکی کی شادی پر آٹھ سے دس لاکھ جہیز اور دوسرے اخراجات آتے ہیں، والد کے بعد وہ کون پورے کرے گا؟
عموماً کاروبار بڑے بھائی ہی سنبھالتے ہیں۔ اگر بیرون ملک بھیجا گیا تھا تو والدین نے جمع پونجی اور زیوارت بیچ کے بھیجا تھا۔ بڑے لڑکوں کی شادی بھی والد صاحب خود کر جاتے ہیں جس میں لگنے والے لاکھوں کا خرچہ بھی انھوں نے اُٹھایا تھا۔ یہ اضافی وسائل اور سہولیات دوسرے بھائیوں کے حصے میں تو نہیں آئیں؟ اگر کوئی شخص اس حال میں دنیا سے چلا گیا کہ اس کے دو تین بچے سیٹل اور دو تین بچے پڑھ رہے ہیں ۔ بچوں کے لیے طالب علمی اور نوکری ملنے تک کا مرحلہ بہت حساس ہوتا ہے، اگر ان کی کفالت سے ہاتھ اٹھا لیا جائے تو ہر گھر میں کچھ بچوں کا مستقبل تباہ ہونے کا اندیشہ ہے۔ گھر اور کاروبار کی فوری بندر بانٹ سے کاروبار بھی ختم ہو جائے گا اور سب کے سروں سے اپنی چھت بھی چھن جائے گی اور امید ہے بیشتر نوجوان کچھ ہی عرصے میں اپنا حصہ ضائع کر کے سڑک پر آ جائیں گئے (یہاں وارثت اور قرآن کے احکام کی خلاف ورزی کی تاویل نہیں دی جا رہی، اس بات کی وضاحت اگلے بلاگ میں کی جائے گی.)
دوسری طرف مشترکہ خاندانی نظام سے کچھ حقیقی مسائل بھی جنم لے رہے ہیں جس کا ذکر مذکورہ بلاگ میں بھی کیا گیا ہے۔ اگر بغور دیکھا جائے تو ان مسائل کا شکار طبقے کی بھی دو تین قسمیں ہیں۔ پہلی قسم کے وہ گھر ہیں جس میں تین چار بھائی اپنے بال بچوں اور والدین کی زندگی کی صورت میں ان کے سمیت ایک گھر میں رہتے ہیں، سب برسرروزگار ہیں، کوئی نوکری کرتا ہے تو کوئی دکان، کوئی رزق کی تلاش میں بیرون ملک مقیم ہے لیکن اس کے بیوی بچے اسی گھر میں رہتے ہیں، بچے بڑے ہو رہے ہیں، ان کی آپسی لڑائیوں، خواتین کی گھریلو سیاست اور بھائیوں کی آمدنی کے تفاوت کی وجہ سے دلوں میں نفرتیں اور دوریاں جنم لے رہی ہیں لیکن کوئی بھی فی الحال علحیدہ کرایہ کا یہ اپنا گھر افورڈ نہیں کر سکتا۔ یا سب نے مکان کی تعمیر میں حصہ ڈال رکھا ہے، کوئی بھی گھر چھوڑنے کو تیار نہیں، بعض دفعہ والدین آسودہ اور صاحب جائیداد ہوتے ہیں، ان کی خوشنودی بھی عزیز رکھنی پڑتی ہے۔ اور کچھ لوگ واقعی ہی سمجھتے ہیں کہ ان کا فرض ہے کہ وہ اپنے معاشی طور پر کمزور بہن بھائیوں کی مدد کریں اور ان کو سہارا دیں، اس سے بعض دفعہ ان کے اپنے بیوی بچوں کے حقوق کچھ متاثر ہوتے ہیں لیکن یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہے۔
اکثر مشترکہ خاندانی نظام کے مسائل کی وجہ معاشی کمزوری، معاشی ناہمواری، والدین کی ایک دو بچوں کے ساتھ امتیازی سلوک ہوتا ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام کی کامیابی کے لیے والدین کا کردار انتہائی اہم ہے۔ بہتر ہو کہ والدین بچپن سے ہی بڑے بچوں کو ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلائیں۔ جب بوجھ بڑے بچوں پر پڑے تو چھوٹے بچوں کو جلد سے جلد عملی زندگی کے لیے تیار کیا جائے اور کامیاب ہونے کی صورت میں بھائی اور ان کے بچوں کے ساتھ ان سے بڑھ کے نیکی اور احسان کریں۔ والدین سب بچوں سے ہر معاملے میں یکساں سلوک کریں۔ کماؤ اور بیرون ملک بچوں کے بچوں کی خصوصی نگہداشت اور پروٹوکول ان کا حق ہے، سب بھائیوں اور بہنوں سے یکساں اور پیار والا سلوک کیا جائے۔ کمانے والے کے پیسوں سے بنائی گئی جائیداد اس کے نام پر ہی خریدی جائے۔ اگر سارے بچے آسودہ حال ہیں اور اکٹھے نہیں رہنا چاہتے تو ان کو ایموشنل بلیک میل کر کے اکٹھا رہنے پر مجبور نہ کیا جائے۔ گھر بناتے ہوئے پورشن اور نقشہ ہی اس حساب سے ترتیب دیا جائے کہ بعد میں ایک گھر میں رہتے ہوئے بھی علیحدہ رہائش اختیار کی جا سکے۔ بچوں کی لڑائیوں کو سنجیدہ نہ لیا جائے، جب ایک ہی گھر میں رہنا ہے تو تحمل، درگزر اور برداشت، سے کام لیا جائے۔ اولاد کو والدین ، بہن بھائیوں اور بیوی بچوں کے حقوق کے معاملے میں توازن لانے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر والدین کی حق تلفی کسی صورت نہیں ہونی چاہیے، اگر کوئی زرعی زمین یا دوسری وارثت ہے تو اس کی جلد سے جلد منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جائے، بلکہ اگر حکومت اگر کوئی ایسا قانون بنا دے کہ جس میں زمین کی مقررہ حد کی وارثت میں مالک کے فوت ہوتے ہی شرعی طریقے کے مطابق اس کی تقیسم متعلقہ حق داروں میں خودکار طریقے سے ہو جائے تو کافی مسائل سے چھٹکارا پایا جا سکتا ہے۔
مشترکہ خاندانی نظام کوئی آئیڈیل نظام تو نہیں لیکن پاکستان کی عوام کے موجودہ حالات کے لحاظ سے نہ صرف کافی موزوں ہے بلکہ ہماری معاشرتی اور سماجی نظام زندگی سے کافی ہم آہنگ ہے۔ کیوں کہ یورپ اور امریکہ وغیرہ میں جہاں ایک اکائی ایک خاندان کا نظام رائج ہے وہاں ویلفیئر حکومتیں کام کر رہی ہیں، سوشل قرضوں کا نظام مؤثر ہے۔ نابالغ، طالب علموں، اور بوڑھے لوگوں کی بہبود اور پرورش کوئی مسئلہ نہیں۔ علحیدہ مکان بنک فنانس پر لینا یا کسی بھی برسر روزگار شخص کے لیے کرایہ کا مکان اور ہانڈی روٹی اس کی کل آمدنی کا تیس سے پچاس فیصد بنتا ہے، جبکہ پاکستان میں صورتحال یکسر مختلف ہے۔ یہاں مشترکہ خاندانی نظام کے علاوہ کوئی سوشل سکیورٹی کا نظام میسر نہیں ہے، اس لیے ابھی مشترکہ خاندانی نظام ہی ہمارے بچاؤ کی واحد صورت ہے۔
اگلے بلاگ میں قرآن و حدیث اور سنت رسولﷺ کی روشنی میں ہم دیکھیں گے کہ کیا مشترکہ خاندانی نظام واقعی ہی اسلام کی آئیڈیالوجی سے متصادم ہے؟
-
انٹرنیٹ، بچے اور ہمارا معاشرہ – شمائلہ زاہد
انٹرنیٹ کہنے کو تو معلومات حاصل کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے، اسی وجہ سے ہم ہزاروں میل دور بیٹھے اپنے عزیز رشتے داروں سے انتہائی آسانی اور سہولت کے ساتھ نہ صرف گفت و شنید کرتے ہیں بلکہ ان کو چلتے پھرتے کام کرتے بھی دیکھ سکتے ہیں۔ طالب علموں کےلیے تو یہ قدرت کا یا پھر یوں کہہ لیں کہ سائنس کا انمول تحفہ ہے۔ کیونکہ ان کی کتابوں سے جان چھوٹ گئی ہے اور وہ ایک کلک پر دنیا جہاں کی معلومات حاصل کر لیتے ہیں.
بلاشبہ انٹرنیٹ نے ہماری زندگیوں میں آسانیاں پیدا کیں۔ آج کل ماں باپ اپنے بچوں کو آئی پیڈ، ٹیبلٹ دے کر بے فکر ہوگئے ہیں، گھر کوئی آجائے تو بچے اپنے کمروں سے نہیں نکلتے۔ ماں باپ سے پوچھ لیا جائے کہ بھئی بچے کہاں ہیں، سیدھا و سہل سا جواب ہوتا ہے، اپنے کمرے میں گیم کھیل رہے ہیں. ماں باپ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ہم نے بچوں کو گھر میں رکھ کر ان کو دنیا کے گندے ماحول سے بچا لیا ہے اور ان پر معاشرے میں پھیلتی برائیاں اثر انداز نہیں ہوں گی لیکن یہ ان کی سوچ ھے۔ آئی پیڈ ٹیبلٹ کے نام پر انھوں نے بچوں کو گندگی کے ڈھیر میں غوطہ زن ہونے کا موقع فراہم کر دیا ہے. آج کل بچے بڑے جوان بوڑھے سب نہیں تو کم از کم 80%لوگ انٹرنیٹ کو فائدہ کےلیے کم اور ذہنی و جسمانی اور شاید کبھی کبھی روحانی تسکین کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔
ایک طرف تو ہم انٹرنیٹ سے قرآن و حدیث جیسی دینی معلوماتی تک بآسانی رسائی حاصل کر لیتے ہیں۔ اسلامی سوال جواب سے متعلق ڈھیروں ویب سائٹس دستیاب ہیں، اگر کسی کی شادی ہے، ٹائم کم ہے تو کوئی مسلئہ نہیں، آن لائن آڈر کرو، چیز آپ کے دروازے پر مل جائے گی. اسی طرح وہ خواتین جن کو کھانے بنانے نہیں آتے وہ کوئی بھی کوکنگ پروگرام آن لائن کسی بھی وقت دیکھ سکتی ہیں۔ ان سب سہولیات کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ کے ہمارے بچوں اور ہمارے معاشرے پر انتہائی اذیت ناک اثرات بھی مرتب ہو رہے ہیں۔
آج کل بچے کارٹون چھوڑ چھاڑ کر انٹرنیٹ کے ہوگئے ہیں۔ سب سے خطرناک نقصان انٹرنیٹ کا یہ ہے کہ اس کے بےدریغ استعمال سے جنسی بےراہ روی ہمارے معاشرے میں ناسور کی طرح پھیلتی جا رہی ہے۔ ہم آئے دن سنتے ہیں کہ کسی معصوم پری کو آدم زاد نے اپنی ہوس کا نشانہ بنا ڈالا. جب امیر سے امیر اور غریب سے غریب کو انتہائی سستے ریٹ میں بھرپور سامان دستیاب ہوگا تو وہ کیوں اس سے فائدہ نہیں اٹھائے گا۔ جب کوئی فحاشی دیکھے گا تو وہ شریف تو ہونے سے رہا۔ برائی کہیں تو اثر انداز ہوگی. آج کل نیٹ کی وجہ سے گندگی اتنی عام ہے کہ بنا عورت اور مرد کی تفریق کے، ہر کوئی اس میں مبتلا پایا جاتا ہے.
سوشل میڈیا پر میری گفتگو کچھ لوگوں سے ہوئی جن کی عمر بمشکل 16سال ہوگی۔ ان کی گفتگو کسی طور پر بھی کسی مہذب گھرانے کے فرد جیسی نہیں تھی۔ اپنے طور پر میں نے سمجھایا اور پھر مجبورا ان فرینڈ کر دیا. لیکن یہ مسلئہ کا حل نہیں ہے. ہم ہربار حکومت سے گزارش نہیں کرسکتے کہ اس کے سدباب کےلیے کچھ کرے۔ یہ والدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی ذہنی و روحانی تربیت کریں. ہر ماں سے بالخصوص التماس ہے کہ وہ صحت مند معاشرے کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کریں، خدارا اپنی ذمہ داری سمجھیں اور اپنے بچوں کو کھل کر ہر طرح کی تعلیم بر وقت دیں. اگر ہم شرماتے رہ گئے تو ہمارے معصوم پھولوں کو کوئی بھیڑیا کھلنے سے پہلے بھنبھوڑ ڈالے گا۔
-
تیری جنت اور دوزخ ہیں – فیاض الدین
والدین کے حقوق کیا ہیں؟ اس کو سمجھنے کے لیے ہمارے پیارے نبی کریم ﷺ کا ایک جملہ کا فی ہے۔ نبی کریم ﷺ سے پوچھا گیا کہ ہم پر والدین کے کیا حقوق ہیں ؟محمدﷺ نے ایک جملے میں جواب دیا کہ
”تیری جنت اور دوزخ ہیں۔“
اس جملے میں بہت گہرائی ہے یعنی والدین کی خدمت اور ان کی حقوق کی ادائیگی ہی ہمیں جنت تک لے جائے گی اور اگر ہم ان حقوق سے غافل رہے تودوزخ کی بھڑکتی ہوئی آگ کا سامنا کرنا ہوگا۔ اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ ان ہستیوں کے ساتھ نرمی سے پیش آنا چاہیے اور انہیں ”اف“ تک نہیں کہنا چاہیے۔ اللہ پاک بتاتے ہیں کہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ نہ کرنا اور ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات چیت کرنا اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھے رکھنا اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار! ان پر ویسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی۔ پرندہ جب اپنے بچوں کو اپنے سایہ شفقت میں لیتا ہے تو ان کے لیے اپنے بازوپست کر دیتا ہے یعنی والدین کے ساتھ اسی طرح اچھا اور شفقت والا معاملہ کرنا چاہیے اور ان کی اس طرح کفالت کریں جس طرح انہوں نے بچپن میں ہماری کفالت کی۔ پرندہ جب اڑنے اور بلند ہونے کا ارادہ کرتا ہے تو اپنے بازو پھیلاتا ہے اور جب نیچے اترتا ہے تو بازوؤں کو پست کر لیتا ہے، اس اعتبار سے بازوؤں کے پست کرنے کے معنی والدین کے سامنے تواضع اور عاجزی کا اظہار کرنے کے ہوں گے۔اپنے والد سے اچھا سلوک کرنے کے علاوہ حضور نبی کریم ﷺ نے یہاں تک ہدایت کی ہے کہ یہ بھی نیکی ہے کہ لڑکا اپنے باپ کے دوستوں کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرے۔ اچھے سلوک کرنے کے لیے مخاطب چاہے جو بھی ہوآپ کو خندہ پیشانی سے اور عمدہ طریقے سے پیش آنا چاہیے ۔ایک صحابی کی والدہ کافر تھی، حضور نبی کریم ﷺ سے پوچھا گیا کہ کیااس سے بھی اچھا سلوک کیا جائے، آپ ﷺ نے جواب دیا کہ ہاں۔ اللہ پاک کہتے ہیں کہ دنیا کے کاموں میں ان کا اچھی طرح ساتھ دینا۔ وہ اگر غیر مسلم ہو تب بھی وہ آپ کے والدین ہیں، ان کا آپ پر یہ حق ہے کہ ان کے ساتھ بھی نرمی سے پیش آئیں اور ان کاخیال رکھیں۔ ایک روایت میں ہے کہ ایک صحابی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آیا اور کہا کہ یا رسولﷺ میرے اچھے سلوک کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے فرمایا کہ تمہاری ماں۔ اس صحابی نے پوچھا اس کے بعد؟ فرمایا کہ تمہاری ماں۔ صحابی نے پھر پوچھا اس کے بعد؟ فرمایا کہ تمہاری ماں۔ صحابی نے پھر سے پوچھا کہ اس کے بعد؟ محمد ﷺ نے جواب دیا پھر تمہارا باپ۔
ایک اور روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ باپ جنت کا درمیانی دروازہ ہے اب تیرا جی چاہے اسے گرا دے اور جی چاہے قائم رکھ۔
ایک صحابی روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”خاک آلودہ ہو ناک اس کی، پھر خاک آلودہ ناک اس کی جو اپنے ماں باپ کو بوڑھا پائے دونوں کو یا ان میں سے ایک کو پھر جنت میں نہ جائے۔“ یعنی یہ ایک انہتائی بڑا موقع ہے جنت جانے کا، راستہ پاس ہی ہے لیکن راستہ معلوم ہونے کے باوجودہ جنت حاصل کیوں نہ ہو؟
منور رانا انڈیا کے ایک مشہور شاعر ہیں، انہوں نے ماں کی عظمت پر بہت ہی لاجواب اور قابل ستائش شاعری کی ہے۔ ان کی ایک نظم ”ماں“ یہاں پیش ِخدمت ہے۔اے اندھیرے دیکھ لے منہ تیرا کالا ہو گیا
ماں نے آنکھیں کھول دیں گھر میں اجالا ہو گیااس طرح میرے گناہوں کو وہ دھو دیتی ہے.
ماں بہت غصے میں ہوتی ہے تو رو دیتی ہے.بلندیوں کا بڑے سے بڑا نشاں چھوا
اٹھایا گود میں ماں نے تب آسمان چھواکسی کو گھر ملا حصے میں یا کوئی دکاں آئی
میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا میرے حصے میں ماں آئی.بلندی دیر تک کس شخص کے حصے میں رہتی ہے.
بہت اونچی عمارت ہر گھڑی خطرے میں رہتی ہے.
بہت جی چاہتا ہے قید جہاں سے ہم نکل جائیں
تمہاری یاد بھی لیکن اسی ملبے میں رہتی ہے.
یہ ایسا قرض ہے جو میں ادا کر ہی نہیں سکتا
میں جب تک گھر نہ لوٹوں ماں سجدے میں رہتی ہےمیری خواہش ہے کہ میں پھر سے فرشتہ ہو جاؤں
ماں سے اس طرح لپٹ جاؤں کہ بچہ ہو جاؤں
کم سے کم بچوں کے ہونٹوں کی ہنسی کی خاطر
ایسی مٹی میں ملانا کہ کھلونا ہو جاؤںمجھ کو ہر حال میں بخشے گا اجالا اپنا
چاند رشتےمیں نہیں لگتا ہے ماما اپنا
میں نے روتے ہوئے پونچھے تھے کسی دن آنسو
مدتوں ماں نے نہیں دھویا دوپٹا اپناعمر بھر خالی یوں ہی ہم نے مکاں رہنے دیا
تم گئے تو دوسرے کو کل یہاں رہنے دیا
میں نے کل شب چاہتوں کی سب کتابیں پھاڑ دیں
صرف اک کاغذ پر لکھا شبد ماں رہنے دیا