Tag: نفسیات

  • مرد اور عورت کی نفسیات – علی حسن

    مرد اور عورت کی نفسیات – علی حسن

    عام طور پہ عورت جذباتی طور پہ زیادہ مضبوط ہوتی ہے قدرت نے اس میں زیادہ ظرف رکھا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق اگر میاں بیوی میں عورت پہلے مر جائے تو مرد جلد مر جاتا ہے جبکہ دوسری طرف اگر مرد پہلے مر جائے تو عورت ایک لمبی زندگی گزار تی ہے اسی طرح ہارٹ اٹیک عورتوں کی نسبت مردوں کو زیادہ ہوتے ہیں اس کی وجہ ہے کہ قدرت نے عورت میں زیادہ لچک رکھی ہے مرد میں اتنا ظرف اور اتنا حوصلہ نہیں ہوتا۔

    عورتیں میں برداشت کی طاقت بہت زیادہ ہوتی ہے انہوں نے خود کو چھوٹا کیا ہوتا ہے یہ اس وجہ سے ہوتا ہے کہ پیچھے والدہ کی تربیت اس طرح کی نہیں ہوئی ہوتی، گھر کا ماحول، سونے سنائے محاورے ہوتے ہیں ،قدر ت نے انہیں جن جتنی طاقت دیتی ہے مگر اس نے ماحول کی وجہ سے ایک بونے کی شکل اختیار کی ہوتی ہے ۔ بہت سارے لوگوں کے ساتھ ایسا ہوتا ہے کہ وہ پیدا تو بہت بڑے ہوتے ہیں جبکہ وقت ان کو چھوٹا بنا دیتاہےیعنی وقت کی تنقید اس کو چھوٹا کر دیتی ہے ۔شاباشی اتنی طاقتور چیز ہے جو چھوٹے نیک انسان کو بڑا نیک انسان اور چھوٹے برے انسان کو ایک بہت بڑا برا انسان بنا دیتی ہے۔

    نفسیات یہ کہتی ہے کہ ماحول کے اثر کی وجہ سے بڑے سے چھوٹے بن جاتے ہیں جبکہ چھوٹے بڑے بن جاتے ہیں جب بھی کسی کے دماغ میں بندش کی زنجیر لگ جائے تو پھر اسے کوئی نہیں چھوڑا سکتاوہ خود ہی فیصلہ کر کے اسے توڑتا اور چھڑاتا ہے اور آگے بڑھتا ہے ۔ عورت کو ہمیشہ تعریف اچھی لگتی ہے عورت کو کوئی ایسا مرد چاہیئے جو اسے سنےجبکہ دوسری طرف مردکی اور ضروریات ہوتی ہیں جب لوگوں کو نفسیا ت کا پتا نہیں ہوتا تو پھر غلط انداز سے چلتے ہیں ، غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں اور ایک اچھا گھر برباد ہو جاتا ہے۔ شادی ہونے کے بڑے سالوں بعد پتا چلتا ہے کہ شادی ہوچکی ہے شادی سے پہلے صرف جنون ہوتا ہے مگر بعد میں پتا چلتا ہے یہ تو ایک ذمہ داری ہے۔

  • نفسیاتی سوالی – محمد نعمان بخاری

    نفسیاتی سوالی – محمد نعمان بخاری

    نعمان بخاری علم کی دنیا میں سوال اٹھانا یا سوال کرنا ایک صحت مند سرگرمی کہلاتا ہے. یہ انسانی شعور کو تروتازہ رکھتی ہے، بات کو سمجھنے اور معاملے کی تہہ تک پہنچنے میں مددگار ہے. یہ انسان کی دانست اور دانش کو پختگی بخشتی ہے. سوال اُٹھانے والا اگر اپنی جستجو میں سنجیدہ ہو تو اس پر ایسے سربستہ راز منکشف ہوتے ہیں جن سے باقی لوگ ناآشنا رہتے ہیں. یہ عادت انسان کو کشمکشِ حیات میں منزل تک پہنچنے کے روشن زاوئیے عطا کرتی ہے. غرضیکہ اس خصلت کا رُخ مثبت رہے تو حالات و واقعات کو بروقت سمجھ کر راستے کی بہت سی ٹھوکروں سے بچ پانا ممکن ہوتا ہے..!

    اس سرگرمی کا ایک منفی پہلو بھی ہے کہ جب یہ عادت، عادت سے نکل کر”خبط“ میں داخل ہوتی ہے تو شعوری بوکھلاہٹ کا سبب بنتی ہے. ایسا شخص خود کو فطین سمجھتا ہے جبکہ درحقیقت یہ ایک نفسیاتی عارضہ ہے. اس مرض کا شکار شخص ہر معقول بات پر بھی سوال اٹھانے سے گریز نہیں کرتا اور اسے اپنا حق سمجھ رہا ہوتا ہے. ایسے بندے کو یہ اندازہ نہیں ہو پاتا کہ کیا یہ سوال واقعی اٹھائے جانے کے قابل بھی ہے. وہ بس اپنے خبطی پن کی تسکین کا شوقین ہوتا ہے اور اسے اپنے شوق کو پورا کرنے کا موقع چاہیے ہوتا ہے. دانا کہتے ہیں کہ سوال کرنا باقاعدہ ایک علم اور فن ہے. سوال کی ساخت یہ بتا دیتی ہے کہ سوالی کی ذہنی سطح اور آگہی کی حد کیا ہے. اگر کوئی انسان ”علمِ سوال“ پر عبور حاصل کرنا چاہے تو سب سے پہلا اور ضروری کام یہ ہے کہ کسی بھی خاص موضوع پر حتی الامکان اپنا مطالعہ وسیع کرے. یہ فن سیکھنا ہر اس شخص کےلیے اہم ہے جو حصولِ علم میں مخلص ہو، بصورتِ دیگر سوال اٹھانا ایک بیماری بن جاتا ہے..!

    اس بیماری کے شکار لوگ فیس بک پر بھی موجود ہیں. کہا جاتا ہے کہ زیادہ تر ملحدین اس مرض میں مبتلا ہیں. ”زیادہ تر“ کی حد تک تو یہ بات درست ہو سکتی ہے مگر ہر ملحد ایسا نہیں ہوتا بلکہ کئی واقعی اپنی کنفیوژن کا ازالہ چاہتے ہیں. ان چند کے استثناء کے بعد بارہا کا مشاہدہ بتاتا ہے کہ یہ وائرس اب صرف ملاحدہ کی پہچان نہیں رہا بلکہ آزادئِ کردار و اظہار کے علمبرداروں کی میراث بنتا جارہا ہے. ان کی زندگی کا واحد مقصد بس سوال اٹھا دینا ہوتا ہے. سوال اگر جاننے کی طلب میں کیا جائے تو سوالی اپنا مطلوب ہر صورت کہیں نہ کہیں سے پا ہی لیتا ہے. مصیبت یہ ہے کہ یہاں سوال کی نوعیت دیکھ کر ٹھیک ٹھاک اندازہ ہو جاتا ہے کہ مقصدیت میں صرف اعتراض بھرا ہوا ہے. اس طبقے کے کچھ فکری بگاڑ یافتہ لوگ مخاطب کو زِچ کرنے کے ارادے سے سوال اٹھاتے ہیں. بعضے محض چسکے کی خاطر سوال اٹھاتے ہیں جنہیں جواب پانے سے کوئی سروکار نہیں ہوتا. ان کے سامنے پہاڑ جیسے مضبوط دلائل بھی رکھ دیے جائیں تو بھی ان کو تشفی نہیں ہو پاتی. جبکہ انھی کے طبقے کا کوئی شخص روئی جیسی ہلکی بات بھی کہہ دے تو اسے فوراً قبول کرتے ہیں کیونکہ وہ ان کی نفسانی غرض کے عین مطابق ہوتی ہے. آپ تجزیہ کر لیجیے کہ ایسے لوگ ہمہ وقت بےچینی، شش و پنج اور بےیقینی کے بحرالکاہل میں غوطہ زن رہتے ہیں. یہ افراد قرآن و حدیث کی محکم آیات سن لینے کے بعد بھی مطمئن نہیں ہو پاتے اور کوئی نہ کوئی اعتراض ضرور کرید نکالتے ہیں. یہ احکامِ مذہب کا وہ مفہوم ڈھونڈنا چاہتے ہیں کہ جس سے ان کی ذاتی خواہش کی تکمیل کا سامان ہو. فقط تسکینِ نفس کا طلبگار یہ مریض گروہ اپنے ذہنی خلل کے طفیل تسلیم و رضا کی چاشنی اور سواد سے تادمِ آخر محروم رہتا ہے.

  • ڈورے مون اور ہمارےبچے – لائقہ عندلیب

    ڈورے مون اور ہمارےبچے – لائقہ عندلیب

    آج فیس بک کھولی تو چاروں طرف سے ڈورے مون کے حق میں آوازیں بلند ہوتی سنائی دیں. خبر تو پڑھ چکی تھی، تبصروں پر نگاہ ڈالی توپتہ چلا کہ عوام کارٹون شو پر پابندی کی محض قرارداد پیش ہونے پر ہی جلالی کیفیت میں ہے. دلائل کی طرف دیکھا تو معلوم ہوا کہ دہشت گردی اور غیرت کے نام پر قتل جیسے بڑے مسائل کو تو کوئی پوچھتا نہیں مگر کارٹون کو بغیر کسی وجہ کے بین کرایا جا رہا ہے.

    بحیثیت قوم مسائل میں اس قدر گھرے ہوئے ہیں کہ بچوں کی اخلاقی تربیت کی اہمیت کو ہی فراموش کر دیا ہے مگر اتنے پیچیدہ مسائل کے باوجود چھوٹے مسائل کو بھلا دینا کہاں کی عقلمندی ہے؟ کیا ہم یہ چاہتے ہیں کہ دہشت گردی جیسے عفریت کے ساتھ تو لڑیں مگر ہمارے بچے اپنی زندگیاں اخلاقی طور پر پسماندہ حالت میں گزاریں. یہاں یہ کہنے کا مقصد صرف اور صرف بچوں کی اخلاقی تربیت کی اہمیت کو واضح کرنا ہے.

    یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ ایک معمولی سا کارٹون شو بچوں پر کیسے اثرانداز ہو سکتا ہے؟ معصوم بچے کو یہ کس طرح متاثر کرتا ہے، اس کےلیے ضروری ہے کہ آپ اپنے گھر میں اپنے بچوں کی نفسیات اور الفاظ اور ان کی معصومانہ خواہشات کا جائزہ لے لیں تو بغیر کسی دلیل کے آپ کو سمجھنے میں آسانی ہوگی. اپنے گھرکی ہی مثال دوں تو میری چھ سالہ بہن بڑے شوق سے ڈورے مون دیکھتی ہے. جب وہ غصہ کرتی ہےتو جایان ( ڈورے مون کا کردار) کی طرح دانت پیس کر اور سر جھکا کر، اور کوئی اچھا کام کرنے کے بعد وہ ڈورے مون کی طرح ‘ دیکھا میرا کمال ‘ کہتی ہے. آپ خود سوچیے کہ پانچویں جماعت میں پڑھنے والے نوبیتا اور شےزور ( ڈورے مون کے کردار) کی لو سٹوری دکھانےکا مقصد کیا ہے اور یہ بچوں کو کیا سکھانے کی کوشش کی جا رہی ہے. پھر ہندووانہ تہذیب، الفاظ اور اصطلاحات بچوں کو یاد ہوتی ہیں، اور انھی میں بات کرتے اور سوال کرتے ہیں تو اپنی تہذیب سے منہ موڑنا کہاں کی دانشمندی ہے. جب ڈورے مون ہر مسئلے کے حل کے لیے گیجٹ نکالتا ہے تو وہ دراصل ہر کام کے لیے کسی پر انحصار کرنا سکھاتا ہے.

    بات صرف ڈورے مون کی نہیں ہے. اپنے اردگرد نگاہ دوڑائیے اور بچوں کے پروگراموں کو غور سے دیکھیے. کیا یہ تمام شو ایک سپر پاور کا تصور نہیں سکھا رہے؟ سپر پاور دکھانے والے کارٹون بچوں کی دلچسپی کا باعث تو بن سکتے ہیں مگر یہ بچوں کی ذہنی اور نفسیاتی حالت پر کس قدر منفی اثر چھوڑتے ہیں اس کا تصور بھی مشکل ہے.

    چند بڑے مسائل کی وجہ سے چھوٹے مسئلوں سے منہ نہیں موڑا جا سکتا. سیاسی لڑائیوں کے برعکس اگر کسی جماعت نے ایسے مسئلے کے لیے قرارداد جمع کرا دی ہے تو اس پر ہلڑبازی کے بجائے اچھی طرح سوچنے کی ضرورت ہے، ورنہ انتظار کیجیے کہ ڈورے مون اور اس جیسے دیگر کارٹونز ہمارے بچوں کو کہاں لے جاتے ہیں.