Tag: ناکامی

  • عمران خان، اپنی ناکامی کی وجہ خود ہیں – عبید اللہ عابد

    عمران خان، اپنی ناکامی کی وجہ خود ہیں – عبید اللہ عابد

    عبید اللہ عابددس لاکھ کا مجمع اکٹھا کرنے کا دعویٰ کرنے والے عمران خان اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں کہ انھیں سپریم کورٹ نے ایک راستہ دے دیا ورنہ وہ بڑی مشکل میں پھنس گئے تھے۔ دس لاکھ افراد تو بہت بڑی بات ہے، بمشکل دس ہزار افراد بھی ان کی مدد کو نہ پہنچ سکتے۔ ہو سکتا ہے کئی روز سے بنی گالہ میں بیٹھے ہوئے شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین، علیم خان وغیرھم اپنے چئیرمین سے کہہ رہے ہوں کہ ان کے”لاکھوں“ ساتھیوں کو حکومت پنجاب نے اسلام آباد آنے نہیں دیا۔ تاہم یہ حقیقت نہیں ہے۔ گزشتہ دھرنے میں بھی مذکورہ بالا رہنماؤں سمیت پارٹی کے ایم این ایز اور ایم پی ایز دیے گئے اہداف کے مطابق لوگوں کو اکٹھا کرنے میں‌ ناکام رہے، اس بار بھی ایسا ہی ہوا۔ اگر یہ کہہ دیا جائے کہ انھوں نے لوگ اکٹھے کرنے کی کوشش ہی نہیں کی تو غلط نہ ہوگا۔ عمران خان کو ناکامیوں سے دوچار کرنے والے یہی لوگ ہیں۔ عمران خان کو ان کھوٹے سکوں کی پہچان نہیں ہورہی ہے۔ پتہ نہیں انھوں نے کیا سوچ کے انھیں اپنی جیب میں رکھا ہوا ہے۔ یہ بازار میں چلنے والے نہیں ہیں۔ کیا یہ سوال اہم نہیں ہے کہ شاہ محمود قریشی کے لاکھوں حامیوں نے باہر نکلنے کے لیے کوشش کیوں نہ کی؟ جہانگیر ترین کے لاکھوں حامی کدھر رہے؟ علیم خان کے لاکھوں حامی کیا ہوئے؟ ارے بھائی! جب ایم این ایز اور ایم پی ایز ہی اہداف حاصل کرنے کی کوشش نہیں کریں گے تو عمران خان کیا کریں گے بے چارے؟

    عمران خان بذات خود اپنی ناکامیوں‌کی ایک وجہ ہیں۔ مصیبت یہ بھی ہے کہ عمران خان اپنی غلطیوں کی نشاندہی کو بھی قبول نہیں کرتے اور اپنے دوستوں کو بھی قابل احتساب نہیں سمجھتے۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ عمران خان میڈیا لور ہیں۔ اس قدر تیزی سے بولتے ہیں‌کہ سوچ ہی نہیں پاتے کہ وہ کیا بول رہے ہیں۔ تحریک انصاف میں‌ پارٹی سٹرکچر نہیں ہے اگرچہ عمران دنیا کو باور کراتے ہیں کہ ان کی پارٹی جدید اور غیر روایتی ہے۔

    دیگر اسباب میں سے ایک مسئلہ جہانگیر ترین ہیں جنھیں سیاست کی کچھ سوجھ بوجھ نہیں ہے لیکن عمران خان ان کے قابو میں ہیں۔ دوسرا مسئلہ علیم خان جنھیں سیاست کی الف ب نہیں معلوم لیکن عمران خان ان کے بھی قابو میں ہیں۔ پرویزخٹک جیسا بوڑھا شخص بھی عمران خان کی ناکامیوں‌کا ذمہ دار ہے جو جہانگیر ترین کے قبضے میں ہے۔ اقربا پروری بھی تحریک انصاف کا بڑا مسئلہ ہے، کراچی سے خیبر تک ہر جگہ اقربا پروری موجزن ہے۔ عمران کی ناکامیوں کا ایک سبب ریٹائرڈ جرنیل ہیں جو اپنے احمقانہ خواب عمران کو بیچ دیتے ہیں۔

    اب بھلا کوئی یہ بتا دے کہ ان اسباب کی دلدل سے عمران خان کا نکلنا ممکن ہے، جب وہ خود ہی نہ نکلنا چاہیں۔

  • ہمیں کھوکھلی کامیابی نہیں چاہیے جناب – میاں جمشید

    ہمیں کھوکھلی کامیابی نہیں چاہیے جناب – میاں جمشید

    میاں جمشید یار کمال ہے ویسے اکثر لوگوں کی سوچ اور اپروچ پر . . . جب کامیابی کے گر جاننے اور حوصلہ بڑھانے کو آپ کے اپنے دین اسلام کے کامیاب لوگوں کی باتیں، کتابیں ،سوانح عمری وغیرہ موجود ہیں تو بھائی “پہلے انکو تو پڑھو” اچھی طرح. . . پھر بھاگنا غیروں کے بتاے رہنما اصولوں کی طرف ۔ یہ تو ایسے ہی ہے جسے بھوک لگی ہو تو اپنے گھر کی پکی پکائی روٹی چھوڑ کر ہمسایے کے گھر گھستے پھریں ۔ آپ ضرور پڑھیں دوسروں کو لیکن اپنی چھوڑ کر اور صرف انکی پڑھ کر واہ واہ کرنا یہ اچھی بات نہیں۔ یاد رکھیں دوستو ، ہم نے صرف دنیا ہی میں کامیابی حاصل نہیں کرنی بلکہ آخرت میں کامیابی بھی ہمارا حصول ہے ۔

    ایمان سے اگر آپ صرف اپنے نبی حضرت محمّد صلی اللّه عیلہ وسلم کی سیرت مبارک ہی پڑھ لیں تو زندگی کے ہر پہلو کی رہنمائی ملے گی اور ساتھ کامیاب ہونے کے پائیدار عملی طریقے ۔ غورو فکر سے پڑھ کر تو دیکھں ذرا انکی سیرت. پہلے یتیم اور پھر ماں کھونے کےبعد کیسے انہوں نے بکریاں چرا کر عملی زندگی کا آغاز کیا ، کیسے ایمان داری سے عمدہ تجارت کی، کیسے غار حرا میں پہلے غور و فکر کر کے ایک عظیم جدوجہد کا آغاز کیا۔ کیسے اپنے قریبی رشتے داریوں کی نفرتیں سہیں ، کیسے اپنے جسم پر اوجھڑی رکھوا کر سرے محفل عزت نفس کی قربانی دی۔ کیسے اپنے آپ کو منوانے کے لئے اکیلے سفر کیا اور پتهر کھا کھا کر خون بہایا ۔ اپنے اکلوتے بیٹے کی موت کا غم سہا ، بیٹوں کی طلاق کے طعنہ برداشت کیے ، کیوں خود بھی اور اپنے پیارے خاندان کو بھوکا رکھا ، پتے کھاے ، پیٹ پر پتھر باندھے ، جنگیں لڑیں، پیارے رشتے شہید کروا دیے، ہجرت کی ،کیسے ہر پریشانی ہمت سے برداشت کی اور آخر میں تمام دشمنوں کو معاف کرتے ہوے کیوں اور کیسے 23 سال کی بےمثل جدوجہد اورعظیم قربانیوں کے بعد وہ منزل حاصل کی جو آغاز میں ناممکن دکھائی دیتی تھی۔

    اگر آپ اپنے نبی جو آپ کے پیدا کرنے والے ، آپکو رزق ، عزت ، اولاد دینے والے کی باتیں بتانے والے اور رہنماے حیات قرآن پاک کا عملی نمونہ بن کر دکھانے والے کی سیرت نہ پڑھیں یا پڑھ کر بھی حوصلہ نہ پا سکیں تو قصور آپ کا نہیں بلکہ اس معاشرے کا ہے جو آپ کو صرف دنیا میں کامیاب ہونے کے گر بتا رہا ، حلال حرام کی تمیز کیے بغیر مادی چیزوں اور آسائشوں کو جلدی جلدی حاصل کرنے کی تربیت دے رہا ہے ۔ یار ، جس جگہ آپ کو 23 دنوں میں سود پے دنیاوی خوابوں کی چیزیں گھر ، گاڑی وغیرہ ملتا ہو وہاں کون اونچا مقصد حیات پانے کو 23 سال تو چھوڑو 23 مہینے تک ہی حلال جدوجہد کرنے کا سوچے گا۔

    سمجھ آ گئی ہو میری بات تو ٹھیک ورنہ جائیں جا کر صرف دنیاوی اقوال زریں ہی یاد کریں ۔ ہمیں تو کامیابی کے لئے بس اپنے رب کی باتیں اور اپنے نبی پر لکھی کتابیں ہی پہلے پڑھنی ہیں ذرا ، کہ ہمیں دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت بھی کمانی ہے. سود، رشوت ، بے ایمانی ، فراڈ ، جھوٹ، حق تلفی وغیرہ کی حرام کمائی سے کامیابی کے رہنما اصول بنانے اور بتانے والوں کو ہمارا دور سے سلام ! ہمیں نہیں چاہیے آپ سے کھوکھلی اور صرف دنیاوی کامیابی حاصل کرنے کا حوصلہ.

  • سانحہ کوئٹہ، غلطی کہاں‌ ہو رہی ہے ؟ عامر خاکوانی

    سانحہ کوئٹہ، غلطی کہاں‌ ہو رہی ہے ؟ عامر خاکوانی

    مستنصر حسین تارڑ صاحب نے اپنے شمالی علاقوں کے ایک سفرنامے میں واقعہ لکھا کہ لاہور سے ایک صاحب ان کے ساتھ روانہ ہوئے، سفر سے پہلے انہوں نے اصرار کیا کہ ساتھ ایک کڑھائی رکھنی چاہیے، اگر قسمت سے مارخور کا گوشت مل گیا تو پھر مزے دار کڑھائی گوشت بنانا ممکن ہوگا، باقی ہمسفروں نے مخالفت کی کہ کہاں کڑھائی اٹھاتے پھریں گے، یوں یہ تجویز رد ہوگئی، سفر کے دوران ہفتہ دس دن بعد ایک جگہ پر انہیں مارخور کا گوشت تحفے میں ملا، یہ سوال پیدا ہوا کہ اسے پکایا کس طرح جائے، بقول تارڑ صاحب، ان حضرت نے تو لگتا ہے پورا سفر ہی اس طعنے کے لیے طے کیا تھا، اگلے ہی لمحے انہوں نے طعنہ دیا، دیکھا! میں نے کہا نہیں تھا کہ کڑھائی لیتے چلو۔

    وطن عزیز دہشت گردوں کے نشانے پر ہے، دہشت گردوں کی بہت سی کارروائیاں ناکام بنائی جاتی ہیں، مگر جیسے ہی کہیں پر دہشت گرد وار کرنے میں کامیاب ہوئے، ہمارے ہاں ایک حلقہ تو لگتا ہے اسی انتظار میں بیٹھا ہوتا ہے کہ کب دہشت گرد کچھ کر دکھائیں، وہ فوراً پنجے نکال کر حکومت اور سکیورٹی اداروں پر حملہ آور ہوجائیں اور دکھ و صدمے کے عالم میں ایک نیا طوفان اٹھا دیں۔ ان کا بس نہیں چلتا کہ فوج اور حکومتوں کو کچا چپا جائیں۔ یوں لگتا ہے جیسے یا تو ان کی آنکھوں پر بھارتی عینک لگی ہے یا پھر پاکستانی فوج انہیں بھارتی فوج لگتی ہے۔ ہم کسی پر غداری کا لیبل لگانا چاہتے ہیں نہ ہی حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ‌ بانٹنے کا کوئی ارادہ ہے، مگر بہرحال جب ملک حالت جنگ میں ہو تو سکیورٹی اداروں پر تنقید احتیاط سے کرنا چاہیے۔ دنیا بھر میں اس نزاکت کا خیال رکھا جاتا ہے، ہمارے ہاں‌ ایک حلقہ ایسا ہے جس کے دلوں‌میں فوج کے خلاف شاید بغض اور نفرت اس قدر کوٹ کوٹ کر بھری ہے کہ ان سے سنبھالے نہیں سنبھلتی، کسی بھی موضوع پر کلام کرنا ہو، یہ نفرت اور زہر ابل ابل کر باہر آ جاتا ہے۔

    سکیورٹی اداروں کی مجبوری یہ ہے کہ نو سو ننانوے کارروائیاں وہ ناکام بنا دیں، ایک کامیاب ہوجائے تو سارا تاثر زائل ہوجاتا ہے۔ لیکن بے رحمانہ تنقید سے پہلے اتنا تو سوچنا چاہیے کہ یہ جو سینکڑوں کارروئیاں ناکام ہو رہی ہیں، آئے روز دہشت گرد پکڑے جا رہے ہیں، محرم کا عشرہ جو حساس ترین سمجھا جاتا ہے، الحمداللہ پرامن ، پرسکون گزرا، یہ سب آخر کس کی کوششوں سے ممکن ہو پایا؟

    دو غلطیاں ہمارے اداروں سے بھی ہو رہی ہیں۔ ایک تو کریڈٹ لینے کی کوشش کسی ایک کو نہیں‌لینی چاہیے۔ دہشت گردی کے خلاف کامیابی سب کی کامیابی ہے اور ناکامی سب کی ناکامی۔ یہ دراصل ریاست کی فتح یا ناکامی ہوتی ہے۔ جب سکیورٹی ادارے کامیابیوں کا یوں‌کریڈٹ لیں گے جس سے یہ لگے کہ صرف انہی کا کمال تھا تو پھر جب ناکامی ہوگی، خدانخواستہ کوئی بڑا سانحہ ہوگا تو اس کی ناکامی کا تمام تر بوجھ بھی انہی کو اٹھانا پڑے گا۔ اس لیے یہ روش ہر حالت میں بدلی جائے ۔

    دوسرا یہ سمجھنا چاہیے کہ ہم حالت جنگ میں‌ ہیں اور لڑائی ابھی جاری ہے۔ ہماری تو جنگ بھی ایک سے زائد محاذوں‌ پر چل رہی ہے، اس لیے اگر معرکہ جیتا جائے، جوابی کارروائیوں میں کچھ وقفہ آ جائے تو اس پر پرجوش ہو کر نعرے بازی اور کامیابی کے دعوے نہیں کرنے چاہییں۔ ایسا کرنا نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ خاموشی سے اپنے کام میں لگے رہیں، نتائج آپ کی کامیابی کا اعلان خود کرتے رہیں گے ۔

    یہ ایک حقیقت ہے کہ کوئٹہ پولیس ٹریننگ کالج پر حملہ سکیورٹی لیپس کے باعث ہوا۔ یہ حملہ اور اس قدر بڑے پیمانے پر جانی نقصان کا ہونا ہماری کمزوری اور ناکامی کی وجہ سے ہوا۔ اس تلخ حقیقت کو تسلیم کر کے ہی ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔ پولیس ٹریننگ کالج کی سکیورٹی انتہائی کمزور اور نہ ہونے کے برابر تھی۔ ایسا ہونا حیران کن ہے۔ کوئٹہ بہت حساس شہر ہے، جہاں دہشت گردی کا بہت زیادہ خطرہ رہتا ہے۔ اس حوالے سے متعدد الرٹس جاری ہوچکے تھے۔ یہ سمجھ سے باہر ہے کہ جہاں اس قدر ہائی لیول تھریٹ موجود ہوں، وہاں معمول سے بھی کم درجے کی سکیورٹی کیوں رکھی گئی ؟پشاور سکول اور بعد میں چارسدہ یونیورسٹی کے بعد توتعلیمی اداروں اور سول عمارات کی بھی ٹھیک ٹھاک سکیورٹی کا انتظام کیا جا چکا ہے۔ یہ تو پولیس کا ٹریننگ کالج تھا، اس قسم کی بلڈنگز پر کئی شہروں میں حملے ہوچکے ہیں، خود کوئٹہ میں کئی اہم حکومتی بلڈنگز کو نشانہ بنایا گیا ۔ ایسے میں پولیس کی جانب سے مناسب سکیورٹی انتظامات نہ کرنا بدترین غفلت اور نااہلی ہے۔ اس کی تحقیقات ہونی چاہییں اور جو کوئی ذمہ دار ہو،ا س کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ بلوچستان اور خاص کر کوئٹہ میں سکیورٹی فورسز کو غیر معمولی مستعدی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی کا زیرو پوائنٹ اب بلوچستان ہے۔ کوئٹہ میں خاص کر اس کا خطرہ زیادہ ہے۔ وہاں تو ہر وقت ریڈ الرٹ کی سی کیفیت رکھنا ہوگی۔

    بلوچستان میں اس خطرے کی دو تین وجوہات ہیں۔ ایک تو بلوچستان میں کالعدم تنظیموں کا ایک خاصا بڑا حلقہ موجود رہا ہے جو ہزارہ آبادی کو نشانہ بناتا رہتا تھا۔ اب ان کے اہداف تبدیل ہوگئے ہیں اور وہ پشتونوں اور حکومتی اداروں کو نشانہ بنا کر انتشار پھیلانا چاہ رہے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل کوئٹہ کے وکلا کو دانستہ نشانہ بنایا گیا، جن میں اکثریت پشتونوں کی تھی۔حالیہ حملے میں پولیس ٹریننگ کالج کو نشانہ بنایا، مقصد سکیورٹی اداروں کے مورال کو ڈاؤن کرنا اور ان کے خلاف جذبات پیدا کرنا ہی ہے۔ کوئٹہ میں دہشت گردی کی فالٹ لائنز پہلے سے موجود ہیں، معمولی سی غفلت سے وہاں سے شاکس آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ بلوچ شدت پسند تنظیموں میں سب سے نمایاں بی ایل اے (بلوچستان لبریشن آرمی)ہے، اطلاعات آ رہی ہیں کہ لشکر جھنگوی کے مقامی دہشت گردوں اور بی ایل اے کے لوگوں میں تعاون بڑھ رہا ہے۔ مذہبی حوالوں سے ایک دوسرے سے بہت فاصلے پر ہونے کے باوجود مختلف اہداف کے لیے یہ ایک دوسرے کے لیے سہولت کار کا کام کر رہے ہیں۔ ایک اطلاع کے مطابق بی ایل اے کے ایک معروف مقامی کمانڈر اور لشکر جھنگوی کے نمایاں کمانڈر کا قبیلہ ایک ہے، ریاست دشمنی کے علاوہ یہ ایک اور مشترک نکتہ بن چکا ہے۔ دوسری طرف ٹی ٹی پی کے باقی ماندہ عناصر بھی بلوچستان کے پشتون علاقوں میں پناہ لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کے خلاف سکیورٹی اداروں کے آپریشن چل رہے ہیں، مگر اس پورے علاقے میں افغانستان سے روزانہ کی بنیاد پراس قدر زیادہ لوگ آتے جاتے رہتے ہیں کہ ہر ایک کو مارک کرنا آسان نہیں۔ چوتھا فیکٹر سی پیک ہے، جس پر خاصی تیزی سے پیش رفت جاری ہے۔ گوادرپورٹ کو فنکشنل بنایا جا رہا ہے، اس سال کے اواخر تک شپمنٹس آنے اور بھیجنے کا پروگرام ہے۔ کئی مقامی اور غیر ملکی قوتیں اس پراسیس کو ناکام بنانا چاہتی ہیں۔ اس میں ہم بھارتی ایجنسی را کو بھی شامل کر سکتے ہیں۔ کوئی احمق ہی اس خوش فہمی کا شکار ہوسکتا ہے کہ را اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھائے گی۔ بلوچستان میں موجود فالٹ لائنز کا ہمارے دشمن ضرور استعمال کریں گے، انہیں ہم اپنی اچھی منصوبہ بندی، مستعدی اور جزئیات کی حد تک جا کر اپنی کمزوریوں کو دور کر کے ہی ناکام بنا سکتے ہیں۔

  • کامیابی کیا ہے؟ کیسے حاصل کریں؟ سجاد احمد

    کامیابی کیا ہے؟ کیسے حاصل کریں؟ سجاد احمد

    %d8%b3%d8%ac%d8%a7%d8%af-%d8%a7%d8%ad%d9%85%d8%af فرض کیا آپ ایک بک سٹال پہ کھڑے ہیں اور آپ کے سامنے ملک کے ایک مشہور و معروف مصنف کی دو مختلف مگر یکساں قیمت کی کتابیں پڑی ہیں، ایک کا عنوان ہے ’’کامیابی کیسے حاصل کریں؟‘‘ اور دوسری ہے’’ زندگی کیسے گزاریں؟‘‘ آپ کون سی کتاب لینا پسند کریں گے؟ یقینا آپ اول الذکر کتاب ہی خریدیں گے۔ آپ ہی کیا ہم میں سے کوئی بھی ہو، اس کی اول ترجیح یہی کتاب ہوگی۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ ہم سب زندگی میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں ۔ اور اس کامیابی کو پانے کے لیے جہاں سے بھی تیر بہدف نسخہ ملے گا، ہماری کوشش ہوگی کہ اسے حاصل کریں۔

    مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کامیابی ہے کیا؟ ہماری نظر میں قیمتی لباس، اچھا کھانا پینا، قیمتی سواری، بہترین رہائش اور اونچا سٹیٹس ہی وہ چیزیں ہیں جنہیں عموما کامیابی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اورحلال و حرام کی بحث سے قطع نظر ان کے حصول کے لیے دن رات ایک کر دیا جاتا ہے۔ انسانی حیات میں ان چیزوں کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں مگر ایک شے اور بھی ہے۔ اطمینانِ قلب! جی ہاں دل کاچین ایسی چیز ہے کہ زندگی کی کل آسائشیں آپ کو حاصل ہوجائیں مگر سکون نہ ہو تو یہ سب نعمتیں بےکار بلکہ سوہانِ روح بن جاتی ہیں۔ اور اس کے برعکس اگر آپ روحانی سکون اور طمانیتِ قلب کی دولت سے مالامال ہیں تو پھرآ پ کو زندگی کے ان عارضی معیارات کی زیادہ پرواہ بھی نہیں ہوتی۔

    ہمارے اردگرد کئی لوگ ایسے بستے ہیں جن کے پاس مال و متاع کی کثرت ہے مگراس کثرت نے بجائے آسودگی بخشنے کے الٹا انہیں مضطرب کر رکھا ہے۔ کبھی مال کی حفاظت کی فکر کھائے جا رہی ہے تو کبھی دو اور دو چار، اور پھر چار کو سولہ بنانے کے چکر میں ان کی راتوں کی نیند تک اڑ چکی ہے اور سلیپنگ پلز کے بغیر جن کا گزارا ہی نہیں۔ اس کے برعکس کئی ایسے بھی ہیں کہ جن کے پاس اعلٰی لباس نہیں، اچھی خوراک نہیں، حتٰی کہ رہنے کے لیے ذاتی مکان نہیں، پھر بھی وہ سکون کی دولت سے مالامال ہیں۔ یقین کیجیے ایسے ٹینشن فری لوگ بھی میں نے دیکھے ہیں جو جب چاہیں، جہاں چا ہیں پہلو کے بل لیٹ کر خراٹے لیناشروع کر دیتے ہیں۔ وہ نیند جس کا کافی حد تک تعلق ذہنی سکون اور دلی قرار کے ساتھ ہے ،گویا ان کے گھر کی باندی ہے۔

    اس کا مطلب یہ ہوا کہ زندگی کے یہ ظاہری ٹھاٹھ باٹھ درحقیقت کچھ بھی نہیں اور نہ ہی کامیابی مال و دولت کی کثرت میں ہے بلکہ اصل کامیابی یہ ہے کہ میں اور آپ خالقِ کائنات کی عطا کردہ اس خوبصورت زندگی کو استعمال کیسے کرتے ہیں۔ اپنے پروردگار سے ہمارا تعلق کیسا ہے؟ اور پروردگار کی پیداکردہ دیگر مخلوقات کے ساتھ ہمارا برتائو کس درجے میں ہے؟ گردوپیش کے ماحول کے لیے میرا اور آپ کا وجود خیر کا سبب ہے یا شر کا باعث؟

    کا میابی یہ نہیں کہ ہم نے اس دنیا سے کیا کچھ لیا بلکہ حقیقی کامیابی یہ ہے کہ ہم نے دنیا والوں کو کیا کچھ دیا۔راحت کی شکل میں، محبت کے روپ میں، آسانیاں پیدا کرکے، میٹھے بول بول کر اور غموں کو بانٹ کر، کیونکہ سچی اور پائیدار خوشی کا حصول ایسے ہی ممکن ہے۔آپ کے علم میں ہوگا کہ اکثر امیر لوگ جب دولت کے اعتبار سے دنیا میں نمایاں ترین پوزیشن پر آجاتے ہیں تو اپنی دولت کابڑا حصہ چیریٹی کے کاموں کے لیے مختص کر دیتے ہیں۔ کبھی سوچا کہ آخر وجہ کیا ہے؟؟