Tag: معاہدہ

  • حکمت یار کا افغان حکومت کے ساتھ معاہدہ-رحیم اللہ یوسفزئی

    حکمت یار کا افغان حکومت کے ساتھ معاہدہ-رحیم اللہ یوسفزئی

    raheemullah_yusufzai

    گلبدین حکمت یار وہم و گمان سے ماورا الائنس بنانے کے ماہر جانے جاتے ہیں۔ ایک مرتبہ پھر اُنھوں نے افغان صدر ،اشرف غنی کی مخلوط حکومت کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کرکے سب کو حیران کردیا ہے ۔ تاہم یقینی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ معاہدہ کب تک قائم رہے گا کیونکہ ان کے سابق معاہدے بہت جلد پٹری سے اتر گئے۔ حکمت یار کے زیادہ تر الائنسز اقتدار میں آنے کے لئے تھے ، لیکن افغانستان پر حکومت کرنے کی اُن کی کوشش کبھی بارآور نہ ہوسکی ۔ اس مرتبہ البتہ اُن کا کہنا ہے کہ وہ افغان حکومت میں شریک نہیں ہوں گے ۔ اس کی بجائے وہ جنگ و جدل سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے مرکزی سیاسی دھارے میں آنا چاہیں گے ۔

    افغانستان اور بیرونی دنیا ، بشمول امریکہ اور اس کے اتحادیوں، نے اس امن معاہدے کا خیر مقدم کیا ہے کیونکہ اسے جنگ زدہ افغانستان سے کشمکش کا خاتمہ کرتے ہوئے استحکام لانے کی طرف ایک قدم سمجھا جارہا ہے ۔ یہ معاہدہ علامتی اور زیادہ سے زیادہ سیاسی اہمیت ضرور رکھتا ہے لیکن اس کے تزویراتی یا عسکری اثرات زیادہ محسوس نہیں کیے جائیں گے کیونکہ حکمت یار کی حز ب ِ اسلامی کی صفوں میں امریکی اور افغان فورسز پر حملہ کرنے کے لئے زیادہ جنگجو موجود نہیں ۔ اس معاہدے پر عمل پیر ا ہونے میں حائل مشکلات نے آغاز سے ہی سر اٹھانا شروع کردیا۔ کابل کے صدارتی محل میں طے پانے والے اس معاہدے میں حکمت یار بذات ِ خود شریک نہیں تھے ۔ اُنہیں ایک ویڈیو کلپ میں مسودے پر دستخط کرتے دکھایا گیا۔ یہ کلپ کسی نامعلوم مقام، زیادہ امکان ہے کہ پاکستان میں کسی جگہ، پر بنایا گیا تھا۔ افغان دارالحکومت میں تحفظ کی ضمانت ملنے تک وہ صدر غنی کے محل میں ہونے والی تقریب میں شرکت نہیں کرسکتے تھے ۔

    اس معاہدے کی شرائط کے عملی نفاذ میں مخصوص حلقوں کی مخالفت ، سیکورٹی کی خراب ہوتی ہوئی صورت ِحال اور گاہے گاہے صدر غنی اور سی ای او، عبداﷲ عبداﷲ کے درمیان سرا ٹھانے والے اختلافات رکاوٹ ڈالیں گے ۔ کابل اور کچھ دیگر شہروں میں اس امن معاہدے کے خلاف سیاسی اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی طرف سے احتجاجی مظاہرے بھی دیکھنے میں آئے کیونکہ وہ انسانی حقوق کی پامالی کے الزامات پر حکمت یار کو ایمنسٹی دینے کی بجائے اُن کا احتساب چاہتے ہیں۔ تاہم حکمت یار اور ان کے ساتھیوں کو ملنے والی ایمنسٹی کوئی نادر مثال نہیں ،طالبان کے بعد قائم ہونے والی افغان پارلیمنٹ اور حکومت نے سابق دور کے مجاہدین اور جنگجو سرداروں، جن پر انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں اور اپنے حریفوں کو قتل کرنے کے الزامات تھے ، کو بھی عام معافی دی تھی۔ ان میں سے زیادہ تر جنگجوسابق صدر، حامد کرزئی کی حکومت کا حصہ تھے ۔ کچھ دیگر ارکان ِ پارلیمنٹ، وزرا ، کاروباری افراد اور انتہائی دولت مند ہیں۔

    حکمت یار کے ماضی کا طائرانہ جائزہ دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ کابل پولی ٹیکنیک میں زمانہ طالب علمی میں اُنھوں نے افغانستان کی نوخیز اسلامی تحریک میں شرکت کی اور 1970 کی دہائی کے اوائل میں سردار محمد دائود کی حکومت کے خلاف ہونے والی بغاوت میں حصہ لیا ، اور پھر گرفتاری سے بچنے کے لئے فرار ہوکر پاکستان آگئے ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اُنکا، احمد شاہ مسعود اور دیگر اسلامی جہادیوں کا خیر مقدم کیا کیونکہ اُس وقت سردار دائود حکومت منحرف پاکستانی پشتون اور بلوچ قوم پرستوں کو پناہ دے رہی تھی۔ اُس وقت سے لے کر اب تک، گلبدین حکمت یار مجاہدین کے مختلف دھڑوں کا ساتھ دیتے ہوئے افغان حکمرانوں، جیساکہ دائود،نورمحمدترکئی، حفیظ اﷲ امین، ببرک کارمل اور ڈاکٹر نجیب ا ﷲ اور طالبان اورامریکی پشت پناہی سے بننے والی کرزئی حکومت کے خلاف لڑتے رہے ہیں۔اس طرح اُنھوں نے ایک طویل اور تھکادینے والی، لیکن بے مقصد جنگ لڑی ہے ۔

    افغانستان میں کمیونسٹ دور میںحکمت یار نے افغان آرمی چیف اور وزیر ِ دفاع، جنرل شاہ نواز تانی کے ساتھ ایک خفیہ معاہدہ کرتے ہوئے مارچ 1990 میں حکومت کا تختہ الٹنے کا منصوبہ بنایا۔ یہ منصوبہ ناکام ہوگیا اور جنرل تانی اپنے ساتھیوں سمیت ایک ہیلی کاپٹر میں فرار ہوکر پاکستان آگئے ۔ حکمت یار اسلامی جبکہ جنرل تانی کمیونسٹ نظریات رکھتے تھے لیکن اقتدار کی خاطر حکمت یار کو اُن سے معاہدہ کرنے میں کوئی عار نہ ہوا۔ اس کے کئی سال بعد تک ، دونوں پاکستان میں رہے ۔ جنرل تانی تو غیر اہم ہوتے ہوئے فراموش کردئیے گئے لیکن حکمت یار نے افغان سیاست میں اہمیت حاصل کرنے کی جدوجہد جاری رکھی ۔ 1990 ء کی دہائی میں حکمت یار نے کابل کے لئے ہونے والی خونی جنگ میں ازبک جنگجو سردار ، عبدالرشید دوستم کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ اس وقت کابل صدر برہان الدین ربانی اور وزیر ِ دفاع احمد شاہ مسعود کے پاس تھا۔ حکمت یار اور دوستم کے درمیان ہونے والا اتحاد بھی غیر فطری تھا کیونکہ حکمت یار افغانستان میں حقیقی اسلامی حکومت قائم کرنا چاہتے تھے ، جبکہ دوستم کا پہلے تو اتحاد کمیونسٹوں کے ساتھ تھا،اس کے بعد اس نے اپنے بے رحم ملیشیا کے ذریعے افغان مجاہدین کے خلاف جنگ کی، اور پھر کچھ افغانستان مجاہدین کے ساتھ معاہدے بھی کرلئے ۔ نظریاتی تفاوت کی وجہ سے حکمت یار کا دوستم کے ساتھ کیا گیا معاہدہ بھی دیر پا ثابت نہ ہوا ۔ آخر کارحکمت یار اس نتیجے پر پہنچے کہ ربانی اور احمد شاہ مسعود کی مخلوط حکومت کے ساتھ معاہدے کے نتیجے میں مجاہدین کی خانہ جنگی ختم ہوسکتی ہے ۔ چنانچہ پاکستانی اور افغان ثالثوں کے ذریعے طے پانے والے اس معاہدے کے نتیجے میں حکمت یاروزیر ِاعظم بن گئے ، لیکن حقیقی طاقت صدر ربانی اور احمد شاہ مسعود کے پاس ہی رہی۔
    حکمت یار کی معاہدے کرنے کے علاوہ ممالک کی پسندیدگی کی چوائس تبدیلی ہوتی رہی۔1970 کی دہائی میں وہ پاکستان کے ساتھ وابستہ تھے ، اور پشاور میں آمد پر اُن سے مہمان ِ خصوصی کا سا سلوک کیا جاتا تھا۔ تاہم بعد میں اسلام آباد کاجھکائو طالبان کی طرف ہوگیا ۔ طالبان نے حکمت ِ یار اور مسعود کی فورسز کو فیصلہ کن شکست سے دوچار کیااور کابل پر حکومت قائم کرلی ۔ ستمبر 1996 ء میں حکمت یار کا جھکائوایران کی طرف دیکھا گیا۔ اُنھوں نے تہران میں رہائش اختیار کرلی، لیکن جلد ہی اُنہیں وہاں کے ماحول کی گھٹن کا احساس ہوا، اور وہ پاکستان لوٹ آئے ۔ اُس کے بعد وہ ایران کے ناقدرہے ہیں۔ اُن کی پاکستان کے ساتھ بھی دوستی نہیں ہے کیونکہ اسلام آباد نے طالبان کو اہمیت دی تھی۔

    جہاں تک تازہ ترین معاہدے کا تعلق ہے تو بظاہر ایسا دکھائی دیتاہے کہ اس میں پاکستان کا کوئی کردار نہیں ہے، اگرچہ کچھ تجزیہ کاروں کی رائے میں پاکستان چاہتا تھا کہ حکمت یار افغان حکومت کا حصہ بن جائیں تاکہ کابل میں بھارت کے بڑھتے ہوئے اثر کا تدارک کیا جاسکے ۔ اگر اس معاہدے کا ناقدانہ جائزہ لیا جائے تو حکمت یار کا غنی حکومت سے معاہدہ ان کے طویل موقف کی نفی کرتا ہے کہ وہ ایسی حکومت کے ساتھ معاہدے میں شریک نہیں ہوسکتے جسے غیر ملکی طاقتوں کی پشت پناہی حاصل ہو۔ اُن کا موقف رہا ہے کہ غیر ملکی طاقتیں افغانستان سے نکل جائیں ، وہاں تازہ انتخابات ہوں اور شریعت نافذ کردی جائے ۔ بہرحال اس معاہدے کا حکمت یار اور ان کی جماعت کو فائدہ ہوگا کیونکہ وہ طویل صحرا نوردی کے بعد مرکزی سیاسی دھارے میں آجائیں گے ۔ یہ معاہدہ پریشانی کا شکار افغان حکومت کے لئے بھی فائدہ مند ہے کیونکہ وہ کئی برسوںسے امن معاہدہ کرنے کی کوشش میں ہے ۔ افغانستان میں امن کے لئے طالبان کےساتھ امن معاہدہ ناگزیر ہے ۔ حکمت یار کی حکومت میں موجودگی ایک توانا پیغام ضرور بھیجے گی کہ افغان حکومت اتنی بھی کمزور نہیں ہے جتنی طالبان کا دعویٰ ہے۔

  • دیوارِپاکستان-محمد بلال غوری

    دیوارِپاکستان-محمد بلال غوری

    m-bathak.com-1421246902muhammad-bilal-ghouri

    جنرل رضوان اختر ڈی جی آئی ایس آئی تعینات ہوئے تو پہلے دن آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹر جانے کے بجائے افغان صدر اشرف غنی سے ملنے کابل چلے گئے۔ ملاقات کے دوران انہوں نے افغان صدر کو بتایا کہ ہماری عسکری قیادت اس بات پر یکسو ہے کہ پاک افغان تعلقات میں کشیدگی کا فائدہ دہشتگرد اٹھا رہے ہیں،لہٰذا ماضی کی تلخیاں بھلا کر ایک نئے دور کا آغاز کرتے ہیں۔انہوں نے پیشکش کی کہ ہم نہ صرف افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پرلانے کیلئے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں گے بلکہ انٹیلی جنس شیئرنگ بھی ہو گی اور آئی ایس آئی جو رپورٹ اپنے آرمی چیف اور وزیراعظم کو بھیجتی ہے اس کی ایک کاپی افغان صدر کو بھی موصول ہوا کرے گی۔یہ ملاقات بہت مثبت اور خوش آئند رہی ۔اس کی تفصیلات طے کرنے کیلئے چند روز بعد افغان انٹیلی جنس (NDS)کے سربراہ نبیل رحمت اللہ پاکستان آئے تو خلاف روایت انہیں آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹرزکا دورہ کروایا گیا۔

    بات چیت کے دوران طے ہوا کہ اس اتفاق رائے کو ایک مفاہمتی یادداشت کی شکل دیدی جائے۔چنانچہ MOU پر دستخط ہو گئے ۔یہ کوئی ایسا عالمی معاہدہ نہ تھا جسے پارلیمنٹ میں لے جایا جاتا مگر اشرف غنی اس معاملے کو افغان پارلیمنٹ میں لے گئے،وہاں بھارت نواز ارکان پارلیمنٹ نے اس کی مخالفت کی اور یوں یہ معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا۔مگر اس کے باوجود پاکستان کی فوجی و سیاسی قیادت کی طرف سے طالبان سے مذاکرات کے ضمن میں بھرپور تعاون کا یقین دلایا گیا۔افغان قیادت نے خواہش ظاہر کی کہ چین کو بھی مذاکراتی عمل میں شریک کیا جائے جبکہ پاکستانی حکام نے گزارش کی کہ جب تک بات نتیجہ خیز ثابت نہ ہو ،میڈیا کو اس کی بھنک نہ پڑنے دی جائے۔لیکن چند روز بعد ہی ایک امریکی اخبار نے صدارتی محل کے ذرائع کے حوالے سے یہ خبر شائع کر دی۔خبر نکل جانے پر کچھ دن کی تاخیر تو ہوئی مگر بات چیت کا سلسلہ ختم نہ ہوا۔آخر کار اُرمچی (Urumqi)میں مذاکرات کا پہلا رائونڈ ہوا جس میں امریکی حکام نے آخری وقت پر شرکت سے انکار کر دیا۔اس میں طے پایا کہ بات چیت کا عمل خفیہ نہ رکھا جائے اور مری میں آئندہ نشست کیلئے تمام فریقین کو اعتماد میں لیا جائے۔

    مری میں ہونے والے مذاکرات میں اس بات پر اتفاق ہوا کہ پہلے مرحلے میں کابل اور اس سے ملحقہ علاقوں پر مشتمل Peace Zone بنایا جائے جہاں مکمل طور پر جنگ بندی ہو، مذاکرات کا اگلا رائونڈ کابل میں ہو تاکہ افغانستان کی قسمت کے فیصلے افغان سرزمین پر ہی ہو سکیں۔ یہ عمل نہایت تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا کہ افغان حکام نے ملا عمر کی موت کی خبر جاری کر کے خود کش حملہ کر دیااور یوں سب کچھ ملیا میٹ ہو گیا۔ افغان طالبان کی قیادت، افغان حکومت، امریکی حکام اور پاکستان کی فوجی قیادت سمیت سب کو مُلا عمر کی موت کا علم تھا مگر مصلحتا ً اس بات کو چھپایا گیا تھا لیکن اس موقع پر یہ اعلان کر کے خطے کا امن تباہ کر دیا گیا۔ افغان حکومت پر تو ناحق تہمت ہے، یہ خبر تو دراصل امریکی حکام نے جاری کی جن کا خیال تھا کہ طالبان سے مذاکرات کامیا ب ہو گئے تو ان کی یہاں موجودگی کا جواز نہیں رہے گا۔ افغان حکومت کی لاچارگی اور بے بسی کا تو یہ عالم ہے کہ کور کمانڈر کوئٹہ لیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض جب ڈی جی ملٹری آپریشنز تھے تو وہ افغان صدر سے ملنے کابل گئے۔

    پروٹوکول آفیسر جس نے لاہور سے تعلیم حاصل کی تھی اس سے گپ شپ ہوئی تو بے تکلفی سے کہنے لگا، اس صدارتی محل کا سالانہ خرچہ 50ملین ڈالر ہے جو امریکہ سے آتا ہے، اس کے علاوہ بھی بیشمار اخراجات ہیں۔ اگر آپ کا ملک یہ اخراجات اٹھا سکتا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ پانی میں مدھانی مارنے کا کوئی فائدہ نہیں۔اس کے بعد افغان این ڈی ایس اور بھارتی ’’راـ‘‘ کا گٹھ جوڑ ہوا تو پاک افغان تعلقات کشیدہ تر ہوتے چلے گئے۔ پہلے طورخم بارڈر پر ’’بابِ پاکستان‘‘ کی تعمیر سرحدی جھڑپوں اور فائرنگ کے تبادلے کی بنیاد بنی اس کے بعد جب مودی کیخلاف بلوچستان بھر میں احتجاجی مظاہرے ہوئے تو جواب آں غزل کے طور پر اسپین بولدک میں پاکستان کے خلاف مظاہرہ ہوا ۔افغانستان پر بھارتی اثرات ملاحظہ فرمائیں کہ مودی کے خلاف بلوچستان میں مظاہرے ہوئے تو مشرقی سرحد کے بجائے مغربی سرحد سے افغانیوں نے جواب دیا۔نہ صرف پاکستانی چیک پوسٹوں پر پتھرائو کیا گیا بلکہ پاکستانی پرچم بھی نذر آتش کیا گیا۔اس پر فوجی حکام نے چمن بارڈر سے متصل پاک افغان باب دوستی کو بند کر دیا اور 14دن بعد یہ دروازہ تب کھولا گیا جب افغان حکام نے معافی مانگی۔اس کے جواب میں دو روز قبل افغان صدارتی محل سے ایک حکم نامہ جاری کیا گیا ہے کہ وسط ایشیائی ریاستوں کی طرف جانے والی پاکستانی گاڑیوں کو افغانستان سے گزرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔بتایا گیا ہے کہ یہ پابندی چمن بارڈر بند کئے جانے کے ردعمل میں لگائی گئی ہے کیونکہ چمن بارڈر بند ہونے سے افغان میوہ جات کو واہگہ بارڈر سے افغانستان نہیں پہنچایا جا سکا اور تاجروں کو نقصان اٹھانا پڑا۔اس سے پہلے افغان حکومت نے پاکستان سے گندم کی درآمد پر پابندی لگائی اور پھر قندھار میں پاکستانی کرنسی کے استعمال کو غیر قانونی قراردیا گیا۔

    دشنام تو یہ ہے کہ اس خطے میں پراکسی وار پاکستان نے متعارف کروائی لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ بھارت کی پراکسی وار کے نتیجے میں پاکستان دولخت ہوا تو اس کے بعد افغانستان سے دراندازی کا آغاز ہوگیا۔ 8فروری 1975ء کو پراکسی وار کے نتیجے میں وزیراعلیٰ سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا) حیات محمد خان شیر پائو قتل ہوگئے تو بھٹو نے تنگ آکر گلبدین حکمت یار اور برہان الدین ربانی کو پناہ دی اور افغانستان کو معلوم ہوا کہ پراکسی وار دوطرفہ تلوار جیسی ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے اس کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ میں گزشتہ ہفتے کوئٹہ میں تھا تو بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے حوالے سے بحث و تمحیص کے دوران وہاں سے ایک رکن صوبائی اسمبلی نے دوٹوک انداز میں کہا، جس دن پاکستان نے افغانستان کو اپنا پانچواں صوبہ سمجھنا چھوڑ دیا، اس دن سب مسائل حل ہوجائیں گے۔

    تمسخر اڑانے اور پھبتیاں کسنے کی حد تک تو یہ بات کہی جاسکتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے۔ جب تک ہم افغانستان کو بھارتی اور امریکی ریاست سمجھ کر دفاعی حکمت عملی ترتیب نہیں دیتے، اس وقت تک دہشت گردی کا مکمل طور پر خاتمہ ممکن نہیں۔ آئی جی فرنٹیئر کانسٹیبلری میجر جنرل شیر افگن نے بتایا کہ بارڈر کو محفوظ بنانے کیلئے ایف سی میں 45نئے ونگ بنانے کی تجویز ہے جس میں سے 23ونگ بارڈر پر تعینات کئے جائینگے۔ وزیراعظم نے 15نئے ونگ بنانے کی منظوری دیدی ہے۔ میں نے عرض کیا، افرادی قوت بڑھانے اور نئے ونگ بنانے کی افادیت اپنی جگہ لیکن جب تک پاک افغان بارڈر پر باڑ نہیں لگائی جاتی، دراندازی نہیں تھمے گی۔ آپ نے طورخم اور چمن بارڈر پر گیٹ تو تعمیرکر لئے لیکن دیوار کھڑی کئے بغیر دروازے بنانے کا کیا فائدہ؟ جس طرح چینی باشندوں نے جارحیت سے بچنے کیلئے دیوار چین تعمیر کی، اسی طرح ہمیں بھی پراکسی وار کی مہلک ترین یلغار سے بچنے کیلئے دیوار پاکستان بنانا ہو گی۔