Tag: مسلم

  • اے وقت گواہ رہنا ہم ایسے نہ تھے – دُر صدف ایمان

    اے وقت گواہ رہنا ہم ایسے نہ تھے – دُر صدف ایمان

    میرا دل آج اور اس وقت ’’بو ل کہ لب آزاد نہیں‘‘ کی تفسیر بنتے ہوئے ایک ایسے موضوع پر لب آزاد کرنے کا ہے کہ جس کی طرف نظر کرو تو آنکھ بار شرم سے جھک جائے، سر بار ندامت سے خم ہو جائے، چشم فلک و ارض نم ہو جائے، ضمیر کی عدالت میں خود پر کوڑے پڑتے محسوس ہوں، شرم سے نظر چرائے اپنا اور اپنی قوم کی حالت کا محاسبہ کرتے اور موجود وقت سے گواہی لیتے سر ندامت سے جھکتا چلا جائے۔

    اور ہاں ہاں یہ سچ ہے اور کڑوا سچ ہے، تاریخ گواہ ہے کہ واقعی ہم ایسے نہ تھے. یہ وقت خود کہہ رہا ہے. کس کس بات کو بیان کروں میں آج اپنی گواہی کے لیے؟ کیا اس وقت کو جب عرب میں جہالت مٹ گئی تھی اور ایک قرآن اور ایک اللہ کو ماننے والے تھے، طالبان تھے نہ داعش، سیکولرازم و لبرل ازم کے چاہنے والے تھے نہ گستاخان رسول ﷺ، تھے تو صرف اور صرف عاشقان رسول ﷺ تھے۔ آج کی طرح ناموس رسالت کے دشمن نہ تھے، عاشقان رسول کے قاتل نہ تھے، یہ قتل و غارت یہ ناانصافیاں نہ تھیں۔

    یا پھر اس بات پر گواہی دوں کہ دورِ صدیق اکبر میں ایسی گری ہوئی سیاست تھی نہ ایسے گرے ہوئے سیاست دان تھے، وہ تو مزدور کی اجرت کے مساوی اپنی اجرت رکھتے تھے، یا شرمندہ خم کر کے اس بات سے گواہی بیان کروں کہ عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسا حاکم گلی گلی کوچے کوچے بنا سکیورٹی، بنا پروٹوکول کے پھر کر عوام کی خبر گیری کیا کرتا تھا۔ عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہ تھے جو اپنی دولت اپنا پیسہ رعایا پر خرچ کرتے تھے، اپنے اکاؤنٹ نہیں بھرتے تھے، اپنی پراپرٹی میں اضافہ نہ کرتے تھے، یا میں گواہی دوں اسی اسد اللہ کی جو نام محمد ﷺ پر حرف اٹھانے والے بڑے بڑے عہدے دار کا سر تن سے جدا کر دیتا تھا، پیاز اور ٹماٹر کی لالچ میں ناموسِ رسالت پر حرف نہ آنے دیتا تھا، خاموش نہ رہتا تھا. کیا کیا گواہی دے گایہ وقت؟ اے وقت! کیا کیا گواہی دے گا؟

    کیا اس وقت اس ایماندار بانی پاکستان قائداعظم کا حوالہ دوں اور انھیں یاد کر کے اشک بار چشم سے لرزیدہ لبوں سے یہ بیان کروں کہ جو بھری محفل میں بنا ڈرے بنا جھکے بڑے بڑے وزراء سے کھلے عام کہتا تھا کہ عوام کا پیسہ عوام کے لیے ہے، وزراء کی چائے پانی کے لیے نہیں ہے، بلاوجہ کے ظہرانے عشائیوں کے لیے نہیں ہے، یا میں اس شرمندہ وقت کو مزید شرمندہ کروں کہ یہ قوم اس وقت اظہار یکجہتی کے لیے سڑ کوں پر آ گئی تھی جب کشمیر میں ایک مسلمان عورت کو ظلم و بربریت کا نشانہ بنایا گیا، اس کی عزت کو اپنی بہن، بیٹی کی عزت سمجھ کے اس کا ساتھ دیا گیا تھا۔ آج تک کشمیر ڈے منایا جا رہا ہے لیکن افسوس اس وقت پر ہے جب ان مسلمانوں کے سامنے حافظ قرآن کو زندہ جلایا گیا، لیکن کوئی گھر سے باہر آیا نہ کسی نے آواز بلند کی، یا یہ وقت اس وقت کی گواہی دے جب مساجد سے قرآن ملتے تھے، نمازی ملتے تھے، اسلحہ و بارود نہ ملتا تھا یا یہ وقت اس وقت کی گواہی دے جب داڑھی والے کو دیکھ کر ادب سے اس کے سامنے سر جھکایا جاتا تھا، اسے احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا، آج کی طرح ڈر کر منہ نہ چھپایا جاتا تھا۔ آج کی طرح کسی دہشت گرد تنظیم کا کارکن سمجھ کر شک کی نگاہ سے نہ دیکھا جاتا تھا۔

    آج یہ وقت خود رو رہا ہے، ماتم کدہ ہے، اپنے آپ کو اس حالت میں دیکھ کر اس وقت کو یادکر کے جب طالب علم کے پاس علم، قلم، کاغذ، امنگ، لگن ملتی تھی، نہ ملتی تھی تو بس 9MM نہ ملتی تھی، نہ ملتا تھا تو کسی دہشت گرد تنظیم سے تعلق نہ ملتا تھا۔ ہاں یہ وقت اس بات پر بھی گواہ ہے جب کوئی ماں اپنے لخت جگر، ٹکڑا دل و جان کو علم کی روشنی حاصل کرنے کے لیے روانہ کرتی تھی تو وہ زندہ ہی لوٹ آتا تھا۔ اپنے دو قدموں پر ہی لوٹ آتا تھا۔ آج کی طرح ٹکڑوں میں بٹا ہوا چار کندھوں میں نہ آتا تھا۔ یہ وقت اپنا گھناؤنا چہرہ دیکھ کر دکھ سے سوگ منا رہا ہے، اس وقت کو یاد کر کے جب کوئی کمسن بچی سکھی سہیلیوں کے ساتھ کھیلنے جاتی تھی تو گھر ہستی مسکراتی لوٹ آتی تھی لیکن آج لوٹ کر نہیں آتی، ڈھونڈی جاتی ہے، تلاش کی جاتی ہے اور مل بھی جاتی ہے تو ہستی مسکراتی نہیں، مردہ وجود کے ساتھ کسی ندی نالے میں، کسی دریا و سمندر میں، کسی کی وحشت و ہوس کا نشانہ بن کر. یہ شرمندہ وقت اس بات پر بھی گواہ ہے جب بہن بیٹی کی عزت گھر کی چار دیواری میں محفوظ رہتی تھی، انٹر نیٹ، ہوٹلوں، کلبوں، گلیوں میں رلتی نہ پھرتی تھی، آزادی کے نام پر بیٹیاں رلتی نہیں تھیں، عزت کا آنچل اتار نہیں پھینکتی تھیں. ہاں یہ وقت گواہ ہے لوگو! یہ وقت گواہ ہے، تاریخ گواہ ہے، میں گواہ ہوں، اور شاید آپ بھی ایسے نہ تھے، نہ لوگ ایسے تھے نہ انسان ایسے تھے، سب سے بڑی بات مسلمان بھی ایسے نہ تھے۔ نہ پاک زمین ایسی تھی نہ پاکستان ایسا تھا، نہ سیاست ایسی تھی نہ حکمران ایسے تھے، نہ لہو اتنا سستا تھا نہ روٹی اتنی مہنگی تھی، نہ عزت یوں تارتار تھی، نہ آنچل یوں بکھرا بکھرا تھا، نہ حاکم اتنے گھٹیا تھے نہ حکومت اتنی خراب تھی، نہ وقت ایسا تھا، نہ وقت ایسا تھا۔

    آج یہ مسلمان مجسم سوال بنا کھڑا ہے اور جواب بھی موجود ہے لیکن اس جواب سے نظریں ملانے کا حوصلہ ہے نہ اس جواب کے لیے سماعت میں اتنی ہمت ہے کہ اس جواب کی تلخی اپنے کانوں میں اتارے، لیکن میں امید کروں گی، اللہ سے دعا کروں گی، یا اللہ! ہمیں امن و امان والا وطن عطا فرما دے، انسانیت والا انسان بنادے، خلفائے راشدین جیسے حاکم عطا فرمادے ، صحابہ کرام جیسا عبادت گزار بنادے۔ پھر میں دوبارہ سے کہہ سکوں گی، اے وقت گواہی دے ہم لوگ نہ تھے ایسے!۔

  • ذکر ایک مسلمِ غیور کا – احمد الیاس نعمانی

    ذکر ایک مسلمِ غیور کا – احمد الیاس نعمانی

    احمد الیاس نعمانی نام عبد الواحد تھا، حج کرلیا تھا اس لیے حاجی عبد الواحد کے نام سے مشہور تھے، ہمارے ہم وطن وہم محلہ تھے، نسلا ترک تھے اور مزاجا پٹھان؛ اب سے چند برس قبل جب انتقال ہوا تو عمر غالبا اسی کے لپیٹے میں رہی ہوگی؛ لیکن کیا مجال کہ بڑھاپا مزاج کی جوانی پر کچھ اثر انداز ہوسکے؛ موضوع گفتگو ہر وقت مسلمانوں کی فوقیت اور بہادری نیز غیر مسلموں کی تحقیر اوربزدلی رہتا؛ اور جس مجلس میں ہوتے اسے قہقہہ زار بنائے رکھتے؛ ہم وطن جاتے تو خواہش ہوتی کہ ایک نشست ان کے ساتھ ضرور ہوجائے؛ اور عام طور پر قسمت یاوری کرتی اور وہ کہیں نہ کہیں مل ہی جاتے؛ اور جب مل جاتے تو بس وہ ملاقات حاصل سفر بن جاتی؛ ان کے کچھ ملفوظات حاضر خدمت ہیں:

    چین کے ساتھ ہندوستان کی جنگ کا ذکر چل رہا تھا؛ اسی اثنا میں فرمایا: امریکہ نے ہندوستان کو مشورے دینے کے لیے اپنا ایک تجربہ کار فوجی جنرل بھیجا؛ جس نے ہند چین سرحد کا فضائی جائزہ لیا؛ وہ سرحد کے قریب کا ہندوستانی علاقہ دیکھ کر حیرت میں پڑگیا؛ اس نے دیکھا کہ سارے کھیتوں میں بم ہی بم پھیلے ہوئے ہیں۔
    اتنے بم تو ہمارے پاس بھی نہیں ہیں؛ اس نے ایک ہندوستانی افسر سے کہا۔
    سر! یہ بم نہیں، کاشی پھل (کدو) ہیں۔
    کاشی پھل؟….وہ کس لیے؟
    سر! فوج کے کھانے کے لیے۔
    فوج کو کاشی پھل کھلاؤگے؟ پھر وہ خاک لڑے گی؛ ارے بڑے کے نلے کھلاؤ نلے؛ تبھی تو کچھ لڑ سکے گی۔

    پھر وہ افسر نیچے اترا؛ اس نے ہندوستان کی صفوں کا جائزہ لیا؛ اگلی صف والے کا نام پوچھا؛ بتایا گیا عبد الشکور؛ سب سے پچھلی صف میں ایک فوجی کا نام پوچھا؛ تو معلوم ہوا کہ اس کا نام رام پرشاد ہے؛ فورا بولا اِسے آگے کرو اور اُسے پیچھے؛ ورنہ جب جنگ ہوگی تو عبد الشکور جام شہادت نوش کرلے گا اور یہ پیچھے سے بھاگ جائے گا۔

    بل کلنٹن کے زمانہ میں افغانستان پر حملہ ہوا تو ان دنوں وہ شمشیر بے نیام تھے؛ کسی شوخ نو عمر نے عرض کیا چچا: آج کے اخبار میں ہے کہ آج کلنٹن اور بن لادن کی کشتی ہوگی؛ بولے: اچھا صاحبزادے! اپنا والاشیر ہے شیر؛ چیر کے کھا جائے گا۔

    سوویت یونین کے خلاف افغان جہاد کا تذکرہ بہت کرتے؛ اور ہمیشہ یہ بات ضرور سناتے کہ روسی جہاز جب بم برساتے تو افغانی انہیں لُپک لیتے (لُپکنا بمعنی کیچ کرنا)؛ اور انہیں واپس روس پھینک دیتے؛ بس وہاں تباہی مچ جاتی۔

    اپنی نسل کے اکثر ”باحمیت“ ہندوستانی مسلمانوں کی طرح وہ بھی پاکستان سے بڑی والہانہ محبت کرتے تھے؛ ہندوستان اور پاکستان کا کرکٹ میچ ان کے لیے کسی معرکہء حق وباطل سے کم نہ ہوتا تھا؛ کسی نے ان کے سامنے پاکستان کے مشہور بلے باز جاوید میاں داد کی برائی کردی؛ سنتے ہی اکھڑ گئے؛ اور بولے میاں! ہاتھ پاؤں باندھ کر بھی ڈال دو گے تو بھی ہندوستان کے خلاف تو ففٹی بناکر ہی آئے گا۔

  • مسلمان کو کافر کہنا کیوں حرام ہے؟ اصول تکفیر کیا ہیں؟ ڈاکٹر عمیر محمود صدیقی

    مسلمان کو کافر کہنا کیوں حرام ہے؟ اصول تکفیر کیا ہیں؟ ڈاکٹر عمیر محمود صدیقی

    عمیر محمود صدیقی عصر حاضر فتن، دجل، غفلت، ذہنی ارتداد اور ذہنی تخریب کاری کا دور ہے۔ ان فتنوں میں ایک بہت بڑا فتنہ، فتنہ تکفیر ہے۔ دشمنان اسلام مسلمانوں کے درمیان پھوٹنے والے تمام فروعی اور اصولی اختلافات کے تفصیلی مطالعہ کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مسلمانوں کی قوت کو باہم ٹکراؤ کے ذریعہ ختم کرنے کا طریقہ ان کے درمیان فرقہ وارانہ اختلافات کو بڑھا کر تکفیری سوچ اور فکر کو ہوا دینا ہے کیونکہ کسی مسلمان کی تکفیر کے بعد اسے مرتد قرار دے کر واجب القتل قرار دے دینا ہی وہ عمل ہے جس کے ذریعے مسلمان انتہائی اخلاص اور مذہبی جوش و جذبے کے ساتھ ایک دوسرے کو انفرادی ،قومی اور بین الاقوامی سطح پر ختم کرنے پر آمادہ ہو جائیں گے ۔جہاں امت مسلمہ کو مختلف مسائل کا سامنا ہے ان میں سب سے مہلک اور خطرناک دو غیر متعدل رویے ہیں :
    ۱۔مسلمانوں کی تکفیر کرنا۔
    ۲۔کافروں کو مسلمان کہتے ہوئے کفر و اسلام کے فرق کو مٹا دینا۔

    اول الذکر گروہ کی جڑی خوارج سے ملتی ہیں جنہوں نے تا ریخ اسلام میں سب سے پہلے امیر المؤمنین حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اور دیگر اصحاب رسول ﷺ کی تکفیر کی اور ان کے قتل کو جائز سمجھا۔ ان کے نزدیک گناہ کبیرہ کا مرتکب دائرہ اسلام سے خارج قرار پا تا ہے۔ مرتد قرار دینے کے ساتھ قتل کرنے کا جواز اس قدر سنگین عمل ہے کہ اس کے ساتھ ’’شرعی اجازت اور مذہبی ذمہ داری‘‘ کا عنصر جب شامل ہوجائے تو مذاکرات کے تمام دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ جبکہ دوسرا جدت پسند گروہ کفر و اسلام کے فرق کو مٹاتے ہوئے یہود و نصاریٰ کو بھی باوجود رسالت مآب ﷺ کی نبوت کے انکار کے جنت میں داخل کرنے پر مصر ہے۔ یہ دونوں غیر معتدل رویے مسلمانوں کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔ عمومی طور پر خوارج کی فکر کو مذہبی حلقوں میں عام کیا جاتا ہے تا کہ ان کے مذہبی جذبات کو مسلمانوں کے ہی قتل عام کے جواز کا سبب بنایا جا ئے اور دوسری طرف غیرمذہبی طبقو ں میں اسلام سے متعلق نفرت اور خدا بیزاری پیدا کی جاتی ہے۔گو یا کہ مسلمان دو متشدد گروہوں کے فکری انتشار کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ پہلا طبقہ ان مذہبی متشدد گروہوں کا ہے جو قرآن و سنت کے علم سے نا واقفیت کی بنیاد پر دین کی ایسی تعبیر و تشریح کرتے ہیں جس کی وجہ سے دین پر عمل دور جدید میں نا ممکن ہو جاتا ہے۔دوسرا طبقہ ان لبرل فاشسٹ کا ہے جو اسلام کے خلاف غیر ملکی ایجنڈے کے تحت یا اپنی بد طینت طبیعت کی وجہ سے اپنی زبان اور قلم کا زور صرف کرتے ہیں اور میڈیا کے ذریعے بےحیائی اورا ٓوارگی کو عام کرتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں دونوں اطراف سے اٹھایا جانے والا ہر قدم ایک دوسرے کے خلاف نفرت کی خلیج کو مزید بڑھا دیتا ہے۔ خوارج نے حضرت علی، حضرت عثمان، حضرت طلحہ، حضرت زبیر، حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہم کی نعوذباللہ تکفیر کی اور ہر اس شخص کو کافر کہا جس نے گناہ کبیرہ کا ارتکاب کیا ہو۔ امام عبد القاہر نے ’اصول الدین‘ میں ان کے ایک فرقے ازارقہ کا بھی ذکر کیا ہے جو یہ گمان کرتے تھے کہ ان کے مخالفین مشرکین ہیں۔ آپ فرماتے ہیں:
    [pullquote]قالوا بتکفیر علی و عثمان و طلحہ و الزبیر و عائشۃ و اصحاب الجمل و بتکفیر معاویۃ و الحکمین رضی اللہ عنہم و تکفیر اصحاب الذنوب من ھذہ الامۃ ۔۔۔ حتیٰ ظھرت الازارقۃ منھم فزعموا ان مخالفیھم مشرکون ۔۔۔موافقھم و استحلوا قتل النساء و الاطفال من مخالفیھم و زعموا انھم مخلدون فی النار و اکفروا القعدۃ منھم عن الھجرۃ الیھم(۱)[/pullquote]

    شہرستانی نے خوارج کے چھ بڑے فرقوں کا ذکر کیا ہے :
    ۱۔ازارقہ، ۲۔نجدات، ۳۔صفریہ، ۴۔عجاردہ، ۵۔اباضیہ، ۶۔ثعالبہ
    یہ تمام فرقے حضرت علی اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم سے برات پر (نعوذ باللہ) متفق تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ امام وقت اگر سنت کی مخالفت کرے تو اس کے خلاف جنگ کرنا واجب ہے۔ حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی نہروان کے مقام پر خوارج سے سخت جنگ ہوئی۔ خوارج میں سے جو افراد بچ گئے انہوں نے عمان، کرمان، سجستان اور یمن میں پناہ لی۔ بعد میں ان مقامات سے خوارج کے مختلف گروہوں کا خروج ہوا اور یہ سلسلہ یونہی جاری رہا۔ شہرستانی نے ازارقہ کی بدعتوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ ابو راشد، نافع بن ازرق کے ساتھیوں کا گروہ تھا جنہوں نے بصرہ سے حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے دور میں خروج کیا تھا۔یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نعوذ باللہ تکفیر کیا کرتے تھے اور آپ کے قاتل عبد اللہ بن ملجم لعنۃ اللہ علیہ کی تصویب کرتے ہوئے کہتے تھے کہ آیت مبارکہ [pullquote]’’و من الناس من یشری نفسہ ابتغاء مرضات اللہ‘‘[/pullquote]

    ابن ملجم کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ عمران بن حطان نے ابن ملجم کی شان میں ایک قصیدہ بھی لکھا ہے جوخود خوارج کا مفتی تھا اور ان میں زہد و ور ع اور شاعری کی وجہ سے مشہور تھا۔ ان کے نزدیک مسلمانوں کے دیار، دیار کفر تھے اور ان میں بیٹھے رہنا اور ان کافروں کے خلاف قتال نہ کرنا کفر تھا۔ اسی طرح جو مسلمان اپنے کے علاقے سے ان کی طرف ہجرت نہیں کرتا وہ بھی کافروں میں شمار کر لیا جاتا۔ ان کے نزدیک مخالفین کے بچوں اور عورتوں کو قتل کرنا جائز تھا ۔(۲)

    نبی کریم ﷺ نے اس فکری یلغار کو اس طرح بیان فرمایا کہ اس امت میں ہر دور میں اصحاب عدل وارثین علم قرار پائیں گے۔ وہ انتحال المبطلین، تحریف الغالین اور تاویل الجاھلین یعنی باطل پرستوں کے حملوں، متشدد گروہوں کی تحریف اور جاہلوں کی تاویلات کی نفی کریں گے۔ تاریخ کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ علمائے امت نے ہر دور میں خوارج ہوں یا مرجئہ، معتزلہ ہوں یا باطنیہ ایسے رویوں کی تردید کی ہے۔

    دور حاضر میں مسئلہ تکفیر کے حوالے سے لوگ افراط و تفریط میں مبتلا ہیں. ہر مناظرے، مباحثے، مکالمے اور اختلاف رائے کا اختتام تکفیر پر ہوتا ہے۔ اس کی واضح مثال حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمہ اللہ اور علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کو کافر وگمراہ قرار دیے جانے کی صورت میں دیکھی جاسکتی ہے۔ اہل علم کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے گروہوں کی مذمت کریں۔ مسلمان مختلف فرقوں میں بٹ چکے ہیں اور بٹتے چلے جا رہے ہیں اور ہر فرقے کا یہ دعوی ہے کہ وہی [pullquote]ما انا علیہ و اصحابی[/pullquote]

    پر قائم ہے۔ ہر گروہ نے اپنی اپنی رسی کو الگ تھاما ہوا ہے اور یہ زور اس قدر زیادہ ہے کہ اس خول سے جو شخص باہر نکلنا چاہے تو اسے دائرہ اسلام سے خارج تصور کیا جاتا ہے۔بعض حضرات اس مشغلہ تکفیر میں اس قدر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ وہ اپنے فتویٰ کے مطابق کافر و مشرک ہونے والے کو مرتد قرار دے کر قتل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے بلکہ بعض اوقات اس کا دائرہ اتنا وسیع ہو جاتا ہے کہ ریاست کے تمام ادارے اور افراد کافر قرار دے دیے جاتے ہیں۔ اپنے اختراع کردہ اصولوں کی بنیاد پرزور و شور سے اپنے لوگوں کو دائرہ اسلام سے نکالنے کی مہم جاری ہے جس کے نتیجے میں شاید آج کوئی بھی ایسا نہ ہو جو ان کی زد سے باہر ہو۔ مختار مسعود آواز ِدوست میں کہتے ہیں:
    ’’قدرت کا نظام اصولوں کے تابع ہے۔ بڑے آدمیوں کی پیدائش کے بھی تو کچھ اصول ہوں گے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بڑے آدمی انعام کے طور پر دیے جاتے ہیں اور سزا کے طور پر روک لیے جاتے ہیں۔‘‘
    ہم شاید اسی سزا میں مبتلا ہیں۔ غالباًاس سزا کی بڑی وجہ ان کا باہم ایک دوسرے کی رائے کو تحمل و تامل سے نہ سننا اور اپنی بات کو ’’سپر قطعی‘‘سمجھتے ہوئے ایک دوسرے کی ’’متعدی تکفیر‘‘ کا بازار گرم کیے رکھنا ہے۔ کسی کی رائے سے ادب کے ساتھ اختلاف کرنا اہل علم کا حق اور حق کو قبول کرنا ادب حق ہے، تاہم علمی مسائل میں ایک دوسرے کی تکفیر کرنا کسی طور پر درست نہیں۔ علماء کو چاہیے کہ تکفیرمسلم کے بجائے تکثیر مسلم پر زور دیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی تحریر و تقریر سے اکثریت اقلیت میں تبدیل ہو جائے۔ بقول ابن انشاء ، ’’ایک دائرۂ اسلام کا دائرہ کہلاتا ہے۔ پہلے اس میں لوگوں کو داخل کیا کرتے تھے۔ آج کل داخلہ منع ہے، صرف خارج کرتے ہیں‘‘۔ قرآن حکیم کے مطابق اللہ رب العزت نے ہمارا نام ’’مسلمین‘‘ رکھا ہے لیکن محض مسلم ہونے پر اکتفا کرنا کسی کو برداشت نہیں۔ رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد کے مطابق قرب قیامت میں ایک ایسا وقت آئے گا کہ لا یبقی من الاسلام الا اسمہا یعنی اسلام کا صرف نام باقی رہ جائے گا۔ ہم یہی مشاہدہ عصر حاضرمیں کرتے ہیں کہ مختلف گروہوں کے ناموں کی ابتدا یا انتہا میں اسلام کا لفظ شامل ہوتا ہے لیکن ان کی دعوت کا محور یا مرکز اسلام نہیں بلکہ خاص نظریات، رسومات یا شخصیات کی تشہیر ہوتا ہے۔ قرآن حکیم میں اﷲ تعالیٰ نے اہل ایمان کو دعوت دی ہے کہ وہ شرک کے مقابلے میں اہل کتاب کو لا ا لہ الا اللّٰہ کی طرف دعوت دیں اور اس کلمہ پر ان کے ساتھ اتفاق کریں جو ان میں اور ہم میں برابر ہے۔ اس وقت اہل اسلام کو چاہیے کہ جب کفر اسلام کے مقابلے میں ایک ملت ہے اور مسلمانوں کی جغرافیائی اور نظریاتی حدود پر حملے ہورہے ہیں تو وہ حرم کی پاسبانی اور اپنی بقا کے لیے اپنی اپنی رسیوں کو چھوڑ کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامتے ہوئے لا الہ الااللہ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم پر جمع ہو جائیں۔

    اللہ رب العزت کے نزدیک مقبول دین صرف اسلام ہے۔ جس شخص کو اللہ تعالیٰ ایمان و اسلام کی دولت عطا فرمائی یقینا وہ دنیا و آخرت میں کامیاب ہے۔ جہاں مسلمانوں پر دین متین کا علم حاصل کرنا فرض ہے وہاں اتنے مسائل جاننا بھی ان کے لیے ضروری ہیں جن کے جاننے کی وجہ سے وہ اپنے دین کی حفاظت کر سکیں۔ اسی لیے علامہ شامی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:
    [pullquote]و فی تبیین المحارم :لا شک فی فرضیۃ علم الفرائض الخمس و علم الاخلاص لأن صحۃ العمل موقوفۃ علیہ ،و علم الحلال و الحرام و علم الریاء ،لأن العابد محروم من ثواب عملہ بالریاء ،و علم الحسد و العجب اذ ھما یأکلان العمل کما تأکل النار الحطب ۔و علم البیع و الشراء و النکاح و الطلاق لمن أراد الدخول في ھذہ الأشیاء ،و علم ا لالفاظ المحرمۃ أو المکفرۃ ،لعمری ھذا من أھم المھمات في ھذا الزمان ،لأنک تسمع کثیرا من العوام یتکلمون بما یکفر و ھم عنھا غافلون،و الاحتیاط أن یجدد الجاھل ایمانہ کل یوم ،و یجدد نکاح امرأتہ عند شاھدین فی کل شھر مرۃ أو مرتین(۳)[/pullquote]

    ’’فرائض خمسہ اور اخلاص کے علم کی فرضیت میں کوئی شک نہیں ہے۔ کیونکہ عمل کی صحت اس پر موقوف ہے۔اسی طرح حلال و حرام اور ریا کا علم حاصل کرنا بھی فرض ہے کیونکہ عابد ریا کی وجہ سے عمل کے ثواب سے محروم ہو جاتا ہے۔ اور حسد و عجب کا علم حاصل کرنا بھی فرض ہے کیونکہ یہ دونوں عمل کو کھا جاتے ہیں جیسے آگ سوکھی لکڑی کو کھا جاتی ہے۔اور جو شخص خریدوفرخت،نکاح و طلاق کے معاملات میں داخل ہو نا چا ہتا ہے تو اس پر ان کا علم بھی فرض ہو جاتا ہے۔ اور ان الفاظ کا علم جو حرام ہیں یا کفر کو واجب کرتے ہیں ان کا علم حاصل کرنا بھی ضروری ہے۔ میری عمر کی قسم! اس زمانہ میں ان کا علم حاصل کرنا انتہائی ضروری ہے کیونکہ آپ عوام الناس میں سے بہت سے لوگوں کو وہ کلام کرتے ہوئے سنیں گے جس سے وہ کافر ہوجاتے ہیں اور اس سے غافل ہوتے ہیں۔ احتیاط اس میں ہے کہ جاہل اپنے ایمان کی تجدید روزانہ، اور اپنی بیوی سے اپنے نکاح کی تجدید دو گواہوں کی موجودگی میں ہر مہینہ ایک بار یا دو بارکر لیا کرے ۔ ‘‘

    معاشرہ میں بے شمارافراد ایسے ہیں جو ان مسائل سے یکسر غافل و جاہل ہیں جن کی وجہ سے مسلمان دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ اہل اسلام کی توجہ ان مسائل کی طرف مبذول کرانے کے لیے ہر دور میں علماء عظام نے کئی ایک کتب و رسائل تصنیف فرمائے ہیں تاکہ خواص و عوام ان سے استفادہ کرتے ہوئے خود کو ان عقائد، افکار اور اعمال سے محفوظ رکھ سکیں جو ایمان پر منفی طور پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ ان کتب کے ذریعہ سے عوام و خواص کو کفر سے بچانے کی کوشش کرتے اپنے مناظروں، تحریروں اور مکالموں کے ذریعہ سے تکثیر اہل اسلام کے بجائے تکفیر اہل اسلام پر زیادہ زور صرف کیا۔ جس کے نتیجہ میں شاید ہی ہمارے دور میں کوئی ایسی نامورعلمی شخصیت ہو جواپنے مسلمان بھائی کے فتویٰ تکفیر کی زد سے محفوظ ہو۔ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں امام ابو اللیث سمرقندی فرماتے ہیں:
    [pullquote]رأی ابو حنیفۃ ابنہ یتکلم فی الکلام فنھاہ فقال :انت تتکلم فیہ فقال :نحن نتکلم کأن الطیر علی رء وسنا و انتم تتکلمون و یرید کل واحد منکم کفر صاحبہ و من اراد کفر صاحبہ فقد کفر ھو (۴)[/pullquote]

    ’’امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ نے اپنے بیٹے کو مناظرہ کرتے دیکھا تو ان کو منع کر دیا۔ آپ کے صاحبزادے نے کہا کہ آپ خود تو یہ کام کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ ہم بات اس طرح کرتے ہیں کہ گو یا ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں۔ تم مناظرہ کرتے ہو تو تم میں سے ہر ایک اپنے ساتھی کا کفر چاہتا ہے۔ جو اپنے ساتھی کے لیے کفر کا ارادہ کرے وہ خود کافر ہو جاتا ہے۔ ‘‘

    امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمۃ کی یہ نصیحت علماء کے لیے مشعل راہ ہے۔ انہیں چاہئے کہ اس کو لازم پکڑ لیں۔ ہمارے زمانہ میںبھی مناظرانہ گفتگو اور تحریر میں اسی روش کو اختیار کیا جاتا ہے کہ کسی طرح سے اپنے مقابل کو دائرہ اسلام سے خارج کر دیا جائے۔ اہل علم حضرات کو چاہیے کہ اس سے سختی کے ساتھ اجتناب کریں اور اکابرین امت کے عمل کو اختیار کریں۔ عوام و خواص میں سے اکثر لوگ مشغلہ تکفیر میں اس قدر آگے نکل جاتے ہیں کہ انہیں اپنے متعلقین یا اپنی ذات کے سوا کوئی مسلمان نظر نہیں آتا۔ جبکہ بعض لوگ اس قدر جہالت میں ڈوب جاتے ہیں کہ انہیں کوئی کافر معلوم نہیں ہوتا۔ وہ اپنی تمام کاوشیں اسلام کا دائرہ اتنا وسیع کرنے میں صرف کرتے ہیں کہ کوئی بھی شخص خواہ یہودی ہو یا نصرانی اس دائرہ سے باہر نہ جاسکے۔ یہ غیر معتدل رویہ کسی طور پر بھی درست نہیں۔

    کتب فتاویٰ اور اصول میں علمائے عظام نے کئی ایک اصول فتاویٰ نویسی کے درج فرمائے ہیں۔ ذیل میں ہم صرف ان چند باتوں کو بیان کر رہے ہیں جن کا فتویٰ تکفیر میں اہتمام کرناضروری ہے۔

    ۱۔ مسئلہ اکفار میں صرف ائمہ مجتہدین کا اعتبار کیا جائے گا۔ اس باب میں ہر وہ بات جو ائمہ مجتہدین کے خلاف ہو، اگرچہ وہ متکلمین ومحدثین کی طرف ہی کیوں نہ منسوب ہو، اس کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔
    حجۃ الاسلام حضرت امام غزالی علیہ الرحمۃ نے اپنی کتاب ’’الاقتصاد فی الاعتقاد‘‘میں اہل علم کو اعتقاد میں اقتصاد یعنی اعتدال اختیار کرنے کی نصیحت فرماتے ہوئے آخری باب میں اصول اکفار پر گران قدر بحث کی ہے۔ آپ فرماتے ہیں:
    [pullquote]اعلم للفرق فی ھذا مبالغات و تعصبات فربما انتھی بعض الطوائف الی تکفیر کل فرقۃ سوی الفرقۃ التی یعتزی الیھا فاذا اردت ان تعرف سبیل الحق فیہ فاعلم قبل کل شیٔ ان ھذہ مسالٔۃ فقھیۃ اعنی الحکم بتکفیر من قال قولا اور تعاطی فعلا(۵)[/pullquote]

    مسئلہ تکفیر میں بعض فرقوں نے مبالغہ آرائی اور تعصبات سے کام لیا ہے بعض گروہ اپنے فرقے کے سوا تمام فرقوں کی تکفیر کرتے ہیں۔ اگر آپ اس بارے میں شاہراہ حق کو پہچاننا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ مسئلہ فقہی ہے یعنی کسی شخص کی کسی قوم یا فعل کی وجہ سے تکفیرکا حکم دینا۔

    ۲۔ جس امر کے کفر ہونے میں مجتہدین کا اختلاف ہو اس میں تکفیر نہیں کی جائے گی۔ البتہ احتیاطا توبہ اور تجدید ایمان ضروری ہے۔ موجب کفر صرف وہی امر ہو سکتا ہے جس کے موجب کفر ہونے پر اجماع ہو۔ علامہ حصکفی فرماتے ہیں:
    [pullquote]و ألفاظہ تعرف فی الفتاویٰ بل افردت بالتالیف مع انہ لا یفتی بالکفر بشیٔ منھا الا فیما اتفق المشایخ علیہ ۔۔۔۔قال فی البحر و قد الزمت نفسی ان لا افتی بشیٔ منھا(۶)[/pullquote]

    کفر کے الفاظ کتب فتاویٰ میں معلوم ہیں بلکہ میں نے بھی اس مسئلہ میں ایک علیحدہ کتاب تالیف کی ہے لیکن میں ان میں سے کسی لفظ سے بھی کفر کا فتویٰ دینا صحیح نہیں سمجھتا۔ ہاں اس صورت میں جس میں تمام مشائخ کا اتفاق ہو۔ شیخ ابن نجیم نے البحرا لرائق میں بھی کہا ہے کہ میں نے اپنے نفس پر یہ التزام کیا ہے کہ کسی مسلمان کو ان الفاظ سے کافر نہ کہوں گا۔

    ۳۔ کسی بات کو کفر قرار دینا مجتہدین کا کام ہے۔ اگر مفتی مجتہد نہ ہو اور ناقلین کے زمرے میں شمار ہوتا ہو تو اسے چاہیے کہ مجتہدین کے اقوال کی روشنی میں ہی فتوی جاری کرے۔ غیر مجتہد کا اس باب میں کوئی اعتبار نہیں۔ علامہ شامی اپنے دور کے مفتیان کرام کے بارے میں فرماتے فرماتے ہیں۔
    [pullquote]و المراد بالمفتی الذی یتخیر بین الاقوال ھو المجتھد الذی لہ قوۃ نظر و استنباط و اما اھل زمانناو اشیاخھم و اشیاخ اشیاخھم فلا یسمون مفتین بل ناقلون حاکون۔(۷)[/pullquote]

    اوروہ مفتی جس کو ان حضرات کے اقوال میں اختیار دیا گیا ہے، اس سے مراد وہ مجتہد ہے جس کے پاس قوت نظر اور مسائل کو استنباط کرنے کا ملکہ ہو۔ جہاں تک ہمارے زمانے کے علماء اور ان کے اساتذہ اور ان کے اساتذ ہ کے اساتذہ کا تعلق ہے تو وہ مفتی نہیں کہلاتے بلکہ وہ تو (مفتیوں کے کلام کو) نقل کرنے والے اور حکایت کرنے والے ہیں۔

    ۴۔ اگر کسی فرد معین کے بارے میں کوئی عالم کفر کا فتوی جاری کرے اور اس فرد کے کفرمیں علماء کا اختلاف ہو تو اس فتویٰ تکفیر پر ایمان لانے کا کسی دوسرے کو مکلف نہیں بنایا جا سکتا۔ اگر تمام علماء اس کے کفر پر متفق ہوں تو ان کے راستہ کو چھوڑنا دنیا اور آخرت میں بربادی کا سبب ہے۔ جیسے مرزا قادیانی کا کافر ہونا۔

    ۵۔ اگر کسی مسئلہ میں تاویل ممکن ہو تو کسی بھی طرح اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔فتاویٰ تاتارخانیہ میں ہے:
    [pullquote]فی الیتیمیۃ: الاصل ان لا یکفر احد بلفظ محتمل لأن الکفر نھایۃ فی العقوبۃ فیستدعی نھایۃ فی الجنایۃ و مع الاحتمال لا نھایۃ (۸)[/pullquote]

    اصول یہ ہے کہ کسی شخص کی بھی ایسے لفظ کی بنیاد پر تکفیر نہیں کی جائے گی جو اپنے اندر احتمال رکھتا ہو۔ کیونکہ کفر کی سزا انتہائی درجہ کی ہے جس کا تقاضا یہ ہے کہ ایسی عقوبت انتہائی جرم پر ہو اور جب تک احتمال موجود ہو انتہائی جرم نہ ہوگا۔
    حضرت شیخ ابن نجیم فرماتے ہیں:
    [pullquote]و الذی تحرر انہ لا یفتی بتکفیر مسلم امکن حمل کلامہ علی محمل حسن أو کان فی کفرہ اختلاف و لو روایۃ ضعیفۃ علی ھذا فاکثر الفاظ التکفیر المذکورۃ لا یفتی بالتکفیر بھا و لقد الزمت نفسی ان لا افتی بشیٔ منھا۔(۹)[/pullquote]

    مسلمان کے کلام کو جب تک اچھے محمل پر محمول کرنا ممکن ہو یا اس کے کفر میں اختلاف ہو، اگر چہ وہ اختلاف ضعیف روایت سے ہی کیوں نہ ہو اس کی تکفیر کا فتویٰ نہیں دیا جائے گا۔ یہاں جوالفاظ کفر ذکر کئے گئے ہیں ان میں سے اکثر کی بنیاد پر تکفیر نہیں کی جائے گی۔میں نے اس بات کا اپنے نفس پر التزام کیا ہے کہ ان الفاظ کی بنیاد پر فتویٰ نہ دوں۔
    حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
    [pullquote]ان النظر فی التکفیر یتعلق بامور: احدھا:ان النص الشرعی الذی عدل بہ عن ظاھرہ ھل یحتمل التأویل أم لا؟فان احتمل فھل ھو قریب ام بعید؟ ومعرفۃ ما یقبل التأویل و ما لا یقبل لیس بالھین بل لا یستقل بہ الا الماھر الحاذق فی علم اللغۃ العارف باصولھا ثم بعادۃ العرب فی الاستعما ل فی استعاراتھا و تجوزاتھا و منھاجھا فی ضروب الامثال(۱۰)[/pullquote]

    تکفیر میں غور و فکر بعض امور سے متعلق ہے: ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب کسی نص شرعی کے ظاہر سے عدول کیا جائے تو دیکھا جائے گا کہ وہ تاویل کا احتمال رکھتی ہے یا نہیں؟ اگر تاویل کا احتمال رکھتی ہے تو یہ دیکھا جائے کہ وہ تاویل قریب ہے یا بعید؟ اس بات کی معرفت رکھنا کہ کیا تاویل کو قبول کرتا ہے اور کیا تاویل کو قبول نہیں کرتا، آسان نہیں ہے۔ اس کو وہی شخص جانتا ہے جو علم لغت میں انتہائی ماہر ہو اور اس کے اصول جانتا ہوں۔ پھر اسے عرب کی استعارات اور تجوزات میں لغت کے استعمال کی عادت کا معلوم ہونا اور ضرب الامثال میں ان کے استعمال کا طریقہ معلوم ہونا ضرور ی ہے۔

    اب ہم بعض مثالیں پیش کریں گے جن سے درج بالا بات کی مزیدوضاحت ہو جائے گی۔
    [pullquote]٭و سئل بعضھم عن قولہ لامرأتہ :أنت عندي کاللہ عز اسمہ ؟فقال:ھذا کلام محتمل ،یجوز أن ینوی بہ انی مطیع لک کطاعتی للہ عز اسمہ و یرید المبالغۃ فی طاعتہ لھا فلا یکفر و ان عنی انھا تستحق العبادۃ کفر(۱۱)[/pullquote]

    علماء میں سے کسی سے سوال کیا گیا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی سے کہا: تو میرے نزدیک اللہ کی طرح ہے۔ اس کا حکم کیا ہوگا؟ انہوں نے جواب میں فرمایا: یہ کلام محتمل ہے۔ یہ ممکن ہے کہ اس کی نیت یہ ہو کہ میں تمہارا اسی طرح فرمانبردار ہوں جیسے میں اللہ کی اطاعت کرتا ہوں۔ یعنی وہ اس کی اطاعت کرنے کے اظہار میں مبالغہ کرتا ہے۔ پس وہ کافر نہ ہوگا۔ اگر اس کی مراد یہ ہو کہ وہ عبادت کی مستحق ہے تو کافر ہو جائے گا۔
    [pullquote]٭لو قال لہ:امھل فقال:لا اقبل شفاعۃ النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم فی المھلۃ فکیف اقبلھا منک؟فقال:لیس فی ذلک استخفاف بالنبی ﷺ لانہ لا یجب علیہ ان یمھل و لا ان یترک حقہ و لو شفع فی الامھال(۱۲)[/pullquote]

    اگر کسی سے کہا گیا کہ مہلت دو۔ اس نے کہا کہ میں مہلت دینے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شفاعت کو قبول نہ کروں گا تو تمہاری کیسے کر لوں؟ حضرت علی بن احمد نے کہا: اس سے وہ کافر نہیں ہوگا۔ اس میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا استخفاف نہیں ہے کیونکہ اس پر واجب نہیں ہے کہ وہ مہلت دے یا اپنا حق ترک کرے، اگر چہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سفارش فرمائیں۔
    [pullquote]٭و فی الجامع الاصغر :اذا وقع بین الرجل و بین صھرہ خلاف فقال :ان کان صھری رسول اللہ( صلی اللہ علیہ والہ والہ وسلم)لم اتمر بامرہ لا یکفر(۱۳)[/pullquote]

    جب کسی آدمی اور داماد کے درمیان اختلاف ہو جائے اور وہ شخص کہے کہ اگر میری بیٹی کے شوہر رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم بھی ہوتے تو ان کی بات کو نہ مانتا۔ وہ کہنے والا کافر نہیں ہو گا۔
    [pullquote]٭و فی الذخیرۃ و فی المنتقی :ابراھیم عن محمد عن ابی یوسف انہ قال:الصلاۃ رکوعھا و سجودھا فریضۃ من اللہ۔ فمن قال لیست بفریضۃ فقد أخطأ و لم یکفر،لأنہ تأول و أراد بھذا التاویل ان الصلاۃ قد تجوز بدون الرکوع و السجود بان عجز عنھما فقد أشار ان مثل ھذا التاویل یمنع التکفیرو ان لم یکن معتبرا من کل وجہ(۱۴)[/pullquote]

    نماز کا رکوع اور سجود اللہ کی طرف سے فرض ہے۔ اگر کسی نے کہا کہ یہ فرض نہیں ہے تو اس نے خطا کی وہ کافر نہ ہوگا کیونکہ اس نے یہ تاویل کی ہے کہ نماز کبھی بغیر رکوع اور سجود کے بھی ہوسکتی ہے۔ جیسے وہ ان کی ادائیگی سے عاجز ہو۔ اس طرف انہوں نے اشارہ کیا ہے کہ اس طرح کی تاویل تکفیر کو منع کرتی ہے، اگر چہ وہ ہر اعتبار سے معتبر نہ ہو۔
    [pullquote]٭و فی اصول الصفار سئل عمن أنکر القراء ۃ فی الصلاۃ ھل یکون کافرا؟قال:نعم لأنہ انکر الاجماع و فی الفتاویٰ العتابیۃ :یضرب و لا یکفر لانہ تاول بان الصلاۃ قد تجوز بدون القراء ۃ بان عجز عنھا(۱۵)[/pullquote]

    اس کے بارے میں پو چھا گیا جو یہ کہے کہ نماز میں قرات نہیں ہے۔ کیا وہ کافر ہو جائے گا؟ جواب میں فرمایا کہ جی ہاں کیونکہ اس نے اجماع کا انکار کیا ہے۔ فتاویٰ عتابیہ میں ہے کہ اسے مارا جائےگا اور اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی۔ کیونکہ اس کی تاویل یہ ہے کہ بعض اوقات نماز بغیر قرات کے بھی جائز ہوتی ہے، ہو سکتا ہے کہ وہ قرات سے عاجز ہو۔
    [pullquote]٭و فی واقعات الناطقی :قال محمد رحمہ اللہ:قول الرجل :لا اصلی یحتمل اربعۃ اوجہ:
    احدھا:لا اصلی لانی صلیت
    و الثانی:لا اصلی بامرک فقد امرنی بھا من ھو خیر منک
    و الثالث:لا اصلی فسقا و مجانۃ فھذہ الثلاث لیس بکفر
    والرابع:لا اصلی اذ لیست تجب علی الصلاۃ او لم اؤمر بھا،جحودا بھا و فی ھذا الوجہ یکفرو قال الناطقی :اذا اطلق فقال لا اصلی لا یکفر لاحتمال ھذہ الوجوہ(۱۶)[/pullquote]

    اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں نماز نہیں پڑھوں گا تو اس میں چار احتمالات ہیں:
    ۱۔میں نماز نہیں پڑھوں گا کیونکہ میں پڑھ چکا ہوں۔
    ب۔میں تمہارے حکم سے نماز نہیں پڑھوں گا۔ مجھے اس ذات نے نماز کا حکم دیا ہے جو تم سے بہت بہتر ہے۔
    ج۔میں فسق کی وجہ سے یا رکاوٹ کی وجہ سے نماز نہیں پڑھوں گا۔
    ان تینوں صورتوں میں وہ کافر نہیں ہوگا۔
    د۔میں نماز نہیں پڑھوں گا کیونکہ نماز فرض نہیں ہے یا مجھے اس کا حکم نہیں دیا گیا۔اس صورت میں وہ کافر ہو جائے گا۔ناطقی فرماتے ہیں کہ اگر اس نے مطلق لا اصلی کہا وہ ان وجوہ احتمالات کی وجہ سے کافر نہ ہو گا۔
    [pullquote]٭و قال القاضی بد ر الدین رحمہ اللہ :اذا قال: بسم اللہ عند الزنا لا یکفر لانہ یحتمل ان یتبرک باسم اللہ لیمتنع(۱۷)[/pullquote]

    قاضی بدر الدین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اگر کسی نے زنا کے وقت بسم اللہ پڑھی وہ کافر نہ ہوگا کیونکہ اس میں اس بات کا احتمال موجود ہے کہ وہ اللہ کے نام سے برکت حاصل کرنا چاہتا ہے کہ وہ اس عمل سے رک جائے۔
    [pullquote]٭و عن ابراھیم بن رستم رضی اللہ عنہ انہ قال:ان استحل متاولا ان النھی لیس للتحریم لا یکفر و لو استحل مع اعتقادہ ان النھی مفید للحرمۃ یکفر(۱۸)[/pullquote]

    ابراہیم بن رستم سے مروی ہے کہ اگر کسی نے حالت حیض میں جماع کو تاویل کرتے ہوئے حلال جانا کہ اس میں نہی تحریم کے لیے نہیں ہے وہ کافر نہیں ہو گا۔ اور اگر اس نے اس اعتقاد کے ساتھ اس کو حلال جانا کہ یہاں نہی حرمت کا فائدہ دیتی ہے وہ کافر ہو جائے گا۔
    [pullquote]٭رجل قال: قصعۃ ثرید خیر من العلم یکفر، بخلاف ما اذا قال: خیر من اللہ حیث لا یکفر لأن فی قولہ خیر من اللہ تاویل صحیح بان یقول :اردت بہ انھا نعمۃ من اللہ و ما أردت الاستخفاف باللہ اما فی قولہ خیر من العلم لیس لہ تاویل سوی الاستخفاف بالعلم فیکفر(۱۹)[/pullquote]

    ایک شخص نے کہا کہ ثرید کا ایک پیالہ علم سے زیادہ بہتر ہے۔ وہ کافر ہو جائےگا۔ بر خلاف اس کے کہ کوئی کہے کہ ثرید کا ایک پیالہ ’’خیر من اللہ‘‘ اس سے وہ کافر نہ ہوگا۔کیونکہ اس کے خیر من اللہ کہنے میں صحیح تاویل ہے وہ یہ کہ وہ یہ ارادہ رکھتا ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے نعمت ہے۔ اس کا اللہ کی توہین کا ارادہ نہیں ہے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ وہ خیر من العلم کہے، اس کی تاویل نہیں سوائے اس کے کہ یہ علم کا استخفاف ہے پس وہ کافر ہو جائے گا۔
    [pullquote]٭فقد حکی عن بعض اصحابنا ان رجلا لو قیل لہ:ا لست بمسلم ؟فقال: لا!لا یکفر لأن معناہ عند الناس ان افعالہ لیس افعال المسلمین(۲۰) [/pullquote]

    بعض اصحاب سے مروی ہے کہ ایک شخص سے کہا گیا کہ کیا تو مسلمان نہیں ہے؟ اس نے کہا :نہیں۔ وہ کافر نہیں ہو گا کیونکہ اس کا معنی یہ ہے کہ اس کے افعال لوگوں کے نزدیک مسلمانوں والے نہیں ہیں۔

    ان تمام مسائل سے یہ واضح ہو گیا کہ مفتی کو چاہیے کہ مسئلہ اکفار میں حتی المقدور تاویل کی کوشش کرے اور اگر اس کی صحیح تاویل ممکن ہو تو اس کو ضرور قبول کرے۔تاہم ہر وہ تاویل جواجماع امت کے خلاف ہو اسے کسی طور پر قبول نہیں کیا جائے گا۔ یہاں ایک بات یاد رہے کہ اگر قائل کی نیت وہی بات ہو جو کفر کو واجب کرتی ہے تو مفتی کی تاویل سے اس قائل کو کوئی فائدہ نہ پہنچے گا۔ اسے چاہیے کہ وہ خود تجدید ایمان کر لے۔ اسی طرح اگر کسی مومن کو کوئی شخص کافر کہے اور وہ اپنے ایمان پر مطمئن ہے تو اس کا کافر کہنا اس کو ضرر نہ پہنچائے گا۔

    ۶۔اگر کسی مسئلہ میں کئی ایک وجوہ ایسی پائی جاتی ہوں جو تکفیر کو واجب کرتی ہوں اور ایک وجہ ایسی ہو جو تکفیر کو مانع ہو تو مفتی کو چاہیے کہ وہ مسلمان سے حسن ظن رکھتے ہوئے اس وجہ کی طرف مائل ہو جو تکفیر کو مانع ہو۔
    حضرت علامہ عالم دہلوی فرماتے ہیں:
    [pullquote]یجب ان یعلم انہ اذا کان فی المسالۃ وجوہ توجب التکفیر و ووجہ واحد یمنع التکفیر فعلی المفتی ان یمیل الی الوجہ الذی یمنع التکفیر تحسیناللظن بالمسلم ،ثم ان کانت نیۃ القائل الوجہ الذی یمنع التکفیر فھو مسلم و ان کانت نیتہ الوجہ الذی یوجب التکفیر لا تنفعہ فتوی المفتی و یؤمر بالتوبۃ و الرجوع عن ذلک و تجدید النکاح بینہ و بین امرأتہ(۲۱)[/pullquote]

    یہ واجب ہے کہ جانا جائے کہ اگر کسی مسئلہ میں کئی وجوہ ایسی ہوں جو تکفیر کو واجب کرتی ہوں اور ایک وجہ ایسی ہو جو تکفیر سے منع کرتی ہو تو مفتی پر لازم ہے کہ وہ مسلمان کے ساتھ حسن ظن رکھتے ہوئے اس وجہ کی طرف مائل ہو جو کفر کو منع کرتی ہے۔ پھر اگر کہنے والے کی نیت وہی صورت ہے جو کفر کو روکتی ہے تو وہ کافر نہ ہوگا۔ وہ مسلم ہے۔ اور اگر اس کی نیت وہ صورت ہے جو کفر کو واجب کرتی ہے تو مفتی کا فتویٰ اسے نفع نہ دے گا، اسے توبہ کرنے اور اس سے رجوع کرنے اور اپنی بیوی سے تجدید نکاح کا حکم دیا جائے گا۔
    حضرت علامہ حصکفی فرماتے ہیں:
    [pullquote]لا یفتی بکفر مسلم امکن حمل کلامہ علی محمل حسن أو کان فی کفرہ خلاف ولو روایۃ ضعیفۃ(۲۲)[/pullquote]

    کسی مسلمان کے کفر کا فتویٰ نہیں دیا جائے گا جب تک اس کے کلام کو اچھے محمل پر محمو ل کرنا ممکن ہو یا اس کے کفر میں اختلاف ہو اور اگر چہ وہ ضعیف روایت ہی کیوں نہ ہو۔
    اس کی شرح میں علامہ شامی لکھتے ہیں:
    [pullquote]قا ل الخیر الرملی:اقول ولو کا نت الروایۃ لغیر أھل مذھبنا و یدل علی ذلک اشتراط کون ما یوجب الکفر مجمعا علیہ(۲۳)[/pullquote]

    خیر رملی نے فرمایا: میں یہ کہتا ہوں کہ اگر چہ وہ ضعیف روایت کسی دوسرے اہل مذہب ہی کی کیوں نہ ہو۔اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی۔اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ جو چیز کفر کو واجب کرتی ہے اس پرسب کا اتفاق ہونا ضروی ہے۔
    یعنی اگر سو اقوال کسی کے کفر پر ہوں اور ایک روایت اس کے ایمان پر دلالت کرتی ہو تو اس کی طرف مائل ہونا چاہیے۔ علماء نے اس میں اس قدر توسع کا مظاہرہ فرمایا ہے کہ وہ روایت جو اس کے ایمان پر دلالت کرتی ہے اگر چہ ضعیف ہی کیوں نہ ہواسے قبول کیا ہے۔ پھر یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ قول یا روایت ہمارے مذہب کے علماء کی طرف منسوب ہو، اگر وہ کسی دوسرے مذہب کے امام کا اختلافی قول بھی ہو تو اس کا مسئلہ اکفار میں اعتبار کیا جائے گا اور اس شخص کی تکفیر نہیں کی جائے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ موجب کفر وہ بات ہوتی ہے جس پر تمام مجتہدین کا اتفاق ہو، اگر کسی ایک مجتہد نے بھی اختلاف کیا تو اس کی بنیاد پر تکفیر نہیں کی جاسکتی۔

    ۷۔ مفتی تہدید اور تخویف کے لیے کسی کو کافر نہیں کہہ سکتا۔ مجتہدین کا کسی کی تکفیر کرنا حقیقت پر محمول ہوتا ہے لہذا ان کے کلام کو تہدید پر محمو ل کرنا درست نہیں۔حضرت شیخ ابن نجیم فرماتے ہیں:
    [pullquote]و فی البزازیۃ و یحکی عن بعض من لا سلف لہ انہ کان یقول ما ذکر فی الفتاویٰ انہ یکفر بکذا،و کذا فذاک للتخویف و التھویل لا لحقیقۃ الکفر و ھذا کلام باطل الی اخرہ و الحق ان ما صح عن المجتھد فھو علی حقیقتہ و اما ما ثبت عن غیرہ فلا یفتی بہ فی مثل التکفیر و لذا قال فی فتح القدیر من باب البغاہ ان الذی صح عن المجتھدین فی الخوارج عدم تکفیرھم و یقع فی کلام أھل المذھب تکفیر کثیر لکن لیس من کلام الفقھاء الذین ھم المجتھدون بل من غیرھم و لا عبرۃ بغیر الفقھاء(۲۴)[/pullquote]

    بعض علماء سے منقول ہے کہ انہوں نے اپنے فتاویٰ میں ذکر کیا ہے کہ وہ فلاں عمل سے کافر ہو گیا اور ان کا اس کو کافر کہنا ڈرانے اور ہول پیدا کرنے کے لیے ہے حقیقی کفر مراد نہیں۔یہ کلام باطل ہے اپنے آخر تک، حق یہ ہے کہ جو کچھ مجتہدین سے ثابت ہے وہ اپنی حقیقت پر ہے۔ جہاں تک ان باتوں کا تعلق ہے جو مجتہدین کے علاوہ کسی اور سے ثابت ہیں ان کی وجہ سے کفر کا فتویٰ دینا درست نہیں ہے۔ اسی لیے امام ابن ہمام نے فتح القدیر میں باب البغاۃ میں فرمایا کہ مجتہدین سے خوارج کی عدم تکفیر ثابت ہے۔ اہل مذہب کے کلام میں بہت زیادہ تکفیر واقع ہوئی ہے۔ لیکن وہ ان فقہاء کا کلام نہیں ہے جو مجتہدین ہیں لہذا ان کا کوئی اعتبار نہیں۔

    ۸۔ اجتہادیات اور ظنی مسائل کے انکار پر تکفیر نہیں کی جائے گی۔ حضرت علامہ بدر الدین عینی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
    [pullquote]لا یکفر منکر الاجتھادیات بالاجماع(۲۵)[/pullquote]

    اجتہادی مسائل کے منکر کی بالاتفاق تکفیر نہیں کی جائے گی۔

    ۹۔ مفتیان کرام کو چاہیے کہ وہ اہل اسلام کی تکفیر کے بجائے ان کی تکثیر پر زور صرف کریں۔ امام ابو اللیث سمرقندی فرماتے ہیں:
    [pullquote]و ینبغی للعالم ان یبادر بتکثیر اھل الاسلام مع انہ یقضی باسلام المکرہ تحت ظلال السیوف(۲۶)[/pullquote]

    عالم کو چاہیے کہ وہ اہل اسلام کی تکثیر پر زور دے جب کہ وہ تلوار کے سائے کے نیچے مکرہ کے اسلام کو تو قبول کر لیتا ہے۔
    علامہ عالم دہلوی فرماتے ہیں :
    [pullquote]و فی الملتقط :و ینبغی للعالم اذا رفع الیہ ان لا یبادر بتکفیر اھل الاسلام مع انہ یقضی باسلام المکرہ تحت ظلال السیوف(۲۷)[/pullquote]

    عالم کو چاہیے کہ جب اس کے پاس کوئی مسئلہ لایا جائے تو وہ اہل اسلام کی تکفیر پر زور نہ دے حالانکہ وہ مکرہ کا اسلام تلوار کے سائے کے نیچے تو قبول کر لیتا ہے۔

    یعنی فتویٰ نویسی کے وقت مفتی پر تکفیر اہل اسلام کے بجائے تکثیراہل اسلام کے جذبات غالب رہنے چاہییں۔ خاتم النبیین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وصال کے بعد اسلام کی دعوت و تبلیغ کا کار عظیم انجام دینے کے لیے خیر الامم کا انتخاب کیا گیا ہے۔ مفتی کو چاہیے کہ وہ قلم و زبان کا زور لوگوں کو دائرہ اسلام میں داخل کرنے کے لیے صرف کرے ۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت سیدناعلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ارشاد فرمایا:
    [pullquote]لان یھدی اللہ بک رجلا واحدا خیر لک من ان یکون لک حمر النعم(۲۸)[/pullquote]

    تمہارے ذریعہ سے اللہ ایک آدمی کو ہدایت عطا فرمادے یہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے زیادہ بہتر ہے۔

    لیکن افسوس کی بات ہے کہ ہم اس دور سے گزر رہے ہیں جس میں کسی مسلمان کو اسلام سے خارج قرار دینے کو اپنی فتح اور قابل فخر بات سمجھا جاتا ہے۔ کوئی شخص کتنا ہی اپنے اسلام کا اظہار کیوں نہ کر لے جب کسی کو اسلام کے دائرہ سے باہر کرنے کا ارادہ کر لیا جائے تو قلب و ذہن کی تمام تر قوتیں اس میں وجوہ کفر تلاش کرنے میں صرف کر دی جاتی ہیں اور علمائے امت کی سیرت کے بر عکس اگر اس میں نناوے وجوہ ایمان کی اور ایک وجہ ضعیف بھی کفر کی پائی جائے تو اس ضعیف وجہ کفر کو ترجیح دی جاتی ہے۔حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
    سب سے زیادہ غلو اور اسراف کرنے والا متکلمین کا گروہ ہے کہ وہ عام مسلمانوں کی تکفیر کرتے ہیں اور یہ گمان کرتے ہیں کہ جو ان کی طرح کلام کی معرفت نہیں رکھتا اور ان دلائل سے عقائد شرعیہ کو نہیں جانتا جو ہم نے تحریر کیے ہیں وہ کافر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ کی رحمت کواس کے بندوں پر تنگ کر دیا ہے۔(۲۹)
    آگے آپ فرماتے ہیں:
    ہو سکتا ہے کہ تم یہ اعتراض کرو کہ متکلمین نے یہ کام نہیں کیا بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے خود ارشادفرمایا ہے کہ میری امت میں تہتر فرقے ہوں گے ان میں صرف ایک نجات پانے والا ہو گا۔اس کا جواب یہ ہے اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ وہ سب کافر ہیں اور ہمیشہ جہنم میں رہیں گے بلکہ وہ آگ میں داخل ہوں گے اور انہیں آگ پر پیش کیا جائےگا۔ وہ اپنے گناہوں کے بقدر جہنم میں رہیں گے ۔(۳۰)
    قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
    [pullquote]لا تقولوا لمن القی الیکم السلام لست مومنا(۳۱)[/pullquote]

    اور جو تمہیں سلام کرے یہ نہ کہو کہ تو مسلمان نہیں ہے۔

    اس آیت کے شان نزول کے بارے میں علماء فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ کتب حدیث میں یہ واقعہ اس طرح سے درج ہے کہ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
    نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حرقات کی طرف ایک سریہ مبعوث فرمایا۔ جب وہ ہماری طرف سے چو کنے ہو گئے تو بھاگ کھڑے ہوئے۔ ہم نے ایک آدمی گھیر لیا۔ جب ہم اس پر غالب آگئے تو اس نے کہا :لا الہ الا اللہ نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ کے۔ مگر ہم نے اسے قتل کر دیا۔ میں نے اس کا ذکر حضور نبی کریم ﷺ سے کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: [pullquote]من لک بلا الہ الا اللہ[/pullquote]

    یوم القیامۃ قیامت کے دن تمہاری کلمہ طیبہ کے مقابلہ میں معاونت کون کرے گا؟میں نے عرض کی کہ یارسول اللہ [pullquote]انما قالھا مخافۃ السلاح،[/pullquote]

    اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس نے کلمہ صرف اسلحہ کے خوف سے ہی پڑھا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:[pullquote]افلا شققت عن قلبہ حتی تعلم من اجل ذلک قالھا ام لا[/pullquote]

    تم نے اس کا دل چیر کر کیوں نہ دیکھ لیا کہ تمہیں معلوم ہو جاتا کہ اس نے اسلحہ کے خوف سے پڑھا تھا یا نہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم یہی فرماتے رہے کہ قیامت کے دن تمہاری کلمہ طیبہ کے مقابلہ میں معاونت کون کرے گا؟ یہاں تک کہ میں نے یہ پسند کیا کہ کاش میں نے اسی دن اسلام قبول کیا ہوتا۔ (۳۲)

    اسی طرح کی ایک اور حدیث صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ ایک شخص نے میدان جہاد میں جب ایک کافر پر غلبہ پا لیا تو اس کافر نے کہا [pullquote]اشھد ان لا الہ الا اللہ انی مسلم [/pullquote]

    میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوائے کوئی معبود نہیں۔ بے شک میں مسلمان ہوں۔ مگر اس شخص نے اسے نیزہ مار کر قتل کر دیا۔ وہ شخص بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا اور کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں ہلاک ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے پوچھا کس چیز نے تجھے ہلاک کر دیا؟ اس نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اپنا واقعہ بیان کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ سلم نے ارشاد فرمایا: [pullquote]فھلا شققت عن بطنہ فعلمت ما فی قلبہ[/pullquote]

    تو نے اس کا پیٹ چیر کر کیوں نہ دیکھ لیا کہ تو جان لیتا اس کے دل میں کیا ہے؟ اس شخص نے کہا:[pullquote] یا رسول اللہ ﷺ لو شققت قلبہ لکنت اعلم ما فی قلبہ،[/pullquote]

    اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم !اگرمیں اس کے دل کو چیر لیتا تو ضرور جان لیتا کہ اس کے دل میں کیا ہے۔ [pullquote]قال فلا انت قبلت ما تکلم بہ ولا انت تعلم ما فی قلبہ[/pullquote]

    آپ ﷺنے فرمایا :نہ تو تم نے اس بات کو قبول کیا جو اس نے کہی تھی اور نہ تم نے اس بات کو جانا جو اس کے دل میں تھی۔ آپ علیہ الصلاۃ و السلام پھر خاموش ہو گئے۔ کچھ عرصہ بعد وہ شخص انتقال کر گیا۔ ہم نے اسے دفن کر دیا۔ صبح ہم نے دیکھا کہ وہ زمین کی پشت پر پڑا ہوا ہے۔ لوگوں نے کہا کہ شاید اس کے دشمنوں میں سے کسی نے ایسا کیا ہے۔ ہم نے پھر اس کو دفنا دیا اور کچھ لڑکوں کو مقرر کر دیا کہ اس کی حفاظت کریں۔ جب صبح ہوئی تو وہ پھر زمین سے باہر پڑا تھا۔ ہم یہ سمجھے کہ شاید لڑکوں کو اونگھ آگئی ہو۔ ہم نے پھر اسے دفنا دیا اور خود اس کی حفاظت کی۔ جب صبح ہوئی تو دیکھا کہ وہ شخص پھر باہر پڑا ہوا ہے۔ ہم نے پھر اسے ایک گھاٹی میں ڈال دیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اس واقعہ کی خبر دی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: [pullquote]ان الارض لتقبل من ھو اشر منہ و لکن اللہ احب ان یریکم تعظیم حرمۃ لا الہ الا اللہ[/pullquote]

    بے شک زمین اس سے بھی زیادہ شریر ترین لوگوں کو قبول کر لیتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اس بات کو پسند فرمایا کہ تمہیں کلمہ طیبہ کی حرمت کی تعظیم دکھائے۔(۳۳)

    کئی افراد مشغلہ تکفیر میں بہت جری نظر آتے ہیں۔ ایک بات یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ جب وہ دنیا میں مسلمانوں کی تعداد کا ذکر کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ مسلمان ایک ارب سے زیادہ ہیں اور جب مسلمانوں کے مختلف گروہوں کا ذکر کیا جائے تو ہر گروہ کو فتویٰ تکفیر کی لاٹھی سے اسلام سے باہرکر دیتے ہیں۔ اگر ان کے اصولوں کو مان لیا جائے تو شاید ادیان کے ماننے والوں میں مسلمان دنیا میں سب سے کم تعداد میں رہ جائیں۔ ایسے افراد کو مذکورہ بالا احادیث سے درس عبرت حاصل کرنا چاہیے کہ جب خیر القرون کے لوگوں کو اتنی سخت تنبیہ بارگاہ رسالت علی صاحبھا الصلاۃ والسلام سے ہو سکتی ہے تو اس دور کے لوگوں کا کیا حال ہو گا جن کے بارے میں [pullquote]ثم یفشوا الکذب[/pullquote]

    کہا گیا ہے۔

    ۱۰۔ مفتی کو چاہیے کہ فتویٰ جاری کرنے میں جلد بازی سے کام نہ لے اور مکمل تحقیق کے بعد ہی فتویٰ جاری کرے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
    [pullquote]اجرأکم علی الفتیا اجرأکم علی النار(۳۴)[/pullquote]

    تم میں سے فتویٰ دینے میں سب سے زیادہ جری آگ میں جانے میں بھی سب سے زیادہ جری ہے۔

    حضرت امام شعبی علیہ الرحمۃ سے پو چھا گیا کہ جب آپ سے سوال کیا جاتا تھا تو آپ لوگ کیا کرتے تھے؟ آپ نے فرمایا: [pullquote]کان اذا سئل الرجل قال لصاحبہ أفتھم فلا یزال حتی یرجع الی الاول۔[/pullquote]

    جب ہم میں کسی سے سوال کیا جاتا تھا تو وہ اپنے ساتھی سے کہتا تھا کہ آپ اس کا جواب دیں۔ اسی طرح سے ہر شخص دوسرے کی طرف سائل کو متوجہ کراتا یہاں تک کہ وہ پھر پہلے والے کے پاس لوٹ آتا۔(۳۵)
    امام ابو داؤد علیہ الرحمۃ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:
    [pullquote]من أفتی الناس بغیر علم کان اثمہ علی من افتاہ(۳۶)[/pullquote]

    جس کو بغیر علم کے فتویٰ دیا گیا اس کا گناہ فتویٰ دینے والے پر ہے۔

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:
    [pullquote]ان اللہ لا یقبض العلم انتزاعا ینتزعہ من العباد و لکن یقبض العلم بقبض العلماء حتیٰ اذا لم یبق عالما اتخذ الناس رء وسا جھالا فافتوا بغیر علم فضلوا و اضلوا(۳۷)[/pullquote]

    بے شک اللہ تعالیٰ علم کو اپنے بندوں سے علم کو نہیں اٹھائے گا مگر علم کو علما کے اٹھائے جانے کے ذریعہ اٹھا لیا جائے گا۔ یہاں تک کہ جب ایک عالم بھی باقی نہ رہے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنا سردار بنا لیں گے۔وہ انہیں فتویٰ دیں گے خود بھی گمراہ ہوں گے اور انہیں بھی گمراہ کریں گے۔

    حضرت سیدنا علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں:
    [pullquote]من افتی بغیر علم لعنتہ السماء و الارض(۳۸)[/pullquote]

    جس نے بغیر علم کے فتویٰ دیا اس پر آسمان اور زمین لعنت کرتے ہیں۔

    ان تمام وعیدوں اور اسلاف کے معمول کے پیش نظر مفتی کو فتویٰ جاری میں جلد بازی نہیں کرنی چاہیے۔ جہاں تک ان حضرات کا تعلق ہے جو اس منصب کے اہل ہی نہیں انہیں ان وعیدوں سے ڈرتے ہوئے سختی کے ساتھ فتویٰ جاری کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

    ۱۱۔مفتی کو چاہیے کہ ہر قسم کے تعصب سے بچتے ہوئے اور مومنانہ انداز اختیار کرتے ہوئے احقاق حق اور ابطال باطل کے لیے فتویٰ جاری کرے۔ ایسا ہرگز نہ ہوکہ فتویٰ کی بنیاد ذاتی بغض و عناد، تعصب یا دنیاوی مقاصد ہوں۔
    حکایت ہے کہ حضرت علی بلخی رحمۃ اللہ علیہ کی صاحبزادی نے ان سے مسئلہ پوچھا کہ اگر قے ہو جائے اور حلق تک آجائے تو وضو باقی رہتا ہے یا اس میں فساد آجاتا ہے؟ آپ نے جوابا فرمایاکہ وضو فاسد ہو جاتا ہے۔ خواب میں آپ کو حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زیارت ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:نہیں اے علی! یہاں تک کہ منہ بھر قے آئے۔ حضرت علی بلخی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: [pullquote]علمت ان الفتوی تعرض علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم فالیت علی نفسی ان لا افتی ابدا[/pullquote]

    مجھے معلوم ہوا کہ فتاویٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کیے جاتے ہیں، میں نے قسم اٹھا لی کہ آئندہ کبھی فتویٰ نہیں دوں گا۔(۳۹)

    اس حکایت سے ہم یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ مفتی فتوی تکفیر سے قبل اس بات کو ذہن نشین رکھے کہ میرا تحریر کردہ فتویٰ بارگاہ خداوندی اور بارگاہ رسالت علی صاحبہا الصلاۃ والسلام میں پیش کیا جائے گا۔ متوقع ہے کہ اس بات کو سوچنے کے بعد اس کا فتویٰ لکھنا ہر قسم کے تعصب و بغض سے پاک ہو جائے۔ اس نکتہ کے حوالہ سے امام غزلی کی کتاب فیصل التفرقۃ قابل مطالعہ ہے۔

    مسلمان کو کافر قرار دینے کی حرمت:
    اللہ اور اس کے رسول صلی للہ علیہ والہ والہ وسلم نے اخوت اور بھائی چارے کی بنیاد ایمان پر رکھی ہے۔ جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مسلمانوں کو اپنی صفوں میں اتحاد قائم رکھنے کی ہدایت عطا فرمائی ہے وہاں ان باتوں سے بھی منع فرمایا جو اخوت اور بھائی چارے کی فضاء کو مکدر کر دیتی ہیں۔ ایک مسلما ن کا دوسرے مسلمان کو گالی دینا، اس کی غیبت کرنا، چغلی کرنا وغیرہ ایسے عوامل ہیں جو دلوں کو ایک دوسرے سے دور کر دیتے ہیں۔ اسی لیے قرآن و سنت میں تفصیل کے ساتھ مسلمانوں کو ایک دوسرے کے آداب سکھائے گئے ہیں۔ ایک مومن کفر کی طرف لوٹنا اتنا ہی ناپسند کرتا ہے جتنا آگ میں زندہ ڈال دیا جانا۔ اسی طرح اپنے ایمان کی اہمیت کو جانتے ہوئے وہ اس بات کو بھی ناپسند کرتا ہے کہ اسے کوئی ’’کافر‘‘ کہے یا زمرہ اہل اسلام سے خارج ہونے کا لیبل اس پر چسپاں کرے۔ دور حاضر میں یہ بات بہت عام نظر آنے لگی ہے کہ خواص و عوام ایک دوسرے کو بلا جھجک کا فر کہہ دیتے ہیں اور اس عمل سے قبل اپنی طرف نظر بھی نہیں کرتے کہ وہ اس کے اہل ہیں بھی یا نہیں؟ اس پر مستزاد یہ کہ اپنی کہی بات کو اس قدر مستند اور نا قابل تردید سمجھتے ہیں کہ جو ان کے کہے کو کافر نہ کہے وہ اسے بھی دائرہ اسلام سے خارج قرار دیتے ہیں۔
    نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس بارے میں ارشاد فرمایا :
    [pullquote]اذا اکفر الرجل اخاہ فقد باء بھااحدھما[/pullquote]

    جب کوئی شخص اپنے بھائی کو کافر کہتا ہے تو ان میں سے کسی ایک کی طرف کفرضرور لوٹتا ہے۔

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:
    [pullquote]ایما امری قال لاخیہ یا کافر فقد باء بھا احدھما ان کان کما قال و الا رجعت علیہ[/pullquote]

    جس شخص نے اپنے بھائی سے اے کافر کہا تو کفر دونوں میں سے کسی ایک کی طرف ضرر لوٹے گا۔اگر وہ شخص واقعی کافر ہو گیا تھا تو فبہا ورنہ کہنے والے کی طرف کفر لوٹ آئے گا۔

    اس حدیث سے یہ معلوم بھی ہو تا ہے کہ کسی کا کفر اگر واقعی ثابت ہو چکا ہو تو اسے کا فر کہنا جائز ہے ورنہ اس کا وبال کہنا والے پر ہو تا ہے۔
    رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:
    [pullquote]و من دعا رجلا بالکفر او قال عدو اللہ و لیس کذلک الا عاد علیہ(۴۰)[/pullquote]

    اور جس نے کسی شخص کو کافر یا اللہ کا دشمن کہہ کر پکارا حالانکہ وہ ایسا نہیں ہے تو یہ کفر اس کی طرف لوٹ آئے گا۔

    حضرت امام بخاری علیہ الرحمۃ نے یہاں ’’بغیر تاویل‘‘ کی شرط لگائی ہے جس سے مراد یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی تکفیر میں متاول ہو تو وہ معذورکہلائے گا اور اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو منافق کہنے کو عذر فرمایا اور انہیں تنبیہ بھی فرمائی کیونکہ آپ رضی اللہ عنہ نے یہ گمان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے جنگی احوال کی خبر کفار کو دینا نفاق ہے۔ اسی طرح جب حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نماز میں سورۃ البقرۃ کی تلاوت فرمائی تو ایک صحابی نماز سے الگ ہو گئے اور انہوں نے اپنی نماز الگ ادا کر لی۔ جب حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا یہ منافق ہے۔ وہ صحابی بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور اپنا عذر پیش کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو جب حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس قول کی خبر ملی تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے تین مرتبہ ارشاد فرمایا [pullquote]’’أ فتان انت‘‘[/pullquote]

    اے معاذ کیا تم فتنہ میں ڈالنے والے ہو؟ پھر انہیں مختصر سورتیں تلاوت کرنے کی نصیحت فرمائی۔آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کافر نہیں فرمایا کیونکہ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس شخص کو جماعت ترک کرنے کی وجہ سے منافق گمان کیا تھا۔(۴۱)

    حضرت امام طحاوی علیہ الرحمۃ اس بارے میں ارشادفرماتے ہیں:
    [pullquote]فتاملنا فی ھذا الحدیث طلبا منا للمرادبہ ما ھو؟فوجدنا من قال لصاحبہ :یا کافر معناہ انہ کافر لأن الذی ھو علیہ الکفر فاذا کان الذی علیہ لیس بکفر ،وکان ایمانا کان جاعلہ کافرا جاعل الایمان کفرا،و کان بذلک کافرا باللہ تعالیٰ لأن من کفر بایمان اللہ تعالیٰ فقد کفر باللہ :و من یکفر بالایمان فقد حبط عملہ ،و ھو بالاخرۃ من الخاسرین ،فھذا أحسن ما وفقنا علیہ من تاویل ھذا الحدیث و اللہ نسالہ التوفیق(۴۲)[/pullquote]

    خلاصہ: ہم نے اس حدیث کی مراد جاننے کے لیے اس میں غور کیا تو ہمیں معلوم ہوا کہ جس شخص نے اپنے بھائی سے کہا اے کافر! اس کا مطلب ہے کہ وہ کافر ہے کیونکہ یہ وہ ہے جس پر کفر ہے، پس اگر وہ کافر نہ ہو اور ایمان والا ہو تو اسے کافر کہنے والا کافر ہو جائے گا کیونکہ اس نے ایمان کو کفر کہا ہے۔ اس وجہ سے وہ در حقیقت اللہ کا انکار کر نے والا ہے۔ جس نے ایمان کو کفر کہا اس نے اللہ کا انکار کیا۔ جس نے ایمان کا انکار کیا اس کے اعمال بر باد ہو گئے اور وہ آخرت میں خسارا پانے والوں میں ہوگا۔ یہ اس حدیث کی سب سے بہترین تاویل ہے جس کی ہمیں توفیق ملی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی سے ہم توفیق کا سوال کرتے ہیں۔

    حضرت امام طحاوی علیہ الرحمۃ کے بیان سے یہ واضح ہو تا ہے کہ اگر کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو کافر کہے تو اس کی دو صورتیں ہیں۔ایک صورت تو یہ کہ جس شخص کو اس نے کافر کہا وہ واقعی میں کافر ہو اور دوسری صورت یہ کہ وہ کافر نہ ہو۔ جب اس میں وجہ کفر نہ پائی گئی تو مسلمان کا اس کو کافر کہنا اس کو خود کافر بنا دیتا ہے کیونکہ وہ اب اس کے ایمان کو کفر سے تعبیر کر رہا ہے جو کفر ہے۔

    ہمارے نزدیک اگر کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو ’’کافر‘‘ کہے تو محض اس عمل سے اسلام سے دونوں میں سے کوئی بھی خارج نہیں ہوگا۔ کافر ہونے کی صورت کو ہم امام طحاوی کے قول کی روشنی میں بیان کر چکے ہیں۔ یہ ایک وعید ہے تا کہ اہل اسلام ایک دوسرے کو کافر بنانے سے احتراز کریں۔ دوسری بات یہ کہ یہ حدیث مبارکہ خبر واحد ہے جس کی وجہ سے اس کو تکفیر کی بنیاد نہیں بنایا جاسکتا۔ اس حدیث کے بارے میں شرح مواقف میں ہے:
    [pullquote](الثالث قولہ علیہ السلام :من قال لاخیہ المسلم یا کافر فقد باء بہ)ای بالکفر(أحدھما قلنا آحاد )و قد اجمعت الامۃ علی ان انکار الاحاد لیس کفرا (و)مع ذلک نقول(المراد مع اعتقاد انہ مسلم فان من ظن بمسلم انہ یھودی أو نصرانی فقال لہ یا کافر لم یکن ذلک کفرا بالاجماع)(۴۳)[/pullquote]

    خلاصہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ جب کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی کو کافر کہتا ہے تو ان میں سے کسی ایک کی طرف کفرضرور لوٹتا ہے۔ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ خبر واحد ہے اور امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ خبر واحد کا انکار کفر نہیں ہے۔اس کے ساتھ ہم یہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ یہ بات اس کے بارے میں یہ اعتقاد رکھتے ہوئے کہے کہ یہ مسلمان ہے ۔پس جس کسی نے مسلمان کے بارے میں یہ گمان کیا کہ وہ یہودی ہے یا نصرانی ہے تو اس پر اجماع ہے کہ وہ کہنے والا کافر نہیں ہو گا۔

    اس بارے میں حضرت امام نووی علیہ الرحمۃ کے حوالہ سے امام خانی لکھتے ہیں:
    [pullquote]قال النووی فی الاذکار :قول المسلم لأخیہ یاکافر یحرم تحریما غلیظا و یمکن حمل قولہ و یمکن حمل قولہ (یحرم تحریما غلیظا)علی الکفر أیضا کما فی الروضۃ لکنہ قال فی شرح مسلم ما حاصلہ :مذھب أھل الحق انہ لا یکفر المسلم بالمعاصی کالقتل و الزنا و کذا قولہ لأخیہ یا کافر من غیر اعتقاد بطلان دین الاسلام ذکر ذلک عند شرح حدیث :اذا قال الرجل لأخیہ یا کافر فقد باء بھا احدھما ۔و الحاصل ان المفھوم من جملۃ اقوال النووی انہ لا یکفر بمجرد ھذا اللفظ بل لا بد معہ من ان یعتقد ان ما اتصف بہ شخص من الاسلام کفر(۴۴)[/pullquote]

    امام نووی نے اذکار میں فرمایا ہے کہ مسلمان کا اپنے بھائی کو اے کافر کہنا بہت شدید حرام ہے آپ کے قول کو کفر پر محمول کرنا بھی ممکن ہے۔جیسا کہ روضہ میں ہے لیکن آپ نے شرح صحیح مسلم میں بیان فرمایا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اہل حق کا مذہب یہ ہے کہ کوئی مسلمان گناہ سے کافر نہیں ہوتا جیسے قتل کرنا ،زنا کرنا یا جیسے اپنے بھائی کو اے کافر کہنا،اس کے دین اسلام کے باطل نہ ہونے کا عقیدہ رکھتے ہوئے۔آپ نے اس کا ذکر درج ذیل حدیث کی شرح میں ذکر کیا ہے۔جس شخص نے اپنے بھائی سے اے کافر کہا تو کفر دونوں میں سے کسی ایک کی طرف ضرور لوٹے گااگر وہ شخص واقعی کافر ہوگیا تھا تو فبہا ورنہ کہنے والے کی طرف کفر لوٹ آئے گا۔حضرت امام نووی کے تمام اقوال کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی شخص محض اس لفظ سے کافر نہیں ہو گا بلکہ اس کے کافر ہونے کے لیے یہ عقیدہ ضروری ہے کہ یہ شخص جو اسلام کے ساتھ متصف ہے اس کا اسلام کفر ہے۔
    مسلمان کو کافر کہنے کی شناعت:
    قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
    [pullquote]و لا تنابزوا بالالقاب (الحجرات۴۹:۱۱)[/pullquote]

    ایک دوسرے کے برے نام نہ رکھا کرو۔
    اس کی وضاحت میں امام محمود آلوسی بغدادی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:
    [pullquote]و عن ابن مسعود رضی اللہ عالیٰ عنہ ھو ان یقال الیھودی أو النصرانی أو المجوسی اذا اسلم یا یھودی أو یا نصرانی أو یا مجوسی(۴۵)[/pullquote]

    حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے اس سے مراد کسی شخص کو جو اسلام قبول کر چکا ہو یہودی ،نصرانی یا مجوسی کہنا ہے۔یا اسے اے یہودی ،اے نصرانی یا اے مجوسی کہنا ہے۔
    اس آیت کے بارے میں امام ابوبکر جصاص رازی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:
    [pullquote]قال قتادۃ فی قولہ تعالیٰ و لا تنابزوا بالالقاب قال:لا تقل لأخیک المسلم یا فاسق یا منافق ۔حدثنا عبد اللہ بن محمد قال: حدثنا الحسن قال:أخبرنا عبد الرزاق عن معمر عن الحسن قال :کان الیھودی و النصرانی یسلم فیقال لہ یا یھودی یا نصرانی فنھوا عن ذلک(۴۶)[/pullquote]

    حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ و لا تنابزوا بالالقاب کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کو اے فاسق یا اے منافق نہ کہے۔حضرت حسن سے مروی ہے کہ جب کوئی یہودی یا نصرانی اسلام قبول کرتا تو اسے اے یہودی یا اے نصرانی کہا جاتا تھا۔اس آیت میں مسلمانوں کو اس عمل سے روکا گیا ہے۔

    علمائے عظام کی اس وضاحت سے یہ معلوم ہو گیا کہ کسی مسلمان کو کافر کہنا از روئے قرآن ناجائز ہے ۔اس سے سختی کے ساتھ اجتناب کرنا چاہیے۔
    رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشادفر مایا:
    [pullquote]من رمی مؤمنا بکفر فھو کقتلہ (۴۷)[/pullquote]

    جس نے کسی مسلمان پر کافر ہونے کی تہمت لگائی تو یہ اسے قتل کرنے کی طرح ہے۔
    رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
    [pullquote]و من قذف مؤمنا بکفر فھو کقاتلہ(۴۸)[/pullquote]

    جس نے کسی مسلمان پر کافر ہونے کی تہمت لگائی تو وہ اسے قتل کرنے والے کی طرح ہے۔
    حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
    [pullquote]اذا قال الرجل للرجل یا یھودی فاضربوہ عشرین(۴۹)[/pullquote]

    جب کوئی شخص کسی دوسرے شخص سے کہے اے یہودی تو اسے بیس کوڑے مارو۔

    حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
    [pullquote]ثلاث من اصل الایمان الکف عن من قال لا الہ الا اللہ و لا تکفرہ بذنب ولا نخرجہ من الاسلام بعمل (۵۰) [/pullquote]

    تین باتیں ایمان کی بنیاد میں سے ہیں۔جو لا الہ الا اللہ کہے اسے تکلیف نہ دینا،کسی گناہ کی وجہ سے اس کی تکفیر نہ کرو اور نہ ہم اسے کسی عمل سے اسلام سے نکالیں۔

    حضرت عالم دہلوی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:
    [pullquote]أو قال لمسلم :یا فاسق یا خبیث یا کافر(۵۱) [/pullquote]

    اگر کوئی کسی مسلمان سے اے فاسق ماے خبیث یا اے کافر کہے تو اس پر تعزیر ہے۔

    ایک اور مقام پر آپ فرماتے ہیں:
    [pullquote]قال بعضھم من قال لاخر:یا کافر لا یجب التعزیر ما لم یقل:یا کافر باللہ لان اللہ سمی المؤمن کافرا بالطاغوت قال:فمن یکفر بالطاغوت(البقرۃ۲:۲۵۶)یکون محتملا(۵۲) [/pullquote]

    بعض علماء نے یہ کہا ہے کہ جس نے کسی دوسرے سے کہا اے کافر اس پر تعزیر واجب نہیں ہو گی۔جب تک وہ اسے اے اللہ کا انکار کرنے والے نہ کہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مؤمن کو طاغوت کا انکار کرنے والا بھی کہا ہے۔اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:’’سو جو کوئی ان معبودان باطل کا انکار کرے۔ــ‘‘پس یہ بات اپنے اندر احتمال رکھتی ہے۔

    اس بحث سے یہ واضح ہو گیا کہ مسلمان کو کافر کہنا یا خارج از اسلام قرار دینا گناہ ہے۔اگر کسی مسلمان کو کسی شخص نے کا فر کہا اور وہ قاضی کے پاس اپنا مسئلہ لے کر چلا جائے تو اسے اس کے کفر کو ثابت کرنا ہو گا۔اگر وہ شخص اس کو کافر ثابت نہ کر سکے تو اس صورت میں اسے تعزیرا سزا دی جائے گی کیونکہ ایک مسلمان کے لئے کافر کہلایا جانا ہر قسم کے سب و شتم سے بڑھ کر ہے۔مولانا عالم دہلوی رحمہ اللہ نے اس میں یہ احتمال یہ بھی بیان کیا ہے کہ کیونکہ کافر بعض اوقات مسلمانوں کے لیے بھی لغوی اعتبار سے استعمال کیا جاتا ہے، اس لیے جب کسی مسلمان کو کافر کہا جائے تو اسے تعزیرا سزا دینے سے قبل یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کہنے والے نے کافر کا لفظ کس معنی میں استعمال کیا ہے۔اگر وہ لغوی اعتبار سے استعمال کیا ہے تو اسے سزا نہیں دی جائے گی۔

    کافر کو کافر کہنا:
    بعض حضرات اسلام کا دائرہ اتنا تنگ کر لیتے ہیں کہ انہیں اپنی ذات کے علاوہ کوئی مسلمان نظر نہیں آتا۔اسی طرح سے بعض حضرات اسلام کا دائرہ اتنا وسیع کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ انہیں کوئی کافر نظر نہیں آتا۔یہاں تک کہ وہ یہود و نصاری کو بھی مسلمان اوربعد از انتقال مستحق جنت سمجھتے ہیں۔ان غیر معتدل رویوں سے بچنا چاہئے۔اسلام کا دائرہ وسیع کرنے یا اسے تنگ کرنے کی ضرورت نہیں۔اسلام مکمل ہو چکا ہے اور اب کسی کو دین میں کمی یا زیادتی کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔بعض اوقات یہ سوال کیا جاتا ہے کہ کافر کو کافر کہنا درست ہے یا نہیں؟ہماری رائے میں کسی شخص کے کافر ہونے کا ثبوت قطعی یا ظنی طور پر ہوگا۔ جیسے ابو لہب، شداد، ہامان وغیرہ کا کافر ہونا قطعی طور پر ثابت ہے لہذا ان کو کو کافر کہنا درست ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
    [pullquote]قل یا ایھا الکافرون(الکافرون۱۰۹:۱)[/pullquote]

    آپ فرما دیجیے اے کافرو!
    اس آیت مقدسہ سے ان لوگوں کو کافر کہنے کا جواز معلوم ہوتا ہے جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی براہ راست تکذیب کی۔اسی طرح بعض لوگوں کا کافر ہونا ان کے کفریہ عقائد یا کفریہ اعمال سے اس قدر ثابت ہو جاتا ہے کہ ان کے کفر میں کسی بھی قسم کا تامل یا شک باقی نہیں رہتا۔ جیسے مسیلمہ کذاب یا منکرین زکوٰۃ کا کافر ہونا۔ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ان کے کفر پر اجماع ہوا اسی لیے ان پاکیزہ نفوس نے اپنے زمانہ میں ان کے خلاف جہاد کیا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حدیث میں صاف ارشاد فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وصال کے بعد جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفہ بنے تو کفر من کفر من العربعرب میں سے جن کو کافر ہو نا تھا وہ کافر ہو گئے۔یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی شروع میں حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ کی رائے سے اختلا ف کیا لیکن بعد میں آپ کی وضاحت پر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سینہ مبارک بھی کھل گیا اور آپ نے جان لیا کہ جس طرح نماز کا انکار کفر ہے اسی طرح زکوٰ ۃ کا انکار بھی کفر ہے۔

    جہاں تک کسی کے کفر کا ظنی طور پر معلوم ہونا ہے تو اس کو بھی کافر کہا جا سکتا ہے جیسے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اور حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جماعت ترک کرنے پر ایک صحابی کو منافق کہا۔ تاہم اپنی اس رائے کا کسی دوسرے کو مکلف نہیں بنا یا جاسکتا۔ یہاں ایک بات قابل غور یہ ہے جو مثالیں ہم نے پیش کی ہیں وہ خیر القرون کی ہیں۔ ہم جس دور سے گزر رہے ہیں یہ وہ دور ہے جس کے بارے میں ثم یفشو الکذب فرمایا گیا ہے۔اسی لیے فقہاء کرام نے اس کے سد باب کے لئے ایسے شخص کو تعزیرا سزا دینے کا مسئلہ بیان کیا ہے جو کسی مسلمان کو کافر کہے اور اس کا کفر ثابت نہ ہو۔لہذاہمیںبالخصوص مسئلہ اکفار میں کمال احتیاط سے کام لینا چاہیے۔
    حدیث شریف میں وارد ہوا ہے :
    [pullquote]عن ابی ھریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم قال:تخرج الدابۃ معھا خاتم سلیمان و عصا موسی فتجلو وجہ المؤمن و تختم انف الکافر بالخاتم حتیٰ ان اھل الخوان لیجتمعون فیقول ھذا یا مؤمن و یقول ھذا یا کافر(۵۳) [/pullquote]

    حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا :دابہ نکلے گا تو اس کے ساتھ حضرت سلیمان علیہ السلام کی انگوٹھی اور حضرت موسی علیہ السلام کا عصا ہو گا۔وہ مومن کے چہرے کو روشن کر دے گا اور کافر کی ناک پر انگوٹھی سے مہر لگا دے گا یہاں تک کہ جب دستر خوان پر لوگ جمع ہوں گے تو وہ کہیں گے اے مومن !اور یہ کہیں گے اے کافر!

    دابۃ الارض ایک جانور ہے جو قیامت سے قبل ظاہر ہوگا۔احادیث میں اس کو قیامت کی علامات میں سے بیان کیا گیا ہے۔اس حدیث سے یہ واضح ہو تا ہے کہ جب وہ جانور ہر مومن و کافر کے چہرے پر ایمان و کفر کی علامت چھوڑدے گا تو اہل ایمان کفار کو یا کافر کہہ کر پکاریں گے۔دابۃ الارض کی اس علامت لگانے کے بعد اہل ایمان کا کسی کو کافر جاننا اس علامت کی وجہ سے قطعی نہیں ہو گا نیز دابۃ الارض کایہ عمل دلائل قطعیہ سے ثابت نہیں ہے۔اس سے یہ ثابت ہوا کہ اہل ایمان کا اس علامت کی وجہ سے کسی کو کافر کہنا ظنی ہوگا نہ کہ قطعی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس بات کو بلا تردید بیان فرمایا ہے جو اس کے جواز پر دلالت کرتا ہے۔

    مفتی کو فتویٰ بالخصوص فتویٰ تکفیر جاری کرنے میں جن باتوں کا لحاظ کرنا چاہیے ہم نے اختصار کے ساتھ ان کا بیان کر دیا ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ فتویٰ تکفیر جاری کرنے سے اجتناب کرنا چاہئے لیکن اگر کہیں احقا ق حق یا ابطال باطل کی ضرورت ہو تو ان باتوں کا فتویٰ تکفیر تحریر کرتے وقت خصوصی اہتمام کرنا چاہئے۔اس کے علاوہ وہ وجوہ جن کی بنیاد پر تکفیر کرنا جائز ہے ان کی تفصیلات کو ہم نے پیش نظر کتاب میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے ۔ہم امید کرتے ہیں کہ اہل علم حضرات ان سے ضرور محظوظ ہوں گے۔ اللہ رب العزت اس سعی کو قبول و منظور فرمائے اورامت میں باہمی محبت و بھائی چارہ کا ذریعہ بنائے۔امین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ والہ وسلم

    حواشی
    (۱)اصول الدین :۳۳۲،،امام ابو منصور عبد القاہر بن طاہر تمیمی بغدادی،دار صادر،بیروت،استنبول مطبعۃ الدولۃ،۱۹۲۸ء
    (۲)الملل و النحل:۱۱۴تا ۱۱۶،،امام محمد بن عبد الکریم شہرستانی،دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان،۲۰۰۷ء
    (۳)رد المحتار :ج:۱/ص:۱۲۶،محمد امین ابن عابدین،مکتبہ امدادیہ،ملتان
    (۴)فتاویٰ النوازل:ص:۸۶ ،امام ابو اللیث نصر بن محمد بن ابراہیم سمرقندی،دار الکتب العلمیہ،بیروت،لبنان
    (۵)الاقتصاد فی الاعتقاد :ص:۳۰۲،امام محمد بن محمد غزالی،دار المنہاج،مملکۃ العربیۃ السعودیۃ جدہ،۲۰۰۸ء
    (۶)الدر المختار:ج:۶/ص:۳۵۸۔علامہ حصکفی ،مکتبہ امدادیہ،ملتان
    (۷)تنبیہ الولاۃ و الحکام:ص:۳۲۹،سید محمد امین آفندی ابن عابدین شامی،سہیل اکیڈمی ،لاہور پاکستان
    (۸)الفتاویٰ التاتار خانیۃ:ج:۵/ص:۳۱۲،عالم بن علاء دہلوی ،قدیمی کتب خانہ،آرام باغ کراچی
    (۹)البحر الرائق:ج:۵ /ص:۲۰۱،الشیخ زین الدین بن ابراہیم المعروف بابن نجیم ،دار احیاء التراث العربی ،بیروت لبنان
    (۱۰)فیصل التفرقۃ:ص:۹۱،محمد بن محمدبن محمد غزالی،دار الکتب العلمیۃ،بیروت لبنان،الطبعۃ الرابعۃ۲۰۰۶م
    (۱۱)الفتاویٰ التاتار خانیۃ:ج:۵/ص:۳۲۱
    (۱۲)الفتاویٰ التاتار خانیۃ:ج:۵/ص:۳۲۵
    (۱۳)الفتاویٰ التاتار خانیۃ:ج:۵/ص:۳۲۵۔۳۲۶
    (۱۴)الفتاویٰ التاتار خانیۃ:ج:۵/ص:۳۳۵
    (۱۵)الفتاویٰ التاتار خانیۃ:ج:۵/ص:۳۳۵
    (۱۶)الفتاویٰ التاتار خانیۃ:ج:۵/ص:۳۳۵۔۳۳۶
    (۱۷)الفتاویٰ التاتار خانیۃ:ج:۵/ص:۳۳۹
    (۱۸)الفتاویٰ التاتار خانیۃ:ج:۵/ص:۳۴۳
    (۱۹)الفتاویٰ التاتار خانیۃ:ج:۵/ص:۳۴۶
    (۲۰)الفتاویٰ التاتار خانیۃ:ج:۵/ص:۳۴۷۔۳۴۸
    (۲۱)الفتاویٰ التاتار خانیۃ:ج:۵/ص:۳۱۲
    (۲۲)الدرالمختار:ج:۶/ص:۳۶۷
    (۲۳)ردالمختار:ج:۶/ص:۳۶۷
    (۲۴)البحر الرائق:ج:۵/ص:۱۹۴
    (۲۵)عمدۃ القاری:ج:۱/ص:۱۷۳،علامہ بدر الدین محمد بن محمود بن احمد عینی،دار احیاء التراث العربی ،بیروت،لبنان ۱۳۴۸ھ
    (۲۶)فتاویٰ النوازل:ص:۲۸۸
    (۲۷)الفتاویٰ التاتار خانیۃ:ج:۵/ص:۳۱۳
    (۲۸)مسلم:فضائل الصحابۃ:من فضائل علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ، الامام ابو الحسن مسلم بن الحجاج القشیری،نور محمد اصح المطابع، کراچی ،پاکستان،۱۳۷۵ھ
    (۲۹)فیصل التفرقۃ:ص:۹۳
    (۳۰)فیصل التفرقۃ :خلاصہ:ص:۹۵
    (۳۱)النسا۴:۹۴
    (۳۲)سنن ابی داؤد:رقم الحدیث:۲۶۴۳
    (۳۳)سنن ابن ماجہ :ابواب الفتن:الکف عمن قال لا الہ الا اللہ،،الامام محمد بن عبد اللہ بن یزید ابن ما جہ،قدیمی کتب خانہ، آرام باغ،کراچی ،پاکستان
    (۳۴)سنن الدارمی:باب الفتیا و ما فیہ من الشدۃ،مام عبد اللہ بن عبد الرحمن دارمی،المکتبۃ الشاملۃ
    (۳۵)سنن الدارمی:مقدمہ:باب :۲۸،امام عبد اللہ بن عبد الرحمن دارمی،المکتبۃ الشاملۃ
    (۳۶)سنن ابی داؤد:کتاب العلم:باب التوقی فی الفتیا، ا لامام ابو داؤد سلیمان بن اشعث،مکتبہ رحمانیۃ ،لاھور ،پاکستان
    (۳۷)صحیح البخاری:کتاب العلم:باب:کیف یقبض العلم، الامام ابو عبدا للہ اسماعیل بن ابراہیم البخاری،نور محمد اصح المطابع ،کراچی ،پاکستان،۱۳۸۱ھ
    (۳۸)روح البیان:سورۃ البقرۃ:آیت :۸۹،شیخ اسماعیل حقی بروسوی،مکتبہ اسلامیہ کانسی روڈ کوئٹہ
    (۳۹)روح البیان:سورۃ البقرۃ:آیت :۸۹،شیخ اسماعیل حقی بروسوی،مکتبہ اسلامیہ کانسی روڈ کوئٹہ
    (۴۰)مسلم :کتاب الایمان:باب :بیان حال ایمان من قال لاخیہ المسلم یا کافر
    (۴۱)خلاصہ: عمدۃ القاری:ج:۲۲/ص:۱۵۷۔۱۵۸
    (۴۲)مشکل الاثار:باب بیان مشکل ما روی عنہ علیہ السلام فیمن قال لأخیہ :یا کافر،المکتبۃ الشاملۃ
    (۴۳)شرح المواقفـ:ج:۸/ص:۳۴۴،سید شریف جرجانی ،دار الفکر ،قم ایران
    (۴۴)رسالۃ فی الفاظ الکفر:ص:۴۰۱قاسم بن صلاح الدین خانی،دار ایلاف الدولیۃ للنشر و التوزیع ،کویت
    (۴۵)روح المعانی :ج:۱۳/ص:۲۳۲،سید محمود ٓلوسی بغدادی ،المکتبۃ الحقانیۃ ،ملتان،پاکستان
    (۴۶)احکام القرآن:ج:۳/ص:۵۳۷،امام ابو بکراحمد نم علی رازی جصاص ،دار الکتب العلمیۃ ،بیروت لبنان
    (۴۷)صحیح البخاری:کتاب الادب:باب من کفر اخاہ بغیر تاویل فھو کما قال
    (۴۸)جامع الترمذی:ج:۲/ص:۵۴۸
    (۴۹)جامع الترمذی:ج:۱/ص:۴۰۳
    (۵۰)سنن ابی داؤد:کتاب الجھاد،باب الغزو مع ائمۃ الجور
    (۵۱) الفتاویٰ التاتار خانیۃ:ج:۵/ص:۱۰۰
    (۵۲)الفتاویٰ التاتار خانیۃ:ج:۵/ص:۱۰۲
    (۵۳)جامع الترمذی:ج:۲.ص:۶۲۳۔۶۲۴
    (ڈاکٹر عمیر محمود صدیقی، اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ علوم اسلامیہ ،جامعہ کراچی)

  • غامدی صاحب کا جوابی بیانیہ اور مسئلہ تکفیر: چند اعتراضات – طارق محمود ہاشمی

    غامدی صاحب کا جوابی بیانیہ اور مسئلہ تکفیر: چند اعتراضات – طارق محمود ہاشمی

    %d8%b7%d8%a7%d8%b1%d9%82-%d9%85%d8%ad%d9%85%d9%88%d8%af-%db%81%d8%a7%d8%b4%d9%85%db%8c راقم کا ایک مضمون ”دلیل“ پر شائع ہوا تھا۔ اس کا عنوان تھا ”جاوید غامدی صاحب کا جوابی بیانیہ: تکفیر کے مسئلے پر فکری انتشار۔“ ہماری خوش نصیبی ہے کہ المورد کے صفِ اول کے سکالر، ہمارے محترم آصف افتخار صاحب نے جاوید غامدی صاحب کے دفاع کے لیے قلم اُٹھایا ہے (۱)۔ المورد کے کسی بھی اہم فرد کی جانب سے ہماری تنقیدوں پر یہ پہلا باقاعدہ جواب تصور کیا جانا چاہیے۔ واضح رہے کہ جاوید احمد غامدی صاحب کوئی جواب دینے سے تحریری معذرت کر چکے ہیں۔ بہتر تو یہی تھا کہ غامدی صاحب خود بات کرتے، کیونکہ جب یہ بحث ذرا آگے بڑھے گی، تو سابقہ تجربے کی روشنی میں یہ خدشہ ہے کہ غامدی صاحب اپنے کسی بھی شاگرد کی تحریروں سے اظہارِ برأت کرنے میں لمحہ بھر دیر نہیں لگائیں گے، اور یوں یہ تمام مکالمہ بےسُود رہےگا۔ تاہم، ہم اس کو بھی غنیمت جانتے ہیں کہ المورد کے اصحابِ علم نے علمی و فکری مکالمے میں شرکت کا فیصلہ فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ اس کے نتیجے میں کچھ باتیں واضح ہو سکیں گی۔ محترم آصف افتخار صاحب نے ہمارے مضمون پر چند سوالات اٹھائے ہیں۔ ان کے اخلاقی مواعظ سے قطع نظر کرتے ہوئے، ان کے اعتراضات کے جوابات حاضر ہیں۔

    آصف افتخار صاحب نے پوچھا ہے کہ قرآن مجید میں سورہ اعراف میں جس عہد الست کے بارے میں ہمیں بتایا گیا ہے، اس سے یہ کیسے معلوم ہوتا ہے کہ ہم دہریوں وغیرہ کو دنیا میں بھی ”کافر“ کہہ سکتے ہیں؟ آصف افتخار صاحب کے اس سوال کا جواب مضمون میں موجود ہے۔ غامدی صاحب کے بقول: ”تکفیر کے لیے اتمام حجت ضروری ہے اور یہ صرف خدا ہی جانتا اور وہی بتا سکتا ہے کہ کسی شخص یا گروہ پر فی الواقع اتمام حجت ہوگیا ہے اور اب ہم اس کو کافر کہہ سکتے ہیں۔“ پھر فرماتے ہیں کہ جو ”کسی دین یا مذہب کو نہیں مانتے.“ ان کی تکفیر بھی نہیں کی جا سکتی (بحوالہ مضمون مسلم اور غیر مسلم)۔ اس دعوے پر ہم نے عرض کیا کہ یہ تو قرآن مجید ہی کے خلاف ہے، کیونکہ قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
    اور جب تمہارے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا، اور انہیں خود ان کے اوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھا تھا: کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ انہوں نے جواب دیا: ضرور آپ ہی ہمارے رب ہیں، ہم اس پر گواہی دیتے ہیں۔ یہ ہم نے اس لیے کیا کہ کہیں تم قیامت کے روز یہ نہ کہہ دینا کہ ہم تو اس سے بے خبر تھے. (سورہ اعراف: ۱۷۲ تا ۱۷۳)۔

    اِن آیاتِ مقدسہ سے واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بات بتا دی ہے کہ ہر انسان پر صبح ازل اتمام حجت ہوگیا تھا کہ اللہ ہی سب کا رب ہے۔ اور یہ بات رہتی دنیا تک ہر انسان کے بارے میں حق ہے۔ چنانچہ، اب دہریے ”کافر“ ہی ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتا دیا ہے کہ اس معاملے میں ہر ہر انسان پر اتمام حجت ہو چکی ہے، اور جب بھی کوئی انسان اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے سے انکار کرتا ہے، وہ اتمامِ حجت کے بعد یہ انکار کرتا ہے، لہذا کافر ہے۔ چنانچہ، دہریوں کی تکفیر کے خلاف غامدی صاحب کا یہ مزعومہ اعتراض کہ ”خدا ہی جانتا اور وہی بتا سکتا ہے کہ کسی شخص یا گروہ پر اتمام حجت ہو گیا ہے اور اب ہم اس کو کافر کہہ سکتے ہیں.“ دہریوں کے بارے میں بےبنیاد ہے، اور قرآن مجید سے متصادم ہے، کیونکہ خدا نے ہمیں قرآن مجید میں یہ بتا دیا ہے۔ آصف افتخار صاحب ضرور تنقید فرمائیں، لیکن ہمارے مضمون کو غور سے پڑھ کر سمجھنے کے بعد۔ محض حصولِ ثواب کی خاطر بلانہایت تنقید کرنا اہل علم کا شیوہ نہیں۔

    آصف افتخار صاحب نے دوسرا سوال یہ پوچھا ہے کہ راقم نے ”قانون اتمام حجت“ پر تنقید کی ہے، لیکن اس کے جو دلائل جاوید غامدی صاحب نے جگہ جگہ پیش کیے ہیں، ان سے تعرض نہیں کیا۔ اس پر عرض ہے کہ ”قانون رسالت“ اور ”قانون اتمام حجت“ کے نام سے جو دعویٰ جاوید غامدی صاحب نے کیا ہے، ہمارے نزدیک اس کی کوئی بنیاد قرآن مجید و حدیث شریف میں نہیں پائی جاتی۔ نہ اس بات کے حق میں کوئی دلیل نصوص میں ہے کہ ”اتمام حجت“ فقط رسل علیہم السلام ہی کی موجودگی میں ہو سکتا ہے، نہ اس کی کوئی دلیل غامدی صاحب نے پیش کی ہے۔ ہمارے خیال میں یہ غامدی صاحب کا محض دعویٰ ہے جس کی قرآن مجید و احادیث مبارکہ میں کوئی بنیاد نہیں پائی جاتی۔ اگر کوئی دلیل ہے، تو آصف افتخار صاحب پیش کریں، ہم اس پر اپنی طالبعلمانہ رائے بھی دے دیں گے۔

    تیسرا سوال: آصف صاحب فرماتے ہیں کہ جو لوگ جاوید غامدی صاحب سے متفق ہیں کہ فقط اللہ کے رسول علیہ الصلوٰۃ و السلام ہی کسی کو کافر قرار دے سکتے ہیں، اُن کے نقطۂ نظر سے اب کسی کی تکفیر نہیں کی جاسکتی۔ آصف افتخار صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ یہ تو وہی دعویٰ ہے جس پر تنقید ہو رہی ہے۔ جو دعویٰ زیر تنقید ہو، اُسی کو دلیل کے طور پر کیسے پیش کیا جا سکتا ہے؟ دلیل تو یہ ہوتی اگر آصف افتخار صاحب قرآن مجید کی آیات سے ”کافر“ اور ”غیر مسلم“ کا وہ فرق ثابت کرتے جو جاوید غامدی صاحب کر رہے ہیں۔ بلکہ اگر وہ صرف یہی بتا دیتے کہ ”غیر مسلم“ کی اصطلاح قرآن مجید کی کس آیت میں استعمال ہوئی ہے؟ آخر ”حاکمیتِ قرآن“ کا نظریہ بھی تو اہل المورد کی فکر میں کوئی اہمیت رکھتا ہے.

    آصف افتخار صاحب کا چوتھا سوال یہ ہے کہ ”جاوید غامدی صاحب نے صوفیائے کرام کی تکفیر نہیں کی۔“ ہماری تنقید کا یہ نتیجہ خیر بہرحال ہوا ہے، کہ آصف افتخار صاحب نے اس موقع پر جاوید غامدی صاحب کے وہ بدنام الفاظ دُہرانے سے اجتناب کیا ہے جو غامدی صاحب نے تصوف کے بارے میں استعمال کیے ہیں، یعنی یہ کہ تصوف ”اسلام سے مختلف، مقابل، اور متوازی دین ہے“، اہل تصوف نے ”قرآن کے مقابل ایک اور کتاب“ لکھی ہے، اسلام کے مقابل ”ایک پوری شریعت تصنیف“ کی ہے، اور یہ دینِ تصوف دراصل”اسلام کے مقابل ایک عالمگیر ضلالت ہے“، وغیرہ وغیرہ۔ ہماری رائے میں غامدی صاحب نے صوفیائے کرام پر، اور ان کے معتقدین پر، یعنی امت ِمسلمہ کی اکثریت پر، نہ صرف تکفیر کا حکم لگایا ہے، بلکہ جو معاملہ انہوں نے صوفیائے کرام اور عامۃ المسلمین کے ساتھ کیا ہے، وہ تکفیر سے کہیں اشدّ ہے۔ اور عامۃ المسلمین کی تکفیر کے معاملے میں جاوید غامدی صاحب کی رائے میں، اور دوسری جانب خوارج، قادیانیوں، اور داعش کے نظریہ سازوں کی آراء میں جو مماثلت پائی جاتی ہے، وہ بھی اہلِ نظر سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اس معاملے کو وضاحت سے سمجھنے کے لیے، آصف افتخار صاحب کو ہمارا مشورہ ہے، کہ نادر عقیل انصاری صاحب کا مضمون ”مسئلہ تکفیر: غامدی صاحب کا جوابی بیانیہ“ پڑھنا ضروری ہے، جو ”حرف نیم گفتہ“ پر ۴/ستمبر، سنہ ۲۰۱۶ء کو شائع ہوا تھا۔ واضح رہے کہ ”دلیل“ میں اس مضمون کا ایک خلاصہ شائع ہوا تھا۔ بہتر ہوگا اگر نادر عقیل انصاری صاحب کا موقف سمجھنے کے لیے ان کا مفصل مقالہ پیش نظررہے۔ عرض ہے کہ اس بحث کا ایک پس منظر ہے اور یہ ایک جاری مکالمے کا حصہ ہے۔ اس مکالمے کے سیاق و سباق کو جانے بغیر، تنقیدی مضامین لکھنے بیٹھ جانا، نہ علم کی خدمت ہے، نہ اس سے ناقد کے وقار میں کوئی اضافہ ہی ہوتا ہے۔

    آصف افتخار صاحب کا پانچواں سوال موضوع سے غیر متعلق ہے۔ پوچھتے ہیں کہ ”اسلام میں مرتد کی کیا سزا ہے؟“ ظاہر ہے کہ ہماری کیا اوقات ہے کہ ہم اس کا فیصلہ کریں؟ اس معاملے میں تو دین کی ابدی شریعت کا بیان خود نبی ﷺ فرما چکے ہیں۔ آپ کا ارشاد ہے: من بدّل دینہ فاقتلوہ (صحیح بخاری، و غیرہ)۔ یعنی جو اپنا دین تبدیل کرے، اسے قتل کر دو۔ آپ ﷺ کے اس ارشاد کے بعد کس مسلمان کو اِس میں شک ہو سکتا ہے؟ و اَنا اوّلُ المؤمنین!

    آصف افتخار صاحب نے اپنی تنقید میں جگہ جگہ راقم کی تحریر کے بارے میں اخلاقی نصیحتیں کی ہیں۔ فکرِ فراہی پر راقم کی تنقیدی تحریروں کا جو علمی، شائستہ اور مہذب اسلوب ہے، اس میں اس کا کوئی امکان ہی باقی نہیں رہتا۔ تاہم، ناچیز کسی جوابی وعظ سے احتراز کرتے ہوئے، فقط یہ عرض کرنے کی اجازت چاہتا ہے کہ آصف افتخار صاحب کو چاہیے کہ وہ کم از کم علمی تنقید کے اصولوں کی پاسداری تو کریں، اور کسی تحریر پر تنقید کرنے سے پہلے اسے اچھی طرح سمجھ کر پڑھ لیا کریں۔ پھر جس قدر چاہیں شوقِ تنقید پورا کریں۔ اس طرح اُن کے اور قارئین کے قیمتی وقت کا بہتر استعمال ہو سکے گا۔ ھذا ما عندی و اللہ اعلم بالصواب۔


    حوالہ:
    (۱):دیکھیے:
    Muslim and Non-Muslim-A response to critique by Tariq Mehmood Hashmi:
    http://www.al-mawrid.org/index.php/blog/view/muslim-and-non-muslim-a-response-to-critique-by-tariq-mehmood-hashmi***

  • غیر مسلم اور کافر کی بحث – انجینئر فیاض الدین

    غیر مسلم اور کافر کی بحث – انجینئر فیاض الدین

    %d9%81%db%8c%d8%a7%d8%b6-%d8%a7%d9%84%d8%af%db%8c%d9%86 چند مہینوں سے اہل علم کے ہاں ”غیرمسلم“ کی اصطلاح پر کافی کچھ دیکھنے اور پڑھنے کو ملا۔ بعض اہل علم کے ہاں کافر اس دنیا سے مکمل ختم ہوگئے ہیں۔‌ ‌ان کے خیال میں کافر صرف وہ لوگ تھے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے براہ راست مخاطبین تھے، ان لوگوں پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے حجت تمام ہوئی، اس لیے ان کو کافر کہا گیا اب چونکہ نبوت ختم ہو چکی ہے، کسی نبی نے نہیں آنا، اس لیے آج کی دنیا میں کافر کوئی نہیں ہے اور جو اسلام کو نہیں مانتے ان کے لیے ایک اصطلاح ”غیرمسلم“ استعمال کی جاسکتی ہے۔ ان اہل علم کے مطابق اگر کوئی کفر کرتا ہے تب بھی وہ کافر نہیں ہے جب تک وہ خود اقرار نہ کر لے کہ ہاں میں کفر کر رہا ہوں، اب میں کافر ہوگیا ہوں۔

    یہ مان لینے سے بہت سارے سوالات جنم لیتے ہیں۔ پہلا اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس نظریے کا ماخذ کیا ہے؟ اس کے برعکس قرآن کا مدعا تو یہ ہے کہ دو گروہ ہیں جو اللہ کے بارے میں لڑتے رہیں گے۔اگر یہ دو گروہ مومن اور کافر ہیں تو یہ ”غیر مسلم“ کون ہیں؟ اللہ نے غیر مسلم کی اصطلاح قرآن میں کہیں استعمال نہیں کی، اور نہ ہمیں اتنا بڑا حق دیا ہے کہ ہم خود سے تیسرا گروہ نکال کر بیٹھ جائیں۔
    [pullquote]ھٰذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّھمْ ۖ فَالَّذِينَ كَفَرُوا قُطِّعَتْ لَھُمْ ثِيَابٌ مِّن نَّارٍ يُصَبُّ مِن فَوْقِ رُءُوسِھمُ الْحَمِيمُ [٢٢:١٩] [/pullquote]

    یہ دو فریق ہیں جن کے درمیان اپنے ربّ کے معاملے میں جھگڑا ہے۔ اِن میں سے وہ لوگ جنہوں نے کُفر کیا اُن کے لیے آگ کے لباس کاٹے جا چکے ہیں، اُن کے سروں پر کھَولتا ہوا پانی ڈالا جائے گا۔
    قرآن ہمیں کچھ اصول دیتا ہے۔ یہ معلوم ہے کہ اللہ نے اہل کتاب کے بعض عقائد کو کفر کہا۔
    [pullquote]لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّہ ھُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ ۖ وَقَالَ الْمَسِيحُ يَا بَنِي إسْرَائِيلَ اعْبُدُوا اللَّہ رَبِّي وَرَبَّكُمْ ۖ إنَّہ مَن يُشْرِكْ بِاللَّہ فَقَدْ حَرَّمَ اللہ عَلَيْہ الْجَنَّہ وَمَاوَاہ النَّارُ ۖ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أنصَارٍ [٥:٧٢][/pullquote]
    یقیناً کفر کیا اُن لوگوں نے جنہوں نے کہا کہ اللہ مسیح ابنِ مریم ہی ہے۔ حالانکہ مسیح ؑ نے کہا تھا کہ ”اے بنی اسرائیل ! اللہ کی بندگی کرو جو میرا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی“۔ جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیرایا اُس پر اللہ نے جنّت حرام کردی اور اُس کا ٹھکانا جہنّم ہے اور ایسے ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔

    لَقَد کَفَرَ الَّذِین قَالُوا اِنَّ اللہ ثَالِثُ ثَلٰثَۃٍ ۘ وَ مَا مِن اِلٰہٍ اِلَّاۤ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ ؕ وَ اِنۡ لَّم یَنتَہُوا عَمَّا یَقُولُونَ لَیَمَسَّنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا مِنھم عَذَابٌ اَلِیمٌ [٥:٧٣]
    یقیناً کفر کیا اُن لوگوں نے جنہوں نے کہا کہ اللہ تین میں کا ایک ہے، حالانکہ ایک خدا کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔ اگر یہ لوگ اپنی ان باتون سے باز نہ آئے تو ان میں سے جس جس نے کفر کیا ہے اُس کو درد ناک سزا دی جائے گی۔

    اس میں سارے اہل علم متفق ہیں کہ قرآن قیامت تک ایک ہدایت کی کتاب ہے، احکامات اسی کتاب سے اخذ کیے جائیں گے۔ آج کی دنیا میں کوئی کہے کہ فلاں اللہ کا بیٹا ہے، یہ گائے ہی بھگوان ہے وغیرہ، ان جیسے لوگوں کے لیے قرآن کی مندرجہ بالا آیات میں کیا رہنمائی ہے؟ کیا ان آیات کا مقصد ختم ہو چکا؟ آج کی دنیا میں ان آیات میں کیا سبق پوشید ہ ہے؟ یا انہیں سیاق وسباق کے لبادے میں پیش کر کے اس زمانے کے لیے خاص کیا جائے گا؟ یا یوں کہا جائے گا کہ دراصل ان آیات میں مخاطب اہل کتاب تھے لہذا ان میں ہمارے لیے کوئی رہنمائی نہیں ہے؟

    میرے نزدیک بات یہ ہے کہ جیسے اس زمانے کے اہل کتاب کے متعلق اللہ کہتے ہیں کہ وہ کافر ہیں جو کہتے ہیں کہ عزیر علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں، ٹھیک اسی طرح اگر آج کے اہل کتاب کہیں کہ عیسی علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں تو یہ بھی کفر ہی ہوگا، یہ غیرمسلم نہیں ہوں گے بلکہ کافر ہی ہوں گے۔ بالفرض وہ کافر نہیں ہیں تو پھر قرآن کی مندرجہ بالا آیت کا مقصد کیا ہے؟ جیسے کہ میں نے پہلے ہی یہ سوال اٹھایا۔

    اہل کتاب تو دور کی بات ہے، کوئی خود کو مسلم کہنے کے بعد بھی ایسا کہے تو یہ بھی ویسا ہی کفر ہے جیسا کہ اہل کتاب کرتے تھے یا کرتے ہیں۔ اس مسئلے پر سوچنا چاہیے کہ کہیں ہمارا ایمان غلط سمت میں تو نہیں جا رہا؟ جس طرح کپڑا خریدتے وقت ہم دکاندار کا دماغ کھا جاتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اچھے سے اچھا قیمتی کپڑا مل جائے، یعنی ہم دنیا کی چیزوں کا جتنا احترام اور اس کی تحقیق کرتے ہیں، اتنی کوشش دین اور اپنے ایمان کے حوالے سے بھی ہونی چاہیے۔
    [pullquote]ھُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ فَمِنكُمْ كَافِرٌ وَمِنكُم مُّؤْمِنٌ ۚ وَاللہ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ [٦٤:٢] [/pullquote]

    وہی تو ہے جس نے تم کو پیدا کیا پھر کوئی تم میں کافر ہے اور کوئی مومن۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو خدا اس کو دیکھتا ہے.

    یہاں اللہ تعالی دو ناموں کا ذکر کر ہے ہیں مومن اور کافر۔ اللہ پاک کہتے ہیں کہ میں نے تمہیں پیدا کیا، پس تم میں سے کوئی مومن ہے اور کوئی کافر۔ یہاں سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ اللہ نے غیر مسلم نامی مخلوق پیدا کیوں نہیں کی؟ یہ تیسری کیٹیگری ”غیرمسلم“ کی کہاں سے آئی؟ شریعت سازی کا حق ہم میں سے کسی کو نہیں ہے، دین مکمل ہوچکا ہے، اس کوئی کمی نہیں رہ گئی ہے، لہذا ہمیں کوئی حق حاصل نہیں ہے کہ دین میں ایک تیسری کیٹیگری ایجاد کر لیں۔ اللہ ہمیں توفیق دے کہ ہم قرآن کے مطابق نظریات اپنائیں۔ آمین

  • مسئلۂ تکفیر: نادر عقیل انصاری کے مضمون پر اعتراضات کا جائزہ – کاشف علی خان شیروانی

    مسئلۂ تکفیر: نادر عقیل انصاری کے مضمون پر اعتراضات کا جائزہ – کاشف علی خان شیروانی

    جاوید غامدی صاحب کے ”جوابی بیانیے“ پر نادر عقیل انصاری صاحب کا ایک تنقیدی مضمون بعنوان ”مسئلہ تکفیر: غامدی صاحب کا جوابی بیانیہ“، دلیل میں شائع ہوا تھا۔ تاحال غامدی صاحب کے متنازعہ ”جوابی بیانیے“ پر جو تحریریں سامنے آئی ہیں، ان میں یہ سب سے زیادہ محققانہ مضمون ہے،جس نے غامدی صاحب کے استدلال کی کمزوری محکم دلائل سے واضح کر دی ہے۔ غامدی صاحب نے ”جوابی بیانیے“ میں تکفیر کے جواز کا انکار کیا ہے۔ نادر عقیل انصاری صاحب کا موقف ہے کہ علماء اور امت کے پاس یہ اختیار موجود ہے کہ وہ مبتدعہ اور گمراہ افراد اور گروہوں کی تکفیر کر سکیں۔ ان کا استدلال ہے کہ قرآن مجید میں تکفیر کی ممانعت نہیں آئی، احادیث میں اس کا جواز ثابت ہے، اور عدالتی اور معاشرتی امور میں کئی شرائع اس پر موقوف ہیں۔ اور جس شے پر شرائع کا نفاذ موقوف ہو، وہ کیسے ممنوع ہو سکتی ہے؟ نیز یہ بتایا ہے کہ امین احسن اصلاحی تکفیر کے جواز کے قائل ہیں، اور خود غامدی صاحب صوفیائے کرام اور امت کی اکثریت کے ساتھ جو معاملہ کرتے ہیں، وہ تکفیر سے بھی اشدّ ہے۔ اہل علم نے بالعموم یہ رائے دی ہے کہ غامدی صاحب کی یہ مہم درحقیقت قادیانیوں کی تکفیر کو معرض شک میں ڈالنے کے لیے چلائی جا رہی ہے۔ غامدی صاحب کے دفاع میں لکھنے والوں نے اس مضمون پر کچھ سوالات اٹھائے ہیں۔ ان کا ایک مختصر جائزہ مطلوب ہے۔ ہم اپنی بحث کا دائرہ پست اور غیر علمی نکات سے صرف نظر کرتے ہوئے صرف انہی باتوں تک محدود رکھیں گے، جن کے واضح نہ ہونے سے مسلمانوں میں کوئی غلط فہمی پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔

    نادر عقیل انصاری صاحب کے مضمون کی اشاعت کے بعد خود غامدی صاحب کا حلقہ دو واضح گروہوں میں بٹ گیا۔ سوال یہ تھا کہ کیا غامدی صاحب نے صوفیاء کی تکفیر کی ہے؟ ایک گروہ کا موقف تھا کہ غامدی صاحب نے صوفیاء کی تکفیر کی ہے، اور بالکل درست کی ہے۔ مثلاً غامدی صاحب کے ایک متبع نے مضمون پر بحث کے دوران ایک فیس بک فورم پر لکھا: ”قادیانی اور صوفیاء ایک برابر ہیں۔“ اس سے معلوم ہوا کہ غامدی صاحب کی عبارت کا جو مطلب عامۃ المسلمین لے رہے ہیں، یعنی یہ کہ غامدی صاحب نے صوفیاء اور اکثر امت مسلمہ کی تکفیر کی ہے، وہی ان کے بہت سے متبعین بھی لے رہے ہیں۔ خود جاوید احمد غامدی صاحب کے مضمون ”مسلم اور غیر مسلم“ کا تیسرا پیرا اس گروہ کے اندیشے کی تصدیق کر رہا ہے۔ دوسرا گروہ یہ سمجھتا تھا کہ غامدی صاحب نے صوفیاء کی تکفیر نہیں کی ہے، نہ انہیں غیر مسلم کہا ہے۔ ہماری نظر میں پہلےگروہ نے اپنے علم اور ذہانت کی بدولت غامدی صاحب کے موقف کو درست طریقے پر سمجھا ہے۔ تاہم دوسرےگروہ نے، جس میں محمد حسن صاحب شامل ہیں، اس کا انکار کیا ہے۔ ہمارے خیال میں محمد حسن صاحب کا استدلال بے بنیاد ہے، بلکہ ان کی اس مدافعانہ کوشش سے جاوید غامدی صاحب کا موقف مزید کمزور پڑ گیا ہے۔

    محمد حسن صاحب کے مضمون کو غامدی صاحب کے متبعین نادر صاحب کے مضمون کا جواب قرار دے رہے ہیں۔ ہم بہرحال اس مضمون کو نادر صاحب کے مضمون کا حقیقی جواب نہیں سمجھتے۔ ایک تو اس مضمون میں اس کا کوئی ذکر نہیں کہ یہ نادر عقیل انصاری صاحب کے مضمون کا جواب ہے۔ دوسرے اس مضمون میں نادر عقیل انصاری صاحب کے دلائل سے کم ہی تعرض کیا گیا ہے۔ تیسرے، ہمارا سابقہ تجربہ ہے کہ خود غامدی صاحب بھی اپنے ساتھیوں کی تحریروں سے برأت کا اعلان کرنے میں ذرہ برابر دیر نہیں کرتے۔ ماضی میں جب بھی المورد کے کسی اسکالر نے غامدی صاحب کے نظریات کا دفاع کیا ہے، اور اس پر علمی تنقیدوں میں اس کا ضعف واضح کیا گیا، تو اس پر غامدی صاحب نے صاف کہہ دیا کہ میں المورد کے دیگر مصنفین کی کمزوریوں کا ذمہ دار نہیں ہوں، نہ ہی میں انہیں اپنا ترجمان سمجھتا ہوں۔ پچھلے دنوں اسلام آباد میں غامدی صاحب نے فرمایا کہ اگر کوئی ان کا موقف جاننا چاہتا ہے تو وہ ان کی کتابوں کی طرف مراجعت کرے۔ چنانچہ انہوں نے اس بات کا امکان ہی ختم کر دیا کہ کوئی اور ان کی فکر کی ترجمانی یا دفاع کرے۔ یہی وجہ ہے کہ مسئلہ تکفیر پر بامقصد مکالمے کو آگے بڑھانے کا طریقہ یہ ہوگا کہ جاوید غامدی صاحب اپنے ناقدین کو براہ راست جواب دیں۔ غامدی صاحب کی خاموشی کا تو یہی مطلب ہوگا کہ ناقدین کی بات درست تسلیم کر لی گئی ہے۔

    ان تمہیدی کلمات کے بعد ہم ”دلیل“ میں غامدی صاحب کے مطبوعہ مضمون پر نظر ڈالتے ہیں۔ غامدی صاحب کے مضمون ”مسلم اور غیر مسلم“ کے بارے میں ہماری تنقید تین نکات پر مشتمل ہے۔ پہلا نکتہ ان کی تحریرات میں واضح تضاد کی نشاندہی ہے۔ غامدی صاحب نے اپنی کتاب ”برہان“ میں لکھا ہے کہ اہل تصوف اسلام سے متوازی دین پر کاربند ہیں۔ ان کے لیے کتاب ہدایت بھی قرآن مجید نہیں بلکہ گیتا، اپنشد، برہم سوتر اور فصوص الحکم ہیں۔ اس عبارات کو اگر ان کے مضمون ”مسلم اور غیر مسلم“ کے مقابل رکھ کر دیکھا جائےتو ان کا فکری انتشار واضح ہو جاتا ہے کیونکہ وہ یہ واضح ہی نہیں کر پاتے کہ وہ صوفیائے کرام کو کس درجے میں رکھتے ہیں۔

    غامدی صاحب پیدائشی مسلمانوں کو، جو گمراہ ہو چکے ہیں، دو گروہوں میں بانٹ دیتے ہیں۔ ان کے مطابق پہلا گروہ تو ان لوگوں پر مشتمل ہے جو ”اسلام کو چھوڑ کر کوئی دوسرا مذہب اختیار کر لیں“، ان کے بارے میں غامدی صاحب کے مطابق بس یہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ ”غیر مسلم“ ہیں۔ جبکہ دوسرا گروہ ان لوگوں پر مشتمل ہے جو کسی گمراہی میں مبتلا ہیں، لیکن مسلمان ہونے کے مدعی ہیں، اور اپنی گمراہی کے حق میں قرآن و حدیث ہی سے استدلال کرتے ہیں۔ اس مضمون میں، غامدی صاحب کے نزدیک صوفیاء دوسرے گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔

    مسئلہ یہ ہے کہ ”برہان“ میں تو صوفیاء کو اسلام کے متوازی، مختلف اور مقابل دین کا پیروکار بتایا ہے، جس کا مطلب ہے کہ صوفیاء کو پہلے گروہ میں شمار کرنا چاہیے۔ کیونکہ وہ ”دینِ تصوف“ کو اختیار کر چکے ہیں، جو عیسائیت اور یہودیت کی طرح اسلام کے ”متوازی، مختلف، اور مقابل“ دین ہے۔ لہذا صوفیاء کو اور اکثر امت کو ان پیدائشی مسلمانوں میں شامل ہونا چاہیے جو غیر مسلم (مرتد؟) ہوگئے، یعنی یہودی، ہندو یا صوفی ہوگئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جاوید غامدی صاحب کے نزدیک یہودیت اور ہندومت بھی اسلام کے متوازی اور مختلف دین ہیں، اور تصوف بھی۔ دوسری جانب، چونکہ صوفیاء قرآن و حدیث ہی سے استدلا ل کرتے ہیں، لہذا انہیں دوسرے گروہ میں، یعنی گمراہ مسلمانوں میں شامل ہونا چاہییے۔ اس تضاد کو کون حل کرے گا؟ یہ کیسی درجہ بندی ہے جس میں ایک فرد بیک وقت دو گروہوں میں شمار ہو سکتا ہے؟ عام طور پر یہ تضاد و انتشار اس صورت میں ہوتا ہے جب درجہ بندی کے مقاصد علمی کے بجائے سیاسی ہوں۔ بظاہر تو یوں لگتا ہے کہ یہ درجہ بندی ایک سیاسی مقصد کو سامنے رکھ کر گھڑی گئی تھی یعنی قادیانیوں کی تکفیر پر نظر ثانی کی راہ نکالی جائے لیکن اس سیاسی مقصد کو پورا کرتے کرتے غامدی صاحب کی تحریرات داخلی تضاد کا شکار ہو گئی ہیں۔

    دوسرا نکتہ یہ ہے کہ غامدی صاحب نے اپنے مضمون ”مسلم اور غیر مسلم“ میں دین میں نئی اصطلاحات کا اضافہ کیا ہے اور لگتا ہے کہ جو سیاسی مقاصد نئی درجہ بندی کی تخلیق میں پیش نظر تھے وہی مقاصد نئی اصطلاحات وضع کرنے کا سبب بھی بنے ہیں۔ غامدی صاحب نے دینی روایت میں غیرمسلم کی ایک نئی اصطلاح متعارف کرائی ہے۔ ان کے نزدیک ”کافر“ اور ”غیرمسلم“ میں فرق ہے۔ اس پر دو سوالات ہیں: اول: ”غیر مسلم“ کی اصطلاح قرآن مجید میں کہاں استعمال ہوئی ہے؟ دوم: ”غیر مسلم“ اور ”کافر“ کا یہ فرق قرآن مجید کی کس آیت میں بیان کیا گیا ہے؟ دیکھ لیجیے دعوے کیے ہیں، لیکن قرآن مجید کی ایک آیت بھی نقل نہ کر سکے۔ اس کا مقصد بھی واضح طور پر علمی نہیں بلکہ سیاسی ہے۔ جاوید غامدی صاحب کے کام کا لازمی نتیجہ ہے کہ اسلام ”جدید قومی ریاست“ کے مفادات کے تابع رہے۔ کسی کو کافر قرار دینے کے واضح دینی، سیاسی اور معاشرتی نتائج ہیں جو ”جدید ریاست“ اورحقوق انسانی کے نام نہاد مغربی تصورات سے ہم آہنگ نہیں۔ غامدی صاحب کی غیر مسلم جیسی نئی اصطلاح وضع کرنے کا مقصد کافر وں سے متعلق دینی احکامات کو معطل کرنا ہے تاکہ جدید قومی ریاست کے غلبہ و استیلا کے لیے آسانیاں پیدا کی جا سکیں۔

    تیسرا نکتہ یہ ہے کہ غامدی صاحب کے بقول لامذہب اور دہریوں کو بھی کافر نہیں کہا جا سکتا۔ ”مسلم اور غیر مسلم“ میں غامدی صاحب فرماتے ہیں:
    اسلام کے سوا باقی تمام ادیان کے ماننے والوں کو غیر مسلم کہا جاتا ہے۔ یہی تعبیر اُن لوگوں کے لیے بھی ہے جو کسی دین یا مذہب کو نہیں مانتے۔ یہ کوئی تحقیر کا لفظ نہیں ہے، بلکہ محض اِس حقیقت کا اظہار ہے کہ وہ اسلام کے ماننے والے نہیں ہیں۔ اِنھیں بالعموم کافر بھی کہہ دیا جاتا ہے، لیکن ہم نے اپنی کتابوں میں بہ دلائل واضح کر دیا ہے کہ تکفیر کے لیے اتمام حجت ضروری ہے اور یہ صرف خدا ہی جانتا اور وہی بتا سکتا ہے کہ کسی شخص یا گروہ پر فی الواقع اتمام حجت ہو گیا ہے اور اب ہم اُس کو کافر کہہ سکتے ہیں۔ لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد یہ حق اب کسی فرد یا گروہ کو بھی حاصل نہیں رہا کہ وہ کسی شخص کو کافر قرار دے. (جاوید احمد غامدی، مسلم اور غیر مسلم)۔
    غامدی صاحب کا یہ موقف قرآن مجید کے صریح خلاف ہے۔ سورہ اعراف میں ارشاد ہوتا ہے:
    اور جب تمہارے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا، اور انہیں خود ان کے اوپر گواہ بناتےہوئے پوچھا تھا: کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ انہوں نے جواب دیا: ضرور آپ ہی ہمارے رب ہیں، ہم اس پر گواہی دیتے ہیں۔ یہ ہم نے اس لیے کیا کہ کہیں تم قیامت کے روز یہ نہ کہ دینا کہ ہم تو اس سے باخبر تھے۔ یا یہ نہ کہنے لگو کہ شرک کی ابتدا تو ہمارے باپ دادا نے ہم سے پہلے کی تھی اور ہم بعد کو ان کی نسل سے پیدا ہوئے، پھر کیا آپ ہمیں اس قصور میں پکڑتے ہیں جو غلط کار لوگوں نے کیا تھا؟ (سورہ اعراف: ۱۷۲ تا ۱۷۳)۔

    آیات کریمہ سے واضح ہے کہ دہریے اور لا مذہب کا یہ عذر ناقابل قبول ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا علم نہیں رکھتے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اس نے تمام بنی نوع انسان کو یہ بات بتا دی تھی کہ ان کا رب اللہ ہے، اور یہ بات ان کے لیے قاطع اعذار ہو گئی۔ اب ان کے پاس کوئی عذر نہیں کہ وہ اللہ کا انکار کریں۔ اس پہلو سے قرآن مجید کے مطابق لامذہب اور دہریے پر اتمام حجت ہو چکا ہے۔ خود غامدی صاحب بھی ماضی قریب تک اسی موقف کے حامی رہے ہیں (البیان، جلد ۲، صفحہ ۲۴۲)۔ غامدی صاحب ویسے تو حاکمیت قرآن پر یقین رکھتے ہیں مگر جب قرآن مجید کی واضح آیتیں جدیدیت کے خلاف پڑتی ہیں تو وہ قرآنی موقف چھوڑنے میں زیادہ وقت نہیں لگاتے۔ وجہ یہ ہے کہ غامدی صاحب کا اصل الاصول حاکمیت قرآن نہیں بلکہ جدید دور میں کسی بھی شرط اور قیمت پر survive کرنا ہے۔ چنانچہ دینی ہدایت یا شرعی حکم اگر جدید عقلیت کے خلاف پڑے تو survivalism کا تقاضا ہے کہ اس دینی حکم کی تاویل یا انکار کر دیا جائے۔ تحریک تنویر اور انسان پرستی سے وجود میں آنے والی دُنیا دراصل انکارِ مذہب اور انکار خدا پر کھڑی تھی۔ انکار ِخدا شروع میں معاشرے کی سطح پر اتنا نمایاں نہیں تھا لیکن اب یورپ اور امریکا کے معاشروں میں بھی نمایاں ہو چکا ہے۔ دہریت ایک بڑھتا ہوا فکری رجحان ہے بلکہ اس کے سامنے یہودیت اور عیسائیت اب ہتھیار ڈال چکے ہیں۔ مغربی معاشروں میں ہونے والے سروے بتاتے ہیں کہ وہاں دہریت روز بروز فروغ پا رہی ہے۔ پچھلی دہائی میں ہونے والے سروے بتاتے ہیں کہ ۲۵ /فیصد آسٹریلیائی، ۳۰ /فیصد کینیڈین، ۹/ فیصد امریکی، ۳۹ /فیصد برطانوی، ۴۸ /فیصد فرانسیسی، ۴۸ /فیصد ڈنمارک کے باشندے، ۴۲ /فیصد ولندیزی، ۵۰ /فیصد سے زائد جرمن اور ۶۱ /فیصد چیکوسلواکیائی باشندے خدا پر یقین نہیں رکھتے (۱)۔ ظاہر ہے کہ غامدی صاحب کی survivalist اور minimalist فکر کے لئے یہ لازم تھا کہ وہ دینی شرائع کی قیمت پر دہریت کے لئے بھی کچھ ”گنجائشیں“ نکالے۔ جوابی بیانیہ اسی فکری رجحان کی ایک مثال ہے۔

    غامدی صاحب کا مضمون نادر عقیل انصاری صاحب کے مضمون کے جواب میں پیش کیا گیا، لیکن اس میں نادر عقیل انصاری صاحب کی کسی دلیل کو زیر بحث نہیں لایا گیا۔ تاہم محمد حسن صاحب کے مضمون کے بارے میں شبہ ہوتا ہے کہ شاید اس میں نادر عقیل انصاری صاحب کے چند ایک دلائل سے تعرض کیا گیا ہے۔ نادر عقیل انصاری صاحب نے اپنے مضمون میں پہلا نکتہ یہ اٹھایا تھا کہ جس چیز کی قرآن مجید و احادیث شریفہ میں ممانعت نہیں آئی وہ مباح ہے۔ اگرقرآن و حدیث میں کوئی ایسا حکم نہیں جس کی رو سے تکفیر ممنوع ٹھہرتی ہو تو آخر غامدی صاحب کس دلیل کی بنا پر اسے ممنوع قرار دے رہےہیں؟ ایسی کوئی دلیل محمد حسن صاحب نے پیش نہیں کی۔ اسی طرح، دینی متون میں تکفیر کی ممانعت کہیں نہیں آئی۔ اور دینی اصول تو یہ ہے کہ جس چیز کی ممانعت نہ ہوئی ہو وہ مباح ہوتی ہے۔ دلیل حرمت کی چاہیے، اباحت کے لیے کوئی دلیل درکار نہیں ہوتی۔ رہا غامدی صاحب کا مزعومہ ”قانون رسالت“، جس کے ذریعے انہوں نے نبی ﷺ کے بعض احادیث کی تاویل کرنے کی کوشش کی ہے، تو معلوم ہے کہ اس کی کوئی بنیاد نصوص میں نہیں پائی جاتی۔

    پھر ایک مزعومہ ”قانون اتمام حجت“ کی آڑ میں محمد حسن صاحب نے احادیث کی جو تاویلات کرنے کی کوشش فرمائی ہے، اس میں ہر قاری کے لیے عبرت کا وافر سامان ہے۔ نادر عقیل انصاری صاحب نے تکفیر کے جواز کے حق میں پانچ احادیث مبارکہ پیش کی تھیں۔ ان میں سے دو کو محمدحسن صاحب نے موضوع بحث ہی نہیں بنایا۔ تین احادیث مبارکہ ان کے ہاں زیر بحث آئی ہیں، اور تینوں کو انہوں نے ”قانون اتمام حجت“ سے ڈھیر کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن یہ ”قانون اتمام حجت“ خود کیا چیز ہے؟ اور یہ قرآن مجید کی کس آیت میں بیان ہوا ہے؟ اس کا سرے سے کوئی ذکر ہی نہیں کیا۔

    پہلی حدیث شریف: غامدی صاحب کے نزدیک کسی کی تکفیر صرف اللہ تعالیٰ ہی کر سکتا ہے۔ جبکہ حدیث شریف میں ارشاد ہے: اگر کسی نے دوسرے کو کافر کہا، تو ان میں سے ایک نے کفر کیا۔ اگر دوسرا شخص کافر ہے تو اس کے ساتھی نے درست بات کہی، اور اگر وہ ایسا نہ تھا جیسا اس نے کہا (یعنی اگر وہ کافر نہ تھا) تو کافر کہنے والا کفر کے ساتھ لوٹا (امام بخاری، الادب المفرد)۔ اس حدیث کو نقل کرتے ہوئے محمد حسن صاحب نے حدیث کے متن پر اپنی طرف سے ایک اضافہ کر دیا: اگر دوسرا شخص ”جانتے بوجھتے“ کافر ہے۔ حدیث کے الفاظ میں یہ ٹکڑا موجود ہی نہیں۔ یہ حدیث کے الفاظ میں صریح تصرف ہے۔ نیز فرماتے ہیں کہ حضورﷺ دراصل اپنے مخاطبین کو یہ تلقین کر رہے ہیں کہ کسی کے کفر کا فیصلہ کرتے ہوئے انتہائی احتیاط برتو ورنہ یہ نہ ہو کہ ”تم کسی کے بارے میں فیصلہ کرو“ اور وہ غلط ثابت ہوجائے۔ یہ بات بالبداہت غلط ہے۔ حدیث شریف کے الفاظ میں ایسا کوئی قرینہ نہیں کہ اسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ خاص کیا جائے۔ محمد حسن صاحب کسی قانون اتمام حجت کی جانب اشارے تو فرما رہے ہیں جس کی رو سے کسی کو کافر قرار دینے کا حق صرف اللہ تعالیٰ کو ہے، لیکن اسلام کی دینی روایت ایسے کسی ”قانون“ کو نہیں جانتی۔ اگر یہ فی الواقع قرآن مجید کی کسی آیت مبارکہ میں بیان ہوا ہے تو انہیں وہ آیت کریمہ پیش کرنی چاہیے تھی۔

    دوسری حدیث شریف مسلمانوں کو حکمرانوں کی اس وقت تک اطاعت کرنے کا حکم دیتی ہے جب تک کہ ان سے کھلے کفر کا ارتکاب نہ ہو۔ محمد حسن صاحب کا دعویٰ ہے کہ اس حدیث میں حکمران کی تکفیر کا ذکر نہیں ہے بلکہ حکمران کے بارے میں”فعل کفر“ کا فیصلہ کیا جا رہا ہے۔ معلوم نہیں محمد حسن صاحب قرآن مجید کی آیت مبارکہ (۴:۵۹) کی کیا شرح فرمائیں گے جس میں حکم ہے کہ مسلمان ان حکمرانوں کی اطاعت کے پابند ہیں جو تم میں سے (منکم) ہوں، یعنی مسلمان ہوں۔ اگر ہم کسی حکمران کی تکفیر کا فیصلہ ہی نہیں کر سکتے تو کسی حکمران کے”کفر“ کی وجہ سے اس کی اطاعت سے کیسے نکل سکتے ہیں؟ قرآن مجید میں اس کی کیا دلیل ہے؟ ارتداد سے متعلق حدیث شریف پر بھی انہوں نے جو معارضہ کیا ہے، اس کے حق میں کوئی نصوص پیش نہیں کیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ قرآن مجید سے ثابت کرتے کہ یہ آیت ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ارتداد کی سزا آپ ﷺ کے عہد تک، یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور تک نافذ رہے گی، بعد میں منسوخ ہو جائے گی۔ دعویٰ کیا ہے، دلیل نہیں دی۔

    احادیث کی رکیک تاویلات کرتے ہوئے محمد حسن صاحب نے ہم سے یہ فرمائش بھی کی ہے کہ اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو تو کسی کو کافر قرار دینے کی دلیل کے طور پر کوئی ایسی روایت پیش کرو ”جس میں رسول اللہ قیامت تک کے مسلمانوں کو یہ حکم دیں کہ تمھیں حق ہے کہ تم لوگوں کو ان کے کفر کی وجہ سے کافر قرار دیتے رہنا۔“ عرض ہے کہ اگر دین کے احکام کے لیے یہ شرط عائد کر دی جائے کہ ان سب میں یہ الفاظ ہونے چاہییں کہ یہ حکم ”قیامت تک کے مسلمانوں کے لیے ہے“، تو روزہ و حج سمیت ایک فیصدی احکامات بھی سلامت نہیں بچیں گے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے تمام احکام ابدی ہوتے ہیں، الا یہ کہ اس کے خلاف کوئی دلیل قرآن و حدیث میں موجود ہو۔ محمد حسن صاحب نے یہ اصول الٹا دیا ہے، تاکہ جب چاہیں شرائع میں سے کسی کو بھی ”عارضی“ قرار دے دیں، اور اس طرح دین کو تحکم کی بنا پر سکیڑنے کی گنجائش پیدا ہو جائے۔ یہ وہی ”Minimalism“ ہے جو تمام استعماری فرقوں کا امتیازی وصف ہے۔

    قرآن و حدیث میں تکفیر کی حلت کے اتنے واضح دلائل ہیں کہ فکر فراہی کے ”۲/ عدد اکابرین“ میں سے ایک، یعنی امین احسن اصلاحی بھی تکفیر کے جواز کے قائل ہیں۔ نادر عقیل انصاری صاحب نے سورہ الکافرون کی ذیل میں تدبر قرآن سے اصلاحی صاحب کا ایک اقتباس نقل کیا تھا جس میں وہ لکھتے ہیں کہ اس سے ”ہمارے لیے یہ تعلیم نکلتی ہے“ کہ تکفیر جائز ہے۔ امین احسن اصلاحی جدید دور میں تکفیر کا اختیار سیکولر قومی ریاست کے بجائے علماء کو دیتے ہیں، بلکہ اسے علماء کی ذمہ داری قرار دیتے ہیں۔ وہ خود بھی قادیانیوں اور منکرینِ حدیث کی تکفیر کے قائل ہیں۔ تاہم محمد حسن صاحب نے امین احسن اصلاحی کا تذکرہ بہت سمجھداری سے نظرانداز کر دیا ہے، اس پر ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ ”اسلام اور ریاست۔ ایک جوابی بیانیہ“ میں غامدی صاحب کا ارشاد ہے: ”جو صورتحال انتہاپسند تنظیموں نے اپنے اقدامات سے اسلام اور مسلمانوں کے لیے پوری دنیا میں پیدا کر دی ہے، یہ اُسی فکر کا مولود فساد ہے جو ہمارے مذہبی مدرسوں میں پڑھا اور پڑھایا جاتا ہے“۔ تکفیر کا جواز بھی اسی انتہا پسند فکر کا حصہ ہے۔ اب کیا کیجیے کہ اس انتہا پسند فکر کے فروغ میں المورد کے ”دو عدد اکابرین“ میں سے ایک، یعنی مولانا امین احسن اصلاحی بھی شامل ہیں۔ مولانا امین احسن اصلاحی کی اجتہادی شان اور ”امامت ثانیہ“ کا صور اتنے عرصے سے پھونکا جا رہا ہے کہ محمد حسن صاحب کے لیے یہ بات شاید پریشانی کا باعث تھی، کہ امین احسن اصلاحی کو انتہا پسندی کے مولود فسانے کا مصنف قرار دیں۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ اعتراف کر لیں کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کو فروغ دینے والا مولود فسانہ لکھنے میں خود فکر فراہی کے اکابرین بھی شامل ہیں!
    محمد حسن صاحب کی اس تحریر میں فقط اصلاحی صاحب سے احتراز نہیں برتا گیا، بلکہ نادر صاحب کی طرف سے پیش کی گئی دو روایتوں کو بھی موضوع بحث نہیں بنایا گیا۔ وجہ یہ ہے کہ ان احادیث شریفہ کی ویسی ٹوٹی پھوٹی تاویلات بھی کرنا ممکن نہ تھا، جیسی بقیہ تین احادیث کے حصے میں آئی ہیں۔ ان احادیث مبارکہ میں ایک صحابی کے الفاظ ہیں: ”فصاروا کفاراً“ یعنی یہ گروہ کافر ہو گیا ہے۔ اسی طرح دوسری روایت میں نبیﷺ نے امت کو کچھ ایسےگروہوں کی خبر دی ہے جو اسلام لانے کے بعد کافر ہو جائیں گے۔ ظاہر ہے کہ خبر دینے کا مقصد یہی ہے کہ مسلمان انہیں ”کافر“ قرار دیں، اور ان سے کافروں والا معاملہ ہی کریں۔ ان سے بھی تکفیر کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ ان روایات پر بھی ہم محمد حسن صاحب کے قیمتی تبصرے سے محروم رہے ہیں۔

    جہاں تک صوفیاء اور عامۃ المسلمین کی تکفیر کا تعلق ہے تو اس پر جاوید غامدی صاحب کی عبارتیں بالکل واضح ہیں، کہ وہ تمام یا اکثر امت کو دائرہ دین سے خارج سمجھتے ہیں، اور ان کے ساتھ جو معاملہ کرتے ہیں وہ دراصل تکفیر سے شدید تر ہے، جس کے چار دلائل نادر عقیل انصاری صاحب نے پیش کیے ہیں۔ اس سلسلے میں جو تاویلات یہ لوگ پیش کر رہے ہیں وہ رکاکت کے سبب لائق التفات نہیں ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ محمد حسن صاحب کچھ بھی کہیں، سب دیکھ رہے ہیں کہ اس فرقے کے متبعین میں سے اکثر لوگ جاوید غامدی صاحب کے فتوے کا وہی مطلب لے رہے ہیں جو نادر عقیل انصاری صاحب نے بیان کیا ہے، یعنی یہ کہ صوفیائے کرام دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ معلوم ہے کہ تمام صوفیاء کی تکفیر سے اکثر امت مسلمہ دین کے دائرے سے نکل جاتی ہے، کیونکہ امت کی اکثریت کسی نہ کسی صاحب دل صوفی سے وابستہ ہے۔ اور جو انتہاپسند ساری امت کی تکفیر کرے، اس کے بارے میں کوئی شک نہیں کہ وہ اس اعتبار سے خوارج، قادیانیوں، اور داعش سے فکری اشتراک رکھتا ہے، اور اُن جیسے انتہا پسندانہ اور متشددانہ نظریات کا پرچار کر رہا ہے۔

    محمد حسن صاحب اور غامدی صاحب کے مضامین میں البتہ بہتری اور اصلاح کا ایک پہلو قارئین کو دیکھنا چاہیے۔ اور وہ یہ کہ دونوں حضرات اصل نزاع کے معاملے میں پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ اپنے مضمون ”مسلم اور غیر مسلم“ میں غامدی صاحب نے صوفیاء کی گمراہی بیان کرتے ہوئے ”متوازی دین“ کی اصطلاح استعمال کرنے سے سختی سے پرہیز کیا ہے۔ اور محمد حسن صاحب بھی، اب نزول فرما کر ”متوازی دین“ کے بجائے ”متوازی فکر“ کی ترکیب پر آ گئے ہیں۔ یہ نادر عقیل انصاری صاحب کی تنقید کے اولین ثمرات ہیں۔ لیکن یہ کافی نہیں۔ ہماری رائے میں ان حضرات کو اپنے کلمات تکفیریہ سے علانیہ رجوع کرنا ہوگا، اور عامۃ المسلمین سے معذرت کرنی ہوگی۔ اُسی صورت میں امتِ مسلمہ کی تکفیر کا داغ ان کے دامن سے دُھل سکتا ہے۔

    ہم نے اس مضمون میں نادر عقیل انصاری صاحب کے مضمون پر لائے جانے والے اعتراضات کا جائزہ لیا ہے۔ جاوید غامدی صاحب اور محمد حسن صاحب نے نادر عقیل انصاری صاحب کے اٹھائے گئے زیادہ تر نکات سے تعارض نہیں کیا، بلکہ مسئلہ تکفیر پر اپنے اکابرین (امین احسن اصلاحی) کے موقف کا ارادتاً اخفا کیا ہے۔ محمد حسن صاحب نے قرآن مجید سے تکفیر کی ممانعت کے حق میں کوئی نص پیش نہیں کی، نہ اصل الاشیاء الاباحۃ پر کلام فرمایا ہے۔ جن احادیث مبارکہ کی انہوں نے تاویل کی ہے، اس کی کوئی دلیل قرآن مجید یا احادیث مبارکہ سے پیش نہیں کی۔ کیا یہی وہ مبلغِ علم ہے جس کی بنا پر امت کی محکم روایات سے خروج کی جسارت کی جا رہی ہے؟

    حوالہ:
    (۱): دیکھیے:
    Phil Zuckerman, “Atheism: Contemporary Numbers and Patterns,” in The Cambridge Companion to Atheism, ed. Michael Martin (New York: Cambridge University Press, 2007), 47-68


  • غیرمسلم کو کافر کیوں نہیں کہا جا سکتا؟ محمد تہامی بشر علوی

    غیرمسلم کو کافر کیوں نہیں کہا جا سکتا؟ محمد تہامی بشر علوی

    %d9%85%d8%ad%d9%85%d8%af-%d8%aa%db%81%d8%a7%d9%85%db%8c-%d8%a8%d8%b4%d8%b1-%d8%b9%d9%84%d9%88%db%8c سوال اٹھایا گیا کہ قرآن مجید میں ابتداء میں نازل ہونے والی سورہ ”المدثر“ میں اتمام حجت سے قبل ہی اسلام نہ لانے والوں کو کافر قرار دیا جا چکا تھا، تو یہ کہنا کیسے درست ہے کہ کافر کہنے کے لیے اتمام حجت ضروری ہے؟ اس سوال میں کن امور کو خلط کر دیا گیا اس کا جائزہ جواب میں لیا جاتا ہے۔

    جواب:
    چند بنیادی نکات کو پیش نظر رکھنا تفہیم مدعا کے لیے ضروری ہے۔
    اتمام حجت:
    کا مفہوم یہ ہے کہ کسی فرد پر حق پوری طرح واضح ہو جائے۔ حق کے پوری طرح واضح ہونے کے مختلف داخلی اور خارجی ذرائع ہو سکتے ہیں، جس پر کسی بھی طریقہ سے حق واضح ہوگیا اس پر اتمام حجت ہوگیا۔
    مسلم، کافر:
    اتمام حجت کے بعد جو حق قبول کر گیا وہ مسلم جو انکار کر گیا وہ کافر۔
    جزاء و سزا:
    اتمام حجت کے بعد کفر و اسلام کی سزا و جزاء اصلاً تو آخرت میں ملنی ہے، مگر اتمام حجت اگر رسول کے ذریعہ سے ہوا ہو تو ان منکرین پر اخروی سزا کی ایک جھلک دنیا میں بهی ظاہر کر دی جاتی ہے۔
    سورہ المدثر:
    ان آیات میں کسی گروہ کو ”کافر قراردے کر“ اس کاحکم نہیں بیان کیا جا رہا بلکہ ”کفر اختیار کرنے کی صورت میں“ یہ انذاز عام کیا جا رہا ہے کہ ایک دن آنے والا ہے جو کافروں کے لیے سخت ثابت ہو گا۔ اس عموی انذار کے وقت کہے گئے ”کافرین“ کے مصداق کا اس وقت مفقود ہونا گو کلام کی صحت کو مانع نہ تھا، مگر واقعہ یہ ہے کہ خارج میں مصداق بھی موجود تھا۔
    مثال اس کی ایسے ہے جیسے کلاس میں استاد طلبہ سے یہ کہے کہ
    ”امتحان آنے والا ہے، نہ پڑھنے والے اس دن ناکام ہو جائیں گے.“
    اس جملے کا مطلب یہ نہیں کہ کلاس کے کچھ طلبہ کو ”نہ پڑھنے والا“ ثابت کیا جا رہا ہے۔ ”نہ پڑھنے والوں“ کا مصداق مفقود ہو اور ساری کلاس ہی پڑھنے والی ہو، پھر بھی یہ جملہ اپنے مقصد کے پیش نظر برمحل اور درست قرار پائے گا۔ مگر مصداق کا موجود ہونا بھی اس طرح کلام کرنے سے مانع نہیں۔ اس بات کا امکان بھی ہے کہ کلاس میں ”نہ پڑھنے“ والے بھی موجود ہوں۔ یوں ایک عمومی طور پر کہی گئی بات ان ”نہ پڑھنے والوں“ کے لیے خصوصی بھی بن جائے گی۔ لیکن کلام کا محل یہ نہیں ہو گا کہ “استاذ نے ناکام ہونے والےچار لڑکوں کو ”نہ پڑھنے والا قرار دیا“، بلکہ درست محل یہ ہو گا کہ
    ”استاد نے نہ پڑھنے والوں کو ناکام قرار دیا، اور چار لڑکے نہ پڑھنے والے نکلے.“
    پہلی صورت میں کلام کے برمحل ہونے کے لیے ”نہ پڑھنے والوں کا خارج میں موجود“ ہونا ضروری ہے۔ جبکہ دوسری صورت میں ”نہ پڑھنے والوں کا موجود ہوناضروری نہیں۔“
    ”المدثر“ میں کلام کا محل یہی دوسری صورت ہے کہ جو منکر ہوں گے قیامت کو ناکام ہوں گے۔ سورہ کے ترجمہ پر ہی نظر ڈالنے سے یہ امر واضح ہوجاتا ہے۔ ان عمومی آیات کے بعد اس سے اگلی آیات میں بعض مفسرین بطور خاص ولید بن مغیرہ کو مراد لیتے ہیں ۔ یہ ایسے ہی ہے کہ عمومی انذار کی خاطر کہے گئے جملے کا ایک خصوصی مصداق بھی میسر آگیا۔ اور اس مصداق سے باخبر ذات نے بتا دیا کہ ”کافرین“ کو جس انجام سے ڈرایا گیا اس کا مصداق ولید بھی ہے۔ جب ”ولید کا کافر ہونا“ اور ”اس کے کافر ہونے کا علم ہو جانا“ ثابت ہو گیا تو اسے ”کافر کا مصداق کہناکسی طرح غلط نہیں“۔ اب رہا ولید کا معاملہ سو وہ ”تفسیر عثمانی“ کے نقل کردہ خصائل کی روسے اس کا جانتے بوجھتے حق کا انکار کرنا پوری طرح ثابت ہو چکا تھا۔ خدا نے اسے کفر اختیار کیے بغیر ہرگز کافر قرار نہیں دیا۔ ولید کے احوال جان لینے کے بعد اس امر میں کوئی شک باقی نہیں رہ جاتا۔ مدعا کی مزید تفہیم کے لیے ضروری ہے کہ تکفیر، اتمام حجت اور کفر کی دنیوی سزا کے مسئلہ کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے۔

    توضیح:
    جس پر جب بھی کسی بھی طریقے سےحق واضح ہو گیا پھر وہ انکار کر جائے تو کافر ہو جاتا ہے۔ کافر ہو جانے کے لیے، جانتے بوجھتے حق کا انکارکر دینا کافی ہے۔ البتہ کس نے جانتے بوجھتے انکار کیا اس کا علم خدا کے سوا کسی کو نہیں۔ اس لیے علم کے بغیر کافر کہنے سے اجتناب کیا جانا چاہیے۔ خدا کو چوں کہ علم ہے سو وہ جب بھی کوئی جانتے بوجھتے انکار کرے اسے کافر کہہ سکتا ہے۔ گویا ”کسی کا کافر ہوجانا“ اور بات ہے اور”کسی کے کافر ہو جانے کا علم ہو جانا“ اور بات ہے۔ جس کے کافر ہو جانے کا جسے علم ہو جائے، وہ کافر کہہ بھی سکتا ہے۔ اٹھائے گئے سوال میں ”کافر ہو جانے“ کی سطح کے ”اتمام حجت“ کو اور ”دنیا میں خدائی سزا“ کے مستحق بن جانے کے درجے کے ”اتمام حجت“ کو ایک سمجھ لیا گیا ہے۔ جبکہ اول عام اور ثانی رسولوں کے ساتھ خاص ہے۔

    المختصر:
    اتمام حجت کے بغیر کوئی کافر نہیں ہوتا۔
    اتمام حجت کے مختلف ذرائع ہیں، کسی بھی ذریعے سے حق واضح ہو جائے تو اتمام حجت ہو جاتا ہے، اس کے بعد حق کا انکار کفر ہے۔
    کافر ہونے کے لیے حق کا جانتے بوجھتے انکار کرلینا کافی ہے۔رسول کا براہ راست مخاطب ہونا ضروری نہیں۔
    کافر کہنے کے لیے کافر ہو جانے کا علم ہو جانا ضروری ہے۔
    اتمام حجت رسولوں کے ذریعہ ہو جائے تو خدا کفر کی اخروی سزا کی ایک جھلک دنیا میں بھی ظاہر کر دیتا ہے۔
    کافر کا وجود اب بھی نایاب یا ناپید نہیں، بس اتنا ہے کہ اب پیغمبر کے بعد حتمی طور پر اس کے وجود کی خبر انسانوں کو ہو جانے کی خود اس کافر کے اقرار کے سواکوئی صورت نہیں۔ کوئی خود یہ اقرار کر دے کہ میں جانتے بوجھتے حق کا انکار کر رہا ہوں تو اسے آج بھی بلا تردد کافر کہا جا سکتا ہے۔
    کافر کہنے سے اجتناب اس لیے برتا جاتا ہے کہ جسے کافر کہا جا رہا ہے اس کا کہنا ہے کہ وہ جانتے بوجھتے حق کا انکار نہیں کر رہا، بلکہ جس چیز کو حق سمجھ رہا ہے، اسی سے وابستہ ہے۔ اور وہ خود کے لیے کافر کا لقب پسند بھی نہیں کرتا۔ دنیا میں کافر کا اطلاق محض دنیوی احکام میں فرق کی مصلحت کی خاطرکیا جاتا ہے۔ یہ مقصد اور موزوں تعبیر سے حاصل ہو پائے تو دین میں ممنوع نہیں۔ ہمارے نزدیک دیگر مذاہب والوں کو ان کے مذاہب کی نسبت مسیحی، ہندو وغیرہ تعبیر کرنا یا عمومی تقسیم میں مسلمانوں کے علاوہ کو ”غیر مسلم“ کا عنوان دے دینا زیادہ موزوں ہے۔

  • ”غامدیانہ کافر“ بمقابلہ اصل کافر – اسرار احمد خان

    ”غامدیانہ کافر“ بمقابلہ اصل کافر – اسرار احمد خان

    اسرار احمد خان غامدی صاحب کے بقول کافر صرف وہ ہے جو جان بوجھ کر اسلام کو نہ مانے، چونکہ یہ جاننے کا ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں تو اس دور میں کوئی کافر نہیں یعنی غامدیانہ کافر کی علت ”جان بوجھتے“ کفر کی ہے.

    لیکن قرآن کافروں کی مختلف قسمیں بتاتا ہے، کچھ کافروں کے کفر کی یہ وجوہات بتائی گئی ہیں:
    ایک وہ کافر جو حق کو پہچان کر نہ مانیں.
    ”جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اس بات کو اس طرح غیر مشتبہ طور پر پہچانتے ہیں جیسے ان کو اپنے بیٹوں کے پہچاننے میں کوئی اشتباہ پیش نہیں آتا.“ سورۃ الانعام

    جو دنیا کے کھیل تماشے میں اتنے مگن ہوں کہ حق جاننے ماننے کی طرف کبھی توجہ ہی نہ دی ہو.
    ”ان کے پاس جو تازہ نصیحت ان کے ربّ کی طرف سے آتی ہے، اُس کو بے تکلف سُنتے ہیں اور کھیل میں پڑے رہتے ہیں، دل اُن کے ( دوسری ہی فکروں میں) منہمک ہیں۔“ سورة الانبیاء

    جنہیں قرآن نے متاثر ہی نہیں کیا، ان کا قول ہے کہ یہ تو بس قصے کہانیاں ہیں.
    ”اور جب کوئی ان سے پُوچھتا ہے کہ تمہارے ربّ نے یہ کیا چیز نازل کی ہے، تو کہتے ہیں وہ تو اگلے وقتوں کی فرسُودہ کہانیاں ہیں۔“ یہ باتیں وہ اس لیے کرتے ہیں کہ قیامت کے روز اپنے بوجھ بھی پُورے اُٹھائیں، اور ساتھ ساتھ کچھ اُن لوگوں کے بوجھ بھی سمیٹیں جنہیں یہ بر بنائے جہالت گمراہ کر رہے ہیں ” سورۃ النحل

    ایک وہ کافر جو کہتے ہیں یہ سب قدرتی ہوتا ہے، جیسے ہم پیدا ہوئے ویسے ہی مر جائیں گے، دوبارہ اٹھانا وغیرہ ناقابل یقین باتیں ہیں.
    ”یہ لوگ کہتے ہیں کہ زندگی بس یہی ہماری دنیا کی زندگی ہے، یہیں ہمارا مرنا اور جینا ہے اور گردشِ ایام کے سوا کوئی چیز نہیں جو ہمیں ہلاک کرتی ہو۔“ درحقیقت اِس معاملہ میں اِن کے پاس کوئی علم نہیں ہے۔ یہ محض گمان کی بنا پر یہ باتیں کرتے ہیں۔“سورۃ الجاثیۃ

    گورے گورے، خوبصورت اور امیر انگریزوں اور انگریزنیوں کو کافر کہتے دل تو میرا بھی بڑا کھٹا ہوتا ہے، ان کے لیے کوئی گنجائش نکالی جائے تو کچھ ”مضائقہ“ بھی نہیں. بقول ممنون حسین ان کے لیے غامدی صاحب سے گزارش ہے کہ کوئی گنجائش نکالیں.

  • غامدی صاحب کاجوابی بیانیہ، تکفیر کے مسئلے پر فکری انتشار – طارق محمود ہاشمی

    غامدی صاحب کاجوابی بیانیہ، تکفیر کے مسئلے پر فکری انتشار – طارق محمود ہاشمی

    %d8%b7%d8%a7%d8%b1%d9%82-%d9%85%d8%ad%d9%85%d9%88%d8%af-%db%81%d8%a7%d8%b4%d9%85%db%8c تکفیر کے جواز کے بارے میں بعض متجددین نے ایک خلطِ مبحث پیدا کر دیا ہے، اسی سلسلے کی ایک کڑی جاوید غامدی صاحب کا ”جوابی بیانیہ“ بھی ہے، جس میں تکفیر کے مسئلے میں متشددانہ نقطہ اختیار کیا گیا ہے۔ ایک تو تکفیر کو سرے سے ممنوع قرار دیا ہے جس کی غرض یہ معلوم ہوتی ہے کہ قادیانیوں کی تکفیر کا فیصلہ معرض شک میں ڈال دیا جائے۔ دوسری طرف وہ تمام صوفیائے کرام کے ساتھ یہ معاملہ کرتے ہیں کہ انہیں اسلام سے مختلف، مقابل اور متوازی دین کا پیروکار قرار دیتے ہیں، جس کی کتاب بھی قرآن مجید کے مقابل کوئی اور ہے، اور شریعت بھی اسلامی شریعت سے مختلف ہے۔ یہ ان کی اور ان کی معتقد اکثر امتِ مسلمہ کی تکفیر سے بھی اشد حکم ہے۔ گزشتہ دنوں نادر عقیل انصاری صاحب نے، جاوید غامدی صاحب کے ”جوابی بیانیے“ کے ضعفِ استدلال پر ایک تنقید لکھی، جس پر کچھ اور صاحبانِ قلم نے ان کی تائید کی۔ نادر صاحب کے مضمون کے جواب میں جاوید غامدی صاحب کا ایک مضمون ”مسلم اور غیر مسلم“ کے عنوان سے دلیل میں شائع ہوا۔ ان کے داماد محمد حسن نے بھی اس کا جواب دیا. غامدی صاحب کے ”جوابی بیانیے“ اور ان کی تحریر ”مسلم اور غیر مسلم“ پر اپنے تحفظات کے بیان کے لیے، کچھ معروضات پیش خدمت ہیں۔

    قرآن مجید فرقان حمید کی تعلیمات، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشادات، صحابہ کرامؓ کے اجماع اور تعامل، تابعین کے فرمودات اور روایات، اور فقہاء امت کی تنقیح کے مطابق، اسلام کے ابلاغ کے بعد اتمامِ حجت ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد لوگ دو گروہوں میں منقسم ہو جاتے ہیں: مسلم اور کافر۔ آخرت میں اسلام اور کفر کی جزا و سزا کے بہت سے درجات ہیں۔ لیکن دُنیا میں شریعت کے معاملات کو نمٹانے کے لیے فقط دو ہی درجے ہیں – اسلام یا کفر – تیسرا کوئی درجہ نہیں۔ استعماری فقہ تصنیف کرنے والے بعض متجددین نے اپنی طرف سے ایک تیسرا درجہ بنایا ہے – یعنی ”غیر مسلم“، جو مومن تو نہیں ہے، لیکن کافر بھی نہیں ہے! اِن لوگوں کے پاس قرآن مجید یا احادیث مقدسہ کی کوئی دلیل نہیں ہے، نہ انہوں نے پیش کی ہے۔ در حقیقت اس معنی میں یہ اصطلاح، عہد جدید ہی میں ایجاد ہوئی ہے، اور قرآن مجید میں کہیں استعمال نہیں ہوئی۔

    اب سوال یہ ہے کہ چونکہ ہم نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ آخرت میں کسی شخص معیّن کے معاملے میں کیا فیصلہ فرمائے گا، تو کیا اس وجہ سے، ہم کسی کی تکفیر ہی نہیں کر سکتے؟ بعض جدید مبتدعہ نے اس کا جواب دیا ہے کہ ہم کسی کی تکفیر نہیں کر سکتے۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ کافر قرار دینے کا مطلب ہے اسے دوزخی قرار دینا، اور تکفیر کا مطلب ہے کسی کو دوزخ کی وعید سنانا۔ اور چونکہ ہم یہ نہیں جان سکتے کہ کون دوزخ میں جائے گا، لہذا کسی کی تکفیر کرنا جائز نہیں۔ ان حضرات کا یہ مقدمہ فاسد ہے، اور استدلال خام ہے، بالخصوص ان لوگوں کے قلم سے، جو خود تقریباً تمام امتِ مسلمہ کے ساتھ تکفیر سے بھی اشد معاملہ کر چکے ہوں، اور انہیں ”اسلام سے مختلف اور اس کے مقابل“ ایک ”متوازی دین“ کا پیروکار بتاتے ہوں۔ اُن کے استدلال کی غلطی واضح کرنے کی ضرورت ہے۔

    دنیا میں فیصلہ ظاہر کے مطابق، شہادتوں کی بنا پر ہوتا ہے، جیسے قتل و زنا کے مقدمات میں قضاۃ فیصلہ دیتے ہیں۔ قرآن مجید کی رُو سے، مسلمان کو قتل کرنے کا بدلہ دوزخ ہے۔ لیکن جب ایک قاضی، کسی کو قتل کے جرم میں شہادتیں ملنے پر قصاص کے تحت سزائے موت دیتا ہے، تو سزا یافتہ شخص کی آخرت پر کوئی حکم نہیں لگاتا۔ فیصلے میں یہ نہیں لکھتا کہ یہ دوزخی ہے، بس یہ کہتا ہے کہ شہادتوں سے جرم ثابت ہو گیا، یہ قاتل ہے، اور دنیا میں اس کے لیے شریعت نے سزائے موت کا حکم دیا ہے، لہذا اسے یہ سزا دی جائے گی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق، دِلوں کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے۔ یہی معاملہ تکفیر کا بھی ہے۔ کفر کا فیصلہ بھی شہادتوں پر ہوتا ہے۔ اگر کوئی ضروریاتِ دین کا انکار کر دے، تو اس کی تکفیر قضا و افتاء کا معاملہ ہے، جس میں تمام تر انحصار شہادتوں پر ہے۔ تکفیر کرتے ہوئے یہ کہا جاتا ہے کہ یہ شخص ضروریاتِ دین کا انکار کرنے کی وجہ سے، کافر ہو گیا، امتِ محمد ﷺ سے خارج ہوگیا۔ اب اس پر اتداد کی وہی سزا نافذ ہوگی جو اسلام کی ابدی شریعت میں بتائی گئی ہے۔ اگر ارتداد کا قانون اس ملک میں نہ ہو، یا وہ کسی اور وجہ سے اس سزا سے بچ جائے، تو اس کی شادی بیاہ، وراثت، اور تدفین وغیرہ پر، وُہی احکام عائد ہوں گے جو کفار پر عائد ہوتے ہیں۔

    رہا یہ سوال کہ یہ شخص دوزخی ہے یا نہیں، تو واضح رہے کہ تکفیر کے حکم کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں۔ جو لوگ تکفیر کے مسئلے میں یہ خلط مبحث پیدا کر رہے ہیں وہ معاملے سے واقف ہی نہیں ہیں۔ معاملہ یوں نہیں ہے کہ جب مفتی و قاضی کسی کی تکفیر کرتے ہیں تو گویا اس کے دوزخی ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ کسی معین شخص کے معاملے میں یہ بات تو علم غیب کے بغیر ممکن نہیں۔ چنانچہ کسی کے بارے میں یہ فیصلہ نہیں کیا جاسکتا کہ وہ دوزخی ہے، البتہ اسے کافر قرار دیا جا سکتا ہے۔

    اس کے لیے اب ہم مشہور حنفی متکلم و محقق، امام ابن ابی العز حنفی رحمۃ اللہ علیہ کی رائے پیش کرتے ہیں۔ اس کا سیاق و سباق کچھ یوں ہے کہ امت کے جہانِ علم و معرفت کے دو درخشاں ستاروں، حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے شاگرد حضرت امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ کے درمیان بڑے عرصے تک بحث رہی کہ آیا وہ شخص جو قرآن مجید کو مخلوق کہتا ہے، کافر ہے یا نہیں؟ ابتدا میں حضرت امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کا رجحان اس طرف تھا کہ اسے کافر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ بعض روایات کے مطابق چھ ماہ اور بعض روایات کے مطابق فاضل استاذ اورشاگرد کے درمیان یہ بحث ایک سال تک چلی۔ حضرت امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بالآخر ہمارا اتفاق اس پر ہوا کہ قران مجید کو مخلوق کہنے والا کافر ہے۔ شرح العقیدۃ الطحاویہ، کے مصنف، علامہ صدر الدين محمد بن علاء الدين علی بن محمد ابن أبی العز الحنفی رحمۃ اللہ علیہ اس واقع کو ذکر کرنے کے بعد، مسلمان کی تکفیر کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
    ”جب کسی شخصِ معین کے بارے میں پوچھا جائے کہ کیا تم اسے اہل وعید (یعنی جہنمیوں) میں شمار کرتے ہو؟ کیا تم اسے کافر قرار دیتے ہو؟ تو ہم یہ بات نہیں کہتے، الا یہ کہ کوئی ایسی بنیاد ہو جس پر یہ حکم لگایا جا سکے (مثلاً، کسی شخص کے بارے میں کوئی نص ہی موجود ہو، جیسے ابولہب!)۔ اللہ کے مقابل سرکشی کی سب سے بری شکل یہ ہے کہ آپ ایک شخص ِمعین کے بارے میں یہ حکم لگائیں کہ اللہ اُسے نہیں بخشیں گے، اور اُس پر رحم نہیں فرمائیں گے، بلکہ اسے ابدی جہنم میں ڈال دیں گے۔ (کسی شخص معین کے بارے میں ہم یہ نہیں کہہ سکتے، حالانکہ ہم اصول میں جانتے ہیں کہ) کافر کے ساتھ موت کے بعد یہی تو ہو گا! [۔۔۔] ممکن ہے کہ ایسا شخص کسی اجتہادی غلطی کا مرتکب ہوا ہو، جس پر اللہ کی طرف سے معافی کا اعلان ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ تمام متعلقہ نصوص اُس شخص تک نہ پہنچ سکی ہوں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس شخص کا ایمان اتنا قوی ہو اور اس کی نیکیاں اتنی عظیم ہوں کہ وہ لازما ًاللہ تعالی کی رحمت کا حقدار قرار پائے۔ مثال کے طور پر اللہ تعالی نے اس شخص کی مغفرت فرما دی جس نے خوف احتساب کی وجہ سے کہا تھا: ”جب میں مر جاؤں تو مجھے جلا دینا اور میری راکھ بکھیر دینا۔“ اللہ تعالی نے اس کے کمالِ خوف کی وجہ سے اس کی مغفرت کر دی (کیونکہ آخرت کی سزا کا خوف اس کے گہرے ایمان کو ظاہر کرتا تھا)۔ حالانکہ (اس کی بات سے یہ بھی مترشح ہو رہا تھا کہ) وہ سمجھتا تھا کہ (اگر اسے جلا کر اس کی راکھ بکھیر دی جائے تو) اللہ تعالیٰ اس کی راکھ کو جمع کر کے اس کو پھر سے جمع کرنے کی قدرت نہیں رکھتا، یا اسے اس میں کم از کم شک ضرور تھا (اور اس کا خیال تھا کہ اس طرح وہ عذاب سے بچ جائے گا، یہ بات بظاہر کفریہ ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے پھر بھی اسے معاف کر دیا)۔
    (چنانچہ کسی کے ساتھ آخرت میں کیا ہوگا، اس پر ہمیں توقف کرنا چاہیے) لیکن، آخرت کے معاملے میں یہ توقف اس بات سے مانع نہیں ہے کہ ہم دنیا میں اس کا مؤاخذہ کریں، اُس کی بدعت کو پھیلنے سے روکیں، اور اس سے توبہ کا مطالبہ کریں، اگر وہ توبہ کرلے تو درست، ورنہ اسے قتل کر دیں!“ (حضرت علامہ صدر الدین محمد بن علاء الدین بن محمد ابن العز الحنفی رحمۃ اللہ علیہ، شرح العقیدہ الطحاویہ، صفحہ، ۲۹۹)۔

    اس کے بعد ایک ہی مسئلہ رہ جاتا ہے۔ اور وہ یہ کہ جس کو اسلام کی دعوت ہی نہیں پہنچی اس کا کیا حکم ہو گا؟ اس طرح کا شخص کبھی دارالاسلام میں تو ہو نہیں سکتا، کیونکہ اگر مل بھی گیا تو اتمامِ حجت کے لیے اسے اسلام کی دعوت دی جائے گی، اور ابلاغ کے بعد اگر اس نے اسلام قبول کر لیا تو درست، ورنہ کافر ہی سمجھا جائے گا۔ اسی طرح یہ بات بھی بہت بعید از قیاس ہے کہ دنیا میں آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جن کو کسی نبی کی یا آپ ﷺ کی نبوت کی خبر ہی نہیں پہنچی۔ تاہم، بالفرض، اگر کہیں دُور کسی علاقے میں ایسا کوئی شخص موجود بھی ہو، تو مسلمان اس پر مفتیانہ، یا عدالتی حکم لگانے کے پابند نہیں ہیں۔ ایمان و کفر کا حکم تو کسی شرعی حکم کے نفاذ ہی کے لیے لگایا جاتا ہے، کیونکہ بہت سے شرائع اس پر موقوف ہیں کہ کوئی شخص مسلمان ہے یا کافر۔ چونکہ اس شخص کا کوئی معاملہ کسی مسلمان سے ہو نہیں رہا، لہذا یہ ایک فرضی سا سوال ہے۔ بس یہ معلوم ہونا چاہیے، کہ قرآن مجید کے مطابق ہر شخص پر ایمان باللہ واجب ہے، خواہ اسے کسی نبی کی دعوت نہ پہنچی ہو، کیونکہ عہد الست (سورہ اعراف: آیت ۱۷۲) کے ذریعے انسان کو بتا دیا گیا تھا کہ تمہارا رب کون ہے، اور یہ بھی کہ اب تمہارا کوئی عذر آخرت میں قبول نہیں کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے لیے کسی نبی کی دعوت پہنچنی ضروری نہیں۔ انسان ہر حال میں ایمان باللہ پر ماخوذ ہوگا، البتہ اس سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ وہ اشراق کی نماز پڑھتا تھا یا نہیں، کیونکہ اسے اس کا ابلاغ ہی نہیں ہُوا، نہ وہ اس کا مکلّف تھا۔

    اس کے برعکس دور جدید میں متجددین نے یہ متشددانہ رائے قائم کی ہے کہ لا مذہب (irreligious)، دہریوں (atheist)، اور لاادریت (agnostic) کے قائلین کے اوپر بھی اتمام حجت نہیں ہوا۔ لہذا انہیں” کافر“ کے بجائے ”غیر مسلم“ ہی کہا جائے گا۔ جاوید احمد غامدی صاحب لکھتے ہیں:
    ”اسلام کے سوا باقی تمام ادیان کے ماننے والوں کو غیر مسلم کہا جاتا ہے۔ یہی تعبیر اُن لوگوں کے لیے بھی ہے جو کسی دین یا مذہب کو نہیں مانتے۔ یہ کوئی تحقیر کا لفظ نہیں ہے، بلکہ محض اِس حقیقت کا اظہار ہے کہ وہ اسلام کے ماننے والے نہیں ہیں۔ اِنھیں بالعموم کافر بھی کہہ دیا جاتا ہے، لیکن ہم نے اپنی کتابوں میں بہ دلائل واضح کر دیا ہے کہ تکفیر کے لیے اتمام حجت ضروری ہے اور یہ صرف خدا ہی جانتا اور وہی بتا سکتا ہے کہ کسی شخص یا گروہ پر فی الواقع اتمام حجت ہو گیا ہے اور اب ہم اُس کو کافر کہہ سکتے ہیں۔ لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد یہ حق اب کسی فرد یا گروہ کو بھی حاصل نہیں رہا کہ وہ کسی شخص کو کافر قرار دے (جاوید احمد غامدی، مسلم اور غیر مسلم)۔“
    یہ تمام تقریر دینی اعتبار سے نہ صرف بےبنیاد ہے، بلکہ قرآن مجید کے صریح بیان کے بھی خلاف ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:

    [pullquote]وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آَدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَى أَنْفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَى شَهِدْنَا أَنْ تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَذَا غَافِلِينَ۔ وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آَدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَى أَنْفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَى شَهِدْنَا أَنْ تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَذَا غَافِلِينَ (172) أَوْ تَقُولُوا إِنَّمَا أَشْرَكَ آَبَاؤُنَا مِنْ قَبْلُ وَكُنَّا ذُرِّيَّةً مِنْ بَعْدِهِمْ أَفَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُونَ (اعراف:۱۷۲ تا ۱۷۳)۔[/pullquote]

    اور جب تمہارے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا، اور انہیں خود ان کے اوپر گواہ بناتےہوئے پوچھا تھا: کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ انہوں نے جواب دیا: ضرور آپ ہی ہمارے رب ہیں، ہم اس پر گواہی دیتے ہیں۔ یہ ہم نے اس لیے کیا کہ کہیں تم قیامت کے روز یہ نہ کہ دینا کہ ہم تو اس سے باخبر تھے۔ یا یہ نہ کہنے لگو کہ شرک کی ابتدا تو ہمارے باپ دادا نے ہم سے پہلے کی تھی اور ہم بعد کو ان کی نسل سے پیدا ہوئے، پھر کیا آپ ہمیں اس قصور میں پکڑتے ہیں جو غلط کار لوگوں نے کیا تھا؟ (سورہ اعراف: ۱۷۲ تا ۱۷۳)۔

    امت کا اجماع ہے کہ اس عہد الست کی وجہ سے منکرین خدا (لامذہب، دہریے، اور لاادریت کے قائلین) پر اتمام حجت ہو چکا ہے، انہیں اور کسی مزید دعوت و تبلیغ کی حاجت نہیں ہے۔ جاوید غامدی صاحب یہ ”روشن خیال اعتدال“ (Enlightened Moderation) پیش کرتے ہوئے یہ بھی فراموش کر بیٹھے کہ وہ اس سے قبل یہی بات لکھ چکے ہیں ، کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنے کے معاملے میں تمام بنی نوع انسان پر اتمام حجت ہو چکی ہے۔ لکھتے ہیں کہ جہاں تک توحید کا تعلق ہے، اس کے بارے میں ”مجرد اس اقرار کی بنا پر بنی آدم کا مواخذہ کیا جائے گا“ اور عہد الست میں کیے گئے وعدے سے ”انحراف کے لیے کسی کا یہ عذر خدا کے ہاں مسموع نہیں ہو گا کہ اسے کسی نبی کی دعوت نہیں پہنچی“ (البیان، جلد ۲، صفحہ ۲۴۲)۔ جاوید غامدی صاحب اب یہ لکھ رہے ہیں کہ ”صرف خدا ہی جانتا اور وہی بتا سکتا ہے کہ کسی شخص یا گروہ پر فی الواقع اتمام حجت ہو گیا ہے اور اب ہم اُس کو کافر کہہ سکتے ہیں۔ لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد یہ حق اب کسی فرد یا گروہ کو بھی حاصل نہیں رہا کہ وہ کسی شخص کو کافر قرار دے۔“ غامدی صاحب کی یہ بات دہریوں کے بارے میں اس لیے غلط ہے، کہ اللہ تعالیٰ ہمیں یہ بات قرآن مجید میں بتا چکا ہے کہ منکرین خدا پر اتمام حجت ہو چکا ہے، اور اللہ کا یہ فرمان تمام رہتی دنیا تک تمام بنی نوع انسان کے بارے میں ہے، کہ ان میں جو اللہ کا انکار کرے وہ اتمام حجت کے بعد ایسا کرتا ہے، لہذا کافر ہے۔ چنانچہ قرآن مجید کی رُو سے منکرینِ خدا غیر مسلم نہیں، کافر ہیں۔ اور یہاں پر بھی غامدی صاحب کا ”جوابی بیانیہ“ قرآن مجید سے متصادم ہے۔

    یہی نہیں، حجت الاسلام ابوحامد غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ”الاقتصاد فی الاعتقاد“ میں واضح کیا ہے کہ منکرین خدا (لامذہب، دہریے، اور لا ادریت کے قائلین) کے کفر کی شناعت مشرکین، یہود، نصاری اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں سے اشد ہے۔ امام صاحب دہریوں اور منکرینِ خدا (الدھریۃ المنکرین لصانع العالم) کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ لوگ نصاریٰ اور یہود کے مقابل، تکفیر کے زیادہ سزاوار ہیں۔ (فکانوا بالتکفیر اولیٰ من النصاریٰ و اليھود، و الدھریة اولیٰ بالتکفیر من البراھمۃ، امام غزالی، الاقتصاد فی الاعتقاد، صفحہ ۱۳۴)۔

    خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ہمارے دین میں انسانوں کو دو گروہوں میں تقسیم کیا گیا ہے: ”مسلم“ اور ” کافر“۔ غامدی صاحب کی اختیار کردہ اصطلاح ”غیر مسلم“ قرآن مجید میں کہیں استعمال نہیں ہوئی۔ قرآن و حدیث اور علماء و مجتہدین و صوفیائے عظام کے مطابق دوسرے مذاہب کے لوگ، بشمول لا مذہب، دہریے اور لاادریت کے قائلین بھی، اصول میں، کافر ہی سمجھے جائیں گے، بلکہ لا مذہب لوگوں کا کفر و انکار کسی غیر اسلامی مذہب کو ماننے والوں سے اشدّ ہے۔ اس اعتبار سے، جاوید غامدی صاحب کا ”جوابی بیانیہ“ اور ان کا مضمون ”مسلم اور غیر مسلم“ علمی و دینی اعتبار سے انتہائی کمزور استدلال پر مبنی ہے، اور قرآن مجید کے خلاف ہے۔
    ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب۔

  • کیا کسی کو کافر کہنا جائز نہیں؟ گروہ غامدی کی تاویلات (2) – محمد زاہد صدیق مغل

    کیا کسی کو کافر کہنا جائز نہیں؟ گروہ غامدی کی تاویلات (2) – محمد زاہد صدیق مغل

    زاہد مغل ان مخالف دلائل کے بعد اب غامدی صاحب اور ان کے مقلدین کی چند تاویلات کا جائزہ لیتے ہیں جو یہ حضرات اپنےدفاع کے لیے پیش کرتے ہیں۔

    1) کفر کا جوہر: ’انکار ایمان‘ یا ’عدم اقرار‘؟ درحقیقت غامدی صاحب کے نظریہ کفر کی بنیاد ہی غلط تصور پر قائم ہے۔ چنانچہ گروہ غامدی اس ضمن میں یہ دعوی کرتا ہے کہ ”کفر کا مطلب کسی عقیدے پر ہونا نہیں بلکہ یہ کسی دعوت یا عقیدے کے رد اور انکار کا نام ہے، پس جس پر اسلام کی اتمام حجت نہ ہوئی (جو اب ممکن نہیں) گویا اس کا انکار اسلام متحقق ہی نہ ہوا لہذا اسے کافر کہنا جائز نہیں۔“ اس دلیل کے اتمام حجت والے دوسرے حصے کا اوپر تجزیہ ہوچکا، یہاں ان حضرات کی اس پہلی بنا (کہ ”کفر کا مطلب کسی عقیدے پر ہونا نہیں بلکہ کسی دعوت یا عقیدے کے رد اور انکار کا نام ہے“) کا مختصرا جائزہ لیا جاتا ہے جس سے معلوم ہوگا کہ ان کی بنیاد میں ہی غلطی ہے۔ اس دعوے کے اندر دو دعوے پیوست ہیں : (الف) کفر کا جوہر حق کا انکار کرنا ہے، (ب) کفر کا معنی (حق کے علاوہ) کسی پوزیشن یا عقیدے پر ہونا نہیں۔ دونوں کا بالترتیب جائزہ پیش ہے۔

    الف) کفر کا لغوی معنی ”چھپانا“ ہے، ظاہری کافر کو کافر اسی لیے کہتے ہیں کہ وہ اس حقیقت کو چھپاتا ہے جو ”فی الاصل حقیقت نفسی ہے“، چاہے یہ چھپانا ارادتا ہو یا بغیر ارادہ۔ پس معلوم ہوا کہ کفر کا معنی ”ایمان حقیقی کا اقرار و اظہار نہ کرنا ہے“ یعنی ”کفر ایمان کا عدم وجود ہے“ نہ کہ ”ایمان کا انکار کرنا“، ’انکار بالارادہ‘ چھپانے اور ڈھانپنے کی اس کیفیت کو ’مغلظ‘ بنانے کا فائدہ تو دیتا ہے مگر یہ اس کا جوہر نہیں۔ یہی وہ بنیادی بات ہے جسے غامدی صاحب نے سمجھنے میں غلطی کی ہے۔ چنانچہ ایمان حقیقی کے علاوہ کسی دوسری پوزیشن یا عقیدے کو اختیار کرنا بذات خود اس بات کو لازم کرتا ہے کہ اس شخص نے اپنی اس پوزیشن یا عقیدے کے ذریعے ’حقیقت اصلی‘ کو ڈھانپ دیا، یعنی کفر کیا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ایمان کو چھپانے کا یہ عمل اس نے کس نظریے یا عقیدے کے تحت کیا، سمجھ بوجھ کر کیا یا نا سمجھی میں۔

    اس تفصیل سے یہ اشکال بھی خود بخود رفع ہوگیا کہ ’جن لوگوں تک حق کی دعوت پہنچی ہی نہیں انہیں کافر کیوں کہا جائے۔‘ اس ضمن میں دوسری بات یہ کہ آج اس دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا شخص تصور کیا جاسکتا ہو جس تک محمدﷺ کی بابت یہ خبر نہ پہنچی ہو کہ ان کے بارے میں دنیا کی ایک کثیر آبادی (مسلمان) ”رسول اللہ“ ہونے کا دعوی کرتی ہے (الحمدللہ مسلمان دنیا کے ہر خطے میں پائے جاتے رہے ہیں نیز ذرائع ابلاغ بھی عام ہوچکے)۔ آج دنیا گلوبل ویلیج بن جانے کے بعد تو تحقق کفر کے مواقع مزید بڑھ چکے ہیں، کیسے مان لیا جائے کہ کسی کو اسلام کا پتہ ہی نہیں چلتا؟ حج و نماز تراویح کی ادائیگی پوری دنیا میں نشر ہو رہی ہے مگر کسی کو معلوم نہیں ہو رہا کہ یہ کس مذہب کے شعائر ہیں؟ مسلمان جگہ جگہ کٹ مر رہے ہیں اور یہ خبریں پوری دنیا میں چل رہی ہیں مگر کسی کو خبر ہی نہیں ہو رہی کہ اسلام نامی کسی نظریے کے ماننے والے لوگ بھی اس دنیا میں بستے ہیں؟ مسلمانوں کی دعوتی و تبلیغی جماعتیں دنیا بھر میں گھوم پھر رہی ہیں مگر کسی کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ ان کا مسئلہ کیا ہے؟ بس سوچتے جائیے اور آپ کا دماغ چکرا جائے گا کہ ایک ہنگامہ برپا ہے مگر کسی کو کان و کان خبر نہیں ہو رہی کہ اسلام نامی کوئی نظریہ بھی وجود رکھتا ہے اور نہ ہی کسی میں اس کی طرف تحریک پیدا ہو رہی ہے۔ پس جب ہر کسی تک یہ خبر پہنچ چکی اور پھر بھی وہ اس کی تحقیق کی طرف مائل نہیں ہورہا (بلکہ اس کے سوا کسی دوسری پوزیشن کو اختیار کیے ہوا ہے) تو اس سے اس کا کافر ہونا (حقیقت کو چھپانا) مزید متحقق ہوگیا۔ علمائے متکلمین کی اصطلاح میں اسے ’کفر اعراض‘ کہتے ہیں، یعنی محمدﷺ کی طرف توجہ ہی نہ دینا۔ علامہ ابن قیم’’کفرِاَکبر‘‘ کی ممکنہ صورتوں کا ذکر کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں’ (مدارج السالکین شرح منازل السائرین ج 1 ص 347 ، دارالکتاب العربی)
    ”رہا کفرِ اعراض تو وہ یہ ہے کہ آدمی اپنے کان بھی رسول کی جانب سے پھیر لے اور اپنے دل کی توجہ بھی؛ نہ وہ رسول کی تکذیب کرے اور نہ تصدیق۔ نہ وہ رسول کا ساتھی ہے اور نہ رسول کا دشمن۔ یہ رسول کی بات پر کان دھرنے کےلیے ہی تیار نہیں۔“ مزید فرماتے ہیں کہ کفر اعراض ہی کفر کی سب سے عمومی صورت ہے: ”یہ جو کفرِ شک ہے، یہ بھی پایا جاسکتا ہے مگر جاری نہیں رہ سکتا الا یہ کہ اس کے ساتھ کفرِاعراض شامل نہ ہوجائے؛ کیونکہ اگر وہ رسول کی لائی ہوئی چیز کو کچھ ہی توجہ دے لے تو لازم ہے کہ اس کا سب شک رفع ہوجائے اور رسول کی سچائی اس پر روزِ روشن کی طرح واضح ہوجائے کیونکہ خدا نے اپنے رسول کو نصف النہار کے سورج ایسے دلائل دے کر جہان کے اندر مبعوث فرمایا ہے۔“ پس زیادہ خلقت کا کفر ہے ہی اس بات میں کہ وہ محمدﷺ کو توجہ دینے پر تیار نہیں اور یہ چیز علمائے عقیدہ کے نزدیک بذات خود کفر ہی ہے۔

    یہ بحث کہ ”اگر واقعی کسی تک محمد رسول اللہ (ص) کی بابت خبر نہیں پہنچی ہو تو اس کا کیا حکم ہے“، تو اگرچہ علمائے متکلمین نے اس پر بہت سی بحثیں کی ہیں مگر یہ سوال زیر بحث مسئلے میں غیر متعلق ہے کیونکہ غامدی صاحب کا موقف یہ ہے کہ چاہے کسی کے سامنے ہزارہا مرتبہ کیوں نہ دین پیش کردیاجائے، یہودی، عیسائی، ہندو یا دہریے کو ”اصولا“ کافر ٹھہرایا ہی نہیں جاسکتا! یعنی دنیا میں کسی کو کافر کہنا ہی”شرعاً“ موقوف ہوچکا، خواہ وہ کتنا ہی بڑا اور کتنا ہی برہنہ کفر کرلے، کافر نہ کہلائے گا۔ یوں سمجھیے کہ کافر نامی مخلوق اب اس دنیا سے ڈائناسور نامی مخلوق کی طرح ہمیشہ کی طرح معدوم ہوچکی۔ پس خوب دھیان رہے کہ غامدی صاحب قدیم معتزلہ کی طرح (‘المنزلت بین المنزلتین’ کے نام پر) مسلم اور کافر کے درمیان ”تیسری کیٹیگری“ نہیں لارہے بلکہ کفر کی کیٹیگری کو ہمیشہ کیلئے ختم کرکے ”اس کی جگہ“ ایک متبادل کیٹیگری لا رہے ہیں۔ ان کا موقف سمجھنے کے لیے یہ فرق دھیان میں رہنا اشد ضروری ہے۔

    ب) گروہ غامدی نے تصور کفر کےجوہر کو سمجھنے میں دوسری ٹھوکر ”کفر کا مطلب کسی عقیدے پر ہونا نہیں“ کی صورت میں کھائی۔ ان کا یہ مفروضہ بھی قرآن کے خلاف ہے، چنانچہ قرآن کہتا ہے:
    [pullquote]لقد کفرالذین قالوا ان اللہ ھو المسیح ابن مریم[/pullquote]

    یعنی”یقینا کفر کیا ان لوگوں نے جنہوں نے کہا کہ اللہ مسیح ابن مریم ہی ہے.“ (المائدۃ 72)
    نیز [pullquote]لقد کفرالذین قالوا ان اللہ ثالث ثلاثہ[/pullquote]

    یعنی ”یقینا کفر کیا ان لوگوں نے جنہوں نے کہا کہ اللہ تین (خداؤں) میں سے تیسرا ہے.“ (المائدۃ 73)
    دیکھیے یہاں ”ایک عقیدے پر ہونے“ کو کفر کہا جارہا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ان کا یہ عقیدہ توحید کی ضد تھا اس لیے اسے کفر کہا گیا تو ظاہر ہے اس اعتبار سے دنیا کا ہر ”غیر و ماورائے حق“ عقیدہ و پوزیشن حق کی کسی نہ کسی صورت میں ضد ہی ہوا کرتا ہے اس میں عقیدہ تثلیث کی کوئی تخصیص نہیں، لہذا ہر غیر حق پوزیشن و عقیدہ کفر ہے (کہ وہ حقیقت کو ڈھانپ دیتا ہے)۔
    اسی طرح ارشاد ہوا:
    [pullquote]وقالت الیہود عزیرن ابن اللہ وقالت النصری المسیح ابن اللہ ذالک قولہم بافواھھم یضاھئون قول الذین کفروا من قبل[/pullquote]

    یعنی ”اور یہود نے کہا کہ عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور نصاری نے کہا کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے۔ یہ ان کے منہ کی باتیں ہیں، یہ بس نقل (پیروی) کر رہے ہیں ان لوگوں کی باتوں کی جنہوں نے کفر کیا تھا ان سے پہلے.“ (توبہ 30)
    یہاں بھی ایک مخصوص عقیدہ اختیار کرنے کو کفر سے تعبیر کیا گیا ہے۔
    اس ضمن میں مزید مثالیں بھی بیان کی جاسکتی ہیں، ایک ذی عقل انسان انہی حقائق کو سامنے رکھ کر اس نتیجے تک پہنچ سکتا ہے کہ یہ حضرات تصور کفر کو سمجھنے میں ابہامات کا شکار ہوگئے۔

    ”غیر مسلم“ کی اصطلاح کی منطقی تنقیح
    مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس مقام پر منطقی اعتبار سے تو ’نہ مسلم نہ کافر‘ کے فلسفے کی منطقی تنقیح کرلی جائے۔ یہ فلسفہ ہمیشہ ہی سے ایک لاینحل عقدہ رہا ہے، وہ اس طرح کہ یہ دعوی ایک ایسی پوزیشن کا تقاضا کرتا ہےجس کا تصور ہی لامتصور ہے۔ انسان کی اصل بہرحال ’عبد‘ (خدا کا بندہ ) ہونا ہے۔ اس حقیقت کے اعتبار سے کسی انسان کا حال دو میں سے کسی ایک ممکنہ حال کا اظہار ہوگا، ایک یہ کہ وہ اس حقیقت کا اقرار کر رہا ہے، دوسرا یہ کہ وہ اس کا اقرار نہیں کر رہا۔ اس دوسرے حال میں وہ لازما کسی نہ کسی دوسرے عقیدے کا اقرار لازما کرتا ہے، یعنی نیوٹرل یا غیرجانبدار بہرحال نہیں ہوجاتا کہ ’نیوٹرل‘ (غیرجانبداریت) ایک لامتصور و لاموجود مقام ہے۔ پہلی صورت میں اس شخض کو مسلمان (اپنی حقیقت کو قبول کرنے والا) کہتے ہیں جبکہ دوسری صورت میں کافر (حقیقت کو چھپانے والا)۔ سوال یہ ہے کہ یہ ’نہ مسلم نہ کافر‘ انسان کس مقام پر براجمان ہے؟ اگر کفر و اسلام کے درمیان حد ’اقرار کرنے یا نہ کرنے‘ کی ہی ہے تو ایک شخص یا تو اس خط کے ایک طرف ہوگا یا دوسری اور ان دونوں اطراف کے سواء کوئی طرف عقلا ممکن نہیں (جیسا کہ خود قرآن نے بھی بتادیا کہ خدا کے پیدا کردہ انسان یا تو مومن ہیں اور یا پھر کافر) تو یہ ”نہ مسلم نہ کافر“ کہاں وجود رکھتا ہے؟ ذرا لفظ ”غیر مسلم“ پر توجہ کریں، اس کا معنی ”دائرہ مسلمانیت سے باہر و ماوراء“ کے سواء اور کیا ہے؟ آخر اس ”دائرہ مسلمانیت“ کے باہر کفر کے سوا اور کیا باقی بچتا ہے؟

    1) مثبت قرآنی دلیل: گروہ غامدی اپنے اس دعوے کو ثابت کرنے ک لیے درج ذیل آیت کو بطور دلیل پیش کرتا ہے:
    [pullquote]ان الدین عند اللہ الاسلام و مااختلف الذین اوتوا الکتاب الا من بعد ما جاءھم العلم بغیا بینھم ومن یکفر بایات اللہ فان اللہ سریع الحساب [/pullquote]

    یعنی”دین اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہے، اور (ان) اہل کتاب نے اپنے پاس علم آجانے کے بعد بھی (اس بات سے جو) اختلاف کیا وہ صرف باہمی عناد و ضد بازی کی وجہ سے کیا۔ اور جو کوئی اللہ کی آیات کا انکار کرتا ہے تو اللہ بہت جلد حساب چکا دینے والا ہے.“ (آل عمران: 19)۔
    اس کی بنیاد پر یہ دعوی کردیا گیا: ”یہ آیت اعلان کر رہی ہے کہ دین اللہ کے نزدیک اسلام ہے، لیکن جو کوئی جانتے بوجھتے محض ضد اور ہٹ دھرمی (بغیا) سے حق کا انکار کرے گا اللہ اس سے پرسش کریں گے، اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو وہ رعایت کا مستحق ہے۔“ مگر یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ یہ آیت ان کے استدلال کے ان دوحصوں کہ: (الف) ’جو محض اسی ایک جذبے کے تحت انکار کرتا ہے وہی کافر ہے‘ نیز (ب)’دیگر سب معافی کے مستحق ہیں‘ کےلیے کس طرح دلیل بن سکتی ہے۔

    درحقیقت سورہ آل عمران میں عیسائیوں کے اس مخصوص گروہ سے گفتگو ہو رہی ہے جو براہ راست رسول اللہ کے مخاطب تھے، اس آیت میں کوئی عمومی اصول نہیں دیا گیا بلکہ یہاں صرف ان کے حال کا بیان ہے کہ انہوں نے باہمی ’بغی‘ کی وجہ سے حق کا انکار کیا، گویا یہ ایک مخصوص گروہ کے حال کا بیان ہے اور بس۔ اس سے یہ کیسے پتہ چلا کہ اس مخصوص گروہ کے سواء کسی کو کافر کہنا جائز ہی نہیں؟ درحقیقت اطلاق کفر کس پر جائز ہے اور کس پر نہیں، اس آیت کا سرے سے یہ موضوع ہے ہی نہیں، اسے زبردستی اس کا محل بنا لیا گیا ہے۔ چنانچہ لغت، کلام اور اصول فقہ میں دلالت کی جتنی اقسام بیان ہوئی ہیں، ان سب کی روشنی میں اس آیت کا جائزہ لے لیا جائے، کسی ایک اصول سے بھی یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ یہاں بغی کی کیفیت اطلاق کفر کے لیے شرط لازم اور کفر کو اسی میں محصور قرار دینے کے لیے بیان ہوئی ہے۔
    قرآن کا یہ عام اسلوب ہے کہ ایک بات یا حکم کسی مخصوص کیفیت کے ساتھ بیان ہوتا ہے مگر اس کا ہرگز یہ مقصد نہیں ہوتا کہ وہ حکم اسی مخصوص کیفیت میں محصور بھی ہے، مثلا ارشاد ہوا:
    [pullquote]لاتکرھوا فتیتکم علی البغاء ان اردن تحصنا (نور 33) [/pullquote]

    یعنی ”نہ مجبور کرو اپنی لونڈیوں کو بدکاری پر اگر وہ پاک دامنی حاصل کرنا چاہیں.“
    تو کیسا رہےگا اگر کوئی غامدی صاحب کی منطق پر اٹھ کر کہنا شروع کردے کہ (معاذاللہ) ”قرآن کی یہ آیت اعلان کر رہی ہے کہ اگر لونڈی پاکدامنی حاصل نہ کرنا چاہے تو اس سے بدکاری کا پیشہ کرانا جائز ہے؟.“ معلوم نہیں قران فہمی کے یہ اصول کب اور کس نے وضع کیے۔

    غامدی صاحب جہاں چاہتے ہیں اپنے فہم کی بنا پر قرآن کے عام حکم کو سیاق و سباق اور ضمائر کے مراجع کو مخصوص کرکے خاص کر دیتے ہیں اور جب چاہتے ہیں ایک مخصوص پیرائے میں بیان ہونے والی بات کو عام کر ڈالتے ہیں ۔ اب دیکھیے یہاں انہی کے اصول تفسیر کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس آیت میں قطعی طور پر ان اہل کتاب کو خطاب کیا گیا ہے جو براہ راست رسول اللہ کے مخاطبین تھے اور ان کے لیے اتمام حجت ہوجانا ہی ان سے حساب (یعنی دنیاوی عذاب) کی شرط تھی، لہذا قرآن نے یہاں اسی حقیقت کو بیان کیا ہے اس آیت کا شریعت کے عمومی قانون سے کوئی تعلق نہیں۔

    2) ایک مزید اثباتی دلیل: کفر کے وجود کو ’ڈائناسارس‘ کی طرح دنیا سے ختم ہوچکنے کا سرٹیفیکیٹ دینے کے لیے گروہ غامدی ایک تاویل یہ بھی پیش کرتا ہے کہ ”’قرآن نے کافر اور کفر کے الفاظ اصلاً انھی منکرین کے لیے بولے ہیں جنہوں نے پیغمبر کی طرف سے دلائل و بینات پیش کیے جانے اور حق کی کماحقہ تبلیغ کے باوجود انکار کیا۔“ نتیجہ؟ ”لہذا اس مخصوص گروہ کے سواء کسی کےلیے یہ لفظ استعمال کرنا جائز نہیں۔“
    • پہلی بات یہ کہ لفظ کفر کا اطلاق قرآن نے اس مخصوص گروہ کے علاوہ بھی کیا ہے (جس کی مثالیں اوپر بیان ہوچکیں)
    • دوسری بات یہ کہ اگر مان بھی لیا جائے کہ ایک مخصوص گروہ کےلیے یہ لفظ استعمال ہوا تو اس سے حصر کیسے لازم آیا؟ کفر کی صرف ایک شکل کفر جحود ہی تو نہیں ہوتی، اس کے علاوہ کفر تکذیب، کفر استکبار، کفر شک، کفر نفاق، کفر اعراض وغیرہ بھی کفر ہی کی شکلیں ہیں.
    • تیسری بات یہ کہ یہ دلیل کسی کو مومن نہ کہنے کے لیے بھی اتنی ہی قوت کے ساتھ استعمال کی جاسکتی ہے کیونکہ قرآن نے ”ایمان لانے والوں“ کی اصطلاح بھی عموما ایک خاص طرح کی ایمانی کیفیت والوں کے لیے استعمال کی ہے جو اب کسی کو نصیب نہیں ہوسکتی.
    • چوتھی بات یہ کہ جو گروہ اب ایمان نہیں لارہے ان کے لیے ”غیرمسلم“ کی اصطلاح کہاں سے آگئی؟ اس اصطلاح کا کیا ثبوت ہے؟ اگر اصطلاح اپنی مرضی سے ہی وضع کرنی ہے تو یہ اصطلاح ”بحوالہ مسلم“ (یعنی ’غیر مسلم‘) وضع کرنے کی کیا شرعی دلیل و ضرورت ہے؟ اگر کوئی دلیل نہیں تو ان کے لیے ’نیوٹرل‘، ’غیرجانبدار‘، ’انسان محض‘ جیسی کوئی اصطلاح یا وہ جس عقیدے و مذہب پر قائم ہیں (مثلا ہندو، عیسائی وغیرہ) وہی الفاظ استعمال کرلینے کو ہی کیوں نہ احسن سمجھا جائے؟ خصوصا جب غیر شعوری طور پر اندرون خانہ ذہنیت کافر کو لفظ ’کافر‘ سے محسوس ہونے والی ذہنی کوفت سے بچانا اور مسلم و کافر ملتوں کے درمیان جدید معاشرتی و ریاستی تناظر میں خیرسگالی کو فروغ دینا ہو، ایسے میں لفظ ’غیر مسلم‘ یعنی ’اطاعت گزار نہ ہونے‘ کا لیبل بھی خاصی ذہنی کوفت کا باعث بن سکتا ہے، لہذا اسے مزید نرم (dilute) کرنے کی ضرورت ہے
    • پانچویں بات یہ کہ اگر اصطلاح کفار کا کوئی مسمی بہ رسول خدا ﷺکے بعد وجود نہیں رکھ سکتا تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس ”غیر مسلم“ نما مخلوق کے بارے میں خدا کی راہنمائی کیا ہے کہ ان کے ساتھ کیا معاملات روا رکھے جائیں؟ بظاہر’اصطلاح‘ کے اس فرق سے یقینا کفار کے تناظر میں بیان ہونے والے 95 فیصد سے زیادہ قرآنی احکامات اب ہمیشہ کے لیے ’منسوخ‘ ہو چکے کہ اب وہ کفار بھلا کہیں تھوڑے پائے جاتے ہیں۔

    اس مقام پر یہ کہنا پڑتا ہے کہ تنسیخ، تخصیص و تقیید کا جو حق یہ حضرات رسول خداﷺ کو دین کے کسی ”ایک بھی معاملے“ میں دینے کے روا نہیں خود اپنے لیے اسے تھوک کے حساب سے استعمال کرتے ہیں، وہ بھی فہم قرآن کے نام پر۔ یعنی ان حضرات کے نزدیک رسول خدا کو تو یہ حق نہیں کہ وہ اپنے فہم قران (جسے یہ سمجھ نہ سکے ہوں) کی بنیاد پر کسی حکم کو مخصوص یا محدود کردیں، البتہ ان جدید مفسرین قرآن کو حق ہے کہ اپنے فہم کی بنا پر جس آیت کا حکم چاہیں عام قرار دیں اور جسے چاہیں ہمیشہ کےلیے کالعدم ٹھہرائیں۔

    خلاصہ:
    اس مختصر مضمون میں غامدی صاحب کے نظریہ کفر کے خلاف آٹھ طرح کے دلائل پیش کیے گئے:
    1) ان کے اس نظریے کے برعکس براہ راست نصوص قرآن میں موجود ہیں.
    2) ان کے اس نظریے کے حق میں براہ راست کوئی واضح نص قرآنی موجود نہیں.
    3) اگر ان کے پیش کردہ قرآنی دلائل کو مان بھی لیا جائے تو بھی اس بات کی کوئی دلیل موجود نہیں کہ اتمام حجت اطلاق کفر کے لیے شرط لازم ہے، بلکہ اس کے برعکس سورہ توبہ کی آیت سے معلوم ہوا کہ یہ قطعا اس کی شرط نہیں.
    4) اس امر کی بھی کوئی دلیل نہیں کہ اطلاق کفر اسی ایک شکل میں محصور بھی ہے.
    5) ان کے تصور کفر کی بنیاد (کفر کا مطلب کسی عقیدے پر ہونا نہیں بلکہ انکار ایمان ہے) ہی سرے سے غلط ہے.
    6) تصور ’غیرمسلم‘ ایک لا متصور پوزیشن کے وجود کو فرض کرتا ہے.
    7) ان کی مجوزہ ”متبادل اصطلاح“ کی کوئی شرعی بنیاد موجود نہیں.
    8) ان کے نظریے کو ماننے کے نتیجے میں بہت سی قباحتیں لازم آتی ہیں.

    درحقیقت دور جدید میں ’کفر‘ کو کالعدم قرار دے کر اسکی جگہ متبادل کیٹیگری (نہ مسلم نہ کافر) قائم کرنے کا چھپا ہوا جذبہ محرکہ دین کو ”جدید معاشرت و ریاست“ (سول سوسائٹی وجمہوریت) کے تقاضوں سے ہم آہنگ بنانے کی ذہنیت ہے، ایک ایسی معاشرت و ریاست جہاں کافر و مسلم کی شناخت ہی بےمعنی بات ہوتی ہے، لہذا غیر شعوری طور پر ہی صحیح مگر اس فرق پر اصرار کرنے والوں کی جڑ کاٹ دینے کےلیے یہ فلسفہ کھڑا کیا گیا ہے تاکہ مسلمان کسی ذہنی الجھن کے بغیر خود کو اس جدید معاشرتی و ریاستی نظم میں سمو سکیں۔

    تحریر کی پہلی قسط یہاں ملاحظہ کریں