Tag: مفتی عبدالقوی

  • قندیل بلوچ اور مجرم معاشرہ – صہیب اکرام

    قندیل بلوچ اور مجرم معاشرہ – صہیب اکرام

    چلتے چلتے تذکرہ معاشرے کے ایک بدقسمت کردار قندیل بلوچ کا بھی کر لیا جائے. آغاز زندگی میں جبری شادیاں اور طلاقیں، شاید ہمارا مجموعی معاشرتی مسئلہ نہیں، یہ تو ہر شہر میں ہوتا ہے، قندیل بھی کمپرومائز کرلیتی. خیر فیس بک پر کسی صاحب طرز کا سٹیٹس پڑھا کہ بے حیائی کا ایک باب بند ہوا. ذہن میں قندیل بلوچ کی مختصر زندگی آگئی، ایک ناکام و گمنام ماڈل جو اپنے بےپناہ غیرت میں لتھڑے بھائیوں کے حیات ہوتے ہوئے بھی اپنے گھر کی واحد قندیل تھی.

    خیر میرا یہ مسئلہ بھی نہیں، پھر بے حیائی کے مجسمہ حسن جسے دنیا قندیل بلوچ کہتی ہے، اس کی بدنام زندگی سامنے آنے لگی، یہ ہوٹل کے کمرے میں مفتی قوی صاحب کے ساتھ ایک بہت خوبصورت سلیفی لیتے ہوئے موجود، مفتی قوی معاشرے کے شریف طبقے کا نمائندہ اور شرافت و پارسائی کا دعوے دار،، مگر ماڈل گرل معاشرے کے ماتھے کا کلنک، میڈیا اس کے جسم کو نوچ نوچ کر ریٹنگ حاصل کرنے کی جدوجہد میں مصروف رہا، شرفا گھروں، ہوٹلوں میں اس کو دیکھ دیکھ کر بھی باوضو رہے، مگر قندیل معاشرے کا ناسور،، کالجوں، یونیورسٹیوں کے طالب علم جو ہر فلم سینما میں جاکر دیکھنا اسلام کا رکن سمجھتے ہیں اور ہر سیزن کو عبادت کا درجہ دیتے ہیں ، ان کی زبان سے بھی اس بازار کی ماڈل کے لیے صرف نازیبا الفاظ ،،

    سوچنے لگا کہ قتل غیرت کے نام پر ہونا ہے تو پہلے قندیل کا بھائی ہوتا، جس کے جیتے جی گھر کا سہارا یہ بنی تھی، مجرم قندیل بلوچ ہے تو مفتی قوی آج بھی معزز کیوں ہے؟ جسموں کی منڈی لگانے والا میڈیا اب بھی محترم کیوں؟ جعلی شرفا اور یہ تعلیمی اداروں کے نوجوان کیوں گناہگار نہیں؟ پورا معاشرہ تب کہاں تھا جب ایک غریب کی عزت کسی محل کی قندیل بن رہی تھی. میں نہیں جانتا کہ اس کا انجام آخرت کیا ہوگا اور مجھے تو جاننا بھی نہیں، میں تو انتظار میں ہوں کہ کب آزاد غیرت مند میڈیا اور تماشائی سوسائٹی ایک اور قندیل بلوچ کو جنم دیتی ہے.

    آج منٹو یاد آگیا کہ یہ طبقہ دھبہ ہے، اسے شہر بدر کر دو اور پھر بیس سال بعد یہ طبقہ پھر دھبہ ہے، پھر شھر بدر کر دو،، مگر دیکھنے والے، عیاشوں کی محفلوں میں نچوانے والے، ہوٹلوں کے کمروں میں باوضو سلیفیاں لینے والے سب ہمارے معاشرے کی غیرت ہیں اور صرف قندیل بلوچ مجرم، بے حیا اور بدنما داغ تھی.

    آخر میں شورش کے آلفاظ کو چراتے ہوئے اپنے جذبات کا اظہار کرنا چاہتا ہوں،،،
    ” آہ ــــــ میرے پاس طاقت ہوتی تو میں اس کو نہ لکھتا بلکہ اس معاشرے کے در و دیوار ہلا ڈالتا جس میں عورت کسبی ہے، میرے پاس تلوار ہوتی تو میں سیاسی کھوپڑیوں کی فصل کاٹتا کہ پک چکی ہے. میرے پاس صرف قلم ہے اور میں نے اس عورت کے زخم پیش کیے ہیں جس کا روپ عیاش انسانوں کے قہقہوں کی دستبرد میں ہے. کاش! مجھے اختیار ہوتا کہ میں بڑے بڑے عماموں کے پیچ کھولتا، ان کی دستار فضیلت کے پھریرے بنا کر بالاخانوں پر لہراتا، عالمگیری مسجد کے دروازے پر کھڑا ہو کر فقیہ شہر کو للکارتا، اس کی دراز قبا پھاڑ ڈالتا اور اس کے ٹکڑے دریدہ عفتوں کے حوالے کرتا کہ اپنی برہنگی ڈھانپ لیں. قبا نہیں، اورنگزیب کی بیٹی زیب النسا کا کفن ہے.”

  • شاید ہم بھی ایسے ہی ہو جائیں گے…اوریا مقبول جان

    شاید ہم بھی ایسے ہی ہو جائیں گے…اوریا مقبول جان

    omj-harfaraz-1466700536-530-640x480

    میڈیا کسی کی زندگی اس قدر مشکل اور خوفزدہ بھی بنا سکتا ہے، اس کا اندازہ دنیا میں بسنے والے شاید ہر سمجھ دار انسان کو ہو لیکن اس میڈیا کے گھوڑے پر سوار ہو کر مقبول ہونے والی قندیل بلوچ کو شاید نہیں تھا، اسے اندازہ نہیں تھا کہ میڈیا کا یہ منہ زور گھوڑا پہلے تو اسے اپنے اوپر بٹھا کر سرپٹ دوڑتا رہا اور جہاں اس پر سوار قندیل بلوچ کو دن دوگنی رات چوگنی شہرت ملی‘ وہیں گھوڑے کو بھی اس کی تیز رفتاری کی داد ’’ریٹنگ‘‘ کی صورت میں مسلسل ملتی رہی۔ لیکن سوار کو اس کا اندازہ ہی نہ تھا کہ یہ منہ زور گھوڑا ایک ایسی چال چلتا ہے کہ اس پر بیٹھی قندیل توازن کھو بیٹھی، گھوڑے نے نہ چال ہلکی کی اور نہ ہی اسے سنبھلنے کا موقع دیا۔

    زمین پر پٹخا، اسے سموں تلے روندا، طاقت کے نشے میں ہنہنایا، ریٹنگ کی صورت داد وصول کی اور پھر کسی اور سوار کو اٹھائے ویسے ہی سرپٹ بھاگنے لگا۔ زخمی قندیل کو ابھی بھی امید تھی کہ میڈیا اسے دوبارہ سہارا دے کر بٹھا لے گا۔ لیکن میڈیا کو تو اس کی موت کا انتظار تھا۔ اس لیے کہ زندہ قندیل اب ایک چلا ہوا کارتوس تھی، اس سے جتنی ریٹنگ کمائی جا سکتی تھی وہ کما لی گئی۔

    اب اس کے مزید سیکنڈلز میں جان ڈالنا آسان نہ تھا۔ لوگ ایسے سیکنڈلز میں پہلے سے بڑھ کر کچھ اور دیکھنا چاہتے ہیں اور جس حد تک میڈیا اسے لے جا چکا تھا اب اس سے زیادہ بڑھنا اس کے بس میں نہ تھا۔ کسی کو یقین تک نہ تھا کہ انھیں اچانک اتنی بڑی خبر مل جائے گی، ’’واؤ‘‘، قندیل کی موت۔ تیز رفتار ڈی ایس این جیز، برق رفتار کیمرہ مین اور عالی دماغ رپورٹر جمع تھے۔ دن بھر تماشا لگا رہا۔ رات کو میک اپ روم سے چہروں پر غمازہ تھوپے، آرائش گیسو اور لباس کی بانکپن سے آراستہ مرد اور خواتین اینکر پرسن اپنے اپنے مخصوص انداز اداکاری میں جلوہ گر ہوئے۔

    کسی کی آنکھ میں تیرتے آنسو تھے تو کوئی اس بے حس معاشرے کے ظلم پر سر پکڑ کر بیٹھا ہوا تھا۔ کوئی اس کے بھائی کو مورد الزام ٹھہرا رہا تھا تو کسی کو حکومت پر غصہ آ رہا تھا۔ ریٹنگ، ریٹنگ، ریٹنگ۔۔۔۔ ہر کوئی ریس کورس کے گھوڑے کی طرح سرپٹ بھاگے جا رہا تھا۔ میڈیا کے اس سرپٹ بھاگتے گھوڑے کو اپنی توانائی کے لیے ایک پارٹنر ہمیشہ مل جاتا ہے۔ یہ ہوتی ہیں انسانی حقوق اور حقوق نسواں کی علمبردار این جی اوز۔ انھیں بھی کسی بڑی خبر کا انتظار ہوتا ہے۔ اس دفعہ تو کمال ہی ہو گیا۔ قندیل کی موت پر جب میڈیا کا بازار سجا تو جس کسی نے اس کے قتل پر میڈیا کو مورد الزام ٹھہرانے کی کوشش کی تو یہ ایک دم بیک آواز ہو کر کود پڑیں۔ ان کے فقرے کمال کے تھے۔ آپ میڈیا پر الزام لگا کر معاملے کی سنگینی کو کم کر رہے ہیں۔ آپ اصل ایشو سے توجہ ہٹانا چاہتے ہیں۔ ہمیں اس سفاک قتل کے بارے میں بات کرنا چاہیے۔

    انسانی حقوق اور حقوق نسواں کی علمبردار ان این جی اوز کی نمایندہ مرد و خواتین اس سارے عرصہ میں چپ رہیں جب میڈیا کے شوز میں اس خاتون کو سستی شہرت دلانے کے لیے گھٹیا قسم کی فقرے بازی کی جاتی رہی۔ اس کے مخصوص انداز کو کیمروں کے ذریعے جاذب نظر بنایا جاتا رہا۔ تحقیق و تفتیش کے عالمی ریکارڈ اس وقت ٹوٹے جب سوشل میڈیا پر کروڑوں لوگوں تک پہلے سے پہنچی ہوئی مفتی قوی کے ساتھ اس کی ویڈیو ان کے ہاتھ لگی۔ اسے ایک اہم ترین بریکنگ نیوز کے طور پر چلایا گیا۔ پھر رات کو ایک اور تماشہ لگا، اینکر پرسنز اسے انتہائی نامناسب لباس میں اپنے پروگرام میں لائے، جسے وہ مسلسل اپنے ہاتھ سے مزید نامناسب کرتی چلی جا رہی تھی۔ مفتی قوی کو ساتھ بلایا گیا اور پھر ایک گھنٹے سے بھی زیادہ کا تماشہ لگا۔ اینکرزحضرات استہزائی ہنسی ہنستے رہے۔ جملے پھینکتے اور جملوں پر مضحکہ خیز تبصرے کرتے رہے۔

    اس کی موت کے بعد اسے قوم کی بیٹی یا بہن کہنے والے یہ لوگ کیا بہن یا بیٹی کو اس طرح ’’ایکسپوز‘‘ کرنے اور اسے خاصے کی چیز بنا کر پیش کرنے کا جواز دے سکتے ہیں۔ یہاں تک کہانی مرنجا مرنج اور خوش کن چل رہی تھی۔ قندیل کو سستی شہرت چاہیے تھی اور میڈیا کو ریٹنگ لیکن شاید این جی اوز کو کسی بڑے سانحے کا انتظار تھا۔ ڈرامے میں ٹریجڈی بھی تو ڈالنا تھی۔ صحافیانہ تفتیش و تحقیق شروع ہوئی۔ وہ بیچاری اپنے اس لائف اسٹائل میں گزشتہ کئی سالوں سے زندگی گزار رہی تھی۔ اپنی کمائی سے اپنے والدین اور دیگر گھر والوں کا خرچہ بھی اٹھاتی رہی۔ اس مکروہ اور کریہہ معاشرے سے بچنے کے لیے اس نے اپنا نام فوزیہ سے بدل کر قندیل بلوچ رکھ لیا تھا۔ رپورٹر پہنچے، اس کے گھر کا کھوج لگایا، شناختی کارڈ ھونڈ نکالا۔ اس کی دو ناکام شادیوں کی داستانیں پتہ چلیں، ایک بچہ بھی آ گیا۔ اب کہانی اپنے دردناک انجام کی جانب بڑھنے لگی۔

    یہ میڈیا کے لوگ پیرس یا لندن میں نہیں رہتے کہ انھیں علم نہ ہو کہ بات چھپی رہے تو لوگوں کی زندگیاں پرسکون رہتی ہیں۔ اکا دکا لوگ طعنے دیتے ہیں لیکن جب میڈیا اور وہ بھی الیکٹرونک میڈیا پر تماشہ لگتا ہے تو پھر لوگ اٹھتے بیٹھتے طعنے دیتے ہیں۔ زندگی اجیران کر دیتے ہیں۔ میں وہ الفاظ درج نہیں کر سکتا جو لوگ طعنوں کے طور پر منہ سے نکالتے ہیں۔ قتل کی نفسیاتی تحقیق یہ کہتی ہے کہ اس کی اکثر وجوہات ایک ہیجانی کیفیت سے جنم لیتی ہے جو لوگوں کے طعنے، معاشرے میں عدم قبولیت، کسی سانحے کی ڈپریشن یا کسی رویے سے جنم لینے والے غصہ سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ کسی بھی شخص کو اندھا کر دیتی ہے اور میڈیا کی روشنیاں یہ اندھا پن بہترین طریقے سے پیدا کرتی ہیں۔ کس قدر مزے کی بات ہے، زندہ قندیل بلوچ بھی ایک خبر ہے بیچنے کے لیے اور مردہ تو بہت ہی اہم ہے۔ بیچو بھی اور اپنا اخلاقی قد اور حقوق نسواں کے علمبردار ہونے، حساس اینکر پرسن ہونے کا پرچم بھی بلند کرو۔ اس ساری دھماچوکڑی میں سب سے مظلوم پاکستانی معاشرہ اور اس کے اٹھارہ کروڑ عوام ہیں۔

    ہر کوئی اس معاشرے کو گالی دیتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ منہ چڑانے کے لیے مغرب کی تعریف کر رہا ہوتا ہے۔ جن دنوں ہم اپنے معاشرے کو قندیل بلوچ کے قتل کا ذمے دار ٹھہرا رہے تھے انھی دنوں کینیڈا کی سینٹ میری Saint Mary یونیورسٹی کی پروفیسر جوڈتھ ہیون (Judith Havien) جو عرف عام میں جوڈی ہیون کے طور پر مشہور ہے اس نے نیویارک کے مہذب ترین شہر میں عورت کے تنہا سڑکوں پر چلنے کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر لگائی اور اس کا عنوان رکھا Video Proof that Some Men are Pigs (اس بات کا ویڈیو ثبوت کہ کچھ مرد سور ہوتے ہیں) ویڈیو کا نام ہے۔

    ”10 Hours of Walking in NY  as Woman” (ایک عورت کی حیثیت سے نیویارک شہر میں دس گھنٹے کی چہل قدمی)۔ ویڈیو اس شہر نیویارک کا اصل چہرہ ہے۔ کوئی اس عورت کو گندے القاب سے پکار رہا ہے تو کوئی اس کا پیچھا کرتے ہوئے اس کے جسمانی خطوط کی تعریف کر رہا ہے، تو کوئی اسے اپنا فون نمبر دکھا رہا ہے۔ کوئی رات کی دعوت دیتا ہے تو کوئی دوستی کی۔ یہ دعوت خاموشی سے سنی جاتی ہے۔ یہ مغرب کے میڈیا کے لیے خبر نہیں۔ عورت کی یہ تذلیل، ذلت و رسوائی حقوق نسواں کے علمبرداروں کے لیے المیہ نہیں۔ کیونکہ ان کے نزدیک یہ لائف اسٹائل ہے۔ ایسا تو ہوتا ہے۔ یہ تو نارمل ہے، اسے کیا بیان کرنا، لیکن جوڈی ہیون کے نزدیک امریکا اور مغرب میں اگر کوئی عورت غیرت کے نام پر قتل بھی کر دی جائے تو اب یہ میڈیا کے لیے ایک خبر نہیں بنتی۔ البتہ پاکستان میں کوئی عورت ایسے قتل ہو تو ایک دم ہیڈلائن ہے۔

    اکتوبر 2014ء کو جوڈی ہیون کا لکھا ہوا خط جو اس نے اس اخبار کو لکھا تھا جس نے ہیڈلائن لگائی تھی کہ پاکستان میں عدالت کے باہر عورت کو گھر والوں نے پتھر مار کر مار دیا۔ بہت زیادہ تنقید کا نشانہ بنا۔ کینیڈا کی دوسری قدیم اور بڑی یونیورسٹی کی اس پروفیسر نے خط میں تحریر کیا کہ مغرب کا یہ میڈیا پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل ہونے والی ایک لڑکی کی خبر تو لگاتا ہے اور لکھتا ہے کہ 2013ء سے لے کر اکتوبر 2014ء تک وہاں 869 عورتیں غیرت کے نام پر قتل ہوئیں۔ لیکن صرف امریکا میں اسی عرصے میں 1095 عورتوں کو ان کے شوہروں اور بوائے فرینڈز نے قتل کر دیا۔ ہر روز امریکا میں تین عورتیں اپنے عاشقوں یا شوہروں کے ہاتھوں قتل ہوتی ہیں۔ لیکن معاشرہ بھی انھیں جذباتی جرم Crime of Passion کہہ کر چپ ہے اور میڈیا تو اسے امریکی لائف اسٹائل کا حصہ سمجھتا ہے۔ اس لیے کہ اس کے نزدیک بھائی قتل کرے تو حیرت کی بات ہے، شوہر یا بوائے فرینڈ قتل کر دے تو یہ معمول۔ نہ کوئی ہیڈلائن لگتی ہے، نہ مضمون لکھے جاتے ہیں، نہ موم بتیاں جلائی جاتی ہیں۔ خس کم جہاں پاک۔ کس قدر بدقسمت ہیں وہ عورتیں جن کی موت نہ انھیں شہرت دے سکی اور نہ ہی میڈیا کو ریٹنگ۔ شاید ایک دن ہم بھی ایسے ہی ہو جائیں گے۔

  • قاتل کون۔۔۔؟…طارق محمود چوہدری

    قاتل کون۔۔۔؟…طارق محمود چوہدری

    p12_04

    قندیل بلوچ کی مختصر زندگی اور اس کی دردناک موت، منیر نیازی کے اس شعر کی عملی تفسیر نظر آتی ہے جس میں بے دل شاعر نے کہا تھا کہ کچھ تو شہر کے لوگ بھی ظالم ہیں اور کچھ مجھے مرنے کا شوق بھی۔ بظاہر تو قندیل بلوچ کو قتل تو اس کے ’’غیرت مند‘‘ بھائی نے کیا۔ لیکن یہ بھائی قاتل نہیں۔ آلہ قتل ہے۔ جس طرح بندوق، پستول، خنجر، چھری، تلوار آلہ قتل کے زمرے میں آتے ہیں۔ درست قاتل وہی کہلاتا ہے جس کے ہاتھ لبلبی دبانے، خنجر، چھری کا وار کرتے اور جیتے جاگتے انسان کو موت کی تاریک سرد وادیوں میں دھکیل دیتے ہیں۔ قندیل بلوچ کے قتل میں شریک جرم ایک نہیں کئی ہیں۔ تضادات کا شکار معاشرہ، بے حس سماج،منافقانہ رویئے، شہرت کی اندھی خواہش، ثنا خوان تقدیس مشرق، عورت کو جنس بازار سمجھنے والے سوداگر، ریٹنگ کی اندھا دھند دوڑ میں میکانی سمت، الیکٹرانک میڈیا، قاتلوں کے اس گروہ نے مل کر قندیل بلوچ کو مارا۔ یہ سب قاتل شریک جرم ہیں۔ ہاں! سزا اس کے بھائی کو ملے گی۔ وہ بھی نہ جانے کتنی تاخیر سے۔ ویسے اگر قندیل بلوچ نہ بھی ماری جاتی تو وہ اپنے اوپر پہنی ہوئی بغاوت کی خودکش جیکٹ کا شکار ہو جاتی۔ آخر ایک روز یہ ہونا ہی تھا۔
    ٹی وی پر ڈرامے دیکھنا۔ ایک عرصہ ہوا چھوڑ دیا۔ ایک ہی طرح کے موضوعات، ایک ہی طرح کے پس منظر اور تاثر دینے والے ڈراموں کو چند منٹوں کیلئے بھی برداشت کرنا مشکل کام ہے۔ اب تو یہ بھی معلوم نہیں کہ کون سا ہیرو نمبر ون ہے اور کون سی ہیروئن ٹاپ سلاٹ پر براجمان ہے۔ لہٰذا بہت سے آرٹسٹوں کو شکل سے تو پہچانتا ہوں البتہ ان کے نام ہر گز معلوم نہیں۔ آخری فلم کب دیکھی یہ بھی یاد نہیں۔ کرنٹ افیئرز کے پروگرام دیکھنے کیلئے بلڈ پریشر اور ذیابیطس کنٹرول کرنے کی گولیوں کا سٹاک اپنے ہاتھ کی پہنچ میں رکھنا پڑتا ہے۔ ایسی سرگرمیوں سے اب دور ہی رہتا ہوں۔ فالتو وقت، جو بہت زیادہ میسر نہیں۔ میں کوئی کتاب، میگزین، ڈائجسٹ پڑھتا ہوں۔ البتہ ٹی وی ہی دیکھنا ہو تو سپورٹس چینل ہی اولین ترجیح پاتے ہیں۔ لہٰذا پہلے پہل قندیل بلوچ کا نام سنا تو کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ موصوفہ کون ہیں؟ اداکارہ ہیں، گلوکارہ ہیں یا ماڈل ہیں۔ کون سی فلم میں کام کیا؟ کسی ہٹ ڈرامے میں کوئی پاپولر کردار ادا کیا؟ کوئی اچانک مشہور ہو جانے والا گیت گایا۔ پتہ چلا کہ ان میں سے کوئی بھی بات حقیقت نہیں۔ اس کے باوجود قندیل بلوچ کے نام کے ڈنکے بجتے دیکھے۔ معلوم ہوا کہ سوشل میڈیا پر بہت پاپولر ہیں۔ کوئی پانچ لاکھ کے قریب ان کے فالوور ہیں۔ ادھر وہ کوئی پوسٹ اپنے پیج پر ڈالتی ہیں، ادھر سوشل میڈیا کی چکاچوند سے بھرپور دنیا میں ایک کھلبلی مچ جاتی ہے۔ قندیل بلوچ کی غیر معمولی شہرت کی کہانی پانی کے بلبلے کی طرح ہے، بلبلہ بنا۔ چند روز نظروں کے سامنے رہا اور پھر ایک روز اچانک بے رحمی اور سفاکی کی دھوپ اس کو کھا گئی۔ مرحومہ کو غیر معمولی شہرت ورلڈ کپ میں ملی۔

    جب انہوں نے کہا کہ پاکستان ورلڈ کپ جیت گیا تو وہ اس خوشی کے موقع پر غیر معمولی انداز میں جشن منائے گی۔ وہ پاکستانی شائقین کیلئے ’’سڑپ ٹیز‘‘ کا مظاہرہ کریں گی۔ کسی زمانے میں تو سٹرپ ٹیز کا لفظ ہی جسم میں سنسنی دوڑانے کیلئے کافی ہوا کرتا تھا۔ لیکن یہ پرانی باتیں ہیں۔ اب پاک لوگوں کے غیرت مند معاشرے میں سب کو معلوم ہے کہ سٹرپ ٹیز کیا چیز ہے۔ ایسے ملک میں جس کو بین الاقوامی ادارے ایک خاص شعبہ میں نمبر ون پوزیشن کا حقدار قرار دے چکے ہوں۔ جانتے ہوں نا اس کے اعزاز کے متعلق۔ جی ہاں! بین الاقوامی ریسرچ بتاتی ہے کہ پاکستان انٹرنیٹ پر فحش اور بیہودہ سائٹس کی سرچ میں ٹاپ پوزیشن پر ہے۔ غیرت کے نام پر جان لینے اور دینے والے معاشرے ایسے ہی ہوا کرتے ہیں۔ بہرحال قندیل بلوچ اس فراخ دلانہ پیشکش سے بہت پہلے، قائد انقلاب عمران خان سے شادی کی خواہش ظاہر کر کے شہرت حاصل کر چکی تھی۔ عمران خان سے شادی کی خواہش پوری ہوئی نہ پاکستان ورلڈ کپ میں کوارٹر فائنل سے آگے جا سکا۔ اس وقت تک ذاتی طور پر قندیل بلوچ کو مشکل سے کم از کم یہ خاکسار تو نہیں پہچانتا تھا۔ سب سے پہلے قندیل بلوچ کو ورلڈ کپ کے بعد ایک ٹی وی چینل پر لاہور کے اینکر کے پروگرام میں دیگر خواتین سے لڑتے دیکھا۔ اینکر موصوف چند سالوں میں تیزی سے وزارتوں، عہدوں کی فصیلیں پھلانگتے ہوئے آج ٹاپ پوزیشن ہولڈر ہیں۔ اپنے جہاز کے بھی مالک ہیں۔ بہرحال اس ایک گھنٹہ کے پروگرام میں قندیل بلوچ نے بھی کھل کر متنازعہ باتیں کیں اور ٹی وی پروگرام کی ریٹنگ میں بھرپور اضافہ کیا۔ اس کے ایکسپریشن، اس کا انداز گفتگو صاف بتا رہا تھا کہ اس کو معلوم ہے کہ چسکے کے متلاشی نمائش بینوں کو مطلوبہ تفریح کس طرح پہنچائی جاتی ہے۔ پھر ریٹنگ کے حصول کیلئے ہر معاشرتی قدر کو چھابڑی میں رکھ کر بیجنے کیلئے تیار میڈیا ماسٹروں کو قندیل کی شکل میں ہاتھوں ہاتھ بکنے والی پراڈکٹ نظر آئی۔ سوداگر کیلئے صرف یہی اہم ہوتا ہے کہ اس کی تیار کردہ پراڈکٹ منہ مانگے دام بکتی رہے۔ خریدار

    پر اس کا کیا اثر ہوتا ہے تاجر کو اس سے کوئی غرض نہیں۔ بہرحال اس پراڈکٹ کو بیچنے کیلئے اس کے ساتھ مفتی قوی نامی عالم ہونے کے دعویدار شخص کا پیئر بنایا گیا۔ شہرت کیلئے قوی صاحب نے بھی ہر وہ اوچھی حرکت، ذومعنی فقرہ بولا۔ جو سکرین کی ڈیمانڈ تھی۔ ٹی وی سکرینوں پر ایسے رنگیلے،جعلی عالم خوب ریٹنگ پاتے ہیں۔ ایسے ہی جیسے ایک ’’ان لائن جاہل‘‘ عالم بن کر رمضان میں برکات رمضان، محرم میں غمگساری خانوادہ نواسہ رسول، ربیع الاول میں فضائل اسوہ حسنہ بیچتا ہے۔ قندیل نے اس مولوی کو خوب بے نقاب کیا۔ اس کے کردار، تقویٰ کے دعوے کو جعلی میڈیا کو بیچ چوراہے پھوڑا۔ یہی قندیل کے مختصر عرصہ شہرت کا نکتہ عروج تھا۔ میڈیا نے اپنی حدود سے تجاوز کیا۔ کون جانتا ہے اس حقائق کی تلاش کی مہم کا ماسٹر مائنڈ کون تھا؟ بہرحال میڈیا اس کے آبائی گھر تک پہنچا۔ اس کی زندگی کا ہر گوشہ، ہر کونا، چوکوں، چوراہوں میں بینر پر لکھ کر سجا دیا۔ اس کی شادیاں، طلاق، خاندان میں منظر، اس کا پتہ، سب کچھ ایڈریس سمیت بچے بچے تک پہنچ گیا۔ ایسے میں اس کے بھائی کی سوتی غیرت جاگ اٹھی اور اس نے بہن کو قتل کر دیا۔
    غیرت مند بھائی کی غیرت اس وقت نہ جاگی۔ جب وہ 17 سال کی عمر میں شوہر اور دیوار کی مار کھا کر گھر سے نکلی۔ اس وقت بھی سوئی رہی جب وہ دارالامان میں رلتی رہی۔ اس وقت بھی نہ جاگی جب وہ بس میں میزبان کی نوکری کرتی رہی۔ جب وہ پاکستان سے نکل کر دبئی اور جنوبی افریقہ کے عشرت کدوں میں سجی، تب بھی وہ ضمیر خوابیدہ ہی رہا۔ جب اس نے ماں باپ کو ملتان میں گھر لیکر دیا۔ ماہانہ خرچہ اٹھاتی رہی۔ تب تو بالکل ہی خاموش رہی۔ غیرت مند بھائی کو موبائل شاپ کھول کر دی۔ تب بھائی نے غیرت کو نیند کی گولی کھلا کر سلا دیا۔ یہ غیرت جاگی تو اس وقت جب بہن کی ذاتی زندگی، جنس بازار بن گئی۔ قندیل بلوچ مر گئی۔ اس کی پراسرار زندگی کے بے شمار پہلو پوشیدہ ہی رہیں گے۔ اس فوزیہ عظیم کو کلچر کوئن بنانے والے کردار کون تھے؟ اس کو فائیو سٹار ہوٹلوں، فارم ہاؤسوں، بیش قیمتی گاڑیوں میں بٹھانے والے کون تھے؟ کون تھے وہ لوگ جنہوں نے خود رو خواہشوں کے جنگلوں میں بھٹکنے والی سادہ دل لڑکی کو میڈیا کوئین بنا دیا۔ قندیل بلوچ تو اپنے انجام کو پہنچ گئی لیکن۔ ان لوگوں کا احتساب کون کرے گا جنہوں نے اسے اس مقام تک پہنچایا؟