Tag: مولوی

  • یہ سیاست ہے بھائی، مولوی کا یہاں کیا کام؟ احمد علی جوہر

    یہ سیاست ہے بھائی، مولوی کا یہاں کیا کام؟ احمد علی جوہر

    احمد علی جوہر آج ساڑھے گیارہ بجے دن میں مارکیٹ میں سودا سلف لینے کے لیے ایک دکان پر کھڑا تھا تو پی پی پی کے نغمے کی مخصوص دھن سنائی دی۔ آواز کی سمت نظر دوڑائی تو پیپلزپارٹی کی ایک ریلی آتی دکھائی دی۔ موٹر سائیکلوں، کاروں، سوزوکیوں اور ٹرکوں میں سوار ریلی کے شرکا کا میں نے جائزہ لیا۔

    یہ بات تو سبھی جانتے ہیں کہ کراچی میں PPP کے جلسوں اور ریلیوں میں سندھی بھائی زیادہ شرکت کرتے ہیں جن کی اکثریت گوٹھوں کے رہنے والوں کی ہوتی ہے۔ میری نظر ایک سوزوکی پر سوار کھڑے ایک باریش چہرے پر رک گئی۔ یہ کوئی معمولی باریش چہرہ، خط یا چھوٹی داڑھی والا face نہیں تھا۔ مکمل باریش یعنی داڑھی کو قینچی نہ لگانے والا سلفی چہرہ تھا۔ یہاں میرا مقصد سلفی یا داڑھی والوں پر تنقید نہیں۔ میری گزارش یہ ہے کہ چاہے بندہ سلفی ہو، دیوبندی ہو، بریلوی ہو یا اہل تشیع، اس کے سامنے جب دین کے غلبے اور اسلامی نظام کے نفاذ کی بات کی جاتی ہے، اور اس کے لیے صالح و دیانت دار قیادت کو ووٹ دینے کو کہا جاتا ہے تو کہتا ہے کہ یہ سیاست ہے بھائی، مولوی کا کیا کام سیاست میں۔ یہ کیا حکومت چلائیں گے؟ مجموعی طور پر عوام کی اکثریت کی یہی سوچ ہے چاہے مذہبی کیوں نہ ہوں۔ دیندار طبقہ پنج وقتہ نماز کا پابند ہے۔ اپنے مسلک کے مطابق دین پر عمل کرتا ہے مگر جب انتخابات کا معرکہ ہوتا ہے تو اس معاملے میں دین بھول جاتا ہے۔ووٹ ان کو دیتا ہے جو لادین، کرپٹ، بھتہ خور اور دہشت گرد ہیں۔ یہی سوچ اور رویہ ایسے فرد کو بھی صدارت اور گورنر کے منصب تک پہنچا دینے میں معاون ثابت ہوتا ہے جو کرپشن اور دہشت گردی کے حوالے سے مشہور ہوتا ہے۔

    ریلی کو دیکھتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ جب تک یہ سوچ اور رویے برقرار ہیں گے تو تبدیلی کیسے آئے گی؟

  • مولوی کی مشکل – محمد عمیر اقبال

    مولوی کی مشکل – محمد عمیر اقبال

    عمیر اقبال مولوی کی تنخواہ کے بارے میں مت پوچھیے جناب! آج کے زمانے میں اگر کوئی چیز سب سے زیادہ سستی ہے تو وہ ہے مولوی کی ذات اقدس، عالم ہو، حافظ بھی ہو، قرات بھی اچھی ہو، تھوڑی بہت انگریزی بھی جانتا ہو. اور تنخواہ کتنی؟ بس حسب لیاقت وہی پانچ ہزار، مولوی اگر امام ہو تو اس کی ذات اور ہی سستی جو چاہے دوچار باتیں سنا دے، الیکشن میں کسی ایک گروپ کا ساتھ دے تو امام نے رشوت لی ہوگی، نہیں دے تو گھمنڈ آگیا ہے، ہمارے مخالف نے خرید لیا ہوگا.

    زنا کے خلاف جمعہ میں بول دیا تو نوجوان ناراض، رشوت خوری کے خلاف زبان کھولی تو سرکاری افسران چراغ پا، سود کی حرمت پر لب کشائی کی تو سرمایہ کار نے آستینیں چڑھائیں، فرض نماز کی اہمیت بتلائی تو آٹھ ( جمعہ ) کے نمازی ناراض، شراب نوشی کو چھیڑا تو ساقیان میخانہ کی دھمکی، نماز تھوڑی طویل ہوگئی تو امام صاحب سوجاتے ہیں، جلدی پڑھی تو مولانا ہڑبڑانے ہوئے ہیں، سیاست میں حصہ نہیں لیا تو مولوی ناکارہ ہے، انہیں کچھ نہیں آتا، اور اگر حصہ لے لیا تو دیکھو بک گیا ہوگا، میرے انگنے میں تیرا کیا کام ہے؟

    چندہ کرکے بچوں کو پڑھائے تو بھیک منگا ہے، اپنی تجارت کرے تو علم کو ضائع کردیا، سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں گیا تو دیکھو سرکاری لقمہ خور بن گیا، مدرسہ میں پانچ ہزار پر کام کرے تو ارے اس کو بیٹی کون دے گا، موٹر سائیکل پر سوار ہو تو ضرور اس نے گھپلہ کیا ہوگا، پیدل چلے تو پھٹیچر ہے، غلط باتوں پر ٹوکے تو دقیانوس اور کٹرپنتھ ہے؛ نہ ٹوکے تو ساری خرابیوں کا ذمہ دار ہے، قیامت کی بات کرے تو ترقی کا دشمن، دنیا کی بات کرے تو دنیا داری آگئی.

    بےچارے مولوی صاحب کو تقریر بھی سوچ کر کرنی پڑتی ہے کہ نہ جانے کون سی خرابی ہمارے سامعین میں ہو اور ان کو کچھ برا لگ جائے، افسوسناک بات تو یہ ہے کہ ہم تنخواہ تو دیتے ہیں پانچ ہزار اور ہر پسماندگی اور کمزوریوں کا ٹھیکرا پھوڑتے ہیں مولوی کے سر، لاکھوں روپے ماہانہ کمانے والے ڈاکٹرز، انجینئرز، پروفیسرز، آئی پی ایس افسران نے اپنی محنت سے اپنے ہی جیسا ایک بھی فرد بنانے کی ذمہ داری آج تک نہیں لی لیکن سینکڑوں اور ہزاروں افراد کو کم از کم اپنے جیسا بنادینے والے علمائے کرام کو امت کی ساری خرابیوں کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے.

    تعجب کی بات تو یہ ہے کہ جن صاحب کی باتوں کا معمولی اثر ان کی بیگم پر بھی ظاہر نہیں ہوتا، جن کے غصے سے ان کے صاحبزادے بھی نہیں ڈرتے، وہ بھی مولویوں اور اماموں پر آنکھ غراتے نظر آئیں گے. اب قارئین ہی بتائیں کہ مولوی کی ان مشکلات کا حل کیا ہو؟

  • ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ – فاروق حیدر سمیر

    ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ – فاروق حیدر سمیر

    ’’ٹھک … ٹھک … ٹھک‘‘
    لکڑی کے دروازے پہ دھرا لوہے کا سرکنڈا سا، کسی نے زور زور سے بجایا تھا۔
    مولوی صاحب گزشتہ شام ابالی گئی دال کا کٹورا ہاتھوں میں پکڑے خواہش اور بھوک کے درمیان بے بسی کی تصویر بنے کھانا کھا رہے تھے۔
    پے در پے ہونے والی دستک کی آواز سن کر وہ دروازے کی طرف بڑھے۔
    سامنے گلی کی نکڑ والا سبزی فروش کھڑا تھا۔
    مولوی صاحب کو دیکھتے ہی بولا:
    ’’حافظ جی آج مہینے کی 28 تاریخ ہے، مندا بہت بڑھ گیا ہے، آپ کے ذمے کچھ بقایا جات تھے، سوچا آج جمعہ ہے، چلو چکر ہی نکال آؤں!‘‘
    ’’جی وہ جمعہ کے بعد آ جانا!‘‘مولوی صاحب نے مریل آواز میں جواب دیا، اور گھر کو پلٹے۔
    پگڑی باندھ، کرتا پہن، سرمہ اور تیل کا ایک کوئنٹل سر میں ڈالے مولوی صاحب جمعہ کی تقریر کے لیے مسجد کو چل دیے۔
    راستے میں غریب نواز کریانہ سٹور والے سے نظریں بچائے وہ آگے بڑھتے چلے جا رہے تھے کہ معا کسی نے زور سے پکارا:
    ’’حافظ ساب! آج جمعہ ہے، ہمیں بھی یاد رکھنا۔‘‘
    جمعہ کی تقریر شروع ہو چکی تھی، 62 سال کا مولوی پورا زور لگا کر گاؤں کے لوگوں کو توحید و سنت کا درس دے رہا تھا۔
    اس کی آواز میں لڑکھڑاہٹ تھی، بدن نقاہت کا مارا چند ہڈیوں کا ڈھانچہ، البتہ اس کی آنکھوں میں اتری سرخی کسی گزری بہار کا پتہ دیتی تھی۔
    بیان اور خطبے کے آخر تک وہ صرف آدھے گھنٹے میں پانی کے 6 گلاس چڑھا چکے تھے۔ ان کا سانس اب اکھڑا ہوا تھا۔
    اقامت کہی گئی، مولوی صاحب امامت کے لیے آگے بڑھے، تکبیر تحریمہ کہنے ہی والے تھے کہ ان کا سر چکرا گیا اور وہ پیچھے ہٹ کر بیٹھ گئے۔ کسی نے آواز دی، میں نے آگے بڑھ کر نماز پڑھا دی۔ سلام پھرنے کے بعد ایک شخص اٹھا اور اپنے سر پہ دھری ٹوپی اتار کر صفوں کے سامنے ماشاء اللہ اور جزاک اللہ کا راگ الاپتے ’’خالق سے پہلے مخلوق‘‘ کا تیاگ پورا کرنے لگا!
    دو کا سکہ، 5 کا بڑا سکہ اور کسی نے زیادہ ہی سخاوت دکھائی تو 10 کا تڑا مڑا نوٹ!
    143 کے میزانیے میں 20 کا واحد نوٹ 17ویں گریڈ کے 63 ہزار ماہانہ پانے والے سرکاری ملازم کا تھا۔
    یہ دولت آصفیہ ایک میلے سے رومال میں لپیٹ کر اس شخص نے مولوی صاحب کے کرتے کی لمبی سی جیب میں ہلکے سے دھکیل دی۔
    شام 6 بجے کے ٹی وی پروگرام میں ملک کے مشہور دانشور اظہار خیال فرما رہے تھے:
    ’’پاکستان کی ترقی میں نیم خواندہ مولوی سب سے بڑی رکاوٹ ہے.‘‘

  • پاکستان کی تباہی میں’’مولویوں‘‘ کا کردار – کرم الہی

    پاکستان کی تباہی میں’’مولویوں‘‘ کا کردار – کرم الہی

    الہی کرم جی ہاں، پاکستان کو ملائوں نے اس مقام پر لاکھڑا کیا ہے. اب تک جتنےگورنر جنرلز، صدور، وزرائےاعظم، گورنرز، وزرائےاعلی، وفاقی و صوبائی وزراء، ممبران پارلیمنٹ، سول اور ملٹری بیوروکریٹ اس ملک میں اقتدار کے مزے لوٹتے رہے، وہ سب کے سب کٹر مولوی تھے. اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ وہ کوٹ پینٹ پہنتے تھے، شستہ انگریزی بولتے تھے، ’’کھاتے‘‘ اور ’’پیتے‘‘ تھے، اور اپنے داڑھی والے ملائوں کے منہ نہیں لگتے تھے. جی ہاں، آج تک ہر آئین کے تحت یہ لازم ٹھہرایا گیا ہے کہ کوئی بھی شخص مقننہ کا ممبر نہیں بن سکتا جب تک کہ وہ کسی مدرسے سے فارغ التحصیل نہ ہو. کوئی فارغ العقل ہی ہوگا جو یہ بھی نہ جانتا ہو کہ 14 اگست 1947ء سے لے کر آج تک یہاں ہر سکول، ہسپتال، دفتر، بنک، دکان، جیل، الغرض سرکار اور ریاست دونوں کے محکموں اور شعبوں میں فیصلے کرنے والا ہر شخص ایک کلین شیو طالب یا مولوی ہی رہا ہے.

    خود بابائے قوم بھی شیروانی اور قراقلی بلاوجہ نہیں پہنا کرتے تھے، وہ بھی دراصل ایک مدرسے (سندھ مدرسۃ الاسلام) کے طالب تھے. اسی طرح جیسا کہ ان کے قد کاٹھ سے ظاہر تھا، لیاقت علی خان بھی بغیر داڑھی کے ایک کٹر مولوی تھا، دو شادیاں تو رچائی تھیں ہی، اگر جوانی نہ ڈھلتی توچار شادیوں کی مولویانہ خواہش بھی پوری کرتا. اور ہاں صاحب، امیرالمئومنین غلام محمد کہیے، گورنر جنرل غلام محمد نہ کہیے. ہر وقت مراقبے کے ’’حال‘‘ میں رہنے والے مولوی غلام محمد کے بارے میں بے چارے قدرت اللہ شہاب ویسے دھوکہ کھا گئے کہ موصوف مخمور رہتے تھے. چوہدری محمد علی، محمد علی بوگرہ، یحیی خان اور ایوب خان کے ناموں پر تو غور کیجیے، (کام سے کسی کو کیا غرض)، سارے ناموں میں پیغمبروں کے نام آتے ہیں جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ وہ اندر سے سب مولوی ہی تھے. اور وہ جو جسٹس کارنیلیس، دراب پٹیل، جوگندر ناتھ منڈل، رانا چندر سنگھ اور رانا بھگوان داس وغیرہ جیسے ’’کافر‘‘ اعلی عہدوں تک پہنچے وہ تو بس اتفاقی حادثات تھے

    اس ملک کے آئین میں اسلامی دفعات نہ ہوتیں تو یہاں فرقہ وارانہ فسادات اور مذہبی انتہا پسندی بھی نہ ہوتی، نہ حکومتوں کی ناکامی اور نہ اتنے بڑے پیمانے پر کرپشن اور اداروں کی خراب کاکردگی، نہ پچاس کی دہائی میں پختونستان کانعرہ درد سر بنتا، نہ سندھودیش کی تحریک جنم لیتی، نہ سانحہ مشرقی پاکستان ہوتا، نہ باربار بلوچستان اور کراچی میں آپریشن کرنا پڑتا، نہ کشمیرمیں پنجہ آزمائی ہوتی، نہ ایٹم بم بنانے کے لیے گھاس تک کھانے کے بھڑکیں ہوتیں، نہ افغانستان کے اندر پراکسی وار میں پھنستے، نہ ہندوستان کے ساتھ پےدرپے جنگیں لڑتے. یہ سب کچھ مولویوں ہی کا کیا دھرا ہے، کیونکہ مولوی ہی پالسی بناتے ہیں، وہی پالیسی پر عمل درآمد بھی کرتے ہیں. مولوی ہی اس ملک کے اندر معاشی ناہمواریوں کے ذمہ دار ہیں، انہوں نے ہی یہاں مختلف طبقات کے اندر احساس محرومی کو فروغ دیا، انہی مولویوں نے خود تو اقتدار کے مزے لوٹے اور عوام کو کبھی روٹی، کپڑا مکان، کبھی بنیادی جمہوریتوں، کبھی اسلامائزیشن، کبھی انلائٹنڈ ماڈریشن اور کبھی وار آن ٹیررکے چکر میں پھنسائے رکھا.

    ان مولویوں کو جہاں بھی پایا جائے، پکڑا جائے، جکڑا جائے، اور ان کو قرار واقعی سزا دی جائے. ان کے اسلام کو ہمارا سلام، ہمیں تو بس سیکولر پاکستان چاہیے، بھلے اس کے لیے ہمیں بٹوارے کے بنیادوں کو ہی کیوں نہ ڈھانا پڑے، تاریخ کے پہیہ کو پھر سے کیوں نہ گھمانا پڑے، قوم کو مزید انتشار اور تقسیم کی طرف کیوں نہ دھکیلنا پڑے! آخر اس ملک کی 90 فیصد آبادی مذہب بیزار سیکولرسٹوں پر مشتمل ہے جو 1947ء سے لے کر اب تک اسلام اور مولوی کی شکنجے میں جکڑی ہوئی ہے. کہاں مرگئے عوامی جمہوریت کے دعویدار اور محافظ؟ .. اللہ حافظ!

  • 3 قومی جنون اور مولوی کی اقسام – محمد راشد

    3 قومی جنون اور مولوی کی اقسام – محمد راشد

    محمد راشد چرچل کا قول ہے کہ امریکن صحیح کام اس وقت کرتے ہیں جب ان کے پاس کرنے کو کوئی غلط کام نہیں ہوتا۔ مذکورہ قول کے تناظر میں دیکھا جائے تو ہم پاکستانی بھی امریکنز سے کسی طرح پیچھے نہیں ہیں۔ ہم ہمیشہ غلط وقت پر صحیح کام اور صحیح وقت پر غلط کام کرنے کے عادی ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ ہمارے اندر پائے جانے والے وہ تین جنون ہیں جن کا عشر عشیر بھی کسی دوسری قوم میں نہیں ملتا۔
    ۱۔ کرکٹ کا جنون
    ۲۔ سیاسی جنون
    ۳۔ مذہبی جنون

    ۱۔ کر کٹ کا جنون برساتی مینڈک کی طرح ہے جو عموماً ورلڈکپ یا کسی دوسری چیمپئن ٹرافی کے وقت ظاہر ہوتا ہے اور پھر اتنی ہی تیزی سے صفحہ ہستی سے مٹ جاتا ہے۔ زمانہ عروج میں یہ جنون ایک عام آدمی کوب ھی کرکٹ ماہرین کی طرح سوچنا اور بولنا سکھا دیتا ہے، ہر گلی محلے میں آپ کو کرکٹ پر وہ تبصرے سننے کو ملتے ہیں جن تک کرکٹ ماہرین کی سوچ کی رسائی بھی شاید ممکن نہ ہو ۔ اس جنون کا اختتام عموماً پاکستانی ٹیم کی ہار کے ساتھ ان الفاظ پر ہوتا ہے جن کو زیب قرطاس کرتے ہوئے قلم بھی شرما جائے اور اختتام کے ساتھ ہی یہ جنون کسی نئی چیمپئن ٹرافی کے ساتھ دوبارہ شروع ہو جاتا ہے۔

    ۲۔ دوسرے جنون کا تعلق سیاست سے ہے. یہ جنون بھی شروع گلی کوچوں ہی سے ہوتا ہے لیکن منتہی ایوان اقتدار پر ہوتا ہے، اول بلند بانگ دعوے، ثانیاً کرسی اور انتہاً عوام کی خون پسینے کی کمائی کا سوئس بینکوں یا آف شور کمپنیوں میں پہنچ جانا ہے اور قربان جائوں اس مستقل مزاج عوام کے جنہیں پُل سےگزرتے وقت ٹیکس دیتے اور جوتے کھاتے ہوئے تنگی وقت کا احساس تو ہے لیکن اس کے پیچھے چھپی حکمت کا ادارک ابھی تک نہیں ہوا۔ انہی حکمرانوں کو جنہیں یہ جھولیاں بھر بھر کے بدعائیں دیتے ہیں اگلے الیکشن میں زندہ ہے فلاں زندہ ہے کے نعرے لگاتے ہوئے ’’سرتسلیم خم جو مزاج یار میں آئے‘‘ کے مصداق قربان ہونے کے لیے دوبارہ تیار کھڑے نظر آتے ہیں۔

    ۳۔ تیسرا جنون ہمارے مولوی حضرات کا عطا کردہ تُرپ کا وہ پتہ ہے جو اس وقت Show Off کیا جاتا ہے جب اسلام کے بجائے خود ان کی اپنی عزت دائو پر لگی ہوتی ہے۔ اس جنون کو سمجھنے کے لیے خداوندانِ جنون (مولوی) کی اقسام کا جاننا ضروری ہے۔

    مولوی کی اولین قسم ارتقائے مولویت کی وہ پہلی کڑی ہے جس کا سرا اصحاب صفہ سے شروع ہو کر خدانخواستہ عنقریب ختم ہونے والا ہے. ان حضرات کا کام قال اللہ اور قال الرسول کی صدائوں کو بلند کرتے ہوئے لوگوں کے ظاہر و باطن کے تضاد کو ختم کرنا ہے۔ ان بوری نشین علماء کا مقصد صرف اور صرف دین کی خدمت کرنا ہوتا ہے، ان کے ہاں آپ کو جبہ و دستار والی رعونت ملے گی نہ ہٹو بچو کی صدائیں۔ کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی شاہوں والا استغناء رکھنے والے علماء کا مقام یہ ہے کہ
    ہم فقیروں سے دوستی کر لو
    گُر سکھا دیں گے بادشاہی ہے
    (چونکہ یہ قسم زیربحث مولویوں کی شرائط پر پوری نہیں اترتی، اس لیے اسے خارج از بحث تصور کیا جائے)

    دوسری قسم ان مولویوں کی ہے جو دین کوملمع بنا کر مشایخت میں پائوں دھرنے کے بعد کولمبس کی طرح ایک نیا جہان دریافت کرنے کے لیے بحری جہاز کے بجائے خطابت کے اُڑن کھٹولے پر سوار جاہل قریوں میں یہ جا وہ جا اڑتے نظر آتے ہیں۔ تفسیری نکات اور فقہی موشگافیوں کا ایک خزینہ جیبوں میں بھرے عام لوگوں کو دین کے ان ادق مسائل میں الجھا کر دم لیتے ہیں کہ لوگ دین کو سمجھ کر چھوڑ دیتے ہیں کہ بخد ا اس دین پر عمل کرنے کے لیے کم از کم صحابی ہونا ضروری ہے اور اس دور میں صحابی بننے کے لیے اس تھوڑے سے اسلام کو بھی قربان کرنے کی نوبت آجاتی ہے جو انہیں اپنے آبائو اجداد سے ملا ہے اس لیے یہ لوگ اس تھوڑے سے دین پر ہی اکتفاء کر کے بیٹھ جاتے ہیں۔ اس قسم کے مولویوں کا محبوب مشغلہ انگریزوں کے اس قول پر عمل کرنا ہوتاہے کہ لڑائو اور حکومت کرو، اس لیے یہ مختلف بستیوں میں جا کر کشمیری بانڈی کی طرح کے چند شوشے چھوڑ جاتے ہیں اور خود منظر عام سے غائب ہو جاتے ہیں اور پیچھے بستی والے مدت مدیدہ تک باہم دست وگریباں رہتے ہیں۔ ان کے نزدیک فنِ خطابت کے ذریعہ حرارت ایمانی کو بیدار کرنے کے لیے اعلیٰ درجہ کے سائونڈ سسٹم کا ہونا اتنا ضروری ہے جتنا انسانی افزائش نسل کے لیے ایک عدد بیوی کا ہونا بصورت دیگر یہ خرابی صحت کا بہانہ داغ کر سامعین کی سماعتوں کو مجروح ہونے سے بچاتے ہوئے کنّی مار جاتے ہیں۔ اس کے پیچھے چھپی حکمت کا ایک دفعہ یوں تجربہ ہوا کہ ایسی ہی ایک خطیبانہ مجلس میں جانے کا اتفاق ہوا اور شومئی قسمت جگہ بھی سائونڈ سسٹم کے بغل میں ملی، سو خطیب صاحب کے ہر پُرجوش جملے پر جسم کے بالوں کے کھڑے ہونے نے کافی دیر اس وہم میں مبتلا کیے رکھا کہ شاید ایمان کی راکھ میں دبی کسی چنگاری نے آگ پکڑنی شروع کر دی ہے مگر بالاًخر تسلیم کرنا پڑا کہ یہ ساری کارستانی سائونڈ سسٹم کی ہے۔ لہذا سوئے ہوئے ایمان کے ساتھ ہی واپسی ہوئی۔

    تیسری قسم ان مولویوں کی ہے جو براستہ دین سیاست میں داخل ہوتے ہیں اور پھر دم مرگ سیاست کی کلائی اس حسینہ کی طرح پکڑے رہتے ہیں جس کے ٹوٹنے اور چھوٹنے ہر دو کا خوف ہمیشہ دامن گیر رہتا ہے. اس قسم کے مولویوں کی بڑی پہچان ان کا حدود ِاربعہ ہوتا ہے جو بذات خود کسی چھوٹی موٹی ریاست سے کم نہیں ہوتا۔ یہ حضرات بیٹھنے کے لیے ’’سایو‘‘ کی کرسی استعمال کرتے ہیں جو مضبوط تو ہوتی ہے لیکن اگر سماعت دل کو وا کیا جائے تو اس کی کرب انگریز چیخوں کو سننا چنداں مشکل نہیں اور اگر اسے جنتی کرسی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ دس گز کے تھان میں ملبوس حضرت سے بات کرتے ہوئے صرف آواز پر اکتفاء کرنا پڑتا ہے کہ آواز کی جائے ورود تک پہنچنا اتنا ہی مشکل ہوتا ہے جتنا K-2 یا مائونٹ ایورسٹ کو سر کرنا۔ کئی دہائیوں پر محیط احیائے جمہوریت کی کوششوں کے باوجود اقتدار کی کرسی تک نہ پہنچنے کی وجہ شاید اس کرسی کی نازک اندامی ہے جو اس ضخیم جثے کی کبھی بھی متحمل نہیں ہوسکتی۔ سیاسی ترقی کے لیے جسامت کا اہم ہونا مجھے تو کسی طرح سمجھ نہیں آتا شاید اقبال مرحوم کے شعر کو غلط سمجھنے کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔
    جمہوریت وہ طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
    بندوں کو تولا کرتے ہیں گنا نہیں کرتے
    ان حضرات میں امت کا درد اور تکلیف کا احساس اس درجہ پایا جاتا ہے کہ نصف رمضان ہی میں کسی فائیو سٹار ہوٹل کے کمرے میں ہاتھ میں قندیل پکڑے چاند تلاش کرنے پہنچ جاتے ہیں ’’بچہ بغل میں اور ڈھنڈورا شہر میں‘‘ کے مصداق چاند تو نہیں ملتا مگر اس ترمیم شدہ شعر پر ضرور عمل ہو جاتا ہے۔
    قندیل کے من میں ڈوب کر پاجا سُراغ زندگی
    اللہ مرحومہ کی مغفرت فرمائے کہ پولیس والوں کی طرح مولوی کی دشمنی اچھی نہ ہی دوستی

    چوتھی اور سب سے جدید اور Upgrade قسم فیس بکی مولوی ہے، یہ قسم تھوڑا عرصہ قبل ہی معرض وجود میں آئی اور اس کا سہرا Mark Zuckerberg کے سر ہے. اس قسم کے مولویوں کا مقصد فیس بُک پر موجود نوجوانوں کو نئے مسائل سے روشناس کر کے ان کے تاریک ذہنوں کو علم و فن کی باریکیوں سے منوّر کرنا اور انہیں یہ باور کرانا ہو تا ہے کہ ’’ستاروں سے آگے جہان اور بھی ہیں۔‘‘ ان کا مقصد اسلام کو نئی بنیادیں فراہم کر کے پرانی بنیادوں سے اعتماد کو ختم کرنا ہے. اکابرین کو سند اسلام سے مکھی کی طرح نکال باہر پھینکنا اور جدید دور کے ڈسپوزایبل فلاسفہ پر دین کی عمارت کو کھڑا کرنا ہے تاکہ جب ضرورت پڑے تو انہیں بھی Replace کیا جا سکے. ویسے دیکھا جائے تو ان کے نزدیک دین کو تجدید کی ضرورت ہے کیونکہ 1400 سالہ پرانا دین اب واقعی موجودہ دور کے تقاضوں کو نبھانے سے قاصر ہے۔ کیونکہ اس وقت نہ تو PTI کے جلسے ہوتے تھے کہ مر دوزن کے اختلاط کے ساتھ مصافحہ اور معانقہ تک کی نوبت آتی، نیک لوگ تھے زیادہ سے زیادہ اجتماع نماز میں ممکن تھا، وہ سہولت بھی بعد میں ختم کر دی گئی تو نئے مسائل کی آمد کا دروازہ ہی بند ہوگیا۔ اور نہ ہی اس وقت موسیقی روح کی غذا تھی کہ روحیں صحت مندانہ سرگرمیوں کی وجہ سے قوی تھیں اور ان کی غذا بھی مقوی تھی۔ آج کل روحیں تھوڑی نازک، تھوڑی نخریلی ہیں، سینڈ وچ اور برگر کی طرح ان کی خوراک بھی موسیقی ہے۔ سو موسیقی کے لیے بھی احکامات کی تبدیلی کی ضرورت پڑی۔ صحابہ کرام ؓ جیسے حضرات بھی ضرورت کے وقت قرآن و حدیث کے بعد ایک دوسرے کے فتاویٰ پر عمل کر لیا کرتے تھے، اور ان کے ہاں تو علم اپنی انتہاء پر اور عمل نقطہ عروج پر پہنچ گیا ہے۔ لہذا علوم کا نزول بلاواسطہ قلب پر بصورت الہام ہوتا ہے جو کہ صبح صبح فیس بُک پر جگمگا رہا ہوتا ہے کہ کتمان علم ازروئے شرح گناہ کبیرہ ہے۔ قرون ثلاثہ پر ان کی نظر اتنی گہری ہوتی ہے کہ دیکھتے ہی ضعیف اور موضوع حدیث کے درمیان فرق بتا دیتے ہیں۔ محدثین پر اعتماد کا یہ حال ہے کہ بسا اوقات ان کی باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ محدثین مرتشی قسم کے لوگوں کا ایک ٹولہ تھا جو رشوت لے کر سند حدیث میں نام درج کرتا تھا اور بعض دفعہ تو منہ کا ذائقہ تبدیل کرنے کے لیے ایک آدھ حدیث اپنی طرف سے بھی گھڑ لیا کرتا تھا۔ ان حضرات کے نزدیک موجودہ دور میں مقام اجتہاد تک پہنچے کے لیے 100 کے قریب Likes ضروری ہیں لہذا مقام اجتہاد کو پہنچے کے بعد انہیں فقہائےامت جاہل قسم کے لوگوں کا ایک گروہ نظر آتے ہیں جو مسجد میں پیدا ہوئے اور وہیں چل بسے اور ان کے مسائل و فقہ پر اعتماد کس طرح ممکن ہے کہ وہ تو اقبال کے مسیتا تھے۔
    مسجد سے نکلتا نہیں ضدی ہے مسیتا
    اس قسم کے مولویوں میں اعتدال اس درجہ پایاجاتا ہے کہ مذہبی گستاخیاں تو کُجا مذہبی مارپیٹ بھی کھلے دل سے برداشت کر لیتے ہیں، اور تعصب اس درجہ کے ان کے نقطہ نظر سے اختلاف کفر سے کم نہیں ہوتا، ایسے موقع پر ان کے زبان و ہاتھ سے وہ نادر و نایاب الفاظ اور گالیاں سننے کو ملتی ہیں کہ طبیعت باغ باغ ہو جاتی ہے۔
    گالیاں کھا کے بھی بےمزہ نہ ہوا
    اور میرے جیسے کئی تو اس پر بھی Reaction میں Happy کے لوگو کو کلک کر کے خوش ہوتے رہتے ہیں اور یہ حضرات اپنی ولایت پر کہ شاید مدمقابل توبہ کرنے کے بعد اسلام میں دوبارہ داخل ہونے کو تیار ہوگیا ہے۔

  • مہنگے مولوی – عبدالرحمن قیصرانی

    مہنگے مولوی – عبدالرحمن قیصرانی

    Mehngay-Molvi اس مرتبہ ہمیں دفتری امور سے فراغت ملی تو گرمیوں کی تعطیلات اپنے دوست چوہدری عالم گیر کے ہاں گائوں میں گزارنے کا فیصلہ کیا۔ دو ایک جوڑے کپڑے اور ضروری چیزیں ایک بیگ میں ڈالے ہم گائوں روانہ ہو گئے۔ شہر کی پُر رونق و پُرہجوم زندگی سے اوسان خطا ہونے لگے تھے۔ ریل گاڑی دیہاتی علاقے میں داخل ہوئی تو قدرت کا خاص تحفہ ملا۔ جی ہاں ہم تازہ ہوا کا ذکر کر رہے ہیں۔ یہ وہ خاص تحفہ ہے جو شہر کے ترقی یافتہ ماحول میں شاذ و نادر ہی میسر ہوتا ہے۔

    گائوں میں اسٹیشن پر چوہدری صاحب اور چند دیگر دوست ہمارے منتظر تھے۔ پُرتپاک استقبال کے بعد چوہدری صاحب کے ڈیرے پر پہنچے۔ خوب آئو بھگت کی گئی۔گائوں کے لوگ بڑی خوش دلی سے ملے۔ مسجد میں مولوی صاحب نے نماز کے بعد مزاج دریافت کیا۔ کچھ مہمان مسجد میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ مولوی صاحب نے بتایا کہ یہ دوسرے علاقوں سے آئے ہیں اور ایک ضروری کام پر محنت کر رہے ہیں۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر۔ ہمیں بڑی خوشی ہوئی اُن دوستوں سے بھی تعارف ہوا۔ معلوم ہوا کہ وہ لوگ بھی آج ہی وہاں پہنچے تھے۔ چوہدری صاحب بڑے خوش مزاج آدمی ہیں۔ اکثر اوقات اُن کے ڈیرے پر دوستوں کی محفل رچا کرتی ہے۔ دوستوں کا خوب ہنسی مذاق اور ادبی مباحثہ محفل کو رونق بخشتا ہے۔ غرضیکہ دن بڑا خوشگوار گزرا اور گائوں کے سادہ لوح لوگوں کی دلچسب باتیں سن کر بہت اچھا لگا۔

    چوہدری صاحب کے متعدد ملازمین میں ’جیلا‘ بھی شامل ہے۔ موصوف کا اصل نام تو شاید جلیل یا شرجیل ہے مگر عرف عام میں جیلا ہی مستعمل ہے، جس پہ وہ بخوشی راضی ہے۔ اپنے آپ میں جیلا بہت خود پسند واقع ہوا ہے تاہم مردم شناسی بھی اُس میں خوب ہے۔ ہم سے اکثر کہا کرتا ہے کہ ’’صاب جی ہم گائوں کے لوگ تو چہرہ دیکھ کے بندے کی قسمت اور مزاج پڑھ لیتے ہیں‘‘۔ اور ہم اُس کی اس صفت کی داد دیتے ہیں اور شاید آپ بھی دیں گے۔ شام کو ہم چوہدری صاحب کے ساتھ ٹہل رہے تھے کہ جیلا وہاں آیا اور بولا ، ’’چودری صاب! بیٹھک میں کچھ لوگ آئے ہیں اور آپ سے ملنا چاہتے ہیں‘‘۔ چوہدری صاحب نے فوراً کہا کہ اُنھیں چائے پانی پوچھو، میں آتا ہوں۔ اور خود تیزی سے بیٹھک کی طرف لپکے۔ ہم تیز چلنے میں ذرا دقت محسوس کرتے ہیں جس کی وجہ ہماری فربہی کے سوا کچھ نہیں، اس لیے ذرا آہستہ آہستہ مہمان خانے کی طرف چلنے لگے۔ چوہدری صاحب اتنے میں بیٹھک میں داخل ہو چکے تھے۔ درختوں کی قطار ختم ہوئی تو چار پانچ گاڑیاں ڈیرے کے سامنے کھڑی نظر آئیں جو یقینا گائوں والوں میں سے کسی کی نہ تھیں۔ لگا کہ شہر سے کوئی دوست وغیرہ آئے ہوں گے اتنی مہنگی گاڑیوں میں۔ اتنے میں جیلا بیٹھک سے برآمد ہوا اور ہماری طرف لپکا۔ اس کے عقب سے بیٹھک کے اندر بیٹھے کچھ مہمانوں کے چہرے نظر آئے جو کچھ شناسا لگ رہے تھے۔ ارے یہ تو وہی مہمان تھے جو دوپہر کو ہمیں مسجد میں ملے تھے۔ اب معلوم ہوا کہ وہ لوگ چوہدری صاحب سے ملنے خود اُن کے پاس آئے تھے۔ اتنے میں جیلا ہمارے قریب آن پہنچا اور بولا۔ ’’صاب جی! آپ کو پتا ہے کون آیا ہے‘‘۔
    ہم نے سوالیہ نظروں سے اُسے دیکھا تو وہ بولا۔ ’’صاب جی! مولوی آئے ہیں‘‘۔ ہم نے کہا اچھا۔ تو وہ بولا ’’ہمیشہ سے ایک مولوی سائیکل پہ آتا ہے اور سو روپے لے کے نکل جاتا ہے، یہ مولوی موٹروں پہ آئے بیٹھے ہیں، ہزار سے ایک پیسہ کم نئیں لیں گے‘‘۔