Tag: نظام

  • نظام کی تبدیلی مگر کیسے؟ شاہد اقبال خان

    نظام کی تبدیلی مگر کیسے؟ شاہد اقبال خان

    جب کسی ملک میں کرپشن کو اخلاقی سند مل جائے، انصاف چند طاقتوروں کی باندی بن جائے، دولت کی گردش امیروں کے گھر سے امیروں کے گھر تک چکر کاٹتی رہے، لوگ ہجرت پر مجبور ہوں تو یہ نظام کی مجموعی ناکامی تصور کی جاتی ہے۔ ایسے میں نظام کی تبدیلی ناگزیر ہو جاتی ہے۔ بدقسمتی کہیں یا بداعمالی، پاکستان بھی اسی صورتحال سے گزر رہا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ نظام کی تبدیلی کیسے ممکن ہو؟

    اس کو سمجھنے کے لیے پہلے ہمیں نظام کو سمجھنا پڑے گا۔ کسی بھی ملک کے تمام اداروں جیسے کہ سکول، کالجز، یونیورسٹیز، ہسپتال، پولیس، عدالتیں، ریونیو، کسٹم، پی آئی اے، ریلوے، اسٹیل مل اور ایسے تمام اداروں کے مجموعی ڈھانچے یا فریم ورک اور ان کے طریق کار کو مجموعی طور پر نظام کہتے ہیں۔ نظام کی تبدیلی کا براہ راست مطلب سیاسی، انتظامی اور معاشی نظام کی تبدیلی ہوتا ہے۔ اس نظام کی تبدیلی کے طریقہ کار کو سمجھنے کے لیے ہمیں کارپوریٹ سیکٹر کے تبدیلی کے نظام کو سمجھنا پڑے گا اور اسے ملکی نظام کی تبدیلی کے طریقہ کار سے جوڑنا پڑے گا۔

    کارپوریٹ سیکٹر میں تبدیلی کے دو طریقے استعمال ہوتے ہیں۔ پہلی اپروچ کو ٹاپ ٹو باٹم (Top to bottom) اپروچ کہتے ہیں۔ اس کے مطابق کسی بھی نظام کو بدلنے کے لیے ہمیں اس کمپنی کے سربراہ یا سی ای او کو بدلنا پڑتا ہے۔ نیا سربراہ ایک الگ سوچ اور وژن کے ساتھ آتا ہے۔ وہ سب سے پہلے کمپنی کے میمورینڈم میں تبدیلی کرتا ہے جس سے کمپنی کے بنیادی قوانین میں تبدیلی آتی ہے۔ وہ کمپنی کے لیے ایک منفرد پالیسی لے کر آتا ہے۔ وہ ان تمام مینیجرز کو بھی اپنے عہدوں سے ہٹا دیتا ہے جو ایماندار نہ ہوں یا کمپنی کی اس پالیسی کی خلاف مزاحمت کریں۔ یہ سی ای او اور تمام مینیجرز پالیسی اور وژن کے مطابق کام شروع کرتے ہیں اور کچھ سالوں میں پوری کمپنی کا نظام بدل جاتا ہے۔ سٹیو جابز نے ایپل کو اسی طریقے سے دوبارہ سے کامیابی کی بلندیوں پر لا کھڑا کیا تھا۔ ایسے ہی کسی ملک کے نظام میں تبدیلی کے لیے ایک نیا حکمران ایک الگ سوچ اور الگ وژن کے ساتھ حکومت میں آ کر قانون میں کچھ ضروری تبدیلیاں کرے، اپنی کابینہ میں قابل اور ایماندار لوگ لائے اور تمام اداروں کے سربراہ ایماندار، قابل اور پروفیشنل لوگوں کو لگائے تو کچھ سالوں میں پورا نظام خودبخود بدل جائے گا۔ مہاتیر محمد اس کی بہت عمدہ مثال ہے۔

    تبدیلی کی دوسری اپروچ باٹم ٹو ٹاپ (Bottom to top) اپروچ ہے۔ اس کے مطابق کمپنی میں نچلے لیول پر موجود ملازمین اور یونینز کے لیڈرز کمپنی میں موجود خامیوں کی نشان دہی کرکے تمام ملازمین کو ان خامیوں کے بارے میں آگہی مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں اس بات پر قائل کرتے ہیں کہ نہ تو خود اس فرسودہ نظام پر عمل کریں اور نہ ہی کمپنی کے مالکان کو اس پر عمل کرنے دیں۔ اس سلسلے میں احتجاج اور ہڑتالوں کے ذریعے کمپنی کے کرتا دھرتا کو اس بات پر مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ ناانصافی کا نظام تبدیل کریں۔ کمیونسٹ تحریک اس کی تاریخی مثال ہے۔ اس اپروچ کو ملکی نظام سے اس طرح سے جوڈا جا سکتا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں عوام کو ان کے حقوق، ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں اور نظام کی خرابیوں کے بارے میں آگہی فراہم کریں اور انہیں اس بات پر قائل کریں کہ وہ اس نظام کے خلاف سڑکوں پر نکل کر احتجاج کر کے حکومت سے نظام کی تبدیلی ممکن بنائیں۔ انقلاب فرانس اور نیلسن منڈیلا کی تحریک اس کی شاندار مثالیں ہیں۔

    ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں بطور رہنما ان دونوں طریقوں کو وقت کی مناسبت سے استعمال کیا۔ انہوں نے عرب کے لوگوں کو جہالت کی تاریکی سے اٹھا کر انہیں ان کے حقوق سے آگاہ کیا اور ان کے حقوق کے لیے ہر سطح پر اور ہر طریقے سے نہ صرف تحریک چلائی بلکہ جنگ بھی لڑی اور جب برسراقتدار آئے تو اپنے اور صحابہ کرام کے بہترین کردار کے ذریعے حکومتی نظام کو بدل ڈالا۔ ہمیں اسوہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنے کی ضرورت ہے.

  • حکومت، نظام اور عوام – عالیہ چودھری

    حکومت، نظام اور عوام – عالیہ چودھری

    ترقی پذیر سے ترقی یافتہ کی صف میں آنے کے لیے کسی ملک کا سسٹم ہی بنیاد بنتا ہے۔ وہ سسٹم جو دنیا میں اسے روشناس کرواتا ہے۔ ہر ترقی یافتہ اور مہذب ملک اپنے شہریوں کے لئے ایک مضبوط سسٹم کا ڈھانچہ فراہم کرتا ہے اور پھر عملی طور پر شہریوں کو اس میں زعم کر دیتا ہے۔ قومیں اسی صورت ترقی کرتی ہیں جب ان کو ملکی مفاد کی دوڑ میں شامل کیا جاتا ہے۔ ان کے حقوق کی پاسداری کی جاتی ہے تاکہ وہ محنت اور لگن کے ساتھ ملک کو آگے لے جا سکیں۔ اور ایسا بھی ممکن ہوتا ہے جب ملک کے اندر ایک مضبوط نظام موجود ہو، جو حکمران طبقہ اور عوام کے درمیان تفریق کا باعث نہ بنے، جو ملکی خوشحالی کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے، جو اپنے لوگوں کی زندگیوں اور ضرورتوں کا تحفظ کر سکے۔

    اگر اس سسٹم کو کرپشن زدہ، ذاتی مفاد اور اقتدار کی شاہی کے لیے بنایا جائے تو پھر ملک کے اندر بے چینی عروج پہ ہوتی ہے۔ تب حق دینا نہیں بلکہ کسی کا حق چھین لینا یاد رہتا ہے۔ حکمران طبقہ اپنی اقتدار کی کرسی کے مزے لوٹتا ہے اور عوام وہ عزت اور حکم شاہی کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں۔ ہم جو فلاحی اسلامی ریاست کی بنیاد کو مظبوط کرنے والے تھے۔ ہمارے حکمرانوں نے اسے اسلامی تو کیا فلاحی ریاست بھی نہ بننے دیا۔ ہمارے بعد آزاد ہونے والے ملک کہاں سے کہاں پہنچ گئے، مخلص پالیسیاں بنائی گئیں جو انھیں ترقی کی راہ پہ آگے لے گئیں۔ دوسری طرف ہمارے ہاں اقتدار کی جنگ ملکی مفاد پہ ہمیشہ حاوی رہی ہے اور جو یہ جنگ جیت گئے انہوں نے وقت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے سارے فائدے لے لیے۔ عوام کا وہی حال رہا، ایک دوسرے کے پیچھے بھاگنا، کیا پتا کوئی آس رنگ لے آئے، خوابوں کو تعبیر مل جائے۔ مگر نظر کا دھوکہ وہی رہا اور عوام یہی دھوکہ آج بھی کھا رہی ہے۔ جب بے روزگاری عام ہو تب محنت اور جفا کشی کا جذبہ سرد پر جاتا ہے۔ اسی لیے آج کے دور میں ہر کوئی اپنے حالات میں الجھا ہوا بے بسی سے اس فرسودہ سسٹم کے ساتھ لڑ رہا ہے۔ معاشی قتل عام ہو رہا ہے، ادارے آگے بڑھنے کے بجائے اپنے نام کو ہی ڈبوتے جا رہے ہیں۔ نعروں اور وعدوں میں ملاوٹ ہے ذاتی مفاد کی۔ عوام کو اتنا کمزور کیا جا رہا ہے کہ وہ اب آواز اٹھائیں بھی تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ کیسا سسٹم ہے جہاں اعلیٰ ڈگریوں والے تو خاک در خاک گھوم رہے ہیں مگر جعلی ڈگریوں والے ملک کو چلا رہے ہیں۔ کیونکہ یہ ملک کو نہیں بلکہ اپنے ذاتی اکاؤنٹس کو بہتر بنا رہے ہیں۔ شخصی آزادی پہ آواز کون اٹھائے، اب تو آزادی رائے پہ پابندی لگ جاتی ہے۔ حکومت آسودہ حال ہے جبکہ سسٹم فرسودہ ہے۔ فارن پالیسی کے نام پر ہمارے پاس ذاتی دورے اور فوٹو سیشن ہی رہ گیا ہے۔ مظبوط ڈائیلاگ پالیسی ہمیں کہیں نظر نہیں آتی۔ سفارتکاری دوسرے ممالک کے ساتھ مل کر اپنے ملکی مفادات اور معشیت کو استحکام بخشتی ہے۔ ہم ابھی اس میں بہت کمزور ہیں ۔

    حکومت اور سسٹم کو باہم جوڑا جا سکتا ہے مگر ان کو ہم معنی نہیں لے سکتے۔ دونوں کا اپنے دائرے میں رہتے ہوئے کام کرنا ہی بہتر ہے۔ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہی، اگر نظام کو صحیح فعال بنایا جائے تو نئی آنے والی حکومت اس میں گڑ بڑ نہیں کر سکتی۔ حکومت پالیسی میکر ہے جبکہ ایک مظبوط سسٹم کی نشاندہی ملک کا ہر ادارہ اپنے طور پر کرتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ پاکستان کے اندر نظام کو یرغمال بنانے کی کوشش ہوتی رہی ہے۔ ابھی تک ہر ادارہ نوکر شاہی کے ہاتھوں تباہ ہو رہا ہے۔ عوام ووٹوں کے ذریعے حکمران منتخب کرتی ہے اور حکمران ایسے سسٹم کو فعال کرتے ہیں جو ان کو فوائد دے سکے۔ اقتدار سے پہلے عوام کا ساتھ، اقتدار ملنے کے بعد غیروں کا ساتھ بھلا لگتا ہے۔ ایک بہتر سسٹم ملک کے اندر چلے یا نہ چلے بہرحال اپنی سیاست پورے پانچ سال چلنی چاہیے۔

    کسی بھی اچھے معاشرے کی نشاندہی اس کے اندر بسنے والوں کے اخلا قی کردار اور سوچ کی پختگی پر ہے۔ اگر بگاڑ ہی یہیں ہوگا تو پھر اس ملک کے اندر ایک مستحکم اجتماعی نظام مشکل سے ہی بن سکتا۔ باشعور معاشرہ ہی باطل اور حق کی پہچان کر کے شر کو خیر سے الگ کرتا ہے۔ جبکہ یہاں وعدوں کے بھنور میں پھنسے عوام بھی اپنی پسند کو لیے ایسے لوگوں کا دفاع کرتے ہیں جو انہی کو لوٹ رہے ہیں۔ لوٹتے بھی ایسے کہ خود معصوم ہی ٹھہرے۔ یہاں کی جمہوریت کے انداز ہی نرالے ہیں جبکہ ایوانوں کے اندر تحفظ دینے والے نہیں لوٹنے والے بیٹھے ہیں۔

    جب خداکا نائب اس کے احکام کے بجائے اپنی حاکمیت کا پرچار کرتا ہے تو وہ دنیاوی طور پر بادشاہ ہی سہی مگر رب کے سامنے حقیر سے حقیر تر ہو جاتا ہے۔ دولت کی چمک شخصیت پہ اثر دکھاتی ہے، دوسری طرف آگے پیچھے ایک آگ ہے جو لپٹی ہے حقوق العباد کو اپنے پیروں تلے روندنے والوں کے ساتھ ۔ اپنی اکڑ کو زمین پہ قائم رکھنے والے
    اس دن کیا کریں گے جب زمین اپنا آپ ظاہر کر دے گی۔ اگر ظلم و بے انصافی کی بنیاد ڈال کر ترقی اور امن کے خواب دِ کھائے جائیں گے تو انتشار کا پھیلنا یقینی ہے۔ ہمارے ہاں تقسیم کرنے والے ہی رہ گئے ہیں کیا؟ سوچنا ہوگا، بدلنا ہوگا ایسے سسٹم کو جو ملک اور عوام دونوں کو تباہ کیے جا رہا ہے۔

    ایک حکم وہ جو مقررہ وقت تک ہے اور ایک وہ جو ہمیشہ قائم رہنے والا ہے۔ سمت کا صحیح تعین ہی کر کے چلنا ہو گا ورنہ مہذب اور تہذیب یافتہ قوموں کی صف میں کھڑا ہونا تو در کنار اپنی خود ساختہ حاکمیت کے ہی نذر ہو جائیں گے۔ نظام کو سہی کرنے سے پہلے خود کو اس قابل تو یہ بنا لیں کہ خود ہی سیاست کر سکیں۔ ملکی مفاد کی سوچ ہی مظبوط منصوبہ سازی کر سکتی ہے اور یہی ملک کو ایک ایسا سسٹم مہیا کرتی ہے جس کی بنا پر عوام آسودہ حال ہوں۔کرپشن کے نظام کو اکھاڑ پھیکنا ہو گا ورنہ عوام اور حکمرانوں کا نباہ ہونا مشکل ہے۔ جمہوریت کے ایوانوں کو حقیقی طور پر عوامی مفادات کی ترجمانی کرنی چاہیے۔ اگر عوام اور اداروں کو تباہ کرنا ہی رہ گیا ہے تو پھر اس جال میں پکڑ کرسی اور اقتدار کے مزے لوٹنے والوں کی بھی ہوگی۔

  • پولیس یونیفارم نہیں، سسٹم تبدیل کریں – ملک محمد سلمان

    پولیس یونیفارم نہیں، سسٹم تبدیل کریں – ملک محمد سلمان

    ملک سلمان پولیس کا نام آتے ہی کئی لوگوں کے چہرے اتر جاتے ہیں کیوں کہ بظاہر پولیس کا امیج ڈرؤنا اور خطرناک ہے۔ یہ تلخ حقیقت بھی تسلیم کرنی پڑے گی کہ تھانہ پولیس والوں کی ایک علیحدہ سلطنت ہوتی ہے جہاں وہ ہر سیاہ و سفید کے مالک ہوتے ہیں۔ ایف آئی آر درج کروانے اور اسے خارج کروانے کے چارجز مختلف ہیں، بےگناہ اور غریبوں پر مظالم کی بےشمار داستانیں ہیں۔ عید اور فوری گھریلو ضرورت کو پورا کرنے کا فن صرف اور صرف پولیس والوں کی ایجاد ہے کہ کہیں بھی دستی چیک پوسٹ لگا دیں۔

    تھانہ کلچر کو بگاڑنے والے کوئی اور نہیں ہم خود ہیں، اگر رشوت کی وصولی حرام ہے تو دینا بھی حلال نہیں۔ مانا لوگ جائز کام کے لیے بھی رشوت دینے پر مجبور ہیں مگر زیادہ تر واقعات میں شہریوں کے ناجائز اور مذموم مقاصد کی تکمیل اور دوسروں کو انتقام کا نشانہ بنانے کے لیے پولیس کاسہارا لیا جاتا ہے۔ ہم من حیث القوم بدنیت، بددیانت، کام چور، متعصب، منافق اور فاسق ہیں۔ جہاں پورا معاشرہ اور نظام بدعنوانی اور بدانتظامی کی بندگلی میں کھڑا ہو، وہاں کوئی ادارہ کس طرح صاف ستھرا رہ سکتا ہے۔

    ہر فرد، ادارے اور معاشرے میں جہاں خوبیاں ہوتی ہیں وہاں خامیاں بھی ضرور ہوتی ہیں۔ دنیا کا کوئی معاشرہ اور ادارہ پوری طرح گندی مچھلیوں سے پاک نہیں ہے۔ تاہم ان گندی مچھلیوں کے سبب مجموعی طور پر اس ادارے کے بارے میں منفی رائے قائم نہیں کی جاسکتی۔ ہم افراد اور اداروں پر تنقید اور ان کی توہین کرتے وقت ان کی معاشرے کے لیے ضرورت اور اہمیت کو کیوں بھول جاتے ہیں۔ پولیس کا ادارہ کسی بھی ملک اور معاشرے کے لیے انتہائی اہمیت کاحامل ہے۔ جس طرح ہمارے فوجی سرحدوں کے محافظ ہیں، وہ ہماری آرام دہ نیند کے لیے خود رات بھر جاگتے اور دشمن کی سنگینوں سے نکلی گولیاں روکنے کے لیے اپنے سینوں کو ڈھال بناتے ہیں۔ اس طرح شہروں میں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے پولیس کے آفیسر اور اہلکار سردھڑ کی بازی لگاتے ہیں۔ مسجد، مدرسہ، مجلس عزا، مقدس شخصیات کے مزار، عرس، عدالتوں، جلسہ، جلوس، بنک، وی آئی پی روٹ، ججوں کے گھروں سمیت وی آئی پی حضرات کے محلات کی حفاظت اور الیکشن ڈے سمیت کوئی بھی ہنگامی صورتحال ہو تو پولیس اہلکاروں کو تعینات کیا جاتا ہے۔ یہ چوروں، ڈاکوؤں اور قاتلوں کا تعاقب اور انہیں گرفتار کرتے کرتے کئی بار موت سے آنکھ مچولی کھیلتے ہیں۔ پولیس اہلکار اپنی ڈیوٹی اوقات آٹھ گھنٹے سے زائد ڈیوٹی کرتے ہیں، مگر انہیں کوئی اوور ٹائم نہیں دیا جاتا، بعض اوقات سیکورٹی کی وجہ سے پولیس اہلکاروں کو چوبیس چوبیس گھنٹے ڈیوٹی کرنا پڑتا ہے، تہواروں کے موقع پر یہ اپنی خوشیاں چھوڑ کر ہماری حفاظت کے لیے ڈیوٹی کرتے نظر آتے ہیں، مگر پھر بھی پولیس کا محکمہ چند کالی بھیڑوں کے سبب بدنام کر دیا جاتا ہے۔اچھی کارکردگی دیکھنے کو کوئی تیار نہیں ہے۔ کیا ریاست کے پاس پولیس کاکوئی متبادل ادارہ ہے؟ پولیس آفیسرز انگوٹھا چھاپ سیاستدانوں کی طرح ووٹ لے کرنہیں آتے بلکہ یہ فوج کی طرح تعلیم وتربیت کے کئی کٹھن مرحلے طے کرکے اس مقام تک آتے ہیں۔

    عام شکایت پولیس کے بارے میں یہ ہے کہ وہ رشوت خور ہے، کرپٹ ہے۔ ہوگی ضرور ہو گی مگر وہ جو کہتے ہیں کہ [pullquote]’’ الناس علی دین ملو کھم ‘‘[/pullquote]

    اگر ملک کا صدر، وزیراعظم، وزیر، مشیر، ایم پی اے، ایم این اے سبھی رشوت خور ہوں تو ان حالات میں پولیس اہلکار کیسے فرشتے بن سکتے ہیں؟

    اگر آپ پولیس کا امیج بہتر کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ریاست اور ڈیپارٹمنٹ کو اپنی ذمہ داری پوری کرنا پڑے گی، امن وامان قائم کرنے والوں کے گھر والوں اور ان کے بیوی بچوں کو سب سے پہلے امن و سکون مہیا کیا جانا چاہیے. فوجی فاؤنڈیشن، بحریہ فاؤنڈیشن اور پی اے ایف اسکول قائم ہو سکتے ہیں تو ان کے بچوں کے لیے کیوں نہیں، باقی فورسز والوں نے اپنے حاضر و ریٹائرڈ افسروں اور اہلکاروں ان کے بچوں حتی کے ان کے ماں باپ کی ویلفئیر اور علاج معالجے کا بندوبست کر رکھا ہوتا ہے جو کہ نہایت خوش آئند ہے مگر پولیس والوں کے بچوں کے اسکولز اور ان کے والدین کے علاج کے آگے سوالیہ نشان کیوں ہے؟

    پولیس فورس کو کرپشن سے پاک کرنے کے لیے یونیفارم نہیں سسٹم تبدیل کریں، اسے سیاسی مداخلت سے آزاد کریں۔ سیاستدان اپنے سیاسی مفادات کے لیے اپنے وفادار ڈی پی اوز اور ایس ایچ اوز کی پوسٹنگ پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ پولیس کے کام میں سیاسی مداخلت ہے، جس سے نجانے کب جان چھوٹے گی، چھوٹے گی بھی یا نہیں؟ کوئی پولیس والا آزاد رہ کر پرسکون ماحول میں اپنی ڈیوٹی سرانجام نہیں دے سکتا، ہر وقت اسے دھڑکا لگا رہتا ہے کہ اگر کسی ایم این اے ایم پی اے کو انکا رکیا تو اگلے دن کہیں دور دراز بیٹھا ہوں گا. اب اگر ایک ایس ایچ او کو تعینات ہی ایم پی اے یا ایم این اے کرواتا ہے تو وہ کیسے اپنے متعلقہ سیاسی آقا کو انکار کر سکتا ہے. حکومتی ارباب اختیار اگرپولیس کا امیج بہتر کرنا اور ان سے کوالٹی ورک لینا چاہتے ہیں تو ان کے کام میں سیاسی مداخلت بند کر دیں، ان کو شارپ شوٹر، نئی گاڑیاں اور نئے موٹر سائیکل مہیا کر دیں، اور پھر دیکھیں کہ یہ لوگ کیسے اپنی ڈیوٹی سرانجام دیتے ہیں. جہاں عام سیکورٹی ادارے فیل ہو جاتے ہیں وہاں آرمی فی الفور کنٹرول کر لیتی ہے، وجہ کیا ہے کہ وہ اپنے کام میں کسی بھی قسم کی مداخلت برداشت نہیں کرتے، اور فراہم کردہ بہترین وسائل کا استعمال بھی بہترین کرتے ہیں. پولیس ناکام کیوں ہے؟ وجہ صرف بےجا سیاسی مداخلت ہے ورنہ پولیس کے جوان بھی نہ صرف اپنے فرائض سے بخوبی آگاہ ہیں بلکہ جرائم کے خاتمے کے لیے بہترین اہلیت رکھتے ہیں، فرق صرف مکمل اختیارات اور ان کے استعمال کا حق دینے کا ہے۔

    ملک محمد سلمان
    0300/880566

  • وہ سبق جو ہم بھولتے جا رہے ہیں – نعیم احمد

    وہ سبق جو ہم بھولتے جا رہے ہیں – نعیم احمد

    نعیم احمد اسلام کے نام پر قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کی ان تھک کوششوں سے بننے والا ملک، جس میں بسنے والوں کو قائد نے اچھا شہری بننے کے لیے ’’ایمان، اتحاد، تنظیم‘‘ کا ایک سبق دیا تھا۔ کیا یہ سبق ہم بھولتے جا رہے ہیں؟ ایسا ہم جان بوجھ کر کر رہے ہیں؟ یا ہم اچھا شہری بننا ہی نہیں چاہتے؟ یہ فکر ہم میں کیوں پروان چڑھ گئی ہے کہ کسی بھی اچھے عمل میں پہل دوسروں کو کرنی چاہیے؟ اس کے لیے ہم خود پہل کیوں نہیں کرتے؟ اس سبق کی نفی کرتے ہوئے اس طرح کے کئی اور سوال پیدا ہو گئے ہیں۔

    کسی بھی شعبے کو دیکھ لیجیے، عام آدمی صرف اس وجہ سے کسی بھی نظم کی پابندی نہیں کرنا چاہتا کہ اس سے اوپر جو کلاس ہے وہ ان ضوابط کی پابندی نہیں کرتی جو کہ سب کے لیے ایک ہی ہیں۔ کسی بھی نظام کو بگاڑنے کے لیے ہزار تاویلیں ہو سکتی ہیں، لیکن اس نظام کو کامیاب بنانے کے لیے صحیح اصول کا رد کر دینا عقل مندی کی بات نہیں ہے۔ اکثریت کی غلط روش کو دیکھتے ہوئے اس کا حصہ آسانی سے بنا جا سکتا ہے، اس کے برعکس صحیح راہ کو اختیار کرنے کے لیے صرف اس لیے گریز کیا جاتا ہے کہ اس میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ شارٹ کٹ کامیاب زندگی کا حل نہیں ہیں۔ کامیابی چاہتے ہیں تو ان مشکلات کا مقابلہ دلیرانہ انداز سے کیجیے۔

    ملکی سطح پر چلنے والے اداروں میں برے افراد کے ساتھ اچھے ذہن کے لوگ بھی کام کرتے ہیں۔ آپ نظام کے خلاف کام ہوتا ہوا دیکھیں تو اپنی آواز متعلقہ حکام تک پہنچائیے۔ اپنا فرض تو ادا کیجیے! ایک دو بار کی کوشش کی ناکامی کے بعد ہمت مت ہاریے۔ قطرہ قطرہ گرنے والا پانی، پتھر میں بھی سوراخ کر دیتا ہے۔ یہ تو پھر آپ جیسے گوشت پوست کے انسان ہیں۔

    شہر میں ٹریفک کے اصولوں کی پاسداری کس حد تک کی جاتی ہے، اس کا مشاہدہ آئے روز کرتے ہیں۔ اسی ایک نظام سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آپ میں ذمہ داری کا احساس کس حد تک پایا جاتا ہے۔ جس اشارے پر وارڈن موجود ہے وہاں بڑے نظم کے ساتھ ٹریفک قوانین کی پابندی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، اور جس جگہ نگران موجود نہیں ہے، وہاں بے دھڑک اشارہ توڑ دیا جاتا ہے۔ مستزاد یہ کہ اسے اپنی بہادری کی دھاک بٹھانے کے تناظر میں لیا جاتا ہے، حالانکہ بہادری تو یہ ہے کہ آپ خود اصولوں کی پاسداری کریں اور کسی دوسرے کی طرف سے اس کی خلاف ورزی پر خاموش تماشائی نہ بنیں، بلکہ اس غلط فعل کی مذمت کے لیے آواز اٹھائیں۔

    ہم سب نے یہ الفاظ سن رکھے ہیں: ’’نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے‘‘ اس تناظر میں ہم نماز پڑھتے جاتے ہیں اور ہر وہ کام بھی کیے جا رہے ہیں جس کی ممانعت ہے۔ اور سمجھ یہ رہے ہیں کہ نماز پڑھ لی بس اب ہم سے کوئی برائی سرزد نہیں ہو سکتی، اگر الفاظ پر غور کیا جائے تو وہاں ’’روکتی ہے‘‘ کے الفاظ ہیں، ’’روک دیتی ہے‘‘ کے الفاظ نہیں ہیں۔ اپنے ارادے کی پختگی سے آپ کو خود برے کاموں سے رکنا ہو گا، ہر برائی سے خود کو بچانا ہوگا۔ نماز پڑھنے کے بعد ہر قبیح فعل آپ کے لیے جائز نہیں ہو جائےگا۔ بے ایمانی کے کاموں میں ایمان داری دکھانے کے بجائے ایمان داری کے امور پوری دیانت سے انجام دیجیے۔ اسی میں سب کی بھلائی ہے۔

  • انسانی ضرورت، نظام یا انتظام؟ نصیر احمد ناصر

    انسانی ضرورت، نظام یا انتظام؟ نصیر احمد ناصر

    نصیر ناصر وطن عزیز اپنے قیام کے دن سے ہی انقلابات کی یلغار مسلسل سہہ رہا ہے، حالیہ دور میں کہیں سونامی سے تقدیریں بدلنے کا غلغلہ ہے، تو کہیں کینیڈا میڈ انقلاب ریاست بچانے کے لیے کمر باندھے نظر آتا ہے، کوئی جمہوریت بچانے کے درد میں مبتلا ہے تو کوئی مارشل لاء کے نفاذ میں ہی عافیت کے سبق پڑھا رہا ہے، ایک طبقہ خودکش بمباروں کے ذریعے ’’نظامِ ظلم ‘‘ بدلنے کا داعی ہے تو دوسرا اپنے ہی ملک کی آبادی کو ڈرون حملوں سے تہس نہس کرا کے تبدیلی کے خوش نما مناظر دکھا رہا ہے.

    انقلاب اور تبدیلی کی خواہش اور امید کے ساتھ 70سال کا طویل دورانیہ گذارتے گذارتے اس بے کس قوم کی کتنی ہی نسلیں ناامیدی کی موت مرچکی ہیں اور موجود نسلوں میں سے ہر پیر و جواں نت نئے انداز کے نعروں اور وعدوں کو دیکھتے ہوئے آج اس حالت کو پہنچ چکا ہے کہ اسے ہر قائد انقلاب مداری، ہر طرزِ انقلاب دھوکہ، اور ہر منزل انقلاب سراب نظر آتی ہے، اور ہر لگنے والے تماشے کے بعد نئے تماشے کا انتظار شروع ہوجاتا ہے. نصف صدی سے زائد مدت میں پارلیمانی، صدارتی، سول و فوجی آمریت سمیت ہر اس نظام کو اس ملک کی بدقسمت عوام پر تجرباتی بنیاد پر آزمایا گیا ہے، جس کا تصور بھی دنیا کے کسی دوسرے خطے میں ممکن نہیں، رنگ برنگی دستوری موشگافیوں، آئینی ترمیموں، قانون سازی اور نام نہاد عوامی و قومی مفاد کے بینر تلے نمائش کے لیے پیش کی گئی ہارر، فنی اور ٹریجڈی فلموں کے ذریعے عوام کے اعتبار، وقار اور جان و مال کو حصول اقتدار کا ذریعہ بنا کر ملک و قوم کو پستی و تباہی کے پاتال میں دھکیلنے کا سلسلہ جاری ہے، اور اس مکروہ کھیل میں صرف خون آشام سیاسی اشرافیہ ہی نہیں، جبہ ودستار کے حاملین بھی پوری تندہی اور جانفشانی سے شریک ہیں، جن کی سیاسی میدان میں ’’عوامی خدمات‘‘ نے عوام کو صرف’’ اسلامی سیاست ‘‘سے ہی بیزار نہیں کیا بلکہ ’’اسلام‘‘جیسے نفیس اور کامل ضابطہ حیات سے بھی برگشتہ کرنا شروع کردیا ہے.

    ایوان ہائے اقتدار تک ہرجائز یا ناجائز طریقہ سے پہنچنے والے تمام سیاسی و مذہبی رہنماؤں اور فوجی آمروں نے قوم اور ملک کے ساتھ کھلواڑ کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا، لیکن عوام کے مفادات کی نام نہاد جنگ میں برسر پیکار ان رہنمایان قوم کے کوڑھ زدہ دماغوں میں کبھی ایک لمحہ کےلیے بھی یہ خیال نہیں گزرا کہ ریاست ہو یا حکومت، جمہوریت ہو یا آمریت، ان سب کی بنیاد انسانی معاشرہ ہے، جس کی ابتداء و انتہاء ’’انسان‘‘ہے. حکومت اور نظام حکومت کا وجود انسانی معاشرہ کی فلاح وبقا کے لیے تشکیل پاتا ہے، نہ کہ علاقہ، ملک یا خطہ زمین کے لیے، یہی وجہ ہے کہ ہر ترقی یافتہ معاشرہ اور ریاست میں ہمیشہ ریاست وحکومت کی تمام تر ذمہ داریوں کا محور ’’انسان‘‘کو بنایا گیا ہے، اور اسی نظریہ کی بنیاد پر ریاستیں اور حکومتیں اپنے شہریوں کی عزت وحرمت، جان ومال کی حفاظت اور فلاح وبہبود کےلیے آخری حد تک چلی جاتی ہیں، اور ان کے نزدیک ہر وہ چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی سخت ترین گرفت کا موجب قرار پاتا ہے، جو ریاست کے بنیادی عنصر ’’انسان‘‘ کی بقا و ترقی اور فلاح کو متاثر کرتا نظر آئے، اور یہ خصوصیت کسی مخصوص ’’نظام ‘‘سے نہیں بلکہ’’ انتظام ‘‘کے ذریعے حاصل کی جاتی ہے.

    لیکن شاید منظم دنیا میں پاکستان واحد ملک ہے جہاں آج تک انتظام کے بجائے نظام سے تبدیلی لانے کی خواہش لاحاصل نے جنت ارضی کے مصداق اس ملک کو نہ صرف ایک انوکھی تجربہ گاہ میں بدل ڈالا ہے بلکہ اقتدار کے بھوکے بھیڑیوں نے ہوس اقتدار اور دوامِ اقتدار کےلیے حکومتی اداروں، نظام حکومت اور عناصر ریاست کےلیے ریاست و حکومت کے بنیادی محور’’انسان‘‘ کے بنیادی حقوق کی پامالی، انصاف کی عدم فراہمی، حقوق معیشت کی سلبی، اور امن و تحفظ سے محرومی کو صرف حلال ہی قرار نہیں دیا بلکہ انسانی خون کو بھی غیر تحریری معاہدہ کے تحت جائز قرار دے رکھا ہے. سیاسی، سماجی، مذہبی و معاشی اور ریاستی و حکومتی طاقت و قوت کے بل بوتے پر انسانوں کو انسانوں پر ظلم و بربریت کے تمام تر اختیارات تفویض کرکے اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ عوام جمہوریت پسند کرتے ہیں یا آمریت، صدارتی نظام کے دلدادہ ہیں یا پارلیمانی نظام کے خواہاں، بنیادی جمہوریتوں سے لطف اٹھانا چاہتے ہیں یا سول آمریت سے؟ ان سب سوالوں کا شافی جواب صرف ان ماؤں سے لیا جا سکتا ہے جن کی گودیں اس ظالمانہ انتظام نے اجاڑ ڈالی ہیں، اور یہ خون خرابے کا سلسلہ تھما ہے اور نہ رکنے کے کوئی آثار نظر آرہے ہیں، کیوں کہ نام نہاد انقلابیوں کے روزگار کا واحد ذریعہ بھی انسانی خون ہے اور عوام کے دکھ میں ہلکان ہوتے حکمرانوں کے اقتدار کےلیے آبِ حیات بھی یہی انسانی خون قرار پاچکا ہے.

    مسلسل تجربات سے تھکی ہاری اور نت نئے عذابوں میں مبتلا قوم کےلیے نظام کے نام یا طرز میں کوئی چاشنی باقی ہے نہ نعروں اور وعدوں میں کوئی دلکشی، عوام تو ایسے انتظام کے خواہاں ہیں جس میں انسان کی توقیر سلامت رہے، عزت وحرمت محفوظ ہو، معاشی، سماجی، مذہبی حقوق اور ترقی کے یکساں مواقع میسر ہوں، بلاتفریق حصول ِانصاف کا حق میسر ہو، اور کوئی بھی فرد یا ادارہ، گروہ یا جماعت، طبقہ یا مسلک کسی دوسرے کے حقوق غصب نہ کرسکے، ایسا انتظام جس نظام نے بھی فراہم کردیا، وہی نظام کامیاب بھی ہوگا اور عوامی امنگوں کا ترجمان بھی قرار پائے گا.