Tag: نتائج

  • خوش تو ہیں ہم بھی ’’نتائج‘‘  کی ترقی سے مگر؟ سید وقاص‌ جعفری

    خوش تو ہیں ہم بھی ’’نتائج‘‘ کی ترقی سے مگر؟ سید وقاص‌ جعفری

    1403082_950943444941841_901843455806731279_oپنجاب کے تعلیمی بورڈز نے چند روز قبل میٹرک پارٹ فرسٹ یعنی نہم کے نتائج کا اعلان کیا ہے۔ اس لحاظ سے نتائج میں کوئی خبریت نہیں کہ ابلاغیات کی زبان میں’’لڑکیوں‘‘ نے ایک بار پھر میدان مار لیا ہے۔ نتائج کے اعلان کے بعد تو کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ چھاج تو چھاج، چھلنی بھی بولنے لگی ہے۔ کیا اسکول، کیا اکیڈمی، کیا استاد اور کیا والدین!! محسوس یہی ہوتا ہے کہ ہر اسکول اور ہر اکیڈمی نے ٹاپ کیا ہے۔ بینرز، فلیکس، اشتہارات، مبارکباد، انعامات اور جو رہ گئی کسر وہ بڑے تعلیمی اداروں کی طرف سے ترغیبات نے پوری کردی۔ گذشتہ ماہ یہ منظر ہم نے میٹرک کے نتائج کے موقع پر دیکھا۔ ٹاپرز کو انعام میں کار، موٹر سائیکل دینے والے ادارے اِن بچوں اور بچیوں کو اخبارات میں اپنے کریڈٹ اور تعلیمی معیار کے ثبوت کے طور پر پیش کر رہے ہیں بھلا کوئی ان سے پوچھے حضور! آپ نے یہ ٹیلنٹ تراشا ہے یا خریدا ہے مگر نقار خانے میں طوطی کی آواز بھلا کون سنتا ہے.

    بات ذرا دور نکل جائے گی۔ نہم کے امتحانات میں ایک یا دو طالبات نے 505 نمبرز میں 504 نمبر حاصل کیے ہیں، گویا ان کے مجموعی نمبروں سے صرف ایک نمبر کاٹا گیا ہے۔ ہم اپنی اس بیٹی کی کامیابی کا مزہ کِرکرا نہیں کرنا چاہتے۔ بلاشبہ ایسے طلبہ و طالبات ادارے، خاندان، شہر اور ڈویژن بھر کے لیے عزت اور فخر کا باعث ہیں۔اِس طرح ہمارے ایک دوست نے اپنے کسی عزیز کے505 میں سے501 نمبر آنے پر گلہ کیا ہے کہ نہ جانے کس شقاوتِ قلبی سے ’’سنگدل‘‘ ممتحن نے دستِ قابل سے چند نمبر نوچ پھینکے ہیں۔ 490 نمبر لینے والے طلبہ و طالبات تو ہر بورڈ میں شاید ہزاروں سے کم نہ ہوں۔ خوگرِ حمد سے تھوڑا سا گلہ کے مصداق اس موقع پر ہم کچھ گزارشات والدین، اساتذہ، بورڈ انتظامیہ اور حکومت کے کار پردازان کی خدمت میں پیش کرنا چاہتے ہیں۔

    ہم سمجھ نہیں پا رہے کہ جائزہ، پیمائش کے وہ کون سے اصول اور کلیے ہیں جس کی بنا پر میٹرک کے امتحانات میں اس قدر قریب مارجن سے نمبر آجاتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ ریاضی وہ واحد مضمون تھا جس میں صد فی صد نمبر آیا کرتے تھے اس کے علاوہ کسی مضمون میں فرسٹ ڈویژن آجانا طالب علم کے لیے کامیابی کا عروج ہوا کرتا تھا۔ یہ ٹھیک ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ امتحانات اب تحریری (descriptive) کے بجائے ملٹی پل چوائسز، کوئز اور مختصر نویسی پر منتقل ہوگئے ہیں لیکن اس سب کے باوجود طلبہ کو محض ’’نگ گننے‘‘ (counting) تک محدودنہیں ہونا پڑتا، انہیں بیالوجی، کیمسٹری، فزکس، اردو، اسلامیات، مطالعہ پاکستان اور انگریزی میں بہرحال کچھ نہ کچھ بیان (describe) کرنا پڑتا ہے. ہماری رائے میں بورڈز کے ذمہ داران کو اس پر ضرور غور کرنا چاہیے کہیں ایسا نہ ہو کہ امتحانات کا یہ پورا عمل ہی مشکوک ہوجائے۔ پنجاب نے ایک حد تک اپنے نتائج اور تعلیمی بورڈز کی لاج رکھی ہوئی ہے۔ اتنے متعین (accurate) نمبرز تو شاید مغرب کی اُن الیکٹرانک مشینوں سے بھی نہیں لگائے جاسکتے جو وہاں کے تعلیمی اداروں میں طلبہ کے امتحانی پرچوں کی آٹو میٹک طریقے سے جانچ پرکھ کرتی ہیں۔

    اچھے نمبر لینا، نمایاں پوزیشنز حاصل کرنا اور بورڈ میں قابل اعزاز ٹہرنا بجا طور پر قابل تعریف، مگر ہر قیمت پر نمبر، زیادہ سے زیادہ نمبر اور اچھے نمبرز کے حصول کو قابلیت، لیاقت اور ذہانت کی معراج مان لینا ماہرین کے نزدیک بھی درست روّیہ نہیں۔ نمبرز کی اس نہ ختم ہونے والی دوڑ نے بہت سارے مسائل پیدا کردیے ہیں جو صرف تعلیمی اور مادّی نہیں اخلاقی اور نفسیاتی بھی ہیں۔ میٹرک، ان معنوں میں کیرئیر کے انتخاب کا مرحلہ نہیں ہوتا۔ تاہم اس درجے کے تعلیمی نتائج کو جس hype کے ساتھ مرتب، اعلان اور propagate کیا جاتا ہے، وہ کئی طرح کی پیچیدگیوں کا باعث بن رہا ہے۔ چونکہ یہاں سائنس کے مضامین کو ہی ترجیح دی جاتی ہے، شور اِسی کا زیادہ ہے۔ اس نمبر گیم نے بچوں کو تو نفسیاتی طور پر دباؤ سے دوچار کیا ہوا ہوتا ہے، والدین اور اساتذہ بھی کم زیرِ بار نہیں ہوتے۔ والدین کی جیب اور اساتذہ کی نوکری یا ترقی ہر آن سُولی پر ٹنگی دکھائی دیتی ہے۔ سالِ رواں کے آغاز میں حکومت پنجاب نے بظاہر والدین کے اصرار پر تعلیمی اداروں کی فیسوں کو ریگولیٹ کرنے کی (زیادہ) سیاسی اور انتظامی (غیر مخلصانہ) کوششیں کیں تو زیریں متوسط کلاس کے اکثر تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کو بقا کے مسئلے سے دوچار ہونا پڑا۔ کیا کوئی جانتا ہے کہ بڑے شہروں میں 7،6 گھنٹے کی ریگولر سکولنگ کے مقابلے میں شام کے اوقات میں چند گھنٹوں کے لیے اکیڈمیاں ایک طالب علم سے 7000/- روپے ماہانہ وصول کرتی ہیں۔ بچے صبح کے اوقات میں نام کی حد تک بورڈ کے قواعد کو پورا کرنے کے لیے تو ان اسکولز میں رجسٹرڈ ہوتے ہیں جبکہ زیادہ نمبر لینے کی دوڑ میں اصل بادشاہ گر یہی اکیڈیمیز ہیں جنہوں نے ایک مخصوص نفسیاتی فضا میں والدین اور طلبہ کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔

    بورڈ کے امتحانات اور بعد ازاں اِنٹری ٹیسٹ میں ایک طالب علم اپنی تمام تر قابلیت کے باوجود خاص مقدار میں نمبر نہ لے پانے پر جس نفسیاتی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتا ہے اس کا اندازہ شاید ماہرین نفسیات و سماجیات زیادہ بہتر طور پر کرسکتے ہیں۔ ہمارے جاننے والوں کی ایک بچی صرف اس وجہ سے نروس بریک ڈاؤن سے بال بال بچی کہ اس کے نمبر 478کے بجائے 480کیوں نہیں آئے؟

    ان امتحانات کاایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ گذشتہ کئی سالوں سے طلبہ اعلیٰ نتائج اور پوزیشن کے حوالے سے ’’ہر چند ہیں کہ نہیں ہیں‘‘ کا نمونہ بنے ہوئے ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اہل علم، سماجی ماہرین اور اربابِ اختیار کے لیے یہ کوئی فکرمندی کا موضوع ہے یا نہیں، مگر اس سے سرسری طور پر عہدہ برآ نہیں ہوا جاسکتا۔ خواتین کے لیے تعلیم، ترقی اور ایک حد تک روزگار کے مواقع و امکانات سے انکار نہیں کیا جاسکتا مگر متعدد انتظامی، سماجی، معاشی اور طبعی مصالح کے پیش نظر طلبہ کا تعلیم کے اِن مدارج میں پیچھے رہ جانا یا آگے نہ بڑھ پانا ایسا عمل نہیں جس سے سرسری طور پر گزر جایا جائے۔ ذرا گہرائی میں جاکر اس کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ معاشرے کو چلانے، بالخصوص ایک خاص دائرے میں چلانے کے لیے بہرحال مردوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا بصورت دیگر سماجی اور انتظامی مسائل بڑھتے جائیں گے۔ یہ بات خود مجموعی طور پر اہل دانش کے سوچنے کی بھی ہے اور ان کے لیے بھی فکرمندی کا باعث ہے جو ایسے معاملات پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ خواتین کے بہت سے فضائل اور مسائل کی بنا پر معاشرے کے ہر دائرے اور زندگی کے ہر شعبے میں یکساں مہارت اور آسودگی سے کام کرنا ممکن نہ ہوگا۔ کسی نے ٹھیک ہی کہا کہ عضویاتی قوانین (physiological) بھی اُتنے ہی اٹل ہیں جس قدر فلکیاتی قوانین (universal)۔ بالکل قریب میں میڈیکل کے شعبے کے اعداد و شمار ہمارے سامنے ہیں جہاں زیادہ تر داخلے لینے والوں میں طالبات شامل ہیں جب کہ انہی فارغ التحصیل طالبات میں طب کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد میڈیکل پریکٹس کو جاری رکھنے کا تناسب، تعلیم حاصل کرنے کی نسبت بہت کم ہے. اس حوالے سے PMDC کے اعداد و شمار سے تصدیق کی جاسکتی ہے۔

    اس ضمن میں ایک اور بات بھی کہی جاسکتی ہے کہ سالانہ تحریری، امتحانات کبھی بھی کسی طالب علم کی قابلیت کو جانچنے کا پیمانہ نہیں ہوا کرتے۔ ہمارے ہاں یہ صرف یادداشت اور رفتار کی پیمائش کا ذریعہ رہ گئے ہیں۔ دنیا طالب علموں کی جانچ پرکھ کے حوالے سے نہ جانے کہاں پہنچ چکی ہے۔ طالب علموں کو پرائمری تعلیم کے دوران اُن کے مخصوص رجحانات کی بنیاد پر درجنوں نہیں سینکڑوں پیشوں اور مہارتوں کی طرف رہنمائی دی جارہی ہے مگر ہم ابھی تک میڈیکل، انجیئرنگ، میٹرک ایف ایس سی کے گرداب سے باہر آنے کے لیے تیار نہیں۔

    چند اہم پیشوں کی بنیاد پر عزت کو متعین کرنے کا taboo نہ جانے کب ٹوٹے گا؟ تعلیم کے میدان میں صف اوّل کے ممالک نے امتحانات، جائزے، نصابیات اور طریقہ ہائے تدریس کو نئے مفہوم عطا کردیے ہیں جبکہ ہم ابھی تک نصف صدی پرانے نظام کی لکیر کو پیٹ رہے ہیں۔ گزشتہ روز سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ایک امریکی اسکول کی انتظامیہ کا خط پڑھنے کو ملا جو اُن والدین کے نام لکھا تھا جن کے بچے امتحانات میں شریک ہونے جا رہے تھے۔ ذرا نفسِ مضمون ملاحظہ فرمائیے۔

    پیارے والدین!
    آپ کے بچے کے امتحانات جلد شروع ہو رہے ہیں، آپ بجا طور پر اپنے بچے کی کامیابی کے لیے متفکر ہوں گے۔ براہِ کرم یہ ضرور یاد رکھیے کہ امتحان دینے والے بچوں میں ایک آرٹسٹ (فنکار) بھی ہوگا جو شاید ریاضی میں زیادہ دلچسپی نہ لیتا ہو۔ ممکن ہے ان امتحانات میں کوئی اِنٹرپرینئر بھی ہو جسے انگلش لٹریچر اور تاریخ کے مضمون سے رغبت نہ ہو۔ جن بچوں سے آپ اعلیٰ نمبروں کی توقع رکھتے ہوں ان میں کوئی کھلاڑی ہو جس کے لیے فزیکل فٹنس، فزکس کے مضمون سے زیادہ اہمیت کی حامل ہو۔ کوئی خوش گُلو، خوش آواز ایسا بھی ہوسکتا ہے جس کے لیے کیمسٹری کوئی اہمیت نہ رکھتی ہو۔ اگر آپ کابچہ اچھے نمبر حاصل کرلیتا ہے تو فبھا۔ اگر وہ ایسا نہ کرسکے تو براہ کرم اُن سے اُن کی خودی اور اعتماد مت چھینئے۔ انہیں بتائیے کہ یہ کوئی زندگی کا اختتام نہیں بلکہ صرف ایک امتحان ہے۔ انہیں زندگی میں ابھی اور بڑے کام کرنا ہیں۔ اگر ان کے نمبر کم بھی ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کی محبت ان کے لیے کم ہوگئی ہے جسے نمبروں سے جانچنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ہماری معروضات کو پیش نظر رکھیئے اور دیکھیے کس طرح آپ کا بچہ زندگی کو فتح کر رہا ہوگا۔ ایک امتحان یا کم نمبر آپ کے بچے کے خواب اور قابلیت کو ضائع نہیں کرسکتے۔ اور آخری بات یہ کہ مت سمجھیے کہ ڈاکٹرز یا انجینئرز ہی صرف اس دنیا کے خوش نصیب ترین فرد ہیں۔

    مضمون کی طوالت ہمیں پابند کر رہی ہے ورنہ یہ موضوع سب سے اہم ہے کہ ہر سطح کے تعلیمی اداروں میں اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والا جوہر قابل کیا اپنے تعلیمی اداروں سے وہ تربیت، ہمت اور جذبہ کشید کر رہا ہے جو اُسے معاشرے کے ناسوروں پر مرہم رکھنے کے قابل بناسکے۔ جدید دنیا پرائمری میں پڑھنے والے بچوں کو اِیکٹو سٹیزن بنانے کا عملی پلان وضع کرچکی ہے۔ مغرب اپنے مسائل کی انتہا پر آکر معاشرے اور تعلیمی ادارے کو ہم آہنگ کرنے کے لیے connecting classrooms کی بات کر رہا ہے ہماری اسلامی تاریخ میں تعلیم ہمیشہ تربیت کے پہلو بہ پہلو معاشرے کو سنوارتی رہی ہے۔

    ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں، ماہرین تعلیم کے لیے یہ موضوع بھی اچھی تعلیم اعلیٰ تعلیم اور معیار تعلیم کے زیادہ نہیں تو اس کے برابر اہمیت ضرور دیں۔

  • رزلٹ، مایوسی، خود کشی، ذمہ دار کون؟ – حنا نرجس

    رزلٹ، مایوسی، خود کشی، ذمہ دار کون؟ – حنا نرجس

    ابھی دلیل ڈاٹ پی کے پر کبیر علی صاحب کی تحریر بعنوان “بچوں میں خود کشی کا رجحان اور والدین” نظر سے گزری. بہت عمدگی سے وجوہات اور ان کے ممکنہ حل کو زیر بحث لایا گیا ہے. اس سلسلے میں مجھے بھی اپنے تجربے و مشاہدے کی بنا پر کچھ باتیں عرض کرنا ہیں.

    1. سب سے پہلے تو والدین کے ذہن میں حصولِ علم کا مقصد بالکل واضح ہونا چاہیے اور بچوں کو بھی بار بار یاد دہانی کرواتے رہنا چاہیے.

    2. دینی و دنیاوی دونوں طرح کی تعلیم کو ساتھ لے کر چلنا ضروری ہے. ویسے میں تو اس تفریق کو بھی تسلیم نہیں کرتی کیونکہ عرفِ عام میں جسے دنیاوی تعلیم کہا جاتا ہے، وہ اس کائنات سے متعلق ہی ہے نا. کائنات اور تخلیقِ کائنات پر غور کرنے کی دعوت تو خود قرآن مجید میں بار بار دی گئی ہے. فزکس، کیمسٹری، بائیالوجی، ہسٹری، جیوگرافی، میتھس، باٹنی، زولوجی، گائنی وغیرہ وغیرہ، قرآن ان سب پر بات کرتا ہے اور غور و خوض کی دعوت دیتا ہے. اور اب تک یہی دیکھا ہے کہ ان علوم پر دسترس رکھنے والے قرآن مجید کو دوسروں کی نسبت بہتر طور پر سمجھتے ہیں. مقصد یہی ہے کہ مخلوق سے خالق تک کا سفر طے کیا جائے. خیر اس وقت یہ میرا موضوع نہیں، لہذا واپس اپنی بات کی طرف آتی ہوں.

    3. بہت سے ماں باپ اپنی ناتمام خواہشات کی تکمیل اپنی اولاد کے ذریعے چاہتے ہیں اور من پسند نتائج حاصل کرنے کے لیے وہ یہ بنیادی نکتہ ہی بھول جاتے ہیں کہ ہر بچے کی اپنی ایک شخصیت اور مزاج ہے. وہ بیک وقت بہت سی صلاحیتوں کا حامل ہونے کے ساتھ ساتھ بہت سی کمزوریاں بھی رکھتا ہے.

    4. مجھے کہنے دیجیے کہ موجودہ والدین اور اساتذہ کی ایک بڑی تعداد خود بنیادی تربیت سے محروم ہے. اکثر و بیشتر بصیرت اور تحمل نہیں رکھتے.

    5. ماں باپ خود دو انتہاؤں کا شکار ہیں. اگر ایک سال وہ بچے کو خود وقت نہیں دے پائے، کسی اچھے استاد یا اکیڈمی کا انتظام نہیں کر پائے تو بچے کا رزلٹ آنے پر دانستہ آنکھیں بند کر لیں گے اور نظر انداز کر دیں گے. پھر اگلے سال جب ان کی پڑھائی پر وقت اور پیسہ دونوں لگائیں گے تو متوقع رزلٹ سے چند نمبر کم آنے پر بھی سیخ پا ہو جائیں گے اور اساتذہ سے سخت لہجے میں باز پرس کرنے سے بھی نہیں چوکیں گے. یہ سلسلہ ادل بدل کر یوں ہی چلتا رہے گا.

    6. مسابقت یقیناً اچھی چیز ہے لیکن اس کو مثبت حد کے اندر رکھنا از حد ضروری ہے. مشاہدے میں یہی آیا ہے کہ اس جذبے کو خطرناک حد تک لے جانے میں زیادہ تر ہاتھ والدین کا ہی ہوتا ہے.

    7. انسان خطا کا پتلا ہے. ضروری نہیں ہے کہ آپ بچے کو اچھے سکول میں پڑھا رہے ہیں. دو اکیڈمیز کا بھی انتظام کر لیا ہے. اس پر مستزاد ویک اینڈ پر کچھ قابل اساتذہ سے الگ سے بھی کچھ گھنٹے لے رکھے ہیں. تو اب بچے کی پہلی پوزیشن یقینی ہے. ایسے والدین جب بچے کے ایک دو نمبر سے پہلی پوزیشن نہ لے سکنے پر ٹوٹے بکھرے، الجھے، اپنا سر تھامے ہمارے پاس آتے ہیں تو ہمارے پاس ان کے لیے صرف ایک ہی جذبہ ہوتا ہے، ترس. یہ بیچارے خود قابل رحم ہیں. آپ سوچیے 98 فیصد نمبر جو بچے نے لیے ان سے تو آنکھیں بند کر لی جائیں، جو 2 فیصد رہ گئے ان کی وجہ سے بچے کو ہر ایک کے سامنے ذلیل و رسوا کیا جائے کہ “یہ لے سکتا تھا. یہ لے سکتی تھی. بس اسے ہماری عزت کی پرواہ نہیں. کیا کمی رکھی ہم نے اس پر خرچ کرنے میں..” اور ہم بے بسی کے ساتھ ایسے بچے کے مستقبل کے لیے دعا ہی کر سکتے ہیں. والدین کوئی اپنی مرضی سے تو منتخب نہیں کر سکتا نا!

    8. شاید آپ کو لطیفہ ہی لگے مگر ہمارے جاننے والوں میں ایک بچہ ایسا ہے (ایف ایس سی کا)، جس کی زندگی کا واحد مقصد نمبر لینا ہے. کیوں؟ مستقبل کے کیا منصوبے ہیں؟ کیا کسی سے مقابلہ ہے، بیٹا؟ نہیں کچھ بھی نہیں. بس نمبر لینے کا شوق ہے. صحت، نشوونما، دوست، کھیل کود، حتی کہ موبائل فون ? کسی چیز میں بھی دلچسپی نہیں. سوچیے، یہ شوق دلانے کے ذمہ دار کون ہیں؟ کیا بچے کا غیر متوازن طرز زندگی ان کی آنکھوں سے اوجھل ہے؟

    9. کچھ والدین نمبروں کے جنون میں اس حد تک مبتلا ہیں کہ بچوں کو نماز تک سے منع کرتے ہیں کہ وقت ضائع ہوتا ہے. العیاذ باللہ. اگر بچہ نماز پڑھنا چاہتا ہے تو چھپ کر اور چوری پڑھتا یا مسجد جاتا ہے.

    10. موت کا کوئی وقت مقرر نہیں. ایف ایس سی تک تو اکثر والدین بچوں کے ساتھ ساتھ خود بھی دن رات ایک کیے ہوئے ہوتے ہیں کہ بچے کا ایڈمشن ان کی خوابوں کی یونیورسٹی میں ہوجائے، تو پھر ایک ہی بار رک کر سکھ کا سانس لیں گے. کتنے ہی بچے اسی دوڑ میں دوڑتے، اسی چکر میں بل کھاتے، فرسٹریشن کا شکار رہتے، اپنی صحت اور آرام سے بے پرواہ، ہنسنے بولنے کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں تک سے محروم، سرپٹ بھاگ رہے ہوتے ہیں کہ اللہ کی طرف سے بلاوا آ جاتا ہے. ? مگر بچے کو دین کی تعلیم تو ابھی دی ہی نہیں گئی تھی! قرآن کے ساتھ تو جوڑا ہی نہیں گیا تھا! مقصدِ تخلیق سے تو آگاہ ہی نہیں کیا گیا تھا!

    11. ایک فیملی کے بچے دین و دنیا، تعلیم و عمل، صحت و غیر نصابی سرگرمیوں ماشاء اللہ سب میں ہی اللہ کی طرف سے خصوصی طور پر نوازے گئے ہیں. چند سال قبل جب وہ سکول سے بہترین رزلٹ کے ساتھ فارغ ہوئے تو ان کے ہم جماعت ساتھی بہت غور و خوض کے بعد اس کے نتیجے پر پہنچے کہ یہ سب دعاؤں کی وجہ سے ہے. دیکھا نہیں ہر نماز مسجد میں پڑھتے ہیں اور نماز کے بعد کیسے لمبی لمبی دعائیں کر رہے ہوتے ہیں ? ان معصوموں کا خود بخود یہ نتیجہ نکالنا مجھے سچ مچ لطف دے گیا.

    12. اب آتے ہیں حل کی طرف، تو سب سے زیادہ ضرورت اس ایشو پر والدین کو سمجھانے کی ہے، خواہ اس کے لیے جمعہ کے خطبہ میں بات کی جائے یا دوسرے پلیٹ فارمز پر.
    اوپر جس تحریر کا حوالہ دیا، اس میں رزلٹ پر خودکشی کی دو وجوہات بتائی ہیں:
    بچوں کی اپنی کمزوری
    والدین کی طرف سے دباؤ
    مگر دیکھیے نا پہلی وجہ بھی تو والدین ہی کی ناسمجھی سے پھلتی پھولتی ہے. شخصیت میں کسی بھی طرح کی کمزوری کے حامل بچے کی خصوصی مدد والدین کو خود بھی کرنی چاہیے اور اپنے دوسرے بچوں سے بھی کہنا چاہیے. کچھ کمزوریاں فطری ہوتی ہیں، بچے کی خصوصی مدد والدین کو خود بھی کرنی چاہیے اور اپنے دوسرے بچوں سے بھی کہنا چاہیے. کچھ کمزوریاں فطری ہوتی ہیں، بچے کو ان سمیت قبول کیا جانا چاہیے.

    اس بات پر اختتام کروں گی کہ اچھے نمبر لینے کے لیے طالب علموں کو چار چیزوں پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے.
    1. اپنے دینی فرائض کی ادائیگی (نقل نہ کرنا بھی اسی کے تحت آ جائےگا)
    2. اساتذہ کا ادب اور ان کی غیبت سے اجتناب
    3. استطاعت بھر محنت
    4. بہت ساری دعا

  • آزاد کشمیر الیکشن کے نتائج – کامران اختر گیلانی

    آزاد کشمیر الیکشن کے نتائج – کامران اختر گیلانی

    کامران اختر گیلانی کشمیر الیکشنز کے نتائج اگرچہ اسی پیٹرن پر متوقع تھے مگر اس قدر یکطرفہ ہونے کی توقع شاید خود فاتح جماعت کو بھی نہیں تھی. گو کہ اپوزیشن کی طرف سے ٹاپ لیڈرشپ مکمل قوت کے ساتھ انتخابی مہم میں بروئے کار آئی مگر نتائج پر کسی بھی قسم کا اثر مرتب کرنے کی صلاحیت سے یکسر محرومی نے اس کی قائدانہ صلاحیتوں، عوامی رائے کو متاثر یا تبدیل کرنے کی طاقت اور مقبولیت پر ایک بڑا سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے.

    اس سارے عمل سے فوری طور پر کیا نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں.

    1- ایک کامیاب اور پرامن الیکشن ہی جمہوریت کی روح اور جمہوری عمل کا اصل مظہر ہے. کشمیری عوام نے جمہوریت کے ساتھ اپنی کمٹمنٹ کا بھرپور اظہار کیا ہے جو کہ غیرجمہوری قوتوں کے لیے واضح پیغام ہے.

    2- تمام سیاسی جماعتوں نے بھرپور طریقے سے اس عمل میں حصہ لے کر اور اس الیکشن کو جاندار بنا کریقینا اپنے حصے کا کردار بخوبی ادا کیا.

    3- نتائج یقنیا کہیں نہ کہیں عام پاکستانی کی سوچ کی عکاسی بھی کرتے ہیں، کہ وہ فیالحال کسی نئے ڈرامے یا تھیٹر کو پذیرائی بخشنے کے موڈ میں نہیں ہے

    4- کشمیری عوام نے آنے جانے کے مشورے دینے والوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اس جماعت کا انتخاب کیا ہے جس کے بارے میں تاثر یہ دیا جا رہا تھا کہ اب اس کی مرکز میں حکومت چند دنوں کی مہمان ہے. اس عوامی سوچ کے رجحان کی پاکستانی عوام کی سوچ پر بھی تطبیق کی جا سکتی ہے.

    5- ایک مسلسل جمہوری عمل ہی عوام کی فلاح وبہبود کا اصل ضامن ہے. ہمیں یہ سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ ہمارے ملک میں کرپشن کی اصل وجوہات کیا ہیں. ان کا ادراک کیے بغیر تدارک ممکن نہیں. غیر جمہورِی قوتوں کی طرف سے پہلے تو کرپٹ لوگوں کی کھیپ تیار کی جاتی ہے، اور پھر انہیں بلیک میل کر کے اپنے مفادات کا تحفظ کروانے کی کوشش کی جاتی ہے. کرپشن کی اصل جڑ غیرجمہوری قوتوں کی یہی خفیہ اثر پذیری ہے. سیاست میں غیر جمہوری قوتوں کے اثر و نفوذ کو جس قدر کم کیا جا سکے اتنا ہی ملک اور عوام کے لیے بہتر ہے اور اسی سے ترقی ممکن ہے.

    6- کشمیریوں نے منفی اور گھٹیا طرز سیاست اور الزامات کے کلچر کو یکسر مسترد کر دیا ہے، اور اپنے پختہ سیاسی شعور کا شاندار مظاہرہ کیا ہے. اب یہ واضح ہو چکا ہے کہ عوام ووٹ کا فیصلہ کرتے وقت دشمن کے یاروں یا اس جیسی دیگر خرافات اور پراپیگینڈہ کو ذرا برابر خاطر میں لانے کو تیار نہیں. مزید یہ کہ برسراقتدار پارٹی کے حق میں ووٹ کا طعنہ دے کر کشمیریوں کے شعور کی توہین کا سلسلہ بند کیا جائے. کشمیریوں کی شرح خواندگی اور بحیثیت مجموعی طرز زندگی کا موازنہ شاید پاکستان کے کسی بھی حصے سے نہیں کیا جا سکتا. وہاں پہاڑ کی چوٹی پر رہنے والے غریبوں کا اسٹینڈرڈ آف لائف بھی اللہ کے فضل سے پاکستان کی مڈل کلاس سے کسی درجہ کم نہیں. ووٹ دینے کے اپنے معیارات ہیں کشمیریوں کے پاس اور اگرچہ کچھ چیزوں پر بحث کی جا سکتی ہے مگر آپ کو آمروں کو دعوتیں دینے کے بجائے ووٹ کا درست استعمال کشمیریوں سے سیکھنے کی ضرورت ہے

    7- جس بات کا مجھے ہمیشہ سب سے زیادہ قلق اور دکھ ہوتا ہے اور شاید اسی کے ردعمل میں خود کو چاہتے ہوئے بھی تبدیلی کے علمبرداروں کی حمایت سے معذور پاتا ہوں، وہ اس ملک میں ہر الیکشن کے بعد بعض دانشوروں اور تبدیلی کے علمبردار انقلابیوں کا عوام کے فیصلے کو تسلیم نہ کرنے کا رویہ ہے. ہر الیکشن کے بعد یہ عوام کو صلواتیں سناتے ہیں اور جہالت کے طعنے دیتے ہیں، جبکہ ان سب گالیوں کے اصل حقدار یہ خود ہیں اور انہیں یقینا آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر ہی یہ فضول مشق کرنی چاہیے

    جمہوریت جمہور کے فیصلوں کے احترام کا نام ہے. ناچ ناچ کر اپنے گردے فیل کر لینے کے باوجود اگر عوام ہر بار آپ کو مسترد کرتی ہے تو وجہ آپ کو اپنے اندر تلاش کرنے کی ضرورت ہے. عوام کی اجتماعی دانش اور بصیرت اس سے پہلے بھی اس ملک کی بھلائی پر ہی منتج ہوئی ہے اور آئندہ بھی ایسا ہی ہو گا. بے شمار مثالیں اس کے لیے پیش کی جا سکتی ہیں

  • فوری رد عمل کا مرض – رعایت اللہ فاروقی

    فوری رد عمل کا مرض – رعایت اللہ فاروقی

    بچہ جب تین سے چھ سال کا ہوتا ہے تو یہ اپنی والدہ سے پریوں کی کہانیاں سننے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ شروع میں والدہ اسے سلانے کے لیے یہ کہانیاں سناتی ہے لیکن پھر اسے اس کی ایسی عادت پڑ جاتی ہے کہ اگلے لگ بھگ تیس سال یہ قصے، کہانیاں اور تجربات سننا اپنا مستقل معمول بنا لیتا ہے. سات سال سے بلوغت تک کی عمر میں یہ دادا جان سے ان کی جوانی کے قصے سنتا ہے اور ہر دادا جان اپنے پوتے کو ایسے قصے ضرور سناتے ہیں جن میں وہ فلموں والے ہیرو کی طرح دس دس لوگوں کو پچھاڑتے نظر آتے ہیں. دادا جی نے جوانی میں دس دس بندے پچھاڑے ہوتے ہیں اور نہ ہی وہ خود کو ہیرو ثابت کرنا چاہتے ہیں بلکہ ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ بچہ یہ جان جائے کہ انسان کو حریف کی طاقت سے نہیں گھبرانا چاہیے اور بے خوف ہونا چاہئے کیونکہ اگر ایسا ہو تو خود سے بڑی قوت پر بھی غالب آیا جا سکتا ہے. پندرہ سے چوبیس سال کی عمر میں یہ بچے اب نوجوان ہوجاتے ہیں اور اب ان میں سے اکثر اپنے کسی ٹیچر کے قریب ہوجاتے ہیں۔ چونکہ مرحلہ اعلیٰ تعلیم کا درپیش ہوتا ہے اس لئے اپنے ٹیچر سے ایسا ہر نوجوان زیادہ تر ان کے دور طالب علمی کے واقعات سننے میں دلچسپی رکھتا ہے تاکہ اس کی روشنی میں وہ اپنا لائحہ عمل طے کر سکے۔ پچیس سے پینتیس سال کی عمر کے جوان عملی زندگی میں قدم رکھ رہے ہوتے ہیں جس کا انہیں تجربہ نہیں ہوتا سو یہ بڑی عمر کے لوگوں سے ان کے تجربات سننے میں دلچسپی رکھتے ہیں تاکہ ان کے تجربات سے استفادہ کر سکیں۔ ایسے جوانوں کو آپ دس مشورے دیدیں اور ساتھ ایک ذاتی تجربہ بتادیں تو یہ دس قیمتی ترین مشوروں سے زیادہ اہمیت آپ کے اس ایک ذاتی واقعے کو دینگے۔ اب چونکہ آپ جانتے ہیں کہ میں تو فیس بک پر مخاطب ہی نوجوانوں سے ہوتا ہوں اور حتیٰ المقدور انہی کو کوئی فائدہ پہنچانے کی کوشش کرتا ہوں اس لئے اکثر “میں” کا صیغہ استعمال کرتا ہوں اور اپنے تجربات بیان کرتا ہوں کیونکہ یہ نوجوانوں کے لئے وعظ و نصیحت اور مشورے سے بھی زیادہ کار گر رہتے ہیں۔ ایسی ہر پوسٹ پر نوجوانوں کے کمنٹس میں ان کے جذبات چھلک چھلک کر یہ بتا رہے ہوتے ہیں کہ تیر نشانے پر لگا ہے اور “میں” کے نتائج مرتب ہو رہے ہیں جبکہ پینتیس سے پینتالیس سال والوں میں سے بعض کو لگتا ہے کہ میں یہ ذاتی تجربات خود کو کوئی ہیرو شیرو ثابت کرنے کے لئے سناتا ہوں۔ یہ لمبی تمہید ایک “میں” کے لئے باندھی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ نوجوان اس پر غور فرمائیں اور اگر مناسب سمجھیں تو عمل کی کوشش کریں۔

    میں کسی قومی یا بین الاقوامی سطح کے واقعے پر فوری ردعمل نہیں دیتا۔ جبکہ آپ نوجوانوں میں سے اکثریت یہ غلطی کر رہی ہے کہ ایک جانب نیوز چینلز کو بریکنگ نیوز میں سبقت کی کوشش میں حقائق کو مسخ کرنے یا جھوٹی خبر کا طعنہ بھی دیتے ہیں اور پھر خود بھی فیس بک پر یہی کرنے لگ جاتے ہیں۔ اُدھر کسی نیوز چینل پر خبر بریک ہوتی ہے کہ فلاں جگہ دھماکہ ہو گیا ہے اور اِدھر آپ دہشت گردی کی مذمت کے ساتھ ساتھ اس بات پر بھی تشویش کا اظہار فرمانا شروع کردیتے ہیں کہ ضربِ عضب کے باوجود آج کا یہ واقعہ کیسے رونما ہوگیا ؟ اور یہ کہ انٹیلی جنس ایجنسیاں کیا کر رہی ہیں ؟ ابھی آپ کے فرینڈ آپ کے جذبات پر پھول نچھاور کر کر کے آپ کی “فہم و فراست” کی داد سے فارغ بھی نہیں ہوئے ہوتے کہ اُدھر خبر آجاتی ہے کہ کچھ دیر قبل ہونے والا دھماکہ گیس سلینڈر پھٹنے سے ہوا۔

    turkey-failed-coup-628x356ترک بغاوت کے معاملے میں تو یہاں تک ہوا کہ پانچ سے دس سال کے صحافتی تجربے سے خود کو “سینئر صحافی” سمجھنے والوں نے فوج کے اقتدار پر قبضے کی خبر بھی اپنی وال پر بریک کی جبکہ اردگان کے لیے ایسے جذبات کا بھی اظہار کرنا شروع کردیا جو کسی مرحوم کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ اس واقعے میں میرا طرزِ عمل یہ رہا کہ میں نے خبروں میں بغور دیکھا کہ ترکی میں انفولڈ ہوتے اس ایونٹ میں اب تک کیا کیا ہوچکا۔ میں نے دیکھا کہ

    (01) ترک فوج کے کچھ یونٹ نے دو پل بند کیے ہیں اور اور دو شہروں میں ٹینک لے کر نمودار ہوئے ہیں۔
    (02) ترک وزیر اعظم ہی نہیں بلکہ پوری کابینہ باغیوں سے محفوظ ہے۔
    (03) ترک صدر بیرون ملک ہیں اور باغیوں کی دسترس سے باہر ہیں۔
    (04) ترک دارالحکومت میں لڑاکا طیارے اور کچھ ہیلی کاپٹر نیچی پروازیں کر رہے ہیں۔
    (05) ترک آرمی چیف کا کوئی بیان جاری ہوا ہے اور نہ ہی ان کا کچھ اتہ پتہ ہے۔
    یہی کچھ میں نے دیکھا اور یہی کچھ آپ نے بھی دیکھا۔ آپ نے اس کے نتیجے میں خبر دی کہ اقتدار پر قبضہ ہوگیا اردگان حکومت ختم ہوگئی جبکہ میں نے ان پانچ باتوں سے پانچ نتائج اخذ کیے۔
    (01) وزیراعظم ہاؤس پر قبضے کے بجائے دو پلوں کے کنٹرول کو ترجیح دینے سے لگتا ہے کہ یہ بغاوت نہ صرف کسی جونیئر کے ہاتھوں ہو رہی ہے بلکہ وہ ہے بھی پرلے درجے کا احمق۔
    (02) اگر صدر اور وزیر اعظم ہی نہیں بلکہ اقتدار کے دونوں ایوان اور جمہوریت کا اہم ترین ادارہ یعنی پارلیمنٹ باغیوں کے قبضے میں نہیں ہیں تو نہ ترک حکومت ختم ہوئی ہے اور نہ ہی باغیوں کی حکومت قائم ہوئی ہے۔
    (03) ہیلی کاپٹر آرمی کا ہتھیار ہے جبکہ لراکا طیارہ ایئرفورس کا لھذا یہ عین ممکن ہے کہ ٹینکوں کو وارننگ دینے کے لئے ترک فضائیہ حرکت میں آگئی ہو۔
    (04) ماضی میں ہر بحران کے موقع پر اردگان نے عوام کو کال دی ہے اور وہ ہر کل پر لاکھوں کی تعداد میں نکلے ہیں۔ اردگان آج بھی ضرور کال دے گا اور عوام آج بھی نکلے گی۔ ترک فوج 14 سال سے اردگان کا کچھ اسی لئے نہیں بگاڑ پائی کیونکہ وہ جانتی ہے کہ ہر شہر میں لاکھوں انسانوں کا سیلاب آجائے گا۔ جسے کنٹرول نہیں کیا جاسکے گا۔
    (05) یہ موجودہ صورتحال ایک بے یقینی کی صورتحال ہے۔ ابھی یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

    یہ پانچ نتائج اخذ کرنے میں مجھے دس سے پندرہ منٹ لگے اور صاف ظاہر تھا کہ ابھی کوئی رائے قائم کرنا یا وہ رائے پیش کرنا ایک گمراہ کن حرکت ہوگی۔ چنانچہ میری وال خاموش رہی۔ بالآخر اردگان نے قوم کو کال دیدی اور لوگ نکلنے شروع ہوئے۔ جونہی ٹینکوں پر قبضے کی ابتدائی تصاویر آئیں۔ تب میں نے پہلی پوسٹ کی اور صرف اتنا کہا کہ لوگ نکلنے شروع گئے ہیں باغیوں کے ٹینک عوام قبضے میں لے رہے ہیں “لیکن کامیابی کس کو ہوگی یہ ابھی نہیں کہا جا سکتا” پھر جوں جوں صورتحال واضح ہوتی گئی میری تحریری پوسٹیں بھی آنی شروع ہویں۔ میری درخواست ہے کہ فوری ردعمل نہ دیا کیجئے اس سے لوگ گمراہ ہوتے ہیں اور آپ کو بھی شرمندہ ہونا پڑتا ہے۔ آپ میں سے جس جس نے ترک حکومت کے خاتمے کی خبر اپنی وال پر دی تھی، اگر وہ پوسٹیں اب بھی ہیں تو ایک نظر ان پر ڈال کر دیکھ لیجئے کہ آپ کیسا فیل کرتے ہیں۔