Tag: نعمت اللہ خان

  • بلٹ نہیں بیلٹ سے انقلاب – انعا م الحق اعوان

    بلٹ نہیں بیلٹ سے انقلاب – انعا م الحق اعوان

    انعام الحق اعوان ہرصبح اس امید کے ساتھ اخبارات دیکھتا ہوں کہ شاید آج پولیس کے ہاتھوں کوئی ظلم کا شکارنہ ہوا ہوگا، آج اشرافیہ کی سرپرستی میں حواکی بیٹی کی عصمت نہ لٹی ہوگی، جانوروں سے بدتر زندگی گزارنے والے مزدور اور مزارعے کے ہاتھ اورکان نہ کاٹے گئے ہوں. عابداقبال! آپ پازیٹو پاکستان کے سفیر ہو لیکن کیا کروں کہاں سے لاؤں وہ امید کہ جو مسجد جیسی پاک دھرتی پر پھول بکھیر دے. معصوم زین کے قتل کی فریاد کروں، حافظ آباد کے ابوبکرکے لیے انصاف کی بھیک مانگوں یا لاہورکی 15 سالہ طالبہ کے ساتھ اجتماعی زیادتی کرنے والے بااثرحکومتی درندوں کو کیفر کردار تک پہچانے کی بات کروں. 69 برسوں سے پاکستان کے باسی اس اسلامی فلاحی ریاست کا انتظار کر رہے ہیں جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا اور جس کو تعبیر محمدعلی جناح نے دی تھی.

    لیکن درندوں کی طرح چیر پھاڑ کرنے والے کھوٹے سکے آج بھی یہاں بڑے سے بڑا جرم کر کے سکھ چین کی زندگی گزارتے ہیں اور جرم نہ کرکے بھی ایک 6 سالہ بچہ ’’بیگم صاحبہ‘‘ کے ہاتھوں اذیت سہتا ہے. کبھی خبرملتی ہے کہ اس معصوم کوگرم استری سے جلا دیا گیا اور کبھی یہ صدا دماغی توازن کو ریزہ ریزہ کر دیتی ہے کہ اس معصوم کو ہنٹر سے مار مار کر اس لیے لہولہان کر دیا گیا کہ اس نے ’’چھوٹے بابا‘‘ کے کھلونوں کو ہاتھ لگا کر اپنا بچپن محسوس کرنا چاہا تھا۔ لیکن شاید وہ بھول گیا تھا کہ غریب تو کیڑے مکوڑے ہوتے ہیں، ان کا بچپن ہوتا ہے نہ جوانی اور نہ ہی بڑھاپا، ان کی زندگی کا ہر لمحہ موت سے زیادہ اذیت ناک ہوتا ہے۔

    انھیں اس سے کیا غرض جن کے کندھوں پر اس اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے، ان کے بلاول، حمزہ، سلیمان وقاسم اور حسن و حسین تو شہزادوں جیسی زندگی گزار رہے ہیں، ان کے گھوڑوں اور کتوں کو وی آئی پی رومز اور مربع میسر ہیں، غریب کا کیا ہے؟ یہ تو گندگی کے ڈھیر سے اپنے پیٹ کا جہنم بھر ہی لے گا، اسے کپڑوں کیاضرورت ہے؟ اس نے کون سا فارن وزٹ پرجانا ہے؟ انہی گلی محلوں میں ہی تو رہنا ہے۔

    مایوسی ہی مایوسی ہے، لیکن، ہاں ایک راستہ ہے جس سے غریب ہاری اور محنت کش کے حالا ت بدل سکتے ہیں کہ وہ بلٹ اور استحصال کے مقابلے میں اپنے بیلٹ کی طاقت ان کے حق میں استعمال کر دے جو کرپٹ اور بددیانت نہیں ہیں اور جن کا دامن صاف ہے. وہ جب سٹی ناظم کراچی کی حیثیت سے اقتدار کی مسند سنبھالتے ہیں تو اپنی دیانتداری اور قابلیت کے باعث 4 ارب کے بجٹ کو 42 ارب تک پہنچا دیتے ہیں، وہ اپنی پیرانہ سالی کے باوجود عوامی خدمت کی ایسی مثال قائم کرتے ہیں کہ بدترین جانی دشمن بھی ان کی کارکردگی کو سلیوٹ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ نعمت اللہ خان جیسا حکمران آج تک کراچی کونصیب نہیں ہوا، جو اقتدارکی مدت مکمل ہوتے ہی مدت اقتدار کے دوران لی گئی تنخواہ کا چیک کاٹ کر صدقہ کرتا اور دامن جھاڑ کر خالی ہاتھ گھر روانہ ہوجاتا ہے۔ جب انھیں خیبرپختونخوا کے خزانے سونپے جاتے ہیں تو بھی ان کے رہن سہن میں فرق نہیں آتا، گھر کے دروازے پر لٹکا اور کپڑے کی بوری سے بنا ایک پردہ ہی سراج الحق کی بلٹ پروف سیکورٹی کا کام کرتا ہے. سرکاری فارن وزٹ کے دوران عالیشان ہوٹلز میں عوام کے کروڑوں روپے پھونکنے کے بجائے یہ جامع مسجد میں قیام کرتے ہوئے اپنے عوام کی امانتوں کا پاس کرتے ہیں، یہ بظاہر فقیراور درویش نظرآتے ہیں لیکن جب وہ ایک صوبے کے بدحال مالی حالات کواس کی صحیح ڈگر پر لاتے ہیں تو ورلڈ بنک اور عالمی ادارے ان کی کارکردگی پر خراج تحسین پیش کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔۔۔اور۔۔۔ پھرجب ان کے ایک پارٹی رکن عنایت اللہ خان کو خیبرپختونخوا میں بلدیات کی منسٹری ملتی ہے تو وہ اسے چیلنج سمجھ کر قبول کرتا ہے، اپنی قابلیت اور بے لوث پارٹی ایڈوائزرز کے ساتھ مل کر دنیا بھر کے
    تجربات کا نچوڑ نکال کر ایسے لوکل گورنمنٹ انتخابات کرواتا ہے کہ فائلوں میں نہیں بلکہ حقیقت میں ویلج کونسل کی صورت عوام کے حقوق ان کی دہلیز پر پہنچا دیتا ہے. وزارت سنبھالتے وقت پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا جو محکمہ 26 کروڑ خسارے میں ہوتا ہے، دوسالوں میں ہی اسے 7ارب کے منافع پر لاکھڑا کرتا ہے۔

    عوام کواپنی تقدیر بدلنی ہے تو ان درویشوں کا دامن تھامنا ہوگا جو یہ کہتے ہیں کہ ہم پارٹی قائد نہیں اللہ کی طرف بلاتے ہیں، اور اللہ کوماننے والوں کو اللہ کی ماننے کی دعوت دیتے ہیں، دن رات اسی کےلیے قائل کرنے میں مصروف ہیں ۔۔۔اور۔۔۔ جس دن اللہ کی ماننے والوں کی تعداد قابل ذکر ہوئی، یہ تمام مسائل از خود حل ہوجائیں گے. اب فیصلہ عوام کے پاس ہے کہ وہ 69 برسوں سے اپنا خون چوسنے والے کرپٹ اور بددیانت سیاستدانوں کو خود پر مسلط رکھتی ہے یا اللہ کا خوف رکھنے والی قیادت پر اعتماد کرتی ہے.

  • یہ سراج الحق اب اور کیا کرے؟ زبیر منصوری

    یہ سراج الحق اب اور کیا کرے؟ زبیر منصوری

    زبیر منصوری ہم کریں بات دلیلوں سے تو رد ہوتی ہے
    ان کے ہونٹوں کی خاموشی بھی سند ہوتی ہے

    سراج الحق کرپشن کو ہدف بنائے،
    اس کے لیے اس وقت منصوبہ بندی کرے جب کسی کے وہم و گمان میں نہ ہو،
    اپنے سالانہ تنظیمی منصوبہ عمل میں کرپشن پر مہم کو شامل کرے، سال بھر کیا، کرپشن کے خاتمے تک کےلیے تحریک کی جزئیات طے کرے اور پھر اپنی پوری تنظیم کو اس کے حصول پر لگا دے،
    سراج الحق کرپشن فری پاکستان کےلیے ٹرین مارچ کرے، جلسے جلوس اور سیمینار کرے،
    سراج الحق کرپشن مکاؤ پاکستان بچاؤ کا اعلان کرے، سڑکوں پر اس کےلیے مارچ کرے،
    سراج الحق خود امانت و دیانت کا نمونہ ہو، اسے بہترین فنانشل مینجمنٹ اور ایمانداری کے ایوارڈ ملیں،
    اس کے کارکن وزراء کرپشن سے دور رہیں، دوسری جماعت کے سربراہوں سے ستائش اور شاباش پائیں،
    وہ کرک میں کرپشن پر ضرب لگائے یا کراچی میں اس کے خلاف اعلان جہاد کرے،
    وہ کرپشن کے ناسور کے خلاف دھرنے دے یا بار رومز میں جا کر چیخے اور چلائے،
    وہ کرپشن کے خلاف سب سے پہلے سپریم کورٹ جائے یا کالی پٹیاں باندھے،
    اس کی ساری دلیلیں رد ہوں اور کوئی ابھی ہونٹ بھی نہ کھولے تو خبر پہلے بن جائے؟
    کوئی اپنے دائیں بائیں کرپٹ لوگوں اور ضمیر فروشوں کو لے کر کھڑا ہو جائے تو کوئی اسے متوجہ کرنے کو بھی گناہ سمجھے،
    تمہی کہو یہ انداز گفتگو کیا ہے؟
    میڈیا اپنا اعتبار کھو رہا ہے، ڈیٹا بتا رہا ہے کہ آنے والی نسل ٹی وی سے سوشل میڈیا کی طرف منتقل ہو رہی ہے، الیکٹرونک سے ڈیجیٹل کی طرف رجوع بڑھتا جا رہا ہے،
    پھر تیرا کیا بنے گا میڈیا؟
    یاد رکھنا میڈیا گرد کا طوفان اٹھا کر زیادہ لوگوں کو کچھ دیر تک دھوکہ تو دے سکتا ہے اور کچھ لوگوں کو زیادہ دیر تک بھی دھوکہ میں رکھ سکتا ہے مگر وہ زیادہ لوگوں کو زیادہ عرصہ تک دھوکے میں نہیں رکھ سکتا.
    حال کا لکھنے والا چاہے جو بھی لکھے، وقت کا بے رحم مورخ جب سچ لکھے گا تو وہ سراج الحق کو دیانتداری کا پیمانہ قرار دے گا، وہ سراج الحق کو ان لوگوں میں شامل کرے گا جو دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں.
    وہ لکھے گا کہ جب سراج الحق اور ایک سراج صاحب پر ہی کیا موقوف ہزاروں دیانتداروں پر مشتمل ایک گروہ موجود تھا، اس وقت اس بد نصیب قوم نے اپنے لیے شریفوں زرداریوں اور ترینوں کا انتخاب کیا تھا.
    مؤرخ کے ہاتھ اس وقت کپکپا جائیں گے اور اس کی آنکھیں بھیگ جائیں گی، جب وہ دریافت کرے گا کہ سراج الحق کی ٹیم میں وہ نعمت اللہ خان بھی موجود تھا جس نے ساری نظامت کے اختتام پر ایک چیک کاٹ کر ساری تنخواہ صدقہ کر دی تھی اور ایسے دامن جھاڑ کر گھر چلا گیا تھا جیسے منصب و اختیار اور مال و اسباب نہ ہوں کوئی بلا ہو،
    مؤرخ اس عنایت اللہ خان کو بھلا کیسے بھولے گا جسے اس کی ایمانداری پر اس کا وزیراعلی ہر اہم اصلاحاتی کمیٹی کا سربراہ بنا کر مطمئن ہو جاتا تھا، جس کی سربراہی میں پولیس، احتساب، بلدیات اور اس جیسے دیگر کئی اصلاحات تجویز اور عمل سے ہمکنار ہوتی تھیں، اور اس کا نام کیا لینا، اس کے کام پر دوسرے اپنی مہر لگا دیتے تھے مگر وہ پھر بھی خدمت کےلیے ہر دم مستعد رہتا تھا.
    میری دعا ہے کہ سراج الحق میرا امیر میرا قائد میرا ہمدرد و غمخوار قائد اپنی بے نیازی پر قائم رہتے ہوئے اپنی پارٹی کے غیر معمولی کردار کا پرچارک کر سکے۔
    کیونکہ سب کو اپنا ڈھول خود پیٹنا ہوگا کوئی کسی کا ڈھول نہیں پیٹے گا.

  • کمال اور عباد کا سچ – سید جواد شعیب

    کمال اور عباد کا سچ – سید جواد شعیب

    سید جواد شعیب بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
    کمال نے سچ بولا تو عباد سچائی کا علمبردار بن گیا
    لیکن قسم خدا کی نہ سچ میں بولا نہ تو بولا
    جو بولے یہی بولے
    ایک رشوت العباد بولا تو دوجے نےمصطفٰی کدال بولا
    جناب عباد نے اعتراف کیا کہ
    کراچی کی ترقی میں سابق ناظم کراچی نعمت اللہ خان کا کردار انتہائی کلیدی تھا
    نعمت اللہ خان انتہائی ایماندار ناظم اور بہت ویژن والے انسان ہیں۔ بطور ناظم بہت محنت کی
    نعمت اللہ خان کے بعد آنے والی سٹی حکومت نے مایوس کیا۔
    جس رفتار سے نعمت اللہ خان نے کام شروع کیا، وہ برقرار نہ رکھی جا سکی۔
    مصطفی کمال کو مصطفی کدال کہتے کہتے ٹھیکیدار کہا
    یہ بھی کہا کمیشن لیے چائنہ کٹنگ کی
    اور تو اور یہ بھی کہہ گئے کہ انہیں چوک پر لٹکا دیں گے
    جو سانحہ بارہ مئی کے قتل عام میں ملوث تھے
    جو بلدیہ فیکٹری میں انسانوں کو زندہ جلانے والے تھے
    جو فوج سے لڑنے کے لیے جدید اسلحے سے لیس تھے
    جو زمینوں پر قبضے بھتہ خوری اور چائنہ کٹنگ کے خالق تھے
    جو عظیم احمد طارق اور حکیم سعید شہید کے قاتل تھے
    صرف یہی نہیں،
    اپنے کل کے دوست و ہمنوا کو گھٹیا، اور نفسیاتی مریض قرار دیتے ہوئے ڈاؤ ہیلتھ یونیورسٹی میں علاج کی پیشکش بھی کرگئے

    لیکن ایک سچ وہ بھی تھا جو کمال کا تھا
    یعنی مصطفی کمال کا تھا
    کراچی کی سیاست میں عشرت العباد کرمنل شخصیت ہے
    کراچی کی سیاست میں سب سے برا کردار عشرت العباد کا ہے
    کون سی چائنا کٹنگ کے پیسےگورنر کو نہیں ملتے رہے
    گورنر ہمیشہ ملک دشمن قوتوں کر آکسیجن فراہم کرتا رہا
    گورنر کو کراچی کی بزنس کمیونٹی رشوت العباد کے نام سے پکارتی ہے
    اس شخص کو کوئی ایسا شخص نہ ہو جو پیسے پہنچاکر نہ آیا ہو
    گورنر آرمی چیف، ڈی جی رینجرز، وزیراعظم، وزیر اعلی سب سے رابطے میں رہتا ہے
    گورنر سندھ ہمارے متعلق ملکی اداروں کو اب منفی فیڈنگ کر رہا ہے
    یہ گورنر سندھ شپ چھوڑنا نہیں چاہتا،
    یہ الطاف حسین سے بھی رابطے میں ہے، ہم سے بھی اور فاروق ستار سے بھی
    گورنر سندھ کو عہدے سے ہٹایا جائے
    نام ای سی ایل میں ڈالا جائے
    گورنر سندھ کو فوری گرفتار کیا جائے

    اگر یہ بھی سچ ہے جو کمال کا ہے
    اور وہ بھی سچ ہے جو عباد کا ہے
    تو پھر کچھ رہ نہیں جاتا سمجھنے کو لیکن
    سمجھے وہ جو سمجھنا چاہے
    اے میرے پیارے کراچی والو!
    ذرا سوچو تو سہی
    ٹھہرو تو سہی
    دیکھو تو سہی
    آپ کے شہر کی دو پسندیدہ ہستیاں
    ایک نے دنیا بھر میں میئرشپ میں (جھوٹا) دوسرے نمبر کا اعزاز پایا
    دوسرا چودہ سالوں سے گورنر ہاؤس میں کراچی والوں کی آواز مانا جاتا رہا
    یہ دونوں سچ بول رہے ہیں
    اب انہیں جھوٹا مت کہہ دینا

    جھوٹے تو وہی تھے جو اتنے سالوں اتنے مہینوں اتنے ہفتوں اور اتنے دنوں پہلے چیخ چیخ کر بولتے رہتےتھے
    چلو ان کو دفع کرو وہ سب جھوٹے ٹھہرے
    کراچی دشمن ، مہاجر دشمن قرار دے کر مسترد کردیے گئے
    اور
    اردو بولنے والوں کا فخر ڈاکٹر عشرت العباد بنے
    کراچی کو کمال کی ترقی دینے والا مصطفی کمال کراچی کے لیے نعمت قرار دیا گیا
    دونوں ساتھ ساتھ چلے اور اس شہر کی نمائندگی کرتے رہے
    دیکھو اب قائم رہنا
    ان کے ساتھ رہنا انہیں سچا ماننا
    کمال اور عباد جو کہہ رہے وہی سچ ہے
    پیچھے مت ہٹنا
    بس یہی سچ ہے
    ایک نے کمال کا ایک سچ کیا بولا
    تو عباد سچائی کا علمبردار بن گیا
    واضح رہے یہ میں نے نہیں بولا ہے
    جو کمال و عباد نے بولا ہے
    وہی سچ ہے بس یہی بولا ہے
    اہلیان کراچی کو اور کیا کیا سننا اور دیکھنا ہے
    ابھی بہت کچھ باقی ہے
    بس دیکھتے جائیے
    آج کے لیے اتنا ہی کافی ہے

    (سید جواد شعیب جیو نیوز کراچی سے وابستہ ہیں اور سینئر کورٹ رپورٹر ہیں)

  • ناظم کراچی اور قومی لیڈر – زبیرمنصوری

    ناظم کراچی اور قومی لیڈر – زبیرمنصوری

    زبیر منصوری ’’لیاری کو پانی دیو نئی تو ام تم سب کا خانہ خراب کرے گانی۔ اڑے کسی کو نئی چوڑے گا۔ امارہ بچہ پیاسا اے۔ ابی تم لوک ادھر ٹنڈا مشین میں بیٹا اے، ایسا نئی چلےگا‘‘

    یہ ان دنوں کی بات ہے جب نعمت اللہ خان صاحب کو سٹی ناظم بنے ابھی ایک ہفتہ بھی نہیں ہوا تھا کہ ایک روز لیاری کےلوگوں کا ایک جلوس بلدیہ کی پرانی بلڈنگ آن پہنچا گارڈز نے انہیں مین گیٹ پر روکا مگر وہ سخت غصہ میں رکاوٹیں ہٹا کر اندر کے گیٹ پر پہنچ گئے، عملہ خوفزدہ تھا کہ اب کیا ہوگا؟
    ایم کیوایم کی لیبر ڈویژن لطف اندوز ہونے کے لیے موجود تھی
    اکیلا نومنتخب ناظم
    اس کا ڈرائیور میانداد
    اور اس وقت تک میں تنہا کارکن!
    خان صاحب کو صورتحال کی اطلاع دی گئی، انہوں نے ایک لمحہ کو سوچا اور پھر ایک شفیق باپ اور ماہر سیاستدان کی طرح فورا ہدایت کی کہ دروازے کھول دیں اور انہیں میرے پاس آنے دیں
    ’’مگر خاں صاحب وہ سخت مشتعل ہیں، پولس آنے میں دیر، یہ، یہ کیا کر رہے ہیں ؟‘‘
    میں پریشان ہو گیا
    ’’جو میں کہہ رہا ہوں کریں‘‘
    ان کا لہجہ سرد بھی تھا اور مضبوط بھی.
    کچھ سمجھ میں نہیں آیا تو ہم نے بادل نخواستہ ایسا ہی کیا، دروازے کھلے تو لوگوں کا غصہ کم اور کامیابی کا جوش بڑھ گیا، سارے مرد، عورتیں اور بچے نعمت صاحب کے کمرے میں بھرگئے مگر یہ کیا؟
    جیسے ہی وہ اندر آتے، ان کی نظر خاں صاحب کے نورانی اور شفقت سے بھرپور چہرے پر پڑتی، ان کا رہا سہا غصہ بھی غائب ہو جاتا، خاں صاحب ان کے بڑوں سے اٹھ کر گلے ملے، بٹھایا اور مسئلہ پوچھا. ان میں سے ایک نے جب غصہ سے اوپر والے جملہ کہے تو اس کے ساتھی نے اسے ڈانٹ دیا
    ’’اڑے تم دیکتا میکتا نئی اے؟ بابا جی کے سامنے ایسا بولتا ہے جیسا کمار واڑہ میں اے تم؟ آڑے گرق او تم کو شرم نئی آتا، آں؟‘‘
    خاں صاحب نے تحمل سے ان کاپورا مسئلہ سنا، اگلے اڑتالیس گھنٹے میں ان کی بستی آنے کا وعدہ کیا اور سب کو ٹھنڈا پانی پلوایا
    اب ماحول ایسا خوشگوار تھا کہ اٹھتے ہوئے ایک بلوچ نے خاں صاحب کے ہاتھ چومے
    “نیمت اللہ جندہ باد ”
    کے نعرے لگے اور لوگ واپس لوٹ گئے.
    تماش بینوں کو مایوسی ہوئی
    وہ سمجھتے تھے کہ غالب کے اڑیں گے پرزے.
    دو دن بعد سٹی ناظم اس بستی کی گندی گلیوں میں تھے

    مجھے یہ آج اچانک کیوں یاد آیا؟
    ’’قومی لیڈر‘‘ عمران خان کے ہاتھوں مصیبت کی ماری بہن کی ’’عزت افزائی‘‘ دیکھ کر
    مزید “No comments”