Tag: مطالعہ

  • نئی نسل مطالعہ اور اخلاقی اقدار سے کیوں دور ہو رہی ہے؟ رحمان گل

    نئی نسل مطالعہ اور اخلاقی اقدار سے کیوں دور ہو رہی ہے؟ رحمان گل

    رحمان گل ”نئی نسل کو مطالعے کا شوق نہیں۔“ یہ جملہ اکثر سننے کو ملتا ہے۔ اسی طرح کا ایک اور جملہ جو سننے کو ملتا ہے وہ یہ کہ ”نئی نسل اپنی ثقافتی و اخلاقی اقدار سے دور ہوتی جا رہی ہے۔“ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ یہ امر توجہ طلب ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟

    پہلا جملہ کہ نئی نسل کو مطالعے کا شوق نہیں اپنی جگہ حقیقت ہے۔ اس ضمن میں کچھ سوالات اٹھتے ہیں جو یقیناً درست وجوہات تلاش کرنے میں مدد گار ثابت ہوں گے۔
    پہلا سوال: کیا بچوں کے لیے مطلوبہ مقدار میں معیاری اور دلچسپ ادب تخلیق ہو رہا ہے؟
    دوسرا سوال: اس حوالے سے درس گاہیں اور اساتذہ اپنا کردار ادا کر رہے ہیں؟
    تیسرا سوال: گھر میں مطالعے کے لیے سازگار ماحول فراہم کیا جا رہا ہے؟ میرے خیال سے یہ بنیادی سوال ہے۔
    چوتھا اور آخری سوال: کیا معاشرہ اور اہلِ دانش اس ضمن میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں؟

    ایک وقت تھا کہ جب تفریح کے ذرائع محدود تھے اور جرائد و رسائل تفریح کا ذریعہ تھے، تب مطالعہ کے شوق کی آبیاری بہت سہل تھی مگر آج وقت بدل چکا اور تفریح کے ایک سے بڑھ کر ایک دلچسپ اور دلکش ذرائع موجود ہیں ان حالات میں مطالعے کا شوق پروان چڑھانے کے لیے نئے زمانوں کے مطابق حکمت عملی ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں اہلِ دانش اور مطالعے کی عادی افراد اہم کردار ادا کرسکتے ہیں، وہ اس طرح کہ اپنے زیرِ مطالعہ کتب پر تبصرے کیے جائیں، کتابوں سے متعلق رائے دی جائے، اور نئے پڑھنے والوں کی اس ضمن میں رہنمائی کی جائے۔ معاشرہ میں کتابیں تحفتاً دینے کے رواج کو فروغ دیا جائے۔ یہ درست ہے کہ دلیل جیسی ویب سائٹس کے آنے سے لوگوں میں مطالعے کا شوق بڑھا ہے مگر اس سے جملہ معترضہ کی خاطر خواہ تشفی نہیں ہوتی۔

    دوسرا جملہ کہ نئی نسل اپنی ثقافت سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ یہ واقعی بہت پریشان کن ہے اور یہ صرف جملہ نہیں بلکہ ایک المیہ ہے۔ اس ضمن میں معاشرے، ذرائع ابلاغ اور اہلِ دانش کا کردار نا ہونے کے برابر ہے اور شاید انہیں اس حوالے حالات کی سنگینی کا اندازہ بھی نہیں۔ ایسے میں جب دنیا ایک عالمی گاوں کی صورت اختیار کر چکی ہے اور ثقافتوں کا ادغام جاری ہے اور بڑی ثقافتیں چھوٹی ثقافتوں کو نگلتی جا رہی ہیں، ہمیں اپنی ثقافت کو بچانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے ہوں گے۔ یہ درست ہے ثقافتیں اثر قبول کرتی ہیں مگر ایسا نہ ہو کہ پاکیستانی ثقافتیں اثر قبول کرتے کرتے اپنی بنیاد ہی گم کر بیٹھیں۔ اس ضمن میں فنکار برادری جو کہ عموماً ثقافت کی علمبردار/ نمائندہ سمجھی جاتی ہے، کا کردار بھی مایوس کن ہے اور فنکاروں کی ایک بڑی تعداد دوسری ثقافتوں سے مرعوب نظر آتی ہے۔ ذرائع پر مکمل طور پر بیرونی ثقافتوں کا غلبہ ہے اور جو تھوڑی بہت مقامی پیداوار ہے فلموں اور ڈراموں کی وہ بھی بیرونی ثقافتوں سے مرعوب ہے۔ ایسے حالات میں جب ہر طرف بیرونی ثقافتوں کی یلغار ہو نئی نسل کیسے اپنی ثقافت کو اپنائے۔
    ہم نئی نسل کو جیسا دیکھنا چاہتے ہیں ہمیں بس اسی طرح کا ماحول فراہم کرنا ہوگا بقول شاعر
    ؂ ذرا نم تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

  • کتابوں سے لطف اٹھائیں – عمار راجپوت

    کتابوں سے لطف اٹھائیں – عمار راجپوت

    کسی بھی کام کو اک خاص تناسب سے متعین کردہ وقت میں ہی کرنا چاہیے۔ ورنہ جلد ہی دلچسپی ختم ہو جاتی ہے اور تشنگی باقی رہ جاتی ہے۔ ابھی کل ہی کی بات ہے میرا اور کتاب کا چولی دامن کا ساتھ تھا. پوری پوری کتاب ایک ہی رات میں ختم شد ہوتی تھی، مگر افسوس صد افسوس! کہ یہ رشتہ فلم کے ہیرو اور ہیروئن کی طرح زیادہ دیر نہ چل سکا ، مگر میں نے ابھی کتاب کو ایک ہی طلاق دی ہے رجوع کا حق محفوظ رکھتا ہوں جو باتوفیق الہی کسی بھی وقت استعمال میں لا سکتا ہوں. الحمداللہ!

    ویسے آج کل تو ایسی صورتحال ہے کہ کتاب دور سے دیکھ کر ہی کسی نامرد کی طرح زندگی کا فطری لطف حاصل کرنے کی تمنا رکھتے ہوئے بھی تھوڑی بہت نظر گردی کے بعد منہ موڑ لیتا ہوں. مشہور فلسفی ابن رشد کے بارے میں مشہور ہے کہ انہوں نے اپنی ساری زندگی میں سوائے دو راتوں کے کبھی پڑھنا نہیں چھوڑا. ایک وہ رات جب ان کے والد کا انتقال ہوا اور دوسری وہ رات جب ان کی شادی ہوئی.

    احباب! مطالعہ کی عادت بنائیں، کتابوں سے لطف اٹھائیں، اپنا علم بڑھائیں اور اپنے شعور کی بلند پرواز اڑائیں. اب آپ یہ سوچ رہیں ہوں گے کہ خود پڑھتا نہیں اور چلا ہمیں نصیحت کرنے تو اس میں میری نیت خالص تبلیغی بھائیوں کی سی ہے کہ جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ بھائیو! خود تو تم لوگ مکمل نہیں ہو اور گلی گلی اوروں کو تلقین کرتے پھرتے ہو تو ان کا بڑا ہی خوبصورت اور دل موہ لینے والا سادہ سا جواب ہوتا ہے کہ ”بھائی یہ جو ہم در در دعوت دیتے ہیں یہ دراصل ہم اپنا سبق پکاتے ہیں۔“

  • کتب بینی کا زوال اور ہمارے عذر ہائے لنگ – کبیر علی

    کتب بینی کا زوال اور ہمارے عذر ہائے لنگ – کبیر علی

    پشاور میں کتابوں کی ایک دکان بند ہوئی تو دوستوں نے اپنے اپنے انداز میں اظہار افسوس کیا۔ جواب میں کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ اب کتابیں سافٹ فارم میں پڑھنے کے دن ہیں، انٹرنیٹ پہ ہزاروں کتب دستیاب ہیں اور روزانہ ڈاؤنلوڈ اور شئیر کی جا رہی ہیں۔ تاہم معاملہ کچھ اتنا سادہ نہیں ہے جتنا پیش کیا جاتا ہے۔

    لفظ اور کتاب کا تعلق صدیوں پرانا ہے۔ مختلف جانوروں کی ہڈیوں اور چمڑے کی کھال پہ کتابیں لکھی جاتیں۔ چھاپے کے زمانے سے قبل کتاب کی نقل صرف اسی صورت تیار ہو سکتی کہ اسے مکمل طور پہ ہاتھ سے نقل کر لیا جائے۔ اس حوالے سے بہت سی حکایات بھی مل جائیں گی کہ کس طرح شائقین کتب ایک ایک کتاب کے حصول کے لیے زمانے کی خاک چھانتے رہے ہیں۔ پھر چھاپے کا زمانہ آیا اور بیک وقت ایک ہی کتاب کی کئی نقول چھاپی جا سکتی تھیں مگر کسی نایاب کتاب کے حصول کے لیے پھر بھی ہاتھ سے نقل تیار کرنا پڑتی کہ ابھی فوٹو کاپی کا زمانہ نہیں آیا تھا۔ فوٹو کاپی کا زمانہ آیا تو شائقین علم کو بہت سہولت ہوگئی۔ ایک دوسرے کو مطلوبہ نایاب کتب فوٹو کاپی کروا کے بھیجی جاتیں۔ میں خود کئی ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جنہوں نے اپنے ڈاکٹریٹ کے مقالے کے لیے کئی نایاب کتب فوٹو کاپی کے ذریعے ہی حاصل کیں۔

    آج ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ کتابیں بھی سافٹ شکل میں آنے لگی ہیں۔ کچھ کتابیں سکین کر لی جاتی ہیں، کچھ کی تو موبائل سے ہی تصاویر لے کر ایک فائل بنا لی جاتی ہے۔ گویا اب ہزاروں کتابوں کا کتب خانہ آپ کے لیپ ٹاپ میں موجود ہے۔ یہاں تک بات بہت سادہ معلوم ہوتی ہے یعنی چونکہ ٹیکنالوجی نے وقت کے ساتھ ساتھ ترقی کی ہے، پس کتاب کی شکل بھی بدلتی رہی ہے۔ مگر پاکستان کے تناظر میں مسئلہ ذرا گھمبیر ہے کہ کیا وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں کا ذوق مطالعہ بھی آگے بڑھا ہے یا کہیں ماضی کے دھندلکوں میں کھو گیا ہے۔ ایک ایک کتاب کے لیے میلوں کا سفر، مہینوں اور برسوں کا انتظار نہ سہی مگر اچھی کتاب دیکھ کے چہرے پہ خوشی کا کوئی تاثر بھی آتا ہے کہ نہیں؟ کیا کتاب ہمارے معاشرے میں بالعموم اور طلبہ میں بالخصوص کسی اہمیت کی حامل رہی بھی ہے یا فقط ایک ”نان ایشو“ بن کے رہ گئی ہے؟ کیا لوگ واقعی سافٹ کتابیں پڑھتے ہیں یا اپنے کمپیوٹر میں سینکڑوں کتابیں رکھ کے کسی خود فریبی کا شکار ہیں؟

    وہ لوگ جو مطالعہ کی اہمیت سے انکاری ہیں اور مختلف عذر تراشتے رہتے ہیں ان کے کچھ نمایاں اعتراض اور عذر یہ ہیں۔
    پہلا عذر یہ ہے کہ کتابیں اب سافٹ میں پڑھی جاتی ہیں۔ درست بات ہے، ہم یہ خوش فہمی پالنے پہ بھی راضی ہیں مگر کیا کیا جائے کہ مشاہدہ کچھ اور ہی سمت اشارہ کرتا ہے۔ میں اسلام آباد کی ایک مشہور یونیورسٹی میں ایم ایس کر رہا ہوں۔ یہ تعلیم کا ایک ایسا زینہ ہے جہاں طلبہ کی بہت کم تعداد پہنچتی ہے، باقی طلبہ مختلف وجوہات کی بنا پہ راستے ہی میں رہ جاتے ہیں۔ تعلیم کے اس درجے میں بھی میرے شعبے کے تین چار سو طلبہ میں سے پانچ سات ہی ایسے ہیں جو کتابیں پڑھنے کا ”اعزاز“ رکھتے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے ان کا مطالعہ بھی کچھ پاپولر خواتین ناول نگاروں تک محدود ہے۔ گریجوایشن کے دوستوں کے طفیل جنوبی پنجاب، لاہور اور اسلام آباد کی کئی جامعات کے بارے معلومات ملتی رہتی ہیں۔ مجموعی طور پہ کتابیں پڑھنا ایک ”نان ایشو“ بن کے رہ گیا ہے۔ ہمیں خوشی ہو گی اگر کوئی دوست ان مشاہدات و معلومات کا رد کردیں۔

    دوسرا عذر یہ ہے کہ کتابیں مہنگی ہوگئی ہیں۔ سنگ میل جیسے اداروں نے یقینی طور پہ کتابیں مہنگی کرنے میں خاص ”خدمات“ سرانجام دی ہیں۔ تاہم مجموعی طور پہ یہ عذر، عذر لنگ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ اکثر طلبہ چار، چھ مہینوں بعد موبائل فون بدلتے رہتے ہیں۔ (کئی تو ماہانہ اور ہفتہ وار بنیادوں پہ بدلتے ہیں) بیس ہزار کا موبائل چھ ماہ کے استعمال کے بعد بمشکل چودہ، پندرہ ہزار کا بکتا ہے۔ گویا چھ ماہ میں پانچ، چھ ہزار کا خسارہ۔ اس رقم سے اگر کتابیں خریدی جائیں تو کئی ماہ کےلیے کافی ہیں۔ نیشنل بک فاؤنڈیشن کی سکیم ہے، پبلک لائبریریز ہیں، لاہور، راولپنڈی اور کراچی میں پرانی کتابوں کے بازار لگتے ہیں، اکثر شہروں میں پرانی کتابوں کی دکانیں بھی کہیں کہیں مل جاتی ہیں۔ پس مسئلہ ترجیحات اور شوق کا ہے، مہنگائی کا نہیں۔ بیس، پچیس ہزار کا موبائل جیب میں رکھ کر دو تین ہزار کا پیزا کھاتے ہوئے کتابوں کی مہنگائی کا عذر کرنا کچھ مناسب معلوم نہیں ہوتا۔

    تیسرا عذر قدرے عجیب ہے۔ یعنی آج ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے، کتابیں کون دقیانوس پڑھتا ہے؟ اس منطق کی رو سے ترقی یافتہ اقوام میں تو کتابیں چھاپنے پہ پابندی لگ جانی چاہیے تھی مگر ایسا نہیں ہے۔ بلکہ وہ اقوام نہ صرف کتابیں چھاپ رہی ہیں بلکہ ایک ایک کتاب کئی لاکھ کی تعداد میں چھپتی اور فروخت ہوتی ہے۔ وہاں کتب وزن میں ہلکی پھلکی، دیدہ زیب اور عمدہ طباعت سے آراستہ ہوتی ہیں۔ بلاشبہ یہ ممالک سافٹ کاپی کی بھی سہولت دیتے ہیں مگر کاپی رائٹس کے قوانین کا سختی سے اطلاق ہوتا ہے، کتابیں چھپنا بند نہیں ہوئیں۔ پس یہ عذر انتہائی لایعنی ہے۔

    چوتھا عذر ان لوگوں کی طرف سے پیش کیا جاتا ہے جو مطالعہ کا ذوق رکھتے ہیں اور ماضی میں کتب بینی کرتے رہے ہیں۔ یہ عذر وقت کی عدم دستیابی کا ہے۔ اس عذر میں کچھ نہ کچھ وزن ہے۔ اچھے اچھے صاحب مطالعہ لوگ نہ صر ف غم روزگار کے سبب کتب بینی سے دور ہوئے ہیں بلکہ فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا ویب سائٹس کا کثرت سے استعمال بھی کتاب پڑھنے ایسے رومانوی تجربے کی راہ میں رکاوٹ بنا ہے۔ چونکہ میں خود بھی اس ”مرض“ کا شکار رہا ہوں، اس لیے اپنے ذاتی تجربے اور اس مسئلے سے نبرد آزما اہل علم کے بیانات کے بعد اس نتیجے پہ پہنچا ہوں کہ فیس بک یقینی طور پہ علمی بحثوں کے لیے مناسب فورم ہے مگر ایک حد سے زیادہ استعمال کا مطلب حصول علم کی خود فریبی کا شکار ہونا ہے۔ اگر کتابی مطالعہ کی بنیاد فراہم نہ ہو تو فیس بک کی پرمغز علمی بحثیں معلومات میں اضافے کا باعث تو بن سکتی ہیں مگر ٹھوس علم کے حصول کا ذریعہ نہیں۔ نیز فیس بک پہ مفید بحث کرنے کے لیے بھی ضروری ہے کہ مطالعہ تازہ رہے وگرنہ اچھے اچھے صاحب مطالعہ بھی باسی افکار کی جگالی کرنے لگتے ہیں۔

    کتب بینی کے فروغ کے لیے کچھ تجاویز بھی ضروری ہیں۔
    1۔ سب سے پہلے تو یہ کہ میٹرک تک کی جماعتوں کو پڑھانے والے اساتذہ کے انتخاب میں کتب بینی کا خانہ بھی رکھا جائے یعنی امیدواروں سے دوران انٹرویو کتب بینی کے بارے پوچھا جائے اور اس کے کچھ نمبرز بھی مقرر کر لیے جائیں. اس طرح امید ہے کہ مطالعہ کا ذوق رکھنے والے یہ اساتذہ بچوں میں بھی اس کا بیج بوئیں گے۔
    2۔ ثانوی و اعلی ثانوی درجے پہ ایسے امتحانات منعقد کیے جا سکتے ہیں جن میں طلبہ کی کتب بینی کو پرکھا جا سکے اور اس بنیاد پہ کچھ وظیفے دیے جائیں تاکہ طلبہ میں اس حوالے سے کچھ مسابقت پیدا ہو۔ اگرچہ اس طرح کے امتحان کی ہمارے ہاں کوئی روایت نہیں ہے مگر کوشش تو کی جا سکتی ہے۔
    3۔ کتابوں کے لیے استعمال ہونے والے کاغذ پہ ٹیکس میں حکومت کو چھوٹ دینی چاہیے اور اس کی شفافیت کے لیے کوئی لائحہ عمل تشکیل دینا چاہیے کہ یہ چھوٹ صرف کتابوں کے کاغذ تک ہی محدود رہے۔
    4۔ طلبہ کے لیے ایسی کتابیں چھاپی جائیں جن کا ورق اور طباعت دیدہ زیب ہو، وزن میں ہلکی ہوں جیسا کہ انگریزی ناول مجلد کے ساتھ ساتھ پیپر بیک پہ چھاپے جاتے ہیں جنہیں آپ بآسانی کہیں بھی اٹھا کے لے جا سکتے ہیں۔ چھوٹے بچوں کے لیے خاص طور پہ رنگین و دلکش کتابیں چھاپی جائیں۔ ہمارے ہاں میٹر ک کی سطح تک جو خلاصے، گائیڈز وغیرہ چھاپی جاتی ہیں وہ انتہائی گھٹیا کاغذ پر چھاپی جاتی ہیں، طلبہ کے لیے ان میں یا ان جیسی کتب میں کوئی کشش نہیں ہوتی۔
    5۔ پاکستانی جامعات میں 4 سالہ بی ایس پروگرامز کے اندر چالیس سے زائد مضامین پڑھائے جاتے ہیں۔ ان میں خانہ پری کے لیے اسلامیات، مطالعہ پاکستان جیسے مضامین بھی شامل ہوتے ہیں جن پہ کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی۔ جبکہ ان کا سلیبس بھی وہی ہوتا ہے جو طلبہ میٹرک اور انٹر کی سطح پر پڑھ چکے ہوتے ہیں۔ ان مضامین کی جگہ ایک مضمون ایسا تشکیل دیا جاسکتا ہے جس میں کچھ عمومی نوعیت کی کتابیں (ناول، افسانے، آپ بیتیاں وغیرہ) ہوں اور پورا سمیسٹر یہ کتب پڑھ کے ان کا امتحان ہو جس سے بہت کچھ فائدے کی امید ہے۔
    6۔ نیشنل بک فاؤنڈیشن جیسے اداروں کو فروغ دیا جائے، ان کے فنڈز بڑھائے جائیں۔ (مذکورہ ادارے کی ریڈرز کلب سکیم کے تحت ایک شخص سال میں پانچ ہزار تک کی کتب خرید سکتا ہے، اس حدکو بڑھایا جائے۔ نیز جون میں بجٹ پاس ہونے کے بعد ابھی تک کاغذی کارروائی کی رکاوٹ کی وجہ سے نئے کھاتے نہیں کھولے جا رہے۔ اس نظام کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے)
    7۔ اکثر طلبہ فیس بک پر مزاحیہ ویڈیوز، لطیفے، بے وزن شاعری شئیر کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ کتابوں کے مختلف گروپس میں موجود اچھی اچھی کتابیں ڈاؤنلوڈ کر لیں اور ان میں سے کچھ نہ کچھ پڑھتے رہیں۔ اس کے علاوہ بہت سے اہل علم یہاں موجود ہیں جن سے آپ کو مطالعہ و تحقیق کے لیے تحریک ملتی رہتی ہے۔

    یہ تمام باتیں میرے ذاتی مشاہدہ و تجربہ کی ہیں۔ اہل علم کو چاہیے کہ روزانہ کی بنیادوں پہ سیاست دانوں کی طرف سے دیے جانے والے بیانات کے تجزیے کے علاوہ اس طرح کے موضوعات پہ بھی خاص توجہ دیں۔

  • نوجوان طلبا میں کتب بینی؛ دل کے پھپھولے – کبیر علی

    نوجوان طلبا میں کتب بینی؛ دل کے پھپھولے – کبیر علی

    محترم عامر ہاشم خاکوانی نے صحافت کے طلبہ میں ذوق مطالعہ کی نایابی پہ ایک کالم لکھا اورپہلے بھی لکھتے رہے ہیں۔ ہم صحافت کے طالب علم تو نہیں تاہم کتب بینی کے حوالے سے پچھلے چار پانچ برسوں میں مختلف جامعات میں جو کچھ تجربہ ہوا وہ پیش خدمت ہے۔ اس میں اپنے اساتذہ اور بڑوں کے ساتھ کچھ گلے شکوے ضرور ہیں تاہم مقصد تنقیص نہیں بلکہ اصلا ح ہے۔

    پہلی بات یہ ہے کہ اگر ایک طالب علم یونیورسٹی تک ذوق مطالعہ کے بغیر پہنچ گیا ہے تو اب اسے مطالعہ کی طرف راغب کرنا بہت مشکل کام ہے۔ چونکہ میں خود ایک یونیورسٹی سے چار سالہ بی ایس پروگرام کرنے کے بعد ایک دوسری یونیورسٹی سے ایم ایس کر رہا ہوں اور اپنے مطالعہ کے ذوق کو کسی نہ کسی طور سنبھالے پھر رہا ہوں، اس لیے کتب بینی کے ضمن میں کچھ ذاتی حالات و واقعات کا ذکر ناگزیر ہے۔

    میں نے چوتھی جماعت سے اخبار پڑھنا شروع کیا۔ والد صاحب کے کچھ دوست اکٹھے ہوتے اور گھنٹہ دوگھنٹے اخبار کا مطالعہ کرتے، کچھ خبروں پہ تبصرہ کرتے۔ میں بھی سنتا رہتا، کچھ باتیں سمجھ میں آتیں، کچھ نہ آتیں، تاہم اخبار پڑھنے کی یہ لت ایسی لگی کہ اب تک چھٹ نہیں سکی۔ اب بھی صبح جب تک اخبار کی سرخیاں اور دو چار کالم دیکھ نہ لوں چین نہیں پڑتا۔ تاہم ایمانداری کا تقاضا ہے کہ یہ واضح کر دیا جائے کہ چوتھی جماعت سے میٹرک تک اخبار بینی کسی خاص مقصد کے لیے نہ تھی بلکہ یہ ایک قسم کی لت تھی جس کے بغیر سکون نہیں ملتا تھا۔ حتیٰ کہ امتحان کے دنوں میں بڑوں سے ڈانٹ کھانا پڑتی کہ امتحان کی طرف توجہ دو، امتحان میں کیا خبریں اور کالم لکھو گے؟۔ اخبار میں ہفتہ وار بچوں کا صفحہ شوق سے پڑھتا، سنڈے میگزین بھی اچھا لگتا۔ بعض مذہبی مزاج رکھنے والے بزرگ اخبار پڑھتے دیکھتے تو کسی مذہبی مضمون پہ انگلی رکھ کے کہتے کہ یہ سلسلہ ضرور پڑھا کرو اور ہم دل ہی دل میں فخر کرتے کہ ہم تو پہلے ہی سے یہ سلسلہ پڑھ رہے ہیں۔

    چھٹی جماعت میں ’’خبر‘‘ ہوئی کہ گھر میں ماہانہ بنیادوں پہ آنے والے مختلف ڈائجسٹ بھی پڑھنے کی ’’چیز‘‘ ہوتے ہیں۔ ان ڈائجسٹوں میں عنایت اللہ صاحب کا حکایت ڈائجسٹ، مجیب الرحمن شامی صاحب کا قومی ڈائجسٹ، الطاف حسن قریشی صاحب کا اردو ڈائجسٹ اور شمس الرحمن عظیمی صاحب کا روحانی ڈائجسٹ خاص طور پہ شامل تھے۔ حکایت میں شائع ہونے والی معاشرتی کہانیاں بہت دلچسپ ہوتیں، شکاریات کے موضوع پہ بھی تواتر سے کہانیاں شائع ہوتیں۔ احمد یار خان کی کہانیاں میں شوق سے پڑھتا جن میں وہ بطور پولیس افسر مختلف کیسز کی تفتیش کرتے نظر آتے۔سیارہ ڈائجسٹ کا ایک پرانا شمارہ ہاتھ لگا جس میں ممتازمفتی کا روحانیت پہ ایک مضمون نظر آیا، چونکہ اس کے ساتھ یہ بھی تحریر تھا کہ یہ ایک قسط وار سلسلہ ہے اس لیے کافی تگ و دو کے بعد یہ سلسلہ ’’تلاش‘‘ کی کتابی شکل میں مل ہی گیا۔ اسی طرح ہر ڈائجسٹ کی اپنی اپنی خوبیاں تھیں اور میرے نوخیر ذہن کے لیے یہ ایک حیران کن اور پرکشش دنیا تھی۔

    چھٹی جماعت ہی میں کچھ بچوں کے رسائل تک بھی رسائی ہوئی یعنی ’تعلیم و تربیت‘، ’پھول، اور ’پھول اور کلیاں‘ وغیرہ۔ بعد میں ’بچوں کا اسلام‘ اور کئی دیگر رسائل بھی پڑھنے کو ملے۔ ایک خاص بات یہ تھی کہ ان تمام ڈائجسٹوں اور بچوں کے رسائل میں سے سوائے حکایت کے کوئی بھی گھر میں مستقل لگوا نہیں رکھا تھا۔ تاہم یہ سبھی والد صاحب کے توسط سے ملتے رہتے۔ بعد میں پتہ چلا کہ والد صاحب کے دوست مختلف مزاج کے تھے اور ہر کسی نے کوئی نہ کوئی ڈائجسٹ لگوا رکھا تھا اور یہ ڈائجسٹ پورا مہینہ ایک دوست سے دوسرے دوست کے پاس منتقل ہوتے رہتے۔ اس سارے عمل کا نتیجہ یہ نکلا کہ میں اپنی عمر سے بڑی باتیں کرنے لگا۔

    اس مضمون کا مقصد آپ بیتی بیان کرنا نہیں بلکہ کچھ اور تلخ حقائق بیان کرنا ہے۔ پہلے حال سنیے ہمارے دو مختلف سکولوں کے کتب خانوں کا۔ ہمارے پرائمری سکول میں لکڑی کی ایک الماری اور ایک صندوق تھا۔ یہ دونوں چیزیں انتہائی’’پراسرار‘‘ تھیں۔ ہمارے کچھ سینئرز کی طرف سے ان دونوں کے متعلق ہمیں ایک روایت’’سینہ بہ سینہ‘‘ پہنچی۔ اس روایت کے مطابق یہ معلوم ہوا کہ الماری میں کتابیں ہیں اور یہ الماری ہمارے سکول کی ’’لائبریری‘‘ ہے جبکہ صندوق میں کچھ شیشے کی بوتلیں اور کچھ چھوٹے چھوٹے ’’سائنسی پرزے‘‘ ہیں جو مختلف سائنسی تجربے کرنے کے کام آتے ہیں۔ بقول ہمارے سینئرز انہیں یہ ’’گراں قدر معلومات‘‘ اس لیے ملیں کہ ایک دن انہوں نے ہیڈ ماسٹر صاحب کی نگرانی میں الماری اور صندوق کی صفائی کی تھی۔ تاہم یہ روایت ایک ’’زبانی‘‘ روایت تک ہی محدود رہی اور خدا گواہ ہے کہ آج چودہ پندرہ برس بعد بھی مجھے یقین سے معلوم نہیں کہ اس الماری اور صندوق میں کیا تھا۔

    اب سنے ہمارے دوسرے سکول کی’’لائبریری‘‘ کا حال۔ یہ سکول شہر کا ایک مشہور ہائی سکول تھا جس کے طلبہ کی تعداد آج سے دس سال قبل 5 ہزار کے قریب تھی۔ اس سکول میں ہمیں پڑھتے ہوئے تین سال ہوچکے تھے کہ ایک روز سبھی لڑکے کچھ کرسیاں ’’ہائی حصے‘‘ میں رکھنے گئے تو پہلی دفعہ ہم نے سکول کی لائبریری دیکھی۔ تاہم اگلے دوسال یعنی میٹرک تک بھی یہ لائبریری ہمارے لیے اجنبی ہی رہی۔ لائبریر ی سے کتابیں لینا ہمیں اس وقت نصیب ہوا جب ہم نے میٹرک کے بعد شہر کی پبلک لائبریری میں اپنا اکاؤنٹ کھلوایا۔

    دکھ اس بات کا ہے کہ گریجوایشن تک اپنی سولہ سالہ تعلیم کے دوران سوائے یونیورسٹی کے ایک استاد کے مجھے کوئی بھی استاد ایسا نہ ملا جسے صاحب مطالعہ کہا جا سکے۔ حالانکہ اس دوران کم و بیش پچاس کے قریب اساتذہ سے مجھے پڑھنے کا موقع ملا۔ اگر ذرا جذباتی انداز میں کہوں تو میں طلب ِعلم کا کشکول لیے کھڑا رہا مگر نصاب سے ہٹ کر مجھے علم کی خیرات کسی استاد نے نہ دی۔ اگر کوئی خود کچھ ذوق مطالعہ رکھتا تو مجھے بھی دان کرتا۔ میں سر جھکا کے یہ تسلیم کرتا ہوں کہ ان اساتذہ نے نصابی میدان میں کوئی کسر نہ چھوڑی مگر غیرنصابی ذوق مطالعہ ابتدائی طور پہ مجھےگھر سے ملا اور میٹرک کے بعد لائبریری سے ناطہ جڑا تو خود بخود آگے بڑھتا رہا۔ اب میں اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی میں ایم ایس (ہیومن ریسورس) کا طالب علم ہوں مگر اس بات پہ شاکی ہوں کہ پچھلے سترہ سال میں، میں اپنے ذوق مطالعہ کو اپنے ناتواں کندھوں پہ لیے پھرتا رہا، کسی استاد نے اس شوق کو مہمیز دینا تو دور کی بات پوچھنا بھی کبھی گوارا نہ کیا۔ میرامطالعہ ایک خودرو پودے کی طرح تھا جو کسی خاص توجہ کے بغیر اپنے آپ ہی پھلتا پھولتا رہا۔ اب سوچتا ہوں کہ اگرسکول کی لائبریری کے دروازے سبھی طلبہ پر کھول دیے جاتے تو شاید کچھ مزید طلبہ بھی مطالعے کی طرف راغب ہو جاتے کیونکہ ہر کسی کو توگھر میں اخبار اور ڈائجسٹ مہیا نہیں ہوتے۔ میر اسب سےبڑا ذاتی دکھ یہ ہے کہ اگر مجھے مطالعہ کے حوالے سے رہنمائی ملتی رہتی تو جن کتب اور اصناف ادب کے بارے مجھے دیر سے پتہ چلا، بہت پہلے ہی ان کے متعلق معلوم ہو جاتا اور مطالعے کا یہ سفر اور بھی شاندار ہو جاتا۔

    محترم خاکوانی صاحب! ہمارے بڑوں کا ہم سے یہ شکوہ بجا ہے کہ نئی نسل ذوق مطالعہ سے عاری ہے مگر اس میں بہت کچھ قصور ہمارے انہی بڑوں کا بھی ہے۔ گھر میں کتابیں پڑھنے والا کوئی نہیں، اساتذہ نے نوکری لگنے کے بعد سے اب تک کسی غیر نصابی کتاب کو چھونا بھی گوارا نہیں کیا تو بچوں میں ذوق مطالعہ کہاں سے پیدا ہوگا؟ میں نے خود اپنے دوستوں کو تحریک دلا کے کئی مشہور ناول پڑھوائے ہیں۔ کیا اساتذہ یہ کام نہیں کر سکتے؟

    ایک اور تلخ بات بھی سن لیجیے۔ یونیورسٹی کے میرے اکثر (اکثر کا لفظ میں انتہائی سوچ سمجھ کے استعمال کر رہا ہوں) اساتذہ ادبی ذوق سے بےبہر ہ ہیں۔ بخدا اس وقت ذہن پر کوڑے برسنے لگتے ہیں جب میں دیکھتا ہوں کہ شعر کے نام پر سطحی اور بےوزن دو سطریں جو میرے کسی پرائمری پاس دوست نے اپنی وال پر شئیر کیں، وہی کچھ دنوں بعد میرے کسی پی ایچ ڈی استاد (حتیٰ کہ صدر شعبہ) نے شئیر کی ہیں اور اس پہ طرہ یہ کہ داد بھی مل رہی ہے۔ تو ان تمام حالات میں کہاں کا ذوق مطالعہ اور کہاں کی کتب بینی؟ کوئی میری طرح کا طالب علم انفرادی طور پر کسی وجہ سے غیرنصابی کتب کی طرف مائل ہو جائے تو الگ بات ہے وگرنہ ہمارے تعلیمی نظام میں ذوق مطالعہ نہ تو کوئی مقصد ہے اور نہ ہی اس حوالے سے کبھی سوچا گیا ہے۔

  • مطالعہ کیجیے – قاضی عبدالرحمن

    مطالعہ کیجیے – قاضی عبدالرحمن

    ابوالطیب المتنبی کا مشہور قول ہے کہ ’’اس دور میں سب سے بہترین رفیق کتاب ہے.‘‘
    سرُورِ علم ہے کیفِ شراب سے بہتر
    کوئی رفیق نہیں ہے کتاب سے بہتر

    بچپن سے ایک چیز کا جنون کی حدتک شوق رہا ہے. وہ ہے کتابیں! میرے اس شوق کی سچی ترجمانی ایرسمس (Erasmus) نے کی ہے،
    When I get a little money I buy books; and if any is left I buy food and clothes
    (جب مجھے چند پیسے ملتے ہیں تو میں کتابیں خریدتا ہوں. اوراگر تھوڑے بہت بچ جائیں تواس سے کھانا یا کپڑا خریدتا ہوں.)
    جب بھی دوستوں کےساتھ کہیں جانے کااتفاق ہوا، توان کی کوشش ہوتی ہے کہ اس جگہ سے لے جائے جہاں کوئی کتب خانہ ی الائبریری نہ ہو. اگر ہو تو مجھے کسی اور شے میں مشغول کر دیاجائے تاکہ دھیان ادھرنہ جائے. اگر نظر پڑ گئی تومیرا اور ان کاساتھ اسی جگہ ختم یعنی ھذا فراق بینی و بینک! اب کتابیں ہیں اور میں ہوں، وقت گذرنے کے احساس سے بالکل بھی آگاہ نہیں.گھر میں بھی جس شوق سے والدین پریشان ہیں، وہ یہی کتابوں کاشوق ہے. یہ کتابیں ہی میری سفر و حضر کی رفیق اور خلوت وجلوت کی شریک ہیں. سونے سے پہلے جب تک کچھ مطالعہ نہ کر لوں چین نہیں پڑتا،
    جب کتابوں سے میری بات نہیں ہوتی ہے
    تب میری رات میری رات نہیں ہوتی ہے.

    کتاب کی اہمیت ہر دور میں مسلم رہی ہے. تمام انقلابات کے پیچھے کتاب ہی رہی ہے چاہے وہ مذہبی انقلابات ہوں یا سماجی، چاہے معاشی میدان میں وہ کمیونسٹوں کےلیے کارل مارکس کی ’’داس کیپیٹل‘‘ ہو یا کیپیٹلزم کےلیے ایڈم اسمتھ کی ’’دویلتھ آف نیشن‘‘، سیاسی میدان میں ہندئووں کے کوٹلیہ عرف چانکیہ کی ’’ارتھ شاستر‘‘ہو یا چینیوں کے لیے مائوزے تنگ کی ’’سرخ کتاب‘‘ یا اہل مغرب کےلیے میکائولی کی ’’دپرنس‘‘، الہیات میں مسلمانوں کے لیے مولانا روم رح کی ’’مثنوی‘‘ ہو یا تائو کے پیروکاروں کے لیے لائو توزو کی ’’تائوتےچنگ‘‘. ادب میں عربی کی ’’الف لیلی‘‘ ہو یا فردوسی کا ’’شاہنامہ‘‘، مذہب کےدفاع میں سعید نورسی کے ’’رسائل نور‘‘ ہوں یا رادھاکرشنن کی کتب، غرض ہر سمت کتاب اذہان پر حکومت کرتی نظرآتی ہے.

    کتاب کےانتخاب میں یادرکھیے کہ صرف اچھی اور تعمیری کتب ہی شخصیت کی تعمیر اور کردارکی بالیدگی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں. ٹالسٹائی کے بقول منفی مضامین کی حامل نیز فحش کتاب وہ زہر ہے جو جسم کو ہی نہیں بلکہ روح تک کوگھائل کر دیتا ہے. راقم کے کتب بینی کے شوق کو دیکھتے ہوئے، ابن غوری صاحب نے نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا،
    ’’متقی مصنفین کی مستند کتابوں کا مخلصانہ مطالعہ ہی مفید ہوتا ہے.‘‘
    مثبت مضامین کی حامل کتابوں کا روح کے لیے وہی مقام ہے جو جسم کے لیے عمل تنفس کا، یہ پژمردہ جذبات کے لیے مہمیز کا کام کرتی ہے، زبان کو فصیح کرتی ہے، مشاہدہ کو وسعت عطا کرتی ہے، شعورکی ماں ہے، جیسے زعفران کی پرکھ اور ادرک کا ذائقہ ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کو نہیں ہوتا بالکل اسی طرح ہر سادہ لوح اور ظاہر بین کتب بینی کی لذت سےآگاہ نہیں ہو سکتا. مطالعہ ایسا ایڈونچر ہے جس کا اختتام نہیں. یقین کیجیے کہ صرف کتب کے ساتھ جنگل میں بھی زندگی کو کاٹا جا سکتا ہے.

    جس گھر میں کتابوں کی الماریاں ہوں درحقیقت وہ گھر میرے لیے جنت نظیر ہے. بہترین تحفہ ایسی کتاب ہے جسے ختم کیے بغیر چین نہ پڑے، بہترین رفیق کتاب اور وہ قابل انسان جس نے حق مہر ادا کر کے اس کی رفاقت قبول کی. دانا دشمن مطالعہ کےلیے کتاب کومستعارمانگنے والا ہے. جان ملٹن کاقول ہے،
    A good book is the precious life-blood of a master spirit, embalmed and treasured up on purpose to a life beyond life
    ترجمہ: ایک اچھی کتاب، ایک عظیم روح کا لازمہ حیات ہے، جسے ایک زندگی (نسل) سے پرے دوسری زندگی (نسل) تک پہنچنے کے مقصد سے محفوظ کر دیا گیا ہے.

    افسوس کا مقام ہے کہ آج کل ذوق مطالعہ عنقا ہو رہا ہے، نسل نو کتب بینی کی لذت سے واقف ہی نہیں ہے جبکہ ہمارے اسلاف مطالعہ کےشیدائی تھے. علم کے ذرائع سے ان کاعشق ضرب المثل تھااور ہے. یہاں چندواقعات پیش کرتاہوں،
    1) حکیم ابو نصر فارابی کہتا ہے،
    تیل کے لیے پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے میں رات کو چوکیداروں کی قندیلوں کے پاس کھڑے ہو کر کتاب کا مطالعہ کرتا تھا.
    2) تاریخ بغداد کے مصنف خطیب بغدادی رح لکھتے ہیں کہ
    جاحظ کتاب فروشوں کی دکانیں کرایہ پر لے کرساری رات کتابیں پڑھتے رہتے تھے.
    3) امام شہاب الدین زہری رحمۃ اللہ علیہ کے پاس کتب کا بہت بڑا ذخیرہ تھا اور ان کی کتب بینی کا شوق اورعلمی انہماک اس قدر بڑھا ہوا تھا کہ وہ دوران مطالعہ دنیا وما فیھا سے بے خبر ہوتے تھے. ان کی بیوی کہا کرتی تھی کہ ان کی کتابوں کا جلاپا تین سوکنوں سے بڑھ کر ہے. (تذکرۃ الحفظ , ج 1، ص 81)
    4) امام ابن طاہر المقدسی رحمہ اللہ کے متعلق آتا ہے کہ بھوک سے نڈھال ہوکر نان بائی کی دوکان پر چلے جاتے اور روٹی کی خوشبو سے دل کو تسلی دے کر آجاتے، اس فاقہ مستی میں انھیں کہیں سے ایک درہم مل گیا، اب وہ اس شش و پنج میں پڑگئے کہ اس سے کاغذ اور دوات خریدوں یا روٹی؟ اور جو لباس انہیں اس وقت میسر تھا اس میں کہیں جیب کا نام و نشان نہیں تھا، آخر غور کرتے کرتے اس درہم کو منہ میں محفوظ کرلیا، مطالعہ میں اس قدر مستغرق ہوگئے کہ وہ درہم نگل لیا.
    5) امام ابو عباس ثعلب رحمہ اللہ کے عربی ادب میں مقام و مرتبے سے کون ناواقف ہے، زندگی کے آخری ایام میں بھی شوق مطالعہ کا یہ عالم تھا کہ 91 سال کی عمر میں مسجد سے خطبہ جمعہ دے کر باہر نکلے، مسجد سے مکان جانے لگے تو اس تھوڑے سے وقت میں بھی راستے میں کتاب دیکھتے جاتے تھے، کتاب میں محویت اور اس پر ثقل سماعت، پھر آواز، کیا سنتے؟ ایک گھڑ سوار نے دھکّا دے دیا، زمین پر گرے، بے ہوش ہوگئے اور اسی حال میں آخرت سدھار گئے.
    6) امام عبدالرحمان ابن جوزی رح اپنے بچپن کے مطالعہ کو یاد کرتے ہوئے فرماتے ہیں،
    ” اگر میں کہوں کہ بیس ہزار کتابوں کا مطالعہ کیا ہے تو بہت زیادہ معلوم ہوگا اور یہ طالب علمی کے دور کا ذکر ہے، مجھے ان کتابوں کے مطالعہ سے سلف کے حالات واخلاق، قوت حافظہ، ذوق عبادت اور علوم نادرہ کا ایسا اندازہ ہوا جو ان کی کتابوں کے بغیر نہیں ہو سکتا.“
    7) علامہ انور شاہ کشمیری رح بستر علالت پر اخیر وقت میں بھی مطالعہ کرتے ہوئے پائے گئے تھے.
    8) مولاناابوالکلام آزاد رح کےغیرنصابی کتابیں پڑھنے پر پابندی تھی جس کے سبب رات کولحاف موم بتی جلا کر مطالعہ کرتے تھے. ایک مرتبہ تو آپ نے اپنا لحاف ہی جلا ڈالا تھا.
    9) علامہ عبدالحی فرنگی محلی رح ایک مرتبہ مطالعہ میں مستغرق تھے، پانی مانگا، والد نے تیل کاگلاس بڑھا دیا اور آپ نے استغراق کے عالم میں اسے ہی پی لیا.
    10) حکیم محمد سعید شہید رح اپنے ایک سفرنامے’’ایک مسافر چار ملک‘‘ میں کتابوں کے حصول کے بارے میں لکھا کہ ’’میری حالت یہ ہے کہ اگر مجھے اچھی کتابیں کہیں نظر آجائیں تو میں اپنے کپڑے فروخت کر کے خرید لوں‘‘.
    11) ابوریحان البیرونی، کتابوں سے ان کے عشق کا یہ عالم تھا کہ ایک ایک کتاب کی تلاش میں کئی کئی برس سرگرداں رہتے. کسی سے معلوم ہوا کہ متواتر مانی کی کتاب ’’سفرالاسرار‘‘ بہت معرکتہ الآرا کتاب ہے تو اس کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے. لگ بھگ چالیس برس بعد وہ کتاب میسر آئی تو جستجو کے گھوڑے پر سوار مسافر علم کا اشتیاق دیدنی تھا.

    خیرکوئی کہاں تک گنائے’ سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کےلیے’- ان عباقرہ کے تذکرے دفاتر کے محتاج ہیں. یہ مختصر مضمون کہاں اتنی وسعت رکھتاہے- یہ وہ عظیم ہستیاں ہیں جن کی زندگانیوں کےمتعلق بجا طور سے کہا جا سکتا ہے،
    باتیں ہماری یاد رہیں، پھر باتیں ایسی نہ سنیےگا
    پڑھتے کسی کوسنیےگا تو دیر تلک سر دھنیےگا

    سبق:
    مطالعہ کیجیے، یہ انسان کا وہ وصف ہے جو اسے جانوروں سے ممتاز کرتا ہے.