Tag: مٹی

  • انسان اور مٹی کا یکساں ڈی این اے – فرح رضوان

    انسان اور مٹی کا یکساں ڈی این اے – فرح رضوان

    ضروری نہیں کہ سائنس ہی آپ کو بتائے کہ انسان اور مٹی کا ڈی این اے ایک ہے. کچھ لوگوں کے رویے آپ کا ایسا حال کرتے ہیں کہ ایمان تازہ ہو جاتا ہے کہ واقعی انسان بجتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا گیا ہے. تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت انسان ہر تقریب کا مزہ کسی نہ کسی صورت کرکرا فرماتے ہیں، یہ کرکراپن بھی مٹی ہی کی صلاحیت ہے.
    مزید برآں جس ڈگر پر قدم رنجا فرماتے ہیں الفاظ اور لہجے کی وہ دھول اڑاتے ہیں کہ گویا بلندی پر براجمان مٹی کا بےمہار تودا پستی کو چھونے کی تمنا میں بے تاب، کھاتا ہوا پیچ و تاب، لڑھک پڑا ہو اور سامنے والے کی مٹی پلید کے علاوہ اس کا نظام تنفس تک اس گرد میں اٹ کر چوک ہو کر رہ جائے، وہ تو اللہ کے فضل سے آنسوؤں کی بروقت برسات اس بگولے پر برس کر مطلع صاف کرنے کا از خود نوٹس لے لیتی ہے ورنہ اگلا مٹی کا مادھو اس سنگریزی کی لپیٹ میں آکر خاک ہی ہو کر رہ جائے.

    لیکن ایک قابل غور بات یہ ہے کہ جب آندھی کے جھکڑ چلیں تو آپ کی خیر اور عقلمندی کا تقاضا یہی ہے کہ منہ آنکھ کان سب کو نہ صرف بند رکھا جائے بلکہ خوب اچھے سے لپیٹ لیا جائے (برا نہ سنو نہ دیکھو نہ بولو)۔ اور جب آندھی تھم جائے تو بغیر اسے کوسے تمام گرد کی جھاڑ پونچھ دھلائی کر لی جائے (رات گئی بات گئی). بھلا جن علاقوں میں کثرت سے آندھیاں چلتی ہیں، وہاں رہنے والے قدرت کے اس نظام سے لڑتے تو نہیں اور نہ ہی خود کو علاقہ بدر کر لیتے ہیں بلکہ وہ احتیاط سے کام لیتے ہوئے آندھی کی زد میں آنے والی چیزوں کو بحفاظت رکھتے ہیں اور ساتھ ہی یہ بات بخوبی جان لیتے ہیں کہ اس علاقے میں پیدا ہونے والے پھلوں کی نشوونما کے لیے قدرت کی طرف سے موسم کا یہی تغیر بارآور ہے.
    مانا کہ مٹی کی ایک قسم گارا ہے.
    تو کیا اس سے کسی صورت چھٹکارا ہے؟
    ہر شے میں قدرت نے رکھا کچھ فائدہ کچھ خسارہ ہے.
    بس کس طرح اسے کام میں لیں یہ فیصلہ ہمارا ہے.

    یہ بات سراسر ہم پر منحصر ہے کہ اس گارے کو ایک ایک اینٹ جوڑ کر گھر بنانے کے کام لے آئیں کیونکہ بہرحال گارا نرم ہوتا ہے اینٹیں نہیں اور جوڑے رکھنے کا کام یہی کر سکتا ہے پانی نہیں، خشک مٹی نہیں خود اینٹیں بھی نہیں، تنہا آپ بھی نہیں، گھر بنانے کے اس عمل میں آپ کے ہاتھ پاؤں سبھی اس گارے میں سنیں گے ضرور لیکن ادھورے کام سے فرار ! یہ تو نادانوں کا ہے شعار، ممکن کیا ہے؟ فقط انتظار.

    اور وہ بھی صبر و امید کے ساتھ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں اور کیونکہ رب کے سوا کوئی سہارا نہیں، اسی لیے ساتھ ہی اس دوران دعا بھی جاری رہے کہ جو لیپائی آپ نے کی ہے، اس پر برسات نہ ہو کیونکہ ہر چیز میں خیر و شر موجود ہے تو اس دم کی برسات آپ کے حق میں رحمت کے بجائے انتہائی زحمت ثابت ہو سکتی ہے. ( اپنے گھر کے معاملات میں کسی”دانشمند“ کو مداخلت نہ کرنے دیں) ابھی کسی کا بھی ہاتھ لگے تو گیلی نازک دیواریںگرنے کا ڈر ہے، ابھی تو فقط رحمت کی چھاؤں، محبت کی تپش کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ اور یہ عمل مشکل تو ہے پر ناممکن ہرگز نہیں اور دعا نماز اور صبر سے مدد لے لی جائے تو باذن اللہ مشکل بھی جلد ہی آسانی میں بدل جاتی ہے. پھر مزید اہم ترین چیز ہے مثبت مصروفیت، اگر آپ ان گیلی دیواروں کے سوکھنے کا ہاتھ پر ہاتھ دھرے انتظار کرتے رہے تو وقت طویل ہونے کے ساتھ ہی آنکھیں اور احساس پتھرا کر رہ جائیں گے، جبکہ امید ہے کہ مصروفیت اس تمام کوفت سے بچا لے گی. کتنا تضاد ہے ناں ہماری سوچ میں کہ ہم مشکل کے آسانی میں بدل جانے پر ویسا یقین ہرگز نہیں رکھ پاتے جیسا خود اپنے گناہوں کے مغفرت کی صورت ان کے نیکیوں میں بدل جانے پر۔

    تو پھر یقین رکھیں، خود پر نہ سہی، دوسرے پر بھی نہ سہی، لیکن اپنے رب پر جو دن کو رات اور مردہ کو زندہ میں بدلنے سے لے کر ہر چیزپر قادر ہے. رب تعالٰی کسی کی پرخلوص محنت اور صبر کو ضائع نہیں کرتا، جو گارا کل تک ناکارہ تھا وہ سوکھ جانے پر ان شاءاللہ جہاں آپ کی حکمت، محنت، استقامت اور لگن سے بنائے گھر کو قلعہ کی سی مضبوطی اور حصار فراہم کرے گا، وہیں ان شاءاللہ ایسا پاک بھی ہو چکا ہوگا کہ اس مٹی سے تیمم کیا جا سکے۔

  • جس مٹی میں میں لیٹا ہوں، اُسی میں وہ دفن ہے – عمیر علی

    جس مٹی میں میں لیٹا ہوں، اُسی میں وہ دفن ہے – عمیر علی

    عمیر علی چلچلاتی دھوپ کسی کا امتیاز نہیں کرتی۔ وہ ہر حسب و نسب کے افراد کو ایک جیسی تپش دیتی ہے۔ فرق ہے تو آسائشوں کا جو ہر کسی کو میسر نہیں۔ انھی آسائشوں کی ترجمانی کرتی وہ چمچاتی ائیرکنڈیشننگ کار کالج کے سامنے نو پارکنگ میں ایسے براجمان ہو گئی جیسے وہاں موجود انتظامیہ کو للکار رہی ہو کہ ہے کوئی جو مجھے ایک انچ بھی ہلا سکے۔ اُس میں سے ڈرائیور اترا اور پیچھے کا دروازہ کھولا۔ اُس میں سے ایک حسینہ بڑے طمطراق سے برآمد ہوئی۔ سب سے پہلے اُس نے قہر برساتے سورج کو قہر آلود نگاہوں سے دیکھا، جیسے اُس نے عام بنی نوع اور اُس راجکماری میں فرق نہ کر کے کوئی عظیم گناہ کیا ہے۔ اُس کی دوسری نگاہ عتاب کا نشانہ ہماری کالج کے داخلہ دفتر کے باہر لگی قطار تھی۔ پہلے مجھے لگا کہ شاید وہ اپنی شان کو ملحوظ رکھتے ہوئے قطار میں لگنے پر سیخ پا ہے، لیکن جیسے ہی وہ قطار کی بجائے سیدھی داخلہ دفتر میں بلا روک ٹوک داخل ہوگئی تو مجھے اندازہ ہوا کہ ہم صرف عام انسان ہونے کے جرم میں اُس کی آنکھ میں کھٹکے تھے۔

    دو گھنٹے سے قطار میں کھڑے ہو کر بدن پسینے میں ایسے شرابور تھا، جیسے ابھی نہا کر بغیر تولیہ استعمال کیے کپڑے پہن لیے ہوں۔ ابھی اپنی اس حالت پر مکمل غور بھی نہ کیا تھا کہ وہ داخلہ دفتر سے باہر آئی اور اُس کے ساتھ ایڈمن آفیسر صاحب بھی تھے۔ اور اُسے عاجزانہ لہجے میں یقین دلا رہے تھے کہ آپ فکر نہ کریں۔ اور وہ نخوت سے ایک اور نگاہ ہماری قطار پر ڈالتی ہوئی چلی گئی۔

    اُس سے دوسری ملاقات اُس وقت ہوئی جب میں ایم اے کرنے کے بعد ہر جگہ نوکریوں کے لیے در بدر بھٹک کر گزارے کے لیے ایک شاپنگ مال کی دوکان میں سیلز مین کے لیے پہلے دن آیا تھا۔ پہلے ہی کی طرح شاہانہ انداز میں وہ دکان میں داخل ہوئی اور چاروں طرف نگاہ دوڑا کر اچانک میری طرف دیکھا، میں حیران تو ہوا کہ شاید اس نے بھی مجھے پہچان لیا لیکن فورا وہ دکان مالک کے سامنے رکھے صوفے پر براجمان ہوتے ہوئے سامان پسند کرنی لگی۔ مالک نے مجھے اُس کی مطلوبہ چیزیں لانے میں دوسرے سیلز مین کی مدد کرنے کو کہا۔ جوتوں کے کچھ ڈیزائن لاتے ہوئے میرے ہاتھ سے جوتے کا ڈبہ گر کر اُس کے پائوں پر گرا۔ اچانک لگا جیسے قیامت برپا ہو گئی ہو۔ چنگھاڑتے ہوئے وہ اُٹھی اور ایک زناٹے دار تھپڑ میرے منہ پر ایسا جڑا کہ اُس کے غرور اور فتح کا نشان میرے چہرے پر چھپ سا گیا۔ اس کے ساتھ ہی مغلظات کا ایک طوفان آیا، اور مجھے میری اوقات اور میرے والدین کی اوقات یاد کروانے کے بعد، وہ چلی گئی، وہ میرا اُس دکان پر نوکری کا پہلا اور آخری دن تھا، کیوں کہ مالک کے لیے اُس کا اچھا گاہک قیمتی تھا۔ اُس دن مجھے اپنے غریب ماں باپ کے گھر میں پیدا ہونے پر افسوس ہوا کہ انسان تو میں بھی دوسروں جیسا ہوں، قصور تو اُن کا ہے۔

    آج تیس سال بعد جب وہ میری بغل میں لیٹی تو مجھے خدا کے خدائی سمجھ میں آئی کہ یہ امیر غریب، کالا گورا، یہ طبقہ، یہ فرقہ، یہ قومیت یہ شان و شوکت، سب فانی ہے۔ جس مٹی کی قبر میں میں لیٹا ہوں، اُسی مٹی میں آج وہ دفن ہوگئی۔ اور وہ اُتنی ہی بے بس ہے جتنا کہ کوئی بھی انسان بغیر روح کے ہوتا ہے۔ آج کوئی دولت، کوئی افسر،کوئی انسان اُس کو کسی سے افضل نہیں کر سکتا۔
    جس مٹی میں میں لیٹا ہوں، اُسی میں وہ دفن ہے

  • خاک کا پیغام – آفاق احمد

    خاک کا پیغام – آفاق احمد

    انسان خاک سے بنا ہے، اسی خاک سے رزق کھاتا ہے، اسی خاک پر زندگی گزارتا ہے۔
    یہی خاک پوری زندگی انسان کے پیروں تلے روندی جاتی ہے، ہوا سے اُڑ جائے تو انسان اپنے گھر کے دروازے کھڑکیاں بند کرلیتا ہے، اندر چیزوں پر خاک کی تہہ جمی ہو تو اس کو صاف کردیتا ہے، یہاں تک کہ اپنے جوتوں پر بھی اس کی موجودگی پسند نہیں کرتا۔
    جب یہ خاک کیچڑ کی صورت اختیار کر لیتی ہے تو انسان مزید احتیاط سے گزرتا ہے، مبادا کپڑے خراب ہوجائیں یا جوتے کیچڑ میں بھر جائیں۔
    بچوں کو بھی مٹی میں کھیلنے سے منع کرتا ہے
    گویا پوری زندگی مٹی سے اپنا دامن بچاتا رہتا ہے
    اگرچہ انسان کی تخلیق اسی مٹی سے ہے
    اور جب آخری سانسیں لیتا ہے اور ابدی نیند سوجاتا ہے
    تو یہی خاک اسے اپنی گود میں چھپا لیتی ہے، جہاں وہ درندوں سے محفوظ ہوجاتا ہے، اس کی نعش دنیا کی نظروں سے اوجھل ہوجاتی ہے اور باہر کی دنیا کے لیے ہر قسم کی بےحرمتی سے محفوظ ہوجاتی ہے۔
    یہ مٹی کی سرشت ہے، یہ خاک کی صفت ہے، خاک تواضع کی علامت ہے۔
    جسے انسان نے پوری زندگی حقیر و کمتر جانا، اس نے اپنا فراخ سینہ اسی انسان کے لیے کھول دیا۔
    یہی خاک کی صفات ہیں کہ اشرف المخلوقات کا خمیر ٹھہری۔
    اس کی یہی صفات ہیں کہ انسان کی روح کا سانچا بنی۔
    بس اے انسان! تو بھی اپنا سینہ فراخ کر دے، جب کوئی بھولا بسرا اور کمزور شرمندہ ہو کر تیرے در پر آجائے۔
    نہ احسان جتلانا، نہ شرمندہ کرنا اور نہ انکار کرنا۔
    خاک کا تجھے یہی پیغام ہے۔