Tag: مستنصر حسین تارڑ

  • کٹر پنجابی، کٹر پاکستانی اور کٹر اردو ادیب

    کٹر پنجابی، کٹر پاکستانی اور کٹر اردو ادیب

    %d8%aa%d8%a7%d8%b1%da%91%d8%a7 مستنصرحسین تارڑ عہدِ حاضر میں جہاں اردو زبان و ادب کا قابلِ فخر سرمایہ ہیں، وہیں اپنی شخصیت اور عادات وگفتار کے لحاظ سے قابلِ تقلید ”تعصب“ اور اُس کے توازن کی عمدہ مثال ہیں۔
    لکھاری جس مٹی میں پلا بڑھا ہواس کی خوشبو سے کبھی فرار حاصل نہیں کر سکتا۔ اور مٹی سے وابستہ اس کے پڑھنے والے بھی اُسے اِسی طور محسوس کرتے ہیں۔ کسی لکھاری کو پسند کرنے والوں کو درحقیقت اس کے لفظ میں اپنے دل اپنی سوچ سے قربت کی مہک آتی ہے۔ وہ لکھاری جو ہمارے دل کے تار چھو جاتا ہے اس ساز کی ایک جھلک دیکھنے کی خواہش سے انکار نہیں کیا جا سکتا خاص طور پر اگر وہ ہمارے عہد اور ہماری دنیا میں ہمارے قریب بھی کہیں موجود ہو۔ قاری اور لکھاری کا گم نام سا رشتہ ساز و آواز کی مانند ہے، بےشک آواز ساز کے بنا مکمل تو ہے لیکن ساز آواز کو چہار سو پہنچا ضرور دیتا ہے، ورنہ دل کی بات دل ہی میں رہ جاتی ہے۔ ہم انسان ہر رشتے ہر احساس میں بنیادی طور پر بُت پرست واقع ہوئے ہیں جہاں ذرا سی روشنی دکھائی دی، سجدہ کر لیا۔ شخصیت کا بُت پہلی نظر یا پہلی ملاقات میں ٹوٹ بھی سکتا ہے۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ لکھنے والا اپنے افعال و کردار میں ہمارے جیسا عام انسان ہی ہے۔ کبھی بت یوں ٹوٹتا ہے جب ہم قول و فعل کا تضاد دیکھتے ہیں یا لفظ اور کردار میں کہیں سے بھی مماثلت دکھائی نہ دے۔ اکثر کاغذی رشتے، صوتی ہم آہنگی جب رسائی کی حدت میں جذب ہوتے ہیں تو خزاں رسیدہ پتوں کی طرح بےجان لگتے ہیں تو کبھی پُرشور ڈھول کی طرح اندر سے خالی۔ اس لمحے ہماری محبت ہمارا عشق چپکے سے دل کے مدفن میں اُتر جاتا ہے۔ یاد رہے”بت ٹوٹنے کے لیے ہی ہوتے ہیں۔“ یہ بہت اچھی بات ہے کہ اس طرح انسان حقیقت اور تصور کے مابین گومگو کی کیفیت سے نکل جاتا ہے۔ اس میں اس لکھاری کا ذرا سا بھی قصور نہیں کہ
    ”بُت ہم خود بناتے ہیں اور اپنی خواہشوں کے مندر میں اونچا مقام دیتے ہیں۔“

    اپنے محبوب لکھاری مستنصرحسین تارڑ سے ملاقات کرنے والے ان کے لفظ کے عشق میں سرشار کیا کہتے ہیں، ذرا سنیے۔

    24 اکتوبر 2016ء …… ایک ملاقات ……. از سید عرفان احمد

    گھنٹہ پہلے مستنصر صاحب سے اُن کے لکھائی والے کمرے میں ملاقات ہوئی۔
    آج سارا دن نزلے اور بخار کی وجہ سے بستر پر لیٹ لیٹ کر اُکتاہٹ اور بوریت سی ہونے لگی۔ شام کو خیال آیا کہ مستنصر صاحب سے اُن کے نئے گھر میں ابھی تک ملاقات نہیں ہوئی، اُن سے ملا جائے۔ غیر مناسب وقت کی پروا نہ کرتے ہوئے رات آٹھ بجے اُن کے گھر کے دروازے پر پہنچ گیا۔ فون کیا اور اپنا نام بتایا۔ نام پہچانتے ہوئے انہوں نے کہا ’’کِدّر پھرنا پیا ایں؟‘‘۔ میں نے کہا ایسے ہی آپ سے ملنے کا خیال آ گیا تھا۔

    مستنصر حسین تارڑ ’’کِتھے ویں ایس ویلے؟ انہوں نے پوچھا۔
    ’’تُہاڈے گیٹ تے‘‘ میں نے جواب دیا۔
    ’’اچھا میں گیٹ کھلوانا واں‘‘
    ملازمہ نے کہیں سے چابی ڈھونڈ کر دروازہ کھولا اور مجھے مستنصر صاحب کے لکھائی والے کمرے میں بٹھا دیا۔ اُن کی غیرحاضری کوغنیمت جان کر اردگرد کی چند تصویریں کھینچیں۔ چند منٹوں بعد مستنصر صاحب آ گئے اور پہلے والا سوال دہرایا۔ میں نے کہا کہ صبح سے نزلے اور بخار سےگھر پر تھا اور اب آپ سے ملنے آ گیا ہوں۔ میری بےساختہ ہنسی نکل گئی جب انہوں نے کہا ’’میرے کولوں پراں ای رو‘‘۔ اُن کے لہجے میں پیار و محبت اور مذاق اکٹھے ہی تھے۔
    تھوڑا پیلوں آ جانا سی، تینوں تھوڑا وقت تے دیندا۔ ھُن میرا لکھن دا ویلا ہُندا پیا اے‘‘۔”
    مستنصر صاحب اپنی آنے والی کتابوں کا بتانے لگے اور اُن کی جو تحریریں انگریزی زبان میں چند لوگ ترجمہ کر رہے ہیں۔ اُن کے دوستوں نے انہیں اپنی ٹی وی کی زندگی اور اُس سے جڑے واقعات کو کتابی شکل دینے کا کہا تھا۔ اس کا ذکر جب انہوں نے اپنی اہلیہ سے کیا تو انہوں نے اسے ویٹو کر دیا۔ میں نے کہا کہ ٹی وی سے متعلقہ جو واقعات ہم آپ سے سنتے رہتے ہیں وہ واقعی اس قابل ہیں کہ انہیں ضبطِ تحریر میں لایا جائے۔ ایک تاریخ ہے جو محفوظ ہو جائے گی۔ اس پر انہوں نے کہا ’’لکھاری پر ایک ایسا وقت بھی آتا ہے جب اُس کا مقابلہ اپنے آپ سے ہو جاتا ہے اور اپنے آپ سے لڑنا آسان نہیں۔ اب مجھے کچھ لکھنا ہے تو پہلے سے بڑھ کر لکھنا ہے،یہ میرا خود سے مقابلہ ہے‘‘۔
    کیہڑی کتاب لینی اُوں‘‘ میں اُٹھنے لگا تو انہوں نے مجھ سے پوچھا۔”
    ’’تہاڈیاں کافی کتاباں ہین نے میرے کول، رہن دیو‘‘۔ میں نے رسماً کہا۔ دل تو کر رہا تھا کہ کہہ دوں کہ ساریاں دے دوو۔
    ’’فیر وی، دس کوئی‘‘ انہوں نے پھر پوچھا
    ’’بہاؤ دے دیو‘‘
    مستنصرصاحب نے اُٹھ کر کتابوں کے ریک سے بہاؤ نکالی اور اپنے شفیق جملے اور دستخطوں کے ساتھ مجھے عنایت کی۔ میرے اصرار کے باوجود کہ رہنے دیں، مستنصر صاحب باہر نکل کر دروازے تک مجھے چھوڑنے آئے۔
    پتھر کے پہاڑ اور اور انسان کے پہاڑ بننے میں فرق یہ ہے کہ پتھر کے پہاڑ کا سر جھک نہیں سکتا۔ انسان جب پہاڑ بنتا ہے تو کسی بڑے ظرف والے انسانی پہاڑ کا سر انکساری اور اعلیٰ ظرفی سے جھک جاتا ہے اور یہ ادا اُسے اور بلند کر دیتی ہے۔
    مستنصر صاحب کے یار دوست اگر کبھی غلطی سے اُن سے اردو میں گفتگو کرنے لگیں تو مستنصر صاحب اکثر یہ جملہ بولتے ہیں:
    تیری طبیعت ٹھیک اے، اردو پیا بولنا ایں؟
    ……………………………………
    عمارہ خان کہتی ہیں،
    میں ان کو اپنی فیملی میں پنجابی ہی بولتے دیکھا ہے۔میں نے اپنی زندگی میں سر جیسے انکساری برتنے والے انسان نہیں دیکھے.. ان سے مل کے نہیں لگتا کہ یہ ایک لیجنڈ ہیں.. اور یہ ہی چیز سر کو سب میں بہت نمایاں کرتی ہے..
    دوسری بات سر کا اپنی زبان پہ قائم رہنا واہ شاندار.. آج کے زمانے میں جب لوگ اپنے گھر پنجابی نہیں بولتے سر ڈنکے کی چوٹ پہ ہر محفل, ڈنر, تقریب میں بولتے ہیں .. انسان کو اپنے اصل کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے۔
    ……………………………………
    ابوبکر سیال کہتے ہیں،
    مجھے بھی ٹوکا تھا کہ کونسے علاقے سے ہو تو میں نے سرائیکی بیلٹ کا بتایا اور اردو میں بات کی۔ تو انہوں نے کہا کہ اتنی گاڑھی اردو مت بولو اور پنجابی میں بات کرو۔ میری بھی جھجھک ختم ہوئی اور پنجابی تو میٹھی زبان ہے ہی۔
    ……………………………………
    حرفِ آخر از نورین تبسم
    اپنی زمین ہر انسان کی پہچان ہے تو زمین سے نسبت اس کو سربلندی عطا کرتی ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا۔۔۔
    زمین اچھی طرح ان کی جڑیں جب تھام لیتی ہے
    درختوں کی بھی پھر طوفاں میں گردن خم نہیں ہوتی

    تاثرات بشکریہ ….. مستنصرحسین تارڑ ریڈرز ورلڈ

  • مستنصر حسین تارڑ کے نام – عظمیٰ طور

    مستنصر حسین تارڑ کے نام – عظمیٰ طور

    چند سال قبل میں اندھیرے میں ڈوبے کمرے میں بیٹھی دروازے کی درز سے آتی روشنی میں کتاب ہاتھ میں لیے ہر سطر کے بعد کسی خیال میں ڈوب کر اس مقام پر پہنچ جاتی جہاں وہ سطر ٹھہری ہوتی. ورق پہ پھیلے لفظ مجھے جمع کرنے پڑتے تھے. بار بار اور ہر بار دھیان کی گرہ لگا کر اس کے سہارے صفحوں کی چوٹی سر کرنا پڑتی تھی. میرا تخیل میری پختگی پہ سر اٹھائے مان کرتا تھا. میرے ارد گرد برف کی ٹھنڈک میرے ناخن نیلے کرتی تھی. مجھے میرے پیروں میں برف پانی چلتا محسوس ہوتا تھا. میں ہر صفحے کے بعد آنکھیں بند کیے لمبی لمبی سانس کھینچتی اور اپنے تخیل کے گرد شالیں لپیٹتی تھی. پھولوں سے ٹکرا کر آتی صفحوں پہ محسوس ہوتی ہوائیں مجھے اکساتیں، بہلاتیں، رلاتیں.

    میں آج بھی بک شیلف کے قریب رکھی کرسی پہ بیٹھی کتاب ہاتھ میں لیے وہی سوال دہراتی ہوں جو کئی سال قبل دل بچے نے پوچھا تھا.
    ”زندگی کیا ہے سر“
    زندگی پہاڑ ہے؟
    زندگی جھیل ہے؟
    جھیل کا پانی ہے؟
    یا پانی پہ چلتی ناؤ ہے؟
    چپو ہے یا سیفٹی جیکٹ ہے؟
    کوئی برفیلی چوٹی ہے؟
    پھولوں میں سے ہو کر گزرتا رستہ ہے؟
    زندگی جوگرز میں مقید سفر کی چاہ کرتے پاؤں ہیں؟
    یا ہائیکنگ اسٹک ہے؟
    زندگی خطرناک پُل سے گزرنے کے لمحے کو گزرنے دینے کا نام ہے؟
    زندگی برف کی سفیدی ہے؟
    برف کی ٹھنڈک ہے؟
    یا برف کے موسم میں کسی مہربان کی سلگائی ہوئی آگ ہے؟
    زندگی سبزے سے پھوٹتا گلاب ہے؟
    زندگی نیلے رنگ کی طرح پھیلا باب ہے؟
    زندگی گاڑی کا وہ پہیہ ہے جو زور پر گھسنے لگتا ہے؟
    یا پھر نیچے اترتے ہوئے بریک کو کنٹرول کرنے کا ہنر ہے؟
    زندگی کونسا گیئر ہے؟؟
    زندگی بیک ویو مرر تو نہیں؟؟
    زندگی گرم کمرے میں بیٹھ کر قلم کی سیاہی سے دامن بھرتے کاغذ کی پھڑپھڑاہٹ ہے؟
    یا ہاتھ میں پکڑی کتاب ہے؟؟

  • مستنصرحسین تارڑ؛ عکس سے نقش تک – نورین تبسم

    مستنصرحسین تارڑ؛ عکس سے نقش تک – نورین تبسم

    خیال کی طاقت پرواز کتنی ہی بلند اور کتنی ہی لامحدود کیوں نہ ہو جائے، آنکھ کے لمس کی سچائی کو مات نہیں دےسکتی۔ اس میں شک نہیں کہ آنکھ وہی تصویر دیکھتی ہے جو اس کے محدود چوکھٹے میں سما سکے، لیکن یہ تصویر کبھی ہمیشہ کے لیے وہیں ٹھہر بھی جاتی ہے۔ پہلی نظر بھی کیا چیز ہے کہ ایک لمحے کی دوستی، پہلی نظر کا پیار، کبھی تو چلتی ٹرین کے منظر کی طرح ہوتا ہے، اچھا تو لگا مگرگزر گیا اور کبھی تصویر کے کلک کی طرح یادوں میں ہمیشہ کے لیے محفوظ رہ گیا۔

    مستنصر حسین تارڑ کے سانس لیتے نرم و نازک لفظوں سے بہت پہلے محترم اشفاق احمد کے ”ایک محبت سو افسانے“ میں اُن کی سوچتی اور اداس آنکھوں نے بطور اداکار اپنی شناخت کرائی تو ایک ڈرامہ نگار کے طور پر ذہن نے سر جھکاتے ہوئے ان کے مصنوعی کرداروں کے اندر سے اُن کا اصل کھوجنا شروع کیا۔ صبح کےاولین مارننگ شو نے ”تلاش“ کے اس عمل کو مہمیز کیا۔ لفظ سے عشق کی ان اولین ساعتوں میں جناب تارڑ کی ”نکلے تری تلاش میں، خانہ بدوش، پیار کا پہلا شہر، جپسی اور ہنزہ داستان“ نے مسمرائز کیا۔

    14022105_1351916458170811_6311558288584513374_n جناب تارڑ کے لفظوں سے جانا کہ عشق کا مفہوم کتنا وسیع ہے۔ یہ محض اپنے جیسے انسان کے محورکے گرد دیوانہ وار رقص کا نام نہیں۔ عشق راتوں کو جاگ کر تارے گننے اور محبوب کی یاد میں تکیے بھگونے سے تکمیل کے مراحل طے نہیں کرتا۔ عشق فطرت سے ہم آہنگی اور قربت سے پروان چڑھتا ہے۔ یہ اپنے مدار سے نکل کر ایک بڑے دائرے میں محو رقص ہونے کی خوشی فراہم کرتا ہے۔ آوارگی کی ہزارہا جہات کیا ہیں؟ آوارگی وہ سفر ہے جو گھر سے بھاگنے پر اُکساتا ہے، تو جہاں گھر سے دوری تعلق مضبوط کرتی ہے، وہیں سوچ کا پھیلاؤ حقیقتِ دنیا سے بھی آگاہ کرتا ہے۔ جنوں کا مثبت پہلو انسان کو ہوش و حواس سے بیگانہ نہیں کرتا بلکہ تمام حسیات کو ایک نئی تازگی اور توانائی بھی دیتا ہے۔ اگر ادب وہی ہے جو زندگی کے ہر رنگ ہر پہلو کو چھو جائے تو ادیب بھی وہی ہے جس کی ذاتی زندگی کا نہ صرف ورق ورق کھلا ہو بلکہ اوروں کے لیے نشانِ راہ بھی ہو۔ جو تخیل کی خوابناک وادیوں کا ہمسفر ہی نہ ہو بلکہ اپنے ”ہمسفر“ کے ساتھ زندگی کے چیختے حقائق کا بخوبی سامنا کرنے کی اہلیت بھی رکھتا ہو۔ جو ہوا کے دوش پر اور سوچ کے اُفق پر محسوس کرنے والے دلوں کی دھڑکن ہی نہ ہو بلکہ اپنے جگرگوشوں کے لیے باعثِ مسرت بھی ہو۔ جناب تارڑ کے لفظ کی معجزانہ کشش میں ان کا ذاتی طور پر رشتوں اور تعلقات کے حوالے سے بھرپور کردار اور ایک مطمئن گھریلو زندگی کا بھی بہت بڑا حصہ ہے۔

    جناب تارڑ کے مہکتے لفظوں نے بتایا کہ شاعری، موسیقیت اور مصوری کے شاہکار بند کمرے میں بیٹھ کر تخیل کے زور پر ہی نہیں تخلیق کیے جاتے۔ تخیل کی بلندیوں کو چھونے والے لفظ بصارت اور بصیرت کے انوکھے ملاپ سے جنم لیتے ہیں۔ رومانویت صرف مرد و عورت کے مابین فطری اور ازلی کشش کا تسلسل ہی نہیں، محبت دو دلوں کے درمیان خفیہ راز و نیاز کا نام ہی نہیں بلکہ یہ قدرت کے حسیب نظاروں، جھیل کناروں اور دودھیا چاندنی میں نہائی ہوئی فلک بوس چوٹیوں کے پہلو میں اپنے ساتھ وقت گزارنے کی حسین تنہائی بھی ہے۔ خود کلامی محض دیوانوں کی بڑ نہیں بلکہ رب کی شکرگزاری کا عظیم احساس بھی ہے۔ محبت اپنے رشتوں سے چھپ کر تعلقات کی غلام گردشوں میں آنکھ مچولی کا کھیل نہیں بلکہ لفظ سے عشق پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ اپنے بڑوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کراظہار کی ایک کیفیت ہے۔ محبت کا یہ راستہ بڑوں کو بھی اپنے بچوں کی نگاہ میں معتبر بناتا ہے۔ زندگی صرف سانس کا آنا جانا ہی نہیں بلکہ موت کی سچائی اپنے سامنے دیکھ کر اس سے مقابلہ کرنے کا حوصلہ پیدا کرنے، اس سے باتیں کرنے کا نام بھی ہے۔ ادب لازوال ہے تو ایک ادیب کیسےاپنے لفظ کے معنی میں محدود ہو سکتا ہے۔ اس کی نگاہ کی وسعت قدرتی مناظر فطرت کے رنگوں اور انسان کے فطری جذبات کا بڑی خوبی سے احاطہ کرتی ہے تو بلند و بالا برفوں اورگہری کھائیوں میں موت سے قربت اور دہشت کی تصویر کشی سچ مچ سانسیں روکتی ہے۔

    جو منظر جناب تارڑ کی آنکھ پر اترتے ہیں وہ اسے اللہ کے خاص فضل سے لفظ میں پرو کر چابکدستی سے پڑھنے والے ذہن کے کینوس پر منتقل کر دیتے ہیں۔ لفظ کے ظاہری حسن سے متاثر ہونے والے اپنا سب کچھ فراموش کر کے اُن منظروں، اُن چہروں اور ساتھ کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ لفظ کی فسوں کاری کا یہ سلسلہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ تلاش کے صحرا میں بھٹکتے ہوؤں کو وہ منظر کبھی نصیب نہیں ہوتے جو قدرت نے بےمثال لکھنے والے کی آنکھ پر صرف اس کے لیے اتارے۔ یوں نادان آوارہ گرد اپنی صعوبتوں کےسارے عذاب اس لکھاری کے ذمے لکھتے ہیں۔

    جناب تارڑ کے تمام سفر ادھورے اور تشنہ رہتے، ان کی روشنی ایک مخصوص دائرے میں گردش کر کے فنا ہو جاتی، اگر یہ روشنی ان کی اپنی ہی ذات کو نہ اجالتی۔ ”منہ ول کعبہ شریف“ اور ”غارحرا میں ایک رات“ ایسی کتب ہیں کہ جنہوں نے جناب تارڑ کے لفظ کی ابدیت اور قبولیت پر مالک کی مہر ثبت کر دی ہے۔ بےشک یہ رب کا کرم ہے کہ وہ اپنے پیارے بندے کو کس طرح نوازتا چلا جاتا ہے۔ میرے لیے ان دونوں کتابوں کے سفرِمبارک کے الفاظ سے زیادہ اہم وہ احساس تھا جو بند جوتوں میں موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پُرپیچ وادیوں اور”قاتل“ پہاڑوں سے ہوتا ہوا ”مطاف“ کے صحنِ مبارک میں مرمریں فرش پر سجدہ ریز ہوا تھا۔ وہ احساس بہت قیمتی اور انمول تھا جس نے ایک دشت گرد اور اپنے تئیں ”آوارہ گرد“ دنیا دار کو دنیا میں رہتے ہوئے اس مقام پر سربسجود کرایا جہاں جاتے ہوئے دنیا کے بڑے سے بڑے فرماں بردار کے قدم بھی لڑکھڑا جاتے ہیں۔ یہ نصیب کی بات تھی، کرم کے فیصلے تھے، ”سفرِزیست“ کی پاکیزگی تھی۔ یہ اس ”آوارہ گرد“ کے اندر کی سچائی تھی جس نے ماہ و سال کی محدود عمر میں ”تلاش“ کے سفر کی تکمیل ممکن بنائی۔ آپ سے جانا کہ انسان کا ظاہر اس کے باطن کا عکاس ضرور ہوتا ہے لیکن اس کے باطن کی شہادت کبھی نہیں دے سکتا۔ اور یہ بھی کہ دین کسی دین دار کی ذاتی میراث نہیں۔ یہ قلب پر اتری لبیک کی وہ کیفیت ہے جو روح کی گواہی خود دیتی ہے۔

    یہ قصیدہ گوئی ہرگز نہیں کہ جناب تارڑ اردو زبان کے وہ واحد ادیب ہیں جن کے لفظ کے قاری نہ صرف ہردور، ہر زمانے اور ہر عمر کے ہیں بلکہ ہر قسم کے مکتبۂ فکر سے تعلق رکھنے والے ان کے لفظوں کی خوشبو میں اپنا ذوق تلاش کر لیتے ہیں۔ ادب کی فہرستیں ویسے بھی تارڑ کے تخیل کے سامنے بےبس نظر آتی ہیں کہ ان کی جادو اثر نثر کے سامنے شاعر کا تخیل بھی ماند پڑ جاتا ہے۔ یہ ادب برائے لذت یا محض وقت گزاری نہیں بلکہ ان کی کتب ایک مستند سفری دستاویز، تہذیی ورثہ اور فکشن کا حسین امتزاج بھی ہیں۔

    یہ کہنا بھی غلط نہیں کہ ابھی تک جناب تارڑ کو ادب میں ان کا جائز مقام نہیں مل سکا۔ اس میں کوتاہ نظری یا روایت پرستی نہیں بلکہ ابھی تک وہ مقام ہی طے نہیں ہوا جہاں ہم اُن کے لفظوں کو رکھ سکیں، پرکھ سکیں۔ لیکن ایک مقام بےمثال اور غیر متنازع ہے، اپنے پڑھنے والوں کے دل میں ہمیشہ کے لیے جگہ بنانا۔ جناب تارڑ کا تخیل اور اظہار بہتے میٹھے پانی کے چشمے کی مانند ہے جہاں آنے والا کبھی پیاسا واپس نہیں جاتا بلکہ ہمیشہ من کی مراد پاتا ہے۔ جناب تارڑ اگر محض کتابیں لکھتے رہتے تو شاید اتنے مقبول تو ضرور ہوتے لیکن جب سے اُن کے روز مرہ کالم آنے شروع ہوئے پھر تو پڑھنے والوں کا جناب تارڑ کے ساتھ ایک ایسا عجیب تعلق پیدا ہو گیا جیسے ہر روز محبوب اپنے در پر بلائے اور دیدار کی خیرات دے اور پھر کچھ باقی نہ رہے۔ یہ کالم محض خودکلامی ہی نہیں بلکہ ایسی گفتگو ہیں جو پڑھنے والے کو نہ صرف اپنے اندر کے سفر پر لے جاتی ہے بلکہ دور دنیاؤں کی سیر بھی کراتی ہے۔ جناب تارڑ کی کتابیں اور سفر نامے ہی کم نہ تھے جو ہم جیسے کسی دور دراز کے چھوٹے شہروں میں رہنے والوں کو سمندرپار کے ایسے منظر دکھاتے تھے کہ جو نظر کے لمس سے جی اٹھتے تھے۔ ایسی جگہیں جن کا عام قاری کسی دوسرے جنم میں بھی جانے کا تصور نہیں کر سکتا۔ لیکن خاص بات یہ کہ پڑھنے والا کبھی حسرت یا یاسیت محسوس نہیں کرتا اور نہ ہی ہوس۔ بس ایک سرخوشی کی کیفیت طاری ہوتی ہے اور جناب تارڑ کے لفظ صرف فطرتی مناظر کی بھرپور لفظ کشی تک ہی محدود نہیں بلکہ اُن کو پڑھتے ہوئے ہمیں دنیا کے ادب اور غیر ملکی لکھاریوں کے اسلوب سے بھی آگاہی ہوتی ہے۔

    یہ صرف جناب مستنصرحسین تارڑ کا کمال ہے کہ وہ اپنی زندگی کے ہر سرسری یا گہرے تجربے، ہر بامعنی یا بظاہر لایعنی احساس اور ہر چھوٹی سے چھوٹی لذت چاہے وہ نفسانی ہو یا روحانی میں قاری کو بلا کسی ہچکچاہٹ کے شریک کرتے ہیں بلکہ وہ ایک مدبر کی طرح اپنے علم اور مطالعے سے پڑھنے والے کی معلومات میں بھی اضافہ کرتے ہیں۔

    جناب مستنصرحسین تارڑ کی کتابوں اور تحاریر کی ہزار جہت اور اتنے زاویے ہیں کہ اُن کو مربوط کر کے ایک مکمل نقش تصویر کرنا ناممکن ہے، یعنی کوزے میں دریا بند نہیں کیا جاسکتا۔ آپ شاید بلکہ یقیناً دنیا کے وہ واحد لکھاری ہیں جن کی کسی ایک تصنیف کو اُن کی پہچان نہیں کہا جا سکتا۔ جناب تارڑ کی ستر سے زیادہ شائع ہونے والی کتابوں میں ہر کتاب خاص اور اپنی مثال آپ ہے۔ جناب تارڑ مسلسل لکھ رہے ہیں، بلا کسی رکاوٹ کے جو سوچتے ہیں لکھتے چلے جاتے ہیں، اور اسی طور پڑھنے والوں کے سپرد بھی کردیتے ہیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ پسندیدگی کے لحاظ سے جناب تارڑ کی کسی ایک کتاب کا نام لینا بہت مشکل ہے اور اس سے بھی مشکل ہے کہ اگر تحفہ دینے یا لینے کے لیے اُن کی کوئی بھی کتاب لینےکا اختیار دیا جائے۔

    حرفِ آخر! ”ہزار داستان“ کے عنوان سے اُن کے کالم اپنائیت اور محبت کی ایسی سرگوشیاں ہیں کہ بقول امجداسلام امجد ”تخلیے کی باتوں میں گفتگو اضافی ہے“۔ جیسے کوئی ہم سخن اپنے دل و در کے دروازے کھولے آنے والوں کو خوش آمدید کہے۔ اُن کے ساتھ مٹی کے فرش پر بیٹھ کر کھلے آسمان تلے دل کی باتیں کرے یا کسی خوبصورت قالین پر گاؤ تکیہ لگائے نیم دراز ہو اور سننے والے اس کی مست مست باتوں اور دل نشین لہجے پر فدا ہوتے ہوئے اپنی زندگی وہیں بتِا دیں۔ یہ کالم کوئی لیکچر یا کسی قسم کے فلسفے کا بیان نہیں بلکہ یہ بنا کسی تراش خراش یا جھجھک کے اپنے ذہن میں آنے والی خام سوچ کو دوسرے ذہنوں تک اُسی طور منتقل کرنے کی ایک کیفیت ہیں۔ ایک لمس کا رشتہ ہے جو زمینی اور جسمانی فاصلوں کو رد کرتا قربت کی انتہا کو چھو کر روح سرشار کر دیتا ہے اور جسم اس لطیف احساس کی خوشبو سے اپنے سب بوجھ اتار پھینکتا ہے۔ خیالِ یار میں محو رقص دنیا میں قدم جمانے کو ذرا سی جگہ تلاش کر لیتا ہے۔ اور یہی محبوب لکھاری کی کشش کا دائرہ ہے کہ جو ایک بار اس کے حصار میں آجائے وہ کہیں اور جانے کی خواہش کھو دیتا ہے۔

    حرف آخر! تارڑ صاحب کےساتھ لفظ کی ایک طویل رفاقت میں یہ جانا کہ ”سفر زندگی تو ہے لیکن زندگی صرف سفر ہی نہیں۔ زندگی کے اختتام سے پہلے ہمیں اپنے زمینی سفر کا پٹارا اپنے ہاتھوں سے بند کر کے ایک نئے سفر کے لیے خالی کر دینا چاہیے۔ ورنہ ساری کمائی لٹ جانے کا بھی اندیشہ رہتا ہے۔“ اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ جناب مستنصر حسین تارڑ صاحب کو ذہنی اور جسمانی صحت کی تازگی کے ساتھ زندگی کے ہر سفر پر اسی طرح مہکتا اور رنگ بکھیرتا رکھے۔ آمین