Tag: مشرقی پاکستان

  • پاکستان میں انتشار، قصوروار کون؟ ملک جہانگیر اقبال

    پاکستان میں انتشار، قصوروار کون؟ ملک جہانگیر اقبال

    ملک جہانگیر اقبال بچپن میں جب مٹی میں کھیل کود کے بعد خیال آتا تھا کہ ابو جی نے دیکھ لیا تو ”چمپا پریڈ“ ہوجانی ہے تو فوری طور پر اٹھ کھڑے ہوتے، ہاتھ جھاڑتے اور سائیڈ پر کھڑے ہو کر مٹی میں کھیلتے بچوں کو دیکھ کر افسوس سے سوچتے ”افففف کتنے گندے بچے ہیں“. اپنے تئیں تو ہم معزز بن جایا کرتے تھے اور اگر اس دوران ابو جی دور سے آتے دکھائی دیتے تو ان ”گندے بچوں“ کو بظاہر مٹی میں کھیلنے سے منع بھی کرنے لگ جاتے تھے کہ چلو اسی بہانے ابو جی دیکھیں گے کہ ان کا بیٹا کتنا اچھا ہے، خود مٹی میں کھیلتا ہے نہ دوسرے بچوں کو کھیلنے دیتا ہے. مگر ابو جی جب آتے تو گھوم پھر کر شامت ہماری ہی آجاتی تھی کہ ہم نے بھی صرف ہاتھ ہی جھاڑے ہوتے تھے جبکہ کپڑوں پر لگی مٹی ہمارے ”مجرم“ ہونے کی گواہی دے رہی ہوتی تھی.

    کہنے کو تو یہ میرے بچپن کی بات ہے مگر یقیناً بہت سے دوستوں کے بچپن میں ایسے واقعات گزرے ہوں گے جب وہ خود کسی جرم میں شریک ہوں، ابو یا کسی اور بڑے کو آتا دیکھ کر سائیڈ پر کھڑے ہو کر شرارت کرنے والوں کو کوسنے کی اداکاری کر رہے ہوں، اور پھر بھی پکڑے جائیں.

    یہ صرف ”میرے“ بچپن ہی کی شرارت نہیں ہے بلکہ یہ پاکستانی قوم کے بچپن کی بھی شرارت ہے. اقوام صدیوں بعد کہیں جا کر راہ کا تعین کرتی ہیں، خود میں شامل مختلف گروہوں کو سمجھتی ہیں، جبکہ پاکستان کو تو بنے ہوئے ہی ابھی بمشکل صرف ستر سال ہوئے ہیں، اور یہ جن گروہوں پر مشتمل ہے ان کی زبان، ثقافت، رنگ، نسل، زمین اور پانی تک سب جدا جدا ہیں، اگر ان میں کوئی شے مشترک ہے تو وہ ”اسلام“ ہے جس نے اسے جوڑ کر رکھا ہوا ہے. اگر ایک لمحے کے لیے بھی اسلام کو پاکستان میں سے نکال دیا جائے تو آپ اس قوم کا شیرازہ بکھرتا ہوا دیکھیں گے. فرض کریں کہ ہمارے درمیان ”اسلام“ کا رشتہ نہ ہو تو پنجابی اور پٹھان کیوں کر ایک دوسرے کی بات سمجھیں گے؟ بلوچوں کو سندھیوں سے کیا لینا دینا؟ اور باقی پاکستان والے ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والوں کو اپنی زمین پر کیوں رہنے دیں؟ پاکستانی کوئی زمینی خطہ نہیں ہے بلکہ یہ مختلف اقوام کی باہمی رضامندی یا مکسچر سے طلوع ہونے والا مجموعہ اور ”ملک“ ہے. جہاں ہر قوم ہر ریاست ہر صوبے نے صرف اور صرف اس بات پر اتحاد کیا تھا کہ ”ہم مسلمان ہیں“، اس لیے ہمارا الگ سے ملک ہونا چاہیے جہاں ہم اکٹھے رہیں گے. وگرنہ پنجابی، بلوچ، سندھی، پٹھان اور باقی اقوام اپنے اپنے علاقوں میں رہ ہی رہے تھے، پاکستان بنتا نہ بنتا، وہ اپنے علاقوں میں ہی رہتے. کیا ضرورت تھی کسی کو یوپی، بہار، دہلی، لکھنؤ، امرتسر وغیرہ میں اپنی آبائی زمین اور گھر چھوڑنے کی؟ کیا کوئی پکنک منانے جارہے تھے یہ لوگ؟

    جواب نہیں ملے گا.

    قیام پاکستان کے بعد روسی انقلاب سے متاثرہ دانشور اور امریکی سرمایہ دارانہ نظام کے حامی سیکولرز پاکستان کی جڑوں میں آ کر بیٹھ گئے. اسلامی جمہوریہ پاکستان نام تو رکھ دیا گیا مگر ”اسلام“ کو اہمیت نہ دینے کی وجہ سے پاکستان تین طبقات میں بٹ گیا، ایک بیوروکریسی جو سیکولرز پر مشتمل تھی، دوم دانشوری جو کمیونسٹ عناصر کے نرغے میں تھی جبکہ تیسری کروڑوں کی تعداد میں موجود عوام جس کا اوڑھنا بچھونا صرف اور صرف ”اسلام“ تھا، اس کی آواز مگر نقارخانے میں طوطی کی آواز سے بھی باریک تھی. اس دور میں ”ادیب“ کہلوانے کے لیے آپ کو تقسیم پر نوحہ لکھنا اور انقلاب انقلاب کے منجن میں سرخ انقلاب سوویت سے امپورٹ کرنے کی خواہش کا دبے لفظوں میں پرچار کرنا ضروری تھا، نتیجہ یہ نکلا کہ جب سیکولر طبقہ سے تعلق رکھنے والے ایوب خان کے بعد یحییٰ خان نے پاکستان کی باگ دوڑ سنبھالی تو اس وقت لبرلزم کا جعلی منجن بیس پچیس سال پرانا ہو چکا تھا لہٰذا مشرقی پاکستان اپنی زبان کی بنیاد پر علیحدہ ہوگیا، دونوں حصوں کو جوڑ کر رکھنے والا صرف ایک اسلام کا ہی رشتہ تھا جسے پاکستان بننے کے بعد ہی فراموش
    کردیا گیا. جب اسلام ہی نہ رہا تو پیچھے جھوٹے وعدے، تسلیاں، برابر کی تقسیم کے وہ نعرے رہ گئے جو اپنی کشش صرف اور صرف نعروں میں ہی رکھتے تھے. اگر لوگوں کو ساتھ جوڑے رکھنا ہے تو کوئی ایک مشترکہ نقطہ ضرور ہونا چاہیے جس پر قوم کے مختلف گروہوں کو جوڑے رکھا جا سکے.

    پاکستان دو لخت ہوگیا تو یہ سیکولر لبرل لابی ہاتھ جھاڑ کر سائیڈ پر کھڑی ہوگئی، کہ دیکھو جی پاکستان تو کبھی ترقی کر ہی نہیں سکتا کہ ان میں تو آپس میں ہی اتحاد نہیں، بندہ ان سے پوچھے کہ یہ جو پاکستان سے اسلام کو نکالنے کے داغ تمہارے کپڑوں پر لگے ہیں، پہلے اس کا تو جواب دو. جو پاکستان کی بنیاد تھی، تم نے اسے ہی کمزور کردیا، تمھیں کیا لگتا ہے کہ محض سیاسی نعروں کی بنیاد پر دو ایک دوسرے سے یکسر مختلف گروہوں کو ساتھ رکھا جاسکتا ہے؟

    اس کے بعد دور آیا سیاسی رسہ کشیوں کا یعنی ذولفقار علی بھٹو صاحب کا، یہاں شروع میں ملک کو استحکام دینے کے لیے اسلام کا سہارا لیا گیا، اسلامی تنظیموں کے مطالبات پہلی بار سنے گئے، اور بظاہر ایک نئی شروعات کی گئی لیکن یہاں اسلام کو جس طرح سیاسی فائدے کے لیے استعمال کیا گیا اس کی مثال نہیں ملتی اور پھر اسلام کو پاکستان کی اساس کے بجائے حکومت کی بقاء کے لیے استعمال کرنے کا دور ضیاء الحق تک چلا. ضیاء الحق کٹر اسلام پسند حکمران تھا مگر مزے کی بات یہ ہے کہ اس کی مخالفت سیکولر حضرات نے کم اور کمیونسٹ حضرات نے زیادہ کی، حالانکہ آمرانہ نظام کمیونزم یا سوشلزم سے بہت زیادہ قربت رکھتا ہے. کمیونسٹوں کی ضیاء الحق کی مخالفت کی وجہ ”پاکستان“ نہیں بلکہ وہ ”سرخ انقلاب“ تھا جو افغانستان تک پہنچ چکا تھا اور جلد یا بدیر اس کے پاکستان میں آنے کے سہانے سپنے دیکھے جانے لگے تھے. ضیاء الحق کی سوویت یونین کے خلاف تاریخی جنگ سے ان کے سپنے ٹوٹ گئے. ضیاء الحق کو جہاں ایک جانب افغانستان میں موجود مختلف اقوام کی نسل کشی اور بھٹو دور میں پاکستان میں پناہ حاصل کرنے والے افغان لیڈرز کی فکر تھی تو دوسری جانب اسے یہ بھی معلوم تھا کہ اس کا مخالف طبقہ کن لوگوں پر مشتمل ہے، اس اندازہ تھا کہ اگر سوویت یونین پاکستانی سرحد تک آگیا تو ان ”اپنوں“ کا اس کے بعد کا کردار کتنا بھیانک ہوگا؟ لہٰذا امریکہ، پاکستان، اور پشتون قبائل ان تینوں نے اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے روس سے جنگ کی. یہاں کوئی کسی کے ہاتھوں استعمال نہیں ہوا بلکہ اپنا مقصد تینوں نے ہی حاصل کیا .

    اس جنگ کے بعد کمیونسٹ حضرات کی کمر تو ٹوٹ گئی اور سیکولر لابی کی طرح وہ بھی اپنے کپڑے جھاڑ کر سائیڈ پر کھڑے ہوگئے، اور نوے کی دہائی میں سیاست میں ہونے والی رسہ کشی اور عدم استحکام دیکھ کر پاکستانی قوم پر تف کرنے لگے جبکہ اس دوران وہ اپنے کپڑوں پر لگنے والے ان داغوں کو نظر انداز کرتے رہے جو انھوں نے پاکستان سے زیادہ سوویت یونین سے وفاداری نبھا کر اپنے کپڑوں پر ملے تھے.

    پھر دور آیا مشرف صاحب کا یعنی لبرلزم کا، جس طرح پچھلی بار لبرلزم ہمارا مشرقی پاکستان کھا گیا تھا، ٹھیک اسی طرح اس لبرلزم نے سندھ، بلوچستان اور قبائلی پٹی پر شورش پیدا کی، سب سے پہلے پاکستان بہت خوب نعرہ ہے مگر بنا اسلام کے پاکستان کا کوئی وجود ہی نہیں تو نعرہ کس کام کا ؟ لیکن اس دوران مذہب کو سیاست کے لیے استعمال کرنے والوں کا بھی بھیانک روپ سامنے آیا جس میں مذہب کو بطور بلیک میلنگ اور ذاتی مفادات کے لیے استعمال کیا گیا یعنی عملی طور پر اسلام کا دور دور تک کوئی نام و نشان ہی نہیں تھا. سول سوسائٹی کے طور پر یا تو اسلام کو پاکستان میں دیکھ کر ناک بھوں چڑھانے والے لوگ تھے یا پھر اسلام پسندوں کو اپنے سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرنے والے.

    نتیجہ کیا نکلا؟ ہر صوبے میں شورش، دنیا میں بدنامی، صوبائیت کا فروغ، قوم پرستی کا عروج.

    اس دور سے لے کر اب تک پاکستانی قوم نہیں بن سکے، سیاست سے لے کر ایک عام فرد کی سوچ تک میں صوبائیت کی بو رچ بس گئی. جب اسلام سے زیادہ شخصیات طاقتور ہوئیں تو کالے کوے بھی سفید ہونے لگے، یہاں کے مذہبی حضرات سیاست کرنے لگے ہیں جبکہ سائنسدان حضرت مذہبی بحث و مباحثہ، غرض اپنے پروفیشن سے زیادہ اپنے عقائد کی ترویج پہلا مقصد بنا چھوڑا ہے. مذہبی انتہا پسندی نے اگر پاکستان کے اندر بدنام کیا تو لبرل حضرات نے پاکستان سے باہر جا کر پاکستان کو بدنام کیا. ایک طویل فہرست ہے کہ کون کس طرح کے فراڈ میں ملوث ہے.

    اب یہاں سوال اٹھتا ہے کہ کیا پاکستان ایسے ہی بنا دیا گیا؟ کوئی اصول اور ضابطہ نہیں طے کیا گیا؟

    پاکستان بہت سوچ سمجھ کر بنایا گیا تھا. قائد اعظم کی 22 مارچ 1940ء کی تقریر ہو یا علامہ اقبال کا جمہوریت کا وہ نظریہ جو مغربی جمہوریت سے ہزار گنا بہتر تھا، یا پھر وہ قرارداد مقاصد ہو جس نے پاکستان کی بنیاد رکھ چھوڑی تھی. اگر اس پر کاربند رہتے تو لبرلزم میں جعلی پن ہوتا نہ مذہب میں انتہا پسندی. پاکستان کے پہلے وزیراعظم اور قائداعظم کے معتمد لیاقت علی خان کی قرارداد مقاصد پیش کرنے کے دوران تقریر کا اگر متن ہی پڑھ لیا جائے تو سب باتیں واضح ہوجاتی ہیں کہ پاکستان کو کن اصولوں پر بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا. لیاقت علی خان نے کہا تھا:
    ”جناب والا! آپ کو یاد ہوگا کہ قائداعظم اور مسلم لیگ کے دوسرے رہنمائوں نے ہمیشہ یہ واضح اور غیر مبہم اعلانات کیے کہ پاکستان کا اس لیے ضروری ہے کہ مسلمانوں کے پاس اپنا طریق زندگی اور ضابطہ اخلاق موجود ہے جو ہندوؤں سے الگ ہے۔ انہوں نے باربار اس امر پر بھی زور دیا کہ اسلام کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ خدا اور بندہ کے درمیان ایک ایسا تعلق قائم ہو جسے مملکت کے کاروبار میں کسی قسم کا دخل نہ ہو بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں عمرانی اخلاق کے متعلق مخصوص ہدایات ہیں اور اسلام روز مرہ پیش آنے والے مسائل کے متعلق معاشرہ کے طرزِ عمل کی راہنمائی کرتا ہے۔ اسلام صرف ذاتی عقائد اور اخلاق کا نام نہیں ہے بلکہ اپنے پیروؤں سے توقع کرتا ہے کہ وہ ایک ایسے معاشرے کی تعمیر کریں جس کا مقصد حیات صالح ہو۔ یونانیوں کے برخلاف اسلام نے صالح زندگی کا جو تصور پیش کیا ہے اس کی اساس لازماً روحانی اقدار پر قائم ہے۔ ان اقدار کو اہمیت دینے اور انہیں نافذ کرنے کے لیے مملکت پر لازم ہو جاتا ہے کہ وہ مسلمانوں کی سرگرمیوں کی اس طریقہ پر ہمنوائی کریں کہ ایک ایسا نیا عمرانی نظام قائم ہوجائے جو اسلام کے بنیادی اصولوں پر مبنی ہو، جن میں جمہوریت، حریت، رواداری اور عمرانی عدل شامل ہیں۔ ان کا ذکر تو میں نے تمثیلاً کیا ہے کیونکہ وہ اسلامی تعلیمات جو قرآن اور سنت نبویﷺ پر مشتمل ہیں، محض اس پر ختم نہیں ہو جاتیں۔ کوئی مسلمان ایسا نہیں ہو سکتا جس کا اس پر ایمان نہ ہو کہ کلام اللہ اور اسوہ رسول ﷺ ہی اس کے روحانی فیضان کے بنیادی سرچشمہ ہیں۔ ان کے متعلق مسلمانوں کے مابین کوئی اختلاف رائے نہیں ہے اور اسلام کا کوئی فرقہ نہیں ہے جو ان کے وجود کو تسلیم نہ کرتا ہو۔“

    جناب والا! یہ قوم زبردست کامیابیوں کی روایات رکھتی ہے۔ اس کی تاریخ کارناموں سے پھر پور ہے۔ اس نے زندگی کے ہر شعبہ میں کامیابی کے ساتھ پورا پورا حصہ لیا ہے۔ ہماری قوم کی بہادری کے کارنامے قومی تاریخ کی زینت ہیں۔ یہ وہ قوم ہے جس کے ارباب نظم و نسق نے ایسی روایات قائم کی ہیں جو زمانہ کی دستبرد سے اب تک محفوظ ہیں۔ اس کے تخلیقی فنون میں شعر و شاعری، فنِ تعمیر اور جمالیاتی ذوق کے لیے اسے خراج تحسین ادا کیا گیا ہے۔ روحانی عظمت کے لحاظ سے یہ قوم عدیم المثال ہے۔ اب پھر یہ قوم راہ عمل پر گامزن ہے اور اگر اسے ضروری مواقع میسر آجائیں تو وہ اپنی شاندار کامیابیوں کی سابقہ عظیم الشان روایات کو پھاند کر ان سے بہتر کام کر دکھائے گی۔ یہ قرارداد مقاصد اس ماحول کے پیدا کرنے کی طرف پہلا قدم ہے جس میں قوم کی روح پھر بیدار ہو جائے گی۔ ہم لوگوں کو قدرت نے قوم کی اس نشاۃ ثانیہ کے زبردست ہنگامہ میں حصہ لینے کے لیے خواہ وہ حصہ کتنا ہی حقیر اور غیر اہم ہو، منتخب کیا ہے اور ہم ان زبردست گوناگوں مواقع سے جو ہمیں حاصل ہیں، محو حیرت ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ان مواقع سے خردمندی اور دور اندیشی کے ساتھ فائدہ اٹھائیں اور مجھے اس میں ذرا بھی شک نہیں ہے کہ اس اللہ کے فضل وکرم سے جس کی رحمت سے پاکستان قائد ہوا ہے، ہماری یہ کوشش ہماری برے سے بڑی توقعات سے برھ کر بار آور ہوگی۔ قوم کی نشاۃ ثانیہ کا باب ہر روز نہیں کھلتا اور ہر روز قدرت مظلوموں اور محکوموں کو نہیں ابھارتی اور انہیں شاندار مستقبل کی طرف بڑھنے کی باربار دعوت نہیں دیتی۔ روشنی کی کرنیں افق پر تحریر ہو۔ (لیاقت علی خان 12مارچ 1949)

    دوستو! پاکستان برا نہیں ہے. ہمارے اپنے ہی کپڑوں پر داغ ہیں. قصور پاکستان کا نہیں ہے، ہم خود ہی مٹی سے کھیلتے آئے ہیں. پاکستان کو قائم رکھنا ہے تو اس کی اصل اساس کو سامنے رکھ کر ہی آگے بڑھنا ہے. ورنہ ملک جہانگیر اقبال پنجابی کسی ولی افضل خان پٹھان کے دکھ درد میں شریک کیوں ہوگا؟ میر باز بلوچ کو اللہ بخش سندھی سے کیسی ہمدردی؟ اور وقاص دہلوی مہاجر کے لیے کوئی وحید عباسی ہزارے وال کیوں اپنا نوالہ چھوڑے؟ سوچیے گا ضرور، کیوں کہ سوچنے پر فی الحال کوئی حکومتی ٹیکس لاگو نہیں ہوتا.
    پاکستان زندہ باد

  • حکومت کے لئے سب اچھا نہیں-حامد میر

    حکومت کے لئے سب اچھا نہیں-حامد میر

    hamid_mir1

    تین ستمبر کو بنگلہ دیش کے شہر غازی پور میں جماعت اسلامی کے ایک رہنما میر قاسم کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ میر قاسم پر الزام تھاکہ انہوں نے1971ءمیںالبدر کے پلیٹ فارم سے پاکستان کی سلامتی کی جنگ لڑی۔ جس دن میر قاسم کو پھانسی پر لٹکایا گیا اس دن لاہور میں عمران خان جبکہ راولپنڈی میں ڈاکٹر طاہر القادری اور شیخ رشید احمد کی طرف سے وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف احتجاج کیا جارہا تھا۔ کسی کو میر قاسم کی پھانسی کے خلاف احتجاج یاد نہ رہا۔ اس پھانسی پر پاکستان کے دفتر خارجہ کی طرف سے ایک کمزور سا مذمتی بیان جاری کیا گیا جس میں ایک دفعہ پھر صرف یہ کہا گیا کہ1974ءمیں پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان ہونے والے معاہدے کی خلاف ورزی کی جارہی ہے جس کے تحت1971ءکے واقعات کو بھول کر آگے بڑھنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔

    پاکستانی دفتر خارجہ نے اپنے بیان میں ہیومن رائٹس واچ کا ذکر نہیں کیا جس کے ایشیاء کےڈائریکٹر بریڈ ایڈمز نے بنگلہ دیش کے انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل کی طرف سے میر قاسم کو دی جانے والی پھانسی کی سزا کو انصاف کے تقاضوں کے منافی قرار دیا اور کہا کہ میر قاسم کا فیئر ٹرائل نہیں ہوا۔ میر قاسم کو چودہ مختلف مقدمات میں72سال قید اور پھانسی کی سزا دی گئی۔ اس سزا کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی تو اغواء اور تشدد کے تین مقدامات میں سزا معطل کردی گئی اور قتل کے دو مقدمات میں سزا بھی ختم کردی گئی البتہ ایک مقدمے میں پھانسی کی سزا برقرار رکھی گئی۔

    سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سریندرا کمار سنہا نے میر قاسم کے خلاف پیش کئے جانے والے شواہد اور گواہوں کے بیانات پر کھلم کھلا عدم اطمینان کا اظہار کیا اور اٹارنی جنرل محبوب عالم کو کہا کہ آپ کرائمز ٹربیونل کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کررہے ہیں۔ یہ پہلو انتہائی اہم ہے کہ ہیومن رائٹس واچ نے ہمیشہ 1971ءمیں ہونے والے جرائم کی مذمت کی اور 1971ءکے جرائم میں ملوث افراد کا ٹرائل کرنے کی حمایت کی لیکن حسینہ واجد کی حکومت نے جس انداز میں ٹرائل شروع کئے اور سیاسی مخالفین کو پھانسیوں پر لٹکانا شروع کیا اس پر ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کمیٹی سمیت انسانی حقوق کے کئی عالمی ادارے بھی چیخ اٹھے ہیں۔ بنگلہ دیش حکومت نے ڈیلی اسٹار ڈھاکہ کے لبرل اور سیکولر ایڈیٹر محفوظ انعام پر غداری کے مقدمات بنا کر یہ پیغام دیا ہے کہ بنگلہ دیش میں جمہوریت کے نام پر آمریت قائم کی جارہی ہے۔ میں نے ذاتی طور پر1971ءمیں اس وقت کے مشرقی پاکستان میں ہونے والے فوجی آپریشن پر ہمیشہ تنقید کی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ بنگلہ دیش میں عوامی لیگ کی حکومت ظلم کی یاد میں مزید ظلم کرے اور ناانصافی کے نام پر مزید ناانصافی کرے۔ ان اقدامات سے خطے میں مزید نفرتیں جنم لیں گی اور نوجوان نسل میں انتہا پسندی فروغ پائے گی، لہٰذا بنگلہ دیش میں ہونے والی ناانصافی پر آواز اٹھانا کسی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں بلکہ اس پورے خطے کو انتہا پسندی سے بچانے کی کوشش ہے۔

    بنگلہ دیش میں ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانے کا یہ مطلب نہیں کہ پاکستان میں ناانصافی نہیں ہوتی۔ تین ستمبر کو لاہور اور راولپنڈی میں اپوزیشن جماعتوں کے احتجاج پر کئی اعتراضات کئے جاسکتے ہیں لیکن کیا یہ درست نہیں کہ2014ءمیں لاہور میں پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں پر پولیس نے گولیاں برسائیں اور14بے گناہ مرد و خواتین مرغابیوں کی طرح مارے گئے؟ عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر طاہر القادری کے انداز سیاست سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن دو سال گزرنے کے باوجود ان کی جماعت کے مقتولین کو انصاف نہیں ملا اور اگر وہ بار بار احتجاج کریں تو یہ ان کا حق ہے۔ تین ستمبر کو ڈاکٹر طاہر القادری اور عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید احمد نے راولپنڈی میں احتجاج کیا۔ دونوں مل کر بڑی تعداد میں لوگوں کو سڑکوں پر لانے میں کامیاب رہے۔ لوگوں کو سڑکوں پر آنے سے روکنے کے لئے راولپنڈی اور لاہور کی سڑکوں کو کنٹینروں سے بند کیا گیا لیکن اس کے باوجود دونوں شہروں میں رات گئے تک ہزاروں افراد وفاقی و صوبائی حکومت کے خلاف نعرے بازی کررہے تھے۔

    2014ءمیں عمران خان اور طاہر القادری سڑکوں پر آئے تو اکثر اپوزیشن جماعتوں کا خیال تھا کہ یہ دونوں جمہوریت کے خلاف کسی سازش کا حصہ ہیں۔2014ء میں جب عمران خان اور طاہر القادری نے پارلیمنٹ ہائوس کے باہر دھرنادیا تو پیپلز پارٹی سمیت کئی دیگر جماعتوں نے پارلیمنٹ ہائوس کے اندر وزیر اعظم نواز شریف کا ساتھ دیا۔ جماعت اسلامی نے مذاکرات کے ذریعے حکومت اور سڑکوں پر موجود مظاہرین میں پل بننے کی کوشش کی۔ 2016ءمیں صورتحال مختلف ہے، پاناما پیپرز کے معاملے پر پیپلز پارٹی سمیت اپوزیشن کی نو جماعتیں یکساں موقف رکھتی ہیں۔ تین ستمبر کو لاہور میں تحریک انصاف کی احتساب ریلی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے قائدین کی شرکت بہت اہم ہے۔

    آنے والے دنوں میں پیپلز پارٹی بھی وفاقی حکومت کے خلاف سڑکوں پر آنے کی تیاری کررہی ہے اور قربانی کی عید کے بعد پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف میں قربتیں بڑھ سکتی ہیں۔ پیپلز پارٹی صرف یہ چاہتی ہے کہ اپوزیشن کے احتجاج کے نتیجے میں جمہوریت کو کوئی خطرہ پیدا نہ ہوجائے۔ تحریک انصاف کی قیادت نے پیپلز پارٹی کو یقین دلایا ہے کہ اس کے احتجاج کا مقصد صرف اور صرف کرپشن میں ملوث طاقتور افراد کا احتساب اور2018ءمیں صاف و شفاف انتخابات کا انعقاد ہے۔ یہ دونوں جماعتیں دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مل کر عدالتوں کا دروازہ بھی کھٹکھٹائیں گی۔ حکومت کے خلاف سیاسی دبائو کے ساتھ ساتھ قانونی دبائو بھی بڑھایا جائے گا۔حکومت کو معاملہ فہمی سے کام لینا ہوگا۔ حکومت اس غلط فہمی سے نکل آئے کہ چند اہم عہدوں پر نئی تقرریوں سے اس کے مسائل ختم ہوجائیں گے۔2014ءاور2016ءمیں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ دو سال کے دوران غیر ملکی دشمنوں نے پاکستان کے گرد اپنا گھیرا تنگ کردیا ہے اور پاکستان میں عدم استحکام پھیلانے کے لئے بڑے بڑے منصوبے بنائے جارہے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں داخلی استحکام کی ضرورت ہے لیکن پاناما پیپرز کے معاملے میں حکومت کا غیر لچکدار رویہ صرف حکومت کے لئے نہیں بلکہ داخلی استحکام کے لئے بھی خطرات میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے لہٰذا حالات کی نزاکت حکومت کے رویے میں لچک کا تقاضا کرتی ہے۔

    تین ستمبر کی رات عمران خان نے وزیر اعظم سے کہا ہے کہ ان کے خاندان نے لندن میں جو جائیداد خریدی اس کی دستاویزات دکھادیں، یہ بتادیں کہ اس جائیداد کو خریدنے کے لئے پیسہ کہاں سے آیا، یہ پیسہ ملک سے باہر کیسے گیا اور جس پیسے سے جائیداد خریدی گئی اس پر ٹیکس دیا گیا یا نہیں؟ یہ بڑے سادہ سے سوالات ہیں۔ حکومت کچھ سوالات کا جواب دے چکی ہے اور کچھ کا جواب دے سکتی ہے لیکن نجانے کیوں پاناما پیپرز پر اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات میں لچک کیوں نہ دکھائی گئی۔ حکومت سے گزارش ہے کہ ضمنی انتخابات میں فتح کے نشے سے چھٹکارا پائے اور عمران خان کے سوالات کا ٹھوس شواہد کی مدد سے جواب دے بصورت دیگر قربانی کی عید کے بعد اپوزیشن جماعتوں کا ایک بڑا اتحاد تشکیل پانے والا ہے اور حکومت کے اندر بھی بغاوت ہوسکتی ہے۔ جمہوریت قائم رہے گی لیکن چہروں میں تبدیلی کا دبائو بڑھنے والا ہے۔

  • شعبہ صحافت کے لیے-جاوید چوہدری

    شعبہ صحافت کے لیے-جاوید چوہدری

    566527-JavedChaudhryNew-1469464911-239-640x480

    ملک کی مختلف یونیورسٹیوں میں اس وقت صحافت کے شعبے قائم ہیں، ہم اگر کسی دن طالب علموں کا ڈیٹا جمع کریں تو تعداد لاکھ تک ضرور پہنچ جائے گی گویا ملک میں ہر دو تین سال بعد لاکھ نئے ’’صحافی‘‘پیدا ہو رہے ہیں لیکن کیا یہ نوجوان واقعی صحافی ہیں؟  یہ دس کروڑ روپے کا سوال ہے!

    میرے پاس یونیورسٹیوں کے ٹورز آتے رہتے ہیں، مجھے شروع میں تیس چالیس طالب علموں کی میزبانی میں دقت ہوتی تھی لیکن پھر ہم نے گھر میں بیس تیس لوگوں کی مہمان نوازی کا مستقل انتظام کر لیا یوں اب میرے پاس مختلف یونیورسٹیوں کے شعبہ صحافت کے طالب علم آتے رہتے ہیں اور میں ان سے سیکھتا رہتا ہوں، میں نے ان چند ’’انٹریکشنز‘‘ کی بنیاد پر چند نتائج اخذ کیے ہیں، میں یہ نتائج یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز اور شعبہ صحافت کے چیئرمینوں تک پہنچانا چاہتا ہوں، میری خواہش ہے میری رائے کو صحافت کے ایک کارکن کا مشورہ سمجھ کر سنجیدگی سے لیا جائے، صحافت کے وہ طالب علم جو میڈیا انڈسٹری کو جوائن کرنا چاہتے ہیں وہ بھی میری رائے کو سینئر کی تجویز سمجھ کر چند لمحوں کے لیے توجہ ضرور دیں مجھے یقین ہے، یہ توجہ ان کے کیریئر میں اہم کردار ادا کرے گی۔

    میں دس مختلف یونیورسٹیوں کے بارہ ٹورز کی خدمت کر چکا ہوں، یہ خدمت ایک ہولناک تجربہ تھی، مثلاً مجھے ان بارہ ٹورز کے زیادہ تر نوجوان کتاب سے دور ملے اور اگر کسی سے زندگی میں کتاب پڑھنے کی غلطی سرزد ہو چکی تھی تو وہ کتاب کے نام سے ناواقف نکلا اور اگر اسے کتاب کا نام یاد تھا تو مصنف کا نام اس کے ذہن سے محو ہو چکا تھا اور اگر اسے مصنف اور کتاب دونوں کے نام یاد تھے تو وہ موضوع اور کرداروں کے نام ضرور بھول چکا تھا، مثلاً مجھے ان بارہ ٹورز کے طالب علم اخبار سے بھی دور ملے اور یہ ٹیلی ویژن بھی نہیں دیکھتے تھے۔

    میں ایک وفد سے دو گھنٹے گفتگو کرتا رہا آخر میں پتہ چلا، یہ مجھے کامران خان سمجھ رہے ہیں اور یہ میرے جیو چھوڑنے پر حیران ہیں، زیادہ تر طالب علموں کو یہ معلوم نہیں تھا، میرے کالم اور میرے شو کا نام کیا ہے، میں شروع میں اسے اپنی غیر مقبولیت سمجھتا رہا اور یہ سوچتا رہا لوگ اب مجھے پڑھ اور دیکھ نہیں رہے لیکن جب میں نے دوسرے صحافیوں اور دوسرے پروگراموں کے بارے میں پوچھا تو معلوم ہوا یہ انھیں بھی نہیں جانتے لہٰذا میں نے اطمینان کا سانس لیا۔

    مجھے یہ جان کر بھی خوشی ہوئی یہ لوگ صدر پاکستان، چاروں گورنرز، تین صوبوں کے وزراء اعلیٰ اور اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کے نام سے بھی واقف نہیں ہیں، یہ لوگ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ارکان کی تعداد بھی نہیں جانتے، یہ آج بھی بل کلنٹن کو امریکا کا صدر اور ٹونی بلیئر کو برطانیہ کا وزیراعظم سمجھتے ہیں، یہ عمران خان کے فین ہیں لیکن عمران خان نے کس کس حلقے سے الیکشن لڑا اور یہ قومی اسمبلی کی کس نشست سے ایوان کے رکن ہیں، ان میں سے کوئی نہیں جانتا تھا۔

    میں اس وقت حیران رہ گیا جب ایک نوجوان نے قذافی کا نام لیا اور میں نے اس سے قذافی کا پورا نام پوچھ لیا، وہ نہیں جانتا تھا، میں نے اس سے قذافی کے ملک کا نام پوچھا وہ بالکل نہیں جانتا تھا، میں نے صدام حسین اور حسنی مبارک کے بارے میں پوچھا، وہ ان دونوں سے بھی ناواقف تھا، میں نے باقی طالب علموں سے پوچھا وہ بھی نابلد تھے، آپ بھی یہ جان کر حیران ہوں گے یہ نوجوان قائداعظم اور علامہ اقبال کے بارے میں بھی دو دو منٹ نہیں بول سکتے تھے۔

    یہ نہیں جانتے تھے مشرقی پاکستان کو مشرقی پاکستان کیوں کہا جاتا تھا اور یہ نائین الیون کی تفصیل سے بھی واقف نہیں تھے، آپ کمال دیکھئے جنوبی پنجاب کی ایک یونیورسٹی کے دو طالب علموں نے مجھ سے آٹو گراف لیے باقی کلاس نے حیرت سے پوچھا ’’یہ آپ کیا کر رہے ہیں‘‘ میں نے بتایا ’’آٹو گراف دے رہا ہوں‘‘ ان کا اگلا سوال تھا ’’آٹو گراف کیا ہوتا ہے‘‘ میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا، میں شروع میں طالب علموں کو اس جہالت کا ذمے دار سمجھتا تھا لیکن جب تحقیق کی تو پتہ چلا اس علمی گراوٹ کی ذمے دار یونیورسٹیاں اور صحافت کے شعبے ہیں۔

    یونیورسٹیاں طالب علموں کی ذہنی نشوونما پر توجہ نہیں دے رہیں، کتاب، فلم اور سفر سیکھنے کے تین بڑے ذرائع ہیں، یونیورسٹیاں ان تینوں کو حرف غلط کی طرح مٹا چکی ہیں، تقریریں، مباحثے اور مشاہیر کے ساتھ سیشن علم پھیلانے کے بڑے ٹولز ہوتے ہیں، یونیورسٹیاں ان سے بھی فارغ ہو چکی ہیں، پیچھے صرف سلیبس بچتا ہے اور یہ بھی 70 سال پرانا ہے اور طالب علم اسے بھی پڑھنا پسند نہیں کرتے،یہ پچاس سال پرانے نوٹس کی فوٹو اسٹیٹس کرواتے ہیں، رٹا لگاتے ہیں، امتحان دیتے ہیں اور باقی وقت موبائل فون چیٹنگ پر خرچ کر دیتے ہیں اور یوں علم و عرفان کے عظیم ادارے جہالت کی خوفناک فیکٹریاں بن چکے ہیں۔

    یہ چند خوفناک حقائق ہیں ،میں اب یونیورسٹیوں کے ارباب اختیار کے سامنے چند تجاویز رکھنا چاہتا ہوں، ہمارے وائس چانسلرز تھوڑی سی توجہ دے کر صورتحال تبدیل کر سکتے ہیں، ہمارے تحریری اور زبانی الفاظ پھل کی طرح ہوتے ہیں اگر درخت نہیں ہو گا تو پھل بھی نہیں ہو گا، ہمارے طالب علموں کے دماغ خالی ہیں، اگر ان کے ذہن میں کچھ نہیں ہو گا تو پھر یہ کیا بولیں گے، یہ کیا لکھیں گے لہٰذا یونیورسٹیاں اور شعبہ صحافت سب سے پہلے طالب علموں کی دماغی ٹینکیاں فل کرنے کا بندوبست کریں۔

    یہ ان کے ذہن کو درخت بنا دیں، پھل خود بخود آ جائے گا، آپ شعبہ صحافت کے سلیبس کو دو حصوں میں تقسیم کرد یں، ایک حصہ تکنیکی تعلیم پر مشتمل ہو اور دوسرا انٹلیکچول ایجوکیشن پر مبنی ہو۔ 100 کتابوں، 50 فلموں اور 25 مقامات کی فہرستیں بنائیں، یہ تینوں صحافت کے طالب علموں کے لیے لازمی قرار دے دی جائیں، کتابوں میں 50 کلاسیکل بکس، 25 دو سال کی بیسٹ سیلرز اور 25 تازہ ترین کتابیں شامل ہوں، یہ کتابیں اساتذہ اور طالب علم دونوں کے لیے لازم ہوں۔

    فلموں میں 25 آل دی ٹائم فیورٹ،15 دس سال کی اکیڈمی ایوارڈ یافتہ فلمیں اور باقی 10 اُس سال کی بہترین فلمیں ہوں جب کہ 25 مقامات میں قومی اسمبلی اور سینٹ، چاروں صوبوں کی صوبائی اسمبلیاں، گورنر ہاؤس اور وزراء اعلیٰ ہاؤسز، دنیا کے پانچ بڑے ملکوں کے سفارتخانے، آثار قدیمہ کے پانچ بڑے پاکستانی مراکز، جی ایچ کیو، آئی جی آفسز اور میڈیا ہاؤسز شامل ہونے چاہئیں، آپ ان کے ساتھ ساتھ نائین الیون سے لے کر ترکی کی تازہ ترین ناکام فوجی بغاوت تک دنیا کے دس بڑے ایشوز کو بھی سلیبس میں شامل کر دیں۔

    یہ ایشوز طالب علموں کو ازبر ہونے چاہئیں، آپ ملک کے بیس بڑے ایشوز کو دو طالب علموں میں تقسیم کر دیں مثلاً دو طالب علموں کو بجلی کا بحران دے دیا جائے، دو کے حوالے گیس کا ایشو کر دیا جائے اور باقی دو دو میں پٹرول، پانی، سیلاب، دہشت گردی، صنعت، بے روزگاری، صحت، تعلیم، ٹریفک، منشیات، انسانی اسمگلنگ، اغواء برائے تاوان، بھتہ خوری، پراپرٹی مافیا، ٹیکس اصلاحات، آبادی کا پھیلاؤ، بے ہنری، سیاحت، ماحولیاتی آلودگی، خوراک کی کمی اور بے راہ روی جیسے ایشوز تقسیم کر دیے جائیں۔

    یہ طالب علم پورا سال ان ایشوز پر ریسرچ کرتے رہیں، یہ ہر ماہ دوسرے طالب علموں کو ان ایشوز پر ایک ایک گھنٹے کی پریذنٹیشن بھی دیں یوں یہ طالب علم ان ایشوز کے ایکسپرٹس بن جائیں گے اور باقی طالب علم ان کی پریذنٹیشن دیکھ اور سن کر ان ایشوز سے واقفیت پا لیں گے اور آپ طالب علموں کے لیے اخبار، ٹیلی ویژن اور ریڈیو بھی لازمی قرار دے دیں، طالب علموں کے گروپ بنائیں، ہر گروپ روزانہ دو اخبار پڑھے، ٹی وی کا کوئی ایک شو مسلسل فالو کرے اور کوئی ایک ریڈیو روزانہ سنے۔

    یہ گروپ ان دونوں اخبارات، اس شو اور اس ریڈیو کا ایکسپرٹ ہونا چاہیے، ان سے متعلق تمام انفارمیشن ان کی فنگر ٹپس پر ہونی چاہیے، یہ گروپ انٹرن شپ بھی ان ہی اداروں میں کرے، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے یونیورسٹیوں کے پاس وسائل کہاں سے آئیں گے؟ یہ بھی بہت آسان ہے، آپ ڈیپارٹمنٹس کی کمپیوٹر لیبس فوراً بند کر دیں، ملک میں تھری جی اور فور جی آنے سے کمپیوٹر، لیپ ٹاپ اور ٹیبلٹس متروک ہو چکے ہیں، آپ اب کمپیوٹر لیبس پر بلاوجہ رقم خرچ کر رہے ہیں، ملک میں اب موبائل فون کمپیوٹر لیب ہیں، آپ ڈیپارٹمنٹس میں تگڑا وائی فائی لگائیں اور طالب علموں کو موبائل فون کے مثبت استعمال کی عادت ڈال دیں۔

    آپ ہر ماہ لاکھوں روپے بچا لیں گے، آپ طالب علموں کو بتائیں اخبار، ٹیلی ویژن، ریڈیو، کتابیں، فلمیں اور تحقیقی مواد یہ تمام چیزیں موبائل فون پر دستیاب ہیں، آپ یہ سہولتیں فون سے حاصل کرسکتے ہیں یوں یونیورسٹی کے پیسے بھی بچیں گے اور طالب علم پڑھ، سن، دیکھ اور سیکھ بھی لیں گے اور پیچھے رہ گئے صحافت کے طالب علم تو میرا مشورہ ہے آپ اگر صحافی بننا چاہتے ہیں تو آپ ان تمام تجاویز کو تین سے ضرب دیں اور آج سے کام شروع کر دیں، میں آپ کو کامیابی کی گارنٹی دیتا ہوں، آپ ہم سب سے آگے نکل جائیں گے۔